دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ المجَادلة

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

سورہ کا آغاز ایک خاتون کی تکرار کے واقعہ سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " اَلْمُجَادَلَۃ "(تکرار) ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور سورۂ احزاب کے بعد یعنی ۰۵ھ کے بعد نازل ہوئی۔

 

مرکزی مضمون

 

اہل ایمان کو ان کی ازدواجی زندگی سے متعلق درپیش مسئلہ میں قانونِ الٰہی کو واضح کرتے ہوئے نیز آدابِ مجلس سے متعلق ہدایات دیتے ہوئے مخلصانہ ایمان اور منافقت کے فرق کو واضح کیاگیا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۴ میں ظِہار(بیوی کو اپنی ماں کی پیٹھ کہہ کر اپنے اوپر حرام کرلینا) کے شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں۔

 

آیت ۵ اور ۶ میں اللہ کے شرعی احکام سے انکار کرنے والوں کو سخت سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔

 

آیت ۷ تا ۱۱ میں منافقوں کی ریشہ دوانیوں اور ان کی فتنہ انگیز سرگوشیوں کا ذکر کرتے ہوئے اہل ایمان کو مجلسی آداب کی تلقین کی گئی ہے۔

 

آیت ۱۲ اور ۱۳ میں رسول سے سرگوشی کے سلسلہ میں ایک خاص حکم دیاگیا ہے۔

 

آیت ۱۴ تا ۲۲ میں منافقوں پر گرفت کرتے ہوئے سچے مومنوں کی پہچان بتادی گئی ہے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے سن لی اس عورت کی بات جو(اے نبی!) تم سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑتی تھی اور اللہ کے سامنے شکوہ کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہاتھا۔ بلا شبہ اللہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر بیٹھتے ہیں ۲*۔(یعنی ان کو ماں کی پشت سے تشبیہہ دیتے ہیں) وہ ان کی مائیں نہیں ہیں ۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے۔ ۳* یہ لوگ ایک نہایت نا پسندیدہ اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ ۴* اور بلا شبہ اللہ معاف کرنے والااور بخشنے والا ہے۔۵*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی بیویوں سے ظِہار کر بیٹھیں پھر اپنی کہی ہوئی بات(یعنی جس کو انہوں نے حرام قرار دیا اس )کی طرف لوٹیں انہیں ایک گردن(غلام یا لونڈی) کو آزاد کرنا ہوگا قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ ۶* اس بات کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے۔ ۷* اور تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ با خبر ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔ اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دومہینے کے لگاتار روزے رکھے ۔ ۸* قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ۹* یہ اس لیے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو۔ ۱۰* یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ ۱۱* اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ۱۲*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں۔۱۳* وہ اسی طرح ذلیل ہوں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل ہوئے۔ ۱۴* ہم نے نہایت واضح آیتیں نازل کی ہیں اور کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا اور انہیں بتائے گا کہ انہوں نے کیا اعمال کئے تھے۔ اللہ نے سب کچھ شمار کر رکھا تھا اور یہ لوگ اس کو بھلا بیٹھے تھے۔ اللہ ہر چیز پر شاہدہے۔

 

