پہلے ہی لفظ عَبَسَ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزولمفسرین و محدّثین نے بالاتفاق اِس سُورہ کا سببِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجلس میں مکّہ معظمہ کے چند بڑے سردار بیٹھے ہوئے تھے اور حضورؐ اُن کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش فرما رہے تھے۔ اتنے میں ابنِ اُمِّ مکتوم نامی ایک نابینا حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ سے اسلام کے متعلق کچھ پوچھنا چاہا۔ حضورؐ کو ان کی یہ مداخلت ناگوار ہوئی اور آپؐ نے اُن سے بے رُخی برتی۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سُورہ نازل ہوئی۔ اِس تاریخی واقعہ سے اِس سُورہ کا زمانہ نزول بآسانی متعیّن ہو جاتا ہے۔
اوّلاً یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم بالکل ابتدائی دور کے اسلام لانے والوں میں سے ہیں۔ حافظ ابنِ حَجَر اور حافظ ابن کثیر تصریح کرتے ہیں اَسْلَمَ بِمَکَّۃَ قَدِیْماً، اور ھُوَ مِمَّنْ اَسْلَمَ قَدِیْماً، یعنی یہ اُن لوگوں میں سے تھے جو مکّہ معظمہ میں بہت پہلے اسلام لائے تھے۔
ثانیاً حدیث کی جن روایات میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے ان میں سے بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت وہ اسلام لا چکے تھے اور بعض سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی طرف مائل ہو چکے تھے اور تلاشِ حق میں حضورؐ کے پاس آئے تھے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اُنہوں نے آ کر عرض کیا تھا: یارسول اللہ، ارشدنی، ’’یارسول اللہ، مجھے سیدھا راستہ بتائے ‘‘(ترمذی، حاکم، ابن حبان، ابن جریر، ابو یعلیٰ)۔ حضرت عبداللہ بن عابس کی روایت ہے کہ وہ آ کر قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھنے لگے اور حضورؐ سے عرض کیا یارسول اللہ علّمنی ممّا علّمک اللہ، ’’ یارسول اللہ، مجھے وہ علم سکھائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے ‘‘(ابن جریر، ابن ابی حاتم)۔ اِن بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضورؐ کو خدا کا رسول اور قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کر چکے تھے۔ دوسری طرف ابنِ زید آیت کے ۳ الفاظ لَعَلَّہٗ یَزَّکّیٰ کا مطلب لَعَلَّہٗ یُسْلم ’’ شاید کہ وہ اسلام قبول کر لے ‘‘بیان کرتے ہیں (ابن جریر)۔ اور اللہ تعالیٰ کا اپنا یہ ارشاد بھی کہ ’’تمہیں کیا خبر، شاید وہ سُدھر جائے یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اُس کے لیے نافع ہو‘‘؟ اور یہ کہ ’’جو خود تمہارے پاس دوڑ آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اُس سے تم بے رُخی برتتے ہو‘‘ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اُس وقت اُن کے اندر طلبِ حق کا گہرا جذبہ پیدا ہو چکا تھا، وہ حضورؐ ہی کو ہدایت کا منبع سمجھ کر آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوئے تھے کہ اُن کی یہ طلب یہیں سے پُوری ہو گی، اور یہ بات ان کی حالت سے ظاہر ہو رہی تھی کہ انہیں ہدایت دی جائے تو وہ اس سے مستفید ہوں گے۔
