آیت نمبر ۵۰ تا ۶۰ میں ہود علیہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس کا نام سورہ ہود ہے۔
مکی ہے۔ اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورہ یونس سے پہلے نازل ہوئی ہو گی۔
خداۓ واحد کی عبادت و بندگی کی رد کرنے کے ہولناک انجام سے لوگوں کو خبردار کرنا ہے۔ اس سورہ کا مضمون سورہ یونس سے پوری طرح ہم آہنگ ہے البتہ اس میں انذار (تنبیہ) کا پہلو اس شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آگیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے رسول کے مخالفین پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑنے کو ہے۔
آیت ۱ تا ۴ تمہیدی آیات ہیں جن میں دعوت قرآنی کا لب لباب پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۵ تا ۲۴ میں معترضین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوۓ فہمائش کی گئی ہے۔ آیت ۲۵ تا ۹۹ میں انبیائی تاریخ کے کچھ اوراق پیش کیے گیے ہیں تاکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطب ان کے بین السطور اپنا حال بھی پڑھتے جائیں ۔
آیت ۱۰۰ تا ۱۰۸ میں ان واقعات سے عبرت دلاتے ہوۓ آخرت کے انجام سے خبردار کر دیا گیا ہے اور ان خوش قسمت لوگوں کو جنہوں نے ایمان لا کر عمل صالح کی روش اختیار کی ابدی جنت کی خوش خبری دی گئی ہے۔
آیت ۱۰۹ تا ۱۲۳ خاتمہ کلام ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی تسلی دیتے ہوۓ ضروری ہدایتیں دی گئی ہیں ۔
سورہ کی اہم ترین خصوصیت حدیث میں آتا ہے قال ابوبکر یا رسول اللہ قد شبت قال شَیّبْنی ھُوْدٌ والْوَاقعہ و المرسلٰتُو عم یتساءَلونَ وَ اِذَا الشَّمسُ کوَّرتْ (الترمذی ابواب فضائل القرآن) "حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ پر بڑھا پا طاری ہوتا جا رہا ہے آپ نے فرمایا مجھے سورہ ہود، واقعہ ، مرسلات ، عم یتساء لون اور اذالشمس کوّرت نے بوڑھا کر دیا۔ "
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سورہ ہود اور اس جیسی سورتوں میں عذاب الٰہی کی تصویری کشی اس انداز میں کی گئی ہے کہ ان مضامین کو پڑھتے ہوۓ آدمی کا دل دہل جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے اثر پذیری کا حال یہ تھا کہ آپؐ کے ظاہر قویٰ بھی شدت خوف سے متاثر ہو گۓ تھے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔ الف۔ لام۔ را۔ ۱* یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتوں کو پختہ بنایا گیا ہے ۲*۔ پھر ان کو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے ۳*۔ اس کی طرف سے جو نہایت حکمت والا اور باخبر ہے ۴*۔
۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۵*۔ میں اس کی طرف سے تمہیں خبردار کرنے والا ۶* اور خوش خبری دینے والا ہوں ۷*
۳۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف رجوع کرو ۸*۔ وہ تم کو ایک وقتِ مقرر تک اچھا سامانِ زندگی دے گا ۹* اور ہر صاحبِ فضل کو اپنے فضل سے نوازے ۱۰*گا۔ لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن۱۱* کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو یہ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں ۱۲*۔ یاد رکھو جب یہ اپنے کو کپڑوں سے ڈھانک لیتے ہیں تو وہ جانتا ہے اس کو بھی جو وہ چھپاتے ہیں اور اس کو بھی جو وہ ظاہر کرتے ہیں وہ تو سینوں کے بھید تک سے واقف ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمّہ نہ ہو ۱۳*۔ وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ بھی جانتا ہے اور اس جگہ کو بھی جہاں وہ سونپ دیا جاتا ہے ۱۴*سب کچھ ایک واضح کتاب میں درج ہے ۱۵*۔
۷۔۔۔۔۔۔۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ۱۶*۔ اور اس کا عرش پانی پر تھا ۱۷*۔ تاکہ تمہیں آزماۓ کہ کون عمل میں بہتر ہے ۱۸*۔ اور اگر تم کہتے ہو کہ مرنے کے بعد تم لوگ اٹھاۓ جاؤ گے تو کافر بول اٹھتے ہیں کہ یہ تو صریح جادو گری ہے ۱۹*۔
۸۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہم ایک مقرّرہ مدت کے لیے عذاب کو مؤخّر کر دیتے ہیں تو وہ کہنے لگتے ہیں کہ کیا چیز ہے جو اسے روک رہی ہے ؟ سنو جس دن وہ آۓ گا تو پھر ٹالا نہ جا سکے گا اور جس چیز کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہی ان کو آ گھیرے گی ۲۰*۔
۹۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نواز نے کے بعد اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد اسے ہم راحت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میری ساری کلفتیں دور ہو گئیں وہ اکڑنے اور ڈینگیں مارنے لگتا ہے۔ ۲۱*۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو صبر کرتے والے اور نیک عمل کرتے والے ہیں ۔ ان کا حال ایسا نہیں ہے۔ ان کے لیے بخشش ہے اور بہت بڑا اجر۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔ کہیں ایس نہ لو کہ جو وحی تمہاری طرف کی جا رہی ہے اس کا ایک حصہ تم چھوڑ دو ۲۲* اور اس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ دراصل تمہارا کام محض خبردار کرنا ہے اور نگراں تو ہر چیز پر اللہ ہی ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) نے اس کو خود گھڑ لیا ہے ؟ کہا اگر تم سچے ہو تو اس جیسی دس سورتیں تم بھی بنا کر لاؤ اور اللہ سوا جن کو تم (مدد کے لیے) بلا سکتے ہو بلا لو۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر وہ تمہاری پکار کا جواب نہ دیں تو جان لو کہ کوئی خدا نہیں ہے۔ پھر کیا تم اسلام قبول کرتے ہو ؟ ۲۳*۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی آسائش کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ انہیں یہیں چکا دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی ۲۴*۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ۔ ان کا کیا کرایا سب اکارت جاۓ گا اور ان کے سارے اعمال باطل ٹھہریں گے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل رکھتا تھا پھر ایک گواہ بھی اس کی طرف سے آ گیا اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت کی حیثیت سے موجود تھی (وہ قبول حق سے انکار کر سکتا ہے ؟) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے ۲۵*۔ اور جو گروہ۲۶* بھی اس کا انکار کرے گا تو دوزخ وہ ٹھکانا ہے جس کا اس سے وعدہ ہے۔ لہٰذا تم اس کے بارے میں کسی شک میں نہ پڑو ۲۷*۔ یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے ۲۸*۔ ایسے لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ گواہی دیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا۔ سنو اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ ان پر جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس کو ٹیڑھا کر نا چاہتے ہیں ۲۹*۔ اور جو آخرت کے بالکل منکر ہیں ۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ زمین میں (اللہ کے) قابو سے نکل جانے والے نہ تھے اور نہ اللہ کے سوا کوئی ان کا مدد گار تھا ۳۰*۔ انہیں دہرا عذاب دیا جاۓ گا ۳۱* یہ نہ تو سن سکتے تھے اور نہ دیکھ سکتے تھے ۳۲*۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے کو تباہی میں ڈالا اور جو کچھ انہوں نے گھڑ رکھا تھا وہ سب ان سے کھویا گیا ۳۳*۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔ لازماً یہ لوگ آخرت میں سب سے زیادہ تباہ حال ہوں گے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔ بے شک جو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب کے آگے فروتنی اختیار کی ۳۴* وہ جنّت والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔ ان دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ۳۵* اور دوسرا دیکھنے اور سننے والا ۳۶* کیا دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے ؟ پھر تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں ؟ ۳۷*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا ۳۸*۔ اس نے کہا میں تمہیں صاف صاف خبردار کرتے والا ہوں ۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۳۹*۔ مجھے تمہاری نسبت ایک درد ناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۴۰*۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔ اس پر اس کی قوم کے بڑے لوگوں نے جو کافر تھے کہا ہم تو دیکھتے ہیں کہ تم ہمارے ہی جیسے ایک آدمی ہو اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیرو صرف وہ لوگ ہو گیے ہیں جو ہمارے اندر ادنیٰ درجہ کے تھے اور وہ بھی سطحی راۓ سے ۴۱*۔ ہم اپنے مقابلے میں تم میں کوئی برتری نہیں پاتے بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور اس نے اپنی خاص رحمت سے مجھے نوازا ہو مگر وہ تمہیں دکھائی نہ دے رہی ہو تو کیا ہم زبردستی تم پر چپیک دیں جبکہ وہ تمہیں سخت ناپسند ہے ؟۴۲*۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔ اور اے میری قوم کے لوگو میں اس پر تم سے کوئی مال طلب نہیں کرتا۔ میرا اجر اللہ ہی کے ذمہ ہے ۴۳* اور میں ان لوگوں کو دھتکارنے والا نہیں جو ایمان لاۓ ہیں ۔ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت میں مبتلا ہو ۴۴*۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔ اور اے میری قوم کے لوگو اگر میں ان کو دھتکار دوں تو اللہ کی گرفت سے کون مجھے بچا سکے گا ؟ ۴۵* کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی ؟
۳۱۔۔۔۔۔۔۔ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب کا علم رکھتا ہوں کہ جو لوگ تمہاری نظروں میں حقیر ہیں ان کو اللہ خیر سے نہیں نوازے گا۔ ان کے دلوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے اگر میں ایسی بات کہوں تو ظالم ہوں گا ۴۶*۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا اے نوحؑ تم نے ہم سے بحث کی اور بہت بحث کر لی۔ اب وہ چیز ہم پر لے آؤ جس سے ہمیں ڈراتے ہو ۴۷* اگر تم سچّے ہو۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔ اس نے جواب دیا وہ تو اللہ ہی تم پر لاۓ گا اگر چاہے گا اور تمہارے بس میں نہیں ہے کہ اس کو روک سکو۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔ اور میری نصیحت تمہارے لیے کچھ سود مند نہیں ہو سکتی اگر میں نصیحت کرنا چاہوں جب کہ اللہ تم کو گمراہ کرنا چاہتا ہو ۴۸*۔ وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم کو پلٹنا ہے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اس کو گھڑ لیا ۴۹* ہے ؟ کہا اگر میں نے اس کو گھڑا ہے تو میرے جرم کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور جو جرم تم کر رہے ہو اس سے میں بَری ہوں ۵۰*۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔ اور نوحؑ پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اب کوئی اور ایمان لانے والا نہیں ۔ تو یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس پر غم نہ کھاؤ۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔ اور ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ ۵۱* اور ان ظالموں کے بارے میں اب ہم سے کچھ نہ کہو۔ یہ غرق ہونے والے ہیں ۔ ۵۲*۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ کشتی بنانے لگا۔ جب اس کی قوم کے رئیس اس کے پاس سے گزرتے تو اس کا مذاق اڑاتے ۵۳*۔ وہ جواب دیتا اگر تم ہم پر ہنس رہے ہو تو ہم بھی اسی طرح تم پر ہنسیں گے ۵۴*۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جاۓ گا کہ کن لوگوں پر وہ عذاب آتا ہے جو انہیں رسوا کر کے رکھ دے گا۔ اور وہ عذاب ٹوٹ پڑتا ہے جو قائم رہنے والا ہو گا ۵۵*۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ گیا اور تنور ابل پڑا۵۶* تو ہم نے کہا ہر قسم کے نر و مادہ کا جوڑا اس میں سوار کرا لو ۵۷* اور اپنے گھر والوں کو بھی بجز ان کے جن کے بارے میں ہمارا فرمان پہلے ہی صادر ہو چکا ہے ۵۸* نیز ان لوگوں کو بھی سوار کرا لو جو ایمان لا چکے ہیں ۵۹*۔ اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے تھوڑے ہی لوگ تھے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔ اور اس نے کہا اس میں سوار ہو جاؤ۔ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ۶۰*۔ میرا رب بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔ اور کشتی پہاڑوں کی طرح اٹھنے والی موجوں کے درمیان ان کو لے کر چل رہی تھی ۶۱* اور نوحؑ نے اپنے بیٹے کو جو اس سے الگ تھا پکار کر کہا اے میرے بیٹے ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ ۶۲*۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا میں کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوحؑ نے کہا آج اللہ کے حکم سے کوئی چیز بچانے والی نہیں سواۓ اس کے کہ وہی کسی پر رحم فرماۓ۔ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا ۶۳*۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔ اور حکم ہوا کہ اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا۔ چنانچہ پانی اتر گیا اور فیصلہ چکا دیا گیا ۶۴* اور کشتی جو وادی پر جا لگی۶۵* اور کہا گیا دور ہوئی ظالم قوم! ۶۶*۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔ اور نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ کہا اے میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچّا ہے اور تو تمام حاکموں سے بڑھ کر حاکم ہے ۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔ فرمایا اے نوحؑ وہ تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ بد کردار ۶۷* ہے لہٰذا جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے لیے مجھ سے درخواست نہ کرو۔ میں نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہو جاؤ ۶۸*۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔ اس نے عرض کیا اے میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تجھ سے کسی ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں ۔ اگر تو نے مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں تباہ ہو جاؤں گا ۶۹*۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔ حکم ہوا اے نوحؑ اتر جاؤ۔ ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ ۷۰* تم پر بھی اور ان امّتوں پر بھی جو تمہارے ساتھ ہیں ۔
