دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ النّبَإِ

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

اس سورہ کا نام النَباَ ہے جس کے معنی اہم خبر کے ہیں۔ مراد قیامات اور دوبارہ اُٹھائے جانے  کی خبر ہے یہ نام اس سورہ کی آیت ؀ ۲  سے  ماخوذ ہے۔

 

 

زمانۂ نزول

 

سورہ مکی ہے اور ابتدائی آیات  ہی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سورہ اس وقت کی تنزیل ہے جبکہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے  اہل مکہ کو قیامت کے آنے اور جزا و سزا کے واقع ہونے کی خبر دی تھی۔ جس کے نتیجہ میں اس موضوع پر ایک بحث اُٹھ کھڑی ہوئی تھی اور قیامت کو ناممکن قرار دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا جا رہا تھا۔ ظاہر ہے یہ حالات دعوت کے پہلے مرحلہ ہی میں پیش آۓ تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

اس سورہ کا مرکزی مضمون قیامت کے دن عدالت خداوندی کا برپا ہونا اور انسانوں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ؀ ۱     تا ؀ ۵   میں ان لوگوں کو سرزنش کی گئ ہے جو قیامت کے عظیم اور ہولناک واقعہ کی خبر سن کر  اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ گویا قیامت کی خبر ان کے نزدیک کسی سنجیدہ غور و فکر کی مستحق نہیں ہے۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جبکہ قیامت واقعہ کی صورت میں ان کے سامنے آ نمودار  ہوگی اور فرما نروائے کا ئنات کے حضورجوابدہی کے لۓ حاضر ہوں گے۔

 

آیت  ۶   تا  ۱۶   میں اﷲ کی قدرت، ربوبیت اور حکمت کی نشانیاں بیان کی گئ ہیں۔ جو زندگی اور موت کے نہ صرف ممکن الوقوع ہونے پر دلالت کرتی ہیں بلکہ اس بات کی بھی شہادت دیتی ہیں کہ روز جزا ضروری ہے کیونکہ یہ اﷲ کی ربوبیت اور حکمت کا عین تقاضا ہے۔

 

آیت  ۱۷   تا  ۲۰   میں بتایا گیا ہے کہ روز جزا کا ظہور مقررہ وقت پر ہوگا۔  اور تمام انسان زندہ ہو کر عدالت خداوندی کی طرف چل پڑیں گے ۔  آیت  ۲۱   تا  ۳۰   میں سرکشوں کا انجام بیان کیا گیا ہے اور آیت  ۳۱  تا  ۳۶  میں خدا خوفی کے ساتھ زندگی گزارنے والوں کا۔

 

آیت  ۳۷  تا  ۴۰  خاتمہ کلام ہے جس میں عدالت خداوندی میں حاضری کی تصویر کھینچی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ لوگ باطل شفاعت کے بل پر جوابدہی سے نہیں بچ سکتے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ کس چیز کے  بارے میں  پوچھ گچھ کر رہے ہیں؟

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس بڑی خبر *۱ کے بارے میں۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے متعلق یہ مختلف باتیں کر رہے ہیں *۲

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ انکی باتیں غلط ہیں انھیں عنقریب معلوم ہو جاۓ گا۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سن لو انکے خیالات باطل ہیں وہ جلد ہی جان لینگے*۳۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ *۴۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑوں کو میخیں؟ *۵

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا تم کو جوڑوں کی شکل میں پیدا نہیں کیا؟ *۶

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا تمھاری نیند کو باعث سکون؟ *۷

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  رات کو لباس ۔*۸

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دن کو وقت معاش نہیں بنایا؟ *۹

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان نہیں بنائے۔  *۱۰

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  ایک روشن چراغ پیدا نہیں کیا؟ *۱۱

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا ہم نے بادلوں سے موسلا دھار پانی نہیں برسایا؟ *۱۲

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تا کہ اُُگائیں اسکے ذریعہ غلہ اور  نباتات ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور گھنے باغ۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ بیشک فیصلہ کا دن ایک  مقرر وقت ہے۔ *۱۳

