آیت ۱۱۲ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا قصہ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمان سے مائدہ (کھانے سے بھرا ہوا خوان) اتارے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام المائدہ ہے۔
مدنی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا نزول صلح حدیبیہ کے بعد ۷ ھ میں ہوا ہو گا۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت مل گئی تھی اس لیے موقع پیدا ہو گیا تھا کہ زیارتِ کعبہ اور شعائر اللہ کے تعلق سے انھیں ضروری ہدایتیں دی جائیں۔
یہ اس مجموعہ کی جس کا سلسلہ سورۂ بقرہ سے شروع ہوا تھا آخری سورہ ہے جس میں شریعت کی تکمیل کے اعلان کے ساتھ اس کے احکام و قوانین کی پابندی اور شرعی قوانین کو نافذ کرنے پر زور دیا گیا چونکہ یہ تکمیل شریعت کا مرحلہ تھا اس لیے انفرادی و اجتماعی زندگی سے متعلق شرعی احکام بیان کرنے کے ساتھ اہل ایمان کو عہد الٰہی پر قائم رہنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں امت مسلمہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ کی سی روش اختیار نہ کرے جنہوں نے نقص عہد کیا اور جو شریعت کے نظام کو تہ و بالا کرنے، اس کی پابندیوں سے نکل بھاگنے اور دین میں بدعات (نئی نئی باتیں) پیدا کرنے کے مرتکب ہوئے۔ چونکہ قرآن کا اسلوب ہدایت و تربیت کا ہے۔ اس لیے ان تمام امور و مسائل پر ملے جلے انداز میں گفتگو کی گئی ہے تاکہ شرعی پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے نفسیاتی موقع پیدا ہو جائے، اسی طرح موقع کی مناسبت سے یہود (مغضوب علیھم) اور نصاریٰ (ضالین) کو آخری حد تک جھنجھوڑا گیا ہے تاکہ ان پر حجت پوری طرح قائم ہو جائے اور ان کے مقابلہ میں اہل ایمان (انعمت علیھم) کی راہ روشن ہو۔
آیت نمبر۱ آغازِ کلام ہے جس میں شرعی عقود (قیود) کی پابندی کی تاکید کی گئی ہے۔
آیت نمبر ۲ تا ۶ میں شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں آیت۶ نمبر۷ تا ۱۱ میں اللہ کے عہدو پیمان پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے اور عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی ضمن میں ایک عہد شکن قوم کی ایک سازش کا ذکر کیا گیا ہے۔
آیت نمبر ۱۲ تا ۲۶ میں یہود و نصاریٰ کے نقصِ عہد کے واقعات بیان کئے گئے ہیں تاکہ اہلِ ایمان اس سے سبق لیں۔ ساتھ ہی اہلِ کتاب کو اپنے رب سے عہد استوار کرنے کی پھر سے دعوت دی گئی ہے۔
آیت نمبر۲۷ تا ۳۲ میں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ بیان ہوا ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ عہدِ الٰہی پر قائم رہنے کے لئے تقویٰ ضروری ہے۔ اگر دل میں تقویٰ نہ ہو تو مجرمانہ ذہنیت پرورش پاتی ہے۔
آیت نمبر ۳۳ تا ۴۰ میں فساد فی الارض اور جرائم کے انسداد کے لئے قوانین بیان کئے گئے ہیں ، ساتھ ہی تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور کفر کے انجامِ بد سے آگاہ کیا گیا ہے۔
آیت نمبر۴۱ تا ۵۰ میں یہودو نصاریٰ کی عہدِ شکنی کی مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ کس طرح کتاب الٰہی کو انہوں نے پسِ پشت ڈال دیا ہے اور معاملاتِ زندگی میں شریعت کے فیصلہ کو قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ آیت نمبر ۵۱ تا ۶۶ میں اہلِ ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ایسے عہدِ شکن اور مفسد لوگوں (یہودو نصاریٰ) کو اپنا دوست نہ بنائیں اور ان کے اثرات قبول کرنے سے احتراز کریں۔
آیت نمبر ۶۷ تا ۸۶ میں نبیﷺ کی زبانی اہلِ کتاب کو دعوت اصلا ح دی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے نقصِ عہد، عقیدہ میں بگاڑ ، منکر کے ارتکاب اور کافروں سے دوستی کا ذکر ہوا ہے ، اس ضمن میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو نبیﷺ کی دعوت کو قبول کر کے تقویٰ کی زندگی اختیار کر رہے تھے۔
آیت نمبر ۸۷تا ۱۰۸ میں شریعت کے وہ احکام بیان کئے گئے ہیں جو حلت و حرمت سے تعلق رکھتے ہیں اخیر میں قانونِ شہادت بیان کیا گیا ہے۔ آیت نمبر ۱۰۹ تا ۱۲۰ خاتمۂ کلام ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن رسول شہادت دیں گے کہ انہوں نے اپنی امتوں تک خدا کا دین اور اس کی شریعت ٹھیک ٹھیک پہنچا ئی تھی۔ اس سلسلہ میں بطورِ مثال عیسیٰ علیہ السلام کی مثال پیش کی گئی ہے تاکہ نصاریٰ پر حجت قائم ہو۔ یہ وہ شہادت ہے جو عیسیٰ علیہ السلام عدالتِ خداوندی میں پیش کریں گے۔
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! (شرعی) قیود کی پابندی کرو ۱*۔ تمہارے لئے مویشی کی قسم کے جانور حلال کر دئے گئے ۲* سوائے ان کے جس کا حکم تمہیں سنایا جا رہا ہے ۳*لیکن احرام ۴*کی حالت میں شکار کو جائز نہ کر لو ۵*بیشک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے ۶*
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ کے شعائر ۷* کی بے حرمتی نہ کرو،اور نہ حرمت وا لے مہینوں کی ۸* نہ قربانی کے جانوروں کی نہ (قربانی کی علامت کے طور پر) پٹے پڑے ہوئے جانوروں کی ۹*نہ بیتِ حرام (کعبہ) کے عازمین کی جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں نکلے ہوں ۱۰* اور جب تم حالتِ احرام سے باہر آ جاؤ تو شکار کر سکتے ہو اور کسی قوم کی دشمنی اس بنا پر کہ اس نے تمہیں مسجد حرام سے روکا ہے ۱۱*اس بات پر نہ ابھارے کہ زیادتی کرنے لگو ۱۲*نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تم ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو ۱۳*اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے ۱۴*
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم پر حرام کیا گیا مردار ۱۵*خون ۱۶*سور کا گوشت ۱۷*وہ (جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو ۱۸*وہ جو گلا گھٹنے سے ۱۹* یا چوٹ لگنے سے ۲۰* یا اوپر سے گر کر۲۱* یا سینگ لگنے سے مرا ہو ۲۲* یا جسے کسی درندہ نے پھاڑ کھایا ہو ۲۳* سوائے اس کے جسے تم (زندہ پاکر) ذبح کر لو ۲۴* اور وہ (جانور) جو کسی تھان ۲۵* پر ذبح کیا گیا ہو۔ نیز یہ بھی حرام ہے کہ تم پانسوں کے تیروں سے فال نکالو ۲۶*۔ یہ فسق ہے۔ آج ۲۷*کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے بالکل مایوسی ہو گئی ہے۔ لہذا ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۲۸*آج ۲۹*میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ۳۰*اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ۳۱*اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند فرمایا ۳۲*پس جو کوئی بھو ک سے مجبور ہو جائے (اور ان میں سے کوئی چیز کھا لے) بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ بخشنے والا، رحم فرمانے والا ہے ۳۳*۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ کہو تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۳۴*اور جن شکاری جانوروں ۳۵*کو تم نے سدھا یا ہو ۳۶*جنہیں تم اللہ کے دئیے ہوئے علم کی بناء پر شکار کی تعلیم دیتے ہو ۳۷*وہ جس شکار کو تمہارے لئے روک رکھیں اس کو تم نہ کھاؤ ۳۸*البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو ۳۹*اور اللہ سے ڈرو۴۰*کہ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں ۴۱*اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے ۴۲*اور تمہارا کھانا ان کے لئے ۴۳*تمہارے لئے پاکدامن عورتیں جو اہل ایمان میں سے ہوں حلال ہیں نیز وہ پاکدامن عورتیں بھی جو ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ۴۴*بشرطیکہ ان کے مہر ان کو دو اور مقصود قید نکاح میں لانا نہ ہو نہ کہ بدکاری کرنا ، یا چوری چھپے آشنائیاں کرنا۔ اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے گا ۴۵*تو اس کا سارا کیا کرایا اکارت جائیگا اور آخر ت میں وہ تباہ حال ہو گا ۴۶*
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جب تم نماز کے لئے اٹھو ۴۷*تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھولو۔ اپنے سروں کا مسح کرو اور پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا کرو ۴۸*اگر جنابت ۴۹*کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ اور اگر بیمار ہو یاسفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو ۵۰* (مباشرت کی ہو) اور پانی نہ ملے تو پاک زمین سے تیمم کرو۵۱* یعنی اپنے منہ اور ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو اللہ نہیں چاہتا کہ تمہیں تنگی میں ڈالے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دے ۵۲*تاکہ تم شکگزار بنو۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے جو فضل۵۳* تم پرکیا ہے اسے یاد رکھو اور اس کے اس عہد و پیمان ۵۴*کو نہ بھولو جو اس نے تم سے لیا ہے جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور اللہ سے ڈرو۵۵* اللہ کو ان باتوں کا بھی علم ہے جو سینوں کے اندر پوشیدہ ہیں۔
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ کی خاطر اٹھ کھڑے ہونے وا لے ۵۶*اور انصاف کے گواہ بنو ۵۷*اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ نا انصافی ۵۸*عدل کرو کہ یہ تقویٰ سے لگتی ہوئی بات ہے اور اللہ سے ڈرو جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ان کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہو گا۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلا یا وہ دوزخی ہیں۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنے اوپر اللہ کا وہ احسان یاد کرو جب ایک گروہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے ان کے ہاتھ تم پر اٹھنے سے روک دئیے ۵۹*اللہ سے ڈرتے رہو اور مؤمنوں کو چاہئے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا ۶۰*اور ہم نے ان میں سے بارہ افراد کو نگران کار مقرر کیا تھا ۶۱*اور اللہ نے فرمایا تھا میں تمہارے ساتھ ہوں ۶۲*اگر تم نے نماز قائم کی، زکوٰۃ دیتے رہے۶۳*، میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی مدد کی ۶۳*اور اللہ کو قرض حسن دیا ۶۵*تو میں ضرور تمہاری برائیاں تم سے دور کر دوں گا ۶۶*اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کر دوں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۶۷* لیکن تم میں سے جو کوئی اس کے بعد بھی کفر کرے گا تو وہ راست سے بھٹک گیا ۶۸*
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا ۶۹*۔ وہ کلمات کو ان کی اصل جگہ (موقع و محل) سے پھیر دیتے ہیں ۷۰*اور جس (کتاب) کے ذریعہ انہیں نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک حصہ وہ بھلا بیٹھتے ۷۱*اور تمہیں برابر ان کی کسی نہ کسی خیانت کا ۷۲*پتہ چلتا رہتا ہے۔ ان میں ایسے لو گ بہت کم ہیں جو اس سے بچے ہوئے ہیں ۷۳*لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان سے درگزر کرو۷۴* اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ۷۵*ان سے بھی ہم نے عہد لیا تھا ۷۶*مگر جس (کتاب) کے ذریعہ ان کو نصیحت کی گئی تھی اس کا ایک حصہ وہ بھلا بیٹھے ۷۷*تو ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لئے بغض و عناد کی آگ بھڑکا دی ۷۸*اور عنقریب اللہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا بناتے رہے ہیں۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب !ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتاب کی بہت سی ان باتوں کو جن کو تم چھپاتے رہے ہو ظاہر کر رہا ہے اور بہت سی باتوں کو نظر انداز بھی کرتا ہے ۷۹*تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور ۸۰* (روشنی) اور ایک واضح کتاب آ گئی ہے ۸۱*۔
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کے ذریعہ اللہ ان لوگوں کو جو اس کی رضا پر چلتے ہیں سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے ۸۲*اور اپنی توفیق سے انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۸۳*اور راہِ راست ۸۴*کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا اللہ ہی ہے مسیح ابن مریم ۸۵*۔ (ان سے) کہو اگر اللہ مسیح ابن مریم کو،اس کی ماں کو اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو اللہ کے سامنے کس کا بس چل سکتا ہے ۸۶*آسمانوں اور زمین کی اور ان کے درمیان کی ساری موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۸۷*اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہود اور نصاریٰ کہتے ہیں ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ۸۸*ان سے کہو کہ پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے ۸۹*در حقیقت تم بھی ویسے ہی انسان ہو جیسے دوسرے انسان اس نے پیدا کئے ہیں ۹۰*وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے ۹۱*آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ساری موجودات کی فرماں روائی اللہ ہی کے لئے ہے اور سب کو اسی کی طرف جانا ہے۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے اہلِ کتاب !ہمارا رسول تمہارے پاس ایسے وقت آگیا ہے جبکہ رسولوں کی بعثت کا سلسلہ ایک مدت سے بند تھا ۹۲*وہ (اصل دین) کو تم پر واضح کر رہا ہے تاکہ تم یہ نہ کہو کہ ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا نہیں آیا۔ اب بشارت دینے والا اور متنبہ کرنے والا تمہارے پاس آ گیا ہے ۹۳*اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۹۴*۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو!اپنے اوپر اللہ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں نبی پیدا کئے ، تم کو صاحبِ اقتدار بنا یا اور تم کو وہ کچھ عطا کیا جو دنیا کی کسی قوم کو نہیں عطا کیا گیا ۹۵*۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے میری قوم کے لوگو!اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے مقدر کر دی ہے ۹۶*اور پیچھے نہ ہٹو ورنہ نامراد ہو جاؤ گے۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے لگے اے موسی!وہاں تو جبّار (زبردست) لوگ رہتے ہیں ۹۷*ہم وہاں ہر گز نہ جائیں گے جب تک کہ وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں اگر وہ وہاں سے نکل گئے تو ہم ضرور داخل ہونگے۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان ڈرنے والوں میں سے دو اشخاص نے جن پر اللہ نے فضل فرمایا تھا کہا : ان کے مقابلہ میں دروازہ میں گھس جاؤ۹۸* جب تم اس میں گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مؤمن ہو۔
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بولے اے موسیٰ جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم ہرگز داخل ہونے وا لے نہیں۔ تم اور تمہارا رب دونوں جاؤ اور لڑو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے دعا کی اے میرے رب !میں اپنی ذات اور بھائی ۹۹*کے سوا کسی پر اختیار نہیں رکھتا۔ پس تو ہمارے اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۱۰۰*۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا تو اب یہ سرزمین چالیس سال تک ان پر حرام کر دی گئی۔ یہ لوگ زمین میں بھٹکتے پھریں گے ۱۰۱*تو تم ان نافرمان لوگوں (کے حال) پر افسوس نہ کرو۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تم ان کو آدم کے دو بیٹوں ۱۰۲*کا واقعہ صحیح طریقہ پر سنا دو ۱۰۳*جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی ۱۰۴* اس نے کہا میں تجھے قتل کر دونگا ۱۰۵*اس نے جواب دیا اللہ تو صرف متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ ۱۰۶*
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا ۱۰۷*میں اللہ رب ّ العالمین سے ڈرتا ہوں۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے ۱۰۸*اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے کہ ظالموں کی یہی سزا ہے۔
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر ہی لیا ۱۰۹*اور اسے قتل کر کے ۱۱۰*وہ تباہ ہونے والوں میں شامل ہو گیا ۱۱۱*
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے ۱۱۲*وہ بولا افسوس مجھ پر !میں اس کوّے کی طرح بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا۔ غرض یہ کہ وہ اس پر پشیمان ہوا ۱۱۳*
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی بنا ۱۱۴*پر ہم نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی کو قتل کیا جبکہ وہ (مقتول) کسی کا خون کرنے یا زمین میں فساد برپا کرنے کا مرتکب نہیں ہوا تھا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بچائی ۱۱۵*اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے رسول ان کے پاس واضح احکام لیکر آئے لیکن اس کے باوجود ان میں بہ کثرت لو گ ایسے ہیں جو زمین میں زیادتیاں کرتے ہیں۔ ۱۱۶*
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا انہیں سولی دیدی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے ۱۱۷*یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے ۱۱۸*اور آخرت میں بھی ان کے لئے عذابِ عظیم ہے۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جو لوگ قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ توبہ کر لیں تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۱۱۹*
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان۱۲۰* والو ! اللہ سے ڈرو ۱۲۱*اور اس کا قرب تلاش کرو ۱۲۲*اور اس کی راہ میں جہاد ۱۲۳*کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقین جانو کہ جن لوگوں نے کفر کیا اگر ان کے قبضہ میں وہ سب کچھ آ جائے جو روئے زمین میں موجود ہے اور اتنا ہی اور بھی انہیں حاصل ہو جائے اور وہ روز قیامت کے عذاب سے بچنے کے لئے یہ سب کچھ فدیہ میں دینا چاہیں تب بھی وہ ان سے قبول نہیں کیا جائے گا ۱۲۴*اور انہیں دردناک عذاب بھگتنا ہو گا۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ چاہیں گے کہ آگ سے باہر نکل آئیں لیکن وہ اس سے باہر کبھی نکل نہ سکیں گے ۱۲۵*ان کے لئے قائم رہنے والا عذاب ہو گا۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور چور مرد ہو یا عورت ۱۲۶*دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۱۲۷*یہ ان کی کمائی کا بدلہ اور اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے ۱۲۸*اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۱۲۹*
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جس کسی نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کر لی تو اللہ اس کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا ۱۳۰*اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے وہ جسے چاہے عذاب دے اور جسے چاہے بخش دے ۱۳۱*اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے رسول !تم ان لوگوں کی وجہ سے غمگین نہ ہو جو کفر میں بڑی سرگرمی دکھا رہے ہیں ۱۳۲*خواہ وہ ان لوگوں میں سے ہوں جو زبان سے تو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے دلوں نے ایمان قبول نہیں کیا ۱۳۳*یا ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں یہ لوگ جھو ٹ کے لئے کان لگانے وا لے اور دوسروں کے لئے جو تمہارے پاس نہیں آئے کان لگانے وا لے ہیں ۱۳۴*وہ کلام کو اس کا محل متعین ہونے کے باوجود اس کے اصل محل سے ہٹا دیتے ہیں ۱۳۵*اور کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو قبول کر لو اور اگر نہ دیا جائے تو اس سے بچو ۱۳۶*اور جسے اللہ ہی فتنہ میں ڈالنا چاہے اس کے لئے اللہ کے مقابلہ میں تمہارا کچھ بس نہیں چل سکتا۱۳۷*یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنا اللہ کو منظور نہ ہوا ۱۳۸*ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب۔
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ جھوٹی باتیں قبول کرنے وا لے اور حرام مال کھانے میں بے با ک ہیں ۱۳۹*لہٰذا اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو تمہیں اختیار ہے ان کے درمیان فیصلہ کرو یا ان سے اعراض کرو ۱۴۰*اگر اعراض کرو تو وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اور اگر فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو ۱۴۱*کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہیں حکم کس طرح بنا تے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجو دہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے پھر بھی یہ منہ موڑتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان ہی نہیں رکھتے ۱۴۲*
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ۱۴۳*انبیاء جو مسلم تھے ۱۴۴*اسی کے مطابق یہود کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے نیز علماء اور فقہاء بھی۱۴۵* کیونکہ وہ اللہ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر گواہ تھے ۱۴۶*تو دیکھو لوگوں سے نہ ڈرو۔ مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچو۱۴۷* اور جو لوگ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں ،وہی کافر ہیں ۱۴۸*۔
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ان کے لئے اس میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان ، آنکھ کے بدلے آنکھ،ناک کے بدلے ناک ، کان کے بدلے کان ، دانت کے بدلے دانت اور تمام زخموں کے قصاص (برابر کا بدلہ) ہے ۱۴۹*پھر جو معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے ۱۵۰*اور جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہ ظالم ہیں ۱۵۱*۔
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے ان (پیغمبروں) کے پیچھے ان ہی کے نقش قدم پر عیسیٰ بن مریم کو بھیجا ۱۵۲*تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا وہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا ۱۵۳*اور ہم نے اس کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور تورات میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود تھا اس کی تصدیق کرنے والی تھی اور متقیوں کے لئے سراسر ہدایت اور نصیحت۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اہل انجیل کو چاہئے کہ وہ اسی کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے اس میں اتارا ہے ۱۵۴*اور جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لیکر آئی ہے اور (سابق) کتاب ۱۵۵*میں سے جو کچھ اس کے سامنے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ ہے ۱۵۶*لہذا تم خدا کی نازل کردہ شریعت کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اسے چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ۱۵۷*ہم نے تم میں سے ہر ایک (گروہ) کے لئے ایک شریعت اور ایک منہاج (راہِ عمل) ٹھہرا دی ۱۵۸*اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا ،لیکن اس نے چاہا کہ جو کچھ اس نے تم کو عطا کیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے ۱۵۹*لہذا بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۱۶۰*تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں بتلائے گا کہ جن باتوں میں تم اختلاف کرتے رہے ہو ان کی اصل حقیقت کیا تھی ۱۶۱*۔
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر !) ہم نے تمہیں حکم دیا کہ جو کچھ اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو نیز ہوشیار رہو کہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کے کسی حکم سے وہ تمہیں برگشتہ نہ کریں ۱۶۲*پھر اگر یہ رو گردانی کریں تو جان لو کہ اللہ نے ارادہ کر لیا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کی سزا دے اور حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا یہ لوگ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ؟ ۱۶۳*جو لوگ یقین رکھنے وا لے ہیں ان کے لئے اللہ سے بہتر فیصلہ کس کا ہو سکتا ہے ؟
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا تو اس کا شمار ان ہی میں ہو گا ۱۶۴*اللہ ان لوگوں کو راہ یاب نہیں کرتا جو ظلم کرنے وا لے ہوں۔
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں روگ ہے ۱۶۵* وہ ان ہی کے درمیان دوڑ دھوپ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ ہم کسی مصیبت میں پھنس نہ جائیں ۱۶۶*مگر عجب نہیں کہ اللہ فتح یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر فرما دے اور انہیں اس بات پر جس کو وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہونا پڑے ۱۶۷*
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت اہل ایمان کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو اللہ کی سخت سے سخت قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال اکار ت گئے ۱۶۸* اور وہ تباہ ہو کر رہ گئے۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو (وہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہ سکے گا) اللہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن سے اللہ محبت رکھتا ہو گا اور جو اللہ سے محبت رکھتے ہونگے۔ مؤمنوں کے حق میں نرم اور کافروں کے مقابلہ میں سخت ہونگے اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے وا لے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۱۶۹*یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا فرمائے اور اللہ بڑی وسعت رکھنے والا ۱۷۰*اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا دوست تو در حقیقت اللہ ہے ،اس کا رسول ہے اور وہ اہل ایمان ہیں ۱۷۱*جو نماز قائم کرتے ہیں ،زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں ۱۷۲*
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو دوست بنا لے تو (وہ اللہ کا گروہ ہے اور) اللہ ہی کا گروہ ہے جو غالب ہو کر رہے گا۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنا رکھا ہے ان کو نیز دوسرے کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ ۱۷۳*اور اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم نماز کے لئے پکارتے ہو تو یہ اسے مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے عقل ہیں ۱۷۴*۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب !تمہارے ہم پر برہم ہونے کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور جو ہدایت ہماری طرف بھیجی گئی اور جو اس سے پہلے نازل ہو ئی تھی اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں ۱۷۵*
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بدتر انجام کس کا ہوا ؟ ۱۷۶*وہ جن پر اللہ نے لعنت کی ۱۷۷*جن پر اس کا غضب ہوا ۱۷۸*اور جن میں سے اس نے بندر اور سور بنائے ۱۷۹*اور وہ جنہوں نے طاغوت کی پرستش کی ۱۸۰*یہی وہ لوگ ہیں جن کا درجہ سب سے بدتر ہے اور وہ راہِ راست سے بالکل بھٹکے ہوئے ہیں۔
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب یہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر لئے ہوئے آئے تھے اور کفر لئے ہوئے ہی واپس گئے اور جو کچھ یہ اپنے دلوں میں چھپا رہے ہیں اسے اللہ خوب جانتا ہے۔
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم دیکھو گے کہ ان میں سے بہ کثرت لوگ گناہ ،زیادتی اور مال حرام کھانے میں تیز گام ہیں۔ بہت برے کام ہیں جو یہ کرتے ہیں۔
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے علماء اور فقہا ء ان کو گناہ کی بات کرنے اور حرام کھانے سے روکتے کیوں نہیں ؟ ۱۸۱*بہت بری حرکت ہے جو یہ کر رہے ہیں۔
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھ گیا ہے ۱۸۲*بندھ گئے ان کے ہاتھ اور لعنت ہوئی ان پر اس وجہ سے کہ انہوں نے ایسی بات کہی ۱۸۳*ا س کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں ۱۸۴*جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۱۸۵*در حقیقت تمہارے رب کی طرف سے جو چیز تم پر نازل ہوئی ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ کا موجب بن گئی ہے۔ ۱۸۶*اور ہم نے ان کے درمیان عداوت اور بغض قیامت تک کے لئے ڈال دیا ہے ۱۸۷*جب کبھی یہ لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو بجھا دیتا ہے ۱۸۸*یہ زمین میں فساد بر پا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان کے گناہ دور کر دیتے اور ان کو نعمت بھرے باغوں میں داخل کر دیتے ۱۸۹*۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ تورات اور انجیل ۱۹۰*اور اس (کتاب) کو جو ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے ۱۹۱*قائم کرتے تو انہیں اوپر سے بھی رزق ملتا اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی ۱۹۲*ان میں ایک گروہ ضرور راست رو ۱۹۳*ہے لیکن زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جن کے اعمال بہت برے ہیں۔
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے رسول !تمہارے رب کی جانب سے جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے وہ (لوگوں تک) پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا ۱۹۴*اللہ تم کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا ۱۹۵*اللہ ان لوگوں کو ہر گز راہ یاب نہیں کریگا جو کافر ہیں ۱۹۶*
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب !تم کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تورات اور انجیل اور اس (کتاب) کو قائم نہ کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے۱۹۷*مگر جو (کلام) تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی اور کفر میں اضافہ ہی کریگا ۱۹۸*تو تم ان کافروں (کے حال) پر افسوس نہ کرو۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمان ہوں یا یہودی اور صابی ۱۹۹*ہوں یا نصاریٰ جو بھی اللہ ا ور یومِ آخرت پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کریگا تو ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۲۰۰*