اور کچھ امّتیں ایسی بھی ہوں گی جن کو ہم فائدہ پہنچائیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا ۷۱*۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں ۔ اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ۷۲* تو صبر کرو ، انجام کار متّقیوں ہی کے لیے ہے۔ ۷۳*۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔ اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا ۷۴*۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ۔ نرا جھوٹ ہے تم نے گھڑ رکھا ہے ۷۵*۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔ لوگو اس (خدمت) پر میں تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔ میرا اجر تو اس کے ذمّہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۷۶*۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔ اور اے میری قوم کے لوگو اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو ۷۷* وہ تم پر خوب برسنے والے بادل بھیجے گا اور تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ ۷۸* اور (دیکھو) مجرم بن کر منہ نہ پھیرو۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا تم کوئی کھلی نشانی تو لے کر ہمارے پاس آۓ نہیں ۷۹* اور تمہارے کہنے سے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں اور ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار تم پر پڑ گئی ہے ۸۰*۔ اس نے کہا میں ان سے بالکل بیزار ہوں جن کو تم نے شریک ٹھہرا رکھا ہے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔ سوائے اس (ایک خدا) کے۔ پس تم میرے خلاف کار روائی کر کے دیکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اللہ پر بھروسہ کیا جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ کوئی جاندار ایسا نہیں جس کی چوٹی پکڑے ہوۓ نہ ہو ۸۱*۔ بے شک میرا رب سیدھی راہ پر ہے۔ ۸۲*
۵۷۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو جو پیغام دے کر میں بھیجا گیا تھا وہ میں تمہیں پہنچا چکا۔ اور میرا رب تمہاری جگہ دوسرے گروہ کو لاۓ گا اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے یقیناً میرا رب ہر چیز پر نگراں ہے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے اپنی رحمت سے ہودؑ کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لاۓ تھا بچا لیا اور ہم نے انہیں ایک ایسے عذاب سے نجات دی جو نہایت ہی سخت تھا ۸۳*۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہیں عاد۔ انہوں نے اپنے رب کی آیتوں سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی ۸۴* اور ہر سرکش دشمن حق کے کہنے پر چلے ۸۵*۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پیچھے اس دنیا میں بھی لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی۔ سنو عاد نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سنو محروم کر دۓ گئے عاد ، ہودؑ کی قوم
۶۱۔۔۔۔۔۔۔ اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالحؑ کو بھیجا۸۶*۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ۔ اسی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ۸۷* اور اس میں تم کو آباد کیا۔ لہٰذا اس سے معافی مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ یقیناً میرا رب قریب ہے اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے ۸۸*۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔ انہوں کے کہا صالحؑ اس سے پہلے تو ہم تم سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوۓ تھے ۸۹* کیا تم ہمیں ان معبودوں کی پرستش سے منع کرتے ہو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے آۓ ہیں ۹۰*۔ ہمیں تو اس بات میں بڑا شک ہے جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو اور اس نے ہمیں بڑی الجھن میں ڈال دیا ہے۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔ صالحؑ نے کہا میری قوم کے لوگو تم نے ذرا سوچا اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہو تو کون ہے جو اللہ کی پکڑ سے مجھے بچاۓ گا اگر میں اس کی نافرمانی کروں ؟ تم اس کے سوا اور کیا کر سکتے ہو کہ میری تباہی میں اضافہ کر دو ۹۱*۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔ اور اے میری قوم یہ اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے ۹۲*۔ اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں چرتی رہے اور اس کو کسی طرح کی تکلیف نہ دو ورنہ جلد ہی تمہیں عذاب آ لے گا۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔ مگر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں ۹۳*۔ تب اس نے کہا اپنے گھروں میں تین دن اور بسر کر لو۔ یہ وعدہ ہے جو جھوٹا ثابت نہ ہو گا۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے صالح کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لاۓ تھے اپنی رحمت سے بچا لیا اور اس دن کی رسوائی سے نجات دے دی۔ یقیناً تمہارا رب ہی طاقتور اور غالب ہے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔ اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک زبردست چنگھاڑ نے پکڑ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گۓ ۹۴*۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔ گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے ۹۵*۔ سنو ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا۔ سنو! محرومی ہوئی ثمود کے لیے
۶۹۔۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے فرستادے ابراہیمؑ کے پاس خوش خبری لیے ہوۓ پہنچے ۹۶* انہوں نے کہا سلام ہو تم پر۔ اس نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو ۹۷*۔ پھر بِلا تاخیر ایک بھُنا ہوا بچھڑ ا لے آیا ۹۸*۔
۷۰۔۔۔۔۔۔۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو ان کو اجنبی سمجھا اور ان کی طرف سے اندیشہ محسوس کیا ۹۹*۔ انہوں نے کہا اندیشہ نہ کرو ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گۓ ہیں ۱۰۰*۔
۷۱۔۔۔۔۔۔۔ اور اس (ابراہیم) کی بیوی بھی کھڑی تھی۔ وہ ہنس پڑی۔ تو ہم نے اس کو اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوبؑ کی خوش خبری دی۔ ۱۰۱*۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔ وہ بولی ہاۓ ۱۰۲* میرے اولاد ہو گی جبکہ میں بڑھیا ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۱۰۳*۔
۷۳۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے (فرستادوں نے) کہا تم اللہ کے حکم پر تعجّب کرتی ہو۔ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہو تم پر اے اہل بیت بے شک وہ حمد کا مستحق اور بڑی شان والا ہے ۱۰۴*۔
۷۴۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب ابراہیمؑ کی تشویش دور ہو گئی اور اسے خوش خبری ملی؟؟ قوم لوط کے بارے میں ہم سے حجّت کرنے لگا۱۰۵*
۷۵۔۔۔۔۔۔۔ در حقیقت ابراہیمؑ بڑا ہی برد بار ، درد مند اور (اللہ کی طرف) رجوع ہونے والا تھا۔ ۱۰۶*۔
۷۶۔۔۔۔۔۔۔ اے ابراہیمؑ یہ بات چھوڑ دو۔ تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور ان لوگوں پر ایسا عذاب آنے کو ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتا۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ہمارے فرستادے لوطؑ۱۰۷* کے پاس پہنچے تو وہ ان کے آنے سے تشویش میں پڑ گیا اور دل تنگ ہوا اور کہنے لگا آج تو بڑی مصیبت کا دن ہے ۱۰۸*۔
۷۸۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوۓ اس کے پاس آۓ۔ وہ پہلے سے بد کاریوں میں مبتلا تھے ۱۰۹*۔ اس نے کہا لوگو یہ میری بیٹیاں ہیں ۔ یہ تمہارے لیے نہایت پاکیزہ ہیں تو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھے رسوا نہ کرو ۱۱۰*۔ کیا تم میں کوئی آدمی بھی سمجھدار نہیں ؟
۷۹۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا تمہیں معلوم ہی ہے کہ تمہاری بیٹیوں سے ہمیں کوئی غرض نہیں ۱۱۱* اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں ۱۱۲*۔
۸۰۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا کاش تمہارے مقابلہ کی مجھے طاقت ہوتی یا کوئی مضبوط سہارا ہوتا جس کی میں پناہ لیتا۱۱۳*۔
۸۱۔۔۔۔۔۔۔ تب فرشتوں نے کہا اے لوطؑ ہم تمہارے رب کے بھیجے ہوۓ ہیں ۱۱۴*۔ یہ ہر گز تم تک پہنچ نہ سکیں گے۔ ۱۱۵* تم رات کے تاریک حصہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جاؤ اور تم میں سے کوئی پلٹ کر بھی نہ دیکھے ۱۱۶*۔ مگر تمہاری بیوی کہ اس پر بھی وہی کچھ گزرنا ہے جو ان پر گزرے گا ۱۱۷*۔ ان (کے عذاب) کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ کیا صبح قریب نہیں !۱۱۸*
۸۲۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر لگا تار برساۓ ۱۱۹*۔
۸۳۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہارے رب کے ہاں نشان کیے ہوۓ تھے ۱۲۰*۔ اور ظالموں سے کچھ دور نہیں ۱۲۱*۔
۸۴۔۔۔۔۔۔۔ اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا ۱۲۲* اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں اور ناپ تول میں کمی نہ کرو ۱۲۳*۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اچھے حال میں ہو مگر مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر عذاب کا ایسا دن نہ آ جاۓ جو سب کو گھیر لے گا۔
۸۵۔۔۔۔۔۔۔ اور اے میری قوم کے لوگو ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔
۸۶۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم ایمان لاؤ۱۲۴* اور میں تم پر نگراں نہیں ہوں ۱۲۵*۔
۸۷۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا اے شعیبؑ کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے رہے ہیں یا ہمیں اس بات کا اختیار نہیں کہ اپنے مال میں جس طرح چاہیں تصرف کریں ۱۲۶*۔ بس تم ہی ایک عقلمند اور راست رو رہ گۓ ہو ۱۲۷*۔
۸۸۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہوں اور اس نے اپنی طرف سے مجھے اچھا رزق بھی عطا فرمایا ۱۲۸*۔ (تو کیا میں راہِ حق اختیار نہ کروں) اور میں یہ نہیں چاہتا کہ جن باتوں سے میں تمہیں روکتا ہوں اس کے خلاف چلوں ۱۲۹*۔ میں تو اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے بس میں ہے اور میرے لیے (اس کام میں) سازگاری اللہ ہی کی مدد سے ممکن ہے ۱۳۰*۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں ۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔ اور اے میری قوم کے لوگو میری مخالفت تمہارے لیے کہیں اس بات کا باعث نہ بنے کہ تم پر بھی ویسا ہی عذاب آ جاۓ جیسا کہ قوم نوحؑ یا قوم ہودؑ یا قوم صالحؑ پر آیا اور قوم لوطؑ تو تم سے کچھ دور بھی نہیں ہے۔ ۱۳۱*
۹۰۔۔۔۔۔۔۔ اور (دیکھو) اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو ۱۳۲*۔ یقیناً میرا رب بڑا رحیم اور (اپنے بندوں سے) محبت رکھنے والا ہے۔ ۱۳۳*
۹۱۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا شعیبؑ تمہاری بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں ۱۳۴* اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم ہمارے درمیان ایک کمزور آدمی ہو ۱۳۵* اور اگر تم ہماری برادری کے آدمی نہ ہوتے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیتے ۱۳۶*۔ تم ہمارے مقابلہ میں کچھ زور آور ہو نہیں ۔
۹۲۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا میری قوم کے لوگو کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ بھاری ہے کہ اللہ کو تم نے پس پشت ڈال دیا ۱۳۷*۔ تم جو کچھ کر رہے ہو میرا رب اس کا احاطہ کیے ہوۓ ہے۔
۹۳۔۔۔۔۔۔۔ اور اے میری قوم کے لوگو تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ میں بھی اپنی جگہ کام کرتا ہوں عن قریب تمہیں معلوم ہو جاۓ گا کہ کس پر وہ عذاب آتا ہے جو اسے ذلیل کر کے رکھ دے گا اور کون ہے جو جھوٹا ہے۔ انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔
۹۴۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے شعیبؑ اور اس کے ساتھی اہل ایمان کو اپنی رحمت سے بچا لیا اور جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک ہیبت ناک آواز نے ایسا پکڑ لیا کہ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گۓ ۱۳۸*۔
۹۵۔۔۔۔۔۔۔ گویا وہ وہاں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سنو مدین والوں کے لیے بھی محرومی ہوئی ۱۳۹* جس طرح ثمود کے لیے محرومی ہوئی تھی! ۱۴۰*
۹۶۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے موسیٰؑ کو اپنی نشانیوں اور صریح حجت قاہرہ ۱۴۱* کے ساتھ بھیجا تھا۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔ فرعون اور اس کے امراء کی طرف ، مگر وہ فرعون کے حکم پر چلے حالانکہ فرعون کا حکم درست نہ تھا ۱۴۲*۔
۹۸۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہو گا اور انہیں دوزخ میں لے جاۓ گا ۱۴۳* کیسی بری جگہ ہے جہاں وہ پہنچ کر رہے۔
۹۹۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے پیچھے اس دنیا میں بھی لعنت لگا دی گئی اور قیامت کے دن بھی۔ کیا ہی برا صلہ ہے جو ان کو ملا !۱۴۴*
