تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الحَشر

(سورۃ الحشر ۔ سورہ نمبر ۵۹ ۔ تعداد آیات ۲۴)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اللہ ہی کی تسبیح کی (اور تسبیح کرتا ہے ) وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ جو کہ زمین میں ہے اور وہی ہے سب پر غالب بڑا ہی حکمت والا

۲۔۔۔     وہ وہی ہے جس نے نکال باہر کیا اہل کتاب کے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر میں(ورنہ ظاہری حالات کے اعتبار سے ) تمہں یہ گمان بھی نہ تھا کہ کبھی یہ لوگ اپنے گھروں سے نکل جائیں گے اور خود انہوں نے بھی یہ سمجھ رکھا تھا کہ ان کے (یہ مضبوط) قلعے ان کو بچا لیں گے اللہ سے مگر اللہ (کا عذاب) ان پر وہاں سے آیا جہاں سے ان کو گماں بھی نہ تھا اور اس نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ یہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی ویران کر رہے تھے اور اہل ایمان کے ہاتھوں سے بھی (ان کو ویران کروا رہے تھے ) پس تم عبرت پکڑو اے دیدہ بینا رکھنے والو!

۳۔۔۔     اور اگر اللہ نے ان کے حق میں جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی تو وہ ان کو دنیا ہی میں عذاب دے ڈالتا اور آخرت میں تو ان کے لئے دوزخ کا عذاب مقرر ہے ہی

۴۔۔۔     یہ سب کچھ اس لئے کہ ان لوگوں نے مقابلہ کیا اللہ کا اور اس کے رسول کا اور جو کوئی اللہ کا مقابلہ کرتا ہے تو (وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہتا ہے کیونکہ) بے شک اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے

۵۔۔۔     جو بھی کوئی درخت کھجور کا تم لوگوں نے کاٹا (اے مسلمانو!) یا اسے باقی رہنے دیا اپنی جڑوں پر تو یہ سب کچھ اللہ ہی کے حکم سے تھا اور (اللہ نے یہ حکم اس لئے دیا کہ) تاکہ وہ رسوا کرے ان بدکاروں کو

۶۔۔۔     اور جو بھی کچھ مال لوٹایا ہے اللہ نے اپنے رسول پر ان لوگوں کے قبضے سے نکال کر تو اس پر تم لوگوں نے (اے مسلمانو!) نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ بلکہ اللہ (اپنی شان قدرت و عنایت سے ) اپنے رسولوں کو جس پر چاہے تسلط(اور غلبہ) عطا فرما دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

۷۔۔۔     جو بھی کچھ اللہ نے ان بستیوں کے لوگوں سے لوٹا دیا اپنے رسول کی طرف تو وہ حق ہے اللہ کا، اس کے رسول کا اور رشتہ داروں یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا تاکہ وہ (مال) تمہارے مال دار لوگوں کے درمیان ہی گردش کرتا نہ رہ جائے اور جو بھی کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں اسے لے لیا کرو اور جس سے وہ تمہیں روکیں اس سے رک جایا کرو اور (ہمیشہ) ڈرتے رہا کرو اللہ سے بے شک اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے

۸۔۔۔     یعنی (یہ اموال دراصل حق ہیں ) ان (لٹے پٹے ) ضرورت مند مہاجرین کا جن کو (ناحق طور پر) نکال باہر کیا گیا ان کے گھروں اور ان کے مالوں سے وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں اور وہ مدد کرتے ہیں اللہ (کے دین) کی اور اس کے رسول کی یہی لوگ ہیں راست باز

۹۔۔۔     نیز (یہ مال حق ہے ) ان لوگوں کا جنہوں نے قرار پکڑ لیا ان سے پہلے (ہجرت اور امن و سلامتی کے ) اس گھر میں اور وہ پختہ کار ہو گئے اپنے ایمان (و یقین) میں وہ محبت کرتے ہیں ان سے جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں اور یہ اپنے دلوں میں کوئی خلش (اور تنگی) نہیں پاتے اس سے جو کچھ کہ ان کو دیا جائے اور (اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ) وہ ان کو اپنی جانوں پر بھی ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ان کو سخت محتاجی ہو اور حقیقت یہ ہے جو کوئی اپنے نفس کی تنگی سے بچا لیا گیا تو (وہ کامیاب ہو گیا کہ) ایسے ہی لوگ کامیابی پانے والے ہوتے ہیں

