تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الکهف

نام

اس سورہ کا نام پہلے رکوع کی نویں آیت اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں کہف کا لفظ آیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکہ زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوئی ہیں۔ مکی زندگی کو ہم نے چار بڑے بڑے دوروں میں تقسیم کیا ہے جن کی تفصیل سورہ انعام کے دیباچے میں گزر چکی ہے۔ اس تقسیم کے لحاظ سے تیسرا دور تقریباً ۵ نبوی کے آغاز سے شروع ہو کر قریب قریب ۱۰ نبوی تک چلتا ہے۔ اس دور کو جو چیز دوسرے دور سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے دور میں تو قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی تحریک اور جماعت کو دبانے کے لیے زیادہ تر تضحیک،  اِستہزاء،  اعتراضات، الزامات،  تخویف، اِطماع اور مخالفانہ پروپیگنڈے پر اعتماد کر رکھا تھا، مگر اس تیسرے دور میں انہوں نے ظلم و ستم،  مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار پوری سختی کے ساتھ استعمال کیے،  یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو ملک چھوڑ کر حبش کی طرف نکل جانا پڑا اور باقی ماندہ مسلمانوں کو اور ان کے ساتھ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور کر کیان کا مکمل معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا گیا۔ تاہم اس دور میں دو شخصیتیں ابو طالب اور اُم طالب اور اُم المومنین حضرت خدیجہؓ ایسی تھیں جن کے ذاتی اثر کی وجہ سے قریش کے دو بڑے خاندان بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ ۱۰ نبوی میں ان دونوں کی آنکھیں بند ہوتے ہی یہ دور ختم ہو گیا اور چوتھا دور شروع ہوا جس میں مسلمانوں پر مکے کی زندگی تنگ کر دی گئی یہاں تک کہ آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سمیت تمام مسلمانوں کو مکہ سے نکل جانا پڑا۔

سورہ کہف کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہو گی جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کر لی بھی، مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہ ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جا رہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تا کہ ان کی ہمت بندھے اور انہیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کے لیے اس سے پہلے کیا کچھ کر چکے ہیں۔ 

موضوع اور مضمون

یہ سورہ مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنے پیش کیے تھے : اصحاب کہف کون تھے ؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے ؟(روایات میں آتا ہے کہ دوسرا سوال روح کے متعلق تھا جس کا جواب سورہ بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں دیا گیا ہے۔ مگر سورہ کہف اور بنی اسرائیل کے زمانہ نزول میں کئی سال کا فرق ہے،  اور سورہ کہف میں دو کے بجائے تین قصے بیان کیے گئے ہیں،  اس لیے ہم سمجھتے کہ دوسرا سوال در اصل قصہ خضر سے متعلق تھا نہ کہ روح سے متعلق۔ خود قرآن میں بھی ایک اشارہ ایسا موجود ہے جس سے ہمارے اس خیال کی تائید ہوتی ہے ’’ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۱‘‘ )۔ اور ذوالقرنین کا کیا قصہ ہے ؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ اسی لیے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے انکا انتخاب کیا تھا تاکہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا، بلکہ اُن کے اپنے پُوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورت حال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان در پیش تھی:

۱)۔ اصحاب کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے،  اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ و اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے بلکہ اللہ کے بھروسے پرتن بتقدیر نکل جانا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ضمناً کفار مکہ کو یہ بھی بتایا کہ اصحاب کہف کا قصہ عقیدۂ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحاب کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جلا اُٹھایا اُسی طرح اُس کی قدرت سے وہ بعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔

۲)۔ اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کر دی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو کوئی اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیش زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائدار ہیں۔

۳)۔ اسی سلسلۂ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے سامان تسلی بھی۔ اس قصے میں در اصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ بکی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ کیا ہو گیا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا ! حالانکہ اگر پردہ اُٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے،  آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کے لیے ہوتی ہے۔

۴ )۔ اس کے بعد قصۂ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو،  حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور بغیچوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوار تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ مرضی جب تک ہے یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی۔ اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہو گی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔

اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو اّنہی پر پوری طرح اُلٹ دینے کے بعد خاتمۂ کلام میں پھر ان ہی باتوں کو دہرا دیا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں،  یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو۔ ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حجور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہو گی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی۔۱ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے،جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،اور اُن لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔۲ اِس بات کا نہ اُنھیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا۔۳ بڑی بات ہے جو ان کے مُنہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔ اچھا، تو اے محمدؐ،  شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔۴ آخرِ کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔۵ کیا تم سمجھتے ہو کہ غار ۶ اور کتبے ۷ والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟۸ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ’’اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درُست کر دے،‘‘  تو ہم نے اُنھیں اُسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سُلا دیا،پھر ہم نے اُنھیں اُٹھایا تاکہ دیکھیں اُن کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مُدّتِ قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔ ؏ ۱

 

۱- یعنی نہ اس میں کوئی اینچ پینچ کی بات ہے جو سمجھ میں نہ آ سکے،  اور نہ کوئی بات حق و صداقت کے خط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جسے ماننے میں کسی راستی پسند انسان کو تأمل ہو۔

۲- یعنی جو خدا کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں۔اس میں عیسائی بھی شامل ہیں اور یہود بھی اور مشرکین عرب بھی۔

۳- یعنی ان کا یہ قول کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے، یا فلاں کو خدا نے بیٹا بنا لیا ہے، کچھ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ ان کو خدا کے ہاں اولاد ہونے یا خدا کے کسی کو متبنیٰ بنانے کا علم ہے، بلکہ محض اپنی عقیدت مندی کے غلو میں وہ ایک من مانا حکم لگا بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ وہ کیسی سخت گمراہی کی بات کہہ رہے ہیں اور کتنی بڑی گستاخی اور افترا پردازی ہے جو اللہ رب العالمین کی جناب میں ان سے سر زد ہو رہی ہے۔

۴- یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبتلا تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپ کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ’’میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو ‘‘۔ (بخاری و مسلم نیز تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء آیت ۳ )۔

اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو؟ تمہارا کا م صرف بشارت اور انذار ہے، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کیے جاؤ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو۔ جو نہ مانے اسے بُرے انجام سے متنبہ کر دو۔

واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سر و سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

۵- پہلی آیت کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اور ان دونوں آیتوں کو روئے سخن کفار کی جانب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یک حرف تسلی دینے کے بعد اب آپ کے منکرین کو مخاطب کیے بغیر یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہ سرو سامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں پر تم فریفتہ ہو، یہ ایک عارضی زینت ہے جو محض تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ یہ سب کچھ ہم نے تمہارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے، اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا اور کسی مقصد کی طرف توجہ نہیں کرتے، اور اسی لیے تم کسی سمجھانے والے کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامان عیش نہیں بلکہ وسائل امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کر کے دنیا کی ان دلفریبیوں میں گم ہو جاتا ہے، اور کون اپنے اصل مقام (بندگی رب) کو یاد رکھ کر صحیح رویے پر قائم رہتا ہے۔ جس روز یہ امتحان ختم ہو جائے گا اسی روز یہ بساط عیش اُلٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی۔

۶- عربی زبان میں ’’ کہف‘‘  وسیع غار کو کہتے ہیں اور ’’غار‘‘  کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مگر اُردو میں غار کہف کا ہم معنی ہے۔

۷- الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہے کہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور وہ اَیلہ (یعنی عَقَبہ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحاب کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘  میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ مقام وہی ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع (باب ۱۸۔ آیت ۲۷) میں رقم یا راقم کیا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نَبطْیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیڑا کا قدیم نام قرار دیتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحر لوط کی مغرب میں واقع تھا جس میں پیڑا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیڑا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوداہ اور اَدُومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا۔ اسی بنا پر جدید زمانے کے محققین آثار قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیڑا اور راقم ایک چیز ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ۱۹۴۶ ء جلد ۱۷۔ص ۶۵۸)۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔

۸- یعنی کیا تم اس خدا کی قدرت سے،  جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویسا ہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہر گز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے۔

 

ہم اِن کا اصل قصہ تم کو سُناتے ہیں۔۹ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی۔۱۰ ہم نے ان کے دل اُس وقت مضبُوط کر دیے جب وہ اُٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ ’’ ہمارا ربّ تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے۔ ہم اُسے چھوڑ کر کسی دُوسرے معبُود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے۔‘‘   (پھر انہوں نے آپس میں ایک دُوسرے سے کہا) ’’ یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دُوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبُود، ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھُوٹ باندھے؟اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبُودانِ غیراللہ سے بے تعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔۱۱ تمہارا ربّ تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے  ورست یوسف تا ف تا رعدفرعون کوا لیے  سر و سامان مہیّا کر دے گا۔‘‘  تم انہیں غار میں دیکھتے ۱۲ تو تمہیں یُوں نظر آتا کہ سُورج جب نِکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اُتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔۱۳ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولیِّ مُرشد نہیں پا سکتے۔ ؏ ۲

 

۹- اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحاب کہف کی وفات کے چند سال بعد ۴۵۲ ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ۴۷۴ ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب ’’ تاریخ زوال و سقوط دولت روم‘‘  کے باب ۳۳ میں ’’سات سونے والوں‘‘  (Seven Sleepers) کے عنوان کے تحت ان مآخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحاب کہف غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے، ہمارے مفسرین اس کا نام وَقٗیَنُوس یا دقیانوس یا دَقْیُوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈِیسِیس (Decius) تھا جس نے ۲۴۹ ء سے ۲۵۱ ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بد نام ہے۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفْسُس یا افسوس لکھتے ہیں، اور گبن اس کا نام اِفِسُس (Ephesus) بتاتا ہے جو ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندر گاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ترکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے ۲۰-۲۵ میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۲ صفحہ ۴۳)۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحاب کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈوسیس (Theodosious) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد ۴۰۸ ء سے ۴۵۰ ء تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحاب کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَمْلِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَمْلِیخسُ (Jamblichus) لکھتا ہے قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کی سلطنت کے اڑ تیسویں سال (یعنی تقریباً ۴۴۵ ء یا ۴۴۶ء میں) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریباً ۱۹۶ سال بنتی ہے۔

بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصۂ اصحاب کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے قیام غار کی مدت ۳۰۹ سال بیان کر رہا ہے۔ لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر ۲۵ میں دے دیا ہے۔