۱۰۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان آبادیوں کے واقعات ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو قائم ہیں اور کچھ اجڑ گئیں ۱۴۵*۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔ اور جب تمہارے رب کا حکم آگیا تو ان کے وہ خدا جن کو وہ اللہ کو چھوڑ کر پکارا کرتے تھے ان کے کچھ کام نہ آۓ اور انہوں نے ان کی ہلاکت ہی میں اضافہ کیا ۱۴۶*۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارے رب کی پکڑ ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ آبادیوں کو ان کے ظالم ہونے کی بنا پر پکڑتا ہے۔ یقیناً اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بڑی ہی سخت ہوتی ہے ۱۴۷*۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔۔ اس میں بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو عذابِ آخرت سے ڈریں ۱۴۸*۔ وہ ایسا دن حاضری کا ہو گا ۱۴۹*۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم اس کے لانے میں تاخیر نہیں کر رہے ہیں مگر صرف تھوڑی مدت کے لیے۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ (دن) آۓ گا تو کوئی نفس اس کی اجازت کے بغیر کلام نہ کر سکے گا ۱۵۰*۔ پھر کچھ لوگ بدبخت ہوں گے اور کچھ لوگ نیک بخت ۱۵۱*۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔۔ تو جو بد بخت ہوں گے وہ دوزخ میں جائیں گے جہاں ان کے لیے چیخنا چلّا نا ہو گا ۱۵۲*۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں ۱۵۳* مگر جو تمہارا رب چاہے۔ بلا شبہ تمہارا رب جو چاہے کر گزرنے والا ہے ۱۵۴*۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ جنّت میں جائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں مگر جو تمہارا رب چاہے یہ ایسی بخشش ہو گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا ۱۵۵*۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔۔ تو تم ان معبودوں کے بارے میں کسی شک میں نہ پڑو جن کی یہ پرستش کر رہے۔ یہ اسی طرح پوجا کر رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے ان کے باپ دادا کرتے تھے۔ اور ہم ان کا حصہ ان کو پورا پورا دیں گے کسی کمی کے بغیر ۱۵۶*۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی مگر اس میں اختلاف کیا گیا۔ اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ کر دی گئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا۔ اور یہ لوگ اس (قرآن) کی نسبت شک میں پڑے ہوۓ ہیں جس نے انہیں الجھن میں ڈال دیا ہے ۱۵۷*۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔ اور یقیناً تمہارا رب ہر ایک کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ وہ ان کے اعمال سے پوری طرح با خبر ہے۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔۔ پس تم راہِ راست پر جمے رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے نیز وہ لوگ بھی جو توبہ کر کے تمہارے ساتھ ہو گئے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو ۱۵۸۵*۔ تم جو کچھ کرتے ہوا سے وہ دیکھ رہا ہے۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔۔ اور ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی آگ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۱۵۹* اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست نہ ہو گا اور نہ تمہاری مدد ہی کی جاۓ گی۔ ۱۶۰*
۱۱۴۔۔۔۔۔۔۔ اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کی گھڑیوں میں ۱۶۱*۔ بلا شبہہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔۱۶۲* یہ یاد دہانی ہے یاد دہانی حاصل کرنے والوں کے لیے۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔۔ اور صبر کرو ۱۶۳* کہ اللہ ان لوگو ں کا اجر ضائع نہیں کرتا جو حسن و خوبی کے ساتھ کام کرتے ہیں ۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیوں نہ ایسا ہوا کہ جو قومیں تم سے پہلے گزر چکیں ان میں سے اہلِ خیر نکلتے جو زمین میں شر و فساد (پھیلانے) سے روکتے جز ان تھوڑے سے لوگوں کے جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا ۱۶۴* ورنہ ظالمانہ طرزِ عمل اختیار کرنے والے تو اسی سامان عیش کے پیچھے پڑے رہے جو انہیں دیا گیا تھا اور وہ مجرم بن کر رہے ۱۶۵*۔
۱۱۷۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا رب ایسا نہیں ہے کہ وہ آبادیوں کو ناحق ہلاک کر دے جب کہ ان کے باشندے اصلاح کر نے والے ہوں ۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔۔ اگر تمہارا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امّت بنا دیتا مگر وہ اختلاف کرتے رہیں گے۔ ۱۶۶*۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔۔ اس سے بچیں گے وہی لوگ جن پر تمہارا رب رحم فرماۓ ۱۶۷* اور اسی لیے تو اس نے انہیں پیدا کیا ہے ۱۶۸*۔ اور تمہارے رب کی بات پوری ہو کر رہی کہ میں جہنم کو جن اور انسان سب سے بھر دوں گا۔ ۱۶۹*۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم رسولوں کی جو سرگزشتیں تمہیں سناتے ہیں تو ان کے ذریعہ تمہارے دل کو مضبوطی عطاء کرتے ہیں ۔ ان کے اندر تمہیں حق مل گیا اور مومنوں کو نصیحت اور یاد دہانی ہوئی۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان سے کہو کہ تم اپنی جگہ عمل کرو ہم اپنی جگہ عمل کرتے رہیں گے۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔۔ اور تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ ہی کے لیے ہے اور سارے معاملات اسی کی طرف لوٹاۓ جاتے ہیں تو اسی کی تم عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے تمہارا رب بے خبر نہیں ۔
*۱۔۔۔۔۔۔۔ ان حروف کی تشریح سورہ یونس نوٹ ۱ میں گزر چکی۔
*۲۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح آسمان و زمین کا نظام مضبوط بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے اسی طرح اس کتاب میں جو آیتیں ارشاد ہوئی ہیں وہ نہایت مضبوط دلائل ، ٹھوس حقائق ، اعلیٰ تعلیمات، عالمگیر صداقتوں اور عادلانہ قانون زندگی پر مبنی ہیں اس لے ان میں نقص کا کئی پہلے نہیں ہے اور جس طرح اس کے مضامین جچے تلے ہیں اسی طرح اس کے الفاظ نہایت موزوں (Most Appropriate) اور ان بندش معنی خیز ہے۔ گویا ہر لفظ اپنے مقام پر جڑا ہوا ہیرا ہے جس کا بدل کوئی دوسرا لفظ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کا صحیح وہی لوگ کر سکتے ہیں جو عربی زبان کا ذوق رکھتے ہوں ۔ مثال کے طور پر قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَد (کہا اللہ یکتا ہے) میں احد (یکتا) کا لفظ موزوں ترین لفظ ہے اس کی جگہ اگر کوئی شخص واحد (ایک) کا لفظ تجویز کرنا چاہے تو اس سے معنیٰ میں بھی فرق آۓ گا اور روانی میں بھی۔ اسی طرح حمد کا لفظ تعریف اور شکر دونوں کا جامع ہے لیکن اگر کوئی شخص الحمد للہ (اللہ کے لیے حمد ہے) کی جگہ الشکر اللہ (اللہ کے لیے شکر ہے) کی ترکیب تجویز کرے تو جامعیت باقی نہیں رہے گی۔ غرضیکہ یہ کلام ایسا مربوط اور مضبوط ہے کہ کوئی معقول انسان نہ تو اس کے کسی لفظ پر انگلی رکھ سکتا ہے اور نہ اس کی پیش کردہ تعلیمات میں کسی نقص کی نشاندہی کر سکتا ہے۔
قرآن کی یہ امتیازی خصوصیت ہے اور دنیا کی کوئی کتاب بھی یہ شمول مذاہب عالم کی "مقدس" کتابوں کے اس خصوصیت کی حامل نہیں ہے۔
*۳۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کی ابتدائی سورتوں میں اجمال کے ساتھ مختصر فقروں میں ربانی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے لیکن بعد کی سورتوں میں ان کی تشریح و تفصیل اور ان کے تقاضے بیان کیے گیے ہیں ۔ مثال کے طور پر سورہ اخلاص میں توحید کا مضمون نہایت اختصار کے ساتھ بیان ہوا ہے لیکن سورہ انعام اور سورہ یونس میں شرح و بسط کے ساتھ۔ سورہ فجر میں عاد و ثمود کے واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن سورہ ہود اور سورہ اعراف میں یہ واقعات تفصیل سے بیان ہوۓ ہیں ۔ سورۂ غاشیہ میں جنت و دوزخ کا مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے لیکن سورہ واقعہ اور سورہ رحمٰن میں تفصیل سے۔ سورہ اعلیٰ میں نماز کا حکم مجملاً دیا گیا ہے لیکن سورہ بنی اسرائیل ، سورہ بقرہ اور سور نساء میں اس کے تفصیلی احکام بیان ہوۓ ہیں ۔ اس طرح قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے۔
*۴۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کی آیتوں کا محکم اور مفصل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام انسان کا کلام نہیں بلکہ خدا کا کلام ہے جس کی ہر بات حکیمانہ ہوتی ہے اور جو تمام حالات سے با خبر ہے۔
*۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے قرآن کا انسان سے اولین مطالبہ۔ اللہ کو واحد معبود مان کر صرف اسی کی عبادت کرنا وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کے لیے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کے حضور خضوع و خشوع کا اظہار کرے۔ امام رازی لکھتے ہیں :
"عبادت سے مراد خضوع و خشوع اور انتہائی تواضع و تذلل(پستی و فروتنی) کا اظہار کرنا ہے اور یہ بات سواۓ اس ہستی کے جو خالق ، مدبّر ، رحیم اور محسن ہے کسی اور کے لیے زیبا نہیں ہے۔ "(التفسیر الکبیر ، ج ۱۷ ص ۱۸۰(
آدمی اگر واقعی اللہ کے حضور اپنی پستی اور فروتنی کا اظہار کرے اور پنے کو عاجزی کرنے والے بندے کی حیثیت سے پیش کرے تو ہو نہیں سکتا کہ وہ عملی طور پر اس کا سرکش اور باغی بن جاۓ۔ عبادت اور سرکشی دو بالکل متضاد چیزیں ہیں ۔ جو شخص واقعی اللہ کی عبادت کرنے والا ہو گا وہ لازماً اس کی اطاعت اختیار کرے گا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ ۷) ۔
*۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کفر و سرکشی اور فسق و معصیت کے برے انجام سے خبردار کرنے والا ہوں ۔
*۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان و یقین اور اطاعت و نیک روی کے اچھے نتائج کی خوش خبری دینے والا ہوں ۔
*۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شرک تم کرتے رہے ہو اور معصیت کی جو زندگی گزارتے رہے ہو اس پر اللہ سے معافی مانگو اور آئندہ کے لیے اپنا رویہ درست کر لو اور وہ اس طرح کہ ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرنے اور اس کا بندہ بن کر زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کرو۔
*۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس صورت میں اللہ تمہیں دنیا کی بہترین نعمتوں سے نوازے گا۔ اور بعد کے واقعات نے قرآن کے اس وعدہ کی تصدیق کی چنانچہ جو لوگ شرک سے تائب ہو کر ایمان لے آۓ اور نیک روی اختیار کی ان کی دنیا بگڑی نہیں بلکہ سنور گئی اور ان پر نعمتوں کی وہ بارش ہوئی جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک مؤمن عملاً اپنے کو جس درجہ کو مستحق ثابت کر دکھاۓ گا اس کو اللہ تعالیٰ اس درجہ کی عزت و سرفرازی عطا فرماۓ گا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔ مراد قیامت کا دن ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔ سینوں کو موڑنا عربی زبان کا محاورہ ہے جس کے معنی اعراض کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن سے اعراض کر کے سمجھ رہے ہیں کہ اللہ ان کی ان حرکتوں سے بے خبر ہے حالانکہ اللہ کوئی بات بھی پوشیدہ نہیں ۔ اگر ان کو اس کا شعور ہوتا تو وہ اللہ کا کلام سننے سے اعراض نہ کرتے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ہر شخص کے مشاہدہ اور تجربہ میں آتی ہے۔ زمین کا کوئی جاندار خواہ وہ چرند ہو یا پرند، ماہی ہو یا چیونٹی اور انسان ہو یا حیوان سب اپنے اپنے حصہ کا رزق پاتے ہیں ۔ یہ رزق اگر چہ اسباب کے تحت ملتا ہے لیکن ان اسباب کو پیدا کرنے والا اور ان کے ذریعہ رزق رسانی کا ایسا انتظام کرنے والا کہ کوئی بھی جاندار جب تک کہ اس کے لیے جینا مقدر ہے رزق سے محروم نہ رہنے پاۓ ایک اللہ کے سوا کس کا کام ہے ؟کیا رزق رسانی کا یہ ہمہ گیر انتظام اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس نے زندگی بخشی ہے وہی زندگی کے بقاء کا بھی سامان کر رہا ہے۔ ؟ اور کیا اس واضح دلیل کے بعد شرک اور الحاد کی تردید کے لیے کسی اور دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟
۱۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کو تمام جزئیات کا علم ہے۔ ہر جاندار کے رہنے ٹھکانا بھی اسے معلوم ہے اور وہ ٹھکانا بھی جہاں وہ مرنے کے بعد سونپ دیا جاتا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس نوٹ ۹۴۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ اعراف نوٹ ۸۲ میں گزر چکی۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے پانی پیدا فرمایا تھا۔ تورات میں یہ بات اس طرح بیان ہوئی ہے "خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔ " (پیدائش ۱ :۲) اصل تورات میں وہی بات بیان ہوئی ہو گی جو قرآن میں ارشاد ہوئی ہے لیکن تورات کے مترجمین نے بات کو الجھا دیا۔
عرش کے معنیٰ تخت سلطنت کے ہیں جس کی نوعیت ہمیں نہیں معلوم البتہ اس سے اللہ کی فرمان روائی کا تصور قائم ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ہی اپنے کلام کے اسرار کو بہتر جانتا ہے۔ ۔ ۔ کہ کائنات کی تخلیق سے پہلے جب کہ پانی ہی پانی تھا اللہ کی حکومت اس پر قائم تھی۔ اسی کے حکم سے پانی نے ارتقائی شکلیں اختیار کر لیں چنانچہ خشکی کا ظہور ہوا اور پھر بتدریج مختلف انواع وجود میں آئیں ۔ قرآن میں دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ(الانبیاء ۳۰) ۔ اور ہم نے پانی سے تمام جاندار چیزیں پیدا کیں ۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ مقصد جو اس کائنات کی تخلیق کے پیچھے کار فرما رہا ہے یعنی انسان کو امتحان گاہ میں کھڑا کر دیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ ایسے افراد منتخب فرماۓ جو عملاً اپنے بہتر ثابت کر دکھائیں اور پھر ان کو ابدی نعمتوں سے نوازے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب پیغمبر اس بات کو پر زور دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھاۓ جاؤ گے تو منکرین اس کو الفاظ کی جادو گری قرار دینے لگتے ہیں ۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ عذاب کو اس لیے مؤخر کر رہا ہے تاکہ منکرین کو اصلاح کا مزید موقع ملے لیکن یہ لوگ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجاۓ عذاب کا مذاق اڑانے لگتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح سن لیں کہ جس دن عذاب آ نمودار ہو گا تو پھر ہر گز ٹل نہ سکے گا اور اس کی گرفت سے وہ ہر گز بچ نہ سکیں گے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔ جب زندگی آزمائش کے لیے ٹھہری تو نہ تکلیف کی حالت میں مایوس ہونا صحیح ہے اور نہ راحت کی حالت میں پھولا نہ سمانا صحیح بلکہ پہلی حالت صبر اور دوسری حالت شکر کی صفت پیدا کرنے کے لیے ہے۔ مگر اصل غایت کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے انسان کا زاویہ نظر بھی غلط ہو جاتا ہے اور طرز عمل بھی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات نبی کی بشری حیثیت کے پیش نظر کہی گئی ہے ورنہ نبی کی شان سے یہ بعید ہے کہ وہ وحی الٰہی کے کسی حصہ کو ترک کر دے۔ اس ارشاد سے مقصود دراصل مخالفت کی اس شدت کو واضح کرنا ہے جس کا سامنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کرنا پڑ رہا تھا مخالفتوں کے اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر معمولی حوصلہ کی ضرورت تھی ایسے موقع پر یہ ارشاد کہ کہیں وحی الٰہی کی کسی ہدایت کو تم نہ ترک کر دو ایک تاکیدی حکم ہے جس سے مقصود ظاہری احتمالات سے نبی کو آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ پورے عزم اور حوصلہ کے ساتھ فریضہ رسالت کو ادا کرنے لگ جاۓ۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ قرآن کو کتاب الٰہی تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی تصنیف قرار دے رہے تھے ان کو قرآن نے چیلنج کیا کہ وہ بھی اس جیسا کلام پیش کریں ۔ یہ چیلنج قرآن میں متعدد مقامات میں کیا گیا ہے۔ اس آیت میں دس سورتیں بنا کر لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور جب اس مطالبہ کو وہ پورا نہ کر سکے تو سورہ یونس آیت ۳۸ میں اور پھر سورہ بقرہ آیت ۲۳ میں ایک سورہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ساتھ ہی چیلنج کیا گیا کہ وہ اس کام میں مدد کے لیے اپنے خود ساختہ معبودوں کو بلائیں کیونکہ جب قرآن اللہ کے سوا تمام معبودوں کو باطل قرار دیتا ہے تو ان معبودوں کو۔ اگر وہ واقعی خدا ہیں ۔ چاہیے کہ اس معاملہ میں اپنے پرستاروں کی مدد کریں تاکہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا دعویٰ نیز اس کی دعوت توحید غلط ثابت ہو جاۓ لیکن جب پوری قوم مل کر بھی قرآن کی کوئی نظیر نہ پیش کر سکی اور ان کے معبود بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکے تو ثابت ہو گیا کہ قرآن انسان کا کلام نہیں بلکہ کلام الٰہی ہے ورنہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک آدمی کے پیش کردہ کلام کا ایک حصہ تک پیش کرنے سے پوری قوم عاجز رہ جاۓ ؟ کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی بڑ ا ادیب ہو کبھی دعوے کے ساتھ یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ تمام ادیب مل کر بھی اس کے جواہر پاروں میں سے کوئی ایک پارہ بھی تخلیق نہیں کر سکتے۔ یہ بات قرآن ہی نے دعوے کے ساتھ کہی کہ اس جیسا کلام پیش کرنے پر انسان ہر گز قادر نہیں ہے اور اس دعواۓ کو عرب قوم غلط ثابت نہ کر سکی۔ اس چیلنج نے یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ قرآن کی دعوت توحید بر حق ہے کیونکہ اگر بہت سے خدا ہوتے جیسا کہ مشرکین کا دعویٰ ہے تو وہ اپنی خدائی سچا ثابت کر دکھانے کے لیے اپنے پرستاروں کی ضرور مدد کرتے۔ اور جب قرآن کی یہ دونوں باتیں سچ ثابت ہو گئیں تو اسلام کا دین حق ہونا بھی ثابت ہو گیا۔ اس کے بعد اسلام کو قبول کرنے میں لوگوں کے لیے کیا چیز مانع ہے۔ ؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۰) ۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن لوگوں کے پیش نظر آخرت نہیں بلکہ صرف دنیا ہوتی ہے ان کے کاموں کا پھل انہیں دنیا ہی میں دیا جاتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کی مادی ترقی رک جاۓ۔ وہ دنیوی اسباب کے تحت جو کام بھی کریں گے طبعی قوانین کے مطابق اس کے نتائج رو نما ہوں گے لیکن ان کی ساری مادی ترقیاں ، ان کا مال و دولت ، ان کی دنیوی علوم و فنون میں مہارت، ان کے شاہانہ ٹھاٹ ، اور ان کی شہرت کے ڈنکے بس اس دنیا ہی میں بجتے رہیں گے اور آخرت میں جہاں دائمی زندگی گزارنا ہے ان کے کاموں کا نتیجہ صفر رہے گا اور ناکامی اور ذلت کے سوا کوئی چیز بھی ان کے حصہ میں نہیں آۓ گی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں بَیِّنَہْ (روشن دلیل) سے مراد وہ دلیل ہے جو ہر شخص کے نفس میں اپنے رب کی پہچان ، اس کے حضور جواب دہی کے تصور اور خیر و شر میں تمیز کے سلسلہ میں پائی جاتی ہے۔ اور شاہد (گواہ) سے مراد قرآن ہے جس نے اس فطری دلیل کی نہ صرف تائید و توثیق کی بلکہ اس کو پوری طرح کھول کر بیان کر دیا اس طرح جب حق کھل کر سامنے آگیا تو اس کی تائید مزید اس بات سے بھی ہوئی کہ پہلے سے جو آسمانی کتاب "تورات" چلی آ رہی ہے وہ بنیادی طور پر ان حقائق ہی کی طرف رہنمائی کرتی ہے جن حقائق کا آئینہ دار قرآن ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی اپنی فطرت سے ہم آہنگ پا کر قبول کرے گا۔ اور اس سے انکار کی جسارت وہی کرے گا جس نے اپنی فطرت کی آواز کو دبا دیا ہو۔
اس آیت سے یہ بات خود بخود واضح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بعثت سے پہلے اپنی صالح فطرت پر قائم تھے کیونکہ انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر اپنی فطرت قائم رہنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ مذہبی گروہ ہو یا غیر مذہبی۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس نوٹ ۱۴۵۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ انعام نوٹ ۱۶۹ میں گزر چکی۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ آل عمران نوٹ ۱۲۵ میں گزر چکی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں وہ اس خیال خام میں مبتلا رہے کہ ان کے ٹھیراۓ ہوۓ کار ساز اور مدد گار انہیں اللہ کے عذاب سے نچا سکتے ہیں اس لیے انہوں نے انبیاء علیہم السلام کی تنبیہات کا کوئی اثر قبول نہیں کیا۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔ ایک عذاب خود گمراہ ہونے کا اور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا رسول جو پیغام پیش کر رہا تھا اس کے سننے سے انہوں نے اپنے کان بند کر رکھے تھے اور توحید و آخرت کی جو نشانیاں کائنات میں پھیلی ہوئی تھیں ان کو وہ دیکھ نہیں پاتے تھے کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو معبود انہوں نے گھڑ رکھے تھے اور جن کی مدد اور شفاعت پر انہیں بھروسہ تھا وہ سب غائب ہو گئے اور آج کوئی نہیں جو اللہ کے عذاب سے ان کو بچا سکے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔ اعمال صالحہ کے ساتھ فروتنی کا جو وصف بیان کیا گیا ہے وہ ان اعمال کی اصل روح ( (Spirit کو ظاہر کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نیک اعمال محض ضابطہ کی خانہ پوری کے لیے نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان کی ادائیگی خدا کے حضور جھکاؤ اور عاجزی و فروتنی کی کیفیت کے ساتھ ہونی چاہیے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ کافر کی مثال ہے جو بصیرت سے محروم ہوتا ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔ یہ مؤمن کی مثال ہے جو بصیرت والا ہوتا ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب مؤمن اور کافر میں بصیرت کا فرق ہوتا ہے تو دونوں کو ایک ہی سطح پر کس طرح رکھا جا سکتا ہے اور پھر دونوں کا انجام یکساں کس طرح ہو سکتا ہے ؟ اتنی موٹی بات بھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی ؟
۳۸۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۹۵۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ اعراف نوٹ ۹۷ میں گزر چکی۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔ درد ناک دن کے عذاب سے مراد قیامت کے دن کا عذاب ہے۔ اور دن کو درد ناک کہنا ایسا ہی ہے ، جیسے ہم کہتے ہیں "مصیبت کا دن" مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن کافروں کے لیے رنج و الم اور مصیبت ہی مصیبت کا دن ہو گا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ السلام پر جو لوگ ایمان لاۓ تھے وہ ان کافر سرداروں کی نظر میں اس لیے حقیر تھے کہ وہ ان کی طرح نہ مادی وسائل رکھتے تھے اور نہ سوسائٹی میں اثر و رسوخ ، حالانکہ وہ خیر پسند ہونے کے لحاظ سے سوسائٹی کے بہترین افراد تھے اور چونکہ انہوں نے حق کے کھل کر سامنے آ جانے کے بعد اس کو قبول کرنے میں تامل نہیں کیا اس لیے یہ معترفین ان کے فیصلہ کو سطح راۓ کا نتیجہ قرار دے رہے تھے ، حالانکہ یہ اہل ایمان کی بے لاگ حق پسندی تھی مگر ان کی یہ خوبیاں ان مغروروں کی نظر میں عیب بن گئی تھیں ۔ شاید ایسے ہی موقع پر کسی شاعر نے کہا ہے ؏
عیبوں میں گنے جاتے ہیں مفلس کے ہنر بھی
۴۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ معترضین کے پہلے اعتراض کا جواب ہے۔ نوح علیہ السلام کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت توحید پیش کر رہا ہوں اس کی گہری جڑیں انسانی فطرت کے اندر موجود ہیں ۔ میں اسی فطری دلیل اور قلبی بصیرت پر قائم تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ مہربانی کی کہ منصب نبوت سے سرفراز فرمایا جس کو ہر وہ شخص دیکھ سکتا ہے جس کے پاس بصیرت کی آنکھیں ہوں ۔ اب اگر تم نے اپنی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہوں تو تم اس کا مشاہدہ کس طرح کر سکتے ہو۔ ایسی صورت میں کیا ہم زبردستی حق تم پر تھوپ دیں ؟
۴۳۔۔۔۔۔۔۔ انبیاء علیہم السلام اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے اور ان کو راہ راست کی طرف بلانے کی جو خدمت انجام دیتے ہیں اس پر وہ ان سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے اور نہ ان کے پیش نظر کوئی ذاتی مفاد ہوتا ہے بلکہ یہ خدمت وہ بے لوث ہو کر انجام دیتے ہیں ۔ ان کا یہ خلوص انہیں کاہنوں ، شاعروں اور مفاد پرستوں سے بالکل ممتاز کر دیتا ہے۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے۔ نوح علیہ السلام نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ میں تمہاری خاطر اپنے ساتھیوں کو جو ایمان لاۓ ہیں چھوڑنے والا نہیں اگر وہ تمہاری نظر میں بے وقعت ہیں تو یہ تمہاری جہالت کا نتیجہ ہے ورنہ علم حق کی روشنی تو آدمی کو ان لوگوں کا قدر شناس بنا دیتی ہے جو حق کو قبول کر لیتے ہیں ۔ اور اس بات کا آخری فیصلہ تو اللہ کے ہاں ہونا ہے کہ کون کس قدر کا مستحق ہے۔ ان اہل ایمان کا صحیح مرتبہ اللہ کے ہاں ہی مقرر ہو گا جب کہ وہ اس سے ملیں گے۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کے ارشاد سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ایک داعی حق غیر مسلموں کو خوش کرنے کے مسلمانوں سے بے تعلقی اختیار نہیں کر سکتا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے تیسرے اعتراض کا جواب ہے یعنی اس اعتراض کا کہ ہم اپنے مقابلہ میں تم میں کوئی برتری نہیں پاتے۔ نوح علیہ السلام نے اس کے جواب میں جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں نے بشریت سے بالا تر ہونے کا دعویٰ ہی کب کیا ہے۔ میں جس بات کا دعویدار ہوں وہ صرف یہ ہے کہ اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لی مجھے رسول مقرر کیا ہے۔ اور یہ یقیناً ایک امتیازی چیز ہے۔ رہے میرے ساتھی اہل ایمان تو ان کے دلوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے اگر وہ واقعی مؤمن ہیں تو اللہ انہیں ضرور خیر سے نوازے گا۔ میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اللہ کی نظر میں سعادت کے مستحق نہیں ٹھہریں گے اور اگر وہ سعادت کے مستحق ٹھہرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر فضیلت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے تم دولت دنیا کو معیار فضیلت قرار دیتے ہو حالانکہ اصل معیار فضیلت دولت ایمان ہے۔
نوح علیہ السلام کے اس ارشاد سے کہ دلوں کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے دلوں کا حال ایک نبی کو بھی معلوم نہیں ہوتا کجا کہ اولیاء اور بزرگوں کو معلوم ہو اور جب ایک نبی اپنی زندگی میں دلوں کا حال نہیں جانتا تو اپنی وفات کے بعد کس طرح جان سکتا ہے ؟ یہ بات اولیاء پرستی اور قبر پرستی کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے قانون ضلالت کے مطابق اگر تم پر ہدایت کے دروازے بند ہو گۓ ہوں تو میری خیر خواہی اور نصیحت کا تم پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔ یہ جملہ معترضہ ہے۔ یعنی اصل سلسلہ بیان کو روک کر بر موقع قریش اس الزام کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر لگا تے تھے کہ یہ قرآن آپ نے گھڑا ہے اور اس میں جو قصے پیش کیے جا رہے ہیں وہ محض پرانی داستانیں ہیں ۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر میں نے اس قرآن کو گھڑا نہیں ہے۔ ۔ ۔ اور واقعہ یہی ہے کہ میں نے گھڑا نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تمہارے اس جرم کا وبال تم ہی پر ہے کہ خدا کی نازل کردہ کتاب کو تم نے میری من گھڑت کتاب قرار دے کر جھٹلایا۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم اس بات کی نگرانی کریں گے کہ یہ کافر تمہیں کشتی بنانے سے روک نہ سکیں ۔ رہی کشتی کی بناوٹ تو وہ ٹھیک ٹھیک حکم الٰہی مطابق ہونی چاہیے تاکہ وہ اس طوفان میں جو زیر دست سیلاب کی شکل میں آنے والا ہے تمہاری حفاظت کا ذریعہ بن سکے۔
بائبل میں پیدائش باب ۶ میں اس کشتی کے سائز وغیرہ کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر معمولی اور جہاز نما کشتی تھی۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کافروں کے بارے میں کوئی سفارش نہ کرو۔ ان پر سے اب عذاب ٹلنے والا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ فرما چکا ہے کہ وہ اس سیلاب میں غرق ہو کر رہیں گے۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔ جب نوح علیہ السلام کشتی بنانے لگے تو مخالفین یہ دیکھ کر کہ ایک بہت بڑی کشتی خشکی پر بنائی جا رہی ہے مذاق اڑانے لگے۔ وہ اس بات کا تصور بھی کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے کہ ایک طوفانی سیلاب آ سکتا ہے جس میں کشتیِ نوح ہی سفینۂ نجات بن سکتی ہے۔ انہوں نے اس کو مذہبی دیوان پن قرار دیتے ہوۓ یہ پھبتی چست کی ہو گی کہ اب یہ لوگ خشکی میں کشتی چلانا چاہتے ہیں۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آج تم ہمیں دیوانہ سمجھ کر ہنس رہے ہو ہم کل (آخرت میں) تمہاری دیوانگی پر ہنسیں گے۔ کسی مجرم کی گرفتاری پر آدمی اطمینان کا سانس لیتا ہے اور اس کی مجرمانہ حرکتوں پر جس نے اسے کیفر کردار تک پہنچایا قدرتی طور پر ہنسی آتی ہے اسی طرح آخرت میں خدا کے باغیوں اور مفسدوں کی پکڑ پر اہل ایمان کا ہنسنا بالکل قدرتی بات ہے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔ ایک عذاب دنیا میں اور دوسرا آخرت میں ۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے نزدیک اس کا صحیح مفہوم وہی ہے جو ابن حریر طبری نے بیان فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ تنور سے مراد وہی تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں کیونکہ کلام عرب میں یہی معروف ہے اور اللہ کے کلام کی صحیح توجیہ اسی صورت میں ہو سکتی ہے جبکہ کسی لفظ کے وہ معنیٰ لیے جائیں جو عربوں کے ہاں اغلب اور مشہور ہیں ۔ (جامع البیان۔ ج ۱۲ ص ۲۵) گویا ایک تنور علامت کے طور پر متعین کیا گیا تھا کہ جب یہ ابل پڑے گا تو سمجھ لینا کہ طوفان کا آغاز ہو گیا اور کشتی میں سوار ہو جانا۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔ ہر قسم کے جانوروں سے مراد وہ جانور ہیں جو انسان کی کسی نہ کسی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ۔ چوہے اور سانپ جیسی چیزیں مراد نہیں ہیں ۔
