۴ ۔۔۔ بندہ کو لاف زنی اور دعوے کی بات سے ڈرنا چاہیے کہ پیچھے مشکل پڑتی ہے۔ زبان سے ایک بات کہہ دینا آسان ہے، لیکن اس کا نباہنا آسان نہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت ناراض اور بیزار ہوتا ہے جو زبان سے کہے بہت کچھ اور کرے کچھ نہیں ۔ روایات میں ہے کہ ایک جگہ مسلمان جمع تھے، کہنے لگے ہم کو اگر معلوم ہو جائے کہ کون سا کام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے تو وہ ہی اختیار کریں ۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ یعنی دیکھو! سنبھل کر کہو، لو ہم بتلائے دیتے ہیں ، کہ اللہ کو سب سے زیادہ ان لوگوں سے محبت ہے جو اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں کے مقابلہ پر ایک آہنی دیوار کی طرح ڈٹ جاتے ہیں اور میدان جنگ میں اس شان سے صف آرائی کرتے ہیں کہ گویا وہ سب مل کر ایک مضبوط دیوار ہیں جس میں سیسہ پلا دیا گیا ہے، اور جس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں پڑ سکتا۔ اب اس معیار پر اپنے کو پرکھ لو۔ بیشک تم میں بہت ایسے ہیں جو اس معیار پر کامل و اکمل اتر چکے ہیں مگر بعض مواقع ایسے بھی نکلیں گے جہاں بعضوں کے زبانی دعووں کی ان کے عمل نے تکذیب کی ہے آخر جنگ احد میں وہ بنیان مرصوص کہاں قائم رہی۔ اور جس وقت حکم قتال اترا تو یقیناً بعض نے یہ بھی کہا۔ "رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ لَوْ لَا اَخَّرْتَنَا۔" (نساء، رکوع۱۱'آیت ۷۷) بہرحال زبان سے زیادہ دعوے مت کرو بلکہ خدا کی راہ میں قربانی پیش کرو جس سے اعلیٰ کامیابی نصیب ہو۔ موسیٰ کی قوم کو نہیں دیکھتے کہ زبان سے تعلّی و تفاخر کی باتیں بہت بڑھ چڑھ کر بناتے تھے لیکن عمل کے میدان میں صفر تھا۔ جہاں کوئی موقع کام کا آیا فوراً پھسل گئے اور نہایت تکلیف دہ باتیں کرنے لگے۔ نتیجہ جو کچھ ہو اس کو آگے بیان فرماتے ہیں ۔
۵ ۔۔۔ ۱: یعنی روشن دلائل اور کھلے کھلے معجزات دیکھ کر تم دل میں یقین رکھتے ہو کہ میں اللہ کا سچا پیغمبر ہوں ۔ پھر سخت نازیبا اور رنجیدہ حرکتیں کر کے مجھے کیوں ستاتے ہو۔ یہ معاملہ تو کسی معمولی ناصح اور خیر خواہ کے ساتھ بھی نہ ہونا چاہیے۔ چہ جائیکہ ایک اللہ کے رسول کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو۔ کیا میرے دل کو تمہاری ان گستاخانہ حرکات سے دکھ نہیں پہنچتا کہ کبھی بے جان بچھڑا بنا کر پوجنے لگے اور اس کو اپنا اور موسیٰ کا خدا بتلانے لگے۔ کبھی "عمالقہ" پر جہاد کرنے کا حکم ہوا تو کہنے لگے ہم تو کبھی نہیں جائیں گے۔ تم اور تمہارا خدا جا کر لڑ لو۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں ۔ وغیر ذلک من الخرافات۔ چنانچہ اسی سے تنگ ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔ "رَبِّ اِنِّی لَا اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِی وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِیْنَ۔"
۲: بدی کرتے کرتے قاعدہ ہے کہ دل سخت اور سیاہ ہوتا چلا جاتا ہے حتی کہ نیکی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ ہی حال ان کا ہوا۔ جب ہر بات میں رسول سے ضد ہی کرتے رہے اور برابر ٹیڑھی چال چلتے رہے تو آخر مردود ہوئے۔ اور اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا کہ سیدھی بات قبول کرنے کی صلاحیت نہ رہی۔ ایسے ضدی نافرمانوں کے ساتھ اللہ کی یہ ہی عادت ہے۔
۶ ۔۔۔ یعنی اصل تورات کے من اللہ ہونے کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کے احکام و اخبار پر یقین رکھتا ہوں اور جو کچھ میری تعلیم ہے فی الحقیقت ان ہی اصول کے ماتحت ہے جو تورات میں بتلائے گئے تھے۔ (تنبیہ) ابن کثیر وغیرہ نے "مُصَدِّقًالِّمَا بَیْنَ یَدیہ" کا مطلب یہ لیا ہے کہ میرا وجود تورات کی باتوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیونکہ میں ان چیزوں کا مصداق بن کر آیا ہوں جن کی خبر تورات شریف میں دی گئی تھی۔ واللہ اعلم۔// یعنی پچھلے کی تصدیق کرتا ہوں اور اگلے کی بشارت سناتا ہوں ۔ یوں تو دوسرے انبیاء سابقین بھی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کا مژدہ برابر سناتے آئے ہیں ۔ لیکن جس صراحت ووضاحت اور اہتمام کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کی خوشخبری دی وہ کسی اور سے منقول نہیں ۔ شاید قریب عہد کی بناء پر یہ خصوصیت ان کے حصہ میں آئی ہو گی۔ کیونکہ ان کے بعد نبی آخرالزمان کے سوا کوئی دوسرا نبی آنے والا نہ تھا۔ یہ سچ ہے کہ یہود و نصاریٰ کی مجرمانہ غفلت اور معتمدانہ دستبرد نے آج دنیا کے ہاتھوں میں اصل تورات و انجیل وغیرہ کا کوئی صحیح نسخہ باقی نہیں چھوڑا جس سے ہم کو ٹھیک پتہ لگ سکتا کہ انبیائے سابقین خصوصاً مسیح علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت کن الفاظ میں اور کس عنوان سے بشارت دی تھی۔ اور اسی لیے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ قرآن کریم کے صاف و صریح بیان کو اس تحریف شدہ بائبل میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے جھٹلانے لگے۔ تاہم یہ بھی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ سمجھنا چاہیے کہ حق تعالیٰ نے محرفین کو اس قدر قدرت نہیں دی کہ وہ اس کے آخری پیغمبر کے مطلق تمام پیشین گوئیوں کو بالکلیہ محو کر دیں کہ ان کا کچھ نشان باقی نہ رہے۔ موجودہ بائبل میں بھی بیسیوں مواضع ہیں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر قریب تصریح کے موجود ہے اور عقل و انصاف والوں کے لیے اس میں تاویل و انکار کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ اور انجیل یوحنا میں تو فارقلیط (یا پیر کلوطوس) والی بشارت اتنی صاف ہے کہ اس کا بے تکلف مطلب بجز احمد (بمعنی محمود و ستودہ) کے کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ بعض علمائے اہل کتاب کو بھی ناگزیر اس کا اعتراف یا نیم اقرار کرنا پڑا ہے کہ اس پیشین گوئی کا انطباق پوری طرح نہ روح القدس پر اور نہ بجز سرور دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کسی اور پر ہو سکتا ہے۔ علمائے اسلام نے بحمد اللہ بشارات پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ۔ اور تفسیر حقانی کے مولف فاضل نے "فارقلیط" والی بشارت اور تحریف بائبل پر سورہ "صف" کی تفسیر میں نہایت مشبع بحث کی ہے۔ اللہ جزائے خیر دے۔ ف۳ یعنی حضرت مسیح کھلی نشانیاں لے کر آئے یا جن کی بشارت دی تھی حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کھلے نشان لے کر آئے تو لوگ اسے جادو بتلانے لگے۔
۷ ۔۔۔ ۱: یعنی جب مسلمان ہونے کو کہا جاتا ہے تو حق کو چھپا کر اور جھوٹی باتیں بنا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ وہ خدا کو بشر یا بشر کو خدا بنانے کا جھوٹ تو ایک طرف رہا، کتب سماویہ میں تحریف کر کے جو چیزیں واقعی موجود تھیں ان کا انکار کرتے اور جو نہیں تھیں ان کو درج کرتے ہیں ۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو گا۔
۲: یعنی ایسے بے انصافوں کو ہدایت کہاں نصیب ہوتی ہے اور ممکن ہے "لایہدی" میں ادھر بھی اشارہ ہو کہ یہ ظالم کتنا ہی انکار اور تحریف و تاویل کریں ، خدا ان کو کامیابی کی راہ نہ دے گا۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق جن خبروں کو وہ چھپانا یا مٹانا چاہتے ہیں ، چھپ یا مٹ نہ سکیں گی۔ چنانچہ باوجود ہزاروں طرح کی قطع و برید کے آج بھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت بشارات کا ایک کثیر ذخیرہ موجود ہے۔
۸ ۔۔۔ یعنی منکر پڑے برا مانا کریں اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ مشیت الٰہی کے خلاف کوئی کوشش کرنا ایسا ہے جیسے کوئی احمق نورِ آفتاب کو منہ سے پھونک مار کر بجھانا چاہے۔ یہ ہی حال حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مخالفوں کا اور ان کی کوششوں کا ہے۔