اس سریانی روایت اور قرآن کے بیان میں کچھ جزوی اختلافات بھی ہیں جن کو بنیاد بنا کر گبن نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر ’’جہالت‘‘  کا الزام لگایا ہے، حالانکہ جس روایت کے اعتماد پر وہ اتنی بڑی جسارت کر رہا ہے اس کے متعلق وہ خود مانتا ہے کہ وہ اس واقعے کے تیس چالیس سال بعد شام کے ایک شخص نے لکھی ہے اور اتنی مدت کے اندر زبانی روایات کے ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچنے میں کچھ نہ کچھ فرق ہو جایا کرتا ہے۔ اس طرح کی ایک روایت کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ حرف بحرف صحیح ہے اور اس سے کسی جز میں اختلاف ہونا لازماً قرآن ہی کی غلطی ہے، صرف ان ہٹ دھرم لوگوں کو زیب دیتا ہے جو مذہبی تعصب میں عقل کے معمولی تقاضوں تک کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ (قصہ اصحاب کہف کے متعلق مزید معلومات ضمیمہ نمبر ۱ میں بیان کی گئی ہیں جو کتاب کے آخر میں درج ہے)۔

۱۰- یعنی جب وہ سچے دل سے ایمان لے آئے تو اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ کیا اور ان کو یہ توفیق بخشی کہ حق اور صداقت پر ثابت قدم رہیں، اور اپنے آپ کو خطرے میں ڈال لینا گوارا کر لیں مگر باطل کے آگے سر نہ جھکائیں۔

۱۱- جس زمانے میں ان خدا پرست نوجوانوں کو آبادیوں سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی تھی اس وقت شہر اِفِسُس ایشیائے کوچک میں بُت پرسی اور جادوگری کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ وہاں ڈائنا دیوی کا ایک عظیم الشان مندر تھا جس کی شہرت تمام دنیا میں پھیلی ہوئی تھی اور دور دور سے لوگ اس کی پوجا کے لیے آتے تھے۔ وہاں کے جادو گر، عامل، فال گیر اور تعویذ نویس دنیا بھی میں مشہور تھے۔ شام و فلسطین اور مصر تک ان کا کاروبار چلتا تھا اور اس کاروبار میں یہودیوں کا بھی اچھا خاصا حصہ تھا جو اپنے فن کو حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کرتے تھے (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر عنوان Ephesus۔ شرک اور اوہام پرستی کے اس ماحول میں خدا پرستوں کا جو حال ہو رہا تھا اس کا اندازہ اصحاب کہف کے اس فقرے سے کیا جا سکتا ہے، جو اگلے رکوع میں آ رہا ہے، کہ ’’اگر ان کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس ہمیں سنگسار ہی کر ڈالیں گے یا پھر زبردستی اپنی ملت میں واپس لے جائیں گے۔‘‘

۱۲- بیچ میں یہ ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس قرار داد باہمی کے مطابق یہ لوگ شہر سے نکل کر پہاڑوں کے درمیان ایک غار میں جا چھپے تاکہ سنگسار ہونے یا مجبوراً مرتد ہو جانے سے بچ سکیں۔

۱۳- یعنی ان کے غار کا دہانہ شمال کے رخ تھا جس کی وجہ سے سورج کی روشنی کسی موسم میں بھی اندر نہ پہنچی تھی اور باہر سے گزرنے والا یہ نہ دیکھ سکتا تھا کہ اندر کون ہے۔

 

تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں، حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے۔۱۴ اور ان کا کُتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر اُنہیں دیکھتے تو اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر ان کے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی۔۱۵ اور اسی عجیب کرشمے سے ہم نے انہیں اُٹھا بٹھایا ۱۶ تاکہ ذرا آپس میں پوچھ گچھ کریں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا ’’کہو، کتنی دیر اس حال میں رہے؟‘‘  دُوسروں نے کہا ’’شاید دن پھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے۔‘‘  پھر وہ بولے ’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا کتنا وقت اس حال میں گزرا۔ چلو، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سِکّہ دے کر شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے۔ وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لیے لائے۔ اور چاہیے کہ ذرا ہوشیاری سے کام کرے، ایسا نہ ہو کہ کسی کو ہمارے یہاں ہونے سے خبردار کر بیٹھے۔ اِس طرح ہم نے اہلِ شہر کو ان کے حال پر مطلع کیا ۱۷ تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت کی گھڑی بے شک آ کر رہے گی۔۱۸ (مگر ذرا خیال کرو کہ جب سوچنے کی اصل بات یہ تھی) اُس وقت وہ آپس میں اِس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ اِن (اصحابِ کہف) کے ساتھ کیا کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ’’اِن پر ایک دیوار چُن دو، اِن کا ربّ ہی اِن کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے۔۱۹‘‘  مگر جو لوگ اُن کے معاملات پر غالب تھے ۲۰ اُنہوں نے کہا ’’ہم تو اِن پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے۔‘‘ ۲۱ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کُتّا تھا۔ اور کچھ دُوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کُتّا تھا۔ یہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کُتّا تھا۔۲۲ کہو، میرا ربّ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پُوچھو۔۲۳ ؏ ۳

 

۱۴- یعنی اگر باہر سے کوئی جھانک کر دیکھتا بھی تو ان سات آدمیوں کے وقتاً فوقتاً کروٹیں لیتے رہنے کی وجہ سے وہ یہی گمان کرتا کہ یہ بس یونہی لیٹے ہوئے ہیں، سوئے ہوئے نہیں ہیں۔

۱۵- یعنی پہاڑوں کے اندر ایک اندھیرے غار میں چند آدمیوں کا اس طرح موجود ہونا اور آگے کتے کا بیٹھا ہونا ایک ایسا دہشت ناک منظر پیش کرتا کہ جھانکنے والے ان کو ڈاکو سمجھ کر بھاگ جاتے تھے، اور یہ ایک بڑا سبب تھا جس کی وجہ سے ان لوگوں کے حال پر اتنی مدت تک پردہ پڑا رہا۔ کسی کو یہ جرأت ہی نہ ہوئی کہ اندر جا کر کبھی اصل معاملے سے با خبر ہوتا۔

۱۶- یعنی جیسے عجیب طریقے سے وہ سلائے گئے تھے اور دنیا کو ان کے حال سے بے خبر رکھا گیا تھا، ویسا ہی عجیب کرشمہ قدرت ان کا ایک طویل مدت کے بعد جاگنا بھی تھا۔

اگر کہیں اُن لوگوں کا ہاتھ ہم پر پڑ گیا تو بس سنگسار ہی کر ڈالیں گے، یا پھر زبر دستی ہمیں اپنی مِلّت میں واپس لے جائیں گے، اور ایسا ہوا تو ہم کبھی فلاح نہ پا  سکیں گے‘‘۔۔۔۔

۱۷- یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دنیا بدل چکی تھی۔ بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی۔ زبان تہذیب، تمدن، لباس ہر چیز میں نمایاں فرق آگیا تھا۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج، لباس، زبان ہر چیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا۔ اور جب اس نے قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دُکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سریانی روایت کی رو سے دُکاندار کو اس پر شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے۔ چنانچہ اس نے آس پاس کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آخرکار اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں جا کر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو ان پیروان مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پہنچ گیا۔ اب جو اصحاب کہف خبردار ہوئے کہ وہ دوسو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کر گئی۔

۱۸- سُریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور عالمِ آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ رومی سلطنت کے اثر سے عام لوگ مسیحیت قبول کر چکے تھے، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پرستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقتور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار، یا کم از کم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اُفسُس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ (جسے صَدوقی کہا جاتا تھا) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا۔ یہ گروہ کتاب اللہ (یعنی توراۃ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے۔ متی، مرقس، لوقا، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح علیہ السلام کے اس مناظرے کا ذکر ہمیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا، مگر تینوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں (ملاحظہ ہو متی باب ۲۲۔ آیت ۲۳۔ مرقس باب ۱۲۔ آیت ۱۸۔ ۲۷۔ لوقا باب ۲۰۔ آیت ۲۷۔۴۰) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک ناقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا۔

۱۹- فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا۔ ان کے رائے یہ تھی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں لیٹے ہوئے ہیں اسی طرح انہیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے کو تیغا لگا دو، ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کس مرتبے کے ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں۔

۲۰- اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے، اور مسیح، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ۴۳۱ ء میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور حضرت مریمؑ کے ’’مادر خدا ‘‘  ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْ اعَلٰٓی اَمْرِھِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے۔

۲۱- مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس اس آیت بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھیرا کر مقابِر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں:

لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسُرُج۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد نسائی۔ ابن ماجہ)۔

 ’’اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔‘‘  

اَلاوان من کان قبلکم کا نو ا یتخذون قبور انبیاءھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک (مسلم)

 ’’خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔‘‘  

لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآء ھم مساجد (احمد، بخاری، مسلم،  نَسائی)

 ’’اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘  

اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ (احمد،  بخاری، مسلم، نسائی)

 ’’ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ فعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟

اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی اس فائدہ نہیں کہ ۱۸۳۴ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل (Arundell) نے ’’ایشیائے کوچک کے اکتشافات‘‘  (Discoveries in Asia Minor) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور ’’سات لڑکوں ‘‘  (یعنی اصحاب کہف ) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں۔

۲۲- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا کہ جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبتہً زیادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے، اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سی تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں۔ تاہم چونکہ تیسرے قول کی تردید اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ہے اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی۔

۲۳- مطلب یہ ہے اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے، بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس ’’عادتِ جاریہ‘‘  کو لوگ ’’قانون فطرت‘‘  سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ در حقیقت اس کا پابند نہیں ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے، کر سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے، اور اس کی عمر، شکل، صورت، لباس، تندرستی، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں۔ اصحاب کہف کا جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کر دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں۔ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے، اور ان کے نام کیا کیا تھے، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے۔

 

اور دیکھو،کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا۔ (تم کچھ نہیں کر سکتے) اِلّا یہ کہ اللہ چاہے۔ اگر بھُولے سے ایسی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً اپنے ربّ کو یاد کرو اور کہو ’’اُمید ہے کہ میرا ربّ اِس معاملے میں رُشد سے قریب تر بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔۲۴‘‘۔۔۔۔اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ لوگ مدّت کے شمار میں) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں۔۲۵ تم کہو، اللہ ان کے قیام کی مدّت زیادہ جانتا ہے، آسمانوں اور ز مین کے سب پوشیدہ احوال اُسی کو معلوم ہیں، کیا خوب ہے وہ دیکھنے والا اور سُننے والا! زمین و آسمان کی مخلوقات کا کوئی خبر گیر اُس کے سوا نہیں، اور وہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اے نبیؐ ۲۶، تمہارے ربّ کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جُوں کا تُوں) سُنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں ردّ و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے۔۲۷ اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیّت پر مطمئن کرو جو اپنے ربّ کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور اُن سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟۲۸ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو ۲۹ جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔۳۰ صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمہارے ربّ کی طرف سے،  اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے۔۳۱ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں۔۳۲ وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی تواضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہو گا ۳۳ اور ان کا منہ بھُون ڈالے گا، بدترین پینے کی چیز اور بہت بُری آرام گاہ! رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔ ان کے لیے سدا بہار جنّتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے،۳۴ باریک ریشم اور اطلس و دیَبا کے سبز کپڑے پہنیں گے، اور اُونچی مسندوں ۳۵ پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے۔ بہترین اجر اور اعلیٰ درجے کی جائے قیام! ؏ ۴