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا ۲۰۱*اور ان کی طرف رسول بھیجے۔ مگر جب کبھی کوئی رسول ان کے پاس ایسی بات لیکر آیا جو ان کی خواہشاتِ نفس کے خلاف تھی تو کسی کو انہوں نے جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا ۲۰۲*
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ گمان کر بیٹھے کہ (ان پر) کوئی آفت نہیں آئے گی اس لئے اندھے اور بہرے بن گئے ۲۰۳*پھر اللہ نے (ان کی توبہ قبول کی اور) انہیں معاف کر دیا مگر پھر ان میں بہت سے لوگ اندھے اور بہرے بن گئے ۲۰۴*اور اللہ ان کے کرتوتوں کو دیکھ رہا ہے۔ ۲۰۵*
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ یہی مسیح ابن مریم ہے ۲۰۶*حالانکہ مسیح نے کہا تھا : "اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا ارب بھی ۲۰۷*" بے شک جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا آتشِ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے ۲۰۸*حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں اور اگر یہ ان باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کو دردناک عذاب بھگتنا ہو گا ۲۰۹*
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کیا یہ اللہ کی طرف رجو ع نہیں کرینگے اور اس سے معافی نہیں چاہیں گے۔ اللہ تو مغفرت فرمانے والا رحم کرنے والا ہے۔
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسیح ابن مریم اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک رسول تھے ان سے پہلے بھی کتنے رسول گزر چکے ہیں ۲۱۰*اور ان کی ماں نہایت صداقت شعار تھیں ۲۱۱*دونوں کھانا کھاتے تھے ۲۱۲*دیکھو کس طرح ہم ان کے سامنے دلیلیں واضح کر رہے ہیں اور پھر دیکھو کہ ان کی عقل کس طرح ماری جا رہی ہے۔
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتی ہے اور نہ نفع پہنچانے کا ۲۱۳*؟ حالانکہ اللہ ہی ہے جو سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۲۱۴*۔
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اے اہل کتاب !اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو ۲۱۵*اور ان لوگوں کے خیالات کی پیروی نہ کرو جو اس سے پہلے گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا اور راہِ راست سے بالکل بھٹک گئے ۲۱۶*۔
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی ۲۱۷*یہ اس لئے کہ وہ نافرمان ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برائی کے ارتکاب سے وہ ایک دوسرے کو روکتے نہ تھے بہت بری بات تھی جو وہ کر رہے تھے ۲۱۸*
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں ۲۱۹*نہایت برا سامان ہے جو انہوں نے اپنے مستقبل کے لئے کیا کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ ہمیشہ کے لئے عذاب میں رہنے وا لے بنے۔
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر یہ اللہ ،نبی اور اس کی طرف سے نازل شدہ (کتاب) پر ایمان رکھنے وا لے ہوتے تو کبھی کافروں کو اپنا دوست نہ بناتے ۲۲۰*لیکن ان میں زیادہ تر نافرمان ہیں۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور اہل ایمان کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پاؤ گے جو اپنے کو نصاریٰ کہتے ہیں ۲۲۱*یہ اس لئے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور راہب پائے جاتے ہیں اور وہ تکبّر نہیں کرتے ۲۲۲*
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں وہ بول اٹھتے ہیں : اے ہمارے رب ہم ایمان لائے تو ہمیں گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ ۲۲۳*
۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخر ہم اللہ پر اور اس حق پر جو ہمارے پاس آیا ہے کیوں نہ ایمان لائیں جبکہ ہم اس بات کے خواہشمند ہیں کہ ہمارا رب ہمیں صالحین کے زمرہ میں شامل کرے۲۲۴*۔
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اللہ نے ان کے اس قول کے صلے میں ان کو ایسے باغ عطا فرمائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور نیک روی اختیار کرنے والوں کی یہی جزاء ہے۔
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں ۲۲۵*
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ ٹھہراؤ ۲۲۶*اور حد سے تجاوز نہ کرو ۲۲۷*اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو حلال اور پاکیزہ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان لائے ہو۔
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تمہاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کریگا لیکن جو قسمیں تم نے جان بوجھ کر کھائی ہوں ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ۲۲۸*اس کا کفارہ ۲۲۹*یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اوسط درجہ کا کھانا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہویا انہیں کپڑے پہناؤ یا ایک غلام آزاد کرو اور جس کو یہ میسّر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا بیٹھو۲۳۰* اور اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو ۲۳۱*اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنے احکام واضح کر دیتا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !شراب ، جوا ، تھان ۲۳۲*اور پانسے کے تیر سب نجس اور شیطانی کام ہیں لہذا ان سے بچو تاکہ فلاح پاؤ۔
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے میں مشغول کر کے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد اور نماز سے روک دے ۲۳۳*پھر کیا تم باز نہ آؤ گے ؟
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور محتاط رہو لیکن اگر تم نے رو گردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر تو صرف واضح طور سے پیغام پہنچا دینے کی ذمّہ داری تھی۔
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہوں نے جو کچھ کھا پی لیا تھا اس پر کوئی گرفت نہ ہو گی جبکہ انہوں نے پرہیز گاری اختیار کی ، ایمان لائے پھر تقویٰ اختیار کیا اور نیک کردار بن گئے ۲۳۴*اور اللہ نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اللہ تمہاری کسی ایسے شکار کے ذریعہ آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہو گا ۲۳۵*تاکہ اللہ دیکھ لے کہ کون اس سے بن دیکھے ڈرتا ہے اور جس نے اس کے بعد (حدود سے) تجاوز کیا اس کے لئے دردناک سزا ہے۔
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !احرام کی حالت میں شکار کو نہ مارو ۲۳۶*اور جو کوئی تم میں سے قصداً مار ڈالے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سے اسی جیسا جانور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بطور قربانی کعبہ پہنچا دینا ہو گا ۲۳۷*یا یہ کفارہ دینا ہو گا کہ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا اس کے بقدر روزے رکھے ۲۳۸*تاکہ وہ اپنے کئے کا مزہ چکھ لے اس سے پہلے جو ہو چکا اس سے اللہ نے درگزر کیا لیکن جو کوئی پھر کریگا اسے اللہ سزا دیگا ۲۳۹*اللہ غالب اور سزا دینے والا ہے۔
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے لئے حلال کر دیا گیا سمندر کا شکار اور اس کی (یعنی سمند ر ی اور دریائی) غذا ۲۴۰*تاکہ تم بھی فائدہ اٹھاؤ اور قافلے وا لے بھی۔ لیکن خشکی کا شکار جب تک کہ احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے۔ اللہ سے ڈرو جس کے حضور تم سب حاضر کئے جاؤ گے۔
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے حرمت وا لے گھر کعبہ کو لوگوں کے لئے قیام کا ذریعہ بنا یا ہے ۲۴۱*اور ماہِ حرام اور قربانی کے جانوروں اور (قربانی کی علامت کے طور پر) پٹے پڑے ہوئے جانوروں کو بھی ۲۴۲*یہ اس لئے کہ تم جان لو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے او رجو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۲۴۳*۔
۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا بھی ہے اور بڑا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا بھی ۲۴۴*۔
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسول پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور (یاد رکھو) اللہ جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو او جو کچھ چھپاتے ہو۔
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہہ دو ،نا پاک اور پاک دونوں یکساں نہیں ہو سکتے اگر چہ نا پاک کی کثرت تمہیں بھلی لگے ۲۴۵*تو اے عقل والو!اللہ سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ۔
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو!ایسی باتوں کے بارے میں سوالات نہ کرو جو تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں ۲۴۶*اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوال کرو گے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ نے ان باتوں سے درگزر فرمایا ۲۴۷*اور اللہ بخشنے والا اور بردبار ہے۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی قسم کے سوالات تم سے پہلے ایک گروہ نے کئے تھے پھر وہ لوگ انہی کی وجہ سے منکر ہو گئے ۲۴۸*۔
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے نہ "بحیرہ " مقرر کیا ہے اور نہ "سائبہ " اور نہ "وصیلہ " اور نہ "حام " ۲۴۹*لیکن کافر جھوٹ گڑھ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس بات کی طرف جو اللہ نے اتاری ہے اور آؤ رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہمارے لئے تو وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے کیا یہ اس صور ت میں بھی (باپ دادا کی تقلید کرتے رہیں گے) جب ک ان کے باپ دادا نہ کچھ جانتے ہوں اور نہ ہدایت پر رہے ہوں ؟۲۵۰*
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !اپنی فکر کرو۔ اگر تم ہدایت پر ہو تو دوسروں کا گمراہ ہونا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۲۵۱*تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو !جب تم میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہو تو وصیت کے وقت تمہارے درمیان شہادت (کی صورت) یہ ہے کہ تم میں سے دو عادل (معتبر) آدمی گواہ بنائے جائیں ۲۵۲*یا اگر تم سفر میں ہو اور موت کی مصیبت آ پہنچے تو غیر مسلموں میں سے دو آدمیوں کو گواہ بنایا جائے ۲۵۳* (پھر) اگر تمہیں شک ہو جائے تو انہیں نماز کے بعد روک لو۲۵۴* اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم کسی قیمت پر بھی شہادت کا سودا نہیں کریں گے خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے اگر ہم نے ایسا کیا تو گنہگار ہوں گے ۲۵۵*۔
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اگر معلوم ہو جائے کہ وہ دونوں گناہ (حق تلفی) کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور شخص جو شہادت دینے کے زیادہ اہل ہیں ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کی حق تلفی ہوئی ہے ۲۵۶*اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے زیادہ درست ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی ہے اگر ہم ایسا کریں تو ظالم ہوں گے ۲۵۷*۔
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طریقہ سے زیادہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے یا اس بات سے ڈریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد کچھ قسمیں رد نہ کر دی جائیں ۲۵۸*اللہ سے ڈرو اور سنو۔ اللہ نافرمانی کرنے والوں کو راہ یاب نہیں کرتا۔
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن اللہ سب رسولوں کو جمع کرے گا اور پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا ۲۵۹*؟وہ عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں۔ تو ہی غیب کی باتوں کو جاننے والا ہے ۲۶۰*
۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ دن) جب اللہ فرمائے گا : اے عیسیٰ ابن مریم ۲۶۱*میری اس نعمت کو یاد کرو جس سے میں نے تم کو اور تمہاری والدہ کو نوازا تھا جب میں نے روح القدس۲۶۲*سے تمہاری مدد کی ، تم گہوارے میں بھی لوگوں سے کلام کرتے تھے اور بڑی عمر میں بھی ۲۶۳*اور جب میں نے تمہیں کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرندہ کی سی صورت بناتے تھے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی ۲۶۴*اور تم میرے حکم سے پیدائشی اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرتے تھے ۲۶۵*اور جب تم مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتے تھے ۲۶۶*اور جب میں نے بنی اسرائیل (کے ہاتھوں) کو تم سے روک دیا تھا ۲۶۷*جبکہ تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر پہنچے تھے اور جو لوگ ان میں سے کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کھلی جادوگری ہے ۲۶۸*
۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب میں نے حواریوں پر الہام کیا تھا ۲۶۹*کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایمان لائے اور تو گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں ۲۷۰*
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حواریوں نے کہا تھا اے عیسیٰ ابن مریم کیا آپ کا رب آسمان سے ہم پر کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے ۲۷۱*؟ (عیسیٰ نے) کہا اللہ سے ڈرو ۲۷۲*اگر تم مؤمن ہو۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ۲۷۳* ہو جائیں۔
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی اے اللہ اے ہمارے رب ۲۷۴*!ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل فرما جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید قرار پائے ۲۷۵*اور تیر ی طرف سے ایک نشانی ہو ، اور ہمیں رزق دے اور تو بہترین رازق ہے ۲۷۶*۔
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے فرمایا میں اس کو ضرور تم پر نازل کروں گا ۲۷۷*لیکن اس کے بعد جو تم میں سے کفر کریگا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا والوں میں سے کسی کو نہ دوں گا۲۷۸*۔
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب اللہ فرمائے گا : اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا ک اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو؟۲۷۹*وہ عرض کرینگے تو پاک ہے ۲۸۰*، میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا تھا جس کے کہنے کا مجھے حق نہیں ۲۸۱*اگر میں نے یہ بات کہی ہو تو وہ ضرور تیرے علم میں ہو گی۔ تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ تو ہی ہے غیب کی ساری باتیں جاننے والا۔
۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے حکم دیا تھا یہ کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ۲۸۲*میں ان کا نگرانِ حال تھا جب تک ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے قبض کر لیا (میرا وقت پورا کر دیا) ۲۸۳*تو تو ہی ان کا نگہبان تھا اور توہر چیز پر نگران ہے ۲۸۴*۔
۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تو انہیں سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے توتو غالب اور حکمت والا ہے۔
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ فرمائے گا : یہ وہ دن ہے کہ سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی ۲۸۵*ان کے لئے ایسے باغ ہیں جن کے تلے نہریں رواں ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ ہے بڑی کامیابی۔
آسمانوں اور زمین کی اور ان میں جو کچھ ہے سب کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احکامِ شریعت کے نزول کے لحاظ سے چونکہ یہ آخری سورہ ہے اس لئے اس کا آغاز ہی اس ہدایت کے ساتھ ہوا ہے کہ عقود۔ شرعی عقود۔ کی پابندی کرو۔ یہ گویا آخری عہد ہے جو اہلِ ایمان سے لیا گیا ہے کہ وہ شرعی احکام و قوانین اور حدود و قیود کی پوری پوری پابند ی کریں گے اور اس سے سرِ مو انحراف نہیں کریں گے۔
اس کے بعد اگر مسلمان شرعی احکام کو پسِ پشت ڈالتے ہیں یا شرعی حدود و قیود کی خلاف ورزی کرتے ہیں یا شرعی قوانین پر وضعی (خود ساختہ) قوانین کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ اس آسمانی ہدایت کی بھی خلاف ورزی ہے جو انہیں آخری طور سے دی گئی ہے اور اس عہد کی بھی جو انہوں نے قرآن اور پیغمبر پر ایمان لا کر اپنے رب سے باندھا ہے۔
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انعام (مویشی) کا لفظ عربی میں اونٹ ،گائے بل اور بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے اور بہیمہ کا لفظ اس سے عام ہے۔ ا س میں دوسرے چوپائے بھی داخل ہیں پس بھیمۃ الانعام سے مراد وہ چرنے والے چوپائے ہیں جو انعام (مویشی) کی قسم کے ہوں یعنی جو جگالی کرتے ہوں ،کچلیاں نہ رکھتے ہوں اور غذا وغیرہ میں مویشیوں سے مماثلت رکھتے ہوں مثلاً ہرن ، نیل گائے (وحشی گائے) وغیرہ۔
"حلال کر دئے گئے" کا مطلب یہ ہے کہ ان جانوروں کا گوشت کھانا، دودھ پینا، ان کی جلد، ہڈی اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز کر دیا گیا لہٰذا اوہام کی بنیاد پر ان کو ذبح کرنے یا ان کا گوشت کھانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس حلت سے مستثنیٰ وہ جانور ہیں جن کی حرمت کا حکم اس سے پہلے قرآن میں بیان کیا جا چکا ہے اور آگے آیت نمبر ۳ میں) بیان کیا جا رہا ہے۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خانۂ کعبہ کی زیارت (حج یا عمرہ) کرنے والے پر لباس وغیرہ کی مخصوص پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ ان پابندیوں میں داخل ہونے کا نام حالتِ احرام ہے۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نو ٹ نمبر ۲۸۴
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالت احرام میں خشکی کا شکار ممنوع ہے اس کی صراحت آیت نمبر ۹۶ میں ا رہی ہے۔
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کو حکم دینے کا مطلق اختیار ہے اور بندوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کے کسی حکم پر چوں و چرا کریں۔ اللہ کے احکام اگر چہ کہ مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ امتحان کے مقصد سے مصلحت کو مخفی رکھ دیا گیا ہو اس لئے انسان کے لئے صحیح ا ر مناسب رویہ یہی ہے کہ وہ خدا کی ،بے چون و چرا اطاعت کرے۔
حکم دینے کا مطلق اختیار صرف اللہ ہی کو ہے لہٰذا جو شخص بھی اس کے ٹھہرائے ہوئے حلال و حرام سے بے پرواہ ہو کر اپنے کو یا کسی شخصیت کو یا جمہور کو مطلق طور پر حکم دینے کا مجاز سمجھتا ہے و ہ در حقیقت اس بات کی نفی کرتا ہے کہ یہ اختیار اللہ کے لئے مخصوص ہے اور اس کا یہ طرز عمل سراسر مشرکانہ اور کافرانہ ہے۔
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شعائر کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۱۹۰۔
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حرمت کے مہینوں کی تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۶۹۔
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن جانوروں کو قربانی کی غرض سے بیت اللہ کی طرف لے جایا جاتا تھا ان کی گردنوں میں پٹے ڈال دئے جاتے تھے تاکہ وہ پہچان لئے جائیں اور کوئی ان سے تعرض نہ کرے۔ یہ پٹے عموماً درخت کی چھال کے ہوتے تھے اور اونٹ اور گائے کی گردنوں میں ڈالے جاتے تھے بکرے عام طور سے اس سے مستثنیٰ تھے۔ گویا قربانی کے جانوروں کی دو قسمیں تھیں۔ ایک پٹے پڑے ہوئے ، دوسرے بغیر پٹوں کے۔ یہاں دونوں کی بے حرمتی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ گویا پٹے پڑے ہوئے جانوروں کا ذکر بطورِ تاکید کے ہے کہ جب ان کے گلے میں قربانی کی علامت موجود ہے تو ان سے تعرض کرنے کے لئے کیا عذر ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت مدینہ کے اطراف سے بیت اللہ کے زائرین کے قافلے گزرتے تھے اور حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ مسلمان کوئی ایسا اقدام نہ کر بیٹھیں جس سے شعائر اللہ کی بے حرمتی ہوتی ہو اس لئے سختی کے ساتھ اس کی ممانعت کی گئی۔
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ حج یا عمرہ کے ارادہ سے نکلے ہوں وہ احترام کے مستحق ہیں کیوں کہ ان کا یہ سفر اللہ کے فضل اور اس کی رضا کی طلب ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کرنا یا انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچانا سخت گناہ کا کام ہے۔ اس حکم میں جو عمومیت پائی جاتی ہے وہ ا س وقت کے حالات کے لحاظ سے تھی کیوں کہ اس وقت حج مسلمان ہی نہیں کرتے تھے ، بلکہ عرب کے گوشہ گوشہ سے لو حج کے لئے آیا کرتے تھے۔ بعد میں جب سورۂ توبہ کی آیت۔ (مشرک نجس ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔ تو بہ ۲۸) نازل ہوئی تو اس نے اس حکم کو مسلمان زائرین کے لئے خاص کر دیا۔
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے کفار مکہ کی طرف جنہوں نے مسلمانوں کو حج اور عمرہ سے روک دیا تھا۔
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ شرعی حدود کو پھاند ڈالو اور نہ عدل و انصاف کے خلاف کوئی کام کرو۔
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بہت بڑی اصولی بات ہے جو اس آیت میں ارشا ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا دستور العمل یہ ہونا چاہیے کہ وہ نیکی اور خدا ترس کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاون ہیں اور گناہ اور زیارتی کے کاموں میں کسی کے بھی معاون نہیں۔ یہ اصولی موقف انہیں ہر جگہ اور ہر میدانِ عمل میں اختیار کرنا چاہئے خواہ وہ کسی ملک میں رہتے ہوں اور معاملات مذہبی و اخلاقی نوعیت کے ہوں یا سیاسی و بین الاقوامی نوعیت کے ، ان کی اجتماعی پالیسی اسی اصول پر مبنی ہونی چاہئے نہ کہ منافقانہ طرز کی ڈپلومیسی پر۔
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اللہ کا تقویٰ اختیار نہ کرو تو وہ سخت سزا دے گا۔
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردار کی تشریح سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۰ میں گزر چکی۔
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۱۔
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۲۔
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۱۳۔
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلا گھٹنے کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ جانور کی گردن کسی چیز میں پھنس گئی ہو ،جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو جائے اور دوسری صورت یہ کہ گلا دبا دینے سے وہ مر گیا ہو۔
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوٹ کھا کر مرنے کی بھی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً لاٹھی کی مار سے مر جانا ،دیوار یا چھت کا جانور پر گر پڑنا یا موٹر وغیرہ کے حادثہ کا شکار ہونا۔
موجودہ زمانہ میں ذبح کرنے کا ایک نیا طریقہ رواج پا رہا ہے۔ چنانچہ جانور کو ذبح کرنے سے پہلے الکٹرک شاک، (Electric Shock) دے کر بے ہوش کر دیا جاتا ہے۔ جسے (Stunning) کہتے ہیں۔ یہ شاک با لعموم معمولی قوت کا ہوتا ہے اس لئے اس سے جانور مرتا نہیں بلکہ صرف بے ہوش ہو جاتا ہے اور اسی بیہوشی کی حالت میں اسے ذبح کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ شاک زیادہ قوت کا ہو تو جانور کی موت ذبح کرنے سے پہلے ہی واقع ہو گئی ، اور ایسی صورت میں اس پر بھی موقوذہ (چوٹ کھا کر مرا ہو ا) کا اطلاق ہو گا کیوں کہ اس کی موت شاک لگنے سے ہوئی نہ کہ ذبح کرنے سے۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس کی موت کنویں میں گر جانے سے یا پہاڑی وغیرہ سے گر کر ہوئی ہو۔
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو کسی جانور کے سینگ مار نے کی وجہ سے زخمی ہو کر مر گیا ہو۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی درندے نے پھاڑ کر اس کا کچھ حصہ کھا لیا ہو۔
" رہی درندے کے پھاڑ کھائے ہوئے جانور کی حرمت تو اس معاملہ میں انسان کی بزرگی ملحوظ رہی ہے اور اسے درندے کے پھاڑ کھائے ہوئے ،گائے وغیرہ کو کھا لیا کرتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا پس خوردہ مومنوں پر حرام کر دیا۔
اسلام میں حلال و حرام۔ از یوسف قرضاوی ص ۶۶)
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جانور ذبح کر نے ہی سے حلال ہوتا ہے اور ذبح کرنے سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے کہ رگیں کٹ جائیں اور جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔ جھٹکا کرنے سے دماغ کا تعلق جسم سے فورا ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے خون اچھی طرح خارج نہیں ہوتا بلکہ گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اسلئے جھٹکے کا طریقہ غیر شرعی ہے۔
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نصب (استھان) وہ پتھر تھے جن پر مشرکین اپنے معبودوں کے تقرب کے لئے جانور ذبح کیا کرتے تھے۔ چونکہ یہ مقامات غیر اللہ کی نذر و نیاز کے لئے مخصوص تھے اس لئے ان مقامات کے ذبیحہ کو حرام قرار دیا گیا خواہ ذبح کرتے وقت جانور پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔ اس کی حرمت کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اسے استھان پر ذبح کیا گیا ہے۔ اسی لئے ما اہل بغیر اللہ بہ (جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو) کے بعد نصب (استھان) کے ذبیحہ کا ذکر علیحدہ سے کیا گیا۔
اس حکم کا اطلاق ان قربانیوں پر بھی ہوتا ہے جو بزرگوں کے آستانوں یا اولیا ء کے مزاروں پر ان کا تقرب اور خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے پیش کی جاتی ہیں نیز اس سے اہلِ بدعت کے اس دعوے کی تردید ہوتی ہے کہ جانور کو کسی بزرگ یا ولی کی نیاز کے لئے نامزد کر نا جائز ہے اور ایسا ذبیحہ حلال ہے اگر ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہ در اصل قرآن کے واضح حکم سے انحراف ہے کیوں کہ قرآن نے صرف اس ذبیحہ کو حرام نہیں قرار دیا جس پر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو بلکہ ایسے ذبیحہ کو بھی حرام قرار دیا جو استھان پر ذبح کیا گیا ہو۔ قطع نظر اس سے کہ اس کو استھان پر ذبح کرنا اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ وہ غیر اللہ کے تقرب کے لئے ہے۔ لہٰذا جو جانور کسی بزرگ یا ولی کا تقرب حاصل کرنے کے لئے یا جن وغیرہ کو بھینٹ چڑھانے کے لئے ذبح کیا جائے وہ کس طرح جائز ہو گا ؟شرک بہر حال شرک ہے ، خواہ بت پرستی کی شکل میں ہو یا اولیاء پرستی کی شکل میں۔
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب جاہلیت میں مشرکانہ فال گیر ی کا طریقہ رائج تھا۔ اس غرض کے لئے مشرکین مکہ نے تین قسم کے تیر ہبل دیوتا کے استھان میں رکھ دئیے تھے۔ جن میں سے ایک پر لکھا ہوا تھا یہ کام کر و، دوسرے پر تھا نہ کرو اور تیسرا خالی ہوتا۔ فال نکالنے پر جو تیر نکل آتا اس کو غیب کا حکم سمجھ کر اس کے مطابق عمل کیا جاتا اور اگر خالی نکل آتا تو دو باہ فال نکالی جاتی یہ تیر قمار بازی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ اس طرح یہ فال گیری شرک ، توہم پرستی اور قمار بازی کا بہت بڑا ذریعہ تھی اس لئے اس کو حرام قرار دیا گیا۔
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس حکم کے اطلاق ہر اس فال گیر ی پر ہوتا ہے جو شرک اور توہم پرستی کا ذریعہ ہو خواہ اس کے لئے تیر استعمال کئے جائیں یا کوئی اور چیز اور خواہ اس سے چور کا پتہ معلوم کرنا ہویا بیمار کا حال۔ غیبی امور کو معلوم کرنے کے لئے فال گیری کا طریقہ اختیار کرنا توہم پرستی کے سو ا کچھ نہیں ہے۔
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافروں کے مایوس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اب جب کہ شریعت کی تکمیل ہو گئی ہے اور ا سلام کو اقتدار بھی حاصل ہو گیا ہے ، دشمنانِ اسلام کو امید نہیں رہی کہ وہ اسلام کو مہِ کامل بننے سے روک سکیں گے یا اسے مٹانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ لہٰذا ان سے ڈر کر شرعی احکام کی تعمیل میں مداہنت (نرمی) برتنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اب اسلام اپنا لوہا منوا چکا ہے لہٰذا تمہارا کام شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کرنا اور اسلامی قوانین پر کسی مفاہمت کے بغیر کار بند ہونا ہے۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج " سے مراد کوئی مخصوص دن نہیں بلکہ وہ زمانہ ہے جس میں شریعت کی تکمیل ہوئی۔ تکمیل کا یہ مرحلہ صلح حدیبیہ کے بعد سے یعنی ذی قعدہ ۰۶ ھ سے شروع ہوتا ہے ، جو اوائل ۰۱۱ ھ تک رہ ا۔ حجۃ الوداع (ذی الحجہ) ۱۰ ھ کے موقع پر شریعت بیضاء نے ماہ کامل کی شکل اختیار کر لی تھی اور تکمیل دین کا اعلان پوری شان و شوکت کے ساتھ ہوا تھا اور اس آیت کریمہ کی صداقت کا ظہور اس طرح ہوا تھا کہ گویا یہ آیت اسی دن نازل ہوئی تھی ،اسی لئے راویوں نے اس آیت کے نزول کو اس دن کے نزول پر محمول کیا۔ ورنہ سلسلۂ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حلت و حرمت کے بیان کا ایک جزء ہے اور اس کا نزول حجۃ الوداع سے کافی پہلے ہو گیا تھا۔
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دین کو مکمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قصرِ دین کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ اس میں نہ تو کوئی خلا رہ گیا ہے اور نہ کسی اضافہ کی گنجائش ہے۔ بنی نوع انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کو جو ہدایت دینا تھی وہ دے چکا اور جو نظامِ عبادت و اطاعت نازل کرنا تھا وہ نازل کر چکا۔ اب اس دین کو اسی شکل میں قیامت تک باقی رہنا ہے۔ اور اقوامِ عالم کے لیے یہی مینارۂ ہدایت ہے۔
دین اسلام کی یہ تکمیل شان دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