۷) کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ جانتا ہے ہر چیز کو جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے۔۱۵* ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو اور نہ پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چھٹا اللہ نہ ہو ۔سرگوشی کرنے والے اس سے کم ہوں یا زیادہ وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جہاں کہیں بھی وہ ہوں۔ ۱۶* پھر قیامت کے دن وہ ان کو بتادے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ بلا شبہ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا نہیں جنہیں سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا پھر بھی وہ وہی کام کر رہے ہیں جن سے انہیں منع کیاگیا تھا۔ ۱۷* یہ لوگ گناہ" زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں خفیہ طور سے کرتے ہیں۔ ۱۸* اور جب(اے نبی!) تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں اس کلمہ سے سلام کرتے ہیں۔ جس سے اللہ نے تم پر سلام نہیں بھیجا۔۱۹* اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہماری ان باتوں پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا۔ ۲۰* ان کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ ۲۱* وہ اس میں پڑیں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والوں جب تم سرگوشی کرو تو گناہ" زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی باتیں نہ کرو بلکہ نیکی اور تقویٰ کی باتیں کرو۔ ۲۲* اور اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم سب اکٹھا کئے جاؤ گے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ یہ سرگوشیاں شیطان کی طرف سے ہیں تاکہ ایمان رکھنے والے رنجیدہ ہوں۔ ۲۳* حالانکہ اللہ کے اذن کے بغیر وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچاسکتیں اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ ۲۴*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ اپنی مجلسوں میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کرو اللہ تمہیں کشادگی بخشے گا۔ ۲۵* اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ ۲۶* اللہ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے درجے بلند فرمائے گا۔ ۲۷* اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! جب تمہیں رسول سے سرگوشی کرنا ہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ دو۔ ۲۸* یہ تمہارے لیے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے۔ ۲۹* لیکن اگر(صدقہ دینے کے لیے) کچھ نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ۳۰*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم ڈر گئے اس بات سے کہ اپنی سرگوشیوں سے پہلے صدقات دو۔ ۳۱* تو جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تم کو معاف کردیا۳۲* تو نماز اہتمام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ ۳۳* تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے ایسی قوم کو دوست بنایا ہے جس پر اللہ کا غضب ہوا۔ ۳۴* یہ لوگ نہ تم میں سے ہیں۔ اور نہ ان میں سے ۔۳۵* یہ جانتے بوجھتے جھوٹی بات پر قسم کھاتے ہیں۔ ۳۶*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ بہت بُرا ہے جو کچھ یہ کررہے ہیں۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے۳۷* اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ ۳۸* ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ ۳۹*

 

۱۷) نہ اِن کے مال ان کو اللہ کے عذاب سے بچاسکیں گے اور نہ ان کی اولاد۔ یہ دوزخ والے ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ ۴۰*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔ جس دن اللہ ان کو اٹھائے گا وہ اس کے سامنے بھی اسی طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں۔ ۴۱* اور خیال کریں گے کہ وہ کسی بنیاد پر ہیں۔ ۴۲* سن لو کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔ شیطان ان پر مسلط ہوگیا ہے۔ ۴۳* اور اس نے اللہ کی یادان سے بھلا دی۔ ۴۴* یہ لوگ شیطان کی پارٹی کے ہیں۔ ۴۵* سن لو کہ شیطان کی پارٹی ہی تباہ ہونے والی ہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل ہونے والوں میں ہوں گے۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ ۴۶* بلا شبہ اللہ قوت والا غلبہ والا ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ان کو تم کبھی ان لوگوں سے دوستی رکھتے ہوئے نہ دیکھو گے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ۴۷* خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے، یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان کے لوگ۔ ۴۸* یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے روح کے ذریعہ ان کی مدد کی ہے۔ ۴۹* وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ ۵۰* یہ لوگ اللہ کی جماعت(پارٹی) کے ہیں۔ ۵۱* سن رکھو کہ اللہ کی جماعت(پارٹی) والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔

تفسیر

۱ ۔۔۔۔۔۔۔اس آیت میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیاگیا ہے اس کی تفصیل روایتوں میں بیان ہوئی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ خولہ بنت ثعلبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنا یہ دکھڑا سنایا کہ ان کے شوہر اوس بن صامت نے ان کی جوانی سے تو فائدہ اٹھایا لیکن اب جبکہ وہ بوڑھی ہوگئی ہیں اور ان کے بچے بھی ہیں جذبات میں آکر کہہ دیا کہ تم میرے لیے ایسی ہو جیسے ماں کی پشت(یعنی تم مجھ پر حرام ہو۔) اب مجھے پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے خاص طور سے اپنے بچوں کی وجہ سے اس لیے میں اللہ کے حضور اپنی یہ شکایت پیش کرتی ہوں۔ انہوں نے اپنا یہ مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پر زور طریقہ پر پیش کیا اور یہ صراحت کرتی ہوئے کہ ان کے شوہر کی نیت طلاق دینے کی نہیں تھی اس بات پر اصرار کیا کہ ان کے شوہر کے لیے رجوع کی صورت نکالی جائے۔ آپ نے اس پر توقف کیا اور کچھ ہی دیر میں یہ سورہ نازل ہوئی جس کا آغاز ہی اس طرح ہوتاہے کہ اللہ نے اس خاتون کی فریاد سن لی جو تم سے اپنے شوہر کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ کے سامنے اپنی شکایت پیش کررہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔اور بعد کی آیتوں میں کفارہ کا حکم دے کر ملاپ کی اجازت دے دی گئی بشرطیکہ کفارہ پہلے ہی ادا کردیا جائے(ان روایتوں کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۷۳۱۹، ۳۲۰)

