۱ ۔۔۔ اور جس کسی کا راج دنیا میں دکھائی دیتا ہے وہ اسی کا دیا ہوا اور جس کی تعریف کی جاتی ہے وہ حقیقت میں اسی کی تعریف ہے۔
۲ ۔۔۔ یعنی اسی نے سب آدمیوں کو بنایا۔ چاہیے تھا کہ سب اس پر ایمان لاتے اور اس منعم حقیقی کی اطاعت کرتے۔ مگر ہوا یہ کہ بعض منکر بن گئے اور بعض ایماندار۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے آدمی میں دونوں طرف جانے کی استعداد اور قوت رکھی تھی۔ مگر اولاً سب کو فطرت صحیحہ پر پیدا کیا تھا پھر کوئی اس فطرت پر قائم رہا اور کسی نے گردو پیش کے حالات سے متاثر ہو کر اس کے خلاف راہ اختیار کر لی اور ان دونوں کا علم اللہ کو ہمیشہ سے تھا کہ کون اپنے ارادہ اور اختیار سے کس طرف جائے گا۔ اور پھر اسی کے موافق سزا یا انعام و اکرام کا مستحق ہو گا۔ یہ ہی چیز اپنے علم کے موافق اس کی قسمت میں لکھ دی تھی کہ ایسا ہو گا۔ اللہ کا علم محیط اس کو مستلزم نہیں کہ دنیا میں ارادہ و اختیار کی قوت باقی نہ رہے۔ یہ مسئلہ دقیق ہے اور ہم اس پر ایک مستقل مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ واللہ الموفق والمعین۔
۳ ۔۔۔ سب جانوروں سے انسان کی خلقت اچھی ہے۔ دیکھنے میں بھی خوبصورت، اور ملکات و قویٰ میں بھی تمام عالم سے ممتاز، بلکہ سب کا مجموعہ اور خلاصہ، اسی لیے صوفیہ اسے "عالمِ صغیر" کہتے ہیں ۔
۵ ۔۔۔ یعنی تم سے پہلے بہت قومیں "عاد" و "ثمود" وغیرہ ہلاک کی گئیں اور آخرت کا عذاب الگ رہا۔ یہ خطاب اہل مکہ کو ہے۔
۶ ۔۔۔ ۱: یعنی کیا ہم ہی جیسے آدمی ہادی بنا کر بھیجے گئے۔ بھیجنا تھا تو آسمان سے کسی فرشتہ کو بھیجتے گویا ان کے نزدیک بشریت اور رسالت میں منافات تھی۔ اسی لیے انہوں نے کفر اختیار کیا اور رسولوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ (تنبیہ) اس آیت سے یہ ثابت کرنا کہ رسول کو بشر کہنے والا کافر ہے انتہائی جہل و الحاد ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی یہ کہہ دے کہ آیت ان لوگوں کے کفر پر دلالت کر رہی ہے جو رسل بنی آدم کے بشر ہونے کا انکار کریں ، تو یہ دعویٰ پہلے دعوے سے زیادہ قوی ہو گا۔
۲: یعنی اللہ کو کیا پرواہ تھی۔ انہوں نے منہ موڑ لیا تو اللہ نے ادھر سے نظر رحمت اٹھا لی۔
۷ ۔۔۔ ۱: رسالت کی طرح بعث بعد الموت کا بھی انکار ہے۔
۲: یعنی دوبارہ اٹھانا اور سب کا حساب کر دینا اللہ کو کیا مشکل ہے پوری طرح یقین رکھو کہ یہ ضرور ہو کر رہے گا۔ کسی کے انکار کرنے سے وہ آنے والی گھڑی ٹل نہیں سکتی۔ لہٰذا مناسب ہے کہ انکار چھوڑ کر اس وقت کی فکر کرو۔
۲: یعنی ایمان کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے۔
۹ ۔۔۔ ۱: یعنی اس دن دوزخی ہاریں گے اور جنتی جیتیں گے۔ ہارنا یہ ہی کہ اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو بے موقع خرچ کر کے رأس المال بھی کھو بیٹھے اور جیتنا یہ کہ ایک ایک کے ہزاروں پائے آگے اسی کی کچھ تفصیل ہے۔
۲: یعنی جو تقصیرات ہوئی ہیں ایمان اور نیک کاموں کی برکت سے معاف کر دی جائیں گی۔
۳: جو جنت میں پہنچ گیا سب مرادیں مل گئیں ۔ اللہ کی رضا اور دیدار کا مقام بھی وہ ہی ہے۔
۱۱ ۔۔۔ ۱: دنیا میں کوئی مصیبت اور سختی اللہ کی مشیت و ارادہ کے بدون نہیں پہنچتی۔ مومن کو جب اس بات کا یقین ہے تو اس پر غمگین اور بد دل ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلکہ بہر صوت مالک حقیقی کے فیصلہ پر راضی رہنا چاہیے اور یوں کہنا چاہیے نہ شود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاک تیغت سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی اس طرح اللہ تعالیٰ مومن کے دل کو صبر و تسلیم کی راہ بتلا دیتا ہے۔ جس کے بعد عرفان و ایقان کی عجیب و غریب راہیں کھلتی ہیں ۔ اور باطنی ترقیات اور قلبی کیفیات کا دروازہ مفتوح ہوتا ہے۔