ایک یہ کہ یہ دین زندگی کے تمام گوشوں کو محیط ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک کے لئے جس رہنمائی کی ضرورت تھی اور انفرادی اجتماعی زندگی کے لئے جو آسمانی ہدایات مطلوب تھیں ان سب کا اہتمام اس دین میں کیا گیا ہے لہٰذا جس شان کا یہ دین ہے اسی شان کا اس کے پیروؤں کو بھی ہونا چاہیے یعنی یہ کہ وہ کسی تفریق و تقسیم کے بغیر اس کی مخلصانہ پیروی کریں ، اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی اسی کی روشنی میں بسر کریں۔ اور اس کے تقاضوں کو پورا کریں۔
دوسری حقیقت یہ کہ جب دین کی تکمیل ہو گئی تو رسالت کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا کیوں کہ دین کے مکمل ہو جانے کے بعد اور جب کہ قیامت تک اس کے تحفظ کا سامان بھی کر دیا گیا ہے کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسی لئے حضرت محمدﷺ کو سلسلۂ رسالت کے آخری کڑی قرار دیا گیا اور قرآن کو آخری کتاب۔ اس حقیقت کو حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بعثت قصرِ دین کی آخری اینٹ ہے۔
بخاری شریف کتاب احادیث الانبیاء)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : میری اور گزشتہ انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک خوبصورت اور شاندار مکان بنایا لیکن اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی جگہ چھوڑ دی۔ لو گ اس کے گر د گھومتے اور اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے البتہ (خالی جگہ کو دیکھ کر) کہتے کیا بات ہے یہاں اینٹ نہیں رکھی گئی۔ آپ ؐ نے فرمایا تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبین ہوں۔
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تکمیل دین تمہارے حق میں اتمام نعمت ہے ، کیوں کہ ایک مکمل اور جامع شریعت نے تمہارے لئے ہر شعبۂ زندگی میں حقیقی ارتقاء کی بے شمار راہیں کھول دی ہیں اور ایک ایسا چمنستان مہیا کر دیا ہے جس کا ہر پھول مشامِ جاں کو معطر کر دینے والا ہے۔
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے واحد پسندیدہ دین کے ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آخری اعلان ہے ورنہ اس سے پہلے بھی یہ بات مختلف پیرایوں میں بیان ہو چکی ہے۔ مثلاً سورہ آل عمران میں فرمایا ؛
اللہ کے نزدیک اصل دین صرف اسلام ہے۔ آل عمران۔ ۱۹) اور
اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نامراد ہو گا۔ آل عمران۔ ۸۵)
یہاں تکمیل دین کے اعلان کے ساتھ اسلام کے پسندیدہ دین ہونے کا اعلان گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری انتباہ ہے کہ اسلام کے ایک مکمل دین کی حیثیت سے ظہور میں آنے کے بعد بھی جو لوگ دوسرے مذاہب سے چمٹے رہیں گے وہ اپنی گمراہی کے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ طلوعِ آفتاب کے بعد ٹمٹماتے ہوئے دئے بیکار ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی شخص کو اپنے دئے سے ایسی محبت ہو کہ وہ سورج کی روشنی کو دیکھنا بھی پسند نہ کرے تو اس کی یہ عصبیت اسی کے خلاف پڑے گی اور اس کے حصہ میں محرومی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شریعت مطہرہ میں حقیقی مجبوریوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ ان کا لحاظ کرتے ہوئے رخصتیں دے دی گئی ہیں۔ لہٰذا یہاں جن چیزوں کی حرمت بیان کی گئی ہے ان کے سلسلہ میں یہ رخصت موجود ہے کہ اگر واقعی کوئی شخص بھوک سے مجبور ہو جائے اور جان بچانے کے لئے بقدر ضرورت کوئی حرام چیز کھا لے تو وہ گنہگار نہ ہو گا لیکن یاد رہے کہ جو شخص اس رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھا گا اور حرام کھانے کا خواہش مند ہو گا تو اس پر ضرور گرفت ہو گی۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طیبات (پاکیزہ چیزوں) سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کو نہ شریعت نے حرام ٹھہر یا ہے اور نہ جن کو انسان کی فطرتِ سلیمہ ہی خبیث قرار دیتی ہے۔
سوال جانوروں کے تعلق سے تھا اس لئے اس کے جواب میں جو بات ارشا د ہوئی ہے اس سے واضح ہوا کہ جانوروں کا گوشت کھانے کے معاملہ میں نہ شرعی پابندیوں سے آزاد ہونا صحیح ہے اور نہ وہمی پن میں مبتلا ہو کر گوشت خوری سے پرہیز کرنا بلکہ انسان کے لئے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ وہ شرعی پابندیوں کا لحاظ کرتے ہوئے پاک جانوروں کا گوشت کھائے۔
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شکاری جانوروں سے مراد وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کا کام لیتا ہے مثلاً کتے ، چیتے ، باز ، شکرے وغیرہ۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدھا ہوا یعنی جن جانوروں کو تم نے شکار کی ٹریننگ دی ہو۔ ایسا جانور جس جانور کا شکار کرتا ہے اسے پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لئے روک رکھتا ہے۔ اس لئے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار حلال ہے۔
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جانوروں کو شکار کی جو تعلیم دیتا ہے وہ اس علم کی بناء پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بخشا ہے لہٰذا اس نعمتِ خداوندی پر اسے اللہ کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس شکاری کو وہ خود نہ کھائیں بلکہ تمہارے لئے روک رکھیں اس کو تم کھا سکتے ہو۔
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شکاری جانور کو چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ عدی بن حاتم نے نبیﷺ سے پوچھا کہ کیا میں کتے ذریعہ شکار کر سکتا ہوں ؟آپؐ نے فرمایا اگر اس کو چھوڑتے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاؤ کیوں کہ اس نے شکار کو تمہارے لئے نہیں پکڑا ہے بلکہ اپنے لئے پکڑا ہے۔ (بخاری کتاب الذبائح والصید)
شکار کے سلسلہ میں یہاں جو احکام بیان ہوئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے مانوس جانوروں کو ذبح کرنے کا جو طریقہ مقرر کیا ہے یعنی حلق کے ایک حصہ کو کاٹ دینا جیسا کہ بھیڑ بکری کو ذبح کیا جاتا ہے یا لبہ کو کاٹ دینا جیسا کہ اونٹ کو ذبح کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ایک خاص طریقہ اس نے شکار کے حلال ہونے کے لئے بھی مقرر کیا ہے اور وہ ہے تربیت یافتہ شکاری جانور کو اللہ کا نام لے کر شکار کے لئے چھوڑ دینا۔ یہ چھوڑ ا ہوا شکاری جانور اگر پاک جانوروں میں سے کسی کا شکار کرے یعنی اسے مار ڈالے لیکن شکار کو خود نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لئے پکڑ رکھے تو وہ اسے کھا سکتا ہے اور اگر وہ زندہ حالت میں مل جائے تو اس صورت میں لازما اللہ کا نام لے کر ذبح کر نا ہو گا۔
وہ اگر شکار کو تمہارے لئے روک رکھے اور تم اسے زندہ پاؤ تو ذبح کرو۔
واضح رہے کہ شکار عربوں کے ہاں محض تفریح طبع کا سامان نہ تھا بلکہ گز ر بسر کا ایک اہم ذریعہ تھا خاص طور سے وہ سفر میں اس پر گزارہ کرتے تھے اس لئے قرآن نے شکار کے بارے میں شرعی احکام واضح کر دئے تاکہ اس معاملہ میں انسان کی صحیح رہنمائی ہو۔ چنانچہ اس نے مانوس جانوروں کو ذبح کرنے کے لئے جو طریقہ مقرر کیا ہے اس سے نسبتا ً آسان طریقہ غیر مانوس جانوروں کو شکار کی صورت میں ذبح کرنے کا مقرر کیا ہے۔
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تنبیہ ہے کہ اگر شکار کے شوق میں تم نے شرعی حدود کی پرواہ نہیں کی تو خدا کے ہاں گرفت ہو گی لہٰذا اس سے ڈرو اور شرعی حدود کو نہ توڑو۔
۴۱ "۔ "آج " سے مراد وہ زمانہ ہے جب کہ دین اسلام اپنے تکمیلی مرحلہ میں داخل ہو گیا اس موقع پر اعلان کر دیا گیا کہ اللہ کی نازل کردہ اس آخری شریعت میں تمام پاکیزہ چیزوں کو حلال اور صرف نا پاک چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے سابقہ شریعتوں میں مخصوص حالات کی بناء پر جو پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں ان سب کو ختم سمجھنا چاہئے۔ اسی طرح جو پابندیاں اہلِ مذاہب نے توہم پرستی کی بنا پر عائد کر رکھی ہیں مثلاً گوشت خوری ہی کو انہوں نے سرے سے حرام قرار دیا تو اس قسم کی تمام پابندیاں تکمیلِ شریعت کے بعد از خود کالعدم ہو گئی ہیں۔
شریعت محمدیہ کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے حلال و حرام کے سلسلہ میں انسان کو تمام غیر ضروری پابندیوں سے آزاد کر دیا ہے اور تمام پاکیزہ کھانوں کے دستر خوان بچھا کر پوری انسانیت کو اس سے مستفید ہونے کی دعوت دی ہے۔
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیاقِ کلام سے واضح ہے کہ یہاں اہلِ کتاب کے کھانے (طعام) سے مراد ان کا (یعنی یہود و نصاریٰ کا) ذبیحہ ہے جب کہ وہ پاک جانور کا ہو اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر وہ نا پاک جانور کا گوشت پیش کریں تو وہ مسلمانوں کے لئے حلال ہو گا اور نہ ہی اس کا یہ مطلب لینا صحیح ہو گا کہ وہ اپنے ذبیحہ پر اللہ کا نام لیں یا نہ لیں مسلمان اسے کھا سکتے ہیں اس قسم کا مطلب نکالنے کی یہاں مطلق گنجائش نہیں ہے کیوں کہ اگر ایک مسلمان بھی دانستہ اللہ کا نام لینا ترک کر دے تو اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہو گا کجا یہ کہ کسی یہودی یا نصرانی کا ذبیحہ حلال ہو جب کہ وہ اس کو اللہ کے نام سے ذبح نہ کرے۔
رہا مشینی ذبیحہ جو موجودہ زمانہ کی ایجاد ہے ، تو یہ محض گردن اڑا دینے کا عمل ہے اور یہ عمل اللہ کا نام لینے کی قید سے بھی آزاد ہے اس لئے اس پر شرعی ذبیحہ کا اطلاق نہیں ہوتا خواہ مشین چلانے والا مسلمان ہو یا کتا بی۔
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ یہود پر ان کی سر کشی کی وجہ سے جو چیزیں حرام کر دی گئی تھیں وہ آخری نبی کے ظہور اور آخری شریعت کے نزول کے بعد حرام نہیں رہیں لہٰذا اب ان کے لئے کھانے پینے کے سلسلہ میں صرف وہی پابندیاں ہیں جو شریعت محمدیہؐ میں مسلمانوں پر عائد کر دی گئی ہیں یعنی خبیث اور نا پاک چیزیں اس لئے مسلمانوں کا ذبیحہ کھانے میں ان کے لئے قانونِ خداوندی کی رو سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے یہ اعلان در اصل اہلِ کتاب کے لئے آسانی کی راہ کھول دینے والا ہے بشرطیکہ وہ اس کی قدر کریں۔
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد یہودو نصاریٰ کی عورتیں ہیں ان سے نکاح کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی ہے کہ وہ پاکدامن ہوں۔ بد چلن اور آوارہ کتابی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت نہیں ہے۔
ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قرآن کی اس اجازت کے پیشِ نظر متعدد صحابہ نے نصرانی عورتوں سے نکاح کر لیا تھا اور اس میں انہوں نے کوئی حرج محسوس نہیں کیا (تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۲۰)
کتابی عورتوں سے نکاح کی اجازت اصل میں اس بنا پر دی گئی ہے کہ اس صورت میں ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے امکانات قوی ہیں لیکن اگر اس کے برعکس شوہر یا اولاد کے کافرانہ تہذیب سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اس رخصت سے فائدہ اٹھانا صحیح نہ ہو گا چنانچہ آگے یہ تنبیہ بھی کر دی گئی ہے کہ جو اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا وہ تباہ حال ہو گا۔
مسلمان مردوں کو یہودی اور نصرانی عورتوں سے نکاح کی اجازت دینے اور مسلمان عورتوں کو یہودیوں اور نصرانیوں سے نکاح کی اجازت نہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ مرد عورت کے لئے قوام کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے اس پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اسلام کے طرزِ معاشرت کو گھر میں قائم رکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ صحیح معنی میں مسلمان ہو بخلاف اس کے عورت مرد کی دست نگر ہوتی ہے اس لئے اگر ایک مسلمان عورت کسی یہودی یا نصرانی مرد کی بیوی ہو تو اس کا عقیدۂ توحید پر قائم رہنا اور اسلامی طرزِ معاشرت کو اختیار کئے رہنا مشکل ہو گا۔ اس واضح حقیقت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسلام کے اس حکم پر ناک بھوں چڑھاتا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اسلام کی فطر ت غلبہ چاہتی ہے اس لئے وہ کسی دائرہ میں بھی مغلوبیت کی پوزیشن کو قبول نہیں کرتا۔ الا اسلام یعلو ولا یعلیٰ
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان کے ساتھ کفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دعویٰ تو اپنے مسلمان ہونے کا کرے لیکن عملاً ایسی روش پر چل پڑے جو ایمان کے منافی ہو۔
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس انتباہ کا مطلب یہ ہے کہ کتابی عورتوں سے نکاح کی جو اجازت دی گئی ہے اس سے جو شخص فائدہ اٹھانا چاہے وہ اس بات سے ہوشیار رہے کہ کہیں یہ رشتہ اس کے دین و ایمان کے لئے فتنہ کا باعث تو نہیں بنے گا۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب نماز کا قصد کرو۔
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کے لئے طہارت حاصل کرنا ضروری ہے اور طہارت کا جو طریقہ یہاں بتایا گیا ہے اس کو شرعی اصطلاح میں وضو کہتے ہیں۔ ا س حکم کی جو تشریح نبیﷺ نے فرمائی ہے اس کے مطابق وضو کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہاتھ پہنچوں تک دھوئے جائیں ، اس کے بعد منہ میں پانی ڈال کر کلی کی جائے ، پھر منہ دھو لیا جائے اس کے بعد دایاں ہاتھ اور پھر بایا ں ہاتھ کہنیوں تک دھو لیا جائے ،پھر پانی سے سر کا مسح کیا جائے ، اور دونوں کانوں کو بھی مسح میں شامل کر لیا جائے ، اخیر میں پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں ٹخنوں تک دھو لیا جائے۔ وضو کے سلسلہ میں طویل مباحث سے قطع نظر چند ضروری باتوں کی وضاحت یہاں کی جاتی ہے۔
۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وضو کے اعضاء کو ایک مرتبہ دھونے سے وضو ہو جاتا ہے لیکن تین تین مرتبہ دھونا بہتر ہے۔
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ میں کہنیاں اور پاؤں میں ٹخنے دھونا بھی شامل ہے۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسح بہتر ہے کہ پورے سرکا کر لیا جائے اور ساتھ ہی کانوں کے اندرونی اور بیرونی حصہ کا بھی مسح کر لیا جائے۔
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وضو کے اعضاء اس طرح دھوئے جائیں کہ کوئی حصہ خشک نہ رہنے پائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے پاؤں ٹھیک سے نہیں دھوئے تھے اس لئے ان کی ایڑیاں خشک رہ گئی تھیں آپؐ نے فرمایا:ویل للاعقاب من النار (مسلم کتاب الطہارۃ) یعنی ان ایڑیوں پر افسوس جو (خشک رہنے کی وجہ سے) آگ میں جلیں گی۔
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاؤں کے سلسلہ میں بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انکا مسح کر لینا کافی ہے جب کہ قرآن و سنت کی روسے دھو لینا ضروری ہے۔ اگر مسح کر لینا کافی ہوتا تو الی الکعبین "ٹخنوں تک " کی قید نہ ہوتی اور نہ ایڑیاں خشک رہ جانے پر وہ وعید سنائی جاتی جس کا ذکر اوپر حدیث میں ہوا۔
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک نماز کے لئے جو وضو کیا گیا وہ جب تک کہ ٹوٹ نہیں جاتا دوسری نمازوں کے لئے کافی ہے۔
رہی وضو کی حکمت و مصلحت تو اس سے نہ صرف یہ کہ ظاہری نظافت حاصل ہوتی ہے بلکہ یہ باطنی پاکیزگی کے حصول کا بھی ذریعہ ہے چنانچہ وضوء کرنے سے گناہ جھڑنے لگتے ہیں اور آدمی اپنے کو طہارت کی حالت میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بندہ مومن جب وضوء کرتا ہے تو چہرہ اور ہاتھ ، پاؤں سے پانی کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ساقط ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔
حتی یخرج نقیا من الذنوب (مسلم کتاب الطھارۃ)
اور قیامت کے دن وضو کے اثر سے چہرہ اور ہاتھ پاؤں روشن ہوں گے۔
ان امتی یاتون یوم القیامۃ غُرًّا مُحَجَّلِیْنَ مِنْ اَثَرِ الوُضُوْئِ
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنابت کی تشریح سورہ نساء نوٹ ۹۹ میں گزر چکی۔
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ نساء نوٹ ۱۰۱
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیمم کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۱۰۲ میں گزر چکی۔
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وضو اور غسل کی پابندیاں تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں ہے بلکہ پاکیزہ بنانے کے لئے عائد کی گئی ہیں۔ جسم کی پاکیزگی نفس کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے اس لئے وضو، غسل اور تیمم کا طریقہ بتا کر اللہ نے اپنی نعمت اہلِ ایمان پر تمام کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تمہیں تنگی میں ڈالے۔ یہ ایک بہت بڑا رہنما اصول ہے جو یہاں بیان ہوا ہے۔ اس سے طہارت کے باب میں یہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے کہ پاکیزگی حاصل کرنے کے جو طریقے اسلام نے بتلائے ہیں ان پر اگر نیک نیتی کے ساتھ اور سیدھے سادے طریقہ پر عمل کیا جائے تو یہ حصولِ طہارت کے لئے کافی ہو گا۔ ان طریقوں میں تشدد پیدا کرنا ، شارع کا منشاء ہر گز نہیں ہے۔ لہٰذا فقہی موشگافیوں کے نتیجہ میں جو تشددات پیدا ہو گئے ہیں وہ در اصل غیر ضروری پابندیاں ہیں جو لوگوں نے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں۔
۔ مراد وہ فضل ہے جو کامل شریعت نازل کر کے اہلِ ایمان پر کیا گیا۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ ذمہ داری ہے جس کو قبول کر کے آدمی دینِ اسلام میں داخل ہوتا ہے ، یعنی یہ بات کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا۔ کلمۂ شہادت کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے اور صراحت کے ساتھ بھی یہ عہد پیغمبر کے واسطہ سے اہلِ ایمان سے لیا گیا ہے۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس بات سے ڈرو کہ شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اللہ کے ہاں اس کی سخت سزا تمہیں بھگتنا ہو گی۔
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری ساری تگ و دو اللہ کے لئے ہونی چاہئے اور تمہاری تمام سر گرمیوں کا محور و مرکز رضائے الٰہی کا حصول ہو۔ یہ بات اہلِ ایمان سے فرداً فرداً بھی مطلوب ہے اور اجتماعی طور سے بھی۔ افراد میدانِ عمل میں خلوص و للٰہیت کا ثبوت دیں اور امت مسلمہ اجتماعی طور پر دینِ حق کی علمبردار بن جائے۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۲۲۰۔
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی قوم کی دشمنی انسان کو تعصب میں مبتلا کر تی ہے جس کی وجہ سے وہ اس قوم کے ساتھ غلط رویہ اختیار کر بیٹھتا ہے پھر اس میں انصاف اور ناانصافی کی تمیز باقی نہیں رہتی لیکن امتِ مسلمہ کا تو مقصدِ وجود ہی قیام عدل ہے اس لئے اسے کسی قوم کی دشمنی سے ایسا متاثر نہیں ہونا چاہئے کہ وہ عدل کا دامن چھوڑ دے بلکہ اس کا امتیاز ی وصف یہ ہونا چاہئے کہ اپنے تمام معاملات میں حتی کہ اپنی سیاسی پالیسی میں بھی اور تمام لوگوں کے ساتھ یہاں تک کہ دشمنِ قوم کے ساتھ بھی وہ عدل و انصاف پر کار بند رہے۔
نبیﷺ کے تربیت یافتہ گروہ میں یہ وصف بدرجۂ کمال موجود تھا وہ نہ تو اپنے دشمنوں کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرتے اور نہ ان کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتے حتی کہ جنگ میں بھی وہ زیادتی کے مرتکب نہ ہوتے۔ وہ مقتولین کی لاشوں کی بے حرمتی نہ کرتے اور نہ قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کرتے۔ بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرتے اور نہ عورتوں کی عزت لوٹتے۔ اسی لئے وہ اس بات کے اہل قرار پائے کہ عدل کے ساتھ حکومت کریں اور زمین کو عدل سے بھر دیں۔
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس سازش کی طرف جو یہودی (بنی النضیر) نبیﷺ اور آپ کے اصحاب کو قتل کرنے کے لئے کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بر وقت آپ کو مطلع فرما کر محفوظ رکھا۔
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد عہدِ اطاعت ہے۔ تورات میں ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خدا کی بات ماننے اور اس عہد پر چلنے کی تلقین کی تو انہوں نے کہا " جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے وہ سب ہم کریں گے۔ (خروج ۱۹:۸) نیز استثناء میں ہے " تو نے آج کے دن اقرار کیا ہے کہ خداوند تیرا خدا ہے اور تو اس کی راہوں پر چلے گا اور اس کے آئین اور فرمان اور احکام کو مانے گا اور اس کی بات سنے گا۔
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل کے قبیلے بارہ تھے اس لئے ہر قبیلہ میں سے ایک ایک شخص کو نگراں مقرر کیا تھا تاکہ شرعی احکام پر عمل در آمد کے سلسلہ میں وہ لوگوں کی نگرانی کریں اور ان میں بگاڑ پیدا ہونے نہ دیں۔ بارہ سرداروں کا ذکر بائبل میں بھی موجود ہے ملاحظہ ہو (گنتی باب ۱۳ استثناء ۱: ۳۲)
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خدا جس قوم کے ساتھ ہوتا ہے اس کے ساتھ لازما اس کی تائید و نصرت ہوتی ہے۔
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کو جو شریعت دی گئی تھی اس میں نماز اور زکوٰۃ کو بنیادی اہمیت حاصل تھی لیکن جہاں تک موجودہ تورات کا تعلق ہے اس میں زکوٰۃ کا ذکر تو ہے لیکن نماز کو اس کے صفحات سے بالکل غائب کر دیا گیا ہے۔
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھی آئیں گے ان پر تم ایمان لاؤ گے اور ان کی تائید و حمایت کرو گے۔ اس میں آخری رسول حضر ت محمدﷺ پر ایمان لانا اور آپؐ کی مدد کرنا بھی شامل ہے اور خاص طور سے اشارہ اسی کی طرف ہے۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ انفاق زکوٰۃ کے علاوہ ہے کیوں کہ زکوٰۃ کا ذکر اوپر گزر چکا۔ زکوٰۃ کے علاوہ مزید انفاق کی ضرورت جہاد کے لئے بھی ہو سکتی ہے اور دعوتِ دین کی اشاعت کے لئے بھی۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۳۸۱۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن بنیادی اوصاف کا اوپر ذکر ہوا وہ اگر انسان اپنے اندر پید ا کر لے تو اس کی کمزوریاں اور برائیاں زائل ہونے لگتی ہیں۔
نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں (ہود ۱۱۴) اور جو قصور اور لغزشیں اس سے سرزد ہو گئی ہوں اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دیتا ہے۔
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد جنت کے سدا بہار باغ ہیں۔
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان واضح ہدایات کے بعد بھی جس نے کفر کی روش اختیار کی اور محمدﷺ کی رسالت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اس نے اصل شاہراہ جو خدا تک پہنچنے کی واحد راہ ہے اور جس کا نام اسلام ہے اپنے اوپر گم کر دی۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو قوم اللہ کے عہد کو توڑ دیتی ہے وہ لعنت کی مستحق ہو جاتی ہے اس کے بعد دل کی اثر پذیری باقی نہیں رہتی اور تذکیر و نصیحت کی باتیں بے اثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔
بائبل کی کتاب زکریا ہ میں بنی اسرائیل کی سنگ دلی کی تصویر اس طرح پیش کی گئی ہے۔
"اور انہوں نے اپنے دلوں کو الماس کی مانند سخت کیا تاکہ شریعت اور اس کلام کو نہ سنیں جو رب الافواج نے گزشتہ نبیوں پر اپنی روح کی معرفت نازل فرمایا تھا اس لئے رب الافواج کی طرف سے قہر شدید نازل ہوا۔ (زکریا ۷:۱۲) ۔
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بات ہوتی کچھ ہے اور بنا کچھ دیتے ہیں جب دل سخت ہو جاتے ہیں تو ان میں قبولِ حق کی استعداد باقی نہیں رہتی ایسے لوگوں کے سامنے حق بات آ جاتی ہے تو اسے اپنی خواہشات کے خلاف پا کر ایسے معنی پہنانے لگتے ہیں جو نہ سیاقِ کلام سے مناسبت رکھتے ہیں ، اور نہ منشائے کلام سے۔
یہود کتاب الٰہی میں جس قسم کی تحریفات کرتے تھے اس کی وضاحت سورہ بقرہ نو ٹ ۹۶ میں کی جا چکی ہے۔
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہوں نے تورات کو جس کے ذریعہ انہیں نصیحت کی گئی تھی محفوظ نہیں رکھا بلکہ اس کے ایک حصہ کو وہ بھلا بیٹھے چنانچہ موجودہ تورات (بائبل) میں قیامت کی ہولناکی اور آخرت کی جز او سزا کا ذکر مشکل ہی سے ملے گا۔ البتہ دنیوی عذاب اور انعامات کا ذکر تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور شریعت کی پابندی کرنے پر جو بڑے سے بڑا انعام دینے کا وعدہ بار بار کرایا گیا وہ ملک ہے جہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں یعنی سرزمین فلسطین، ظاہر ہے کسی کتاب الٰہی کا اندازِ ترغیب و ترہیب یہ نہیں ہو سکتا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تورات کا وہ حصہ جو تذکیر آخرت پر مشتمل تھا یہود نے فراموش کر دیا۔
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب الٰہی میں تحریف امانت میں خیانت ہے۔
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہود میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس قسم کی شرارتیں نہیں کرتے۔ اور ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں قبولِ اسلام کی توفیق ہوئی۔
۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسے لوگ تکلیف و اذیت کی جو باتیں بھی کریں وہ ان سے بعید نہیں لیکن تم عالی ظرفی کے ساتھ انہیں معاف کر دو اور ان کی حرکتوں سے در گزر کرو۔
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ " نصاریٰ" مذہبِ نصرانیت کے پیروؤں کا اپنا رکھا ہوا نام ہے۔ اللہ نے تو اپنے دین کے پیروؤں کا نام جیسا کہ سورۂ حج کی آخری آیت میں ارشاد ہوا ہے "مسلمین" رکھا تھا نہ کہ نصاریٰ اور جہاں تک لفظی تحقیق کا تعلق ہے نصاریٰ نصراج کی جمع ہے جیسے ندامیٰ ندمان کی جمع ہے (الصحاح للجوہر ج ۲ص ۸۲۹) اور یہ ناصرہ کی طرف منسوب ہے جو شام کا ایک شہر ہے جہاں حضرت عیسیٰ ؑ نے سکونت اختیار کی تھی چنانچہ بائبل میں ہے:
اور ناصرہ نام ایک شہر میں جا بسا تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔ " (متی ۲:۲۳) ۔
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد عہد اطاعت ہے۔
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد انجیل ہے جس کا بڑا حصہ وہ فراموش کر بیٹھے۔
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی ہدایات کو فراموش کر دینے کا لازمی نتیجہ باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں ہیں چونکہ یہ نتیجہ قانون الٰہی کے مطابق ظہور میں آتا ہے اس لے اس بات کو "ہم نے ان کے درمیان بغض و عناد کی آگ بھڑکا دی" سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے نجات کی صورت یہی ہے کہ وہ قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لا کر اسلام کی شاہراہ پر چل پڑیں لیکن جب انہوں نے تعصب میں مبتلا ہو کر اس رہنمائی کو قبول نہیں کیا تو اللہ نے انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ وہ قیامت تک آپس میں لڑتے مرتے رہیں اور عیسائیت کی تاریخ گواہ ہے کہ ان میں مذہبی بحث و جدال کے معرکے خوب گرم رہے۔
اس واقعہ کے ذکر سے مقصود محض نصاریٰ کو متنبہ کرنا نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کو بھی آگاہ کرنا ہے کہ وہ اس سے سبق حاصل کریں ورنہ قرآن کی تعلیم کو فراموش کرنے کی صورت میں ان کے اندر بھی ملی انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ پیغمبر ان باتوں کو بے نقاب کر رہا ہے جن پر اہل کتاب نے پردہ ڈال رکھا تھا اور جن کی تجدید دین کی غرض سے کھولنے کی ضرورت تھی ان کے علاوہ بہ کثرت تحریفات ایسی ہیں جن سے براہ راست تعرض کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کی حقیقت قرآن کی اصول رہنمائی سے خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے اس لیے ایسی بہت سی باتوں کو پیغمبر نظر انداز کر دیتا ہے۔
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور (روشنی) رسول کی صفت ہے۔ مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کے ظہور سے دینِ حق کی روشن پھیل۔
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جس کی تعلیمات نہایت واضح ہیں۔ اہل کتاب نے کتاب الٰہی کی تعلیمات کو ایسا الجھا کر رکھ دیا تھا کہ ان کو سلجھانا کسی کے بس کی بات نہیں تھی لکن قرآن کی روشن تعلیمات نے ان تمام الجھی ہوئی باتوں کو ختم کر دیا۔ اس لیے قرآن کی دعوت یہ ہے کہ جن الجھی ہوئی باتوں میں اہل مذاہب گرفتار ہیں ان سے نکلنے کی راہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی روشن تعلیمات کو قبول کر لیں۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص رضائے الٰہی کو مقصود بنا کر دینِ حق کی مخلصانہ پروی کرے گا اس کی تمام الجھنیں رفع ہو جائیں گی اور وہ ہر قسم کے شر سے محفوظ رہے گا۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے غلط راہوں سے بچنے اور سلامتی کی راہوں پر چلنے کی توفیق نصیب ہو گی۔
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں اور روشنی سے مراد علم کی روشنی۔
۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راہِ راست (صراطِ مستقیم) سے مراد اسلام ہے۔
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ مسیح ابن مریم میں حلول کر گیا ہے اور حقیقت الوہیت مسیح ہی میں پائی جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر مسیح خدا کا جسمانی ظہور ہے۔
"پس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خدا نے اسی یسوع کو جسے تم نے مصلوب کیا خداوند بھی کیا اور مسیح بھی۔ " (اعمال ۲:۳۶)
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اللہ مسیح ان کی والدہ اور ساری مخلوق کو فنا کر دینا چاہے تو کون اسے اس ارادہ سے روک سکتا ہے؟ اور جب مسیح خود اپنے کو ہلاک ہونے سے روک نہیں سکتے تو وہ خدا کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ اتنی موٹی بات بھی مسیح کے پرستاروں کی سمجھ میں نہیں آتی!
