پہلی آیت میں برجوں والے آسمان کا ذکر ہوا ہے۔اس مناسبت سے اس سورہ کا نام علامت کے طور پر ’’ البروج‘‘ رکھا گیا ہے۔
سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت نازل ہوئی ہو گی جب کہ کفار ایمان لانے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے تھے تاکہ وہ اپنے ایمان سے پھر جائیں۔
قیامت اور جزا و سزا ہی ہے البتہ اس کے اس پہلو کو خاص طور سے نمایا کیا گیا ہے کہ وہ ان مظلوم اہل ایمان کی داد رسی کا دن ہوگا۔ جو لوگ اہل ایمان کو محض ان کے ایمان لانے کی بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں قیامت کے دن ان کی سخت پکڑ ہوگی اور جو لوگ ایمان لاکر نیک عمل کرتے ہیں وہ کامیاب اور با مراد ہوں گے۔
آیت ۱ تا ۳ میں روز جزا کے قطعی ہونے کا دعویٰ ایک نا قابل انکار حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۴۔ ۱۱ میں ان لوگوں کو سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے جو مسلمانوں پر محض اس لیے ڈھاتے ہیں کہ وہ ایک خدا پر ایمان لاۓ ہیں۔ اور ان مسلمانوں کو جو ان مظالم کے باوجود اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں گے جنت کی بشارت سنائی گئی ہے۔
آیت ۱۲ تا ۱۶ میں ظالموں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے ساتھ ہی اس کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جن سے اس کا خوف بھی پیدا ہوتا ہے اور توبہ وہ انابت کی طرف رغبت بھی ہوتی ہے۔
آیت ۱۷ تا ۲۰ میں بعض سرکش اور ظالم قوموں کے عبرتناک انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ منکرین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ خدا تمہیں ہر طرف سے گھیرے ہوۓ ہے۔
آیت ۲۱ ، ۲۲ خاتمہ کلام ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ قرآن جو روز جزا کی آمد کی خبر دے رہا ہے کیسی بلند پایہ کتاب ہے اور اس کا سر چشمہ کتنا پاکیزہ اور محفوظ ہے لہٰذا اس کی کوئی بات بھی غلط نہیں ہو سکتی۔ لازماً اس کی ہر بات اٹل ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱* ہے برجوں ۲* والے آسمان کی۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حاضر ۴* ہونے والے کی اور اس چیز کی جو حاضر ۵* کی جاۓ گی۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک ہوۓ خندق والے ۶*
۵۔ جو خوب ایندھن والی آگ سے بھری تھی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ وہ اس (آگ) کے پاس بیٹھے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کچھ اہل ایمان کے ساتھ کر رہے تھے اس کا تماشا دیکھ رہے تھے ۷*
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے ساتھ یہ تشدد محض اس وجہ سے کیا گیا کہ وہ اللہ پر ایمان لاۓ تھے ۸* ، جو زبردست ہے اور لائق ستائش بھی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی بادشاہت ہے آسمانوں اور زمین میں ۹* ۔ اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے ۱۰*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے مؤمن عورتوں پر ظلم دھایا اور پھر توبہ نہیں کی ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا ہے اور ان کے لیے جلنے کا عذاب ۱۱* ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ایمان لاۓ ۱۲* اور جنہوں نے نیک عمل کیے یقیناً ان کے لیے باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہوں گی۔ یہ ہے بڑی کامیابی ۱۳*۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ۱۴*۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا ۱۵*۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بخشنے والا ۱۶* ، محبت کرنے والا ہے ۱۷*۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرش کا مالک ۱۸* ، صاحب عظمت ۱۹*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو چاہے کر ڈالنے والا ۲۰*۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں لشکروں کی خبر پہنچی ہے ؟
