تفسیر ابنِ کثیر

سورة عَبَسَ

تبلیغ دین میں فقیر و غنی سب برابر

بہت سے مفسرین سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک مرتبہ قریش کے سرداروں کو اسلامی تعلیم سمجھا رہے تھے اور مشغولی کے ساتھ ان کی طرف متوجہ تھے دل میں خیال تھا کہ کیا عجب اللہ انہیں اسلام نصیب کر دے ناگہاں حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے، پرانے مسلمان تھے عموماً حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور دنیا سلام کی تعلیم سیکھتے رہتے تھے اور مسائل دریافت کیا کرتے تھے، آج بھی حسب عادت آتے ہی سوالات شروع کئے اور آگے بڑھ بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ اس وقت ایک اہم امر دینی میں پوری طرح مشغول تھے ان کی طرف توجہ نہ فرمائی بلکہ ذرا گراں خاطر گزرا اور پیشانی پر بل پڑ گئے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بلند شان اور اعلیٰ اخلاق کے لائق یہ بات نہ تھی کہ اس نابینا سے جو ہمارے خوف سے دوڑتا بھاگتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں علم دین سیکھنے کے لئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے منہ پھیر لیں اور ان کی طرف متوجہ ہیں جو سرکش ہیں اور مغرور و متکبر ہیں، بہت ممکن ہے کہ یہی پاک ہو جائے اور اللہ کی باتیں سن کر برائیوں سے بچ جائے اور احکام کی تعمیل میں تیار ہو جائے، یہ کیا کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان بے پرواہ لوگوں کی جانب تمام تر توجہ فرما لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کوئی ان کو راہ راست پر لا کھڑا کرنا ضروری تھوڑے ہی ہے؟ وہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں نہ مانیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ان کے اعمال کی پکڑ ہرگز نہیں، مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین میں شریف و ضعیف، فقیر و غنی، آزاد و غلام، مرد و عورت، چھوٹے بڑے سب برابر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم سب کو یکساں نصیحت کیا کریں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے، وہ اگر کسی کو راہ راست سے دور رکھے تو اس کی حکمت وہی جانتا ہے جسے اپنی راہ لگا لے اسے بھی وہی خوب جانتا ہے، حضرت ابن ام مکتوم کے آنے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مخاطب ابی بن خلف تھا اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم ابن ام مکتوم کی بڑی تکریم اور آؤ بھگت کیا کرتے تھے (مسند ابو یعلی) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے ابن ام مکتوم کو قادسیہ کی لڑائی میں دیکھا ہے، زرہ پہنے ہوئے تھے اور سیاہ جھنڈا لئے ہوئے تھے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب یہ آئے اور کہنے لگے کہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم مجھے بھلائی کی باتیں سکھایئے اس وقت رؤساء قریش آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیم جلس میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف پوری توجہ نہ فرمائی انہیں سمجھاتے جاتے تھے اور فرماتے تھے کہو میری بات ٹھیک ہے وہ کہتے جاتے تھے ہاں حضرت درست ہے، ان لوگوں میں عتبہ بن ربیعہ، ابوجہل بن ہشام، عباس بن عبدالمطلب تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بڑی کوشش تھی اور پوری حرص تھی کہ کس طرح یہ لوگ دین حق کو قبول کر لیں ادھر یہ آ گئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ و سلم قرآن پاک کی کوئی آیت مجھے سنایئے اور اللہ کی باتیں سکھایئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت ان کی بات ذرا بے موقع لگی اور منہ پھیر لیا اور ادھر ہی متوجہ رہے، جب ان سے باتیں پوری کر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر جانے لگے تو آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا اور سر نیچا ہو گیا اور یہ آیتیں اتریں، پھر تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور پوری توجہ سے کان لگا کر ان کی باتیں سنا کرتے تھے آتے جاتے ہر وقت پوچھتے کہ کچھ کام ہے کچھ حاجت ہے کچھ کہتے ہو کچھ مانگتے ہو؟ (ابن جریر وغیرہ) یہ روایت غریب اور منکر ہے اور اس کی سند میں بھی کلام ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ بلال رات رہتے رہئے اذان دیا کرتے ہیں تو تم سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو یہ وہ نابینا ہیں جن کے بارے میں عبس وتولی ان جاء الاعمی اتری تھی، یہ بھی موذن تھے بینائی میں نقصان تھا جب لوگ صبح صادق دیکھ لیتے اور اطلاع کرتے کہ صبح ہوئی تب یہ اذان کہا کرتے تھے (ابن ابی حاتم) ابن ام مکتوم کا مشہور نام تو عبد اللہ ہے بعض نے کہا ہے ان کا نام عمرو ہے، واللہ اعلم، انھا تذکرہ یعنی یہ نصیحت ہے اس سے مراد یا تو یہ سورت ہے یا یہ مساوات کہ تبلیغ دین میں سب یکساں ہیں مراد ہے، سدی کہتے ہیں مراد اس سے قرآن ہے، جو شخص چاہے اسے یاد کر لے یعنی اللہ کو یاد کرے اور اپنے تمام کاموں میں اس کے فرمان کو مقدم رکھے، یا یہ مطلب ہے کہ وحی الٰہی کو یاد کر لے، یہ سورت اور یہ وعظ و نصیحت بلکہ سارے کا سارا قرآن موقر معزز اور معتبر صحیفوں میں ہے جو بلند قدر اور اعلیٰ مرتبہ والے ہیں جو میل کچیل اور کمی زیادتی سے محفوظ اور پاک صاف ہیں، جو فرشتوں کے پاس ہاتھوں میں ہیں اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاکیزہ ہاتھوں میں ہے۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد قاری ہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ نبطی زبان کا لفظ ہے معنی ہیں قاری، امام ابن جریر فرماتے ہیں صحیح بات یہی ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان سفیر ہیں، سفیر اسے کہتے ہیں کہ جو صلح اور بھلائی کے لیے لوگوں میں کوشش کرتا پھرے، عرب شاعر کے شعر میں بھی یہی معنی پائے جاتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس سے مراد فرشتے ہیں جو فرشتے اللہ کی جانب سے وحی وغیرہ لے کر آتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے لوگوں میں صلح کرانے والے سفیر ہوتے ہیں، وہ ظاہر باطن میں پاک ہیں، وجیہ خوش رو شریف اور بزرگ ظاہر میں، اخلاق و افعال کے پاکیزہ باطن میں۔ یہاں سے یہ بھی معلوم کرنا چاہیے کہ قرآن کے پڑھنے والوں کو اعمال واخلاق اچھے رکھنے چاہئیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو قرآن کو پڑھے اور اس کی مہارت حاصل کرے وہ بزرگ لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا اور جو باوجود مشقت کبھی پڑھے اسے دوہرا اجر ملے گا۔

