تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ المعَارج

(سورۃ المعارج ۔ سورہ نمبر ۷۰ ۔ تعداد آیات ۴۴)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     مانگا ایک مانگنے والے نے وہ ہولناک عذاب جس نے (اپنے وقت پر) بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے

۲۔۔۔     کافروں پر جس کو کوئی ٹالنے والا نہیں

۳۔۔۔     (بے پایا عظمتوں والے ) اس اللہ کی طرف سے جو مالک ہے عروج کے زینوں کا

۴۔۔۔     اسی کی طرف چڑھ کر جاتے ہیں فرشتے بھی اور روح بھی (وہ عذاب) ایک ایسے دن میں ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے

۵۔۔۔     پس آپ صبر جمیل ہی سے کام لیتے رہیں (اے پیغمبر!)

۶۔۔۔     یہ لوگ تو اسے بڑا دور سمجھتے ہیں

۷۔۔۔     مگر ہم اسے بہت ہی قریب دیکھ رہے ہیں

۸۔۔۔     جس دن کہ ہو جائے گا یہ (نیلگوں ) آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح

۹۔۔۔     اور یہ پہاڑ (دھنکی ہوئی) رنگ برنگی اون کی مانند (اڑتے پھر رہے ) ہوں گے

۱۰۔۔۔     اور (اس دن) کوئی گہرا دوست بھی کسی دوست کو نہیں پوچھے گا

۱۱۔۔۔     حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دکھائے بھی جائیں گے مجرم چاہے گا کہ کاش کہ وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنے بدلے میں اپنے سب بیٹوں کو بھی دے دے

۱۲۔۔۔     اپنی بیوی اور اپنے بہائی کو بھی

۱۳۔۔۔     اور اپنے اس پورے کنبے کو بھی جو کہ اس کو پناہ دیا کرتا تھا

۱۴۔۔۔     اور ان سب لوگوں کو بھی جو کہ روئے زمین میں موجود ہیں پھر یہ (بدلہ دینا) اس کو بچا لے

۱۵۔۔۔     ہرگز نہیں وہ تو شعلہ مارتی ہوئی ایک (ہولناک) آگ ہو گی

۱۶۔۔۔     ادھیڑ کر رکھ دینے والی کھال کو

۱۷۔۔۔     تو (پکار پکار کر اپنی طرف) بلا رہی ہو گی ہر اس شخص کو جس نے منہ موڑا ہو گا (حق سے ) اور پیٹھ پھیری ہو گی

۱۸۔۔۔     اور جمع کیا ہو گا (دنیاوی مال و دولت کو) اور سینت سینت کر رکھا ہو گا (اس کو)

۱۹۔۔۔     واقعی انسان بڑا تھڑدلا (اور کم حوصلہ) ہے

۲۰۔۔۔     جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ گھبرا اٹھتا ہے

۲۱۔۔۔     اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو یہ بخل کرنے لگتا ہے

۲۲۔۔۔     سوائے ان نمازیوں کے

۲۳۔۔۔     جو اپنے نماز کی (حفاظت اور اس کی) پابندی کرتے ہیں

۲۴۔۔۔     جنکے مالوں کے اندر حق ہوتا ہے مقرر (اور طے شدہ)

۲۵۔۔۔     ان کے لئے بھی جو سوال کرتے ہیں اور ان کیلئے بھی جو سوال نہیں کرتے ہیں

۲۶۔۔۔     جو سچے دل سے مانتے ہیں بدلے (اور جزا) کے دن کو)

۲۷۔۔۔     اور وہ ڈرتے رہتے ہیں اپنے رب (کی پکڑ اور اس) کے عذاب سے

۲۸۔۔۔     (اور) بلاشبہ ان کے رب کا عذاب نڈر (اور بے خوف) ہونے کی چیز ہے ہی نہیں

۲۹۔۔۔     اور جو حفاظت کرتے ہیں اپنی شرمگاہوں کی

۳۰۔۔۔     مگر اپنی بیویوں یا ان باندیوں سے جن کے وہ مالک ہوتے ہیں کہ ان میں ان پر کوئی ملامت نہیں

۳۱۔۔۔     پس جس نے ڈھونڈی کوئی راہ اس کے سوا (اپنی شہوت رانی کے لئے ) تو ایسے ہی لوگ ہیں حد سے نکلنے والے

۳۲۔۔۔     اور جو پاس (و لحاظ) رکھتے ہیں اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا

۳۳۔۔۔     اور جو قائم رہتے ہیں اپنی گواہیوں کی ادائیگی میں (صداقت و راست بازی پر)

۳۴۔۔۔     اور جو حفاظت کرتے ہیں اپنی نمازوں (کی ادائیگی اور پابندی) کی

۳۵۔۔۔     سوا ایسے ہی لوگ ہیں جو نہایت عزت (و آرام) سے رہیں گے عظیم الشان جنتوں میں

۳۶۔۔۔     پھر کیا ہو گیا ان کافروں کو جو دوڑے چلے آتے ہیں آپ کی طرف (اے پیغمبر!)