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرعون ۲۱* اور ثمود ۲۲* کے لشکروں کی ؟
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کافر جھٹلانے ہی میں لگے ہوۓ ہیں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ ان کو آگے پیچھے سے گھیرے ۲۳* ہوۓ ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بروج کے مراد ستاروں کی وہ بارہ فرضی شکلیں SIGNS OF ZODIAC یا سورج کی بارہ منزلیں نہیں ہیں جو قدیم علم ہیئت کی مخصوص اصطلاح ہے بلکہ اس سے مراد روشن ستاروں کے جھرمٹ CONSTELLATIONS ہیں جو آسمان کی زینت بنے ہوۓ ہیں اور جن کی جلوہ ریزیاں انسان کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔
’’برج‘‘ کے لغوی معنیٰ ظہور و نمائش او قلعہ و محل کے ہیں۔ آسمان میں ستاروں کے جھرمٹ اس طرح درخشاں نظر آتے ہیں کہ گویا بلند محل ہیں جو سجاۓ گۓ ہیں۔ ان کی اس طرح قلعہ بندی کی گئی ہے کہ جب شیطانی طاقتیں آسمان کی طرف پرواز کرنے لگتی ہیں تو ان قلعوں سے ان پر شہاب ثاقب (Meteor) کے لے داغے جاتے ہیں اس لیے ستاروں کے ان جھرمٹ (Constellations) کو ’’بروج‘‘ کہا گیا ہے۔
یہاں برجوں والے آسمان کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ آسمان میں درخشاں نظر آنے والے ستاروں کے یہ جھرمٹ اس بات کی واضح شہادت دیتے ہیں کہ جس ہستی نے اس کائنات کی بزم سجائی ہے اس کے ہاں ادھیر نگری نہیں ہے بلکہ وہ اپنی صفت جلال و جمال کے ساتھ اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے لہٰذا ہو نہیں سکتا کہ جو لوگ اس کے وفادار بندوں پر ظلم ڈھاتے ہیں ، ان سے باز پرس نہ ہو اور اس کے وفادار مظلوم بندوں کو جو اس کی خاطر ستاۓ گۓ انعام و اکرام سے نہ نوازا جاۓ۔
شیطانی طاقتوں کی آسمان پر پرواز کو روکنے کے لیے شہاب ثاقب کے گولے برساۓ جاتے ہیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے خدا کے ہاں سزا کا قانون ہے پھر وہ سرکشوں کو سزا کیسے نہیں دے گا؟۔ گویا برجوں والے آسمان پر غور کرنے سے جزا و سزا کا تقاضا ابھرتا ہے اور اس سے روز جزا کی تصدیق و تائید ہوتی ہے جس کی خبر قرآن دے رہا ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے اور اس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرمایا ہے تاکہ وہ عدالت بر پا کرے اور مؤمن و کافر، نیک و بد اور ظالم و مظلوم کے درمیان انصاف ہو۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے دن حاضر ہوگا۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ چیزیں ہیں جو قیامت کے دن حاضر کی جائیں گی اور وہ ہولناک مناظر ہیں جن کو ہر شخص دیکھ لے گا۔
یہاں یوم موعود (جس دن کا کہ وعدہ ے ) ، شاہد (حاضر ہونے والا)، اور مشہود (جو چیزیں کہ حاضر کی جائیں گی یا جو مناظر کہ سامنے لاۓ جائیں گے ) کی قسمیں کلام کو مؤکد کرنے اور ان باتوں کا یقین پیدا کرنے کے لیے کھائی گئی ہیں۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصحاب الاخدود (خندق والے ) سے اشارہ ایک مخصوص واقعہ کی طرف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو محض ان کے ایمان لانے کی بنا پر آگ سے بھری ہوئی خندق میں جھونک دیا گیا تھا اور ظالم اس خندق کے پاس بیٹھ کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا اس کی تفصیل قرآن نے نہیں بتلائی کیونکہ سبق آموزی کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے۔ رہا تاریخی ثبوت تو تاریخ اہل ایمان کے نذر آتش کیے جانے کے واقعات سے بھری پڑی ہے جس کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آتش نمرود میں جھونک دیے جانے سے ہوتا ہے اور مظالم کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ چنانچہ محض اس بنا پر کہ فلاں گروہ کا دین اسلام ہے اس کے افراد کو نذر آتش کیا جاتا ہے یا انہیں گھروں میں بند کر کے آگ لگا دی جاتی ہے۔ ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اس مقصد کے لیے اب خندقیں کھودنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ لکڑیوں کا ایندھن جمع کرنا پڑتا ہے بلکہ پٹرول اور اس قسم کی دوسری چیزیں ہی کافی ہو جاتی ہیں۔
