خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الضّحیٰ

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ والضحیٰ مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱رکوع، گیارہ ۱۱ آیتیں، چالیس۴۰ کلمے، ایک سو بہتّر۱۷۲ حرف ہیں۔ شانِ نزول : ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ چند روز وحی نہ آئی تو کفّار نے بطریقِ طعن کہا کہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو ان کے رب نے چھوڑ دیا اور مکروہ جانا۔ اس پر والضحیٰ نازل ہوئی۔

(۱)  چاشت کی قسم (ف ۲)

۲                 جس وقت کہ آفتاب بلند ہو کیونکہ یہ وقت وہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کلام سے مشرف کیا اور اسی وقت جادو گر سجدے میں گرے۔ مسئلہ : چاشت کی نماز سنّت ہے اور اس کا وقت آفتاب کے بلند ہونے سے قبل زوال تک ہے۔ امام صاحب کے نزدیک چاشت کی نماز دو رکعتیں ہیں یا چار ایک سلام کے ساتھ۔ بعض مفسّرین نے فرمایا ہے کہ ضحیٰ سے دن مراد ہے۔

(۲) اور رات کی جب پردہ ڈالے  (ف ۳)

۳                 اور اس کی تاریکی عام ہو جائے۔ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ چاشت سے مراد وہ چاشت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ چاشت سے اشارہ ہے نورِ جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف اور شب کنایہ ہے آپ کے گیسوئے عنبرین سے۔ (روح البیان)

(۳) کہ تمہیں تمہارے  رب نے  نہ چھوڑا،  اور نہ مکروہ جانا۔

(۴) اور بیشک پچھلی تمہارے  لیے  پہلی سے  بہتر ہے  (ف ۴)

۴                 یعنی آخرت دنیا سے بہتر کیونکہ وہاں آپ کے لئے مقامِ محمود و حوضِ مورود و خیرِ موعود اور تمام انبیاء و رُسل پر تقدم اور آپ کی امّت کا تمام امّتوں پر گواہ ہونا اور آپ کی شفاعت سے مومنین کے مرتبے اور درجے بلند ہونا اور بے انتہا عزّتیں اور کرامتیں ہیں جو بیان میں نہیں آتیں۔ اور مفسّرین نے اس کے یہ معنیٰ بھی بیان فرمائے ہیں کہ آنے والے احوال آپ کے لئے گذشتہ سے بہتر و برتر ہیں گویا کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزّت پر عزّت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اور ساعت بساعت آپ کے مراتب ترقیوں میں رہیں گے۔

(۵) اور بیشک قریب ہے  کہ تمہارا رب تمہیں (ف ۵) اتنا دے  گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے  (ف ۶)

۵                 دنیا و آخرت میں۔

۶                 اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے یہ وعدۂ کریمہ ان نعمتوں کو بھی شامل ہے جو آپ کو دنیا میں عطا فرمائیں۔ کمالِ نفس اور علومِ اوّلین و آخرین اور ظہورِ امر اور اعلائے دِین اور وہ فتوحات جو عہدِ مبارک میں ہوئیں اور عہدِ صحابہ میں ہوئیں اور تا قیامت مسلمانوں کو ہوتی رہیں گی اور دعوت کا عام ہونا اور اسلام کا مشارق و مغارب میں پھیل جانا اور آپ کی امّت کا بہترینِ اُمَم ہونا اور آپ کے وہ کرامات و کمالات جن کا اللہ ہی عالِم ہے اور آخرت کی عزّت و تکریم کو بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفاعتِ عامّہ و خاصّہ اور مقامِ محمود و غیرہ جلیل نعمتیں عطا فرمائیں۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے دونوں دستِ مبارک اٹھا کر امّت کے حق میں رو کر دعا فرمائی اور عرض کیا اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ، اللہ تعالیٰ نے جبریل کو حکم دیا کہ محمّد( مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کی خدمت میں جا کر دریافت کرو رونے کا کیا سبب ہے باوجود یہ کہ اللہ تعالیٰ دانا ہے، جبریل نے حسبِ حکم حاضر ہو کر دریافت کیا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے انہیں تمام حال بتایا اور غمِ امّت کا اظہار فرمایا، جبریلِ امین نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ تیرے حبیب یہ فرماتے ہیں باوجود یہ کہ وہ خوب جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل کو حکم دیا جاؤ اور میرے حبیب (صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) سے کہو کہ ہم آپ کو آپ کی امّت کے بارے میں عنقریب راضی کریں گے اور آپ کو گراں خاطر نہ ہونے دیں گے، حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ جب تک میرا ایک امّتی بھی دوزخ میں رہے میں راضی نہ ہوں گا۔ آیتِ کریمہ صاف دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی کرے گا جس میں رسول راضی ہوں اور احادیثِ شفاعت سے ثابت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی رضا اسی میں ہے کہ سب گنہگار انِ امّت بخش دیئے جائیں تو آیت و احادیث سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شفاعت مقبول اور حسبِ مرضیِ مبارک گنہگارانِ امّت بخشے جائیں گے، سبحان اللہ کیا رتبۂ عُلیا ہے کہ جس پروردگار کو راضی کرنے کے لئے تمام مقرّبین تکلیفیں برداشت کرتے اور محنتیں اٹھاتے ہیں، وہ اس حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو راضی کرنے کے لئے عطا عام کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جو آپ کے ابتدائے حال سے آپ پر فرمائیں۔