ثالثاً حضورؐ کی مجلس میں جو لوگ اُس وقت بیٹھے تھے، مختلف روایات میں اُن کے ناموں کی صراحت کی گئی ہے۔ اس فہرست میں ہمیں عُتْبہ، شَیْبہ، ابو جہل، اُمیَّہ، اُبَیّ بن خلف جیسے بد ترین دشمنانِ اسلام کے نام ملتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ اُس زمانے میں پیش آیا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اِن لوگوں کا میل جول ابھی باقی تھا اور کشمکش اتنی بڑھی تھی کہ آپ کے ہاں اُن کی آمد و رفت اور آپ کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ بند ہو گیا ہو۔ یہ سب امور اس پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ سُورہ بہت ابتدائی زمانے کی نازل شُدہ سُورتوں میں سے ہے۔
بظاہر کلام کے آغاز کا اندازِ بیان دیکھ کر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ نا بینا سے بے رُخی برتنے اور بڑے بڑے سرداروں کی طرف توجہ کرنے کی بنا پر اِس سورہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر عتاب فرمایا گیا ہے۔ لیکن پُوری سُورۃ پر مجموعی حیثیت سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل عِتاب کفارِ قریش کے اُن سرداروں پر کیا گیا ہے جو اپنے تکبُّر اور ہٹ دھرمی اور صداقت سے بے نیازی کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تبلیغِ حق کو حقارت کے ساتھ رد کر رہے تھے، اور حضورؐ کو تبلیغ کا صحیح طریقہ بتانے کے ساتھ ساتھ اُس طریقے کی غلطی سمجھائی گئی ہے جو اپنی رسالت کے کام کی ابتدا میں آپ کو اختیار فرما رہے تھے۔ آپ کا ایک نابینا سے بے رُخی بر تنا اور سردارانِ قریش کی طرف توجہ کرنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ آپ بڑے لوگوں کا معزّز اور ایک بیچارے نابینا کو حقیر سمجھتے تھے، اور معاذ اللہ یہ کوئی کج خُلقی آپؐ کے اندر پائی جاتی تھی جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی۔ بلکہ معاملہ کی اصل نوعیت یہ ہے کہ ایک داعی جب اپنی عورت کا آغاز کرنے لگتا ہے تو فطری طور پر اس کا رُجحان اِس طرف ہوتا ہے کہ قوم کے با ثر لوگ اس کی دعوت قبول کر لیں تا کہ کام آسان ہو جائے، ورنہ عام بے اثر، معذور یا کمزور لوگوں میں دعوت پھیل بھی جائے تو اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑ سکتا۔ قریب قریب یہی طرز عمل ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اختیار فرمایا تھا جس کا محرّک سراسر اخلاص اور دعوتِ حق کو فروغ دینے کا جذبہ تھا نہ کہ بڑے لوگو ں کو تعظیم اور چھوٹے لوگوں کی تحقیر کا تخیُّل۔ لیکن اللہ تعالی ٰ نے آپ کو سمجھا یا کہ اسلامی دعوت کو صحیح طریقہ یہ نہیں ہے، بلکہ اِس دعوت کے نقطۂ نظر سے ہر وہ انسا ن اہمیت رکھتا ہے جو طالبِ حق ہو، چاہے وہ کیسا ہی کمزور، بے اثر، یا معذور ہو، اور ہر وہ شخص غیر اہم ہے جو حق سے بے نیازی برتے، خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی بڑا مقام رکھتا ہو۔ اس لیے آپ اسلام کی تعلیمات تو ہانکے پکارے سب کو سنائیں ، مگر آپ کی توجہ کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جن میں قبولِ حق کی آمادگی پائی جاتی ہو، اور آپ کی بلند پایہ دعوت کے مقام سے یہ بات فروتر ہے کہ آپ اِسے اُن مغرور لوگوں کے آگے پیش کریں جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں یہ سمجھتے ہوں کہ اُن کو آپ کی نہیں بلکہ آپ کو اُن کی ضرورت ہے۔