۳۷۔۔۔     دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی گروہ در گروہ ہو کر

۳۸۔۔۔     کیا ان میں سے ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ اسے یونہی داخل کر دیا جائے گا نعمتوں بھری جنت میں

۳۹۔۔۔     (نہیں اور) ہرگز نہیں بلاشبہ ہم نے پیدا کیا ان کو اس چیز سے جس کو یہ خود بھی جانتے ہیں

۴۰۔۔۔     پس نہیں میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی کہ بلاشبہ ہم پوری طرح قادر ہیں

۴۱۔۔۔     اس بات پر کہ ہم ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور ہم سے کوئی بازی نہیں لے جا سکتا

۴۲۔۔۔     پس چھوڑ دو ان کو کہ یہ یونہی پڑے رہیں اپنی بے ہودہ باتوں اور اپنے (لایعنی) کھیل تماشوں میں یہاں تک یہ پہنچ جائیں اپنے اس دن کو جس کا وعدہ ان سے کیا جا رہا ہے

۴۳۔۔۔     جس دن کہ یہ لوگ اپنی قبروں سے نکل نکل کر ایسے دوڑے جا رہے ہوں گے جیسے کہ وہ اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف (لپک لپک کر) دوڑے جا رہے ہوں

۴۴۔۔۔     (اس روز) ان کا حال یہ ہو گا کہ (مارے شرم کے ) جھکی ہوئی ہوں گی ان کی نگاہیں اور چھا رہی ہو گی ان (کے چہروں ) پر ایک ہولناک (سیاہی اور) ذلت یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا

تفسیر

 

۲۔۔۔   یعنی جس ہولناک عذاب کا مطالبہ اس غفلت و لا پرواہی اور ڈھٹائی سے یہ لوگ کرتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں اس نے اپنے وقت پر بہر حال واقع ہو کر رہنا ہے اور وہ واقع بھی کافروں ہی کے لئے ہو گا، جس کو ٹالنا اور روکنا کسی کے بس میں نہیں ہو گا، سو یہ ان لوگوں کی شامت اور ان کی محرومی اور بدبختی ہے جو یہ اس سے بچنے کی فکر کرنے کے بجائے الٹا اس ڈھٹائی کے ساتھ اس کو لاد دکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور نہیں سوچتے کہ وہ سیلاب فنا جب آیا تو کس کے گھر آئے گا؟ اس کا اصل نشانہ تو یہی بدبخت ہونگے اس کے مقابلے کا آخر انہوں نے کیا بندوبست کر رکھا ہے؟ جو یہ اس کے لئے اس طرح چیلنج کرتے، اور اس کے لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے روکنے کا بل بوتا تو کسی میں بھی نہیں ہو سکتا، نہ خود ان کے اندر اور نہ ان کے ان خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں کے اندر جن کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا ان کو بڑا زعم اور گھمنڈ ہے۔ اور جن پر انہوں نے آسرا اور تکیہ کر رکھا ہے۔ تو پھر یہ آخر کسی برتے پر اس کو لانے اور واقع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ سو کفر و شرک اور انکار حق کے نتیجے میں انسان کی مت اسی طرح مار کر رکھ دی جاتی ہے، اور وہ سیدھی بات کو بھی الٹا سمجھنے لگتا ہے، والعیاذ باللہ، حالانکہ ان بدبختوں کو اس بات کا پتہ اور احساس نہیں کہ جس عذاب کا یہ اس طرح مذاق اڑاتے، اور اس کے لئے جلدی مچاتے ہیں اس نے ان کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا یَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذابِ وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ بِالْکٰفِرِیْنَ (العنکبوت،۵۴) یعنی یہ لوگ عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں حالانکہ جہنم نے ایسے کافروں کو اپنے احاطے میں لے رکھا ہے، والعیاذُ باللہ العظیم، کیونکہ کفر و باطل اور انکار حق کا لازمی نتیجہ اور بدیہی تقاضا دوزخ کا وہ ہولناک عذاب ہے فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا کے اس دار الامتحان میں آج اس پر پردہ پڑا ہوا ہے، جو کہ یہاں کے امتحان اور ابتلاء و آزمائش کا تقاضا ہے، لیکن کل قیامت کے اس یوم عظیم میں جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا دن ہو گا، پردہ ہٹتے ہی دوزخ کا وہ ہولناک عذاب اپنی تمام قہرمانیوں کے ساتھ ان کے سامنے موجود ہو گا، والعیاذ باللہ