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ جس طرح چاہے پیدا کر سکتا ہے۔
کسی کا بغیر باپ کے پیدا ہو جانا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ خدا ہے یا خدائی میں شریک ہو گیا ہے۔
۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے تورات اور انجیل میں بھی تحریف کی چنانچہ جہاں بنی اسرائیل کو خدا کے بندے کہا گیا تھا وہاں انہوں نے خدا کے بیٹے لکھ دیا۔
"تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو" (استثناء ۱۲:۱)
"دیکھو باپ نے ہم سے کیسی محبت کی ہے کہ ہم خدا کے فرزند کہلائے اور ہم ہیں بھی"۔ (یوحنا کا پہلا عام خط ۳:۱)
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے اس دعوے کی تردید تمہاری اپنی تاریخ سے ہوتی ہے کہ تمہاری سرکشی کی وجہ سے تمہیں کیسی سخت سزائیں دنیا میں ملتی رہی ہیں۔ دشمنوں کا ان پر مسلط ہونا، پوری قوم کو غلط بنا دینا، قتل عام، بیت المقدس کی تباہی جیسے عبرتناک واقعات کیا اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ خدا کے نزدیک نہ تو کوئی قوم چہیتی ہے اور نہ کسی گروہ کو اس نے پروانۂ نجات لکھ کر دیا ہے بلکہ وہ عمل کی بنیاد پر جزا و سزا کا فیصلہ کرتا ہے، پھر آخرت میں فصلہ عمل کی بنیاد پر کیوں نہیں ہو گا؟
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انبیاء کی نسل سے ہونے کی بنا پر کوئی قوم نجات کی مستحق نہیں قرار پاتی۔ نجات کا دار و مدار ایمان اور عمل صالح پر ہے۔
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بخشنا اور عذاب دینا کلی طور پر اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو بخشش کا مستحق سمجھے گا اسے بخش دے گا اور جس کو عذاب کا مستحق سمجھے گا اسے عذاب دے گا۔ رہا یہ سوال کہ وہ کس کو بخشش کا مستحق سمجھے گا اور کس کو عذاب کا تو اس سلسلہ میں اس نے اپنا قانون جزا و سزا قرآن میں واضح کر دیا ہے اور یہ قانون نسل کی بنیاد پر انسان اور انسان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی۔ آپ کی بعثت ۶۱۰ عیسوی میں ہوئی یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریباً پونے چھ سو سال بعد۔
اس طویل مدت میں اہل کتاب نے کتاب الٰہی میں تحریف کر کے اور اپنی بدعات کے ذریعہ جو گمراہیاں پھلائی تھیں اس کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ معلوم کرنا مشکل ہو گا تھا کہ خدا کا اصل دین کا ہے۔ ان حالات کا تقاضا تھا کہ اللہ اپنا رسول بھیجے جو ان تمام گمراہیوں کے مقابلہ میں ہدایت کی راہ واضح کرے اور لوگوں کو بتائے کہ خدا کا اصل دین یہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اسی مقصد کے لیے ہوئی۔
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اب اپنی گمراہی پر جمے رہنے کے لیے تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا۔
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خوب سمجھ لو کہ اگر اب بھ تم اپنی سرکشی سے باز نہیں آئے تو اللہ تمہیں سخت سزا دینے پر قادر ہے۔
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے بنی اسرائیل کے شاندار ماضی کی طرف۔ ان کی تاریخ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیاء سے وابستہ ہے اور یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ان کو مصر میں اقتدار نصیب ہوا۔
بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے دوسری قوموں کے مقابلہ میں یہ امتیاز بخشا کہ انہیں منصب امامت عطا کیا تاکہ وہ دینِ حق کے علمبردار بنکر شہادتِ حق کا فریضہ انجام دیں۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ ان کی غیر معمولی مدد فرماتا رہا ہے فرعون جیسے زبردست اور ظالم بادشاہ سے نجات اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت ہی کا نتیجہ تھی۔
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کنعان (فلسطین) کی سرزمین ہے اس کو مقدس سرزمین سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے دعوت اسلامی کا مرکز بنایا تھا اور بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ یہ سرزمین ان کو میراث میں دے گا۔ تورات میں ہے:
"دیکھو میں نے اس ملک کو تمہارے سامنے کر دیا ہے۔ بس جاؤ اور اس ملک کو اپنے قبضہ میں کر لو جس کی بابت خداوند نے تمہارے باپ دادا ابراہام اور اسحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر یہ کہا تھا کہ وہ اسے ان کو اور ان کے بعد ان کی نسل کو دے گا۔ " (استثناء ۱:۸)
واضح رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعوت اسلامی کے دو مرکز (Centre) قائم کئے تھے۔ ایک مکہ میں جہاں اپنے بیٹے حضرت اسمعیل کو بسایا تھا اور دوسرا کنعان (فلسطین) جہاں اپنے بیٹے حضرت اسحاق کو بسایا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب سے جن کا لقب اسرائیل ہے جو نسل چلی وہ بن اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب اپنے بیٹوں کے ساتھ حضرت یوسف کے اقتدار کے زمانہ میں مصر منتقل ہو گئے تھے وہاں سالہا سال تک رہنے کے بعد ان کی تعداد کافی بڑھ گئی مگر اس وقت فرعون ان پر حکمرانی کر رہا تھا۔ حضرت موسیٰ کو جو بنی اسرائیل ہی میں سے تھے اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بنا کر بھجا، انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے پنجہ سے چڑایا اور ہجرت کر کے سینا میں آئے۔ یہاں انہیں کوہِ طور کے دامن میں اللہ تعالیٰ نے شریعت عطاء کی۔ اس کے بعد جب وہ دشتِ فاران میں پہنچے اور فلسطین کا علاقہ قریب آیا تو انہیں حکم دیا گا کہ وہ اپنی اصل منزل کی طرف کوچ کریں جو ان کا اصل وطن ہے یعنی کنعان اور فلسطین کا علاقہ تاکہ اس کی یہ حیثیت کہ وہ مرکزِ دعوت ہے بحال ہو۔ بعد میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں اسی کے مشہور شہر یروشلم میں بیت المقدس کی تعمیر ہوئی۔
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہاں ایسے زبردست لوگ رہتے ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
بائبل میں ان کا بیان اس طرح نقل ہوا ہے:
"وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قد اور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنے ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔ " (گنتی ۱۳:۳۲، ۳۳)
۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں ان دو اشخاص کے نام یوشع اور کالب آئے ہیں اور اس کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے بارہ سرداروں کو اس مہم پر بھجا تھا کہ وہ فلسطین جا کر وہاں کے حالات معلوم کر آئیں۔ وہاں سے واپس آ کر انہوں نے مجمع عام میں بیان کیا کہ اس ملک میں تو "دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں " لیکن وہاں کے لوگ نہایت زبردست اور طاقتور ہیں۔ ان کا یہ بیان سن کر مجمع چیخ اٹھا اور واویلا کرنے لگا "اے کاش ہم مصر ہ میں مر جاتے یا کاش اس بیابان ہی میں مرتے! خداوند کیوں ہم کو اس ملک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچ لوٹ کا مال ٹھہریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہو گا کہ ہم مصر کو واپس چلے جائیں۔ " (گنتی ۱۴:۲تا۳)
اس موقع پر ان بارہ سرداروں میں سے دو سردار یوشع اور کالب اٹھے اور انہوں نے ان کی ہمت بندھانے کی بہت کوشش کی اور کہا "ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو"۔ مگر انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ "ان کو سنگسار کرو"۔ (گنتی ۱۴۔ ۱۰)
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد حضرت ہارون ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام بھائی تھے اور نبی بھی۔
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس کو فتح کر لینے کا جواب حکم دیا ہے اس کی تعمیل کے لیے قوم کسی طرح تیار نہیں ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ ایک طرف میں اور میرا بھائی ہارون ہے جو ہر طرح ترے کم کی تعمیل کے لیے آمادہ ہیں اور دوسری طرف قوم ہے جو نافرمان پر تل گئی ہے۔ ایسی صورت میں تو ہی فیصلہ فرما کہ ،ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اور اگر تیرا غضب اس پر بھڑکنے والا ہو تو ہمیں اس سے علیحدہ رکھ۔
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ بنی اسرائیل کو اس کی نافرمانی کی سزا ہ ملے کہ وہ چالیس سال تک ارض مقدس میں داخل نہیں ہو سکیں گے بلکہ بیابان میں مارے مارے پھریں گے۔ تورات میں ہے:
"اور تمہارا حال یہ ہو گا کہ تمہاری لاشیں اس بیان میں پڑی رہیں گی اور تمہارے لڑکے بالے چالیس برس تک بیابان میں آوارہ پھرتے اور تمہاری زناکاریوں کا پھل پاتے رہیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں خداوند یہ کہہ چکا ہوں کہ میں اس پوری خبیث گروہ سے جو میری مخالفت پر متفق ہے قطعی ایسا ہی کروں گا۔ ان کا خاتمہ اس بیابان میں ہو گا اور وہ یہیں مریں گے"۔ (گنتی ۱۴:۳۲ تا ۳۵)
چنانچہ بنی اسرائیل کو چالیس سال اسی صحرا نوردی میں گزارنا پڑے۔ اس عرصہ میں سب جوان مرد مر گئے اور ان کی جگہ نئی پود نے لی۔ آخری ایام میں حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ کی وفات ہو گئی اور بنی اسرائیل ان کی قیادت سے محروم ہو گئے۔ البتہ حضرت موسیٰ اپنی وفات سے پہلے بن اسرائیل کو لے کر شہر اریحا کے قریب پہنچ گئے تھے جہاں سے فلسطین کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور کوہِ عباریم پر چڑھ کر اس ملک کا مشاہدہ کیا تھا جس کو بنی اسرائیل عنقریب فتح کرنے والے تھے حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل یوشع بن نون کی قیادت میں آگے بڑھی اور اس نے موعودہ ملک کی فتح کر لیا جس کی تفصیل بائبل کی کتاب یشوع میں موجود ہے۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں ان کے نام قائین (قابیل) اور ہابل آئے ہیں۔
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نسلِ انسان کے ابتدائی زمانہ کا ایک اہم واقعہ ہے یہ واقعہ تورات میں بھی مذکور ہے لکن اس کے سبق آموز اجزاء غائب ہو گئے ہیں۔ یہاں قرآن نے اس قصہ کو نہ صرف بے کم و کاست بیان کر دیا بلکہ ساتھ ہی اس کی مقصدیت بھی پور طرح واضح کر دی۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوئی کیونکہ وہ متقی تھا اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی کیونکہ وہ متقی نہیں تھا۔ قربانی کی قبولیت کی کوئی علامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضرور ظاہر ہوئی ہو گی۔ یہ علامت کیا تھی اس کی وضاحت قرآن نے نہیں کی البتہ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسان سے آگ نازل ہوتی اور قربانی کو کھاجا تی (تفیسر کبیرج ۱۱ص ۲۰۵) ممکن ہے اس وقت کے حالات میں جبکہ انسانی آبادی چند نفوس پر مشتمل تھی سوختنی قربان کا یہ غیر معمول واقعہ پیش آیا ہو (سوختنی قربانی کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۲۱۳)
ضمناً قربان کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ وہ قدیم ترین زمانہ میں بھی اللہ کی عبادت کا اہم جزء رہی ہے نیز یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اولین تہذیب جس میں انسان نے آنکھیں کھولیں خالص خدا پرستی کی تہذیب تھی۔
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قابیل کو حسد پیدا ہوا کہ ہابیل کی قربانی کیوں قبول ہوئی اور اس کی قربانی کیوں نہیں قبول ہوئی۔ اس حسد کی وجہ سے اس نے اپنے بے گناہ بھائی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔
معلوم ہوا کہ حسد وہ خطرناک بیمار ہے جو انسان کو قتل جیسے سنگین جرم پر آمادہ کرتی ہے۔
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قربان کی قبولیت کے لیے تقویٰ کے لیے تقویٰ کی شرط اس طرح ہے جس طرح کہ قرآن میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے لن ینال اللہ لحو مھا ولا دماء ھا ولکن ینالہ التقویٰ منکم (خدا تک ان قربانیوں کا نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اس کے حضور صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ (حج ۳۷) گوا اول روز ہ سے انسان پر دین کی یہ حقیقت واضح کر دی گئی تھی کہ مراسم عبودیت کی تقویٰ (خدا خوف) کے بغیر ادائیگی اللہ کے ہاں کوئی وزن نہیں رکھتی۔
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تو اقدام قتل کرتا ہے تو کر میں اپنی طرف سے قتل کا آغاز کرنے والا نہیں۔ واضح رہے کہ قتل کا آغاز کرنا اور بات ہے اور مدافعت کرنا اور بات ہے اور مدافعت کرنا اور بات۔ یہاں قتل کا آغاز کرنے کی نف کی گئی ہے نہ کہ مدافعت کی۔
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تو نے قتل کرنے کا جو چیلنج کیا ہے اس سے مشتعل ہو کر میں تیرے قتل کے درپے ہوا تو میں بھی گنہگار ہو جاؤں گا لکن چونکہ میں ترے خلاف اس قسم کی کوئی کار روائی نہیں کر رہا ہوں اس لیے قتل کا لجو گناہ مجھ س سرزد ہوتا وہ بھی تیری ہی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ اب تو مجھے قتل کر کے دوہرے گناہ کا بار اٹھائے گا۔ ایک گناہ اقدام قتل کا اور دوسرا گناہ ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کا جس نے باوجود اس بات کے کہ تو نے اس قتل کرنے کی دھمکی د تھی تیرے قتل کے درپے نہیں ہوا۔
اذالتقی المسلمان بسیفیما فاالقاتل والمقتول فی النار۔ قیل یارسول اللہ ہذا القاتل فما بال لمقتول؟ قال انہ قد ارار قتل صحابہ۔ (مسلم کتاب النفستن)
"جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے۔ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول! یہ اس لیے جہنم کا مستحق ہے کہ قاتل ہے لیکن مقتول کسی وجہ سے جہنم کا مستحق ہوا؟ فرمایا اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھ کو قتل کرنا چاہتا تھا"۔
یعنی جب دونوں کی نیت ایک دوسرے کو قتل کرنے کی ہو اور اس ارادہ سے دونوں لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں گنہگار ہوں گا اور جہنم کے مستحق ٹھہریں گے۔
واضح رہے کہ مدافعت نفس (Self Defense) کی صورت میں اس سے مختلف ہے شریعت نے ہر شخص کو اپنی جان ، مال اور آبرو بچانے کا حق دیا ہے اسلئے اگر مدافعت کرنے والے کو دست درازی کرنے والے کا خون بہانا پڑتا ہے تو اس کا گناہ ست درازی کرنے والے ہر پر ہے اور اسلامی قانون میں ایسے خون کا نہ قصاص ہے اور نہ دیت۔
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان جب کوئی گناہ کرنا چاہتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو روکتا ہے لیکن جب وہ مسلسل اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے لگتا ہے تو پھر اس کا نفس اسے گناہ کے لئے آمادہ کر ہی لیتا ہے۔
" اور قارئین نے اپنے بھائی ہابل کو کچھ کہا اور جب وہ دونوں کھیت میں تھے تو یوں ہوا کہ قارئین نے اپنے بھائی ہابل پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا (پیدائش ۴:۸)
معلوم ہوتا ہے کہ یہ قتل غفلت کی حالت میں کیا گیا تھا۔
۱۱۱یہ پہلا خون تھا جو زمین پر بہایا گیا۔ حدیث میں آتا ہے۔
لاتقتل نفس ظلما الا کان علی ابن آدم الاول کفلٌ من دمھا لا نہ اول من سن القتل (مسلم کتاب القسامہ)
جو شخص بھی ظلماً قتل کیا جاتا ہے اس کے خون کے وبال میں آدم کا پہلا بیٹا شریک ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا طریقہ رائج کیا۔
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش یوں ہی چھوڑ دی تھی اور لاش کو میدان میں یوں ہی چھوڑ دینا کہ وہ سڑ گل جائے اس کی بے حرمتی ہے یہ بے حرمتی نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کے ذریعہ قابیل کو لاش دفن کرنے کا طریقہ بتلا یا اس وقت نسل انسانی کا آغاز تھا اور یہ پہلی لا ش تھی جو زمین پر گرا دی گئی تھی اس لئے قابیل کے ذہن میں دفن کرنے کی بات اس وقت آئی جب کہ اس نے کوے کو زمین کر ید کر کوئی چیز چھپاتے ہوئے دیکھا۔ کوے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ زمین کریدتا ہے اور اس میں کھانے کی کوئی چیز چھپا دیتا ہے کوے کی اس حرکت کو دیکھ کر قابیل کا ذہن لاش کو دفن کرنے کی طرف منتقل ہوا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی لاش کو زمین میں دفن کرنا فطرت کی رہنمائی ہے اور یہی طریقہ قدیم ترین زمانہ سے چلا ا رہا ہے۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جرم کا انجام پشیمانی ہی ہے۔ ظالمانہ حرکتیں کر کے انسان کبھی اطمینان اور سکونِ قلب حاصل نہیں کر سکتا۔ بخلاف اس کے حق و انصاف کی روش اختیار کر کے وہ اطمینان اور سکون کی دولت حاصل کر لیتا ہے۔
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لوگوں میں یہ مجرمانہ ذہنیت پرورش نہ پائے اور انسانی خون کی ارزانی نہ ہو اس لئے قتل نا حق کی سنگینی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اچھی طرح واضح کر دی تھی۔
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کی نگاہ میں ، قتل ناحق کتنا بڑا جرم ہے اور کسی انسانی جان کو بچانا کتنی بڑی نیکی ہے جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ ایک جرم ہی نہیں کرتا بلکہ انسانیت کے خلاف اقدام کرتا ہے کیوں کہ اصل چیز جان کا احترام ہے اور خون آدمی اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل میں جان کا احترام باقی نہیں رہتا اور جب جان کا احترام باقی نہ رہا تو ایسا شخص پوری انسانی سوسائٹی کے لئے خطرناک بن جاتا ہے۔ وہ کب کیا اقدام کر بیٹھے گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بخلاف اس کے جو شخص کسی ایسے شخص کی جو موت کی چنگل میں ہو جان بچاتا ہے وہ نہ صرف ایک نیکی کا کام کرتا ہے بلکہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کے دل میں انسانی جان کا احترام موجود ہے اور وہ انسانیت کا ہمدرد اور بہی خواہ ہے۔ ایسا ہی شخص انسانی سوسائٹی کا محافظ ہوتا ہے۔
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل کے لئے قتل کی سنگینی کا حکم لکھ دینے کے بعد ان کے اندر رسول بھی بھیجے جو ان پر خدا کے احکام واضح کر تے رہے اور خدا کی نافرمانی اور مجرمانہ حرکتوں پر انہیں جھنجھوڑتے رہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اکثر لوگ ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوتے رہے اور آج بھی وہ مفسد ہی بنے ہوئے ہیں۔ ان آیتوں کے نزول کے زمانہ میں یہود مسلمانوں کے خلاف سازشیں کر رہتے تھے۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف جو جنگیں لڑی تھیں ان سب میں در پردہ مدینہ کے یہود کا ہاتھ تھا اور انہوں نے نبیﷺ اور آپ کے اصحاب کو قتل کرنے کی بھی سازش کی تھی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکتے۔ یہاں اسی پس منظر میں قتل و خونریزی کی سنگینی واضح کر تے ہوئے یہود کو جھنجھوڑا گیا ہے۔
۱۱۷۔ یہاں ان لوگوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت کریں اور ا پنی باغیانہ اور مفسدانہ حرکتوں سے اسلام کے قانون اور اس کے نظم کو چیلنج کریں۔ خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس حکم کا اطلاق ایسے گروہ پر بھی ہوتا ہے جو اسلام کے قائم کردہ نظام حق و عدل کو الٹنے کے لئے مسلح بغاوت کرے اور اس جتھے اور ٹولی پر بھی جو قتل و غارت گری ،ڈکیتی، آتش زنی ، تخریب کاری ، اغوا۔ خواہ وہ عورتوں کا ہو یا طیاروں وغیرہ کا۔ جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کر کے حکومت کے لئے لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پید ا کر دے ایسے مجرموں سے نمٹنے کے لئے اسلام کے عام تعزیری قوانین کافی نہیں ہو سکتے اس لئے شریعت نے ان کی سرکوبی کے لئے خاص ضابطہ بنایا ہے اور اسلامی حکومت کو اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے حالات و مصلحت کے مطابق ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے دے۔
ینفوامن الارض۔ (جلا وطن کئے جانے) کے مفہوم میں قید کرنا بھی شامل ہے۔
۱۱۸ یعنی جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور اس کے قانون کا احترام نہیں کیا تو وہ عزت کے کہاں مستحق ہیں ؟ایسے لوگوں کو عبرتناک اور ذلت آمیز سزا دینا انصاف کا کھلا تقاضا ہے۔
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اسلامی حکومت کے ان پر قابو پانے یا گرفتار کرنے سے پہلے اگر وہ توبہ کر کے اپنے رویہ کی اصلاح کر چکے ہوں تو پھر ان کے خلاف اس قانون کے تحت کار روائی جائز نہیں ہو گی کیوں کہ توبہ کرنے والوں کو اللہ معاف کر دیتا ہے
۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر باغیانہ سرگرمیوں اور شر و فساد کے انسداد کی تدابیر بیان ہوئی تھیں اب اہلِ ایمان کو خطاب کر کے وہ بنیادی اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے جو انہیں با کردار اور نیک بنا سکتے ہیں۔
۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی گناہ اور معصیت کے کاموں سے بچو۔
۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ کام کر و جن کے ذریعہ اللہ کا تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تقرب حاصل کرنے کے لئے صرف گناہوں سے بچنا کافی نہیں بلکہ مثبت طور پر عبادت و اطاعت کا اہتمام ضروری ہے اس لئے تقویٰ کے ساتھ ان اعمال کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو ذریعۂ تقرب ہیں۔
وسیلہ کا یہ مفہوم سیاقِ کلام کے لحاظ سے بھی صحیح ہے اور قرآن کے عام بیان سے بھی مطابقت رکھتا ہے کیوں کہ قرآن نے خدا تک پہنچنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہی کو قرار دیا ہے اور اسی پر فلاح آخرت کا دار و مدار ہے۔
متن میں لفظ وسیلہ نکرہ نہیں بلکہ معرفہ استعمال ہوا ہے۔ معرفہ کا یہ اہل نحوی اصطلاح میں یہاں عہد ذہنی کے لئے ہے۔ یعنی یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں وسیلہ سے مراد وہی وسیلہ ہے جس کی طرف قرآن کے ایک قاری کا ذہن منتقل ہوتا ہے اور ظاہر ہے قرآن کا مطالعہ کرنے والے کا ذہن وسیلہ ذریعہ تقرب سے اعمالِ صالحہ ہی کی طرف منتقل ہو تا ہے اس لئے وسیلہ سے دوسرا کوئی ذریعہ مراد لینے کی عربی قاعدہ کی رو سے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جہاں تک لغت کا تعلق ہے لسان العرب میں جو عربی کی سب سے بڑی اور مستند لغت ہے وسیلہ کے معنی قربت ہی بیان کئے گئے ہیں۔
الوسیلۃ: القربۃ"وسیلہ یعنی قربت " (لسان العرب ج ۱۱ص ۷۲۷اور قدیم ترین لغت صحاح جوہری میں ہے۔
وسل فلان الیٰ ربہ وسیلۃ ای تقرب الیہ بعمل (الصحاح للجوھری ج ۵س ۱۸۴۱)
"فلاں نے اپنے رب کے حضور وسیلہ اختیار کیا یعنی اس کے حضور عمل کے ذریعہ تقرب کا طالب ہو ا
اور سلف صالحین نے اس آیت میں وسیلہ سے قربت یا ذریعۂ قربت ہی مراد لیا ہے۔ چنانچہ ابن جریر طبری نے وسیلہ کے معنیٰ قربت بیان کرتے ہوئے مجاہد، عطاء ،ابو وائل ، حسن وغیرہ کے اقوال اس کی تائید میں نقل کئے ہیں اور قتادہ کی یہ تفسیر بھی کہ:
ای تقربو ا الیہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ
"یعنی اس کی اطاعت اور اس کے پسندیدہ عمل کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کر و۔ (تفسیر الطبری ج ۴ص ۱۴۷)
اور علامہ ابن کثیر یہی معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"یہ بات جو (لفظ وسیلہ کی تفسیر میں) ان ائمہ نے کہی ہے مفسرین کے درمیان اس (لفظ کے اس معنی) کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اس وضاحت کے بعد"واسطوں اور وسیلوں "کی عمارت جو اہلِ بدعت نے اس آیت کو غلط معنی پہنا کر تعمیر کی ہے آپ سے آپ ڈھ جاتی ہے۔ انہوں نے آیت کی تاویل یہ کی کہ "انبیاء و اولیاء کا وسیلہ ڈھونڈو "اور پھر حاجت روائی کے لئے ان کو پکارنا اور ان سے فریاد کرنا جائز قرار دیا اور یہ تصور پیدا کر لیا کہ خدا جن نعمتوں سے نوازتا ہے وہ ان ہی کے واسطے سے نوازتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کا یہ من گھڑت وسیلہ شرک کا وسیلہ بن گیا اور وہ اس توحید پر قائم نہیں رہ سکے جس کی تعلیم قرآن اور اس کے لانے والے نے دی تھی۔
۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاد سے مراد وہ جدو جہد ہے جو دین حق پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے اس کی دعوت کو عام کرنے ، اس کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے اس کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کے احکام کو نافذ کرنے کے لئے کی جائے۔ اس مقصد کے لئے اپنی قوتیں اور صلاحیتیں لگائی جائیں اور اس راہ میں اپنے اسباب و وسائل جھونک دئے جائیں یہاں تک کہ اس مقصد کی خاطر جان کی بازی لگا دینے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔
جہاد کا اطلاق اللہ کی راہ میں جنگ کرنے پر بھی ہوتا ہے اور پرا من جدو جہد کرنے پر بھی جب کہ داعی کو مخالفتوں کے طوفان سے گزرنا پڑتا ہے۔
۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین آخرت دنیا کی دولت کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں لیکن جب قیامت برپا ہو گی تو انہیں محسوس ہو گا کہ اصل مسئلہ تو نجاتِ اخروی کا تھا ، اس کو نظر انداز کر کے انہوں نے دنیا میں زبردست غلطی کی تھی جس کی وجہ سے وہ سخت گھاٹے میں رہے۔ وہ چاہیں گے کہ اس کی تلافی کی کوئی صورت ہو لیکن تلافی کی کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو گی۔ ان کی اسی بے بسی کی تصویر ان الفاظ میں کھینچ لی گئی ہے کہ اگر زمین کی ساری دولت اور اس کے سارے خزانے ان کے پاس ہوں اور اسی کے بقدر مزید دولت اور خزانے انہیں حاصل ہو جائیں اور وہ یہ سب کچھ فدیہ میں دے کر عذاب آخرت سے نجات حاصل کرنا چاہیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی بات حدیث میں اس طرح ارشاد ہوئی ہے۔
یُقال لِلْکَافِرِ یوم القیامۃ اَرَأَیْتَ لَوْکَانَ لَکَ مِلْأُ الْاَرْضِ ذَھَباً أَکُنْتَ تَقْتَدِیْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُقَالُ لَہٗ قَدْ سُئِلْتَ اَیْسَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَاَبَیْتَ۔
"قیامت کے دن کافر سے کہا جائے گا کہ اگر زمین بھر سونا تجھے حاصل ہو جائے تو کیا اسے فدیہ میں دینے کے لئے تیار ہے ؟وہ کہے گا ہاں ضرور۔ اس سے کہا جائے گا کہ اس سے کم مطالبہ تجھ سے کیا گیا تھا مگر تو نے نہیں مانا۔ (بخاری و مسلم)
۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ چاہیں گے کہ دوزخ سے نکل بھاگیں لیکن اس جیل خانہ سے باہر نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو گی۔
۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کا قانون تعزیرات (حدود) جنس کی بنیاد پر مجرمین کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ جرم کا مرتکب مرد ہو یا عورت دونوں سزا کے مستحق ہیں۔
۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوری کا جرم ثابت ہو جانے پر صرف ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے گا یعنی داہنا ہاتھ۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے تعزیری قوانین (حدود) جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان کے نفاذ کا مطالبہ کسی ایک فرد سے نہیں بلکہ اہلِ ایمان کی سوسائٹی سے کیا گیا ہے اور اس سورہ کا زمانۂ نزول بتاتا ہے کہ اس وقت کیا گیا جب کہ اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ ا گیا تھا اور ان کا اپنا عدالتی نظام قائم ہو گیا تھا۔
رہا یہ سوال کہ جس ملک میں مسلمان اپنا عدالتی نظام قائم کرنے کے لئے آزاد نہ ہوں وہاں اسلام کا مطالبہ ان سے کیا ہے ؟تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلام کے تعزیری قوانین کے نفاذ کے سلسلہ میں ان کی معذوری ظاہر ہی ہے لیکن اس معذوری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اسلام کے تعزیری قوانین کی تائید و حمایت سے دستبردار ہو جائیں اور انسانوں کے خود ساختہ قوانین کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ان کی تائید و حمایت کر لگیں کیوں کہ خدا کے قانون کے مقابلہ میں انسانی قانون کو صحیح سمجھنا ایمان کے بھی منافی ہے اور حق و انصاف کے علمبردار ہونے کے بھی۔ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے علمبردار بن کر دعوت اسلامی کو لوگوں کے سامنے پیش کریں تا آنکہ یہ دعوتی جدو جہد کسی اور مرحلہ میں داخل ہو جائے۔
۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس سزا کی حکمت ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے۔ چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا یقیناً ایک سخت سزا ہے لیکن یہ سخت سزا اس لئے رکھی گئی ہے تاکہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں کو عبرت حاصل ہو اور ان کے حوصلے پست ہو جائیں۔ چوری صرف چوری نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ " سینہ زوری " بھی ہوتی ہے چنانچہ چوری کے ساتھ آبرو ریزی اور قتل کی وارداتیں بھی پیش آنے لگتی ہیں۔ اس لئے اسلام نے یہ سخت سزا تجویز کر کے نہ صرف چوری کا بلکہ دوسرے جرائم کا بھی انسداد کیا ہے۔ موجودہ وضعی قوانین نے چوری کی سزا ہلکی تجویز کر کے اس جرم کو ہلکا ثابت کر نا چاہا ہے۔ در آنحالیکہ چوری کی بہ کثرت وارداتوں اور اس کے ساتھ دیگر جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد نے سوسائٹی کے امن کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ ماہرین قانون جرائم کے فلسفے بیان کر کے حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کو چور پر رحم آتا ہے مگر سوسائٹی پر رحم نہیں آتا جس کے امن اور نظم کو چور چیلنج کرتا ہے وہ چور کے ہاتھ کٹتے دیکھ کر بلبلا اٹھتے ہیں لیکن چور کے ہاتھوں بے گناہوں کے سر کٹتے دیکھ کر چیخ نہیں اٹھتے۔ آج اسلام کا یہ تعزیری قانون جہاں کہیں نافذ ہے وہاں اس کی دھاک ایسی ہے کہ چوری کے واقعات برائے نام ہی ہوتے ہیں اور یہ حقیقت واقعہ ان تمام اعتراضات کی تردید کے لئے کافی ہے جو شرعی قانون کو وحشیانہ ثابت کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں
۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ غالب ہے اس لئے اسی کے قوانین اس لائق ہیں کہ ان کو غالب اور نافذ کیا جائے اور وہ حکیم ہے اس لئے اس کے قوانین حکمت و مصلحت سے ہرگز خالی نہیں ہو سکتے۔ چوری کی سزا گو سخت ہے مگر یہ انسانیت کے مفاد کے خلاف ہر گز نہیں بلکہ اس کی بھلائی ہی کے لئے ہے۔
۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توبہ کرنے اور اپنے رویہ کی اصلاح کرنے کی صورت میں وہ آخرت کی سزا سے بچ جائے گا۔ واضح رہے کہ قانون کی گرفت میں آ جانے کے بعد توبہ کرنے سے شریعت کی کوئی حد ساقط نہیں ہوتی۔
۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سزا دینے اور بخشنے کا سارا اختیار اللہ ہی کو ہے۔ کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس میں مداخلت کر سکے۔
۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اس بات کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اسلام برسراقتدار نہ آئے اور شریعت عادلہ کے مطابق مقدمات کے فیصلے نہ ہوں ایسے لوگوں کی حرکتوں کو دیکھ کر ایک داعی کو فطری طور پر رنج ہوتا ہے مگر اس سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے۔
۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد منافقین ہیں۔ خاص طور سے وہ منافقین جو یہود سے ساز باز رکھتے تھے۔
۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ گروہِ یہود کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نبیﷺ سے آ کر ملتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو آپ سے آ کر نہیں ملتے جو لوگ آپ سے آ کر ملتے ہیں۔
ان کا حال یہ ہے کہ وہ سچائی کی تلاش میں نہیں آتے بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ جو کچھ سنیں اس میں جھوٹ کی آمیزش کر کے ان لوگوں تک پہنچائیں جو آپ سے آ کر نہیں ملے ہیں تاکہ انہیں آپ سے متنفر کیا جا سکے۔ گویا جو یہودی نبیﷺ کے پاس آتے تھے وہ ایک سازشی ذہن لے کر آتے تھے۔
۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح اوپر نوٹ ۷۰ میں گزر چکی۔ یہاں اس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ جب وہ کلامِ الٰہی میں بھی تحریف کرنے سے باز نہیں رہتے تو ان کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ نبیﷺ کی باتوں کو سن کر ان کو غلط معنیٰ پہنائیں۔
۱۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے علمائے یہود کی طرف جو عوام سے کہتے تھے کہ جو حکم ہم تمہیں بتاتے ہیں وہ اگر پیغمبر اسلام بھی دیں تو قبول کر و ورنہ قبول نہ کر و۔
۱۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ جان بوجھ کر اپنے کو غلط راہ پر ڈال دیتے ہیں اور اپنے ضمیر کی آواز کو مردہ بنا لیتے ہیں ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کو اللہ جب آزمائش میں ڈالتا ہے تو وہ اس سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کے شر و فساد میں اضافہ ہی ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو راہِ راست پر لانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وہ قانون ضلالت ہے جس کو "اللہ ہی فتنہ میں ڈالنا چاہے " اسے تعبیر کیا گیا ہے۔
۱۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب وہ گناہوں کی نجاست سے اپنے دلوں کو آلودہ رکھنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کیوں ان کو پاک کرنے لگے۔
۱۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ "سحت " استعمال ہوا جس کے معنی حرام کی کمائی کے ہیں۔ عربی میں اس کا استعمال زیادہ تر رشوت کے لئے ہوتا ہے۔ یہاں اشارہ خاص طور سے یہود کے قاضیوں کی طرف ہے جو رشوت لے کر اور جھوٹی شہادتوں کو قبول کر کے حق و انصاف کے خلاف فیصلے کیا کرتے تھے۔
۱۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ اگر تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمہیں اختیار ہے ان کا فیصلہ کرو یا اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کر دو۔
اس وقت مدینہ کے اطراف میں یہود کی جو بستیاں تھیں وہ اپنا الگ دائرہ اقتدار رکھتی تھیں۔ اس لئے ان لوگوں کے باہمی معاملات کا فیصلہ کرنے کی کوئی ذمہ داری مدینہ کی اسلامی حکومت پر عائد نہیں ہوتی تھی لیکن یہود جن مقدمات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون۔ تورات کے مطابق کرنا نہ چاہتے تھے ان کا فیصلہ نبیﷺ سے اس امید پر کرانا چاہتے تھے کہ شاید آپ کی شریعت میں کوئی آسان حکم ہو۔
۱۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا مطلب جہاں یہ ہے کہ مقدمہ کے کسی فریق کے ساتھ جانبداری نہ برتی جائے یا زیادتی نہ کی جائے وہاں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شریعت عادلہ کے قوانین کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔
۱۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں یہود کی اس حرکت پر اظہار تعجب کیا گیا ہے کہ وہ ایسے مقدمات لے کر آتے ہیں جن کے سلسلہ میں تورات میں واضح حکم موجود ہے تاکہ آپﷺ تورات کے حکم کے بجائے کوئی اور فیصلہ صادر فرمائیں۔ وہ تورات پر ایمان کے بھی مدعی ہیں اور ساتھ ہی اس کا حکم بھی انہیں منظور نہیں۔ اسی طرح حضرت محمدﷺ کو وہ پیغمبر بھی تسلیم نہیں کرتے اور ساتھ ہی تورات کو چھوڑ کر آپ سے اپنے مقدمہ کا فیصلہ بھی کرانا چاہتے ہیں ان کی یہ حرکت اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ ان کا کسی چیز پر بھی ایمان نہیں۔
یہاں یہ بات جو فرمائی گئی ہے کہ تورات میں اللہ کا حکم موجود ہے تو اس سے مراد حدود تعزیرات ہیں جس کی صراحت آگے آیت ۴۵ میں کی گئی ہے۔ ا س سے ان مقدمات کی نوعیت بھی واضح ہوتی ہے جن کو لے کر یہود نبیﷺ کے پا س آتے تھے یعنی یہ مقدمات حدود تعزیرات کی نوعیت کے تھے جن کے سلسلہ میں تورات میں واضح احکام موجود ہیں مگر وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرنا چاہتے تھے۔
۱۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو کتاب اتاری تھی اس میں دین حق کی طرف رہنمائی کا سامان بھی تھا اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو منضبط کرنے اور اس کو حق و عدل پر استوار کرنے کے لئے روشن شریعت بھی تھی۔ نزولِ قرآن کے وقت اصل تورات کا جو حصہ یہود کے پاس موجود تھا اس میں یہ خصوصیت پائی جاتی تھی اور آج بائبل کے مجموعہ میں جو ابتدائی پانچ صحیفے پیدائش ،خروج ، احبار، کنتی ، اور استثناء کے نام سے پائے جاتے ہیں ان میں اصل تورات کے جو اجزا موجود ہیں۔ اور قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے سے اصل تورات کے اجزاء کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان میں اب بھی ہدایت اور روشنی کی خصوصیات موجود ہیں۔ قرآن کا اشارہ اسی حقیقت کی طرف ہے اور اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ تورات کے نام سے پائے جانے والے مذکورہ صحیفے تمام تر ہدایت الٰہی پر مشتمل ہیں کیوں کہ یہود نے تحریف کر کے ان میں بہت سی گمراہ کن باتیں شامل کر دی ہیں اور اصل شریعت پر حاشیہ آرائی بھی کی ہے۔
۱۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل میں جو انبیاء بھی خدا کی طرف سے بھیجے گئے ان سب کا دین اسلام تھا اور وہ سب مسلم تھے۔ اپنے کو یہودی کہلانے والے تو یہ نبی اسرائیل ہیں نہ کہ ان کے اندر مبعوث ہونے والے انبیاء۔
۱۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انبیاء نیز حق پرست علماء و فقہا ء شریعت الٰہی کے مطابق یہود کے معاملات و مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے۔
۱۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انہیں اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا تھا کہ وہ کتاب الٰہی کی اس طرح حفاظت کریں کہ اس میں کسی قسم کی تحریف نہ ہونے پائے اور اس کو دستور العمل بنا کر اس کی صداقت کی گواہی دیں۔
۱۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی احکامِ الٰہی کی تعمیل و تنفیذ میں نہ کسی کا ڈر مانع ہونا چاہئے۔ ا ور نہ کسی قسم کا لالچ۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۶۴
۱۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ا س آیت میں صراحت کے ساتھ ان لوگوں کو کافر کہا گیا ہے جو قانونِ خداوندی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے۔ اگر چہ کہ یہ بات یہود کے باغیانہ رویہ پر گرفت کرتے ہوئے ارشاد ہوئی ہے لیکن چونکہ بات اصولی نوعیت کی ہے اس لئے اس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو قانونِ الٰہی کے خلاف فیصلہ صادر کرے خواہ اس کا تعلق کسی گروہ سے ہو اور خواہ اس کا شمار مسلمانوں ہی میں کیوں نہ ہو تا ہو کیوں کہ عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر خدا کے قانون کو رد کرنا اس دستور (کتاب) سے کھلی بغاوت ہے ، جو فرمانروائے کائنات نے نازل کیا ہے صحابیٔ رسول حضرت حذیفہ ؓ سے کسی نے پوچھا کہ کیا یہ آیتیں جن میں شریعتِ الٰہی کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ؟انہوں نے برجستہ جواب دیا کتنے اچھے بھائی ہیں تمہارے لئے بنی اسرائیل کہ سب کڑوی باتیں ان کے لئے ہیں اور سب میٹھی باتیں تمہارے لئے۔ نہیں قسم خدا کی تم ان ہی کے طریقہ پر قدم بہ قدم چلو گے۔ (تفسیر ابن جریر ج ۶ص ۱۶۴)
واضح رہے کہ قانونِ شرع کے خلاف فیصلہ کرنے والوں کو کافر اس صورت میں قرار دیا گیا جب کہ ان پر احکامِ شر ع بھی واضح تھے اور وہ ان کے نفاذ کے معاملہ میں بھی آزاد تھے۔ بالفاظ دیگر یہ ان کی باغیانہ ذہنیت تھی جس نے انہیں شرعی قوانین سے انحراف کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ لہٰذا آج جو بھی مسلمان دیدہ و دانستہ اسی طرز عمل کا ثبوت دے رہے ہیں وہ بھی یہود ہی کے نقشِ قدم پر ہیں لیکن ان کی تکفیر ہم اس لئے نہیں کر سکتے کہ اسلام نے کلمہ گو مسلمانوں کی تکفیر کرنے منع کر دیا ہے اور ان لوگوں کے معاملہ کو جن کی عملی زندگی اسلام اور کفر دونوں کا مخلوطہ ہوتی ہے خدا کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ وہی نیتوں کا حال جانتا ہے اور وہی اس بات سے باخبر ہے کہ کس کے لئے کیا موانع رہے ہیں۔
۱۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات میں یہ حکم اس طرح مذکور ہے :
"لیکن اگر نقصان ہو جائے تو تو جان کے بدلے جان لے اور آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت ، اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، پاؤں کے بدلے پاؤں ، جلانے کے بدلے جلانا، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ۔ (خروج ۲۱ : ۲۳ تا ۲۵)
لیکن یہود نے اس حکم پر عمل درآمد کے سلسلہ میں شریف ور ذیل کی تفریق پید ا کر دی تھی۔ ان کے دو قبیلوں بنی نضیر اور بنی قریظہ میں بنی نضیر اشرف سمجھے جاتے تھے۔ اگر بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کے ہاتھوں مارا جاتا تو اسے قصاص میں قتل کر دیا جاتا لیکن اگر بنی نضیر کا کوئی شخص بنی قریظہ کے کسی شخص کو قتل کر دیتا تو اسے قصاص میں قتل نہیں کیا جا سکتا تھا بلکہ اس کی طرف سے مقتول کے ورثاء کو لازما دیت قبول کرنا پڑتی اور وہ بھی نصف دیت۔
شرعی قانون کے نفاذ میں انہوں نے یہ جو تبدیلی کی تھی اس پر ان آیات میں سخت گرفت کی گئی ہے۔
قرآن نے تورات کے حوالہ سے جو قانون بیان کیا ہے وہ اسلام کے تعزیری قوانین ( (Islamic penal lawsکی اہم ترین دفعہ ہے۔ تمام زخموں میں برابر کا بدلہ بظاہر سخت ترین سزا ہے مگر نہ صرف یہ کہ یہ عین تقاضائے عدل ہے بلکہ اس سے مجرمین کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے اور سوسائٹی کو امن بھی میسر آتا ہے۔ موجودہ دور میں مساوات کا نعرہ تو خوب چل پڑا ہے لیکن جب جرائم کے معاملہ میں مساویانہ کا ر روائی کی حمایت کیجئے تو مساوات کے یہ علمبردار چراغ پا ہونے لگتے ہیں۔
واضح رہے کہ زخموں کا قصاص ایسی صورت میں لیا جائے گا جب کہ اسی کے بقدر زخم پہنچنا نا ممکن ہو لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو اور زیادتی کا احتما ل ہو تو پھر زخمی کرنے والے کو دیت ادا کرنا ہو گی جو اس زخم کی مناسبت سے مقرر کی جائے گی۔
۱۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو شخص قصاص معاف کر دے اس کے لئے یہ نیکی گناہوں کا کفارہ بنے گی۔
۱۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظالم اس لئے کہ خدا کے عادلانہ قوانین کو چھوڑ کر انہوں نے انسان کے خود ساختہ قوانین کے مطابق فیصلہ کیا جا عدل کے تقاضوں کو پورا کر ہی نہیں سکتے
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ فیصلہ کرنے کا مطلب صرف عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر مقدمات کا فیصلہ کرنا ہی نہیں بلکہ قانون سازی کرنا اور حاکمانہ فیصلے صادر کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے لہٰذا جو شخص بھی شرعی قوانین کے خلاف قانون سازی کرتا ہے یا جو صاحبِ اقتدار اپنے حاکمانہ اختیارات کو شریعت الٰہی کے مدمقابل استعمال کرتا ہے تو وہ کفر، ظلم اور فسق تینوں کا مرتکب ہوتا ہے خواہ اس کے احکام و قوانین ، رسم و رواج (Customary Law) پر مبنی ہوں یا مذہبی روایات ( (Religious Mythology) پر اور کلچرل اساس پر ہوں یا سیکولر ازم کے نظریہ پر۔
۱۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان انبیاء کے نقشِ قدم پر جو بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال ہوئی تھی۔
۱۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ نے تورات کی تصدیق کی تھی۔ انجیل میں ہے۔
"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیوں کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شو شہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔
۱۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انجیل کو اس لئے نازل فرمایا تھا کہ لوگ اپنے معاملات زندگی میں اسے فیصلے کی بنیادی بنائیں اور اہلِ انجیل اگر انجیل کے مطابق فیصلہ کرتے تو وہ ضرور قرآن کو پاتے کیوں کہ آنے والے پیغمبر کی جو انجیل میں دی گئی ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے نیز اگر خدا کی آواز کو انجیل میں پہچانا جا سکتا ہے تو قرآن میں بدرجۂ اتم پہچانا جا سکتا ہے کیوں کہ دونوں ایک ہی ساز سے نکلے ہوئے دو سر ہیں۔
۱۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کے تورات پر محافظ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تورات کی اصل تعلیمات کو قرآن نے اپنے اندر سمیٹ لیا ہے اور وہ تحریف شدہ تورات کے لئے کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کو ن سی باتیں اصل تورات کی ہیں اور کون سی باتیں یہود کی من گھڑت۔
۱۵۷ یعنی اہلِ کتاب نے دین میں جو اختلافات پیدا کر دئے ہیں ان کے لئے یہ کتاب (قرآن) فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اللہ کا دین ان تمام آمیزشوں سے پاک کر کے جو اہلِ کتاب نے اس میں کی تھیں ، اپنی اصل شکل میں پیش کیا گیا ہے لہٰذا زندگی کے جملہ معاملات و مسائل میں یہی کتاب معیارِ حق ہے اور تمام نزاعات و مقدمات میں اسی کو فیصلہ کی بنیاد بنا نا چاہئے۔
۱۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شریعت یعنی فرائض اور احکام و قوانین اور منہاج (راہِ عمل) یعنی ان فرائض کو ادا کرنے کے طور طریقے اور ان احکام و قوانین پر عمل در آمد کی شکلیں۔ واضح رہے کہ جہاں شریعت کا لفظ تنہا استعمال کیا جائے وہاں اس کا اطلاق دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے۔
مختلف امتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ شریعتیں اور عمل کی الگ الگ راہیں مقرر کر دی تھیں جو حالات و ظروف کا تقاضا تھا لیکن یہ اختلاف اصل دین کا اختلاف نہیں تھا بلکہ طور طریقوں کا اختلاف تھا۔ جہاں تک اصل دین کا تعلق ہے وہ تمام امتوں کیلئے ایک ہی رہا ہے مثلاً عقیدۂ توحید، آخرت، رسالت ، ایک اللہ کی عبادت و اطاعت اور اس کے حضور جو اب دہی کا تصور ، تزکیۂ نفس اور اخلاقی و عملی پاکیزگی کے اصول وغیرہ۔ اس لئے شریعتوں اور منہاجوں کے اختلاف کو دین کے اختلاف پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام نے ایک اللہ ہی کی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا لیکن جہاں تک قالب اور اس کی تفصیلات کا تعلق ہے وہ مختلف رہی ہیں مثلاً قربانی کہ اس کے اللہ ہی کے لئے خاص ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ر ہی یہ تفصیل کہ یہ کب کب واجب ہوتی ہے اور اس کے لئے کس قسم کے جانور مطلوب ہیں اور ان کو ذبح کرنے کے بعد کیا کیا جائے۔ اسی طرح نماز کے آداب مثلاً قبلہ وغیرہ کا تعین تو ان باتوں میں حالات و ظروف کے لحاظ سے شریعتوں میں فرق رہا ہے۔
۱۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک دین پر چلنے کے لئے مجبور کر دیتا لیکن یہ بات اس منصوبہ کے خلاف ہوتی جس کے پیش نظر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے یعنی یہ بات کہ انسان کی آزمائش ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ امتحان کے مواقع بھی پیدا کر دئے جائیں۔ شریعتوں کا یہ اختلاف امتحان کے مواقع پیدا کر دیتا ہے۔ جو لوگ دین کے ظاہری طور طریقوں کے تعصب میں گرفتار ہوتے ہیں وہ دین کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پاتے اور خدا کی ہدایت جب ان کے سامنے آتی ہے تو وہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں بخلاف اس کے جو لوگ حقیقت پسند ہوتے ہیں ان کی نگاہ اصل دین پر ہوتی ہے اور خدا کی ہدایت جس شکل میں بھی ان کے سامنے آتی ہے وہ اس کی طرف لپکتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ تھے جنہوں نے قرآن کی ہدایت قبول کی۔
۱۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ اگر مذہبی بحثوں میں الجھنا چاہتے ہیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور تم نیکی کی راہ میں سبقت کرو۔
۱۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخری فیصلہ اللہ ہی کی عدالت میں ہو گا اور اس وقت لوگوں کو معلوم ہو گا کہ جو مذہبی بحثیں انہوں نے کھڑ ی کر دی تھیں ان کی حقیقت کیا تھی۔
۱۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مزید انتباہ ہے کہ مخالف قوتیں تمہیں کتابِ الٰہی سے منحرف کرنے کے لئے جو زور لگا رہی ہیں اور تمہارے خلاف جو سازشیں کر رہی ہیں ان سے چوکنا رہو۔
افسوس ہے کہ اس انتباہ کے باوجود مسلمانوں نے مغربی فلسفۂ قانون اور لا دینی طرزِ حکومت سے متاثر ہو کر شرعی قانون اور اسلامی طرزِ حکومت کو ترک کر دیا ہے اور جہاں انہیں بلا شرکت غیرے اقتدار حاصل نہیں ہے وہاں وہ غیر اسلام احکام و قوانین سے اظہار بیزاری کرنے کے بجائے ان کی تائید و حمایت کرنے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہو رہا ہے نہ صرف شہادت حق کے منافی ہے بلکہ اصل ایمان ہی کے لئے خطرناک ہے۔
۱۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاہلیت" کی اصطلاح اسلام کے مقابل استعمال ہوتی ہے اور یہاں جاہلیت کے فیصلہ سے مراد وہ احکام، قوانین اور رسوم ہیں جو شریعت الٰہی کے مقابلہ میں لوگوں نے رائج کر رکھے ہیں۔ ان کو جاہلیت سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بظاہر ان میں سوسائٹی کا مفاد نظر آتا ہو مگر وہ علم حق پر مبنی نہیں بلکہ جہالت اور جذباتیت پر مبنی ہیں۔
یہ جاہلیت اس زمانہ کے ساتھ خاص نہیں جو اسلام سے پہلے تھا بلکہ اس کے بعد کے ادوار میں بھی رہی ہے اور آج کے علوم و فنون کے دور میں بھی اس کی تاریکی پوری طرح چھائی ہوئی ہے۔