 

۲۴- یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو پچھلی آیت کے مضمون کی مناسبت سے سلسلۂ کلام کے بیچ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ پچھلی آیت میں ہدایت کی گئی تھی کہ اصحاب کہف کی تعداد کا صحیح علم اللہ کو ہے اور اس کی تحقیق کرنا ایک غیر ضروری کام ہے، لہٰذا خواہ مخواہ ایک غیر ضروری بات کی کھوج میں لگنے سے پرہیز کرو۔ اور اس پر کسی سے بحث بھی نہ کرو۔ اس سلسلہ میں آگے کی بات ارشاد فرمانے سے پہلے جملۂ معترضہ کے طور پر ایک اور ہدایت بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کو دی گئی اور وہ یہ کہ تم کبھی دعوے سے یہ نہ کہہ دینا کہ میں کل فلاں کام کر دوں گا۔ تم کو کیا خبر کہ تم وہ کام کر سکو گے یا نہیں۔ نہ تمہیں غیب کا علم، اور نہ تم اپنے افعال میں ایسے خود مختار ہو کہ جو کچھ چاہے کر سکو۔ اس لیے اگر کبھی بے خیالی میں ایسی بات زبان سے نکل بھی جائے تو فوراً متنبہ ہو کر اللہ کو یاد کرو اور ان شاء اللہ کہہ دیا کرو۔ مزید برآں تم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس کام کے کرنے کو تم کہہ رہے ہو، آیا اس میں خیر ہے یا کوئی دوسرا کام اس سے بہتر ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے یوں کہا کرو کہ امید ہے میرا رب اس معاملے میں صحیح بات، یا صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔

۲۵- اس فقرے کا تعلق ہمارے نزدیک جملۂ معترضہ سے پہلے کے فقرے کے ساتھ ہے۔ یعنی سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ ’’ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے ہیں ‘‘۔ اس عبارت میں ۳ سو اور نو سال کی تعداد جو بیان کی گئی ہے ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ تم کہو، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے۔ اگر ۳۰۹ کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی، تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے۔

۲۶- اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے۔

۲۷- اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بے کم و کاست پہنچا دیں۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بت مان لیں۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو۔ کچھ تم ہماری مان لو، کچھ ہم تمہاری مان لیں۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو: وَ اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لایَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۔ ’’ جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو‘‘۔

۲۸- ابن عباس کی روایت کے مطابق، قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ یہ بلالؓ اور صہیبؓ اور عَمَّارؓ اور خَبّابؓ اور ابن مسعودؓ جیسے غریب لوگ، جو تمہاری صحبت میں بیٹھا کرتے ہیں، ان کے ساتھ ہم نہیں بیٹھ سکتے۔ انہیں ہٹاؤ تو ہم تمہاری مجلس میں آ سکتے ہیں اور معلوم کر سکتے ہیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ جو لوگ رضائے الٰہی کی خاطر تمہارے گرد جمع ہوئے ہیں اور شب و روز اپنے رب کو یاد کرتے ہیں، ان کی معیت پر اپنے دل کو مطمئن کرو اور ان سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم ان مخلص لوگوں کو چھوڑ کر یہ چاہتے ہو کہ دنیوی ٹھاٹھ باٹھ رکھنے والے لوگ تمہارے پاس بیٹھیں؟ اس فقرے میں بھی بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، مگر سنانا در اصل سرداران قریش کو مقصود ہے کہ تمہاری یہ دکھاوے کی شان و شوکت، جس پر تم پھول رہے ہو، اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ میں کچھ قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ تم سے وہ غریب لوگ زیادہ قیمتی ہیں جن کے دل میں اخلاص ہے اور جو اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہتے۔ ٹھیک یہی معاملہ حضرت نوح اور ان کی قوم کے سرداروں کے درمیان بھی پیش آیا تھا۔ وہ حضرت نوحؑ سے کہتے تھے وَمَا نَرٰ کَ اتَّبَعَکَ اِ لَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأیِ۔ ’’ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے جو رذیل لوگ ہیں وہ بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘  اور حضرت نوحؑ کا جواب یہ تھا کہ مَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ا،  ’’ میں ایمان لانے والوں کو دھتکار نہیں سکتا ‘‘،  اور ولَآ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْ دَرِیٔٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْ تِیَہُمُ اللہُ خَیْراً،  ’’ جن لوگوں کو تم حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو، میں ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ نے انہیں کوئی بھلائی عطا نہیں کی ہے۔‘‘  (ہود آیات ۲۷-۲۹-۳۱۔ نیز سورہ اَنعام،  آیت ۵۲۔ اور سورہ الحجر، آیت ۸۸)

۲۹- یعنی اس کی بات نہ مانو، اس کے آگے نہ جھکو، اس کا منشا پورا نہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں ’’اطاعت‘‘  کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔

۳۰- کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطاً کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو حق کو پیچھے چھوڑ کر اور اخلاقی حدود کو توڑ کر بَگ ٹُٹ چلنے والا ہے۔‘ دونوں صورتوں میں حاصل ایک ہی ہے۔ جو شخص خدا کو بھول کر اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اس کے ہر کام میں بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ حدود نا آشنا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایسے آدمی کی اطاعت کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کرنے والا خود بھی حدود نا آشنا ہو جائے اور جس جس وادی میں مُطاع بھٹکے اسی میں مُطیع بھی بھٹکتا چلا جائے۔

۳۱- یہاں پہنچ کر صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ سنانے کے بعد یہ فقرے کس مناسبت سے ارشاد ہوئے ہیں۔ اصحاب کہف کے جو واقعات اوپر بیان ہوئے ہیں ان میں یہ بتایا گیا تھا کہ توحید پر ایمان لانے کے بعد انہوں نے کس طرح اُٹھ کر دو ٹوک بات کہہ دی کہ ’’ ہمارا رب تو بس وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ‘‘۔ اور پھر کس طرح وہ اپنی گمراہ قوم سے کسی قسم کی مصالحت پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ انہوں نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ ’’ ہم اس کے سوا کسی دوسرے الہٰ کو نہ پکاریں گے، اگر ہم ایسا کریں تو بڑی بے جا بات کریں گے ‘‘۔ اور کس طرح انہوں نے اپنی قوم اور اس کے معبودوں کو چھوڑ کر بغیر کسی سہارے اور بغیر کسی سر و سامان کے ایک غار میں جا پڑنا قبول کر لیا، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ حق سے بال برابر بھی ہٹ کر اپنی قوم سے مصالحت کر لیتے۔ پھر جب وہ بیدار ہوئے تب بھی انہیں فکر ہوئی تو اس بات کی کہ اگر خدا نخواستہ ہماری قوم ہم کو اپنی ملت کی طرف پھیر لے جانے میں کامیاب ہو گئی تو ہم کبھی فلاح نہ پا سکیں گے۔ ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سنانا در اصل مخالفین اسلام کو مقصود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اِن مشرکین اور منکرین حق سے مصالحت قطعاً خارج از بحث ہے۔ جو حق خدا کی طرف سے آیا ہے اسے بے کم و کاست ان کے سامنے پیش کر دو۔ مانتے ہیں تو مانیں، نہیں مانتے تو خود بُرا انجام دیکھیں گے۔ جنہوں نے مان لیا ہے، خواہ وہ کم سن نوجوان ہوں، یا بے مال و زر فقیر، یا غلام اور مزدور، بہر حال وہی قیمتی جواہر ہیں، انہی کو یہاں عزیز رکھا جائے گا، اور ان کو چھوڑ کر ان بڑے بڑے سرداروں اور رئیسوں کی کچھ پروا نہ کی جائے گی جو دنیا کی شان و شوکت خواہ کتنی ہی رکھتے ہوں مگر ہیں خدا سے غافل اور اپنے نفس کے بندے۔

۳۲- سرادق کے اصل معنی ہیں قناتیں اور سرا پردے جو کسی خیمہ گاہ کے گرد لگائے جاتے ہیں لیکن جہنم کی مناسبت سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ سرادق سے مراد اس کے وہ بیرونی حدود ہیں جہاں تک اس کی لپیٹیں پہنچیں اور اس کی حرارت کا اثر ہو۔ آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اس کے سرادق نے ان کو گھیرے میں لے لیا ہے ‘‘۔ بعض لوگوں نے اس کو مستقبل کے معنی میں لیا ہے، یعنی وہ اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عالم آخرت میں جہنم کے سرا پردے ان کو گھیر لیں گے۔ لیکن ہم اس کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ حق سے منہ موڑنے والے ظالم یہیں سے جہنم کی لپیٹ میں آ چکے ہیں اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

۳۳- لغت میں ’’مُہل‘‘  کے مختلف معنی بیان کیے گئے ہیں۔ بعض اس کے معنی ’’تیل کی تلچھٹ‘‘  بتاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ لفظ ’’لاوے‘‘  کے معنی میں آتا ہے، یعنی زمین کے وہ مادے جو شدت حرارت سے پگھل گئے ہوں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد پگھلی ہوئی دھات ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے معنی پیپ اور لہو کے ہیں۔

۳۴- قدیم زمانے میں بادشاہ سونے کے کنگن پہنتے تھے۔ اہل جنت کے لباس میں اس چیز کا ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ وہاں بادشاہوں کی سی شان و شوکت سے رہے گا۔

۳۵- ارائک جمع ہے اریکہ کی۔ اریکہ عربی زبان میں ایسے تخت کو کہتے ہیں جس پر چتر لگا ہوا ہو۔ اس سے بھی یہی تصور دلانا مقصود ہے کہ وہاں ہر جنتی تخت شاہی پر متمکن ہو گا۔

 