ہر جانور کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لینے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ طوفان کے بعد ان جانوروں کی نسل باقی رہ سکے۔ اگر یہ اہتمام نہ کیا جاتا تو طوفان کے ختم ہو جانے پر دور دور تک کسی جانور کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو جو کشتی میں بچا لیے گۓ تھے روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ کشتی میں جانوروں کے جوڑے رکھ لینے کا ذکر تورات میں بھی موجود ہے۔ (پیدائش باب ۶) ۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارے خاندان کے وہ افراد نہیں جو کافر ہیں ۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ کشتی میں صرف نوح کے گھر والے ہی سوار نہیں ہوۓ تھے بلکہ ان کے ساتھ دوسرے وہ لوگ بھی سوار ہوۓ تھے جو نوح پر ایمان لاۓ تھے البتہ ان سب کی تعداد کم تھی۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کی فضل اور اس کی کارسازی پر یقین کا اظہار ہے۔ یعنی یہ کشتی اللہ ہی کے چلانے سے چلے گی اور ایک ایسے طوفان میں جو انسانی نستیوں کے لیے موت کا پیغام لے کر آیا ہو اور ایک ایسے سیلاب میں جو ہر طرف سے ہلاکت خیزی کا سامان کرتے ہوۓ امڈا چلا آ رہا ہو اس کشتی کا چلنا اللہ کا سرتا سر فضل ہو گا۔ اسی طرح جب وہ ٹھہرے گی اور ہم سلامتی کے ساتھ اتریں گے تو یہ بھی ا سکی قدرت اور اس کے فضل کا نتیجہ ہو گا۔
اس آیت سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بسم اللہ وہ قدیم ترین کلمہ ہے جو نوح علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوا تھا اور بڑا با برکت ثابت ہوا۔ قرآن نے اس کلمہ کو خیر کا سرچشمہ قرار دیا چنانچہ کلام الٰہی کا آغاز اسی بابرکت کلمہ سے ہوا ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔ پہاڑ کی طرح موجیں سمندری طوفان ہی میں اٹھ سکتی ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ اس علاقہ میں جہاں قوم نوح آباد تھی کتنا زبردست طوفان آیا ہو گا قوم نوح دریاۓ دجلہ کے کنارے آباد تھی (ملاحظہ ہو نقشہ بر صفحہ ۵۲۵) اور یہ خطہ دریاۓ دجلہ اور دریاۓ فرات کے درمیان واقع ہے۔ یہ دونوں دریا کوہ ارارات سے نکلتے ہیں اور جنوب کی طرف ایک دوسرے سے جا ملے ہیں اور آگے جا کر سمندر میں جا گرے ہیں ۔ گویا اس علاقہ نے ایک جزیرہ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ اس لیے کچھ عجب نہیں کہ ایک غیر معمولی سیلاب کے امڈ آنے سے یہ پورا علاقہ سمندر بن گیا ہو اور طوفانی ہواؤں کے چلنے سے اس میں تلاطم کی ایسی کیفیت پیدا ہو گئی ہو کہ پہاڑوں جیسی موجیں اٹھنے لگی ہوں ۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔ نوح کا ایک بیٹا کافروں میں شامل تھا اس لیے وہ کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا نوح نے اس کو عین اس وقت بھی نصیحت کی جب کہ وہ طوفان میں گھر گیا تھا اور اس کے اور موت کے درمیان چند منٹ ہی کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کا قانون عدل جب حرکت میں آیا تو اس نے ایک پیغمبر کے بیٹے کو بھی نہیں بخشا کیونکہ بیٹا کافر تھا اور کافروں کے لیے عذاب مقدر تھا۔ نوح علیہ السلام نے اپنی آنکھوں سے اپنے بیٹے کا حشر دیکھ لیا اگر وہ ایمان لاتا تو اس کا یہ حشر نہ ہوتا۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حق و باطل کی غلاظت سے زمین پاک کر دی گئی۔
یہ طوفان عام حادثات کی طرح کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ اور ایک ایسا ہولناک طوفان تھا جو بجز ان لوگوں کے جو خداۓ واحد پر ایمان لا کر نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہوۓ تھے ساری انسانی آبادی کو بہا لے گیا۔ ایک ایسا سیلاب جس نے پہاڑوں کو جا لیا اور جس میں پہاڑ کے برابر موجیں اٹھ رہی تھیں ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے اور چونکہ نوح علیہ السلام نے ا سکی پیشگی خبر دی تھی اور جس طرح خبر دی تھی ٹھیک ٹھیک اسی کے مطابق اس کا ظہور ہوا اور اس کی زد میں وہ تمام لوگ آۓ جو کافر تھے اس لیے ثابت ہوا کہ یہ قہر الٰہی تھا جو کافروں پر نازل ہوا تھا اور یہ کہ نوح سچے رسول تھے اور انہوں نے توحید کی دعوت پیش کی تھی وہ دعوت حق تھی۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔ جو دی ایک پہاڑ کا نام ہے جو کر دستان میں واقع ہے (ملاحظہ ہو نقشہ بر صفحہ ۵۲۵) یہ کوہستان ارارات ہی کا یاک حصہ ہے جو ارمینیہ سے کر دستان تک پھیلا ہوا ہے۔ کشتی نوح جہاں ٹک گئی تھی اس کا نام بائبل میں ارارات آیا ہے (پیدائش ۶ ۴) مگر قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ مقام جودی تھا۔ اور طوفان کے بعد سکونت کے لیے جودی کے قریب کا علاقہ ہی موزوں رہا ہو گا۔
واضح رہے کہ اس طوفان کے بارے میں قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ یہ پورے روۓ زمین پر آیا تھا بلکہ قرآن جس بات کی صراحت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جو لوگ کشتی میں بچا لیے گۓ تھے ان ہی سے نسل انسانی کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت انسانی آبادی ایک مخصوص خطہ سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ اس لیے اس خطہ ارضی پر جو طوفان آیا اس نے پوری انسانی آبادی کو غرق کر دیا بجز اس مؤمن گروہ کے جس کو کشتی میں پناہ مل گئے تھی۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی رحمت سے دور ہو گئی اور اس کی لعنت کی مستحق قرار پائی۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔ ا سکا یہ مطلب نہیں کہ نسب کے لحاظ سے وہ تمہارا (نوح کا) بیٹا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ عملاً ایک بگڑا ہوا شخص ہے اس لیے وہ تمہارا بیٹا کہلاۓ جانے کا مستحق نہیں ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی باپ اپنے نالائق بیٹے سے کہے تو میرا بیٹا نہیں ہے ظاہر ہے ایسے موقع پر لفظی معنی مراد نہیں ہوتے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ نوح علیہ السلام کو معلوم نہیں تھا کہ ان کا بیٹا بگڑے ہوۓ کردار کا اور کافروں سے ملا ہوا ہے اس لیے اپنے بیٹے کو ڈوبتے ہوۓ دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔
معلوم ہوتا ہے بیٹا کھلا کافر نہیں تھا بلکہ اپنے کفر کو چھپاۓ ہوۓ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نوح علیہ السلام نے اس کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی اور اس موقع پر اس سے خطاب کرتے ہوۓ یہ نہیں فرمایا کہ کافروں میں نہ ہو جا بلکہ فرمایا کافروں کے ساتھ نہ رہ، اور چونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ان کے گھر والوں کو بچ لے گا اس لیے وہ اپنے بیٹے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے فریادی ہوۓ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں متنبہ فرمایا کہ تمہیں حقیقت حال کا علم نہیں ہے اور ایسی صورت میں محض جذبات سے مغلوب ہو کر فریاد کرنا صحیح نہیں جبکہ تمہارے گھر والوں کے سلسلہ میں پہلے ہی یہ استثناء کر دیا گیا تھا کہ بجز ان کے جن کے بارے میں ہمارا فرمان پہلے ہی صادر ہو چکا ہے یعنی تمہارے گھر والوں میں سے بھی وہ افراد نہیں بچا لیے جائیں گے جو ایمان نہیں رکھتے۔
یہی بھول تھی جو نوح علیہ السلام سے ہوئی ورنہ یہ جانتے ہوۓ کہ ان کا بیٹا حقیقۃً کافر ہے وہ اللہ تعالیٰ سے کس طرح فریاد کرتے مگر چونکہ اس موقع پر جبکہ اللہ تعالیٰ کا قانون عدل بے لاگ طریقہ پر نافذ ہوا نوح علیہ السلام کا لا علمی کی بنا پر اپنے بیٹے کے حق میں فریاد کرنا ایک نبی کے شایان شان نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں متنبہ فرمایا۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے متنبہ کرنے پر جب نوح علیہ السلام کو یہ احساس ہوا کہ ان کا سوال مناسب نہیں تھا تو انہوں نے فوراً معافی اور رحم کی درخواست کی اور جس انداز سے کی وہ ان کے خلوص اور ان کی راست بازی کا ثبوت ہے۔
۷۰۔۔۔۔۔۔۔ سلامتی یعنی امن و امان اور برکت یعنی وہ خیر جو جاری رہے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں جو لوگ سوار ہوۓ تھے وہ تعداد میں اگر چہ تھوڑے تھے مگر پوری انسانی سوسائٹی کا یہ مکھن تھا جو چھٹ کر آگیا تھا اور دنیا کی نسلیں اور قومیں انہی سے وجود میں آنے والی تھیں ۔ گویا کشتی کے یہ سوار بالقوہ اپنے اندر قوموں اور ملتوں کو لئے ہوئے تھے۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا گیا ہے کہ جو امتیں تمہارے ساستھ ہیں ان پر بھی سلامتی اور برکتیں ہوں لیکن کتنی ہی اُمتیں ایسی بھی ہوں گی جو سلامتی کی مستحق نہیں ٹھہریں گی۔ انہیں دنیا کا مال و متاع تو دیا جاۓ گا ، لیکن بالا آخر انہیں پاداش عمل میں عذاب بھگتنا ہو گا۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔ نوح علیہ السلام کی جو سرگزشت قرآن میں بیان ہوئی ہے اس کا علم اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں تھا چنانچہ نزول قرآن سے پہلے آپ نے یہ قصہ کبھی کسی کو نہیں سنایا اور آپ کی قوم بھی اس سے نابلد تھی ، رہے اہل کتاب تو بائبل کی کتاب پیدائش (باب ۸، ۹، ۱۰) میں اس قصہ کے کچھ اجزاء بیان ہوۓ ہیں مگر وہ بھی مسخ شدہ حالت میں ۔ اور اس قصے کے اہم ترین پہلوؤں کا تو اس میں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یہ ات کی نوح علیہ السلام کی دعوت کیا تھی؟ مخالفین کے اعتراضات کیا تھے ؟ نوح علیہ السلام نے ان کا کیا جواب دیا؟ عذاب آنے سے پہلے انہوں نے اپنی قوم کو اس سے کس طرح آگاہ کیا تھا ؟ پسر نوح کے غرق ہونے کا قصہ، نوح علیہ السلام کا توبہ کرنا، آئندہ نسلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ جو معاملہ فرماۓ گا اس سے آگاہی۔ ان تمام پہلوؤں سے بائبل کا قصہ خالی ہے البتہ اس میں کشتی کی لمبائی چوڑائی وغیرہ تفصیل سے بیان ہوئی ہے نیز بائبل میں جہاں نوح کو خدا کی نظر میں مقبول اور مرد راست باز کہا گیا ہے (پیدائش ۶، ۸، ۹،) ۔ وہاں ایسی باتیں بھی ان کی طرف منسوب کی گئیں ہیں جو ان کے کردار کو مجروح کرنے والی ہیں (پیدائش باب ۹: ۲۰ تا ۲۵) لیکن قرآن نے جزئیات سے قطع نظر وہ حقائق پیش کر دیئے جو اس واقعہ کی جان تھے۔ ان حقائق کو اس وثوق کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ دلوں میں یقین کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ کیا اس تاریخی واقعہ کا ان پوشیدہ حقیقت کے ساتھ ایک امی کی زبان سے ادا ہو جانا اس کے پیغمبر ہونے اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا واضح ثبوت نہیں ہے ؟
۷۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس واضح دلیل کے بعد بھی اگر تمہاری قوم تم کو جھٹلاتی ہے تو صبر کرو انجام ان ہی لوگوں کا اچھا ہو گا ، جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں ۔ اور قرآن کی یہ بات دنیا میں بھی حرف نہ حرف پوری ہوئی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی سچی عزت اور سرفرازی نصیب ہوئی اور جن لوگوں نے آپ کو جھٹلایا تھا وہ ذلت کی موت مرے اور ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ رسول اور اس کے ساتھیوں کی کامیابی کا یہ منظر تو لوگوں نے دنیا میں دیکھ لیا اور ابھی آخرت باقی ہے۔
۷۴۔۔۔۔۔۔۔ قوم عاد کی سرگزشت سورہ اعراف آیات ۶۸ تا ۷۲ میں گزر چکی۔ اس موقع پر یہ آیتیں اور ان کے تشریحی نوٹ ۱۰۵ تا ۱۱۴ نیز سورہ فجر کی آیات ۶ تا ۸ اور ان کے تشریحی نوٹ ۸ تا ۱۱ پیش نظر رہیں ۔
۷۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے سوا جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ تمہارے من گھڑت خدا ہیں ۔
۷۶۔۔۔۔۔۔۔ عقل سے کام لینے اور خواہشات کے پیچھے چلنے میں بڑا فرق ہے پہلی چیز بصیرت ہے اور دوسری چیز جہالت۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح نوٹ ۸ میں گزر چکی۔
۷۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی توحید کو قبول کرنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی صورت میں وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے گا۔ رزق بھی وافر ملے گا اور اجتماعی قوت میں بھی اضافہ ہو گا۔ مطلب یہ ہے کہ قومی اور اجتماعی سطح پر اس کے خوش گوار نتائج نکلیں گے۔
واضح رہے کہ دعوت توحید کو پیش کرتے ہوۓ اس کے دینوی ثمرات کا ذکر محض ضمناً ہوا ہے نہ کہ اصل کامیابی کی حیثیت سے کیونکہ اصل کامیابی جس کو تمام انبیاء علیہم السلام زندگی کا نصب العین بنانے کی دعوت دیتے رہے ہیں وہ آخرت کی کامیابی ہی ہے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔۔ ہود علیہ السلام کی ذات میں نبوت کی کھلی نشانیاں موجود تھیں جن کو دیکھ کر یقین کیا جا سکتا تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوۓ ہیں لیکن ان کی قوم عقل کی اندھی تھی اس لیے ان کو یہ نشانیاں نظر نہیں آ رہی تھیں ۔
۸۰۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے وہم پرست تھے لیکن ان کے اوہام کی قلعی اس وقت کھل گئی جب اللہ کا قہر ان پر نازل ہوا اور ان کے مرعومہ دیوی دیوتا ان کی مدد کو پہنچ نہ سکے اور نہ ہود علیہ السلام ہی کا کچھ بگاڑ سکے۔
