تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ المَائدة

سورۂ مائدہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے  ہیں  کہ یہ سورت مدینہ شریف میں اتری ہے، حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی یہی فرماتے  ہیں، حضرت ابن عباس سے  یہ بھی مروی ہے  کہ جب یہ سورت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اب روک رکھنا نہیں، مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ سورۃ نساء میں پانچ آیتیں ایسی ہیں  کہ اگر ساری دنیا بھی مجھے  مل جائے  جب بھی مجھے  اس قدر خوشی نہ ہو جتنی ان آیتوں سے  ہے  یعنی آیت (ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ) الخ، اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں  کرتا اور جس کسی کی جو نیکی ہوتی ہے  اس کا ثواب بڑھا چڑھا کر دیتا ہے  اور اپنی طرف سے  جو بطور انعام اجر عظیم دے  وہ جداگانہ ہے  اور آیت (ان تجتنبوا کبائر ما تنہون عنہ) الخ، اگر تم کبیرہ گناہوں سے  بچ جاؤ تو ہم تمہارے  صغیرہ گناہ خود ہی معاف فرما دیں گے  اور تمہیں  عزت والی جگہ جنت میں لے  جائیں گے  اور آیت (ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذالک لمن یشاء) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے  ساتھ شریک کرنے  والے  کو تو نہیں  بخشتا باقی جس گنہگار کو چاہے  بخش دے  اور آیت (ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاؤک) الخ، یعنی یہ لوگ گناہ سرزد ہو چکنے  کے  بعد تیرے  پاس آ جاتے  اور خود بھی اللہ تعالی سے  اپنے  گناہ کی بخشش طلب کرتے  ہیں  اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان کے  لئے  استغفار طلب کرتا تو بیشک وہ اللہ تعالیٰ کو معافی اور مہربانی کرنے  والا پاتے  امام حاکم فرماتے  ہیں  یوں تو اس کی اسناد صحیح ہے  لیکن اس کی ایک راوی عبدالرحمن کے  اپنے  باپ سے  سننے  میں اختلاف ہے، عبدالرزاق کی اس روایت میں آیت (ولو انہم) الخ، کے  بدلے  آیت (ومن یعمل سوء او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما) ہے  یعنی جس شخص سے  کوئی برا کام ہو جائے  یا اپنے  نفس پر ظلم کر گزرے  پھر اللہ تعالیٰ سے  معافی مانگ تو بے  شک وہ اللہ تعالیٰ کو بخشنے  والا مہربان پائے  گا دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح ہے  کہ ایک آیت کا بیان کرنا پہلی حدیث میں یا تو رہ گیا ہے  اور اس کا بیان دوسری حدیث میں ہے  تو چار آیتیں پہلی حدیث اور پانچویں آیت اس حدیث (ومن یعمل) الخ، کی مل کر پانچ ہو گئیں یا یہ ہے  کہ آیت (ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ) والی آیت پوری ہے  اور آیت (وان تک حسنتہ) کو الگ آیت شمار کیا ہے  تو دونوں احادیث میں پانچ پانچ آیتیں ہو گئیں (واللہ اعلم۔ مترجم) ابن جریر میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے  مروی ہے  کہ اس سورت میں آٹھ آیتیں ہیں  جو اس امت کے  لئے  ہر اس چیز سے  بہتر ہیں  جن پر سورج نکلتا اور غروب ہوتا ہے  پہلی آیت (یرید اللہ لیبین لکم) الخ، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے  کہ اپنے  احکام تم پر صاف صاف بیان کر دے  اور تمہیں  ان اچھے  لوگوں کی راہ راست دکھاوے  جو تم سے  پہلے  گزر چکے  ہیں  اور تم پر مہربانی کرے  اللہ تعالیٰ دانا اور حکمت والا ہے، دوسری آیت (یرید اللہ ان یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفا) یعنی انسان چونکہ ضعیف پیدا کیا گیا ہے  اللہ تعالیٰ اس پر تخفیف کرنا چاہتا ہے، باقی آیتیں وہی جو اوپر گزریں ابن ابی ملیکہ فرماتے  ہیں  میں نے  حضرت ابن عباس سے  سورۃ نساء کی بابت سنا پس میں نے  قرآن پڑھا اور میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا (حاکم)

۱

محبت و مودت کا آفاقی اصول

اللہ تعالیٰ اپنے  تقوے  کا حکم دیتا ہے  کہ جسم سے  اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے، پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے  کہ اس نے  تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم علیہ السلام سے  پیدا کیا ہے، ان کی بیوی یعنی حضرت حوا علیہما السلام کو بھی انہی سے  پیدا کیا، آپ سوئے  ہوئے  تھے  کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے  حضرت حوا کو پیدا کیا، آپ نے  بیدار ہو کر انہیں  دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں  بھی ان سے  انس پیدا ہوا، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  عورت مرد سے  پیدا کی گئی ہے  اس لئے  اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے  اور مرد زمین سے  پیدا کئے  گئے  ہیں  اس لئے  ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے ۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے  رکھو، صحیح حدیث میں ہے  عورت پسلی سے  پیدا کی گئی ہے  اور سب سے  بلند پسلی سب سے  زیادہ ٹیڑھی ہے  پس اگر تو اسے  بالکل سیدھی کرنے  کو جائے  گا تو توڑ دے  گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے  ہوئے  فائدہ اٹھانا چاہے  گا تو بے  شک فائدہ اٹھا سکتا ہے  ۔پھر فرمایا ان دونوں سے  یعنی آدم اور حوا سے  بہت سے  انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیلا دیئے  جن کی قسمیں صفتیں رنگ روپ بول چال میں بہت کچھ اختلاف ہے، جس طرح یہ سب پہلے  اللہ تعالیٰ کے  قبضے  میں تھے  اور پھر انہیں  اس نے  ادھر ادھر پھیلا دیا، ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے  قبضے  میں کر کے  ایک میدان میں جمع کرے  گا۔ پس اللہ سے  ڈرتے  رہو اس کی اطاعت عبادت بجا لاتے  رہو، اسی اللہ کے  واسطے  سے  اور اسی کے  پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے  سے  مانگتے  ہو، مثلاً یہ کہ ان میں تجھے  اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے  کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں اسی کے  نام کی قسمیں کھاتے  ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے  ہو، اللہ جل شانہ سے  ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں  توڑو نہیں  بلکہ جوڑو صلہ رحمی نیکی اور سلوک آپس میں کرتے  رہو ارحام بھی ایک قرأت میں ہے  یعنی اللہ کے  نام پر اور رشتے  کے  واسطے  سے، اللہ تمہارے  تمام احوال اور اعمال سے  واقف ہے  خوب دیکھ بھال رہا ہے، جیسے  اور جگہ ہے  آیت (واللہ علی کلی شئی شہید) اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے، صحیح حدیث میں ہے  اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے  دیکھ رہا ہے  پس اگر تو اسے  نہیں  دیکھ رہا تو وہ تو تجھے  دیکھ ہی رہا ہے، مطلب یہ ہے  کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے  ہر اٹھنے  بیٹھنے  چلنے  پھرنے  پر نگراں ہے، یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے  پر شفقت کیا کرو، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے  ساتھ اچھا سلوک کرو، صحیح مسلم شریف کی ہو حدیث میں ہے  کہ جب قبیلہ مضر کے  چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس چادریں لپیٹے  ہوئے  آئے  کیونکہ ان کے  جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کھڑے  ہو کر نماز ظہر کے  بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر آیت (یا ایہا الذین امنوا اتقوا اللہ ولتنظر) الخ، کی تلاوت کی پھر لوگوں کو خیرات کرنے  کی ترغیب دی چنانچہ جس سے  جو ہو سکا ان لوگوں کے  لئے  دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی یہ حدیث، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے  بیان میں ہے  پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے  ایک آیت یہی ہے ۔

۲

یتیموں کی نگہداشت اور چار شادیوں کی اجازت

اللہ تعالیٰ یتیموں کے  والیوں کو حکم دیتا ہے  کہ جب یتیم بلوغت اور سمجھداری کو پہنچ جائیں تو ان کے  جو مال تمہارے  پاس ہو انہیں  سونپ دو، پورے  پورے  بغیر کمی اور خیانت کے  ان کے  حوالے  کرو، اپنے  مالوں کے  ساتھ ملا کر گڈمڈ کر کے  کھا جانے  کی نیت نہ رکھو، حلال رزق جب اللہ رحیم تمہیں  دے  رہا ہے  پھر حرام کی طرف کیوں منہ اٹھاؤ؟ تقدیر کی روزی مل کر ہی رہے  گی اپنے  حلال مال چھوڑ کر لوگوں کے  مالوں کو جو تم پر حرام ہیں  نہ لو، دبلا پتلا جانور دے  کر موٹا تازہ نہ لو، بوٹی دے  کر بکرے  کی فکر نہ کرو، ردی دے  کر اچھے  کی اور کھوٹا دے  کر کھرے  کی نیت نہ رکھو، پہلے  لوگ ایسا کر لیا کرتے  تھے  کہ یتیموں کی بکریوں کے  ریوڑ میں سے  عمدہ بکری لے  لی اور اپنی دبلی پتلی بکری دے  کر گنتی پوری کر دی، کھوٹا درہم اس کے  مال میں ڈال کر کھرا نکال لیا اور پھر سمجھ لیا کہ ہم نے  تو بکری کے  بدلے  بکری اور درہم کے  بدلے  درہم لیا ہے ۔ ان کے  مالوں میں اپنا مال خلط ملط کر کے  پھر یہ حیلہ کر کے  اب امتیاز کیا ہے ؟ ان کے  مال تلف نہ کرو، یہ بڑا گناہ ہے، ایک ضعیف حدیث میں بھی یہی معنی آخری جملے  کے  مروی ہیں، ابو داؤد کی حدیث میں ایک دعا میں بھی (حوب) کا لفظ گناہ کے  معنی میں آیا ہے، حضرت ابو ایوب نے  جب اپنی بیوی صاحبہ کو طلاق دینے  کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  فرمایا تھا کہ اس طلاق میں گناہ ہے، چنانچہ وہ اپنے  ارادے  سے  باز رہے، ایک روایت میں یہ واقعہ حضرت ابو طلحہ اور ام سلیم کا مروی ہے ۔ پھر فرماتا ہے  کہ تمہاری پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور تم اس سے  نکاح کرنا چاہتے  ہو لیکن چونکہ اس کا کوئی اور نہیں  اس لئے  تم تو ایسا نہ کرو کہ مہر اور حقوق میں کمی کر کے  اسے  اپنے  گھر ڈال لو اس سے  باز رہو اور عورتیں بہت ہیں  جس سے  چاہو نکاح کر لو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں  ایک یتیم لڑکی تھی جس کے  پاس مال بھی تھا اور باغ بھی جس کی پرورش میں وہ تھی اس نے  صرف اس مال کے  لالچ میں بغیر اس کا پورا مہر وغیرہ مقرر کرنے  کے  اس سے  نکاح کر لیا جس پر یہ آیت اتری میرا خیال ہے  کہ اس باغ اور مال میں یہ لڑکی حصہ دار تھی، صحیح بخاری شریف میں ہے  کہ حضرت ابن شہاب نے  حضرت عائشہ سے  اس آیت کا مطلب پوچھا تو آپ نے  فرمایا بھانجے، یہ ذکر اس یتیم لڑکی کا ہے  جو اپنے  ولی کے  قبضہ میں ہے  اس کے  مال میں شریک ہے  اور اسے  اس کا مال و جمال اچھا لگتا ہے  چاہتا ہے  کہ اس سے  نکاح کر لے  لیکن جو مہر وغیرہ اور جگہ سے  اسے  ملتا ہے  اتنا یہ نہیں  دیتا تو اسے  منع کیا جا رہا ہے  کہ وہ اس اپنی نیت چھوڑ دے  اور کسی دوسری عورت سے  جس سے  چاہے  اپنا نکاح کر لے، پھر اس کے  بعد لوگوں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  اسی کی بابت دریافت کیا اور آیت (ویستفتونک فی النساء) الخ، نازل ہوئی وہاں فرمایا گیا ہے  کہ جب یتیم لڑکی کم مال والی اور کم جمال والی ہوتی ہے  اس وقت تو اس کے  والی اس سے  بے  رغبتی کرتے  ہیں  پھر کوئی وجہ نہیں  کہ مال و جمال پر مائل ہو کر اس کے  پورے  حقوق ادا نہ کر کے  اس سے  اپنا نکاح کر لیں، ہاں عدل و انصاف سے  پورا مہر وغیرہ مقرر کریں تو کوئی حرج نہیں، ورنہ پھر عورتوں کی کمی نہیں  اور کسی سے  جس سے  چاہیں  اظہار نکاح کر لیں دو دو عورتیں اپنے  نکاح میں رکھیں اگر چاہیں  تین تین رکھیں اگر چاہیں  چار چار، جیسے  اور جگہ یہ الفاظ ان ہی معنوں میں ہیں، فرماتا ہے  آیت (جاعل الملائکۃ رسلا اولی اجنحۃ مثنی و ثلث ورباع) یعنی جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ اپنا قاصد بنا کر بھیجتا ہے  ان میں سے  بعض دو دو پروں والے  ہیں  بعض تین تین پروں والے  بعض چار پروں والے  فرشتوں میں اس سے  زیادہ پر والے  فرشتے  بھی ہیں  کیونکہ دلیل سے  یہ ثابت شدہ ہے، لیکن مرد کو ایک وقت میں چار سے  زیادہ بیویوں کا جمع کرنا منع ہے  جیسے  کہ اس آیت میں موجود ہے  اور جیسے  کہ حضرت ابن عباس اور جمہور کا قول ہے، یہاں اللہ تعالیٰ اپنے  احسان اور انعام بیان فرما رہا ہے  پس اگر چار سے  زیادہ کی اجازت دینی منظور ہوتی تو ضرور فرما دیا جاتا، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  حدیث جو قرآن کی وضاحت کرنے  والی ہے  اس نے  بتلا دیا ہے  کہ سوائے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  کسی کے  لئے  چار سے  زیادہ بیویوں کا بہ یک وقت جمع کرنا جائز نہیں  اسی پر علماء کرام کا اجماع ہے، البتہ بعض شیعہ کا قول ہے  کہ نو تک جمع کرنی جائز ہیں، بلکہ بعض شیعہ نے  تو کہا ہے  کہ نو سے  بھی زیادہ جمع کر لینے  میں بھی کوئی حرج نہیں  کوئی تعداد مقرر ہے  ہی نہیں، ان کا استدلال ایک تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے  فعل سے  ہے  جیسا کہ صحیح حدیث میں آ چکا ہے  کہ آپ کی نو بیویاں تھیں اور بخاری شریف کی معلق حدیث کے  بعض راویوں نے  گیارہ کہا ہے، حضرت انس سے  مروی ہے  کہ آپ نے  پندرہ بیویوں سے  عقد کیا تیرہ کی رخصتی ہوئی ایک وقت میں گیارہ بیویاں آپ کے  پاس تھیں ۔ انتقال کے  وقت آپ کی نو بیویاں تھیں رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجمعین، ہمارے  علماء کرام اس کے  جواب میں فرماتے  ہیں  کہ یہ آپ کی خصوصیت تھی امتی کو ایک وقت میں چار سے  زیادہ پاس رکھنے  کی اجازت نہیں، جیسے  کہ یہ حدیثیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں، حضرت غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوتے  ہیں  تو ان کے  پاس ان کی دس بیویاں تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے  ہیں  کہ ان میں سے  جنہیں  چاہو چار رکھ لو باقی کو چھوڑ دو چنانچہ انہوں نے  ایسا ہی کیا پھر حضرت عمر کی خلافت کے  زمانے  میں اپنی ان بیویوں کو بھی طلاق دے  دی اور اپنے  لڑکوں کو اپنا مال بانٹ دیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے  فرمایا شاید تیرے  شیطان نے  بات اچک لی اور تیرے  دل میں خیال جما دیا کہ تو عنقریب مرنے  والا ہے  اس لئے  اپنی بیویوں کو تو نے  الگ کر دیا کہ وہ تیرا مال نہ پائیں اور اپنا مال اپنی اولاد میں تقسیم کر دیا میں تجھے  حکم دیتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے  رجوع کر لے  اور اپنے  اولاد سے  مال واپس لے  اگر تو نے  ایسا نہ کیا تو تیرے  بعد تیری ان مطلقہ بیویوں کو بھی تیرا وارث بناؤں گا کیونکہ تو نے  انہیں  اسی ڈر سے  طلاق دی ہے  اور معلوم ہوتا ہے  کہ تیری زندگی بھی اب ختم ہونے  والی ہے  اور اگر تو نے  میری بات نہ مانی تو یاد رکھ میں حکم دوں گا کہ لوگ تیری قبر پر پتھر پھینکیں جیسے  کہ ابو رغال کی قبر پر پتھر پھینکے  جاتے  ہیں  (مسند احمد شافعی ترمذی ابن ماجہ دار قطنی بیہقی وغیرہ) مرفوع حدیث تک تو ان سب کتابوں میں ہے  ہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا واقعہ صرف مسند احمد میں ہی ہے  لیکن یہ زیادتی حسن ہے، اگرچہ امام بخاری نے  اسے  ضعیف کہا ہے  اور اس کی اسناد کا دوسرا طریقہ بتا کر اس طریقہ کو غیر محفوظ کہا ہے  مگر اس تعلیل میں بھی اختلاف ہے  واللہ اعلم اور بزرگ محدثین نے  بھی اس پر کلام کیا ہے  لیکن مسند احمد والی حدیث کے  تمام راوی ثقہ ہیں  اور شرط شیخین پر ہیں  ایک اور روایت میں ہے  کہ یہ دس عورتیں بھی اپنے  خاوند کے  ساتھ مسلمان ہوئی تھیں ملاحظہ ہو (سنن نسائی)، اس حدیث سے  صاف ظاہر ہو گیا کہ اگر چار سے  زیادہ کا ایک وقت میں نکاح میں رکھنا جائز ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان سے  یہ نہ فرماتے  کہ اپنی ان دس بیویوں میں سے  چار کو جنہیں  تم چاہو روک لو باقی کو چھوڑ دو کیونکہ یہ سب بھی اسلام لا چکی تھیں، یہاں یہ بات بھی خیال میں رکھنی چاہئے  کہ ثقفی کے  ہاں تو یہ دس عورتیں بھی موجود تھی اس پر بھی آپ نے  چھ علیحدہ کرا دیں پھر بھلا کیسے  ہو سکتا ہے  کہ کوئی شخص نئے  سرے  سے  چار سے  زیادہ جمع کرے ؟ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم باالصواب

چار سے زائد نہیں، وہ بھی بشرط انصاف ورنہ ایک ہی بیوی

"دوسری حدیث" ابو داؤد ابن ماجہ وغیرہ میں ہے  حضرت امیرہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  میں نے  جس وقت اسلام قبول کیا میرے  نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں میں نے  رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے  ذکر کیا آپ نے  فرمایا ان میں سے  جن چار کو چاہو رکھ لو، اس کی سند حسن ہے  اور اس کے  شواہد بھی ہیں  راویوں کے  ناموں کا ہیر پھیر وغیرہ ایسی روایات میں نقصان دہ نہیں  ہوتا "تیسری حدیث" مسند شافعی میں ہے  حضرت نوفل بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ میں نے  جب اسلام قبول کیا اس وقت میری پانچ بیویاں تھیں مجھ سے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ان میں سے  پسند کر کے  چار کو رکھ لو اور ایک کو الگ کر دو میں نے  جو سب سے  زیادہ عمر کی بڑھیا اور بے  اولاد بیوی ساٹھ سال کی تھیں انہیں  طلاق دے  دی، پس یہ حدیثیں حضرت غیلان والی پہلی حدیث کی شواہد ہیں  جیسے  کہ حضرت امام بیہقی نے  فرمایا۔ پھر فرماتا ہے  ہاں اگر ایک سے  زیادہ بیویوں میں عدل و انصاف نہ ہو سکنے  کا خوف ہو تو صرف ایک ہی پر اکتفا کرو اور اپنی کنیزوں سے  استمتاع کرو جیسے  اور جگہ ہے  آیت (ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم) یعنی گو تم چاہو لیکن تم سے  نہ ہو سکے  گا کہ عورتوں کے  درمیان پوری طرح عدل و انصاف کو قائم رکھ سکو پس بالکل ایک ہی طرف جھک کر دوسری کو مصیبت میں نہ ڈال دو، ہاں یاد رہے  کہ لونڈیاں میں باری وغیرہ کی تقسیم واجب نہیں  البتہ مستحب ہے  جو کرے  اس نے  اچھا کیا اور جو نہ کرے  اس پر حرج نہیں ۔ اس کے  بعد کے  جملے  کے  مطلب میں بعض نے  تو کہا ہے  کہ یہ قریب ہے  ان معنی کے  کہ تمہارے  عیال یعنی فقیری زیادہ نہ ہو جیسے  اور جگہ ہے  آیت (وان خفتم) یعنی اگر تمہیں  فقر کا ڈر ہو، عربی شاعر کہتا ہے ۔

فما یدری الفقیر متی غناہ

وما یدری الغنی متی یعیل

یعنی فقیر نہیں  جانتا کہ کب امیر ہو جائے  گا، اور امیر کو معلوم نہیں  کہ کب فقیر بن جائے  گا، جب کوئی مسکین محتاج ہو جائے  تو عرب کہتے  ہیں  (عال الرج)  یعنی یہ شخص فقیر ہو گیا غرض اس معنی میں یہ لفظ مستعمل تو ہے  لیکن یہاں یہ تفسیر کچھ زیادہ اچھی نہیں  معلوم ہوتی، کیونکہ اگر آزاد عورتوں کی کثرت فقیری کا باعث بن سکتی ہے  تو لونڈیوں کی کثرت بھی فقیری کا سبب ہو سکتی ہے، پس صحیح قول جمہور کا ہے  کہ مراد یہ ہے  کہ یہ قریب ہے  اس سے  کہ تم ظلم سے  بچ جاؤ، عرب میں کہا جاتا ہے (عال فی الحکم) جبکہ ظلم و جور کیا ہو،  ابو طالب کے  مشہور قصیدے  میں ہے  ۔

بمیزان قسط لا یخبس شعیرۃ

لہ شاہدمن نفسہ غیر عائل

ضمیر بہترین ترازو ہے

یعنی ایسی ترازو سے  تولتا ہے  جو ایک جو برابر کی بھی کمی نہیں  کرتا اس کے  پاس اس کا گواہ خود اس کا نفس ہے  جو ظالم نہیں  ہے  ابن جریر میں ہے  کہ جب کوفیوں نے  حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ایک خط کچھ الزام لکھ کر بھیجے  تو ان کے  جواب میں خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  لکھا کہ (انی لست بمیزان اعول) میں ظلم کا ترازو نہیں  ہوں، صحیح ابن حبان وغیرہ میں ایک مرفوع حدیث اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے  کہ اس کا معنی ہے  تم ظلم نہ کرو، ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  اس کا مرفوع ہونا تو خطا ہے  ہاں یہ حضرت عائشہ کا قول ہے  اسی طرح لا تعولوا کے  یہی معنی میں یعنی تم ظلم نہ کرو حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عائشہ، حضرت مجاہد، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت ابو مالک، حضرت ابو زرین، حضرت نخعی، حضرت شعبی، حضرت ضحاک، حضرت عطاء خراسانی، حضرت قتادہ، حضرت سدی اور حضرت مقاتل بن حیان وغیرہ سے  بھی مروی ہیں ۔ حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ نے  بھی ابو طالب کا وہی شعر پیش کیا ہے، امام ابن جریر نے  اسے  روایت کیا ہے  اور خود امام صاحب بھی اسی کو پسند فرماتے  ہیں ۔ پھر فرماتا ہے  اپنی بیویوں کو ان کے  مہر خوش دلی سے  ادا کر دیا کرو جو بھی مقرر ہوئے  ہوں اور جن کو تم نے  منظور کیا ہو، ہاں اگر عورت خود اپنا سارا یا تھوڑا بہت مہر اپنی خوشی سے  مرد کو معاف کر دے  تو اسے  اختیار ہے  اور اس صورت میں بے شکل مرد کو اس کا اپنے  استعمال میں لانا حلال طیب ہے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  بعد کسی کو جائز نہیں  کہ بغیر مہر واجب کے  نکاح کرے  نہ یہ کہ جھوٹ موٹ مہر کا نام ہی نام ہو، ابن ابی حاتم میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مروی ہے  کہ تم میں سے  جب کوئی بیمار پڑے  تو اسے  چاہئے  کہ اپنی بیوی سے  اس کے  مال کے  تین درہم یا کم و بیش لے  ان کا شہد خرید لے  اور بارش کا آسمانی پانی اس میں ملالے  تو تین تین بھلائیاں مل جائیں گی آیت (ہنیأ امریأ) تو مال عورت اور شفاء شہد اور مبارک بارش کا پانی۔ حضرت ابو صالح فرماتے  ہیں  کہ لوگ اپنی بیٹیوں کا مہر آپ لیتے  تھے  جس پر یہ آیت اتری اور انہیں  اس سے  روک دیا گیا (ابن ابی حاتم اور ابن جریر) اس حکم کو سن کر لوگوں نے  رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا کہ ان کا مہر کیا ہونا چاہئے ؟ آپ نے  فرمایا جس چیز پر بھی ان کے  ولی رضامند ہو جائیں (ابن ابی حاتم) حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  خطبے  میں تین مرتبہ فرمایا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کر دیا کرو، ایک شخص نے  کھڑے  ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایسی صورت میں ان کا مہر کیا ہو گا؟ آپ نے  فرمایا جس پر ان کے  گھر والے  راضی ہو جائیں، اس کے  ایک راوی ابن سلمانی ضعیف ہیں، پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔

۵

کم عقل اور یتیموں کے بارہ میں احکامات

اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو منع فرماتا ہے  کہ کم عقل بیویوں کو مال کے  تصرف سے  روکیں، مال کو اللہ تعالیٰ نے  تجارتوں وغیرہ میں لگا کر انسان کا ذریعہ معاش بنایا ہے، اس سے  معلوم ہوا کہ کم عقل لوگوں کو ان کے  مال کے  خرچ سے  روک دینا چاہئے، مثلاً نابالغ بچہ ہو یا مجنون و دیوانہ ہو یا کم عقل بے  وقوف ہو اور بے  دین ہو بری طرح اپنے  مال کو لٹا رہا ہو، اسی طرح ایسا شخص جس پر قرض بہت چڑھ گیا ہو جسے  وہ اپنے  کل مال سے  بھی ادا نہیں  کر سکتا اگر قرض خواہ حاکم وقت سے  درخواست کریں تو حاکم وہ سب مال اس کے  قبضے  سے  لے  لے  گا اور اسے  بے  دخل کر دے  گا، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  یہاں (سفہاء) سے  مراد تیری اولاد اور عورتیں ہیں، اسی طرح حضرت ابن مسعود حکم بن عبینہ حسن اور ضحاک رحمۃ اللہ سے  بھی مروی ہے  کہ اس سے  مراد عورتیں اور بچے  ہیں، حضرت سعید بن جبیر فرماتے  ہیں  یتیم مراد ہیں، مجاہد عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے  کہ عورتیں مراد ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا بیشک عورتیں بیوقوف ہیں  مگر جو اپنے  خاوند کی اطاعت گزار ہوں، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث مطول مروی ہے، حضرت ابوہریرہ فرماتے  ہیں  کہ اس سے  مراد سرکش خادم ہیں ۔ پھر فرماتا ہے  انہیں  کھلاؤ پہناؤ اور اچھی بات کہو ابن عباس فرماتے  ہیں  یعنی تیرا مال جس پر تیری گزر بسر موقوف ہے  اسے  اپنی بیوی بچوں کو نہ دے  ڈال کر پھر ان کا ہاتھ تکتا پھرے  بلکہ اپنا مال اپنے  قبضے  میں رکھ اس کی اصلاح کرتا رہ اور خود اپنے  ہاتھ سے  ان کے  کھانے  کپڑے  کا بندوبست کر اور ان کے  خرچ اٹھا، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  تین قسم کے  لوگ ہیں  کہ وہ اللہ تعالیٰ سے  دعا کرتے  ہیں  لیکن اللہ تعالیٰ قبول نہیں  فرماتا، ایک وہ شخص جس کی بیوی بد خلق ہو اور پھر بھی وہ اسے  طلاق نہ دے  دوسرا وہ شخص جو اپنا مال بیوقوف کو دے  دے  حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے  بیوقوف کو اپنا مال نہ دو تیسرا وہ شخص جس کا فرض کسی پر ہو اور اس نے  اس قرض پر کسی کو گواہ نہ کیا ہو۔ ان سے  بھلی بات کہو یعنی ان سے  نیکی اور صلہ رحمی کرو، اس آیت سے  معلوم ہوا کہ محتاجوں سے  سلوک کرنا چاہئے  اسے  جسے  بالفعل تصرف کا حق نہ ہو اس کے  کھانے  کپڑے  کی خبر گیری کرنی چاہئے  اور اس کے  ساتھ نرم زبانی اور خوش خلقی سے  پیش آنا چاہئے ۔ پھر فرمایا یتیموں کی دیکھ بھال رکھو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں، یہاں نکاح سے  مراد بلوغت ہے  اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے  جب اسے  خاص قسم کے  خواب آنے  لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے، حضرت علی فرماتے  ہیں  مجھے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے  کہ احتلام کے  بعد یتیمی نہیں  اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے  تین قسم کے  لوگوں سے  قلم اٹھا لیا گیا ہے، بچے  سے  جب تک بالغ نہ ہو، سوتے  سے  جب جاگ نہ جائے، مجنوں سے  جب تک ہوش نہ آ جائے، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے  دوسری علامت بلوغ بعض کے  نزدیک یہ ہے  کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے  اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے  جس میں وہ فرماتے  ہیں  کہ احد والی لڑائی میں مجھے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  ساتھ اس لئے  نہیں  لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے  قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے  فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے، تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے  بالوں کا نکلنا ہے، اس میں علماء کے  تین قول ہیں  ایک یہ کہ علامت بلوغ ہے  دوسرے  یہ کہ نہیں  تیسرے  یہ کہ مسلمانوں میں نہیں  اور ذمیوں میں ہے  اس لئے  کہ ممکن ہے  کسی دوا سے  یہ بال جلد نکل آتے  ہوں اور ذمی پر جواب ہوتے  ہی جزیہ لگ جاتا ہے  تو وہ اسے  کیوں استعمال کرنے  لگا؟ لیکن صحیح بات یہ ہے  کہ سب کے  حق میں یہ علامت بلوغت ہے  کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے  علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے  ٹھیک یہی ہے  کہ یہ بال اپنے  وقت پر ہی نکلتے  ہیں، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے  کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے  بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  پیش کئے  گئے  تو آپ نے  حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے  جس کے  یہ بال نکل آئے  ہوں اسے  قتل کر دیا جائے  اور نہ نکلے  ہوں اسے  چھوڑ دیا جائے  چنانچہ یہ بال میرے  بھی نہ نکلے  تھے  مجھے  چھوڑ دیا گیا، سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے  اور امام ترمذی اسے  حسن صحیح فرماتے  ہیں، حضرت سعد کے  فیصلے  پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے  باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے  یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے  لڑنے  والے  تو قتل کر دئیے  جائیں اور بچے  قیدی بنا لئے  جائیں غرائب ابی عبید میں ہے  کہ ایک لڑکے  نے  ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے  اس سے  بدکاری کی ہے  دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے  اسے  تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے  زیر ناف کے  بال اگ آئے  ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں  دیکھا تو آگے  نہ تھے  چنانچہ اس پر سے  حد ہٹا دی۔ پھر فرماتا ہے  جب تم دیکھو کہ یہ اپنے  دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے  لائق ہو گئے  ہیں  تو ان کے  ولیوں کو چاہئے  کہ ان کے  مال انہیں  دے  دیں ۔ بغیر ضروری حاجت کے  صرف اس ڈر سے  کہ یہ بڑے  ہوتے  ہی اپنا مال ہم سے  لے  لیں گے  تو ہم اس سے  پہلے  ہی ان کے  مال کو ختم کر دیں ان کا مال نہ کھاؤ۔ جسے  ضرورت نہ ہو خود امیر ہو کھاتا پیتا ہو تو اسے  تو چاہئے  کہ ان کے  مال میں سے  کچھ بھی نہ لے، مردار اور بہے  ہوئے  خون کی طرح یہ مال ان پر حرام محض ہے، ہاں اگر والی مسکین محتاج ہو تو بے  شک اسے  جائز ہے  کہ اپنی پرورش کے  حق کے  مطابق وقت کی حاجت اور دستور کے  موجب اس مال میں سے  کھا پی لے  اپنی حاجت کو دیکھئے  اور اپنی محنت کو اگر حاجت محنت سے  کم ہو تو حاجت کے  مطابق لے  اور اگر محنت حاجت سے  کم ہو تو محنت کا بدلہ لے  لے، پھر ایسا ولی اگر مالدار بن جائے  تو اسے  اس کھائے  ہوئے  اور لئے  ہوئے  مال کو واپس کرنا پڑے  گا یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں  ایک تو یہ کہ واپس نہ دینا ہو گا اس لئے  کہ اس نے  اپنے  کام کے  بدلے  لے  لیا ہے  امام شافعی کے  ساتھیوں کے  نزدیک یہی صحیح ہے، اس لئے  کہ آیت میں بغیر بدل کے  مباح قرار دیا ہے  اور مسند احمد وغیرہ میں ہے  کہ ایک شخص نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے  پاس مال نہیں  ایک یتیم میری پرورش میں ہے  تو کیا میں اس کے  کھانے  سے  کھا سکتا ہوں آپ نے  فرمایا ہاں اس یتیم کا مال اپنے  کام میں لا سکتا بشرطیکہ حاجت سے  زیادہ نہ اڑا نہ جمع کر نہ یہ ہو کہ اپنے  مال کو تو بچا رکھے  اور اس کے  مال کو کھاتا چلا جائے، ابن ابی حاتم میں بھی ایسی ہی روایت ہے، ابن حبان وغیرہ میں ہے  کہ ایک شخص نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا کہ میں اپنے  یتیم کو ادب سکھانے  کے  لئے  ضرورتاً کس چیز سے  ماروں ؟ فرمایا جس سے  تو اپنے  بچے  کو تنبیہ کرتا ہے  اپنا مال بچا کر اس کا مال خرچ نہ کر نہ اس کے  مال سے  دولت مند بننے  کی کوشش کر، حضرت ابن عباس سے  کسی نے  پوچھا کہ میرے  پاس بھی اونٹ ہیں  اور میرے  ہاں جو یتیم پل رہے  ہیں  ان کے  بھی اونٹ ہیں  میں اپنی اونٹنیاں دودھ پینے  کے  لئے  فقیروں کو تحفہ دے  دیتا ہوں تو کیا میرے  لئے  جائز ہے  کہ ان یتیموں کی اونٹنیوں کا دودھ پی لوں ؟ آپ نے  فرمایا اگر ان یتیموں کی گم شدہ اونٹنیوں کی کو تو ڈھونڈ لاتا ہے  ان کے  چارے  پانی کی خبر گیری رکھتا ہے  ان کے  حوض درست کرتا رہتا ہے  اور ان کی نگہبانی کیا کرتا ہے  تو بیشک دودھ سے  نفع بھی اٹھا لیکن اس طرح کہ نہ ان کے  بچوں کو نقصان پہنچے  نہ حاجت سے  زیادہ لے، (موطا مالک) حضرت عطاء بن رباح حضرت عکرمہ حضرت ابراہیم نخعی حضرت عطیہ عوفی حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے  دوسرا قول یہ ہے  کہ تنگ دستی کے  دور ہو جانے  کے  بعد وہ مال یتیم کو واپس دینا پڑے  گا اس لئے  کہ اصل تو ممانعت ہے  البتہ ایک وجہ سے  جواز ہو گیا تھا جب وہ وجہ جاتی رہی تو اس کا بدل دینا پڑے  گا جیسے  کوئی بے  بس اور مضطر ہو کر کسی غیر کا مال کھا لے  لیکن حاجت کے  نکل جانے  کے  بعد اگر اچھا وقت آیا تو اسے  واپس دینا ہو گا، دوسری دلیل یہ ہے  کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تخت خلافت پر بیٹھے  تو اعلان فرمایا تھا کہ میری حیثیت یہاں یتیم کے  والی کی حیثیت ہے  اگر مجھے  ضرورت ہی نہ ہوئی تو میں بیت المال سے  کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاجی ہوئی تو بطور قرض لوں گا جب آسانی ہوئی پھر واپس کر دوں گا (ابن ابی الدنیا) یہ حدیث سعید بن منصور میں بھی ہے  اور اس کو اسناد صحیح ہے، بیہقی میں بھی یہ حدیث ہے، ابن عباس سے  آیت کے  اس جملہ کی تفسیر میں مروی ہے  کہ بطور قرض کھائے  اور بھی مفسرین سے  یہ مروی ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے  ہیں  معروف سے  کھانے  کا مطلب یہ ہے  کہ تین انگلیوں سے  کھائے  اور روایت میں آپ سے  یہ مروی ہے  کہ وہ اپنے  ہی مال کو صرف اپنی ضرورت پوری ہو جانے  کے  لائق ہی خرچ کرے  تا کہ اسے  یتیم کے  مال کی حاجت ہی نہ پڑے، حضرت عامر شعبی فرماتے  ہیں  اگر ایسی بے  بسی ہو جس میں مردار کھانا جائز ہو جاتا ہے  تو بیشک کھا لے  لیکن پھر ادا کرنا ہو گا، یحییٰ بن سعید انصار اور ربیعہ سے  اس کی تفسیریوں مروی ہے  کہ اگر یتیم فقیر ہو تو اس کا ولی اس کی ضرورت کے  موافق دے  اور پھر اس ولی کو کچھ نہ ملے  گا، لیکن عبارت یہ ٹھیک نہیں  بیٹھتا اس لئے  کہ اس سے  پہلے  یہ جملہ بھی ہے  کہ جو غنی ہو وہ کچھ نہ لے، یعنی جو ولی غنی ہو تو یہاں بھی یہی مطلب ہو گا جو ولی فقیر ہو نہ یہ کہ جو یتیم فقیر ہو، دوسری آیت میں ہے  آیت (ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ہی احسن حتی یبلغ اشدہ) یعنی یتیم کے  مال کے  قریب بھی نہ جاؤ ہاں بطور اصلاح کے  پھر اگر تمہیں  حاجت ہو تو حسب حاجت بطریق معروف اس میں سے  کھاؤ پیو پھر اولیاء سے  کہا جاتا ہے  کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ جائیں اور تم دیکھ لو کہ ان میں تمیز آ چکی ہے  تو گواہ رکھ کر ان کے  مال ان کے  سپرد کر دو، تا کہ انکار کرنے  کا وقت ہی نہ آئے، یوں تو دراصل سچا شاہد اور پورا نگراں اور باریک حساب لینے  والا اللہ ہی ہے  وہ خوب جانتا ہے  کہ ولی نے  یتیم کے  مال میں نیت کیسی رکھی؟ آیا خورد برد کیا تباہ و برباد کیا جھوٹ سچ حساب لکھا اور دیا یا صاف دل اور نیک نیتی سے  نہایت چوکسی اور صفائی سے  اس کے  مال کا پورا پورا خیال رکھا اور حساب کتاب صاف رکھا، ان سب باتوں کا حقیقی علم تو اسی دانا و بینا نگران و نگہبان کو ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  فرمایا اے  ابوذر میں تمہیں  ناتواں پاتا ہوں اور جو اپنے  لئے  چاہتا ہوں وہی تیرے  لئے  بھی پسند کرتا ہوں خبردار ہرگز دو شخصوں کا بھی سردار اور امیر نہ بننا نہ کبھی کسی یتیم کا ولی بننا۔

