پہلی آیت میں تین (انجیر ) کی قَسمَ کھائی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلتِّین ہے۔
مکی ہے اور اس کے مکی ہونے پر آیت ۳ دلالت کرتی ہے جس میں ’’ اس امن والے شہر ‘‘ کی قسم کھائی گئی ہے جس سے مراد ظاہر ہے شہر مکہ ہی ہے۔ مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔
جزاۓ عمل ہے جس کی معقولیت نہایت دلنشین انداز میں واضح کی گئی ہے۔
آیت ۱ تا ۳ میں ان مقامات کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے جو جلیلُ القدر پیغمبروں کی یاد تازہ کرتے ہیں اور جہاں سے ہدایت کی روشنی پھیلی۔
آیت ۴ تا ۶ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے تاکہ وہ اپنے کو اس مقام بلند کا اہل ثابت کرے جہاں اس کا رب اسے پہنچانا چاہتا ہے مگر اس نے پستی کی راہ اختیار کی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے انتہائی پستی کے گڑھے میں پھینک دیا۔ البتہ جن لوگوں نے اپنے کو مقام بلند کا اہل ثابت کر دیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوۓ۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دائمی اجر کا وعدہ ہے۔
آیت ۷ و ۸ میں اس بات پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور متضاد طرز عمل پاۓ جاتے ہیں تو دونوں کا انجام یکساں کیسے ہوگا یا یہ بات کس طرح صحیح ہو سکتی ہے کہ سرے سے کوئی انجام ہو گا ہی نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک عدل و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات سراسر غیر معقول ہے کیونکہ عقل اور فطرت دونوں کی گواہی یہ ہے کہ اللہ تمام حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہے پھر جو سب سے بڑا حاکم ہو وہ انصاف کیسے نہیں کرے گا۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱* ہے انجیر اور زیتون کی ۲*۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور طور سینین کی ۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس امن والے شہر کی ۴*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ۵*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسے پست ترین حالت کی طرف پھیر دیا۶*
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ ایمان لاۓ اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ ۷*
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (اے پیغمبر!) اس کے بعد کون ہے جو تمہیں جزا و سزا کے معاملہ میں جھٹلاتا ہے ؟ ۸*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں انجیر اور زیتون کا ذکر کنایۃً اس علاقہ کے لیے ہوا ہے جہاں یہ دونوں چیزیں بکثرت پیدا ہوتی ہیں یعنی بیتُالمقدس کی سر زمین۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے بعد طور سینا اور امن والے شہر کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے انجیر و زیتون سے مراد ان کی پیداوار کا علاقہ ہی ہو سکتا ہے۔
سر زمین فلسطین انجیر اور زیتون کی پیداوار کے لیے قدیم زمانہ سے مشہور رہی ہے چنانچہ عہد نامہ عتیق میں ہے :
’’کیونکہ خداوند میرا خدا تجھ کو ایک اچھے ملک میں لیے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا ملک ہے جہاں گیہوں اور جو اور انگور اور انجیر کے درخت اور انار ہوتے ہیں وہ ایسا ملک ہے جہاں روغن دار زیتون اور شہد بھی ہے ‘‘ (استثناء ۸ : ۷، ۸ )
اور عہد نامہ جدید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انجیر کے درخت کے پاس سے گزرنے اور اس کی تمثیل بیان کرنے کا ذکر تعدد مقامات پر ہوا ہے مثلاً مرقس کی انجیل باب ۱۱: ۱۲، ۱۳ ،۱۴ ، میں اور لوقا کی انجیل باب ۲۱: ۲۹ تا ۳۳ میں ، اور کوہ زیتون کا ذکر تو موجودہ انجیلوں میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ اس کے ایک معلوم اور معروف مقام ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی۔ یہ مشہور پہاڑ یروشلم کے مشرقی جانب ہے
Mt. Of Olives ------- A hill which is before Jerusalem on the east
(A Dictionary O the Bible p. 554)
اس پہاڑ پر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام تشریف لے جاتے او اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے اس سلسلہ میں آپ ے نہایت مؤثر خطبے ارشاد فرماۓ ہیں جو موجودہ انجیل میں منقول ہیں اور جو کوہ زیتون کی چوٹی پر دے گۓ تھے۔
پس انجیر کے علاقہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو دعوت پیش کی اور کوہ زیتون پر آپ نے جو درس دیا اسمیں آخرت کی جزا و سزا کا واضح تصور پیش کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’ پھر اس نے اپنے شاگردوں کی طرف نظر کر کے کہا مبارک ہو تم جو غریب ہو کیونکہ خدا کی بادشاہی تمہاری ہے۔ مبارک ہو تم جو اب بھوکے ہو کیونکہ آسودہ ہو گے۔ مبارک ہو تم جو اب روتے ہو کیونکہ ہنسو گے ........... اس لیے کہ دیکھو آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے ................ مگر افسوس تم پر جو دولت مند ہو کیونکہ تم اپنی تسلی پا چکے۔ افسوس تم پر جو اب سیر ہو کیونکہ بھوکے ہو گے۔ افسوس تم پر جو اب ہنستے ہو کیونکہ ماتم کرو گے اور روؤ گے .............. کیونکہ جس پیمانہ سے تم ناپتے ہو اسی سے تمہارے لیے ناپا جاۓ گا ....... کیونکہ کوئی اچھا درخت نہیں جو بُرا پھل لاۓ اور نہ کوئی بُرا درخت ہے جو اچھا پھل لاۓ۔ ہر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے کیونکہ جھاڑیوں سے انجیر نہیں توڑتے (لوقا ۶ : ۲۰ تا ۴۴ )۔
جب وہ زیتون کے پہاڑ پر ہیکل کے سامنے بیٹھا تھا تو پطرس اور یعقوب اور یوحنا اور اندر یاس نے تنہائی میں اس سے پوچھا ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی ؟ .............. مگر ان دنوں میں اس مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جاۓ گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان سے ستارے گرنے لگیں گے اور جو قوتیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی ..........
