آیت نمبر ۱۰، یَوْ مَ تَأ تِی السَّمَآ ءُ بِدُ خَانٍ مُّبِینٍ کے لفظ دُخان کو اس سورۃ کا عنوان بنایا گیا ہے، یعنی یہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ دخان وارد ہوا ہے۔
اس زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوتا، مگر مضامین کی اندرونی شہادت بتاتی ہے کہ یہ بھی اسی دور میں نازل ہوئی ہے جس میں سورہ زُخْرُف اور اس سے پہلے کی چند سورتیں نازل ہوئی تھیں، البتہ یہ ان سے کچھ متأخّر ہے۔ تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب کفار کی مخالفانہ روش شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ خدایا، یوسفؑ کے قحط جیسے ایک قحط سے میری مدد فرما۔ حضورؐ کا خیال یہ تھا کہ جب ان لوگوں پر مصیبت پڑے گی تو انہیں خدا یاد آئے گا اور ان کے دل نصیحت قبول کرنے کے لیے نرم پڑ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور سارے علاقے میں ایسے زور کا قحط پڑا کہ لوگ بلبلا اٹھے۔ آخر کر بعض سرداران قریش، جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے خاص طور پر ابو سفیان کا نام لیا ہے، حضور کے پاس آئے اور آپ سے درخواست کی کہ اپنی قوم کو اس بلا سے نجات دلانے کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ یہی موقع ہے جب اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی۔
اس موقع پر کفار مکہ کی فہمائش اور تنبیہ کے لیے جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا گیا اس کی تمہید چند اہم مباحث پر مشتمل ہے :
اول یہ کہ تم لوگ اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصنیف سمجھنے میں غلطی کر رہے ہو۔ یہ کتاب تو اپنی ذات میں خود اس امر کی بیّن شہادت ہے کہ یہ کسی انسان کی نہیں بلکہ خداوند عالم کی کتاب ہے۔
دوسرے یہ کہ تم اس کتاب کی قدر و قیمت سمجھنے میں بھی غلطی کر رہے ہو۔ تمہارے نزدیک یہ ایک بلا ہے جو تم پر نازل ہو گئی ہے۔ حالانکہ در حقیقت وہ گھڑی انتہائی مبارک گھڑی تھی جب اللہ تعالیٰ نے سراسر اپنی رحمت کی بنا پر تمہارے ہاں اپنا رسول بھیجنے اور اپنی کتاب نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا۔
تیسرے یہ کہ تم اپنی نادانی سے اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہو کہ اس رسول اور اس کتاب سے لڑ کر تم جیت جاؤ گے۔ حالانکہ اس رسول کی بعثت اور اس کتاب کی تنزیل اس ساعت خاص میں ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ قسمتوں کے فیصلے فرمایا کرتا ہے۔ اور اللہ کے فیصلے بودے نہیں ہوتے کہ جس کا جی چاہے انہیں بدل ڈالے، نہ وہ کسی جہالت و نادانی پر مبنی ہوتے ہیں کہ ان میں غلطی اور خامی کا کوئی احتمال ہو۔ وہ تو اس فرمانروائے کائنات کے پختہ اور اٹل فیصلے ہوتے ہیں جو سمیع و علیم اور حکیم ہے۔ ان سے لڑنا کوئی کھیل نہیں ہے۔
چوتھے یہ کہ اللہ کو خود بھی زمین و آسمان اور کائنات کی ہر چیز کا مالک و پروردگار مانتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ زندگی و موت اسی کے اختیار میں ہے۔ مگر اس کے باوجود تمہیں دوسروں کو معبود بنانے پر اصرار ہے اور اس کے لیے حجت تمہارے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ باپ دادا کے وقتوں سے یہی کام ہوتا چلا آ رہا ہے۔ حالانکہ اگر کوئی شخص شعور کے ساتھ یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ ہی مالک و پروردگار اور زندگی و موت کا مختار ہے تو اسے کبھی یہ شبہ تک لاحق نہیں ہو سکتا کہ معبود ہونے کے مستحق اس کے سوا یا اس کے ساتھ دوسرے بھی ہو سکتے ہیں۔ تمہارے باپ دادا نے اگر یہ حماقت کی تھی تو کوئی وجہ نہیں کہ تم بھی آنکھیں بند کر کے اسی کا ارتکاب کرتے چلے جاؤ۔ حقیقت میں تو ان کا رب بھی اکیلا وہی خدا تھا جو تمہارا رب ہے، اور انہیں بھی اسی ایک کی بندگی کرنی چاہیے تھی جس کی بندگی تمہیں کرنی چاہیے۔
پانچویں یہ کہ اللہ کی ربوبیت و رحمت کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ تمہارا پیٹ پالے بلکہ یہ بھی ہے کہ تمہاری رہنمائی کا انتظام کرے۔ اسی رہنمائی کے لیے اس نے رسول بھیجا ہے اور کتاب نازل کی ہے۔
اس تمہید کے بعد اس قحط کے معاملے کو لیا گیا ہے جو اس وقت در پیش تھا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، یہ قحط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی استدعا پر آیا تھا، اور حضورؐ نے اس کے لیے دعا اس خیال سےکی تھی کہ مصیبت پڑے گی تو کفار کی اکڑی ہوئی گردنیں ڈھیلی پڑ جائیں گی، شاید کہ پھر حرف نصیحت ان پر کار گر ہو۔ یہ توقع اس وقت کسی حد تک پوری ہوتی نظر آ رہی تھی، کیونکہ بڑے بڑے ہیکڑ دشمنان حق کال کے مارے پکار اٹھے تھے کہ پروردگار، یہ عذاب ہم پر سے ٹال دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اس پر ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ ایسی مصیبتوں سےیہ لوگ کہاں سبق لینے والے ہیں، انہوں نے جب اس رسول کی طرف سے منہ موڑ لیا جس کی زندگی سے، جس کے کردار سے اور جس کے کام اور کلام سے علانیہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ یقیناً خدا کا رسول ہے، تو اب محض ایک قحط ان کی غفلت کیسے دور کر دے گا۔ دوسرےطرف کفار کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ تم بالکل جھوٹ کہتے ہو کہ یہ عذاب تم پر سے ٹال دیا جائے تو تم ایمان لے آؤ گے۔ ہم اس عذاب کو ہٹائے دیتے ہیں، ابھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ تم اپنے اس وعدے میں کتنے سچے ہو۔ تمہارے سر پر تو شامت کھیل رہی ہے۔ تم ایک بڑی ضرب مانگ رہے ہو، ہلکی چوٹوں سے تمہارا دماغ درست نہیں ہو گا۔
اسی سلسلے میں آگے چل کر فرعون اور اس کی قوم کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو بھی ٹھیک یہی آزمائش پیش آئی تھی جس سے اب کفار قریش کے سرداروں کو سابقہ پڑا ہے۔ ان کے پاس بھی ایسا ہی ایک معزز رسول آیا تھا۔ انہوں نے بھی وہ صریح علامات اور نشانیاں دیکھ لی تھیں جن سے اس کا مامور من اللہ ہونا صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ وہ بھی نشانی پر نشانی دیکھتے چلے گئے مگر اپنی ضد سے باز نہ آئے۔ یہاں تک کہ آخر کار رسول کی جان لینے کے درپے ہو گئے اور نتیجہ وہ کچھ دیکھا جو ہمیشہ کے لیے سامان عبرت بن گیا۔