۶

وراثت کے مسائل

مشرکین عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مر جاتا تو اس کی بڑی اولاد کو اس کا مال مل جاتا چھوٹی اولاد اور عورتیں بالکل محروم رہتیں اسلام نے  یہ حکم نازل فرما کر سب کی مساویانہ حیثیت قائم کر دی کہ وارث تو سب ہوں گے  خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ قرابت حقیقی ہو یا خواہ بوجہ عقد زوجیت کے  ہو یا بوجہ نسبت آزادی ہو حصہ سب کو ملے  گا گو کم و بیش ہو، " ام کجہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں  کہ حضور میرے  دو لڑکے  ہیں  ان کے  والد فوت ہو گئے  ہیں  ان کے  پاس اب کچھ نہیں  پس یہ آیت نازل ہوئی، یہی حدیث دوسرے  الفاظ سے  میراث کی اور دونوں آیتوں کی تفسیر میں بھی عنقریب انشاء اللہ آئے  گی واللہ اعلم، دوسری آیت کا مطلب یہ ہے  کہ جب کسی مرنے  والے  کا ورثہ بٹنے  لگے  اور وہاں اس کا کوئی دور کا رشتہ دار بھی آ جائے  جس کا کوئی حصہ مقرر نہ ہو اور یتیم و مساکین آ جائیں تو انہیں  بھی کچھ نہ کچھ دے  دو۔ ابتداء اسلام میں تو یہ واجب تھا اور بعض کہتے  ہیں  مستحب تھا اور اب بھی یہ حکم باقی ہے  یا نہیں ؟ اس میں بھی دو قول ہیں، حضرت ابن عباس تو اسے  باقی بتاتے  ہیں  حضرت مجاہد حضرت ابن مسعود حضرت ابو موسیٰ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر حضرت ابو العالیہ حضرت شعبی حضرت حسن حضرت سعید بن جیر حضرت ابن سیرین حضرت عطاء بن ابو رباح حضرت زہری حضرت یحییٰ بن معمر رحمۃ اللہ علیہم اجمعین بھی باقی بتاتے  ہیں، بلکہ یہ حضرات سوائے  حضرت ابن عباس کے  وجوب کے  قائل ہیں، حضرت عبیدہ ایک وصیت کے  ولی تھے ۔ انہوں نے  ایک بکری ذبح کی اور تینوں قسموں کے  لوگوں کو کھلائی اور فرمایا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو یہ بھی میرا مال تھا، حضرت عروہ نے  حضرت مصعب کے  مال کی تقسیم کے  وقت بھی دیا، حضرت زہری کا بھی قول ہے  کہ یہ آیت محکم ہے  منسوخ نہیں، ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے  مروی ہے  کہ یہ وصیت پر موقوف ہے ۔ چنانچہ جب عبدالرحمن بن حضرت ابوبکر کے  انتقال کے  بعد ان کے  صاحبزادے  حضرت عبد اللہ نے  اپنے  باپ کا ورثہ تقسیم کیا اور یہ واقعہ حضرت مائی عائشہ کی موجودگی کا ہے  تو گھر میں جتنے  مسکین اور قرابت دار تھے  سب کو دیا اور اسی آیت کی تلاوت کی، حضرت ابن عباس کو جب یہ معلوم ہوا تو فرمایا اس نے  ٹھیک نہیں  کیا اس آیت سے  تو مراد یہ ہے  کہ جب مرنے  والے  نے  اس کی وصیت کی ہو (ابن ابی حاتم) بعض حضرات کا قول ہے  کہ یہ آیت بالکل منسوخ ہی ہے  مثلاً حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے  ہیں  یہ آیت منسوخ ہے ۔ اور ناسخ آیت (یوصیکم اللہ) ہے، حصے  مقرر ہونے  سے  پہلے  یہ حکم تھا پھر جب حصے  مقرر ہو چکے  اور ہر حقدار کو خود اللہ تعالیٰ نے  حق پہنچا دیا تو اب صدقہ صرف وہی رہ گیا جو مرنے  والا کہہ گیا ہو حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے  ہیں  کہ ہاں اگر وصیت ان لوگوں کے  لئے  ہو تو اور بات ہے  ورنہ یہ آیت منسوخ ہے، جمہور کا اور چاروں اماموں کا یہی مذہب ہے، امام ابن جریر نے  یہاں ایک عجیب قول اختیار کیا ہے  ان کی لمبی اور کئی بار کی تحریر کا ماحصل یہ ہے  کہ مال وصیت کی تقسیم کے  وقت جب میت کے  رشتہ دار آ جائیں تو انہیں  بھی دے  دو اور یتیم مسکین جو آ گئے  ہوں ان سے  نرم کلامی اور اچھے  جواب سے  پیش آؤ، لیکن اس میں نظر ہے  واللہ اعلم، حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے  ہیں  تقسیم سے  مراد یہاں ورثے  کی تقسیم ہے، پس یہ قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کے  خلاف ہے، ٹھیک مطلب آیت کا یہ ہے  کہ جب یہ غریب لوگ ترکے  کی تقسیم کے  وقت آ جائیں اور تم اپنا اپنا حصہ الگ الگ کر کے  لے  رہے  ہو اور یہ بیچارے  تک رہے  ہوں تو انہیں  بھی خالی ہاتھ نہ پھیرو ان کا وہاں سے  مایوس اور خالی ہاتھ واپس جانا اللہ تعالیٰ رؤف و رحیم کو اچھا نہیں  لگتا بطور صدقہ کے  راہ اللہ ان سے  بھی کچھ اچھا سلوک کر دو تا کہ یہ خوش ہو کر جائیں، جیسے  اور جگہ فرمان باری ہے  کہ کھیتی کے  کٹنے  کے  دن اس کا حق ادا کرو اور فاقہ زدہ اور مسکینوں سے  چھپا کر اپنے  باغ کا پھل لانے  والوں کی اللہ تعالیٰ نے  بڑی مذمت فرمائی ہے  جیسے  کہ سورۃ نون میں ہے  کہ وہ رات کے  وقت چھپ کر پوشیدگی سے  کھیت اور باغ کے  دانے  اور پھل لانے  کے  لئے  چلتے  ہیں  وہاں اللہ کا عذاب ان سے  پہلے  پہنچ جاتا ہے  اور سارے  باغ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتا ہے  دوسروں کے  حق برباد کرنے  والوں کا یہی حشر ہوتا ہے، حدیث شریف میں ہے  جس مال میں صدقہ مل جائے  یعنی جو شخص اپنے  مال سے  صدقہ نہ دے  اس کا مال اس وجہ سے  غارت ہو جاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے  ڈریں وہ لوگ جو اگر اپنے  پیچھے  چھوڑ جائیں یعنی ایک شخص اپنی موت کے  وقت وصیت کر رہا ہے  اور اس میں اپنے  وارثوں کو ضرر پہنچا رہا ہے  تو اس وصیت کے  سننے  والے  کو چاہئے  کہ اللہ کا خوف کرے  اور اسے  ٹھیک بات کی رہنمائی کرے  اس کے  وارثوں کے  لئے  ایسی بھلائی چاہئے  جیسے  اپنے  وارثوں کے  ساتھ بھلائی کرانا چاہتا ہے  جب کہ ان کی بربادی اور تباہی کا خوف ہو، بخاری و مسلم میں ہے  کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت سعد بن ابی وقاص کے  پاس ان کی بیماری کے  زمانے  میں ان کی عیادت کو گئے  اور حضرت سعد نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے  پاس مال بہت ہے  اور صرف میری ایک لڑکی ہی میرے  پیچھے  ہے  تو اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے  مال کی دو تہائیاں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دوں آپ نے  فرمایا نہیں  انہوں نے  کہا پھر ایک تہائی کی اجازت دیجئے  آپ نے  فرمایا خیر لیکن ہے  یہ بھی زیادہ تو اگر اپنے  پیچھے  اپنے  وارثوں کو توانگر چھوڑ کر جائے  اس سے  بہتر ہے  تو کہ تو انہیں  فقیر چھوڑ کر جائے  کہ وہ دوسروں کے  سامنے  ہاتھ پھیلاتے  پھریں، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  لوگ ایک تہائی سے  بھی کم یعنی چوتھائی کی ہی وصیت کریں تو اچھا ہے  اس لئے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے  تہائی کو بھی زیادہ فرمایا ہے  فقہاء فرماتے  ہیں  اگر میت کے  وارث امیر ہوں تب تو خیر تہائی کی وصیت کرنا مستحب ہے  اور اگر فقیر ہوں تو اس سے  کم کی وصیت کرنا مستحب ہے، دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے  کہ تم یتیموں کا اتنا ہی خیال رکھو جتنا تم تمہاری چھوٹی اولاد کا تمہارے  مرنے  کے  بعد چاہتے  ہو اور لوگ خیال رکھیں جس طرح تم نہیں  چاہتے  کہ ان کے  مال دوسرے  ظلم سے  کھا جائیں اور وہ بالغ ہو کر فقیر رہ جائیں اسی طرح تم دوسروں کی اولادوں کے  مال نہ کھا جاؤ، یہ مطلب بھی بہت عمدہ ہے  اسی لئے  اس کے  بعد ہی یتیموں کا مال ناحق مار لینے  والوں کی سزا بیان فرمائی، کہ یہ لوگ اپنے  پیٹ میں انگارے  بھرنے  والے  اور جہنم و اصل ہونے  والے  ہیں، بخاری و مسلم میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا سات گناہوں سے  بچو جو ہلاکت کا باعث ہیں  پوچھا گیا کیا کیا؟ فرمایا اللہ کے  ساتھ شرک، جادو، بے  وجہ قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، جہاد سے  پیٹھ موڑنا، بھولی بھالی ناواقف عورتوں پر تہمت لگانا، ابن ابی حاتم میں ہے  صحابہ نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  معراج کی رات کا واقعہ پوچھا جس میں آپ نے  فرمایا کہ میں نے  بہت سے  لوگوں کو دیکھا کہ ان کے  ہونٹ نیچے  لٹک رہے  ہیں  اور فرشتے  انہیں  گھسیٹ کر ان کا منہ خوب کھول دیتے  ہیں  پھر جہنم کے  گرم پتھر ان میں ٹھونس دیتے  ہیں  جو ان کے  پیٹ میں اتر کر پیچھے  کے  راستے  سے  نکل جاتے  ہیں  اور وہ بے  طرح چیخ چلا رہے  ہیں  ہائے  ہائے  مچا رہے  ہیں ۔ میں نے  حضرت جبرائیل سے  پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ کہا یہ یتیموں کا مال کھا جانے  والے  ہیں  جو اپنے  پیٹوں میں آگ بھر رہے  ہیں  اور عنقریب جہنم میں جائیں گے، حضرت سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  یتیم کا مال کھا جانے  والا قیامت کے  روز اپنی قبر سے  اس طرح اٹھایا جائے  گا کہ اس کے  منہ آنکھوں نتھنوں اور روئیں روئیں سے  آگ کے  شعلے  نکل رہے  ہوں گے  ہر شخص دیکھتے  ہی پہچان لے  گا کہ اس نے  کسی یتیم کا مال ناحق کھا رکھا ہے ۔ ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کے  قریب قریب مروی ہے  اور حدیث میں ہے  میں تمہیں  وصیت کرتا ہوں کہ ان دونوں ضعیفوں کا مال پہنچا دو عورتوں کا اور یتیم کا، ان کے  مال سے  بچو، سورۃ بقرہ میں یہ روایت گزر چکی ہے  کہ جب یہ آیت اتری تو جن کے  پاس یتیم تھے  انہوں نے  ان کا اناج پانی بھی الگ کر دیا اب عموماً ایسا ہوتا کہ کھانے  پینے  کی ان کی کوئی چیز بچ رہتی تو یا تو دوسرے  وقت اسی باسی چیز کو کھاتے  یا سڑنے  کے  بعد پھینک دی جاتی گھر والوں میں سے  کوئی اسی ہاتھ بھی نہ لگاتا تھا یہ بات دونوں طرف ناگوار گزری حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  بھی اس کا ذکر آیا ہے  اس پر آیت (ویسألو نک عن الیتامی) الخ، اتری جس کا مطلب یہ ہے  کہ جس کام میں یتیموں کی بہتری سمجھو کرو چنانچہ اس کے  بعد پھر کھانا پانی ایک ساتھ ہوا۔

۱۱

زید مسائل میراث جن کا ہر مسلمان کو جاننا فرض ہے

یہ آیت کریمہ اور اس کے  بعد کی آیت اور اس سورت کے  خاتمہ کی آیت علم فرائض کی آیتیں ہیں، یہ پورا علم ان آیتوں اور میراث کی احادیث سے  استنباط کیا گیا ہے، جو حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر اور توضیح ہیں، یہاں ہم اس آیت کی تفسیر لکھتے  ہیں  باقی جو میراث کے  مسائل کی پوری تقریر ہے  اور اس میں جن دلائل کی سمجھ میں جو کچھ اختلاف ہوا ہے  اس کے  بیان کرنے  کی مناسب جگہ احکام کی کتابیں ہیں  نہ کہ تفسیر، اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے، علم فرائض سیکھنے  کی رغبت میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں، ان آیتوں میں جن فرائض کا بیان ہے  یہ سب سے  زیادہ اہم ہیں، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے  علم دراصل تین ہیں  اور اس کے  ماسوا فضول بھرتی ہے، آیات قرآنیہ جو مضبوط ہیں  اور جن کے  احکام باقی ہیں، سنت قائمہ یعنی جو احادیث ثابت شدہ ہیں  اور فریضہ عادلہ یعنی مسائل میراث جو ان دو سے  ثابت ہیں ۔ ابن ماجہ کی دوسری ضعیف سند والی حدیث میں ہے  کہ فرائض سیکھو اور دوسروں کو سکھاؤ۔ یہ نصف علم ہے  اور یہ بھول بھول جاتے  ہیں  اور یہی پہلی وہ چیز ہے  جو میری امت سے  چھن جائے  گی، حضرت ابن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  اسے  آدھا علم اس لئے  کہا گیا ہے  کہ تمام لوگوں کو عموماً یہ پیش آتے  ہیں، صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے  مروی ہے  کہ میں بیمار تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میری بیمار پرسی کے  لئے  بنو سلمہ کے  محلے  میں پیادہ پا تشریف لائے  میں اس وقت بیہوش تھا آپ نے  پانی منگوا کر وضو کیا پھر وضو کے  پانی کا چھینٹا مجھے  دیا جس سے  مجھے  ہوش آیا، تو میں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنے  مال کی تقسیم کس طرح کروں ؟ اس پر آیت شریفہ نازل ہوئی، صحیح مسلم شریف نسائی شریف وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ مسند امام احمد بن حنبل وغیرہ میں مروی حے  کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ دونوں حضرت سعد کی لڑکیاں ہیں، ان کے  والد آپ کے  ساتھ جنگ احد میں شریک تھے  اور وہیں  شہید ہوئے  ان کے  چچا نے  ان کا کل مال لے  لیا ہے  ان کے  لئے  کچھ نہیں  چھوڑا اور یہ ظاہر ہے  کہ ان کے  نکاح بغیر مال کے  نہیں  ہو سکتے، آپ نے  فرمایا اس کا فیصلہ خود اللہ کرے  گا چنانچہ آیت میراث نازل ہوئی، آپ نے  ان کے  چچا کے  پاس آدمی بھیج کر حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے، بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے  کہ حضرت جابر کے  سوال پر اس سورت کی آخری آیت اتری ہو گی جیسے  عنقریب آ رہا ہے  انشاء اللہ تعالیٰ اس لئے  کہ ان کی وارث صرف ان کی بہنیں ہی تھیں لڑکیاں تھیں ہی نہیں  وہ تو کلالہ تھے  اور یہ آیت اسی بارے  میں یعنی حضرت سعد بن ربیع کے  ورثے  کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے  اور اس کے  راوی بھی خود حضرت جابر ہیں  ہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے  اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر میں وارد کیا ہے  اس لئے  ہم نے  بھی ان کی تابعداری کی، واللہ اعلم مطلب آیت کا یہ ہے  کہ اللہ تعالیٰ تمہیں  تمہاری اولاد کے  بارے  میں عدل سکھاتا ہے، اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے  تھے  اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے  ان کا حصہ بھی مقرر کر دیا ہاں دونوں کے  حصوں میں فرق رکھا، اس لئے  کہ مردوں کے  ذمہ جو ضروریات ہیں  وہ عورتوں کے  ذمہ نہیں  مثلاً اپنے  متعلقین کے  کھانے  پینے  اور خرچ اخراجات کی کفالت تجارت اور کسب اور اسی طرح کی اور مشقتیں تو انہیں  ان کی حاجت کے  مطابق عورتوں سے  دوگنا دلوایا، بعض دانا بزرگوں نے  یہاں ایک نہایت باریک نکتہ بیان کیا ہے  کہ اللہ تعالیٰ اپنے  بندوں پر بہ نسبت ماں باپ کے  بھی زیادہ مہربان ہے، ماں باپ کو ان کی اولادوں کے  بارے  میں وصیت کر رہا ہے، پس معلوم ہوا کہ ماں باپ اپنی اولاد پر اتنے  مہربان نہیں  جتنا مہربان ہمارا خالق اپنی مخلوق پر ہے ۔ چنانچہ ایک صحیح حدیث میں ہے  کہ قیدیوں میں سے  ایک عورت کا بچہ اس سے  چھوٹ گیا وہ پاگلوں کی طرح اسے  ڈھونڈتی پھرتی تھی اور جیسے  ہی ملا اپنے  سینے  سے  لگا کر اسے  دودھ پلانے  لگی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہ دیکھ کر اپنے  اصحاب سے  فرمایا بھلا بتاؤ تو کیا یہ عورت باوجود اپنے  اختیار کے  اپنے  بچے  کو آگ میں ڈال دے  گی؟ لوگوں نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہرگز نہیں  آپ نے  فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے  بندوں پر اس سے  بھی زیادہ مہربان ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ پہلے  حصہ دار مال کا صرف لڑکا تھا، ماں باپ کو بظور وصیت کے  کچھ مل جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے  اسے  منسوخ کیا اور لڑکے  کو لڑکی سے  دوگنا دلوایا اور ماں باپ کو چھٹا چھٹا حصہ دلوایا اور تیسرا حصہ بھی اور بیوی کو آٹھواں حصہ اور چوتھا حصہ اور خاوند کو آدھا اور پاؤ۔ فرماتے  ہیں  میراث کے  احکام اترنے  پر بعض لوگوں نے  کہا یہ اچھی بات ہے  کہ عورت کو چوتھا اور آٹھواں حصہ دلوایا جا رہا ہے  اور لڑکی کو آدھوں آدھ دلوایا جا رہا ہے  اور ننھے  ننھے  بچوں کا حصہ مقرر کیا جا رہا ہے  حالانکہ ان میں سے  کوئی بھی نہ لڑائی میں نکل سکتا ہے، نہ مال غنیمت لا سکتا ہے  اچھا تم اس حدیث سے  خاموشی برتو شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بھول جائے  ہمارے  کہنے  کی وجہ سے  آپ ان احکام کو بدل دیں، پھر انہوں نے  آپ سے  کہا کہ آپ لڑکی کو اس کے  باپ کا آدھا مال دلوا رہے  ہیں  حالانکہ نہ وہ گھوڑے  پر بیٹھنے  کے  لائق نہ دشمن سے  لڑنے  کے  قابل، آپ بچے  کو ورثہ دلا رہے  ہیں  بھلا وہ کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ؟ یہ لوگ جاہلیت کے  زمانہ میں ایسا ہی کرتے  تھے  کہ میراث صرف اسے  دیتے  تھے  جو لڑنے  مرنے  کے  قابل ہو سب سے  بڑے  لڑکے  کو وارث قرار دیتے  تھے  (اگر مرنے  والے  کے  لڑکے  لڑکیاں دونوں ہو تو تو فرما دیا کہ لڑکی کو جتنا آئے  اس سے  دوگنا لڑکے  کو دیا جائے  یعنی ایک لڑکی ایک لڑکا ہے  تو کل مال کے  تین حصے  کر کے  دو حصے  لڑکے  کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے  دیا جائے  اور اگر صرف لڑکی کو دے  دیا جائے  اب بیان فرماتا ہے  کہ اگر صرف لڑکیاں ہوں تو انہیں  کیا ملے  گا؟ مترجم) لفظ فوق کو بعض لوگ زائد بتاتے  ہیں  جیسے  آیت (فاضربوا فوق الاعناق آیت میں لفظ فوق زائد ہے  لیکن ہم یہ نہیں  مانتے  نہ اس آیت میں نہ اس آیت میں، کیونکہ قرآن میں کوئی ایسی زائد چیز نہیں  ہے  جو محض بے  فائدہ ہو اللہ کے  کلام میں ایسا ہونا محال ہے، پھر یہ بھی خیال فرمائیے  کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس کے  بعد آیت (فلہن) نہ آتا بلکہ (فلہما) آتا۔ ہاں اسے  ہم جانتے  ہیں  کہ اگر لڑکیاں دو سے  زیادہ نہ ہوں یعنی صرف دو ہوں تو بھی یہی حکم ہے  یعنی انہیں  بھی دو ثلث ملے  گا کیونکہ دوسری آیت میں دو بہنوں کو دو ثلث دلوایا گیا ہے  اور جبکہ دو بہنیں دو ثلث پاتی ہیں  تو دو لڑکیوں کو دو ثلث کیوں نہ ملے  گا؟ ان کے  لئے  تو دو تہائی بطور اولی ہونا چاہئے، اور حدیث میں آچکا ہے  دو لڑکیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  دو تہائی مال ترکہ کا دلوایا جیسا کہ اس آیت کی شان نزول کے  بیان میں حضرت سعد کی لڑکیوں کے  ذکر میں اس سے  پہلے  بیان ہو چکا ہے  پس کتاب و سنت سے  یہ ثابت ہو گیا اسی طرح اس کی دلیل یہ بھی ہے  کہ ایک لڑکی اگر ہو یعنی لڑکا نہ ہونے  کی صورت میں تو اسے  آدھوں آدھ دلوایا گیا ہے  پس اگر دو کو بھی آدھا ہی دینے  کا حکم کرنا مقصود ہوتا تو یہیں  بیان ہو جاتا جب ایک کو الگ کر دیا تو معلوم ہوا کہ دو کا حکم وہی ہے  جو دو سے  زائد کا ہے  واللہ اعلم۔ پھر ماں باپ کا حصہ بیان ہو رہا ہے  ان کے  ورثے  کی مختلف صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ مرنے  والے  کی اولاد ایک لڑکی سے  زیادہ ہو اور ماں باپ بھی ہوں تو تو انہیں  چھٹا چھٹا حصہ ملے  گا یعنی چھٹا حصہ ماں کو اور چھٹا حصہ باپ کو، اگر مرنے  والے  کی صرف ایک لڑکی ہی ہے  تو آدھا مال تو وہ لڑکی لے  لے  گی اور چھٹا حصہ ماں لے  لے  گی چھٹا حصہ باپ کو ملے  گا اور چھٹا حصہ جو باقی رہا وہ بھی بطور عصبہ باپ کو مل جائے  گا پس اس حالت میں باپ فرض اور تنصیب دونوں کو جمع کر لے  گا یعنی مقررہ چھٹا حصہ اور بطور عصبہ بچت کا مال دوسری صورت یہ ہے  کہ صرف ماں باپ ہی وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ مل جائے  گا اور باقی کا کل ماں باپ کو بطور عصبہ کے  مل جائے  گا تو گویا دو ثلث مال اس کے  ہاتھ لگے  گا یعنی بہ نسبت مال کے  دگنا باپ کو مل جائے  گا اب اگر مرنے  والی عورت کا خاوند بھی ہے  مرنے  والے  مرد کی بیوی ہے  یعنی اولاد نہیں  صرف ماں باپ ہیں  اور خاوند سے  یا بیوی تو اس پر تو اتفاق ہے  کہ خاوند کو آدھا اور بیوی کو پاؤ ملے  گا، پھر علماء کا اس میں اختلاف ہے  کہ ماں کو اس صورت میں اس کے  بعد کیا ملے  گا؟ تین قول ہیں  ایک تو یہ کہ جو مال باقی رہا اس میں سے  تیسرا حصہ ملے  گا دونوں صورتوں میں یعنی خواہ عورت خاوند چھوڑ کر مری ہو خواہ مرد عورت چھوڑ کر مرا ہو اس لئے  کہ باقی کا مال ان کی نسبت سے  گویا کل مال ہے  اور ماں کا حصہ باپ سے  آدھا ہے  تو اس باقی کے  مال سے  تیسرا حصہ یہ لے  لے  اور وہ تیسرے  حصے  جو باقی رہے  وہ باپ لے  لے  گا حضرت عمر حضرت عثمان اور بہ اعتبار زیادہ صحیح روایت حضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہی فیصلہ ہے، حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہی قول ہے، ساتوں فقہاء اور چاروں اماموں اور جمہور علماء کا بھی فتویٰ ہے  دوسرا قول یہ ہے  کہ ان دونوں صورتوں میں بھی ماں کو کل مال کا ثلث مل جائے  گا، اس لئے  کہ آیت عام ہے  خاوند بیوی کے  ساتھ ہو تو اور نہ ہو تو عام طور پر میت کی اولاد نہ ہونے  کی صورت میں ماں کو ثلث دلوایا گیا ہے، حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے، حضرت علی اور حضرت معاذ بن جبل سے  بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حضرت شریح اور حضرت داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے  ہیں، حضرت ابو الحسین بن لبان بصری بھی اپنی کتاب ایجاز میں جو علم فرائض کے  بارے  میں ہے  اسی قول کو پسند کرتے  ہیں، لیکن اس قول میں نظر ہے  بلکہ یہ قول ضعیف ہے  کیونکہ آیت نے  اس کا یہ حصہ اس وقت مقرر فرمایا ہے  جبکہ کل مال کی وراثت صرف ماں باپ کو ہی پہنچتی ہو، اور جبکہ زوج یا زوجہ سے  اور وہ اپنے  مقررہ حصے  کے  مستحق ہیں  تو پھر جو باقی رہ جائے  گا بیشک وہ ان دونوں ہی کا حصہ ہے  تو اس میں ثلث ملے  گا، کیونکہ اس عورت کو کل مال کی چوتھائی ملے  گی اگر کل مال کے  بارہ حصے  کئے  جائیں تو تین حصے  تو یہ لے  گی اور چار حصے  ماں کو ملے  گا باقی بچے  پانچ حصے  وہ باپ لے  لے  گا لیکن اگر عورت مری ہے  اور اس کا خاوند موجود ہے  تو ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے  گا اگر کل مال کا تیسرا حصہ اس صورت میں بھی ماں کو دلوایا جائے  تو اسے  باپ سے  بھی زیادہ پہنچ جاتا ہے  مثلاً میت کے  مال کے  چھ حصے  کئے  تین تو خاوند لے  گیا دو ماں لے  گئی تو باپ کے  پلے  ایک ہی پڑے  گا جو ماں سے  بھی تھوڑا ہے، اس لئے  اس صورت میں چھ میں سے  تین تو خاوند کو دئے  جائیں گے  ایک ماں کو اور دو باپ کو، حضرت امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے، یوں سمجھنا چاہئے  کہ یہ قول دو قولوں سے  مرکب ہے، ضعیف یہ بھی ہے  اور صحیح قول پہلا ہی ہے  واللہ اعلم، ماں باپ کے  احوال میں سے  تیسرا حال یہ ہے  کہ وہ بھائیوں کے  ساتھ ہوں خواہ وہ سگے  بھائی ہوں یا صرف باپ کی طرف سے  یا صرف ماں کی طرف سے  تو وہ باپ کے  ہوتے  ہوئے  اپنے  بھائی کے  ورثے  میں کچھ پائیں گے  نہیں  لیکن ہاں ماں کو تہائی سے  ہٹا کر چھٹا حصہ دلوائیں گے  اور اگر کوئی اور وارث ہی نہ ہو اور صرف ماں کے  ساتھ باپ ہی ہو تو باقی مال کل کا کل باپ لے  لے  گا اور بھائی بھی شریعت میں بہت سے  بھائیوں کے  مترادف ہیں  جمہور کا یہی قول ہے، ہاں حضرت ابن عباس سے  مروی ہے  کہ آپ نے  ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  کہا کہ دو بھائی ماں کو ثلث سے  ہٹا کر سدس تک نہیں  لے  جاتے  قرآن میں اخوۃ جمع کا لفظ ہے  دو بھائی اگر مراد ہوتے  اخوان کہا جاتا خلیفہ ثالث نے  جواب دیا کہ پہلے  ہی سے  یہ چلا آتا ہے  اور چاروں طرف یہ مسئلہ اسی طرح پہنچا ہوا ہے  تمام لوگ اس کے  عامل ہیں  میں اسے  نہیں  بدل سکتا، اولاً تو یہ اثر ثابت ہی نہیں  اس کے  راوی حضرت شعبہ کے  بارے  میں حضرت امام مالک کی جرح موجود ہے  پھر یہ قول ابن عباس کا نہ ہونے  کی دوسری دلیل یہ ہے  کہ خود حضرت ابن عباس کے  خاص اصحاب اور اعلی شاگرد بھی اس کے  خلاف ہیں  حضرت زید فرماتے  ہیں  دو کو بھی اخوۃ کہا جاتا ہے، الحمد للہ میں نے  اس مسئلہ کو پوری طرح ایک علیحدہ رسالے  میں لکھا ہے  حضرت سعید بن قتادہ سے  بھی اسی طرح مروی ہے، ہاں میت کا اگر ایک ہی بھائی ہو تو ماں کو تیسرے  حصے  سے  ہٹا نہیں  سکتا، علماء کرام کا فرمان ہے  کہ اس میں حکمت یہ ہے  کہ میت کے  بھائیوں کی شادیوں کا اور کھانے  پینے  وغیرہ کا کل خرچ باپ کے  ذمہ ہے  نہ کہ ماں کے  ذمے  اس لئے  متقضائے  حکمت یہی تھا کہ باپ کو زیادہ دیا جائے، یہ توجیہ بہت ہی عمدہ ہے، لیکن حضرت ابن عباس سے  بہ سند صحیح مروی ہے  کہ یہ چھٹا حصہ جو ماں کا کم ہو گیا انہیں  دیدیا جائے  گا یہ قول شاذ ہے  امام ابن جریر فرماتے  ہیں  حضرت عبد اللہ کا یہ قول تمام امت کے  خلاف ہے، ابن عباس کا قول ہے  کہ کلالہ اسے  کہتے  ہیں  جس کا بیٹا اور باپ نہ ہو۔ پھر فرمایا وصیت اور قرض کے  بعد تقسیم میراث ہو گی، تمام سلف خلف کا اجماع ہے  کہ قرض وصیت پر مقدم ہے  اور فحوائے  آیت کو بھی اگر بغور دیکھا جائے  تو یہی معلوم ہوتا ہے، ترمذی وغیرہ میں ہے  حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  تم قرآن میں وصیت کا حکم پہلے  پڑھتے  ہو اور قرض کا بعد میں لیکن یاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  قرض پہلے  ادا کرایا ہے، پھر وصیت جاری کی ہے، ایک ماں زاد بھائی آپس میں وارث ہوں گے  بغیر علاتی بھائیوں کے، آدمی اپنے  سگے  بھائی کا وارث ہو گا نہ اس کا جس کی ماں دوسری ہو، یہ حدیث صرف حضرت حارث سے  مروی ہے  اور ان پر بعض محدثین نے  جرح کی ہے، لیکن یہ حافظ فرائض تھے  اس علم میں آپ کو خاص دلچسپی اور دسترس تھی اور حساب کے  بڑے  ماہر تھے  واللہ اعلم۔ پھر فرمایا کہ ہم نے  باپ بیٹوں کو اصل میراث میں اپنا اپنا مقررہ حصہ لینے  والا بنایا اور جاہلیت کی رسم ہٹا دی بلکہ اسلام میں بھی پہلے  بھی ایسا ہی حکم تھا کہ مال اولاد کو مل جاتا ماں باپ کو صرف بطور وصیت کے  ملتا تھا جیسے  حضرت ابن عباس سے  پہلے  بیان ہو چکا یہ منسوخ کر کے  اب یہ حکم ہوا تمہیں  یہ نہیں  معلوم کہ تمہیں  باپ سے  زیادہ نفع پہنچے  گا یا اولاد نفع دے  گی امید دونوں سے  نفع کی ہے  یقین کسی پر بھی ایک سے  زیادہ نہیں، ممکن ہے  باپ سے  زیادہ بیٹا کام آئے  اور نفع پہنچائے  اور ممکن ہے  بیٹے  سے  زیادہ باپ سے  نفع پہنچے  اور وہ کام آئے، پھر فرماتا ہے  یہ مقررہ حصے  اور میراث کے  یہ احکام اللہ کی طرف سے  فرض ہیں  اس میں کسی کمی پیشی کی کسی امید یا کسی خوف سے  گنجائش نہیں  نہ کسی کو محروم کر دینا لائق سے  نہ کسی کو زیادہ دلوا دینا، اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے  جو جس کا مستحق ہے  اسے  اتنا دلواتا ہے  ہر چیز کی جگہ کو وہ بخوبی جانتا ہے  تمہارے  نفع نقصان کا اسے  پورا علم ہے  اس کا کوئی کام اور کوئی حکم حکمت سے  خالی نہیں  تمہیں  چاہئے  کہ اس کے  احکام اس کے  فرمان مانتے  چلے  جاؤ۔

۱۲

وراثت کی مزید تفصیلات

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ اے  مرد و تمہاری عورتیں جو چھوڑ کر مریں اگر ان کی اولاد نہ ہو تو اس میں سے  آدھوں آدھ حصہ تمہارا ہے  اور اگر ان کے  بال بچے  ہوں تو تمہیں  چوتھائی ملے  گا، وصیت اور قرض کے  بعد۔ ترتیب اس طرح ہے  پہلے  قرض ادا کیا جائے  پھر وصیت پوری کی جائے  پھر ورثہ تقسیم ہو، یہ ایسا مسئلہ ہے  جس پر تمام علماء امت کا اجماع ہے، پوتے  بھی اس مسئلہ میں حکم میں بیٹیوں کی ہی طرح ہیں  بلکہ ان کی اولاد در اولاد کا بھی یہی حکم ہے  کہ ان کی موجودگی میں خاوند کو چوتھائی ملے  گا۔ پھر عورتوں کو حصہ بتایا کہ انہیں  یا چوتھائی ملے  گا یا آٹھواں حصہ چوتھائی تو اس حالت میں کہ مرنے  والے  خاوند کی اولاد نہ ہو، اور آٹھواں حصہ اس حالت میں کہ اولاد ہو، اس چوتھائی یا آٹھویں حصے  میں مرنے  والے  کی سب بیویاں شامل ہیں  چار ہوں تو ان میں یہ حصہ برابر برابر تقسیم ہو جائے  گا تین یا دو ہوں تب بھی اور اگر ایک ہو تو اسی کا یہ حصہ ہے  آیت (من بعد وصیتہ) کی تفسیر اس سے  پہلی آیت میں گزر چکی ہے ۔ (کلالہ) مشتق ہے  اکلیل سے  اکلیل کہتے  ہیں  اس تاج وغیرہ کو جو سر کو ہر طرف سے  گھیر لے، یہاں مراد یہ ہے  کہ اس کے  وارث ارد گرد حاشیہ کے  لوگ ہیں  اصل اور فرع یعنی جڑیا شاخ نہیں، صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  کلالہ کا معنی پوچھا جاتا ہے  تو آپ فرماتے  ہیں  میں اپنی رائے  سے  جواب دیتا ہوں اگر ٹھیک ہو تو اللہ کی طرف سے  ہے  اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے  ہے  اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس سے  بری الذمہ ہیں، کلالہ وہ ہے  جس کا نہ لڑکا ہو نہ باپ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے  تو آپ نے  بھی اس سے  موافقت کی اور فرمایا مجھے  ابوبکر کی رائے  سے  خلاف کرتے  ہوئے  شرم آتی ہے  (ابن جریر وغیرہ) ابن عباس فرماتے  ہیں  حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا سب سے  آخری زمانہ پانے  والا میں ہوں میں نے  آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا فرماتے  تھے  بات وہی ہے  جو میں نے  کہی ٹھیک اور درست یہی ہے  کہ کلالہ اسے  کہتے  ہیں  جس کا نہ ولد ہو والد، حضرت علی، ابن مسعود، ابن عباس، زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین، شعبی، نخعی، حسن، قتادہ، جابر بن زید، حکم رحمۃ اللہ علیہم اجمعین بھی یہی فرماتے  ہیں، اہل مدینہ اہل کوفہ اہل بصرہ کا بھی یہی قول ہے  ساتوں فقہاء چاروں امام اور جمہور سلف و خلف بلکہ تمام یہی فرماتے  ہیں، بہت سے  بزرگوں نے  اس پر اجماع نقل کیا ہے  اور ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی آیا ہے، ابن لباب فرماتے  ہیں  کہ حضرت ابن عباس سے  یہ بھی مروی ہے  کہ کلالہ وہ ہے  جس کی اولاد نہ ہو لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے  اور ممکن ہے  کہ راوی نے  مراد سمجھی ہی نہ ہو پھر فرمایا کہ اس کا بھائی یا بہن ہو یعنی ماں زاد، جیسے  کہ سعد بن وقاص وغیرہ بعض سلف کی قرات ہے، حضرت صدیق وغیرہ سے  بھی یہی تفسیر مروی ہے  تو ان میں سے  ہر ایک کے  لئے  چھٹا حصہ ہے  اگر زیادہ ہوں تو ایک ثلث میں سب شریک ہیں، ماں زاد بھائی باقی وارثوں سے  کئی وجہ سے  مختلف ہیں، ایک تو یہ کہ یہ باوجود اپنے  ورثے  کے  دلانے  والے  کے  بھی وارث ہوتے  ہیں  مثلاً ماں دوسرے  یہ کہ ان کے  مرد و عورت یعنی بہن بھائی میراث میں برابر ہیں  تیسرے  یہ کہ یہ اسی وقت وارث ہوتے  ہیں  جبکہ میت کلالہ ہو پس باپ دادا کی یعنی پوتے  کی موجودگی میں یہ وارث نہیں  ہوتے، چوتھے  یہ کہ انہیں  ثلث سے  زیادہ نہیں  ملتا تو گو یہ کتنے  ہی ہوں مرد ہوں یا عورت، حضرت عمر کا فیصلہ ہے  کہ ماں زاد بہن بھائی کا ورثہ آپس میں اس طرح بٹے  گا کہ مرد کے  لئے  دوہرا اور عورت کے  لئے  اکہرا، حضرت زہری فرماتے  ہیں  حضرت عمر ایسا فیصلہ نہیں  کر سکتے  تاوقتیکہ انہوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  یہ سنا ہو، آیت میں اتنا تو صاف ہے  کہ اگر اس سے  زیادہ ہوں تو ثلث میں شریک ہیں، اس صورت میں علماء کا اختلاف ہے  کہ اگر میت کے  وارثوں میں خاوند ہو اور ماں ہو یا دادی ہو اور دو ماں زاد بھائی ہوں اور ایک یا ایک سے  زیادہ باپ کی طرف سے  بھائی ہوں تو جمہور تو کہتے  ہیں  کہ اس صورت میں خاوند کو آدھا ملے  گا اور ماں یا دادی کو چھٹا حصہ ملے  گا اور ماں زاد بھائی کو تہائی ملے  گا اور اسی میں سگے  بھائی بھی شامل ہوں گے  قدر مشترک کے  طور پر جو ماں زاد بھائی ہے، امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  زمانہ میں ایک ایسی ہی صورت پیش آئی تھی تو آپ نے  خاوند کو آدھا دلوایا اور ثلث ماں زاد بھائیوں کو دلوایا تو سگے  بھائیوں نے  بھی اپنے  تئیں پیش کیا آپ نے  فرمایا تم ان کے  ساتھ شریک ہو، حضرت عثمان سے  بھی اسی طرح شریک کر دینا مروی ہے، اور دو روایتوں میں سے  ایک روایت ایسی ہے  ابن مسعود اور زید بن ثابت اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے  بھی مروی ہے، حضرت سعید بن مسیب، قاضی شریح، مسروق، طاؤس، محمد بن سیرین، ابراہیم نخعی، عمر بن عبدالعزیز، ثوری اور شریک رحہم اللہ کا قول بھی یہی ہے، امام مالک اور امام شافعی اور امام اسحق بن راھویہ بھی اسی طرف گئے  ہیں، ہاں حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں شرکت کے  قائل نہ تھے  بلکہ آپ اولاد ام کو اس حالت میں ثلث دلواتے  تھے  اور ایک ماں باپ کی اولاد کو کچھ نہیں  دلاتے  تھے  اس لئے  کہ یہ عصبہ ہیں  اور عصبہ اس وقت پاتے  ہیں  جب ذوی الفرض سے  بچ جائے، بلکہ وکیع بن جراح کہتے  ہیں  حضرت علی سے  اس کے  خلاف مروی ہی نہیں، حضرت ابی بن کعب حضرت ابو موسیٰ اشعری کا قول بھی یہی ہے، ابن عباس سے  بھی مشہور یہی ہے، شعبی، ابن ابی لیلی، ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد بن حسن، حسن بن زیادہ، زفر بن ہذیل، امام احمد، یحییٰ بن آدم، نعیم بن حماد، ابو ثور، داؤد ظاہری بھی اسی طرف گئے  ہیں  ابوالحسن بن لبان فرضی نے  بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ملاحظہ ہو ان کی کتاب الایجاز پھر فرمایا یہ وصیت کے  جاری کرنے  کے  بعد ہے، وصیت ایسی ہو جس میں خلاف عدل نہ ہو کسی کو ضرر اور نقصان نہ پہنچایا گیا ہو نہ کسی پر جبر و ظلم کیا گیا ہو، کسی وارث کا نہ ورثہ مارا گیا ہو نہ کم و بیش کیا گیا ہو، اس کے  خلاف وصیت کرنے  والا اور ایسی خلاف شرع وصیت میں کوشش کرنے  والا اللہ کے  حکم اور اس کی شریعت میں اس کے  خلاف کرنے  والا اور اس سے  لڑنے  والا ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  وصیت میں کسی کو ضرر و نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے  (ابن ابی حاتم) نسائی میں حضرت ابن عباس کا قول بھی اسی طرح مروی ہے  بعض روایتوں میں حضرت ابن عباس سے  اس فرمان کے  بعد آیت کے  اس ٹکڑے  کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے، امام ابن جریر کے  قول کی مطابق ٹھیک بات یہی ہے  کہ یہ مرفوع حدیث نہیں  موقوف قول ہے، ائمہ کرام کا اس میں اختلاف ہے  کہ وارث کے  لئے  جو اقرار میت کر جائے  آیا وہ صحیح ہے  یا نہیں ؟ بعض کہتے  ہیں  صحیح نہیں  ہے  اس لئے  کہ اس میں تہمت لگنے  کی گنجائش ہے، حدیث شریف میں بہ سند صحیح آ چکا ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے  ہر حقدار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے  اب وارث کے  لئے  کوئی وصیت نہیں، مالک احمد بن حنبل ابو حنیفہ کا قول یہی ہے، شافعی کا بھی پہلا قول یہی تھا لیکن آخری قول یہ ہے  کہ اقرار کرنا صحیح مانا جائے  گا طاؤس حسن عمر بن عبدالعزیز کا قول بھی یہی ہے، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کو پسند کرتے  ہیں  اور اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں اسی کو ترجیح دیتے  ہیں، ان کی دلیل ایک یہ روایت بھی ہے  کہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  وصیت کی کہ فزاریہ نے  جس چیز پر اپنے  دروازے  بند کر رکھے  ہوں وہ نہ کھولے  جائیں، حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے  پھر فرمایا ہے  کہ بعض لوگ کہتے  ہیں  بہ سبب وارثوں کے  ساتھ بدگمانی کے  اسکا یہ اقرار جائز نہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  تو فرمایا ہے  بدگمانی سے  بچو بدگمانی تو سب سے  زیادہ جھوٹ ہے، قرآن کریم میں فرمان اللہ موجود ہے  کہ اللہ تعالیٰ تمہیں  حکم دیتا ہے  کہ جس کی جو امانت ہو وہ پہنچا دو، اس وارث اور غیر وارث کی کوئی تخصیص نہیں، یہ یاد رہے  کہ یہ اختلاف اس وقت ہے  جب اقرار فی الواقع صحیح ہو اور نفس الامر کے  مطابق ہو اور اگر صرف حیلہ سازی ہو اور بعض وارثوں کو زیادہ دینے  اور بعض کو کم پہنچانے  کے  لئے  ایک بہانہ بنا لیا ہو تو بالاجماع اسے  پورا کرنا حرام ہے  اور اس آیت کے  صاف الفاظ بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے  ہیں  (اقرار فی الواقع صحیح ہونے  کی صورت میں اس کا پورا کرنا ضروری ہے  جیسا کہ دوسری جماعت کا قول ہے  اور جیسا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے ۔ مترجم) پھر فرمایا یہ اللہ عزوجل احکام ہیں  اللہ عظیم و اعلیٰ علم و حلم والا ہے ۔