جہاں تک روایات کا تعلق ہے اتنی بات تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یمن کے یہودی بادشاہ ذونُو اس نے غالباً ۵۲۳ ء میں نجران پر حملہ کر کے وہاں کے لوگوں کو جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاۓ تھے اور سچے مؤمن تھے یہودی مذہب قبول کرنے کا حکم دیا۔ اور ان کے انکار کرنے پر انہیں خندقیں کھود کر آگ میں چھونک دیا گیا۔
(سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۳۵)۔ اسٹینڈرڈ جیوش انسائیکلو پیڈیا میں بھی مختصراً اس کا ذکر موجود ہے۔
Standard Jewish Encyclopedia. P.554) (The
نجران مکہ سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ قصہ عربوں میں مشہور رہا ہوگا اور عجب نہیں کہ قرآن نے اصحاب الاخدود کہ کر اس واقعہ کی طرف خصوصیت سے اشارہ کیا ہو۔ لیکن روایات میں غلام اور راہب وغیرہ کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں بڑی نکارت ہے۔ اس قصہ میں غلام کے تعلق سے ایسی عجیب و غریب باتیں بیان کی گئی ہیں جو ایک نبی کے معجزے سے بھی بڑھ کر ہیں۔ اس روایت کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف صحیح نہیں چنانچہ ابن کثیر فرماتے ہیں :
قال شیخنا الحافظ ابو الحجاج المزّی فیحتمل ان یکون من کلام صہیب الرومی فانہ کان عندہٗ من اخبار النصاریٰ
’’ہمارے شیخ حافظ ابو الحجاج مزّی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ یہ قصہ صہیب رومی کے کلام کا جزء ہو اس لیے کہ انہیں نصاریٰ کے قصوں کا علم تھا۔‘‘(تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۴۹۴)۔ اور قفال کہتے ہیں :
’’اصحاب الاخدود کے سلسلہ میں (مفسرین نے ) مختلف روایت بیان کی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے بجز اس کے کہ یہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ مؤمنین کے ایک گروہ نے اپنی قوم یا کافر بادشاہ کی جو ان پر حکمراں تھا مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے اس نے ان کو خندق میں ڈال دیا تھا۔ ‘‘(التفسیر الکبیر للرٓازی مطبوعہ طہران ج ۳۱ ص ۱۱۷)۔
افسوس کہ ایسی بے سر و پا روایتیں بڑی بڑی تفسیروں میں جگہ پا گئیں۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ڈھٹائی اور سنگدلی کی حد ہے کہ اہل ایمان پر ایسا انسانیت سوز ظلم ڈھاتے ہوۓ انہیں ذرا تامل نہیں ہوا بلکہ ان کی اخلاقی حس اتنی مردہ ہو گئی تھی کہ وہ بڑی بے شرمی کے ساتھ ان کے چلنے کا تماشا دیکھتے رہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل ایمان کا اگر کوئی قصور تھا تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ پر صحیح معنیٰ میں ایمان لاۓ تھے گویا جو سب سے بڑی نیکی تھی وہی ان ظالموں کی نظر میں جرم قرار پائی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ وہی ہستی اس کی مستحق ہے کہ اس پر ایمان لایا جاۓ اور اس سے تعلق استوار کیا جاۓ۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ظالموں کے لیے تنبیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ رہا ہے تو تمہارا ظلم تابہ کے۔ ایک دن تمہاری گرفت ہونا ہے اور تمہیں عدالت خداوندی کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سخت وعید ان لوگوں کو سنائی گئی ہے جو مؤمن مردوں اور عورتوں پر محض اس لیے ظلم ڈھائیں تاکہ ان کو اسلام سے پھیرا جا سکے۔ جلنے کے عذاب کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے کیونکہ ان ظالموں نے مؤمنین کو آگ میں زندہ جلا یا تھا۔ ایسے لوگوں کو جہنم میں دوسرے عذابوں کے ساتھ خاص طور سے سخت قسم کی آگ میں چلنے کے عذاب کا مزا بھی چکھنا پڑے گا۔
