سورہ کا آغاز وَالْفَجْرِ (قسم ہے فجر کی) سے ہوا ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام الفجر ہے۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی تنزیل ہے جبکہ اہل مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تذکیر کا اثر قبول کرنے کے بجاۓ سرکشی اور ظلم و فساد کا رویہ اختیار کیا تھا۔
جزا و سزا ہے خاص طور سے سزا کے پہلو کو نمایاں طور سے پیش کیا گیا ہے تاکہ جو لوگ دنیا پرستی میں مگن ہیں وہ ہوش میں آئیں۔
آیت ۱ تا ۵ میں رات اور دن کے طبعی احوال کو روز جزا کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۶ تا ۱۴ میں تاریخ کی بعض عظیم قوموں کے عبرت ناک انجام کو اس بات کی تائید میں پیش کیا گا ہے کہ اس کائنات کا فرمانروا افراد اور قوموں پر نظر رکھے ہوۓ ہے اور وہ ایک دن ضرور ان سے محاسبہ کرے گا۔
آیت ۱۵ تا ۲۰ میں انسان کے غلط طرز عمل خاص طور سے کمزوروں کے حقوق غصب کرنے پر سخت گرفت کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ یہ طرز عمل نتیجہ ہے انکار آخرت کا۔
آیت ۲۱ تا ۳۰ میں عدالت خداوندی کی تصویر پیش کرتے ہوۓ منکرین و مؤمنین کا انجام بیان کیا گیا ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱* ہے فجر کی ۲*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جفت اور طاق کی ۴*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کی جب کہ وہ رخصت ہو رہی ہو ۵*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس میں ایک عقلمند کے لیے کوئی قسم نہیں ۶* ہے ؟
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے نہیں دیکھا ۷* کہ تمہارے رب جے کیا معاملہ کیا عاد ۸* کے ساتھ !
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند عمارتوں والے ۹* ارم ۱۰* کے ساتھ۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کے مانند کوئی (قوم) کسی ملک میں پیدا نہیں کی گئی تھی۔ ۱۱*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ثمود ۱۲* کے ساتھ جو وادی ۱۳* میں چٹانیں تراشا کرتے تھے ۱۴* ۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ ۱۵*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں نے ملکوں میں سر اٹھا رکھا تھا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں بہت فساد مچا رکھا تھا ۱۶*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا ۱۷*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی تمہارا رب گھات میں رہتا ہے ۱۸*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا رب اس کی آزمائیش اس طرح کرتا ہے کہ اس کو عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت بخشی ۱۹*
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب اس کی آزمائش اس طور سے کرتا ہے کہ اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کیا۲۰*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۲۱* بلکہ تم لوگ یتیموں کی قدر نہیں کرتے ۲۲*
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔ ۲۳* ۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اور میراث کا مال سمیٹ کر ہڑپ کر جاتے ہو ۲۴* ۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مال کی محبت میں مست رہتے ہو ۲۵*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں !۲۶* جب زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کر دی جاۓ گی ۲۷* ۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا رب آۓ گا صف در صف فرشتوں کے جلو میں ۲۸* ۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جہنم اس روز حاضر کر دی جاۓ گی ۲۹* ۔ اس روز انسان ہوش میں آۓ گا مگر اس وقت اس کے ہوش میں آنے کا کیا فائدہ ؟ ۳۰*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہے گا کہ کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے پہلے سے کچھ کر رکھا ہوتا ! (۳۱)۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن اس کے عذاب جیسا کوئی عذاب دیتے والا نہ ہوگا(۳۲)۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ اس کے باندھنے جیسا کوئی باندھنے والا ہوگا۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے نفس مطمئنہ ! (۳۳)۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چل اپنے رب کی طرف، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی (۳۴)۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فجر سے مراد وہ وقت ہے جب رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی مشرقی افق پ نمودار ہوتی ہے۔ اس کا دورا نام صبح صادق ہے جسے اردو میں ہم پَو پھٹنا کہتے ہیں۔
فجر کا وقت طلوع آفتاب تک رہتا ہے جب کہ صبح کا اطلاق طلوع آفتاب کے بعد کے وقت پر بھی ہوتا ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دس راتوں سے مرد قمری ماہ کی دس راتیں ہیں اور فجر کی مناسبت سے درمیانی دس راتیں یعنی گیارہویں تا بیسویں شب مراد لینا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ راتیں چاند سے روشن رہتی ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلسلہ کلام کو اگر ملحوظ رکھا جاۓ تو یہاں جفت ور طاق سے مراد جفت ور طاق راتیں ہی لی جا سکتی ہیں کیونکہ رات کا ذکر اس سے پہلے بھی ہوا ہے اور اس کے بعد بھی۔ راتیں کسی مہینہ میں جفت عدد ہوتی ہیں اور کسی میں طاق عدد یعنی کوئی مہینہ ۳۰ راتوں کا ہوتا ہے اور کوئی ۲۹ راتوں کا۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کے رخصت ہونے سے مراد وہ وقت ہے جب تاریکی ختم ہونے اور پَو پھٹنے کو ہوتی ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا ان چیزوں میں رہنمائی کا کوئی سامان موجود نہیں ہے اور کی ایک آدمی پر جو عقل و ہوش سے کام لے آسمان پر ظاہر ہونے والے ان آثار سے قرآن کے بیان کی صداقت روشن نہیں ہوتی ؟ یہ سوال اثبات کے لیے اور بات کو مؤکد کرنے کے لیے۔ یہاں شب و روز کے نظام پر غور فکر کی دعوت دی گئی ہے جس کا مشاہدہ انسان روزانہ کرتا ہے۔ اس کا آغاز فجر سے ہوتا ہے اور اختتام رات کے رخصت ہو جانے پر۔ فجر رات کی تاریکی کو چاک کر کے نمودار ہوتی ہے جس وقت صبح کی سفید دھاری افق پر نمایا ہو جاتی ہے تو وہ منظر بہت عجیب ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر ماہ کی درمیانی دس راتیں جو چاند کے نور سے روشن کے قلب و ذہن خاص اثر ڈالتی ہیں۔ پھر ہر مہینہ کا اختتام یا تو ۳۰ راتوں پر ہوتا ہے یا انتیس راتوں پر۔ اس میں کبھی کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اور رات کے جب رخصت ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو وہ خاموشی کے ساتھ اپنی بساط لپیٹ دیتی ہے اور اس طرح رخصت ہو جاتی ہے کہ گویا وہ رخصت ہونے ہی کے لیے آئی تھی ور اس کے رخصت ہوتے ہی وہ نرم بھی بے رونق ہو جاتی ہے جو ا نے سنائی تھی۔
رات دن مشاہدہ میں آنے والے یہ آثار کیا کسی مدبّر ہستی کا پتہ نہیں دیتے ؟ شب و روز کا یہ عجیب و غریب نظام اور اس میں کمال درجہ کی باقاعدگی کس طرح پیدا ہو سکتی تھی اگر اس کے پیچھے ایک زبردست قدرت اور حکمت رکھنے والی ہستی کا ہاتھ نہ ہوتا ؟ پس یہ مشاہدہ انسان کو جس نتیجہ پر پہنچاتا ہے وہ یہ ہے کہ یقیناً ایک مدبر ہستی ہے جس کے اشارہ پر کائنات کا یہ سارا نظام کمال درجہ کی باقاعدگی کے ساتھ نہایت محکم طریقہ پر چل رہا ہے اور جب وہ ہستی مدبر ہستی ہے جس کے اشارہ پر کائنات کا یہ سارا نظام کمال درجہ کی باقاعدگی کے ساتھ نہایت محکم طریقہ پر چل رہا ہے اور جب وہ ہستی مدبر ہے تو اس کی بنائی ہوئی دنیا نے غایت کیسے ہو سکتی ہے اور اس کا پیدا کردہ انسان شتر نے مہار کس طرح ہو سکتا ہے۔ ؟ ضروری ہے کہ اس دنیا کی ایک غایت ہو اور انسان کی تخلیق کے پیچھے کوئی منصوبہ ہو۔ قرآن اس غایت کی نشاندہی کرتا اور خدائی منصوبہ کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس کے بیان کے مطابق دنیا کی غایت آخرت ہے اور انسانی زندگی کے لیے خدائی منصوبہ یہ ہے کہ اسے امتحان سے گزارا جاۓ اور جواس امتحان میں کھرا ثابت ہو اسے آخرت کی لازوال نعمتوں سے نوازا جاۓ اور جو کھوٹا ثابت ہو اسے آگ میں جھونک دیا جاۓ۔ قرآن کا یہ بیان در اصل اس حقیقت کی شرح ہے جو شب و روز کے نظام میں اور پوری کائنات میں اشارے کنایہ کی زبان میں بول رہی ہے۔ اور قرآن کے بیان کا اس حقیقت سے جو کائنات میں کار فرما ہے اس درجہ ہم آہنگ ہونا اس کی صداقت کا بین ثبوت ہے۔