۱۳

نا فرمانوں کا حشر

اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کرے  اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے  آگے  نکل جائے  اسے  وہ جہنم میں ڈال دے  گا جس میں ہمیشہ رہے  گا ایسوں کے  لئے  اہانت کرنے  والا عذاب ہے، یعنی یہ فرائض اور یہ مقدار جسے  اللہ تعالیٰ نے  مقرر کیا ہے  اور میت کے  وارثوں کو ان کی قرابت کی نزدیگی اور ان کی حاجت کے  مطابق جتنا جسے  دلوایا ہے  یہ سب اللہ ذوالکرم کی حدود ہیں  تم ان حدوں کو نہ توڑو نہ اس سے  آگے  بڑھو۔ جو شخص اللہ عزوجل کے  ان احکام کو مان لے، کوئی حیلہ حو آلہ کر کے  کسی وارث کو کم بیش دلوانے  کی کوشش نہ کرے  حکم الہ اور فریضہ الہ جوں کا توں بجا لائے  اللہ کا وعدہ ہے  کہ وہ اسے  ہمیشہ لینے  والی نہروں کی جنت میں داخل کرے  گا، یہ کامیاب نصیب ور اور مقصد کو پہنچنے  والا اور مراد کو پانے  والا ہو گا، اور جو اللہ کے  کسی حکم کو بدل دے  کسی وارث کے  ورثے  کو کم و بیش کر دے  رضائے  الٰہی کو پیش نظر نہ رکھے  بلکہ اس کے  حکم کو رد کر دے  اور اس کے  خلاف عمل کرے  وہ اللہ کی تقسیم کو اچھی نظر سے  نہیں  دیکھتا اور اس کے  حکم کو عدل نہیں  سمجھتا تو ایسا شخص ہمیشہ رہنے  والی رسوائی اور اہانت والے  درد ناک اور ہیبت ناک عذابوں میں مبتلا رہے  گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  کہ ایک شخص ستر سال تک نیکی کے  عمل کرتا رہتا ہے  پھر وصیت کے  وقت ظلم و ستم کرتا ہے  اس کا خاتمہ برے  عمل پر ہوتا ہے  اور وہ جہنمی بن جاتا ہے  اور ایک شخص برائی کا عمل ستر سال تک کرتا رہتا ہے  پھر اپنی وصیت میں عدل کرتا ہے  اور خاتمہ اس کا بہتر ہو جاتا ہے  تو جنت میں داخل جاتا ہے، پھر اس حدیث کے  راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  اس آیت کو پڑھو آیت (تلک حدود اللہ) سے  عذاب (مہین) تک۔ سنن ابی داؤد کے  باب الاضرار فی الوصیۃ میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  کہ ایک مرد یا عورت اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ساٹھ سال تک لگے  رہے  ہیں  پھر موت کے  وقت وصیت میں کوئی کمی بیشی کر جاتے  ہیں  تو ان کے  لئے  جہنم واجب ہو جاتی ہے  پھر حضرت ابوہریرہ نے  آیت (من بعد وصیتہ) سے  آخر آیت تک پڑھی ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے، امام ترمذی اسے  غریب کہتے  ہیں، مسند احمد میں یہ حدیث تمام و کمال کے  ساتھ موجود ہے ۔

۱۵

سیاہ کار عورت اور اس کی سزا

ابتدائے  اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب عادل گواہوں کی سچی گواہی سے  کسی عورت کی سیاہ کاری ثابت ہو جائے  تو اسے  گھر سے  باہر نہ نکلنے  دیا جائے  گھر میں ہی قید کر دیا جائے  اور جنم قید یعنی موت سے  پہلے  اسے  چھوڑا نہ جائے، اس فیصلہ کے  بعد یہ اور بات ہے  کہ اللہ ان کے  لئے  کوئی اور راستہ پیدا کر دے، پھر جب دوسری صورت کی سزا تجویز ہوئی تو وہ منسوخ ہو گئی اور یہ حکم بھی منسوخ ہوا، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  جب تک سورۃ نور کی آیت نہیں  اتری تھی زنا کار عورت کے  لئے  یہی حکم رہا پھر اس آیت میں شادی شدہ کو رجم کرنے  یعنی پتھر مار مار کر مار ڈالنے  اور بے  شادی شدہ کو کوڑے  مارنے  کا حکم اترا، حضرت عکرمہ، حضرت سعید بن جبیر، حضرت حسن، حضرت عطاء خرسانی ٫ حضرت ابو صالح، حضرت قتادہ، حضرت زید بن اسلم اور حضرت ضحاک کا بھی یہی قول ہے  کہ یہ آیت منسوخ ہے  اور اس پر سب کا اتفاق ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا بڑا اثر ہوتا اور تکلیف محسوس ہوتی اور چہرے  کا رنگ بدل جاتا پس اللہ تعالیٰ نے  ایک دن اپنے  نبی پر وحی نازل فرمائی کیفیت وحی سے  نکلے  تو آپ نے  فرمایا مجھ سے  حکم الٰہی لو اللہ تعالیٰ نے  سیاہ کار عورتوں کے  لئے  راستہ نکال دیا ہے  اگر شادی شدہ عورت یا شادی شدہ مرد سے  اس جرم کا ارتکاب ہو تو ایک سو کوڑے  اور پتھروں سے  مار ڈالنا اور غیر شادی شدہ ہوں تو ایک سو کوڑے  اور ایک سال کی جلا وطنی (مسلم وغیرہ) ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث الفاظ کچھ تبدیلی کے  ساتھ سے  مروی ہے، امام ترمذی اسے  حسن صحیح کہتے  ہیں، اسی طرح ابو داؤد میں بھی، ابن مردویہ کی غریبف حدیث میں کنوارے  اور بیاہے  ہوئے  کے  حکم کے  ساتھ ہی یہ بھی ہے  کہ دونوں اگر بوڑھے  ہوں تو انہیں  رجم کر دیا جائے  لیکن یہ حدیث غریب ہے، طبرانی میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا سورۃ نساء کے  اترنے  کے  بعد اب روک رکھنے  کا یعنی عورتوں کو گھروں میں قاید رکھنے  کا حکم نہیں  رہا، امام احمد کا مذہب اس حدیث کے  مطابق یہی ہے  کہ زانی شادی شدہ کو کوڑے  بھی لگائے  جائیں گے  اور رجم بھی کیا جائے  گا اور جمہور کہتے  ہیں  کوڑے  نہیں  لگیں گے  صرف رجم کیا جائے  گا اس لئے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت ماعز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور غامدیہ عورت کو رجم کیا لیکن کوڑے  نہیں  مارے، اسی طرح دو یہودیوں کو بھی آپ نے  رجم کا حکم دیا اور رجم سے  پہلے  بھی انہیں  کوڑے  نہیں  لگوائے، پھر جمہور کے  اس قول کے  مطابق معلوم ہوا کہ انہیں  کوڑے  لگانے  کا حکم منسوخ ہے  واللہ اعلم۔ پھر فرمایا اس بے  حیائی کے  کام کو دو مرد اگر آپس میں کریں انہیں  ایذاء پہنچاؤ یعنی برا بھلا کہہ کر شرم و غیرہ دلا کر جوتیاں لگا کر، یہ حکم بھی اسی طرح پر رہا یہاں تک کہ اسے  بھی اللہ تعالیٰ نے  کوڑے  اور رجم سے  منسوخ فرمایا، حضرت عکرمہ عطاء حسن عبد اللہ بن کثیر فرماتے  ہیں  اس سے  مراد بھی مرد و عورت ہیں، سدی فرماتے  ہیں  مراد وہ نوجوان مرد ہیں  جو شادی شدہ نہ ہوں حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  لواطت کے  بارے  میں یہ آیت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جسے  تم لوطی فعل کرتے  دیکھو تو فاعل مفعول دونوں کو قتل کر ڈالو، ہاں اگر یہ دونوں باز آجائیں اپنی بدکاری سے  توبہ کریں اپنے  اعمال کی اصلاح کر لیں اور ٹھیک ٹھاک ہو جائیں تو اب انکے  ساتھ درشت کلامی اور سختی سے  پیش نہ آؤ، اس لئے  کہ گناہ سے  توبہ کر لینے  والا مثل گناہ نہ کرنے  والے  کے  ہے ۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے  والا اور درگزر کرنے  والا ہے، بخاری و مسلم میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  اگر کسی کی لونڈی بدکاری کرے  تو اس کا مالک اسے  حد لگا دے  اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، یعنی حد لگ جانے  کے  بعد پھر اسے  عار نہ دلایا کرے  کیونکہ حد کفارہ ہے ۔

۱۷

عالم نزع سے پہلے توبہ؟

مطلب یہ ہے  کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے  ان بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے  جو ناواقفیت کی وجہ سے  کوئی برا کام کر بیٹھیں پھر توبہ کر لیں گو یہ توبہ فرشتہ موت کو دیکھ لینے  کے  بعد عالم نزع سے  پہلے  ہو، حضرت مجاہد وغیرہ فرماتے  ہیں  جو بھی قصداً یا غلطی سے  اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے  وہ جاہل ہے  جب تک کہ اس سے  باز نہ آ جائے ۔ ابو العالیہ فرماتے  ہیں  صحابہ کرام فرمایا کرتے  تھے  کہ بندہ جو گناہ کرے  وہ جہالت ہے، حضرت قتادہ بھی صحابہ کے  مجمع سے  اس طرح کی روایت کرتے  ہیں  عطاء اور حضرت ابن عباس سے  بھی اسی طرح مروی ہے ۔ توبہ جلدی کر لینے  کی تفسیر میں منقول ہے  کہ ملک الموت کو دیکھ لینے  سے  پہلے، عالم سکرات کے  قریب مراد ہے، اپنی صحت میں توبہ کر لینی چاہئے، غر غرے  کے  وقت سے  پہلے  کی توبہ قبول ہے، حضرت عکرمہ فرماتے  ہیں  ساری دنیا قریب ہی ہے، اس کے  متعلق حدیثیں سنئے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  کہ اللہ تعالیٰ اپنے  بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے  جب تک سانسوں کا ٹوٹنا شروع نہ ہو، (ترمذی) جو بھی مومن بندہ اپنی موت سے  مہینہ بھر پہلے  توبہ کر لے  اس کی توبہ اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے  یہاں تک کہ اس کے  بعد بھی بلکہ موت سے  ایک دن پہلے  تک بھی بلکہ ایک سانس پہلے  بھی جو بھی اخلاص اور سچائی کے  ساتھ اپنے  رب کی طرف جھکے  اللہ تعالیٰ اسے  قبول فرماتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے  ہیں  جو اپنی موت سے  ایک سال پہلے  توبہ کرے  اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے  اور جو مہینہ بھر پہلے  توبہ کرے  اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے  اور جو ہفتہ بھر پہلے  توبہ کرے  اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے  اور جو ایک دن پہلے  توبہ کرے  اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بھی قبول فرماتا ہے، یہ سن کر حضرت ایوب نے  یہ آیت پڑھی تو آپ نے  فرمایا وہی کہتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا ہے، مسند احمد میں ہے  کہ چار صحابی جمع ہوئے  ان میں سے  ایک نے  کہا میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا ہے  جو شخص اپنی موت سے  ایک دن پہلے  بھی توبہ کر لے  اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، دوسرے  نے  پوچھا کیا سچ مچ تم نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ایسے  ہی سنا ہے ؟ اس نے  کہا ہاں تو دوسرے  نے  کہا تم نے  یہ سنا ہے ؟ اس نے  کہا ہاں، اس نے  کہا میں نے  تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  یہاں تک سنا ہے  کہ جب تک اس کے  نرخرے  میں روح نہ آ جائے  توبہ کے  دروازے  اس کے  لئے  بھی کھلے  رہتے  ہیں، ابن مردویہ میں مروی ہے  کہ جب تک جان نکلتے  ہوئے  گلے  سے  نکلنے  والی آواز شروع نہ ہو تب تک توبہ قبول ہے، کئی ایک مرسل احادیث میں بھی یہ مضمون ہے، حضرت ابو قلابہ فرماتے  ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے  جب ابلیس پر لعنت نازل فرمائی تو اس نے  مہلت طلب کی اور کہا تیری عزت اور تیرے  جلال کی قسم کہ ابن آدم کے  جسم میں جب تک روح رہے  گی میں اس کے  دل سے  نہ نکلوں گا، اللہ تعالیٰ عزوجل نے  فرمایا مجھے  اپنی عزت اور اپنے  جلال کی قسم کہ میں بھی جب تک اس میں روح رہے  گی اس کی توبہ قبول کروں گا، ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے  قریب قریب مروی ہے  پس ان تمام احادیث سے  معلوم ہوتا ہے  کہ جب تک بندہ زندہ ہے  اور اسے  اپنی حیاتی کی امید ہے  تب تک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے  توبہ کرے  تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے  اور اس پر رجوع کرتا ہے  اللہ تعالیٰ اس علیم و حکیم ہے، ہاں جب زندگی سے  مایوس ہو جائے  فرشتوں کو دیکھ لے  اور روح بدن سے  نکل کر حلق تک پہنچ جائے  سینے  میں گھٹن لگے  حلق میں اٹکے  سانسوں سے  غرغرہ شروع ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں  ہوتی۔ اسی لئے  اس کے  بعد فرمایا کہ مرتے  دم تک جو گناہوں پر اڑا رہے  اور موت دیکھ کر کہنے  لگے  کہ اب میں توبہ کرتا ہوں تو ایسے  شخص کی توبہ قبول نہیں  ہوتی، جیسے  اور جگہ ہے  آیت (فلما راوا باسنا قالوا امنا باللہ وحدہ) (دو آیتوں تک) مطلب یہ ہے  کہ ہمارے  عذابوں کا معائنہ کر لینے  کے  بعد ایمان کا اقرار کرنا کوئی نفع نہیں  دیتا اور جگہ ہے  آیت (یوم یاتی بعض ایات ربک) الخ، مطلب یہ ہے  کہ جب مخلوق سورج کو مغرب کی طرف سے  چڑھتے  ہوئے  دیکھ لے  گی اس وقت جو ایمان لائے  یا نیک عمل کرے  اسے  نہ اس کا عمل نفع دے  گا نہ اس کا ایمان ۔ پھر فرماتا ہے  کہ کفر و شرک پر مرنے  والے  کو بھی ندامت و توبہ کوئی فائدہ نہ دے  گی نہ ہی اس فدیہ اور بدلہ قبول کیا جائے  گا چاہے  زمین بھر کر سونا دینا چاہئے  حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے  ہیں  یہ آیت اہل شرک کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے، مسند احمد میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  اللہ تعالیٰ اپنے  بندیکی توبہ قبول کرتا ہے  اور اسے  بخش دیتا ہے  جب تک پردہ نہ پڑ جائے  پوچھا گیا پردہ پڑنے  سے  کیا مطلب ہے ؟ فرمایا شرک کی حالت میں جان نکل جانا۔ ایسے  لوگوں کے  لئے  اللہ تعالیٰ نے  سخت درد ناک المناک ہمیشہ رہنے  والے  عذاب تیار کر رکھے  ہیں ۔

۱۹

عورت پر ظلم کا خاتمہ

صحیح بخاری میں ہے  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ قبل اسلام جب کوئی شخص مر جاتا ہے  تو اس کے  وارث اس کی عورت کے  پورے  حقدار سمجھے  جاتے  اگر ان میں سے  کوئی چاہتا تو اپنے  نکاح میں لے  لیتا اگر وہ چاہتے  تو دوسرے  کسی کے  نکاح میں دے  دیتے  اگر چاہتے  تو نکاح ہی نہ کرنے  دیتے  میکے  والوں سے  زیادہ اس عورت کے  حقدار سسرال والے  ہی گنے  جاتے  تھے  جاہلیت کی اس رسم کے  خلاف یہ آیت نازل ہوئی، دوسری روایت میں یہ بھی آیا ہے  کہ وہ لوگ اس عورت کو مجبور کرتے  کہ وہ مہر کے  حق سے  دست بردار ہو جائے  یا یونہی بے  نکاحی بیٹھی رہے، یہ بھی مروی ہے  کہ اس عورت کا خاوند مرتے  ہی کوئی بھی آ کر اس پر اپنا کپڑا ڈال دیتا اور وہی اس کا مختار سمجھا جاتا، تو روایت میں ہے  کہ یہ کپڑا ڈالنے  والا اسے  حسین پاتا تو اپنے  نکاح میں لے  لیتا اگر یہ بدصورت ہوتی تو اسے  یونہی روکے  رکھتا یہاں تک کہ مر جائے  پھر اس کے  مال کا وارث بنتا۔ یہ بھی مروی ہے  کہ مرنے  والے  کا کوئی گہرا دوست کپڑا ڈال دیتا پھر اگر وہ عورت کچھ فدیہ اور بدلہ دے  تو وہ اسے  نکاح کرنے  کی اجازت دیتا ورنہ یونہی مر جاتی حضرت زید بن اسلم فرماتے  ہیں  اہل مدینہ کا یہ دستور تھا کہ وارث اس عورت کے  بھی وارث بن جاتے  غرض یہ لوگ عورتوں کے  ساتھ بڑے  بری طرح پیش آتے  تھے  یہاں تک کہ طلاق دیتے  وقت بھی شرط کر لیتے  تھے  کہ جہاں میں چاہوں تیرا نکاح ہو اس طرح کی قید و بند سے  رہائی پانے  کی پھر یہ صورت ہوتی کہ وہ عورت کچھ دے  کر جان چھڑاتی، اللہ تعالیٰ نے  مومنوں کو اس سے  منع فرما دیا، ابن مردویہ میں ہے  کہ جب ابو قیس بن اسلت کا انتقال ہوا تو ان کے  بیٹے  نے  ان کی بیوی سے  نکاح کرنا چاہا جیسے  کہ جاہلیت میں یہ دستور تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت عطاء فرماتے  ہیں  کہ کسی بچے  کی سنبھال پر اسے  لگا دیتے  تھے  حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  جب کوئی مر جاتا تو اس کا لڑکا اس کی بیوی کا زیادہ حقدار سمجھا جاتا اگر چاہتا خود اپنی سوتیلی ماں سے  نکاح کر لیتا اور اگر چاہتا دوسرے  کے  نکاح میں دے  دیتا مثلاً بھائی کے  بھتیجے  یا جس کو چاہے، حضرت عکرمہ کی روایت میں ہے  کہ ابو قیس کی جس بیوی کا نام کبینہ تھا رضی اللہ عنہا اس نے  اس صورت کی خبر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دی کہ یہ لوگ نہ مجھے  وارثوں میں شمار کر کے  میرے  خاوند کا ورثہ دیتے  ہیں  نہ مجھے  چھوڑتے  ہیں  کہ میں اور کہیں  اپنا نکاح کر لوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ایک روایت میں ہے  کہ کپڑا ڈالنے  کی رسم سے  پہلے  ہی اگر کوئی عورت بھاگ کھڑی ہو اور اپنے  میکے  آجائے  تو وہ چھوٹ جاتی تھی، حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  جو یتیم بچی ان کی ولایت میں ہوتی اسے  یہ روکے  رکھتے  تھے  اس امید پر کہ جب ہماری بیوی مر جائے  گی ہم اس سے  نکاح کر لیں گے  یا اپنے  لڑکے  سے  اس کا نکاح کرا دیں گے، ان سب اقوال سے  معلوم ہوا کہ ان تمام صورتوں کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے  ممانعت کر دی اور عورتوں کی جان اس مصیبت سے  چھڑا دی واللہ اعلم ۔ ارشاد ہے  عورتوں کی بود و باش میں انہیں  تنگ کر کے  تکلیف دے  دے  کر مجبور نہ کرو کہ وہ اپنا سارا مہر چھوڑ دیں یا اس میں سے  کچھ چھوڑ دیں یا اپنے  کسی اور واجبی حق وغیرہ سے  دست بردار ہونے  پر آمادہ ہو جائیں کیونکہ انہیں  ستایا اور مجبور کیا جا رہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  مطلب یہ ہے  کہ عورت ناپسند ہے  دل نہیں  ملا چھوڑ دینا چاہتا ہے  تو اس صورت میں حق مہر کے  علاوہ بھی وغیرہ تمام حقوق دینے  پڑیں گے  اس صورت حال سے  بچنے  کے  لئے  اسے  ستانا یا طرح طرح سے  تنگ کرنا تا کہ وہ خود اپنے  حقوق چھوڑ کر چلے  جانے  پر آمادہ ہو جائے  ایسا رویہ اختیار کرنے  سے  قرآن پاک نے  مسلمانوں کو روک دیا ابن سلمانی فرماتے  ہیں  ان دونوں آیتوں میں سے  پہلے  آیت امر جاہلیت کو ختم کرنے  اور دوسری امر اسلام کی اصلاح کے  لئے  نازل ہوئی، ابن مبارک بھی یہی فرماتے  ہیں ۔ مگر اس صورت میں کہ ان سے  کھلی بے  حیائی کا کام صادر ہو جائے، اس سے  مراد بقول اکثر مفسرین صحابہ تابعین وغیرہ زنا کاری ہے، یعنی اس صورت میں جائز ہے  کہ اس سے  مہر لوٹا لینا چاہئے  اور اسے  تنگ کرے  تا کہ خلع پر رضامند ہو، جیسے  سورۃ بقرہ کی آیت میں ہے  آیت (ولا یحل لکم) الخ، یعنی تمہیں  حلال نہیں  کہ تم انہیں  دیئے  ہوئے  میں سے  کچھ بھی لے  لو مگر اس حالت میں دونوں کو اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکنے  کا خوف ہو۔ بعض بزرگوں نے  فرمایا ہے  آیت (فاحشۃ مبینتہ) سے  مراد خاوند کے  خلاف کام کرنا اس کی نافرمانی کرنا بد زبانی کج خلقی کرنا حقوق زوجیت اچھی طرح ادا نہ کرنا وغیرہ ہے، امام ابن جریر فرماتے  ہیں  آیت کے  الفاظ عام ہیں  زنا کو اور تمام مذکورہ عوامل بھی شامل ہیں  یعنی ان تمام صورتوں میں خاوند کو مباح ہے  کہ اسے  تنگ کرے  تا کہ وہ اپنا کل حق یا تھوڑا حق چھوڑ دے  اور پھر یہ اسے  الگ کر دے  امام صاحب کا یہ فرمان بہت ہی مناسب ہے  واللہ اعلم، یہ روایت بھی پہلے  گزر چکی ہے  کہ یہاں اس آیت کے  اترنے  کا سبب وہی جاہلیت کی رسم ہے  جس سے  اللہ نے  منع فرما دیا، اس سے  معلوم ہوتا ہے  کہ یہ پورا بیان جاہلیت کی رسم کو اسلام میں سے  خارج کرنے  کے  لئے  ہوا ہے، ابن زید فرماتے  ہیں  مکہ کے  قریش میں یہ رواج تھا کہ کسی شخص نے  کسی شریف عورت سے  نکاح کیا موافقت نہ ہوئی تو اسے  طلاق دے  دی لیکن یہ شرط کر لیتا تھا کہ بغیر اس کی اجازت کے  یہ دوسری جگہ نکاح نہیں  کر سکتی اس بات پر گواہ مقرر ہو جاتے  اور اقرار نامہ لکھ لیا جاتا اب اگر کہیں  سے  پیغام آئے  اور وہ عورت اراضی ہو تو یہ کہتا مجھے  اتنی رقم دے  تو میں تجھے  نکاح کی اجازت دوں گا اگر وہ ادا کر دیتی تو تو خیر ورنہ یوں نہ اسے  قید رکھتا اور دوسرا نکاح نہ کرنے  دیتا اس کی ممانعت اس آیت میں نازل ہوئی، بقول مجاہد رحمۃ اللہ علیہ یہ حکم اور سورۃ بقرہ کی آیت کا حکم دونوں ایک ہی ہیں ۔ پھر فرمایا عورتوں کے  ساتھ خوش سلوکی کا رویہ رکھو ان کے  ساتھ اچھا برتاؤ برتو، نرم بات کہو نیک سلوک کرو اپنی حالت بھی اپنی طاقت کے  مطابق اچھی رکھو، جیسے  تم چاہتے  ہو کہ وہ تمہارے  لئے  بنی سنوری ہوئی اچھی حالت میں رہے  تم خود اپنی حالت بھی اچھی رکھو جیسے  اور جگہ فرمایا آیت (ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف یع) نی جیسے  تمہارے  حقوق ان پر ہیں  ان کے  حقوق بھی تم پر ہیں ۔ 

بہترین زوج محترم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  تم سب سے  بہتر شخص وہ ہے  جو اپنی گھر والی کے  ساتھ بہتر سے  بہتر شخص وہ ہے  جو اپنی گھر والی کے  ساتھ بہتر سے  بہتر سلوک کرنے  والا ہو میں اپنی بیویوں سے  بہت اچھا رویہ رکھتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی بیویوں کے  ساتھ بہت لطف و خوشی بہت نرم اخلاقی اور خندہ پیشانی سے  پیش آتے  تھے، انہیں  خوش رکھتے  تھے  ان سے  ہنسی دل لگی کی باتیں کیا کرتے  تھے، ان کے  دل اپنی مٹھی میں رکھتے  تھے، انہیں  اچھی طرح کھانے  پینے  کو دیتے  تھے  کشادہ دلی کے  ساتھ ان پر خرچ کرتے  تھے  ایسی خوش طبعی کی باتیں بیان فرماتے  جن سے  وہ ہنس دیتیں، ایسا بھی ہوا ہے  کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے  ساتھ آپ نے  دوڑ لگائی اس دوڑ میں عائشہ صدیقہ آگے  نکل گئیں کچھ مدت بعد پھر دوڑ لگی اب کے  حضرت عائشہ پیچھے  رہ گئیں تو آپ نے  فرمایا معاملہ برابر ہو گیا، اس سے  بھی آپ کا مطلب یہ تھا کہ حضرت صدیقہ خوش رہیں  ان کا دل بہلے  جس بیوی صاحبہ کے  ہاں آپ کو رات گزارنی ہوتی وہیں  آپ کی کل بیویاں جمع ہو جاتیں دو گھڑی بیٹھتیں بات چیت ہوتی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ان سب کے  ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم رات کا کھانا تناول فرماتے  پھر سب اپنے  اپنے  گھر چلی جاتیں اور آپ وہیں  آرام فرماتے  جن کی باری ہوتی، اپنی بیوی صاحبہ کے  ساتھ ایک ہی چادر میں سوتے  کرتا نکال ڈالتے  صرف تہبند بندھا ہوا ہوتا عشاء کی نماز کے  بعد گھر جا کر دو گھڑی ادھر ادھر کی کچھ باتیں کرتے  جس سے  گھر والیوں کا جی خوش ہوتا الغرض نہایت ہی محبت پیار کے  ساتھ اپنی بیویوں کو آپ رکھتے  تھے ۔

پس مسلمانوں کو بھی چاہئے  کہ اپنی بیویوں کے  ساتھ اچھی طرح راضی خوشی محبت پیار سے  رہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  فرماں برداری کا دوسرا نام اچھائی ہے، اس کے  تفصیلی احکام کی جگہ تفسیر نہیں  بلکہ اسی مضمون کی کتابیں ہیں  والحمد للہ پھر فرماتا ہے  کہ باوجود جی نہ چاہنے  کے  بھی عورتوں سے  اچھی بود و باش رکھنے  میں بہت ممکن ہے  کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بھلائی عطا فرمائے، ممکن ہے  نیک اولاد ہو جائے  اور اس سے  اللہ تعالیٰ بہت سی بھلائیاں نصیب کرے، صحیح حدیث میں ہے  مومن مرد مومنہ عورت کو الگ نہ کرے  اگر اس کی ایک آدھ بات سے  ناراض ہو گا تو ایک آدھ خصلت اچھی بھی ہو گی۔ پھر فرماتا ہے  کہ جب تم میں سے  کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے  اور اس کی جگہ دوسری عورت سے  نکاح کرنا چاہے  تو اسے  دئے  ہوئے  مہر میں سے  کچھ بھی واپس نہ لے  چاہے  خزانہ کا خزانہ دیا ہوا ہو۔ 

حق مہر کے مسائل

سورۂ آل عمران کی تفسیر میں قنطار کا پورا بیان گزر چکا ہے  اس لئے  یہاں دوبارہ بیان کرنے  کی ضرورت نہیں، اس سے  ثابت ہوتا ہے  کہ مہر میں بہت سارا مال دینا بھی جائز ہے، امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے  پہلے  بہت لمبے  چوڑے  مہر سے  منع فرما دیا تھا پھر اپنے  قول سے  رجوع کیا، جیسے  کہ مسند احمد میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا عورتوں کے  مہر باندھنے  میں زیادتی نہ کرو اگر یہ دنیوی طور پر کوئی بھی چیز ہوتی یا اللہ کے  نزدیک یہ تقوی کی چیز ہوتی تو تم سب سے  پہلے  اس پر اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم عمل کرتے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنی کسی بیوی کا یا کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے  زیادہ مقرر نہیں  کیا (تقریباً سوا سو روپیہ) انسان زیادہ مہر باندھ کر پھر مصیبت میں پڑ جاتا ہے  یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کی بیوی اسے  بوجھ معلوم ہونے  لگتی ہے  اور اس کے  دل میں اس کی دشمنی بیٹھ جاتی ہے  اور کہنے  لگتا ہے  کہ تو نے  تو میرے  کندھے  پر مشک لٹکا دی، یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے  مروی ہے  ایک میں ہے  کہ آپ نے  ممبر نبوی پر کھڑے  ہو کر فرمایا لوگو تم نے  کیوں لمبے  چوڑے  مہر باندھنے  شروع کر دئے  ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے  زمانہ کے  آپ کے  اصحاب نے  تو چار سو درہم (تقریباً سو روپیہ) مہر باندھا ہے  اگر یہ تقویٰ اور کرامت کے  زاد ہونے  کا سبب ہوتا تو تم زیادہ حق مہر ادا کرنے  میں بھی ان پر سبقت نہیں  لے  سکتے  تھے  خبردار آج سے  میں نہ سنوں کہ کسی نے  چار سو درہم سے  زیادہ کا مہر مقرر کیا یہ فرما کر آپ نیچے  اتر آئے  تو ایک قریشی خاتون سامنے  آئیں اور کہنے  لگیں امیر المومنین کیا آپ نے  چار سو درہم سے  زیادہ کے  حق مہر سے  لوگوں کو منع فرما دیا ہے ۔ آپ نے  فرمایا ہاں کہا کیا آپ نے  اللہ کا کلام جو اس نے  نازل فرمایا ہے  نہیں  سنا؟ کہا وہ کیا ؟ کہا سنئیے  اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے  آیت (واتیتم احدہن قنطارا) الخ، تم نے  انہیں  خزانہ دیا ہو حضرت عمر؟ نے  فرمایا اللہ مجھے  معاف فرما عمر سے  تو ہر شخص زیادہ سمجھدار ہے  پھر واپس اسی وقت ممبر پر کھڑے  ہو کر لوگوں سے  فرمایا لوگو میں نے  تمہیں  چار سو درہم سے  زیادہ کے  مہر سے  روک دیا تھا لیکن اب کہتا ہوں جو شخص اپنے  مال میں سے  مہر میں جتنا چاہے  دے  اپنی خوشی سے  جتنا مہر مقرر کرنا چاہے  کرے  میں نہیں  روکتا، اور ایک روایت میں اس عورت کا آیت کو اس طرح پڑھنا مروی ہے  آیت (واتیتم احدہن قنطارا) (من ذہب) حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قرات میں بھی اسی طرح ہے  اور حضرت عمر کا یہ فرمانا بھی مروی ہے  کہ ایک عورت عمر پر غالب آ گئی اور روایت میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا تھا گوذی القصہ یعنی یزیدین حصین حارثی کی بیٹی ہو پھر بھی مہر اس کا زیادہ مقرر نہ کرو اور اگر تم نے  ایسا کیا تو وہ زائد رقم میں بیت المال کے  لئے  لے  لوں گا اس پر ایک دراز قد چوڑی ناک والی عورت نے  کہا حضرت آپ یہ حکم نہیں  دے  سکتے ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  کہ تم اپنی بیوی کو دیا ہوا حق مہر واپس کیسے  لے  سکتے  ہو؟ جبکہ تم نے  اس سے  فائدہ اٹھایا یا ضرورت پوری کی وہ تم سے  اور تم اس سے  مل گئی یعنی میاں بیوی کے  تعلقات بھی قائم ہو گئے، بخاری و مسلم کی اس حدیث میں ہے  ایک شخص نے  اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  پیش ہوا۔ بیوی نے  بھی اپنے  بے  گناہ ہونے  شوہر نے  اپنے  سچا ہونے  کی قسم کھائی پھر ان دونوں کا قسمیں کھانا اور اس کے  بعد آپ کا یہ فرمان کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے  کہ تم دونوں میں سے  کون جھوٹا ہے ؟ کیا تم میں سے  کوئی اب بھی توبہ کرتا ہے ؟ تین دفعہ فرمایا تو اس مرد نے  کہا میں نے  جو مال اس کے  مہر میں دیا ہے  اس کی بابت کیا فرماتے  ہیں ؟ آپ نے  فرمایا اسی کے  بدلے  تو یہ تیرے  لئے  حلال ہوئی تھیں اب اگر تو نے  اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے  تو پھر اور ناممکن بات ہو گی اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے  کہ حضرت نفرہ نے  ایک کنواری لڑکی سے  نکاح کیا جب اس سے  ملے  تو دیکھا کہ اسے  زنا کا حمل ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ذکر کیا آپ نے  اسے  الگ کرا دیا اور مہر دلوا دیا اور عورت کو کوڑے  مارنے  کا حکم دیا اور فرمایا جو بچہ ہو گا وہ تیرا غلام ہو گا اور مہر تو اس کی حلت کا سبب تھا (ابوداؤد) غرض آیت کا مطلب بھی یہی ہے  کہ عورت اس کے  بیٹے  پر حرام ہو جاتی ہے  اس پر اجماع ہے، حضرت ابو قیس نے  ان کی بیوی سے  نکاح کی خواہش کی جو ان کی سوتیلی ماں تھیں اس پر اس بیوی صاحبہ نے  فرمایا بیشک تو اپنی قوم میں نیک ہے  لیکن میں تو تجھے  اپنا بیٹا شمار کرتی ہوں خیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس جاتی ہوں جو وہ حکم فرمائیں وہ حاضر ہوئیں اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ساری کیفیت بیان کی آپ نے  فرمایا اپنے  گھر لوٹ جاؤ پھر یہ آیت اتری کہ جس سے  باپ نے  نکاح کیا اس سے  بیٹے  کا نکاح حرام ہے، ایسے  واقعات اور بھی اس وقت موجود تھے  جنہیں  اس ارادے  سے  باز رکھا گیا ایک تو یہی ابو قیس والا واقعہ ان بیوی صاحبہ کا نام ام عبید اللہ ضمرہ تھا دوسرا واقعہ خلف کا تھا ان کے  گھر میں ابو طلحہ کی صاحبزادی تھیں اس کے  انتقال کے  بعد اس کے  لڑکے  صفوان نے  اسے  اپنے  نکاح میں لانا چاہا تھا سہیلی میں لکھا ہے  جاہلیت میں اس نکاح کا معمول تھا جسے  باقاعدہ نکاح سمجھا جاتا تھا اور بالکل حلال گنا جاتا تھا اسی لئے  یہاں بھی فرمایا گیا کہ جو پہلے  گزر چکا سو گزر چکا، جیسے  دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے  کی حرمت کو بیان فرما کر بھی یہی کیا گیا کنانہ بن خزیمہ نے  اپنے  باپ کی بیوی سے  نکاح کیا تھا نصر اسی کے  بطن سے  پیدا ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے  کہ میری اوپر کی نسل بھی باقاعدہ نکاح سے  ہی ہے  نہ کہ زنا سے  تو معلوم ہوا کہ یہ رسم ان میں برابر جاری تھی اور جائز تھی اور اسے  نکاح شمار کرتے  تھے، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  جاہلیت والے  بھی جن جن رشتوں کو اللہ نے  حرام کیا ہے، سوتیلی ماں اور دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے  کے  سوا سب کو حرام ہی جانتے  تھے  پس اللہ تعالیٰ نے  اپنے  کلام پاک میں ان دونوں رشتوں کو بھی حرام ٹھہرایا حضرت عطا اور حضرت قتادہ بھی یہی فرماتے  ہیں  یاد رہے  کہ سہیلی نے  کنانہ کا جو واقعہ نقل کیا ہے  وہ غور طلب ہے  بالکل صحیح نہیں، واللہ اعلم۔ بہر صورت یہ رشتہ امت مسلمہ پر حرام ہے  اور نہایت قبیح امر ہے ۔ یہاں تک کہ فرمایا یہ نہایت فحش برا کام بغض کا ہے ۔ دونوں میاں بیوی میں خلوت و صحبت ہو چکی ہے  پھر مہر واپس لینا کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ عقد نکاح جو مضبوط عہد و پیمان ہے  اس میں تم جکڑے  جا چکے  ہو، اللہ کا یہ فرمان تم سن چکے  ہو کہ بساؤ تو اچھی طرح اور الگ کرو تو عمدہ طریقہ سے  چنانچہ حدیث میں بھی ہے  کہ تم ان عورتوں کو اللہ کی امانت کے  طور پہ لیتے  ہو اور ان کو اپنے  لئے  اللہ تعالیٰ کا کلمہ پڑھ کر یعنی نکاح کے  خطبہ تشہد سے  حلال کرتے  ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج والی رات جب بہترین انعامات عطا ہوئے، ان میں ایک یہ بھی تھا کہ آپ سے  فرمایا گیا تیری امت کا کوئی خطبہ جائز نہیں  جب تک وہ اس امر کی گواہی نہ دیں کہ تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے  (ابن ابی حاتم) 

نکاح کے احکامات

صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  حجۃ الوداع کے  خطبہ میں فرمایا تم نے  عورتوں کو اللہ کی امانت کے  طور پہ لیا ہے  اور انہیں  اللہ تعالیٰ کے  کلمہ سے  اپنے  لئے  حلال کیا ہے ۔ اس کے  بعد اللہ تعالیٰ سوتیلی ماؤں کی حرمت بیان فرماتا ہے  اور ان کی تعظیم اور توقیر ظاہر کرتا ہے  یہاں تک کہ باپ نے  کسی عورت سے  صرف نکاح کیا ابھی وہ رخصت ہو کر بھی نہیں  آئی مگر طلاق ہو گئی یا باپ مر گیا وغیرہ تو بھی وہ سبب اور برا راستہ ہے  اور جگہ فرما ہے  آیت (ولا تقربوا الفواحش) الخ، یعنی کسی برائی بے  حیائی اور فحش کام کے  قریب بھی نہ جاؤ یا وہ بالکل ظاہر ہو خواہ پوشیدہ ہو اور فرمان ہے  آیت (ولا تقربوا الزنا) الخ، زنا کے  قریب نہ جاؤ یقیناً وہ فحش کام اور بری راہ ہے  یہاں مزید فرمایا کہ یہ کام بڑے  بغض کا بھی ہے  یعنی فی نفسہ بھی بڑا برا امر ہے  اس سے  باپ بیٹے  میں عداوت پڑ جاتی ہے  اور دشمنی قائم ہو جاتی ہے، یہی مشاہدہ میں آیا ہے  اور عموماً یہ بھی لکھا گیا ہے  کہ جو شخص کسی عورت سے  دوسرا نکاح کرتا ہے  وہ اس کے  پہلے  خاوند سے  بغض ہی رکھتا ہے  یہی وجہ ہے  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں امہات المومنین قرار دے  گئیں اور امت پر مثل ماں کے  حرام کی گئیں کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں  اور آپ مثل باپ کے  ہیں، بلکہ اجماعاً ثابت ہے  کہ آپ کے  حق باپ دادا کے  حقوق سے  بھی بہت زیادہ اور بہت بڑے  ہیں  بلکہ آپ کی محبت خود اپنی جانوں کی محبت پر بھی مقدم ہے  صلوات اللہ وسلامہ علیہ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ یہ کام اللہ کے  بغض کا موجب ہے  اور برا راستہ ہے  اب جو ایسا کام کرے  وہ دین سے  مرتد ہے  اسے  قتل کر دیا جائے  اور اس کا مال بیت المال میں بطور فے  کے  داخل کر لیا جائے، سنن اور مسند احمد میں مروی ہے  کہ ایک صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس شخص کی طرف بھیجا جس نے  اپنے  باپ کی بیوی سے  باپ کے  بعد نکاح کیا تھا کہ اسے  قتل کر ڈالو اور اس کے  مال پر قبضہ کر لو، حضرت براء بن عازب فرماتے  ہیں  کہ میرے  چچا حارث بن عمیر اپنے  ہاتھ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا دیا ہوا جھنڈا لے  کر میرے  پاس سے  گزرے  میں نے  پوچھا کہ چچا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  آپ کو کہاں بھیجا ہے ؟ فرمایا اس شخص کی طرف جس نے  اپنے  باپ کی بیوی سے  نکاح کیا ہے  مجھے  حکم ہے  کہ میں اس کی گردن ماروں (مسند احمد) 