اے محمدؐ،  اِن کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔۳۶ دو شخص تھے۔ ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے اور اُن کے گرد کھجُور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خُوب پھلے پھُولے اور بار آور ہونے میں اُنہوں نے ذرا سی کسر بھی نہ چھوڑی۔ اُن باغوں کے اندر ہم نے ایک نہر جاری کر دی اور اُسے خوب نفع حاصل ہوا۔ یہ کچھ پا کر ایک دن وہ اپنے ہمسائے سے بات کرتے ہوئے بولا ’’میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زیادہ طاقتور نفری رکھتا ہوں۔‘‘  پھر وہ اپنی جنّت میں داخل ہوا ۳۷ اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہو جائے گی، اور مجھے توقع نہیں کہ قیامت کی گھڑی کبھی آئے گی۔ تاہم اگر کبھی مجھے اپنے ربّ کے حضُور پلٹایا بھی گیا تو ضرور اِس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا۔‘‘  ۳۸ اُس کے ہمسائے نے گفتگو کرتے ہوئے اُس سے کہا ’’کیا تُو کُفر کرتا ہے اُس ذات سے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر نطفے سے پیدا کیا اور تجھے ایک پورا آدمی بنا کر کھڑا کیا؟ ۳۹ رہا میں،  تو میرا ربّ تو وہی اللہ ہے اور میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اور جب تُو اپنی جنّت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ، لاقوة اِلّا باللّٰہ؟ ۴۰ اگر تُو مجھے مال اور اولاد میں اپنے سے کمتر پا رہا ہے تو بعید نہیں کہ میرا ربّ مجھے تیری جنّت سے بہتر عطا فرما دے اور تیری جنّت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے جس سے وہ صاف میدان بن کر رہ جائے،یا اس کا پانی زمین میں اُتر جائے اور پھر تُو اسے کسی طرح نہ نکال سکے۔ ‘‘ آخر کار ہوا یہ کہ اس کا سارا ثمرہ مارا گیا اور اپنے انگوروں کے باغ کو ٹٹیوں پر اُلٹا پڑا دیکھ کر اپنی لگائی ہوئی لاگت پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور کہنے لگا کہ ’’کاش! میں نے اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا‘‘۔۔۔۔ نہ ہوا اللہ کو چھوڑ کر اُس کے پاس کوئی جتھا کہ اُس کی مدد کرتا، اور نہ کر سکا وہ آپ ہی اس آفت کا مقابلہ۔۔۔۔اُس وقت معلوم ہوا کہ کارسازی کا اختیار خدائے برحق ہی کے لیے ہے، انعام وہی بہتر ہے جو وہ بخشے اور انجام وہی بخیر ہے جو وہ دکھائے۔؏۵

 

۳۶- اس مثال کی مناسبت سمجھنے کے لیے پچھلے رکوع کی وہ آیت نگاہ میں رہنی چاہیے جس میں مکے کے متکبر سرداروں کی اس بات کا جواب دیا گیا تھا کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آ کر نہیں بیٹھ سکتے، انہیں ہٹا دیا جائے تو ہم آ کر سنیں گے کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ اس مقام پر وہ مثال بھی نگاہ میں رہے جو سورہ القلم، آیات ۱۷ تا ۳۳ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ نیز سورہ مریم، آیات ۷۳، ۷۴۔ سورہ المومنون،  آیات ۵۵ تا ۶۱۔ سورہ سبا،  آیات ۳۴ تا ۳۶، اور حٰمٰ سجدہ، آیات ۴۹-۵۰ پربھی ایک نظر ڈال لی جائے۔

۳۷- یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا۔ کم ظرف لوگ جنہیں دنیا میں کچھ شان و شوکت حاصل ہو جاتی ہے، ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں جنت نصیب ہو چکی ہے، اب اور کونسی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی وہ فکر کریں۔

۳۸- یعنی اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے بھی تو میں وہاں اس سے بھی زیادہ خوش حال رہوں گا کیونکہ یہاں میرا خوشحال ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ میں خدا کا محبوب اور اس کا چہیتا ہوں۔

۳۹- اگر چہ اس شخص نے خدا کی ہستی سے انکار نہیں کیا تھا، بلکہ وَلَئینْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رِبِّیْ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خدا کے وجود کا قائل تھا، لیکن اس کے باوجود اس کے ہمسائے نے اسے کفر باللہ کا مجرم قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر باللہ محض ہستی باری کے انکار ہی کا نام نہیں ہے بلکہ تکبُّر اور فخر و غرور اور انکار آخرت بھی اللہ سے کفر ہی ہے۔ جس نے یہ سمجھا کہ بس میں ہی میں ہوں، میری دولت اور شان و شوکت کسی کا عطیہ نہیں بلکہ میری قوت و قابلیت کا نتیجہ ہے، اور میری دولت لازوال ہے، کوئی اس کو مجھ سے چھیننے والا نہیں، اور کسی کے سامنے مجھے حساب دینا نہیں، وہ اگر خدا کو مانتا بھی ہے تو محض ایک وجود کی حیثیت سے مانتا ہے، اپنے مالک اور آقا اور فرماں روا کی حیثیت سے نہیں مانتا۔ حالانکہ ایمان باللہ اِسی حیثیت سے خدا کو ماننا ہے نہ کہ محض ایک موجود ہستی کی حیثیت سے۔

۴۰- ’’ یعنی جو کچھ اللہ چاہے وہی ہو گا۔ میرا اور کسی کا زور نہیں ہے۔ ہمارا اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو اللہ ہی کی توفیق و تائید سے چل سکتا ہے۔‘‘

 

اور اے نبی ؐ،  اِنہیں حیاتِ دُنیا کی حقیقت اِس مثال سے سمجھاؤ کہ آج ہم نے آسمان سے پانی برسا دیا تو زمین کی پَود خُوب گھنی ہو گئی، اور کل وہی نباتات بھُس بن کر رہ گئی جسے ہوائیں اُڑائے لیے پھرتی ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۴۱ یہ مال اور یہ اولاد محض دُنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے ربّ کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی اُمیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ فکر اُس دن کی ہونی چاہیے جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے،۴۲ اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے،۴۳ اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلوں پچھلوں میں سے ) ایک بھی نہ چھُوٹے گا، ۴۴ اور سب کے سب تمہارے ربّ کے حضُور صف در صف پیش کیے جائیں گے۔۔۔۔ لو دیکھ لو، آگئے نا تم ہمارے پاس اُسی طرح جیسا ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔۴۵ تم نے تو یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کیا ہے۔۔۔۔ اور نامہٴ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اُس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتابِ زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ کی گئی ہو۔ جو جو کچھ اُنہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا ربّ کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا۔ ۴۶ ؏ ۶

 

۴۱- یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آ جاتی ہے۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غَر ّے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے۔

۴۲- یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہوں گے جیسے بادل چلتے ہیں۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَا لَ تَحْسَبھَُا جَا مِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ (النحل۔ آیت ۸۸)۔ ’’تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں ‘‘۔

۴۳- یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ ’’ جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنا یا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی‘‘۔

۴۴- یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا۔

۴۵- یعنی اس وقت منکرین آخرت سے کہا جائے گا کہ دیکھو، انبیاء کی دی ہوئی خبر سچی ثابت ہوئی نا۔ وہ تمہیں بتاتے تھے کہ جس طرح اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے اسی طرح دو بارہ پیدا کرے گا، مگر تم اسے ماننے سے انکار کرتے تھے۔ بتاؤ، اب دوبارہ تم پیدا ہو گئے یا نہیں؟

۴۶- یعنی ایسا ہر گز نہ ہو گا کہ کسی نے کوئی جرم نہ کیا ہو اور وہ خواہ مخواہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا جائے، اور نہ یہی ہو گا کہ آدمی کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دی جائے یا بیگناہ پکڑ کر سزا دے ڈالی جائے۔

 

یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔۴۷ وہ جِنّوں میں سے تھا اس لیے اپنے ربّ کے حکم کی اطاعت سے نِکل گیا۔۴۸ اب کیا تم مجھے چھوڑ کو اُس کو اور اُس کی ذُرّیّت کو اپنا سرپرست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دُشمن ہیں؟ بڑا ہی بُرا بدل ہے جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں۔ میں نے آسمان و زمین پیدا کرتے وقت اُن کو نہیں بُلایا تھا اور نہ خود اُن کی اپنی تخلیق میں انہیں شریک کیا تھا۔۴۹ میرا یہ کام نہیں ہے کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا مدد گار بنایا کروں۔ پھر کیا کریں گے یہ لوگ اُس روز جبکہ اِن کا ربّ اِن سے کہے گا کہ پکارو اب اُن ہستیوں کو جنھیں تم میرا شریک سمجھ بیٹھے تھے۔۵۰ یہ اُن کو پکاریں گے، مگر وہ اِن کی مدد کو نہ آئیں گے اور ہم ان کے درمیان ایک ہی ہلاکت کا گڑھا مشترک کر دیں گے۔ ۵۱ سارے مُجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے اور وہ اس سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پائیں گے۔ ؏ ۷

 

۴۷- اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود گمراہ انسانوں کو ان کی اس حماقت پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ اپنے رحیم و شفیق پروردگار اور خیر خواہ پیغمبروں کو چھوڑ کر اپنے اس ازلی دشمن کے پھندے میں پھنس رہے ہیں جو اول روزِ آفرینش سے ان کے خلاف حسد رکھتا ہے۔

۴۸- یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اس لیے اطاعت سے باہر ہو جانا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فطرۃً مطیع فرمان ہیں: لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرْوْنَ (التحریم ۶) ’’اللہ جو حکم بھی ان کو دے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔‘‘  وَھم لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ، یَخَافونَ رَبَّھُمْ مِنْ فَوْقِھمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’وہ سرکشی نہیں کرتے، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموما ً لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن،  آیات ۱۳-۱۵)۔

رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سے نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا؟‘‘  اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جاتی جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔ چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳)

۴۹- مطلب یہ ہے کہ یہ شیاطین آخر تمہاری طاعت و بندگی کے مستحق کیسے بن گئے ؟ بندگی کا مستحق تو صرف خالق ہی ہو سکتا ہے۔ اور ان شیاطین کا حال یہ ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق میں شریک ہونا تو درکنار، یہ تو خود مخلوق ہیں۔

۵۰- یہاں پھر وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلے بھی کئی جگہ قرآن میں گزر چکا ہے کہ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو چھوڑ کر کسی دوسرے کے احکام اور رہنمائی کا اتباع کرنا دراصل اس کو خدائی میں اللہ کا شریک ٹھیرانا ہے، خواہ آدمی اس دوسرے کو زبان سے خدا کا شریک قرار دیتا ہو یا نہ قرار دیتا ہو۔ بلکہ اگر آدمی ان دوسری ہستیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی امر الہٰی کے مقابلے میں ان کے اوامر کا اتباع کر رہا ہو تب بھی وہ شرک کا مجرم ہے۔ چنانچہ یہاں شیاطین کے معاملے میں آپ علانیہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ہر ایک ان پر لعنت کرتا ہے، مگر اس لعنت کے باوجود جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں، قرآن ان سب کی یہ الزام دے رہا ہے کہ تم شیاطین کو خدا کا شریک بنائے ہوئے ہو۔ یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ شرک عملی ہے اور قرآن اس کو بھی شرک ہی کہتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، النساء حاشیہ ۹۱-۱۴۵۔ الانعام، حاشیہ ۶۷-۱۰۷۔ جلد دوم التوبہ، حاشیہ ۳۱۔ ابراہیم، حاشیہ ۲۳۔ جلد سوم، مریم، حاشیہ ۲۷۔ المومنون، حاشیہ ۴۱۔ الفرقان، حاشیہ ۵۶۔ القصص، حاشیہ ۸۶ جلد چہارم، سَبَا، حاشیہ ۵۹-۶۰۔ ۶۱۔ ۶۲۔ ۶۳۔ یٰسین، حاشیہ ۵۳، الشوریٰ، حاشیہ ۳۸۔ لجاثیہ، حاشیہ ۳۰۔

