دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ القِیَامَة

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

پہلی آیت میں قیامت کے دن کی قسم کھائی گئی ہے اور پوری سورہ قیامت ہی کے مباحث پر مشتمل ہے اس لیے اس کا نام ’ القیٰمۃ‘ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اس کے نزول کا زمانہ مکہ کا ابتدائی دور ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

قیامت کے بارے میں جو شبہات وارد کئے جا رہے تھے ان کو دور کر کے اس کا یقین پیدا کرنا ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱  تا ۶ میں قیامت کی قطعیت کو پیش کرتے ہوئے شبہات کو دور کیا گیا ہے۔

 

آیت ۷ تا ۱۵ میں قیامت کے کچھ احوال پیش کئے گئے ہیں۔

 

آیت ۱۶ تا ۱۹ کا مضمون بطورِ جملہ معترضہ ہے۔

 

یعنی سلسلہ کلام کو کاٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اخذ کرنے کے تعلق سے بر وقت ہدایت دی گئی ہے۔

 

آیت ۲۰ تا ۲۵ میں منکرین کو ان کی دنیا پرستی پر متنبہ کرتے ہوئے قیامت کے دن ظاہر ہونے والی نیکو کاروں کی سرخروئی اور بدکاروں کی سیاہ روئی کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔

 

آیت ۲۶ تا ۳۰ میں موت کی تصویر پیش کی گئی ہے جو قیامت کا پیش خیمہ ہے۔

 

آیت ۳۱ تا ۳۵ میں منکرین قیامت کے رویہ پر انہیں ملامت کی گئی ہے۔

 

آیت ۳۶ تا ۴۰ میں دوبارہ زندہ کئے جانے پر قاطع حجت پیش کی گئی ہے۔

ترجمہ

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۱* ، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔ ۲*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔ ۳*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے۔ ۴*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔ ۵*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے بد اعمالیاں کرتا رہے۔ ۶*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پوچھتا ہے کب آئے گا قیامت کا دن۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (سن لو) جب آنکھیں چندھیا جائیں گے۔۷*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چاند بے نور ہو جائے گا۔ ۸*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سورج اور چاند اکٹھے کر دئے جائیں گے۔ ۹*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز انسان کہے گا کہاں بھاگ کر جاؤں ؟ ۱۰*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ کہیں پناہ نہیں۔ ۱۱*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز تیرے رب ہی کی طرف ٹھکانا ہو گا۔ ۱۲*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔اس روز انسان کو بتا دیا جائے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا۔ ۱۳*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل انسان آپ اپنے اوپر حجت ہے۔ ۱۴*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اگرچہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔ ۱۵*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  (اے نبی!) اس (قرآن) کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔۱۶*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو جمع کرا دینا اور پڑھو ا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ ۱۷*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا جب ہم اسے پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی پیروی کرو۔ ۱۸*

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی وضاحت کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ ۱۹*

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ۲۰* بلکہ تم لوگ جلد حاصل ہونے والی دنیا سے محبت کرتے ہو۔۲۱*

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس روز کتنے چہرے تر و تازہ ہوں گے۔ ۲۲*

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ ۲۳*

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کتنے چہرے اس دن اداس ہوں گے۔ ۲۴*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ معاملہ ہونے والا ہے۔ ۲۵*

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔ ۲۶* جب جان ہنسلی تک پہنچ جائے گی۔ ۲۷*

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا جائے گا۔۔ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا؟ ۲۸*

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ سمجھے گا کہ یہ جدائی کا وقت ہے۔ ۲۹*

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ ۳۰*

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن تیرے رب کی طرف جانا ہو گا۔ ۳۱*

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس نے نہ سچائی کو قبول کیا اور نہ نماز پڑھی۔ ۳۲*

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ جھٹلایا اور منہ موڑا۔ ۳۳*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا۔ ۳۴*

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس ہے تجھ پر افسوس ہے !

