۱ سورۂ صف مکّیہ ہے اور بقولِ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما و جمہور مفسّرین مدنیّہ ہے، اس میں دو ۲رکوع، چودہ ۱۴ آیتیں، دوسو اکّیس۲۲۱ کلمے اور نو سو ۹۰۰ حرف ہیں۔
۲ شانِ نزول : صحابۂ کرام کی ایک جماعت گفتگوئیں کر رہی تھی یہ وہ وقت تھا جب تک کہ حکمِ جہاد نازل نہیں ہوا تھا اس جماعت میں یہ تذکرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کیا عمل پیارا ہے ہمیں معلوم ہوتا تو ہم وہی کرتے چاہے اس میں ہمارے مال اور ہماری جانیں کام آ جاتیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کی شانِ نزول میں اور بھی کئی قول ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ یہ آیت منافقین کے حق میں نازل ہوئی جو مسلمانوں سے مدد کا جھوٹا وعدہ کرتے تھے۔
۳ ایک سے دوسرا ملا ہوا ہر ایک اپنی اپنی جگہ جمع ہوا دشمن کے مقابل سب کے سب مثل شے واحد کے۔
۴ آیات کا انکار کر کے اور میرے اوپر جھوٹی تہمتیں لگا کر۔
۶ اور رسول واجبُ التعظیم ہوتے ہیں ان کی توقیر اور ان کا احترام لازم ہے انہیں ایذا دینا سخت حرام اور انتہا درجہ کی بدنصیبی ہے۔
۷ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایذا دے کر راہِ حق سے منحرف اور۔
۸ انہیں اتباعِ حق کی توفیق سے محروم کر کے۔
۹ جو اس کے علم میں نافرمان ہیں اس آیت میں تنبیہ ہے کہ رسولوں کو ایذا دینا شدید ترین جُرم ہے اور اس کے وبال سے دل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں اور آدمی ہدایت سے محروم ہو جاتا ہے۔
۱۰ اور توریت و دیگر کُتُبِ الٰہیہ کا اقرار و اعتراف کرتا ہوا اور تمام پہلے انبیاء کو مانتا ہوا۔
۱۱ حدیث : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے حکم سے اصحابِ کرام نجاشی بادشاہ کے پاس گئے تو نجاشی بادشاہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور وہی رسول ہیں جن کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی اگر امورِ سلطنت کی پابندیاں نہ ہوتیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کفش برداری کی خدمت بجا لاتا۔ (ابو اؤد ) حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ توریت میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صفت مذکور ہے اور یہ بھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کے پاس مدفون ہوں گے۔ ابوداؤد مدنی نے کہا کہ روضۂ اقدس میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔ (ترمذی)حضرت کعب احبار سے مروی ہے کہ حواریوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا یا روحَ اللہ کیا ہمارے بعد اور کوئی امّت بھی ہے فرمایا ہاں احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی امّت، وہ لوگ حکماء، علماء، ابرار و اتقیاء ہیں اور فقہ میں نائبِ انبیاء ہیں اللہ تعالیٰ سے تھوڑے رزق پر راضی اور اللہ تعالیٰ ان سے تھوڑے عمل پر راضی۔
۱۲ اس کی طرف شریک اور ولد کی نسبت کر کے اور اس کی آیات کو جادو بتا کر۔
۱۵ قرآنِ پاک کو شِعر و سِحر و کہانت بتا کر۔
۱۶ چنانچہ ہر ایک دِین بعنایتِ الٰہی ا سلام سے مغلوب ہو گیا۔ مجاہد سے منقول ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول فرمائیں گے تو روئے زمین پر سوائے اسلام کے اور کوئی دِین نہ ہو گا۔
۱۷ شانِ نزول : مومنین نے کہا تھا کہ اگر ہم جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل بہت پسند ہے تو ہم وہی کرتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت میں اس عمل کو تجارت سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ جس طرح تجارت سے نفع کی امید ہوتی ہے اسی طرح ان اعمال سے بہترین نفع رضائے الٰہی اور جنّت و نجات حاصل ہوتی ہے۔
۱۹ جان اور مال اور ہر ایک چیز سے۔
۲۲ اس فتح سے یا فتحِ مکّہ مراد ہے یا بلادِ فارس و روم کی فتح۔
۲۳ دنیا میں فتح کی اور آخرت میں جنّت کی۔
۲۴ حواریوں نے دِینِ الٰہی کی مدد کی تھی جب کہ۔
۲۵ حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلصین کو کہتے ہیں یہ بارہ حضرات تھے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اوّل ایمان لائے انہوں نے عرض کیا۔
۲۸ ایمان والے۔ اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لیے گئے تو ان کی قوم تین فرقوں میں منقسم ہو گئی ایک فرقے نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کہا کہ وہ اللہ تھا آسمان پر چلا گیا دوسرے فرقہ نے کہا کہ وہ اللہ تعالی کا بیٹا تھا اس نے اپنے پاس بُلا لیا تیسرے فرقہ نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول تھے اس نے اٹھا لیا۔ یہ تیسرے فرقے والے مومن تھے ان کی ان دونوں فرقوں سے جنگ رہی اور کافر گروہ ان پر غالب رہے یہاں تک کہ سیّدِ انبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ظہور فرمایا اس وقت ایمان دار گروہ ان کافروں پر غالب ہوا اس تقدیر پر مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی ہم نے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تصدیق کرنے سے مدد فرمائی۔