۱۰۔۔۔     نیز (یہ مال) ان لوگوں کا (حق ہے ) جوان سب کے بعد آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمیں بھی اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کسی قسم کا کوئی کھوٹ نہ رکھ اے ہمارے رب بلاشبہ تو بڑا ہی شفیق انتہائی مہربان ہے

۱۱۔۔۔     یا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے منافقت کو اپنا رکھا ہے کہ وہ (کس ڈھٹائی سے ) اہل کتاب کے اپنے کافر بھائیوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں نکالا گیا تو ہم بھی ضرور تمہارے ساتھ نکل پڑیں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی کسی کی بھی بات نہیں مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم ضرور بالضرور (اور ہر قیمت پر) تمہاری مدد کریں گے مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی طور پر جھوٹے ہیں

۱۲۔۔۔     اددسع (چنانچہ) اگر ان کو نکالا گیا تو یہ کبھی ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر ان سے لڑائی ہوئی تو یہ ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے اور اگر (بالفرض) انہوں نے ان کی مدد کی بھی تو یہ یقیناً پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلیں گے پھر کہیں سے خود ان کی کبھی کوئی مدد نہ ہو گی

۱۳۔۔۔     بے شک ان لوگوں کے دلوں میں تمہارا خوف (اے ایمان والو!) اللہ (کے خوف) سے بھی بڑھ کر ہے یہ اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں

۱۴۔۔۔     یہ کبھی اکٹھے ہو کر (کھلے میدان میں ) تم سے نہیں لڑیں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کی آڑ میں ان کی لڑائی آپس میں بڑی سخت ہے تم ان کو اکٹھا سمجھتے ہو مگر (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دل آپس میں پھٹے ہوئے ہیں یہ اس لئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے

۱۵۔۔۔     ان کا حال تو انہی لوگوں جیسا ہے جو ان سے کچھ ہی پہلے اپنے کئے کا مزہ چکھ چکے ہیں اور (آخرت میں تو) ان کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے

۱۶۔۔۔     ان کی مثال تو شیطان کی سی ہے کہ وہ پہلے تو انسان سے کہتا ہے کہ تو کفر کر مگر جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے تو یہ اس سے کہتا ہے کہ میرا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں میں تو بہر حال اللہ سے ڈرتا ہوں جو کہ پروردگار ہے سارے جہانوں کا

۱۷۔۔۔     پھر ان دونوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ دونوں دوزخ میں ہوں گے جہاں انہیں ہمیشہ رہنا ہو گا اور یہی جزا ہے ایسے ظالموں کی

۱۸۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ڈرو تم اللہ سے اور ہر شخص کو چاہیے کہ وہ خود دیکھ لے کہ اس نے کیا سامان کیا ہے آنے والے کل کے لئے اور ڈرتے رہا کرو تم (ہر حال میں اپنے ) اللہ سے بے شک اللہ پوری طرح باخبر ہے ان تمام کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۱۹۔۔۔     اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے بھلا دیا اللہ کو تو اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کو خود اپنی جانوں سے غافل کر دیا ایسے ہی لوگ ہیں فاسق (و بدکار)

۲۰۔۔۔     باہم یکساں (و برابر) نہیں ہو سکتے دوزخ والے اور جنت والے ، جنت والے ہی حقیقت میں کامیاب (اور فائز المرام) ہیں

۲۱۔۔۔     اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو تم اسے دیکھتے کہ وہ بھی دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑ رہا ہے اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کے لئے تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں

۲۲۔۔۔     وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو (ایک برابر) جاننے والا ہے نہاں و عیاں کو وہی ہے بڑا مہربان نہایت رحم فرمانے والا