۸۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان سمیت تمام جاندار مخلوق اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے اس کی گرفت سے کوئی بھی آزاد نہیں ۔
۸۲۔۔۔۔۔۔۔ سیدھی راہ سے مراد عدل اور راستی کی راہ ہے اور اللہ کے سیدھی راہ پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام کام صحیح اور اس کے سب فیصلے استی اور عدل پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اس کے ہاتھ اگرچہ ہر جاندار کی چوٹی ہے مگر وہ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا۔
۸۳۔۔۔۔۔۔۔ قوم عاد پر عذاب ہوا کے طوفان اور ایک زبردست آندھی کی شکل میں آیا تھا۔ (ملاحظہ ہو سورہ احقاف آیت ۲۴ و ۲۵ اور سورہ ذاریات آیت ۴۱ و ۴۲)
۸۴۔۔۔۔۔۔۔ تمام رسول کی نافرمانی در حقیقت تمام رسولوں کی نافرمانی ہے۔ اس لیے یہاں ہود علیہ السلام کی نافرمانی کو تمام رسولوں کی نافرمانی قرار دیا گیا ہے۔
۸۵۔۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے مجاز ((Authority ہوتے ہیں کہ ان کی اطاعت کی جاۓ لیکن جو لوگ اللہ کے وفادار بن کر رہنا نہیں چاہتے وہ اس کے رسول کی اطاعت کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ رسول کے مقابلہ میں ایسے پیشواؤں ، لیڈروں ، اور اصحاب اقتدار کے احکام کی پیروی کرنے اور ان کی باتوں پر عمل کرنے لگتے ہیں جو خدا کے باغی اور حق کے دشمن ہوتے ہیں ۔ ان کا یہ رویہ خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔
۸۶۔۔۔۔۔۔۔ قوم ثمود کی سرگزشت سورہ اعراف آیت ۸۳ تا ۷۹ میں گزر چکی اس موقع پر مذکورہ آیت اور ان کے نوٹ ۱۱۶ تا ۱۲۶ نیز سورہ فجر آیت ۹ اور اس کے نوٹ ۱۲ تا ۱۴ پیش نظر رہیں ۔
۸۷۔۔۔۔۔۔۔ خرہ ارضی پر نوع انسانی کا آغاز اس طرح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اولین انسان یعنی آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا اس لیے یہ حقیقت ہے کہ انسان کو زمین سے پیدا کیا گیا ہے اور یہ بھی واقعہ ہے کہ انسان کی زندگی کا دارو مدار جن غذاؤں پر ہے وہ زمین ہی سے حاصل ہوتی ہیں یہاں تک کہ جن جانوروں کا گوشت وہ کھاتا ہے وہ بھی زمین ہی سے غزا حاصل کرتے ہیں ۔
۸۸۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۴۷ اور ۲۴۸۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ صالح علیہ السلام کی زندگی نبوت سے پہلے نہایت صاف ستھری رہی ہے اور ان کی غیر معمولی قابلیت اور پر وقار شخصیت کو دیکھ کر لوگوں نے ان سے یہ توقعات وابستہ کر لی تھیں کہ وہ قوم کا نام روشن کریں گے لیکن جب انہوں نے شرک کے خلاف آواز اٹھائی اور توحید کی دعوت پیش کی تو ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
۹۰۔۔۔۔۔۔۔ قوم ثمود کے پاس بت پرستی کے جائز اور معقول ہونے کی کوئی دلیل نہیں تھی بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس طریقہ کی پیروی اس لیے کی جانی چاہیے کہ یہ اس کلچر کا جز ہے جو باپ دادا سے چلا آ رہا ہے۔
۹۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر میں تمہاری باتوں میں آ کر اللہ کی نافرمانی کروں جب کہ مجھ پر بصیرت کی راہ کھل چکی ہے تو اللہ کی گرفت سے بچانے سے تو تم رہے البتہ تمہاری وجہ سے میں گناہ پر گناہ کا مرتکب ہو سکتا ہوں اور یہ بات میری تباہی میں اضافہ ہی کا موجب بن سکتی ہے۔
۹۲۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۱۹۔
۹۳۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ شمس نوٹ ۱۵۔
۹۴۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۲۳ اور ۱۲۴۔
۹۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ ہے جس میں حق کا بول بالا ہوا چنانچہ صالح اور ان کے اہل ایمان ساتھی تو بچا لیے گۓ اور تمام مشرک اور کافر عذاب کی لپیٹ میں آ گۓ۔ اور یہ سب کچھ اسی طرح ہوا جس طرح کہ صالح علیہ السلام کو اس کی پیشگی خبر ہو سکتی تھی اور نہ اس کی زد سے اہل ایمان بچ سکتے تھے۔
۹۶۔۔۔۔۔۔۔ یہ فرشتے تھے جو انسانی صورت میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ وہ اپنے وطن سے ہجرت کرنے کے بعد فلسطین میں آباد ہو گۓ تھے۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔ سلام کا مطلب ہے اللہ تمہیں سلامت رکھے۔ یہ دعائیہ کلمہ ملکوتی آداب اور انبیائی تہذیب کا جز ہے اس لیے اسلام نے اس کو شعار کی حیثیت دی ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملیں تو سب سے پہلے ایک دوسرے کو سلام کریں ۔ یہ سلام رسمی نہیں بلکہ حقیقۃً خدا سے دعا ہے اور اپنے بھائی سے خیر خواہی کا اظہار بھی۔
۹۸۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ فرشتے انسانی صورت میں تھی اس لیے اجنبی مردوں کو دیکھ کر ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ مہمان ہیں جو سفر کر کے آۓ ہیں اسے لی انہوں نے فوراً ان کی ضیافت کا اہتمام کیا۔ ایک بچھڑا بھون کر لاۓ اور اس کا گوشت مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔
اس واقعہ سے جہان ابراہیم علیہ السلام کی فیاضی اور مہمان نوازی کا ثبوت ملتا ہے وہاں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مہمان کی آمد پر آدمی ان کے کھانے کا فوراً انتظام کرے کیونکہ مسافرت کی حالت میں آدمی کو بسا اوقات کھانا میسر نہیں آتا۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ گاۓ اللہ تعالیٰ کی شریعت میں قدیم زمانہ سے حلال چلی آ رہی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی شریعت قدیم ترین شریعت ہے جس میں گاۓ حلال تھی اسی لیے انہوں نے بچھڑے کو ذبح کیا اور اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔
۹۹۔۔۔۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو وہ بھانپ گۓ کہ یہ آدمی نہیں بلکہ فرشتے ہیں اور ان کے انسانی روپ میں آنے کی وجہ ممکن ہے کوئی آزمائش ہو اور آزمائش کا خیال ہی ان کے لیے اندیشہ ناک تھا کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو کس کی آزمائش کے لیے بھیجا ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم قوم کی آزمائش کے لیے بھیجے گۓ ہیں تاکہ انہیں رنگے ہاتھوں پکڑ لیں اور ان پر وہ عذاب لے آئیں جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام کی بیوی مہمانوں کی خدمت کے لی قریب ہی کھڑی تھی۔ اس نے جب سنا کہ یہ فرشتے ہیں اور ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دے رہے ہیں تو اسے بے اختیار ہنسی آئی کیونکہ بڑھاپے میں بچے کی پیدائش کی خبر تعجب میں ڈالنے والی تھی۔ واضح رہے کہ خوش خبری دینے کا یہ واقعہ یہاں اختصار کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ سورہ ذاریات میں ہے کہ فرشتوں نے لڑکے کی ولادت کی خوش خبری ابراہیم کو سنائی تھی اور اس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کرتے ہوۓ کہا تھا کہ میں بڑھیا بانجھ ہوں ۔ اس لیے اس آیت میں ان کی بیوی کے ہنسنے کا جو ذکر ہے اس کا تعلق اسی خوش خبری سے ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی اور جب وہ تعجب سے ہنس پڑی تو اسے مزید یہ خوش خبری دی گئی کہ تمہارے گھر نہ صرف بیٹا پیدا ہو گا بلکہ اس کے بعد پوتا بھی پیدا ہو گا۔
ابراہیم کی بیوی کا نام سارہ تھا اور اس وقت تک ان کے کوئی اولاد نہیں تھی یہ قصہ بائبل کی کتاب پیدائش باب ۱۸ میں بھی بیان ہوا ہے مگر رنگ آمیزی کے ساتھ۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔۔ بات تعجب کے اظہار کے لیے انہوں نے نسوانی انداز میں کہی۔ ایسے موقع پر لفظی معنی مراد نہیں ہوتے۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔۔ بائبل میں ہے کہ اس وقت ابراہیم کی عمر سو سال اور سارہ کی عمر نوے )۹۰) سال تھی(پیدائش ۱۷:۱۷) بڑھاپے کی اس عمر میں بیٹے کی ولادت کی خوش خبری ملنے پر حضرت سارہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوۓ یہ بات کہی تھی تا کہ فرشتے مزید وضاحت کریں اور بات منفتح ہو جاۓ۔ انہوں نے شک کے طور پر یہ بات نہیں کہی تھی۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔۔ فرشتوں نے حضرت سارہ کے تعجب کو دور کرنے کے لیے ایک بات تو یہ فرمائی کہ اللہ کا کوئی حکم قابل تعجب نہیں ہے دوسری بات یہ فرمائی کہ تم نبی کے گھر والے ہو جن پر اللہ کی خاص عنایات ہیں اس لیے اگر اس نے تمہارے بڑھاپے کے باوجود تمہیں اولاد عطاء کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے تو اس کو اس کا فضل خاص سمجھنا چاہیے اور تیسری بات یہ فرمائی کہ وہ خوبیوں والا ہے اس کا ہر کام خوبی کا ہوتا ہے اور وہ بڑی شان والا ہے اس لیے اس کے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ہر فیصلہ سے خدائی کی شان کا اظہار ہوتا ہے۔
ضمناً یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اہل بیت میں بیوی بھی شامل ہے کیونکہ یہاں ابراہیم علیہ السلام کو خطاب کر کے فرشتوں نے اہل بیت کہا ہے۔ اہل بیت کے اس واضح مفہوم کے باوجود مسلمانوں کا ایک فرقہ ایسا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت میں آپ کی ازواج مطہرات کو شامل نہیں سمجھتا۔ ظاہر ہے یہ اس کے معنی سے کھلا انحراف ہے۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔۔ یہ حجت اللہ تعالیٰ سے اپنی بات منوانے کے مفہوم میں نہیں تھی بلکہ ایک درد مندانہ درخواست تھی۔ عذاب کی خبر سن کر ابراہیم علیہ السلام کو ایک تو یہ تشویش ہوئی کہ اس قوم کے درمیان اللہ کا پیغمبر لوگ موجود ہے چنانچہ سورہ عنکبوت (آیت ۳۲) میں ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل ہوا ہے اِنَّ فِیْھَا لُوْطاً اس میں لوط موجود ہیں ۔ دوسرے وہ یہ خیال کر رہے تھے کہ اس قوم میں سے کچھ لوگ تو ضرور ایمان لاۓ ہوں گے اور اگر اللہ تعالیٰ ے اس قوم کو مزید مہلت دی ممکن ہے اور لوگ بھی ایمان لے آئیں چونکہ ابراہیم علیہ السلام کو حالات کا پوری طرح علم نہیں تھا اس لیے وہ امکانی باتوں کے پیش نظر فرشتوں سے حجت کرتے رہے جس سے ان کی انسانی ہمدردی اور نرم دلی کا اظہار ہوتا ہے لیکن جیسا کہ آگے آیت ۷۶ میں بیان ہوا ہے فرشتوں نے انہیں بتایا کہ اس مسئلہ پر حجت کرنا بے سود ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قوم لوط پر عذاب کا فیصلہ صادر فرما چکا ہے۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب کا فیصلہ اسی وقت فرماتا ہے جب کہ اس کے اندر سے مزید ایسے لوگوں کے نکلنے کا امکان باقی نہ رہا ہو جو ایمان لے آئیں ۔
فرشتوں سے ابراہیم کی اس حجت کا ذکر بائبل میں تفصیل سے ہوا ہے (پیدائش باب ۱۸) ۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ابراہیم میں چونکہ یہ خوبیاں تھیں اس لیے اس نے قوم لوط کے سلسلہ میں درد مندی کا ثبوت دیا اور عذاب کو ٹالنے کے لی اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ التماس کی۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔ لوط کی سرگزشت مختصراً سورہ اعراف آیت ۸۰ تا ۸۴ میں گزر چکی۔ اس موقع پر اس کے تشریحی نوٹ ۱۲۷ تا ۱۳۳ پیش نظر رہیں ۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرشتے جب ابراہیم کے پاس سے رخصت ہو کر لوط کے پاس پہنچے تو انہیں بڑی تشویش ہوئی اور کبیدہ خاطر ہوۓ۔ واقعہ یہ ہے کہ فرشتے لوگ کے پاس انسانی روپ میں پہنچے تھے اور غالباً خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تاکہ قوم لوط جس بد کاری میں مبتلا تھی اس کے لیے آزمائش ہو اور مجرموں کو موقع واردات پر پکڑ ا جاۓ۔ اس مقصد کے پیش نظر انہوں نے لوط علیہ السلام پر بھی اپنا فرشتہ ہونا ظاہر نہیں کیا اس لیے انہوں نے سمجھا کہ یہ مسافر ہیں ۔ اور میرے گھر مہمان کے طور پر آۓ ہیں اور مہمان کی عزت و تکریم تو ایمان کا تقاضا ہے لیکن قوم ایسی ناہنجار ہے کہ مسافروں کو اغواء کر لے جاتی ہے۔ وہ ان نوجوانوں پر بھی دست درازی کرے گی اور گھناؤنی خواہشات کو پورا کرنا چاہے گی۔ اس خیال نے ان کے دل و دماغ کو اس قدر متاثر کر دیا کہ وہ نہایت دلگیر ہو گۓ ورنہ مہمانوں کی آمد سے تو ایک نبی کو جو اخلاق کے نہایت بلند معیار پر ہوتا ہے خوشی ہی ہو سکتی تھی۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ہم جنسی (Homo Sexuality) جیسے امراض میں پہلے سے مبتلا تھے اور ان نو وارد خوبصورت نوجوانوں کے لوط کے گھر پہنچنے کی اطلاع پا کر ان کو اغوا کرنے کی غرض سے ان کے گھر پہنچے۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔۔ موقع کلام اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ لوط علیہ السلام نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں کہا تھا اور یہ ایسی ہی بات تھی جیسے کوئی بزرگ آدمی دوسروں کی بیٹیوں کو از راہ شفقت اپنی بیٹیاں کہتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے موقع پر لفظی معنی مراد نہیں ہوتے اس لیے یہ سمجھنا کسی طرح صحیح نہیں کہ لوط علیہ السلام نے اپنی بیٹیوں کی پیشکش کی تھی۔ اول تو ان کی بیٹیاں جیسا کہ بائبل میں بیان ہوا ہے صرف دو تھیں جب کہ قرآن ان کے لیے تثنیہ (دو) کا صیغہ (بنتین) نہیں بلکہ جمع کا صیغہ (بنات) استعمال کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ب ایک ہجوم نے لوط علیہ السلام کے گھر کو گھیر لیا تھا تو دو یا چند بیٹیوں کا نکاح تو چند افراد ہی سے ہو سکتا تھا۔ ہجوم کے تمام افراد کا نکاح تو اس صورت میں ممکن نہیں تھا۔ تیسرے یہ کہ کیا یہ سب غیر شادی شدہ تھے جو ان کو نکاح کرنے کے لیے کہا گیا ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑ رکھا تھا اور امر د پرستی میں مبتلا ہو گۓ تھے چنانچہ سورہ شعرا میں فرمایا گیا ہے :
اَتَأ تُوْنَ الذُّ کْرَانَ مِنَ العَا لَمِیْنَ وَتَذَرُوْنَمَا خَلَقَ لَکُمْ ر بُّکُمْ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ (الشعراء ۱۶۵۔ ۱۶۶) "کیا تم دنیا کی مخلوق سے نرالے ہو کر یہ حرکت کرتے ہو کہ لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور اپنی بیویوں کو جن کو تمہارے رب نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے چھوڑ دیتے ہو۔"
