تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الصَّف

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ ایک دن بیٹھے بیٹھے آپس میں یہ تذکرے کر رہے تھے کہ کوئی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دریافت کرے کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے؟ مگر ابھی کوئی کھڑا بھی نہ ہوا تھا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاصد پہنچا اور ہم میں سے ایک ایک کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے گیا جب ہم سب جمع ہو گئے تو آپ نے اس پوری سورت کی تلاوت کی (مسند احمد) اس میں ذکر ہے کہ جہاد سب سے زیادہ محبوب الٰہی ہے۔ ابن ابی حاتم کی اس حدیث میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کرتے ہوئے ڈرے اور اس میں یہ بھی ہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پوری سورت پڑھ کر سنائی تھی اسی طرح اس روایت بیان کرنے والے صحابی نے تابعی کو پڑھ کر سنائی اور تابعی نے اپنے شاگرد کو اور اس نے اپنے شاگرد کو اسی طرح آخر تک اور روایت میں ہے کہ ہم نے کہا تھا اگر ہمیں ایسے عمل کی خبر ہو جائے تو ہم ضرور اس پر عامل ہو جائیں، مجھ سے میرے استاد شیخ مسند ابو العباس احمد بن ابو طالب حجار نے بھی اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں بھی مسلسل ہر استاد کا اپنے شاگرد کو یہ سورت پڑھ کر سنانا مروی ہے یہاں تک کہ میرے استاد نے بھی اپنے استاد سے اسے سنا ہے لیکن چونکہ وہ خود امی تھے اور اسے یاد کرنے کا انہیں وقت نہیں ملا انہوں نے مجھے پڑھ کر نہیں سنائی، لیکن الحمد اللہ میرے دوسرے استاد حافظ کبیر ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان نے اپنی سند سے یہ حدیث مجھے پڑھاتے وقت یہ سورت بھی پوری پڑھ کر سنائی ہے۔

 

