تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ التّغَابُن

۱

مسبحات کی سورتوں میں سب سے آخری سورت یہی ہے، مخلوقات کی تسبیح الٰہی کا بیان کئی دفعہ ہو چکا ہے، ملک و حمد والا اللہ ہی ہے ہر چیز پر اس کی حکومت کام میں اور ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے میں۔ وہ تعریف کا مستحق، جس چیز کا ارادہ کرے اس کو پورا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے نہ کوئی اس کا مزاحم بن سکے نہ اسے کوئی روک سکے وہ اگر نہ چاہے تو کچھ بھی نہ ہو، وہی تمام مخلوق کا خلاق ہے اس کے ارادے سے بعض انسان کافر ہوئے بعض مومن، وہ بخوبی جانتا ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق ضلالت کون ہے؟ وہ اپنے بندوں کے اعمال پر شاہد ہے اور ہر ایک عمل کا پورا پورا بدلے دے گا، اس نے عدل و حکمت کے ساتھ آسمان و زمین کی پیدائش کی ہے، اسی نے تمہیں پاکیزہ اور خوبصورت شکلیں دے رکھی ہیں، جیسے اور جگہ ارشاد ہے (ترجمہ) الخ، اے انسان تجھے تیرے رب کریم سے کس چیز نے غافل کر دیا، اسی نے تجھے پیدا کیا پھر درست کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا اور جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دی اور جگہ ارشاد ہے (ترجمہ) الخ، اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار گاہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں بہترین صورتیں دس اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو عنایت فرمائیں، آخر سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے، آسمان و زمین اور ہر نفس اور کل کائنات کا علم اسے حاصل ہے یہاں تک کہ دل کے ارادوں اور پوشیدہ باتوں سے بھی وہ واقف ہے۔

 

۵

سابقہ واقعات سے سبق لو

یہاں گزشتہ کافروں کے کفر اور ان کی بری سزا اور بدترین بدلے کا ذکر ہو رہا ہے کہ کیا تمہیں تم سے پہلے منکروں کا حال معلوم نہیں؟ کہ رسولوں کی مخالفت اور حق کی تکذیب کیا رنگ لائی؟ دنیا اور آخرت میں برباد ہو گئے یہاں بھی اپنے بد افعال کا خمیازہ بھگتا اور وہاں کا بھگتنا ابھی باقی ہے جو نہایت الم انگیز ہے۔ اس کی وجہ سوا اس کے کچھ بھی نہیں کہ دلائل و براہین اور روشن نشان کے ساتھ جو انبیاء اللہ ان کے پاس آئے انہوں نے انہیں نہ مانا اور اپنے نزدیک اسے محال جانا کہ انسان پیغمبر ہو، اور انہی جیسے ایک آدم زاد کے ہاتھ پر انہیں ہدایت دی جائے پس انکار کر بیٹھے اور عمل چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے بے پرواہی برتی وہ تو غنی ہے ہی اور ساتھ ہی حمد و ثناء کے لائق بھی۔

 

۷

منکرین قیامت مشرکین و ملحدین

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار مشرکین ملحدین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے، اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم ان سے کہہ دو کہ ہاں اٹھو گے پھر تمہارے تمام چھوٹے بڑے چھپے کھلے اعمال کا اظہار تم پر کیا جائے گا، سنو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا تمہیں بدلے دینا وغیرہ تمام کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہیں، یہ تیسری آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قسم کھا کر قیامت کی حقانیت کے بیان کرنے کو فرمایا ہے، پہلی آیت تو سورہ یونس میں ہے (ترجمہ) یعنی یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ حق ہے؟ تو کہہ میرے رب کی قسم وہ حق ہے اور تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے، دوسری آیت سورہ سبا میں ہے۔ (ترجمہ) کافر کہتے ہیں ہم پر قیامت نہ آئے گی تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم یقیناً اور بالضرور آئے گی، اور تیسری آیت یہی۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ پر، رسول اللہ پر، نور منزل یعنی قرآن کریم پر ایمان لاؤ تمہارا کوئی خفیہ عمل بھی اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو جمع کرے گا اور اسی لئے اس کا نام یوم الجمع ہے، جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے اور جگہ ہے (ترجمہ) یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے اور جگہ ہے (ترجمہ) یعنی قیامت والے دن تمام اولین اور آخرین جمع کئے جائیں کے، ابن عباس فرماتے ہیں یوم التغابن قیامت کا ایک نام ہے، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اہل جنت اہل دوزخ کو نقصان میں ڈالیں گے حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے زیادہ تغابن کیا ہو گا کہ ان کے سامنے انہیں جنت میں اور ان کے سامنے انہیں جہنم میں لے جائیں گے۔ گویا اسی کی تفسیر اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ ایماندار، نیک اعمال والوں کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت میں انہیں داخل کیا جائے گا اور پوری کامیابی کو پہنچ جائے گا اور کفر و تکذیب کرنے والے جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں ہمیشہ جلنے کا عذاب پاتے رہیں گے بھلا اس سے برا ٹھکانا اور کیا ہو سکتا ہے؟

 