اس لیے لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کی بیویوں کو از راہ شفقت و احترام اپنی بیٹیاں کہتے ہوۓ یہ فرمایا کہ جب فطری خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پاکیزہ ذریعہ موجود ہے۔ تو تم نا پاک ذریعہ کیوں اختیار کرتے ہو۔
ھٰو لاء بناتی (یہ میری بیٹیاں ہیں) کی یہ تفسیر سعید بن جبیر سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں :
"یعنی قوم کے نبی ہونے کی حیثیت سے ان کی عورتیں لوط کی بیٹیاں تھیں ۔ " (تفسیر طبری ج ۱۱ ص ۵۱) ۔
اور مجاہد وغیرہ سے بھی قریب قریب یہی تفسیر منقول ہے نیز ابن جریر طبری اور امام رازی جیسے مفسرین نے بھی اس سے قوم کی عورتیں ہی مراد لی ہیں ۔ اور لوط علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ "یہ تمہارے لیے خوب پاکیزہ ہیں تو اللہ سے ڈرو"۔ کسی ایسے مفہوم کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا جو ناجائز طریقے سے شہوت کو پورا کرنے کے ہم معنی ہو۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عورتوں سے جن کو تم اپنی بیٹیاں کہتے ہو ہمیں کوئی غرض نہیں ان کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہکس قماش کے لوگ تھے اور بے حیائی میں کترنے ڈھیٹ تھے۔ ان کا لوط سے یہ کہنا کہ تمہیں معلوم ہی ہے اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ بیٹیوں کی جو بات لوط نے کہی تھی وہ عام عورتوں کے معنی میں تھی نہ کہ ان کی خاص بیٹیوں کے بارے میں ورنہ ان کی قوم کے لوگ یہ نہ کہتے کہ تمہیں یہ بات معلوم ہی ہے۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ بات عام عورتوں سے متعلق تھی جس کے بارے میں لوط کو معلوم تھا کہ ان کی قوم کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بات کی ہم مردوں سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں ۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔۔ لوط علیہ السلام کی یہ فریاد بتاتی ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کی عزت بچانے کے لیے کس قدر بے چین تھے اور ظالموں نے ان کو کیسی مصیبت میں ڈال دیا تھا۔ اس موقع پر جو کلمات ان کی زبان سے نکلے ان کا مطلب یہ ہے کہ کاش میرے پاس وہ طاقت ہوتی جس کو استعمال کر کے تم کو اس تشدد سے روکتا اور تمہارے دماغ درست کر دیتا اور اگر یہ طاقت میسر نہیں تو کم از کم ایسا مضبوط سہارا ہی ہوتا جہاں پناہ لے کر میں اپنے مہمانوں کی عزت بچاتا۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے لوط علیہ السلام کی اس فریاد کے سلسلہ میں فرمایا۔
یَغفر اللہُ لِلُوطٍ اِنْ کَانَ لَیَأ وی اِلٰی رُکنٍ شَدِیْدٍ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء) "اللہ لوط کو معاف کرے۔ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ میں تھے۔"
یعنی گو لوط کے لیے کوئی مادی سہارا نہیں تھا لیکن ان کے لیے سب سے بڑا سہارا خدا کا تھا اور خدا نے ان کی حفاظت کا ایسا سامان کیا کہ کافر ان کا بال بیکا نہ کر سکے اور نہ مہمانوں کے تعلق سے اپنے گھناؤنے منصوبہ میں کامیاب ہو سکے۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔۔ جب بات انتہاء کو پہنچ گئی اور قوم نے اپنے مجرم ہونے کا آخری ثبوت بھی فراہم کر دیا تو ان مہمانوں نے اپنا اصل تعارف لوط سے کرایا کہ ہم فرشتے ہیں اور خدا نے ہمیں ایک خاص مقصد کے لیے بھیجا ہے۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم پر قابو نہ پا سکیں گے۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رات کی تاریکی میں اس طرح نکل جاؤ کہ قوم کو خبر بھی نہ ہو اور اس ہجرت میں تمہیں سیدھے اپنی منزل کا رخ کرنا چاہیے۔ مال و اسباب کے چھوٹ جانے پر کوئی شخص واپس جا کر لانے کا ارادہ نہ کرے اور نہ بستی والوں پر کیا گزرتی ہے اس کو دیکھنے کے لیے گھڑا ہو جاۓ یہاں تک کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے۔
"نہ تو پیچھے مڑ کر دیکھنا نہ کہیں میدان میں ٹھہرنا۔ اس پہاڑ کو چلا جا۔ تا نہ ہو کہ تو ہلاک ہو جاۓ۔" (پیدائش ۱۹:۱۷) ۔
۱۱۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری بیوی عذاب کی زد میں آۓ گی۔
لوط کی بیوی بظاہر لوگ کے ساتھ تھی لیکن در حقیقت وہ کافروں کے ساتھ تھی اس لیے وہ بھی عذاب کی مستحق ہوئی۔ نوح کے بیٹے کی مثال اور پر گزر چکی۔ اب یہ دوسری مثال لوط کی بیوی کی پیش کی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انصاف بے لاگ ہے جو بھی کفر کرے گا عذاب کا مستحق ٹھہرے گا خواہ وہ کسی نبی کا بیٹا ہو یا کسی نبی کی بیوی ہو۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔۔ اس سے لوط علیہ السلام کو تسلی دینا مقصود تھا کہ صبح کا آفتاب اس اوباش قوم کے لیے ہلاکت کا پیغام لے کر آۓ گا نیز یہ تاکید کرنا بھی کہ صبح سے پہلے پہلے تمہیں اپنے گھر والوں کو لے کر اس علاقہ سے نکل جانا چاہیے جو عذاب کے لیے مقدر ہو چکا ہے۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عذاب زلزلہ کی صورت میں آیا جس نے عمارتوں کو زمین دوز اور بستی کو تلپٹ کر دیا۔ ساتھ ہی آتش فشاں کے پھٹ جانے سے پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش ہوئی جس کے ساتھ عجب نہیں کہ لاوا بھی رہا ہو چنانچہ بائبل کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ لاوا پھٹ پڑا تھا۔
"تب خداوند نے اپنی طرف سے سدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ آسمان سے برسائی۔ اور اس نے ان شہروں کو اور اس ساری ترائی کو اور ان شہروں کے سب رہنے والوں کو اور سب کچھ جو زمین سے اگا تھا غارت کیا۔ مگر اس کی بیوی نے پیچھے سے مڑ کر دیکھا اور وہ نمک کا ستون بن گئی۔ اور ابراہام صبح سویرے اٹھ کر اس جگہ گیا جہاں وہ خداوند کے حضور کھڑا ہو تھا اور اس نے سدون اور عمورہ اور ترائی کی ساری زمین کی طرف نظر کی اور کیا دیکھتا ہے کہ زمین پر سے دھواں ایسا اٹھ رہا ہے جیسے بھٹی کا دھواں ۔" (پیدائش ۱۹: ۲۴ تا ۲۸)
قوم لوط کفر کے ساتھ بے حیائی کی بھی مرتکب ہوئی تھی اس لیے اس کے جرم کے مطابق ٹھیک ٹھیک اس کو ذلت کی سزا ملی یعنی پتھروں کی بارش کے ذریعہ اسے سنگسار کر دیا گیا۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ خاص قسم کے پتھر تھے اور ان کو ہلاکت کے لیے نامزد کر دیا گیا تھا۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ علاقہ جس پر عذاب آیا مشرکین مکہ سے کچھ دور نہیں ہے سدوم اور عمورہ کی بستیاں بحر میت کے کنارے تھیں اور شام کے جاتے ہوۓ راستہ میں یہ تباہ شدہ علاقہ پڑتا تھا اس لیے اشارہ کیا گیا کہ مکہ کے ان ظالموں کے لیے جاۓ عبرت ان کے قریب ہی میں موجود ہے دوسرے اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس قسم کا عذاب ان ظالموں پر بھی آ سکتا ہے۔
اگرچہ رسولوں کی حجت قائم کرنے کے بعد ان کی قوموں پر کفر کی پاداش میں جو عذاب آتا ہے اس کی نوعیت ایک فیصلہ کن عذاب کی ہوتی ہے اس کے ذریعہ باطل کو مٹا دیا جاتا ہے۔ اور حق کو فتح مند کیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں گی سرکش اور فاسق قوموں کو اس دنیا میں سزا دینے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کا قانون سزا مختلف طریقوں سے ان پر نافذ ہوتا رہتا ہے۔ اس کی تازہ مثال میکسیکو (Mexico) کا ۱۹۸۵ ء کا) واقعہ ہے جہاں آتش فشاں کے پھٹ جانے سے تقریباً بیس ہزار لوگ موت کے گھاٹ اتر گۓ اور جدید تمدن کی ساری جگمگا ہٹ خاک میں مل گئی۔ ٹی وی پر اس تباہی کے مناظر بھی دکھاۓ گۓ مگر عبرت کی نگاہ سے دیکھنے والی آنکھیں کہاں !
۱۲۲۔۔۔۔۔۔۔ مدین والوں کی سرگزشت سورہ اعراف آیت ۸۵ تا ۹۳ میں گزر چکی۔ اس موقع پر مذکورہ آیات ور ان کے تشریحی نوٹ ۱۳۴ تا ۱۴۹ پیش نظر رہیں ۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔۔ ناپ تول میں کمی کرنا ایک زبردست گناہ ہے اور یہ ان لوگوں کا کام ہے جو خدا کے حضور جواب دہی کا خیال نہیں رکھتے۔ ملاحظہ ہو سورہ مطففین نوٹ ۱
۱۲۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر تم ایمان لاؤ اور جائز نفع پر اکتفا کر لو تو دنیا میں بھی یہ خیر و برکت کا باعث ہو گا اور آخرت کی کامیابی بھی حاصل ہو گی۔
کاروبار میں لوگوں کو دھوکا دینے سے بظاہر مال بڑھتا ہے مگر ایسا مال خیر سے خالی ہوتا ہے اور آخرت میں تباہی کا باعث بنتا ہے۔
۱۲۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچا دینا ہے۔ سراغ رساں ( (Detective بن کر تمہارے ہر ہر عمل کی نگرانی کرتے رہنا نہیں ہے اور نہ خدا کے ہاں تمہارے عمل کے بارے میں مجھے جواب دہی کرنا ہے۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔۔ ان کی ایہ سوال ان کی اس ذہنیت کی غمازی کرتا ہے کہ جو شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے وہ نماز پڑھے لیکن اس کو کیا حق ہے کہ کسی ایسے مذہب کو جس میں کلچر کے طور پر بت پرستی چلی آ رہی ہو غلط اور باطل قرار دینے لگے ؟ اسی طرح کاروبار اور تجارت میں جائز اور ناجائز اور انصاف اور حق تلفی کی بحث چھیڑ کر ہماری معاشی آزادی کو محدود کرنے کا سے کیا اختیار ؟
موجودہ دور کے سیکولر سٹ (Secularist) اسی ذہنیت کا مظاہر کر رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک مذہب کا دائرہ ذاتی عقیدہ اور پرستش تک محدود ہے۔ اجتماعی زندگی معیشت ، معاشرت اور سیاست وغیرہ میں اسے دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسی بنا پر وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ نماز روزہ کی حد تک اسلام پر عمل کرو لیکن اجتماعی معاملات میں اسلام کو داخل نہ کرو ، یہ ذہنیت اب اس درجہ جارحانہ بن گئی ہے کہ نکاح ، طلاق اور وراثت جیسے گھریلو مسائل میں بھی انہیں مسلمانوں کے الٰہی قوانین (Devine Law) کی اتباع کرنے پر اعتراض ہوتا ہے۔
۱۲۷۔۔۔۔۔۔۔ یہ طنز تھا جو انہوں نے پیغمبر شعیب پر کیا۔
۱۲۸۔۔۔۔۔۔۔ رزق حسن(اچھا رزق) سے مراد روحانی رزق (وحی الٰہی) بھی ہے اور مادی رزق بھی مطلب یہ ہے کہ اللہ نے مجھے نبوت بھی عطا فرمائی ہے اور رزق حلال بھی۔ اس کے بعد بھی کیا میں اس کی ناشکری کروں اور جو راہ اس نے مجھ پر کھولی ہے اسے میں اختیار نہ کروں ؟
۱۲۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میں شرک سے بھی اپنا دامن بچاۓ ہوۓ ہوں اور حرام کی کمائی سے بھی اور یہ باتیں میری صداقت پر دلیل ہیں ۔ ۱۳۰۔۔۔۔۔۔۔ شعیب علیہ السلام کے اس ارشاد میں ان لوگوں کے لیے جو عوام کی اصلاح کے لیے اٹھیں یہ رہنمائی ہے کہ ان کا کام جہاں تک ان کے بس میں ہے اصلاح کی کوشش کرنا ہے لیکن بھروسہ اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ اللہ کی توفیق پر ہونا چاہیے۔
۱۳۱۔۔۔۔۔۔۔ قوم لوط کی تباہی کا واقعہ مدین والوں کے لیے کچھ پرانا نہ تھا بلکہ قریبی دور ہی میں پیش آیا تھا نیز قوم لوط کا علاقہ بھی مدین سے قریب ہی تھا۔
۱۳۲۔۔۔۔۔۔۔ ا سکی تشریح نوٹ ۸ میں گزر چکی۔
۱۳۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کو اپنے بندوں سے نفرت نہیں بلکہ محبت ہے اس لیے وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو آگ میں جھونکنا نہیں چاہتا بلکہ خیر اور نعمتوں کی راہ ان پر کھولنا چاہتا ہے البتہ بندے اس سے نفرت کرنے لگیں اور سرکشی کا رویہ اختیار کر لیں تو پھر وہ اس کے غضب ہی کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔
۱۳۴۔۔۔۔۔۔۔ شعیب کی باتیں نہ فلسفیانہ تھیں اور نہ الجھی ہوئی بلکہ سیدھی سادی اور قلب و ذہن میں اتر جانے والی تھیں لیکن چونکہ وہ صاف ذہن اور کھلے دل سے سوچنے کے لیے آمادہ نہیں تھے اس لیے یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں ۔ انسان جب اپنے ذہن کو مخصوص سانچے میں ڈھال لیتا ہے تو اس سے مختلف کوئی بات بھی اس کے لیے قابل رحم نہیں ہوتی خواہ وہ کتنی ہی روشن حقیقت کیوں نہ ہو۔
۱۳۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جتھے اور طاقت کے لحاظ سے۔
۱۳۶۔۔۔۔۔۔۔ قبائلی سسٹم میں برادری اور خاندانوں کا بڑا لحاظ کرنا پڑتا تھا ورنہ کسی کے قتل پر انتقام کا سلسلہ چلتا۔ شعیب کو سنگسار کرنے میں یہی رکاوٹ تھی۔
قوم نے سنگسار کرنے کی دھمکی دی اس سے ان کی ظالمانہ ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نیز اس بات کا کہ اس سماج میں لوگوں کو توحید کی دعوت دینا اور برائیوں کو مٹانے کی کوشش کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا تھا۔
۱۳۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم محض میری برادری کے خوف سے میرے خلاف اقدام کرنے سے رک گئے اور اللہ کا خوف تم نے نہیں کیا۔ تو کیا میری برادری تمہارے نزدیک اللہ سے زیادہ قہر اور غلبہ والی ہے ؟
۱۳۸۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۱۴۷
۱۳۹۔۔۔۔۔۔۔ مراد اللہ کی رحمت سے محرومی ہے۔
۱۴۰۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ثمود پر جو عذاب آیا تھا اس سے ملتا جلتا عذاب مدین والوں پر آیا تھا۔
۱۴۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی موسٰی کی رسالت پر دلالت کرنے والی جو نشانیاں تھیں ان میں بعض نشانیاں تھیں ان میں بعض نشانیاں تو بالکل حجت قاہرہ کی حیثیت رکھتی تھیں چنانچہ ان کی لاٹھی کا سانپ بن جانا اور جادو گروں کے مقابلہ میں ان کا غالب آ جانا اس کی واضح مثال ہے۔ اور اس حجت قاہرہ کے بعد ان کی رسالت کے معاملہ میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی۔
۱۴۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون کی باتیں سوجھ بوجھ کی باتیں نہیں تھیں اور نہ اس کی قیادت حق و انصاف اور عدل و راستی سے آشنا تھی مگر لوگ تھے کہ اسی کے پیچھے چلتے رہے اور اللہ کے رسول کی اتباع کے لیے آمادہ نہیں ہوۓ۔
۱۴۳۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں فرعون کو اس کی قوم نے قائد بنایا تھا لہٰذا قیامت کے دن بھی وہ اپنے قوم کی قیادت کرے گا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی قیادت میں نکلنے والا یہ جلوس سیدھا جہنم کی طرف روانہ ہو گا اور ہلاکت کے ایسے گڑھے میں گرے گا کہ پھر اس سے نکلنا ممکن نہ ہو گا۔
۱۴۴۔۔۔۔۔۔۔ سرکشوں کے انجام کی یہ تصویر جو قرآن نے پیش کی ہے قاری کو احوال قیامت کا مشاہدہ اس دنیا ہی میں کراتی ہے تاکہ وہ سبق لے۔ مگر جن لوگوں نے سبق حاصل نہ کرنے کی قسم کھا لی ہے وہ تو جہنم میں پہنچ کر ہی سبق حاصل کریں گے