۲۳۔۔۔     وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بادشاہِ حقیقی ہے نہایت پاک سراسر سلامتی امن دینے والا نگہبان سب پر غالب ہر خرابی کو درست کرنے والا بڑی ہی عظمت والا اللہ پاک ہے ان تمام چیزوں سے جن کو یہ لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں

۲۴۔۔۔     وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا وجود بخشنے والا صورت گری کرنے والا اسی کے لئے ہیں سب اچھے نام اسی کی پاکی بیان کرتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی ہے سب پر غالب انتہائی حکمت والا

تفسیر

 

۲۔۔۔     ۱:اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ سے یہاں پر مراد یہود بنو نضیر ہیں جو مدینہ منورہ کے قریب ہی آباد تھے ان لوگوں نے اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صلح و امن کا معاہدہ کر رکھا تھا، لیکن یہ لوگ طرح طرح سے اس کی خلاف ورزی اور عہد شکنی کا ارتکاب بھی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بدر کے چھٹے مہینے میں انہوں نے اس معاہدے کے خلاف اسلام کے دشمنوں سے ساز باز بھی کی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قتل کی ایک ناکام سازش کا بھی ارتکاب کیا، جس کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مدینے سے نکل جانے کا حکم دیا، جس پر پہلے تو یہ اس حکم کی تعمیل کے لئے تیار ہو گئے، لیکن بعد میں منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی نے ان کی پیٹھ ٹھونکی کہ تم نہ نکلو، میرے دو ہزار آدمی تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں، نیز غطفان اور قریش بھی تمہاری مدد کریں گے۔ اس لئے تم لوگ یہاں سے نکلنے کے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دو، سو وہ لوگ رئیس المنافقین کی ان باتوں میں آ گئے اور نکلنے سے انکار کر دیا۔ تو آخرکار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر فوج کشی کر لی، اس وقت نہ بنو قریظہ نے ان کی مدد کی اور نہ غطفان و قریش نے جس پر ان کو چار وناچار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی، آپ نے از راہ عنایت ان کو یہ اجازت دے دی کہ جتنا سامان تم لوگ اپنے اونٹوں پر لے جا سکتے ہو لے جاؤ۔ تب انہوں نے اپنے گھروں کی کھڑکیاں دروازے وغیرہ بھی اکھاڑ اکھاڑ کر اپنے اونٹوں پر لادنا شروع کئے۔ اور اپنا وہ سامان لے کر یہ لوگ خیبر اور اذرعات چلے گئے۔ اور ان کی باقی املاک و جائیداد پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے قبضہ فرما لیا لِاَوِّلِ الْحَشْرِ کے الفاظ سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ان کا یہ اخراج پہلے حشر کے طور پر ہوا۔ جس کے اندر یہ تنبیہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس کے بعد ان کو اسی طرح کے اور حشر سے بھی دوچار ہونا پڑے گا، چنانچہ حضرت عمر کے دور میں ان کو وہاں سے بھی نکلنا پڑا، اور پھر تیسرا آخری اور سب سے بڑا حشر ان کا قیامت کے روز ہو گا۔ جو آگے آنے والا ہے جس سے کسی کے لئے بھی کوئی مفر اور گریز و فرار ممکن نہیں ہو گا۔