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تو تم آؤ گے فوج در فوج۔ *۱۴

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان کھول دیا جاۓ گا تو اسمیں دروازے ہی دروازے ہو جائیں گے۔ *۱۵

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور  پہاڑ چلاۓ جائیں گے تو وہ سراب بن کر رہ جائیں گے ۔*۱۶

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک ! جہنم گھات میں ہے ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ سر کشوں کا ٹھکانہ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں وہ مدّتوں  پڑے رہیں گے۔  *۱۸

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں وہ نہ کسی قسم کی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ پینے کی چیز کا۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بجز گرم پانی اور پیپ کے۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے کرتوتوں کا ٹھیک ٹھیک بدلہ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حساب کی امید نہ رکھتے تھے ۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہماری آیتوں کو یکسر جھٹلا دیا تھا۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ درانحالیکہ ہم نے ہر چیز کو لکھ کر ضبط کر رکھا تھا۔ *۱۹

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تو چکھو ! اب ہم تمھارے عذاب ہی میں اضافہ کریں گے۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یقیناً متقیوں *۲۰ کے لئے  کامیابی ہے۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ باغ اور انگور،

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نو خیز ہمسن لڑکیاں،

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چھلکتے جام ،*۲۱

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں وہ نہ کو لغو بات سنیں گے اور نہ  جھوٹی بات ۔*۲۲

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ  تمھارے رب کی طرف سے جزا ہوگی اور کافی انعام۔ *۲۳

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی طرف سے جو آسمانوں اور زمین اور اس کے درمیان کی ساری چیزوں کا مالک ہے۔ رحٰمن۔               

 

جس سے بات کرنے کا کسی کو یارا  نہیں ۔*۲۴

 

 ۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن روح ۲۵ *(الامین) اور فرشتے صف بستہ کھڑے  ہوں گے. کوئ بات نہ کر سکے گا سواۓ اس کے جسے رحٰمن اجازت دے اور وہ بالکل درست بات کہے گا۔ *۲۶

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دن بر حق *۲۷ ہے۔ تو جو چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانہ بنا لے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تمھیں ایک ایسے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے جو قریب آ لگا ہے ۔*۲۸

 

جس دن آدمی دیکھ لیگا کہ اس نے آگے کیلۓ کیا کیا ہے *۲۹ اور کافر کہے گا  کاش میں مٹی ہوتا۔ *۳۰

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  بڑی خبر سے مراد قیامت اور  روز جزا کے  واقع ہونے کی خبر ہے۔  قرآن نے جب یہ خبر سنائی تاکہ لوگ متنبہ ہوکر ذمہ دارانہ زندگی گزاریں تو مشرکین مکہ اس کا مذاق اُڑانے اور اس کے خلاف آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ آیت کا اشارہ ان کی انہی چہ میگوئیوں کی طرف ہے۔ 

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مشرکین مکہ کے خیالات روز جزا اور آخرت کے بارے میں مختلف تھے۔  وہ انسان کے دوبارہ اُٹھاۓ جانے کو سرے سے ممکن ہی نہیں سمجھتے تھے۔  وہ کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟  کچھ لوگوں کے نزدیک آخرت کا تصور کوئی معقول بات  نہیں تھی.  وہ کہتے تھے " زندگی تو بس دنیا کی زندگی ہے مرنے کے بعد ہمیں اُٹھایا نہیں جائے گا "۔  اور کچھ لوگ آخرت کے بارے میں شک اور تذبذب میں مبتلا تھے۔  اُن کے یہ خیالات کسی دلیل پر مبنی نہیں تھے بلکہ یہ محض اٹکل پچو باتیں تھیں۔

 

واضح  رہے کہ قیامت اور روز جزا سے انکار کے معاملہ میں مشرکین عرب منفرد نہ تھے بلکہ جہاں تک دیگر مشرکانہ مذاہب کا تعلق ہے وہ بھی نہایت اُلجھی ہوئی باتیں پیش کرتے ہیں۔ جس کا اندازہ درج ذیل اقتباسات سے ہوگا:ّ