یہ آغاز سورہ سے آیت ۱۶ تک کا مضمون ہے۔ اس کے بعد آیت ۱۷ سے اسے براہِ راست عتاب کا رُخ ان کفار کی طرف پھر جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کو رد کر رہے تھے۔ اس میں پہلے اُس رویّے پر اُنہیں ملامت کی گئی ہے جو وہ اپنے خالق و رازق پروردگار کے مقابلے میں برت رہے تھے، اور آخر میں ان کو خبر دار کیا گیا ہے کہ قیامت کے روز وہ اپنی اس روش کا کیسا ہولناک انجام دیکھنے والے ہیں۔
1: اس پہلے فقرے کا اندازِ بیان عجیب لُطف اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر چہ بعد کے فقروں میں براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب فرمایا گیا ہے جس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ ترش روئی اور بے رُخی برتنے کا یہ فعل حضورؐ ہی سے صادر ہوا تھا، لیکن کلام کی ابتداء اِس طرح کی گئی ہے کہ گویا حضورؐ نہیں بلکہ کوئی اور شخص ہے جس سے اس فعل کا صدور ہوا ہے۔ اِس طرز بیان سے ایک نہایت لطیف طریقے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احساس دلایا گیا ہے کہ یہ ایسا کام تھا جو آپ کے کرنے کا نہ تھا۔ آپ کے اخلاقِ عالیہ کو جاننے والا اِسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ یہ آپ نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے جو اس رویّے کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جن نابینا کا یہاں ذکر کیا گیا ہے ان سے مراد، جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کرآئے ہیں، مشہور صحابی حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم ہیں ۔ حافظ ابن عبد الُبَرّ نے اَلْاِ ستیداب میں اور حافظ ابن حَجَر نے اَلْاِ صابَہ میں بیان کیا ہے کہ یہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے پھوپھی زاد بھائی تھے، ان کی ماں امِّ مکتوم اور حضرت خدیجہ کے والد خُو یَلْدِ آپس میں بہن بھائی تھے۔ حضورؐ کے ساتھ ان کا یہ رشتہ معلوم ہو جانے کے بعد اس شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ آپ نے اُن غریب یا کم حیثیت آدمی سمجھ کر ان سے بے رُخی برتی اور بڑے آدمیوں کی طرف توجہ فرمائی تھی، کیونکہ یہ حضورؐ کے اپنے برادر نسبتی تھے، خاندانی آدمی تھے، کوئی گِرے پڑے آدمی نہ تھے۔ اصل وجہ جس کی بنا پر آپؐ نے ان کے ساتھ یہ رویّہ اختیار کیا، لفظ اعمیٰ (نابینا) سے معلوم ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کی بے اعتنائی کے سبب کی حیثیت سے خود بیان فرما دیا ہے۔ یعنی حضورؐ کا خیال یہ تھا کہ میں اس وقت جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں اُ ن میں سے کوئی ایک آدمی بھی ہدایت پا لے تو اسلام کی تقویت کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے، بخلاف اس کے ابنِ مکتوم ایک نابینا آدمی ہیں، اپنی معذوری کے باعث یہ اسلام کے لیے اُس قدر مفید ثابت نہیں ہو سکتے جس قدر اِن سرداروں میں سے کوئی مسلمان ہو کر مفید ہو سکتا ہے، اِس لیے اِن کو اِس موقع پر گفتگو میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے یہ جو کچھ سمجھنا یا معلوم کرنا چاہتے ہیں اُسے بعد میں کسی وقت بھی دریافت کر سکتے ہیں۔