۲:  اس سے ان لوگوں کے خوف و  مرعوبیت اور ان کے حرص و آز کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے، کہ یہ لوگ اپنے انہی مکانوں کو جو انہوں نے خدا جانے کتنے ارمانوں کے ساتھ بنائے تھے، ان کو اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے اور اس میں مسلمان بھی ان کی مدد کر رہے تھے تاکہ یہ مفسدین جس قدر جلد ممکن ہو سکے ان کے قریب سے دفع ہو جائیں اور جیسا کہ اوپر کے حاشیے میں عرض کیا گیا ان کو اجازت دی گئی تھی کہ جتنا سامان یہ اپنے ساتھ اپنے اونٹوں پر لے جا سکتے ہیں لے جائیں۔ تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ اپنے مکانوں کی کھڑکیوں دروازوں اور ان کے شہتیروں کو بھی اکھاڑ اکھاڑ کر اپنے اونٹوں پر لادے جا رہے تھے جو ان کے حرص مال اور ان کی مسلمان دشمنی کا بھی مظہر تھا۔ اس لئے انہوں نے یہ کوشش بھی کی ہو گی کہ جو کچھ بچ جائے اس کو اس طرح ناکارہ کر دیا جائے کہ مسلمان اس سے کسی طرح کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ سو انہی امور کی بناء پر اس سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان لوگوں کو جو اس کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو۔ پس تم دیکھ لو کہ کس طرح قرآن کی ہر بات سچی اور درست ثابت ہوئی۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور ان سے مقابلے کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کو کس قدر ذلت و خواری اور ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اللہ کی جماعت کے مقابلے میں شیطان کی جماعت کو کس طرح شکست کھانا پڑی۔ پس صحت وسلامتی کی راہ یہی اور صرف یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف محاذ آرائی کے بجائے پورے صدق و اخلاص سے انکی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے و باللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی مایحب و یرید،

۷۔۔۔     ۱:اس سے اسلامی اقتصادیات کے ایک اہم اور بنیا دی ضابطہ و اصول کی تعلیم دی گئی ہے وہ یہ کہ اسلام یہ نہیں چاہتا اور اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ دولت کسی خاص طبقے کے اندر مرتکز ہو کر رہ جائے اور انہی کے درمیان گھومتی اور گردش کرتی رہ جائے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے مال و دولت کی حیثیت انسانی معاشرے کے اندر وہی ہے جو انسانی جسم کے اندر خون کی ہے، اسی لئے دوسرے مقام پر اس کو لوگوں کے لئے قیام اور بقاء کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر۵ میں ارشاد فرمایا گیا اَلَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا، یعنی تم لوگ اپنے وہ مال کم عقل اور بیوقوف لوگوں کو نہ دیا کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قیام اور بقاء کا ذریعہ بنایا ہے، اور یہی حیثیت انسانی جسم کے لئے خون کی ہے، پس جس طرح انسان کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ خون کسی خاص حصے میں اکٹھا نہ ہو جائے۔ بلکہ صحیح تناسب کے ساتھ وہ پورے جسم کے اندر باقاعدہ گردش کرتا رہے اسی طرح مال کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے سب طبقوں کے اندر صحیح تناسب کے ساتھ گردش کرتا رہے اور اس کا بھاؤ ان طبقات کی طرف بھی ہو، جو اپنی خلقی کمزوریوں یا فقدان وسائل، یا کچھ دوسرے اسباب و عوارض کی بناء پر اس کے حصول کی جدوجہد میں پورا حصہ نہ لے سکتے ہوں، اسی لئے اسلام سود، جوئے، اور احتکار وغیرہ کے ان تمام ذرائع کو ممنوع اور حرام قرار دیتا ہے جو دولت کو چند ہاتھوں کے اندر مرتکز کر دینے والے ہیں اور اس کے برعکس وہ نادار اور محروم الوسائل لوگوں پر خرچ کرنے کے لئے طرح طرح سے ترغیب دیتا ہے اور ان کے اس آزادانہ و رضا کارانہ انفاق کو ان کی روحانی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ قرار دیتا ہے اور قانون کے ذریعے بھی اس نے ہر صاحب مال کے مال کے اندر غریبوں اور محتاجوں کا ایک مقرر و مخصوص حق رکھا ہے جو غریبوں کے حق کے طور پر الگ کر کے حکومت کی تحویل میں دیا جاتا ہے۔

