تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ الضّحیٰ

ہر سورت کے خاتمہ پر اللہ اکبر کہو

اسمٰعیل بن قسطنطین اور شبل بن عباد کے سامنے حضرت عکرمہ تلاوت قرآن کر رہے تھے جب اس سورت تک پہنچے تو دونوں نے فرمایا کہ اب سے آخر تک ہر سورت کے خاتمہ پر اللہ اکبر کہا کرو۔ ہم نے ابن کثیر کے سامنے پڑھا تو انہوں نے ہمیں یہی فرمایا اور انہوں نے فرمایا کہ ہم سے مجاہد نے یہ فرمایا ہے اور مجاہد کو حضرت ابن عباس کی یہی تعلیم تھی اور ابن عباس کو حضرت ابی بن کعب نے یہی فرمایا تھا اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ حکم دیا تھا، امام القرأت حضرت ابو الحسن بھی اسی سنت کے روای ہیں، حضرت ابو حاتم رازی اس حدیث کو ضعیف کہتے ہیں اس لیے کہ ابو الحسن ضعیف ہیں ابو حاتم تو ان سے حدیث ہی نہیں لیتے، اسی طرح ابو جعفر عقیلی بھی انہیں منکر الحدیث کہتے ہیں لیکن شیخ شہاب الدین ابو شامہ شرح شاطبیہ میں حضرت امام شافعی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک شخص سے سنا کہ وہ نماز میں اس تکبیر کو کہتے تھے تو آپ نے فرمایا تو نے اچھا کیا اور سنت کو پہنچ گیا۔ یہ واقعہ تو اس بات کا مقتضی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہو، پھر قاریوں میں اس بات کا بھی اختلاف ہے کہ کس جگہ یہ تکبیر پڑھے اور کس طرح پڑھے، بعض تو یہ کہتے ہیں واللیل اذا یغشیٰ کے خاتمہ سے اور کہتے ہیں والضحیٰ کے آخر میں، پھر بعض تو کہتے ہیں صرف اللہ اکبر کہے بعض کہتے ہیں اللّٰہ اکبر لا الہ اللّٰہ واللّٰہ اکبر کہے، بعض قاریوں نے سورہ والضحیٰ سے ان تکبیروں کے کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ جب وحی آنے میں دیر لگی اور کچھ مدت حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نہ اتری پھر حضرت جبرائیل آئے اور یہی سورت لائے تو خوشی اور فرحت کے باعث آپ نے تکبیر کہی لیکن یہ کسی ایسی اسناد کے ساتھ مروی نہیں جس سے صحت و ضعف کا پتہ چل سکے۔ واللہ اعلم۔

 

۱

مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہو گئے اور ایک یا دو راتوں تک آپ تہجد کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکے تو ایک عورت کہنے لگی کہ تجھے تیرے شیطان نے چھوڑ دیا اس پر یہ اگلی آیتیں نازل ہوئیں (بخاری مسلم وغیرہ) حضرت جندب فرماتے ہیں کہ جبرائیل کے آنے میں کچھ دیر ہوئی تو مشرکین کہنے لگے کہ یہ تو چھوڑ دئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے والضحٰی سے ماقلفی تک کی آیتیں اتاریں، اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلی پر پتھر مارا گیا تھا جس سے خون نکلا اور جس پر آپ نے فرمایا

ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللّٰہ ما لقیت

یعنی تو صرف ایک انگلی ہے اور راہ اللہ میں تجھے یہ زخم لگاہے۔

طبعیت کچھ ناساز ہو جانے کی وجہ سے دو تین رات آپ بیدار نہ ہوئے جس پر اس عورت نے وہ ناشائستہ الفاظ نکالے اور یہ آیتیں نازل ہوئیں کہا گیا ہے کہ یہ عورت ابو لہب کی بیوی ام جمیل تھی اس پر اللہ کی مار، آپ کی انگلی کا زخمی ہو نا، اور اس موزوں کلام کا بے ساختہ زبان مبارک سے ادا ہونا تو بخاری و مسلم میں بھی ثابت ہے لیکن ترک قیام کا سبب اسے بتانا اور اس پر ان آیتوں کا نازل ہونا یہ غریب ہے، ابن جریر میں ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ آپ کا رب آپ سے نہیں ناراض نہ ہو گیا ہو؟ اس پر یہ آیتیں اتریں۔ اور روایت میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے آنے میں دیر ہوئی حضور صلی اللہ علیہ و سلم بہت گھبرائے اس پر حضرت خضرت خدیجہ نے یہ سبب بیان کیا اور اس پر یہ آیتیں اتریں، یہ دونوں آیتیں مرسل ہیں اور حضرت خدیجہ کا نام تو اس میں محفوظ نہیں معلوم ہوتا ہاں یہ ممکن ہے کہ ام المومنین نے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ فرمایا، واللہ اعلم، ابن اسحاق اور بعض سلف نے فرمایا ہے کہ جب حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے تھے اور بہت ہی قریب ہو گئے تھے اس وقت اسی سورت کی وحی نازل فرمائی تھی۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ وحی کے رک جانے کی بنا پر مشرکین کے اس ناپاک قول کی تردید میں یہ آیتیں اتریں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے دھوپ پڑھنے کے وقت دن کی روشنی، اور رات کے سکون اور اندھیرے کی قسم کھائی جو قدرت اور خلق خالق کی صاف دلیل ہے۔ جیسے اور جگہ ہے۔ واللیل اذا یغشیٰ والنھار اذا تجلٰی اور جگہ ہے فالق الا صباح الخ، مطلب یہ ہے کہ اپنی اس قدرت کا یہاں بھی بیان کیا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ تیرے رب نے نہ تو تجھے چھوڑا نہ تجھ سے دشمنی کی، تیرے لیے آخرت اس دنیا سے بہت بہتر ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے۔ اور سب سے زیادہ تارک دنیا تھے، آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے پر یہ بات ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بورئیے پر سوئے، جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑ گئے۔ جب بیدار ہوئے تو میں آپ کی کروٹ پر ہاتھ پھیر نے لگا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں کیوں اجازت نہیں دیتے کہ اس بورئیے پر کچھ بچھا دیا کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ میں کہاں دنیا کہاں؟ میری اور دنیا کی مثال تو اس راہرو سوار کی طرح ہے جو کسی درخت تلے ذرا سی دیر ٹھہر جائے پھر اسے چھوڑ کر چل دے۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور حسن ہے پھر فرمایا تیرا رب تجھے آخرت میں تیری امت کے بارے میں اس قدر نعمتیں دے گا کہ خوش ہو جائے ان کی بڑی تکریم ہو گی اور آپ کو خاص کر کے حوض کوثر عطا فرمایا جائے گا۔ جس کے کانرے کھوکھلے موتیوں کے خیمے ہوں گے جس کی مٹی خالص مشک کی ہو گی، یہ حدیثیں عنقریب آ رہی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ ایک روایت میں ہے کہ جو خزانے آپ کی امت کو ملنے والے تھے وہ ایک ایک کر کے آپ کو بتا دئیے گئے۔ آپ بہت خوش ہوئے اس پر یہ آیت اتری۔ جب ایک ہزار محل آپ کو دئیے گئے ہر ہر محل میں پاک بیویاں اور بہترین غلام ہیں۔ ابن عباس تک اس کی سند صحیح ہے اور بہ ظاہر ایسی بات بغیر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سنی روایت نہیں ہو سکتی۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی رضامندی میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں نہ جائے۔ حسن فرماتے ہیں اس سے مراد شفاعت ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہم وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند کر لی ہے، پھر آپ نے آیت ولسوف کی تلاوت فرمائی۔ کہ آپ کی یتیمی کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا بچاؤ کیا۔ اور آپ کی حفاظت کی اور پرورش کی اور مقام و مرتبہ عنایت فرمایا۔ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا بعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا چھ سال کی عمر میں والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ اب آپ دادا کی کفالت میں تھے لیکن جب آٹھ سال کی آپ کی عمر ہوئی تو دادا کا سایہ بھی اٹھ گیا۔ اب آپ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آئے، ابو طالب دل و جان سے آپ کی نگرانی اور امداد میں رہے۔ آپ کی پوری عزت و توقیر کرتے اور قوم کی مخالفت کے چڑھتے طوفان کو روکتے رہتے تھے اور اپنی جان کو بطور ڈھال کے پیش کر دیا کرتے تھے۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں آپ کو نبوت مل چکی تھی اور قریش سخت تر مخالفت بلکہ دشمن جان ہو گئے تھے ابو طالب باوجود بت پرست مشرک ہونے کے آپ کا ساتھ دیتا تھا۔ اور مخالفین سے لڑتا بھڑتا رہتا تھا۔ یہ تھی منجانب اللہ حسن تدبیر کہ آپ کی یتیمی کے ایام اسی طرح گزرے اور مخالفین سے آپ کی خدمت اس طرح لی، یہاں تک کہ ہجرت سے کچھ پہلے ابوطالب بھی فوت ہو گئے، اب سفہاء و جہلا قریش اٹھ کھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ کو مدینہ تشریف کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت عطا فرمائی اور اوس و خزرج جیسی قوموں کو آپ کا انصار بنا دیا۔ ان بزرگوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جگہ دی۔ مدد کی، حفاظت کی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو کر مردانہ وار لڑائیاں کیں۔ اللہ ان سب سے خوش رہے۔ یہ سب کا سب اللہ کی حفاظت اور اس کی عنایت احسان اور اکرام سے تھا۔ پھر فرمایا کہ راہ بھولا پا کر صحیح راستہ دکھا دیا جیسے اور جگہ ہے ما کنت تدری ماالکتاب ولا الایمان الخ یعنی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمھاری طرف روح کی وحی کی۔ تم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے ؟ تمھیں نہ کتاب کی خبر تھی بلکہ ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا ہدایت کر دی۔ بعض کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بچپن میں مکہ کی گلیوں میں گم ہو گئے تھے اس وقت اللہ نیلوٹا دیا۔ بعض کہتے ہیں شام کی طرف اپنے چچا کے ساتھ جاتے ہوئے رات کو شیطان نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر راہ سے ہٹا کر جنگل میں ڈال دیا۔ پس جبرائیل علیہ السلام آئے اور پھونک مار کر شیطان کو تو حبشہ میں ڈال دیا اور سواری کو راہ لگا دیا۔ بگوی نے یہ دونوں قول نقل کئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ بال بچوں والے ہوتے ہوئے تنگ دست پاکر ہم نے آپ کو غنی کر دیا، پس فقیر صابر اور غنی شاکر ہونے کے درجات آپ کو مل گئے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ سب حال نبوت سے پہلے کے ہیں بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تونگری مال و اسباب کی زیادتی سے نہیں بلکہ حقیقی تونگری وہ ہے جس کا دل بے پرواہ ہو۔ صحیح مسلم شریف میں ہے اس نے فلاح پالی جسے اسلام نصیب ہوا اور جو کافی ہوا، اتنا رزق بھی ملا اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت کی توفیق بھی ملی، پھر فرمایا ہے کہ یتیم کو حقیر جان کر نہ ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ اس کے ساتھ احسان و سلوک کر اور اپنی یتیمی کو نہ بھول، قتادہ فرماتے ہیں یتیم کے لیے ایسا ہو جانا چاہیے جیسے سگا باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے، سائل کو نہ جھڑک جس طرح تم بے راہ تھے اور اللہ نے ہدایت دی تو اب جو تم سے علمی باتیں پوچھے صحیح راستہ دریافت کرے تو تم اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، غریب مسکین ضعیف بندوں پر تکبر تجبر نہ کرو، انہیں ڈانٹو ڈپٹو نہیں برا بھلا نہ کہو سخت سست نہ بولو، اگر مسکین کو کچھ نہ کرو، تو بھی بھلا اچھا جواب دے۔ نرمی اور رحم کا سلوک کر، پھر فرمایا کہ اپنے رب کی نعمتیں بیان کرتے رہو۔ یعنی جس طرح تمھاری فقیری کو ہم نے تونگری سے بدل دیا، تم بھی ہماری ان نعمتوں کو بیان کرتے رہو، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعاؤں میں یہ بھی تھا واجعلنا شاکرین لنعمتک مثنین بھا علیک قابیلھا واتمھا علینا یعنی اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی شکر گزاری کرنے والا ان کی وجہ سے تیری ثنا بیان کرنے والا ان کا اقرار کرنے والا کر دے اور ان نعمتوں کو ہم پورا کر دے۔ ابو نضرہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ نعمتوں کی شکر گزاری میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا بیان ہو، مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے تھوڑے پر شکر نہ ادا کیا اس نے زیادہ پر بھی شکر نہیں کیا۔ جس نے لوگوں کی شکر گزاری نہ کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔ نعمتوں کا بیان بھی شکر ہے اور ان کا بیان نہ کرنا بھی ناشکری ہے، جماعت کے ساتھ رہنا رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث ہے، اس کی اسناد ضعیف ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت انس سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! انصار سارا کا سارا اجر لے گئے فرمایا نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو، ابو داؤد میں ہے اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا جس نے بندوں کا شکر ادا نہ کیا۔ ابو داؤد کی حدیث میں ہے کہ جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گزار ہے اور جس نے اسے چھپا یا اس نے ناشکری کی۔ اور روایت میں ہے کہ جسے کوئی عطیہ دیا جائے اسے چاہیے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثنا بیان کرے جس نے ثنا کی وہ شکر گذا ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی۔ (ابو داؤد) مجاہد فرماتے ہیں یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے، ایک روایت میں ہے کہ قرآن مراد ہے، حضرت علی فرماتے ہیں طلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو، محمد بن اسحاق کہتے ہیں جو نعمت و کرامت نبوت کی تمھیں ملی ہے اسے بیان کرو اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے والوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان ہوتا در پردہ سب سے پہلے پہل دعوت دینی شروع کی اور آپ کر نماز فرض ہوئی جو آپ نے ادا کی۔ سورۃ الضحیٰ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کے احسان پر اس کا شکر ہے۔