فجر کی قَسم کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ فجر کا وقت روزانہ ظہور قیامت کی یاد دہانی کراتا ہے جس طرح رات کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے فجر نمودار ہوتی ہے اسی طرح دنیا پر چھائی ہوئی تاریکی کا پردہ چاک کر کے قیمات کی فجر نمودار ہوگی اور جس طرح انسان صبح نیند سے پیدار ہوتا ہے اسی طرح قیامت کی صبح کا ظہور ہوتے ہی اٹھ پیٹھے گا اور محسوس کرے گا کہ ابھی سویا تھا اور ابھی جاگ گیا۔ اسی حقیقت کی طرف وہ مسنون دعا متوجہ کرتی ہے جس کو صبح بیدار ہوتے ہی پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَحْیَا نَا بَعْدَ مَا اَمَا تَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (مسلم کتاب الذکر) ’’ شکر اللہ کا جس نے موت کے بعد ہمیں زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کھڑے ہونا ہے ’’۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’تم نے نہیں دیکھا‘‘ کیا تم نے غور نہیں کیا؟ ‘‘ کے مفہوم میں ہے جس طرح ہم بولتے ہیں ’’ تم نے نہیں دیکھا ہٹلر کا کیا انجام ہوا‘‘ جب کہ ہٹلر کے انجام کے ہم عینی شاہد نہیں ہوتے بلکہ اس کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر جانتے ہیں ایسے موقع پر کہنے والے کا منشا یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جو تاریخی طور پر ثابت ہے تمہارے لیے لائق غور ہے اور اس سے تمہیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد ایک قوم کا نام ہے جو جنوبی عرب کے ریگستانی صحرا ربع خالی میں احقاف کے علاقہ میں جو یمن اور حضر موت کے درمیان ہے آباد تھی۔ اس کا زمانہ نوح علیہ السلام کے بعد اور ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے یعنی تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کا۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’ذات العماد‘‘ اس لیے کہا گیا کہ وہ بڑی بڑی بلند عمارتیں تعمیر کرتے تھے اور یہ طریقہ انہوں نے کسی حقیقی تمدنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ محض قومی یادگار کھڑی کرنے اور شوق نمائش پور کرنے کی غض سے اختیار کیا تھا ان کے اس آرٹ میں اسراف بھی تھا اور دنیا پرستی کی جڑیں مضبوط کرنے کا سامان بھی۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کو اِرم کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل (Semitic Race) کی اس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو اِرم بن سام بن نوح سے چلی۔ اِرم کا ذکر بائیبل میں موجود ہے :
’’بنی سِم(سام) یہ ہیں۔۔۔۔۔ اور اِرام اور بنی اِرام یہ ہیں۔ عُوض ........‘‘(پیدائش ۱۰: ۲۲ )
بائبل کے اس بیان میں لفظ اِرام اِرم ہی کا تلفظ ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زور و قوت اور شان و شوکت کے لحاظ سے ان کے زمانہ میں کوئی قوم ان کی برابری کی نہیں تھی اور ان سے پہلے بھی اس شان کی کوئی قوم نہیں گزری تھی۔
عاد سر زمین عرب کی سب سے قدیم قوم ہے جو طوفان نوح کے بعد اپنی تعمیری ترقی اور قوت و اقتدار کے ساتھ ابھری تھی اور اپنی ان مادی خصوصیات کی بنا پر دنیا کی ایک ممتاز اور بے نظیر قوم تھی۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کے بعد مادی ترقی اور دنیوی شان و شوکت کے لحاظ سے جو قوم ابھری اس کا نام ثمود تھا اس کا بھی زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کاہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وادی سے مراد وادی القریٰ ہے جو حجاز اور شام کے درمیان واقع ہے۔ اس وادی کا اہم ترین مقام ’’حِجْر‘‘ تھا جس کو اب مداین صالح کہتے ہیں اور جو مدینہ سے شمال میں تقریباً ۱۸۰ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہ علاقہ ثمود کا مسکن تھا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود چٹانوں کو تراش کر گھر بنا لیتے تھے۔ اس فن تعمیر میں انہیں بڑی مہارت تھی اور اس میں ان کا انہماک شوق تعمیر کو پورا کرنے کے لیے تھا۔ اس طرح انہوں نے تعمیرات کے میدان میں شاندار ترقی کی تھی اور اس ترقی کے زیر اثر یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ دنیا میں ہر طرح سے محفوظ ہیں۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میخوں والا سے مراد لاؤ لشکر والا ہے۔ فرعون نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے مستقل فوج قائم کی تھی جب کہ اس زمانہ میں مستقل طور سے فوج رکھنے کا رواج نہ تھا بلکہ جب جنگ کی ضرورت پیش آ جاتی، وقتی طور سے اس کا انتظام کر لیا جاتا۔ فوج چونکہ خیموں میں رہتی تھی اور خیمہ میخیں ٹھونک کر قائم کیا جاتا ہے اس لیے اس مناسبت سے یہ الفاظ لاؤ لشکر والا کے معنی میں کنایۃً استعمال ہوۓ ہیں۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان قوموں نے ایک شاندار تمدن کے وسائل اور اقتدار پا کر بہت غلط روش اختیار کی۔ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا ہو کر وہ گھمنڈ میں مبتلا ہو گئیں اور انہوں نے سر کشی کا رویہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں ان میں ہر طرح کا بگاڑ پیدا ہوا۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب یہ قومیں سرکشی اور بگاڑ کی راہ پر چل پڑیں اور پیغمبروں کی تنبیہات کے باوجود اصلاح کے لیے آمادہ نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ کا قانون تعذیب حرکت میں آیا اور اس نے اس طرح ان کو گرفت میں لیا کہ ساری مادی ترقی اور ان کی ساری شان و شوکت مٹی میں مل گئی۔ نہ بلند عمارتیں انہیں ذلت کی موت مرنے سے بچا سکیں اور نہ چٹانوں میں تراشے ہوۓ مکانات ان کی حفاظت کرسکے۔ اسی طرح فرعون کا لاؤ لشکر اس کو سمندر میں غرق ہونے سے نہیں بچا سکا بلکہ وہ لشکر سمیت ڈوب مرا ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ کسی شاعر نے کہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؏
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے
ان قوموں پر جو عذاب آیا اس کی تفصیلات سورہ اعراف، سورہ یونس، سورہ ہود، سورہ حجر ، اور دیگر صورتوں میں بیان ہوئی ہیں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر جن تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا وہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے اور انسان کا خالق اس کو پیدا کر کے اس سے بے تعلق نہیں ہوا ہے بلکہ وہ ہر شخص اور ہر قوم کی نگرانی کر رہا ہے اور ان سب کی باگ اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سرکش ور مفسد قوموں کو ڈھیل ضرور دیتا ہے تاکہ وہ سنبھلنا چاہیں تو سنبھلیں لیکن یہ ڈھیل ایک وقت خاص تک کے لیے ہی ہوتی ہے اس کے بعد اچانک خدا کے عذاب کا کوڑا اُن پر برستا ہے اور وہ بُرے انجام سے دو چار ہو جاتی ہیں۔
تاریخ کی یہ شہادت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ دنیا کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک امتحان گاہ ہے جس میں افراد کا بھی امتحان ہو رہا ہے اور قوموں کا بھی اور ان کا رب ان کے ساتھ عدل و حکمت کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے اور وہ مجرموں کو سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے۔، اور جب دنیا امتحان گاہ قرار پائی تو لازم آتا ہے کہ ایک روز جزا و سزا کا آۓ۔ پس قرآن کا یہ دعویٰ کہ قیامت کا ظہور اور جزا و سزا کا وقوع ایک ناقابل انکار حقیقت ہے تاریخ کی شہادت سے بھی ثابت ہ۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں انسان کا جو حال بیان کیا گیا ہے اس سے اس مغالطہ کو دور کرنا مقصود ہے جس میں دنیا پرست لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ مال و دولت ، جاہ و اقتدار اور مادی نعمتوں کا ملنا ان کے نزدیک معیار عزت ہے اور جس کو مادی نعمتوں کی فراخی حاصل ہوتی ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی نظر میں وہ اچھا ہے اسی لیے وہ اس کی عزت افزائی کا سامان کر رہا ہے اور یہ خام خیالی اسے سرکشی پر آمادہ کرتی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس کو بھی یہ چیزیں عطا کرتا ہے آزمائش کے لیے عطا کرتا ہے کہ دیکھے وہ ان نعمتوں کو پا کر اپنے رب کا شکر گزار اور فرمانبردار بنتا ہے اور بندوں کے حقوق کو ادا کرتا ہے یا اس کا نا شکر، مغرور اور بندوں کے حقوق کو ٹھکرانے والا بنتا ہے۔ رہ حقیقی عزت و سر فرازی تو وہ امتحان میں کامیابی کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا پرستانہ نقطۂ نظر کو اختیار کرنے والوں کے نزدیک تنگ حال ہونا باعثِ ذلت ہے۔ گویا جن کو مال و دولت کی فراوانی نصیب نہیں ہوئی وہ اللہ کی نظر میں حقیر ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اس حالت سے انسان کو اس لیے گزارتا ہے تاکہ اس کی آزمائش ہو کر وہ اپنے کو صابر ثابت کر دکھاتا ہے یا نہیں اور اپنے رب کے فیصلہ پر مطمئن ہوتا ہے یا اس کے خلاف شکوہ شکایت کرنے لگتا ہے۔ تنگ حالی انسان کے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا کرتا ہے اور اس کے کردار کو مضبوط بناتی ہے اور انسان ا مرحلہ سے گزر کر عزت و سرفرازی کا مقام حاصل کر سکتا ہے ، بشرطیکہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دے۔ خدا کی یہ عظیم حکمت ہے جو تنگ حالی کے پیچھے کار فرما ہوتی ہے لیکن سطح بیں نگاہیں اس کو نہیں پاتیں اور مغالطہ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس آیت نے صراحت کے ساتھ اس مغالطہ کو دور کرنے کا سامان کیا ہے اس کے بعد بھی اگر انسان اس مغالطہ میں رہتا ہے تو اس کے لیے اس امتحان میں ناکامی مقدر ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عزت و ذلت کا یہ معیار صحیح نہیں جو دنیا پرستوں نے قائم کر رکھا ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں دنیا پرستوں اور بالخصوص مالداروں کو براہ راست خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس آزمائشی زندگی میں دولت پاکر تم بندگان خدا کے حقوق ادا کرتے۔ بے سہارا بچوں اور محتاجوں کی مدد کرتے لیکن تمہارے اندر دولت کا ایسا گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے اس کے کہ یتیموں کی مدد کرتے ان کی ناقدری کرنے لگتے ہو اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو۔
اس سے واضح ہوا کہ قرآن یتیموں کی نہ صرف مدد کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ ان کی قدر کرنے کا بھی۔ بالفاظ دیگر قرآن غریب اور کمزور طبقہ کو سماج میں عزت کا مقام دلوانا چاہتا ہے۔ اور ایک صحیح مسلم سوسائٹی وہ ہے جس میں ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غریبوں کو کھانا کھلانا اور اس کی ایک دوسرے کو ترغیب دینا بنیادی اخلاقیات میں سے ہے جس کی ذمہ داری انسان پر فطرۃً عائد ہوتی ہے۔ شریعت نے اس کو مزید مؤکد کر دیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں تفصیلی احکام بھی دیئے ہیں۔
یہاں قرآن نے جاہلیت کے اس سماج پر سخت گرفت کی ہے جس میں لوگ نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی فکر کرتے اور نہ دوسروں کے اندر جذبۂ خیر پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔ اس سے واضح ہے کہ قرآن انسانی سوسائٹی کو جس وصف کا حامل دیکھنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے افراد خود بھی غریبوں کی مدد کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ اس طرز عمل سے بخیلی اور زرپرستی کا خاتمہ ہوتا ہے اور ہمدردی اور فیاضی کے جذبات پرورش پانے لگتے ہیں۔
فقر و فاقہ کے خاتمہ کے لیے یہ وصف بمنزلہ بنیاد کے ہے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں اور بچوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا تھا اور زور آور مرد میراث پر قابض ہو جاتے تھے ، جس کے نتیجہ میں یتیم بچے اور بچیاں تک اپنے باپ کے ترکہ میں حصہ پانے سے محروم رہ جاتیں۔ اس آیت میں اہلِ جاہلیت کے اسی رویہ کو باطل اور مذموم قرار دیا گیا ہے۔
