تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ العَلق

۱

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہو جاتا پھر آپ نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہی عبادت میں گزارا کرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں شروع شروع میں وحی آیہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا اقرا یعنی پڑھئیے آپ فرماتے ہیں، میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا پڑھو میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی، پھر چھوڑ دیا اور اقرا باسم ربک الذی خلق سے مالم یعلمتک پڑھا۔ آپ ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا مجھے کپڑا اڑھا دو چنانچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا مجھے اپنی جان جانے کا خود ہے، حضرت خدیجہ نے کہا حضور آپ خوش ہو جائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں پھر حضرت خدیجہ آپ کر لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہو گئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھے بہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے، ورقہ نے پوچھا بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ راز داں فرشتہ ہے جو حضرت عیسیٰ کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتا جب کہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آگیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے ادھر وحی بھی رک کئی اور اس کے رکنے کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ نے پہار کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت حضرت جبرائیل آ جاتے اور فرما دیتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس سے آپ کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہو جاتا اور آرام سے گھر واپس آ جاتے (مسند احمد) یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بروایت زہری مروی ہے اس کی سند میں اس کے متن میں اس کے معانی میں جو کچھ بیان کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے اپنی شرح بخاری میں پورے طور پر بیان کر دیا ہے۔ اگر جی چاہا وہیں دیکھ لیا جائے والحمد اللہ ۔ پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی، لفظی اور رسمی اور سمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ! تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھامعلوم کرادیا۔ ایک اثر میں و ارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو، اور اسی اثر میں ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم بھی وارث کر دیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

 