 

Extract From The Encyclopaedia Of Religion And Ethics, Volume V:

 

Hindu: “Although in the Rigveda the clear statement of Judgment is found and Yama appears mainly as King of the region of bliss, yet he is to some extent an object of terror, and dark underground hell is spoken of the fate of evil-doers (iv 5.5 vii 104.3  ix 73.8). . . . . the later views differ widely from this thought.  The gradual introduction of the belief  in transmigration while Yama is now the judge of the dead. . . . .  In Upanishads re-birth in various conditions, in heaven, on earth appears as the result of ignorance of the true end of existence. . . . . Hinduism in all its forms endorses this view.  All go to Yama over a dreadful road in which the pious fare better than the wicked.  Yama or Dharma judges and allots the fate.  Through endless existences and re-birth in human, animal, or plant forms - - alternated with lives in the heavens or hells, the soul must pass.

 

Buddhist:  In Buddhism the idea of karma afforded an automatic principle of judgment, whereby the person after death entered upon an existence, higher or lower, according to his actions.  At death, the force resulting from actions combined with clinging to existence causes creation of the five skandhas or constituent elements of being.  This is so swift that there is hardly any break in the continuity or personality, which is thus re-created in one of the six states – Gods, man, asuras, animals, plants, pretas or inhabitants of one of the hells. (p. 375)

 

لیکن ان  تمام اُلجھی ہوئی باتوں کے باوجود یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس دنیا کا ایک دن خاتمہ ہونا ہے اور موجودہ سائنس اس کی تائید کرتی  ہے چنانچہ انسائیکلوُپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگار آگے چل کر لکھتا ہے :۔

 

 Conclusion:  The ideas regarding the end of the world which are found in most eschatologies may be regarded as mythical speculation prompted by knowledge of actual catastrophes in Nature and of its phenomena.  The world as science teaches and as the speculations of men suggested must have an end;  but they pictured that end in lurid colours, while generally anticipating after it a new order.” (p. 391)

 

قرآن جزائے عمل کے لئے ایک نئے  نظام عمل کے ساتھ نئے عالم کے برپا کئے جانے کی خبر کو محض اندھے عقیدہ  (Dogma) کے طور پر نہیں بلکہ آفاق و انفس کی نشانیوں (عقلی دلائل) کے ساتھ اتنے دلنشیں پیرایہ میں پیش کرتا ہے کہ کسی قسم کے شک ، شبہ اور اختلاف کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں اور  ضمیر پکار اُٹھتا ہے کہ روز جزا کا برپا کیا جانا نہ صرف ممکن بلکہ ضروری ہے اور قرآن آگے بڑھ کر پوری قطعیت کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ یوم جزا لازما برپا ہوگا۔   

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ وقت دور نہیں جب اُنھیں معلوم ہو جائے گا کہ روز جزا کے بارے میں ان کی قیاس آرائیاں غلط تھیں۔ یہ حقیقت موت کے آتے ہی عالم  برزخ میں جو قیامت تک کے لئےروحوں کا ٹھکانہ ہے ان پر کھل جائے گی اور پھر قیامیت کے دن جب کہ تمام انسانوں کو جسم سمیت دوبارہ اُٹھا کھڑاکیا جائے گا وہ اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ کریں گے  کَلا سَیَعلَمُونَ (انھیں عنقریب معلوم ہو جائے گا) کی تکرار ان دو مواقع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  کرہَ زمین اگرچہ کہ فضا میں معلق ہے  اور سورج کے گرد گردش بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کوئی اضطراب نہیں ہے نیز اس کی سطح کو اس طرح پھیلا دیا گیا ہے کہ اس پر آبادی ممکن ہوئی۔  بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص انسان کو بسانے ہی کے لئے زمین کو فرش بناکر ان تمام چیزوں کا انتظام کیا گیا ہے جو انسانی زندگی کے لئے مطلوب ہے۔ گویا زمین پر انسان کو بسانے کا کام ایک منصوبہ کے تحت عمل میں آیا ہے۔ کیا اسمیں اﷲ کی ربوبیت اور حکمت کی کھلی نشانی موجود نہیں ہے ؟