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر افسوس ہے تجھ پر افسوس ہے ! ۳۵*

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ ۳۶*

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ منی کی ایک بوند نہ تھا جو  (رحم میں) ڈالی جاتی ہے۔ ۳۷*

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ علقہ ہوا۔ ۳۸* پھر (اللہ نے) اس کا جسم بنایا اور اسے درست کیا۔ ۳۹*

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ۴۰* اس سے جوڑا بنایا مرد اور عورت۔ ۴۱*

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم سے پہلے لا(نہیں ) کسی ایسی بات کی تردید کے لیے آتا ہے جو اس بات کے خلاف ہو جس کے لیے قسم کھائی جا رہی ہے۔ مثلاً لا واللہ( نہیں۔ اللہ کی قسم) ایسے موقع پر کہا جاتا ہے جب کسی شخص کے کسی خیال کی تردید کرتے ہوئے اپنی بات کو تاکید کے ساتھ پیش کرنا مقصود ہو۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اس آیت میں منکرینِ قیامت کے اس خیال کی کہ جزا و سزا کا معاملہ پیش نہیں آئے گا تردید کرتے ہوئے قیامت کے دن کو امر یقینی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم قیامت کا کتنا ہی انکار کرو اس کا ظہور میں آنا قطعی ہے اور ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  انسان جب کسی برائی یا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا نفس اسے ملامت کرنے لگتا ہے مثال کے طور پر کسی کے ساتھ ناروا سلوک کرنے یا اس پر ظلم کرنے یا جھوٹ بولنے یا فضول خرچی کرنے پر انسان کا ضمیر اگر وہ بالکل مردہ نہیں ہو گیا ہے اسے ضرور ٹوکتا ہے کہ یہ کام تو نے غلط کیا اور اس پر وہ اسے ملامت کرتا ہے۔ قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل تو کر دیا لیکن اس کے بعد وہ پچھتا یا کہ یہ کام اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح نفس کا برائی پر ملامت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بھلائی اور برائی میں تمیز کرنا انسان کی فطرت میں ودیعت ہوا ہے اور وہ اپنے اعمال کے بارے میں اپنے رب کے حضور جوابدہ ہے۔ برائی کے ارتکاب پر وہ سزا کا مستحق ہے اور بھلائی پر اچھی جزا کا۔ نفسِ انسانی کی یہ صفت روزِ جزا کی شہادت پیش کرتی ہے۔ اگر جزا و سزا کا معاملہ پیش آنے والا نہ ہوتا اور انسان اپنے اعمال کے لیے ذمہ دار نہ ہوتا تو برائی کے ارتکاب پر اس کا نفس اسے ملامت نہ کرتا اور نہ کسی دوسرے شخص کے ظلم کرنے پر اس کا نفس اس ظالم کو ملامت کرتا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  منکرینِ قیامت کا بہت بڑا شبہ یہ تھا کہ جب انسان کا جسم مرنے کے بعدسڑگل جاتا ہے اور وہ بوسیدہ ہڈیاں ہو کر رہ جاتا ہے اور ہڈیاں بھی بکھر جاتی ہیں تو پھر ان کو کس طرح جمع کر کے جسم کی تشکیل کی جاسکے گی۔ اور اس کو زندہ انسان بنایا جائے گا؟ یہ شبہ دراصل اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہ کرنے کی بنا پر پیدا ہو رہا تھا اس لیے اس شبہ کو دور کرنے کے لیے یہ سوال کیا گیا کہ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کر نے پر قادر نہیں ہیں ؟ ظاہر ہے اللہ کی قدرت کا یہ محدود تصور سراسر غلط ہے اور یہ چیز مشاہدہ میں آتی رہتی ہے کہ اللہ منتشر اجزا کو جمع بھی کر دیتا ہے اور ایک بے جان چیز میں جان بھی ڈال دیتا ہے۔ پھر مردہ انسان کے منتشر اجزاء کو جمع کرنا اور اس کو دوبارہ زندہ کرنا اس کے لیے کیا مشکل ہے ؟