 

اس خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے مقدمہ کو جس انداز سے پیش کیا اس کو " مُجادلہ"(جھگڑنے) سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یہ جھگڑنا ایمان کے اخلاص کے ساتھ مصالحت کی غرض سے تھا اور اس میں اللہ سے فریاد کی گئی تھی اس لیے اللہ کی اس پر نظرِ عنایت ہوئی اور اس کی مشکل کو دور کرنے کے لیے وحی الٰہی کا نزول ہوا جس نے " ظہار" کے سلسلہ میں شرعی احکام واضح کر دیئے اور " ظہار" کر بیٹھنے والوں کے لیے خلاصی کی صورت نکالی۔

 

اور یہ جو فرمایا کہ "اللہ تمہاری گفتگو سن رہا تھا"تو اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے اور ان کی ایک ایک بات سنتا ہے اور ان کی فریاد کو پہنچتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی دستگیری کے لیے ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔ "ظہار" یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہہ دے کہ تو میرے لیے ماں کی ظَہر یعنی پشت جیسی ہے عربوں میں یہ رواج Custom چلا آرہا تھا کہ جو شخص یہ الفاظ کہہ دیتا اس کی بیوی اس پر تا عمر حرام ہوتی اور اسے وہ طلاقِ مغلظہ قرار دیتے۔

 

ظَہْر(پشت) کا لفظ سواری کے معنی میں ہے جسے وہ کنایہ کے طور پر استعمال کرتے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بیوی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ اس کی ماں تو وہی ہے جس نے اسے جنا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔ بیوی کو ماں قرار دینا سخت نا پسندیدہ بات بھی ہے اور جھوٹ بھی۔ نا پسندیدہ اس لیے کہ یہ ایک غیر معقول بات ہے اور عورت کی دل آزاری کا باعث بھی۔ اور جھوٹ اس لیے کہ یہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شخص بیوی کو اپنے اوپر حرام قرار دینے کے گناہ کا مرتکب ہوا وہ اللہ سے معافی اور مغفرت طلب کرے کہ اللہ معاف کرنے والا مغفرت فرمانے والا ہے۔

 

معافی اس گناہ کی جو سرزد ہو ا اور مغفرت یعنی بخشش عام گناہوں سے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔ یہ ظِہار(کا کفارہ ہے جو اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت میں بیان ہوا ہے۔ ظِہارکے بعد یہ کفارہ لازماً ادا کرنا ہوگا تاکہ اس گناہ کی تلافی ہوجائے جس کا وہ مرتکب ہوا ہے یعنی زوجیت کے تعلق سے ایک صریح جھوٹ کا۔

 

"اپنی کہی ہوئی بات کی طرف لوٹتے ہیں ۔"کا مطلب یہ ہے کہ پہلے انہوں نے اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام ٹھہرایا اس کے بعد وہ اس سے زوجیت کا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں لفظ ےَعُوْدُوْنَ(لوٹتے ہیں) لوٹنا چاہتے ہیں کے مفہوم میں ہے۔(معنی کی اس تحقیق کے لیے دیکھئے علامہ ابن قیم کی زاد المعاد ج ۴ ص ۸۴)

 

ظِہار کے بعد عورت کو معلق نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ شریعت نے اس سے منع کیا ہے نیز جو جھوٹی بات اس نے اپنی زبان سے نکالی اس پر قائم رہنا بھی جائز نہیں اس لیے لا محالہ اسے کفارہ ادا کرنا ہی ہوگا تاکہ وہ اپنی بیوی کو واقعی بیوی بناکر رکھ سکے۔

 

کفارہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ادا کرنا ہوگا ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے(تیما سّا) سے مراد مباشرت ہے اور لفظ " تیماسّا"  اس کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

 

کفارہ کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس نے ظِہارکیا ہووہ ایک گرن یعنی غلام یا لونڈی کو آماد کرے کہ اس کو آماد کرنا غلامی سے اس کی گردن چھڑانا ہے۔

 

دوسری دو صورتیں آگے کی آیت میں بیان ہوئی ہیں۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ان شرعی احکام پر عمل کرو احکام بیان کرتے ہوئے درمیان میں یہ ارشاد تاکید کے طور پر ہے کہ تمہاری اپنی بھلائی ان احکام پر نیک نیتی کے ساتھ عمل کرنے ہی میں ہے۔ ان کی خلاف ورزی کرنا یا ان کو کھیل بنالینا ہلاکت ہی کا موجب ہوسکتا ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر آزاد کرنے کے لیے غلام یا لونڈی میسر نہ آئے تو پھر لگاتار دو مہینے روزے رکھے۔

