۱ سورۂ تغابن اکثر کے نزدیک مدنیّہ ہے اور بعض مفسّرین کا قول ہے کہ مکّیہ ہے سوائے تین آیتوں کے جو یّاَ یّھَُاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ آ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ سے شروع ہوتی ہیں، اس سورت میں دو۲ رکوع، اٹّھارہ ۱۸ آیتیں، دو سو اکتالیس۲۴۱ کلمے، ایک ہزار ستّر۱۰۷۰ حرف ہیں۔
۲ اپنے مُلک میں متصرف ہے، جو چاہتا ہے، جیسا چاہتا ہے کرتا ہے، نہ کوئی شریک، نہ ساجھی، سب نعمتیں اسی کی ہیں۔
۳ حدیث شریف میں ہے کہ انسان کی سعادت و شقاوت فرشتہ بحکمِ الٰہی اسی وقت لکھ دیتا ہے جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔
۴ تو لازم ہے کہ تم اپنی سیرت بھی اچھی رکھو۔
۷ یعنی کیا تمہیں گزری ہوئی امّتوں کے احوال معلوم نہیں جنہوں نے انبیاء کی تکذیب کی۔
۸ دنیا میں اپنے کفر کی سزا پائی۔
۱۱ یعنی انہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا اور یہ کمالِ بے عقلی و نا فہمی ہے، پھر بشر کا رسول ہونا تو نہ مانا اور پتّھر کا خدا ہونا تسلیم کر لیا۔
۱۴ نور سے مراد قرآن شریف ہے کیونکہ اس کی بدولت گمراہی کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور ہر شے کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
۱۵ یعنی روزِ قیامت، جس میں سب اوّلین و آخرین جمع ہوں گے۔
۱۶ یعنی کافروں کی محرومی ظاہر ہونے کا۔
۱۷ موت کی، یا مرض کی، یا نقصانِ مال کی، یا اور کوئی۔
۱۸ اور جانے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور اس کے ارادے سے ہوتا ہے اور وقتِ مصیبت اِنَّالِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھے اور اللہ تعالیٰ کی عطا پر شکر اور بَلا پر صبر کرے۔
۱۹ کہ وہ اور زیادہ نیکیوں اور طاعتوں میں مشغول ہو۔
۲۰ اﷲ تعالیٰ اور ا س کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فرمانبرداری سے۔
۲۱ چنانچہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا اور کامل طور پر دِین کی تبلیغ فرما دی۔
۲۲ کہ تمہیں نیکی سے روکتے ہیں۔
۲۳ اور ان کے کہنے میں آ کر نیکی سے باز نہ رہو۔
شانِ نزول : چند مسلمانوں نے مکّہ مکرّمہ سے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کی بی بی اور بچّوں نے انہیں روکا اور کہا ہم تمہاری جدائی پر صبر نہ کر سکیں گے، تم چلے جاؤ گے ہم تمہارے پیچھے ہلاک ہو جائیں گے، یہ بات ان پر اثر کر گئی اور وہ ٹھہر گئے، کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے ہجرت کی تو انہوں نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو دیکھا کہ وہ دِین میں بڑے ماہر اور فقیہ ہو گئے ہیں، یہ دیکھ کر انہوں نے اپنی بی بی، بچّوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا اور یہ قصد کیا کہ ان کا خرچ بند کر دیں کیونکہ وہی لوگ انہیں ہجرت سے مانع ہوئے تھے جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ حضور کے ساتھ ہجرت کرنے والے اصحاب علم و فقہ میں ان سے منزلوں آ گے نکل گئے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور انہیں اپنے بی بی بچّوں سے درگذر کرنے اور معاف کرنے کی ترغیب فرمائی گئی، چنانچہ آ گے ارشاد فرمایا جاتا ہے۔
۲۴ کہ کبھی آدمی ان کی وجہ سے گناہ اور معصیّت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ان میں مشغول ہو کر امورِ آخرت کے سر انجام سے غافل ہو جاتا ہے۔
۲۵ تو لحاظ رکھو، ایسا نہ ہو کہ اموال و اولاد میں مشغول ہو کر ثوابِ عظیم کھو بیٹھو۔
۲۶ یعنی بقدر اپنی وسعت و طاقت کے طاعت و عبادت بجا لاؤ، یہ تفسیر ہے اِتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ کی۔
۲۷ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا۔
۲۸ اور اس نے اپنے مال کو اطمینان کے ساتھ حکمِ شریعت کے مطابق خرچ کیا۔
۲۹ یعنی خوش دلی سے نیک نیتی کے ساتھ مالِ حلال سے صدقہ دو گے، صدقہ دینے کو براہِ لطف و کرم قرض سے تعبیر فرمایا، اس میں صدقہ کی ترغیب ہے کہ صدقہ دینے والا نقصان میں نہیں ہے بالیقین اس کی جزا پائے گا۔