 

۱۷

ریڑھ کی ہڈی اور تخلیق ثانی

جو لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے انکاری تھے ان کی یہاں مذمت بیان ہو رہی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں یعنی انسان پر لعنت ہو یہ کتنا بڑا نا شکر گزار ہے اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ عموماً تمام انسان جھٹلانے والے ہیں بلا دلیل محض اپنے خیال سے ایک چیز کو ناممکن جان کر باوجود علمی سرمایہ کی کمی کے جھٹ سے اللہ کی باتوں کی تکذیب کر دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے اس جھٹلانے پر کونسی چیز آمادہ کرتی ہے؟ اس کے بعد اس کی اصلیت جتائی جاتی ہے کہ وہ خیال کرے کہ کس قدر حقیر اور ذلیل چیز سے اللہ نے اسے بنایا ہے کیا وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھا؟ اس نے انسان کو منی کے قطرے سے پیدا کیا پھر اس کی تقدیر مقدر کی یعنی عمر روزی عمل اور نیک و بد ہونا لکھا۔ پھر اس کے لیے ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ آسان کر دیا اور یہ بھی معنی ہیں کہ ہم نے اپنے دین کا راستہ آسان کر دیا یعنی واضح اور ظاہر کر دیا جیسے اور جگہ ہے اِنَّا ھَدَیناَ ہُ السَّبیل اِمَّا شاکِرًا وَّاِمَّاکَفُورًا یعنی ہم نے اسے راہ رکھائی پھر یا تو وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا، حسن اور ابن زید اسی کو راحج بتاتے ہیں واللہ اعلم۔ اس کی پیدائش کے بعد پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں لے گیا۔ عرب کا محاورہ ہے کہ وہ جب کسی کو دفن کریں تو کہتے ہیں۔ قبرتُ الرَّجُلَ اور کہتے ہیںاَقبَرُہُ اللّٰہ اسی طرح کے اور بھی محاورے ہیں مطلب یہ ہے کہ اب اللہ نے اسے قبر والا بنا دیا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے ودبارہ زندہ کر دے گا، اسی کی زندگی کو بعثت بھی کہتے ہیں اور نشور بھی، جیسے اور جگہ ہے وَمِن اٰیَاتِہٖ اَن خَلَقَکُم مِن تُرابٍ ثُمَ اِذَا اَنتُم بَشَرُ تَنتَشِرُونَ۔ اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا پھر تم انسان بن کر اٹھ بیٹھے اور جگہ ہے کَیفَ تُنشِزُھَا ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے بٹھاتے ہیں، پھر کس طرح انہیں گوشت چڑھاتے ہیں ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ انسان کے تمام اعضاء وغیرہ کو مٹی کھاجاتی ہے مگر ریڑ ھ کی ہڈی کو نہیں کھاتی، لوگوں نے کہا وہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رائی کے دانے کے برابر ہے اسی سے پھر تمھاری پیدائش ہو گی۔ یہ حدیث بغیر سوال و جواب کی زیادتی کے بخاری مسلم میں بھی ہے کہ ابن آدم گل سڑ جاتا ہے مگر ریڑھ کی ہڈی کہ اسی سے پیدا کیا گیا ہے اور اسی سے پھر ترکیب دیا جائے گا۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح یہ نا شکرا اور بے قدر انسان کہتا ہے کہ اس نے اپنی جان و مال میں اللہ کا جو حق تھا وہ ادا کر دیا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ابھی تو اس نے فرائض اللہ سے بھی سبکدوشی حاصل نہیں کی۔ حضرت مجاہد کا فرمان ہے کہ کسی شخص سے اللہ تعالیٰ کے فرائض کی پوری ادائے گی نہیں ہو سکتی۔ حسن بصری سے بھی ایسے ہی معنی مروی ہیں متقدمین میں سے میں نے تو اس کے سوا کوئی اور کلام نہیں پایا، ہاں مجھے اس کے یہ معنی معلوم ہوتے ہیں کہ فرمان باری کا یہ مطلب ہے کہ پھر جب چاہے دوبارہ پیدا کرے گا، اب تک اس کے فیصلے کے مطابق وقت نہیں آیا۔ یعنی ابھی ابھی وہ ایسا نہیں کرے گا یہاں تک کہ مدت مقررہ ختم ہو اور بنی آدم کی تقدیر پوری ہو، ان کی قسمت میں اس دنیا میں آنا اور یہاں برابھلا کرنا وغیرہ جو مقدر ہو چکا ہے۔ وہ سب اللہ کے اندازے کے مطابق پورا ہو چکے اس وقت وہ خلاق کل دوبارہ زندہ کرے گا اور جیسے کہ پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اب دوسری دفعہ پھر پیدا کر دے گا، ابن ابی حاتم میں حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عزیز علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ قبریں زمین کا پیٹ ہیں اور زمین مخلوق کی ماں ہے جب کہ کل مخلوق پید اہو چکے گی پھر قبروں میں پہنچ جائے گی اور قبریں سب بھر جائیں گی اس وقت دنیا کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور جو بھی زمین پر ہوں گے سب مرجائیں گے۔ اور زمین میں جو کچھ ہے اسے زمین اگل دے گی اور قبروں میں جو مردے ہیں سب باہر نکال دئیے جائیں گے یہ قول ہم اپنی اس تفسیر کی دلیل میں پیش کرسکتے ہیں۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ میرے اس احسان کو دیکھیں کہ میں نے انہیں کھانا دیا اس میں بھی دلیل ہے موت کے بعد جی اٹھنے کی کہ جس طرح خشک غیر آباد زمین سے ہم نے تروتازہ درخت اگائے اور ان سے اناج وغیرہ پیدا کر کے تمھارے لیے کھانا مہیا کیا اسی طرح گلی سڑی کھوکھلی اور چورا چورا ہڈیوں کو بھی ہم ایک روز زندہ کر دیں گے اور انہیں گوشت پوست پہنا کر دوبارہ تمھیں زندہ کر دیں گے، تم دیکھ لو کہ ہم نے آسمان سے برابر پانی برسایا پھر اسے ہم نے زمین میں پہنچا کر ٹھہرادیا وہ بیج میں پہنچا اور زمین میں پڑے ہوئے دانوں میں سرایت کی جس سے وہ دانے اگے درخت پھوٹا اونچا ہوا اور کھیتیاں لہلہانے لگیں، کہیں اناج پیدا ہوا کہیں انگور اور کہیں ترکاریاں۔ حب کہتے ہیں کہ ہر دانے کو عنب کہتے ہیں انگور کو اور قضب کہتے ہیں اس سبز چارے کو جسے جانور کھاتے ہیں اور زیتون پیدا کیا جو روٹی کے ساتھ سالن کا کام دیتا ہے جلایا جاتا ہے تیل نکالا جاتا ہے اور کھجوروں کے درخت پید اکئے جو گدرائی ہوئی بھی کھائی جاتی ہے، تر بھی کھائی جاتی ہے اور خشک بھی کھائی جاتی ہیں اور پکی بھی اور اس کا شیرہ اور سرکہ بھی بنایا جاتا ہے اور باغات پیدا کئے۔ غلباً “کے معنی کھجوروں کے بڑے بڑے میوہ دار درخت ہیں۔ حدائق کہتے ہیں پر اس باغ کو جو گھنا اور خوب بھرا ہوا اور گہرے سائے والا اور بڑے درختوں والا ہو، موٹی گردن والے آدمی کو بھی عرب اغلب کہتے ہیں، اور میوہ پیدا کئے اور اب کہتے ہیں زمین کی اس سبزی کو جسے جانور کھاتے ہیں اور انسان اسے نہیں کھاتے، جیسے گھاس پات وغیرہ، اب جانور کے لیے ایسا ہی ہے جیسا انسان کے لیے فَاکَھَہ یعنی پھل، میوہ۔ عطائ کا قول ہے کہ زمین پر جو کچھ اگتا ہے اسے “اب” کہتے ہیں۔ ضحاک فرماتے ہیں سوائے میوؤں کے باقی سب اَبّ ہے۔ ابو السائب فرماتے ہیں اَبّ آدمے کے کھانے میں بھی آتا ہے اور جانور کے کھانے میں بھی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس بابت سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کونسا آسمان مجھے اپنے تلے سایہ دے گا اور کونسی زمین مجھے اپنی پیٹھ پر اٹھائے گی، اگر میں کتاب اللہ میں وہ کہوں جس کا مجھے علم نہ ہو لیکن یہ اثر منقطع ہے، ابراہیم تیمی نے حضرت صدیق کو نہیں پایا، ہاں البتہ صحیح سند سے ابن جریر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر سورہ عبس پڑھی اور یہاں تک پہنچ کر کہا کہ فاکھہ کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ اب کیا چیز ہے ؟ پھر خود ہی فرمایا اس تکلیف کو چھوڑ، اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی شکل و صورت اور اس کی تعیین معلوم نہیں ورنہ اتنا تو صرف آیت کے پڑھنے سے ہی صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ زمین سے اگنے والی ایک چیز ہے کیونکہ پہلے یہ لفظ موجود ہے، فَاَنبتنا فیما الخ، پھر فرمایا ہے تمھاری زندگی کے قائم رکھنے، تمھیں فائدہ پہنچانے اور تمھارے جانووں کے لیے ہے کہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہیگا اور تم اس سے فیض یاب ہوتے رہو گے۔