2: یہی ہے وہ اصل نکتہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تبلیغ دین کے معاملہ میں اِس موقع پر نظر انداز کر دیا تھا، اور اسی کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ابن امّ مکتوم ؓ کے ساتھ آپ کے طرزِ عمل پر گرفت فرمائی، پھر آپ کو بتایا کہ داعیِ حق کی نگاہ میں حقیقی اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے اور کس کی نہ ہونی چاہیے۔ ایک وہ شخص ہے جس کی ظاہری حالت صاف بتا رہی ہے کہ وہ طالبِ حق ہے، اِس بات سے ڈر رہا ہے کہ کہیں وہ باطل کی پیروی کر کے خدا کے غضب میں مبتلا نہ ہو جائے، اس لیے وہ راہ راست کا علم حاصل کرنے کی خاطر خود چل کر آتا ہے ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کا رویّہ صریحاً یہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں حق کی کوئی طلب نہیں پائی جاتی، بلکہ وہ اپنے آپ کو اس سے بے نیاز سمجھتا ہے کہ اُسے راہ راست بتائی جائے۔ اِن دونوں قسم کے آدمیوں کے درمیان دیکھنے کی چیز یہ نہیں ہے کہ کون ایمان لے آئے تو دین کے لیے مفید ہو سکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے فروغ میں کچھ زیادہ مفید نہیں ہو سکتا۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ہدایت کو قبول کر کے سُدھرنے کے لیے تیار ہے اور کون اِس متاعِ گراں ما یہ کا سرے سے قدر دان ہی نہیں ہے۔ پہلی قسم کا آدمی، خواہ اندھا ہو، لنگڑا ہو، لُولا ہو، فقیر بے نوا ہو، بظاہر دین کے فروغ میں کوئی بڑی خدمت انجام دینے کے قابل نظر نہ آتا ہو، بہر حال داعی حق کے لیے وہی قیمتی آدمی ہے، اُسی کی طرف اُسے توجہ کرنی چاہیے، کیونکہ اِس دعوت کا اصل مقصد بندگانِ خدا کی اصلاح ہے، اور اُس شخص کا حال یہ بتا رہا ہے کہ اُسے نصیحت کی جائے گی تو وہ اصلاح قبول کر لے گا۔ رہا دوسری قسم کا آدمی، تو خواہ وہ معاشرے میں کتنا ہی با اثر ہو، اُس کے پیچھے پڑنے کی داعی حق کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی روش علانیہ یہ بتا رہی ہے کہ سدھرنا نہیں چاہتا، اس لیے اس کی اصلاح کی کوشش میں وقت صرف کرنا وقت کا ضیاع ہے، وہ اگر نہ سُدھرنا چاہے تو نہ سُدھرے، نقصان اس کا اپنا ہو گا، داعی حق پر اس کی کوئی ذمّہ داری نہیں۔
3: یعنی ایسا ہر گز نہ کرو۔ خدا کو بھولے ہوئے اور اپنی دنیوی وجاہت پر پھُولے ہوئے لوگوں کو بے جا اہمیت نہ دو۔ نہ اسلام کی تعلیم ایسی چیز ہے کہ جو اِس سے مُنہ موڑے اُس کے سامنے اِسے بَالْحِاح پیش کیا جائے، اور نہ تمہاری یہ شان ہے کہ ان مغرور لوگوں کو اسلامی کی طرف لانے کے لیے کسی ایسے انداز سے کوشش کرو جس سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ تمہاری کوئی غرض اِن سے اٹکی ہوئی ہے، یہ مان لیں گے تو تمہاری دعوت فروغ پا سکے گی ورنہ ناکام ہو جائے گی۔ حق اِن سے اُتنا ہی بے نیاز ہے جتنے یہ حق سے بے نیاز ہیں۔
5: یعنی ہر قسم کی آمیزشوں سے پاک ہیں۔ ان میں خالص حق کی تعلیم پیش کی گئی ہے۔ کسی نوعیت کے باطل اور فاسد افکار و نظریات اِن میں راہ نہیں پا سکے ہیں۔ جن گندگیوں سے دنیا کی دوسری مذہبی کتابیں آلودہ کر دی گئی ہیں اُن کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی ان کے اندر داخل نہیں ہو سکا ہے۔ انسانی تخیّلات ہوں، یا شیطانی و ساوِس، اُن سب سے یہ پاک رکھے گئے ہیں۔