اب انجیر کے درخت سے تمثیل سیکھو۔ جوں ہی اس کی ڈالی نرم ہوتی ہے اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے۔ اسی طرح جب تم ان باتوں کو ہوتے دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہر گز تمام نہ ہو گی۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں نہ ٹلیں گی۔ لیکن اس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ ‘‘ (مرقس ۱۳ : ۳ تا ۳۲ )۔
’’ یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی ‘‘ (متی ۲۵ : ۴۶ )
بائبل کے ان اقتباسات میں زیتون اور انجیر دونوں کا نہ صرف ذکر موجود ہے بلکہ ساتھ ہی قیامت اور جزا و سزا کا بیان بھی۔ قرآن کا اشارہ تین اور زیتون کی قسم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اسی درس اور اسی تعلیم کی طرف ہے۔ اور یہ الفاظ کنایہ کے طور پر اس لیے استعمال کیے گۓ ہیں تاکہ وہ ماحول مصور ہو کر سامنے آ جاۓ جس میں جزا و سزا کا واضح تصور پیش کیا گیا تھا اور جہاں انجیل نازل ہوئی تھی۔ یہ بلاغت کا ایک اسلوب ہے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جاۓ۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا دورا نام طور سینا ہے۔ کوہ طور جہاں موسیٰ علیہ السلام کو شریعت عطا ہوئی تھی جزیرہ نماۓ سینا میں واقع ہے۔ نبی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد کوہ سینا کے دامن میں قیام پذیر ہوۓ تھے۔ طور سینین سے اشارہ تورات کی طرف ہ جس میں صراحت کے ساتھ یہ بات پیش کی گئی تھی کہ قیامت کے دن جزا و سزا کا معاملہ لازماً پیش آۓ گا۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد شہر مکہ ہے جو ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں امن والا قرار پایا اور اس کی یہ حیثیت ہمیشہ بر قرار رہی یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت میں بھی یہاں لڑائی ممنوع تھی۔ اس کی یہ صفت کہ وہ امن والا ہے اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ انسان کی عظمت کا راز خدا کی ٹھہرائی ہوئی حرمتوں کی پاسداری میں ہے اور اس کی خلاف ورزی انسان کے لیے باعث ذلت ہے۔
بلدِ امین (امن والا شہر) اس بت کا تاریخی ثبوت ہے کہ یہاں سے ہدایت کی روشنی پھیلی ہے ور اس ہدایت کا ایک اہم جز آخرت کی جزا و سزا پر ایمان لانا تھا اور جو صحیفہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل کیا گیا تھا اس میں جزا و سزا کا یہ تصور شامل تھا۔ (ملاحظہ ہو سورہ اعلیٰ نوٹ ۱۹)
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہترین ساخت پر پیدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس کے لحاظ سے اسے نہاتی موزو۳ں ساخت عطاء کی گئی ہے۔ جسم بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا دیا گیا ہے اور اس میں قوتیں اور صلاحیتیں بھی اعلیٰ قسم کی رکھ دی گئی ہیں۔ پھر عقل و فہم ور علم و حکمت کی قابلیتوں نے تو گویا اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج رکھ دیا ہے۔ وہ نہ پیدائشی گنہگار ہے۔ اور نہ اس کی فطرت شر پسند ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اسے فطرت مستقیمہ پر پیدا کیا گیا ہے۔ اور خیر و شر کا امتیاز اس کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ بھلائی اور برائی کے رجحانات اس کے اندر ضرور پاۓ جاتے ہیں لیکن جہاں تک اس کی اصل فطرت کا تعلق ہے وہ خیر پسند ہی ہے۔