۲:  اس ارشاد سے ایک اور اہم اور بنیا دی اصول کی تعلیم دی گئی ہے کہ جو کچھ اللہ کے رسول تم کو دیں تم اسے لیا کرو اور جس سے وہ تمہیں روکیں اس سے تم رک جایا کرو۔ اور یہ اس لئے کہ رسول کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ اس ہا دی کی ہوتی ہے جس کی اطاعت واجب ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلِ اِلاَّ لِیُطْاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ الایۃ(النساء:۶۴) یعنی ہم نے جو بھی رسول بھیجا اسی لئے بھیجا کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اذن سے نیز اس لئے کہ رسول کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ الایۃ(النساء:٨٠) یعنی جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، پس رسول کی اطاعت و فرمانبرداری لازم ہے کہ وہ دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے پس رسول کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہو گی۔ والعیاذ باللہ العظیم، اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ رسول جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، اس لئے ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہوتی ہے، اور ان کی معصیت اللہ کی معصیت سو رسول کی اطاعت و اتباع اصل الاصول، اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کا خلاصہ ہے، اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی، والعیاذ باللہ جل و علا بکل حال من الاحوال،

۱۰۔۔۔   اس آیت کریمہ میں انصار اور مہاجرین کے بعد تیسرے گروہ کا ذکر فرمایا گیا ہے یعنی وہ متأخرین جو انصار اور مہاجرین کے ان دونوں گروہوں کے بعد آئیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ قیامت تک کے سب ہی مخلص مسلمانوں کو شامل ہے سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اہل حق انہی تین گروہوں میں منحصر ہیں یعنی انصار، مہاجرین، اور ان کے بعد کے وہ تمام مسلمان جو وَالتَّابِعِیْنَ لَہُمْ بِاِحْسَانِ کے زمرے میں آتے ہیں یعنی جو صدق و اخلاص کے ساتھ انصار و مہاجرین کے ان دونوں گروہوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں سو اس تیسرے گروہ کے بارے میں اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ نہایت صدق و اخلاص کے ساتھ اپنے لئے اور اپنے ان بھائیوں کے لئے دعا کرتے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں کہ اے ہمارے رب تو بخشش فرما دے ہماری بھی اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جن کو ایمان اور ہجرت میں ہم پر سبقت کی سعادت حاصل ہے اور اے ہمارے رب ہمارے دلوں کے اندر ہمارے ان بھائیوں کے لئے کسی طرح کا کوئی کھوٹ نہیں پیدا ہونے دینا بیشک تو اے ہمارے رب بڑا ہی شفیق نہایت ہی مہربان ہے حضرت امام مالک اور احمد نے اسی آیت کریمہ سے استدلال کر کے ارشاد فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے مال غنیمت و فئی میں کوئی حق اور حصہ نہیں جو صحابہ کرام کو برا کہیں۔ (احکام القرآن لابن العربی اور غایۃ المنتہی وغیرہ) اور علامہ ابن کثیر امام مالک کے اس استدلال کی داد دیتے ہوئے اور اس کی تحسین کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ کیا ہی خوب استدلال ہے جو ان حضرات نے اس آیت کریمہ سے فرمایا ہے کہ وہ رافضی جو حضرات صحابہ کرام کو برا بھلا کہتا ہے اس کے لئے مال غنیمت و فئی میں کسی طرح کا کوئی حق اور حصہ نہیں کہ وہ اہل ایمان کی صفات سے محروم ہے (تفسیر ابن کثیر) اور علامہ شیخ زادہ فرماتے ہیں کہ یہاں پر انصار و مہاجرین کے ذکر کے بعد آئندہ آنے والوں کے ذکر سے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ان سابقین کے لئے مغفرت اور بخشش کی دعا کرتے ہیں پس جو کوئی ایسا نہیں ہو گا بلکہ وہ سابقین کو برائی کے ساتھ ذکر کرے گا وہ اہل ایمان میں سے نہیں، کہ وہ ان کی صفات اور خصوصیات سے عاری اور محروم ہے (حاشیہ زادہ علی البیضاوی) اور حضرت شعبی سے مروی ہے کہ روافض اپنی بدبختی اور محرومی میں یہود اور نصاریٰ سے بھی بڑھ کر ہیں کیونکہ یہود سے جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے ساتھی کیسے لوگ تھے؟ تو وہ فوراً کہتے ہیں کہ سب سے اچھے تھے، اور اسی طرح جب نصاریٰ سے حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیسے لوگ تھے؟ تو یہ لوگ بھی ان کے بارے میں فوراً کہتے ہیں کہ سب سے اچھے لیکن جب روافض سے حضرت امام الانبیاء کے ساتھیوں یعنی حضرات صحابہ کرام کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو یہ لوگ کہتے کہ وہ سب سے بُرے لوگ تھے حالانکہ ان کے لئے دعاء و استغفار کی تعلیم دی گئی ہے، سو یہ (روافض) وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی تلوار قیامت تک لٹکتی ہی رہے گی (حاشیہ زادہ علی البیضاوی وغیرہ) اللّٰہُمَّ اَرْزُقُنَا حُبَّکَ وَحُبَّ نَبِیِّکَ صلی اللّٰہ علیہ و سلم وحُبُّ اَصْحَابِ نَبِیِّکَ علیہم الرحمۃ والرضوان۔ علیک التَّکلان، وانت الْمستعان، فِیْ کُلّ حِیْنِ وَّاٰن، یاذا الجلال والاکرام،