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ہڈیوں کو جمع کر کے دوبارہ ان کا ڈھانچہ کھڑا کر دینے ہی پر نہیں بلکہ انسان کے جسم کے ایک ایک جزء کو یہاں تک کہ اس کی انگلیوں کے پور تک جو بہت نازک ہوتے ہیں دوسری مرتبہ ٹھیک ٹھیک پیدا کرنے پر ہم قادر ہیں۔ انسان کا جسم جیسا تھا ویسا ہی اسے قیامت کے دن عطا یا جائے گا تاکہ جس جسم سے اعمال کا صدور ہوا تھا وہی جسم اعمال کی نوعیت کے مطابق جزا یا سزا پائے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی روز جزا کا انکار کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ جو بد اعمالیاں کرتا رہا ہے آئندہ بھی کرتا رہے اور ایک پابند آئین زندگی اسے گزارنا پڑے کیونکہ فسق و فجور میں دنیا کی لذتیں ہیں جبکہ متقیانہ زندگی میں صبر کی خشکی ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  سوال قیامت کی تاریخ کے بارے میں تھا لیکن جواب میں قیامت کے احوال پیش کئے جا رہے ہیں کیونکہ جس طرح موت کا آنا یقینی ہے جبکہ اس کی تاریخ کسی کو معلوم نہیں ہوتی اس طرح قیامت کا آنا بھی یقینی ہے اگرچہ اس کی تاریخ سوائے اللہ کے کسی کو نہیں معلوم۔ اس لیے اصل بات جس کی ہر شخص کو فکر کرنا چاہیے یہ ہے کہ جب قیامت آئے گی تو یہ حادثہ کتنا زبردست ہو گا اور اس روز آدمی کس طرح نجات پاسکے گا؟ قرآن نے جواب میں اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔

 

قیام جب برپا ہو گی تو اس کی ہولناکیاں ایسی زبردست ہوں گی کہ انسان ان کو دیکھنے کی تاب نہ لاسکے گا۔ سورۂ ابراہیم میں بھی یہ مضمون گزر چکا کہ : اِنَّما یؤَخِّرُہُمْ لِیوْمٍ تَشْخَصُ فِیہِ الْاَبْصَارُ۔ ’’ وہ تو ان کو اس دن تک کے لیے مہلت دے رہا ہے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔‘‘( ابراہیم: ۴۲)