۵۱- مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے اوپر ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ہم ان کے درمیان عداوت ڈال دیں گے ‘‘۔ یعنی دنیا میں ان کے درمیان جو دوستی تھی آخرت میں وہ سخت عداوت میں تبدیل ہو جائے گی۔

 

ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو طرح طرح سے سمجھایا مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ اُن کے سامنے جب ہدایت آئی تو اسے ماننے اور اپنے ربّ کے حضور معافی چاہنے سے آخر اُن کو کس چیز نے روک دیا ؟ اِس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ منتظر ہیں کہ اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو جو پچھلی قوموں کے ساتھ ہو چکا ہے، یا یہ کہ وہ عذاب کو سامنے آتے دیکھ لیں! ۵۲ رسُولوں کو ہم اس کام کے سوا اور کسی غرض کے لیے نہیں بھیجتے کہ وہ بشارت اور تنبیہ کی خدمت انجام دیں گے۔۵۳ مگر کافروں کا حال یہ ہےکہ وہ باطل کے ہتھیار لے کر حق کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہوں نے میری آیات کو اور اُن تنبیہات کو جو انہیں کی گئیں مذاق بنا لیا ہے۔ اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اُس کے ربّ کی آیات سُناکر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منہ پھیرے اور اُس بُرے انجام کو بھول جائے جس کا سروسامان اُس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟ (جن لوگوں نے یہ روش اختیار کی ہے) ان کے دلوں پر ہم نے غلاف چڑھا دیے ہیں جو انہیں قرآن کی بات نہیں سمجھنے دیتے، اور اُن کے کانوں میں ہم نے گرانی پیدا کر دی ہے۔ تم انھیں ہدایت کی طرف کتنا ہی بُلاؤ، وہ اس حالت میں کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔ ۵۴ تیرا ربّ بڑا درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔ وہ ان کے کرتُوتوں پر انھیں پکڑنا چاہتا تو جلدی ہی عذاب بھیج دیتا۔ مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔ ۵۵ یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ ۵۶ انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔ ؏ ۸

 

۵۲- یعنی جہاں تک دلیل و حجت کا تعلق ہے، قرآن نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ دل اور دماغ کو اپیل کرنے کے جتنے مؤثر طریقے اختیار کرنے ممکن تھے، وہ سب بہترین انداز میں یہاں اختیار کئے جا چکے ہیں۔ اب وہ کیا چیز ہے جو انہیں قبول حق میں مانع ہو رہی ہے؟ صرف یہ کہ انہیں عذاب کا انتظار ہے۔ جوتے کھائے بغیر سیدھے نہیں ہونا چاہتے۔

۵۳- اس آیت کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں چسپاں ہوتے ہیں :

ایک یہ کہ رسولوں کو ہم اسی لیے بھیجتے ہیں کہ فیصلے کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو فرماں برداری کے اچھے اور نافرمانی کے برے انجام سے خبر دار کریں۔ مگر یہ بے وقوف لوگ ان پیشگی تنبیہات سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے اور اسی انجام بد کو دیکھنے پر مصر ہیں جس سے رسول انہیں بچانا چاہتے ہیں۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کو عذاب ہی دیکھنا منظور ہے تو پیغمبر سے اس کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ پیغمبر عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ عذاب سے پہلے صرف خبردار کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔

۵۴- یعنی جب کوئی شخص یا گروہ دلیل و حجت اور خیر خواہانہ نصیحت کے مقابلے میں جھگڑالو پن پر اتر آتا ہے، اور حق کا مقابلہ جھوٹ اور مکروفریب کے ہتھیاروں سے کرنے لگتا ہے، اور اپنے کرتوتوں کا برا انجام دیکھنے سے پہلے کسی کے سمجھانے سے اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں ہوتا، تو اللہ تعالیٰ پھر اس کے دل پر قفل چڑھا دیتا ہے اور اس کے کان ہر صدائے حق کے لیے بہرے کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ نصیحت سے نہیں مانا کرتے بلکہ ہلاکت کے گڑھے میں گر کر ہی انہیں یقین آتا ہے کہ وہ ہلاکت تھی جس کی راہ پر وہ بڑھے چلے جا رہے تھے۔

۵۵- یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جس وقت کسی سے قصور سرزد ہو اسی وقت پکڑ کر اسے سزا دے ڈالے۔ یہ اس کی شان رحیمی کا تقاضا ہے کہ مجرموں کے پکڑنے میں وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور مدتوں ان کو سنبھلنے کا موقع دیتا رہتا ہے۔ مگر سخت نادان ہیں وہ لوگ جو اس ڈھیل کو غلط معنی میں لیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ خواہ کچھ ہی کرتے رہیں، ان سے کبھی باز پرس ہو گی ہی نہیں۔

۵۶- اشارہ ہے سبا اور ثمود ور مدین اور قوم لوط کے اجڑے دیاروں کی طرف جنہیں قریش کے لوگ اپنے تجارتی سروں میں آتے جاتے دیکھا کرتے تھے اور جن سے عرب کے دوسرے لوگ بھی خوب واقف تھے۔

 

 (ذرا ان کو وہ قصہ سُناؤ جو موسیٰؑ کو پیش آیا تھا) جب کہ موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوں گا۔‘‘  ۵۷ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نِکل کر اس طرح دریامیں چلی گئی جیسے کہ کوئی سُرنگ لگی ہو۔ آگے جا کر موسیٰ ؑ نے اپنے خادم سے کہا ’’لاؤ ہمارا ناشتہ، آج کے سفر میں تو ہم بُری طرح تھک گئے ہیں۔‘‘  خادم نے کہا ’’آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا ؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے اُس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’اسی کی تو ہمیں تلاش تھی۔‘‘  ۵۸ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقشِ قدم پر پھر واپس ہوئے اور وہاں اُنہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ ۵۹ موسیٰؑ نے اُس سے کہا ’’ کیا میں آپ کی ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اُس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘  اُس نے جواب دیا ’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے،اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو آخر آپ اُس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں۔‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’اِن شاء اللّٰہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔‘‘  اس نےکہا ’’اچھا، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں۔‘‘  ؏ ۹

 

۵۷- اس مرحلے پر یہ قصہ سنانے سے مقصود کفار اور مومنین دونوں کو ایک ہم حقیقت پر متنبہ کرنا ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر بین نگاہ دنیا میں بظاہر جو کچھ ہوتے دیکھتی ہے اس سے بالکل غلط نتائج اخذ کر لیتی ہے کیونکہ اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی وہ مصلحتیں نہیں ہوتیں جنہیں ملحوظ رکھ کر وہ کام کرتا ہے۔ ظالموں کا پھلنا پھولنا اور بے گناہوں کا تکلیفوں میں مبتلا ہونا۔ نافرمانوں پر انعامات کی بارش اور فرمانبرداروں پر مصائب کا ہجوم، بدکاروں کا عیش اور نیکو کاروں کی خستہ حالی، یہ وہ مناظر ہیں جو آئے دن انسانوں کے سامنے آتے رہتے ہیں، اور محض اس لیے کہ لوگ ان کے کنُہ کو نہیں سمجھتے، ان سے عام طور پر ذہنوں میں اُلجھنیں، بلکہ غلط فہمیاں تک پیدا ہو جاتی ہیں۔ کافر اور ظالم ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے، کوئی اس کا راجہ نہیں، اور ہے تو چوپٹ ہے۔ یہاں جن کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مومن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر دل شکستہ ہوتے ہیں اور بسا اوقات سخت آزمائشوں کے مواقع پر ان کے ایمان تک متزلزل ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے کارخانہ مشیت کا پردہ اُٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہاں شب و روز جو کچھ ہو رہا ہے کیسے اور کن مصلحتوں سے ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کا ظاہر ان کے باطن سے مختلف ہوتا ہے۔

حضرت موسیٰ کو یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟ اس کی کوئی تصریح قرآن نے نہیں کی ہے۔ حدیث میں عوفی کی ایک روایت ہمیں ضرور ملتی ہے جس میں وہ ابن عباسؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے مصر میں اپنی قوم کو آباد کیا تھا۔ لیکن ابن عباسؓ سے جو قوی تر روایات بخاری اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہیں وہ اس بیان کی تائید نہیں کرتیں، اور نہ کسی دوسرے ذریعے سے ہی یہ ثابت ہوتا ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ کبھی مصر میں رہے تھے۔ بلکہ قرآن اس کی تصریح کرتا ہے کہ مصر سے خروج کے بعد ان کا سارا زمانہ سیِنا اور تَیہ میں گزرا۔ اس لیے یہ روایت تو قابل قبول نہیں ہے۔ البتہ جب ہم خود اس قصے کی تفصیلات پر غور کرتے ہیں تو دو باتیں صاف سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مشاہدات حضرت موسیٰؑ کو ان کی نبوت کے ابتدائی دور میں کرائے گئے ہوں گے، کیونکہ آغاز نبوت ہی میں انبیاء علیہم السلام کو اس طرح کی تعلیم و تربیت درکار ہوا کرتی ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسیٰؑ ان مشاہدات کی ضرورت اس زمانے میں پیش آئی ہو گی جبکہ بنی اسرائیل کو بھی اسی طرح کے حالات سے سابقہ پیش آ رہا تھا جن سے مسلمان مکہ معظمہ میں دو چار تھے۔ ان دو وجوہ سے ہمارا قیاس یہ ہے (والعلم عند اللہ) کہ اس واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جبکہ مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا اور سرداران قریش کی طرح فرعون اور اس کے درباری بھی عذاب میں تاخیر دیکھ کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اوپر کوئی نہیں ہے جو اس سے باز پرس کرنے والا ہو، اور مکے کے مظلوم مسلمانوں کی طرح مصر کے مظلوم مسلمان بھی بے چین ہو ہو کر پوچھ رہے تھے کہ خدا یا ان ظالموں پر انعامات کی اور ہم پر مصائب کی یہ بارش کب تک؟ حتیٰ کہ خود حضرت موسیٰ یہ پکار اٹھے تھے کہ رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَونَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃ ً وَّ اَمْوَالاً فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ ’’اے پروردگار، تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیا کی زندگی میں بڑی شان و شوکت اور مال و دولت دے رکھی ہے، اے پروردگار، کیا یہ اس لیے ہے کہ وہ دنیا کو تیرے راستے سے بھٹکا دیں ؟‘‘  (تفہیم القرآن،  ج ۲ ص ۳۰۸ / سورۃ یونس، آیت ۸۸۔ )۔