اس کے بعد دوسرا موضوع آخرت کا لیا گیا ہے جس سےکفار مکہ کو شدت کے ساتھ انکار تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم نے کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ اٹھ کر آتے نہیں دیکھا ہے، تم اگر دوسری زندگی کے دعوے میں سچے ہو تا اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو۔ اس کے جواب میں عقیدہ آخرت کی دو دلیلیں مختصر طور پر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اس عقیدے کا انکار ہمیشہ اخلاق کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا رہا ہے۔ دوسرے یہ کہ کائنات کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے، بلکہ ایک حکیمانہ نظام ہے، اور حکیم کا کوئی کام عبث نہیں ہوتا۔ پھر کفار کے اس مطالبہ کا کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو، یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ کام روز روز ہر ایک کے مطالبہ پر نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے اللہ نے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جب وہ تمام نوع انسانی بیک وقت جمع کرے گا اور اپنی عدالت میں ان کا محاسبہ فرمائے گا۔ اس وقت کی اگر کسی کو فکر کرنی ہو تو کر لے، کیونکہ وہاں کوئی نہ اپنے زور پر بچ سکے گا نہ کسی کے بچائے بچے گا۔
اللہ کی اس عدالت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ جو لوگ وہاں مجرم قرار پائیں گے ان کا انجام کیا ہو گا، اور جو وہاں سے کامیاب ہو کر نکلیں گے وہ کیا انعام پائیں گے۔ پھر یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی ہے کہ تم لوگوں کو سمجھانے کے لیے یہ قرآن صاف سیدھی زبان میں اور تمہاری اپنی زبان میں نازل کر دیا گیا ہے، اب اگر تم سمجھانے سے نہیں سمجھتے اور انجام بدی دیکھنے پر مصر ہو تو انتظار کو، ہمارا نبی بھی منتظر ہے، جو کچھ ہونا ہے وہ اپنے وقت پر سامنے آ جائے گا۔
۱۔ کتاب مبین کی قسم کھانے کا مطلب سورہ زخرف حاشیہ نمبر ۱ میں بیان کیا جا چکا ہے۔ یہاں بھی قسم جس بات پر کھائی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں بلکہ ’’ ہم ‘‘ ہیں، اور اس کا ثبوت کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، خود یہ کتاب ہی اس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد مزید بات یہ فرمائی گئی کہ وہ بڑی خیر و برکت والی رات تھی جس میں اس نازل کیا گیا۔ یعنی نادان لوگ، جنہیں اپنی بھلائی برائی کا شعور نہیں ہے، اس کتاب کی آمد کو اپنے لیے بلائے ناگہانی سمجھ رہے ہیں اور اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں۔ لیکن در حقیقت ان کے لیے اور تمام نوع انسانی کے لیے وہ ساعت بڑی سعید تھی جب ’’ ہم ‘‘ نے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکا نے کے لیے یہ کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس رات میں قرآن نازل کرنے کا مطلب بعض مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کا سلسلہ اس رات شروع ہوا۔ اور بعض مفسرین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ اس میں پورا قرآن امّ الکتاب سے منتقل کر کے حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر وہ حالات و وقائع کے مطابق جسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ۲۳ سال تک نازل کیا جاتا رہا۔ صحیح صورت معاملہ کیا ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اس رات سے مراد وہی رات ہے جسے سورہ قدر میں لیلۃ القدر کہا گیا ہے۔ وہاں فرمایا گیا کہ : اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیلَۃِ الْقَدْرِ، اور یہاں فرمایا کہ : اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَا رَکَۃٍ۔ پھر یہ بات بھی قرآن مجید ہی میں بتادی گئی ہے کہ وہ ماہ رمضان کی ایک رات تھی : شَھْرُ رَمَضَا نَ الْذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰن (البقرہ، ۱۸۵)۔
۲۔ اصل میں لفظ ’’ اَمْرٍ حَکِیْم ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حکم سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، کسی غلطی یا خامی کا اس میں کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ ایک پختہ اور محکم فیصلہ ہوتا ہے، اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں۔
۳۔ سورہ قدر میں یہی مضمون اس طرح بیان کیا گیا ہے : تَنَزَّل ُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّ وْ حُ فِیْھَا بِاِ ذْ نِ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ، ’’ اس رات ملائکہ اور جبریل اپنے رب کے اِذن س ہر طرح کا حکم لے کر اترتے ہیں۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے شاہی نظم و نسق میں یہ ایک ایسی رات ہے جس میں وہ افراد اور قوموں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے کر کے اپنے فرشتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ اور پھر وہ انہی فیصلوں کے مطابق عملدرآمد کرتے رہتے ہیں۔ بعض مفسرین کو جن میں حضرت عکرمہ سب سے زیادہ نمایاں ہیں، یہ شبہ لاحق ہوا ہے کہ یہ نصف شعبان کی رات ہے، کیوں کہ بعض احادیث میں اسی رات کے متعلق یہ بات منقول ہوئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ لیکن ابن عباس، ابن عمر، مجاہد، قتادہ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابن زید، ابو مالک، ضحاک اور دوسرے بہت سے مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ رمضان کی وہی رات ہے جسے لیلۃ القدر کہا گیا ہے، اس لیے کہ قرآن مجید خود اس کی تصریح کر رہا ہے، اور جہاں قرآن کی صراحت موجود ہو وہاں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی دوسرے رائے نہیں قائم کی جا سکتی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ’’ عثمان بن محمد کی جو روایت امام زہری نے شعبان سے شعبان تک قسمتوں کے فیصلے ہونے کے متعلق نقل کی ہے وہ ایک مرسل روایت ہے، اور ایسی روایات نصوص کے مقابلے میں نہیں لائی جا سکتیں۔ ‘‘ قاضی ابوبکر ابن العربی کہتے ہیں کہ ’’ نصف شعبان کی رات کے متعلق کوئی حدیث قابل اعتماد نہیں ہے، نہ اس کی فضیلت کے بارے میں اور نہ اس امر میں کہ اس رات قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کی طرف التفات نہیں کرنا چاہیے ‘‘۔ (احکام القرآن)