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  قیامت کے دن چونکہ سورج کی چادر لپیٹ دی جائے گی جیسا کہ سورۂ تکویر میں ارشاد ہوا ہے : اِذاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ( جب سورج لپیٹ دیا جائے گا) تو چاند بے نور ہو کر رہ جائے گا گویا کہ اسے گہن لگ گیا ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  اس وقت چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر ہیں لیکن قیامت جب برپا ہو گی تو یہ توازن برقرار نہیں رہے گا۔ سورج اور چاند دونوں اکٹھے ہو جائیں گے۔ ان کے اکٹھا ہونے کی کیا صورت ہو گی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی آج تو انسان قیامت کے بارے میں غیر ضروری سوالات میں الجھ رہا ہے لیکن جب وہ گھڑی نمودار ہو گی تو انسان اس کی ہولناکیوں کو دیکھ کر بھاگنا چاہے گا۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  مگر بھاگنے کے لیے اسے کوئی جائے پناہ نہ مل سکے گی۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اللہ کے حضور پیشی ہو گی۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  آگے بھیجنے سے مراد انسان کے اچھے اور برے اعمال ہیں جن کے نتائج آخرت میں ظاہر ہوں گے اور پیچھے چھوڑنے سے مراد وہ اعمال ہیں جو اسے دنیا میں کرنا چاہیے تھے لیکن اس نے نہیں کئے اور آخرت کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے قاصر رہا۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان اپنے آپ پر حجت ہے۔ اس کا وجدان پکار پکار کر کہتا ہے کہ وہ ایک اخلاقی ذمہ داری رکھنے والی مخلوق ہے۔ بھلائی اور برائی دونوں کے اثرات و نتائج الگ الگ ہیں اور یہ کہ وہ اپنے رب کے حضر اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہے۔ خارجی دلائل سے قطعِ نظر انسان کے نفس کی یہ داخلی شہادت جزا و سزا کی ایسی شہادت ہے جس سے کسی انسان کے لیے انکار ممکن نہیں۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جزا و سزا سے انکار کے لیے انسان بہانے بہت سے تراش سکتا ہے اور بہت کچھ سخن طرازیاں کرسکتا ہے لیکن جزا و سزا کا برحق ہونا اس پر بالکل روشن ہے کیونکہ اس کی فطرت کا نور اسی حقیقت کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  آیت ۱۶  تا ۱۹ جملۂ معترضہ کے طور پر ہیں یعنی سلسلہ کلام کو کاٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بر وقت ایک ہدایت دی گئی ہے۔ آپ جیسا کہ بخاری کی روایت ہے جبرائیل علیہ السلام سے وحی حاصل کرنے میں جلدی کرتے اور آیتوں کو اپنی زبان سے دہراتے تاکہ کوئی بھول نہ ہو۔ اس موقع پر آپ کو ہدایت دی گئی کہ وحی اخذ کرنے کے لیے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جبرائیل کی زبان سے وحی کو پہلے پوری طرح سن لیں اس کے بعد اس کو دوہرائیں۔اس طرح آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ وحی کے معاملہ میں کوئی بھول آپ سے نہیں ہو گی کیونکہ قرآن کو آپ کے سینہ میں محفوظ کرا دینے کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔

 

ایک سلسلۂ کلام میں دوسری بات کا ذکر بظاہر بے ربط ہوتا ہے لیکن خطابت میں جب موقع کی مناسبت سے یا ضرورتاً کوئی دوسری بات کہی جاتی ہے تو اس کا کوئی اثر ربطِ کلام پر نہیں پڑتا۔ امام رازی نے اس بات کو بڑی اچھی مثال سے واضح کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک استاد جب اپنے شاگرد کو سبق پڑھا رہا ہو اور شاگرد ادھر ادھر دیکھنے لگے تو استاد درس کے دوران شاگرد سے کہتا ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھ اور پھر سبق پڑھاتا ہے۔ اب اگر یہ سبق اس جملۂ معترضہ کے ساتھ نقل کیا جائے تو جملۂ معترضہ کی وجہ جس کو معلوم نہیں ہو گی وہ درس کے دوران کی اس بات کو مناسب خیال کرے گا لیکن جس کو صورتِ واقعہ معلوم ہو وہ اس کلام کو حسنِ ترتیب پر محمول کرے گا۔( التفسیر الکبیر ج ۲۹ ص ۲۲۳)

 

اور حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دورانِ وحی یہ ہدایت دینا کہ آپ اس کو اخذ کرنے میں جلدی نہ کریں قرآن کے اپنی اصل شکل میں محفوظ ہونے کا ثبوت ہے کہ اگر سلسلۂ کلام کو کاٹ کر کوئی بات اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمائی ہے تو وہ بھی بعینہ نقل ہوئی ہے۔ اگر قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تصنیف کردہ ہوتا تو اس میں یہ باتیں موجود نہ ہوتیں۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  جمع کر دینے سے مراد قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی تالیف ہے حسنِ ترتیب کے ساتھ۔ اور پڑھا دینے سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کو صحت کے ساتھ ادا کرا دینا ہے۔ ان دونوں باتوں کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا تھا ادا کرا دینا ہے۔ ان دونوں باتوں کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا تھا چنانچہ قرآن جس کتابی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے وہ اللہ ہی کا ترتیب دیا ہوا ہے اور کلام کی اندرونی شہادت بھی یہی ہے کہ یہ اللہ ہی کی تالیف و ترتیب ہے کیونکہ نظمِ کلام پر غور کرنے سے کتنے ہی اسرار منکشف ہوتے ہیں۔

