اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۲۔۔۔ بلاشبہ انسان قطعی طور پر خسارے میں ہے
۳۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جو صدق دل سے ایمان لائے ہوں گے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین بھی کرتے رہے ہوں گے
۳ ۔۔۔اس سورہ کریمہ میں زمانے کی قسم کھا کر اس اہم اور بنیا دی حقیقت کو ذکر فرمایا گیا کہ یقیناً انسان سراسر اور قطعی طور پر خسارے میں ہے، بجز ان لوگوں کے جن کے اندر یہ چار صفتیں پائی جائیں۔ یعنی ایمان عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بِالْصَّبْرِ، اور یہ اس لئے کہ انسان کا اصل سرمایہ اس کی زندگی ہی ہے اس کی قدر و قیمت کو پہچان کر اگر وہ اس کو اس کے صحیح مصرف میں صرف و خرچ کر دے، اور اس کا صحیح مصرف یہی ہے کہ اس کو انہی چار امور کے لئے صرف کیا جائے جن کا ذکر ابھی اوپر ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں انسان اَبَدی بادشاہی سے سرفراز ہو سکتا ہے جس جیسی دوسری بادشاہی کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، اور یہی انسان کے لئے سب سے بڑی اصل، اور حقیقی کامیابی ہے اور اس کے برعکس اگر اس نے اس سے غفلت و لا پرواہی برت کر اپنے اس راس المال کو یونہی ضائع کر دیا۔ والعیاذ باللہ تو یہ ابدی لعنت کا مستحق بن جائے گا اور زندگی کی اس فرصت مستعار کی برق رفتاری کا عالم یہ ہے کہ اس کا ہر سیکنڈ تسلسل اور تواتر کے ساتھ گزر کر ماضی کے اندر تحلیل ہوتا جاتا ہے اور اس طور پر کہ پھر اس کے واپس آنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہو سکتی، اور ظاہر ہے کہ اس کے ضیاع جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہو سکتا، والعیاذ باللہ جل و علا، اللہ تعالیٰ زندگی کا ایک ایک لمحہ کو اپنی رضا و خوشنودی کے لئے صرف کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین یا رب العالمین،