۱۵۔۔۔   یعنی اس وقت ان مجرموں کی یہ تمنا ہرگز پوری نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس یوم حساب میں ایسا ہونا ممکن نہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی، کہ ایسا ہونا عدل و انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے، پس اس روز ہر کسی کو اپنے کئے کرائے کا بوجھ خود ہی اٹھانا ہو گا۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا لَا تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْریٰ اور دوسرے کا بوجھ اٹھانے کا کیا سوال، اور اس کا کیا موقع؟ دوزخ کی وہ دہکتی بھڑکتی اور ہولناک آگ تو ایسی ہو گی کہ دور ہی سے ان کو دیکھ کر بپھر جائیگی اور دھاڑنا شروع کر دے گی، جیسا کہ سورہ فرقان کی آیت نمبر۱۲ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے اور وہ دیکھتے ہی مجرم کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دے گی، والعیاذ باللہ العظیم

۱۶۔۔۔   سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ دوزخ کی وہ انتہائی ہولناک آگ دنیاوی آگ کی طرح اندھی بہری نہیں ہو گی کہ سب کو ایک ہی طرح اور ایک ہی ساتھ بھسم کر دے، بلکہ وہ جانتی پہچانتی ہو گی کہ کون مجرم ہے اور کس کا جرم کتنا اور کیا ہے یہاں تک کہ وہ دلوں کے اندر تک کو بھی جانتی اور ان کے اندر تک جھانکتی ہو گی کہ کس کے اندر کی حالت اور کیفیت کیا ہے؟ اور کس کے اندر کفر و شرک اور جرم و قصور کی جڑیں کتنی گہری ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ سو اس ہولناک آگ کے بارے میں یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز وہ بلا اور پکار رہی ہو گی ہر اس شخص کو جس نے دنیا میں دعوت حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری ہو گی اور وہ حق کے تقاضوں سے غافل اور لا پرواہ ہو کر دنیاوی مال و دولت کو جوڑنے جمع کرنے، اور اس کو سینت سینت کر، اور گن گن کر رکھنے میں مشغول رہا ہو گا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے اَلَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّ عَدَّدَہ، (الہمزۃ۔۲) سو جن لوگوں نے دنیا میں صدق و اخلاص پر مبنی حق و ہدایت کی دعوت پر کان نہیں دھرا ہو گا۔ بلکہ انہوں نے کفر و انکار اور اعراض و استکبار ہی سے کام لیا ہو گا۔ والعیاذ باللہ تو ایسے سنگدل بدبختوں کو اس روز دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ کی اس دعوت کو سننا اور ماننا پڑے گا۔ اور اس طور پر کہ ان کے لئے اس سے گریز و فرار کی کوئی راہ ممکن نہیں ہو گی سو دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق انسان کو اپنا مال دنیا کی تجوریوں اور اور یہاں کے بنکوں کے بجائے خداوند قدوس کے بنکوں میں جمع کرانا چاہئے۔ تاکہ وہ اس کو اس واہب مطلق کی طرف سے کئی گنا بڑھ کر واپس ملے اور وہ بھی آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہان میں جہاں پر انسان اس کا سب سے زیادہ محتاج ہو گا۔ اور جہاں اس کو دوسری کوئی چیز کام نہیں آ سکے گی۔ لیکن جن ابناء دنیا کا آخرت کے اس جہان غیب اور وہاں کی جزاء و سزا پر ایمان و یقین ہی نہیں وہ اس کے لئے تیار نہیں ہو سکتے اس لئے وہ اس کو خسارے کا سودا سمجھتے ہیں اسی لئے حضرات انبیاء ورسل کی دعوت حق کے مقابلے اور اس کی مخالفت میں سب سے پیش پیش وہی لوگ رہے جو اپنے بخل اور کنجوسی کی بناء پر اپنا پیسہ راہ حق میں خرچ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ سو بخل و کنجوسی اور آخرت کی جزاء و سزا کی تکذیب دونوں باتیں باہم لازم و ملزوم ہیں جیسا کہ سورہ ماعون کی آیت نمبر۱ تا نمبر۳ میں اس کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے۔ والعیاد باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ  میں رکھے، اور ہر قدم اپنی رضاء و خوشنودی کی راہوں ہی پر ڈالنے اور بڑھانے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،