۱۴۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کچھ بستیوں کے آثار تو اب بھی (نزول قرآن کے زمانہ میں) باقی ہیں مثلاً ثمود کے آثار بالکل مٹ چکے ہیں مثلاً قوم نوح اور قوم لوط وغیرہ۔ مگر آثار کے مٹ جانے سے ان کی تاریخ مٹ نہیں گئی بلکہ قرآن کے اندر محفوظ ہے تاکہ رہتی دنیا تک لوگ ان تاریخی واقعات سے عبرت حاصل کرتے رہیں ۔
۱۴۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قومیں اپنے دیوتاؤں اور بتوں کی پوجا اس لیے کرتی تھیں کہ وہ ان کو فائدہ پہنچائیں گے مگر جب اللہ کا عذاب آیا تو یہ اپنے پجاریوں کی کوئی مدد نہ کر سکے بلکہ ان کی پرستش ان کے پرستاروں کے لیے عذاب میں اضافہ ہی کا موجب بنی۔ اس سے ثابت ہوا کہ ان کے دیوتا اور بت پرست محض ڈھکوسلا تھے۔
۱۴۷۔۔۔۔۔۔۔ یہ انسانی آبادیوں کے لیے انتباہ ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ماضی کے قصے ہیں اور ان پر کوئی عذاب آ نہیں سکتا بلکہ وہ بھی عذاب کی گرفت میں اسی طرح آ سکتی ہیں جو طرح ماضی کی قومیں آ گئیں ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ مختلف قسم کے عذابوں کا سلسلہ دنیا میں ظالم قوموں کے لیے جاری ہی ہے۔
۱۴۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان اہم ترین تاریخی واقعات میں جزاۓ آخرت کی دلیل موجود ہے۔ جب اللہ تعالیٰ قوموں کو ان کی سرکشی اور ا سکے رسولوں کی نافرمانی پر سزا دیتا رہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے بندوں سے بے تعلق نہیں ہے بلکہ ان کے اعمال کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے لہٰذا دنیا کی تمام قوموں اور تمام انسانوں کو ان کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دینے کے لیے قیامت کے دن اس کا عدالت برپا کرنا نہایت معقول بات ہے نیز ان واقعات میں عبرت کا یہ پہلو ہے کہ جب وہ سرکش قوموں کو دنیا میں ایسی سخت سزا دیتا رہا ہے تو آخرت کی سزا جہاں کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہو گی اس سے کہیں زیادہ سخت اور المناک ہو گی۔
۱۴۹۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ دن اللہ کے حضور پیشی کا دن ہو گا۔ فرداً فرداً ہر شخص کو اس کے حضور حاضر ہو کر جو کچھ وہ دنیا میں کہتا اور کرتا رہا ہے اس کی جوابدہی کرنا ہو گی نہ کوئی فرد چھوٹے گا اور نہ کوئی قوم اور نہ شاہ اور نہ فقیر۔
۱۵۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں بولنے کی جو آزادی انسان کو میسر ہے قیامت کے دن اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اس دن انسان کو مختلف مرحلوں سے گزرنا ہو گا اور جس مرحلہ اور جس موقع پر اسے بولنے کی اجازت دی جاۓ گی اسی وقت وہ بول سکے گا ورنہ مجال نہ ہو گی کہ وہ اپنی زبان کھول سکے۔
۱۵۱۔۔۔۔۔۔۔ یعنی لوگ درجہ کے فرق کے ساتھ دو گروہوں میں تقسیم ہوں گے۔ ایک وہ جس نے خیر اور سعادت کی راہ اختیار کی تھی اور اللہ کی رحمت سے وہ سعادت مند ہوا۔ اور دوسرا وہ جس نے شر اور بد بختی کی راہ اختیار کی تھی اور وہ برے انجام کو پہنچ گیا۔
واضح رہے کہ لوگوں کی یہ تقسیم اور ان کا انجام ایمان اور کفر کے لحاظ سے ہے کیوں کہ موقع کلام اسی کا متقاضی ہے۔ رہا ان لوگوں کا معاملہ جو ایمان لا کر گناہوں کے مرتکب ہوۓ ہوں گے تو اس سلسلہ میں قرآن کی دوسری آیتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
۱۵۲۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دوزخ میں ان کو ایسی سخت تکلیف ہو گی کہ دھاڑیں ماریں گے۔
۱۵۳۔۔۔۔۔۔۔ مراد آخرت کے آسمان و زمین ہیں کیونکہ قیامت کے دن جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان ہوا ہے زمین و آسمان بدل جائیں گے۔ اور قرآن کی صراحت مطابق عالم آخرت دائمی ہے اس لیے اس کے آسمان و زمین بھی دائمی ہوں گے۔
۱۵۴۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن میں یہ ارشاد کہ "وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے "۔ (النحل ۹۳) ظاہر ہے اس سے اس کے اختیار کو واضح کرنا مقصود ہے۔ اسی طرح یہاں بھی یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ کی مشیت میں کوئی مداخلت کرنے والا نہیں ہے وہ مختار ہے اگر وہ ان دوزخیوں کے بارے میں کوئی اور فیصلہ کرنا چاہے تو اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیس فیصلہ کو عمل میں لانے کے لیے اس کی مشیت کافی ہے۔
۱۵۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نیک بخت ہمیشہ جنت میں رہیں گے جب تک کہ عالم آخرت کے آسمان و زمین قائم ہیں اور ان کا دائمی طور پر جنت میں رہنا اس بنا پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی ہے ورنہ اس فیصلہ کے لیے اس کو کسی نے مجبور نہیں کیا ہے۔ وہ اگر چاہے تو کوئی اور فیصلہ کر سکتا ہے مگر اس کی مشیت یہ ہے کہ ان کو ایسی بخشش سے نوازا جاۓ کہ یہ سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو اور نعمتوں کی بارش ان پر ہمیشہ ہوتی رہے۔ رحمت کے جو چشمے ان کے لیے جاری ہوں گے وہ کبھی خشک ہونے والے نہیں ۔
۱۵۶۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کے فوائد میں ان کا جو حصہ ہے وہ بھی انہیں ملے گا اور ساتھ ہی اپنے عمل کا نتیجہ بھی انہیں بھگتنا ہو گا۔ ہم نہ انہیں مادی فائدہ پہنچانے میں کاٹ کسر کریں گے۔ اور نہ اس عذاب میں کوئی کمی کریں گے جس کے وہ مستحق ہیں ۔
۱۵۷۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مشرکین مکہ کے اس شک کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو انہیں قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کے بارے میں تھا۔ ان پر واضح کیا جا رہا ہے کہ قرآن کوئی پہلی کتاب نہیں ہے جو لوگوں کی رہنمائی کے لیے بھیجی گئی ہو بلکہ اس سے پہلے بھی کتابیں بھیجی جاتی رہی ہیں چنانچہ موسیٰ کو بھی کتاب دی گئی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے پیروؤں نے اس اختلاف کر کے ا سکو اپنی اصل شکل میں باقی رہنے نہیں دیا۔ اس صورت حال کا تقاضا تھا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک اور کتاب بھیجے۔ اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ کتاب دے کر بھیجا ہے اس لیے اس کا نزول تمہارے لیے باعث اطمینان ہونا چاہیے نہ کہ باعث تردد۔
اس حقیقت کے باوجود اگر لوگ شک ہی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں تو رہیں ایسے لوگوں کی قسمتوں ک فیصلہ کبھی کا چکا دیا گیا ہوتا مگر ایسا اس لیے نہیں کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ ہر قوم کو مہلت عمل دی جاۓ گی۔ اس کے اسی فرمان کے مطابق ان لوگوں کو بھی ایک وقت خاص تک ڈھیل دی جا رہی ہے۔
۱۵۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اطاعت و بندگی کے دائرہ میں رہو اس سے تجاوز کر کے اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔
۱۵۹۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ظالموں سے مراد جیسا کہ اوپر سے سلسلہ بیان چال آ رہا ہے مشرک ، کافر اور سرکش لوگ ہیں اور انکی طرف جھکنے سے مراد شرک ، کفر اور معصیت کے کاموں میں ان کی تائید کرنا ہے خواہ یہ تائید زبان سے ہو یا عمل سے۔
اس ممانعت کے پیش نظر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مشرکوں ، کافروں اور خدا بیزار لوگوں کے معاملہ میں اپنے دلوں میں کوئی نرم گوشہ نہ رکھیں اور نہ ان کو خوش کرنے کے لیے ان کے مشرکانہ رسوم میں یا ان کی مجلسوں میں جو انسان کو ہدایت خداوندی سے بے تعلق ہونے اور اسے بے دینی پر آمادہ کرنے کے لیے ہوں شرکت کریں ورنہ شرک اور کفر سے ساز گاری پیدا کرنے کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ وہ اپنا ایمان ہی کھو بیٹھیں ۔
۱۶۰۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خوب یاد رکھو کہ یہ ظالم جن کی طرف اگر تم جھک گیے تو وہ قیامت کے دن تمہارے کچھ کام آنے والے نہیں ۔ اس دن گو جو بھی خدا کی گرفت میں آۓ گا وہ بے یار و مدد گار ہو کر رہ جاۓ گا۔
۱۶۱۔۔۔۔۔۔۔ دن کی دونوں سروں پر نماز قائم کرنے سے مراد فجر اور مغرب کی نمازیں ہیں ۔ کسی چیز کا کنارا اس کی حد ہوتی ہے۔ دن کی حد کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں رات ختم ہو جاتی ہے۔ یہ فجر کا وقت ہے۔ اور دن کی حد جہاں ختم ہوتی ہے وہ مغرب کا وقت ہے۔
اور رات کی گھڑیوں میں نماز قائم کرنے سے مراد عشاء کی نماز ہے۔ زُلَف (گھڑیاں) جمع کا صیغہ عشاء کے وقت طوالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ تین وقت کی نمازیں ہوئیں جن کی تاکید مکہ کے اس دور میں کی گئی جس میں یہ سورہ نازل ہوئی تھی اس کے بعد پانچ وقت کی نمازوں کا حکم نازل ہوا۔
۱۶۲۔۔۔۔۔۔۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ نماز وہ عبادت ہے جس کو اگر تم اہتمام کے ساتھ ادا کرو تو نیکیوں کا وہ چشمہ تمہارے اندر پھوٹ پڑے گا جو ان برائیوں کو صاف کرے گا جو تمہارے اندر پائی جاتی ہوں اور ان گناہوں کو دھو ڈالے گا جو تم سے سرزد ہو گۓ ہوں ۔ اس سے نماز کے فیضان اور اس عبادت کی غیر معمولی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ "ارایتم لو انّ نہراً بباب احد کم یغتسلُ فیہ کل یومٍ خمساً ھل یبقیٰ من درنہٖ شیءٌ ، قَالَ فِذٰلِکَ مثل الصلوات الخمس یَمْحُو اللہ بِھنَّ الخطایا۔ (مشکوٰۃ بحوالہ بخاری و مسلم) اگر تم میں سے کسی شخص کے دروازے کے پاس ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ وقت غسل کرتا ہو تو اس کے جسم پر کچھ بھی میل کچیل رہے گا ؟ صحابہ نے عرض کیا کوئی میل نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا تو پنج وقتہ نماز کا یہی حال ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ گناہوں کو مٹاتا ہے۔ "
۱۶۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مخالفین کی اذیتوں پر صبر کرو۔
۱۶۴۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قومیں جو ہلاکت سے دوچار ہوئیں ان کی ہلاکت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر سے اہل خیر اور اصلاح پسند لوگ نہیں نکل سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بگاڑ عام ہو گیا اور برائیوں کی جڑیں مضبوط ہو گئیں ۔ اگر کچھ لوگ نکلے بھی تو وہ تعداد میں بہت کم تھی اس لیے بگڑے ہوۓ لوگوں نے ان کا کوئی اثر قول نہیں کیا البتہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس وقت بچا لیا جبکہ ان کی قوموں پر عذاب آ یا۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے واضح ہوتا ہے کہ بگاڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواہ وہ عقیدہ کا ہو یا عمل کا۔ ۔ ۔ ۔ جب کسی قوم میں پیدا ہو جاۓ تو ان لوگوں کو جو خیر پسند ہوں اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو سخت تاکید کی ہے کہ وہ اصلاح کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی پوری کوشش کریں ۔ فرمایا:والذی نگسی بیدہٖ لتامرن بالمعروف و لتنھون عن المنکر اولیو شکن اللہ ان یبعث علیکم عقباً منہ فتد عونہ فلا یستجیب لکم (الترمذی ابواب الفتن) :
"قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں معروف کا حکم کرنا ہو گا اور منکر سے روکنا ہو گا ورنہ عجب نہیں کہ اللہ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے پھر تم اس سے دعا کرنے لگو اور تمہاری دعا وہ قبول نہ کرے "
۱۶۵۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عام طور سے لوگوں نے غلط روش اختیار کی اور جو سامان عیش انہیں فراوانی کے ساتھ آزمائش کے طور پر دیا گیا تھا اس کو انہوں نے عیش پرستی کا ذریعہ بنا لیا اور آخرت کے بجاۓ دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا۔ اس ذہنیت نے ان کو گناہ اور جرائم کی راہ پر ڈال دیا۔ پھر انہیں خیر و صالح کے کام سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
۱۶۶۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۰۸ اور ۳۰۹۔
۱۶۷۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شخص مذاہب کے اختلافات کی چکر میں نہیں پڑا بلکہ اس راہ راست کو اس نے اختیار کر لیا جس کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے اور جو در حقیقت ہر انسان کی فطرت کی آواز ہے اور جس کی حقانیت پر کائنات کا پورا نظام شاہد ہے تو اس پر یقیناً اللہ کا بڑا فضل ہوا اور وہ اس کی بے پایاں رحمت کا مستحق قرار پایا۔
مذاہب عالم کے اختلافات کو دیکھ کر آدمی یقیناً پریشان ہو جاتا ہے اور بڑی الجھن محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس الجھن سے نکلا اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور جو شخص بھی طالب حق ہوتا اللہ تعالیٰ اس کی دستگیری فرماتا ہے۔ اور اس پر راہ حق کھول دیتا ہے۔
۱۶۸۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اسی امتحان کے لیے تو انہیں پیدا کیا ہے کہ کون اپنے کو اللہ کی رحمت کا مستحق بناتا ہے اور کون اس کے غضب کا۔ اگر یہ امتحان مقصود نہ ہوتا تو وہ تمام انسانوں کو ایک ہی گروہ بنا دیتا اور سب لوگ راہ حق پر چلنے کے لیے مجبور ہوتے لیکن چونکہ امتحان مقصود ہے اس لیے اس نے انسان کو صحیح یا غلط راۓ قائم کرنے ، حق یا باطل کا انتخاب کرنے اور ان میں سے کسی راہ پر چلنے کی آزادی بخشی ہے اس لیے انسانوں کی بہت بڑی تعداد کا راہ حق سے الگ ہو کر اپنے لیے دوسری راہی تجویز کرنا اور دین حق (اسلام) سے اختلاف کر کے دوسرے مذاہب وجود میں لانا یا ان کو قبول کرنا اگر چہ اللہ کی بخشی ہوئی آزادی سے غلط فائدہ اٹھانا ہے مگر یہ صورت حال اس ا سکیم کے دائرہ سے باہر نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کرتے وقت بنائی تھی، لہٰذا مذاہب کا اختلاف تو دنیا میں چلتا ہی رہے گا اور اس کے برے انام سے بھی انہیں دوچار ہونا ہو گا لیکن جو شخص بی اپنا انجام بخیر چاہتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان تمام مذاہب اور ہر قسم کی فکری و عملی گمراہیوں کو چھوڑ کر صرف اس راہ کو اختیار کرے جو قرآن نے دکھائی ہے اور جو در اصل تمام انبیاء علیہم السلام کی راہ ہے اور جس کا نام دین اسلام ہے۔
۱۶۹۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ تمام جن اور انس ہیں جنہوں نے گمراہی اختیار کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی۔