 

موجودہ زمانہ میں غلاموں کا وجود نہیں رہا اس لیے کفارہ ادا کرنے کی دوسری صورت یعنی دو مہینے کے مسلسل روزے اور تیسری صورت جو آگے بیان ہورہی ہے باقی رہ گئی ہے۔ مسلسل روزے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ روزوں کا سلسلہ بلا عذر ٹوٹنے نہ پائے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔ کفارہ ادا کرنے کی تیسری صورت یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔ قرآن نے اس کے لیے کوئی مقدار مقرر نہیں کی البتہ قسم کے کفارہ کے سلسلہ میں یہ صراحت کی ہے کہ :

 

مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیکُمْ(مائدہ:۸۹) " "اوسط درجہ کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔"

 

اس لیے آدمی جو کھانا اپنے گھر والوں کو کھلاتا ہے اس جیسا کھانا مسکینوں کو پیٹ بھر کھلاتا ہے تو حکم کا منشا پورا ہوجاتا ہے ، حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ غذائی اجناس میں سے کوئی چیز نصف صاع (ایک کلو ۸۸ گرام) فی مسکین کے حساب سے دی جاسکتی ہے۔

 

موجودہ زمانہ میں نقد کی ادائیگی کفارہ دینے والے کی سہولت کا باعث ہے اور مساکین بھی اسی کو پسند کرتے ہیں اس لیے اس مقدار کی قیمت بھی مسکین کو ادا کی جاسکتی ہے تاکہ وہ اپنی پسند کا کھانا کھاسکیں۔

 

ظِہارکے مسئلہ پربعض مفسرین نے دورازکار فقہی بحثیں بھی نقل کی ہیں۔ اس قسم کی بحثیں قرآن کا مطالعہ کرنے والے کے لیے ذہنی الجھن کا باعث بنتی ہیں۔ عمل کی اسپرٹ مجروح ہوجاتی ہے ۔فقہی جکڑ بندیوں میں اضافہ ہوتاہے اور ذہن و فکر کی صحیح تربیت نہیں ہو پاتی کیونکہ توجہ ان بنیادی باتوں کی طرف سے ہٹ جاتی ہے جو متعلقہ آیات میں بیان ہوئی ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ(رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کی ذہنی و عملی تربیت اس طرح کی تھی ہ وہ نہ دو راز کار فقہی بحثیں چھیڑتے تھے اور نہ فرصی سوالات کھڑے کردیتے تھے بلکہ جب کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو وہ اس کا حل تلاش کرتے اس میں بڑی سلامتی تھی لیکن بعد کے لوگوں میں فقہی ذہن پرورش پایا اور وہ مسائل کو کریدنے لگے۔ اس موقع پر بنی اسرائیل کے گائے کو ذبح کرنے کا وہ واقعہ بھی سامنے رکھنا چاہیے جو سورۂ بقرہ میں بیان ہوا ہے کہ جب ان کو ایک گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو بجائے اس کے کہ اس مجمل حکم کی تعمیل کرتے انہو ں نے طرح طرح کے سوالات کر کے مثلاً یہ کہ اس کا رنگ کیسا ہو اور اس کی عمر کتنی ہو اس کام کو اپنے لیے مشکل بنادیا۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ دین میں سختیاں پیدا کرتے ہیں ان کو سختیوں میں مبتلا کیا جاتا ہے۔

 