۱

ایفائے عہد ایمان کی علامت ہے اور صف اتحاد کی علامت

پہلی آیت کی تفسیر کئی بار گزر چکی ہے اب پھر اس کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو کہیں اور نہ کریں، وعدہ کریں اور وفا نہ کریں، بعض علمائے سلف نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ وعدہ کا پورا کرنا مطلقاً واجب ہے جس سے وعدہ کیا ہے خواہ وہ تاکید کرے یا نہ کرے، ان کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا منافق کی تین عادتیں ہوتی ہیں (۱)جب وعدہ کرے خلاف کرے (۲)جب بات کرے جھوٹ بولے (۳)جب امانت دیا جائے خیانت کے، دوسری صحیح حدیث میں ہے چار باتیں جس میں ہوں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک ہو اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ ان میں ایک عادت وعدہ خلافی کی ہے، شرح صحیح بخاری کی ابتدا میں ہم نے ان دونوں احادیث کی پوری شرح کر دی ہے۔ فالحمد اللہ ۔ اسی لئے یہاں بھی اس کی تاکید میں فرمایا گیا اللہ تعالیٰ کو یہ بات سخت ناپسند ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو، مسند احمد اور ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آئے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کھیل کود کے لئے جانے لگا تو میری والدہ نے مجھے آواز دے کر کہا ادھر آ کچھ دوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ دینا بھی چاہتی ہو؟ میری والدہ نے کہا ہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کھجوریں دوں گی آپ نے فرمایا پھر تو خیر ورنہ یاد رکھو کچھ نہ دینے کا ارادہ ہوتا اور یوں کہتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب وعدے کے ساتھ وعدہ پورا کرنے کی تاکید کا تعلق ہو تو اس وعدے کو وفا کرنا واجب ہو جاتا ہے، مثلاً کسی شخص نے کسی سے کہہ دیا کہ تو نکاح کر لے اور اتنا اتنا ہر روز میں تجھے دیتا رہوں گا اس نے نکاح کر لیا تو جب نکاح باقی ہے اس شخص پر واجب ہے کہ اسے اپنے وعدے کے مطابق دیتا رہے اس لئے کہ اس میں آدمی کے حق کا تعلق ثابت ہو گیا جس پر اس سے باز پرس سختی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ایفاء عہد مطلق واجب ہی نہیں، اس آیت کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ جب لوگوں نے جہاد کی فرضیت کی خواہش کی اور فرض ہو گیا تو اب بعض لوگ دیکھنے لگے جس پر یہ آیت اتری، جیسے اور جگہ ہے۔ الخ یعنی کیا تو نے انہیں نہ دیکھا جن سے کہا گیا تم اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز و زکوٰۃ کا خیال رکھو، پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ان میں ایسے لوگ بھی نکل آئے جو لوگوں سے اس طرح ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ کہنے لگے پروردگار تو نے ہم پر جہاد کیوں فرض کر دیا؟ کیوں ہمیں ایک وقت مقرر تک اس حکم کو موخر نہ کیا جو قریب ہی تو ہے۔ تو کہہ دے کہ اسباب دنیا تو بہت ہی کم ہیں ہاں پرہیز گاروں کے لئے آخرت بہترین چیز ہے۔ تم پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا تم کہیں بھی ہو تمہیں موت ڈھونڈ نکالے گی گو تم مضبوط محلوں میں ہو، اور جگہ ہے الخ، یعنی مسلمان کہتے ہیں کیوں کوئی سورت نہیں اتاری جاتی؟ پھر جب کوئی محکمہ سورت اتاری جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو دیکھے گا کہ بیمار دل والے تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ دیکھتا ہے جس پر موت کی بیہوشی ہو، اسی طرح کی یہ آیت بھی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض مومنوں نے جہاد کی فرضیت سے پہلے کا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ عمل بتاتا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہوتا تاکہ ہم اس پر عامل ہوتے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر کی کہ سب سے زیادہ پسندیدہ عمل میرے نزدیک ایمان ہے جو شک شبہ سے پاک ہو اور بے ایمانوں سے جہاد کرنا ہے تو بعض مسلمانوں پر یہ گراں گزرا جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جنہیں کرتے نہیں، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے ہیں، حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ کس عمل کو اللہ تعالیٰ بہت پسند فرماتا ہے تو ہم ضرور وہ عمل بجا لاتے اس پر اللہ عز و جل نے وہ عمل بتایا کہ میری راہ میں صفیں باندھ کر مضبوطی کے ساتھ جم کر جہاد کرنے والوں کو میں بہت پسند فرماتا ہوں پھر احد والے دن ان کی آزمائش ہو گئی اور لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے جس پر یہ فرمان عالیشان اترا کہ کیوں وہ کہتے ہو جو کہ نہیں دکھاتے؟ بعض حضرات فرماتے ہیں یہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو کہیں ہم نے جہاد کیا اور حالانکہ جہاد نہ کیا ہو منہ سے کہیں کہ ہم زخمی ہوئے اور زخمی نہ ہوئے ہوں کہیں کہ ہم پر مار پڑی اور مار نہ پڑی ہو منہ سے کہیں کہ ہم قید کئے گئے اور قید نہ کئے گئے ہوں، ابن زید فرماتے ہیں اس سے مراد منافق ہیں کہ مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کرتے لیکن وقت پر پورا نہ کرتے، زید بن اسلم جہاد مراد لیتے ہیں، حضرت مجاہد فرماتے ہیں ان کہنے والوں میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے جب آیت اتری اور معلوم ہوا کہ جہاد سب سے زیادہ عمدہ عمل ہے تو آپ نے عہد کر لیا کہ میں تو اب سے لے کر مرتے دم تک اللہ کی راہ میں اپنے آپ کو وقف کر چکا چنانچہ اسی پر قائم بھی رہے یہاں تک کہ فی سبیل اللہ شہید ہو گئے، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو ایک مرتبہ بلوایا تو تین سو قاری ان کے پاس آئے جن میں سے ہر ایک قاری قرآن تھا۔ پھر فرمایا تم اہل بصرہ کے قاری اور ان میں سے بہترین لوگ ہو سنو ہم ایک سورت پڑھتے تھے جو مسبحات کی سورتوں کے مشابہ تھی پھر ہم اسے بھلا دیئے گئے ہاں مجھے اس میں سے اتنا یاد رہ گیا۔ (آیت) یعنی اے ایمان والو وہ کیوں کہو جو نہ کرو پھر وہ لکھا جائے اور تمہاری گردنوں میں بطور گواہ کے لٹکا دیا جائے پھر قیامت کے دن اس کی بابت باز پرس ہو۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ کے محبوب وہ لوگ ہیں جو صفیں باندھ کر دشمنان اللہ کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اسلام کی حفاظت ہو اور دین کا غلبہ ہو، مسند میں ہے تین قسم کے لوگوں کی تین حالتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہنس دیتا ہے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھنے والے نماز کے لئے صفیں باندھنے والے، میدان جنگ میں صف بندی کرنے والے، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت مطرف فرماتے ہیں مجھے یہ روایت حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک حدیث پہنچی تھی میرے جی میں تھا کہ خود حضرت ابوذر سے مل کر یہ حدیث آمنے سامنے سن لوں چنانچہ ایک مرتبہ جا کر آپ سے ملاقات کی اور واقعہ بیان کیا آپ نے خوشنودی کا اظہار فرما کر کہا وہ حدیث کیا ہے؟ میں نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ تین شخصوں کو دشمن جانتا ہے اور تین کو دوست رکھتا ہے فرمایا ہاں میں نے اپنے خلیل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ نہیں بول سکتا فی الواقع آپ نے ہم سے یہ حدیث بیان فرمائی ہے، میں نے پوچھا وہ تین کون ہیں؟ جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب جانتا ہے فرمایا ایک تو وہ جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے خالص خوشنودی اللہ کی نیت سے نکلے دشمن سے جب مقابلہ ہو تو دلیرانہ جہاد کرے تم اس کی تصدیق خود کتاب اللہ میں بھی دیکھ سکتے ہو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور پھر پوری حدیث بیان کی، ابن ابی حاتم میں یہ حدیث اسی طرح ان ہی الفاظ میں اتنی ہی آئی ہے ہاں ترمذی اور نسائی میں پوری حدیث ہے اور ہم نے بھی اسے دوسری جگہ مکمل وارد کیا ہے، فالحمد اللہ ۔ حضرت کعب احبار سے ابن ابی حاتم میں منقول ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے آپ میرے بندے متوکل اور پسندیدہ ہیں بد خلق بد زبان بازاروں میں شور و غل کرنے والے نہیں برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے بلکہ درگزر کر کے معاف کر دیتے ہیں۔ آپ کی جائے پیدائش مکہ ہے، جائے ہجرت طابہ ہے، ملک آپ کا شام ہے، امت آپ کی بکثرت حمد اللہ کرنے والی ہے، ہر حال میں اور ہر منزل میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے رہتے ہیں۔ صبح کے وقت ذکر اللہ میں ان کی پست آوازیں برابر سنائی دیتی ہیں جیسے شہد کی مکھیوں کی بھن بھناہٹ اپنے ناخن اور موچھیں کترتے ہیں اور اپنے تہمد اپنی آدھی پنڈلیوں تک باندھتے ہیں ان کی صفیں میدان جہاد میں ایسی ہوتی ہیں جیسی نماز میں، پھر حضرت کعب نے اسی آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا سورج کی نگہبانی کرنے والے جہاں وقت نماز آ جائے نماز ادا کر لینے والے گو سواری پر ہوں، حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں جب تک حضور صلی اللہ علیہ و سلم نہ بنوا لیتے دشمن سے لڑائی شروع نہیں کرتے تھے، پس صف بندی کی تعلیم مسلمانوں کو اللہ کی دی ہوئی ہے ایک دوسرے سے ملے کھڑے رہیں، ثابت قدم رہیں اور ٹلیں نہیں تم نہیں دیکھتے کہ عمارت کا بنانے والا نہیں چاہتا کہ اس کی عمارت میں کہیں اونچ نیچ ہو ٹیڑھی ترچھی ہو یا سوراخ رہ جائیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے امر میں اختلاف ہو میدان جنگ میں اور بوقت نماز مسلمانوں کی صف بندی خود اس نے کی ہے پس تم اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو جو احکام بجا لائے گا یہ اس کے لئے عصمت اور بچاؤ ثابت ہے۔ ابو بحریہ فرماتے ہیں مسلمان گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑنا پسند نہیں کرتے تھے انہیں تو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ زمین پر پیدل صفیں بنا کر آمنے سامنے کا مقابلہ کریں، آپ فرماتے ہیں جب تم مجھے دیکھو کہ میں نے صف میں سے ادھر ادھر توجہ کی تو تم جو چاہو ملامت کرنا اور برا بھلا کہنا۔