(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نساء نوٹ ۱۹)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وراثت کی تقسیم کا قرآنی ضابطہ تو مدینہ میں اواخر ۳ھ میں نازل ہوا جو سورۂ نساء میں شامل ہے جبکہ سورۂ فجر مکی ہے جس میں میراث کا مال سمیٹ کر کھانے کی مذمت کی گئی ہے تو پھر یہ گرفت میراث کے کس حکم کی خلاف ورزی کرنے پر کی گئی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وراثت کا قرآنی ضابطہ گو بعد میں نازل ہوا لیکن اس اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب تک یہ ضابطہ نازل نہیں ہوا تھا اس وقت تک یہ لوگ کہ وراثت کا حقدار کون ہے۔ کم از کم یہ بات تو بد یہی ہے کہ باپ کی میراث کا حقدار اس کی اولاد ہے اور خاص طور سے جب وہ یتیم ہو تو اس کے حق کی حرمت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اتنی موٹی بات سمجھنے کے لیے عقل عام کافی ہے اور عقل و انصاف کے اس صریح تقاضے کو رد کر کے زور آور رشتہ داروں کا میراث پر قابض ہو جانا قابل مواخذہ کیوں نہ ہوگا؟ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مکہ کے عرب شریعت الٰہی سے بالکل ناآشنا نہیں تھے بلکہ وہ ابراہیمی شریعت کے وارث تھے یہ اور بات ہے کہ اس کے کچھ اجزاء ہی ان کے پاس باقی رہ گئے تھے مثلاً حج کے مناسب وغیرہ اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہ ہوگا کہ وہ میراث کے سلسلہ میں اتنی بات بھی نہیں جانتے تھے کہ اولاد باپ کی میراث کی حقدار ہے مگر یتیم بچوں اور بچیوں کو ان کے باپ کی میراث سے محروم رکھ کر ان کا چچا پوری میراث پر قابض ہو جاتا تھا۔ آخر اس صریح حق تلفی کے لیے کیا وجہ جواز تھی؟ اور جہاں تک تورات کا تعلق ہے اس میں میراث کا ضابطہ موجود تھا۔ بائبل میں ہے ’’ اور بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اس کی میراث اس کی بیٹی کو دینا۔ اگر اس کی کوئی بیٹی بھی نہ ہو تو اس کے بھائیوں کو اس کی میراث دینا‘‘۔ (گنتی ۲۷:۸،۹)
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چوٹ ہے ان کی زر پرستی پر جس نے ان کے اندر اخلاقی گراوٹ پیدا کی تھی۔
مال و دولت کو جہاں اللہ تعالیٰ نے معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ بنایا ہے وہاں اس میں انسان کا بہت بڑا امتحان بھی رکھا ہے۔ یہ امتحان ایک تو اس پہلو سے ہے کہ انسان آخرت کو مقصود بناتا ہے یا دنیوی مال و دولت کو۔ دوسرے اس پہلو سے کہ مال جاز طریقہ سے حاصل کرکے جائز راہوں میں صرف کرتا ہے یا ناجائز طریقہ سے حاصل کر کے ناجائز راہوں میں صرف کرتا ہے۔ تیسرے اس پہلو سے کہ وہ اللہ کی خاطر مالی قربانیاں دیتا اور بندگان خدا کے حقوق ادا کرتا ہے یا بخل سے کام لیتا اور بندگان خدا کے حقوق غصب کرتا ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تمہارے اس طرز عمل پر گرفت نہیں ہوگی۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن جو زلزلہ آئے گا اور جو دھماکے ہوں گے وہ پوری زمین کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیں گے۔ عمارتیں اور محلات تو کیا پہاڑ تک ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور زمین ایک صاف میدان کی شکل اختیار کرے گی جس میں تمام انسانوں کو خدا کے حضور جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہوگا۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن خود عدالت برپا کرے گا اور وہ بنفس نفیس باز پرس بھی کرے گا اور فیصلہ بھی فرمائے گا اور اس کے حل کی تکمیل اور اس کے فیصلہ کے نفاذ کے لیے فرشتے موجود ہوں گے۔