سوتیلی ماں سے نکاح حرام ہے

مسئلہ اس پر تو علماء کا اجماع ہے  کہ جس عورت سے  باپ نے  مباشرت کر لی خواہ نکاح کر کے  خواہ ملکیت میں لا کر خواہ شبہ سے  وہ عورت بیٹے  پر حرام ہے، ہاں اگر جماع نہ ہوا ہو تو صرف مباشرت ہوئی ہو یا وہ اعضاء دیکھے  ہوں جن کا دیکھنا اجنبی ہونے  کی صورت میں حلال نہ تھا تو اس میں اختلاف ہے  امام احمد تو اس صورت میں بھی اس عورت کو لڑکے  پر حرام بتاتے  ہیں، حافظ ابن عسا کر کے  اس واقعہ سے  بھی اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے  کہ حضرت خدیج حمصی نے  جو حضرت معاویہ کے  مولی تھے  حضرت معاویہ کے  لئے  ایک لونڈی خریدی جو گورے  رنگ کی اور خوبصورت تھی اسے  برہنہ ان کے  پاس بھیج دیا ان کے  ہاتھ میں ایک چھڑی تھی اس سے  اشارہ کر کے  کہنے  لگے  اچھا نفع تھا اگر یہ ملبوس ہوتی پھر کہنے  لگے  اسے  یزید بن معاویہ کے  پاس لے  جاؤ پھر کہا نہیں  نہیں  ٹھہرو ربیعہ بن عمرو حرسی کو میرے  پاس بلا لاؤ یہ بڑے  فقیہ تھے  جب آئے  تو حضرت معاویہ نے  ان سے  یہ مسئلہ پوچھا کہ میں نے  اس عورت کے  یہ اعضاء مخصوص دیکھے  ہیں، یہ برہنہ تھی۔ اب میں اسے  اپنے  لڑکے  یزید کے  پاس بھیجنا چاہتا ہوں تو کیا اس کے  لئے  یہ حلال ہے ؟ حضرت ربیعہ نے  فرمایا امیر المومنین ایسا نہ کیجئے  یہ اس کے  قابل نہیں  رہی فرمایا تم ٹھیک کہتے  ہو اچھا جاؤ عبد اللہ بن مسعدہ فزاری کو بلا لاؤ وہ آئے  وہ تو گندم گوں رنگ کے  تھے  اس سے  حضرت معاویہ نے  فرمایا اس لونڈی کو میں تمہیں  دیتا ہوں تا کہ تمہاری اولاد سفید رنگ پیدا ہو یہ عبد اللہ بن مسعدہ وہ ہیں  جنہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت فاطمہ کو دیا تھا آپ نے  انہیں  پالا پرورش کیا پھر اللہ تعالیٰ کے  نام سے  آزاد کر دیا پھر یہ حضرت معاویہ کے  پاس چلے  آئے  تھے ۔

۲۳

کون سی عورتیں مردوں پر حرام ہیں ؟

نسبی، رضاعی اور سسرالی رشتے  سے  جو عورتیں مرد پر حرام ہیں  ان کا بیان آیہ کریمہ میں ہو رہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  سات عورتیں بوجہ نسب حرام ہیں  اور سات بوجہ سسرال کے  پھر آپ نے  اس آیت کی تلاوت کی جس میں بہن کی لڑکیوں تک نسبی رشتوں کا ذکر ہے  جمہور علماء کرام نے  اس آیت سے  استدلال کیا ہے  کہ زنا سے  جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بھی اس زانی پر حرام ہے  کیونکہ یہ بھی بیٹی ہے  اور بیٹیاں حرام ہیں، یہی مذہب ابو حنیفہ مالک اور احمد بن حنبل کا ہے، امام شافعی سے  کچھ اس کی اباحت میں بھی بحث کی گئی ہے  اس لئے  کہ شرعاً یہ بیٹی نہیں  پس جیسے  کہ ورثے  کے  حوالے  سے  یہ بیٹی کے  حکم سے  خارج ہے  اور ورثہ نہیں  پاتی اسی طرح اس آیت حرمت میں بھی وہ داخل نہیں  ہے  واللہ اعلم، (صحیح مذہب وہی ہے  جس پر جمہور ہیں ۔ (مترجم) پھر فرماتا ہے  کہ جس طرح تم پر تمہاری سگی ماں حرام ہے  اسی طرح رضاعی ماں بھی حرام ہے  بخاری و مسلم میں ہے  کہ رضاعت بھی اسے  حرام کرتی ہے  جسے  ولادت حرام کرتی ہے  صحیح مسلم میں ہے  رضاعت سے  بھی وہ حرام ہے  جو نسب سے  ہے، بعض فقہاء نے  اس میں سے  چار صورتیں بعض نے  چھ صورتیں مخصوص کی ہیں  جو احکام کی فروع کی کتابوں میں مذکور ہیں  لیکن تحقیقی بات یہ ہے  کہ اس میں سے  کچھ بھی مخصوص نہیں  اس لئے  کہ اسی کے  مانند بعض صورتیں نسبت میں بھی پائی جاتی ہیں  اور ان صورتوں میں سے  بعض صرف سسرالی رشتہ کی وجہ سے  حرام ہیں  لہٰذا حدیث پر اعتراض خارج از بحث ہے  والحمد للہ۔ آئمہ کا اس میں بھی اختلاف ہے  کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے  سے  حرمت ثبات ہوتی ہے، بعض تو کہتے  ہیں  کہ تعداد معین نہیں  دودھ پیتے  ہی حرمت ثابت ہو گئی امام مالک یہی فرماتے  ہیں، ابن عمر سعید بن مسیب عروہ بن زبیر اور زہری کا قول بھی یہی ہے، دلیل یہ ہے  کہ رضاعت یہاں عام ہے  بعض کہتے  ہیں  تین مرتبہ جب پئے  تو حرمت ثابت ہو گئی، جیسے  کہ صحیح مسلم میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ایک مرتبہ کا چوسنا یا دو مرتبہ کا پی لینا حرام نہیں  کرتا یہ حدیث مختلف الفاظ سے  مروی ہے، امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو عبیدہ، ابو ثور بھی یہی فرماتے  ہیں، حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت ام الفضل، حضرت ابن زبیر، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر رحمہم اللہ سے  بھی یہی مروی ہے  بعض کہتے  ہیں  پانچ مرتبہ کے  دودھ پینے  سے  حرمت ثابت ہوتی ہے  اس سے  کم نہیں، اس کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ پہلے  قرآن میں دس مرتبہ کی دودھ پلائی پر حرمت کا حکم اترا تھا پھر وہ منسوخ ہو کر پانچ رہ گئے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  فوت ہونے  تک وہ قرآن میں پڑھا جاتا رہا دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کی روایت ہے  کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  حکم دیا کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابو حذیفہ کے  مولی تھے  پانچ مرتبہ دودھ پلا دیں، حضرت عائشہ اسی حدیث کے  مطابق جس عورت کے  گھر کسی کا آنا جانا دیکھتیں اسے  یہی حکم دیتیں، امام شافعی اور ان کے  اصحاب کا فرمان بھی یہی ہے  کہ پانچ مرتبہ دودھ پینا معتبر ہے  (مترجم کی تحقیق میں بھی راجح قول یہی ہے  واللہ اعلم) یہ بھی یاد رہے  کہ جمہور کا مذہب یہ ہے  کہ یہ رضاعت دودھ چھٹنے  سے  پہلے  یعنی دو سال کے  اندر اندر کی عمر میں ہو، اس کا مفصل بیان آیت (حولین کاملین) کی تفسیر میں سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے، پھر اس میں بھی اختلاف ہے  کہ اس رضاعت کا اثر رضاعی ماں کے  خاوند تک بھی پہنچے  گا یا نہیں ؟ تو جمہور کا اور آئمہ اربعہ کا فرمان تو یہ ہے  کہ پہنچے  گا اور بعض سلف کا قول ہے  کہ صرف دودھ پلانے  والی تک ہی رہے  گا اور رضاعی باپ تک نہیں  پہنچے  گا اس کی تفصیل کی جگہ احکام کی بڑے  بڑی کتابیں ہیں  نہ کہ تفسیر (صحیح قول جمہور کا ہے  واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے  ساس حرام ہے  جس لڑکی سے  نکاح ہوا مجرد نکاح ہونے  کے  سبب اس کی ماں اس پر حرام ہو گئی خواہ صحبت کرے  یا نہ کرے، ہاں جس عورت کے  ساتھ نکاح کرتا ہے  اور اس کی لڑکی اس کے  اگلے  خاوند سے  اس کے  ساتھ ہے  تو اگر اس سے  صحبت کی تو وہ لڑکی حرام ہو گی اگر مجامعت سے  پہلے  ہی اس عورت کو طلاق دے  دی تو وہ لڑکی اس پر حرام نہیں، اسی لئے  اس آیت میں یہ قید لگائی بعض لوگوں نے  ضمیر کو ساس اور اس کی پرورش کی ہوئی لڑکیوں دونوں کی طرف لوٹایا ہے  وہ کہتے  ہیں  کہ ساس بھی اس وقت حرام ہوتی ہے  جب اس کی لڑکی سے  اس کے  داماد نے  خلوت کی ورنہ نہیں، صرف عقد سے  نہ تو عورت کی ماں حرام ہوتی ہے  نہ عورت کی بیٹی، حضرت علی فرماتے  ہیں  کہ جس شخص نے  کسی لڑکی سے  نکاح کیا پھر دخول سے  پہلے  ہی طلاق دے  دی تو وہ اس کی ماں سے  نکاح کر سکتا ہے  جیسے  کہ ربیبہ لڑکی سے  اس کی ماں کو اسی طرح کی طلاق دینے  کے  بعد نکاح کر سکتا ہے  حضرت زید بن ثابت سے  بھی یہی منقول ہے  ایک اور روایت میں بھی آپ سے  مروی ہے  آپ فرماتے  تھے  جب وہ عورت غیر مدخولہ مر جائے  اور یہ خاوند اس کی میراث لے  لے  تو پھر اس کی ماں کو لانا مکروہ ہے  ہاں اگر دخول سے  پہلے  طلاق دے  دی ہے  تو اگر چاہے  نکاح کر سکتا ہے  حضرت ابوبکر بن کنانہ فرماتے  ہیں  کہ میرا نکاح میرے  باپ نے  طائف کی ایک عورت سے  کرایا ابھی رخصتی نہیں  ہوئی تھی کہ اس کا باپ میرا چچا فوت ہو گیا اس کی بیوی یعنی میری ساس بیوہ ہو گئی وہ بہت مالدار تھیں میرے  باپ نے  مجھے  مشورہ دیا کہ اس لڑکی کو چھوڑ دوں اور اس کی ماں سے  نکاح کر لوں میں نے  حضرت ابن عباس سے  یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے  فرمایا تمہارے  لئے  یہ جائز ہے  پھر میں نے  حضرت ابن عمر سے  پوچھا تو انہوں نے  فرمایا یہ جائز نہیں  میں نے  اپنے  والد سے  ذکر کیا انہوں نے  تو امیر معاویہ کو ہی سوال کیا حضرت امیر معاویہ نے  تحریر فرمایا کہ میں نہ تو حرام کو حلال کروں نہ حلال کر حرام تم جانو اور تمہارا کام تم حالت دیکھ رہے  ہو معاملہ کے  تمام پہلو تمہاری نگاہوں کے  سامنے  ہیں ۔ عورتیں اس کے  علاوہ بھی بہت ہیں ۔ غرض نہ اجازت دی نہ انکار کیا چنانچہ میرے  باپ نے  اپنا خیال اس کی ماں کی طرف سے  ہٹا لیا حضرت عبد اللہ بن زبیر فرماتے  ہیں  کہ عورت کی لڑکی اور عورت کی ماں کا حکم ایک ہی ہے  اگر عورت سے  دخول نہ کیا ہو تو یہ دونوں حلال ہیں، لیکن اس کی اسناد میں مبہم راوی ہے، حضرت مجاہد کا بھی یہی قول ہے، ابن جبیر اور حضرت ابن عباس بھی اسی طرف گئے  ہیں، حضرت معاویہ نے  اس میں توقف فرمایا ہے  شافعیوں میں سے  ابو الحسن احمد بن محمد بن صابونی سے  بھی بقول رافعی یہی مروی ہے  حضرت عبد اللہ بن مسعود سے  بھی اسی کے  مثل مروی ہے  لیکن پھر آپ نے  اپنے  اس قول سے  رجوع کر لیا ہے  طبرانی میں ہے  کہ قبیلہ فزارہ کی شاخ قبیلہ بنو کمخ کے  ایک شخص نے  ایک عورت سے  نکاح کیا پھر اس کی بیوہ ماں کے  حسن پر فریفتہ ہوا تو حضرت ابن مسعود سے  مسئلہ پوچھا کہ کیا مجھے  اس کی ماں سے  نکاح کرنا جائز ہے  آپ نے  فرمایا ہاں چنانچہ اس نے  اس لڑکی کو طلاق دے  کر اس کی ماں سے  نکاح کر لیا اس سے  اولاد بھی ہوئی پھر حضرت ابن مسعود مدینہ آئے  اور اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ حلال نہیں  چنانچہ آپ واپس کوفے  گئے  اور اس سے  کہا کہ اس عورت کو الگ کر دے  یہ تجھ پر حرام ہے  اس نے  اس فرمان کی تعمیل کی اور اسے  الگ کر دیا جمہور علماء اس طرف ہیں  لڑکی تو صرف عقد نکاح سے  حرام نہیں  ہوتی تاوقتیکہ اس کی ماں سے  مباشرت نہ کی ہو ہاں ماں صرف لڑکی کے  عقد نکاح ہوتے  ہی حرام ہو جاتی ہے  گو مباشرت نہ ہوئی ہو، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دخول سے  پہلے  طلاق دے  دے  یا وہ عورت مر جائے  تو اس کی ماں اس پر حلال نہیں  چونکہ مبہم ہے  اس لئے  اسے  ناپسند فرمایا، حضرت ابن مسعود، عمران بن حصین، مسروق، طاؤس، عکرمہ، عطا، حسن، مکحول، ابن سیرین، قتادہ اور زہری سے  بھی اسی طرح مروی ہے، چاروں اماموں ساتوں فقہاء اور جمہور علماء سلف و خلف کا یہی مذہب ہے  والحمد للہ امام ابن جریج فرماتے  ہیں  ٹھیک قول انہی حضرات کا ہے  جو ساس کو دونوں صورتوں میں حرام بتلاتے  ہیں  اس لئے  کہ اللہ تعالیٰ نے  ان کی حرمت کے  ساتھ دخول کی شرط نہیں  لگائی جیسے  کہ لڑکی کی ماں کے  لئے  یہ شرط لگائی ہے  پھر اس پر اجماع ہے  جو ایسی دلیل ہے  کہ اس کا خلاف کرنا اس وقت جائز ہی نہیں  جب کہ اس پر اتفاق ہو اور ایک غریب حدیث میں بھی یہ مروی ہے  گو اس کی سند میں کلام ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جبکہ کوئی مرد کسی عورت سے  نکاح کرے  اگر اس نے  اس کی ماں سے  نکاح کیا ہے  پھر ملنے  سے  پہلے  ہی اسے  طلاق دے  دی ہے  تو اگر چاہے  اس کی لڑکی سے  نکاح کر سکتا ہے، گو اس حدیث کی سند کمزور ہے  لیکن اس مسئلہ پر اجماع ہو چکا ہے  جو اس کی صحت پر ایسا گواہ ہے  جس کے  بعد دوسری گواہی کی ضرورت نہیں، (ٹھیک مسئلہ یہی ہے  واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے  تمہاری پرورش کی ہوئی وہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہوں وہ بھی تم پر حرام ہیں  بشرطیکہ تم نے  ان سوتیلی لڑکیوں کی ماں سے  صحبت کی ہو جمہور کا فرمان ہے  کہ خواہ گود میں پلی ہوں حرام ہیں  چونکہ عموماً ایسی لڑکیاں اپنی ماں کے  ساتھ ہی ہوتی ہیں  اور اپنے  سوتیلے  باپوں کے  ہاں ہی پرورش پاتی ہیں  اس لئے  یہ کہہ دیا گیا ہے  یہ کوئی قید نہیں  جیسے  اس آیت میں ہے  آیت (ولا تکرہوا فتیاتکم علی البغاء ان اردن تحصنا) یعنی تمہاری لونڈیاں اگر پاکدامن رہنا چاہتی ہوں تو تم انہیں  بدکاری پر بے  بس نہ کرو، یہاں بھی یہ قید کہ اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں  صرف بااعتبار واقعہ کے  غلبہ کے  ہے  یہ نہیں  کہ اگر وہ خود ایسی نہ ہوں تو انہیں  بدکاری پر آمادہ کرو، اسی طرح اس آیت میں ہے  کہ گود میں چاہے  نہ ہوں پھر بھی حرام ہی ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ حضرت ام حبیبہ نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ میری بہن ابو سفیان کی لڑکی عزہ سے  نکاح کر لیجئے ۔ آپ نے  فرمایا کیا تم یہ چاہتی ہو؟ ام المومنین نے  کہا ہاں میں آپ کو خالی تو رکھ نہیں  سکتی پھر میں اس بھلائی میں اپنی بہن کو ہی کیوں نہ شامل کروں ؟ آپ نے  فرمایا ان کی وہ بیٹی جو ام سلمہ سے  ہے ؟ کہا ہاں ۔ فرمایا اولاً تو وہ مجھ پر اس وجہ سے  حرام ہے  کہ وہ میری ربیبہ ہے  جو میرے  ہاں پرورش پا رہی ہے  دوسری یہ کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حرام تھیں اس لئے  کہ وہ میرے  دودھ شریک بھائی کی بیٹی میری بھتیجی ہیں ۔ مجھے  اور اس کے  باپ ابو سلمہ کو ثوبیہ نے  دودھ پلایا ہے ۔ خبردار اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں مجھ پر پیش نہ کرو، بخاری کی روایت ہے  یہ الفاظ ہیں  کہ اگر میرا نکاح ام سلمہ جسے  نہ ہوا ہوتا تو بھی وہ مجھ پر حلال نہ تھیں، یعنی صرف نکاح کو آپ نے  حرمت کا اصل قرار دیا، یہی مذہب چاروں اماموں ساتوں فقیہوں اور جمہور سلف و خلف کا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے  کہ اگر وہ اس کے  ہاں پر پرورش پاتی ہو تو بھی حرام ہے  ورنہ نہیں، حضرت مالک بن اوس بن حدثان فرماتے  ہیں  میری بیوی اولاد چھوڑ کر مر گئیں مجھے  ان سے  بہت محبت تھی اس وجہ سے  ان کی موت کا مجھے  بڑا صدمہ ہوا حضرت علی سے  میری اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو آپ نے  مجھے  مغموم پا کر دریافت کیا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے  واقعہ سنایا تو آپ نے  فرمایا تجھ سے  پہلے  خاوند سے  بھی اس کی کوئی اولاد ہے ؟ میں نے  کہا ہاں ایک لڑکی ہے  اور وہ طائف میں رہتی ہے  فرمایا پھر اس سے  نکاح کر لو میں نے  قرآن کریم کی آیت پڑھی کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا؟ آپ نے  فرمایا یہ تو اس وقت ہے  جبکہ اس نے  تیرے  ہاں پرورش پائی ہو اور وہ بقول تمہارے  طائف میں رہتی ہے  تیرے  پاس ہے  ہی نہیں  گو اس کی اسناد صحیح ہے  لیکن یہ قول بالکل غریب ہے، حضرت امام مالک کا بھی یہی قول بتایا ہے، ابن حزم نے  بھی اسی کو اختیار کیا ہے، ہمارے  شیخ حافظ ابو عبد اللہ نسبی نے  ہم سے  کہا کہ میں نے  یہ بات شیخ امام تقی الدین ابن تیمیہ کے  سامنے  پیش کی تو آپ نے  اسے  بہت مشکل محسوس کیا اور توقف فرمایا واللہ اعلم۔ حجور سے  مراد گھر ہے  جیسے  کہ حضرت ابو عبیدہ سے  مروی ہے  کہ ہاں جو کنیز ملکیت میں ہو اور اس کے  ساتھ اس کی لڑکی ہو اس کے  بارے  میں حضرت عمر سے  سوال ہوا کہ ایک کے  بعد دوسری جائز ہو گی یا نہیں ؟ تو آپ نے  فرمایا اسے  پسند نہیں  کرتا، اس کی سند منقطع ہے، حضرت ابن عباس نے  ایسے  ہی سوال کے  جواب میں فرمایا ہے  ایک آیت سے  یہ حلال معلوم ہوتی ہے  دوسری آیت سے  حرام اس لئے  میں تو ایسا ہرگز نہ کروں، شیخ ابو عمر بن عبد اللہ فرماتے  ہیں  کہ علماء میں اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں  کہ کسی کو حلال نہیں  کہ کسی عورت سے  پھر اس کی لڑکی سے  بھی اسی ملکیت کی بنا پر وطی کرے  اس لئے  کہ اللہ تعالیٰ نے  اسے  نکاح میں بھی حرام قرار دے  دیا ہے  یہ آیت ملاحظہ ہو اور علماء کے  نزدیک ملکیت احکام نکاح کے  تابع ہے  مگر جو روایت حضرت عمر اور حضرت ابن عباس سے  کی جاتی ہے  لیکن آئمہ فتاویٰ اور ان کے  تابعین میں سے  کوئی بھی اس پر متفق نہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  ربیبہ کی لڑکی اور اس لڑکی کی لڑکی اس طرح جس قدر نیچے  یہ رشتہ چلا جائے  سب حرام ہیں، حضرت ابو العالیہ سے  بھی اسی طرح یہ روایت قتادہ مروی ہے  آیت (دخلتم بہن) سے  مراد حضرت ابن عباس تو فرماتے  ہیں  ان سے  نکاح کرنا ہے  حضرت عطا فرماتے  ہیں  کہ وہ رخصت کر دئے  جائیں کپڑا ہٹا دیا جائے  چھیڑ ہو جائے  اور ارادے  سے  مرد بیٹھ جائے  ابن جریج نے  سوال کیا کہ اگر یہ کام عورت ہی کے  گھر میں ہوا ہو فرمایا وہاں یہاں دونوں کا حکم ایک ہی ہے  ایسا اگر ہو گیا تو اس کی لڑکی اس پر حرام ہو گئی۔ امام ابن جریر فرماتے  ہیں  کہ صرف خلوت اور تنہائی ہو جانے  سے  اس کی لڑکی کی حرمت ثابت نہیں  ہوتی اگر مباشرت کرنے  اور ہاتھ لگانے  سے  اور شہوت سے  اس کے  عضو کی طرف دیکھنے  سے  پہلے  ہی طلاق دے  دی ہے  تو تمام کے  اجماع سے  یہ بات ثابت ہوتی ہے  کہ لڑکی اس پر حرام نہ ہو گی تاوقتیکہ جماع نہ ہوا ہو۔ پھر فرمایا تمہاری بہوئیں بھی تم پر حرام ہیں  جو تمہاری اولاد کی بیویاں ہوں یعنی لے  پالک لڑکوں کی بیویاں حرام نہیں، ہاں سگے  لڑکے  کی بیوی یعنی بہو اپنے  کسر پر حرام ہے  جیسے  اور جگہ ہے  آیت (فلما قضی زید منہا وطرا زوجنکہا لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاۂم الخ، یعنی جب زید نے  اس سے  اپنی حاجت پوری کر لی تو ہم نے  اسے  تیرے  نکاح میں دے  دیا تا کہ مومنوں پر ان کے  لے  پالک لڑکوں کی بیویوں کے  بارے  میں کوئی تنگی نہ رہے، حضرت عطاء فرماتے  ہیں  کہ ہم سنا کرتے  تھے  کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت زید کی بیوی سے  نکاح کر لیا تو مکہ کے  مشرکوں نے  کائیں کائیں شروع کر دی اس پر یہ آیت اور آیت (وما جعل ادعیاءکم ابناءکم) اور آیت (ما کان محمد ابا احد من رجالکم) نازل ہوئیں یعنی بیشک صلبی لڑکے  کی بیوی حرام ہے ۔ تمہارے  لئے  پالک لڑکے  شرعاً تمہاری اولاد کے  حکم میں نہیں  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میں سے  کسی مرد کے  باپ نہیں، حسن بن محمد فرماتے  ہیں  کہ یہ آیتیں مبہم ہیں  جیسے  تمہارے  لڑکوں کی بیویاں تمہاری ساسیں، حضرت طاؤس ابراہیم زہری اور مکحول سے  بھی اسی طرح مروی ہے  میرے  خیال میں مبہم سے  مراد عام ہیں ۔ یعنی مدخول بہا اور غیر مدخول دونوں ہی شامل ہیں  اور صرف نکاح کرتے  ہی حرمت ثابت ہو جاتی ہے ۔ خواہ صحبت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس مسئلہ پر اتفاق ہے  اگر کوئی شخص سوال کرے  کہ رضاعی بیٹے  کی حرمت کیسے  ثابت ہو گی کیونکہ آیت میں تو صلبی بیٹے  کا ذکر ہے  تو جواب یہ ہے  کہ وہ حرمت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث سے  ثابت ہے  کہ آپ نے  فرمایا رضاعت سے  وہ حرام ہے  جو نسبت سے  حرام ہے ۔ جمہور کا مذہب یہی ہے  کہ رضاعی بیٹے  کی بیوی بھی حرام ہے  بعض لوگوں نے  تو اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے  دو بہنوں کا نکاح میں جمع کرنا بھی تم پر حرام ہے  اسی طرح ملکیت کی لونڈیوں کا حکم ہے  کہ دو بہنوں سے  ایک ہی وقت وطی حرام ہے  مگر جاہلیت کے  زمانہ میں جو ہو چکا اس سے  ہم درگزر کرتے  ہیں  پس معلوم ہوا کہ اب یہ کام آئندہ کسی وقت جائز نہیں، جیسے  اور جگہ ہے  آیت (لا یذوقون فیہا الموت الا الموتۃ الاولی یعنی وہاں موت نہیں  آئے  گی ہاں پہلی موت جو آنی تھی سو آچکی تو معلوم ہوا کہ اب آئندہ کبھی موت نہیں  آئے  گی، صحابہ تابعین ائمہ اور سلف و خلف کے  علماء کرام کا اجماع ہے  کہ دو بہنوں سے  ایک ساتھ نکاح کرنا حرام ہے  اور جو شخص مسلمان ہو اور اس کے  نکاح میں دو بہنیں ہوں تو اسے  اختیار دیا جائے  گا کہ ایک کو رکھ لے  اور دوسری کو طلاق دے  دے  اور یہ اسے  کرنا ہی پڑے  گا حضرت فیروز فرماتے  ہیں  میں جب مسلمان ہوا تو میرے  نکاح میں دو عورتیں تھیں جو آپس میں بہنیں تھیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  مجھے  حکم دیا کہ ان میں سے  ایک کو طلاق دے  دو (مسند احمد) ابن ماجہ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے  ترمذی میں بھی یہ ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ان میں سے  جسے  چاہو ایک کو رکھ لو اور ایک کو طلاق دے  دو، امام ترمذی اسے  حسن کہتے  ہیں، ابن ماجہ میں ابو خراش کا ایسا واقعہ بھی مذکور ہے  ممکن ہے  کہ ضحاک بن فیروز کی کنیت ابو خراش ہو اور یہ واقعہ ایک ہی ہو اور اس کے  خلاف بھی ممکن ہے  حضرت دیلمی نے  رسول مقبول صلعم سے  عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے  نکاح میں دو بہنیں ہیں  آپ نے  فرمایا ان سے  جسے  چاہو ایک کو طلاق دے  دو (ابن مردویہ) پس دیلمی سے  مراد ضحاک بن فیروز ہیں  رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ یمن کے  ان سرداروں میں سے  تھے  جنہوں نے  اسود عنسی متنبی ملعون کو قتل کیا چنانچہ دو لونڈیوں کو جو آپس میں سگی بہنیں ہوں ایک ساتھ جمع کرنا ان سے  وطی کرنا بھی حرام ہے، اس کی دلیل اس آیت کا عموم ہے  جو بیویوں اور  اور لونڈیوں پر مشتمل ہے  حضرت ابن مسعود سے  اس کا سوال ہوا تو آپ  نے  مکروہ بتایا سائل نے  کہا قرآن میں جو ہے  آیت (الا ماملکت ایمانکم) یعنی وہ جو جن کے  تمہارے  دائیں ہاتھ مالک ہیں  اس پر حضرت ابن مسعود نے  فرمایا تیرا اونٹ بھی تو تیرے  داہنے  ہاتھ کی ملکیت میں ہے  جمہور کا قول بھی یہی مشہور ہے  اور آئمہ اربعہ وغیرہ بھی یہی فرماتے  ہیں  گو بعض سلف نے  اس مسئلہ میں توقف فرمایا ہے  حضرت عثمان بن عفان سے  جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے  فرمایا ایک آیت اسے  حلال کرتی ہے  دوسری حرام میں تو اس سے  منع کرتا سائل وہاں سے  نکلا تو راستے  میں ایک صحابی سے  ملاقات ہوئی اس نے  ان سے  بھی یہی سوال کیا انہوں نے  فرمایا اگر مجھے  کچھ اختیار ہوتا تو میں ایسا کرنے  والے  کو عبرت ناک سزا دیتا، حضرت امام مالک فرماتے  ہیں  میرا گمان ہے  کہ یہ فرمانے  والے  غالباً علی کا نام اس لئے  نہیں  لیا کہ وہ عبدالملک بن مروان کا مصاحب تھا اور ان لوگوں پر آپ کا نام بھاری پڑتا تھا حضرت الیاس بن عامر کہتے  ہیں  میں نے  حضرت علی بن ابی طالب سے  سوال کیا کہ میری ملکیت میں دو لونڈیاں ہیں  دونوں آپس میں سگی بہنیں ہیں  ایک سے  میں نے  تعلقات قائم کر رکھے  ہیں  اور میرے  ہاں اس سے  اولاد بھی ہوئی ہے  اب میرا جی چاہتا ہے  کہ اس کی بہن سے  جو میری لونڈی ہے  اپنے  تعلقات قائم کروں تو فرمائیے  شریعت کا اس میں کیا حکم ہے ؟ آپ نے  فرمایا پہلی لونڈی کو آزاد کر کے  پھر اس کی بہن سے  یہ تعلقات قائم کر سکتے  ہو، اس نے  کہا اور لوگ تو کہتے  ہیں  کہ میں اس کا نکاح کرا دوں پھر اس کی بہن سے  مل سکتا ہوں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے  فرمایا دیکھو اس صورت میں بھی خرابی ہے  وہ یہ کہ اگر اس کا خاوند اسے  طلاق دے  دے  یا انتقال کر جائے  تو وہ پھر لوٹ کر تمہاری طرف آجائے  گی، اسے  تو آزاد کر دینے  میں ہی سلامتی ہے، پھر آپ نے  میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا سنو آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے  احکام حلت و حرمت کے  لحاظ سے  یکساں ہیں  ہاں البتہ تعداد میں فرق ہے  یعنی آزاد عورتیں چار سے  زیادہ جمع نہیں  کر سکتے  اور لونڈیوں میں کوئی تعداد کی قید نہیں  اور دودھ پلائی کے  رشتہ سے  بھی اس رشتہ کی وہ تمام عورتیں حرام ہو جاتی ہیں  جو نسل اور نسب کی وجہ سے  حرام ہیں  (اس کے  بعد تفسیر ابن کثیر کے  اصل عربی نسخے  میں کچھ عبارت چھوٹی ہوئی ہے  بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے  کہ وہ عبارت یوں ہو گی کہ یہ روایت ایسی ہے  کہ اگر کوئی شخص مشرق سے  یا مغرب سے  صرف اس روایت کو سننے  کے  لئے  سفر کر کے  آئے  اور سن کے  جائے  تو بھی اس کا سفر اس کے  لئے  سود مند رہے  گا اور اس نے  گویا بہت سستے  داموں بیش بہا چیز حاصل کی۔ واللہ اعلم۔ مترجم) یہ یاد رہے  کہ حضرت علی سے  بھی اسی طرح مروی ہی جس طرح حضرت عثمان سے  مروی ہے  چنانچہ ابن مردونیہ میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا دو لونڈیوں کو جو آپس میں بہنیں ہوں ایک ہی وقت جمع کر کے  ان سے  مباشرت کرنا ایک آیت سے  حرام ہوتا ہے  اور دوسری سے  حلال حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  لونڈیاں مجھ پر میری قرابت کی وجہ سے  جو ان سے  ہے  بعض اور لونڈیوں کو حرام کر دیتی ہیں  لیکن انہیں  خود آپس میں جو قرابت ہو اس سے  مجھ پر حرام نہیں  ہوتیں، جاہلیت والے  بھی ان عورتوں کو حرام سمجھتے  تھے  جنہیں  تم حرام سمجھتے  ہو مگر اپنے  باپ کی بیوی کو جو ان کی سگی ماں نہ ہو اور دو بہنوں کو ایک ساتھ ایک وقت میں نکاح میں جمع کرنا وہ حرام نہیں  سمجھتے  تھے  لیکن اسلام نے  آ کر ان دونوں کو بھی حرام قرار دیا اس وجہ سے  ان دونوں کی حرمت کے  بیان کے  ساتھ ہی فرما دیا کہ جو نکاح ہو چکے  وہ ہو چکے  حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ جو آزاد عورتیں حرام ہیں  وہی لونڈیاں بھی حرام ہیں  ہاں تعداد میں حکم ایک نہیں  یعنی آزاد عورتیں چار سے  زیادہ جمع نہیں  کر سکتے  لونڈیوں کے  لئے  یہ حد نہیں، حضرت شعی بھی یہی فرماتے  ہیں  ابو عمرو فرماتے  ہیں  حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اس بارے  میں جو فرمایا ہے  وہی سلف کی ایک جماعت بھی کہتی ہے  جن میں سے  حضرت ابن عباس بھی ہیں  لیکن اولاً تو اس کی نقل میں خود انہی حضرات سے  بہت کچھ اختلاف ہوا ہے  دوسرے  یہ کہ اس قول کی طرف سمجھدار پختہ کار علماء کرام نے  مطلقاً توجہ نہیں  فرمائی اور نہ اسے  قبول کیا حجاز عراق شام بلکہ مشرق و مغرب کے  تمام فقہاء اس کے  خلاف ہیں  سوائے  ان چند کے  جنہوں نے  الفاظ کو دیکھ، سوچ سمجھ اور غور و خوض کئے  بغیر ان سے  علیحدگی اختیار کی ہے  اور اس اجماع کی مخالفت کی ہے  کامل علم والوں اور سچی سمجھ بوجھ والوں کا تو اتفاق ہے  کہ دو بہنوں کو جس طرح نکاح میں جمع نہیں  کر سکتے  دو لونڈیوں کو بھی جو آپس میں بہنیں ہوں بہ وجہ ملکیت کے  ایک ساتھ نکاح میں نہیں  لا سکتے  اسی طرح مسلمانوں کا اجماع ہے  کہ اس آیت میں ماں بیٹی بہن وغیرہ حرام کی گئی ہیں  ان سے  جس طرح نکاح حرام ہے  اسی طرح اگر یہ لونڈیاں بن کر ما تحتی میں ہوں تو بھی جنسی اختلاط حرام ہے  غرض نکاح اور ملکیت کے  بعد کی دونوں حالتوں میں یہ سب کی سب برابر ہیں، نہ ان سے  نکاح کر کے  میل جول حلال نہ ملکیت کے  بعد میل جول حلال اسی طرح ٹھیک یہی حکم ہے  کہ دو بہنوں کے  جمع کرنے  ساس اور دوسرے  خاوند سے  اپنی عورت کی لڑکی ہو اس کے  بارے  میں خود ان کے  جمہور کا بھی یہی مذہب ہے  اور یہی دلیل ان چند مخالفین پر پوری سند اور کامل حجت ہے  الغرض دو بہنوں کو ایک وقت نکاح میں رکھنا بھی حرام اور دو بہنوں کو بطور لونڈی کہہ کر ان سے  ملنا جلنا بھی حرام۔