اگر ہمارا یہ قیاس درست ہو تو پھر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالباً حضرت موسیٰؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرلابیض اور البحر الْاَزْرَق آ کر ملتی ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر ۱ صفحہ ۳۴ ) حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں اس ایک مقام کے سوا اور کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا۔

بائیبل اس واقعے کے باب میں بالکل خاموش ہے۔ البتہ تَلْمُود میں اس کا ذکر موجود ہے، مگر وہ اسے حضرت موسیٰؑ کے بجائے ربّی یہوحا نان بن لادی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس کے ساتھ پیش آیا تھا جو دنیا سے زندہ اٹھائے جانے کے بعد فرشتوں میں شامل کر لیے گئے ہیں اور دنیا کے انتظام پر مامور ہیں۔ (The Talmud Selections By H Polano, pp. ۳۱۳-۱۶) ممکن ہے کہ خروج سے پہلے کے بہت سے واقعات کی طرح یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے ہاں اپنی صحیح صورت میں محفوظ نہ رہا ہو اور صدیوں بعد انہوں نے قصے کی کڑیاں کہیں سے کہیں لے جا کر جوڑ دی ہوں۔ تلمود کی اسی روایت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہیں۔ لیکن نہ تو تلمود کی ہر روایت لازماً صحیح تاریخ قرار دی جا سکتی ہے،  نہ ہمارے لیے یہ گمان کرنے کی کوئی معقول وجہ ہے کہ قرآن میں کسی اور مجہول الحال موسیٰ کا ذکر اس طریقہ سے کیا گیا ہو گا، اور پھر جب کہ معتبر احادیث میں حضرت اُبَیّ بن کعب کی یہ روایت موجود ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قصے کی تشریح فرماتے ہوئے موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ پیغمبر بنی اسرائیل کو بتایا ہے تو کسی مسلمان کے لیے تلمود کا بیان لائق التفات نہیں رہتا۔

مستشرقین مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے، اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نقل کر کے یہ قصہ بنا لیا اور پھر دعویٰ کر دیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ ایک داستانِ گلِگامیش، دوسرے سکندر نامۂسرُیانی، اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بدطینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کر لیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل مِن اللہ تو نہیں ماننا ہے، اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس میں پیش کیا ہے یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بے شرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بے اختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہو جائے اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرے :

اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا دلیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کر دیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے ماخوذ ہے؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کہ فہرست بن جائے۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکے میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے مواد فراہم کر رہے تھے؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے؟ اور اعلانِ نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی آنحضرتؐ کی ایسی معلومات کا کوئی نشان آپؐ کی بات چیت میں نہ پائے جانے کی کیا معقول وجہ ہے؟

تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آنحضرت کے معاصرین کو اس سرقے کا پتا نہ چلنے کی کیا وجہ ہے؟ انہیں تو بار بار تحدّی کی جا رہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے، وحی کے سوا اس کوئی ماخذ نہیں ہے، اگر تم اسے بشر کا کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے۔ اس چیلنج نے آنحضرت کے معاصر دشمنان اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشان دہی نہ کر سکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار، شک ہی کر سکتا۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوئے اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہو رہی ہے؟

آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہر حال ہے نا کہ قرآن منزّل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایات سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں۔ اس امکان کو کس معقول دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کر دیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہو جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جا سکتی ہے؟

ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ’’ علم‘‘  کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ در حقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔

۵۸- یعنی منزل مقصود کا یہی نشان تو ہم کو بتایا گیا تھا۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور ان کو منزل مقصود کی علامت یہی بتائی گئی تھی کہ جہاں ان کے ناشتے کی مچھلی غائب ہو جائے وہی مقام اس بندے کی ملاقات کا ہے جس سے ملنے کے لیے وہ بھیجے گئےتھے۔

۵۹- اس بندے کا نام تمام معتبر احادیث میں خضر بتایا گیا ہے۔ اس لیے ان لوگوں کے اقوال کسی التفات کے مستحق نہیں ہیں جو اسرائیلی روایات سے متاثر ہو کر حضرت الیاس کی طرف اس قصے کو منسوب کرتے ہیں۔ ان کا یہ قول نہ صرف اس بنا پر غلط ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے متصادم ہوتا ہے، بلکہ اس بنا پر بھی سراسر لغو ہے کہ حضرت الیاس حضرت موسیٰ کے کئی سو برس بعد پیدا ہوئے ہیں۔

حضرت موسیٰ کے خادم کا نام بھی قرآن میں نہیں بتایا گیا ہے۔ البتہ بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ حضرت یوشع ؑ بن نون تھے جو بعد میں حضرت موسیٰ کے خلیفہ ہوئے۔

 

اب وہ دونوں روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب وہ ایک کشتی میں سوار ہو گئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ آپ نے اِس میں شگاف ڈال دیا تا کہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی۔‘‘  اس نے کہا ’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟‘‘  موسیٰؑ نے کہا ’’ بھُول چُوک پر مجھے نہ پکڑیے۔ میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں۔‘‘  پھر وہ دونوں چلے، یہاں تک کہ اُن کو ایک لڑکا ملا اور اُس شخص نے اُسے قتل کر ڈالا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اُس نے کسی کا خون نہ بہایا تھا؟ یہ کام تو آپ نے بہت ہی بُرا کیا۔‘‘  اُس نے کہا ’’میں تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟‘‘  موسیٰؑ نے ’’ اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طرف سے آپ کو عذر مل گیا۔‘‘
پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گِرا چاہتی تھی۔ اُس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰؑ نے کہا ’’ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اُجرت لے سکتے تھے۔‘‘  اُس نے کہا ’’بس میرا تمہارا ساتھ ختم ہوا۔ اب میں تمہیں ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ ۶۰
اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدُوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں، کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا، تو اس کے والدین مومن تھے،ہمیں اندیشہ ہو ا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کُفر سے اِن کو تنگ کرے گا، اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا ربّ اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلۂ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو۔ اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اِس دیوار کے نیچے اِن بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ اس لیے تمہارے ربّ نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمہارے ربّ کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے،  میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت اُن باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ ‘‘   ؏ ۱۰

 

۶۰:  اس قصے میں ایک بڑی پیچیدگی ہے جسے رفع کرنا ضروری ہے۔ حضرت خضر نے یہ تین کام جو کیے ہیں ان میں سے تیسرا کام تو خیر شریعت سے نہیں ٹکرا تا،  مگر پہلے  دونوں کام یقیناً ان احکام سے متصادم ہوتے ہیں جو ابتدائے عہد انسانیت سے آج تک تمام شرائع الہیہ میں ثابت رہے ہیں۔ کوئی شریعت بھی کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ کسی کی مملوکہ چیز کو خراب کر دے،  اور کسی متنفس کو بے قصور قتل کر ڈالے۔ حتیٰ کہ اگر کسی انسان کو بطریق الہام بھی یہ معلوم ہو جائے کہ ایک کشتی کو آگے جا کر ایک غاصب چھین لے گا، اور فلاں لڑکا بڑا ہو کر سرکش اور کافر نکلے گا، تب بھی اس کے لیے خدا کی بھیجی ہوئی شریعتوں میں سے کسی شریعت کی رو سے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے اس الہامی علم کی بنا پر کشتی میں چھید کر دے اور ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالے۔اس کے جواب میں یہ کہنا کہ حضرت خضر نے یہ دونوں کام اللہ کے حکم سے کیے تھے،  فی الواقع اس پیچیدگی کو کچھ بھی رفع نہیں کر تا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حضرت خضر نے یہ کام کس کے حکم سے کیے تھے۔ ان کا حکم الہٰی سے ہونا تو بالیقین ثابت ہے کیونکہ حضرت خضر خود فرماتے ہیں کہ ان کے یہ افعال ان کے اختیاری نہیں ہیں بلکہ اللہ کی رحمت ان کی محرک ہوئی ہے،  اور اس کی تصدیق اللہ تعالیٰ خود فرما چکا ہے کہ حضرت خضر کو اللہ کی طرف سے ایک علم خاص حاصل تھا۔ پس یہ امر تو ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ کام اللہ کے حکم سے کیے تھے۔مگر اصل سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے ان احکام کی نوعیت کیا تھی؟ظاہر ہے کہ یہ تشریعی احکام نہ تھے،  کیونکہ شرائع الٰہیہ کے جو بنیادی اصول قرآن اور اس سے پہلے کی کتب آسمانی سے ثابت ہیں ان میں کبھی کسی انسان کے لیے یہ گنجائش نہیں رکھی گئی کہ وہ بلا ثبوت جرم کسی دوسرے انسان کو قتل کر دے۔ اس لیے لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ احکام اپنی نوعیت میں اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام سے مشابہت  رکھتے ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے،  کسی کو تباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔اب اگر یہ تکوینی احکام ہیں تو ان کے مخاطب صرف فرشتے ہیں ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں شرعی جواز و عدم جواز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ اپنے ذاتی اختیار کے بغیر صرف اوامر الہیہ کی تعمیل کرتے ہیں۔ رہا انسان تو خواہ وہ بلا ارادہ کسی تکوینی حکم کے نفاذ کا ذریعہ بنے،  اور خواہ الہاماً اس طرح کا کوئی غیبی علم اور حکم پا کر اس پر عمل در آمد کرے،  بہر حال وہ گنہ گار ہونے سے نہیں بچ سکتا اگر وہ کام جو اس نے کیا ہے کسی حکم شرعی سے ٹکراتا ہو۔ اس لیے کہ انسان بحیثیت اس کے کہ وہ انسان ہے،  احکام شرعیہ کا مکلف ہے اور اصول شریعت میں کہیں یہ گنجائش نہیں پائی جاتی کہ کسی انسان کے لیے محض اس بنا پر احکام شرعیہ میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی جائز ہو کہ اسے بذریعہ الہام اس خلاف کا حکم ملا ہے اور بذریعہ علم غیب اس خلاف ورزی کی مصلحت بتائی گئی ہے۔یہ ایک ایسی بات ہے جس پر نہ صرف تمام علمائے شریعت متفق ہیں،  بلکہ اکابر صوفیہ بھی بالاتفاق یہی بات کہتے ہیں۔ چنانچہ علامہ آلوسی نے تفصیل کے ساتھ عبد الوہاب شعرانی، محی الدین ابن عربی،  مجدو الف ثانی، شیخ عبد القادر جیلانیؒ، جنید بغدادی، سَریسقطی، ابوالحسین النوری، ابو سعید الخراز،  ابو العباس احمد الدینوری اور امام غزالی جیسے نامور بزرگوں کے اقوال نقل کر کے یہ ثابت کیا ہے  کہ اہل تصوف کے نزدیک بھی کسی ایسے الہام پر عمل کرنا خود صاحب الہام تک کے لیے جائز نہیں ہے جو نص شرعی کے خلاف ہو۔(روح المعانی۔ج،۱۶۔ ص ۱۶۔ ۱۸ )اب کیا ہم یہ مان لیں کہ اس قاعدہ کلیہ سے صرف ایک انسان مستثنیٰ کیا گیا ہے اور وہ ہیں حضرت خضر؟ یا یہ سمجھیں کی خضر کوئی انسان نہ تھے بلکہ اللہ  کے ان بندوں میں سے تھے جو مشیت الٰہی کے تحت (نہ کہ شریعت الہٰی کے تحت ) کام کرتے ہیں ؟پہلی صورت کو ہم تسلیم کر لیتے اگر قرآن بالفاظ صریح یہ کہہ دیتا کہ وہ ’’ بندہ‘‘  جسکے پاس حضرت موسیٰ اس تربیت کے لیے بھیجے گئے تھے،  انسان تھا۔ لیکن قرآن اس کے انسان ہونے کی تصریح نہیں کرتا بلکہ صرف عَبْدً ا مَّنْ عِبَادِ نَا (ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ) کے الفاظ بولتا ہے جو ظاہر ہے کہ اس بندے کے انسان ہونے کو مستلزم نہیں ہیں،  قرآن مجید میں متعدد جگہ فرشتوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے،  مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ انبیاء،  آیت ۲۶۔ اور سورہ زخرف، آیت ۱۹۔ پھر کسی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کوئی ایسا ارشاد منقول نہیں ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت خضر کو نوع انسانی کا ایک فرد قرار دیا گیا ہو۔ اس باب میں مستند ترین روایات وہ ہیں جو عن سعید بن جبیر،  عن ابن عباس،  عن اُبی بن کعب، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سند سے ائمۂ حدیث کو پہچی ہیں۔ ان میں حضرت خضر کے لیے صرف رَجُل کا لفظ آیا ہے،  جو اگر چہ مرد انسانوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر انسانوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ چنانچہ خود قرآن میں یہ لفظ جِنوں کے لیے مستعمل ہو چکا ہے جیسا کہ سورہ جِن یا فرشتہ یا کوئی اور غیر مرئی وجود جب انسانوں کے سامنے آئے گا تو انسانی شکل ہی میں آئے گا اور اس حالت میں اس کو بشر یا انسان ہی کہا جائے گا۔ حضرت مریم کے سامنے جب فرشتہ آیا تھا تو قرآں اس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ فَتَمَثَّلَ لَھَابَشَرً ا سَوِیًّا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد کہ ’’وہاں انہوں نے ایک مرد کو پایا ‘‘  حضرت خضر کے انسان ہونے پر صریح دلالت نہیں کرتا۔ اس کے بعد ہمارے لیے اس پیچیدگی کو فرد کرنے کی صرف یہی ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم ’’خضر‘‘  کو انسان نہ مانیں بلکہ فرشتوں میں سے،   یا اللہ کی کسی اور ایسی مخلوق میں سے سمجھیں جو شرائع کی مکلف نہیں ہے بلکہ کار گاہ مشیت کی کارکن ہے۔ متقدمین میں سے بھی بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے جسے ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ماوردی کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔

 

اور اے محمدؐ،  یہ لوگ تم سے ذُوالقرنین کے بارے میں پُوچھتے ہیں۔ ۶۱ ان سے کہو، میں اس کا کچھ حال تم کو سُناتا ہوں۔ ۶۲ ہم نے اس کو زمین میں اقتدار عطا کر رکھا تھا اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ اس نے (پہلے مغرب کی طرف ایک مہم کا)سرو سامان کیا۔ حتیٰ کہ جب وہ غروبِ آفتاب کی حَد تک پہنچ گیا ۶۳ تو اس نے سُورج کو ایک کالے پانی میں ڈوبتے دیکھا ۶۴ اور وہاں اُسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا ’’ اے ذوالقرنین، تجھے یہ مقدرت بھی حاصل ہے کہ ان کو تکلیف پہنچائے اور یہ بھی کہ اِن کے ساتھ نیک رویّہ اختیار کرے۔‘‘  ۶۵ اس نے کہا، ’’ جو ان میں سے ظلم کرے گا ہم اس کو سزا دیں گے، پھر وہ اپنے ربّ کی طرف پلٹایا جائے گا اور وہ اسے اور زیادہ سخت عذاب دے گا۔ اور جو ان میں سے ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا اُس کے لیے اچھی جزا ہے اور ہم اس کو نرم احکام دیں گے۔‘‘  پھر اُس نے (ایک دُوسری مہم کی)تیاری کی یہاں تک کہ طلوعِ آفتاب کی حد تک جا پہنچا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ سُورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جس کے لیے دھُوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے۔ ۶۶ یہ حال تھا اُن کا، اور ذوالقرنین کے پاس جو کچھ تھا اُسے ہم جانتے تھے۔
پھر اس نے ( ایک اور مہم کا)سامان کیا یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا ۶۷ تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سجھتی تھی۔ ۶۸ اُن لوگوں نے کہا کہ ’’اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج ۶۹ اس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ تو کیا ہم تجھے کوئی ٹیکس اس کام لیے دیں کہ تُو ہمارے اور ان کے درمیان ایک بند تعمیر کر دے؟‘‘  ان نےکہا ’’جو کچھ میرے ربّ نے مجھے دے رکھا ہے وہ بہت ہے۔ تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں۔ ۷۰ مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو۔‘‘  آخر جب دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا کو اس نے پاٹ دیا تو لوگوں سے کہا کہ اب آگ دہکاؤ۔ حتیٰ کہ جب (یہ آہنی دیوار)بالکل آگ کی طرح سُرخ ہو گئی تو اس نے کہا ’’ لاؤ، اب میں اس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیلوں گا۔‘‘  (یہ بند ایسا تھا کہ)یاجوج و ماجوج اس پر چڑھ کر بھی نہ آسکتے تھے اور اس میں نقب لگانا ان کے لیے اور بھی مشکل تھا۔ذوالقرنین نے کہا ’’یہ میرے ربّ کی رحمت ہے۔ مگر جب میرے ربّ کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوندِ خاک کر دے گا، ۷۱ اور میرے ربّ کا وعدہ برحق ہے۔‘‘  ۷۲
اور اُس روز ۷۳ ہم لوگوں کو چھوڑ دیں گے کہ (سمندر کی موجوں کی طرح )ایک دُوسرے سے گتھم گتھا ہوں اور صُور پھُونکا جائے گا اور ہم سب انسانوں کو ایک ساتھ جمع کریں گے۔ اور وہ دن ہو گا جب ہم جہنّم کو کافروں کے سامنے لائیں گے،  اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اور کچھ سُننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ ؏ ۱۱

 

۶۱:  وَیَسْئَلُوْ نَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ کا عطف لا محالہ پچھلے قصے ہی پر ہے۔ اس سے خودبخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ قصۂ موسیٰ و خضر بھی لوگوں کے سوال ہی کے جواب میں سنایا گیا ہے اور یہ بات ہمارے اس قیاس کی تائید کرتی ہے کہ اس سورے کے یہ تینوں اہم قصے در اصل کفار مکہ نے اہل کتاب کے مشورے سے امتحاناً دریافت کیے تھے۔

۶۲:  یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ’’ ذوالقرنین‘‘  جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے،  کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا،  لیکن قرآن میں اس کی جو صفات و خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مدکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس(خسرو یا سائرس) کی طرف ہے،  اور یہ نسبۃً زیادہ قرین قیاس ہے،  مگر بہر حال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھیرایا جا سکتا۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : ۱)۔ اس کا لقب ذو القرنین(لغوی معنی ’’دو سینگوں والا‘‘  ) کم از کم یہودیوں میں،  جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ’’ دو سینگوں والے ‘‘  کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔ ۲)۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں،  اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں۔ ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔ ۳ )۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج و  ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی در ے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہو گا کہ یاجوج و ماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں،  اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔ ۴)۔ اس میں مذکورہ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے،  کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایک میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک منڈھے کی شکل میں دکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے۔ یہودیوں میں اس ’’ دو سینگوں والے ‘‘  کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور نبی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی (تفہیم القرآن سورہ نبی اسرائیل،  حاشیہ ۸ ) دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے،  مگر پوری طرح نہیں۔ اس کی فتوحات بلا شبہ یہ مغرب میں ایشیائے کو چک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں با ختر (بلخ) تک وسیع ہوئیں،  مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے،  حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے،  تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے،  کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کاکیشیا(قفقاز) تک وسیع تھی۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو  تاتاری منگولی، ھُن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور دار بال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے۔ لیکن یہ ابھی تک ثابت  نہیں ہو سکا ہے کہ خوس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہیں ہے۔ کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزْرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ’’ ذو القرنین‘‘  کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں،  لیکن تعین کے ساتھ اسی کو ذو القرنین قرار دے دیتے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے۔ تا ہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا  خورس ہے۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج ۵۴۹ ق۔ م۔ کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا (یشیائے کوچک) کی سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ۵۳۹ ق، م  میں بابل کو بھی فتح کر لیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغد (موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک، اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہو گیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوار زم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔

۶۳:  غروب آفتاب کی حد سے مراد، جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے : اقصٰی ما یسلک فیہ من الارض میں ناحیۃ المغرب ہے نہ کہ آفتاب غروب ہونے کی جگہ۔ مراد یہ ہے کہ وہ مغرب کی جانب ملک پر ملک فتح کرتا ہوا خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا جس کے آگے سمندر تھا۔

۶۴:  یعنی وہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سورج سمندر کے سیاہی مائل گدلے پانی میں ڈوب رہا ہے۔ اگر فی الواقع ذو القرنین سے مراد خورس ہی ہو تو یہ ایشیائے کوچک کا مغربی ساحل ہو گا جہاں بحرایجین چھوڑی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس قیاس کی تائید یہ بات بھی کرتی ہے کہ قرآن یہاں بحر کے بجائے عین کا لفظ استعمال کرتا ہے جو سمندر کے بجائے جھیل یا خلیج ہی پر زیادہ صحت کے ساتھ بولا جا سکتا ہے۔