(تنبیہ) شاید "'بِاَفْوَاہِہِمْ" کے لفظ سے یہاں اس طرف بھی اشارہ کرنا ہو کہ بشارات کے انکار و اخفاء کے لیے جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں وہ کامیاب ہونے والی نہیں ۔ ہزار کوشش کریں کہ "فارقلیط" آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہیں ہیں ، لیکن اللہ منوا کر چھوڑے گا کہ اس کا مصداق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔
۹ ۔۔۔ اس آیت پر سورہ "برأۃ" کے فوائد میں کلام ہو چکا ہے، وہاں دیکھ لیا جائے۔
۱۲ ۔۔۔ ۱: یعنی اس دین کو تمام ادیان پر غالب کرنا تو اللہ کا کام ہے۔ لیکن تمہارا فرض یہ ہے کہ ایمان پر پوری طرح مستقیم رہ کر اس کے راستہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ یہ سوداگری ہے جس میں کبھی خسارہ نہیں ، دنیا میں لوگ سینکڑوں طرح کے بیوپار اور تجارتیں کرتے ہیں اور اپنا کل سرمایہ اس میں لگا دیتے ہیں محض اس امید پر کہ اس سے منافع حاصل ہوں گے اور اس طرح راس المال گھٹنے اور تلف ہونے سے بچ جائے گا۔ پھر وہ بذاتِ خود اور اس کے اہل و عیال تنگدستی و افلاس کی تلخیوں سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن مومنین اپنے جان و مال کا سرمایہ اس اعلیٰ تجارت میں لگائیں گے تو صرف چند روز افلاس سے نہیں ، بلکہ آخرت کے دردناک عذاب اور تباہ کن خسارہ سے مامون ہو جائیں گے۔ اگر مسلمان سمجھے تو یہ تجارت دنیا کی سب تجارتوں سے بہتر ہے۔ جس کا نفع کامل مغفرت اور دائمی جنت کی صورت میں ملے گا۔ جس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو سکتی ہے۔
۲: یعنی وہ ستھرے مکانات ان باغوں کے اندر ہوں گے جن میں مومنین کو آباد ہونا ہے۔ یہ تو آخرت کی کامیابی رہی۔ آگے دنیا کی اعلیٰ اور انتہائی کامیابی کا ذکر ہے۔
۱۳ ۔۔۔ ۱: یعنی اصل اور بڑی کامیابی تو وہ ہی ہے جو آخرت میں ملے گی جس کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت کوئی چیز نہیں لیکن دنیا میں بھی ایک چیز جسے تم طبعاً محبوب رکھتے ہو، دی جائے گی وہ کیا ہے "نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیبٌ" (اللہ کی طرف سے ایک مخصوص امداد اور جلد حاصل ہونے والی فتح و ظفر، جن میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ دامن کا تعلق رکھتی ہے) دنیا نے دیکھ لیا کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے ساتھ یہ وعدہ کیسی صفائی سے پورا ہوا اور آج بھی مسلم قوم اگر سچے معنی میں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ پر ثابت قدم ہو جائے تو یہ ہی کامیابی ان کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہے۔
۲: کیونکہ یہ خوشخبری سنانا ایک مستقل انعام ہے۔
۱ ۴ ۔۔۔ ۱: یعنی اس کے دین اور اس کے پیغمبر کے مددگار بن جاؤ۔ اس حکم کی تعمیل خدا کے فضل و توفیق سے مسلمانوں نے ایسی کی کہ ان میں سے ایک جماعت کا تو نام ہی "انصار" پڑ گیا۔
۲: "حواریین" (یارانِ مسیح) تھوڑے سے گنے چنے آدمی تھے جو اپنے نسب و حسب کے اعتبار سے کچھ معزز نہیں سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح کو قبول کیا اور ان کی دعوت کو بڑی قربانیاں کر کے دیار و امصار میں پھیلایا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے یاروں نے بڑی محنتیں کی ہیں ان کا دین نشر ہوا۔ ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے بھی خلفاء نے اس سے زیادہ کیا۔" والحمد للہ علی ذلک۔
۳: یعنی "بنی اسرائیل" میں دو فرقے ہو گئے۔ ایک ایمان پر قائم ہوا۔ دوسرے نے انکار کیا۔ پھر حضرت مسیح کے بعد آپس میں دست و گریبان رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس بحث و مناظرہ اور خانہ جنگیوں میں مومنین کو منکرین پر غالب کیا۔ حضرت مسیح کے نام لیوا (نصاریٰ) یہود پر غالب رہے اور نصاریٰ میں سے ان کی عام گمراہی کے بعد جو بچے کھچے افراد صحیح عقیدہ پر قائم رہ گئے تھے ان کو حق تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کے ذریعہ سے دوسروں پر غلبہ عنایت فرمایا۔ حجت و برہان کے اعتبار سے بھی اور قوت و سلطنت کی حیثیت سے بھی۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