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دینے سے اس کی رفتار اور گردش میں توازن پیدا ہو گیا ہے اور اضطراب کی کیفیت نہیں رہی۔  مزید براں پہاڑوں سے انسانوں کو طرح طرح کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً دریاؤں کی شکل میں پانی کے ذخائر  وغیرہ۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  ایسا نہیں ہوا کہ صرف مرد پیدا کر دیئے گئے ہوں یا عورتیں ہی عورتیں پیدا کر دی گئی ہوں۔  بلکہ مرد اور عورت کے جوڑے  کی شکل میں انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے۔ اس جوڑے کا ہر فرد اپنی جسمانی اور نفسانی خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہے لیکن یہ اختلاف ان میں تضاد اور مخالفت نہیں بلکہ توافق اور مودّت پیدا کر دیتا ہے گویا وہ ایک دوسرے سے مِل کر مکمل ہو جاتے ہیں۔ کیا انسنا کی تکمیل کا یہ سامان اپنے اندر اﷲ کی ربوبیت اور حکمت کی کوئی نشائی نہیں رکھتا ؟

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  نیند انسان کی تکان کو دور کرتی ہے اور اس کے بعد تازہ دم ہو جاتا ہے۔  اگر نیند کا داعیہ اﷲ تعالٰے نے انسان کی فطرت کے اندر نہ رکھا ہوتا تو مسلسل محنت کرنے سے اس کے قویٰ جواب دیدیتے اور وہ پُر سکون زندگی گزارنے کے قابل نہ رہتا۔ انسان کو آرام اور سکون بہم پہنچانے کا یہ انتظام کس قدر حیرت انگیز ہے۔ کیا یہ بھی کسی اتفاقی حادثہ کا نتیجہ ہے یا ایک مدبّر کا حکیمانہ منصوبہ ؟

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  اگر زمین پر دن ہی دن ہوتا تو انسان کے تحفظ اور راحت کا سامان نہیںہو سکتا تھا۔ آفتاب کی مسلسل تمازت انسان کو سکون و راحت سے محروم کر دیتی۔ لیکن اﷲ تعالٰے نے زمین کو ایک ایسے قانون میں جکڑ ہے کہ وہ اپنے محور پر برابر گردش کرتی رہتی ہے جس سے رات اور دن کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔  اس طرح رات کی چادرانسان کو اپنے اندر اسی طرح چھپا لیتی ہے جس طرح کہ لباس۔ کیا زمین کے پیچھے جو اس عظیم مقصد کو لئے ہوئےہے کسی مدبّر کا ہاتھ کارفرما نہیں ہے ؟  

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  اگر زمین پر رات ہی رات ہوتی تو معاشی دوڑ دھوپ اور گزر بسر کے لئے وہ سازگاری انسان کو ہرگز میسّر نہ آتی جس کی بنا پر وہ ایک بہترین مخلوق کی حیثیت سے زندگی گزار رہا ہے اور اقتصادی ترقی کے لئے بےشمار راہیں اس پر کھل گئی ہیں۔ کیا یہ اﷲ کی ربوبیت کا کرشمہ نہیں ہے ؟