۱۷۔۔۔   سو اس سے شیطان کے طریقہ اغواء و اضلال اور اس کے نتیجہ و انجام کو واضح فرمایا گیا ہے کہ شیطان انسان کو پہلے کفر کے ارتکاب پر اکساتا ابھارتا ہے لیکن جب وہ کفر کا ارتکاب کر لیتا ہے تو یہ اس سے کہتا ہے کہ میں قطعی طور پر تجھ سے بری اور بیزار ہوں میرا تجھ سے کوئی تعلق نہیں میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ اور یہاں پر اس سے بنو قریظہ کو ابھارنے والے منافقین کی مثال بیان فرمائی گئی ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ منافق لوگ تو ان سے کہتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں کو نکالا گیا تو ہم آپ کے ساتھ نکلیں گے اور اگر آپ لوگوں پر حملہ ہوا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے اور اس سلسلے میں ہم کسی کا کوئی دباؤ ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور یہ اسی کا رویہ اختیار کریں گے جس طرح اس کا طریقہ ہے کہ وہ انسان کو کفر و بغاوت پر اکساتا ابھارتا ہے لیکن جب انسان اس کے بہکاوے میں آ کر کفر و بغاوت کا ارتکاب کر لیتا ہے تو یہ اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور اس کی عادت ہی یہ ہے کہ وہ وقت پڑتے ہی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا (الفرقان۔۲٩) سو اسی طرح یہ منافقین آج ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں لیکن وقت آنے پر یہ ان کا کسی طرح کا کوئی ساتھ نہیں دیں گے بلکہ اس وقت یہ پیٹھ پھیر کر اور دم دبا کر بھاگ جائیں گے۔ اور نتائج کی سب ذمہ داری انہی لوگوں پر آئے گی اور بھگتان سب کا سب انہی کو بھگتنا ہو گا جو ان کی باتوں میں آ کر ان کے مشورے پر عمل کریں گے اور شیطان کی اس دھوکہ دہی کے ان مختلف مظاہر کا ذکر قرآن میں جا بجا فرمایا گیا ہے اور قیامت کے روز ایسے لوگ اپنے جرائم کی ذمہ داری اپنے شیطان لیڈروں پر ڈالنا چاہیں گے تو وہ صاف طور پر ان سے کہہ دیں گے نہیں بلکہ اس سب کے ذمہ دار تم لوگ خود ہو۔ تم لوگ خود ہی شامت زدہ تھے کہ تم نے ہماری پیروی کی ہمارا تم پر کوئی زور و اختیار نہیں تھا کہ ہم تم پر جبر کرتے۔ تم نے جو کچھ کیا اپنے ارادہ و اختیار سے کیا، اس لئے اب اس کا خمیازہ تم خود بھگتو، ہم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں، اور آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی شیطان اور اس کے ایجنٹوں کا طریقہ کار یہی ہے کہ وہ دوسروں کو جرائم پر ابھار تو دیتے ہیں لیکن جب ان کے نتائج سامنے آتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ان کی ذمہ داری سے بچانے کی کوششیں کرتے ہیں لیکن اس طرح کی کوششوں اور ذمہ داری کو ایک دوسرے پر ڈالنے سے فائدہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی کو بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ ان دونوں ہی کو جہنم میں پڑنا اور اس کا عذاب بھگتنا ہو گا۔ اور اس میں ان کو ہمیشہ پڑے رہنا پڑے گا۔ کہ ظالموں کا بدلہ بہر حال یہی ہے خواہ وہ کوئی بھی ہوں والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں راہ حق و صواب پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکرو فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، خواہ وہ شیاطین انس میں سے ہونا شیاطین جن میں سے۔ ہمیشہ راہ حق کو حق سمجھنے اور اپنانے کی توفیق بخشے، اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے بچیں اور بچنے رہنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین،