انسان کو یہ بہترین ساخت جو عطاء ہوئی ہے وہ خداۓ واحد کی خلّاقی اور اس کے فضل کا نتیجہ ہے اور مقصود یہ ہے کہ انسان ان صلاحیتوں سے کام لے کر وہ ذمہ داریاں پوری کرے جو خدا نے اس کے سپرد کی ہیں اور وہ اوصاف اپنے اندر پیدا کرے جو انسانیت کا کمال ہیں تاکہ وہ آنے والی زندگی میں اپنے رب کے ابدی انعامات کا مستحق قرار پاۓ۔ واضح ہوا کہ آخرت کی جزا و سزا انسان کے بہترین ساخت پر پیدا کیے جانے کا لازمی تقاضا ہے لہٰذا قرآن کا یہ دعویٰ کہ جزا و سزا واقع ہو کر رہے گی اس کی صداقت کی دلیل ہے اور اس کی یہ دعوت کہ اس تصور کی بنیاد پر اپنی زندگیاں سنوارو کوئی انوکھی دعوت نہیں ہے جو پہلی مرتبہ پیش ہوئی ہو بلکہ اس سے پہلے بھی یہی دعوت انبیاء علیہم السلام پیش کرتے رہے ہیں چنانچہ ان جلیل القدر پیغمبروں نے جن کی طرف بڑی بڑی ملتیں منسوب ہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیروؤں کو اسی کی تعلیم دی تھی۔ انجیرو زیتون کی سر زمین (بیت المقدس ) گواہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عدالت خداوندی کے تصور کو اجاگر کر کے پیش کیا تھا اور کوہ زیتون پر اپنے شاگردوں کویہ تعلیم دی تھی کہ تمہاری سعی و جہد کا مقصد حصول آخرت ہونا چاہیے۔ جزا و سزا کی حقیقت انجیل میں بڑے مؤثر انداز سے بیان ہوئی تھی۔
اسی طرح طور سینا گواہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب۔ تورات۔ نازل کی گئی تھی اس میں بھی اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا تھا اور آپ نے بنی اسرائیل کو جو درس کوہ طور کے دامن میں دیا تھا، اور ان سے شریعت کی پابندی کاجو عہد لیا تھا اس میں آخرت کی جزا و سزا کا یہ بنیادی تصور پوری طرح شامل تھا، اور شہر مکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جزا و سزا کے تصور ہی کی بنیاد پر ایک نۓ شہر اور ایک نۓ سماج کی داغ بیل ڈالی تھی ،صحیفہ ابراہیمی میں ایمان بالآخرۃ کی دعوت واضح طور سے موجود تھی اور انہوں نے جو صدا بلند کی وہ فلاح آخرت کی طرف دوڑنے ہی کی صدا تھی ان تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ :
اولاً : جس طرح تمام انبیاء علیہم السلام نے توحید کی دعوت دی تھی اسی طرح جزا و سزا پر یقین رکھنے کی بھی دعوت دی تھی۔ حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم نے تعلیم و ارشاد کے جو مراکز قائم کیے تھے وہ اپنے اندر اس تعلیم کی تاریخی شہادت رکھتے ہیں۔
ثانیاً : جزاۓ عمل کا انکار، انبیاء علیہم السلام کی تکذیب ور ان کی دعوت کا انکار ہے۔
ثالثاً : ہر وہ تصور جو آخرت کی جزا و سزا کے خلاف ہو خواہ وہ دنیا کو مقصود بنانے کا تصور ہو یا مرنے کے بعد انسان کے کسی اور مخلوق میں تبدیل ہو جانے (تناسخ) کا تصور مثلاً جانور یا درخت بن جانے کا تصور یا پھر یہ خیال کہ مرنے کے بعد زندگی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے یا یہ وہم کہ (نعوذ با للہ) انسان مرنے کے بعد خدا میں ضم ہو جاتا ہے وہ گمراہی ہے جو انسان کے سارے شرف کو خاک میں ملا کر رکھ دیتی ہے اور اس کی زندگی کو ناکام با کر اسے تباہی کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔
رابعاً : جزا و سزا کا تصور انسان کو ذمہ دار اور با کر دار بناتا ہے نیز اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر اسے حقیقی ترقی کی راہ پر لگا دیتا ہے۔
خامساً : یہ تاریخی مقامات جہاں جلیل القدر پیغمبر مبعوث ہوۓ اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ پاکیزہ نفوس اخلاق و کردار کے اعلیٰ معیار پر تھے اور ان کی عظمت نے آسمان کو چھو لیا تھا۔ نیز جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کر کے جزاۓ عمل کی بنیاد پر اپنے کردار کی تعمیر کی تھی وہ بام عروج کا پہنچ گۓ۔ یہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بہترین صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں اور وہ توحید و آخرت کی بنیاد پر زندگی بسر کر کے ان صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکتا ہے اور اپنے کو اتنا اونچا اٹھا سکتا ہے کہ ثریا بھی اس کی رفعت پر رشک کرنے لگے۔ ؎