 

موجودہ زمانہ میں بعض تجدد پسند لوگوں نے قرآن کو اس کی نزولی ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہیں کیونکہ نزول ترتیب کو پوری تفصیل اور قطعیت کے ساتھ جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے بہ تقاضائے حکمت اپنی کتاب کو نزولی ترتیب کے بجائے ایک دوسری ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے تو کسی کو کیا حق ہے کہ وہ اس کی ترتیب کو بدل دے ؟

 

یہاں اس غلط فہمی کا بھی ازالہ ہو جانا چاہیے کہ قرآن کو خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یا خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جمع کیا تھا ورنہ اس سے پہلے وہ ایک مرتب کتاب کی شکل میں موجود نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں اللہ کی ہدایت کے مطابق مرتب ہو گیا تھا چنانچہ نماز میں اسی ترتیب کے ساتھ آیتیں اور سورتیں پڑھی جاتی تھیں اور حدیث میں آتا ہے کہ رمضان میں حضرت جبرائیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات فرماتے اور آپ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے ( بخاری کتاب الوحی) یہ دور ظاہر ہے کہ ایک مرتب کتاب ہی کا ہو سکتا ہے۔ حضرت ابوبکر نے جو خدمت انجام دی وہ یہ تھی کہ قرآن کے جو اجزاء مختلف کاتبانِ وحی کے پاس موجود تھے ان کو انہوں نے جمع کرا دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے جو اجزاء لکھواتے رہے وہ متعدد صحابہ کے پاس موجود تھے۔ ان کتاب شدہ اجزاء کو جمع کرنے کا کام حضرت ابوبکر نے چند صحابہ کے سپرد کیا اور انہوں نے ان کو جمع کیا اور آیات اور سورتوں کی ترتیب وہی رکھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے چلی آ رہی تھی۔ بالفاظ دیگر قرآن اسی ترتیب کے ساتھ جو متداول ہے حفاظ کے سینوں میں محفوظ تھا اور نماز میں اسی طرح پڑھا جاتا تھا البتہ اس کے کتابت شدہ اجزاء کو مصحف کی شکل میں جمع کرنے کا کام حضرت ابوبکر نے انجام دیا۔ رہا حضرت عثمان کا قرآن کو جمع کرنا تو وہ اس اعتبار سے تھا کہ انہوں نے قریش کے عربی تلفظات کی رعایت کرتے ہوئے مصحف کی کتابت کروائی اور اسے رائج کر دیا۔ قرآن کے بعض الفاظ کا تلفظ مختلف قبائل میں مختلف تھا جس سے معنی کا کوئی فرق واقع نہ ہوتا تھا لیکن ان کے دور میں جب عجمیوں کی کثرت ہو گئی تلفظ کا یہ اختلاف مسئلہ بن گیا اس لیے حضرت عثمان نے ان کے فرق کو مٹایا اور ایک ہی قرأت پر سب کو جمع کر دیا اور اس کے مطابق قرآن کے نسخے تیار کر کے ان کی اشاعت عمل میں لائی گئی۔ تلفظ کے فرق کی مثال لفظ ’ مصطر‘ ہے جو سورۂ غاشیہ آیت ۲۲ میں آیا ہے۔ اس کا تلفظ ’ص‘ سے بھی کیا جاسکتا ہے اور ’س ‘ سے بھی۔ اسی لیے اس لفظ کے اوپر چھوٹا ’س‘ لکھ دیا جاتا ہے مگر اس سے معنی کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی جبر کرنے والا۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  وحی اگرچہ حضرت جبرائیل لے کر نازل ہوتے تھے لیکن کلام چونکہ اللہ تعالیٰ کا تھا اس لیے جبرائیل کی قرأت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قرأت سے تعبیر فرمایا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب جبرائیل وحی نازل کر چکیں تب اے نبی! تم اس کی قرأت کرو۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مزید اطمینان کی بات فرمائی کہ آیات کا مدعا واضح کرنا بھی اللہ کے ذمہ ہے لہٰذا اس پہلو سے بھی فکر کی کوئی بات نہیں۔چنانچہ قرآن میں کتنی آیتیں ایسی ہیں جو بطور تیئین( توضیح و تشریح) نازل ہوئی ہیں نیز آپ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی نازل ہوئی تھی جس میں تفصیلی احکام وغیرہ دئیے گئے ہیں جو احادیثِ صحیحہ میں محفوظ ہیں۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں سے سلسلۂ کلام پھر اسی بات کی طرف مڑتا ہے جو جملۂ معترضہ سے پہلے چلی آ رہی تھی۔ کلاّ( ہرگز نہیں ) کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ۔ یوم جزا کا انکار اس بنا پر نہیں کر تے کہ اس کی دلیل واضح نہیں ہے۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  جزا و سزا کی حجت تو تمہارے اپنے نفس میں بھی موجود ہیں لیکن تمہارے انکار کی اصل وجہ دنیا کی محبت اور نقد حاصل ہونے والا فائدہ ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ آخرت کا فائدہ ادھار ہے ادھار کی خاطر نقد فائدہ کو کون چھوڑ دے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ دنیا کا فائدہ بہت مختصر اور عارضی ہے اور آخرت کا فائدہ بہت بڑا اور مستقل ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ روزِ جزا پر ایمان لا کر نیک عمل کرنے والے لوگوں کے چہرے ہوں گے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ قیامت کے دن کامیاب ہونے والے لوگ اپنے رب کو دیکھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہوں گے۔ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عِیاناً ’’تم عنقریب اپنے رب کو کھلی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔‘‘(بخاری کتاب التوحید)