6: ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو قرآن کے اِن صحیفوں کو اللہ تعالیٰ کی براہ راست ہدایت کے مطابق لکھ رہے تھے، اُن کی حفاظت کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک انہیں جوں کا توں پہنچا رہے تھے۔ ان کی تعریف میں دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ایک کِرام، یعنی مُعزّز۔ دوسرے بار، یعنی نیک۔ پہلے لفظ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اتنے ذی عزّت ہیں کہ جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں ذرّہ برابر خیانت کا صدور بھی اُن جیسی بلند پا یہ ہستیوں سے ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور دوسرا لفظ یہ بتانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ ان صحیفوں کے لکھنے، ان کی حفاظت کرنے اور رسول تک ان کو پہنچانے کی جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے اُن کا حق وہ پوری دیانت کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔
7: جس سلسلہ بیان میں یہ آیات ارشاد ہوئی ہیں ان پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ قرآن مجید کی یہ تعریف محض اُس کی عظمت بیان کرنے کے لیے نہیں کی گئی ہے بلکہ اصل مقصود اُن تمام مُتکبّروں لوگوں کو، جو حقارت کے ساتھ اِس کی دعوت سے مُنہ موڑ رہے ہیں، صاف صاف جتا دینا ہے کہ یہ عظیم الشان کتاب اِس سے بدر جہا بلند و بر تر ہے کہ تمہاری حضور ی میں اِسے پیش کیا جائے اور تم سے یہ چاہا جائے کہ تم اسے شرفِ قبولیت عطا کرو۔ یہ تمہاری محتاج نہیں ہے بلکہ تم اِس کے محتاج ہو۔ اپنی بھلائی چاہتے ہو تو جا خنّاس تمہارے دماغ میں بھرا ہوا ہے اسے نکال کر سیدھی طرح اِس کی دعوت کے آگے سرِ تسلیم خم کر دو۔ ورنہ جس قدر تم اس سے بے نیا ز بنتے ہو اُ س سے بہت زیادہ یہ تم سے بے نیازہے تمہاری تحقیر سے اس کی عظمت میں ذرّہ برابر فرق نہ آئے گا، البتہ تمہاری بڑائی کا سارا گھمنڈ خاک میں ملا کر رکھ دیا جائے گا۔
8: یہاں سے عتاب کا رُخ براہ راست اُن کفار کی طرف پھرتا ہے جو حق سے بے نیازی برت رہے تھے۔ اس سے پہلے آغازِ سُورہ سے آیت ۱۶ تک خطاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تھا اور عتاب در پردہ کفار پر فرمایا جا رہا تھا۔ اُس کے اندازِ بیان یہ تھا کہ اَے نبی، ایک طالبِ حق کو چھوڑ کو آپ یہ کن لوگوں پر اپنی توجہ صرف کر رہے ہیں جو دعوت حق کے نقطۂ نظر سے بالکل بے قدرو قیمت ہیں اور جن کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ آپ جیسا عظیم القدر پیغمبر قرآن جیسی بلند مرتبہ چیز کو ان کے آگے پیش کرے۔
9: قرآن مجید میں ایسے تمام مقامات پر انسان سے مراد نوعِ انسانی کا ہر فرد نہیں ہوتا بلکہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی ناپسندیدہ صفات کی مذّمت کرنا مقصود ہوتا ہے ’’انسان‘‘کا لفظ کہیں تو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ نوعِ انسانی کے اکثر افراد میں وہ مذموم صفات پائی جاتی ہیں، اور کہیں اِس کے استعمال کی وجیہ یہ ہوتی ہے کہ مخصوص لوگوں کو تعیُّن کے ساتھ اگر ملامت کی جائے تو ان میں ضد پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے نصیحت کا یہ طریقہ زیادہ موثر ہوتا ہے کہ عمومی انداز میں بات کہی جائے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، حٰم السجدہ، حاشیہ ۶۵۔ الشوریٰ، حاشیہ۷۵)۔