۲۱۔۔۔   اور اس طرح صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے کر یہ لوگ حق و ہدایت کی اس راہ کو پاس کیں جو دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔ مثال کے اندر اصل مقصد چونکہ ایک معنوی معنی اور غیر محسوس چیز کو ایک ما دی اور محسوس چیز کے ساتھ ممثل کر کے واضح کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں کسی قسم کے مبالغہ یا تخییل کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ اسی لئے قرآن حکیم نے یہاں پر اس بات کو تمثیل سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ مثال اور تمثیل میں اصل بات یہ ہوتی ہے کہ ایک معنوی حقیقت کو ایک ما دی پیرایہ بیان میں پیش کیا جائے تاکہ وہ ممثل اور واضح ہو کر سامنے آ جائے۔ سو اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ ایک نہایت ہی بلند پایا اور بلیغ تمثیل ہے پس حیف ہے ان لوگوں پر جو اس کتاب حکیم سے منہ موڑے ہوئے ہیں والعیاذ باللہ جل و علا، یہاں پر لَرَاَیُّتَہ، کا خطاب عام بھی ہو سکتا ہے، کہ اس سے ہر صاحب عقل و بصیرت کے دل پر دستک دی گئی ہے، تاکہ وہ اس بارے صحیح طور پر غور و فکر سے کام لیکر راہ حق و ہدایت کو اپنائے، لیکن اگر اس کا مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کو قرار دیا جائے تو اس میں آپ کے لئے تسکین و تسلیہ کا بہت بڑا سامان ہے، کہ اگر یہ لوگ آپ کی دعوت سے متاثر نہیں ہوتے، اور اس پر کان نہیں دھرتے، تو اس میں آپ کا یا آپ کی دعوت کا کوئی قصور نہیں بلکہ قصور سب کا سب ان لوگوں کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کا ہے ورنہ جو قرآن آپ ان کو سنا رہے ہیں وہ ایسی چیز ہے کہ اگر اس کو کسی پہاڑ پر بھی اتارا جاتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت سے سرنگوں اور دونیم ہو جاتا۔ مگر ان لوگوں کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے اس لئے ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، والعیاذُ باللہ العظیم

۲۴۔۔۔   اس سورہ کریمہ کے آخر کی ان تین آیات کریمہ میں اللہ کے بعض اہم اسماء حسنیٰ کو ذکر فرمایا گیا ہے ان میں سے ہر ایک کے معنی و مطلب کو ہم نے اپنی بڑی تفسیر عمدۃ البیان میں بقدر کفایت بیان کر دیا ہے۔ نیز اپنی عربی کتاب نفحات العنر میں بھی ان کو کافی حد تک واضح کر دیا ہے یہاں پر اس کے ذکر و اعادہ کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش البتہ اس ضمن میں ایک بات تو یہ یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کے اسماء حسنیٰ ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اور دوسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سب اسماء اسماء حسنیٰ ہی ہیں کہ وہ اس کی صفات کمالیہ کے مظہر اور آئینہ دار ہیں اور تیسری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں اصل اعتبار انہی اسماء و صفات کا ہے جن کا ثبوت نصوص کتاب و سنت سے ملے، وبہٰذا قدتم التفسیر المختصرلسورۃ الحشر و الحمد للہ جل و علا،