 

اور اس سلسلہ میں دوسری حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔ اور علامہ ابن کثیر نے متعدد حدیثیں نقل کر کے لکھا ہے کہ اللہ کی رویت مومنین کو قیامت کے دن ہو گی۔ اس مسئلہ پر صحابہ تابعین اور اس امت کے سلف کا اتفاق ہے نیز ائمہ اسلام کے درمیان بھی یہ متفق علیہ بات ہے۔

 

(تفسیر ابن کثیر ج  ۴ ص ۴۵۰ )

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ کافروں کے چہرے ہوں گے اور اپنے جرم کی وجہ سے ان پر اداسی چھائی ہوئی ہو گی۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کو کڑی سزا ملنے والی ہے جو ان کی کمر توڑ کر رکھ دے گی۔ بالفاظ دیگر ناقابلِ برداشت مصیبت ان پر ٹوٹ پڑے گی۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تم لوگوں کا یہ خیال کہ آدمی مر کر بالکل فنا ہو جاتا ہے ہرگز صحیح نہیں۔ موت کے بعد جسم توسڑگل جاتا ہے لیکن روح باقی رہتی ہے اور جسم سے جدا ہوتے ہی اپنے رب کی طرف چلی جاتی ہے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ جاں کنی کی حالت کا نقشہ ہے جو پیش کیا گیا ہے تاکہ انسان میں یہ احساس پیدا ہو کہ اسے بہر حال ایک دن مرنا ہے اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کرنا ہے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  لوگ جب کسی مریض کو آخری حالت میں دیکھ لیتے ہیں اور علاج معالجہ سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں تو جھاڑ پھونک کرنے والے کو بلاتے ہیں تاکہ اس تدبیر سے اسے افاقہ ہو۔ مگر جب موت کا وقت آ جاتا ہے تو کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ چونکہ عربوں میں جھاڑ پھونک کا رواج تھا اس لیے اس کا خاص طور سے حوالہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ اسلام نے جھاڑ پھونک ( رُقیہ) کو جس میں مشرکانہ کلمات ہوتے ہیں حرام اور باطل قرار دیا اور شفا یابی کے لیے دعائیہ کلمات کی تعلیم دی جن میں توحید کا اقرار اور اللہ پر توکل کا اظہار ہے۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی آدمی کو یقین ہو گا کہ اس کے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آ پہنچا۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اس کی بے بسی کی تصویر ہے اپنی جن ٹانگوں کے ذریعہ وہ سرگرمیاں دکھاتا تھا وہ موت کے وقت اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی روح جسم سے پرواز کر کے اپنے رب کے پاس پہنچ جائے گی۔ مراد عالم برزخ میں پہنچنا ہے جو کافروں کی روحوں کے لیے بمنزلہ حوالات( قید خانہ) ہے۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اب اس شخص کی عملی زندگی کی تصویر پیش کی جا رہی ہے کہ وہ دنیا سے رخصت ہو رہا ہے تو اپنے ساتھ کیا لے کر رخصت ہو رہا ہے۔ روزِ جزا کو اس نے سچ نہیں مانا تھا اور نہ اللہ کی عبادت سے اسے کوئی سروکار رہا چنانچہ اس نے نماز جیسے اہم ترین فریضہ سے بے اعتنائی برتی۔