۴۔ یعنی یہ کتاب دے کر ایک رسول کو بھیجنا نہ صرف حکمت کا تقاضا تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی تھا، کیونکہ وہ رب ہے اور ربوبیت صرف اسی بات کی متقاضی نہیں ہے کہ بندوں کے جسم کی پرورش کا سامان کیا جائے اور انہیں تاریکی میں بھٹکتا نہ چھوڑ دیا جائے۔
۵۔ اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ کی ان دو صفت کو بیان کرنے سے مقصود لوگوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ صحیح علم صرف وہی دے سکتا ہے، کیونکہ تمام حقائق کو وہی جانتا ہے۔ ایک انسان تو کیا، سارے انسان مل کر بھی ایک سمیع و علیم نہیں بنتی۔ اس کے بس میں یہ ہے ہی نہیں کہ ان تمام حقائق کا احاطہ کرے جن کا جاننا ایک صحیح راہ حیات متعین کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ وہی سمیع و علیم ہے، اس لیے وہی یہ بتا سکتا ہے کہ انسان کے لیے ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا، حق کیا ہے اور باطل کیا، خیر کیا ہے اور شر کیا۔
۶۔ اہل عرب خود اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات اور اس کی ہر چیز کا رب (مالک و پرسردگار ) ہے۔ اس لیے ان سے فرمایا گیا کہ اگر تم بے سوچے سمجھے محض زبان ہی سے یہ اقرار نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں واقعی اس کی پروردگاری کا شعور اور اس کے مالک ہونے کا یقین ہے، تو تمہیں تسلیم کرنا چاہیے کہ (۱) انسان کی رہنمائی کے لیے کتاب اور رسول کا بھیجنا اس کی شان رحمت و پروردگاری کا عین تقاضا ہے، اور (۲) مالک ہونے کی حیثیت سے یہاس کا حق اور مملوک ہونے کی حیثیت سے یہ تمہارا فرض ہے کہ اس کی طرف سے جو ہدایت آئے اسے مانو اور جو حکم آئے اس کے آگے سر اطاعت جھکا دو۔
۷۔ معبود سےمراد ہے حقیقی معبود جس کا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت (بندگی و پرستش ) جائے۔
۸۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ جس نے بے جان مادوں میں جان ڈال کر تم کو جیتا جاگتا انسان بنایا، اور جو اس امر کے کلی اختیارات رکھتا ہے کہ جب تم چاہے تمہاری اس زندگی کو باقی رکھے اور جب چاہے اسے ختم کر دے، اس کی تم بندگی نہ کرو، یا اس کے سوا کسی اور کی بندگی کرو، یا اس کے ساتھ دوسروں کی بندگی بھی کرنے لگو۔
۹۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہےاس امر کی طرف کہ تمہارے جن اسلاف نے اس کو چھوڑ کر دوسرے معبود بنائے، ان کا رب بھی حقیقت میں وہی تھا۔ انہوں نے اپنے اصلی رب کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے کوئی صحیح کام نہ کیا تھا کہ ان کی تقلید کرنے میں تم حق بجانب ہو اور ان کے فعل کو اپنے مذہب کے درست ہونے کی دلیل ٹھیرا سکو۔ ان کو لازم تھا کہ وہ صرف اسی کی بندگی کرتے کیونکہ وہی ان کا رب تھا۔ لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو تمہیں لازم ہے کہ سب کی بندگی چھوڑ کر اسی ایک کی بندگی اختیار کرو کیونکہ وہی تمہارا رب ہے۔
۱۰۔ اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دہریے ہوں یا مشرکین، ان سب پر وقتاً فوقتاً ایسی ساعتیں آتی رہتی ہیں جب ان کا دل اندر سے کہتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھے بیٹھے ہو اس میں کہیں نہ کہیں جھول موجود ہے۔ دہریہ اپنے انکار خدا میں بظاہر خواہ کتنا ہی سخت ہو، کسی نہ کسی وقت اس کا دل یہ شہادت دے گزرتا ہے کہ خاک کے ایک ذرے سے لے کر کہکشانوں تک اور گھاس کی ایک پتی سے لے کر انسان کی تخلیق تک یہ حیرت انگیز، حکمت سے لبریز نظام کسی صانع حکیم کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ اسی طرح ایک مشرک اپنے شرک میں خواہ کتنا ہی گہرا ڈوبا ہوا ہو، کبھی نہ کبھی اس کا دل بھی یہ پکار اٹھتا ہے کہ جنہیں میں معبود بنائے بیٹھا ہوں یہ خدا نہیں ہو سکتے۔ لیکن اس قلبی شہادت کا نتیجہ نہ تو یہ ہوتا ہے کہ انہیں خدا کے وجود اور اس کی توحید کا یقین حاصل ہو جائے، نہ یہی ہوتا ہے کہ انہیں اپنے شرک اور اپنی دہریت میں کامل یقین و اطمینان حاصل رہے۔ اس کے بجائے ان کا دین در حقیقت شک پر قائم ہوتا ہے خواہ اس میں یقین کی کتنی ہی شدت وہ دکھا رہے ہوں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ شک ان کے اندر بے چینی کیوں نہیں پیدا کرتا، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ حقیقت کی جستجو کیوں نہیں کرتے کہ یقین کی اطمینان بخش بنیاد انہیں مل سکے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں سنجیدگی ہی سے تو وہ محروم ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں اصل اہمیت صرف دنیا کی کمائی اور اس کے عیش کی ہوتی ہے جس کی فکر میں وہ اپنے دل اور دماغ اور جسم کی ساری طاقتیں خرچ کر ڈالتے ہیں۔ رہے دین کے مسائل، تو وہ حقیقت میں ان کے لیے ایک کھیل، ایک تفریح، ایک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں ہوتے جن پر سنجیدگی کے ساتھ چند لمحے بھی وہ غور و فکر میں صرف نہیں کر سکتے۔ مذہبی مراسم ہیں تو تفریح کے طور پر ادا کیے جا رہے ہیں۔ انکار و دہریت کی بحثیں ہیں تفریح کے طور پر کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے مشاغل سے اتنی فرصت کسے ہے کہ بیٹھ کر یہ سوچے کہ کہیں ہم حق سے منحرف تو نہیں ہیں اور اگر حق سے منحرف ہیں تو اس کا انجام کیا ہے۔
۱۱۔ رسولِ مُبین کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا رسول ہونا اس کی سیرت، اس کے خلاق و کردار اور اس کے کارناموں سے بالکل عیاں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس نے حقیقت کو کھول، کھول کر بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