10: دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ’’کس چیز نے اسے کفر پر آمادہ کیا‘‘؟یعنی بالفاظ دیگر کس بل بوتے پر یہ کفر کرتا ہے ؟ کفر سے مراد اس جگہ حق کا انکار بھی ہے، اپنے مُحسن کے احسانات کی ناشکری بھی، اور اپنے خالق و رزاق اور مالک کے مقابلہ میں باغیانہ روش بھی۔11: یعنی پہلے تو ذرا یہ اپنی حقیقت پر غور کرے کہ کس چیز سے یہ وجود میں آیا؟ کس جگہ اِس نے پر ورش پائی ؟ کس راستے سے یہ دنیا میں آیا؟ اور کس بے بسی کی حالت میں دنیا میں اِس کی زندگی کی ابتدا ہوئی؟ اپنی اِس اصل کو بھول کر یہ ہمچو ماد یگر ے نیست کی غلط فہمی میں کیسے مبتلا ہو جاتا ہے اور کہاں سے اِس کے دماغ میں یہ ہوا بھر تی ہے کہ اپنے خالق کے منہ آئے ؟(یہی بات ہے جو سورہ یٰس، آیات۷۷۔۷۸ میں فرمائی گئی ہے )۔
12: یعنی یہ ابھی ماں کے پیٹ ہی میں بن رہا تھا کہ اس کی تقدیر طے کر دی گئی۔ اِس کی جنس کیا ہو گی۔ اس کا رنگ کیا ہو گا۔ اِس کا قد کتنا ہو گا۔ اس کی جسامت کیسی اور کس قدر ہو گی۔ اس کے اعضاء کس حد تک صحیح و سالم اور کس حد تک ناقص ہوں گے۔ اس کی شکل صورت اور آواز کیسی ہو گی۔ اس کے جسم کی طاقت کتنی ہو گی۔ اس کے ذہن کی صلاحیتیں کیا ہوں گی۔ کس سر زمین، کس خاندان، کن حالات اور کس ماحول میں یہ پیدا ہو گا، پرورش اور تربیت پائے گا اور کیا بن کر اٹھے گا۔ اِ س کی شخصیت کی تعمیر میں موروثی اثرات، ماحول کے اثرات اور اس کی اپنی خودی کا کیا اور کتنا اثر ہو گا۔ کیا کردار یہ دنیا کی زندگی میں ادا کرے گا، اور کتنا وقت اسے زمین پر کام کرنے کے لیے دیا جائے گا۔ اِس تقدیر سے یہ بال برابر بھی ہٹ نہیں سکتا، نہ اس میں ذرّہ برابر ردّ و بدل کر سکتا ہے۔ پھر کیسی عجیب ہے اِس کی یہ جرأت کہ جس خالق کی بنائی ہوئی تقدیر کے آگے یہ اتنا بے بس ہے اُس کے مقابلہ میں کفر کرتا ہے۔
13: یعنی دنیا میں وہ تمام اسباب و وسائل فراہم کیے جن سے یہ کام لے سکے، ورنہ اِس کے جسم اور ذہن کی ساری قوتیں بے کار ثابت ہوتیں اگر خالق نے اُن کو استعمال کرنے کے لیے زمین پر یہ سرو سامان مہیّا نہ کر دیا ہوتا اور یہ امکانات پیدا نہ کر دیے ہوتے۔ مزید بر اں خالق نے اِ س کو یہ موقع بھی دے دیا کہ اپنے لیے خیر یا شر، شکُر یا کفر، طاعت یا عصیان کی جو راہ بھی یہ اختیار کرنا چاہے کر سکے۔ اُس نے دونوں راستے اس کے سامنے کھول کر رکھ دیے اور ہر راہ اس کے لیے ہموار کر دی کہ جس پر بھی یہ چلنا چاہے چلے۔
14: یعنی اپنی پیدائش اور اپنی تقدیر کے معاملہ ہی میں نہیں بلکہ اپنی موت کے معاملہ میں بھی یہ اپنے خالق کے آگے بالکل بے بس ہے۔ نہ اپنے اختیار سے پیدا ہو سکتا ہے، نہ اپنے اختیار سے مر سکتا ہے، اور نہ اپنی موت کو ایک لمحہ کے لیے بھی ٹال سکتا ہے۔ جس وقت، جہاں ، جس حال میں بھی اِس کی موت کا فیصلہ کر دیا گیا ہے اُسی وقت، اُسی جگہ اور اُسی حال میں یہ مر کر رہتا ہے، اور جس نوعیت کی قبر بھی اس کے لیے طے کر دی گئی ہے اُسی نوعیت کی قبر میں ودیعت ہو جاتا ہے، خواہ وہ زمین کا پیٹ ہو، یا سمندر کی گہرائیاں، یا آگ کا الاؤ، یا کسی درندے کا معدہ انسان خود تو درکنار، ساری دنیا مل کر بھی اگر چاہے تو کسی شخص کے معاملہ میں خالق کے اِس فیصلے کو بدل نہیں سکتی۔