 

واضح ہوا کہ روزِ جزا پر ایما ن لانے کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے اور قرآن کافروں کا یہ حال بتاتا ہے کہ وہ نماز کے تارک ہوتے ہیں لیکن موجودہ دور میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بے نمازی ہے۔ اگر وہ قرآن کی ان آیتوں کو غور سے پڑھیں تو چونک جائیں اور نماز کی انہیں توفیق ہو۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔  جھٹلایا آخرت کو اور منہ موڑا اللہ کی عبادت و اطاعت سے۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی یہ اس کا گھمنڈ ہے جو قبول حق سے اسے روک رہا ہے۔ ایسا شخص نصیحت کا کوئی اثر قبول نہیں کرتا بلکہ اس سے منہ موڑ کر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیتا ہے اور اپنی خوشحالی پر نازاں ہوتا ہے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔  ’اَولیٰ لَکَ‘ جیسا کہ جو ہری نے صراحت کی ہے تہدید اور وعید کا کلمہ ہے۔ اصل میں یہ وَلِی سے ہے جس کے معنی قریب ہونے کے ہیں۔ اصمعی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں ہلاک کرنے والی چیز قریب ہو گئی۔ یعنی مصیبت نازل ہو گئی۔( الصحاح للجوھری ج ۶ ص ۲۵۳۰)

 

ان دو آیتوں میں اس شخص کی اس روش پر افسوس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ کلمہ چار مرتبہ آیا ہے جو اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ ایسے شخص کے لیے ہلاکت پر ہلاکت ہے۔ دنیا میں بھی ہلاکت اور عالم برزخ میں بھی ہلاکت پھر میدانِ حشر میں بھی ہلاک اور انجامِ کار دوزخ جہاں ہمیشہ کے لیے ہلاکت میں رہنا ہے۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مومنوں نوٹ ۱۰۲۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان کا گھمنڈ اور دوسری زندگی سے اس کا انکار کس بنیاد پر ہے ؟ وہ اپنی اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ وہ منی کی ایک حقیر بوند تھا جسے رحم میں ڈالنے کا عمل انسان نے کیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی تخلیق مختلف مراحل سے گزار کر کی۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حج نوٹ ۹  اور سورۂ مومنون نوٹ ۱۴۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی خون کے تھِکّے کو جسمِ انسانی کی شکل دی اور پھر اس کے نوک پلک درست کئے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مزید برآں۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔  جوڑا بنانا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اس کے خالق نے اس کو حکمت و مصلحت اور ایک منصوبہ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔

 

٭٭٭٭٭