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی  اﷲ کی پیدا کردا کائنات  کی وسعت کا اندازہ اس سے کر سکتے ہو کہ حدّ نظر تک دکھائی دینے والا آسمان صرف آسمانِ اوّل ہے۔ ایسے سات آسمان اﷲ تعالٰے نے پیدا کئے ہیں، اور اجرام سماوی کو مستحکم بنایا ہے کہ ایک طویل زمانہ گزر جانے کے باوجود ان میں شکست و ریخت کے کوئی آثار پیدا نہیں ہوئے  اور  اسکے حسن و جمال میں ذرہ برابر فرق واقع نہیں ہوا۔  نیز قوانین قدرت کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کہیں سے  کوئی رخنہ پیدا نہیں ہو سکتا۔  اگر آسمان کا نظام مضبوط نہ بنایا گیا ہوتا تو زمین کا نظام ہرگز قائم نہیں رہ سکتا تھا۔  کیا اس میں اﷲ کی قدرت، ربوبیت اور حکمت کی عظیم نشانیاں موجود نہیں ہیں ؟

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  سورج کو ایسا روشن بنایا گیا ہے کہ اس کی روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی ۔ موجودہ سائنس کی روشنی میں سورج کو دیکھئے تو  کملات خداوندی کے پہلو اور روشن ہو کر سامنے آئیں گے سورج کا درجہ حرارت ایک کڑوڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ وہ زمین سے ایک سو گنا سے زائد بڑا ہے۔ اسے زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلے پر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے زمین پر نہ بے انتہا گرمی ہوتی ہے نہ بے انتہا سردی۔ بلکہ زندہ مخلوق کے لئے جو درجہ حرارت مطلوب ہے ٹھیک وہی درجہ حرارت یہاں رہتا ہے اور سورج کی اسی حرارت سے بارش بھی ہوتی ہے اور فصلیں بھی پکتی ہیں۔ پھر کیا تمھیں اس روشن چراغ سے بھی اﷲ کی قدرت اور ربوبیت کے بارے میں کوئی روشنی نہیں ملتی ؟      

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  بادلوں کے ذریعہ انسانی آبادیوں کو وافر پانی مہیا کرنے کا انتظام اور اس کے ذریعہ غلّہ اور سبزی کی پیداوار اور گھنے باغوں کا اُگ جانا جس سے انسان کی رزق رسانی کا سامان ایک تسلسل کے ساتھ ہو رہا ہے۔  کیا انسان کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی نہیں ہے؟  کیا اس کے پیچھے ایک ایسی ہستی کا ہاتھ دکھائی نہیں دیتا جو اس کی پروش کا پورا پورا انتظام کر رہی ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ہے وہ بات جس پر اوپر کے مضمون آیت  ۶   تا  ۱۶    میں استدلال کیا گیا ہے۔  استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ فیصلہ کا دن (Day of Judgment   (  ایک  امر قطعی ہے اور اس کے وقوع کا وقت بھی بالکل مقرر ہے۔ مشرکین مکہ اس کو ماننے سے اس بناء  پر انکار کر رہے تھے کہ اس سے انسان کا دوبارہ اُٹھایا جانا لازم آتا ہے جو ان کے نزدیک ایک ناممکن بات تھی۔ چناچہ وہ کہتے تھے کہ انسان جب مر کر مٹی میں مل گیا تو اسے دوبارہ کس طرح زندہ کیا جا سکتا ہے۔  وہ اپنی تنگ ذہنیت کی بنا پر  اﷲ کی قدرت و حکمت کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر تھے۔  اس لئے عقل کو اپیل کرنے والا انداز اختیار کیا گیا۔  اور فیصلہ کے دن پر اﷲ کی قدرت اور اس کی ربوبیت و حکمت سے استدلال کیا گیا۔  جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ زمین  یہ آسمان اور یہ طرح طرح کی نعمتیں جن سے تمھاری زندگی وابستہ ہے کس بات کی شہادت دے رہی ہیں؟  کیا اس بات کی کہ ان کا خالق نہایت محدود قدرت والا ہے اور اس کے کاموں میں مقصدیت کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں چلتا اور اس کائنات کے اجزا بلکل بے ترتیب ہیں اور یہ پورا کارخانہ (Un systematic )  معلوم ہوتا ہے ؟  

 

