پہلی آیت میں البلد (شہر) کا لفظ آیا ہے جس سے مراد شہر مکہ ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’البلد‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے یہ مکہ کے ابتدائی دور کی تنزیل ہے۔
یہ سورہ سابق سورہ کا تکملہ ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ انسان ایک اخلاقی وجود رکھنے والی مخلوق ہے جسے دارالامتحان میں کھڑا کر دیا گیا ہے لہذا اس کا یہ سمجھنا کہ میں من مانی کرنے کے لیے آزاد ہوں اور مجھے خدا کے حضور جوابدہی کے لیے حاضر ہونا نہیں ہے وہ بنیادی غلطی ہے جو انسان کے پورے رویہ کو غلط بنا کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے بعد نہ اس میں فرض شناسی پیدا ہوتی ہے اور نہ حقوق کی ادائیگی کا احساس ابھرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ انسان جہنم کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔
آیت ۱ تا ۴ میں جو شہادتیں میں پیش کی گئی ہیں ان سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ یہ دنیا عشرت کدہ نہیں ہے اور نہ انسان کو یہاں عیش و عشرت کے لیے پیدا کیا گیا ہے بلکہ اس کی تخلیق ایک خاص مقصد کے تحت ہوئی ہے اس لیے اسے پیدا ہی مشقت کی حالت میں کیا گیا ہے۔
آیت ۵، تا ۷ میں انسان کے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل پر گرفت کرتے ہوئے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ کیا وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے اوپر کوئی بالا تر طاقت نہیں ہے جو اس کے طرز عمل کی نگرانی کرنے والے ہو؟
آیت ۸ تا ۱۷ میں واضح کیا گیا ہے کہ انسان کے لیے اخلاق و عمل کی بلندی کی راہ بھی کھول دی گئی ہے اور پستی کی راہ بھی۔ بلندی کی راہ کٹھن ضروری ہے مگر اس چڑھائی پر چڑھ کر آدمی اخلاقی ارتقاء کی منزلیں طے کر لیتا ہے اور بلند مقام پر پہنچ جاتا ہے۔
آیت ۱۸ تا ۲۰ میں بتایا گیا ہے کہ ایمان کے ساتھ اخلاقی بلندی کی راہ اختیار کرنے کا انجام یہ ہے کہ آدمی خوش بختی اور سعادت کی منزل کو پہنچ جاتا ہے بخلاف اس کے کفر کی راہ اختیار کرنے والے جہنم کے گڑھے میں جا گرتے ہیں جس سے نکلنے کی پھر کوئی صورت نہ ہوگی۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا یہ خیال صحیح نہیں کہ دنیا کی زندگی مزے اڑانے کے لیے ہے۔ یہاں نہ کوئی آزمائش ہو رہی ہے اور نہ کبھی جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لے ملاحظہ ہو سورۂ تکویر نوٹ ۱۴۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شہر سے مراد مکہ ہے جہاں یہ سورہ نازل ہوئی۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب اہل مکہ سے ہے جو اس سورہ کے اولین مخاطب تھے۔ ضمیر مخاطب واحد (اَنتَ) استعمال ہوئی ہے۔ کیونکہ یہاں مخاطب مکہ کا ہر فرد ہے۔ گویا مکہ کے رہنے والوں کو فرداً فرداً دعوت فکر دی گئی ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد ماں ہے جو بچہ کو تکلیف سے جنتی ہے۔ والد لفظ مذکر استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہ لفظ جس طرح باپ کے لیے بولا جاتا ، اسی طرح ماں کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو لسان العرب لفظ ولد) اس کی نظیر لفظ حامل ہے جو حاملہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ ان مذکر الفاظ کا استعمال مونث کے لیے اس وقت کیا جاتا ہے جبکہ بات مبہم انداز سے کہنا ہو اور مرد یا عورت کی صراحت بلاغت کی روسے نامناسب ہو۔