اس آیت کے ذیل میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن نے ظِہارکوطلاق نہیں قرار دیا بلکہ اسے منکر اور جھوٹ قرار دیا جبکہ جاہلیت میں ظِہارکوطلاقِ مغلظہ سمجھا جاتا تھا۔ معلوم ہوا کہ جس طریقہ کو شریعت کی سند حاصل نہیں ہے اس کا اعتبار نہیں۔ یہ نظیر ہے اس بات کی کہ اکٹھی تین طلاقیں بھی تین طلاقوں کے حکم میں نہیں ہیں کیونکہ طلاق کے اس طریقہ کو شریعت کی سند حاصل نہیں ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ احکام جاہلیت کی تاریکیوں کو دور کر کے ہدایت کی راہ روشن کررہے ہیں۔ ہدایت کی یہ راہ اللہ اپنے رسول کے ذریعہ روشن کررہا ہے۔ اس روشنی میں چلنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور یقین رکھو۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں سے مراد شرعی احکام و قوانین ہیں جن کی حفاظت اور پابندی ایمان کا تقاضا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جاہلیت کے رواج یا خود ساختہ قوانین کو ترجیح دینا ایمان کے بالکل منافی ہے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔ اخیر میں یہ تنبیہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے احکام و قوانین کو ماننے سے انکار کریں گے ان کے لیے دردناک سزا ہے اور اسی مناسبت سے آگے کی آیتوں میں کافروں اور منافقوں کا کردار اور ان کا انجام بیان ہوا ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔ آج مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شرعی قوانین کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ان کی یہ حرکتیں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کے ہم معنی ہیں۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ گذری ہوئی قومیں ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی تھی۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے علم کا ہمہ گیر ہونا ایک واضح حقیقت ہے جس کو ہر شخص فطرۃً جانتا ہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سرگوشی کرنے والے خواہ تین ہوں یا زیادہ یا اس سے کم اللہ اپنے علم ، اپنی سماعت و بصارت اور اپنی قدرت کے لحاظ سے وہاں موجود ہوتا ہے اس لیے پوشیدگی میں کی ہوئی باتیں اس سے مخفی نہیں رہ سکتیں۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔ "نجویٰ" کے معنی سرگوشی کرنے اور کسی مجلس میں چند آدمیوں کے آپس میں کانا پھوسی کرنے کے ہیں تاکہ دوسروں کو خبر نہ ہو۔ یہ کام اسی صورت میں روا ہوسکتا ہے جبکہ وہ کسی مقصدِ خیر مثلاً دفعِ شر" لوگوں کے درمیان مصالحت کرانے وغیرہ کے لیے ہو ورنہ یہ طریقہ نا پسندیدہ ہے کیونکہ سرگوشاں بالعموم غلط مقاصد کے لیے ہوتی ہیں مثلاً کسی کو ہدف ملامت بنانے یا کسی کے خلاف سازش کرنے وغیرہ کے لیے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہے:

 

لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مّنْ نَّجْوَاہُمْ اِلاَّ مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلاَحٍ بَّیْنَ النَّاسِ۔ "ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں جو شخص پوشیدگی میں صدقہ یا بھلی بات یا لوگوں کے درمیان صلح صفائی کی بات کرے تو اس میں ضرور بھلائی ہے۔"(نساء:۱۴)

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔ مراد منافقین ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک ہوجاتے اور پھر آپس ہی میں سرگوشیاں کرنے لگتے ۔ ان کی یہ سرگوشیاں دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنے" اہل ایمان کے خلاف سازشیں کرنے اور رسول کی نافرمانی پر اکسانے کے لیے ہوتی تھیں۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔ سورۂ احزاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت اور سلام بھیجنے کا حکم دیاگیا ہے:

 

یَا اَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُْا تَسْلِیْمًا۔ "اے ایمان والو تم بھی نبی پر درود اور سلام بھیجو۔"(احزاب:۵۶)

 

اس سلام کے لیے اسلام علیک اور السلام علیکم کے الفاظ مشروع ہوئے ہیں۔ لیکن یہود اور ان کے آلۂ کار منافقین سلام کا تلفظ ایسا کرتے کہ وہ سام ہوجاتا جس کے معنی ہیں موت چنانچہ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ:

 

"یہود کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیے آئی۔ انہوں نے کہا السّامُ علیکم یعنی تم پر موت ہو۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں میں سمجھ گئی اور جواب میں کہا وعلیکم السّام واللعنۃ تم پر موت اور لعنت ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا جانے دو عائشہ! اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند فرماتا ہے ۔ میں نے عرص کیا اے اللہ کے رسول! آپ نے سنا نہیں انہوں نے کیا کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے کہہ دیا تھا وعلیکم"تم پر ہو"(یعنی ایسے موقع پر جواب میں وعلیکم "تم پر ہو" کہہ دینا کافی ہے)(بخاری کتاب الادب)

 

