٢۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اشراف قریش بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ابن ام مکثوم جو نابینا تھے، تشریف لے آئے اور آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دین کی باتیں پوچھنے لگے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر کچھ ناگواری محسوس کی اور کچھ بے توجہی سی برتی۔ چنانچہ تنبیہ کے طور پر ان آیات کا نزول ہوا (ترندی، تفسیر سورہ عبس)
٣۔ یعنی وہ نابینا تجھ سے دینی رہنمائی حاصل کر کے عمل صالح کرتا، جس سے اس کا اخلاق و کردار سنور جاتا، اس کے باطن کی اصلاح ہو جاتی اور تیری نصیحت سننے سے اس کو فائدہ ہوتا۔
٥۔ ایمان سے اور اس علم سے جو تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ یا دوسرا ترجمہ جو صاحب ثروت و غنا ہے۔
٨۔ اس بات کا طالب بن کر آتا ہے کہ تو خیر کی طرف اس کی رہنمائی کرے اور اسے واعظ نصیحت سے نوازے۔
٩۔ خدا کا خوف بھی اس کے دل میں ہے۔
١٠۔ یعنی ایسے لوگوں کی قدر افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان سے بے رخی برتنے کی۔ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بے حیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔
١١۔ یعنی غریب سے یہ روگردانی اور اصحاب حیثیت کی طرف خصوصی توجہ، یہ ٹھیک نہیں۔ مطلب ہے کہ، آئندہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔
١٢۔ یعنی جو اس میں رغبت کرے، وہ اس سے نصیحت حاصل کرے، اور اسے یاد کرے اور اس پر عمل کرے اور جو اس سے منہ پھیرے، جیسے اشراف قریش نے کیا، تو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
١٣۔ یعنی لوح محفوظ میں، کیوں کہ وہیں سے یہ قرآن اترتا ہے کہ یہ صحیفے اللہ کے ہاں بڑے محترم ہیں کیوں کہ وہ علم و حکم سے پر ہیں۔
١٥۔ یعنی اللہ اور رسول کے درمیان ایلچی کا کام کرتے ہیں۔ یہ قرآن سفیروں کے ہاتھوں میں ہے جو اسے لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔
١٦۔ یعنی خلق کے اعتبار سے وہ کریم یعنی شریف اور بزرگ ہیں اور افعال کے اعتبار سے وہ نیکوکار اور پاکباز ہیں۔
١٩۔ یعنی جس کی پیدائش ایسے حقیر قطرہ آب سے ہوئی ہے، کیا اسے تکبر زیب دیتا ہے۔
٢٠۔ یعنی خیر اور شر کے راستے اس کے لئے واضح کر دیئے، بعض کہتے ہیں اس سے مراد ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔
٢٣۔ یعنی معاملہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ کافر کہتا ہے۔
٢٤۔ کہ اسے اللہ نے کس طرح پیدا کیا، جو اس کی زندگی کا سبب ہے اور کس طرح اس کے لئے اسباب معاش مہیا کئے تاکہ وہ ان کے ذریعے سعادت اُخروی حاصل کر سکے۔
٣٣۔ یعنی قیامت وہ ایک نہایت سخت چیخ کے ساتھ واقع ہو گی جو کانوں کو بہرہ کر دے گی۔
٣٧۔ یا اپنے اقربا اور احباب سے بے نیاز اور بے پروا کر دے گا حدیث میں آتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سب لوگ میدان محشر میں ننگے بدن ننگے پیر، پیدل اور بغیر ختنے کئے ہوئے ہوں گے۔
٣٩۔ یہ اہل ایمان کے چہرے ہوں گے، جنہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے، جس سے انہیں اپنی اُخروی سعادت و کامیابی کا یقین ہو جائے گا، جس سے ان کے چہرے خوشی سے ٹمٹماتے رہے ہوں گے۔
٤١۔ یعنی ذلت اور عذاب سے ان کے چہرے غبار آلود، کدورت زدہ اور سیاہ ہوں گے۔
٤٢۔ یعنی اللہ کا، رسولوں کا اور قیامت کا انکار کرنے والے بھی تھے اور بدکردار بداطوار بھی۔