اس سے عدالت خداوندی کی پر ہیبت تصویر سامنے آتی ہے اور یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ آج تو اللہ تعالیٰ پس پردہ انسان کا امتحان لے رہا ہے لیکن قیامت کے دن یہ پردہ اٹھا دیا جائے گا اور حقیقت بالکل بے نقاب ہو کر اس کے سامنے آ جائے گی۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب عدالت خداوندی برپا ہوگی تو جہنم بالکل سامنے موجود ہوگی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عدالت خداوندی میں اپنے محصور اور جہنم کو سامنے موجود پاکر انسان کو ہوش آئے گا کہ آخرت سے بے پروا ہو کر وہ کتنے زبردست گھاٹے میں پڑا ہے۔ اس وقت اسے یاد آئے گا کہ اللہ کے پیغمبروں کا اس دن سے متنبہ کرنا بالکل بجا تھا اور جو راستہ وہ بتاتے تھے وہی صحیح تھا۔ ان کی نصیحت کو نہ مان کر اس نے بڑی حمایت کی۔ مگر اس روز ہوش میں آنا اور نصیحت پکڑنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی طالب علم امتحان گاہ میں تو پرچہ حل کرنے کے بجائے ہنسی دل لگی میں وقت گزار دے اور جب نتیجہ کا اعلان ہو اور وہ ناکام ہو جائے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے۔ ظاہر ہے بعد از وقت اس کا احساس اس کی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل نہیں کر سکتا البتہ اس کو یاس اور حسرت کے حوالہ ضرور کر دیتا ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس روز انسان محسوس کرے گا کہ حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور میں دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتا رہا۔ کاش کہ میں نے اپنی اس زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتا رہا۔ کاش کہ میں نے اپنی اس زندگی کے لیے دنیا میں کچھ سامان کر لیا ہوتا۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کی سزا کو ان سزاؤں پر قیاس نہ کرو جو دنیا کی حکومتیں مجرمین کو دیتی ہیں۔ اللہ کا عذاب ایسا شدید ہوگا کہ اس طرح کا عذاب نہ کبھی کسی نے دیا ہوگا اور نہ کوئی دے سکتا ہے۔
اس سے آگاہ کرنے کے بعد جو لوگ اللہ کے عذاب کی پرواہ نہ کریں اور مجرم اور سرکش بنے رہیں ان کو اس کے عذاب کا اندازہ اسی وقت ہوگا جب کہ وہ اس کا مزہ چکھیں گے۔
عذاب کی یہ شدت جرم کی شدت کی وجہ سے ہوگی۔ جو لوگ اپنے خالق و مالک اور فرمانروائے کائنات کے خلاف سرکشانہ رویہ اختیار کرتے ہیں وہ زبردست ڈھٹائی کا ثبوت دیتے ہیں اس لیے وہ شدید ترین عذاب کے مستحق ہیں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نفس مطمئنہ سے مراد وہ انسان ہے جس نے اطمینانِ قلب کے ساتھ توحید کا اقرار کیا تھا جس کو آخرت پر یقین تھا اور فراخی اور تنگی ہر طرح کے حالات میں وہ اپنے رب سے راضی و مطمئن رہا کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔
جس شخص نے دنیا میں اطمینان قلب کی یہ صفت پیدا کر لی وہ خدا کے ہاں اس کا مستحق ہوگا کہ اسے ہمیشہ کے لیے چین اور راحت و سکون نصیب ہو۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بڑے پیارے اور رحمت بھرے الفاظ ہیں جن میں نفس مطمئنہ کو فیصلہ کے دن کامیابی کا مژدۂ جاں فزا سنایا جائے گا۔ اور کامیابی بھی ایسی کہ آدمی خدا کو پالے جس کے بعد پانے کے لیے کیا چیز باقی رہ جاتی ہے ؟ بندہ اپنے خدا سے خوش اور خدا اپنے بندے سے خوش۔ عزت و سرفرازی کے اس مقام کو پہنچنے کے بعد کون سی بلندی باقی رہ جاتی ہے جہاں پہنچنے کا انسان تصور کر سکتا ہے ؟
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے بندے سے مراد خدا کے نیک بندے ہیں۔ جنت کی سوسائٹی ان نیک بندوں ہی پر مشتمل ہوگی۔
نیک لوگوں کے زمرہ میں شمولیت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوگی لیکن یہ نعمت ان ہی لوگوں کو میسر آئے گی جو واقعی اس کے قدرداں ہیں۔ جو نیک لوگوں سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ رہنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ، بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں نیک لوگوں سے نفرت کرتے اور ان سے دور بھاگتے رہے اور ان کو ساری دلچسپی خدا بیزار لوگوں سے رہی ان کا حشر بھی خدا بیزار لوگوں ہی کے ساتھ ہوگا۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے (میری جنت)۔ یہ نسبت جنت کے شرف کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے اور اس بات کی طرف بھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مظہر ہوگی۔