۱۔۔۔ رحمٰن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور رحمٰن میں رحیم سے زیادہ مبالغہ ہے ترجمہ میں ان سب باتوں کا لحاظ ہے۔
۲۔۔۔ ۱: یعنی سب تعریفیں عمدہ سے عمدہ اول سے آخر تک جو ہوئی ہیں اور جو ہوں گی خدا ہی کو لائق ہیں۔ کیونکہ ہر نعمت اور ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور عطا کرنے والا وہی ہے خواہ بلاواسطہ عطا فرمائے یا بواسطہ جیسے دھوپ کی وجہ سے اگر کسی کو حرارت یا نور پہنچے تو حقیقت میں آفتاب کا فیض ہے۔ (حمد رابا تو نسبتے ست درست بر در ہر کہ رفت بر در تست) تو اب اس کا یہ ترجمہ کرنا کہ (ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے) بڑی کوتاہی کی بات ہے جس کو اہل فہم خوب سمجھتے ہیں۔
۲: مجموعہ مخلوقات کو عالم کہتے ہیں اور اسی لئے اس کی جمع نہیں لاتے۔ مگر آیت میں عالم سے مراد ہر ہر جنس (مثلاً عالم جن، عالم ملائکہ، عالم انس وغیرہ وغیرہ) ہیں۔ اس لیے جمع لائے تاکہ جملہ افراد عالم کا مخلوق جناب باری ہونا خوب ظاہر ہو جائے۔
۴۔۔۔اس کے خاص کرنے کی اول وجہ تو یہی ہے کہ اس دن بڑے بڑے امور پیش آئیں گے ایسا خوفناک روز جو نہ پہلے ہوا نہ آگے کو ہو گا دوسرے اس روز بجز ذات پاک حق تعالیٰ کے کسی کو ملک و حکومت ظاہری بھی تو نصیب نہ ہو گی لمن الملک الیوم للّٰہ الواحد القھار۔
۵۔۔۔ اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الٰہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔
۶۔۔۔ جن پر انعام کیا گیا وہ چار فرقے ہیں نبیین و صدیقین و شہداء و صالحین کلام اللہ میں دوسرے موقع پر اس کی تصریح ہے اور المغضوب علیھم سے یہود اور ضالین سے نصاریٰ مراد ہیں۔ دیگر آیات و روایات اس پر شاہد ہیں اور صراط مستقیم سے محرومی کل دو طرح پر ہوتی ہے۔ عدم علم یا جان بوجھ کر کوئی فرقہ گمراہ اگلا پچھلا ان دو سے خارج نہیں ہو سکتا سو نصاریٰ تو وجہ اول میں اور یہود دوسری میں ممتاز ہیں۔
۷۔۔۔ یہ سورت خدا تعالیٰ نے بندوں کی زبان سے فرمائی کہ جب ہمارے دربار میں حاضر ہو تو ہم سے یوں سوال کیا کرو اس لیے اس سورت کا ایک نام تعلیم مسئلہ بھی ہے۔ اس سورت کے ختم پر لفظ اٰمین کہنا مسنون ہے اور یہ لفظ قرآن شریف سے خارج ہے۔ معنی اس لفظ کے یہ ہیں کہ الٰہی ایسا ہی ہو یعنی مقبول بندوں کی پیروی اور نا فرمانوں سے علیحدگی میسر ہو اس سورت کے اول نصف میں اللہ تعالیٰ کی ثنا و صفت اور دوسرے حصہ میں بندہ کے لیے دعا ہے۔
فائدہ: غیر المغضوب الخ الذین کا بدل ہے یا اس کی صفت ہے اس لیے اس کے مناسب ترجمہ کیا گیا۔ بعض تراجم دہلویہ میں جو اس کا ترجمہ کیا ہے خلاف ترکیب و خلاف مقصود ہے۔