 

۵

حضرت عیسیٰ کی طرف سے خاتم الانبیاء کی پیشین گوئی

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کلیم اللہ حضرت موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو؟ اس میں گویا ایک طرح سے آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جاتی ہے، چنانچہ آپ بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائے وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو ادب سکھایا جا ہرا ہے کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایذا نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو، جیسے اور جگہ ہے الخ ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذا دینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا، پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی، جیسے اور جگہ ہے الخ، یعنی ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح یہ ہماری آیتوں پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے جس میں وہ سرگرداں رہیں گے اور جگہ ہے الخ، جو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہو جانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے ایسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے، یہاں بھی ارشاد ہتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا، پھر حضرت عیسیٰ کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ توراۃ میں میری خوش بری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی عربی مکی احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، پس حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں، آپ کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختم ہو گئی، صحیح بخاری شریف میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بہت سے نام ہیں محمد، احمد، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں، یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے، ابوداود میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے یہ چند ہیں، فرمایا میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں میں مقفی ہوں، میں نبی الرحمۃ ہوں، میں نبی التوبہ ہوں، میں نبی الملممہ ہوں، یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے، قرآن کریم میں ہے۔ الخ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی امی کی جنہیں اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں توراۃ میں بھی اور انجیل میں بھی، اور جگہ فرمان ہے الخ، اللہ تعالیٰ نے جب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس میرا رسول آئے جو اسے سچ کہتا ہو جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد لیتے ہو؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے فرمایا بس گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں، ایک مرتبہ صحابہ نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ کی خوش خبری ہوں میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چم اٹھے (ابن اسحاق) اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں، مسند احمد میں ہے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ حضرت آدم اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں۔ میں اپنے والد حضرت ابراہیم کی دعا، حضرت عیسیٰ کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں۔ انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں، مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے۔ ہم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود حضرت جعفر حضرت عبد اللہ بن رواحہ حضرت عثمان بن مطعون حضرت ابو موسیٰ وغیرہ بھی تھے۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن عاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لئے تحفے بھی بھیجے جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری قوم نے ہمیں اس لئے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیجئے، نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو چنانچہ یہ مسلمان صحابہ دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے، پوچھا گیا کیوں؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہماری طرف بھیجا اور اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں، اب عمرو بن عاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور ود بادشاہ کو بھڑکانے کے لئے وہ بیج میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد حضرت عسیٰ بن مریم کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مخلاف ہیں، اس پر بادشاہ نے پوچھا بتاؤ تم حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمۃ اللہ ہیں روح اللہ ہیں جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں۔ اے جماعت مہاجرین تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹسے میں آزاد ہہوتا تو میں یقیناً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ کی جوتیاں اٹھاتا آپ کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کر دیا جائے۔ ان مہاجرین کرام میں سے حضرت عبد اللہ بن مسعود تو جلد ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے آ ملے جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لئے بخشش کی دعا مانگی۔ یہ پورا واقعہ حضرت جعفر اور حضرت ام سلمہ سے مروی ہے۔ تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لئے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملاحظہ ہو، ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے، ہاں آپ کے امر کی شہرت حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث حضرت عیسیٰ کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت داء خلیل اور نوید مسح کی طرف کی ہے اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لئے تھا کہ اہل مکہ میں آپ کی شروع شہرت کا باعث یہ خواب تھا، اللہ تعالیٰ آپ پر بے شمار درود و رحمت بھیجے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے۔

 

۷

سطوت و اتمام نور

ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ افترا باندھے اور اس کے شریک و سہیم مقرر کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اگر یہ شخص بے خبر ہوتا جب بھی ایک بات تھی یہاں تو یہ حالت ہے کہ وہ توحید اور اخلاص کی طرف برابر بلایا جا رہا ہے، بھلا ایسے ظالموں کی قسمت میں ہدایت کہاں؟ ان کفار کی چاہت تو یہ ہے کہ حق کو باطل سے رد کر دیں، ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی سورج کی شعاع کو اپنے منہ کی پھونک سے بے نور کرنا ہے، جس طرح اس کے منہ کی پھونک سے سورج کی روشنی کا جاتا رہنا محال ہے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ اللہ کا دین ان کفار سے رد ہو جائے، اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا، کافر برا مانیں تو مانتے رہیں۔ اس کے بعد اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اپنے دین کی حقانیت کو واضح فرمایا، ان دونوں آیتوں کی پوری تفسیر سورہ برات میں گزر چکی ہے۔ فالحمد اللہ

 