۲۴

میدان جنگ سے قبضہ میں آنے والی عورتیں اور متعہ

یعنی خاوندوں والی عورتیں بھی حرام ہیں، ہاں کفار عورتیں جو میدان جنگ میں قید ہو کر تمہارے  قبضے  میں آئیں تو ایک حیض گزارنے  کے  بعد وہ تم پر حلال ہیں، مسند احمد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  روایت ہے  کہ جنگ اوطاس میں قید ہو کر ایسی عورتیں آئیں جو خاوندوں والیاں تھیں تو ہم نے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے  ان کی بابت سوال کیا تب یہ آیت اتری ہم پر ان سے  ملنا حلال کیا گیا ترمذی ابن ماجہ اور صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے، طبرانی کی روایت میں ہے  کہ یہ واقعہ جنگ خیبر کا ہے، سلف کی ایک جماعت اس آیت کے  عموم سے  استدلال کر کے  فرماتی ہے  کہ لونڈی کو بیچ ڈالنا ہی اس کے  خاوند کی طرف سے  اسے  طلاق کامل کے  مترادف ہے، ابراہیم سے  جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا جب کوئی خاوند والی لونڈی بیچی جائے  تو اس کے  جسم کا زیادہ حقدار اس کا مالک ہے، حضرت ابی بن کعب حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت ابن عباس کا بھی یہی فتویٰ ہے  کہ اس کا بکنا ہی اس کی طلاق ہے، ابن جریر میں ہے  کہ لونڈی کی طلاقیں چھ ہیں، بیچنا بھی طلاق ہے  آزاد کرنا بھی ہبہ کرنا بھی برات کرنا بھی اور اس کے  خاوند کا طلاق دینا بھی (یہ پانچ صورتیں تو بیان ہوئیں چھٹی صورت نہ تفسیر ابن کثیر میں ہے  نہ ابن جریر میں ۔ مترجم) حضرت ابن المسیب فرماتے  ہیں  کہ خاوند والی عورتوں سے  نکاح حرام ہے  لیکن لونڈیاں ان کی طلاق ان کا بک جانا ہے، حضرت معمر اور حضرت حسن بھی یہی فرماتے  ہیں  ان بزرگوں کا تو یہ قول ہے  لیکن جمہور ان کے  مخالف ہیں  وہ فرماتے  ہیں  کہ بیچنا طلاق نہیں  اس لئے  کہ خریدار بیچنے  والے  کا نائب ہے  اور بیچنے  والا اس نفع کو اپنی ملکیت سے  نکال کر بیچ رہا ہے، ان کی دلیل حضرت بریرہ والی حدیث ہے  جو بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے  کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  جب انہیں  خرید کر آزاد کر دیا تو ان کا نکاح مغیث سے  فسخ نہیں  ہوا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  فسخ کرنے  اور باقی رکھنے  کا اختیار دیا اور حضرت بریرہ نے  فسخ کرنے  کو پسند کیا یہ واقعہ مشہور ہے، پس اگر بک جانا ہی طلاق ہوتا جیسے  ان بزرگوں کا قول ہے  تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت بریرہ کو ان کے  بک جانے  کے  بعد اپنے  نکاح کے  باقی رکھنے  نہ رکھنے  کا اختیار نہ دینے، اختیار دینا نکاح کے  باقی رہنے  کی دلیل ہے، تو آیت میں مراد صرف وہ عورتیں ہیں  جو جہاد میں قبضہ میں آئیں واللہ اعلم۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ محصنات سے  مراد پاک دامن عورتیں ہیں  یعنی عفیفہ عورتیں جو تم پر حرام ہیں  جب تک کہ تم نکاح اور گواہ اور مہر اور ولی سے  ان کی عصمت کے  مالک نہ بن جاؤ خواہ ایک ہو خواہ دو خواہ تین خواہ چار ابو العالیہ اور طاؤس یہی مطلب بیان فرماتے  ہیں ۔ عمر اور عبید فرماتے  ہیں  مطلب یہ ہے  کہ چار سے  زائد عورتیں تم پر حرام ہیں  ہاں کنیزوں میں یہ گنتی نہیں ۔ پھر فرمایا کہ یہ حرمت اللہ تعالیٰ نے  تم پر لکھ دی ہے  یعنی چار کی پس تم اس کی کتاب کو لازم پکڑو اور اس کی حد سے  آگے  نہ بڑھو، اس کی شریعت اور اس کے  فرائض کے  پابند رہو، یہ بھی کہا گیا ہے  کہ حرام عورتیں اللہ تعالیٰ نے  اپنی کتاب میں ظاہر کر دیں ۔ پھر فرماتا ہے  کہ جن عورتوں کا حرام ہونا بیان کر دیا گیا ان کے  علاوہ اور سب حلال ہیں، ایک مطلب یہ بھی کہا گیا ہے  کہ ان چار سے  کم تم پر حلال ہیں، لیکن یہ قول دور کا قول ہے  اور صحیح مطلب پہلا ہی ہے  اور یہی حضرت عطا کا قول ہے، حضرت قتادہ اس کا یہ مطلب بیان کرتے  ہیں  کہ اس سے  مراد لونڈیاں ہیں، یہی آیت ان لوگوں کی دلیل ہے  جو دو بہنوں کے  جمع کرنے  کی حلت کے  قائل ہیں  اور ان کی بھی جو کہتے  ہیں  کہ ایک آیت اسے  حلال کرتی ہے  اور دوسری حرام۔ پھر فرمایا تم ان حلال عورتوں کو اپنے  مال سے  حاصل کرو چار تک تو آزاد عورتیں اور لونڈیاں بغیر تعین کے  لیکن ہو بہ طریق شرع۔ اسی لئے  فرمایا زنا کاری سے  بچنے  کے  لئے  اور صرف شہوت رانی مقصود نہیں  ہونا چاہئے ۔ پھر فرمایا کہ جن عورتوں سے  تم فائدہ اٹھاؤ ان کے  اس فائدہ کے  مقابلہ میں مہر دے  دیا کرو، جیسے  اور آیت میں ہے  و کیف تاخذونہ وقد افضی بعضکم الی بعض یعنی تم مہر کو عورتوں سے  کیسے  لو گے  حالانکہ ایک دوسرے  سے  مل چکے  ہو اور فرمایا و اتوا النساء صدقاتہن نحلۃ عورتوں کے  مہر بخوشی دے  دیا کرو اور جگہ فرمایا ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتمو ہن شیأا الخ، تم نے  جو کچھ عورتوں کو دے  دیا ہو اس میں سے  واپس لینا تم پر حرام ہے، اس آیت سے  نکاح متعہ پر استدلال کیا ہے  بیشک متعہ ابتداء اسلام میں مشروع تھا لیکن پھر منسوخ ہو گیا، امام شافعی اور علمائے  کرام کی ایک جماعت نے  فرمایا ہے  کہ دو مرتبہ متعہ مباح ہوا پھر منسوخ ہوا۔ بعض کہتے  ہیں  اس سے  بھی زیادہ بار مباح اور منسوخ ہوا، اور بعض کا قول ہے  کہ صرف ایک بار مباح ہوا پھر منسوخ ہو گیا پھر مباح نہیں  ہوا۔ حضرت ابن عباس اور چند دیگر صحابہ سے  ضرورت کے  وقت اس کی اباحت مروی ہے، حضرت امام احمد بن حنبل سے  بھی ایک روایت ایسی ہی مروی ہے  ابن عباس ابی بن کعب سعید بن جیبر اور سدی سے  منہن کے  بعد الی اجل مسمی کی قرات مروی ہے، مجاہد فرماتے  ہیں  یہ آیت نکاح متعہ کی بابت نازل ہوئی ہے، لیکن جمہور اس کے  برخلاف ہیں  اور اس کا بہترین فیصلہ بخاری و مسلم کی حضرت علی والی روایت کر دیتی ہے  جس میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  خیبر والے  دن نکاح متعہ سے  اور گھریلو گدھوں کے  گوشت سے  منع فرما دیا، اس حدیث کے  الفاظ کتب احکام میں مقرر ہیں، صحیح مسلم شریف میں حضرت سیرہ بن معبد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ فتح مکہ کے  غزوہ میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ تھے  آپ نے  ارشاد فرمایا اے  لوگو میں نے  تمہیں  عورتوں سے  متعہ کرنے  کی رخصت دی تھی یاد رکھو بیشک اب اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اسے  قیامت تک کے  لئے  حرام کر دیا ہے  جس کے  پاس اس قسم کی کوئی عورت ہو تو اسے  چاہئے  کہ اسے  چھوڑ دے  اور تم نے  جو کچھ انہیں  دے  رکھا ہو اس میں سے  ان سے  کچھ نہ لو، صحیح مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے  کہ آپ نے  حجۃ الوداع میں یہ فرمایا تھا، یہ حدیث کئی الفاظ سے  مروی ہے، جن کی تفصیل کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں، پھر فرمایا کہ تقرر کے  بعد بھی اگر تم بہ رضامندی کچھ طے  کر لو تو کوئی حرج نہیں، اگلے  جملے  کو متعہ پر محمول کرنے  والے  تو اس کا یہ مطلب بیان کرتے  ہیں  کہ جب مدت مقررہ گزر جائے  پھر مدت کو بڑھا لینے  اور جو دیا ہو اس کے  علاوہ اور کچھ دینے  میں کوئی گناہ نہیں، سدی کہتے  ہیں  اگر چاہے  تو پہلے  کے  مقرر مہر کے  بعد جو دے  چکا ہے  وقت کے  ختم ہونے  سے  پیشتر پھر کہہ دے  کہ میں اتنی اتنی مدت کے  لئے  پھر متعہ کرتا ہوں پس اگر اس نے  رحم کی پاکیزگی سے  پہلے  دن بڑھا لئے  تو جب مدت پوری ہو جائے  تو پھر اس کا کوئی دباؤ نہیں  وہ عورت الگ ہو جائے  گی اور حیض تک ٹھہر کر اپنے  رحم کی صفائی کر لے  گی ان دونوں میں میراث نہیں  نہ یہ عورت اس مرد کی وارث نہ یہ مرد اس عورت کا، اور جن حضرات نے  اس جملہ کو نکاح مسنون کے  مہر کی کے  مصداق کہا ہے  ان کے  نزدیک تو مطلب صاف ہے  کہ اس مہر کی ادائیگی تاکیداً بیان ہو رہی ہے  جیسے  فرمایا مہر بہ آسانی اور بہ خوشی دے  دیا کرو، اگر مہر کے  مقرر ہو جانے  کے  بعد عورت اپنے  پورے  حق کو یا تھوڑے  سے  حق کو چھوڑ دے  صاف کر دے  اس سے  دست بردار ہو جائے  تو میاں بیوی میں سے  کسی پر کوئی گناہ نہیں، حضرت حضرمی فرماتے  ہیں  کہ لوگ اقرار دیتے  ہیں  پھر ممکن ہے  کہ تنگی ہو جائے  تو اگر عورت اپنا حق چھوڑ دے  تو جائز ہے، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے  ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  مراد یہ ہے  کہ مہر کی رقم پوری پوری اس کے  حوالے  کر دے  پھر اسے  بسنے  اور الگ ہونے  کا پورا پورا اختیار دے، پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ اللہ علیم و حکیم ہے  ان کا احکام میں جو حلت و حرمت کے  متعلق ہیں  جو رحمتیں ہیں  اور جو مصلحتیں ہیں  انہیں  وہی بخوبی جانتا ہے ۔

۲۵

آزاد عورتوں سے نکاح اور کنیزوں سے متعلق ہدایات

ارشاد ہوتا ہے  کہ جسے  آزاد مسلمان عورتوں سے  نکاح کرنے  کی وسعت قدرت نہ ہو، ربیعہ فرماتے  ہیں  طول سے  مراد قصد و خواہش یعنی لونڈی سے  نکاح کی خواہش، ابن جریر نے  اس قول کو وارد کر کے  پھر اسے  خود ہی توڑ دیا ہے، مطلب یہ کہ ایسے  حالات میں مسلمانوں کی ملکیت میں جو لونڈیاں ہیں  ان سے  وہ نکاح کر لیں، تمام کاموں کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر واضح ہے، تم حقائق کو صرف سطحی نگاہ سے  دیکھتے  ہو، تم سب آزاد اور غلام ایمانی رشتے  میں ایک ہو، لونڈی کا ولی اس کا سردار ہے  اس کی اجازت کے  بغیر اس کا نکاح منعقد نہیں  ہو سکتا، اسی طرح غلام بھی اپنے  سردار کی رضامندی حاصل کئے  بغیر اپنا نکاح نہیں  کر سکتا۔ حدیث میں ہے  جو غلام بغیر اپنے  آقا کی اجازت کے  اپنا نکاح کر لے  وہ زانی ہے، ہاں اگر کسی لونڈی کی مالکہ کوئی عورت ہو تو اس کی اجازت سے  اس لونڈی کا نکاح وہ کرائے  جو عورت کا نکاح کراسکتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے  عورت عورت کا نکاح نہ کرائے  نہ عورت اپنا نکاح کرائے، وہ عورتیں زنا کار ہیں  جو اپنا نکاح آپ کرتی ہیں ۔ پھر فرمایا عورتوں کے  مہر خوش دلی سے  دے  دیا کرو، گھٹا کر کم کر کے  تکلیف پہنچا کر لونڈی سمجھ کر کمی کر کے  نہ دو، پھر فرماتا ہے  کہ دیکھ لیا کرو یہ عورتیں بدکاری کی طرف از خود مائل نہ ہوں، نہ ایسی ہوں اگر کوئی ان کی طرف مائل ہو تو یہ جھک جائیں، یعنی نہ تو علانیہ زنا کار ہوں نہ خفیہ بدکردار ہوں کہ ادھر ادھر آشنائیاں کرتی پھریں اور چپ چاپ دوست آشنا بناتی پھریں، جو ایسی بد اطوار ہوں ان سے  نکاح کرنے  کو اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے  احصن کی دوسری قرات احصن بھی ہے، کہا گیا ہے  کہ دونوں کا معنی ایک ہی ہے، یہاں احصان سے  مراد اسلام ہے  یا نکاح والی ہو جانا ہے، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے  کہ ان کا احصان اسلام اور عفت ہے  لیکن یہ حدیث منکر ہے  اس میں ضعف بھی ہے  اور ایک راوی کا نام نہیں، ایسی حدیث حجت کے  لائق نہیں  ہوتی، دوسرا قول یعنی احصان سے  مراد نکاح ہے  حضرت ابن عباس مجاہد عکرمہ طاؤس سعید بن جبیر حسن قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے  بھی ابو علی طبری نے  اپنی کتاب ایضاح میں یہی نقل کیا ہے، مجاہد فرماتے  ہیں  لونڈی کا محصن ہونا یہ ہے  کہ وہ کسی آزاد کے  نکاح میں چلی جائے، اسی طرح غلام کا احصان یہ ہے  کہ وہ کسی آزاد مسلمہ سے  نکاح کرلے، ابن عباس سے  بھی یہ منقول ہے، شعبی اور نخعی بھی یہی کہتے  ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے  کہ ان دونوں قرآتوں کے  اعتبار سے  معنی بھی بدل جاتے  ہیں، احصن سے  مراد تو نکاح ہے  اور احصن سے  مراد اسلام ہے، امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے  ہیں، لیکن بظاہر مراد یہاں نکاح کرنا ہے  واللہ اعلم، اسی لئے  کہ سیاق آیات کی دلالت اسی پر ہے، ایمان کا ذکر تو لفظوں میں موجود ہے  بہر دو صورت جمہور کے  مذہب کے  مطابق آیت کے  معنی میں بھی اشکال باقی ہے  اس لئے  کہ جمہور کا قول ہے  کہ لونڈی کو زنا کی وجہ سے  پچاس کوڑے  لگائے  جائیں گے  خواہ وہ مسلمہ ہو یا کافرہ ہو شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہو باوجود یہ کہ آیت کے  مفہوم کا تقاضا یہ ہے  کہ غیر محصنہ لونڈی پر حد ہی نہ ہو، پس اس کے  مختلف جوابات دیئے  گئے  ہیں، جمہور کا قول ہے  کہ بیشک "جو بولا گیا" مفہوم پر مقدم ہے  اس لئے  ہم نے  ان عام احادیث کو جن میں لونڈیوں کو حد مارنے  کا بیان ہے  اس آیت کے  مفہوم پر مقدم کیا، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے  کہ حضرت علی نے  اپنے  خطبے  میں فرمایا لوگو اپنی لونڈیوں پر حدیں قائم رکھو خواہ وہ محصنہ ہوں یا نہ ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  مجھے  اپنی لونڈی کے  زنا پر حد مارنے  کو فرمایا چونکہ وہ نفاس میں تھی اس لئے  مجھے  ڈر لگا کہ کہیں  حد کے  کوڑے  لگنے  سے  یہ مرنہ جائے  چنانچہ میں نے  اس وقت اسے  حد نہ لگائی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں واقعہ بیان کیا تو آپ نے  فرمایا تم نے  اچھا کیا جب تک وہ ٹھیک ٹھاک نہ ہو جائے  حد نہ مارنا، مسند احمد میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا جب یہ نفاس سے  فارغ ہو تو اسے  پچاس کوڑے  لگانا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے  ہیں  میں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا فرماتے  تھے  جب تم میں سے  کسی کی لونڈی زنا کرے  اور زنا ظاہر ہو جائے  تو اسے  وہ حد مارے  اور برا بھلا نہ کہے  پھر اگر دوبارہ زنا کرے  تو بھی حد لگائے  اور ڈانٹ جھڑک نہ کرے، پھر اگر تیسری مرتبہ زنا کرے  اور ظاہر ہو تو اسے  بیچ ڈالے  اگرچہ ایک رسی کے  ٹکڑے  کے  بدلے  ہی ہو، اور صحیح مسلم میں ہے  کہ جب تین بار یہ فعل اس سے  سرزد ہو تو چوتھی دفعہ فروخت کر ڈالے، عبد اللہ بن عیاش بن ابو ربیعہ فحرومی فرماتے  ہیں  کہ ہم چند قریش نوجوانوں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  امارت کی لونڈیوں سے  کئی ایک پر حد جاری کرنے  کو فرمایا ہم نے  انہیں  زنا کی حد میں پچاس پچاس کوڑے  لگائے  دوسرا جواب ان کا ہے  جو اس بات کی طرف گئے  ہیں  کہ لونڈی پر احصان بغیر حد نہیں  وہ فرماتے  ہیں  کہ یہ مارنا صرف بطور ادب سکھانے  اور باز رکھنے  کے  ہے، ابن عباس اسی طرف گئے  ہیں  طاؤس سعید ابو عبید داؤد ظاہری کا مذہب بھی یہی ہے  ان کی بڑی دلیل مفہوم آیت ہے  اور یہ شرط ہے  مفہوموں میں سے  ہے  اور اکثر کے  نزدیک یہ محض حجت ہے  اس لئے  ان کے  نزدیک ایک عموم پر مقدم ہو سکتا ہے  اور ابوہریرہ اور زید بن خالد کی حدیث جس میں ہے  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا گیا کہ جب لونڈی زنا کرے  اور وہ محصنہ نہ ہو یعنی اس کا نکاح نہ ہوا ہو تو کیا جائے ؟ آپ نے  فرمایا اگر وہ زنا کرے  تو اسے  حد لگاؤ پھر زنا کرے  تو پھر کوڑے  لگاؤ پھر بیچ ڈالو گو ایک رسی کے  ٹکڑے  کے  قیمت پر ہی کیوں نہ بیچنا پڑے، راوی حدیث ابن شہاب فرماتے  ہیں  نہیں  جانتا کہ تیسری مرتبہ کے  بعد یہ فرمایا یا چوتھی مرتبہ کے  بعد۔ پس اس حدیث کے  مطابق وہ جواب دیتے  ہیں  کہ دیکھو یہاں کی حد کی مقدار اور کوڑوں کی تعداد بیان نہیں  فرمائی جیسے  کہ محصنہ کے  بارے  میں صاف فرما دیا ہے  اور جیسے  کہ قرآن میں مقرر طور پر فرمایا گیا کہ محصنات کی نسبت نصف حد ان پر ہے، پس آیت و حدیث میں اس طرح تطبیق دینا واجب ہو گئی واللہ اعلم۔ اس سے  بھی زیادہ صراحت والی وہ روایت ہے  جو سعید بن منصور نے  بروایت ابن عباس نقل کی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا کسی لونڈی پر حد نہیں  جب تک کہ وہ احصان والی نہ ہو جائے  یعنی جب تک نکاح والی نہ ہو جائے  پس جب خاوند والی بن جائے  تو اس پر آدھی حد ہے  بہ نسبت اس حد کے  جو آزاد نکاح والیوں پر ہے، یہ حدیث ابن خزیمہ میں بھی ہے  لیکن وہ فرماتے  ہیں  اسے  مرفوع کہنا خطا ہے  یہ موقوف ہے  یعنی حضرت ابن عباس کا قول ہے، بیہقی میں بھی یہ روایت ہے  اور آپ کا بھی یہی فیصلہ ہے  اور کہتے  ہیں  کہ حضرت علی اور حضرت عمر والی حدیثیں ایک واقعہ کا فیصلہ ہیں، اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث دوسرے  واقعہ کا فیصلہ ہیں  اور حضرت ابوہریرہ والی حدیث کے  بھی کئی جوابات ہیں  ایک تو یہ کہ یہ محمول ہے  اس لونڈی پر جو شادی شدہ ہو اس طرح ان دونوں احادیث میں تطبیق اور جمع ہو جاتی ہے  دوسرے  یہ کہ اس حدیث میں لفظ حد کسی راوی کا داخل کیا ہوا ہے  اور اس کی دلیل جواب کا فقرہ ہے، تیسرا جواب یہ ہے  کہ یہ حدیث دو صحابیوں کی ہے  اور وہ حدیث صرف ایک صحابی کی ہے  اور ایک والی پر دو والی مقدم ہے، اور اسی طرح یہ حدیث نسائی میں بھی مروی ہے  اور مسلم کی شرط پر اس کی سند ہے  کہ حضرت عباد بن تمیم اپنے  چچا سے  جو بدری صحابی تھے  روایت کرتے  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ہے  کہ جب لونڈی زنا کرے  تو اسے  کوڑے  لگاؤ پھر جب زنا کرے  تو کوڑے  مارو پھر جب زنا کرے  تو کوڑے  لگاؤ پھر جب زنا کرے  تو بیچ دو اگرچہ ایک رسی کے  ٹکڑے  کے  بدلے  ہی بیچنا پڑے ۔ چوتھا جواب یہ ہے  کہ یہ بھی بعید نہیں  کہ کسی راوی نے  جلد کو حد خیال کر لیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق کر دیا ہو اور اس نے  جلد کو حد خیال کر لیا ہو یا لفظ حد کا اطلاق تادیب کے  طور پر سزا دینے  پر کر دیا ہو جیسے  کہ لفظ حد کا اطلاق اس سزا پر بھی کیا گیا ہے  جو بیمار زانی کو کھجور کا ایک خوشہ مارا گیا تھا جس میں ایک سو چھوٹی چھوٹی شاخیں تھیں، اور جیسے  کہ لفظ حد کا اطلاق اس شخص پر بھی کیا گیا ہے  جس نے  اپنی بیوی کو اس لونڈی کے  ساتھ زنا کیاجسی بیوی نے  اس کے  لئے  حلال کر دیا تھا حالانکہ اسے  سو کوڑوں کا لگنا تعزیر کے  طور پر صرف ایک سزا ہے  جیسے  کہ امام احمد وغیرہ سلف کا خیال ہے ۔ حد حقیقی صرف یہ ہے  کہ کنوارے  کو سو کوڑے  اور شادی شدہ ہوئے  کو رجم واللہ اعلم۔ ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت ٰسعید بن جبیر کا فرمان ہے  کہ لونڈی نے  جب تک نکاح نہیں  کیا اسے  زنا پر مارا نہ جائے، اس کی اسناد تو صحیح ہے  لیکن معنی دو ہو سکتے  ہیں  ایک تو یہ کہ بالکل مارا ہی نہ جائے  نہ حد نہ اور کچھ توتو یہ قول بالکل غریب ہے، ممکن ہے  آیت کے  الفاظ پر نظر کر کے  یہ فتویٰ دے  دیا ہو اور حدیث نہ پہنچی ہو، دوسرے  معنی یہ ہیں  کہ حد کے  طور پر نہ مارا جائے  اگر یہ معنی مراد لئے  جائیں تو اس کے  خلاف نہیں  کہ اور کوئی سزا کی جائے، پس یہ قیاس حضرت ابن عباس وغیرہ کے  فتوے  کے  مطابق ہو جائے  گا واللہ اعلم۔ تیسرا جواب یہ ہے  کہ آیت میں دلالت ہے  کہ محصنہ لونڈی پر بہ نسبت آزاد عورت کے  آدھی حد ہے، لیکن محصنہ ہونے  سے  پہلے  کتاب و سنت کے  عموم میں یہ بھی شامل ہے  کہ اسے  بھی سو کوڑے  مارے  جائیں جیسے  اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائۃ جلدۃ) یعنی زنا کار عورت زنا کار مرد کو ہر ایک کو سو سو کوڑے  مارو اور جیسے  حدیث میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  میری بات لے  لو میری بات سمجھ لو اللہ نے  ان کے  لئے  راستہ نکال لیا اگر دونوں جانب غیر شادی شدہ ہیں  تو سو کوڑے  اور ایک سال کی جلا وطنی اور اگر دونوں طرف شادی شدہ ہیں  تو سو کوڑے  اور پتھروں سے  رجم کر دینا۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف کی ہے  اور اسی طرح کی اور حدیثیں بھی ہیں، حضرت داؤد بن علی ظاہری کا یہی قول ہے  لیکن یہ سخت ضعیف ہے  اس لئے  کہ اللہ تعالیٰ نے  محصنہ لونڈیوں کو بہ نسبت آزاد کے  آدھے  کوڑے  مارنے  کا عذاب بیان فرمایا یعنی پچاس کوڑے  تو پھر جب تک وہ محصنہ نہ ہوں اس سے  بھی زیادہ سزا کی سزا وار وہ کیسے  ہو سکتی ہیں ؟ حالانکہ قاعدہ شریعت یہ ہے  کہ احصان سے  پہلے  کم سزا ہے  اور احصان کے  بعد زیادہ سزا ہے  پھر اس کے  برعکس کیسے  صحیح ہو سکتا ہے ؟ دیکھئے  شارع علیہ السلام سے  آپ کے  صحابہ غیر شادی شدہ لونڈی کے  زنا کی سزا پوچھتے  ہیں  اور آپ انہیں  جواب دیتے  ہیں  کہ اسے  کوڑے  مارو لیکن یہ نہیں  فرماتے  کہ ایک سو کوڑے  لگاؤ پس اگر اس کا حکم وہی ہوتا جو داؤد سمجھتے  ہیں  تو اسے  بیان کر دینا حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھا اس لئے  کہ ان کا یہ سوال تو صرف اسی وجہ سے  تھا کہ لونڈی کے  شادی شدہ ہو جانے  کے  بعد اسے  کوڑے  مارنے  کا بیان نہیں  ورنہ اس قید کے  لگانے  کی کیا ضرورت تھی کہ سوال میں کہتے  وہ غیر شادی شدہ ہے  کیونکہ پھر تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا اگر یہ آیت اتری ہوئی نہ ہوتی لیکن چونکہ ان دونوں صورتوں میں سے  ایک کا علم تو انہیں  ہوچکا تھا اس لئے  دوسری کی بابت سوال کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  آپ پر درود پڑھنے  کی نسبت پوچھا تو آپ نے  اسے  بیان فرمایا اور فرمایا سلام تو اسی طرح ہے  جس طرح تم خود جانتے  ہو، اور ایک روایت میں ہے  کہ جب اللہ تعالیٰ کا فرمان (آیت یا ایھا الذین امنوا صلوا علیہ و سلموا تسلیما) نازل ہوا اور صلوٰۃ و سلام آپ پر بھیجنے  کا اللہ تعالیٰ نے  حکم دیا تو صحابہ نے  کہا کہ سلام کا طریقہ اور اس کے  الفاظ تو ہمیں معلوم ہیں  صلوٰۃ کی کیفیت بیان فرمائے ۔ پس ٹھیک اسی طرح یہ سوال ہے  مفہوم آیت کا چوتھا جواب ابو ثور کا ہے  جو داؤد کے  جواب سے  زیادہ بودا ہے، وہ فرماتے  ہیں  جب لونڈیاں شادی شدہ ہو جائیں تو ان کی زنا کاری کی حد ان پر آدھی ہے  اس حد کی جو شادی شدہ آزاد عورتوں کی زنا کاری کی حد تو ظاہر ہے  کہ آزاد عورتوں کی حد اس صورت میں رجم ہے  اور یہ بھی ظاہر ہے  کہ رجم آدھا نہیں  ہو سکتا تو لونڈی کو اس صورت میں رجم کرنا پڑے  گا اور شادی سے  پہلے  اسے  پچاس کوڑے  لگیں گے، کیونکہ اس حالت میں آزاد عورت پر سو کوڑے  ہیں ۔ پس دراصل آیت کا مطلب سمجھنے  میں اس سے  خطا ہوئی اور اس میں جمہور کا بھی خلاف ہے  بلکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تو فرماتے  ہیں  کسی مسلمان کا اس میں اختلاف ہی نہیں  کہ مملوک پر زنا کی سزا میں رجم ہے  ہی نہیں، اس لئے  کہ آیت کی دلالت کرنی ہے  کہ ان پر محصنات کا نصف عذاب ہے  اور محصنات کے  لفظ میں جو الف لام ہے  وہ عہد کا ہے  یعنی وہ محصنات جن کا بیان آیت کے  شروع میں ہے  (آیت ان ینکح المحصنات) میں گزر چکا ہے  اور مراد صرف آزاد عورتیں ہیں ۔ اس وقت یہاں آزاد عورتوں کا نکاح کے  مسئلہ کی بحث نہیں  بحث یہ ہے  کہ پھر آگے  چل کر ارشاد ہوتا ہے  کہ ان پر زنا کاری کی جو سزا تھی اس سے  آدھی سزا ان لونڈیوں پر ہے  تو معلوم ہوا کہ یہ اس سزا کا ذکر ہے  جو آدھی ہو سکتی ہو اور وہ کوڑے  ہیں  کہ سو سے  آدھے  پچاس رہ جائیں گے  رجم یعنی سنگسار کرنا ایسی سزا ہے  جس کے  حصے  نہیں  ہو سکتے  واللہ اعلم، پھر مسند احمد میں ہے  ایک واقعہ ہے  جو ابو ثور کے  مذہب کی پوری تردید کرتا ہے  اس میں ہے  کہ صفیہ لونڈی نے  ایک غلام سے  زناکاری کی اور اسی زنا سے  بچہ ہوا جس کا دعویٰ زانی نے  کیا مقدمہ حضرت عثمان کے  پاس پہنچا آپ نے  حضرت علی کو اس کا تصفیہ سونپا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے  فرمایا اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے  بچہ تو اس کا سمجھا جائے  گا جس کی یہ لونڈی ہے  اور زانی کو پتھر مارے  جائیں گے  پھر ان دونوں کو پچاس پچاس کوڑے  لگائے، یہ بھی کہا گیا ہے  کہ مراد مفہوم سے  تنبیہ ہے  اعلیٰ کے  ساتھ ادنیٰ پر یعنی جب کہ وہ شادی شدہ ہوں تو ان پر بہ نسبت آزاد عورتوں کے  آدھی حد ہے  پس ان پر رجم تو سرے  سے  کسی صورت میں ہے  ہی نہیں  نہ قبل از نکاح نہ بعد نکاح، دونوں حالتوں میں صرف کوڑے  ہیں  جس کی دلیل حدیث ہے، صاحب مصباح یہی فرماتے  ہیں  اور حضرت امام شافعی سے  بھی اسی کو ذکر کرتے  ہیں، امام بیہقی اپنی کتاب سنن و آثار میں بھی اسے  لائے  ہیں  لیکن یہ قول لفظ آیت سے  بہت دور ہے  اس طرح کہ آدھی حد کی دلیل صرف آیت ہے  اس کے  سوا کچھ نہیں  پس اس کے  علاوہ میں آدھا ہونا کس طرح سمجھا جائے  گا؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ مطلب یہ ہے  کہ شادی شدہ ہونے  کی حالت میں صرف امام ہی حد قائم کر سکتا ہے  اس لونڈی کا مالک اس حال میں اس پر حد جاری نہیں  کر سکتا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے  مذہب میں ایک قول یہی ہے  ہاں شادی سے  پہلے  اس کے  مالک کو حد جاری کرنے  کا اختیار ہے  بلکہ حکم ہے  لیکن دونوں صورتوں میں حد آدھی ہی آدھی رہے  گی اور یہ بھی دور کی بات ہے  اس لئے  کہ آیت میں اس کی دلالت بھی نہیں، اگر اگر یہ آیت نہ ہوتی تو ہم نہیں  جان سکتے  تھے  کہ لونڈیوں کے  بارے  میں آدھی حد ہے  اور اس صورت میں انہیں  بھی عموم میں داخل کر کے  پوری حد یعنی سو کوڑے  اور رجم ان پر بھی جاری کرنا واجب ہو جاتا جیسے  کہ عام روایتوں سے  ثابت ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ لوگو اپنے  ماتحتوں پر حدیں جاری کرو شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ اور وہ عام حدیثیں جو پہلے  گزرچکی ہیں  جن میں خاوندوں والی اور خاوندوں کے  بغیر کوئی تفصیل نہیں، حضرت ابوہریرہ کی روایت والی حدیث جس سے  جمہور نے  دلیل ]پکڑی ہے  یہ ہے  کہ جب تم میں سے  کسی کوئی زنا کرے  اور پھر اس کا زنا ظاہر ہو جائے  تو اسے  چاہئے  کہ اس پر حد جاری کرے  اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے  (ملخص) الغرض لونڈی کی زنا کاری کی حد میں کئی قول ہیں  ایک تو یہ کہ جب تک اس کا نکاح نہیں  ہوا اسے  پچاس کوڑے  مارے  جائیں گے  اور نکاح ہو جانے  کے  بعد بھی یہی حد رہے  گی اور اسے  جلاوطن بھی کیا جائے  گا یا نہیں ؟ اس میں تین قول ہیں  ایک یہ کہ جلا وطنی ہو گی دوسرے  یہ کہ نہ ہو گی تیسرے  یہ کہ جلا وطنی میں آدھے  سال کو ملحوظ رکھا جائے  گا یعنی چھ مہینے  کا دیس نکالا دیا جائے  گا پورے  سال کا نہیں، پورا سال آزاد عورتوں کے  لئے  ہے، یہ تینوں قول امام شافعی کے  مذہب میں ہیں، لیکن امام ابو حنیفہ کے  نزدیک جلا وطنی تعزیر کے  طور پر ہے  وہ حد میں سے  نہیں  امام کی رائے  پر موقوف ہے  اگر چاہے  جلا وطنی دے  یا نہ دے  مرد و عورت سب اسی حکم میں داخل ہیں  ہاں امام مالک کے  مذہب میں ہے  کہ جلا وطنی صرف مردوں کے  لئے  ہے  عورتوں پر نہیں  اس لئے  کہ جلا وطنی صرف اس کی حفاظت کے  لئے  ہے  اور اگر عورت کو جلا وطن کیا گیا تو حفاظت میں سے  نکل جائے  گی اور مردوں یا عورتوں کے  بارے  میں دیس نکالے  کی حدیث صرف حضرت عبادہ اور حضرت ابوہریرہ سے  ہی مروی ہے  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس زانی کے  بارے  میں جس کی شادی نہیں  ہوئی تھی حد مارنے  اور ایک سال دیس نکالا دینے  کا حکم فرمایا تھا (بخاری) اس سے  معنی مراد یہی ہے  کہ اس کی حفاظت رہے  اور عورت کو وطن سے  نکالے  جانے  میں یہ حفاظت بالکل ہی نہیں  ہو سکتی واللہ اعلم۔ دوسرا قول یہ ہے  کہ لونڈی کو اس کی زنا کاری پر شادی کے  بعد پچاس کوڑے  مارے  جائیں گے  اور ادب دکھانے  کے  طور پر اسے  کچھ مار پیٹ کی جائے  گی لیکن اس کی کوئی مقرر گنتی نہیں  پہلے  گزرچکا ہے  کہ شادی سے  پہلے  اسے  مارا نہ جائے  گا جیسے  حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے  لیکن اگر اس سے  یہ مراد لی جائے  کہ سرے  سے  کچھ مارنا ہی نہ چاہئے  تو یہ محض تاویل ہی ہو گی ورنہ قول ثانی میں اسے  داخل کیا جاسکتا ہے  جو یہ ہے  کہ شادی سے  پہلے  سو کوڑے  اور شادی کے  بعد پچاس جیسے  کے  داؤد کا قول ہے  اور یہ تمام اقوال سے  بودا قول ہے  اور یہ کہ شادی سے  پہلے  پچاس کوڑے  اور شادی کے  بعد رجم جیسے  کہ ابو ثور کا قول ہے  لیکن یہ قول بھی بودا ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب۔ پھر فرمان ہے  کہ لونڈیوں سے  نکاح کرنا ان شرائط کی موجودگی میں جو بیان ہوئیں ان کے  لئے  جنہیں  زنا میں واقع ہونے  کا خطرہ ہو اور تجرد اس پر بہت شاق گزر رہا ہو اور اس کی وجہ سے  سخت تکلیف میں ہو تو بیشک اسے  پاکدامن لونڈیوں سے  نکاح کر لینا جائز ہے  گو اس حالت میں بھی اپنے  نفس کو روکے  رکھنا اور ان سے  نکاح نہ کرنا بہت بہتر ہے  اس لئے  کہ اس سے  جو اولاد ہو گی وہ اس کے  مالک کے  لونڈی غلام ہو گی ہاں اگر خاوند غریب ہو تو اس کی یہ اولاد اس کے  آقا کی ملکیت امام شافعی کے  قول قدیم کے  مطابق نہ ہو گی۔ پھر فرمایا اگر تم صبر کرو تو تمہارے  لئے  افضل ہے  اور اللہ غفور و رحیم ہے، جمہور علماء نے  اس آیت سے  استدلال کیا ہے  کہ لونڈی سے  نکاح جائز ہے  لیکن یہ اس وقت جب آزاد عورتوں سے  نکاح کرنے  کی طاقت نہ ہو اور نہ ہی رکے  رہنے  کی طاقت ہو، بلکہ زنا واقع ہو جانے  کا خوف ہو۔ کیونکہ اس میں ایک خرابی تو یہ ہے  کہ اولاد غلامی میں جاتی ہے  دوسرے  ایک طرح ہے  کہ آزاد عورت کو چھوڑ کر لونڈیوں کی طرف متوجہ ہونا۔ ہاں جمہور کے  مخالف امام ابو حنیفہ اور ان کے  ساتھی کہتے  ہیں  یہ دونوں باتیں شرط نہیں  بلکہ جس کے  نکاح میں کوئی آزاد عورت نہ ہو اسے  لونڈی سے  نکاح جائز ہے  وہ لونڈی خواہ مومنہ ہو خواہ اہل کتاب میں سے  ہو۔ چاہے  اسے  آزاد عورت سے  نکاح کرنے  کی طاقت بھی ہو اور اسے  بدکاری کا خوف بھی نہ ہو، اس کی بڑی دلیل یہ آیت والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم یعنی آزاد عورتیں ان میں سے  جو تم سے  پہلے  کتاب اللہ دئے  گئے ۔ پس وہ کہتے  ہیں  یہ آیت عام ہے  جس میں آزاد اور غیر آزاد سب ہی شامل ہیں  اور محصنات سے  مراد پاکدامن باعصمت عورتیں ہیں  لیکن اس کی ظاہری دلالت بھی اسی مسئلہ پر ہے  جو جمہور کا مذہب ہے ۔ واللہ اعلم۔

۲۶

پچاس سے پانچ نمازوں تک

فرمان ہوتا ہے  کہ اے  مومنو اللہ تعالیٰ ارادہ کر چکا ہے  کہ حلال و حرام تم پر کھول کھول کر بیان فرما دے  جیسے  کہ اس سورت میں اور دوسری سورتوں میں اس نے  بیان فرمایا وہ چاہتا ہے  کہ سابقہ لوگوں کی قابل تعریف راہیں  تمہیں  سمجھا دے  تاکہ تم بھی اس کی اس شریعت پر عمل کرنے  لگ جاؤ جو اس کی محبوب اور اس کی پسندیدہ ہیں  وہ چاہتا ہے  کہ تمہاری توبہ قبول فرمالے  جس گناہ سے  جس حرام کاری سے  تم توبہ کرو وہ فوراً قبول فرما لیتا ہے  وہ علم و حکمت والا ہے، اپنی شریعت اپنی اندازے  اپنے  کام اور اپنے  فرمان میں وہ صحیح علم اور کامل حکمت رکھتا ہے، خواہش نفسانی کے  پیروکار یعنی شیطانوں کے  غلام یہود و نصاریٰ اور بدکاری لوگ تمہیں  حق سے  ہٹانا اور باطل کی طرف جھکانا چاہتے  ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے  حکم احکام میں یعنی روکنے  اور ہٹانے  میں، شریعت اور اندازہ مقرر کرنے  میں تمہارے  لئے  آسانیاں چاہتا ہے  اور اسی بنا پر چند شرائط کے  ساتھ اس نے  لونڈیوں سے  نکاح کر لینا تم پر حلال کر دیا۔ انسان چونکہ پیدائشی کمزور ہے  اس لئے  اللہ تعالیٰ نے  اپنے  احکام میں کوئی سختی نہیں  رکھی۔ یہ فی نفسہ بھی کمزور اس کے  ارادے  اور حوصلے  بھی کمزور یہ عورتوں کے  بارے  میں بھی کمزور، یہاں آ کر بالکل بیوقوف بن جانے  والا۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج میں سدرۃ المنتہی سے  لوٹے  اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے  ملاقات ہوئی تو آپ نے  دریافت کیا کہ آپ پر کیا فرض کیا گیا؟ فرمایا ہر دن رات میں پچاس نمازیں تو کلیم اللہ نے  فرمایا واپس جائیے  اور اللہ کریم سے  تخفیف طلب کیجئے  آپ کی امت میں اس کی طاقت نہیں  میں اس سے  پہلے  لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں وہ اس سے  بہت کم ہیں  گھبرا گئے  تھے  اور آپ کی امت تو کانوں آنکھوں اور دل کی کمزوری میں ان سے  بھی بڑھی ہوئی ہے  چنانچہ آپ واپس گئے  دس معاف کرا لائے  پھر بھی یہی باتیں ہوئیں پھر گئے  دس ہوئیں یہاں تک کہ آخری مرتبہ پانچ رہ گئیں ۔

۲۹

خرید و فروخت اور اسلامی قواعد و ضوابط؟

اللہ تعالیٰ اپنے  ایماندار بندوں کو ایک دوسرے  کے  مال باطل کے  ساتھ کھانے  کی ممانعت فرما رہا ہے  خواہ اس کمائی کی ذریعہ سے  ہو جو شرعاً حرام ہے  جیسے  سود خواری قمار بازی اور ایسے  ہی ہر طرح کی حیلہ سازی چاہے  اسے  جواز کی شرعی صورت دے  دی ہو اللہ کو خوب معلوم ہے  کہ اصل حقیقت کیا ہے، حضرت ابن عباس سے  سوال ہوتا ہے  کہ ایک شخص کپڑا خریدتا ہے  اور کہتا ہے  اگر مجھے  پسند آیا تو تو رکھ لوں گا ورنہ کپڑا اور ایک درہم واپس کر دونگا آپ نے  اس آیت کی تلاوت کر دی یعنی اسے  باطل مال میں شامل کیا۔ حضرت عبداللہ فرماتے  ہیں  یہ آیت محکم ہے  یعنی منسوخ نہیں  نہ قیامت تک منسوخ ہو سکتی ہے، آپ سے  مروی ہے  کہ جب یہ آیت اتری تو مسلمانوں نے  ایک دوسرے  کے  ہاں کھانا چھوڑ دیا جس پر یہ آیت (آیت لیس علی الاعمی) اتری تجارۃ کو تجارۃ بھی پڑھا گیا ہے ۔ یہ استثنا منقطع ہے  گویا یوں فرمایا جارہا ہے  کہ حرمت والے  اسباب سے  مال نہ لو ہاں شرعی طریق پر تجارت سے  نفع اٹھانا جائز ہے  جو خریدار اور بیچنے  والے  کی باہم رضامندی سے  ہو۔ جیسے  دوسری جگہ ہے  کسی بے  گناہ جان کو نہ مارو ہاں حق کے  ساتھ ہو تو جائز ہے  اور جیسے  دوسری آیت میں ہے  وہاں موت نہ چکھیں گے  مگر پہلی بار کی موت۔ حضرت امام شافعی اس آیت سے  استدلال کر کے  فرماتے  ہیں  خرید و فروخت بغیر قبولیت کے  صحیح نہیں  ہوتی اس لئے  کہ رضامندی کی پوری سند یہی ہے  گو صرف لین دین کر لینا کبھی کبھی رضامندی پر پوری دلیل نہیں  بن سکتا اور جمہور اس کے  برخلاف ہیں، تینوں اور اماموں کا قول ہے  کہ جس طرح زبانی بات چیت رضامندی کی دلیل ہے  اسی طرح لین دین بھی رضامندی کی دلیل ہے ۔ بعض حضرات فرماتے  ہیں  کم قیمت کی معمولی چیزوں میں تو صرف دینا لینا ہی کافی ہے  اور اسی طرح بیوپار کا جو طریقہ بھی ہو لیکن صحیح مذہب میں احتیاطی نظر سے  تو بات چیت میں قبولیت کا ہونا اور بات ہے  واللہ اعلم۔ مجاہد فرماتے  ہیں  خرید و فروخت ہو یا بخشش ہو سب کے  لئے  حکم شامل ہے ۔ ابن جریر کی مرفوع حدیث میں ہے  تجارت ایک دوسرے  کی رضامندی سے  ہی لین دین کرنے  کا نام ہے  گویا کسی مسلمان کو جائز نہیں  کہ دوسرے  مسلمان کو تجارت کے  نام سے  دھوکہ دے، یہ حدیث مرسل ہے  پوری رضامندی میں مجلس کے  خاتمہ تک کا اختیار بھی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  دونوں بائع مشتری جب تک جدا نہ ہوں با اختیار ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے  جب دو شخص خرید و فروخت کریں تو دونوں کو الگ الگ ہونے  تک مکمل اختیار ہوتا ہے  اسی حدیث کے  مطابق امام احمد امام شافعی اور ان کے  سب ساتھیوں جمہور سلف و خلف کا بھی یہی فتویٰ ہے  اور اس پوری رضامندی میں شامل ہے  خرید و فروخت کے  تین دن بعد تک اختیار دینا رضامندی میں شامل ہے  بلکہ یہ مدت گاؤں کی رسم کے  مطابق سال بھر کی بھی ہو سکتی ہے  امام مالک کے  نزدیک صرف لین دین سے  ہی بیع صحیح ہو جاتی ہے ۔ شافعی مذہب کا بھی یہی خیال ہے  اور ان میں سے  بعض فرماتے  ہیں  کہ معمولی کم قیمت چیزوں میں جنہیں  لوگ بیوپار کے  لئے  رکھتے  ہوں صرف لین دین ہی کافی ہے ۔ بعض اصحاب کا اختیار سے  مراد یہی ہے  جیسے  کہ متفق علیہ ہے ۔ پھر فرماتا ہے  اللہ تعالیٰ کے  بیان کردہ حرام کاموں کا ارتکاب کر کے  اور اس کی نافرمانیاں کر کے  اور ایک دوسرے  کا بیجا طور پہ مال کھا کر اپنے  آپ کو ہلاک نہ کرو اللہ تم پر رحیم ہے  ہر حکم اور ہر ممانعت رحمت والی ہے ۔ 