موقع کلام کے لحاظ سے یہاں ماں مراد لینا ہی صحیح ہے کیونکہ بعد والی آیت میں انسان کے مشقت میں پیدا کئے جانے کا ذکر ہے ظاہر ہے جننے کی مشقت ماں کو ہوتی ہے نہ کہ باپ کو۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد ہر وہ بچہ جو ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے اور بچہ کا جنم لینا تکلیف کے ساتھ ہوتا ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ دعویٰ ہے جس پر مذکورہ قسمیں بطور شہادت کے کھائی گئی ہیں۔ انسان کا مشقت کی حالت میں پیدا ہونا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ اس حقیقت کی تائید میں چند باتوں کو پیش کر کے اسے مزید موکد کر دیا گیا ہے۔ مکہ کی سرزمین پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک بے آب و گیا وادی ہے، ریگستان ہونے کی وجہ سے یہاں کا موسم بڑا سخت ہوتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانہ میں یہاں کی زندگی عام طور پر سے جفا کشی کی زندگی تھی۔ مکہ کے اس قدرتی ماحول کی طرف قرآن نے اس کے باشندگان کی توجہ مبذول کرائی کہ تم نے اس بات پر بھی غور کیا کہ یہ ماحول پر مشقت کیوں بنایا گیا ہے؟ اگر یہ دنیا عشرت کدہ ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ جو شہر ام القریٰ قرار پایا وہ مشقتوں سے گھرا ہوا ہوتا۔ تم نہ صرف یہ کہ اس کے ماحول کا مشاہدہ کرتے ہو۔ بلکہ اس کی تاریخ سے بھی خوب واقف ہو کہ کن دشواریوں سے گزر کر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔ الغرض اس شہر کے جغرافیائی اور تاریخی حالات دونوں اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ دنیا تفریح گاہ نہیں ہے بلکہ محنت و مشقت کی جگہ ہے، اور اس میں انسان کا امتحان ہے۔ اسی طرح انسان کی اپنی پیدائش بھی اس حقیقت کا ناقابلِ انکار ثبوت ہے۔ بچہ جب ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے تو یہ مرحلہ ماں کے لیے کتنا مشکل اور تکلیف وہ ہوتا ہی اور جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تو مشقتوں ے گھرا ہوا اور روتے ہوئے ہی آتا ہے جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ انسان دنیا میں مزے اڑانے کے لیے نہیں آیا ہے بلکہ تکلیف اور مشقت کو ساتھ لے کر آزمائش کی بھٹی سے گزرنے کے لیے آیا ہے۔ پس انسان کے مشقت کی حالت میں پیدا ہونے کی حقیقت ایک دوسری بہت بڑی حقیقت کا پتہ دیتی ہے اور وہ ہے جزا و سزا کا معاملہ جس سے انسان کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے کیونکہ یہ زندگی جب ابتلاء و آزمائش کی زندگی ٹھہری تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ یوم حساب برپا ہو اور امتحان میں کامیابی وہ ناکامی کے نتائج سامنے آئیں۔
یہ ہے وہ استدلال جو ان آیات میں مضمر ہے۔ ساتھ ہی ایک اہم پہلو کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مشقتوں میںانسان کی عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔ شہر مکہ کو جس شخص نے بسایا اسے کیسی کیسی مشقتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی زندگی کس قدر صبر آزما رہی لیکن ان حالات سے گزر کر ہی اس کے ہاتھوں خانہ کعبہ کی تعمیر کا عظیم اور تاریخی کارنامہ انجام پا سکا اور اس کے بعد ہی وہ امامت کے منصب پر فائز ہوا۔ معلوم ہوا کہ اس دنیا میں جو تکلیفیں اور مشقتیں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں وہ در حقیقت انسان کو تکلیف میں ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ اس کو اوپر اٹھانے کے لیے ہیں۔ انسان اگر اپنا حوصلہ پست نہ رکھے اور خدائی رہنمائی کو قبول کر کے پیش آمدہ تکلیفوں میں فرض شناسی کا ثبوت دے تو اس کے اندر انسانیت کا جو جوہر ہے وہ کھلنے لگتا ہے اور وہ بلندیوں کو چھو لیتا ہے۔