یا یہ کہ آفاق و انفس کے  یہ آثار اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ تمھارا خالق زبردست  قدرت کا مالک ہے اور نہ صرف زبردست قدرت کا مالک ہے بلکہ ساتھ ہی وہ ربوبیت اور حکمت کی صفات سے بھی متصف ہے۔  اﷲ کو ان صفات سے متصف مان لینے کے بعد روز جزا کو مان لینے میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا بلکہ ان صفات کا لازمی تقاضا قرار پاتا ہے کہ روز جزا برپا ہو۔ جب یہ واضح ہوا کہ اﷲ زبردست قدرت کا مالک ہے پھر اس کے لئے مردہ کو زندہ کرنا نہایت آسان بات ہے اس کے ناممکن ہونے کا کیا سوال ؟  اور پھر جو ہستی انسان کو ربوبیت کا سامان اس اہتمام کے ساتھ کر رہی ہو اور جس نے ان گنت نعمتوں سے اسے نوازا ہو وہ اپنی ان نعمتوں کا حساب اس سے کیوں نہ لے گی اور اپنے وفادار بندوں کو انعام کا مستحق اور سرکشوں کو مستحق سزا کیوں نہ ٹھہرائے گی ؟   اس کی حکمت کا ظہور اس کائنات کی ایک ایک چیز سے ہو رہا ہے۔ اس کا ہر کام دانائی پر مبنی اور منصوبہ بند ہے۔ پھر کیا یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ انسان ہی کی تخلیق بے مقصد ہوئی ہے۔ اسے مرکر مٹی میں مل جانا ہے اور اس کے بعد کچھ نہیں، نیک و بد میں کوئی تمیز  نہیں۔  اﷲ تعا لٰے کو ماننے والے اور اس سے  کفر کرنے والے  اس کے اطاعت شعار اور اس کے نافرمان سب برابر ہیں۔  نہ کسی کو انعام  ملنا ہے اور نہ کسی کو سزا۔ اﷲ کی عدالت کوئی عدالت ہی نہیں جہاں جوابدہی کے لئے  حاضری کا سوال ہو کیا اس قسم کی باتیں تمھاری عقل میں سماتی ہیں اور اس کی صفت حکمت سے کوئی مناسبت رکھتی ہیں۔  واقعہ یہ ہے کہ اﷲ تعٰالٰے کی جس حکمت کا مشاہدہ انسان اپنے اِرد گرد پھیلی ہوئی دنیا میں کرتا ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ یوم جزا برپا ہو۔ اس سے قرآن کی اس خبر کی بھی مکمل تائید ہوتی ہے کہ جزا کا ایک دن مقرر ہے۔  اس روز تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے فرمانرواۓ کائنات کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔   

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن بگل بجاتے ہی سارے مردہ انسان زندہ ہوکر عدالت خداوندی میں حاضر ہونے کے لئے نکل پڑیں گے ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  عالم بالا کی حقیقتیں آج انسان کی نظروں سے چھپی ہوئی ہیں لیکن قیامت کے دن انسان آسمان کے کھل جانے سے ان کا مشاہدہ کرے گا۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ قیامت کے دن اس دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ یہ زمین ایک چٹیل میدان کی شکل اختیار کرلے گی۔ جہاں تمام لوگوں کو اکھٹا کرکے عدالت برپا کی جائے گی۔ بڑے بڑے پہاڑ فضا میں اُڑ رہے ہوں گے اور ان کی جگہ ریت کا میدان ہوگا میدان حشر میں ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ اس سے قیامت کے دن کی ہولناکی، زمین کی ساخت میں عظیم تبدیلیوں کے رونما ہو جانے اور میدان حشر کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔   