۱۰

سو فیصد نفع بخش تجارت

حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ پوچھنا چاہا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ تعالیٰ کو کونسا ہے؟ اس پر اللہ عز و جل نے یہ سورت نازل فرمائی، جس میں فرما رہا ہے کہ آؤ میں تمہیں ایک سراسر نفع والی تجارت بتاؤں جس میں گھاٹے کی کوئی صورت ہی نہیں جس سے مقصود حاصل اور ڈر زائل ہو جائے گا وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لاؤ اپنا جان مال اس کی راہ میں قربان کرنے پر تل جاؤ، جان لو کہ یہ دنیا کی تجارت اور اس کے لئے کدو کاوش کرنے سے بہت ہی بہتر ہے، اگر میری اس بتائی ہوئی تجارت کے تاجر تم بن گئے تو تمہاری ہر لغزش سے ہر گناہ سے میں درگزر کر لوں گا اور جنتوں کے پاکیزہ محلات میں اور بلند و بالا درجوں میں تمہیں پہنچاؤں گا، تمہارے بالا خانوں اور ان ہمیشگی والے باغات کے درختوں تلے سے صاف شفاف نہریں پوری روانی سے جاری ہوں گی، یقین مانو کہ زبردست کامیابی اور اعلیٰ مقصد وری یہی ہے، اچھا اس سے بھی زیادہ سنو تم جو ہمیشہ دشمنوں کے مقابلہ پر میری مدد طلب کرتے رہتے ہو اور اپنی فتح چاہتے ہو میرا وعدہ ہے کہ یہ بھی تمہیں دوں گا ادھر مقابلہ ہوا ادھر فتح ہوئی ادھر سامنے آئے ادھر فتح و نصرت نے رکاب بوسی کی اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ (ترجمہ) ایمان والو اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عنایت فرمائے گا، اور فرمان ہے (ترجمہ) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور غیر فانی عزت والا ہے، یہ مدد اور یہ فتح دنیا میں اور وہ جنت اور نعمت آخرت میں ان لوگوں کے حصہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہیں اور دین اللہ کی خدمت میں جان و مال سے دریغ نہ کریں اسی لئے فرما دیا کہ اے نبی ان ایمان والوں کو میری طرف سے یہ خوش خبری پہنچا دو۔

 