۱۱

وہی مختار مطلق ہے ناقابل تردید سچائی

سورہ حدید میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی اجازت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے اس کی قدر و مشیت کے بغیر نہیں ہو سکتا، اب جس شخص کو کوئی تکلیف پہنچے وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے مجھے یہ تکلیف پہنچی، پھر صبر و تحمل سے کام لے، اللہ کی مرضی پر ثابت قدم رہے، ثواب اور بھلائی کی امید رکھے رضا بہ قضا کے سوا لب نہ ہلائے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کی رہبری کرتا ہے اور اسے بدلے کے طور پر ہدایت قلبی عطا فرماتا ہے۔ وہ دل میں یقین صادق کی چمک دیکھتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس مصیبت کا بدلہ یا اس سے بھی بہتر دنیا میں ہی عطا فرما دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے، اسے مصائب ڈگمگا نہیں سکتے، وہ جانتا ہے کہ جو پہنچا وہ خطا کرنے والا نہ تھا اور جو نہ پہنچا وہ ملنے والا ہی نہ تھا، حضرت علقمہ کے سامنے یہ آیت پڑھی جاتی ہے اور آپ سے اس کا مطلب دریافت کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہر مصیبت کے وقت اس بات کا عقیدہ رکھے کہ یہ منجانب اللہ ہے پھر راضی خوشی اسے برداشت کر لے، یہ بھی مطلب ہے کہ وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لے۔ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ مومن پر تعجب ہے ہر ایک بات میں اس کے لئے بہترین ہوتی ہے نقصان پر صبر و ضبط کر کے نفع اور بھلائی پر شکر و احسان مندی کر کے بہتری سمیٹ لینا ہے، یہ دو طرفہ بھلائی مومن کے سوا کسی اور کے حصے میں نہیں، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کی تصدیق کرنا اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ اس نے کہا حضرت میں کوئی آسان کام چاہتا ہوں آپ نے فرمایا جو فیصلہ قسمت کا تجھ پر جاری ہو تو اس میں اللہ تعالیٰ کا گلہ شکوہ نہ کر اس کی رضا پر راضی رہ یہ اس سے ہلکا امر ہے۔ پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا حکم دیتا ہے کہ امور شرعی میں ان اطاعتوں سے سرمو تجاوز نہ کرو جس کا حکم ملے بجا لاؤ، جس سے روکا جائے رک جاؤ، اگر تم اس کے ماننے سے اعراض کرتے تو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر کوئی بوجھ نہیں، ان کے ذمہ صرف تبلیغ تھی جو وہ کر چکے اب عمل نہ کرنے کی سزا تمہیں اٹھانا پڑے گی۔ پھر فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد و صمد ہے اس کے سوا کسی کی ذات کسی طرح کی عبادت کے لائق نہیں، یہ خبر معنی میں طلب کے ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید مانو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کی عبادت کرو، پھر فرماتا ہے چونکہ توکل اور بھروسے کے لائق بھی وہی ہے تم اسی پر بھروسہ رکھو۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ (ترجمہ) مشرق اور مغرب کا رب وہی ہے، معبود حقیقی بھی اس کے سوا کوئی نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز بنا لے۔

 

۱۴

اللہ کی یاد اور دولت

ارشاد ہوتا ہے کہ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے، جس سے پہلے تنبیہ ہو چکی ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد اللہ سے غافل کر دیں اگر ایسا ہو گیا تو تمہیں بڑا گھاٹا رہے گا یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہو، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو، بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بعض اہل مکہ اسلام قبول کر چکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا پھر جب اسلام کا خوب افشا ہو گیا تب یہ لوگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کر لیا ہے اب جی میں آیا کہ اپنے ہاں بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ ان تعفوا الخ، یعنی اب درگزر کرو آئندہ کے لئے ہوشیار رہو، اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گزار کون ہیں؟ اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہئے اس پر نگاہیں رکھو جیسے اور جگہ فرمان ہے (ترجمہ) الخ، یعنی بطور آزمائش کے لوگوں کے لئے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر، شائستہ گھوڑے، مویشی، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک متربہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ فرما رہے تھے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین لانبے لانبے کرتے پہنے آ گئے دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ، رنگ کے تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کر سکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا۔ مسند میں ہے حضرت اشعت بن قیس فرماتے ہیں کندہ قبیلے کے وفد میں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تمہاری کچھ اولاد بھی ہے میں نے کہا ہاں اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا آپ نے فرمایا خبردار ایسا نہ کہو ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے، پھر فرمایا ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں، بزاز میں ہے اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل و نامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے، طبرانی میں ہے تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لئے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تیرے لئے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کر دیا تو قطعاً جنتی ہو گیا۔ پھر فرمایا شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے جو تیری پیٹھ سے نکلا پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے جو تیری ملکیت میں ہے پھر دشمنی کرتا ہے۔ پھر فرماتا ہے اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو، بخاری و مسلم میں ہے جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ جس سے میں روک دوں رک جاؤ، بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورہ آل عمران کی آیت (ترجمہ) کی ناسخ یہ آیت ہے، یعنی پہلے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے لیکن اب فرما دیا کہ اپنی طاقت کے مطابق چنانچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام اپنی طاقت کے مطابق چنانچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہو جاتی تھیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ دوسری آیت اتار کر تخفیف کر دی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے، پھر فرماتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو نہ آگے بڑھو نہ پیچھے سرکو نہ امر کو چھوڑو نہ نہی کے خلاف کرو، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو فقیروں، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے، ومن یوق کی تفسیر سورہ حشر کی اس آیت میں گزر چکی ہے۔ جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے نہ مفلس نہ نا دہندہ، پس فرماتا ہے وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا، جیسے سورہ بقرہ میں بھی فرمایا ہے کہ کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا، ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اللہ بڑا قدر دان ہے، تھوڑی سی نیک کا بہت بڑا اجر دیتا ہے، وہ بردبار ہے درگزر کرتا ہے بخش دیتا ہے گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے چھپے کھلے کا عالم وہ غالب اور با حکمت ہے، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گزر چکی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورۃ تغابن کی تفسیر ختم ہوئی۔ فالحمد للہ۔