احترام زندگی

مسند احمد میں ہے  کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذات السلاسل والے  سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  بھیجا تھا آپ فرماتے  ہیں  مجھے  ایک رات احتلام ہو گیا سردی بہت سخت تھی یہاں تک کہ مجھے  نہانے  میں اپنی جان جانے  کا خطرہ ہو گیا تو میں نے  تیمم کر کے  اپنی جماعت کو صبح کی نماز پڑھادی جب وہاں سے  ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوئے  تو میں نے  یہ واقعہ کہہ سنایا آپ نے  فرمایا کیا تونے  اپنے  ساتھیوں کو جنبی ہونے  کی حالت میں نماز پڑھا دی؟ میں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم جاڑا سخت تھا اور مجھے  اپنی جان جانے  کا اندیشہ تھا تو مجھے  یاد پڑا کہ اللہ تعالیٰ نے  فرمایا ہے  اپنے  تئیں ہلاکت نہ کر ڈالو اللہ رحیم ہے  پس میں نے  تیمم کر کے  نماز صبح پڑھا دی تو آپ ہنس دئیے  اور مجھے  کچھ نہ فرمایا۔ ایک روایت میں ہے  کہ اور لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  یہ واقعہ بیان کیا تب آپ کے  دریافت کرنے  پر حضرت عمرو بن عاص نے  عذر پیش کیا۔ بخاری و مسلم میں ہے  جو شخص کسی لوہے  سے  خودکشی کرے  گا وہ قیامت تک جہنم کی آگ میں لوہے  سے  خود کشی کرتا رہے  گا، اور جو جان بوجھ کر مرجانے  کی نیت سے  زہر کھالے  گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں زہر کھاتا رہے  گا اور روایت میں ہے  کہ جو شخص اپنے  تئیں جس چیز سے  قتل کرے  گا وہ قیامت والے  دن اسی چیز سے  عذاب کیا جائے  گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے  کہ تم سے  پہلے  کے  لوگوں میں سے  ایک شخص کو زخم لگے  اس نے  چھری سے  اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا تمام خون بہ گیا اور وہ اسی میں مرگیا تو اللہ عزوجل نے  فرمایا میرے  بندے  نے  اپنے  تئیں فنا کرنے  میں جلدی کی اسی وجہ سے  میں نے  اس پر جنت کو حرام کیا اسی لئے  اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے  جو شخص بھی ظلم و زیادتی کے  ساتھ حرام جانتے  ہوئے  اس کا ارتکاب کرے  دلیرانہ طور سے  حرام پر کار بند رہے  وہ جہنمی ہے، پس ہر عقل مند کو اس سخت تنبیہ سے  ڈرنا چاہئے  دل کے  کان کھول کر اللہ تعالیٰ کے  اس فرمان کو سن کر حرام کاریوں سے  اجتناب کرنا چاہئے ۔ پھر فرماتا ہے  کہ اگر تم بڑے  بڑے  گناہوں سے  بچتے  رہو گے  تو ہم تمہارے  چھوٹے  چھوٹے  گناہ معاف فرما دیں گے  اور تمہیں  جنتی بنادیں گے ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  مرفوعا مروی ہے  کہ اس طرح کی کوئی اور سخت و عیدیں ملی جس کی تعمیل میں تمہیں  اپنے  اہل و مال سے  الگ ہو جانا چاہئے  پھر ہم اس کے  لئے  اپنے  اہل و مال سے  جدا نہ ہو جائیں کہ وہ ہمارے  کبیرہ گناہوں کے  وہ ہمارے  چھوٹے  موٹے  گناہوں سے  معاف فرماتا ہے  پھر اس آیت کی تلاوت کی۔ اس آیت کے  متعلق بہت سی حدیثیں بھی ہیں  تھوڑی بہت ہم یہاں بیان کرتے  ہیں ۔ مسند احمد میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے  مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جانتے  ہو جمعہ کا دن کیا ہے ؟ میں نے  جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے  جس میں اللہ تعالیٰ نے  ہمارے  باپ کو پیدا کیا آپ نے فرمایا مگر اب جو میں جانتا ہوں وہ بھی سن لو جو شخص اس دن اچھی طرح غسل کر کے  نماز جمعہ کے  لئے  مسجد میں آئے  اور نماز ختم ہونے  تک خاموش رہے  تو اس کا یہ عمل اگلے  جمعہ تک کے  گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے  جب تک کہ وہ قتل سے  بچا۔ ابن جریر میں ہے  کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  خطبہ سناتے  ہوئے  فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے  ہاتھ میری جان ہے  تین مرتبہ یہی فرمایا پھر سرنیچا کر لیا ہم سب نے  بھی سر نیچا کر لیا اور ہم سب رونے  لگے  ہمارے  دل کانپنے  لگے  کہ اللہ جانے  اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  کس چیز کے  لئے  قسم کھائی ہے  اور پھر کیوں خاموشی اختیار کی ہے ؟ تھوڑی دیر کے  بعد آپ نے  سراٹھایا اور آپ کا چہرہ بشاش تھا جس سے  ہم اس قدر خوش ہوئے  کہ اگر ہمیں سرخ رنگ اونٹ ملتے  تو اس قدر خوش نہ ہوتے، اب آپ فرمانے  لگے  جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے  روزے  رکھے، زکوٰۃ ادا کرتا رہے  اور سات کبیرہ گناہوں سے  بچا رہے  اس کے  لئے  جنت کے  سب دروازے  کھل جائیں گے  اور اسے  کہا جائے  گا کہ سلامتی کے  ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ۔ 

سات کبیرہ گناہ

جن سات گناہوں کا اس میں ذکر ہے  ان کی تفصیل بخاری مسلم میں اس طرح ہے  گناہوں سے  بچو جو ہلاک کرنے  والے  ہیں  پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم وہ کون سے  گناہ ہیں ؟ فرمایا اللہ کے  ساتھ شرک کرنا اور جس کا قتل حرام ہو اسے  قتل کرنا ہاں کسی شرعی وجہ سے  اس کا خون حلال ہو گیا ہو تو اور بات ہے ۔ جادو کرنا، سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور میدان جنگ سے  کفار کے  مقابلے  میں پیٹھ دکھانا اور بھولی بھالی پاک دامن مسلمان عورتوں کو تہمت لگانا۔ ایک روایت میں جادو کے  بدلے  ہجرت کر کے  پھر واپس اپنے  دیس میں قیام کر لینا ہے ۔ یہ یاد رہے  کہ ان سات گناہوں کو کبیرہ کہنے  سے  یہ مطلب نہیں  کہ کبیرہ گناہ صرف یہی ہیں  جیسے  کہ بعض اور لوگوں کا خیال ہے  جن کے  نزدیک مفہوم مخالف معتبر ہے ۔ دراصل یہ بہت انتہائی بے  معنی قول اور غلط اصول ہے  بالخصوص اس وقت جبکہ اس کے  خلاف دلائل موجود ہوں اور یہاں تو صاف لفظوں میں اور کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر موجود ہے ۔ مندرجہ ذیل حدیثیں ملاحظہ ہوں ۔ مستدرک حاکم میں ہے  کہ حجۃ الوداع میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا لوگو سن لو اللہ تعالیٰ کے  ولی صرف نمازی ہی ہیں  جو پانچوں وقت کی فرض نمازوں کو باقاعدہ بجا لاتے  ہیں  جو رمضان شریف کے  روزے  رکھتے  ہیں  ثواب حاصل کرنے  کی نیت رکھے  اور فرض جان کر ہنسی خوشی زکوٰۃ ادا کرتے  ہیں  اور ان تمام کبیرہ گناہوں سے  دور رہتے  ہیں  جن سے  اللہ تعالیٰ نے  روک دیا ہے ۔ ایک شخص نے  پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہ کبیرہ گناہ کیا ہیں ؟ آپ نے  فرمایا شرک، قتل، میدان جنگ سے  بھاگنا، مال یتیم کھانا، سود خوری، پاکدامنوں پر تہمت لگانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، بیت اللہ الحرام کی حرمت کو توڑنا جو زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے  سنو جو شخص مرتے  دم تک ان بڑے  گناہوں سے  اجتناب کرتا رہے  اور نماز و زکوٰۃ کی پابندی کرتا رہے  وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ جنت میں سونے  کے  محلوں میں ہو گا۔ حضرت طیسلہ بن میامن فرماتے  ہیں  مجھ سے  ایک گناہ ہو گیا جو میرے  نزدیک کبیرہ تھا، میں نے  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  اس کا ذکر کیا تو آپ نے  فرمایا وہ کبیرہ گناہ نہیں  کبیرہ گناہ نو ہیں ۔ اللہ کے  ساتھ شرک کرنا کسی کو بلا وجہ مار ڈالنا، میدان جنگ میں دشمنان دین کو پیٹھ دکھانا، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا، سود کھانا، یتیم کا مال ظلم سے  کھا جانا، مسجد حرام میں الحاد پھیلانا اور ماں باپ کو نافرمانی کے  سبب رلانا، حضرت طیسلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کہ اس بیان کے  بعد بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  محسوس کیا کہ خوف کم نہیں  ہوا تو فرمایا کیا تمہارے  دل میں جہنم کی آگ میں داخل ہونے  کا ڈر اور جنت میں جانے  کی چاہت ہے ؟ میں نے  کہا بہت زیادہ فرمایا کیا تمہارے  ماں باپ زندہ ہیں ؟ میں نے  کہا صرف والدہ حیات ہیں، فرمایا بس تم ان سے  نرم کلامی سے  بولا کرو اور انہیں  کھانا کھلاتے  رہا کرو اور ان کبیرہ گناہوں سے  بچتے  رہا کرو تو تم یقیناً جنت میں جاؤ گے  اور روایت میں ہے  کہ حضرت طیسلہ بن علی نہدی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  میدان عرفات میں عرفہ کے  دن پیلو کے  درخت تلے  ملے  تھے  اس وقت حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے  سر اور چہرے  پر پانی بہا رہے  تھے  اس میں یہ بھی ہے  کہ جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  تہمت لگانے  کا ذکر کیا تو میں نے  پوچھا کیا یہ بھی مثل قتل کے  بہت بڑا گناہ ہے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں ہاں اور ان گناہوں کے  ذکر میں جادو کا ذکر بھی ہے  اور روایت میں ہے  کہ میری ان کی ملاقات شام کے  وقت ہوئی تھی اور میں نے  ان سے  کبائر کے  بارے  میں سوال کیا تو انہوں نے  فرمایا میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا ہے  کہ کبائر سات ہیں  میں نے  پوچھا کیا کیا؟ تو فرمایا شرک اور تہمت لگانا میں نے  کہا کیا یہ بھی مثل خون ناحق کے  ہے ؟ فرمایا ہاں ہاں اور کسی مومن کو بے  سبب مار ڈالنا، لڑائی سے  بھاگنا، جادو اور سود خواری، مال یتیم کھانا، والدین کی نافرمانی اور بیت اللہ میں الحاد پھیلانا جو زندگی میں اور موت میں تمہارا قبلہ ہے، مسند احمد میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جو اللہ کا بندہ اللہ کے  ساتھ کسی کو شریک نہ کرے  نماز قائم رکھے  زکوٰۃ ادا کرے  رمضان کے  روزے  رکھے  اور کبیرہ گناہوں سے  بچے  وہ جنتی ہے، ایک شخص نے  پوچھا کبائر کیا ہیں ؟ آپ نے  فرمایا اللہ کے  ساتھ شرک کرنا مسلمان کو قتل کرنا لڑائی والے  دن بھاگ کھڑا ہونا۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  اہل یمن کو ایک کتاب لکھوا کر بھجوائی جس میں فرائض اور سنن کی تفصیلات تھیں دیت یعنی جرمانوں کے  احکام تھے  اور یہ کتاب حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  ہاتھ اہل یمن کو بھجوائی گئی تھی اس کتاب میں یہ بھی تھا کہ قیامت کے  دن تمام کبیرہ گناہوں میں سب سے  بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے  کہ انسان اللہ کے  ساتھ کسی کو شریک کرے  اور ایماندار شخص کا قتل بغیر حق کے  اور اللہ کی راہ میں جہاد کے  میدان میں جا کر لڑتے  ہوئے  نامردی سے  جان بچانے  کی خاطر بھاگ کھڑا ہونا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور نا کردہ گناہ عورتوں پر الزام لگانا اور جادو سیکھنا اور سود کھانا اور مال یتیم برباد کرنا۔ ایک اور روایت میں کبیرہ گناہوں کے  بیان میں جھوٹی بات یا جھوٹی شہادت بھی ہے  اور حدیث میں ہے  کہ کبیرہ گناہوں کے  بیان کے  وقت آپ ٹیک لگا کر بیٹھے  ہوئے  تھے  لیکن جب یہ بیان فرمایا کہ جھوٹی گواہی اور جھوٹی بات اس وقت آپ تکیے  سے  ہٹ گئے  اور بڑے  زور سے  اس بات کو بیان فرمایا اور بار بار اسی کو دہراتے  رہے  یہاں تک کہ ہم نے  دل میں سوچا کاش اب آپ نہ دہرائیں ۔ بخاری مسلم میں ہے  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کونسا گناہ سب سے  بڑا ہے ؟ آپ نے  فرمایا کہ تو اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک کرے  یہ جانتے  ہوئے  کہ تجھے  صرف اسی نے  پیدا کیا ہے ؟ میں نے  پوچھا اس کے  بعد؟ فرمایا یہ کہ تو اپنے  بچے  کو اس ڈر سے  قتل کر دے  کہ وہ تیرے  ساتھ کھائے  گا، میں نے  پوچھا پھر کونسا گناہ بڑا ہے ؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے  بدکاری کرے  پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہ (آیت والذین لا یدعون مع اللہ الہا اخر، الا من تاب) تک پڑھی ابن ابی حاتم میں ہے  کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد الحرام میں حطیم کے  اندر بیٹھے  ہوئے  تھے  جو ایک شخص نے  شراب کے  بارے  میں سوال کیا تو آپ نے  فرمایا مجھ جیسا بوڑھا بڑی عمر کا آدمی اس جگہ بیٹھ کر اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ نہیں  بول سکتا شراب کا پینا تمام گناہوں سے  بڑا گناہ ہے ؟ یہ کام تمام خباثتوں کی ماں ہے  شرابی تارک نماز ہوتا ہے  وہ اپنی ماں اور خالہ اور پھوپھی سے  بھی بدکاری کرنے  سے  نہیں  چوکتا یہ حدیث غریب ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے  بہت سے  صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک مرتبہ ایک مجلس میں بیٹھے  ہوئے  تھے  وہاں کبیرہ گناہوں کا ذکر نکلا کہ سب سے  بڑا گناہ کیا ہے ؟ تو کسی کے  پاس مصدقہ جواب نہ تھا اس لئے  انہوں نے  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ کو بھیجا کہ تم جا کر حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  دریافت کر آؤ میں گیا تو انہوں نے  جواب دیا کہ سب سے  بڑا گناہ شراب پینا ہے  میں نے  واپس آ کر اس مجلس میں یہ جواب سنا دیا اس پر اہل مجلس کو تسکین نہ ہوئی اور سب حضرات اٹھ کر حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  گھر چلے  اور خود ان سے  دریافت کیا تو انہوں نے  بیان کیا کہ لوگوں نے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  ایک واقعہ بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے  بادشاہوں میں سے  ایک نے  ایک شخص کو گرفتار کیا پھر اس سے  کہا کہ یا تو تو اپنی جان سے  ہاتھ دھو ڈال یا ان کاموں میں سے  کسی ایک کو کر یعنی یا تو شراب پی یا خون ناحق کر یا زنا کر یا سور کا گوشت کھا اس غور و تفکر کے  بعد اس نے  جان جانے  کے  ڈر سے  شراب کو ہلکی چیز سمجھ کر پینا منظور کر لیا جب شراب پی لی تو پھر نشہ میں وہ ان تمام کاموں کو کر گزرا جن سے  وہ پہلے  رکا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہ واقعہ گوش گزار فرما کر ہم سے  فرمایا جو شخص شراب پیتا ہے  اللہ تعالیٰ اس کی نمازیں چالیس رات تک قبول نہیں  فرماتا اور جو شراب پینے  کی عادت میں ہی مرجائے  اور اس کے  مثانہ میں تھوڑی سی شراب ہو اس پر اللہ جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔ اگر شراب پینے  کے  بعد چالیس راتوں کے  اندر اندر مرے  تو اس کی موت جاہلیت کی موتی ہوتی ہے، یہ حدیث غریب ہے، ایک اور حدیث میں جھوٹی قسم کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا ہے  (بخاری وغیرہ) ابن ابی حاتم میں جھوٹی قسم کے  بیان کے  بعد یہ فرمان بھی ہے  کہ جو شخص اللہ کی قسم کھا کر کوئی بات کہے  اور اس نے  مچھر کے  پر برابر زیادتی کی اس کے  دل میں ایک سیاہ داغ ہو جاتا ہے  جو قیامت تک باقی رہتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ انسان کا اپنے  ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے  لوگوں نے  پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے  ماں باپ کو کیسے  گالی دے  گا؟ آپ نے  فرمایا اس طرح کہ اس نے  دوسرے  کے  باپ کو گالی دی اس نے  اس کے  باپ کو اس نے  اس کی ماں کو برا کہا اس نے  اس کی ماں کو۔ بخاری شریف میں ہے  سب سے  بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے  کہ آدمی اپنے  ماں باپ پر لعنت کرے  لوگوں نے  کہا یہ کیسے  ہو سکتا ہے  فرمایا دوسرے  کے  ماں باپ کو کہہ کر اپنے  ماں باپ کو کہلوانا۔ صحیح حدیث میں ہے  مسلمان کو گالی دینا فاسق بنا دیتا ہے  اور اسے  قتل کرنا کفر ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ اکبر الکبائر یعنی تمام کبیرہ گناہوں میں بڑا گناہ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے  اور ایک گالی کے  بدلے  دو گالیاں دینا ہے ۔ ترمذی میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جس شخص نے  دو نمازوں کو عذر کے  بغیر جمع کیا وہ کبیرہ گناہوں کے  دروازوں میں سے  ایک دروازے  میں گھسا۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب جو ہمارے  سامنے  پڑھی گئی اس میں یہ بھی تھا کہ دو نمازوں کو بغیر شرعی عذر کے  جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے، اور لڑائی کے  میدان سے  بھاگ کھڑا ہونا اور لوٹ کھسوٹ کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے، الغرض ظہر عصر یا مغرب عشاء پہلے  وقت یا پچھلے  وقت بغیر کسی شرعی رخصت کے  جمع کر کے  پڑھنا کبیرہ گناہ ہے ۔ پھر جو شخص کہ بالکل ہی نہ پڑھے  اس کے  گناہ کا تو کیا ٹھکانہ ہے ؟ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے  کہ بندے  اور شرک کے  درمیان نماز کا چھوڑ دینا ہے، سنن کی ایک حدیث میں ہے  کہ ہم میں اور کافر میں فرق کرنے  والی چیز نماز کا چھوڑ دینا ہے، جس نے  اسے  چھوڑا اس نے  کفر کیا اور روایت میں آپ کا یہ فرمان بھی منقول ہے  کہ جس نے  عصر کی نماز ترک کر دی اس کے  اعمال غارت ہوئے  اور حدیث میں ہے  جس سے  عصر کی نماز فوت ہوئی گویا اس کا مال اس کا اہل و عیال بھی ہلاک ہو گئے، ابن ابی حاتم میں ہے  کہ ایک شخص نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا کہ کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں ؟ آپ نے  فرمایا اللہ کے  ساتھ شرک کرنا، اللہ کی نعمت اور اس کی رحمت سے  ناامید ہونا اور اس خفیہ تدبیروں سے  بے  خوف ہو جانا اور یہ سب سے  بڑا گناہ ہے  اسی کے  مثل ایک روایت اور بھی بزار میں مروی ہے  لیکن زیادہ ٹھیک یہ ہے  کہ وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر موقوف ہے، ابن مردویہ میں ہے  حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  سب سے  کبیرہ گناہ اللہ عزوجل کے  ساتھ بدگمانی کرنا ہے، یہ روایت بہت ہی غریب ہے، پہلے  وہ حدیث بھی گزرچکی ہے  جس میں ہجرت کے  بعد کفرستان میں آ کر بسنے  کو بھی کبیرہ گناہ فرمایا ہے، یہ حدیث ابن مردویہ میں ہے، سات کبیرہ گناہوں میں اسے  بھی گنا گیا ہے  لیکن اس کی اسناد میں اختلاف ہے  اور اسے  مرفوع کہنا بالکل غلط ہے  ٹھیک بات وہی ہے  جو تفسیر ابن جریر میں مروی ہے  کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفے  کی مسجد میں ایک مرتبہ منبر پر کھڑے  ہو کر لوگوں کو خطبہ سنا رہے  تھے  جس میں فرمایا لوگو کبیرہ گناہ سات ہیں  اسے  سن کر لوگ چیخ اٹھے  آپ نے  اسی کو پھر دوہرایا پھر دوہرایا پھر فرمایا تم مجھ سے  ان کی تفصیل کیوں نہیں  پوچھتے ؟ لوگوں نے  کہا امیر المومنین فرمائیے  وہ کیا ہیں ؟ آپ نے  فرمایا اللہ کے  ساتھ شرک کرنا جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے  حرام کیا ہے  اسے  مار ڈالنا پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانا یتیم کا مال کھانا سود خوری کرنا لڑائی کے  دن پیٹھ دکھانا اور ہجرت کے  بعد پھر دارالکفر میں آبسنا۔ راوی حدیث حضرت محمد بن سہل رحمۃ اللہ علیہ نے  اپنے  والد حضرت سہل بن خیثمہ رحمۃ اللہ علیہ سے  پوچھا کہ اسے  کبیرہ گناہوں میں کیسے  داخل کیا تو جواب ملا کہ پیارے  بچے  اس سے  بڑھ کر ستم کیا ہو گا؟ کہ ایک شخص ہجرت کر کے  مسلمانوں میں ملے  مال غنیمت میں اس کا حصہ مقرر ہو جائے  مجاہدین میں اس کا نام درج کر دیا جائے  پھر وہ ان تمام چیزوں کو چھوڑ کر اعرابی بن جائے  اور دارالکفر میں چلا جائے  اور جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے، مسند احمد میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  حجۃ الوداع کے  خطبہ میں فرمایا خبردار خبردار اللہ کے  ساتھ کسی کو شریک نہ کرو خون ناحق سے  بچو (ہاں شرعی اجازت اور چیز ہے) زنا کاری نہ کرو چوری نہ کرو۔ وہ حدیث پہلے  گزرچکی ہے  جس میں ہے  کہ وصیت کرنے  میں کسی کو نقصان پہنچانا بھی کبیرہ گناہ ہے  ابن جریر میں ہے  کہ صحابہ نے  ایک مرتبہ کبیرہ گناہوں کو دہرایا کہ اللہ کے  ساتھ شریک کرنا یتیم کا مال کھانا لڑائی سے  بھاگ کھڑا ہونا، پاکدامن بے  گناہ عورتوں پر تہمت لگانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، خیانت کرنا، جادو کرنا، سود کھانا یہ سب کبیرہ گناہ ہیں  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اور اس گناہ کو کیا کہو گے ؟ جو لوگ اللہ کے  عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچتے  پھرتے  ہیں  آخر آیت تک آپ نے  تلاوت کی۔ اس کی اسناد میں ضعف ہے  اور یہ حدیث حسن ہے، پس ان تمام احادیث میں کبیرہ گناہوں کا ذکر موجود ہے ۔ اب اس بارے  میں سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے  جو اقوال ہیں  وہ ملاحظہ ہوں، ابن جریر میں منقول ہے  چند لوگوں نے  مصر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  پوچھا کہ بہت سی باتیں کتاب اللہ میں ہم ایسی پاتے  ہیں  کہ جن پر ہمارا عمل نہیں  اس لئے  ہم امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  اس بارے  میں دریافت کرنا چاہتے  ہیں، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا انہیں  لے  کر مدینہ آئے  اپنے  والد سے  ملے  آپ نے  پوچھا کب آئے  ہو؟ جواب دیا کہ چند دن ہوئے ۔ پوچھا اجازت سے  آئے  ہو؟ اس کا بھی جواب دیا پھر اپنے  ساتھ آنے  والے  لوگوں کا ذکر اور مقصد بیان کیا آپ نے  فرمایا انہیں  جمع کرو سبھی کو ان کے  پاس لائے  اور ان میں سے  ہر ایک کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  پوچھا تجھے  اللہ اور اسلام حق کی قسم بتاؤ تم نے  پورا قرآن کریم پڑھا ہے ؟ اس نے  کہا ہاں فرمایا کیا تونے  اسے  اپنے  دل میں محفوظ کر لیا ہے  اس نے  کہا نہیں  اور اگر ہاں کہتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسے  کماحقہ دلائل سے  عاجز کر دیتے  پھر فرمایا کیا تم سب نے  قرآن حکیم کے  مفہوم کو نگاہوں میں زبان میں اور اعمال میں ڈھال لیا ہے  پھر ایک ایک سے  یہی سوال کیا پھر فرمایا تم عمر کو اس مشقت میں ڈالنا چاہتے  ہو کہ لوگوں کو بالکل کتاب اللہ کے  مطابق ہی ٹھیک ٹھاک کر دے، ہمارے  رب کو پہلے  سے  ہی ہماری خطاؤں کا علم تھا پھر آپ نے  آیت ان تجتنبوا الخ، کی تلاوت کی۔ پھر فرمایا کیا اہل مدینہ کو تمہارے  آنے  کا مقصد معلوم ہے ؟ انہوں نے  کہا نہیں  فرمایا اگر انہیں  بھی اس کا علم ہوتا تو مجھے  اس بارے  میں انہیں  بھی وعظ کرنا پڑتا۔ اس کی اسناد حسن ہے  اور متن بھی گو یہ روایت حسن کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  ہے  جس میں انقطاع ہے  لیکن پھر بھی اتنے  سے  نقصان پر اس کی پوری شہرت بھاری ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہی حضرت علی رضی  اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  کبیرہ گناہ یہ ہیں  اللہ کے  ساتھ شریک کرنا، کسی کو مار ڈالنا، یتیم کا مال کھانا، پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانا، لڑائی سے  بھاگ جانا، ہجرت کے  بعد دارالکفر میں قیام کر لینا، جادو کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، سود کھانا، جماعت سے  جدا ہونا، خرید و فروخت کا عہد توڑ دینا، پہلے  گزرچکا ہے  کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  بڑے  سے  بڑا گناہ اللہ کے  ساتھ شریک کرنا ہے  اور اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت سے  مایوس ہونا اور اللہ کی رحمت سے  ناامید ہونا ہے  اور اللہ عزوجل کی پوشیدہ تدبیروں سے  بے  خوف ہونا ہے ۔ ابن جریر میں آپ ہی سے  روایت ہے  کہ سورۃ نساء کی شروع آیت سے  لے  کر تیس آیتوں تک کبیرہ گناہ کا بیان ہے  پھر آپ نے (آیت ان تجتنبوا) کی تلاوت کی، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  کبیرہ گناہ اللہ کے  ساتھ شریک کرنا ماں باپ کو ناخوش کرنا آسودگی کے  بعد کے  بچے  ہوئے  پانی کو حاجت مندوں سے  روک رکھنا اپنے  پاس کے  نر جانور کو کسی کی مادہ کے  لئے  بغیر کچھ لئے  نہ دینا، بخاری و مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے  بچا ہوا پانی نہ روکا جائے  اور نہ بچی ہوئی گھاس روکی جائے، اور روایت میں ہے  تین قسم کے  گنہگاروں کی طرف قیامت کے  دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے  نہ دیکھے  گا اور نہ ہی ان کی فرد جرم ہٹائے  گا بلکہ ان کے  لئے  درد ناک عذاب ہیں  ایک وہ شخص جو جنگل میں بچے  ہوئے  پانی پر قبضہ کر کے  مسافروں کو اس سے  روکے ۔ مسند احمد میں ہے  جو شخص زائد پانی کو اور زائد گھاس کو روک رکھے  اللہ قیامت کے  دن اس پر اپنا فضل نہیں  کرے  گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں  کبیرہ گناہ وہ ہیں  جو عورتوں سے  بیعت لینے  کے  ذکر میں بیان ہوئے  ہیں  یعنی (آیت علی ان لا یشر کن باللہ شیأا الخ) میں ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو اللہ تعالیٰ کے  عظیم الشان احسانوں میں بیان فرماتے  ہیں  اور اس پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرماتے  ہیں  یعنی (آیت ان تجتنبوا) کو۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  سامنے  لوگوں نے  کہا کبیرہ گناہ سات ہیں  آپ نے  کئی کئی مرتبہ فرمایا سات ہیں، دوسری روایت میں ہے  آپ نے  فرمایا سات ہلکا درجہ ہے  ورنہ ستر ہیں، ایک اور شخص کے  کہنے  پر آپ نے  فرمایا وہ سات سو تک ہیں  اور سات بہت ہی قریب ہیں  ہاں یہ یاد رکھو کہ استغفار کے  بعد کبیرہ گناہ کبیرہ نہیں  رہتا اور اصرار اور تکرار سے  صغیرہ گناہ صغیرہ نہیں  رہتا، اور سند سے  مروی ہے  کہ آپ نے  فرمایا جس گناہ پر بھی جہنم کی وعید اللہ تعالیٰ کے  غضب لعنت یا عذاب کی ہے  وہ کبیرہ گناہ ہے  اور روایت میں ہے  جس کام سے  اللہ منع فرمادے  اس کا کرنا کبیرہ گناہ ہے  یعنی کام میں بھی اللہ عزوجل کی نافرمانی ہو وہ بڑا گناہ ہے  تابعین کے  اقوال بھی ملاحظہ ہوں، عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کبیرہ گناہ یہ ہیں  اللہ تعالیٰ کے  ساتھ شرک، قتل نفس بغیر حق، میدان جہاد میں پیٹھ پھیرنا، یتیم کا مال اڑانا، سود خوری، بہتان بازی، ہجرت کے  بعد وطن دوستی۔ راوی حدیث ابن عون نے  اپنے  استاد محمد سے  پوچھا کیا جادو کبیرہ گناہ میں نہیں ؟ فرمایا یہ بہتان میں آگیا، یہ لفظ بہت سی برائیوں پر مشتمل ہے، حضرت عبید بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ نے  کبیرہ گناہوں پر آیات قرآنی بھی تلاوت کر کے  سنائیں شرک پر (آیت ومن یشرک باللہ فکانما خر من السماء الخ،) یعنی اللہ کے  ساتھ شرک کرنے  والا گویا آسمان سے  گر پڑا اور اسے  پرندے  لپک لے  جائیں یا ہوا اسے  دور دراز نامعلوم اور بدترین جگہ پھینک دے ۔ یتیم کے  مال پر ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما الخ، یعنی جو لوگ ظلم سے  یتیموں کا مال ہڑپ کر لیتے  ہیں  وہ سب پیٹ میں جہنم کے  انگارے  بھرتے  ہیں ۔ سود خواری پر الذین یاکلون الربا الخ، یعنی جو لوگ سود خواری کرتے  ہیں  وہ قیامت کے  دن مخبوط الحواس اور پاگل بن کر کھڑے  ہوں گے ۔ بہتان پر والذین یرمون المحصنات الخ، جو لوگ پاکدامن بے  خبر باایمان عورتوں پر تہمت لگائیں ۔ میدان جنگ سے  بھاگنے  پر یاایہا الذین امنوا اذالقیتم الذین کفروا زحفا ایمان والو جب کافروں سے  مقابلہ ہو جائے  تو پیٹھ نہ دکھاؤ، ہجرت کے  بعد کفرستان میں قیام کرنے  پر ان الذین ارتدوا علی ادبار ہم یعنی لوگ ہدایت کے  بعد مرتد ہو جائیں، قتل مومن پر ومن یقتل مومنا متعمدا فجزا وہ جہنم خالد افیہا یعنی جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر مار ڈالے  اس کی سزا جہنم کا ابدی داخلہ ہے ۔ حضرت عطا رحمۃ اللہ علیہ سے  بھی کبیرہ گناہوں کا بیان موجود ہے  اور اس میں جھوٹی گواہی ہے، حضرت مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  یہ کہا جاتا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو برا کہنا بھی کبیرہ گناہ ہے ، میں کہتا ہوں علماء کی ایک جماعت نے  اسے  کافر کہا ہے  جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے  حضرت امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ سے  یہ مروی ہے، امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  میں یہ باور نہیں  کر سکتا کہ کسی کے  دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت ہو اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  دشمنی رکھے  (ترمذی) حضرت زید بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے  ہیں  کبائر یہ ہیں ۔ اللہ کے  ساتھ شرک کرنا اللہ کی آیتوں اور اس کے  رسولوں سے  کفر کرنا جادو کرنا اولاد کو مار ڈالنا اللہ تعالیٰ سے  اولاد اور بیوی کی نسبت دینا اور اسی جیسے  وہ اعمال اور وہ اقوال ہیں  جن کے  بعد کوئی نیکی قبول نہیں  ہوتی ہاں کی ایسے  گناہ ہیں  جن کے  ساتھ دین رہ سکتا ہے  اور عمل قبول کر سکتا ہے  ایسے  گناہوں کو نیکی کے  بدلے  اللہ عزوجل معاف فرما دیتا ہے، حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ۔ اللہ تعالیٰ نے  مغفرت کا وعدہ ان سے  کیا ہے  جو کبیرہ گناہوں سے  بچیں اور ہم سے  یہ بھی ذکر کیا گیا ہے  ۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا ہے  کہ کبیرہ گناہ سے  بچو ٹھیک ٹھاک اور درست رہو اور خوش خبری سنو۔ مسند عبدالرزاق میں بہ سند صحیح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  مروی ہے  کہ آپ نے  فرمایا میری شفاعت صرف متقیوں اور مومنوں کے  لئے  ؟ نہیں  نہیں  بلکہ وہ خطا کاروں اور گناہوں سے  آلودہ لوگوں کے  لئے  بھی ہے ۔ اب علماء کرام کے  اقوال سنئے  جن میں یہ بتایا گیا ہے  کہ کبیرہ گناہ کسے  کہتے  ہیں  بعض تو کہتے  ہیں  کبیرہ گناہ وہ ہے  جس پر حد شرعی ہو۔ بعض کہتے  ہیں  جس پر قرآن میں یا حدیث میں کسی سزاکا ذکر ہو۔ بعض کا قول ہے  جس سے  دین داری کم ہوتی ہو اور دیانت داری میں کمی واقع ہوتی ہو۔ قاضی ابو سعید ہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  جس کا حرام ہونا لفظوں سے  ثابت ہو اور جس نافرمانی پر کوئی حد ہو جیسے  قتل وغیرہ اسی طرح ہر فریضہ کا ترک اور جھوٹی گواہی اور جھوٹی روایت اور جھوٹی قسم۔ قاضی روبانی فرماتے  ہیں  کبائر ساتھ ہیں  بے  وجہ کسی کو مار ڈالنا، زنا، لواطت، شراب نوشی، چوری، غصب، تہمت اور ایک آٹھویں گواہی اور اسی کے  ساتھ یہ بھی شامل کئے  گئے  ہیں  سود خواری، رمضان کے  روزے  کا بلا عذر ترک کر دینا، جھوٹی قسم، قطع رحمی، ماں باپ کی نافرمانی، جہاد سے  بھاگنا، یتیم کا مال کھانا، ماپ تول میں خیانت کرنا نماز وقت سے  پہلے  یا وقت گزار کے  بے  عذر ادا کرنا، مسلمان کو بے  وجہ مارنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جان کر جھوٹ باندھنا آپ کے  صحابیوں کو گالی دینا اور قدرت کے  بھلی باتوں کا حکم نہ کرنا بری باتوں سے  نہ روکنا، قرآن سیکھ کر بھول جانا، جاندار چیز کو آگ سے  جلانا، عورت کا اپنے  خاوند کے  پاس بے  سبب نہ آنا، رب کی رحمت سے  ناامید ہو جانا، اللہ کے  مکر سے  بے  خوف ہو جانا، اہل علم اور عاملان قرآن کی برائیاں کرنا، ظہار کرنا، سور کا گوشت کھانا، مردار کھانا، ہاں اگر بوجہ ضرورت اور اضطراب کے  کھایا ہو تو ادویات کے  مصداق ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ان میں سے  بعض میں توقف کی گنجائش ہے ؟ کبائر کے  بارے  میں بزرگان دین نہ بہت سی کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں  ہمارے  شیخ حافظ ابو عبداللہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے  بھی ایک کتاب لکھی ہے  جس میں ستر کبیرہ گناہ گنوائے  ہیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ کبیرہ گناہ وہ ہے  جس پر شارع علیہ السلام نے  جہنم کی وعید سنائی ہے  ۔ اس قسم کے  گناہ ہی اگر گنے  جائیں تو بہت نکلیں گے  اور اگر کبیرہ گناہ ہر اس کام کو کہا جائے  جس سے  شارع علیہ السلام نے  روک دیا ہے  تو بہت ہی ہو جائیں گے  ۔ واللہ اعلم

۳۲

جائز رشک اور جواب با صواب

حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  ایک مرتبہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرد جہاد کرتے  ہیں  اور ہم عورتیں اس ثواب سے  محروم ہیں، اسی طرح میراث میں بھی ہمیں بہ نسبت مردوں کے  آدھا ملتا ہے  اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی) اور روایت میں ہے  کہ اس کے  بعد پھر (آیت انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر اوانثی الخ،) اتری۔ اور یہ بھی روایت میں ہے  کہ عورتوں نے  یہ آرزو کی تھی کہ کاش کہ ہم بھی مرد ہوتے  تو جہاد میں جاتے  اور روایت میں ہے  کہ ایک عورت نے  خدمت نبوی میں حاضر ہو کر کہا تھا کہ دیکھئے  مرد کو دو عورتوں کے  برابر حصہ ملتا ہے  دو عورتوں کی شہادت مثل ایک مرد کے  سمجھی جاتی ہے  گو پھر اس تناسب سے  عملاً ایک نیکی کی آدھی نیکی رہ جاتی ہے  اس پر یہ آیت نازل ہوئی، سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  مردوں نے  کہا تھا کہ جب دوہرے  حصے  کے  مالک ہم ہیں  تو دوہرا اجر بھی ہمیں نہیں  ملتا؟ اور عورتوں نے  درخواست کی تھی کہ جب ہم پر جہاد فرض ہی نہیں  ہمیں تو شہادت کا ثواب کیوں نہیں  ملتا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے  دونوں کو روکا اور حکم دیا کہ میرا فضل طلب کرتے  رہو۔ حضرت ابن عباس؟ سے  یہ مطلب بیان کیا گیا ہے  کہ انسان یہ آرزو نہ کرے  کہ کاش کہ فلاں کا مال اور اولاد میرا ہوتا؟ اس پر اس حدیث سے  کوئی اشکال ثابت نہیں  ہو سکتا جس میں ہے  کہ حسد کے  قابل صرف دو ہیں  ایک مالدار جو راہ اللہ اپنا مال لٹاتا ہے  اور دوسرا کہتا ہے  کاش کہ میرے  پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اسی طرح فی سبیل اللہ خرچ کرتا رہتا پس یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے  نزدیک اجر میں برابر ہیں  اس لئے  کہ یہ ممنوع نہیں  یعنی ایسی نیکی کی حرص بری نہیں  کسی نیک کام حاصل ہونے  کی تمنا یا حرص کرنا محمود ہے  اس کے  برعکس کسی کی چیز اپنے  قبضے  میں لینے  کی نیت کرنا ہر طرح مذموم ہے  جس طرح دینی فضیلت حاصل کرنے  کی حرض جائز رکھے  ہی اور دنیوی فضیلت کی تمنا ناجائز ہے  پھر فرمایا ہر ایک کو اس کے  عمل کا بدلہ ملے  گا خیر کے  بدلے  خیر اور شر کے  بدلے  شر اور یہ بھی مراد ہو سکتی ہے  کہ ہر ایک کو اس کے  حق کے  مطابق ورثہ دیا جاتا ہے ، پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ ہم سے  ہمارا فضل مانگتے  رہا کرو آپس میں ایک دوسرے  کی فضیلت کی تمنا بے  سود امر ہے  ہاں مجھ سے  میرا فضل طلب کرو تو میں بخیل نہیں  کریم ہوں وہاب ہوں دوں گا اور بہت کچھ دوں گا۔ جناب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  لوگو اللہ تعالیٰ سے  اس کا فضل طلب کرو اللہ سے  مانگنا اللہ کو بہت پسند ہے  یاد رکھو سب سے  اعلیٰ عبادت کشادگی اور وسعت و رحمت کا انتظار کرنا اور اس کی امید رکھنا ہیں  اللہ علیہم ہے  اسے  خوب معلوم ہے  کہ کون دئیے  جانے  کے  قابل ہے  اور کون فقیری کے  لائق ہے  اور کون آخرت کی نعمتوں کا مستحق ہے  اور کون وہاں کی رسوائیوں کا سزا وار ہے  اسے  اس کے  اسباب اور اسے  اس کے  وسائل وہ مہیا اور آسان کر دیتا ہے ۔