(۶) کیا اس نے  تمہیں یتیم نہ پایا پھر جگہ دی (ف ۷)

۷                 سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ابھی والدۂ ماجدہ کے بطن میں تھے، حمل دو ماہ کا تھا، آپ کے والد صاحب نے مدینہ شریفہ میں وفات پائی اور نہ کچھ مال چھوڑا، نہ کوئی جگہ چھوڑی، آپ کی خدمت کے متکفّل آپ کے دادا عبدالمطلب ہوئے، جب آپ کی عمر شریف چار یا چھ سال کی ہوئی تو والدہ صاحبہ نے بھی وفات پائی، جب عمر شریف آٹھ سال کی ہوئی تو آپ کے دادا عبدالمطلب نے بھی وفات پائی، انہوں نے اپنی وفات سے پہلے اپنے فرزند ابوطالب کو جو آپ کے حقیقی چچا تھے آپ کی خدمت و نگرانی کی وصیّت کی ابوطالب آپ کی خدمت میں سرگرم رہے، یہاں تک کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوّت سے سرفراز فرمایا۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسّرین نے ایک معنیٰ یہ بیان کئے ہیں کہ یتیم معنیٰ یکتا و بے نظیر کے ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے درِّ یتیمہ۔ اس تقدیر پر آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزّ و شرف میں یکتا و بے نظیر پایا اور آپ کو مقامِ قرب میں جگہ دی اور اپنی حفاظت میں آپ کے دشمنوں کے اندر آپ کی پرورش فرمائی اور آپ کو نبوّت و اصطفا و رسالت کے ساتھ مشرف کیا۔ (خازن و جمل روح البیان)

(۷) اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی (ف ۸)

۸                 اور غیب کے اسرار آپ پر کھول دیئے اور علومِ ما کان  و ما یکون عطا کئے، اپنی ذات و صفات کی معرفت میں سب سے بلند مرتبہ عنایت کیا۔ مفسّرین نے ایک معنیٰ اس آیت کے یہ بھی بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا وارفتہ پایا کہ آپ اپنے نفس اور اپنے مراتب کی خبر بھی نہیں رکھتے تھے تو آپ کو آپ کے ذات و صفات اور مراتب و درجات کی معرفت عطا فرمائی۔ مسئلہ : انبیاء علیہ السلام سب معصوم ہوتے ہیں نبوّت سے قبل بھی، نبوّت سے بعد بھی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے صفات کے ہمیشہ سے عارف ہوتے ہیں۔

(۸) اور تمہیں حاجت مند پایا پھر غنی کر دیا (ف ۹)

۹                 دولت، قناعت عطا فرما کر۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ تونگری کثرتِ مال سے حاصل نہیں ہوتی حقیقی تونگری نفس کا بے نیاز ہونا۔

(۹) تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو (ف ۱۰)

۱۰               جیسا کہ اہلِ جاہلیّت کا طریقہ تھا کہ یتیموں کو دباتے اور ان پر زیادتی کرتے تھے۔ حدیث شریف میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا مسلمانوں کے گھروں میں وہ بہت اچھا گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور وہ بہت برا گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

(۱۰) اور منگتا کو نہ جھڑکو (ف ۱۱)

۱۱               یا کچھ دے دو یا حسنِ اخلاق اور نرمی کے ساتھ عذر کر دو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سائل سے طا لبِ علم مراد ہے اس کا اکرام کرنا چاہئے اور جو اس کی حاجت ہو اس کا پورا کرنا اور اس کے ساتھ ترش روئی و بدخُلقی نہ کرنا چاہئے۔

(۱۱) اور اپنے  رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو (ف ۱۲)

۱۲               نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو عطا فرمائیں اور وہ بھی جن کا حضور سے وعدہ فرمایا۔ نعمتوں کے ذکر کا اس لئے حکم فرمایا کہ نعمت کا بیان کرنا شکر گذاری ہے۔