۶

طالب علم اور طالب دنیا

فرماتا ہے کہ انسان کے پاس جہاں دو پیسے ہوئے ذرا فارغ البال ہوا کہ اسکے دل میں کبر و غرور، عجب و خود پسندی آئی اسے ڈرتے رہنا چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ اسے ایک دن اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہاں جہاں اور حساب ہوں گے۔ مال کی بابت بھی سوال ہو گا کہ لایا کہاں سے خرچ کہاں کیا؟ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں دو لالچی ایسے ہیں جن کا پیٹ ہی نہیں بھرتا ایک طالبعلم اور دوسرا طالب دنیا۔ ان دونوں میں بڑافرق ہے۔ علم کا طالب تو اللہ کی رضامندی کے حاصل کرنے میں بڑھتا رہتا ہے اور دنیاکا لالچی سرکشی اور خود پسندی میں بڑھتا رہتا ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی جس میں دنیا داروں کا ذکر ہے پھر طالب علموں کی فضیلت کے بیان کی یہ آیت تلاوت کی انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العما ءُ یہ حدیث مرفوعاً یعنی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے بھی مروی ہے کہ دو لالچی ہیں جو شکم پر نہیں ہوتے طالب علم اور طالب دنیا اس کے بعد کی آیات ابوجہل ملعون کے بارے میں نازل ہوئی ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتا تھا۔ پس پہلے تو اسے بہترین طریقہ سمجھا گیا کہ جنھیں تو روکتا ہے یہی اگر سیدھی راہ پر ہوں انہی کی باتیں تقوے کی طرف بلاتی ہوں، پھر تو انہیں پر تشدد کرے اور خانہ اللہ سے روکے تو تیری بد قسمتی کی انتہا ہے یا نہیں ؟ کیا یہ روکنے والا جو نہ صرف خود حق کی راہنمائی سے محروم ہے بلکہ راہ حق سے روکنے کے درپے ہے اتنا بھی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اس کا کلام سن رہا ہے اور اس کے کلام اور کام پر اسے سزا دے گا، اس طرح سمجھا چکنے کے بعد اب اللہ ڈرارہا ہے کہ اگر اس نے مخالفت، سرکشی اور ایذا دہی نہ چھوڑ دی تو ہم بھی اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے جو اقوال میں جھوٹا اور افعال میں بدکار ہے یہ اپنے مدد گاروں، ہم نشینوں قرابت داروں اور کنبہ قبیلے والوں کو بلالے۔ دیکھیں تو کون اس کی مدافعت کر سکتا ہے۔ ہم بھی اپنے عذاب کے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں پھر ہر ایک کو کھل جائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا کہ اگر میں محمد کو (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھوں گا تو گردن سے دبوچوں گا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ ایسا کرے گا تو اللہ کے فرشتے پکڑ لیں گے دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مقام ابراہیم کے پاس بیت اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ یہ ملعون آیا اور کہنے لگا کہ میں نے تجھے منع کر دیا پھر بھی تو باز نہیں آیا اگر اب میں نے تجھے کعبے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو سخت سزا دوں گا وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سختی سے جواب دیا اس کی بات کو ٹھکرا دیا اور اچھی طرح ڈانٹ دیا، اس پر وہ کہنے لگا کہ تو مجھے ڈانٹتا ہے اللہ کی قسم میری ایک آواز پریہ ساری وادی آدمیوں سے بھر جائے گی اس پر یہ آیت اتری کہ اچھا تو اپنے حامیوں کو بلا ہم بھی اپنے فرشتوں کو بلا لیتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں اگر وہ اپنے والوں کو پکارتا تو اسی وقت عذاب کے فرشتے اسے لپک لیتے (ملاحظہ ہو ترمذی وغیرہ) مسند احمد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ابوجہل نے کہا اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیت اللہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوںگا تو اس کی گردن توڑ دوں گا۔ آپ نے فرمایا اگر وہ ایسا کرتا تو اسی وقت لوگوں کے دیکھتے ہوئے عذاب کے فرشتے اسے پکڑ لیتے اور اسی طرح جبکہ یہودیوں سے قرآن نے کہا تھا کہ اگر تم سچے ہو تو موت مانگو اگر وہ اسے قبول کر لیتے اور موت طلب کرتے تو سارے کے سارے مر جاتے اور جہنم میں اپنی جگہ دیکھ لیتے اور جن نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تھی اگر یہ مباہلہ کے لیے نکلتے تو لوٹ کر نہ اپنا مال پاتے نہ اپنے بال بچوں کو پاتے۔ ابن جریر میں ہے کہ ابوجہل نے کہا اگر میں آپ کو مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھتا ہوا دیکھ لوں گا تو جان سے مار ڈالوں گا اس پر یہ سورت اتری۔ حضور علیہ السلام تشریف لے گئے ابوجہل موجود تھا اور آپ نے وہیں نماز ادا کی تو لوگوں نے اس بدبخت سے کہا کہ کیوں بیٹھا رہا؟ اس نے کہا کیا بتاؤں کون میرے اور ان کے درمیان حائل ہو گئے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اگر ذرا بھی ہلتا جلتا تو لوگوں کے دیکھتے ہوئے فرشتے اسے ہلاک کر ڈالتے ابن جریر کی اور روایت میں ہے کہ ابوجہل نے پوچھا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمھارے سامنے سجدہ کرتے ہیں؟ لوگوں نے کہا ہاں تو کہنے لگا کہ اللہ کی قسم اگر میرے سامنے اس نے یہ کیا تو اس کی گردن روند دوں گا اور اس کے منہ کو مٹی میں ملادوں گا ادھر اس نے یہ کہا ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و بارک علیہ نے نماز شروع کی جب آپ سجدے میں گئے تو یہ آگے بڑھا لیکن ساتھ ہی اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو بچاتا ہوا پچھلے پیروں نہایت بد حواسی سے پیچھے ہٹا۔ لوگوں نے کہا کیا ہوا ہے ؟ کہنے لگا کہ میرے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان آگ کی خندق ہے اور گھبراہٹ کی خوفناک چیزیں ہیں اور فرشتوں کے پر ہیں وغیرہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر یہ ذرا قریب آ جاتا تو فرشتے اس کا ایک ایک عضو الگ الگ کر دیتے پس یہ آیتیں کلا ان الا نسان لیطغٰی سے آخر تک سورت تک نازل ہوئیں۔ اللہ ہی کو علم ہے کہ یہ کلام حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے یا نہیں؟ یہ حدیث مسند مسلم، نسائی ابن ابی حاتم میں بھی ہے پھر فرمایا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! تم اس مردود کی بات نہ ماننا، عبادت پر مداومت کرنا اور بکثرت عبادت کرتے رہنا اور جہاں جی چاہے نماز پڑھتے رہنا اور اس کی مطلق پرواہ نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ خود تیرا حافظ و ناصر ہے۔ وہ تجھے دشمنوں سے محفوظ رکھے گا، تو سجدے میں اور قرب اللہ کی طلب میں مشغول رہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب تبارک و تعالیٰ سے بہت ہی قریب ہوتا ہے پس تم بکثرت سجدوں میں دعائیں کرتے رہو پہلے یہ حدیث بھی گزر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ اذالسماء نشقت میں اور اس سورت میں سجدہ کیا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سورہ اقراء کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ کا شکر و احسان ہے۔