۱۴

عیسیٰ علیہ السلام کے ۱۲صحابہ کی روداد

اللہ سحبانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر آن اور ہر لحظہ جان مال عزت آبرو قول فعل نقل و حرکت سے دل اور زبان سے اللہ کی اور اس کے رسول کی تمام تر باتوں کی تعمیل میں رہیں، پھر مثال دیتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کے تابعداروں کو دیکھو کہ حضرت عیسیٰ کی آواز پر فوراً لبیک پکار اٹھے اور ان کے اس کہنے پر کہ کوئی ہے جو اللہ کی باتوں میں میری امداد کرے انہوں نے بلا غور علی الفور کہہ دیا کہ ہم سب آپ کے ساتھی ہیں اور دین اللہ کی امداد میں آپ کے تابع ہیں، چنانچہ روح اللہ علیہ صلواۃ اللہ نے اسرائیلیوں اور یونانیوں میں انہیں مبلغ بنا کر شام کے شہروں میں بھیجا، حج کے دنوں میں سرور رسل صلی اللہ علیہ و سلم بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے جگہ دے تاکہ میں اللہ کی رسالت کو پہنچا دوں قریش تو مجھے رب کا پیغام پہنچانے سے روک رہے ہیں، چنانچہ اہل مدینہ کے قبیلے اوس و خزرج کو اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت ابدی بخشی انہوں نے آپ سے بیعت کی آپ کی باتیں قبول کیں، اور مضبوط عہد و پیمان کئے کہ اگر آپ ہمارے ہاں آ جائیں تو پھر کسی سرخ و سیاہ کی طاقت نہیں جو آپ کو دکھ پہنچائے ہم آپ کی طرف سے جانیں لڑا دیں گے اور آپ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے، پھر جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر کے ان کے ہاں گئے تو فی الواقع انہوں نے اپنے کہے کو پورا کر دکھایا اور اپنی زبان کی پاسداری کی اسی لئے انصار کے معزز لقب سے ممتاز ہوئے اور یہ لقب گویا ان کا امتیازی نام بن گیا اللہ ان سے خوش ہو اور انہیں بھی راضی کرے آمین! جبکہ حواریوں کو لے کر آپ دین اللہ کی تبلیغ کے لئے کھڑے ہوئے تو بنی اسرائیل کے کچھ لوگ تو راہ راست پر آ گئے اور کچھ لوگ نہ آئے بلکہ آپ کو اور آپ کی والدہ ماجدہ طاہرہ کو بدترین برائی کی طرف منسوب کیا ان یہودیوں پر اللہ کی پھٹکار پڑی اور ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ بن گئے، پھر ماننے والوں میں سے بھی ایک جماعت ماننے میں ہی حد سے گزر گئی اور انہیں ان کے درجہ سے بہت بڑھا دیا، پھر اس گروہ میں بھی کئی گروہ ہو گئے، بعض تو کہنے لگے کہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں بعض نے کہا تین میں کے تیسرے ہیں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس اور بعض نے تو آپ کو اللہ ہی مان لیا، ان سب کا ذکر سورہ نساء میں مفصل ملاحظہ ہو، سچے ایمان والوں کی جناب باری نے اپنے آخر الزماں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے تائید کی ان کے دشمن نصرانیوں پر انہیں غالب کر دیا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں جب اللہ کا ارادہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا لے آپ نہا دھو کر اپنے اصحاب کے پاس آئے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے یہ بارہ صحابہ تھے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے آتے ہی فرمایا تم میں وہ بھی ہیں جو مجھ پر ایمان لا چکے ہیں لیکن پھر میرے ساتھ کفر کریں گے اور ایک دو دفعہ نہیں بلکہ بارہ بارہ مرتبہ، پھر فرمایا تم میں سے کون اس بات پر آمادہ ہے کہ اس پر میری مشابہت ڈالی جائے اور وہ میرے بدلے قتل کیا جائے اور جنت میں میرے درجے میں میرا ساتھی بنے، ایک نوجوان جو ان سب میں کم عمر تھا، اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے آپ کو پیش کیا، آپ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ، پھر وہی بات کہی اب کی مرتبہ بھی کم عمر نوجوان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے، حضرت عیسیٰ نے اب کی مرتبہ بھی انہیں بٹھا دیا، پھر تیسری مرتبہ یہی سوال کیا، اب کی مرتبہ بھی یہی نوجوان کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بہت بہتر، اسی وقت ان کی شکل و صورت بالکل حضرت عیسیٰ جیسی ہو گئی اور خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس گھر کے ایک روزن سے آسمان کی طرف اٹھا لئے گئے۔ اب یہودیوں کی فوج آئی اور انہوں نے اس نوجوان کو حضرت عیسیٰ سمجھ کر گرفتار کر لیا اور قتل کر دیا اور سولی پر چڑھا دیا اور حضرت عیسیٰ کی پیشین گوئی کے مطابق ان باقی کے گیارہ لوگوں میں سے بعض نے بارہ بارہ مرتبہ کفر کیا، حالانکہ وہ اس سے پہلے ایماندار تھے، پھر بنی اسرائیل کے ماننے والے گروہ کے تین فرقے ہو گئے، ایک فرقے نے تو کہا کہ خود اللہ ہمارے درمیان بصورت مسیح تھا، جب تک چاہا رہا پھر آسمان پر چڑھ گیا، انہیں یعقوبیہ کہا جاتا ہے، ایک فرقے نے کہا ہم میں اللہ کا بیٹا تھا جب تک اللہ نے چاہا اسے ہم میں رکھا اور جب چاہا اپنی طرف چڑھا لیا، انہیں سطوریہ کہا جاتا ہے، تیسری جماعت حق پر قائم رہی ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول حضرت عیسیٰ ہم میں تھے، جب تک اللہ کا ارادہ رہا آپ ہم میں موجود رہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا، یہ جماعت مسلمانوں کی ہے۔ پھر ان دونوں کافر جماعتوں کی طاقت بڑھ گئی اور انہوں نے ان مسلمانوں کو مار پیٹ کر قتل و غارت کرنا شروع کیا اور یہ دبے بھی ہوئے اور مغلوب ہی رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا، پس بنی اسرائیل کی وہ مسلمان جماعت آپ پر بھی ایمان لائی اور ان کافر جماعتوں نے آپ سے بھی کفر کیا، ان ایمان والوں کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کر دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا غالب آ جانا اور دین اسلام کا تمام ادیان کو مغلوب کر دینا ہی ان کا غالب آنا اور اپنے دشمنوں پر فتح پانا ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر اور سنن نسائی۔ پس یہ امت حق پر قائم رہ کر ہمیشہ تک غالب رہے گی یہاں تک کہ امر اللہ یعنی قیامت آ جائے اور یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر مسیح دجال سے لڑائی کریں گے جیسے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورہ صف کی تفسیر ختم ہوئی، فالحمد للہ۔