۳۴۔۔۔   یہاں پر ان صفات کریمہ کے ذکر و بیان کے سلسلہ میں ان کا آغاز بھی نماز سے فرمایا گیا، اور ان کا خاتمہ بھی اسی پر فرمایا گیا، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ نماز ہی ان تمام صفات کریمہ اور خصال حمیدہ کا منبع و مصدر ہے اور وہی ان کی محافظ و نگہبان ہے، سو نماز ہی انسان کو ان پاکیزہ صفات اور عمدہ خصال سے سرفراز کرتی ہے اور وہی ان کی محافظ اور ان کا حصار بنتی ہے، پس جس نے اس حصار کو محفوظ رکھا۔ اس نے اپنے دین کو محفوظ رکھا۔ اور جس نے اس حصار کو ضائع کیا والعیاذ باللہ۔ تو اس نے پورے دین کو ضائع کر دیا، اسی لئے حضرت عمر نے منصب خلافت سنبھالنے کے بعد اپنی قلمرو کے اندر تمام ذمہ داروں کو یہی لکھا، اور سب کے لئے اسی کی تعمیم جاری کی، کہ آگاہ رہو کہ میرے نزدیک تمہارے تمام کاموں کے اندر سب سے اہم کام نماز ہے، جس نے اس کی حفاظت کی وہ باقی تمام کاموں کی بدرجہ اولیٰ حفاظت کرے گا۔ اور جس نے اس کو ضائع کر دیا وہ دوسرے کاموں کو اور زیادہ ضائع کرنے والا بنے گا۔ والعیاذ باللہ، یہاں پر یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ان صفات کریمہ کے ذکر و بیان کے شروع میں نماز کی مداومت یعنی ہمیشگی کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن اس سلسلے کی آخری آیت کریمہ میں نماز کی محافظت کا ذکر فرمایا گیا ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان صفات کریمہ کے حصول اور ان سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ نماز کی مداومت ہے اور ان کی بقاء و حفاظت کا ذریعہ نماز کی محافظت ہے کیونکہ نماز ہی کی محافظت کے ذریعے وہ حصار قائم ہوتا ہے جو ان کو محفوظ رکھتا ہے جیسا کہ ابھی اوپر بھی گزرا، اور نماز کی محافظت سے مراد اس کو ان آفات و خطرات سے محفوظ رکھنا ہے جو اس کی افادیت اور اس کے خاص انوار و برکات کو برباد کرنے کا باعث بنتے ہیں جیسے اس کے اوقات کی پابندی اور جماعت میں حاضری کا اہتمام نہ کرنا۔ یا ایسے افعال کا ارتکاب کرنا جو اس کے مقصد کے منافی ہوں۔ والعیاذُ باللہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر اعتبار سے۔ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

۳۷۔۔۔   ان آیات کریمات میں منکرین و مکذبین کے حال بد کی تصویر بھی پیش فرما دی گئی، اور ان پر اظہار تعجب بھی فرمایا گیا، ان میں سے پہلی آیت کریمہ میں جو لفظ مہطعین واقع ہوا ہے، وہ اھطاع سے ماخوذ ہے، جس کے معنی کسی طرف تیزی سے دوڑنے اور لپکنے کے آتے ہیں، اور دوسری آیت کریمہ میں واقع لفظ عزین جمع ہے عزۃ کی جس کے معنی گروہ اور ٹکڑی وغیرہ کے آتے ہیں، سو منکرین حق کو جب دعوت حق اور اہل ایمان کے لئے ان کے ایمان و عمل کے نتیجے میں نعیم جنت سے سرفرازی کی بشارتیں سننے کو ملتیں تو ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی، کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دعوت حق کے یہ مفلوک الحال علمبردار تو جنت کے وارث و حقدار بن جائیں اور ہم جیسے دنیاوی مال و دولت اور سرداری اور کھڑ پنچی رکھنے والے دوزخ کا ایندھن بن جائیں، تو وہ مختلف ٹولیاں بنا کر بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تردید و توہین کے لئے داہنے اور بائیں سے آپ پر پل پڑتے، سو یہاں پر انہی بدبختوں کی اس خرد باختگی پر اظہار تعجب فرمایا گیا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم،