ان کی اسی حرکت پر اس آیت میں گرفت کی گئی ہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر واقعی یہ شخص پیغمبر ہے تو ہماری اس بددعا پر ہم پر عذاب کیوں نہیں آجاتا۔ یہ ان کا زبردست مغالطہ تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ مجرموں کو مہلت دیتا ہے اور عذاب وقت ہی پر آتا ہے۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی ان حرکتوں پر دنیا میں عذاب آئے یا نہ آئے۔ اصل عذاب تو جہنم کا ہے جو لازماً انہیں بھگتنا ہوگا اور وہ بہت کافی ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سرگوشیاں لوگوں کی بھلائی اور دینی مصالح کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ شر و فساد اور گناہ کے کاموں کے لیے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ سرگوشیاں جو بری اغراض کے لیے کی جارہی ہیں شیطان کی وسوسہ اندازی اور اکساہٹ کا نتیجہ ہے۔ اہل ایمان جب منافقوں کو سرگوشیاں کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو انہیں دکھ ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لیے کیسی حرکتیں کررہے ہیں۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل ایمان مطمئن رہیں کہ یہ شر انگیز سرگوشیاں ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ انہیں اسی صورت میں کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے جب کہ اللہ کی مشیت ہو۔ یہ توکل ہی ہے جو حوصلہ مند بناتا ہے۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔ مجلسِ نبوی میں لوگوں کی آمد بہ کثرت ہوجاتی اور جگہ کافی نہ ہوتی اس لیے حکم دیا گیا کہ مجلس میں اس طرح بیٹھیں کہ بعد میں آنے والوں کے لیے گنجائش نکل آئے۔ اور اس کی یہ جزا بھی بیان کی گئی کہ کشادگی پیدا کرنے والوں کو اللہ کشادگی بخشے گا۔ اللہ کی طرف سے کشادگی میں خیر میں اضافہ بھی شامل ہے اور جنت کے وسیع باغ بھی۔

 

کشادگی پیدا کرنا آداب مجلس میں سے ہے اس لیے اس حکم کو مجلس نبوی کے لیے خاص نہیں رکھا گیا بلکہ عمومیت کے ساتھ مسلمانوں کی تمام مجلسوں کے لیے یہ حکم دیاگیا خواہ وہ دینی اجتماعات ہوں یا مشاورتی نشستیں ہوں یا دوسرے مفید کاموں کے لیے مجلسیں۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب نشست برخاست کرنے کا اعلان کردیا جائے تو اٹھ جایا کرو نیز اگر صدر مجلس نشستوں میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کرے تو انہیں نظم کا پابند ہوجانا چاہیے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ کوئی شخص اپنے علم و فضل کے لحاظ سے خواہ کتنے ہی اونچے مرتبہ کا کیوں نہ ہو مجلس کے نظم کی بہر حال اسے پابندی کرنا چاہیے۔ مجلس میں نشست خواہ کسی گوشہ میں مل جائے یا صدر مجلس کی ہدایت پر اسے اٹھ کر جانا پڑے تو اسے وہ اپنی کسرِ شان نہ سمجھے۔ اس تواضع ہی میں درجات کی بلندی ہے حدیث میں ارشاد ہوا ہے:

 

مَاتَواضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلاَّ رَفَعَہُ اللّٰہُ "جو بندہ اللہ کے لیے تواضع(خاکساری) اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔"(مسلم کتاب البر)

 

حضرت مسیح علیہ السلام نے ان لوگوں پر سخت گرفت کی ہے جو کرسی کے حریص ہوتے ہیں۔ مرقس کی انجیل میں ہے:

 

"پھر اس نے اپنی تعلیم میں کہا کہ فقیہوں سے خبردار ہو جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنا اور بازاروں میں سلام اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجہ کی کرسیاں اور ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں۔ اور وہ بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہیں اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہیں۔ ان ہی کو زیادہ سزا ملے گی۔"(مرقس۱۲:۱۳ تا ۴۰)

 

اور موجودہ زمانہ میں لیڈر کرسی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور علما کا بھی عام طور سے حال یہ ہے کہ وہ مجلسوں میں اونچا مقام چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بے وقعت ہورہے ہیں مگر انہیں اس کا احساس نہیں۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔ صدقہ کا یہ حکم اس لیے دیاگیا تاکہ جو لوگ تنہائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنا چاہیں انہیں یہ احساس ہو کہ وہ ایک عظیم شخصیت سے بات کررہے ہیں۔ یہ احساس انہیں غلط بیانی سے بھی باز رکھے گا اور غیر ضروری اور وقت ضائع کرنے والی گفتگو سے بھی۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔ بہتر اس لحاظ سے کہ تمہیں اس کا اجر ملے گا اور زیادہ پاکیزہ اس لحاظ سے کہ رسول کی خدمت میں تم پاکیزہ جذبات لے کر آؤ گے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر بر وقت صدقہ دینے کے لیے تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو بغیر صدقہ دےئے رسول سے تنہائی میں گفتگو کرسکتے ہو اس امید پر کہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