۳۳

ننگے پاؤں، ننگے بدن۔۔ پسینے کا لباس

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ صاخۃ قیامت کا نام ہے اور اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نفخہ کی آواز اور ان کا شور و غل کانوں کے پردے پھاڑ دے گا۔ اس دن انسان اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو دیکھے گا لیکن بھاگتا پھرے گا کوئی کسی کے کام نہ آئے گا، میاں بیوی کو دیکھ کر کہے گا کہ بتا تیرے ساتھ میں نے دنیا میں کیسا کچھ سلوک کیا وہ کہے گی کہ بیشک آپ نے میرے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا بہت پیار محبت سے رکھا یہ کہے گا کہ آج مجھے ضرورت ہے صرف ایک نیکی دے دو تاکہ اس آفت سے چھوٹ جاؤں، تو وہ جواب دے گی کہ سوال تھوڑی سی چیز کا ہی ہے مگر کیا کروں یہی ضرورت مجھے درپیش ہے اور اسی کا خوف مجھے لگ رہا ہے میں تو نیکی نہیں دے سکتی، بیٹا باپ سے ملے گا یہی کہے گا اور یہی جواب پائے گا، صحیح حدیث میں شفاعت کا بیان فرماتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اولو العزم پیغمبروں سے لوگ شفاعت کی طلب کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ نفسی نفسی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیہ صلوات اللہ بھی یہی فرمائیں گے کہ آج میں اللہ کے سوائے اپنی جان کے اور کسی کے لیے کچھ نہ کہوں گا میں تو آج اپنی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کیلئے بھی کچھ نہ کہوں گا جن کے بطن سے میں پیدا ہوا ہوں، الغرض دوست دوست سے رشتہ دار رشتہ دار سے منہ چھپاتا پھرے گا۔ ہر ایک آپا دھاپی میں لگا ہو گا، کسی کو دوسرے کا ہوش نہ ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں تم ننگے پیروں ننگے بدن اور بے ختنہ اللہ کے ہاں جمع کیے جاؤ گے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی صاحبہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پھر تو ایک دوسروں کی شرمگاہوں پر نظریں پڑیں گی فرمایا اس روز گھبراہٹ کا حیرت انگیز ہنگامہ ہر شخص کو مشغول کیے ہوئے ہو گا، بھلا کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کا موقعہ اس دن کہاں؟ (ابن ابی حاتم) بعض روایات میں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر اسی آیت کی تلاوت فرمائی لکل امری الخ دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیوی صاحبہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عہما تھیں اور روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فدا ہوں میں ایک بات پوچھتی ہوں ذرا بتا دیجئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر میں جانتا ہوں تو ضرور بتاؤں گا پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کا حشر کس طرح ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ننگے پیروں اور ننگے بدن تھوڑی دیر کے بعد پوچھا کیا عورتیں بھی اسی حالت میں ہوں گی؟ فرمایا ہاں۔ یہ سن کر ام المومنین افسوس کرنے لگیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عائشہ اس آیت کو سن لو پھر تمہیں اس کا کوئی رنج و غم نہ رہے گا کہ کپڑے پہنے یا نہیں؟ پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم وہ آیت کونسی ہے فرمایا لکل امری الخ، ایک روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ نے پوچھا یہ سن کر کہ لوگ اس طرح ننگے بدن ننگے پاؤں بے ختنہ جمع کیے جائیں گے پسینے میں غرض ہوں گے کسی کے منہ تک پسینہ پہنچ جائے گا اور کسی کے کانوں تک تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھ سنائی، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ وہاں لوگوں کے دو گروہ ہوں گے بعض تو وہ ہوں گے جن کے چہر خوشی سے چمک رہے ہوں گے دل خوشی سے مطمئن ہوں گے منہ خوبصورت اور نورانی ہوں گے یہ تو جتنی جماعت ہے دوسرا گروہ جہنمیوں کا ہو گا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے گرد آلود ہوں گے، حدیث میں ہے کہ ان کا پسینہ مثل لگا کے ہو رہا ہو گا پھر گردو غبار پڑا ہوا ہو گا جن کے دلوں میں کفر تھا اور اعما میں بدکاری تھی جیسے اور جگہ ہے ولا یلدوا الا فاجرا کفارا یعنی ان کفار کی اولاد بھی بدکار کافر ہی ہو گی۔ سورہ عبس کی تفسیر ختم ہوئی، فالحمد اللہ !