۱ ۔۔۔ ۱: یہ پانچ آیتیں (اقرا سے مالم یعلم تک) قرآن کی سب آیتوں اور سورتوں سے پہلے اتریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم "غارِ حرا"میں خدائے واحد کی عبادت کر رہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کہا "اقرا" (پڑھیے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ "ماانا بقاری (میں پڑھا ہوا نہیں ) جبرائیل علیہ السلام نے کئی بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو زور زور سے دبایا، اور بار بار وہی لفظ "اقرا" کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہی "ما انا بقاری " جواب دیتے رہے۔ تیسری مرتبہ جبرائیل علیہ السلام نے زور سے دبا کر کہا۔ "اقرا باسم ربک " بعنی اپنے رب کے نام کی برکت اور مدد سے پڑھیے۔ مطلب یہ ہے کہ جس رب نے ولادت سے اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک عجیب اور نرالی شان سے تربیت فرمائی جو پتہ دیتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی بہت بڑا کام لیا جانے والا ہے کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ادھر میں چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں ۔ اسی کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم ہو گی جس کی مہربانی سے تربیت ہوئی ہے۔
۲: یعنی جس نے سب چیزوں کو پیدا کیا، کیا وہ تم میں صفتِ قرات پیدا نہیں کر سکتا۔
۲ ۔۔۔ جمے ہوئے خون میں نہ حس ہے نہ شعور، نہ علم نہ۔ ادراک، محض جماد لا یعقل ہے، پھر جو خدا جمادلا یعقل کو انسان عاقل بناتا ہے، وہ ایک عاقل کو کامل اور ایک امی کو قاری و عالم نہیں بنا سکتا۔ یہاں تک قرات کا امکان ثابت کرنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ مشکل نہیں کہ تم کو باوجود امی ہونے کے قاری بنا دے، آگے اس کی فعلیت اور وقوع پر متنبہ فرماتے ہیں۔
۳ ۔۔۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت جس شان سے کی گئی، اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل استعداد اور لیاقت نمایاں ہے جب ادھر سے استعداد میں قصور نہیں اور ادھر سے مبداءِ فیاض میں بخل نہیں بلکہ وہ تمام کریموں سے بڑھ کر کریم ہے۔ پھر وصول فیض میں کیا چیز مانع ہو سکتی ہے ضرور ہے کہ یونہی ہو کر رہے۔
۴ ۔۔۔ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ "حضرت نے کبھی لکھا پڑھانہ تھا، فرمایا کہ قلم سے بھی علم وہی دیتا ہے یوں بھی وہی دے گا۔ "اور ممکن ہے ادھر بھی اشارہ ہو کہ جس طرح مفیض و مستفیض کے درمیان جبرائیل علیہ السلام محض ایک واسطہ ہیں ۔ جس طرح قلم کا توسط اس کو مستلزم نہیں کہ وہ مستفیض سے افضل ہو جائے۔ ایسے ہی یہاں حقیقت جبرائیل یہ کا حقیقت محمدیہ سے افضل ہونا لازم نہیں آتا۔
۵ ۔۔۔ ۲ یعنی انسان کا بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے تو کچھ نہیں جانتا۔ آخر اسے رفتہ رفتہ کون سکھاتا ہے۔ بس وہی رب قدیر جو انسان کو جاہل سے عالم بناتا ہے، اپنے ایک امی کو عارفِ کامل بلکہ تمام عارفوں کا سردار بنا دے گا۔
۷ ۔۔۔ یعنی آدمی کی اصل تو اتنی ہے کہ جمے ہوئے خون سے بنا اور جاہلِ محض تھا۔ خدا نے علم دیا، مگر وہ اپنی اصل حقیقت کو ذرا یاد نہیں رکھتا دنیا کے مال و دولت پر مغرور ہو کر سرکشی اختیار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے کسی کی پرواہی نہیں ۔