۳۳

مسئلہ وراثت میں موالی؟ وارث اور عصبہ کی وضاحت و اصلاحات

بہت سے  مفسرین سے  مروی ہے  کہ موالی سے  مراد وارث ہیں  بعض کہتے  ہیں  عصبہ مراد ہیں ؟ چچا کی اولاد کو بھی موالی کہا جاتا ہے  جیسے  حضرت فضل بن عباس کے  شعر میں ہے ۔ پس مطلب آیت کا یہ ہوا کہ اے  لوگو! تم میں سے  ہر ایک کے  لئے  ہم نے  عصبہ مقرر کر دئیے  ہیں  جو اس مال کے  وارث ہوں گے  جسے  ان کے  ماں باپ اور قرابتدار چھوڑ مریں اور تمہارے  منہ بولے  بھائی ہیں  تم جن کی قسمیں کھا کر بھائی بنے  ہو اور وہ تمہارے  بھائی بنے  ہیں  انہیں  ان کی میراث کا حصہ دو جیسے  کہ قسموں کے  وقت تم میں عہد و پیمان ہو چکا تھا، یہ حکم ابتدائے  اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا اور حکم ہوا کہ جن سے  عہد و پیمان ہوئے  وہ نبھائے  جائیں اور بھولے  نہ جائیں لیکن میراث انہیں  نہیں  ملے  گی صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ موالی سے  مراد وارث ہیں  اور بعد کے  جملہ سے  مراد یہ ہے  کہ مہاجرین جب مدینہ شریف میں تشریف لائے  تو یہ دستور تھا کہ ہر مہاجر اپنے  انصاری بھائی بند کا وارث ہوتا اس کے  ذو رحم رشتہ دار وارث نہ ہوتے  پس آیت نے  اس طریقے  کو منسوخ قرار دیا اور حکم ہوا کہ ان کی مدد کرو انہیں  فائدہ پہنچاؤ ان کی خیر خواہی کرو لیکن میراث انہیں  نہیں  ملے  گی ہاں وصیت کر جاؤ۔ قبل از اسلام یہ دستور تھا کہ دو شخصوں میں عہد و پیمان ہو جاتا تھا کہ میں تیرا وارث اور تو میرا وارث اسی طرح قبائل عرب عہد و پیمان کر لیتے  تھے  پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا جاہلیت کی قسمیں اور اس قسم کے  عہد اس آیت نے  منسوخ قرار دے  دیئے  اور فرمایا معاہدوں والوں کی بہ نسبت ذی رحم رشتہ دار کتاب اللہ کے  حکم سے  زیادہ ترجیح کے  مستحق ہیں ۔ ایک روایت میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  جاہلیت کی قسموں اور عہدوں کے  بارے  میں یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر مجھے  سرخ اونٹ دئیے  جائیں اور اس قسم کے  توڑنے  کو کہا جائے  جو دارالندوہ میں ہوئی تھی تو میں اسے  بھی پسند نہیں  کرتا، ابن جریر میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  میں اپنے  بچپنے  میں اپنے  ماموؤں کے  ساتھ حلف طیبین میں شامل تھا میں اس قسم کو سرخ اونٹوں کے  بدلے  بھی توڑنا پسند نہیں  کرتا پس یاد رہے  کہ قریش و انصار میں جو تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  قائم کیا تھا وہ صرف الفت و یگانگت پیدا کرنے  کے  لئے  تھا، لوگوں کے  سوال کے  جواب میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان مروی ہے  کہ جاہلیت کے  حلف نبھاؤ ۔ لیکن اب اسلام میں رسم حلف کالعدم قرار دے  دی گئی ہے  فتح مکہ والے  دن بھی آپ نے  کھڑے  ہو کر اپنے  خطبہ میں اسی بات کا اعلان فرمایا داؤد بن حصین رحمۃ اللہ علیہ کہتے  ہیں  میں حضرت ام سعد بنت ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  قرآن پڑھتا تھا میرے  ساتھ ان کے  پوتے  موسیٰ بن سعد بھی پڑھتے  تھے  جو حضرت ابوبکر کی گود میں یتیمی کے  ایام گزار رہے  تھے  میں نے  جب اس آیت میں عاقدت پڑھا تو مجھے  میری استانی جی نے  روکا اور فرمایا عقدت پڑھو اور یاد رکھو یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے  صاحبزادے  حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے  کہ عبدالرحمن اسلام کے  منکر تھے  حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  قسم کھا لی کہ انہیں  وارث نہ کریں گے  بالآ خر جب یہ مسلمانوں کے  بے  انتہاحسن اعمال سے  اسلام کی طرف آمادہ ہوئے  اور مسلمان ہو گئے  تو جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم ہوا کہ انہیں  ان کے  ورثے  کے  حصے  سے  محروم نہ فرمائیں لیکن یہ قوم غریب ہے  اور صحیح قول پہلا ہی ہے  الغرض اس آیت اور ان احادیث سے  ان کا قول رد ہوتا ہے  جو قسم اور وعدوں کی بنا پر آج بھی ورثہ پہنچنے  کے  قائل ہیں  جیسے  کہ امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے  ساتھیوں کا خیال ہے  اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے  بھی اس قسم کی ایک روایت ہے ۔ جسے  جمہور اور امام مالک اور امام شافعی سے  صحیح قرار دیا ہے  اور مشہور قول کی بنا پر امام احمد کا بھی اسے  صحیح مانتے  ہیں، پس آیت میں ارشاد ہے  کہ ہر شخص کے  وارث اس کے  قرابتی لوگ ہیں  اور کوئی نہیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے  رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  حصہ دار وارثوں کو ان کے  حصوں کے  مطابق دے  کر پھر جو بچ رہے  تو عصبہ کو ملے  اور وارث وہ ہیں  جن کا ذکر فرائض کی دو آیتوں میں ہے  اور جن سے  تم سے  مضبوط عہد و پیمان اور قسموں کا تبادلہ ہے  یعنی آس آیت کے  نازل ہونے  سے  پہلے  کے  وعدے  اور قسمیں ہوں خواہ اس آیت کے  اترنے  کے  بعد ہوں سب کا یہی حکم ہے  کہ ایسے  حلف برداروں کو میراث نہ ملے  اور بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا حصہ نصرت امداد خیر خواہی اور وصیت ہے  میراث نہیں  آپ فرماتے  ہیں  لوگ عہدو پیمان کر لیا کرتے  تھے  کہ ان میں سے  جو پہلے  مرے  گا بعد والا اس کا وارث بنے  گا پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے (آیت والو الارحام الخ) نازل فرما کر حکم دیا کہ ذی رحم محرم ایک سے  اولی ہے  البتہ اپنے  دوستوں کے  ساتھ حسن سلوک کرو یعنی اگر ان سے  مال کا تیسرا حصہ دینے  کی وصیت کر جاؤ تو جائز ہے  یہی معروف و مشہور امر اور بہت سے  سلف سے  بھی مروی ہے  کہ یہ آیت منسوخ ہے  اور ناسخ (آیت اولو الارحام) والی ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  انہیں  ان کا حصہ دو یعنی میراث۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  ایک صاحب کو اپنا بیٹا بناتے  تھے  اور انہیں  اپنی جائیداد کا جائز وارث قرار دیتے  تھے  پس اللہ تعالیٰ نے  ان کا حصہ وصیت میں تو برقرار رکھا میراث کا مستحق موالی یعنی ذی رحم محرم رشتہ داروں اور عصبہ کو قرار دے  دیا اور سابقہ رسم کو ناپسند فرمایا کہ صرف زبانی دعوؤں اور بنائے  ہوئے  بیٹوں کو ورثہ نہ دیا جائے  ہاں ان کے  لئے  وصیت میں سے  دے  سکتے  ہو۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  میرے  نزدیک مختار قول یہ ہے  کہ انہیں  حصہ دو یعنی نصرت نصیحت اور معونت کا یہ نہیں  کہ انہیں  ان کے  ورثہ کا حصہ دو تو یہ معنی کرنے  سے  پھر آیت کو منسوخ بتلانے  کی وجہ باقی نہیں  رہتی نہ یہ کہنا پڑتا ہے  کہ یہ حکم پہلے  تھا اب نہیں  رہا۔ بلکہ آیت کی دلالت صرف اسی امر پر ہے  کہ جو عہد و پیمان آپس میں امداد و اعانت کے  خیر خواہی اور بھلائی کے  ہوتے  تھے  انہیں  وفا کرو پس یہ آیت محکم اور غیر منسوخ ہے  لیکن امام صاحب کے  قول میں ذرا اشکال سے  اس لئے  کہ اس میں تو شک نہیں  کہ بعض عہد و پیمان صرف نصرت و امداد کے  ہی ہوتے  تھے  لیکن اس میں بھی شک نہیں  کہ بعض عہد و پیمان ورثے  کے  بھی ہوتے  تھے  جیسے  کہ بہت سے  سلف صالحین سے  مروی ہے  اور جیسے  کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر بھی منقولی ہیں ۔ جس میں انہوں نے  صاف فرمایا ہے  کہ مہاجر انصار کا وارث ہوتا تھا اس کے  قرابتی لوگ وارث نہیں  ہوتے  تھے  نہ ذی رحم رشتہ دار وارث ہوتے  تھے  یہاں تک کہ یہ منسوخ ہو گیا پھر امام صاحب کیسے  فرما سکتے  ہیں  کہ یہ آیت محکم اور غیر محکم منسوخ ہے  واللہ تعالیٰ اعلم۔

۳۴

مرد عورتوں سے افضل کیوں ؟

جناب باری ارشاد فرماتا ہے  کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے  ہر طرح سے  اس کا محافظ و معاون ہے  اسی لئے  کہ مرد عورتوں سے  افضل ہیں  یہی وجہ ہے  کہ نبوۃ ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  وہ لوگ کبھی نجات نہیں  پاسکتے  جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں ۔ (بخاری) اسی طرح ہر طرح کا منصب قضا وغیرہ بھی مردوں کے  لائق ہی ہیں ۔ دوسری وجہ افضیلت کی یہ ہے  کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے  ہیں  جو کتاب و سنت سے  ان کے  ذمہ ہے  مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے  اور بہ اعتبار نفع کے  اور حاجت براری کے  بھی اس کا درجہ بڑا ہے ۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے  اور جگہ فرمان ہے (آیت وللرجال علیھن درجۃ الخ،) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  مطلب یہ ہے  کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے  گی اس کے  بال بچوں کی نگہداشت اس کے  مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے  ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ایک عورت نے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  سامنے  اپنے  خاوند کی شکایت کی کہ ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے  ہوئے  حاضر خدمت ہوئے  اس عورت نے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے  اس خاوند نے  مجھے  تھپڑ مارا ہے ۔ پس آپ نے  بدلہ لینے  کا حکم دیا ہی تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا ایک اور روایت کہ ایک انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے  ہوئے  حاضر خدمت ہوئے  اس عورت نے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے  اس خاوند نے  مجھے  تھپڑ مارا جس کا نشان اب تک میرے  چہرے  پر موجود ہے  آپ نے  فرمایا اسے  حق نہ تھا وہیں  یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے  کے  لئے  مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ تو آپ نے  فرمایا میں نے  اور چاہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے  اور چاہا ۔ شعبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  مال خرچ کرنے  سے  مراد مہر کا ادا کرنا ہے  دیکھو اگر مرد عورت پر زنا کاری کی تہمت لگائے  تو لعان کا حکم ہے  اور اگر عورت اپنے  مرد کی نسبت یہ بات کہے  اور ثابت نہ کر سکے  تو اسے  کوڑے  لگیں گے ۔ پس عورتوں میں سے  نیک نفس وہ ہیں  جو اپنے  خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے  نفس اور خاوند کے  مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے  خود اللہ تعالیٰ سے  محفوظ رکھنے  کا حکم دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  بہتر عورت وہ ہے  کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے  وہ اسے  خوش کر دے  اور جب حکم دے  بجا لائے  اور جب کہیں  باہر جائے  تو اپنے  نفس کو برائی سے  محفوظ رکھے  اور اپنے  خاوند کے  مال کی محافظت کرے  پھر آپ نے  اس آیت کی تلاوت فرمائی مسند احمد میں ہے  کہ آپ نے  اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے  رمضان کے  روزے  رکھے  اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے  اپنے  خاوند کی فرمانبرداری کرے  اس سے  کہا جائے  گا کہ جنت کے  جس دروازے  سے  تو چاہے  جنت میں چلی جا، پھر فرمایا جن عورتوں کی سرکشی سے  ڈرو یعنی جو تم سے  بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بے  پرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے  تو اسے  زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے  کہو کہ دیکھو خاوند کے  اتنے  حقوق ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم کر سکتا کہ وہ ماسوائے  اللہ تعالیٰ کے  دوسرے  کو سجدہ کرے  تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے  خاوند کو سجدہ کرے ۔ وہ اپنے  شوہر کو سجدہ کرے  کیونکہ سب سے  بڑا حق اس پر اسی کا ہے  بخاری شریف میں ہے  کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے  بسترے  پر بلائے  اور وہ انکار کر دے  تو صبح تک فرشتے  اس پر لعنت بھیجتے  رہتے  ہیں  صحیح مسلم میں ہے ۔ کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے  خاوند کے  بستر کو چھوڑے  رہے  تو صبح تک اللہ کی رحمت کے  فرشتے  اس پر لعنتیں نازل کرتے  رہتے  ہیں ، تو یہاں ارشاد فرماتا ہے  کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے  تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے  الگ کرو، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  یعنی سلائے  تو بستر ہی پر مگر خود اس سے  کروٹ موڑ لے  اور مجامعت نہ کرے ، بات چیت اور کلام بھی ترک کر سکتا ہے  اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے ، بعض مفسرین فرماتے  ہیں  ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سوال ہوتا ہے  کہ عورت کا حق اس کے  میاں پر کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے  بھی کھلا جب تو پہن تو اسے  بھی پہنا اس کے  منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے  اور گھر سے  الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے  بطور سزا بات چیت ترک کرے  تو بھی اسے  گھر سے  نہ نکال پھر فرمایا اس سے  بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں  اجازت ہے  کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے  بھی راہ راست پر لاؤ۔ صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  حجۃ الوداع کے  خطبہ میں ہے  کہ عورتوں کے  بارے  میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے  ڈرتے  رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں  تمہارا حق ان پر یہ ہے  کہ جس کے  آنے  جانے  سے  تم خفا ہو اسے  نہ آنے  دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں  یونہی سے  تنبیہ بھی تم کر سکتے  ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں  مار سکتے  تم پر ان کا حق یہ ہے  کہ انہیں  کھلاتے  پلاتے  پہناتے  اڑھاتے  رہو۔ پس ایسی مار نہ مارنی چاہیے  جس کا نشان باقی رہے  جس سے  کوئی عضو ٹوٹ جائے  یا کوئی زخم آئے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے  تو فدیہ لو اور طلاق دے  دو۔ ایک حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں  اس کے  بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے  اور عرض کرنے  لگے  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عورتیں آپ کے  اس حکم کو سن کر  بہت سی عورتیں شکایتیں لے  کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس آئیں تو آپ نے  لوگوں سے  فرمایا سنو میرے  پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے  جو اپنی عورتوں کو زدو کوب کرتے  ہیں  وہ اچھے  آدمی نہیں  (ابو داؤد وغیرہ) حضرت اشعث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ایک مرتبہ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہو گئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے  فرمانے  لگے  اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سن کر یاد رکھی ہیں  ایک تو یہ کہ مرد سے  یہ نہ پوچھا جائے  گا کہ اس نے  اپنی عورت کو کس بنا پر مارا؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے  بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے  ذہن سے  نکل گئی (نسائی) پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے ۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے  قصور سرزد ہوئے  بغیر یا قصور کے  بعد ٹھیک ہو جانے  کے  باوجود بھی تم نے  انہیں  ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے  کے  لئے  اللہ تعالیٰ ہے  اور یقیناً وہ بہت زرو اور زبردست ہے ۔

۳۵

میاں بیوی مصالحت کی کوشش اور اصلاح کے اصول

اوپر اس صورت کو بیان فرمایا کہ اگر نافرمانی اور کج بحثی عورتوں کی جانب سے  ہو اب یہاں اس صورت کا بیان ہو رہا ہے  اگر دونوں ایک دوسرے  سے  نالاں ہوں تو کیا کیا جائے ؟ پس علماء کرام فرماتے  ہیں  کہ ایسی حالت میں حاکم ثقہ سمجھدار شخص کو مقرر کرے  جو یہ دیکھے  کہ ظلم و ذیادتی کس طرح سے  ہے ؟ اس ظالم کو ظلم سے  روکے، اگر اس پر بھی کوئی بہتری کی صورت نہ نکلے  تو عورت والوں میں سے  ایک اس کی طرف سے  اور مرد والوں میں سے  ایک بہتر شخص اسکی جانب سے  منصب مقرر کر دے  اور دونوں مل کر تحقیقات کریں اور جس امر میں مصلحت سمجھیں اس کا فیصلہ کر دیں یعنی خواہ الگ کرا دیں خواہ میل ملاپ کرا دیں لیکن شارع نے  تو اسی امر کی طرف ترغیب دلائی ہے  کہ جہاں تک ہو سکے  کوشش کریں کہ کوئی شکل نباہ کی نکل آئے ۔ اگر ان دونوں کی تحقیق میں خاوند کی طرف سے  برائی بہت ہو تو اس کی عورت کو اس سے  الگ کر لیں اور اسے  مجبور کریں گے  کہ اپنی عادت ٹھیک ہونے  تک اس سے  الگ رہے  اور اس کے  خرچ اخراجات ادا کرتا رہے  اور اگر شرارت عورت کی طرف سے  ثابت ہو تو اسے  نان نفقہ نہیں  دلائیں اور خاوند سے  ہنسی خوشی بسر کرنے  پر مجبور کریں گے ۔ اسی طرح اگر وہ طلاق کا فیصلہ دیں تو خاوند کو طلاق دینی پڑے  گی اگر وہ آپس میں بسنے  کا فیصلہ کریں تو بھی انہیں  ماننا پڑے  گا، بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  اگر دونوں پنچ اس امر پر متفق ہوں گئے  کہ انہیں  رضامندی کے  ساتھ ایک دوسرے  سے  اپنے  تعلقات نباہنے  چاہیں  اور اس فیصلہ کے  بعد ایک کا انتقال ہو گیا تو جو راضی تھا وہ اس کی جائیداد کا وارث بنے  گا لیکن جو ناراض تھا اسے  اس کا ورثہ نہیں  ملے  گا (ابن جریر) ایک ایسے  ہی جھگڑے  میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو منصف مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم ان میں میل ملاپ کرنا چاہو تو میل ہو گا اور اگر جدائی کرانا چاہو تو جدائی ہو جائے  گی۔ ایک روایت میں ہے  کہ عقیل بن ابو طالب نے  فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ نے  نکاح کیا تو اس نے  کہا تو وہ پوچھتی عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کہاں ہیں ؟ یہ فرماتے  تیری بائیں جانب جہنم میں اس پر وہ بگڑ کر اپنے  کپڑے  ٹھیک کر لیتیں ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  پاس آئیں اور واقعہ بیان کیا خلیفۃ المسلمین اس پر ہنسے  اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پنچ مقرر کیا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو فرماتے  تھے  ان دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے  لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  تھے  بنو عبد مناف میں یہ علیحدگی میں ناپسند کرتا ہوں، اب یہ دونوں حضرات حضرت عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  گھر آئے  دیکھا تو دروازہ بند ہے  اور دونوں میاں بیوی اندر ہیں  یہ دونوں لوٹ گئے  مسند عبدالرزاق میں ہے  کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خلافت کے  زمانے  میں ایک میاں بیوی اپنی ناچاقی کا جھگڑا لے  کر آئے  اس کے  ساتھ اس کی برادری کے  لوگ تھے  اور اس کے  ہمراہ اس کے  گھرانے  کے  لوگ بھی، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  دونوں جماعتوں میں سے  ایک ایک کو چنا اور انہیں  منصف مقرر کر دیا پھر دونوں پنچوں سے  کہا جانتے  بھی ہو تمہارا کام کیا ہے ؟ تمہارا منصب یہ ہے  کہ اگر چاہودونوں میں اتفاق کرا دو اور اگر چاہو تو الگ الگ کرا دو یہ سن کرعورت نے  تو کہا میں اللہ تعالیٰ کے  فیصلہ پر راضی ہوں خواہ ملاپ کی صورت میں ہو جدائی کی صورت میں مرد کہنے  لگا مجھے  جدائی نا منظور ہے  اس پر حضرت علی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا نہیں  نہیں  اللہ کی قسم تجھے  دونوں صورتیں منظور کرنی پڑیں گی۔ پس علماء کا اجماع ہے  کہ ایسی صورت میں ان دونوں منصفوں کو دونوں اختیار ہیں  یہاں تک کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کہ انہیں  اجتماع کا اختیار ہے  تفریق کا نہیں، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے  بھی یہی قول مروی ہے، ہاں احمد ابو ثور اور داؤد کا بھی یہی مذہب ہے  ان کی دلیل (آیت ان یرید اصلاحاالخ،) والا جملہ ہے  کہ ان میں تفریق کا ذکر نہیں، ہاں اگر یہ دونوں دونوں جانب سے  وکیل ہیں  تو بیشک ان کا حکم جمع اور تفریق دونوں میں نافذ ہو گا اس میں کسی کو پھر یہ بھی خیال رہے  کہ یہ دونوں پنچ حاکم کی جانب سے  مقرر ہوں گے  اور فیصلہ کریں گے  چاہے  ان سے  فریقین ناراض ہوں یا یہ دونوں میاں بیوی کی طرف سے  ان کو بنائے  ہوئے  وکیل ہوں گے، جمہور کا مذہب تو پہلا ہے  اور دلیل یہ ہے  کہ ان کا نام قرآن حکیم نے  حکم رکھا ہے  اور حکم کے  فیصلے  سے  کوئی خوش یا ناخوش بہر صورت اس کا فیصلہ قطعی ہو گا آیت کے  ظاہری الفاظ بھی جمہور کے  ساتھ ہی ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا نیا قول یبھی یہی ہے  اور امام ابوحنیفہ اور ان کے  اصحاب کا بھی یہی قول ہے ، لیکن مخالف گروہ کہتا ہے  کہ اگر یہ حکم کی صورت میں ہوتے  تو پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خاوند کو کیوں فرماتے ؟ کہ جس طرح عورت نے  دونوں صورتوں کو ماننے  کا اقرار کیا ہے  اور اسی طرح تو بھی نہ مانے  تو تو جھوٹا ہے ۔ واللہ اعلم۔ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  علماء کرام کا اجماع ہے  کہ دونوں پنچوں کا قول جب مختلف ہو تو دوسرے  کے  قول کا کوئی اعتبار نہیں  اور اس امر پر بھی اجماع ہے  کہ یہ اتفاق کرانا چاہیں  تو ان کا فیصلہ نافذ ہے  ہاں اگر وہ جدائی کرانا چاہیں  تو بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے  یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے  لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے  کہ اس میں بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے  گو انہیں  وکیل نہ بنایا گیا ہو۔

۳۶

حقوق العباد اور حقوق اللہ

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی عبادت کا حکم دیتا ہے  اور اپنی توحید کے  ماننے  کو فرماتا ہے  اور اپنے  ساتھ کسی کو شریک کرنے  سے  روکتا ہے  اس لئے  کہ جب خالق رزاق نعمتیں دینے  والا تمام مخلوق پر ہر وقت اور ہر حال میں انعام کی بارش برسانے  والا صرف وہی ہے  تو لائق عبادت بھی صرف وہی ہوا۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت زیادہ جاننے  والے  ہیں  آپ نے  فرمایا یہ کہ وہ اسی کی عبادت کریں اسی کے  ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر فرمایا جانتے  ہو جب بندے  یہ کریں تو ان کا حق اللہ تعالیٰ کے  ذمہ کیا ہے  ؟ یہ کہ انہیں  وہ عذاب نہ کرے، پھر فرماتا ہے  ماں باپ کے  ساتھ احسان کرتے  رہو وہی تمہارے  عدم سے  وجود میں آنے  کا سبب بنے  ہیں ۔ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے  اپنی عبادت کے  ساتھ ہی ماں باپ سے  سلوک و احسان کرنے  کا حکم دیا ہے  جیسے  فرمایا (آیت ان اشکر لی ولو الدیک اور وقضی ربک ان لا تعبدو الا اباہ وبالوالدین احسانا) یہاں بھی یہ بیان فرما کر پھر حکم دیتا ہے  کہ اپنے  رشتہ داروں سے  بھی سلوک و احسان کرتے  رہو ۔ حدیث میں ہے  مسکین اور صدقہ دینا اور صلہ رحمی کرنا بھی، اسی حسن سلوک کی شاخ ہے  پھر حکم ہوتا ہے  کہ یتیموں کے  ساتھ بھی سلوک و احسان کرو اس لئے  کہ ان کی خبر گیری کرنے  والا ان کے  سر پر محبت سے  ہاتھ پھیرنے  والا ان کے  ناز، لاڈ اٹھانے  والا نہیں  محبت کے  ساتھ کھلانے  پلانے  والا ان کے  سر سے  اٹھ گیا ہے ۔ پھر مسکینوں کے  ساتھ نیکی کرنے  کا ارشاد کیا کہ وہ حاجت مند ہے  ہاتھ میں محتاج ہیں  ان کی ضرورتیں تم پوری کرو ان کی احتیاج تم رفع کرو ان کے  کام تم کر دیا کرو۔ فقیرو مسکین کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آئے  گا انشاء اللہ 

پڑوسیوں کے حقوق

اپنے  پڑوسیوں کا خیال رکھو ان ان کے  ساتھ بھی برتاؤ اور نیک سلوک رکھو خواہ وہ قرابت دار ہوں یا نہ ہو، خواہ مسلمان یا یہودو نصرانی ہوں یہ بھی کہا گیا ہے  کہ جارذی القربی سے  مراد بیوی ہے  اور جار الجنت سے  مراد مرد رفیق سفر ہے، پڑوسیوں کے  حق میں بہت سی حدیثیں آئی ہیں  کچھ سن لیجئے ۔ مسند احمد میں بیان ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  مجھے  حضرت جبرئیل پڑوسیوں کے  بارے  میں یہاں تک وصیت و نصیحت کرتے  ہیں  کہ مجھے  گمان ہوا کہ شاید یہ پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے، فرماتے  ہیں  بہتر ساتھی اللہ کے  نزدیک وہ ہے  جو اپنے  ہمراہیوں کے  ساتھ خوش سلوک زیادہ ہو اور پڑوسیوں کو وارث بنا دیں گے، فرماتے  ہیں  بہتر ساتھی اللہ کے  نزدیک وہ ہے  جو ہمسایوں سے  نیک سلوک میں زیادہ ہو، فرماتے  ہیں  انسان جو نہ چاہیے  کہ اپنے  پڑوسی کی آسودگی بغیر خود شکم سیر ہو جائے ۔ ایک مرتبہ آپ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  سوال کیا زنا کے  بارے  میں تم کیا کہتے  ہو ؟ لوگوں نے  کہا وہ حرام ہے  اللہ نے  اور اس کے  رسول سے  اسے  حرام کیا ہے  اور قیامت تک وہ حرام ہی رہے  گا، آپ نے  فرمایا سنو دس عورتوں سے  زناکاری کرنے  والا اس شخص کے  گناہ سے  کم گنہگار ہے  جو اپنے  پڑوسی کی عورت سے  زنا کرے  پھر دریافت فرمایا تم چوری کی نسبت کیا کہتے  ہو؟ انہوں نے  جواب دیا کہ اسے  بھی اللہ تعالیٰ نے  اس کے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  حرام کیا ہے  اور وہ بھی قیامت تک حرام ہے  آپ نے  فرمایا سنو دس گھروں سے  چوری کرنے  والے  گناہ کا اس شخص کے  گناہ سے  ہلکا ہے  جو اپنے  پڑوسی کے  گھر سے  کچھ چرائے، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے  حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سوال کرتے  ہیں  کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکون سا گناہ سب سے  بڑا ہے ؟ آپ نے  فرمایا یہ کہ تو اللہ کے  ساتھ شریک ٹھہرائے  حالانکہ اسی ایک نے  تجھے  پیدا کیا ہے  میں نے  پوچھا پھر کونسا؟ فرمایا یہ کہ تو اپنی پڑوسن سے  زناکاری کرے ۔ ایک انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے  کے  لئے  گھر سے  چلا وہاں پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب کھڑے  ہیں  اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کی طرف متوجہ ہیں  میں نے  خیال کیا کہ شاید انہیں  آپ سے  کچھ کام ہو گا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے  ہیں  اور ان سے  باتیں ہو رہی ہیں  بڑی دیر ہو گئی یہاں تک کہ مجھے  آپ کے  تھک جانے  کے  خیال نے  بے  چین کر دیا بہت دیر کے  بعد آپ لوٹے  اور میرے  پاس آئے  میں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم نے  انہیں  دیکھا میں نے  کہا ہاں خوب اچھی طرح دیکھا فرمایا جانتے  ہو وہ کون تھے ؟ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے  مجھے  پڑوسیوں کے  حقوق کی تاکید کرتے  رہے  یہاں تک ان کے  حقوق بیان کئے  کہ مجھے  کھٹکا ہوا کہ غالباً آج تو پڑوسی کو وارث ٹھہرا دیں گے  (مسند احمد) مسند عبد بن حمید میں ہے  حضرت جابر بن عبد اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  ایک شخص عوالی مدینہ سے  آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت جبرئیل علیہ الصلوٰۃ والسلام اس جگہ نماز پڑھ رہے  تھے  جہاں جنازوں کی نماز پڑھی جاتی ہے  جب آپ فارغ ہوئے  تو اس شخص نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  ساتھ یہ دوسرا شخص کون نماز پڑھ رہا تھا آپ نے  فرمایا تم نے  انہیں  دیکھا؟ اس نے  کہا ہاں فرمایا تو نے  بہت بڑی بھلائی دیکھی یہ جبرئیل تھے  مجھے  پڑوسی کے  بارے  میں وصیت کرتے  رہے  یہاں تک کہ میں نے  دیکھا کہ عنقریب اسے  وارث بنا دیں گے  آٹھویں حدیث بزار میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا پڑوسی تین قسم کے  ہیں  ایک حق والے  یعنی ادنی، دو حق والے  اور تین حق والے  یعنی اعلیٰ، ایک حق والا وہ ہے  جو مشرک ہو اور اس سے  رشتہ داری نہ ہو، دو حق والا وہ ہے  جو مسلمان ہو اور رشتہ دار نہ ہو، ایک حق اسلام دوسرا حق پڑوس، تین حق والا وہ ہے  جو مسلمان بھی ہو پڑوسی بھی ہو اور رشتے  ناتے  کا بھی ہو تو حق اسلام کا حق ہمسائیگی حق صلہ رحمی تین تین حق اس کے  ہو گئے ۔ حدیث مسند احمد میں ہے  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  دریافت کیا کہ میرے  دو پڑوسی ہیں  میں ایک کو ہدیہ بھیجنا چاہتی ہوں تو کسے  بھیجواؤں ؟ آپ نے  فرمایا جس کا دروازہ قریب ہو۔ دسویں حدیث طبرانی میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  وضو کیا لوگوں نے  آپ کے  وضو کے  پانی کو لینا اور ملنا شروع کیا آپ نے  پوچھا ایسا کیوں کرتے  ہو؟ انہوں نے  کہا اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت میں آپ نے  فرمایا جسے  یہ خوش لگے  کہ اللہ اور اس اس کا رسول اس سے  محبت کریں تو اسے  چاہئے  کہ جب بات کرے  سچ کرے  اور جب امانت دیا جائے  تو ادا کرے ۔ (تفسیر ابن کثیر میں یہ حدیث یہیں  پر ختم ہے  لیکن شاید اگلا جملہ اس کا سہوا رہ گیا ہے  جس کا صحیح تعلق اس مسئلہ سے  ہے  وہ یہ کہ اسے  چاہیے  پڑوسی کے  ساتھ سلوک و احسان کرے ۔ مترجم) گیارھویں حدیث مسند احمد میں ہے  کہ قیامت کے  دن سب سے  پہلے  جو جھگڑا اللہ کے  سامنے  پیش ہو گا وہ دو پڑوسیوں کا ہو گا۔ پھر حکم ہوتا ہے  صاحب بالجنت کے  ساتھ سلوک کرنے  کا۔ اس سے  مراد بہت سے  مفسرین کے  نزدیک عورت ہے  اور بہت سے  فرماتے  ہیں  مراد سفر کا ساتھی ہے  اور یہ بھی مروی ہے  کہ اس سے  مراد دوست اور ساتھی ہے  عام اس سے  کہ سفر میں وہ یا قیام کی حالت میں ابن سبیل سے  مراد مہمان ہے  اور یہ بھی جو سفر میں کہیں  ٹھہر گیا ہو اگر مہمان بھی یہاں مراد لی جائے  کہ سفر میں جاتے  جاتے  مہمان بنا تو دونوں ایک ہو گئے، اس کا پورا بیان سورۃ براۃ کی تفسیر میں آ رہا ہے  انشاء اللہ تعالی۔ 

غلاموں کے بارے میں احکامات

پھر غلاموں کے  بارے  میں فرمایا جا رہا ہے  کہ ان کے  ساتھ بھی نیک سلوک رکھو اس لئے  کہ وہ غریب تمہارے  ہاتھوں اسیر ہے  اس پر تو تمہارا کامل اختیار ہے  تو تمہیں  چاہیے  کہ اس پر رحم کھاؤ اور اس کی ضرورت کا اپنے  امکان بھر خیال رکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو اپنے  آخری مرض الموت میں بھی اپنی امت کو اس کی وصیت فرما گئے  فرماتے  ہیں  لوگو نماز کا اور غلاموں کا خوب خیال رکھنا بار بار اسی کو فرماتے  رہے  یہاں تک کہ زبان رکنے  لگی مسند کی حدیث میں ہے  آپ فرماتے  ہیں  تو جو خود کھائے  وہ بھی صدقہ ہے  جو اپنے  بچوں کو کھلائے  وہ بھی صدقہ ہے  جو اپنی بیوی کھلائے  وہ بھی صدقہ ہے  جو اپنے  خادم کو کھلائے  وہ بھی صدقہ ہے  مسلم میں ہے  کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  ایک مرتبہ دراوغہ سے  فرمایا کہ کیا غلاموں کو تم نے  ان کی خوراک دے  دی ؟ اس نے  کہا اب تک نہیں  دی فرمایا جاؤ دے  کر آؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا ہے  انسان کو یہی گناہ کافی ہے  کہ جن کی خوراک کا وہ مالک ہے  ان سے  روک رکھے، مسلم میں ہے  مملوکہ ماتحت کا حق ہے  کہ اسے  کھلایا پلایا پہنایا اڑھایا جائے  اور اس کی طاقت سے  زیادہ کام اس سے  نہ لیا جائے ، بخاری شریف میں ہے  جب تم میں سے  کسی کا خادم اس کا کھانا لے  کر آئے  تو تمہیں  چاہیے  کہ اگر ساتھ بٹھا کر نہیں  کھلاتے  تو کم از کم اسے  لقمہ دو لقمہ دے  دو خیال کرو کہ اس نے  پکانے  کی گرمی اور تکلیف اٹھائی ہے  اور روایت میں ہے  کہ چاہیے  تو یہ کہ اسے  اپنے  ساتھ بٹھا کر کھلائے  اور اگر کھانا کم ہو تو لقمہ دو لقمے  ہی دے  دیا کرو، آپ فرماتے  ہیں  تمہارے  غلام بھی تمہارے  بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے  انہیں  تمہارے  ماتحت کر دیا ہے  پس جس کے  ہاتھ تلے  اس کا بھائی ہو اسے  اپنے  کھانے  سے  کھلائے  اور اپنے  پہننے  میں سے  پہنائے  اور ایسا کام نہ کرے  کہ وہ عاجز ہو جائے  اگر کوئی ایسا ہی مشکل کام آ پڑے  تو خود بھی اس کا ساتھ دے  (بخاری مسلم) پھر فرمایا کہ خودبین، معجب، متکبر، خود پسند، لوگوں پر اپنی فوقیت جتانے  والا، اپنے  آپ کو تولنے  والا اپنے  تیئں دوسروں سے  بہتر جاننے  والا اللہ کا پسندیدہ بندہ نہیں، وہ گو اپنے  آپکو بڑا سمجھے  لیکن اللہ تعالیٰ کے  ہاں وہ ذلیل ہے  لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر ہے  بھلا کتنا اندھیر ہے  کہ خود تو اگر کسی سے  سلوک کرے  تو اپنا احسان اس پر رکھے  لیکن رب کی نعمتوں کا جو اللہ تعالیٰ نے  اسے  دے  رکھی ہیں  شکر بجا نہ لائے  لوگوں میں بیٹھ کر فخر کرے  کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میرے  پاس یہ بھی ہے  اور وہ بھی ہے  حضرت ابورجاہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کہ ہربدخلق متکبر اور خود پسند ہوتا ہے  پھر اسی آیت کو تلاوت کیا اور فرمایا ہر ماں باپ کا نافرمان سرکش اور بد نصیب ہوتا ہے  پھر آپ نے  (آیت وبرا بوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا) پڑھی، حضرت عوام بن حوشب رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے  ہیں  حضرت مطرب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  مجھے  حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت ملی تھی میرے  دل میں تمنا تھی کہ کسی وقت خود حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  مل کر اس روایت کو انہی کی زبانی سنوں چنانچہ ایک مرتبہ ملاقات ہو گئی تو میں نے  کہا مجھے  یہ خبر ملی ہے  کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک حدیث بیان فرماتے  ہیں  کہ اللہ تعالیٰ تین قسم کے  لوگوں کو دوست رکھتا ہے  اور تین قسم کے  لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے  حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  فرمایا ہاں یہ سچ ہے  میں بھلا اپنے  خلیل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بہتان کیسے  باندھ سکتا ہوں ؟ آپ نے  اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا اسے  تو تم کتاب اللہ میں پاتے  بھی ہو، بنو ہجیم کا ایک شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  کہتا ہے  مجھے  کچھ نصیحت کیجئے  آپ نے  یرمایا کپڑا ٹخنے  سے  نیچا نہ لٹکاؤ کیونکہ یہ تکبر اور خود پسندی ہے  جسے  اللہ ناپسند رکھتا ہے ۔

 