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
آدمی بنتا ہے انساں ٹھو کریں کھانے کے بعد
اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی تعمیر کے لیے کسی ایسے خطہ کا انتخاب نہیں فرمایا جہاں باغ و بہار ہو بلکہ پہاڑوں سے گھری ہوئی ریگستانی زمین کا انتخاب فرمایا اس انتخاب کے پیچھے یہ عظیم حکمت کار فرما ہے کہ اس کے گھر کی زیارت کرنے والوں کے لیے باطنی کشش کا سامان ہو نہ کہ ظاہری کشش کا اور اس سے انسان کو یہ رہنمائی ملے کہ خدا تک پہنچنے کی راہ آسائشوں سے ہو کر نہیں بلکہ دشواری اور کٹھنائیوں سے ہو کر گزرتی ہے۔
اس واضح حقیقت کے بعد ور ان روشن دلائل کی موجودگی میں انسان تکلیف پہنچنے پر کیوں بِلبِلا اٹھتا ہے اور پست ہمتی کا کیوں شکار ہو جاتا ہے ؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے جہ انسان اپنی حیثیت اور اس دنیا کے بارے میں صحیح نقطہ نظر اختیار نہیں کرتا۔ وہ دنیا کو آرام گاہ خیال کرتا ہے اور اس سے آسائش ہی کی امیدیں رکھتا ہے لیکن جب اس کے ان جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور تکلیف اور پھر فرض شناسی کا ثبوت دینے اور حوصلے کے کام کرنے سے قاصر رہتا ہے اس طرح انسان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے اور امتحان میں ناکام ہو جانے کی بنا پر وہ سزا کا مستحق ہو جاتا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان جو مشقتوں میں گھرا ہوا پیدا ہوتا ہے اور اس کے بعد اسے زندگی کی پر خطر راہوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ معلوم نہیں کس وقت اسے کس حادثہ سے دوچار ہونا پڑے اور کس مصیبت کا اس پر نزول ہو وہ اس غرور نفس میں کس طرح مبتلا ہو جاتا ہے کہ کوئی بالا تر طاقت اس کو پکڑنے والی نہیں ہے اور وہ جو چاہے کرے اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا؟ انسان کا مشقت سے گھرا ہونا تو اس کی اپنی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پر ایک بالا تر ہستی کا اقتدار قائم ہے جس کے فیصلے اس پر نافذ ہو کر رہتے ہیں۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک مثال ہے اس بات کی کہ دنیا کو تفریح گاہ خیال کرنے کے نتیجہ میں انسان کا رویہ کتنا غیر ذمہ دارانہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ مثال ان مال داروں کی ہے جو دولت کو بے جا خرچ کرتے ہیں اور پھر اپنے ان نمائشی اخراجات پر فخر کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مال اس لیے عطا کیا تھا کہ وہ اس کو جائز اور خیر کی راہوں میں خرچ کرتے ، اپنی جائز ضرورتیں بھی پوری کرتے اور بندگان خدا کے حقوق بھی ادا کرتے مگر انہوں نے اسے نمائشی اور مسرفانہ اخراجات کا ذریعہ بنا لیا اس طرح امتحان کے اس اہم پرچے کو حل کرنے میں وہ بری طرح ناکام رہے۔
مال کو اڑانا خواہ وہ مشرکانہ مراسم ادا کرنے کے لیے ہو خواہ جاہلی رسومات کو پوا کرنے کے لیے دعوتوں اور تقریبات کی شان بڑھانے کے لیے ہو یا آرٹ اور فن کے نام پر نمائشی یادگاریں تعمیر کرنے کے لیے ، نام و نمود حاصل کرنے کے لیے ہو یا شان و شوکت کے اظہار کے لیے نہ صرف کھلے گناہ کا کام ہے بلکہ اس سے غریبوں اور محتاجوں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا فضول خرچی کر کے اس پر فخر کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ کوئی طاقت اس کی نگرانی نہیں کر رہی ہے اور اس کو دولت اس لیے ملی ہے کہ وہ گل چھرّے اڑاۓ یا اپنے لیے عیش پرستی کا سامان کرے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ سب سے بڑی حماقت ہے خدا تو انسان کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور جب دیکھ رہا ہے تو باز پرس بھی کرے گا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا نے اسے دیکھنے کی صلاحیت بخشی تھی تاکہ وہ کائنات کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ ابھری ہوئی حقیقت کا مشاہدہ کرے مگر اس نے اسی کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ سب کچھ دیکھتا رہا مگر اسے ایک قدیر ہستی کا ہاتھ کہیں نظر نہیں آیا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے زبان اور دو ہونٹ دے کر انسان کو گویائی کی صلاحیت بخشی ہے اور یہ صلاحیت اس لیے بخشی ہے تاکہ وہ اپنے رب کے گن گاۓ اور حق و انصاف کی باتیں کرے مگر انسان کا حال عجیب ہے۔ اس نعمت کو پا لینے کے باوجود اس میں شکر کا جذبہ نہیں ابھرتا۔ وہ باتیں خوب بناتا ہے مگر اس کی زبان نہیں کھلتی تو اپنے رب کے گن گانے کے لیے اور وہ لفاظی سے خوب کام لیتا ہے مگر حق و انصاف کے لیے اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بھلائی اور برائی، نیکی اور بدی اور خیر اور شر کے دونوں راستے اسے دکھا دیے۔ یہ فطرت کی رہنمائی ہے جو انسان کو عطا کی گئی ہے چنانچہ بھلائی اور برائی میں انسان فطرۃً تمیز کرتا ہے (مزید تشریح سورہ الشمس میں آ رہی ہے۔ انشاء اللہ )
خیر اور شر کی دونوں راہیں اس لیے دکھائیں تاکہ انسان اپنی ذمہ داری پر جس راستہ کو چاہے اختیار کر لے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ ’’عَقَبَۃ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ گھاٹی کے ہیں یعنی وہ دشوار گزار راستہ جو پہاڑوں کے درمیان سے گزرتا ہے اور جس کو طے کرنے کے لیے آدمی کو چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے۔ یہاں اس سے مراد نیکی کا راستہ ہے جو دشوار گزار اور مشقت طلب ہے لیکن یہ چڑھائی چڑھ کر آدمی بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔
نیکی کے کاموں میں چونکہ لذت محسوس نہیں ہوتی اور خواہشات کے علی الرغم یہ کام انجام دینا پڑتا ہے اس لیے وہ نفس پر شاق گزرتے ہیں بخلاف اس کے بدی اور گناہ کے کام لذت بخش ہوتے ہیں اور خواہشات بھی ان پر اُبھارتی ہیں۔ اس لیے نفس اس کی طرف آسانی سے چل پڑتا ہے اس حقیقت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
حُحِبَتِ النَّرُ بَالشَّھَوَاتِ وَ حُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمکَارِہِ۔ ’’ جہنم خواہشات نفس سے ڈھانپ دی گئی ہے اور جنت ایسی باتوں سے جو نفس کو ناگوار ہیں ‘‘ (بخاری کتاب الرقاق)
اور حضرت عیسیٰ علیہ والسلام نے بھی اس کو تمثیلی انداز میں بیان فرمایا ہے چنانچہ انجیل متی میں ہے :
’’ تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ جو ہلاکت کو پہنچتا ہے اور اس سے دخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچتا ہے اور اس کے پانے والے تھوڑے ہیں ‘‘۔ (متی ۷ : ۱۳ ،۱۴ )
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سوال گھاٹی کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اچھی طرح سمجھ لو نیکی کی راہ کٹھن راہ ہے جس سے گزرے بغیر آدمی کامیابی کی منزل کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس راہ میں مال کی قربانیاں دینا پڑتی ہیں لیکن جن لوگوں نے مال کو عیش پرستی کا ذریعہ بنایا ہو وہ اس راہ میں کیا قدم رکھ سکیں گے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غلام کو آزاد کرنا یا اس کو آزاد کرانے میں مالی تعاون کرنا اس سورہ میں جو ایک مکی سورہ ہے اور ابتدائی دور کی نازل شدہ ہے غلاموں کو آزاد کرنے کی اس حد تک تاکید کہ نیکی کے دشوار گزار راستہ پہلی سیڑھی ہی یہ عمل قرار پاۓ نہ صرف اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے بلکہ اس سے غلامی کے مسئلہ میں قرآن کا اصل نقطہ نظر بھی نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ جب غلام کو آزاد کرنا سب سے بڑی نیکی قرر پائی تو کسی آزاد کو غلام بنانے کے لیے اسلام میں کیا گنجائش ہو سکتی ہے۔ اسی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص سے سخت باز پرس کرے گا جس نے کسی آزاد کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھائی (رَجُلٌ بَاعَ ھُرّاً ثُمَّ اََلَ تَمَنَہٗ ، بخاری )
(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۶۴ )
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محتاجوں کو کھانا کھلانا ہر حال میں نیکی کا کام ہے لیکن بھوک کی حالت میں اور قحط کے زمانہ میں اس کی ضرورت اور اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر یتیم مدد کا مستحق ہے لیکن اگر وہ قربت دار ہو تو اور زیادہ مدد کا مستحق ہو جاتا ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسکین بھی ہر حال میں مدد کا مستحق ہے لیکن جب اسے غربت نے خاک آلود کر دیا ہو یا افلاس اور بد حالی نے اسے زمین پر پڑے رہنے ( اور موجودہ زمانہ میں یوں کہیے کہ فٹ پاتھ پر گزر بسر کرنے) کے لیے مجبور کردا ہو تو وہ اور زیادہ مدد کا مستحق ہو جاتا ہے۔
ان آیتوں میں نیکی کے کاموں کی چند مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ مقصود یہ واضح کرتا ہے کہ مال کا صحیح اور بہترین مصرف یہ ہے اور اس قسم کے کام کر کے ہی آدمی اخلاق و کردار کی بلندی کی طرف جا سکتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو شہرت کی خاطر فضول خرچی کرتے ہیں تو ان کے حصہ میں ساۓ محرومی کے کچھ نہیں آتا۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان نیک کاموں کو انجام دینے کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی ایمان لا کر زمرہ مؤمنین میں شامل ہو کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی نیکی بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوگی۔ قرآن نے دوسرے مقامات پربی اس کی صراحت کی ہے۔ اور ایمان معتبر نہیں ہے جب تک کہ آدمی قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان نہ لے آۓ۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں اہل ایمان کی دو اہم صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو ہمدردی کی نصیحت کرتے ہیں معلوم ہوا کہ ایک مومن کا اپنے طور سے صبر کرنا اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں باتوں کی دوسروں کو تلقین کی جاۓ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اہل ایمان کو باہم مربوط اور ایک دوسرے کا ہمدرد اور بہی خواہ ہونا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اہل ایمان کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد ان پر معاشرتی اور اجتماعی ذمہ داریاں بھی عائد ہو گئی ہیں۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ کامیاب و با مراد ہونے والے لوگ ہیں کیونکہ یہ امتحان میں پورے اترے اور انہوں نے وہ صفات اپنے اندر پیدا کر لیں جو کامیابی کی ضمانت تھیں۔ یہ سعید روحیں ہیں جو ابدی سعادت سے بہرہ مند ہوں گی۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ان کو آگ میں ڈالنے کے بعد اوپر سے دروازے بند کر دیے جائیں گے اور وہ آگ میں اس طرح گھرے رہیں گے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ پا سکیں گے۔