۶۵:  ضرور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات براہ راست وحی یا الہام کے ذریعہ ہی سے ذو القرنین کو خطاب کر کے  فرمائی ہو، حتیٰ کہ اس سے ذو القرنین کا نبی یا محدث ہونا لازم آئے۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حل کے واسطے سے بھی ہو سکتا ہے،  اور یہی قرین قیاس ہے۔ ذو القرنین اس وقت فتح یاب ہو کر اس علاقے پر قابض ہوا تھا۔ مفتوح قوم اس کے بس میں تھی۔ اللہ نے اس صورت حال میں اس کے ضمیر کے سامنے یہ سوال رکھ دیا کہ یہ تیرے امتحان کا وقت ہے۔ یہ قوم تیرے آگے بے بس ہ۔ تو ظلم کرنا چاہے تو کر سکتا ہے،  اور شرافت کا سلوک کرنا چاہے تو یہ بھی تیرے اختیار میں ہے۔

۶۶: یعنی ہو ممالک فتح کرتا ہوا مشرق کی جانت ایسے علاقے تک پہنچ گیا جہاں مہذب دنیا کی سرحد ختم ہو گئی تھی اور آگے ایسی وحشی قوموں کا علاقہ تھا جو عمارتیں بنانا تو درکنار خیمے بنانا تک نہ جانتی تھیں۔

۶۷:  چونکہ آگے یہ ذکر آ رہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کے اس طرف یاجوج ماجوج کا علاقہ تھا، اس لیے لامحالہ ان پہاڑوں سے مراد کا کیشیا کے وہ پہاڑی سلسلے ہی ہو سکتے ہیں جو بحر خزر (کیسپین) اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں۔

۶۸:  یعنی اس کی زبان ذو القرنین اور اس کے ساتھیوں کے لیے قریب قریب بالکل اجنبی تھی۔ سخت وحشی ہونے کے سبب سے نہ کوئی ان کی زبان سے واقف تھا اور نہ وہ کسی غیر زبان سے واقف تھے۔

۶۹:  یاجوج ماجوج سے مراد، جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر ۶۲ میں اشارہ کیا جا چکا ہے،  ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اُٹھ کر ایشیا اور یورپ، دونوں طرف رُخ کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (اب ۱۰) میں ان کو حضرت نوحؑ کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے،  اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب ۳۸و ۳۹) میں سے مراد سیتھین قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خَزَر کے قریب آباد تھے۔

۷۰:  یعنی فرمانروا ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ اپنی رعایا کو غارت گروں کے حملے سے بچاؤں۔ اس ملک کے لیے تم پر کوئی الگ ٹیکس لگانا میرے لیے جائز نہیں ہے۔ ملک کا جو خزانہ اللہ تعالیٰ نے میرے حوالے کیا ہے وہ اس خدمت کے لیے کافی ہے۔ البتہ ہاتھ پاؤں کی محنت سے تم کو میری مدد کرنی ہو گی۔

۷۱:  یعنی اگرچہ میں نے اپنی حد تک انتہائی مستحکم دیوار تعمیر کی ہے،  مگر یہ لازوال نہیں ہے۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے،  یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آئے گا جو اللہ نے اس کی تباہی کے لیے مقدر کر رکھا ہے تو پھر اس کو پارہ پارہ ہونے سے کوئی چیز نہ بچا سکے گی۔ ’’وعدے کا وقت ‘‘  ذو معنی لفظ ہے۔ اس سے مراد اس دیوار کی تباہی کا وقت بھی ہے اور وہ ساعت بھی جو اللہ نے ہر چیز کی موت اور فنا کے لیے مقرر فرما دی ہے،  یعنی قیامت۔ (اس دیوار کے متعلق تفصیلی معلومات کے لیے ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۔ ۲)

۷۲:  یہاں پہنچ کر ذو القرنین کا قصہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ قصہ اگر چہ کفار مکہ کے امتحانی سوال پر سنایا گیا ہے،  مگر قصۂ اصحاب کہف اور قصۂ موسیٰ و خضر کی طرح اس کو بھی قرآن نے اپنے قاعدے کے مطابق اپنے مدعا کے لیے پوری طرح استعمال کیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ذو القرنین،  جس کی عظمت کا حال تم نے اہل کتاب سے سنا ہے،  محض ایک فاتح ہی نہ تھا، بلکہ توحید اور آخرت کا قائل تھا، عدل و انصاف اور فیاضی کے اصولوں پر عامل تھا، اور تم لوگوں کی طرح کم ظرف نہ تھا کہ ذرا سی سرداری ملی اور سمجھ بیٹھے کہ ہم چومن دیگے نیست۔

۷۳: یعنی قیامت کے روز۔ ذو القرنین نے جو اشارہ قیامت کے وعدۂ بر حق کی طرف کیا تھا اسی کی مناسبت سے یہ فقرے اس کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔

 

تو کیا ۷۴ یہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا ہے، یہ خیال رکھتے ہیں کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز بنالیں؟ ۷۵ ہم نے ایسے کافروں کی ضیافت کے یے جہنّم تیار کر رکھی ہے۔
اے محمدؐ،  ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کہ زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی ۷۶ اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ۷۷ ان کی جزا جہنّم ہے اُس کُفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات  اور میرے رسُولوں کے ساتھ کرتے رہے۔ البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ان کی میزبانی کے لیے فردوس ۷۸ کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور کبھی اُس جگہ سے نِکل کر کہیں جانے کو اُن کا جی نہ چاہے گا۔ ۷۹ اے محمدؐ،  کہو کہ اگر سمندر میرے ربّ کی باتیں ۸۰ لکھنے کے لیے روشنائی بن جائے تو وہ ختم ہو جائے مگر میرے ربّ کی باتیں ختم نہ ہوں، بلکہ اگر اتنی ہی روشنائی ہم اور لے آئیں تو وہ بھی کفایت نہ کرے۔ اے محمدؐ،  کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میرے طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا اُمیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ ؏ ۱۲

 

۷۴:  یہ پوری سورت کا خاتمۂ کلام ہے،  اس لیے اس کی مناسبت ذو القرنین کے قصے میں نہیں بلکہ سورۃ کے مجموعی مضمون میں تلاش کرنی چاہیے۔ سورۃ کا مجموعی مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کو شرک  چھوڑ کر توحید اختیار کنے اور دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت پر یقین لانے کی دعوت دے رہے تھے۔مگر قوم کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت اور شوکت و حشمت کے زعم میں نہ صرف آپ کی اس دعوت کو رد کر رہے تھے،  بلکہ ان چند راستی پسند انسانوں کو بھی، جنہوں نے یہ دعوت قبول کر لی تھی، ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اور پر وہ ساری تقریر کی گئی جو شروع سورہ سے یہاں تک چلی آ رہی ہے،  اور اسی تقریر کے دوران میں یکے بعد دیگرے ان تین قصوں کو بھی،  جنہیں مخالفین نے امتحاناً دریافت کیا تھا۔ ٹھیک موقع پر نگینوں کی طرح جڑ دیا گیا۔ اب تقریر ختم کر تے ہوئے پھر کلام کا رخ اسی مدعا کی طرف پھیرا جا رہا ہے جسے تقریر کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا اور جس پر رکوع ۴ سے ۸ تک مسلسل گفتگو کی جا چکی ہے۔۷۵:  یعنی یہ سب کچھ سننے کے بعد بھی ان کا خیال یہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ روشن ان کے لیے نافع ہو گی ؟۷۶:  اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ ’’ جن کی ساری سعی و جہد دنیا کی زندگی ہی میں گم ہو کر رہ گئی‘‘۔ یعنی انہوں نے جو کچ بھی کیا خدا سے بے نیاز اور اور آخرت سے بے فکر ہو کر صرف دنیا کے لیے کیا۔ دنیوی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھا۔ دنیا کی کامیابیوں اور خوشحالیوں ہی کو اپنا مقصود بنا یا۔ خدا کی ہستی کے اگر قائل ہوئے بھی تو اس بات کی کبھی فکر نہ کی کہ اس کی رضا کیا ہے اور ہمیں کبھی اس کے حضور جا کر اپنے اعمال کا حساب بھی دینا ہے۔ اپنے آپ کو محض ایک خود مختار و غیر ذمہ دار حیوان عاقل سمجھتے رہے جس کے لیے دنیا کی اس چراگاہ سے تمتع کے سوا اور کوئی کام نہیں ہے۔۷۷:  یعنی اس طرح کے لوگوں نے دنیا میں خواہ کتنے ہی بڑے کارنامے کیے ہوں،  بہر حال وہ دنیا کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنے قصر اور محلات،اپنی یونیورسٹیاں اور لائبریریاں،  اپنے  کار خانے اور معمل،  اپنی سڑکیں اور ریلیں،  اپنی ایجادیں اور صنعتیں،  اپنے علوم و فنون اور اپنی آرٹ گیلریاں،  اور دوسری وہ چیزیں جن پر وہ فخر کرتے ہیں،  ان میں سے تو کوئی چیز بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے وہ خدا کے ہاں نہ پہنچیں گے کہ خدا کی میزان میں اس کو رکھ سلیں۔ وہاں جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ صرف مقاصد عمل اور نتائج عمل ہیں۔ اب اگر کسی کے سارے مقاصد دنیا تک محدود تھے اور نتائج بھی اس کو دنیا ہی میں مطلوب تھے اور دنیا میں وہ اپنے نتائج عمل دیکھ بھی چکا ہے تو اس کا سب  کیا کرایا دنیائے فانی کے ساتھ ہی فنا ہو گیا۔ آخرت میں جو کچھ پیش کر کے وہ کوئی وزن پا سکتا ہے وہ تو لازماً کوئی ایسا ہی کارنامہ ہونا چاہیے جو اس نے خدا کی رضا کے لیے کیا ہو، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے کیا ہو اور ان نتائج کو مقصود بنا کر کیا ہو جو آخرت میں نکلنے والے ہیں۔ ایسا کوئی کارنامہ اگر اس کے حساب میں نہیں ہے تو وہ ساری دوڑ دھوپ بلاشبہ اکارت گئی جو اس نے دنیا میں کی تھی۔۷۸:  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم،  المومنون،  حاشیہ ۱۰۔۷۹:  یعنی اس حالت سے بہتر ور کوئی حالت ہو گی ہی نہیں کہ جنت کی زندگی کو اس سے بدل لینے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی خواہش پیدا ہو۔۸۰:  ’’ باتوں ‘‘  سے مراد اس کے کام اور کمالات اور عجائبِ قدرت و حکمت ہیں۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، لقمان،  حاشیہ ۴۸۔