علامہ ابن کثیر اپنے زمانہ (چودھویں صدی عیسوی) کی جاہلیت کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
"]اور جس طرح تا تاری کہ اپنے شاہی فرامین سیاست کے ذریعہ فیصلہ کر تے ہیں جو ان کے بادشاہ چنگیز خاں کی ہدایت سے ماخوذ ہیں اور جن کو اس نے " الیاسق " کے نام سے وضع کیا تھا۔ یہ در اصل اس کتاب کا نام ہے جو احکام کا مجموعہ ہے اور جن کو اس نے مختلف شریعتوں مثلاً یہودیت، نصرانیت اور دین اسلام وغیرہ سے اخذ کیا تھا اور اس میں بہ کثرت احکام ایسے ہیں جو مجرد اس کی رائے اور ہوائے نفس پر مبنی ہے۔ اس طرح یہ مجموعہ ایک خود ساختہ شریعت بن گئی ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے اور اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے حکم اور فیصلوں پر مقدم رکھا جاتا ہے۔ تو جو کوئی ایسا کرے وہ کافر اور گردن زدنی ہے جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی طرف رجوع نہ کرے اور کسی بھی معاملہ میں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کو چھوڑ کر کوئی فیصلہ نہ کرے۔ (تفسیر ابن کثیر ۲ص ۶۷)
۱۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے ایمان میں مخلص نہ تھے اس لئے وہ اپنے ذاتی مفاد ات کے پیشِ نظر یہود سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے در آنحالیکہ اس کی ممانعت اس سے پہلے کی جا چکی تھی (سورۂ آل عمران آیت ۲۸) یہاں پھر اس کی تاکید کر تے ہوئے متنبہ کر دیا گیا ہے کہ ایمان اور دشمنانِ اسلام سے دوستی دونوں چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں لہٰذا جو لوگ ان کی طرف پنکیں بڑھائیں گے ان کا شمار ان ہی لوگوں میں ہو گا۔
واضح رہے کہ یہود و نصاریٰ نیز کفار سے دوستی کی جو ممانعت کی گئی ہے وہ ایک تو اس معنیٰ میں ہے کہ ان کے ساتھ قلبی محبت کا تعلق نہ ہو کیوں کہ خدا کے باغیوں اور رسول کے مخالفین کے ساتھ قلبی لگاؤ ایمان کے منافی ہے۔ دوسرے اس معنی میں کہ آدمی اسلام اور مسلمانوں کے دینی اور سیاسی مصالح و مفادات کو نظر انداز کر کے کافروں کے کسی گروہ یا ان کے افراد کے ساتھ خو غرضی کی بنا پر یا ناجائز مفادات کی خاطر ان سے دوستی نہ گانٹھ لیں۔ ان آیات کے نزول کے وقت کے سیاسی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ مسلمان غیر اسلامی عناصر کے ساتھ ربط ضبط پیدا کرنے میں محتاط رہیں تاکہ ان پر خفی راز ظاہر نہ ہونے پائیں نیز اگر ان کے کسی گروہ کے خلاف کوئی کا ر روائی کرنا پڑتی ہے تو اس میں کسی کے لئے اس کی "ذاتی دوستی" مانع نہ ہو بلکہ وہ ان تمام دوستانہ تعلقات سے بالا تر ہو کر خدا اور اس کے رسول سے وفا داری کا ثبوت دے۔
رہی عام حالات میں غیر مسلموں کے ساتھ انسانی دوستی تو اس کی ممانعت نہیں کی گئی ہے مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو آل عمران نوٹ ۴۱
۱۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نفاق کا روگ۔
۱۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منافق یہ اندیشہ محسوس کرتے تھے کہ اگر آخری جیت اسلام کے مخالفین کی ہوئی تو ہمارا کوئی مستقبل نہ ہو گا اس لئے وہ کھل کر اور یکسو ہو کر اسلام کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ، ان کے نزدیک مصلحت اس میں تھی کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں بھی رہیں اور مخالف اسلام قوموں سے راہ و رسم بھی رکھیں۔
۱۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمانوں کو آخری فتح سے نوازے یا اس سے پہلے کوئی ایسا واقعہ ظہور میں لائے جو منافقین کے لئے رسوائی کا باعث ہو۔
۱۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اعمال کی قبولیت کا دار و مدار مخلصانہ ایمان پر ہے۔ منافقت کے ساتھ دین داری کا جو مظاہر ہ کیا گیا ہو وہ اللہ کے نزدیک بالکل بے وزن ہے اس لئے ایسے لوگوں کے وہ تمام اعمال جن پر دین داری کا نمائشی لیبل لگا ہوا ہو بالکل اکارت جانے والے ہیں۔
۱۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ دین کی جدو جہد کے لئے مصلحت پرست اور منافق قسم کے لوگ بالکل بے کا رہیں اس بلند مقصد کے لئے جن صفات کے لوگ مطلوب ہیں وہ یہ اور یہ ہیں۔
منافقوں کو دنیا سے محبت تھی۔ ظاہر ہے ایسے لوگوں کو اپنی دنیا بنانے سے فرصت ہی کہاں ہو سکتی ہے کہ وہ دین کی خدمت کرنے لگیں۔ دشمنانِ دین کے لئے وہ اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے تھے پھر ان میں یہ حوصلہ کہاں ہو سکتا ہے کہ میدانِ جنگ میں ان کے خلاف صف آرا ہوں۔ وہ اپنی تعریف کے خواہاں تھے اس لئے ان میں بے لاگ حق پر ستی کہاں ہو سکتی ہے کہ حق و انصاف کی راہ اختیار کرنے پر دنیا کی ملامت کی پرواہ نہ کریں۔
آیت میں مثبت طور پر جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں راہ حق کے سپاہیوں کے لئے تربیت کا بھر پور سامان ہے۔
۱۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ وہ اپنے فضل سے نوازنے میں تنگی نہیں برتتا بلکہ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت وسعت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے۔
۱۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہاری دوستی کے مستحق وہ لوگ نہیں ہیں جو خدا کے وفادار نہیں ہیں بلکہ اس کا مستحق خدا، اس کا رسول اور اس کے وفادار بندے ہیں ان کو تم اپنا معتمد بناؤ۔
۱۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں " یہ نماز اور زکوٰۃ دونوں کی روح بیان ہوئی ہے کہ یہ مخلص مومن اس طرح نماز کا اہتمام کر تے ہیں کہ ان کے دل میں خشوع کی کیفیت ہوتی ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو اس وقت بھی انکے دل خدا کے حضور جھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن منافقین کا حال اس کے برعکس ہوتا ہے وہ نمازیں اور ان کی زکوٰۃ سب دکھاوے کے لئے ہوتی ہیں ان کے دل خدا کے آگے جھکے ہوئے نہیں ہوتے اور جب دل جھکا ہوا نہ ہو تو سر جھکانے سے کیا فائدہ؟
۱۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسے لوگوں کو دوست بنانا جو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔
۱۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اذان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
اذان شعائر اللہ میں سے ہے اور اس بات کی دعوت ہے کہ اللہ کی عبادت کے لئے آؤ۔ ایسی چیز کو کھیل تماشہ بنا لینا کسی معقول آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ حرکت وہی کر سکتا ہے جس کی عقل ماری گئی ہو۔
۱۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم محض اس بنا پر ہم پر غصہ اتار رہے ہو کہ ہم ہر اس صداقت پر ایمان لائے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے خواہ وہ پچھلی کتابیں ہوں یا قرآن۔ اس کے سوا اگر ہمارا کوئی قصور ہے تو بتلاؤ۔ اور اگر یہی بات تم کو کھٹکتی ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ تم اللہ کی نا فرمانی پر تل گئے ہو ورنہ کوئی صاحبِ ایمان سچائی کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ یہ رویہ اختیار نہیں کر سکتا۔
۱۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تم اسلام دشمنی کی وجہ سے ہمارے لئے جس انجام کے منتظر ہو اس سے بدتر انجام کی مثالوں سے تو تمہاری اپنی تاریخ کے اوراق بھرے ہوئے ہیں اور تم خود اسی ڈگر پر چل رہے ہو اس لئے دوسروں کے برے انجام کا انتظار کر نے کے بجائے اپنا انجام سوچ لو۔
۱۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائبل میں اس لعنت کا ذکر متعدد مقامات پر ملتا ہے مثلاً
"اور تو ان سے کہہ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ لعنت اس انسان پر جو اس عہد کی باتیں نہیں کر سکتا اور غیر معبودوں کے پیرو ہو کر ان کی عبادت کی۔ اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے نے اس عہد کو جو میں نے ان کے باپ دادا سے کیا تھا توڑ دیا اس لئے خداوند یوں فرماتا ہے کہ دیکھ میں ان پر ایسی بلا لاؤں گا جس سے وہ بھاگ نہ سکیں گے اور وہ مجھے پکاریں گے پر میں ان کی نہ سنوں گا۔ (یرمیاہ باب۱۱)
۱۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بائبل کی کتاب یرمیاہ میں ہے :
"کہ رب الافواج اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تم نے وہ تمام مصیبت جو میں یروشلم پر اور یہوداہ کے سب شہروں پر لایا ہوں دیکھی اور دیکھو اب وہ ویران اور غیر آباد ہیں۔ اس شرارت کے سبب سے جو انہوں نے مجھے غضبناک کرنے کو کی کیوں کہ وہ غیر معبودوں کے آگے بخور جلانے کو گئے اور ان کی عبادت کو۔ اس لئے میرا قہر و غضب نازل ہو ا۔
۱۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں معزز انسان بنایا تھا اور ان کے اخلاقی و روحانی ارتقاء کے لئے ہدایت کا سامان بھی کیا تھا لیکن جب انہوں نے اپنے اس مقام کی ناقدری کی اور انسانیت کے مرتبہ سے اپنے کو گرانا چاہا تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو ذلت میں بدل دیا اور ان کو بندر اور سور بنا کر ایک عبرتناک مثال قائم کی۔
یہ ایک المناک واقعہ ہے جو یہود کے ایک گروہ کے ساتھ اس کی سر کشی کے نتیجہ میں پیش آیا تھا۔ رہا یہ سوال کہ انسان کس طرح بند ر اور سور بنائے گئے تو اس کے لئے کسی تاویل کی ضرورت نہیں جو خدا انسان کو انسان کی صورت عطا کر سکتا ہے وہ اس کی صورت کو مسخ بھی کر سکتا ہے اس لئے اللہ کے دین کو مسخ کرنے والوں کی صورتیں مسخ ہو کر بندر اور سور کی سی ہو گئی ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟
۱۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طاغوت سے مراد شریر اور سرکش لوگ ہیں اور پرستش (عبادت) سے مراد ان کی اندھی تقلید اور معصیت کے کاموں میں ان کی اطاعت ہے۔ یہاں پرستش (عبادت) کا لفظ اطاعت میں غلو کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ امام رازی طاغوت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
"ایک قول یہ ہے کہ طاغوت سے مراد وہ بچھڑا ہے جس کی پرستش کی گئی اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد احبار یعنی فقہائے یہود ہیں اور ہر وہ شخص جس نے اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت کی اس نے در حقیقت اس کی پرستش کی۔ (التفسیر الکبیر ج ۱۲ ص ۳۷)
آیت میں جو ارشا د ہوا ہے اس کا مدعا یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت کرنے کے بجائے اس کے سرکش بندوں کی اطاعت کرنا ان کو پوجنے کے ہم معنی ہے اور یہ بہت بڑی ذلت ہے جو کسی کے حصہ میں آئے۔ یہود کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ ذلت ان کے حصہ میں آئی۔
۱۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ ایک بگڑی ہوئی سوسائٹی میں اصلاح کی بہت بڑی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے۔ گناہ کی باتوں اور خاص طور سے حرام مال کھانے سے لوگوں کو روکنا ان کے فرائض منصبی میں داخل ہے لیکن جب علماء کے طبقہ پر زوال آ جاتا ہے تو وہ برائیوں سے دوسروں کو کیا روکیں گے خود بھی ان میں شریک ہو جاتے ہیں اور "حرام کی مرغی قاضی کے لئے حلال ہو جاتی ہے۔ ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ علماء کو اس سے زیادہ سختی کے ساتھ جھنجھوڑنے والی کوئی آیت نہیں۔ اس کی تائید میں انہوں نے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے (تفسیر طبری ی جزء ۶ ص ۱۹۳)
یہ ایک آئینہ ہے جو قرآن نے مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے تاکہ ان کے علماء اس میں اپنا عکس دیکھ لیں
۱۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی راہ میں جب خرچ کرنے کے لئے کہا جاتا تو یہود طنزاً کہتے کہ اللہ کے ہاتھ تنگ ہو گئے ہیں یعنی وہ بخیل ہو گیا ہے اس لئے ہم سے خرچ کرنے کے لئے کہہ رہا ہے۔ ان کی اسی گستاخی پر یہاں گرفت کی گئی ہے۔
۱۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ اللہ کی شان میں گستاخی کرنے والا لعنت کا مستحق ہے۔
۱۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی معرفت جس طرح بخشی گئی ہے وہ نہایت ساہ ، فطری اور قابل فہم انداز میں ہے۔ اس لئے یہود کے اس قول کی تردید میں کہ اللہ بخیل ہو گیا ہے یہ جو فرمایا کہ" اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں۔ تو اس کا مدعا بالکل واضح ہے۔ مگر بعد میں متکلمین نے یہاں یہ بحث کھڑی کر دی کہ اللہ کے ہاتھ سے کیا مراد ہے؟اس قسم کی بحثیں نہ صرف بے فائدہ ہیں بلکہ قرآن کی اصل دعوت اور اس کے اصل مدعا سے قاری کے ذہن کو ہٹا دیتی ہیں اور وہ غیر ضروری باتوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے قرآن نے مشابہات میں کرید کر نے سے منع کیا ہے اور سلف کا طریقہ یہی تھا کہ وہ ان کی تاویل سے اجتناب کرتے تھے۔ امام رازی فرماتے ہیں۔
" رہا یہ سوال کہ ہاتھ سے مراد کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے تو ہم اس کی معرفت اللہ تعالیٰ کے حوالہ کرتے ہیں اور سلف کا یہی طریقہ تھا۔ (التفسیر الکبیر ج ۱۲ص ۴۳)
۱۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اپنے بندوں کے حق میں نہایت فیاض اور سخی ہے اور کمالِ فیاضی کے ساتھ فرمانروائی کر رہا ہے۔
۱۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تعصب نے انہیں اندھا کر دیا ہے اس لئے ہدایت سے بھی وہ گمراہی اخذ کرتے ہیں۔
۱۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نصاریٰ کے درمیان بغض و عناد کی آگ بھڑکانے کا ذکر آیت نمبر۱۴ میں ہوا تھا یہاں یہود کے درمیان دشمنی و نفرت ڈال دینے کا ذکر ہوا ہے۔ یہود اور نصاریٰ کے درمیان جو جنگ و جدال کی فضا پائی جاتی ہے اس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور اس سلسلہ میں ہر گروہ نے اپنی ایک تاریخ بنا لی ہے اس لئے ان کے درمیان وقتی طور پر کچھ مصلحتوں کے پیش نظر فضا درست ہو جائے تو اور بات ہے لیکن ان کے سینہ کے داغ مٹانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے ہمیشہ لڑتے اور مرتے ہی رہیں گے۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو نوٹ ۷۸)
۱۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب کبھی یہود نے جنگ کی آگ بھڑکائی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے فرو کرنے کا سامان کیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو زمین میں زبردست فساد رونما ہوتا۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ جو جنگیں بھی لڑیں ان سب کے پیچھے یہود کا ہاتھ تھا۔ وہ اپنے سازشی ذہن کے تحت جنگ کی آگ بھڑکاتے رہے مگر اللہ تعالیٰ اس آگ میں جلنے سے مسلمانوں کو بچاتا رہا۔
آج بھی اسرائیل (یہود) جنگ کی آگ بھڑکانے میں بری طرح سر گرم ہے اور اس سے قرآن کی صداقت نمایاں ہوتی ہے۔
۱۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اہلِ کتاب حضرت محمدﷺ پر ایمان لاتے اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو اللہ ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا اور ان کو جنت کے نعمت بھرے باغوں میں داخل کرتا۔
۱۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تورات اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد اصل تورات اور اصل انجیل کو قائم کرنا ہے نہ کہ تحریف شدہ تورات و انجیل کو۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو نوٹ ۱۴۳۔ ۱۹۷
۱۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن۔ اللہ کی کتاب کو قائم کرنے کا مطلب اس کو اپنا رہنما اور دستور زندگی بنانا ہے۔
۱۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد دنیوی نعمتیں اور برکتیں ہیں۔
"اگر تم میری شریعت پر چلو اور میرے حکموں کو مانو اور ان پر عمل کرو تو میں تمہارے لئے بر وقت مینہ برساؤں گا اور زمین سے اناج پیدا ہو گا اور میدان کے درخت پھلیں گے۔ (احبار۲۶: ۳،۴)
"اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی مبارک ہو گا۔ (استثناء ۲۸: ۲، ۳)
مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن دنیوی فوائد کو اطاعتِ الٰہی کے ثمرہ کے طور پر پیش کرتا ہے نہ کہ اصل محرک اور غایت کے طور پر۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فوائد اور یہ برکتیں قرآن میں ضمناً بیان ہوئی ، ہیں جبکہ رضائے الٰہی کو اطاعت و بندگی کے اصل محرک اور فلاح آخرت کو غایت اور مقصود کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے اور یہ بات قرآن میں اتنی بار اور اتنے مؤثر طریقہ سے دہرائی گئی ہے کہ یہ دعوتِ اسلامی کا مخصوص مزاج بن گئی ہے اور بلا استثناء تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا رنگ یہی رہا ہے۔ مگر محرف شدہ تورات میں آخرت کا پہلو دب گیا ہے اور ا طاعت الٰہی کے دنیوی ثمرات بار بار اور اصل غایت کے طور پر بیان ہوئے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مرتبین کے ذہن پر دنیا کس قدر چھائی ہوئی تھی۔
آج بھی مرعوب ذہن کے لوگ جب دعوتِ اسلامی کو پیش کرنے کے لئے اٹھتے ہیں تو نظامِ اسلامی کے دنیوی اور مادی فوائد بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرنے لگتے ہیں۔
رہا آخرت کا پہلو تو وہ برائے بیت ہوتا ہے۔ یہ طریقۂ دعوت نہ انبیائی ہے اور نہ قرآنی اور نہ ہی اس سے انسان کا اندروں بدل سکتا ہے۔
۱۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اہلِ کتاب کا وہ گروہ ہے جو اگر چہ تعداد کے لحاظ سے قلیل تھا لیکن حق پر قائم تھا اور جب قرآن کی دعوت اس پر واضح ہوئی توا س نے اس پر لبیک کہا۔
۱۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سخت تاکیدی حکم ہے جو نبیﷺ کو دیا گیا۔ رسول، اللہ کا پیغمبر ہوتا ہے اس لئے اس کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو بے کم و کاست اور کسی بھی اندیشہ کو خاطر میں لائے بغیر لوگوں تک پہنچا دئے۔ اس میں کوتاہی کا مطلب فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی ہے۔ نبیﷺ نے اس فریضہ کو کما حقہ ادا کیا اور پورا قرآن جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیا۔ حجۃ الوداع (آخری حج) کے موقع جو آپ نے اپنی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل کیا تھا مجمعِ عام سے مخاطب ہو کر پوچھا۔
واَنْتُمْ تُسْألُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ:
تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے۔
قَالُوْانَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَادَّیْتَ وَنَصَحْتَ
حاضرین نے کہا ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپؐ نے ہم تک (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ،اپنا فرض ادا کیا اور ہماری خیر خواہی کی۔
آپ نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا
"خدا یا تو گواہ رہ (مسلم کتاب الحج)
آج قرآن جیسا کہ وہ نازل ہوا تھا ہمارے ہاتھ میں موجود ہے اس لئے کل عدالتِ خداوند ی میں کوئی شخص یہ عذر پیش نہیں کر سکے گا کہ اللہ کا پیغام پہنچا نہیں تھا
۱۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قرآن کی یہ پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی چنانچہ مخالفین کی سازشوں اور جنگی کار روائیوں کے باوجود لوگوں کے شر سے محفوظ رہے اور کوئی طاقت بھی آپ کو قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
۱۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافر اپنے ارادوں میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ خدا کا جو منصوبہ آخری نبی کے سلسلہ میں ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔
۱۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کتاب کو قائم کرنے سے مراد کو قائم کرنا ہے اور قرآن کو قائم کرنا در حقیقت تورات اور انجیل کو بھی قائم کرنا ہے اس لئے کہ جہاں تک اصل تورات اور انجیل کا تعلق ہے ان کی بنیادی تعلیمات اور قرآن کی بنیادی تعلیمات میں کوئی فرق نہیں ہے یہ ایک ہی درخت کی مختلف شاخیں ہیں۔ اگر اہلِ کتاب تورات اور انجیل کی تعلیمات پر کاربند ہوتے تو انہیں قرآن میں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوتی بلکہ جس راہِ ہدایت پر وہ چل رہے تھے قرآن کی روشنی میں اسی راہ پر اپنا سفر آگے جاری رکھ سکتے تھے۔
۱۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے۔
۲۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد شریعت کی پابندی کا عہد بھی ہے اور اس بات کا عہد بھی کہ جب کبھی ان کے پاس خدا کی طرف سے کوئی رسول آئے گا تو وہ اس کی تائید و حمایت کریں گے۔
۲۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک طرف شریعت کی پابندی کا عہد بھی اور دوسری طرف یہ جسارت بھی کہ پیغمبروں کو قتل کرنے کے درپے ہوں۔ انسان جب خواہشات کا پرستار بنتا ہے تو وہ اس قسم کی متضاد باتیں اپنے اندر جمع کر لیتا ہے۔
۲۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان جرائم کے ارتکاب کے بعد جب ان پر فوری طور سے کوئی آفت نہیں آئی تو وہ یہ خیال کر بیٹھتے کہ ان کو اس کی سزا ملنے والی ہی نہیں۔ حالانکہ یہ ڈھیل ہے جو اللہ مجرموں کو دیتا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کریں۔
۲۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور ا پنی اصلاح کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا لیکن اس کے بعد پھر وہ اندھے اور بہرے بن گئے۔ یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کی تاریخ کی طرف کہ اس میں ان کے دینی و اخلاقی عروج و زوال کے واقعات متعدد بار پیش آئے ہیں۔ بائبل کی کتاب نحمیاہ میں ہے۔
"پھر وہ کھا کر سیر ہوئے اور موٹے تازہ ہو گئے اور تیرے بڑے احسان سے نہایت خط اٹھایا۔ تو بھی وہ نافرمان ہو کر تجھ سے باغی ہوئے اور انہوں نے تیری شریعت کو پیٹھ پیچھے پھینکا اور تیرے نبیوں کو جو ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو تیری طرف پھر ا لائیں قتل کیا اور انہوں نے غصہ دلانے کے بڑے بڑے کام کئے۔ اس لئے تو نے ان کو ان کے دشمنوں کے ہاتھ میں کر دیا۔ تو بھی جب وہ رجوع لائے اور تجھ سے فریاد کی تو تو نے آسمان پر سے سن لیا اور اپنی اور اپنی رحمتوں کے مطابق ان کو بار بار چھڑایا پرا انہوں نے گھمنڈ کیا اور تیرے فرمان نہ مانے (نحمیاہ ۹: ۲۵ تا ۲۹)
۲۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اگر چہ اندھے بن گئے ہیں لیکن اللہ تو ان کے کرتوتوں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔ زبو رمیں ہے۔ " وہ بیوہ اور پردیسی کو قتل کرنے اور یتیم کو مار ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوند نہیں دیکھ گا اور یعقوب کا خدا خیال نہیں کرے گا۔ اے قوم کے حیوانو ذرا خیال کرو۔ اے احمقو ! تمہیں کب عقل کب آئے گی ؟جس نے کان دیا کیا وہ خود نہیں سنتا ؟جس نے آنکھ بنائی کیا وہ دیکھ نہیں سکتا ؟کیا وہ جو قوموں کو تنبیہ کرتا ہے اور انسان کو دانش سکھاتا ہے سزا نہ دے گا (زبو ر ۹۳: ۶تا۱۰)
۲۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح نوٹ ۸۵میں گزر چکی۔
۲۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ اپنے الٰہ یا رب ہونے گا دعویٰ کیا تھا اور نہ یا فرمایا تھا کہ میری عبادت کرو بلکہ ایک اللہ کو الٰہ اور رب ماننے اور صرف اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا۔ آج بھی انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ حکم صراحت کے ساتھ موجود ہے۔
"تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر (متی ۴: ۱۰) ۔
اور اس سے قرآن کے بیان کی پوری پوری تصدیق ہوتی ہے۔
۲۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۲۸۰ نیز سورہ اخلاص نوٹ۔ ۳ واضح رہے کہ عیسائیوں کے بھی مختلف فرقے ہیں اور ان کے عقائد میں باہم اختلاف ہے۔ کوئی اس بات کا قائل ہے کہ خدا مسیح میں حلول کر گیا ہے یعنی مسیح خدا کا جسامتی وجود ہے اور کوئی تین خداؤں کا قائل ہے اور پھر ان تین خداؤں کی تعیین میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کوئی باپ ، بیٹا اور روح القدس کو اقانیم ثلاثہ کے طور پر مانتا ہے تو کوئی روح القدس کی جگہ ماں (حضرت مریم) کو خدائی کا درجہ دیتا ہے۔ (خدا کی پناہ ان باطل عقائد سے)
۲۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان میں سے جو لوگ ان باتوں سے باز آئیں گے ان کو سزا نہیں ملے گی لیکن جو لوگ باز نہیں آئیں گے اور کفر پر اڑے رہیں گے انہیں سخت سزا بھگتنا ہو گی۔
۲۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حضرت مسیح اسی طرح رسول تھے جس طرح دوسرے بہت سے رسول گزر چکے ہیں پھر اگر ان رسولوں میں سے کوئی بھی خدا نہیں تھا تو مسیح کو خدا سمجھنے کی کیا وجہ ؟