۱۲۔ ان کا مطلب یہ تھا یہ بے چارہ تو سیدھا آدمی تھا، کچھ دوسرے لوگوں نے اسے بَھروں پر چڑھا لیا، وہ در پر وہ قرآن کی آیتیں گھڑ گھڑ کر اسے پڑھا دیتے ہیں، یہ آ کر عام لوگوں کے سامنے انہیں پیش کر دیتا ہے، وہ مزے سے بیٹھے رہتے ہیں، اور یہ گالیاں اور پتھر کھاتا ہے۔ اس طرح ایک چلتا ہو فقرہ کہہ کر وہ ان ساری دلیلوں اور نصیحتوں اور سنجیدہ تعلیمات کو اڑا دیتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برسوں سے ان کے سامنے پیش کر کر کے تھکے جا رہے تھے۔ وہ نہ ان معقول باتوں پر کوئی توجہ کرتے تھے جو قرآن مجید میں بیان کی جا رہی تھیں۔ نہ یہ دیکھتے تھے کہ جو شخص یہ باتیں پیش کر رہا ہے وہ کس پائے کا آدمی ہے۔ اور نہ یہ الزام رکھتے وقت ہی وہ کچھ سوچنے کی زحمت گوارا کرتے تھے کہ ہم یہ کیا بکواس کر رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اگر کوئی دوسرے شخص در پردہ بیٹھ کر سکھانے پڑھانے والا ہوتا تو وہ حضرت خدیجہؓ اور ابوبکرؓ اور علیؓ اور زیدؓ بن حارثہ اور دوسرے ابتدائی مسلمانوں سے آخر کیسے چھپ جاتا جن سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب اور ہر وقت کا ساتھی کوئی نہ تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہی لوگ سب سے بڑھ کر حضورؐ کے گرویدہ اور عقیدت مند تھے، حالانکہ درپردہ کسی دوسرے شخص کے سکھانے پڑھانے سے نبوت کا کاروبار چلایا گیا ہوتا تو یہی لوگ آپ کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۷۳۔ ۵۷۴۔ جلد سوم، ص ۴۳۵۔ ۴۳۷)۔
۱۳۔ ان آیات کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بڑا اختلاف واقع ہوا ہے اور یہ اختلاف صحابہ کرام کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مشہور شاگرد مسروق کہتے ہیں کہ ایک روز ہم کو فے کی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہے۔ اس نے آیت : یَوْمَ تَأ تِی السَّمَآءُ بِدُ خَانٍ مُّبِیْنٍ پڑھی، پھر کہنے لگا، جانتے ہو یہ کیسا دھواں ہے ؟ یہ دھواں قیامت کے روز آئے گا اور کفار و منافقین کو اندھا بہرا کر دے گا، مگر اہل ایمان پر اس کا اثر بس اس قدر ہو گا کہ جیسے زکام لاحق ہو گیا ہو۔ اس کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس گئے اور ان سے واعظ کی یہ تفسیر بیان کی۔ حضرت عبداللہ لیتے ہوئے تھے۔ یہ تفسیر سن کر گھبرا کے اٹھ بیٹھے اور کہتے لگے کہ آدمی کو علم نہ ہو تو اسے جاننے والوں سے پوچھ لینا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب قریش کے لوگ اسلام قبول کرنے سے انکار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہی چلے گئے تو حضور نے دعا کی کہ خدایا یوسف علیہ السلام کے قحط جسے قحط سے میری مدد فرما۔ چنانچہ ایسا شدید کال پڑا کہ لوگ ہڈیاں اور چمڑا اور مردار تک کھا گئے۔ اس زمانے میں حالت یہ تھی کہ جو شخص آسمان کی طرف دیکھتا تھا اسے بھوک کی شدت میں بس دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ آخر کار ابو سفیان نے آ کر حضور سے کہا کہ آپ تو صلہ رحمی کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ کی قوم بھوکوں مر رہی ہے۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ اس مصیبت کو دور کر دے۔ یہی زمانہ تھا جب قریش کے لوگ کہتے لگے تھے کہ خدایا ہم پر سے یہ عذاب دور کر دے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ اسی واقعہ کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔ اور بڑی ضرب سے مراد وہ ضرب ہے جو آخر کار جنگ بدر کے روز قریش کو لگائی گئی۔ یہ روایت امام احمد، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے متعدد سندوں کے ساتھ مسروق سے نقل کی ہے۔ اور مسروق کے علاوہ ابراہیم نخعی، قتادہ، عاصم اور عامر کا بھی یہی بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس آیت کی یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حضرت موصوف کی رائے فی الواقع یہی تھی۔ تابعین میں سے مجاہد، قتادہ، ابو العالیہ، مقاتل، ابراہیم النخفی، ضحاک اور عطیۃ الغوفی وغیرہ حضرات نے بھی اس تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے اتفاق کیا ہے۔
دوسری طرف حضرت علی، ابن عمر، ابن عباس، ابو سعید خدری، زید بن علی اور حسن بصری جیسے اکابر کہتے ہیں کہ ان آیات میں سارا ذکر قیامت کے قریب زمانے کا کیا گیا ہے اور وہ دھواں جس کی خبر دی گئی ہے، اسی زمانے میں زمین پر چھائے گا۔ مزید تقویت اس تفسیر کو ان روایات ملتی ہے جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ خذیفہ بن اَسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک روز ہم قیامت کے متعلق آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ اتنے میں حضور برآمد ہوئے اور فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی جب تک دس علامات یکے بعد دیگرے ظاہر نہ ہو لیں گی : سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ دھواں۔ دابّہ۔ یاجوج و ماجوج کا خروج، عیسی ابن مریم کا نزول۔ زمین کا دھنسنا مشرق میں، مغرب میں اور جزیرۃالعرب میں۔ اور عدن سے آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہانکتی ہوئی لے جائے گی (مسلم)۔ اسی کی تائید ابو مالک اشعری کی وہ روایت کرتی ہے جسے ابن جریر اور طبرانی نے نقل کیا ہے، اور ابو سعید خدری کی روایت جسے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے۔ ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوئیں کو علامات قیامت میں شمار کیا ہے، اور یہ بھی حضورؐ نے فرمایا ہے کہ وہ دھواں جب چھائے گا تو مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا، اور کافر کی نس نس میں وہ بھر جائے گا اور اس کے ہر منفذ سے نکلے گا۔