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جاۓ
آیت ۱ تا ۳ میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں اور آیت ۴ میں جو بات ارشاد ہوئی ہے ان کے اشارات اور مضمرات ان تمام حقائق کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوۓ ہیں جن کو مختصراً ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پست ترین حالت سے مراد گراوٹ اور تنزل کی انتہائی حالت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے اپنی ساخت کی قدر نہیں کی اور ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کیا جو اس کے اندر ودیعت کی گئی تھیں اور اوپر اٹھے کے بجاۓ اس نے گرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے گراوٹ کے آخری درجہ کو پہنچا دیا۔ نتیجہ یہ کہ وہ قعر جہنم میں جا گرا۔
معلوم ہوا کہ انسان جب اس مقصد کو اپنا نصب العین نہیں بناتا جس کے لیے اسے اعلیٰ صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں تو پھر وہ انسانیت کا جوہر کھو دیتا ہے اور حیوان سے بھی بد تر ثابت ہوتا ہے چنانچہ انسانی گراوٹ کی بد ترین مثالوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں اور آج بھی ذلیل حرکتوں اور کمینہ پن کے ایسے ایسے واقعات مشاہدے میں آتے رہتے ہیں کہ انسانیت ماتم کرنے لگتی ہے۔ عبادت کے مقدس جذبہ کی یہ توہین کہ انسان اینٹ پتھر کو معبود بنا لے یہاں تک کہ آلۂ تناسل کو پوجنے لگے ، انسانی خون کی یہ ارزانی کی جانور کی قدر و قیمت انسانی جانوں سے بھی زیادہ قرار پاۓ، صنف نازک پر یہ ظلم کہ مرد ان کو اپنی ہو کا نشانہ بنا لیں۔ کمزوروں کے حقوق کی یہ پامالی کہ یتیموں کا مال ہڑپ کر جاۓ ، خود غرضی کی یہ انتہا کہ غریبوں کا خون چوسنے لگے ، انسانوں کی اس درجہ بے وقعتی کہ ان کو اذیت دینے کے درد ناک طریقے اختیار کرے اور انسانی سماج کی یہ بے حرمتی اور اس کے ساتھ ایسی دشمنی کہ سائنس اور ٹکنالوجی کو اس کی تباہی کے لیے استعمال کرے یہاں تک کہ ایک بم کے دھماکے میں لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ یہ اور اس طرح کی دوسری خرابیاں انسانی گراوٹ کا ناقابل انکار ثبوت ہیں۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کی قدر کی اور اپنے کو ایمان و عمل صالح سے سنوارا وہ پستی میں گرنے سے بچ گۓ۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال صحیح مقصد کے لیے کیا اور آخرت کی منزل کو سامنے رکھتے ہوۓ بلندیوں پر چڑھنے کا حوصلہ کیا اس لیے وہ آخرت میں دائمی اجر کے مستحق ہوں گے اور ابدی انعام سے نوازے جائیں گے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان واضح اور محکم دلائل کے سامنے آ جانے کے بعد قیامت اور جزاۓ عمل کے بارے میں پیغمبر کو جھٹلانے میں کیا معقولیت ہے ؟ پس جو لوگ اس کے باوجود پیغمبر کو جھٹلانے میں لگے ہوۓ ہیں وہ اپنے ہی نا معقول ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا کا سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہونا ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کیونکہ آسمان اور زمین اور انسان اور فرشتے اور جِن سب پر اس کی حکومت قائم ہے پھر کیا تم اس سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ اچھے اور برے انسانوں میں امتیاز نہ کرے گا ؟ اس کے نزدیک انصاف کوئی چیز نہیں اور وہ کبھی عدالت بر پا نہیں کرے گا ؟ وہ نہ مجرموں کو سزا دے گا اور نہ نیکو کاروں کو انعام ؟ جب تم دنیا کے حاکموں سے بھی انصاف کی توقع رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں جو احکم الحاکمین ہے یہ خیال کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی انصاف کرنے والا نہیں ہے اور نہ جزا و سزا کی کوئی حقیقت ہے ؟