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  خدا کے سرکش بندے دنیا میں خداسے بے خوف ہوکر زندگی گزارتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے عذاب اور خطرہ کی کوئی بات نہیں ہے۔  لیکن قیامت کے دن جہنم اس طرح ظاہر ہوگی جیسے وہہ گھات ہی میں تھی اور وہ اس میں ایسے پھنسیں گے کہ پھر کبھی اس سے نکل نہ سکیں گے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایک دور کے بعد دوسرا دور اس طرح وہ مسلسل عذاب ہی میں رہیں گے۔ اتنی سخت سزا اس لئے کہ انھوں نے اﷲ کی بندگی کی جگہ اﷲ سے سرکشی کا رویّہ اختیار کیا۔  اپنے محسن حقیقی کی ناشکری کرتے رہے  اور روز جزا کو ماننے اور اس کے مطابق ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کے لئے کسی طرح آمادہ نہیں ہوئے۔  لہذا جو بیج انھوں نے بویا تھا اسی کے پھل وہ کاٹتے رہیں گے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے اعمال کا ریکارڈ ہم تیار کر رہے تھے۔  گویا ہر شخص کی زندگی کی مکمل بولتی فلم تیار  کی جارہی تھی جس میں اقوال و افعال ہی نہیں نیتوں تک کو ریکارڈ کیا جا رہا تھا اور یہ اس خام خیالی میں مبتلا رہے کہ اپنی من مانی کرنے کے لئے بالکل آزاد ہیں اور ان کے اعمال کا کوئی ریکارڈ تیار  نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ انھیں نہ کوئی ایسا کیمرہ  دکھائی دیتا تھا جو ان کی عملی زندگی کی تصویر کھینچ رہا ہو اور نہ کوئی ٹیپ ریکارڈر جو ان کی باتوں کے کیسٹ کر رہا ہو۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں متقین کا لفظ طاغین (سرکش) کے مقابلہ میں استعمال کیا گیا ہے۔  یعنی وہ لوگ جو اﷲ اور یوم پر ایمان رکھتے ہیں اس کی آیات کو مانتے ہیں اور اسی طور سے زندگی گزارتے ہیں کہ انھیں اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہے۔ 

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد شراب طہور کے جام ہیں۔ 

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔   یعنی جنت کا ماحول نہایت پاکیزہ ہوگا۔ سوسائٹی بھی پاک اور کھانے پینے کی تمام اشیاء بھی پاک۔ یہاں تک کہ وہاں کی شراب بھی دنیوی شراب کی طرح نہیں ہوگی کہ آدمی پی کر بکواس کرنے لگے۔ بلکہ وہ نہایت پاکیزہ ہوگی اور اس سے ایسے سرور کی کیفیت پیدا ہوگی جس میں بیہودگی کا کوئی عنصر نہ ہوگا۔ اسی طرح وہاں دوسری لغویات اور تماشے بھی نہیں ہوں گے اور نہ جھوٹ و افتراء پردازیوں کا وجود ہوگا۔ بلکہ وہ ایک سنجیدہ اور پُر مسرت ماحول ہوگا جہاں ہر طرف اخلاق اور شرافت ہی کے نمونے دکھائی دیں گے۔ 

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  متقیوں کو ان کے نیک اعمال کی صرف جزا دینے ہی پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اﷲ تعالٰی انھیں اپنی طرف سے کافی انعامات سے بھی نوازے گا۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن جب خداوند کائنات اپنی عدالت برپا کرے گا تو اس عدالت کے رعب کا عالم یہ ہوگا کہ کوئی اس کے حضور زبان کھولنے کی جراءت نہ کر سکے گا۔ اس سے مشرکین کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ ان کے دیوی دیوتا جو چاہیں خدا سے منوا سکیں گے۔ 

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  روح سے مراد روح الامین یعنی جبریل ہیں۔  فرشتوں کے سردار ہونے کی حیثیت سے ان کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے اور بتلانا یہ مقصود ہے کہ روز قیامت جب اﷲ عدالت برپا فرمائے گا تو فرشتے حتی کہ جبریل بھی صف بستہ کھڑے ہوں گے۔  سب پر ہیبت طاری ہوگی اور کسی کی یہ مجال نہوگی کہ بلا اجازت بول سکے۔ 