۸ ۔۔۔ یعنی اول بھی اس نے پیدا کیا اور آخر بھی اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ اسی وقت اس تکبر اور خود فراموشی کی حقیقت کھلے گی۔
۱۰ ۔۔۔ یعنی اس کی سرکشی اور تمرد کو دیکھو کہ خود کو تو اپنے رب کے سامنے جھکنے کی توفیق نہیں ، دوسرا بندہ اگر خدا کے سامنے سر بسجود ہوتا ہے اسے بھی نہیں دیکھ سکتا۔ ان آیات میں اشارہ ابوجہل ملعون کی طرف ہے۔ جب وہ حضرت کو نماز پڑھتے دیکھتا تو چڑاتا اور دھمکاتا تھا۔ اور طرح طرح سے ایذائیں پہنچانے کی سعی کرتا تھا۔
۱۳ ۔۔۔ یعنی نیک راہ پر ہوتا بھلے کام سکھاتا تو کیا اچھا آدمی ہوتا۔ اب جو منہ موڑا تو ہمارا کیا بگاڑا۔ کذا فی موضح القرآن وللمفسرین اقوال فی تفسیرھا من شاء الاطلاع علیھا فلیراجع، روح المعانی۔
۱ ۴ ۔۔۔ یعنی اس ملعون کی شرارتوں کو اور اس نیک بندے کے خشوع و خضوع کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔
۱۵ ۔۔۔ یعنی رہنے دو! یہ سب کچھ جانتا ہے، پر اپنی شرارت سے باز نہیں آتا۔ اچھا اب کان کھول کر سن لے کہ اگر اپنی شرارت سے باز نہ آیا تو ہم اس کا دروغ اور گناہ بال بال میں سرایت کر گیا ہے۔
۱۶ ۔۔۔ یعنی جس سر پر یہ چوٹی ہے وہ جھوٹ اور گناہوں سے بھرا ہوا ہے گویا اس کا دروغ اور گناہ بال بال میں سرایت کر گیا ہے۔
۱۸ ۔۔۔ ابوجہل نے ایک مرتبہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز سے روکنا چاہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سختی سے جواب دیا۔ کہنے لگا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم جانتے نہیں کہ مکہ میں سب سے بڑی مجلس میری ہے۔ اس پر فرماتے ہیں کہ اب وہ مجلس والے ساتھیوں کو بلا لے۔ ہم بھی اس کی گو شمالی کے لئے اپنے سپاہی بلاتے ہیں ۔ دیکھیں کون غالب رہتا ہے۔ چند روز بعد "بدر" کے میدان میں دیکھ لیا کہ اسلام کے سپاہیوں نے اسے گھسیٹا اور آخرت میں جب دوزخ کے فرشتے اس کو نہایت ذلت کے ساتھ جہنم رسید کریں گے۔ روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل حضرت کو نماز میں دیکھ کر چلا کہ بے ادبی کرے، وہاں پہنچا نہ تھا کہ گھبرا کر پیچھے ہٹا اور لوگوں کے دریافت کرنے پر کہا کہ مجھے اپنے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان ایک آگ کی خندق نظر آئی جس میں کچھ پر رکھنے والی مخلوق تھی۔ میں گھبرا کر واپس آگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ (ملعون) ذرا آگے بڑھتا فرشتے اس کی بوٹی بوٹی جدا کر دیتے۔ گویا آخرت سے پہلے ہی دنیا میں اس کو "سندع الزبانیۃ " کا ایک چھوٹا سا نمونہ دکھلا دیا۔ (تنبیہ) اکثر مفسرین نے "زبانیۃ" سے دوزخ کے فرشتے مراد لئے ہیں ۔
۱۹ ۔۔۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی ہرگز پروانہ کیجئے اور اس کی کسی بات پر کان نہ دھریے۔ جہاں چاہو شوق سے اللہ کی عبادت کرو اور اس کی بارگاہ میں سجدے کرو اور اس کی بارگاہ میں سجدے کر کے بیش از بیش قرب حاصل کرتے رہو۔ حدیث میں آیا ہے کہ "بندہ سب حالتوں سے زیادہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ سے نزدیک ہوتا ہے۔ "