ان دونوں تفسیروں کا تعارض اوپر کی آیات پر غور کرنے سے بآسانی رفع ہوسکتا ہے۔ جہاں تک حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی تفسیر کا تعلق ہے، یہ امر واقعہ ہے کہ مکہ معظمہ میں حضورؐ کی دعا سے سخت قحط رونما ہوا تھا جس سے کچار کے خنّے بہت کچھ ڈھیلے پڑ گئے تھے، اور انہوں نے اسے رفع کرانے کے لیے حضورؐ سے دعا کی درخواست کی تھی۔ اس واقعہ کی طرف قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اشارے کیے گئے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۵۴۰۔ جلد دوم، ص۵۹۔ ۶۰۔ ۲۶۹۔ ۲۷۰۔ ۲۷۷۔ ۲۷۸۔ جلد سوم، ص ۲۹۳)۔ ان آیات میں بھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ اشارہ اسی صورت حال کی طرف ہے۔ کفار کا یہ کہنا کہ ’’ پروردگار، ہم پر سے یہ عذاب ٹال دے، ہم ایمان لاتے ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ ان کی غفلت کہاں دور ہوتی ہے جب کہ رسول مبین آ گیا، پھر بھی یہ اس کی طرف ملتفت نہ ہوئے اور کہا کہ یہ تو سکھایا پڑھایا باؤلا ہے۔ ‘‘ پھر یہ فرمانا کہ ’’ ہم ذرا عذاب ہٹائے دیتے ہیں، تم لوگ پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کر رہے تھے۔ ‘‘ یہ ساری باتیں اسی صورت میں راست ٍآ سکتی ہیں جب کہ واقعہ حضورؐ ہی کے زمانے کا ہو۔ قامت کے قریب ہونے والے واقعات پر ان کا اطلاق بعید از فہم ہے۔ اس لیے اس حد تک تو ابن مسعود رضیاللہ عنہ کی تفسیر ہی صحیح معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا یہ حصہ صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ ’’ دھواں‘‘ بھی اسی زمانے میں ظاہر ہوا تھا، اور اس شکل میں ظاہر ہوا تھا کہ بھوک کی شدت میں جب لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا، یہ بات قرآن مجید کے ظاہر الفاظ سے بھی مطابقت نہیں رکھتی، اور احادیث کے بھی خلاف ہے۔ قرآن میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ آسمان دھواں لیے ہوئے آ گیا اور لوگوں پر چھا گیا۔ وہاں تو کہا گیا ہے کہ ’’ اچھا تو اس دن کا انتظار کرو جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا۔ ‘‘ بعد کی آیات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس ارشاد کا صاف مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تم نہ رسول کے سمجھانے سے مانتے ہو، نہ قحط کی شکل میں جو تنبیہ تمہیں کی گئی ہے اس سے ہی ہوش میں آتے ہو، تو پھر قیامت کا انتظار کرو، اس وقت جب پوری طرح شامت آئے گی تب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ حق کیا تھا۔ پس جہاں تک دھوئیں کا تعلق ہے، اس کے بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ قحط کے زمانے کی چیز نہیں ہے بلکہ علامات قیامت میں سے ہے، اور یہی بات احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ تعجب ہے کہ مفسرین کبار میں سے جنہوں نے حضرت ابن مسعود کیا تائید کی انہوں نے بات کی تائید کر دی، اور جنہوں نے ان کی تردید کی انہوں نے پوری بات کی تردید کر دی، حالانکہ آیات اور احادیث پر غور کرنے سے یہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا کونسا حصہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔
۱۴۔ اصل میں ’’رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ کریم کا لفظ جب انسان کے لیے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہترین شریفانہ خصائل اور نہایت قابل تعریف صفات سے متصف ہے۔ معمولی خوبیوں کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا۔
۱۵۔ یہ بات ابتدا ہی میں سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں موسیٰ کے جو اقوال نقل کیے جا رہے ہیں وہ ایک وقت میں ایک ہی مسلسل تقریر کے اجزا نہیں ہیں، بلکہ سالہا سال کے دوران میں مختلف مواقع پر جو باتیں انہوں نے فرعون اور اس کے اہل دربار سے کہی تھیں ان کا خلاصہ چند فقروں میں بیان کیا جا رہا ہے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۶۳ تا ۴۶۔ ۳۰۱ تا ۳۱۰ جلد سوم، ص ۹۵ تا ۱۰۸۔ ۴۸۰ تا ۴۹۸۔ ۵۵۷ تا تا ۵۶۰۔ ۶۳۴ تا ۶۳۹۔ جلد چہارم، المومن، آیات ۲۳ ت ۴۶۔ الزخرف ۴۶ تا ۵۶ مع حواشی)
۱۶۔ اصل میں اَدُّ وْ ا اِلَیَّ عِبَا دَ ا للہِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو اوپر ہم نے کیا ہے اور اس کے لحاظ سے یہ اس مطالبے کا ہم معنی ہے جو سورہ اَ عراف(آیت ۱۰۵)، سورہ طٰہٰ (۴۷) اور الشعراء (۱۷) میں گزر چکا ہے کہ ’’ نبی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے کے لیے چھوڑ دو‘‘ دوسری تر جمہ، جو حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے، یہ ہے کہ ’’ اللہ کے بندو میرا حق ادا کرو‘‘ یعنی میری بات مانو، مجھ پر ایمان لاؤ، اور میری ہدایت کی پیروی کرو، یہ خدا کی طرف سے تمہارے اوپر میرا حق ہے۔ بعد کا یہ فقرہ کہ ’’ میں تمہارے لیے ایک مانت دار رسول ہوں ‘‘ اس دوسرے مفہوم کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
۱۷۔ یعنی بھروسے کے قابل رسول ہوں۔ اپنی طرف سے کوئی بات ملا کر کہنے والا نہیں ہوں۔ نہ اپنی کسی ذاتی خواہش یا غرض کے لیے خود ایک حکم یا قانون گھڑ کر خدا کے نام سے پیش کرنے والا ہوں۔ مجھ پر تم یہ اعتماد کرسکتے ہو کہ جو کچھ میرے بھیجنے والے نے کہا ہے وہی بے کم و کاست تم تک پہنچاؤں گا۔ (واضح رہے کہ یہ دو فقرے اس وقت کے ہیں جب حضرت موسیٰ نے سب سے پہلے اپنی دعوت پیش فرمائی تھی)۔
۱۸۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے مقابلے میں جو سرکشی تم کر رہے ہو یہ در اصل اللہ کے مقابلے میں سرکشی ہے، کیونکہ میری جن باتوں پر تم بگڑ رہے ہو وہ میری نہیں بلکہ اللہ کی باتیں ہیں اور میں اسی کے رسول کی حیثیت سے انہیں بیان کر رہا ہوں۔ اگر تمہیں اس میں شک ہے کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں یا نہیں، تو میں تمہارے سامنے اپنے مامور من اللہ ہونے کی صریح سند پیش کرتا ہوں۔ اس سند سے مراد کوئی ایک معجزہ نہیں ہے بلکہ معجزات کا وہ طویل سلسلہ ہے جو فرعون کے دربار میں پہلی مرتبہ پہنچنے کے بعد سے آخر زمانہ قیام تک حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کو سالہا سال تک دکھاتے رہے۔ جس سند کو بھی اُن لوگوں نے جھٹلایا اس سے بڑھ کر صریح سند آپ پیش کرتے چلے گئے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزخرف حواشی نمبر ۴۲۔ ۴۳)۔