15: یعنی اِس کی یہ مجال بھی نہیں ہے کہ خالق جب اِسے موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا چاہے تو یہ اٹھنے سے انکار کر سکے۔ پہلے جب اِسے پیدا کیا گیا تھا تو اِس سے پوچھ کر پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ اِس سے رائے نہیں لی گئی تھی کہ تو پیدا ہو نا چاہتا ہے یا نہیں۔ یہ انکار بھی کر دیتا تو پیدا ہو کر رہتا۔ اِسی طرح اب دوبارہ پیدائش بھی اِس کی مرضی پر موقوف نہیں ہے کہ یہ مر کر اٹھنا چاہے تو اُٹھے اور اُٹھنے سے انکار کر دے تو نہ اٹھے۔ خالق کی مرضی کے آگے اِس معاملہ میں بھی یہ قطعی بے بس ہے۔ جب بھی وہ چاہے گا اِسے اٹھا کھڑا کرے گا اور اِس کو اٹھنا ہو گا، خواہ یہ راضی ہو یا نہ ہو۔
16: حکم سے مراد وہ حکم بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فطری ہدایت کی صورت میں ہر انسان کے اندر ودیعت کر دیا ہے، وہ حکم بھی جس کی طرف انسان کا اپنا وجود اور زمین سے لے کر آسمان تک کائنات کا ہر ذرہ اور قدرتِ الٰہی کا ہر مظہر اشارہ کر رہا ہے، اور وہ حکم بھی جو ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے بھیجا اور ہر دور کے صالحین کے ذریعہ سے پھیلایا ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیر سُورہ دہر، حاشیہ۵)۔ اِس سلسلہ بیان میں یہ بات اِس معنی میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ جو حقائق اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئے ہیں اُن کی بنا پر فرض تو یہ تھا کہ انسان اپنے خالق کی فرمانبرداری کرتا، مگر اس نے الٹی نا فرمانی کی راہ اختیار کی اور بندہ مخلوق ہونے کا جو تقاضا تھا اسے پُورا نہ کیا۔
17: یعنی جس خوراک کو وہ ایک معمولی چیز سمجھتا ہے، اُس پر ذرا غور تو کرے کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے۔ اگر خدا نے اِس کے اسباب فراہم نہ کیے ہوتے تو کیا انسان کے بس میں یہ تھا کہ زمین پر یہ غذا وہ خود پیدا کر لیتا؟
18: اِس سے مُراد بارش ہے۔ سُورج کی حرارت سے بے حدو حساب مقدار میں سمندروں سے پانی بھاپ بنا کر اٹھایا جاتا ہے، پھر اِس سے کثیف بادل بنتے ہیں، پھر ہوائیں ان کے لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلاتی ہیں، پھر عالمِ بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپیں از سرِ نو پانی کی شکل اختیار کر تی اور ہر علاقے میں ایک خاص حساب سے برستی ہیں، پھر وہ پانی براہِ راست بھی زمین پر برستا ہے، زیرِ زمین کنوؤں اور چشموں کی شکل بھی اختیار کرتا ہے، دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں بھی بہتا ہے، اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے سوا دوسرے موسموں میں بھی دریاؤں کے اندر رواں ہوتا ہے۔ کیا یہ سارے انتظامات انسان نے خود کیے ہیں ؟ اُس کا خالق اُس کی رزق رسانی کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا انسان زمین پر جی سکتا تھا؟