۲: یعنی جو تکلیف و مصیبت اس نے بھیجی عین علم و حکمت سے بھیجی، اور وہی جانتا ہے کہ کون تم میں سے واقعی صبر و استقامت اور تسلیم و رضا کی راہ پر چلا۔ اور کس کا دل کن احوال و کیفیات کا مورد بننے کے قابل ہے۔
۱۲ ۔۔۔ یعنی نرمی و سختی اور تکلیف و راحت، غرض ہر حالت میں اللہ و رسول کا حکم مانو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو خود تمہارا نقصان ہے۔ رسول سب نیک و بد سمجھا کر اپنا فرض ادا کر چکا۔ اللہ کو تمہاری اطاعت و معصیت سے کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی معبود اور مستعان تنہا اسی کی ذات ہے۔ نہ کسی اور کی بندگی نہ کوئی دوسرا بھروسہ کے لائق۔
۱ ۴ ۔۔۔ ۱: بہت مرتبہ آدمی بیوی بچوں کی محبت اور فکر میں پھنس کر اللہ کو اور اس کے احکام کو بھلا دیتا ہے۔ ان تعلقات کے پیچھے کتنی برائیوں کا ارتکاب کرتا اور کتنی بھلائیوں سے محروم رہتا ہے۔ بیوی اور اولاد کی فرمائشیں اور رضا جوئی اسے کسی وقت دم نہیں لینے دیتی۔ اس چکر میں پڑ کر آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جو اہل و عیال اتنے بڑے خسارے اور نقصان کا سبب بنیں ۔ وہ حقیقتہً اس کے دوست نہیں کہلا سکتے بلکہ بدترین دشمن ہیں ۔ جن کی دشمنی کا احساس بھی بسا اوقات انسان کو نہیں ہوتا۔ اسی لیے حق تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ ان دشمنوں سے ہوشیار رہو اور ایسا رویہ اختیار کرنے سے بچو جس کا نتیجہ ان کی دنیا سنوارنے کی خاطر اپنا دین برباد کرنے کے سوا کچھ نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں سب بیویاں اور ساری اولاد اسی قماش کی ہوتی ہے، بہت اللہ کی بندیاں ہیں جو اپنے شوہروں کے دین کی حفاظت کرتی اور نیک کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں ، اور کتنی ہی سعادت مند اولاد ہے جو اپنے والدین کے لیے باقیاتِ صالحات بنتی ہے۔ "جعلنا اللّٰہ منہم بِفَضْلِہٖ وَمَنِّہٖ۔"
۲: یعنی اگر انہوں نے تمہارے ساتھ دشمنی کی اور تم کو دینی یا دنیاوی نقصان پہنچ گیا تو اس کا اثر یہ نہ ہونا چاہیے کہ تم انتقام کے درپے ہو جاؤ۔ اور ان پر نامناسب سختی شروع کر دو۔ ایسا کرنے سے دنیا کا انتظام درہم برہم ہو جائے گا۔ جہاں تک عقلاً و شرعاً گنجائش ہو ان کی حماقتوں اور کوتاہیوں کو معاف کرو اور عفو و درگزر سے کام لو۔ ان مکارم اخلاق پر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربانی کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر تم کو جانچتا ہے کہ کون ان فانی اور زائل چیزوں میں پھنس کر آخرت کی باقی و دائم نعمتوں کو فراموش کرتا ہے اور کس نے ان سامانوں کو اپنی آخرت کا ذخیرہ بنایا ہے اور وہاں کے اجر عظیم کو یہاں کے حظوظ و مالوفات پر ترجیح دی ہے۔
۱۶ ۔۔۔ ۱: یعنی اللہ سے ڈر کر جہاں تک ہو سکے اس جانچ میں ثابت قدم رہو اور اس کی بات سنو اور مانو۔
۲: یعنی اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے سے تمہارا ہی بھلا ہو گا۔/ ۶ یعنی مراد کو وہ ہی شخص پہنچتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس کے دل کے لالچ سے بچا دے۔ اور حرص و بخل سے محفوظ رکھے۔
۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی اللہ کی راہ میں اخلاص اور نیک نیتی سے طیب مال خرچ کرو تو اللہ اس سے کہیں زیادہ دے گا اور تمہاری کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا۔ اس طرح کا مضمون پہلے کئی جگہ گزر چکا ہے۔ وہیں ہم نے پوری تقریر کی ہے۔
۲: قدردانی کی بات یہ ہے کہ تھوڑے عمل پر بہت سا ثواب دیتا ہے، اور تحمل یہ کہ گناہ دیکھ کر فوراً عذاب نہیں بھیجتا۔ پھر بہت سے مجرموں کو بالکل معاف اور بہتیروں کی سزا میں تخفیف کرتا ہے۔
۱۸ ۔۔۔ یعنی اسی کو ظاہری اعمال اور باطنی نیتوں کی خبر ہے اپنی زبردست قوت اور حکمت سے اس کے مناسب بدلہ دے گا۔