۱۹۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت موسٰی کی پیش کردہ ساری نشانیوں کے مقابلے میں فرعون اپنی ہٹ پر اڑا ہوا تھا مگر یہ دیکھ کر کہ ان نشانیوں سے مصر کے عوام اور خواص روز بروز متاثر ہوتے چلے جا رہے ہیں، اس کے ہوش اُڑے جا رہے تھے۔ اس زمانے میں پہلے تو اس نے بھرے دربار میں وہ تقریر کی جو سورہ زخرف، آیات ۵۱۔ ۵۳ میں گزر چکی ہے (ملاحظہ ہو حواشی سورہ زخرف ۴۵ تا ۴۹) پھر زمین پاؤں تلے سے نکلتی دیکھ کر آخر کار وہ اللہ کے رسول کو قتل کرنے دینے پر آمادہ ہو گیا۔ اس وقت آنجناب نے وہ بات کہی جو سورہ مومن، آیت۲۷ میں گزر چکی ہے کہ اِنّی عذتُ بِربّی ورَبی کُم مِن کُل مُتکبرٍ لّا یؤ منُ الحساب۔ ’’ میں نے پناہ لی اپنے رب کی ہر اس متکبر سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا"۔ یہاں حضرت موسیٰ اپنی اسی بات کا حوالہ دیکھ کر فرعون اور اس کے اعیان سلطان سے فرما رہے ہیں کہ دیکھو، میں تمہارے سارے حملوں کے مقابلہ میں اللہ رب العالمین پناہ مانگ چکا ہوں۔ اب تم میرا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے لیکن اگر تم خود اپنی خیر چاہتے ہو تو مجھ پر حملہ آور ہونے سے باز رہو، میری بات نہیں مانتے تو نہ مانو۔ مجھ پر ہاتھ ہرگز نہ ڈالنا، ورنہ اس کا بہت برا انجام دیکھو گے۔
۲۰۔ یہ حضرت موسیٰ کی آخری رپورٹ ہے جو انہوں نے اپنے رب کے سامنے پیش کی۔ "یہ لوگ مجرم ہیں" یعنی ان کا مجرم ہونا اب قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہے۔ کوئی گنجائش ان کے ساتھ رعایت برتنے اور ان کو اصلاح حال کا مزید موقع دینے کی باقی نہیں رہی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حضور آخری فیصلہ فرمائیں۔
۲۱۔ یعنی ان سب لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں ان میں بنی اسرائیل بھی تھے اور مصر کے وہ قبطی باشندے بھی جو حضرت یوسفؑ کے زمانے سے حضرت موسیٰ ؑ کی آمد تک مسلمانوں میں شامل ہو چکے تھے، اور وہ لوگ بھی جنہوں نے حضرت موسیٰؑ کی نشانیاں دیکھ کر اور آپ کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اہل مصر میں سے اسلام قبول کیا تھا۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۴۳۰)
۲۲۔ یہ ابتدائی حکم ہے جو حضرت موسیٰؑ کو ہجرت کے لیے دیا گیا تھا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۱۰۸تا۴۹۸)
۲۳۔ یہ حکم اس وقت دیا گیا جب حضرت موسیٰؑ اپنے قافلہ کو لے کر سمندر پار کر چکے تھے اور چاہتے تھے کہ سمندر پر عصا مار کر اسے پھر ویسا ہی کر دیں جیسا وہ پھٹنے سے پہلے تھا، تاکہ فرعون اور اس کا لشکر اس راستے سے گذر کر نہ آ جائے جو معجزہ سے بنا تھا۔ اس وقت فرمایا گیا کہ ایسا نہ کرو۔ اس کو اسی طرح پھٹا کا پھٹا رہنے دو تاکہ فرعون اپنے لشکر سمیت اس راستے میں اتر آئے، پھر سمندر کو چھوڑ دیا جائے گا اور یہ پوری فوج غرق کر دی جائے گی۔
۲۴۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بعد مصر کی سرزمین کا وارث بنا دیا۔ اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد دوسرے لوگ ہیں جو آل فرعون کے بعد مصر کے وارث ہوئے، کیونکہ تاریخوں میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں ملتا کہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کبھی وہاں واپس گئے ہوں اور وہاں اس زمین کے وارث ہوئے ہوں یہی اختلاف بعد کے مفسرین میں بھی پایا جاتا ہے۔ (تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۴۹۶۔ ۴۹۷)
۲۵۔ یعنی جب وہ حکمراں تھے تو ان کی عظمت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ان کی حمد و ثناء کے ترانوں سے دنیا گونج رہی تھی۔ خوش آمدیوں کے جم گھٹے ان کے آگے اور پیچھے لگے رہتے تھے۔ ان کی وہ ہوا باندھی جاتی تھی کہ گویا ایک عالم ان کے کمالات کا گرویدہ اور ان کے احسانات کا زیر بار ہے۔ اور ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقبول نہیں، مگر جب وہ گرے تو کوئی آنکھ ان کے لیے رونے والی نہیں تھی، بلکہ دنیا نے ایسا اطمینان کا سانس لیا کہ گویا ایک کانٹا تھا جو اس کے پہلو سے نکل گیا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے نہ خلق خدا کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی کہ زمین والے ان کے لیے روتے، نہ خدا کی خوشنودی کا کوئی کام کیا تھا کہ آسمان والوں کو ان کی ہلاکت پر افسوس ہوتا۔ جب تک مشیت الٰہی سے اس کی رسی دراز ہوتی رہی، وہ زمین کے سینے پر مونگ ڈلتے رہے۔ جب ان کے جرائم حد سے گذر گئے تو اس طرح اٹھا کر پھینک دیئے جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔
۲۵۔ یعنی جب وہ حکمراں تھے تو ان کی عظمت کے ڈنکے بج رہے تھے۔ ان کی حمد و ثناء کے ترانوں سے دنیا گونج رہی تھی۔ خوش آمدیوں کے جم گھٹے ان کے آگے اور پیچھے لگے رہتے تھے۔ ان کی وہ ہوا باندھی جاتی تھی کہ گویا ایک عالم ان کے کمالات کا گرویدہ اور ان کے احسانات کا زیر بار ہے۔ اور ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مقبول نہیں، مگر جب وہ گرے تو کوئی آنکھ ان کے لیے رونے والی نہیں تھی، بلکہ دنیا نے ایسا اطمینان کا سانس لیا کہ گویا ایک کانٹا تھا جو اس کے پہلو سے نکل گیا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے نہ خلق خدا کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی کہ زمین والے ان کے لیے روتے، نہ خدا کی خوشنودی کا کوئی کام کیا تھا کہ آسمان والوں کو ان کی ہلاکت پر افسوس ہوتا۔ جب تک مشیت الٰہی سے اس کی رسی دراز ہوتی رہی، وہ زمین کے سینے پر مونگ ڈلتے رہے۔ جب ان کے جرائم حد سے گذر گئے تو اس طرح اٹھا کر پھینک دیئے جیسے کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے۔
۲۶۔ یعنی فرعون بجائے خود کے لیے ذلت کا عذاب تھا اور دوسرے تمام عذاب اسی ایک عذاب ِ مجسم کے شاخسانے تھے۔