19: زمین کو پھاڑنے سے مراد اُس کو اِس طرح پھاڑنا ہے کہ جو بیج یا گٹھلیاں یا نباتات کی پنیریاں انسان اُس کے اندر بوئے، یا جو ہواؤں اور پرندوں کے ذریعہ سے، یا کسی اور طریقے سے اُس کے اندر پہنچ جائیں، وہ کونپلیں نکال سکیں ۔ انسان اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا کہ زمین کو کھودتا ہے یا اس میں ہل چلاتا ہے، اور جو تخم خدا نے پیدا کر دیے ہیں، انہیں زمین کے اندر اُتار دیتا ہے۔ اس کے سوا سب کچھ خدا کا کام ہے۔ اُسی نے بے شمار اقسام کی نباتات کے تخم پیدا کیے ہیں۔ اُسی نے اِن تخموں میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ زمین میں پہنچ کر وہ پھُوٹیں اور ہر تخم سے اُسی کی جنس کی نباتات اُگے۔ اور اُسی نے زمین میں یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ پانی سے مل کر وہ ان تخموں کو کھولے اور ہر جنس کی نباتات کے لیے اِس کے مناسب حال غذا بہم پہنچا کر اسے نشو و نما دے۔ یہ تخم اِ ن خاصیتوں کے ساتھ، اور زمین کی یہ بالائی تہیں اِن صلاحیتوں کے ساتھ خدا نے پیدا نہ کی ہوتیں تو کیا انسان کو ئی غذا بھی یہاں پا سکتا تھا؟
20: یعنی تمہارے ہی لیے نہیں بلکہ اُن جانوروں کے لیے بھی جن سے تم کو گوشت، چربی، دودھ، مکھن وغیرہ سامانِ خوراک حاصل ہوتا ہے اور جو تمہاری معیشت کے لیے بے شمار دوسری خدمات بھی انجام دیتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اسی لیے ہے کہ اِس سرو سمان سے مُتَمَتِّع ہو اور جس خدا کے رزق پر پل رہے ہو اُسی سے کفر کرو؟
21: مُراد ہے آخری نفخِ صور کی قیامت خیز آواز جس کے بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان جی اٹھیں گے۔
22: اس سے ملتا جُلتا مضمون سُورہ معارِج آیات۱۰تا ۱۴ میں گزر چکا ہے۔ بھاگنے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اِن عزیزوں کو، جو دنیا میں اُسے سب سے زیادہ پیارے تھے، مصیبت میں مبتلا دیکھ کر بجائے اِس کے کہ اُن کی مدد کو دوڑے، اُلٹا ان سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اسے مدد کے لیے پکار نہ بیٹھیں۔ اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے، اُس کے بُرے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اپنی گمراہیوں اور گناہ گاریوں کی ذمہ داری اُس پر نہ ڈالنے لگے۔ بھائی کو بھائی سے، اولاد کو ماں باپ سے، شوہر کو بیوی سے، اور ماں باپ کو اولاد سے خطرہ ہو گا کہ یہ کم بخت اب ہمارے خلاف مقدمے کے گواہ بننے والے ہیں۔
23: احادیث میں مختلف طریقوں اور سندوں سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’قیامت کے روز سب لوگ ننگے بُچّے اٹھیں گے ‘‘۔ آپ کی ازواجِ مطہرات میں سے کسی نے (بروایتِ بعض حضرت عائشہؓ نے ، اور بروایتِ بعض حضرت سَودہؓ نے اور بروایتِ بعض ایک خاتون نے ) گھبرا کر پوچھا، یا رسول اللہ کیا ہمارے سَتر اُس روز سب کے سامنے کھُلے ہوں گے ؟ حضورؐ نے یہی آیت تلاوت فرما کر بتایا کہ اُس روز کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہ ہو گا(نَسائی، ترمذی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، طبرانی، ابن مردُویہ، بَیْقَہی، حاکم)۔