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  مقصود سفارش کے غلط تصور  کی تردید ہے جس میں اہل مذاہب گرفتار ہیں۔  جہاں تک مشرکین کا تعلق ہے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر قیامت آ ہی گئی اور اعمال کی جوابدہی کے لئے خدا کی عدالت میں حاضر ہونا پڑا تو یہ دیوی دیوتا جنکی پوجا کرتے رہے ہیں ہمارے سفارشی بن کر کھڑے ہوں گے اور ہمیں عذاب سے نجات دلواکے رہیں گے۔  لیکن قرآن بتلاتا ہے کہ اول تو کسی "دیوی دیوتا" کا آخرت میں وجود ہی نہیں ہوگا سب اﷲ کے عاجز بندے کی حیثیت سے پیش ہوں گے اور سارے اختیارات اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہوں گے اور عدالت خداوندی کے رعب کا عالم یہ ہوگا کہ مقرب ترین فرشتے بات کرنے کی جراءت نہ کریں گے۔ اگر سفارش کے لئے کوئی زبان کھول سکے گا تو وہی جس کو اﷲ اجازت دے اور اس صورت میں وہ ٹھیک اور  درست بات ہی کہے گا اور مشرکین کے لئے سفارش کوئی بھی نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ ایسے لوگوں کے حق میں سفارش کرنا اﷲ کے اس فیصلے کی بناء پر کہ جو ناقابل معافی  جرم کے مرتکب ہی ہوءے درست بات نہ ہوگی۔ اﷲ کی اجازت کے بعد کسی کی سفارش کے لئے کوئی زبان کھولے گا بھی تو صرف ایسے گنہگار بندوں کے لئے جو  اہل ایمان ہوں اور جن کے حق میں اﷲ سفارش قبول کرنا  پسند فرماۓ۔ لہذا کوئی شخص اس خام خیالی میں مبتلا نہ رہے کہ وہ خواہ شرک و کفر کا مرتکب کیوں نہ ہوا ہو اور خواہ اس نے ایک سرکش کی حیثیت سے زندگی کیوں نہ گزاری ہو اور خواہ اس نے ایک سرکش کی حیثیت سے زندگی کیوں نہ گزاری ہو کسی نہ کسی کے طفیل اسکی نجات ہو جائیگی۔ 

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جزا کا دن قیاس و اٹکل کی بات نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت اور واقعہ ہے جس کی خبر پوری صداقت کے ساتھ تمھیں دی جا رہی ہے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  قریب اس اعتبار سے کہ دنیا کی بیشتر عمر گزر چکی ہے اب قیامت کے آنے میں جو وقت باقی رہ گیا ہے وہ بہت تھوڑاہے ویسے بھی وقت ایک اضافیی چیز ہے۔ قیامت کے دن جب کہ زمان و مکان کے پیمانے بدل جائیں گے۔ انسان نے جو وقت دنیا میں گزارا تھا اسے بہت تھوڑا معلوم ہوگا۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  انسان دنیا میں اچھے بُرے جو کام بھی کرتا ہے اس کا لازماً ایک اثر اور ایک نتہجہ ہے جو دوسری زندگی (آخرت) میں مرتب ہوگا۔  اس حقیقت کو  مَا قَدَّمَت یَدَاہُ ( جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ) کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ انساں کا ہر عمل اس کے اپنے ہاتھوں بیج بونے کے متراوف ہے جس کے پھل وہ آنے والی زندگی میں کاٹے گا۔ 

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جو لوگ روز جزا کو ماننے اور اس کی بنیاد پر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے سے انکار کر رہے ہیں وہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ یوم جزا برپا ہوگا اور انسان اپنے کرتوت اپنے سامنے دیکھ لے گا۔ تو ایسے لوگوں کے حصہ میں سواءے حسرت اور پچھتاوے کے کچھ نہیں آئے گا۔ اس وقت ہر منکر آخرت کو احساس ہوگا کہ کاش وہ مر کر مٹی میں مل گیا ہوتا اور حساب دینے کی نوبت ہی نہ آتی۔

 

٭٭٭٭٭