۲۷۔ اس میں ایک لطیف طنز ہے کفار قریش کے سرداروں پر۔ مطلب یہ ہے کہ حد بندگی سے تجاوز کرنے والوں میں تمہارا مرتبہ اور مقام ہی کیا ہے۔ بڑے اونچے درجے کا سرکش تو وہ تھا جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے تحت خدائی کا روپ دھارے بیٹھا تھا۔ اسے جب خس و خاشاک کی طرح بہا دیا گیا تو تمہاری کیا ہستی ہے کہ قہر الٰہی کے آگے ٹھہر سکے۔
۲۸۔ یعنی بنی اسرائیل کی خوبیاں اور کمزوریاں دونوں اللہ پر عیاں تھیں اس نے بے دیکھے بھالے اس کا انتخاب اندھا دھند نہیں کر لیا تھا۔ اس وقت دنیا میں جتنی قومیں موجود تھیں ان میں سے اس قوم کو جب اس نے اپنے پیغام کا حامل اور اپنی توحید کی دعوت کا علمبردار بنانے کے لیے چنا تو اس بنا پر چنا کہ علم میں وقت کی موجود قوموں میں سے یہی اس کے لیے موزوں تر تھی۔
۲۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۷۵ تا ۸۶۔ ۴۱۵ تا ۴۲۲۔ ۴۵۸ تا ۴۶۱ جلد دوم، ص ۷۴ تا ۹۵۔ جلد سوم ۱۱۱ تا ۱۲۱۔
۳۰۔ یعنی پہلی دفعہ ہم مریں گے تو بس فنا ہو جائیں گے۔ اس کے بعد پھر کوئی زندگی نہیں ہے۔ "پہلی موت" اس کے الفاظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے بعد کوئی بھی ہو۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا تو اس قول کے صادق ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اس کے بعد لازم دوسرا بچہ پیدا ہو، بلکہ صرف یہ کافی ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کوئی بچہ نہ ہوا ہو۔
۳۱۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ ہم نے کبھی مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ جی اٹھتے نہیں دیکھا ہے، اس لیے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے دوسری کوئی زندگی نہیں ہو گی۔ تم لوگ اگر یہ دعویٰ کرتے ہو کہ دوسری زندگی ہو گی تو ہمارے اجداد کو قبروں سے اٹھا لاؤ تاکہ ہمیں زندگی بعد موت کا یقین آ جائے۔ یہ کام تم نے نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ یہ گوایا ان کے نزدیک حیات بعد الموت کی تردید میں بڑی پختہ دلیل تھی۔ حالاں کہ سراسر مہمل تھی۔ آخر ان سے یہ کہا کس نے تھا کہ مرنے والے دوبارہ زندہ ہو کر اسی دنیا میں واپس آئیں گے؟ اور نبی ﷺ یا کسی مسلمان نے یہ دعویٰ کب کیا تھا کہ ہم مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں؟
۳۲۔ تبع قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا، جیسے کسریٰ، قیصر، فرعون وغیرہ القاب مختلف ممالک کے بادشاہوں کے لیے مخصوص رہے ہیں۔ یہ لوگ قوم سبا کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے ۱۱۵ قبل مسیح میں ان کو سبا کے ملک پر غلبہ حاصل ہوا اور ۳۰۰ عیسیوی تک یہ حکمراں رہے۔ عرب میں صدیوں تک ان کی عظمت کے افسانے زبان زد خلائق رہے ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ سبا، حاشیہ نمبر ۳۷)
۳۳۔ یہ کفار کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ انکار آخرت وہ چیز ہے جو کسی شخص، گروہ یا قوم کو مجرم بنائے بغیر نہیں رہتی۔ اخلاق کی خرابی اس کا لازمی نتیجہ ہے اور تاریخ انسانی شاہد ہے زندگی کے اس نظریہ کو جس قوم نے بھی اختیار کیا ہے وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی ہے۔ رہا یہ سوال یہ "یہ بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور ا س سے پہلے کے لوگ"؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ تو اس خوش حالی و شوکت و حشمت کو پہنچ ہی نہیں سکے ہیں جو تبع کی قوم، اور اس سے پہلے سبا اور قوم فرعون اور دوسری قوموں کو حاصل رہی ہے۔ مگر یہ مادی خوشحالی اور دنیاوی شان شوکت اخلاقی زوال کے نتائج سے ان کو کب بچا سکتی تھی۔ یہ اپنی ذرا سی پونجی اور اپنے ذرائع و سائل کے بل بوتے پر بچ جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، سورہ سباء، حواشی نمبر ۲۵۔ ۳۶)
۳۴۔ یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی حیات بعد الموت اور آخرت کی جزا و سزا ک کا منکر ہے وہ دراصل اس کارخانہ عالم کو کھلونا اور اس کے خالق کو نادان بچہ سمجھتا ہے، اسی بناء پر اس نے یہ رائے قائم کی ہے کہ انسان دنیا میں ہر طرح کے ہنگامے برپا کر کے ایک روز بس یوں ہی مٹی میں رل مل جائے گا اوراس کے کسی اچھے یا برے کام کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا۔ حالاں کہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کی نہیں بلکہ ایک خالق حکیم کی بنائی ہوئی ہے اور کسی حکیم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ وہ فعل عبث کا ارتکاب کرے گا۔ انکار آخرت کے جواب میں یہ استدلال قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے، ہم اس کی مفصل تشریح کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد، اول، ص ۵۵۱، جلد دوم، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵۔ جلد سوم، ص۱۵۱۔ ۱۵۲۔ ۳۰۲۔ ۳۰۳۔ ۷۳۱ تا ۷۳۵)۔
۳۵۔ یہ ان کے اس مطالبے کا جواب ہے کہ ’’ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ زندگی بعد موت کوئی تماشا تو نہیں ہے کہ جہاں کوئی اس سے انکار کرے، فوراً ایک مردہ قبرستان سے اٹھا کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا جائے اس کے لیے تو رب العالمین نے ایک وقت مقرر کر دیا ہے جب تمام اولین و آخرین کو وہ دوبارہ زندہ کر کے اپنی عدالت میں جمع کرے گا اور ان کے مقدمات کا فیصلہ صادر فرمائے گا۔ تم مانو چاہے نہ مانو، یہ کام بہر حال اپنے وقت مقرر پر ہی ہو گا۔ تم مانو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے، کیونکہ اس طرح قبل از وقت خبردار ہو کر اس عدالت سے کامیاب بکنے کی تیاری کر سکو گے۔ نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے، کیونکہ اپنی ساری عمر اس غلط فہمی میں کھپا دو گے کہ برائی اور بھلائی جو کچھ بھی ہے بس اسی دنیا کی زندگی تک ہے، مرنے کے بعد پھر کوئی عدالت نہیں ہونی ہے جس میں ہمارے اچھے یا برے اعمال کا کوئی مستقل نتیجہ نکلنا ہو۔
۳۶۔ اصل میں لفظ’’ مولیٰ ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو کسی تعلق کی بنا پر دوسرے شخص کی حمایت کرے، قطع نظر اس سے کہ وہ رشتہ داری کا تعلق ہو یا دوستی کا یا کسی اور قسم کا۔