۲۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسیح کی والدہ حضرت مریم نہایت راست باز اور صدق و صفا کا پیکر تھیں۔ اس صفت نے ان کو یقیناً اخلاق کے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا تھا مگر تھیں بہر حال انسان۔
۲۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مسیح اور ان کی والدہ (مریم) کے خدا نہ ہونے کا بین ثبوت یہ ہے کہ دونوں کھانا کھاتے تھے اور جو کھانے کا محتاج ہو وہ خدا کیوں کر ہو سکتا ہے ؟اور جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کی احتیاج کس طرح دور کر سکتا ہے ؟
جہاں تک انجیل کا تعلق ہے وہ بھی حضرت مسیح اور ان کی والدہ کو انسان ہی کی حیثیت سے پیش کرتی ہے اور اس میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کھانا کھاتے تھے۔
اور جب وہ گھر میں کھانا کھانے بیٹھا تھا تو ایسا ہوا کہ بہت سے محصول لینے والے اور گنہگار آ کر یسوع اور اس کے شاگردوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے۔ فریسیوں (فقہائے یہود) نے یہ دیکھ کر اس کے شاگردوں سے کہا تمہارا استاد محصول لینے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کیوں کھاتا ہے ؟ (متی،۹:۱۰،۱۱)
اور انجیل کی شہادت یہ بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ کو بھوک لگتی تھی: اور جب صبح کو پھر شہر کو جا رہا تھا اسے بھوک لگی (متی، ۲۱:۱۸)
۲۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک اللہ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو حقیقی معنیٰ میں نفع اور نقصان پہنچانے والی ہو پھر اس کے سوا کسی کی پرستش کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے ؟
مسیح کے اللہ کا رسول ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ نفع اور نقصان پہنچانے پر قادر ہیں اس لئے ان کی پرستش کے لئے سرے سے کوئی بنیاد موجود ہی نہیں ہے۔
۲۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سب کچھ سننا اور سب کچھ جاننا نہ مسیح کی صفت ہے اور نہ کسی اور کی بلکہ صرف اللہ کی صفت ہے پھر مسیح یا کسی اور کو فریاد رسی اور حاجت روائی کے لئے پکارنا کیا معنی؟وہ جب تمہاری فریاد کو سنتے ہی نہیں اور نہ تمہارے حالات سے باخبر ہیں تو تمہاری حاجت روائی کیا کریں گے ؟
۲۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۲۷۷ میں گزر چکی۔
۲۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ان کے وہ پیشرو ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کی عقیدت میں غلو کیا ا ور دور از کا ر تاویلات اور بدعات میں پڑ کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسرو ں کو بھی گمراہ کر دیا اور گمراہی چونکہ بنیادی عقائد میں تھی اس لئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صراطِ مستقیم ہی ان پر گم ہو گئی اور وہ اسلام کی شاہراہ سے بہت دور جا پڑے۔
عیسائیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ پولسس (پال) اور اس کے ساتھیوں نے حضرت مسیح کے بارے میں غلو میں مبتلا ہو کر ان کے لئے خداوند اور خدا کا بیٹا جیسے القاب تجویز کئے اور کفارہ کا عقیدہ گڑھا۔ بائبل میں اناجیل اربعہ کے ساتھ پولسس وغیرہ کے جو خطوط شامل کر دئے گئے ہیں ان میں ان کے ان گمراہ کن فلسفوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ قرآن کا اشارہ ان کے انہیں باطل عقائد اور بدعات کی طرف ہے۔
۲۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ سرکش ہو گئے تھے اور احکام الٰہی کی کھلی نافرمانی کر نے لگے تھے ان کو حضرت داؤد علیہ السلام نے سخت جھنجھوڑا۔ زبور میں اس کی مثالیں ملتی ہیں مثلاً :
"اے خداوند شریر کی مراد پوری نہ کر۔ ا س کے برے منصوبہ کو انجام نہ دے تاکہ وہ ڈینگ نہ مارے۔ مجھے گھیرنے والوں کے منہ کی شرارت ان ہی کے سر پر پڑے۔ ان پر انگارے گریں۔ وہ آگ میں ڈالے جائیں اور ایسے گڑھوں میں کہ پھر نہ اٹھیں۔ (زبور ۱۴۰ : ۸تا ۱۰)
" وہ اپنے منہ کے گناہ اور اپنے ہونٹوں کی باتوں اور اپنے لعن طعن اور جھوٹ بولنے کے باعث اپنے غرور میں پکڑے جائیں۔ قہر میں ان کو فنا کر دے۔ فنا کر دے تاکہ وہ نابود ہو جائیں۔ (زبور۵۹: ۱۲، ۱۳)
" اس نے لعنت کو اپنی پوشاک کی طرح پہنا ، اور وہ پانی کی طرح اس کے باطن میں اور تیل کی طرح اس کی ہڈیوں میں سما گئی۔ خداوند کی طرف سے میرے مخالفوں کا اور میری جان کو برا کہنے والوں کا یہی بدلہ ہے۔ (زبور ۱۰۹: ۱۸ تا ۲۰)
اور عیسیٰ علیہ السلام نے ان علماء کو جو عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور جو دین کی اصل حقیقت کو نظر انداز کر کے محض ظاہر داری کو لے بیٹھے تھے سخت لعنت ملامت کی۔ اس سلسلہ میں انجیل کے چندا قتباسات ملاحظہ ہوں۔
"اے ریا کارو فقیہو اور فریسیو (عالمو!) تم پر افسوس ! آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند کرتے ہو کیوں کہ نہ تو آپ داخل ہوتے ہو اور نہ داخل ہو نے والوں کو داخل ہونے دیتے ہو۔ اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس !کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو اندھے فریسی پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔ اے ریاکارو فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس !کہ نبیوں کی قبریں بناتے اور راستبازوں کے مقبرے آراستہ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانہ میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں ان کے شریک نہ ہوتے۔ اے سانپو ! اے افعی کے بچو !تم جہنم کی سزا سے کیوں کر بچو گے ؟
اے یروشلم ! اے یروشلم !تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے ! دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔ (متی ۲۳: ۱۳ تا ۳۸)
۲۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بنی اسرائیل کی عام حالت بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے برائی کے ارتکاب سے ایک دوسرے کو روکنا چھوڑ دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرپسندوں کے حوصلے بڑھ گئے اور بگاڑ عام ہو گیا۔ اس میں امت مسلمہ کے لئے زبردست انتباہ ہے۔
۲۱۹ یعنی ان کو سچے اہلِ ایمان سے تو بیر ہے لیکن کافروں سے محبت ، چنانچہ وہ مسلمانوں کے تو دشمن بنے ہوئے ہیں لیکن مشرکین مکہ سے انہوں نے دوستی گانٹھ لی۔
آج یہی حال منافق صفت مسلمانوں کا بھی ہے کہ وہ مؤمنین مخلصین سے بیزار ہوتے ہیں اور کافروں اور مشرکوں کی طرف دوستی کے لئے پینگیں بڑھاتے ہیں۔
۲۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ اپنے اس دعوے میں بالکل جھوٹے ہیں کہ ہم اللہ ، نبی اور کتاب پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ چنانچہ ہم موسیٰ کو اللہ کا پیغمبر اور تورات کو کتاب الٰہی مانتے ہیں۔ اگر یہ اپنے دعوے سچے تلے تو اہلِ ایمان (مسلمانوں) کے دشمن اور کافروں کے دوست نہ بن گئے ہوتے کیوں کہ ہر جنس اپنی جنس کے ساتھ ہی پرواز کرتی ہے۔ کبوتر با کبوتر باز با باز
۲۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہود اور مشرکین تو مسلم دشمنی میں مرے جا رہے ہیں البتہ نصاریٰ کو تم نسبتاً دوستی میں قریب تر پاؤ گے اور س کی وجہ جیسا کہ بعد کے فقرہ میں واضح کر دی گئی ہے کہ ان میں خدا ترس لوگ موجود ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں نصاریٰ کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس گروہ نے اسلام دوستی کا ثبوت دیا ہے اس لئے آیت کا اشارہ اسی گروہ کی طرف ہے اس سے مطلقاً ہر زمانہ کے عیسائی مراد لینا صحیح نہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ عیسائیوں نے بارہا اسلام دشمنی اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیا ہے چنانچہ اندلس کے واقعات صلیبی جنگیں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے سیکولر زم پر یقین رکھنے والے مسیحی بھی اس کے مصداق نہیں ہو سکتے کیوں کہ نہیں ہو سکتے کیوں کہ وہ ان خصوصیات سے عاری ہیں جن کا ذکر ان آیات میں ہوا ہے۔
۲۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راہب سے مراد زاہد قسم کے خدا ترس لو گ ہیں۔ اور تکبر نہیں کرتے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں غرور نفس نہیں ہے اس لئے جب حق ان کے سامنے واضح ہو کر آتا ہے تو وہ اسے ٹھکراتے نہیں ہیں۔
۲۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان لوگوں کا حال بیان ہوا ہے جو نصاریٰ کے گروہ میں سے تھے لیکن ان کے اندر حق پسندی تھی اس لئے جب انہوں نے قرآن کو سنا تو پہچان لیا کہ واقعی یہ کلامِ الٰہی ہے اور حق شناسی کی وجہ سے بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
اس سورہ کے نزول سے کافی پہلے یعنی ہجرت حبشہ (سنہ۵ نبوی) کے موقع پر یہ واقعہ پیش آ چکا تھا کہ جب حضرت جعفر نے حبش کے فرمانروا نجاشی کو سورہ مریم کی ابتدائی آیتیں پڑھ کر سنائیں کلامِ الٰہی کی تاثیر سے اس کا دل دہل گیا اور جو ش گریہ سے آنکھیں بہہ پڑیں یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہو گئی اور دربار میں موجود اساقفہ (Bishops) بھی رو پڑے۔ پھر نجاشی نے کہا" یہ کلام اور عیسیٰ پر نازل شدہ کلام ایک ہی چراغ سے نکلی ہوئی دو شعاعیں ہیں۔ (سیرۃ النبی ابن ہشام ج۱ص ۳۵۹)
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی طالب حق ہو گا اور قرآن کا مطالعہ کرے گا وہ حق کو قرآن میں جلوہ گر پائے گا اور جوشِ مسرت سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوں گی کہ تلاش جس خزانہ کی تھی وہ ہاتھ لگ گیا۔ کلامِ الٰہی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے۔
۲۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صالحین کے زمرہ میں شامل کرے تو اس کا تقاضا ہے کہ ہم مذہبی گروہ بندی سے بلند ہو کر حق کا استقبال کریں۔
۲۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان عیسائیوں کے انجام کی طرف جو اپنے کفر پر اڑے رہیں گے اور دعوتِ قرآنی کو قبول نہیں کریں گے۔
۲۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر راہبوں کا ذکر ہوا تھا اس مناسبت سے یہاں ایک ممکنہ غلط فہمی کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔ عیسائی راہبوں نے پاک چیزوں اور دنیا کی جائز لذتوں سے اپنے کو محروم کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ صحیح نہیں۔ قرآن کے پیروؤں کو چاہئے کہ وہ رہبانیت کے اس طریقہ کو اختیار کر کے حلال چیزوں کو حرام نہ کر لیں۔
افسوس ہے کہ قرآن کی اس واضح ہدایت کے باوجود مسلمانوں میں رہبانیت کے طور طریقے تصوف کے نام سے داخل ہو گئے اور نفس کو مارنے اور جائز لذتوں سے اپنے کو محروم کرنے کو زہد سمجھا جانے لگا اور عزلت نشینی کی زندگی تو رع کی زندگی قرار پائی۔
خدا کے ٹھہرے ہوئے حلال کو حرام کرنے کی ایک صورت وہ ہے جو ہندوستان کے مشرکین نے گوشت خوری کے سلسلہ میں اختیار کی ہے چنانچہ وہ پاکیزہ جانوروں کا گوشت کھانے میں سخت کراہت محسوس کرتے ہیں اور محض توہم کی بنا پر اس سے اس طرح پرہیز کرتے ہیں ، جس طرح حرام چیز سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اور چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی اس سے پرہیز کریں۔
۲۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حد سے تجاوز کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ حلال کو حرام کیا جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ حلال چیزوں کے استعمال میں اسراف سے کام لیا جائے۔
۲۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورہ بقرہ نوٹ ۳۳۲ میں گزر چکی۔
۲۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قسم توڑنے کا کفارہ۔ کس خطا کے سرزد ہو جانے پر اس کے گناہ کو محو کرنے کا جو طریقہ شریعت نے مقرر کیا ہے یعنی صدقہ وغیرہ کر نا اس کو کفارہ کہتے ہیں جس کے لفظی معنیٰ ڈھانکنے والی چیز کے ہیں۔
۲۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قسم کھانے کے بعد اگر تم اسے توڑ دو تو تمہیں اس کا کفارہ ادا کرنا ہو گا۔
۲۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قسم کھانے میں محتاط رہو اور جب کھا چکو تو اسے یاد رکھو اور پورا کرو اور اگر توڑنا پڑے تو اس کا کفارہ ادا کرو۔ مطلب یہ ہے کہ قسم کے معاملہ میں بے پروا ہونا بڑی غیر ذمہ دارانہ بات ہے۔
۲۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھان کی تشریح نوٹ ۲۵ اور پانسہ کے تیر کی تشریح نوٹ ۲۶ میں گز ر چکی۔
۲۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں شراب اور جوئے کے تین اہم مفاسد بیان کئے گئے ہیں :
ایک یہ کہ یہ چیزیں آپس میں بغض و عداوت کی آگ بھڑکاتی ہیں۔ جہاں تک شراب کا تعلق ہے وہ چونکہ محرک بھی ہے اور عقل و شعور کو متاثر کرنے والی بھی اس لئے شراب پینے کے بعد طبیعت میں اشتعال پیدا ہو جاتا ہے اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے نیز عقل اس حالت میں نہیں ہوتی کہ آدمی صحیح فیصلہ کر سکے یا ا پنے کو قابو میں رکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ شراب پینے کے نتیجہ میں حادثات بھی زیادہ ہونے لگتے ہیں اور جرائم بھی۔ گویا شراب کا اور جرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
رہا جوا تو ہارنے والے کے دل میں جیتنے والے کے خلاف کینہ پیدا ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال حق و انصاف کی بنیاد پر بازی جیتنے والے کی طرف منتقل نہیں ہوا ہے بلکہ محض اتفاق (Chance) کی وجہ سے ہوا ہے۔ تجارت میں آدمی نقصان اٹھاتا ہے لیکن ہارتا نہیں ہے جب کہ جوئے میں نقصان کے ساتھ ہار لازم ملزوم ہے اور ہار کا تصور آدمی کے اندر جتنے والے کے خلاف غلط جذبات پیدا کر دیتا ہے۔
دوسرے یہ کہ شراب اور جوا دونوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آدمی کو خدا کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ شرابی فسق و فجور میں غرق ہو کر داد عیش دے رہے ہوتے ہیں اسی طرح جوئے باز کے ذہن پر ہار جیت کا تصور ایسا مسلط رہتا ہے کہ ایک ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کا احساس اس میں ابھرنے ہی نہیں پاتا اور میلان عیش کوشی کی طرف ہو جاتا ہے۔
تیسرے یہ کہ یہ چیزیں نماز سے روکتی ہیں۔ اور یہ عام مشاہدہ میں آنے والی بات ہے کہ شراب اور جوئے کے رسیا نماز سے بے پروا ہوتے ہیں۔ در حقیقت نماز وہی شخص پڑھتا ہے جس کا نفس جاگ رہا ہو لیکن شراب اور جوا تو آدمی کے نفس کو سلانے والی چیزیں ہیں پھر ایسا شخص نماز کے لئے کس طرح اٹھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۳۱۶ ،۳۱۷،۳۱۸ ،نیز سورۂ نساء نوٹ ۹۷۔
واضح رہے کہ خمر (شراب) سے مراد جیسا کہ نبیﷺ نے واضح فرمایا
کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌ وَکُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ
ہر وہ چیز جو سکر (نشہ) پیدا کرے خمر ہے اور ہر نشہ اور چیز حرام ہے۔
دوسری حدیث میں ہے : کل ما آ سکر عن الصلوٰۃ فھو حرام
"ہر وہ چیز جو نشہ لا کر نماز سے روک دے حرام ہے۔ (مسلم کتاب الاشربہ) معلوم ہوا کہ حرمت کی اصل علت نشہ ہے اس لئے جو بھی چیز بھی نشہ پیدا کرنے والی ہو وہ خمر یعنی شراب ہے خواہ وہ انگور سے بنائی گئی ہو یا کھجور سے اور خواہ لوگوں نے اس کا کوئی نام رکھا ہو۔ Whisky, Beer Wine اور جو سے بنائی گئی ہو یا گڑ کے علاوہ شراب کی غرض سے استعمال کئے جانے والے الکحل اور تمام منشیات پر خواہ وہ مائع ہوں یا ٹھوس اس حکم کا اطلاق ہوتا ہے نیز حدیث میں ارشا د ہوا ہے۔
مَا آ سکرَ کَثِیْرُہٗ فَقَلِیْلُہٗ حَرَامٌ (الترمذی ابواب الاشربہ)
جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کر دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔
یہ اس لئے کہ حرام کی طرف رغبت نہ ہو اور فتنہ کا دروازہ بند ہو جائے۔ جوئے کے بارے میں بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ہر وہ لین دین جس کی بنیاد محض اتفاق اور ہار جیت پر ہو قمار ہے خواہ سٹے کی شکل میں ہو یا گھوڑوں کی ریس (Race) کی شکل میں یا کسی اور شکل میں۔ موجودہ زمانہ کی لاٹریاں جوئے ہی کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں خواہ وہ سرکاری لاٹریاں (State Lotteries) ہی کیوں نہ ہو ں۔
۲۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شراب وغیرہ کی حرمت کا واضح اور قطعی حکم آنے سے پہلے جن لوگوں نے جو کچھ کھا پی لیا تھا اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مواخذہ نہ ہو گا بشرطیکہ انہوں نے ہر آزمائش کے موقع پر خدا خوفی ، استقامت ، اور نیک روی کا ثبوت دیا ہو۔ آیت میں تقویٰ ،ایمان اور عمل صالح کا جو بار بار ذکر ہوا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کر تا ہے کہ احکام الٰہی کی تعمیل کے سلسلہ میں آزمائش کے مرحلے بار بار پیش آئے اور اللہ کے ان مخلص بندوں نے ہر ایسے موقع پر کامل وفا داری کا ثبوت دیا۔
۲۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالتِ احرام میں شکار کی ممانعت کا حکم آیت ۱ میں گزر چکا۔ یہاں اسی سلسلہ میں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاملہ میں تمہاری سخت آزمائش ہو گی یعنی اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پیدا کریگا کہ شکار تمہارے نیزوں کی بالکل زد میں ہو گا۔ اگر تم چاہو تو بہ آسانی شکار کر سکتے ہو لیکن تمہیں چاہئے کہ خدا سے ڈرو اور شریعت کی پابندی کا جو عہد تم نے کیا ہے اس پر قائم رہو۔ نزولِ قرآن کے زمانہ میں اہلِ عرب کے لئے دورانِ سفر شکار ایک ضرورت کی چیز تھی اس لئے یہ پابندی ان کے لئے آسا ن نہ تھی اور اس میں ان کا کھلا امتحان تھا۔
۲۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احرام کی حالت میں شکار کرنے کی ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جن جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے ان میں سے اگر کوئی جانور اتفاقا نزدیک آ جائے اور اسے پکڑ کر ذبح کیا جا سکتا ہو تو بھی اسے پکڑنا اور ذبح کرنا جائز نہ ہو گا۔
۲۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس طرح کا جانور اس نے مارا ہے اس جیسا جانور جو گھریلو چوپایوں میں سے ہو قربانی کے لئے خانۂ کعبہ بھیج دینا ہو گا۔ مثلاً ہرن کو اگر مارا ہے تو اس کے ہم پلہ بکری ہو سکتی ہے اور نیل گائے کے ہم پلہ گائے لیکن اس بات کا فیصلہ کہ کون سا جانور ہم پلہ ہے اہلِ ایمان میں سے دو ثقہ اور انصاف پسند آدمی کریں گے۔
۲۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ فیصلہ بھی دو عادل آدمی ہی کریں گے کہ کتنے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے یا کتنے روزے رکھے جائیں۔
۲۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کفارہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی نافرمانی کرتا رہے اور کفارہ دیتا رہے اور یہ سمجھتا رہے کہ اس پر آخرت میں کوئی سزا نہ ہو گی۔
۲۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سمندر اور دریا کا شکار کرنا حالتِ احرام میں بھی جائز ہے۔ اسی طرح اس سے جو غذا حاصل ہوئی ہو خواہ محرم کے شکار کرنے سے حاصل ہوئی ہو یا غیر محرم کے شکار کرنے سے وہ محرم اور غیر محرم سب کے لئے جائز ہے۔
طعامہ: (سمندری غذا) کے الفاظ اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ بغیر شکار کے جو غذائی چیزیں سمندر یا دریا خود اگل دے ان کا کھانا بھی جائز ہے۔
۲۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگوں کے لئے نقطۂ اجتماع ہے اور ان کی تمام سرگرمیوں کے لئے محور ہے ، حج و عمرہ کی عبادتیں اسی سے متعلق ہیں۔ نماز کے لئے یہ قبلہ ہے، دینی مصالح اسی سے وابستہ ہیں ، یہاں ہدایت کا چشمہ ابلتا ہے ،یہ امن کا گھر ، انسانیت کی پناہ گاہ اور ملت کی شیرازہ بندی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
۲۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان چیزوں کا حکم آیت ۲ میں بیان ہو چکا ہے یہاں یہ واضح کیا جا رہا ہے کہ خانۂ کعبہ کی حرمت کے ساتھ ان چیزوں کی حرمت بھی اپنے اندر اہم ترین دینی مصالح کو لئے ہوئے ہے اس لئے ان کے احترام کے سلسلہ میں جو ہدایتیں دی گئی ہیں ان کا پورا خیال رکھو۔
۲۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان شعائر کے ساتھ جو عظیم مصالح وابستہ ہیں ان کو دیکھ کر یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ جس ہستی نے حرمتوں کا یہ نظام بنایا اور حکمتوں سے لبریز شریعت نازل فرمائی ا س پر آسمان اور زمین کی ساری حقیقتیں عیاں ہیں اور وہ اپنے علم میں بالکل کامل ہے۔
۲۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو لوگ ان شعائر کی بے حرمتی کریں گے وہ سزا کے مستحق ہوں گے اور جو ان کا احترام کریں گے وہ بخشش و رحمت کے مستحق ہوں گے۔
۲۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس غلط ذہنیت پر ضرب کاری ہے جو اچھائی اور برائی کے بارے میں عام طور سے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جب کسی برائی کا چلن عام ہو جاتا ہے تو اس میں لوگوں کو بڑی کشش محسوس ہونے لگتی ہے اور وہ اس کی طرف لپکتے ہیں پھر نہ وہ پاک و ناپاک میں تمیز کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ انہیں اس بات سے دلچسپی ہوتی ہے کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ مگر برائی کی کثرت کو دیکھ کر اس سے متاثر ہو جانا نادانوں کا کام ہے عقلمندوں کا نہیں۔ کیوں کہ عقل و فطرت اچھائی اور برائی کو یکساں قرار نہیں دیتی اور نہ اچھے اور برے لوگوں کو ایک سطح پر رکھتی ہے۔ وہ دودھ اور گوبر میں اور شہد اور شراب میں امتیاز کرتی ہے اور گندگی کی مقدار کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اس سے نفرت ہی کرتی ہے۔
یہ ایک اصولی حقیقت یہاں اس لئے واضح کر دی گئی ہے تاکہ شریعت نے جن چیزوں کو ناپاک اور حرام قرار دیا ہے ان سے لوگ اس بنا پر ملوث نہ ہوں کہ عوام کی کثرت اس پر ٹوٹ پڑی ہے یا زمانہ کا رخ یہی ہے۔
۲۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شرعی احکام کے سلسلہ میں غیر ضروری سوالات نہ کر و۔ کیوں کہ اس کے نتیجہ میں پابندیوں میں اضافہ ہو گا۔ یہ اور اسی طرح کی دوسری آیات کے ذریعہ قرآن نے اپنے اصحاب کی جس طرح تربیت فرمائی اس کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ احکامِ شریعت پر پورے خلوص کے ساتھ عمل پیرا ہوتے اور اس کے اصل منشاء کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ غیر ضروری بحثیں کھڑی کرنے اور باتوں کو کریدنے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کیوں کہ کریدنے اور موشگافیاں کرنے سے وہ وسعت جو احکام کے سلسلہ میں شریعت کے پیشِ نظر رہی ہے باقی نہیں رہتی اور تنگی پیدا ہو جاتی ہے لیکن بعد کے ادوار میں یہ خصوصیت کم ہوتی چلی گئی اور جو مزاج بن گیا اس کے صحابۂ کرام کے مزاج سے مناسبت نہیں تھی چنانچہ ایک خاص انداز کا فقہی ذہن پرورش پایا اور جب کرید شروع ہوئی اور تفصیلات میں ذہن الجھنے لگا تو عمل کم اور باتیں زیادہ ہونے لگیں۔ اور ایک خاص طبقہ کو تو کاوش کر کے سوالات کرنے ، بال کی کھال نکالنے اور غیر ضروری اور فرضی مسائل پیدا کرنے میں ایسی ہی مہارت ہو گئی جیسی کہ موجودہ دور کے قانون دانوں اور وکیلوں (Lawyers & Advocates) کو ہوتی ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔ مثال کے طور پر یہ سوال کہ کوئی شخص حج کے لئے جائے اور صفا و مروہ کے درمیان برہنہ ہو کر سعی کرے تو اس کی سعی ادا ہو گی یا نہیں ؟ظاہر ہے یہ ایک فرضی سوال ہے کیوں کہ جو شخص حج کے لئے جائیگا وہ بے حیائی کا کام کیوں کرنے لگے؟یا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی اذان دیتے ہوئے بیچ اذان کے مرتد ہو جائے تو دوسرا مؤذن اذان کہاں سے شروع کرے؟غالباً یہ مسئلہ نہ کبھی پیش آیا ہو گا اور نہ قیامت تک پیش آنے کا امکان ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ کہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا تیرے ہاتھ کو طلا ق یا تیرے پاؤں کو طلا ق یا تیرے سر کو طلاق واقع ہوئی یا نہیں یا اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا کہ آسمان میں جتنے تارے ہیں تجھے اتنی ہی طلاقیں تو کتنی طلاقیں واقع ہوئیں ؟
یا یہ مسئلہ کہ کوئی شخص بنت الزنا سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں ؟جب اس قسم کے سوالات پیدا کر دئے گئے تو اس کا اثر لازما ذہنوں اور سیرتوں پر پڑا اور وہ طرز فکر ، وہ مزاج اور وہ روح باقی نہیں رہی جو قرنِ اول کے پروانِ اسلام کا طرۂ امتیاز تھی۔ حدیث میں آتا ہے :