یہ رخصت صرف ناداروں کے لیے نہیں تھی کیونکہ اگر ناداروں ہی کے لیے ہوتی تو الفاظ " فمن لم یجد"(جو شخص صدقہ کے لیے کچھ نہ پائے ) ہوتے مگر آیت میں عمومیت کے ساتھ فرمایاگیا کہ فان لم تجدوا (لیکن اگر تم صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ) جس کا بظاہر مفہوم یہی ہے کہ جس شخص کو بھی بروقت صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ ملے اس کو اللہ معاف کرنے والا ہے۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ صدقہ کے مذکورہ بالا حکم میں کافی لچک رکھی گئی تھی پھر بھی اس ہدایت پر عمل کرنے میں صحابہ نے دشواری محسوس کی بروقت صدقہ کا اہتمام کرنا مشکل ہے اور بغیر صدقہ دےئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں گفتگو کرنا مناسب نہیں۔ ان کے اسی احساس کو ڈرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ورنہ یہ بات بخل کی بنا پر نہیں تھی۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے صدقہ دینے کی مذکورہ بالا ہدایت کو تمہارے لیے مزید نرم کردیا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں تم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں بات کرنے سے پہلے صدقہ دینا خیر اور اطہر(بہتر اور زیادہ پاکیزہ طریقہ) ضرور ہے لیکن اس کی پابندی لازم نہیں۔

 

مفسرین نے یہاں ناسخ اور منسوخ کی بحث چھیڑدی ہے ۔ وہ پہلی آیت کو جس میں سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم دیاگیا ہے اس دوسری آیت سے جس میں معاف کرنے کی صراحت ہے۔ منسوخ مانتے ہیں حالانکہ دوسری آیت میں پہلی آیت کے منسوخ کئے جانے کی کوئی صراحت نہیں ہے اور نہ قرآن کی کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے۔ دراصل دوسری آیت نے پہلے حکم میں تخفیف کردی ہے نہ کہ اسے منسوخ کردیا۔ منسوخ اس صورت میں کیا جاسکتا تھا جب کہ دوسرا حکم سرگوشی سے پہلے صدقہ دینے کو ممنوع قرار دیتا مگر اس دوسری آیت نے اسے ممنوع نہیں قرار دیا بلکہ تخفیف کردی۔ اور تخفیف کا یہ حکم اس وقت نازل ہوا جبکہ پہلے حکم کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں راز دارانہ بات چیت کی غیر معمولی اہمیت اچھی طرح واضح ہوچکی تھی اور اس کا احساس بھی صحابہ کو ہوگیا تھا۔ رہی وہ روایت جس میں بیان ہوا ہے کہ دوسرا حکم پہلے حکم کے چند گھنٹوں بعد نازل ہوا تو یہ روایت ناقابل اعتبار ہے۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس تخفیف(آسانی) کے بعد تمہیں اپنے مستقل فرائض کی بحسن خوبی پابندی کرنا چاہیے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سرگرم ہونا چاہیے کہ یہی چیزیں ایمان میں اخلاص پیدا کرتی ہیں۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کا غضب یہود پر ہوا۔ اس قوم کو منافقوں نے اپنا دوست بنالیا تھا۔ وہ مومنوں کے مقابلہ میں یہود کے مفاد کو ترجیح دیتے تھے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ منافقین نہ اپنے ایمان میں مخلص ہیں کہ مومنوں کے گروہ میں سے ہوں اور نہ یہود ہی کے اصلاً وفادار ہیں کہ ان میں سے ہوں بلکہ وہ غرض کے بندے ہیں اس لیے ان سے بھی تعلق رکھے ہوئے ہیں اور تم سے بھی۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جھوٹی قسمیں کھاکر اپنے مسلمانوں ہونے کا دعویٰ کرتیہیں اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا یقین دلاتے ہیں۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بات بات پر جھوٹی قسمیں کھاکر اپنا بچاؤ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی حرکتیں اور ایسی سازشیں کرتے ہیں جو اسلام کی راہ کو روکنے والی ہیں۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔ اوپر فرمایا تھا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور یہاں فرمایا ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ سخت عذاب منافقت کی بنا پر اور ذلت کا عذاب ان کی ان ذلیل حرکتوں کی بنا پر جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کرتے رہے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔ منافق بھی جہنم میں اسی طرح ہمیشہ عذاب بھگتتیر ہیں گے جس طرح کہ کھلے کافر۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن بھی وہ اپنے کو بے قصور قرار دینے کے لیے جھوٹی قسمیں کھائیں گے۔ سورۂ انعام میں ہے کہ وہ شرک سے اپنی بے تعلقی کا اظہار قسم کھاکر کریں گے:

 

وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَاکُنَّا مُشْرِکِیْنَ "اللہ ہمارے رب کی قسم ہر مشرک نہیں تھے۔"(انعام: ۲۳)

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ خیال کریں گے کہ جھوٹی قسمیں کھاکر وہ اپنے کو مومن ثابت کرسکیں گے اور ان کی نجات ہوسکے گی۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔ شیطان صرف وسوسہ اندازی کرتاہے لیکن جب انسان اس سے متاثر ہو کر اپنی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو وہ اس پر قابو پالیتا ہے اور اسے گمراہ کر کے چھوڑتا ہے۔ یہی ہے شیطان کا مسلط ہونا۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔ شیطان کسی کو گمراہ کرنے کے لیے جو بنیادی کام کرتا ہے وہ ہے دل سے اللہ کی یاد بھلا دینا اور اس کی طرف سے توجہ ہٹادینا۔اس غفلت میں مبتلا ہوجانے کے بعد کسی بھی برائی کو قبول کرنا انسان کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ منافقین شیطان کے ساتھی ہیں اور اس کے اشارہ پر کام کرنے والے ہیں۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اٹھ کھڑے ہو ں گے ان کو لازماً مغلوب ہونا پڑے گا۔ یا تو آسمانی عذاب کے ذریعہ ان کا خاتمہ کردیا جائے گا یا میدانِ جہاد میں رسول اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ ان کو بری طرح شکست دی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے ساتھ یہ دوسری صورت ہی پیش آئی۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مومن نوٹ ۷۵۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی سچا مومن اللہ کے دشمن کو اپنا دوست نہیں بناتا۔ایک ہی دل میں اللہ کی محبت و وفاداری اور اس کے دشمن سے محبت و وفاداری جمع نہیں ہوسکتی۔

 

موجودہ زمانہ میں سیکولرزم کے زیر اثر کتنے ہی مسلمانوں نے منافقت کی راہ اختیار کرلی ہے مگر سیکولرزم کا خوبصورت نعرہ حقیقت کو بدل نہیں سکتا۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔ آت کا منشا یہ ہے کہ کفر اور اسلام کی جنگ میں اہل ایمان کو کافروں سے بے دریغ لڑنا چاہیے۔ خواہ ان کی زد میں ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ آجائیں۔ وہ جب اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر اتر آئے ہیں اور اس کے دین کے خلاف محاذ آرائی کررہے ہیں تو ان کی محبت اہل ایمان کے دلوں میں کہاں جگہ پاسکتی ہے اور وہ ان سے کس طرح دوستی اور موالات کے تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن کو اپنا دشمن سمجھا جائے خواہ وہ کوئی ہو۔ صحابہ کرام نے اس کی نہایت اعلیٰ مثال قائم کی چنانچہ جنگِ بدر میں انہوں نے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو قتل کرنے میں تامل نہیں کیا جب کہ انہوں نے اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے خلاف محاذ آرائی کی۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے سچی وفاداری کا رویہ اختیار کیا تو نہایت نازک مواقع پر ان کو تائید غیبی حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر ایسی اسپرٹ پیدا کی کہ کسی کو خاطر میں لائے بغیر اللہ اللہ کے دشمنوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوگئے جہاد کی اس اسپرٹ کو " روحٍ مِنْہُ"(اپنی طرف سے روح) سے تعبیر کیاگیا ہے۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔ جن سے اللہ راضی ہوا انہوں نے سب کچھ پایا۔ ان کے لیے کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی۔ جنت اللہ کی رضا ہی کا مظہر ہے۔ اور وہ اللہ سے راضی ہوئے کہ اس نے ان کو جنت کی راہ دکھائی۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔ آیت ۱۹میں شیطان کی پارٹی کا ذکر تھا یہاں اس کے بالمقابل اللہ کی پارٹی کا ذکر ہواہے ۔ جو بامراد ہونے والی ہے۔

 

٭٭٭٭٭