اس آیت سے ضمناً یہ بھی واضح ہوا کہ اتنے بڑے جرم کا مرتکب بھی اگر توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو اس کے لیے بخشش کے دروازے کھلے ہیں۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس ظلم و ستم کے باوجود لوگ اپنے ایمان میں ثابت قدم رہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بڑی کامیابی دنیا حاصل کرنا نہیں بلکہ جنت حاصل کرنا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ظالم اس مغالطہ میں نہ رہیں کہ وہ اللہ کی پکڑ سے بچ سکیں گے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جزا و سزا کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کیا جاۓ گا اور یہ دوبارہ پیدا کرنا اس ہستی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بخشنے والا ہے لہٰذا اگر تم توبہ کرو اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لو تو اس بات کے مستحق ہو سکتے ہو کہ بخشے جاؤ۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنے بندوں سے نفرت نہیں بلکہ محبت رکھتا ہے بشرطیکہ وہ اس کے وفادار بندے بن کر رہیں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’عرش‘‘ کے معنی تخت کے ہیں۔ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا تخت سلطنت ہے جس کی کیفیت ہمیں نہیں معلوم۔
یہاں عرش کا مالک کہ کر یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پوری کائنات پر اسی کا اقتدار قائم ہے اور تنہا وہی فرمانروائی کر رہا ہے لہٰذا اس سے سرکشی کرنے والے اور اس کے وفادار بندوں پر ظلم ڈھانے والے اس کی گرفت سے ہر گز نہیں بچ سکتے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عظمت و جلالت Majesty اس کی صفت ہے اور اس عظمت و جلالت میں کوئی اس کا شریک نہیں لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ اس کی جلالت شان کے تصور سے لرزاں ہوں۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے کام اور منصوبہ میں مزاحم ہو سک۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو سورہ نازعات نوٹ۔۱۳۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ثمود‘‘ ایک قوم کا نام ہے جو ’’حجر ‘‘ (مدینہ اور تبوک کے درمیان کا علاقہ ) میں آباد تھی۔ اس کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے اور اس کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا مگر اس نے سرکشی کی جس کے نتیجہ میں اس پر سخت عذاب نازل ہوا۔ اس کے تباہ شدہ کھنڈرات آج بھی ’’حجر ‘‘ کے علاقہ میں موجود ہیں اور صدا دے رہے ہیں کہ ؏ دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔
فرعون اور ثمود کو دنیوی شان و شوکت اور اقتدار حاصل تھا مگر وہ اقتدار کے نشہ میں سرکشی اور ظلم پر اتر آۓ تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑا تو وہ بہت بڑے انجام سے دوچار ہوۓ۔ان تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ قرآن اپنے مخاطبین سے کہہ رہا ہے کہ کیا تم بھی ان کی سی روش اختیار کر کے اسی انجام سے دو چار ہونا چاہتے ہو۔ ؟
۲۳۔ یعنی یہ جھٹلانا چاہتے ہیں تو جھٹلائیں اس سے حقیقت نہیں بدلتی۔ وہ پوری طرح اللہ کی گرفت میں ہیں۔اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے۔
۲۴۔ ’’ لوح محفوظ‘‘ کے معنیٰ محفوظ تختی کے ہیں اور اس سے مراد ملاء اعلیٰ کی وہ مقدس تختی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمات لکھ دۓ ہیں۔اس کا لکھا بالکل اٹل ہے اور اس تک کسی جن و انس کی رسائی نہیں ہے۔ قرآن کوئی خیالی اور نظریاتی چیز نہیں اور نہ کسی کاہن کا کلام ہے بلکہ اس کا منبع وہ چشمہ صافی ہے جسے لوح محفوظ کہتے ہیں اس لیے اس کی ہر بات حق ہے اور پوری ہو کر رہنے والی ہے۔