۳۷۔ ان فقروں میں بتایا گیا ہے کہ فیصلے کے دن جو عدالت قائم ہو گی اس کا کیا رنگ ہو گا۔ کسی کی مدد یا حمایت وہاں کسی مجرم کو نہ چھڑا سکے گی، نہ اس کی سزا کم ہی کرا سکے گی۔ کلی اختیارات اس حاکم حقیقی کے ہاتھ میں ہوں گے جس کے فیصلے کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی، اور جس کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کا بل بوتا کسی میں نہیں ہے۔ یہ بالکل اس کے اپنے اختیار تمیزی پر موقوف ہو گا کہ کسی پر رحم فرما کر اس کو سزا نہ دے یا کم سزا دے، اور حقیقت میں اس کی شان یہی ہے کہ انصاف کرنے میں بے رحمی سے نہیں بلکہ رحم ہی سے کام لے۔ لیکن جس کے مقدمے میں جو فیصلہ بھی وہ کرے گا وہ بہر حال بے کم و کاست نافذ ہو گا۔ عدالت الٰہی کی یہ کیفیت بیان کرنے کے بعد آگے کے چند فقروں میں بتایا گیا ہے کہ اس عدالت میں جو لوگ مجرم ثابت ہوں گے ان کا انجام کیا ہو گا، اور جن لوگوں کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ دنیا میں خدا سے ڈر کر نافرمانیوں سے پرہیز کرتے رہے تھے، ان کو کن انعامات سے سرفراز کیا جائے گا۔
۳۸۔ زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ صافات، حاشیہ ۳۴۔
۳۹۔ اصل میں لفظ ’’ المُھل‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں: پگھلی ہوئی دھات۔ پیپ لہو۔ پگھلا ہوا تارکول۔ لاوا تیل کی تلچھٹ۔ یہ مختلف معنی اہل لغت اور مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ لیکن اگر زقوم سے مراد وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں تھوہر کہتے ہیں، تواس کو چبانے سے جو رس نکلے گا، اغلب یہی ہے کہ وہ تیل کی تلچھٹ سے مشابہ ہو گا۔
۴۰۔ امن کی جگہ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں کسی قسم کا کھٹکا نہ ہو۔ کوئی پریشانی، کوئی خطرہ اور اندیشہ، کوئی مشقت اور تکلیف لاحق نہ ہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’ اہل جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ یہاں تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے، ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہ مروگے، ہمیشہ خوشحال رہو گے کبھی خستہ حال نہ ہو گے، ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے‘‘ (مسلم بروایت ابوہریرہ و ابو سعید خدری )۔
۴۱۔ اصل میں سُنْدُس اور اِسْتَبْرَق کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ سُندس عربی زبان میں باریک ریشمی کپڑے کو کہتے ہیں۔ اور استبرَق فارسی لفظ ستبر کا معرب ہے، اور یہ دبیز ریشمی کپڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
۴۲۔ اصل الفاظ ہیں حُوْرٌ عِیْن۔ حور جمع ہے حوراءکی اور حوراء عربی زبان میں گوری عورت کو کہتے ہیں۔ اور عِین جمع ہے عَیناء کی، اور یہ لفظ بڑی بڑی آنکھوں والی عورت کےلیے بولا جاتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۲۶ و ۲۹ )
۴۳۔ ’’ اطمینان سے ‘‘ طلب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جتنی چاہیں گے بے فکری کے ساتھ جنت کے خادموں کو اس کے لانے کا حکم دیں گے اور وہ حاضر کر دی جائے گی۔ دنیا میں کوئی شخص ہوٹل تو درکنار، خود اپنے گھر میں اپنی چیز بھی اس اطمینان سے طلب نہیں کرسکتا جس طرح وہ جنت میں طلب کرے گا۔ کیونکہ یہاں کسی چیز کے بھی اتھاہ ذخیرے کسی کے پاس نہیں ہوتے، اور جو چیز بھی آدمی استعمال کرتا ہے اس کی قیمت بہر حال اس کی اپنی جیب ہی سے جاتی ہے۔ جنت میں مال اللہ کا ہو گا اور بندے کو اس کے استعمال کی کھلی اجازت ہو گی۔ نہ کسی چیز کے ذخیرے ختم ہو جانے کا خطرہ ہو گا نہ بعد میں بل پیش ہونے کا کوئی سوال۔
۴۴۔ اس آیت میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم سے بچائے جانے کا ذکر خاص طور پر الگ فرمایا گیا ہے، حالاں کہ کسی شخص کا جنت میں پہنچ جانا آپ اس امر کو مستلزم ہے کہ وہ جہنم میں جانےسے بچ گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرمانبرداری کے انعام کی قدر انسان کو پوری طرح اسی وقت محسوس ہوسکتی ہے جبکہ اس کے سامنے یہ بات بھی ہو کہ نافرمانی کرنے والے کہاں پہنچے ہیں، اور وہ کس برے انجام سے بچ گیا ہے۔
دوسری قابل توجہ بات اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے جہنم سے بچنے اور جنت میں پہنچنے کو اپنے فضل کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ اس سے انسان کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کامیابی کسی شخص کو نصیب نہیں ہو سکتی جب تک اللہ کا فضل کے بغیر کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔ پھر جو بہتر سے بہتر عمل بھی آدمی سے بن ٍآ سکتا ہے وہ کبھی کامل و اکمل نہیں ہوسکتا جس کے متعلق دعوے سے یہ کہا جا سکے کہ اس میں نقص کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ وہ بندے کی کمزوریوں اور اس کے عمل کی خامیوں کو نظر انداز کر کے اس کی خدمات کو قبول فرمالے اور اسے انعام سے سرفراز فرمائے۔ ورنہ باریک بینی کے ساتھ حساب کرنے پر وہ اتر آئے تو کس کی یہ ہمت ہے کہ اپنی قوت بازو سے جنت جیت لینے کا دعویٰ کرسکے۔ یہی بات ہے جوحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمنقول ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: اعملو ا و سد دو اوقار بوا و اعلموا انّ احداً لن یُّد خلہُ عملہ الجنۃ۔ ’’ عمل کرو اور اپنی حداستطاعت تک زیادہ سے زیادہ ٹھیک کام کرنے کی کوشش کرو، مگر یہ جان لو کہ کسی شخص کو محض اس کا عمل ہی جنت میں نہ داخل کر دے گا۔ ‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ، کیا آپ کا عمل بھی‘‘؟ فرمایا وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یتغمّد نی اللہ بِرَحْمَتِہٖ، ’’ ہاں میں بھی محض اپنے عمل کے زور سے جنت میں نہ پہنچ جاؤں گا الّا یہ کہ مجھے میرا رب اپنی رحمت سے ڈھانک لے ‘‘۔
۴۵۔ یعنی اب اگر یہ لوگ نصیحت قبول نہیں کرتے تو دیکھتے رہو کہ ان کی کس طرح شامت آتی ہے، اور یہ بھی منتظر ہیں کہ دیکھیں تمہاری اس دعوت کا کیا انجام ہوتا ہے۔