۴۴۔۔۔  سو اس سے اس سورہ کریمہ کے خاتمے کی ان آیات کریمات کے ذریعے معاند اور ہٹ دھرم لوگوں کے ساتھ معاملے کے بارے میں خاص ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں، سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو چھوڑ دو کہ یہ اپنی سخن سازیوں اور حجت بازیوں میں لگے رہیں، یہاں تک کہ یہ اپنے اس ہولناک دن کو پہنچ کر رہیں، جس سے ان کو ڈرایا، اور خبردار کیا جا رہا ہے، لیکن یہ اپنی سرکشی اور لاپرواہی میں پڑے ٹس سے مس نہیں ہو رہے، سو جس دن صور میں پھونک مار دی جائے گی اس دن یہ اپنی قبروں سے نکل کر نکل کر ایسے دوڑے جا رہے ہونگے کہ گویا کہ یہ دوڑ کے لئے مقرر کردہ نشانوں کی طرف دوڑے جا رہے ہیں، سو آج تو یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی اور اپنے تمرد و سرکشی کی بناء پر دعوت حق و ہدایت پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہو رہے لیکن اس روز ان کے اندر ایسی کسی اینکڑی پینکڑی کا کوئی نام و نشان تک نہ ہو گا بلکہ اس روز یہ بغیر کسی کجی اور ٹیڑھ کے داعی حق کے پیچھے چلے جا رہے ہونگے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ یَوْمَئِذٍ یَّتَبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَاعِوَجَ لَہ، الایۃ (طہ۔۱٠٨) یعنی اس روز یہ لوگ داعیِ محشر کی آواز پر اس طرح دوڑے جا رہے ہونگے، کہ ان کے اندر کسی طرح کی کوئی کجی اور ٹیڑھ نہیں ہو گی، اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس روز تو یہ اپنے رب کی حمد و ثنا کے ترانے گاتے ہوئے اس داعی کی دعوت پر لبیک کہیں گے جیسا دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ الایٰۃ (بنی اسرائیل۔ ۵۲) یعنی جس روز وہ تم کو پکارے گا اس روز تم اس کی حمد و ثنا کرتے ہوئے اس کی آواز پر لبیک کہو گے، مگر اس روز کے اس سننے اور ماننے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ کہ وہ سننا اور ماننا دیکھنے کے بعد کا ہو گا جو کہ نہ مفید ہے اور نہ مطلوب جبکہ مفید و مطلوب وہ سننا اور ماننا وہ ہے جو بالغیب یعنی بن دیکھے ہو جس کے حصول اور اس سے سرفرازی کا موقع دنیاوی زندگی تھی جو اس وقت ان کے ہاتھ سے بہر حال نکل چکی ہو گی، سو یہاں پر ان کے حال بد کی تصویر کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز مارے شرم کے جھکی ہوئی ہونگی ان کی نگاہیں، چھا رہی ہو گی۔ ان (کے چہروں) پر ایک ہولناک ذلت سو وہ دن ہو گا جس کی وعید ان کو سنائی جاتی رہی تھی یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ نصب جمع ہے نصیب کی جس کے معنی گاڑے ہوئے پتھر کے ہوتے ہیں اس لئے ان سے مراد وہ پتھر بھی ہو سکتے ہیں جن کو مشرک لوگ اپنی نذروں نیازوں وغیرہ کے لئے گاڑھ دیتے تھے، اور گاڑھ دیتے ہیں، اور اس سے مراد وہ پتھر بھی ہو سکتے ہیں جو دوڑ وغیرہ کے مقابلے کے لئے نشان کے طور پر گاڑھے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر ان لوگوں کے لئے یُوْفِضُوْنَ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ بھاگنے اور تیز دوڑنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں پر نُصُبِ سے مشرکوں کے تھان یا استھاں مراد لینا صحیح نہیں لگتا۔ کیونکہ استھانوں کی طرف دوڑنے اور بھاگنے کا کوئی مفہوم نہیں بنتا، اور مشرکین کے بارے میں اس طرح کی کوئی روایت بھی نہیں ملتی۔ اس لئے ہم نے اس لفظ کے دوسرے معنی و مفہوم کو ہی اختیار کیا ہے۔ والعلم عند اللہ سبحانہ و تعالی، بہر کیف ان آیات کریمات سے ہٹ دھرم معاند لوگوں سے رُوگردانی برتنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے کیونکہ ان سے الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں، پس ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، تاکہ یہ اپنے انجام کو خود پہنچ کر رہیں، ونکتفی بہٰذا القدر من التفسیر المختصر لسورۃ المعارج، و الحمد للہ جل و علا