وَسَکَتَ عَنْ اَشْیَاءِ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ فَلاَ تَبْحَثُوْا عَنْھَا (مشکوٰۃ کتاب الایمان باب الاعتصام)
اور اللہ نے کچھ چیزوں کی نسبت خاموشی اختیار کر لی ہے بغیر اس کے کہ اسے بھول لاحق ہوئی ہو تو ایسی چیزوں کو کرید و مت۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبیﷺ کثرتِ سوال سے منع فرمایا کرتے تھے۔ (مسلم کتاب الاقضیہ)
ایک موقع پر آپ نے فرمایا: لوگو تم پر حج فرض کیا گیا ہے لہٰذا حج کرو۔ جب اس شخص نے کہا کیا ہر سال یا رسول اللہ ؟آپ خاموش رہے۔ جب اس شخص نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا تو آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر فرض ہو جاتا پھر تم اس کی تعمیل نہ کر پاتے۔ پھر آپ نے فرمایا "میں تمہیں جس حال میں چھوڑوں اسی پر مجھے چھوڑ دو کیوں کہ تم سے پہلے کے لوگ کثرتِ سوال اور اپنے انبیاء سے اختلافات ہی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ لہٰذا جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جس حد تک تمہاری استطاعت ہے اس پر عمل کر و اور جب کسی بات سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔ (مسلم کتاب الحج با ب ۷۳)
۲۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوتا ہے شرعی احکام کی تفصیل کے سلسلہ میں کچھ لوگوں نے غیر ضروری سوالات کئے تھے۔ اس سلسلہ میں فرمایا کہ اللہ نے ان کو نظر انداز کر دیا۔ البتہ آئندہ کے لئے محتاط رہو۔
۲۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے یہود کی طرف جنہوں نے سوالات کر کر کے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیں اور احکام کی تفصیلات میں اس طرح گئے کہ موشگافیاں کر کے اپنے لئے جکڑ بندیاں پیدا کر لیں اور پھر ان میں اس طرح الجھ گئے کہ نافرمان اور منکر ہو کر رہ گئے۔ سورۂ بقرہ آیت ۶۷تا۷۱ میں گائے کا قصہ گزر چکا کہ جب ان کو ذبح کرنے کا حکم کیا گیا تو انہوں نے طرح طرح کے سوالات کر کے شریعت کے ایک آسان حکم کو مشکل بنا دیا اور اپنے اوپر پابندیوں میں اضافہ کرا لیا۔
۲۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے یہ چیزیں مشروع نہیں کی ہیں۔ یہ چیزیں توہمات میں سے ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔ بحیرہ ،سائبہ ، وصیلہ اور حام ان جانوروں کے نام ہیں جن کو مشرکین پُن کر کے دیوتاؤں کے نام چھوڑ دیتے تھے۔
بحیرہ:اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا پانچواں بچہ نر ہوتا۔ ایسی اونٹنی کے کان چیر کر اسے بتوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے ، نہ اس پر سواری کرتے، نہ اس کا دودھ دوہتے اور نہ اس کو ذبح کر تے۔
سائبہ : اس اونٹ یا اونٹنی کو کہتے جو کسی کی منت کے پورا ہو جانے یا مریض کے شفا یاب ہو جانے پر بطور شکرانے کے دیوتاؤں کے نام آزاد چھوڑ دی جاتی۔ پھر اس سے سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔
وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جو ایک مقررہ تعداد میں بچے جنتی اور آخری بار نر اور مادہ ایک ساتھ پیدا ہوتے۔ ایسی بکری کا دودھ عورتوں پر حرام ہوتا اور اسے دیوتاؤں کے نام پر چھوڑ دیتے۔
حام اس اونٹ کو کہتے جس سے دس بچے پیدا ہو چکے ہوتے ایسے اونٹ کو بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے کوئی کام لینا جائز نہیں سمجھتے تھے۔
یہ سب خرافات اور توہم پرستی تھی اور یہ طریقہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے زمانہ جاہلیت میں عمر بن عامر الخزاعی نے رائج کیا تھا۔
"رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر الخزاعی کو دیکھا کہ دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا ہے۔ وہ پہلا شخص ہے جس نے "سائبہ " (دیوتاؤں کے نام پر جانوروں کو آزاد چھوڑنے کا طریقہ رائج کیا۔ (بخاری کتاب التفسیر)
آج بھی مشرکین دیوی دیوتاؤں کے نام پر گائے، بیل وغیرہ کو پن کر کے آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور مسلمانوں میں بھی جو لوگ شرک و بدعت میں مبتلا ہیں وہ بکرے وغیرہ پیر یا ولی کے نام چھوڑ دیتے ہیں ان تمام خرافات سے اللہ کی شریعت پاک ہے۔
۲۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی طریقہ کا باپ دادا سے چلا آنا یا کلچر کا جزء ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ طریقہ صحیح ہے اور ہدایت پر مبنی ہے۔ اگر کسی کے باپ دادا علم کی روشنی یا ہدایت سے محروم رہے ہوں تو ان کی اندھی تقلید کرنا کہاں کی عقلمندی ہے ؟
۲۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب اللہ کے رسول نے ان پر حجت قائم کر دی اور اس کے بعد بھی وہ گمراہی میں پڑے رہنا چاہتے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ ان کی ہٹ دھرمی ان ہی کو برے انجام تک پہنچائے گی۔ تمہارا وہ کچھ نہیں بگاڑیں گے بشرطیکہ تم ہدایت پر جمے رہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی صرف اپنی فکر کرے اور دوسروں کی اصلاح و ہدایت کی طرف سے بے پروا ہو جائے۔ قرآن نے امتِ مسلمہ پر شہادتِ حق ، دعوتِ دین ، تواصی بالحق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ذمہ داریاں عائد کی ہیں اور ان کو ادا کرنا آدمی کے ہدایت یافتہ ہونے کا صریح تقاضا ہے۔ اس لئے اس آیت کا ایسا مطلب لینا جس سے یہ ذمہ داریاں ساقط ہوتی ہوں ہر گز صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں کوئی غلط فہمی نہ ہو اس لئے حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا :
" لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو اور میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہو جائے کہ وہ ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ ان کو عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ (ترمذی ابواب التفسیر)
۲۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب کسی شخص پر موت کی علامتیں ظاہر ہوں اور وہ وصیت کرنا چاہے یا اس کے لئے وصیت کرنا ضرور ی ہو تو وہ مسلمانوں سے دو معتبر (دیندار اور ثقہ) آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لے۔ وصیت اپنے مال سے بھی ہو سکتی ہے اور اس بات کی بھی ہو سکتی ہے کہ میرے پاس فلاں فلاں اشخاص کی یہ اور یہ امانتیں ہیں اور وہ ان کے حوالہ کر دی جائیں نیز قرض یا واجبات کی ادائیگی کی بھی ہو سکتی ہے۔ وصیت کے شرعی حدود کی تشریح سورۂ نساء نوٹ ۲۹ میں گزر چکی۔
واضح رہے کہ وصیت اگر زبانی ہو Oral Willہو تو اسلام میں جائز ہے اور اگر تحریری شکل میں ہو تو بہتر ہے۔ چونکہ اس زمانہ میں لکھنے پڑھنے کا رواج عام نہیں تھا اور کتابت کی اشیاء بھی بہ آسانی فراہم نہیں ہو سکتی تھیں اس لئے قرآن نے وصیت کے لئے تحریر کی قید نہیں لگائی البتہ اس پر دو راستباز مسلمانوں کو گواہ بنانا ضروری قرار دیا۔
۲۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر سفر میں موت کی مصیبت پیش آ جاتی ہے اور گواہ بنانے کے لئے دو مسلمان نہیں مل رہے ہیں تو غیر مسلموں میں سے دو آدمیوں کو گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ مجبوری کی صورت ہو گی اس لئے اسلام نے اس کا لحاظ کیا ہے ورنہ گواہوں کے سلسلہ میں اصل معیار وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
واضح رہے کہ غیر مسلموں میں سے ان ہی لوگوں کو گواہی کے لئے منتخب کیا جا سکتا ہے جو خدا کے قائل ہوں اور بوقتِ ضرورت اس کی قسم کھا کر بیان دے سکتے ہوں۔ رہے وہ لوگ جو خدا کے قائل ہی نہیں ہیں وہ کسی طرح گواہ بنائے جانے کے لائق نہیں ہیں۔ اس پر دلیل آیت کا وہ مضمون ہے جو آگے بیان ہوا ہے۔
۲۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب وصیت کرنے والے کا انتقال ہو چکا ہو اور اس کی وصیت کے نفاذ کا مسئلہ در پیش ہو اور گواہوں کے بیان کے بارے میں شبہہ پیدا ہو تو انہیں نماز کے بعد روک کر ان سے حلفیہ بیان لیا جائے۔ نماز کے بعد یعنی فرض نمازوں میں سے کسی بھی نماز کے بعد تاکہ گواہ پر پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ حلفیہ بیان دیں۔
۲۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس حلفیہ بیان کے ساتھ انہیں وصیت کے سلسلہ میں اپنی گواہی پیش کرنا ہو گی۔ اس بیان میں اس بات کی یقین دہانی کرنا ہو گی انہوں نے رشوت قبول کر کے یا اپنے کسی ذاتی فائدے کی بنا پر یا اپنے کسی رشتہ دار کی رعایت کی غرض سے وصیت کے معاملہ میں اپنی طرف سے کوئی تصرف یا تبدیلی نہیں کی ہے۔
۲۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر مضبوط قرائن یا حالات کی شہادت (Circumstantial Evidence) کی بنا پر ورثاء پر یہ ظاہر ہو جائے کہ وصیت کے گواہوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے یا وصیت کرنے والے نے جو امانت ان کے سپرد کی تھی۔ اور سفر میں اس طرح کے مواقع پیش آنا متوقع ہی ہے کہ مرنے والا اپنا اسباب وغیرہ اپنے ساتھیوں کے حوالہ کر کے ان کو وصیت کرے کہ یہ چیزیں میرے ورثاء کو پہنچا دو۔ اس میں وہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان ورثاء میں سے دو اشخاص جو شہادت دینے کے نسبتاً زیادہ اہل ہوں مذکورہ گواہوں کی جگہ اپنا حلفیہ بیان دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں۔
۲۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے اس حلفیہ تردیدی بیان کے بعد وصیت کے گواہوں کی گواہی رد ہو جائیگی اور اس نزاعی معاملہ کا فیصلہ ان لوگوں کے بیان کے مطابق ہو گا جن کی حق تلفی ہوئی ہے۔
اس سے اسلام کے طریقۂ شہادت کے سلسلہ میں یہ اصولی بات واضح ہوتی ہے کہ بعض صورتوں میں حالات کی شہادت (Circumstantial Evidence) نہ صرف قابلِ قبول ہے بلکہ اس کی بنا پر گواہیاں رد بھی کی جا سکتی ہیں بشرطیکہ اس کی توثیق حلفیہ بیان کے ذریعہ ہوئی ہو
۲۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہادت کا جو طریقہ یہاں بیان ہوا ہے وہ دو اہم باتوں پر مشتمل ہے۔ ایک حلفیہ بیان اور دوسرے تردیدی قسمیں۔ یہ طریقہ سب سے زیادہ موزوں ہے اس لئے کہ اس کے پیشِ نظر گواہ محتاط رہیں گے اور ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے ورنہ انہیں اس بات کا اندیشہ رہے گا کہ کہیں تردیدی قسموں کے ذریعہ ان کی گواہیاں رد نہ کر دی جائیں۔
۲۵۹، یعنی جتنے پیغمبر بھی دنیا میں بھیجے گئے تھے ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی عدالت میں جمع کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ جو پیغام دے کر تم بھیجے گئے تھے اس کے ساتھ لوگوں نے کیا معاملہ کیا؟
۲۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیغمبروں کو ان کی زندگی میں ان کی قوموں کی طرف سے جو جواب ملا اس کے سلسلہ میں وہ ناواقفیت کا اظہار کریں گے کیوں کہ ان کے بارے میں انبیاء علیہم السلام کے شہادت دینے کا ذکر قرآن میں دوسرے مقامات پ ہوا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ عدالت خداوندی کی شانِ جلالت کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے عجز کا اظہار کریں گے کہ علام الغیوب کے سامنے ان کے علم کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ جواب اس لحاظ سے بھی برمحل ہو گا کہ سوال کا تعلق منکرین ہی سے نہیں بلکہ انبیاء علیہم السلام کی امتوں سے بھی ہو گا اس لئے وہ اس بات سے اپنی لا علمی کا اظہار کریں گے کہ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے پیروؤں نے ان کی تعلیمات میں کوئی رد و بدل کیا یا نہیں اور کیا تو کس قسم کا۔
۲۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے جو کچھ فرمائے گا اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
۲۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روح القدس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۱۱۰ اور ۴۰۵ میں گزر چکی۔
۲۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۶۸ اور ۶۹۔
۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مٹی سے پرندہ بنانے کا معجزہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ ہی کے حکم سے دکھایا تھا اور اس میں جان اللہ ہی کے حکم سے پڑتی تھی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود جان ڈالنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے بلکہ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا۔
۲۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ معجزہ بائبل میں بھی بیان ہوا ہے۔ پھر اس نے جاتے وقت ایک شخص کو دیکھا جو جنم کا اندھا تھا یہ کہہ کر اس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹی سانی اور وہ مٹی اندھے کی آنکھوں پر لگا کر اس سے کہا جاشیلوخؔ کے حوض میں دھو لے۔ پس اس نے جا کر دھویا اور بینا ہو کر واپس آیا۔ انہوں نے پھر اس اندھے سے کہا کہ اس نے جو تیری آنکھیں کھولیں تو ا س کے حق میں کیا کہتا ہے ؟اس نے کہا وہ نبی ہے (یوحنا باب ۹) "اور ایک گاؤں میں داخل ہوتے وقت دس کوڑھی اس کو ملے۔ انہوں نے دور کھڑے ہو کر بلند آواز سے کہا اے یسوع! اے صاحب ! ہم پر رحم کر۔ اس نے انہیں دیکھ کر کہا جاؤ۔ اپنے تئیں کاہنوں کو دکھاؤ اور ایسا ہوا کہ وہ جاتے جاتے پاک صاف ہو گئے۔ پھر ان میں سے ایک یہ دیکھ کر کہ میں شفا پا گیا بلند آواز سے خدا کی تمجید کرتا ہو ا لوٹا۔ (لوقا۱۷:۱۲ تا۱۶)
۲۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی موت کی حالت سے نکال کر زندہ کر دیتے تھے یہ معجزہ بھی انجیل میں بیان ہوا ہے۔ "وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ عبادت خانہ کے سردار کے ہاں سے کسی نے آ کر کہا کہ تیری بیٹی مر گئی۔ استاد کو تکلیف نہ دے۔ یسوع نے سن کر اسے جواب دیا کہ خوف نہ کر فقط اعتقاد رکھ وہ بچ جائے گی۔ اور گھر میں پہنچ کر پطرس اور یوحنا اور یعقوب اور لڑکی کے ماں باپ کے سوا کسی کو اپنے ساتھ اندر نہ جانے دیا۔ اور سب اس کے لئے رو پیٹ رہے تھے مگر اس نے کہا ماتم نہ کر و۔ وہ مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے۔ وہ اس پر ہنسنے لگے کیوں کہ جانتے تھے کہ وہ مر گئی ہے مگر اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور پکار کر کہا اے لڑکی اٹھ۔ اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اٹھی۔
پھر یسوع نے حکم دیا کہ لڑکی کو کچھ کھانے کو دیا جائے (لوقا۸:۴۹تا۵۵)
۲۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل کی سازشوں سے بچایا چنانچہ وہ صلیب پر چڑھانے یا قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۸۱) ۔
۲۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے ان معجزات کو انہوں نے جادو قرار دیا حالانکہ کسی جادو گر نے آج تک نہ کسی مرد کو زندہ کر دیا ہے اور نہ اندھے کو بینا اور نہ ہی کوئی جادو گر اخلاق و کردار کی پاکیزگی کا ثبوت دے سکا ہے۔
۲۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حواریوں کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ وہ ایمان لائیں۔ بالفاظ دیگر عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کا ایمان لانا اللہ کی توفیق کا نتیجہ تھا۔ حواریوں کی تشریح سورۂ آل عمران نوٹ ۷۷ میں گزر چکی۔
۲۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے واضح ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کا دین اسلام تھا نہ کی مسیحیت اور وہ اللہ ہی کو خدا مانتے تھے نہ کہ حضرت عیسیٰ کو۔ اس عقیدہ کے خلاف مسیحیوں نے جو باتیں ان کی طرف منسوب کی ہیں وہ محض افتراء ہیں اور قیامت کے دن یہ سارے جھوٹ آشکارا ہو جائیں گے۔ ۲۷۱۔ اتار سکتا ہے۔ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کیا ایسا کرنے پر خدا قادر ہے ؟کیوں کہ حواری مخلص مومن تھے اس لئے خدا کی قدرت کے بارے میں ان کے شک میں مبتلا ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آیا آسمان سے خوان اتارنا خدا کی حکمت کے مطابق ہو گا؟یا اس کی شانِ حکمت سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ معجزانہ طور پر خوان اتارنے کا فیصلہ کرے گا؟
۲۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایسی غیر معمولی چیز طلب کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو کہ اگر اس نے عطا کی تو تم سخت آزمائش میں پڑو گے۔
۲۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حواریوں کے اس بیان سے واضح ہوا کہ انہوں نے خوان کے نزول کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ درخواست کی تھی اور ان کے یہ کہنے سے کہ ہم اس میں سے کھائیں ، انداز ہوتا ہے کہ یہ بات انہوں نے ایسے موقع پر کہی ہو گی جب کہ بھوک کی شدت نے انہیں پریشان کیا ہو گا۔
۲۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دعائیہ کلمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کو باپ نہیں کہتے تھے بلکہ اپنا اور سب کا رب کہتے تھے۔ اس سے بائبل کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے کہ وہ اللہ کو باپ کہہ کر پکارتے تھے۔
۲۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی حواریوں کے لئے آسمان سے رزق اترنے کا یہ واقعہ اس امت کے تمام لوگوں کے لئے خوشی کی یاد گار قرار پائے۔ اگلوں سے مراد عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے وہ لوگ ہیں جو ان کے زمانہ میں موجود تھے اور پچھلوں سے مراد بعد کے لوگ ہیں۔
عید سے مراد تہوار نہیں بلکہ خوشی و مسرت کا وہ واقعہ ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے یاد گار قرار پائے۔ بائبل میں گو یہ واقعہ صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہے لیکن عیسیٰ علیہ السلام کے آخری کھانے (Last Supper) کا جو ذکر ہوا ہے وہ ایک اہم واقعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور عیسائیوں میں اسے کافی شہرت حاصل ہے۔ عجب نہیں کہ یہ واقعہ نزولِ مائدہ ہی کا ہوا اور اس کی تفصیلات اہلِ انجیل نے بھلا دی ہوں۔ بہرکیف اس میں طباق (خوان) کا ذکر ہے۔
"عید فطر کے پہلے دن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب شام ہوئی تو وہ ان بارہ کے ساتھ آیا اور جب وہ بیٹھے کھا رہے تھے تو یسوع نے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک جو میرے ساتھ کھاتا ہے مجھے پکڑوائے گا۔ وہ دلگیر ہوئے اور ایک ایک کر کے اس سے کہنے لگے کیا میں ہوں ؟اس نے ان سے کہا کہ وہ بارہ میں سے ایک ہے ، جو میرے ساتھ طباق میں ہاتھ ڈالتا ہے کیوں کہ ابنِ آدم تو جیسا اس کے حق میں لکھا جاتا ہی ہے لیکن اس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابنِ آدم پکڑوایا جاتا ہے۔ اور وہ کھا ہی رہے تھے کہ اس نے روٹی لی اور برکت دیکر توڑی اور ان کو دی اور کہا لو یہ میرا بدن ہے۔ پھر اس نے پیالہ لے کر شکر کیا اور ان کو دیا اور ان سبھوں نے اس میں سے پیا (مرقس ۱۴: ۱۲تا ۲۳)
بائبل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ جمعہ کے دن شام میں پیش آیا تھا (اور اسی روز رات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لئے گئے) اور گڈ فرائی ڈے (Good Friday) جو منایا جاتا ہے اس کی اصل بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس روز شام میں عیسیٰ علیہ السلام نے آخری کھانا کھایا تھا۔
(And often Good Friday is a special day for the administration of the lords Supper The Oxford Dictionary of Christian Church P.571.
۲۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان دعائیہ کلمات میں عیسیٰ علیہ السلام نے نشانی (معجزہ) کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور رزق کو بھی یعنی معجزہ دکھانا بھی اللہ ہی کا کام ہے اور رزق دینا بھی۔ اس کی ان صفات میں نہ عیسیٰ علیہ السلام شریک ہیں اور نہ کوئی اور۔
۲۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوان نازل کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا اس لئے اس کا نزول لازما ہوا ہو گا اور جمہور مفسرین اسی کے قائل ہیں۔
۲۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اتنی کھلی نشانی دیکھنے کے بعد جو شخص کفر کرے گا اس کا کفر دنیا والوں میں سب سے بڑھ کر ہو گا اس لئے وہ سب سے بڑی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔
۲۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسائی حضرت عیسیٰ ہی کی نہیں بلکہ ان کی والدہ حضرت مریم کی بھی پرستش کرتے ہیں اور یہ لازمی نتیجہ ہے ا ن کے اس عقیدہ کا کہ حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے ہیں۔ جب نعوذ باللہ عیسیٰ خدا کے بیٹے قرار پائے تو ان کی والدہ جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے خدا کیسے قرار نہ پائیں گی چنانچہ انہیں "مادرِ خدا " ("Mother of God ") کا لقب دیا گیا۔
It was at Ephesus the city of the goddess, that the earliest proof is found of an established cult of the Virgin Mary as the Mother of God, and in the Council held at Ephesus in A.D 431، this cult was definitely established as a feature of the Orthodox ritual (Ency. of Religion& Ethics IX D908)
واضح رہے کہ نزولِ قرآن کے زمانہ میں عیسائیوں کا پروٹسٹنٹ فرقہ موجود نہ تھا۔ یہ صدیوں بعد پیدا ہوا۔ اس زمانہ میں کیتھولک (ملہ کانی) اور دوسرے فرقے موجود تھے مثلاً یعقوبی (جاکوبائیٹ) نسطوری (نسٹورین) ،مارونی یا مریمی وغیرہ۔ ان فرقوں کے درمیان عقائد کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا تھا مثلاً کسی کا دعویٰ تھا کہ خدا ہی مسیح بن کر آیا تھا اس لئے مسیح کی ذات خدا ہی مسیح بن کر آیا تھا اس لئے مسیح کی ذات خدا کی ذات ہے۔ کوئی تثلیث کا قائل تھا یعنی باپ بیٹا ، اور روح القدس سے خدا کے مرکب ہونے کا اور کسی نے روح القدس کی جگہ حضرت مریم کو خدا کی حیثیت دی تھی اور کوئی اقانیم ثلاثہ کے ساتھ حضرت مریم کو خدا کی ماں کی حیثیت سے لائق پرستش جانتا تھا۔ (ملاحظہ ارض القرآن از سید سلیمان ندوی ج۲ص ۱۹۶تا ۱۹۹)
۲۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تو پاک ہے اس بات سے کہ خدائی میں تیر ا کوئی شریک ہو۔
۲۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ تردیدی بیان جو آخرت کی عدالت میں ہو گا قرآن اسے پیشگی دنیا والوں اور خصوصاً نصاریٰ کے سامنے لا رہا ہے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ خدائی کے تعلق سے جو باتیں حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں ا ن کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ محض افتراء ہیں۔
۲۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورۂ آل عمران نوٹ ۷۶۔
۲۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ توفیتنی "استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ یہاں قبض کرنے اور وقت پورا کرنے کے ہیں۔ اس لفظ کے سلسلہ میں بحث سورۂ آل عمران نوٹ ۸۲میں گزر چکی۔
چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا اس لئے موقع پر ان کی زبان سے "تو نے مجھے موت دی" کے بجائے "تون ے مجھے قبض کر لیا یا میرا وقت پورا کر دیا،کے الفاظ صورتِ واقعہ کی صحیح تعبیر پیش کر تے ہیں۔ اسی طرح "جب تک زندہ رہا "کے ان میں موجود رہا (مادمت فیھم) کے الفاظ کا استعمال بالکل بر محل ہوا ہے۔
۲۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عیسیٰ علیہ السلام کا یہ بیان درد مندانہ بھی ہو گا اور ذمہ دارانہ بھی۔ وہ نصاریٰ کے لئے شفاعت نہیں کریں گے کیوں کہ شرک کرنے والوں کے لئے شفاعت نہیں کریں گے کیوں کہ شرک کرنے والوں کے لئے شفاعت جائز نہیں ہو گی بلکہ وہ اس معاملہ کو اللہ کے حوالہ کریں گے کہ اسے اختیار ہے جو چاہے فیصلہ کرے اور اس کا فیصلہ لازما بر حق ہو گا۔ اس سے بائبل کے اس بیان کی تردید ہوتی ہے جو حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ
’کیوں کہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔‘ (یوحنا۵:۲۲)
قیامت کے دن جب مسیح کے پرستار دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے خود عدالت برپا کی ہے اور حضرت عیسیٰ کو کوئی عدالتی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ گواہ کی حیثیت سے اس عدالت میں پیش ہوئے ہیں تو مسیحیت کی پوری عمارت ڈھ جائے گی اور ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل جائے گی۔
عیسیٰ علیہ السلام کا یہ بیان اس قدر حقیقت افروز اور اتنا مؤثر ہے کہ کوئی انتہائی سنگدل ہی ہو گا جس کا دل پسیج نہ جائے۔ کاش کہ مسیح کے پرستار اس پر غور کرتے۔
۲۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج وہی لوگ با مراد ہوں گے جنہوں نے دنیا میں راست بازی کا ثبوت دیا تھا، جو توحید پر قائم رہے اور جنہوں نے اللہ کے دین میں کوئی بدعت نہیں نکالی۔