۳۷

اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ سے کترانے والے بخیل لوگ

ارشاد ہوتا ہے  کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے  موقعہ پر مال خرچ کرنے  سے  جی چراتے  ہیں  مثلاً ماں باپ کو دینا قرابت داروں سے  اچھا سلوک نہیں  کرتے  یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے  وقت فی سبیل اللہ نہیں  دیتے  اتنا ہی نہیں  بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے  کا مشورہ دیتے  ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے  کونسی بیماری بخل کی بیماری سے  بڑ ھ کر ہے ؟ اور حدیث میں ہے  لوگو بخیلی سے  بچو اسی نے  تم سے  اگلوں کو تاخت و تاراج کیا اسی کے  باعث ان سے  قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے  برے  کام نمایاں ہوئے  پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے  ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے  بھی مرتکب ہیں  یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے  ہیں  انہیں  ظاہر نہیں  کرتے  نہ ان کے  کھانے  پینے  میں وہ ظاہر ہوتی ہیں  نہ پہننے  اوڑھنے  میں نہ دینے  لینے  میں جیسے  اور جگہ ہے  (آیت ان الانسان لربہ لکنود وانہ علی ذالک لشھید) یعنی انسان اپنے  رب کا نا شکرا ہے  اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے  پھر (آیت وانہ لحب الخیر لشدید) وہ مال کی محبت میں مست ہے، پس یہاں بھی فرمان ہے  کہ اللہ کے  فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے  پھر انہیں  دھمکایا جاتا ہے  کہ کافروں کے  لئے  ہم نے  اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھے  ہیں، کفر کے  معنی ہیں  پوشیدہ رکھنا اور چھپالینا پس بخیل بھی اللہ کی نعمتوں کا چھپانے  والا ان پر پردہ ڈال رکھنے  والا بلکہ ان کا انکار کرنے  والے  قرار دیا ہے  پس وہ نعمتوں کا کافر ہوا، حدیث میں ہے  اللہ جب کسی بندے  پر اپنی نعمت انعام فرماتا ہے  تو چاہتا ہے  کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو، دعا نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ہے  (حدیث واجعلنا شا کرین لنعمتکم رحمۃ اللہ علیہ مثنین بھا علیک قابلیھاواتھما علینا) اے  اللہ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا اور ان کی وجہ سے  ہمیں اپنا ثنا خوان بنا ان کا قبول کرنے  والا بنا اور ان کی نعمتوں کو ہمیں بھرپور عطا فرما، بعض سلف کا قول ہے  کہ یہ آیت یہودیوں کے  اس بخل کے  بارے  میں ہے  جو وہ اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صفات کے  چھپانے  میں کرتے  تھے  اسی لئے  اس کے  آخر میں ہے  کہ کافروں کے  لئے  ذلت آمیز عذاب ہم نے  تیار کر رکھے  ہیں ۔ کوئی شک نہیں  کہ اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہو سکتا ہے  لیکن یہ بظاہر یہاں مال کا بخل بیان ہو رہا ہے  گو علم کا بخل بھی اس میں بطور اولیٰ داخل ہے ۔ خیال کیجئے  کہ بیان آیت اقرباضعفا کو مال دینے  کے  بارے  میں ہے  اسی طرح اس کے  بعد والی آیت میں ریاکاری کے  طور پر فی سبیل اللہ مال دینے  کی مذمت بھی بیان کی جا رہی ہے ۔ پہلے  ان کا بیان ہوا جو ممسک اور بخیل ہیں  کوڑی کوڑی کو دانتوں سے  تھام رکھتے  ہیں  پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے  تو ہیں  لیکن بد نیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے  کی خاطر دیتے  ہیں  چنانچہ ایک حدیث میں ہے  کہ جن تین قسم کے  لوگوں سے  جہنم کی آگ سلگائی جائے  گی وہ یہی ریاکار ہوں گے  ریاکار عالم ریاکار غازی، ریا کار سخی ایسا سخی کہے  گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں میں نے  اپنا مال خرچ کیا تو اسے  اللہ تعالیٰ کی جناب سے  جواب ملے  گا کہ تو جھوٹا ہے  تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہو جائے  سو وہ ہو چکا یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے  تجھے  دنیا میں ہی دے  چکا پس تیری مراد حاصل ہو چکی اور حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  فرمایا کہ تیرے  باپ نے  اپنی سخاوت سے  جو چاہتا تھا وہ اسے  مل گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سوال ہوتا ہے  کہ عبد اللہ بن جدعان تو بڑا سخی تھا جس نے  مساکین وفقراء کے  ساتھ بڑے  سلوک کئے  اور نام الہ بہت سے  غلام آزاد کئے  تو کیا اسے  ان کا نفع نہ ملے  گا؟ آپ نے  فرمایا نہیں  اس سے  تو عمر بھر میں ایک دن بھی نہ کہا کہ اے  اللہ میرے  گناہوں کو قیامت کے  دن معاف فرما دینا۔ اسی لئے  یہاں بھی فرماتا ہے  کہ ان کا ایمان اللہ اور قیامت پر نہیں ۔ ورنہ شیطان کے  پھندے  میں نہ پھنس جاتے  اور بد کو بھلا نہ سمجھ بیٹھتے  یہ شیطان کے  ساتھی ہیں  اور شیطان ان کا ساتھی ہے  ساتھی کی برائی پر ان کی برائی بھی سوچ لو عرب شاعر کہتا ہے  

عن المرء لا تسال وسل عن قرینہ

فکل قرین بالمقارن یقتدی

انسان کے  بارے  میں نہ پوچھ اس کے  ساتھیوں کا حال دریافت کر لے ۔ ہر ساتھی اپنے  ساتھی کا ہی پیرو کار ہوتا ہے  پھر ارشاد فرماتا ہے  کہ انہیں  اللہ پر ایمان لانے  اور صحیح راہ پر چلنے  اور ریاکاری کو چھوڑ دینے  اور اخلاص و یقین پر قائم ہو جانے  سے  کونسی چیز مانع ہے ؟ ان کا اس میں کیا نقصان ہے ؟ بلکہ سرا سر فائدہ ہے  کہ ان کی عاقبت سنور جائے  گی یہ کیوں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے  سے  تنگ دلی کر رہے  ہیں  اللہ کی محبت اور اس کی رضامندی حاصل کرنے  کی کوشش کیوں نہیں  کرتے ؟ اللہ انہیں  خوب جانتا ہے  ان کی بھلی اور بری نیتوں کا اسے  علم ہے  اہل توفیق اور غیر اہل توفیق سب اس پر ظاہر ہیں  وہ بھلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما کر اپنی خوشنودی کے  کام ان سے  لے  کر اپنی قربت انہیں  عطا فرماتا ہے  اور بروں کو اپنی عالی جناب اور زبردست سرکاری سے  دھکیل دیتا ہے  جس سے  ان کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے، عیاذ اباللہ من ذالک

۴۰

بے مثال خریدار؟

باری تعالیٰ رب العالمین فرماتا ہے  کہ میں کسی پر ظلم نہیں  کرتا، کسی کی نیکی کو ضائع نہیں  کرتا، بلکہ بڑھا چڑھا کر قیامت کے  روز اس کا اجر و ثواب عطا فرماؤں گا جیسے  اور آیت میں ہے  (آیت ونضع الموازین القسط الخ،) ہم عدل کی ترازو رکھیں گے ۔ اور فرمایا کہ حضرت لقمان نے  اپنے  صاحبزادے  سے  فرمایا تھا (آیت یا بنی انھا ان تک مثقال حبۃ من خرد دل الخ،) اے  بیٹے  اگر کوئی چیز رائی کے  دانے  برابر ہو گو وہ کسی پتھر میں یا آسمانوں میں ہو یا زمین کے  اندر ہو اللہ سے  اسے  لا حاضر کرے  گا، بیشک اللہ تعالیٰ باریک بین خریدار ہے ۔ اور جگہ فرمایا (آیت یومئذ یصدر الناس الخ،) اس دن لوگ اپنے  مختلف احوال پر لوٹیں گے  تاکہ انہیں  ان کے  اعمال دکھائے  جائیں پس جس نے  ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے  دیکھ لے  گا اور جس نے  ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اسے  دیکھ لے  گا، بخاری و مسلم کی شفاعت کے  ذکر والی مطول حدیث میں ہے  کہ پھر اللہ فرمائے  گا لوٹ کر جاؤ اور جس کے  دل میں رائی کے  دانے  برابر ایمان دیکھو اسے  جہنم سے  نکال لاؤ۔ پس بہت سی مخلوق جہنم سے  آزاد ہو گی حضرت ابو سعید یہ حدیث بیان فرما کر فرماتے  اگر تم چاہو تو آیت قرآنی کے  اس جملے  کو پڑ ھ لو (آیت  ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ الخ،) ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان مروی ہے  کہ قیامت کے  دن کسی اللہ کے  بندے  یا بندی کو لایا جائے  گا اور ایک پکارنے  والا سب اہل محشر کو با آواز بلند سنا کر کہے  گا یہ فلاں کا بیٹا یا بیٹی ہے  اس کا نام یہ ہے  جس کسی کا کوئی حق اس کے  ذمہ باقی ہو یا آئے  اور لے  جائے  اس وقت یہ حالت ہو گی کہ عورت چاہے  گی کہ اس کا کوئی حق اس کے  باپ پر یا ماں پر یا بھائی پر یا شوہر پر ہو تو دوڑ کر آئے  اور لے  رشتے  ناتے  کٹ جائیں گے  کوئی کسی کا پر سان حال نہ ہو گا اللہ تعالیٰ اپنا جو حق چاہے  معاف فرما دے  گا لیکن لوگوں کے  حقوق میں سے  کوئی حق معاف نہ فرمائے  گا اسی طرح جب کوئی حقدار آئے  گا تو فریق ثانی سے  کہا جائے  گا کہ ان کے  حق ادا کر یہ کہے  گا دنیا تو ختم ہو چکی آج میرے  ہاتھ میں کیا ہے  جو میں دوں ؟ پس اس کے  نیک اعمال لئے  جائیں گے  اور حقداروں کو دئیے  جائیں گے  اور ہر ایک کا حق اسی طرح ادا کیا جائے  گا اب یہ شخص اگر اللہ کا دوست ہے  تو اس کے  پاس ایک رائی کے  دانے  برابر نیکی بچ رہے  گی جسے  بڑھا چڑھا کر صرف اسی کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے  جنت میں لے  جائے  گا پھر آپ نے  اسی آیت کی تلاوت کی اور اگر وہ بندہ اللہ کا دوست نہیں  ہے  بلکہ بد بخت اور سرکش ہے  تو یہ حال ہو گا کہ فرشتہ کہے  گا کہ باری تعالیٰ اس کی سب نیکیاں ختم ہو گئیں اور ابھی حقدار باقی رہ گئے  حکم ہو گا کہ ان کی برائیاں لے  کر اس پر لاد دو پھر اسے  جہنم واصل کرو اعاذنا اللہ منہا۔ اس موقوف اثر کے  بعض شواہد مرفوع احادیث میں بھی موجود ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمان ہے  کہ (آیت "من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ") اعراب کے  بارے  میں اتری ہے  اس پر ان سے  سوال ہوا کہ پھر مہاجرین کے  بارے  میں کیا ہے  آپ نے  فرمایا اس سے  بہت ہی اچھی (آیت"ان اللہ لا یظلم الخ") حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  مشرک کے  بھی عذابوں میں اس کے  باعث کمی کر دی جاتی ہے  ہاں جہنم سے  نکلے  گا تو نہیں، چنانچہ صحیح حدیث میں ہے  کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کے  چچا ابو طالب کی پشت پناہ بنے  ہوئے  تھے  آپ کو لوگوں کی ایذاؤں سے  بچاتے  رہتے  تھے  آپ کی طرف سے  ان سے  لڑتے  تھے  تو کیا انہیں  کچھ نفع بھی پہنچے  گا آپ نے  فرمایا ہاں وہ بہت تھوڑی سی آگ میں ہے  اور اگر میرا یہ تعلق نہ ہوتا تو جہنم کے  نیچے  کے  طبقے  میں ہوتا۔ لیکن یہ بہت ممکن ہے  کہ یہ فائدہ صرف ابو طالب کے  لئے  ہی ہو یعنی اور کفار اس حکم میں نہ ہوں اس لئے  کہ مسند طیالسی کی حدیث میں ہے  اللہ تعالیٰ مومن کی کسی نیکی پر ظلم نہیں  کرتا دنیا میں روزی وغیرہ کی صورت میں اس کے  پاس کوئی نیکی نہ ہو گی اجر عظیم سے  مراد اس آیت میں جنت ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے  فضل و کرم لطف و رحم سے  اپنی رضامندی عطا فرمائے  اور جنت نصیب کرے ۔ آمین مسند احمد کی ایک غریب حدیث میں ہے  حضرت ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  مجھے  خبر ملی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  فرمایا ہے  اللہ تعالیٰ اپنے  مومن بندے  کو ایک نیکی کے  بدلے  ایک لاکھ نیکی کا ثواب دے  گا مجھے  بڑا تعجب ہوا اور میں نے  کہا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مل کر ان سے  خود پوچھ آؤں چنانچہ میں نے  سامان سفر درست کیا اور اس روایت کی چھان بین کے  لئے  روانہ ہوا معلوم ہوا کہ وہ تو حج کو گئے  ہیں  تو میں بھی حج کی نیت سے  وہاں پہنچا ملاقات ہوئی تو میں نے  کہا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے  سنا آپ نے  ایسی حدیث بیان کی ہے  ؟ کیا یہ سچ ہے ؟ آپ نے  فرمایا کیا تمہیں  تعجب معلوم ہوتا ہے  ؟ تم نے  قرآن میں نہیں  پڑھا؟ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  جو شخص اللہ کو اچھا قرض دے  اللہ اسے  بہت بہت بڑھا کر عنایت فرماتا ہے  اور دوسری آیت میں ساری دنیا کو کم کہا گیا ہے  اللہ تعالیٰ کی قسم میں نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سنا ہے  کہ ایک نیکی کو بڑھا کر اس کے  بدلے  دو لاکھ ملیں گی۔ یہ حدیث اور طریقوں سے  بھی مروی ہے، پھر قیامت کے  دن کی سختی اور ہولناکی بیان فرما رہا ہے  کہ اس دن انبیاء علیہ السلام کو بطور گواہ کے  پیش کیا جائے  گا جیسے  اور آیت میں ہے (آیت واشرقت الارض بنور ربھا و وضع الکتاب وجی بالنبیین والشھداء) زمین اپنے  رب کے  نور سے  چمکنے  لگے  گی نامہ اعمال دئیے  جائیں گے  اور نبیوں اور گواہوں کو لاکھڑا کریں گے ، صحیح بخاری شریف میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  فرمایا مجھے  کچھ قرآن پڑھ کر سناؤ حضرت عبد اللہ نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا آپ پر تو اترا ہی ہے  فرمایا ہاں لیکن میرا جی چاہتا ہے  کہ دوسرے  سے  سنوں پس میں نے  سورہ نساء کی تلاوت شروع کی پڑھتے  پڑھتے  جب میں نے  اس آیت فکیف کی تلاوت کی تو آپ نے  فرمایا بس کرو میں نے  دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے  آنسو جاری تھے ۔ حضرت محمد بن فضالہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  کہ قبیلہ بنی ظفر کے  پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آئے  اور اس چٹان پر بیٹھ گئے  جواب تک انکے  محلے  میں ہے  آپ کے  ساتھ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے  آپ نے  ایک قاری سے  فرمایا قرآن پڑھو پڑھتے  پڑھتے  جب اس آیت فکیف تک پہنچا تو آپ اس قدر روئے  کہ دونوں رخسار اور داڑھی تر ہو گئی اور عرض کرنے  لگے  یا رب جو موجود ہیں  ان پر تو خیر میری گواہی ہو گی لیکن جن لوگوں کو میں نے  دیکھا ہی نہیں  ان کی بابت کیسے ؟ (ابن ابی حاتم) ابن جریر میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا میں ان پر گواہ ہوں جب تک کہ ان میں ہوں پس جب تو مجھے  فوت کرے  گا تب تو تو ہی ان پر نگہبان ہے، ابو عبد اللہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے  اپنی کتاب تذکرہ میں باب باندھا ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اپنی امت پر شہادت کے  بارے  میں کیا آیا ہے ؟ اس میں حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول لائے  ہیں  کہ ہر دن صبح شام نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آپ کی امت کے  اعمال پیش کئے  جاتے  ہیں  مع ناموں کے  پاس آپس قیامت کے  دن ان سب پر گواہی دیں گے  پھر یہی آیت تلاوت فرمائی لیکن اولاً تو یہ حضرت سعید کا خود کا قول ہے، دوسرے  یہ کہ اس کی سند میں انقطاع ہے، اس میں ایک راوی مبہم ہے  جس کا نام ہی نہیں  تیسرے  یہ حدیث مرضوع کے  بیان ہی نہیں  کرتے  ہاں امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اسے  قبول کرتے  ہیں  وہ اس کے  لانے  کے  بعد فرماتے  ہیں  کہ پہلے  گزر چکا ہے  کہ اللہ تعالیٰ کے  سامنے  ہر چیز اور ہر جمعرات کو اعمال پیش کئے  جاتے  ہیں  پس وہ انبیاء پر اور ماں باپ پر ہر جمعہ کو پیش کئے  جاتے  ہیں  اور اس میں کوئی تعارض نہیں  ممکن ہے  کہ ہمارے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ہر جمعہ کو بھی پیش ہوتے  ہوں اور ہر دن بھی (ٹھیک یہی ہے  کہ یہ بات صحت کے  ساتھ ثابت نہیں  واللہ اعلم۔ مترجم) پھر فرماتا ہے  کہ اس دن کافر کہے  گا کاش میں کسی زمین میں سما جاؤں پھر زمین برابر ہو جائے  گی۔ کافر نا قابل برداشت ہولناکیوں رسوائیوں اور ڈانٹ ڈپٹ سے  گھبرا اٹھے  گا، جیسے  اور آیت میں ہے (آیت یوم ینظر المرء) الخ جس دن انسان اپنے  آگے  بھیجے  ہوئے  اعمال اپنی آنکھوں دیکھ لے  گا اور کافر کہے  گا کاش کہ میں مٹی ہو گیا ہوتا۔ پھر فرمایا یہ ان تمام بد افعالیوں کا اس دن اقرار کریں گے  جو انہوں نے  کی تھیں اور ایک چیز بھی پوشیدہ نہ رکھیں گے  ایک شخص نے  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے  کہا حضرت ایک جگہ تو قرآن میں ہے  کہ مشرکین قیامت کے  دن کہیں  گے (آیت واللہ ربنا ما کنا مشرکین اللہ) کی قسم رب کی قسم ہم نے  شرک نہیں  کیا اور دوسری جگہ ہے  کہ (آیت لایکتمون اللہ حدیثا) اللہ سے  بات بھی نہ چھپائیں گے  پھر ان دونوں آیتوں کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے  فرمایا اس کا اور وقت ہے  اس کا وقت اور ہے  اور جب موحدوں کو جنت میں جاتے  ہوئے  دیکھیں گے  تو کہیں  گے  آؤ تم بھی اپنے  شرک کا انکار کرو کیا عجب کام چل جائے ۔ پھر ان کے  منہ پر مہریں لگ جائیں گی اور ہاتھ پاؤں بولنے  لگیں گے  اب اللہ تعالیٰ سے  ایک بات بھی نہ چھپائیں گے  (ابن جریر) مسند عبدالزاق میں ہے  کہ اس شخص نے  آن کر کہا تھا بہت سی چیزیں مجھ پر قرآن میں مختلف نظر آ رہا ہے، آپ نے  فرمایا کیا مطلب تجھے  کیا قرآن میں شک ہے ؟ اس نے  کہا شک تو نہیں  ہاں میری سمجھ میں اختلاف نظر آ رہا ہے، آپ نے  فرمایا جہاں جہاں اختلاف تجھے  نظر آیا ہو ان مقامات کو پیش کر تو اس نے  یہ دو آیتیں کی تطبیق سمجھا دی۔ ایک اور روایت میں سائل کا نام بھی آیا ہے  کہ وہ حضرت نافع بن ارزق تھے  یہ بھی ہے  کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  ان سے  یہ بھی فرمایا کہ شاید تم کسی ایسی مجلس سے  آ رہے  ہو جہاں ان کا تذکرہ ہو رہا ہو گا یا تم نے  کیا ہو گا کہ میں جاتا ہوں اور ابن عباس سے  دریافت کرتا ہوں اگر میرا یہ گمان صحیح ہے  تو تمہیں  لازم ہے  کہ جواب سن کر انہیں  بھی جا کر سنادو پھر یہی جواب دیا۔

۴۳

بتدریج حرمت شراب اور پس منظر

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے  ایمان دار بندوں کو نشے  کی حالت میں نماز پڑھنے  سے  روک رہا ہے  کیونکہ اس وقت نمازی کو معلوم ہی نہیں  ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے  اور ساتھ ہی محل نماز یعنی مسجد میں آنے  سے  روکا جا رہا ہے  اور ساتھ جنبی شخص جسے  نہانے  کی حاجت کو محل نماز یعنی مسجد میں آنے  سے  روکا جا رہا ہے  ۔ ہاں ایسا شخص کسی کام کی وجہ سے  مسجد کے  ایک دروازے  سے  داخل ہو کر دوسرے  دروازے  سے  نکل جائے  تو جائز ہے  نشے  کی حالت میں نماز کی قریب نہ جانے  کا حکم شراب کی حرمت سے  پہلے  تھا جیسے  اس حدیث سے  ظاہر ہے  جو ہم نے  سورہ بقرہ کی (آیت یسالونک عن الخمر والمیسر الخ) کی تفسیر میں بیان کی ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  جب وہ آیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  سامنے  تلاوت کی تو آپ نے  دعا مانگی کہ اے  اللہ شراب کے  بارے  میں اور صاف صاف بیان نازل فرما پھر نشے  کی حالت میں نماز کے  قریب نہ جانے  کی یہ آیت اتری اس پر نمازوں کے  وقت اس کا پینا لوگوں نے  چھوڑ دیا اسے  سن کر بھی جناب فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  یہی دعا مانگی تو (آیت "یا ایھا الذین امنو انما الخمر والمیسر والا نصاب والا زلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون سے  فھل انتم منتھون) تک نازل ہوئی جس میں شراب سے  بچنے  کا حکم صاف موجود ہے  اسے  سن کر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  فرمایا ہم باز آئے ۔ اسی روایت کی ایک سند میں ہے  کہ جب سورۃ نساء کی یہ آیت نازل ہوئی اور نشے  کے  وقت نماز پڑھنے  کی ممانعت ہوئی اس قوت یہ دستور تھا کہ جب نماز کھڑی ہوتی تو ایک شخص آواز لگاتا کہ کوئی نشہ والا نماز کے  قریب نہ آئے، ابن ماجہ شریف میں ہے  حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  میرے  بارے  میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، ایک انصاری نے  بہت سے  لوگوں کی دعوت کی ہم سب نے  خوب کھایا پیا پھر شرابیں پیں اور مخمور ہو گئے  پھر آپس میں فخر جتانے  لگے  ایک شخص نے  اونٹ کے  جبڑے  کی ہڈی اٹھا کر حضرت سعد کو ماری جس سے  ناک پر زخم آیا اور اس کا نشان باقی رہ گیا اس وقت تک شراب کو اسلام نے  حرام نہیں  کیا تھا پس یہ آیت نازل ہوئی یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی پوری مروی ہے  ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے  کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  دعوت کی سب نے  کھانا کھایا پھر شراب پی اور مست ہو گئے  اتنے  میں نماز کا وقت آ گیا ایک شخص کو امام بنایا اس نے  نماز میں سورۃ (آیت قل یا ایھاالکافرون) میں اس طرح پڑھا (آیت ما اعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون) اس پر یہ آیت اتری اور نشے  کی حالت میں نماز کا پڑھنا منع کیا گیا۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے  اور حسن ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے  کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عبدالرحمن اور تیسرے  ایک اور صاحب نے  شراب پی اور حضرت عبدالرحمن نماز میں امام بنائے  گئے  اور قرآن کی قرات خلط ملط کر دی اس پر یہ آیت اتری۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی یہ روایت ہے  ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے  کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  امامت کی اور جس طرح پڑھنا چاہیے  تھانہ پڑھ سکے  اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ایک روایت میں مروی ہے  کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  امامت کرائی اور اس طرح پڑھا (آیت"قل ایھا الکافرون اعبدما تعبدما تعبدون وانتم عابدون ما اعبدو انا عابد ما عبدتم ما عبدتم لکم دینکم ولی دین،) پس یہ آیت نازل ہوئی اور اس حالت میں نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  کہ شراب کی حرمت سے  پہلے  لوگ نشہ کی حالت میں نماز کے  لئے  کھڑے  ہوتے  تھے  پس اس آیت سے  انہیں  ایسا کرنے  سے  روک دیا گیا (ابن جریر) حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  اس کے  نازل ہونے  کے  بعد لوگ اس سے  رک گئے  پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہونے  کے  بعد لوگ اس سے  بالکل تائب ہو گئے  پھر شراب کی مطلق حرمت نازل ہوئی حضرت ضحاک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  اس سے  شراب کا نشہ مراد نہیں  بلکہ نیند کا خمار مراد ہے، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ٹھیک یہی ہے  کہ مراد اس سے  شراب کا نشہ ہے  اور یہاں خطاب ان سے  کیا گیا ہے  جو نشہ میں ہیں  لیکن اتنے  نشہ میں بھی نہیں  کہ احکام شرع ان پر جاری ہی نہ ہو سکیں کیونکہ نشے  کی ایسی حالت والا شخص مجنون کے  حکم میں ہے، بہت سے  اصولی حضرات کا قول ہے  کہ خطاب ان لوگوں سے  ہے  جو کلام کو سمجھ سکیں ایسے  نشہ والوں کی طرف نہیں  جو سمجھتے  ہی نہیں  کہ ان سے  کیا کہا جا رہا ہے  اس لئے  کہ خطاب کا تکلیف کی سمجھنا شرط ہے  اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ گو الفاظ یہ ہیں  کہ نشہ کی حالت میں نماز نہ پڑھو لیکن مراد یہ ہے  کہ نشے  کی چیز کھاؤ پیو بھی نہیں  اس لئے  کہ دن رات میں پانچ وقت نماز فرض ہے  تو کیسے  ممکن ہے  کہ ایک شرابی ان پانچویں وقت نمازیں ٹھیک وقت پر ادا کر سکے  حالانکہ شراب برابر پی رہا ہے  واللہ اعلم پس یہ حکم بھی اسی طرح ہو گا جس طرح یہ حکم ہے  کہ ایمان والو اللہ سے  ڈرتے  رہو جتنا اس سے  ڈرنے  کا حق ہے  اور نہ مرنا تم مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان ہو۔ تو اس سے  مراد یہ ہے  کہ ایسی تیاری ہر وقت رکھو اور ایسے  پاکیزہ اعمال ہر وقت کرتے  رہو کہ جب تمہیں  موت آئے  تو اسلام پر دم نکلے  یہ جو اس آیت میں ارشاد ہوا ہے  کہ یہاں تک کہ تم معلوم کر سکو جو تم کہہ رہے  ہو یہ نشہ کی حد سے  یعنی نشہ کی حالت میں اس شخص کو سمجھا جائے  گا نہ ہی اسے  عاجزی اور خشوع خضوع حاصل ہو سکتا ہے، مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  جب تم میں سے  اگر کوئی نماز میں اونگھنے  لگے  تو اسے  چاہیے  کہ وہ نماز چھوڑ کر سو جائے  جب تک کہ وہ جاننے  لگے  کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، بخاری اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے  اور اس کے  بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں  کہ ممکن ہے  کہ وہ اپنے  لئے  استغفار کرے  لیکن اس کی زبان سے  اس کے  خلاف نکلے ۔ 

آداب مسجد اور مسائل تیمم

پھر فرمان ہے  کہ جنبی نماز کے  قریب نہ جائے  جب تک غسل نہ کرلے  ہاں بطور گزر جانے  کے  مسجد میں گزرنا جائز ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  ایسی ناپاکی کی حالت میں مسجد میں جانا ناجائز ہے  ہاں مسجد کے  ایک طرف سے  نکل جانے  میں کوئی حرج نہیں  مسجد میں بیٹھے  نہیں  اور بھی بہت سے  صحابہ اور تابعین کا یہی قول ہے  حضرت یزید بن ابو حبیب فرماتے  ہیں  بعض انصار جو مسجد کے  گرد رہتے  تھے  اور جنبی ہوتے  تھے  گھر میں پانی نہیں  ہوتا تھا اور گھر کے  دروازے  مسجد سے  متصل تھے  انہیں  اجازت مل گئی کہ مسجد سے  اسی حالت میں گزر سکتے  ہیں ۔ بخاری شریف کی ایک حدیث سے  بھی یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے  کہ لوگوں کے  گھروں کے  دروازے  مسجد میں تھے  چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  اپنے  آخری مرض الموت میں فرمایا تھا کہ مسجد میں جن جن لوگوں کے  دروازے  پڑتے  ہیں  سب کو بند کر دو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ رہنے  دو۔ اس سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کے  بعد آپ کے  جانشین حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے  تو انہیں  ہر وقت اور بکثرت مسجد میں آنے  جانے  کی ضرورت رہے  گی تاکہ مسلمانوں کے  اہم امور کا فیصلہ کر سکیں اس لئے  آپ نے  سب کے  دروازے  بند کرنے  اور صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے  کی ہدایت فرمائی، بعض سنن کی اس حدیث میں بجائے  حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ہے  وہ بالکل غلط ہے  صحیح یہی ہے  جو صحیح میں ہے  اس آیت سے  اکثر ائمہ نے  دلیل پکڑی ہے  کہ جنبی شخص کو مسجد میں ٹھہرانا حرم ہے  ہاں گزر جانا جائز ہے، اسی طرح حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی بعض کہتے  ہیں  ان دونوں کے  گزرنا بھی جائز نہیں  ممکن ہے  مسجد میں آلودگی ہو اور بعض کہتے  اگر اس بات کا خوف نہ ہو انکا گزرنا بھی جائز ہے ۔صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے  کہ آنحضرت نے  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ مسجد سے  مجھے  بوریا اٹھا دو تو ام المومنین نے  عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حیض سے  ہوں آپ نے  فرمایا تیرا حیض تیرے  ہاتھ میں نہیں  اس سے  ثابت ہوتا ہے  کہ حائضہ مسجد میں آ جا سکتی ہے  اور نفاس والی کے  لئے  بھی یہی حکم ہے ۔ یہ دونوں بطور راستہ چلنے  کے  جا آ سکتی ہیں ۔ ابو داؤد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے  کہ میں حائض اور جنبی کے  لئے  مسجد کو حلال نہیں  کرتا ۔ امام ابو مسلم خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  اس حدیث کو ایک جماعت نے  ضعیف کہا ہے  کیونکہ"افلت"اس کا راوی مجہول ہے ۔ لیکن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے  اس میں افلت کی وجہ معدوم ذہلی ہیں ۔ پہلی حدیث بروایت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دوسری بروایت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہے  لیکن ٹھیک نام حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہی ہے ۔ ایک اور حدیث ترمذی میں ہے  جس میں ہے  کہ اے  علی اس مسجد میں جنبی ہونا میرے  اور تیرے  سوا کسی کو حلال نہیں  یہ حدیث بالکل ضعیف ہیں  واللہ اعلم۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  مطلب یہ ہے  کہ جنبی شخص بغیر غسل کئے  نماز نہیں  پڑھ سکتا لیکن اگر وہ مسافر ہو اور پانی نہ ملے  تو پانی کے  ملنے  تک پڑھ سکتا ہے ۔ ابن عباس سعید بن جبیر اور ضحاک سے  بھی یہی مروی ہے، حضرت مجاہد حسن حکم زید اور عبدالرحمن سے  بھی اس کے  مثل مروی ہے، عبد اللہ بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ہم سنا کرتے  تھے  کہ یہ آیت سفر کے  حکم میں ہے، اس حدیث سے  بھی مسئلہ کی شہادت ہو سکتی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہتر ہے  (سنن اور احمد) امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ان دونوں قولوں میں اولیٰ قول ان ہی لوگوں کا ہے  جو کہتے  ہیں  اس سے  مراد صرف گزر جانا ہے  کیونکہ جس مسافر کو جنب کی حالت میں پانی نہ ملے  اس کا حکم تو آگے  صاف بیان ہوا ہے  پس اگر یہی مطلب یہاں بھی لیا جائے  تو پھر دوسرے  جملہ میں اسے  لوٹانے  کی ضرورت باقی نہیں  رہتی پس معنی آیت کے  اب یہ ہوئے  کہ ایمان والو نماز کے  لئے  مسجد میں نہ جاؤ جب کہ تم نشے  میں ہو جب تک تم اپنی بات کو آپ نہ سمجھنے  لگو اسی طرح جنب کی حالت میں بھی مسجد میں نہ جاؤ جب تک نہا نہ لو ہاں صرف گزر جانا جائز ہے  عابر کے  معنی آنے  جانے  یعنی گزر جانے  والے  ہیں  اس کا مصدر عبراً اور عبورًا آتا ہے  جب کوئی نہر سے  گزرے  تو عرب کہتے  ہیں  عبرفلان النھر فلاں شخص نے  نہر سے  عبور کر لیا اسی طرح قوی اونٹنی کو جو سفر کاٹتی ہو عبرالاسفار کہتے  ہیں ۔ امام ابن جیریر جس قول کی تائید کرتے  ہیں  یہی قول جمہور کا ہے  اور آیت سے  ظاہر بھی یہی ہے  یعنی اللہ تعالیٰ اس ناقص حالت نماز سے  منع فرما رہا ہے  جو مقصود نماز کے  خلاف ہے  اسی طرح نماز کی جگہ میں بھی ایسی حالت میں آنے  کو روکتا ہے  جو اس جگہ کی عظمت اور پاکیزگی کے  خلاف ہے  واللہ اعلم۔ پھر جو فرمایا کہ یہاں تک کہ تم غسل کر لو امام ابوحنیفہ، امام مالک اور شافعی اسی دلیل کی روشنی میں کہتے  ہیں  کہ جنبی کو مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے  جب تک غسل نہ کر لے  یا اگر پانی نہ ملے  یا پانی ہو لیکن اس کے  استعمال کی قدرت نہ ہو تو تیمم کر لے ۔ حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  جب جنبی نے  وضو کر لیا تو اسے  مسجد میں ٹھہرنا جائز ہے  چنانچہ مسند احمد اور سنن سعید بن منصور میں مروی ہے ۔ حضرت عطا بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کہ میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  صحابہ کو دیکھا کہ وہ جنبی ہوتے  اور وضو کر کے  مسجد میں بیٹھے  رہتے  واللہ اعلم۔ پھر تیمم کی اجازت کا فتویٰ دیا ہے  کیونکہ آیت میں عموم ہے  حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ایک انصاری بیمار تھے  نہ تو کھڑے  ہو کر وضو کر سکتے  تھے  نہ ان کا کوئی خادم تھا جو انہیں  پانی دے  انہوں نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  اس کا ذکر کیا اس پر یہ حکم اترا یہ روایت مرسل ہے، دوسری حالت میں تیمم کے  جواز کی وجہ  سفر ہے  خواہ لمبا سفر اور خواہ چھوٹا۔ غائط نرم زمین کو یہاں سے  کنایہ کیا گیا ہے  پاخانہ پیشاب سے  لا مستم کی دوسری قرات لمستم ہے  اس کی تفسیر میں دو قول ہیں  ایک یہ کہ مراد جماع ہے  جیسے  اور آیت میں ہے (آیت وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن الخ،) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ایمان والی عورتوں سے  نکاح کرو پھر مجامعت سے  پہلے  انہیں  طلاق دے  دو تو ان کے  ذمہ عدت نہیں، یہاں بھی لفظ (آیت من قبل ان تمسوھن) ہے  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ اولا مستم النساء سے  مراد مجامعت ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت طاؤس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبید بن عمیر حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت شعبی رحمۃ اللہ علیہ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت مقاتل رحمۃ اللہ علیہ بن حیان سے  بھی یہی مروی ہے ۔ سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ایک مرتبہ اس لفظ پر مذاکرہ ہوا تو چند موالی نے  کہا یہ جماع نہیں  اور چند عرب نے  کہا جماع ہے، میں نے  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  اس کا ذکر کیا آپ نے  پوچھا تم کن کے  ساتھ تھے  میں نے  کہا موالی کے  فرمایا موالی مغلوب ہو گئے  لمس اور مس اور مباشرت کا معنی جماع ہے، اللہ تعالیٰ نے  یہاں کنایہ کیا ہے، بعض اور حضرات نے  اس سے  مراد مطلق چھونا لیا ہے ۔ خواہ جسم کے  کسی حصہ کو عورت کے  کسی حصہ سے  ملایا جائے  تو وضو کرنا پڑے  گا۔ لمس سے  مراد چھونا ہے ۔ اور اس سے  بھی وضو کرنا پڑے  گا۔ فرماتے  ہیں  مباشرت سے  ہاتھ لگانے  سے  بوسہ لینے  سے  وضو کرنا پڑے  گا۔ لمس سے  مراد چھونا ہے، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عورت کا بوسہ لینے  سے  وضو کرنے  کے  قائل تھے  اور اسے  لمس میں داخل جانتے  تھے  عبیدہ، ابوعثمان ثابت ابراہیم زید بھی کہتے  ہیں  کہ لمس سے  مراد جماع کے  علاوہ ہے  حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے  ہیں  کہ انسان کا اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اسے  ہاتھ لگانا ملامست ہے  اس سے  وضو کرنا پڑے  گا (موطا مالک) دار قطنی میں خود عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  بھی اسی طرح مروی ہے  لیکن دوسری روایت آپ سے  اس کے  خلاف بھی پائی جاتی ہے  آپ با وضو تھے  آپ نے  اپنی بیوی کا بوسہ لیا پھر وضو نہ کیا اور نماز ادا کی۔ پس دونوں روایتوں کو صحیح ماننے  کے  بعد یہ فیصلہ کرنا پڑے  گا کہ آپ وضو کو مستحب جانتے  تھے  واللہ اعلم۔ مطلق چھونے  سے  وضو کے  قائل امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے  ساتھی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہیں  اور مشہور امام احمد بن حنبل سے  بھی یہی روایت ہے ۔ اس قول کے  قائل کہتے  ہیں  کہ یہاں دو قراتیں ہیں  (آیت لا مستم اور لمستم اور لمس کا اطلاق ہاتھ لگانے  پر بھی قرآن کریم میں آیا ہے  چنانچہ ارشاد ہے (آیت ولو نزلنا علیکم کتابا فی قرطاس فلمسوہ بایدیھم) ظاہر ہے  کہ یہاں ہاتھ لگانا ہی مراد ہے  اسی طرح حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ کا یہ فرمانا کہ شاید تم نے  بوسہ لیا ہو گا ہاتھ لگایا ہو گا وہاں بھی لفظ لمست ہے ۔ اور صرف ہاتھ لگانے  کے  معنی میں ہی اور حدیث میں ہے (حدیث والیدز ناھا اللمس ہاتھ کا "زنا"چھونا اور ہاتھ لگانا ہے  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں  بہت کم دن ایسے  گزرتے  تھے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے  پاس آ کر بوسہ نہ لیتے  ہوں یا ہاتھ نہ لگاتے  ہوں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  بیع ملامست سے  منع فرمایا یہ بھی ہاتھ لگانے  کے  بیع ہے  پس یہ لفظ جس طرح جماع پر بولا جاتا ہے  ہاتھ سے  چھونے  پر بھی بولا جاتا ہے  شاعر کہتا ہے  ولمست کفی کفہ اطلب الغنی میرا ہاتھ اس کے  ہاتھ سے  ملا میں تونگری چاہتا تھا۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ ایک شخص سرکار محمد میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص کے  بارے  میں کیا فیصلہ ہے  جو ایک جنبیہ عورت کے  ساتھ تمام وہ کام کرتا ہے  جو میاں بیوی میں ہوتے  ہیں  سوائے  جماع کے  تو (آیت اقم الصلوٰۃ) نازل ہوتی ہے  اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  وضو کر کے  نماز ادا کر لے  اس پر حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوچھتے  ہیں  کیا یہ اسی کے  لئے  خاص ہے  یا سب مسلمانوں کے  لئے  کام ہے  آپ جواب دیتے  ہیں  تمام ایمان والوں کے  لئے  ہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے  زائدہ کی حدیث سے  یہ کہتے  ہیں  کہ اسے  وضو کا حکم اسی لئے  دیا کہ اس نے  عورت کو چھوا تھا جماع نہیں  کیا تھا۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے  کہ اولاً تو یہ منقطع ہے  ابن ابی لیلی اور معاذ کے  درمیان ملاقات کا ثبوت نہیں  دوسرے  یہ کہ ہو سکتا ہے  اسے  وضو کا حکم فرض نماز کی ادائیگی کے  لئے  دیا ہو جیسے  کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث ہے  کہ جو بندہ کوئی گناہ کرے  پھر وضو کر کے  دو رکعت نماز ادا کرے  تو اللہ تعالیٰ اس کے  گناہ معاف فرما دیتا ہے  یہ پوری حدیث سورۃ آل عمران میں (آیت ذکرو اللہ فاستغفر والذنوبھم) کی تفسیر میں گزر چکی ہے، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ان دونوں قولوں میں سے  اولیٰ قول ان کا ہے  جو کہتے  ہیں  کہ مراد اس سے  جماع نہ کہ اور۔ کیونکہ صحیح مرفوع حدیث میں آ چکا ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  اپنی کسی بیوی صاحبہ کا بوسہ لیا اور بغیر وضو کئے  نماز پڑھی، حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں  آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کرتے  بوسہ لیتے  پھر بغیر وضو کیے  نماز پڑھتے ۔ حضرت حبیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے  نماز کو جاتے  میں نے  کہا وہ آپ ہی ہوں گی تو آپ مسکرا دیں، اس کی سند میں کلام ہے  لیکن دوسری سندوں سے  بغیر وضو کیے  ثابت ہے  کہ اوپر کے  راوی یعنی حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  سننے  والے  حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ ہیں  اور روایت میں ہے  کہ وضو کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا بوسہ لیا اور پھر وضو کیے  بغیر نماز ادا کی، حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بوسہ لیتے  حالانکہ آپ روزے  سے  ہوتے  پھر نہ تو روزہ جاتا نہ نیا وضو کرتے  (ابن جریر) حضرت زینت بنت خزیمہ فرماتی ہیں  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بوسہ لینے  کے  بعد وضو نہ کرتے  اور نماز پڑھتے  اللہ تعالیٰ فرماتے  ہیں  اگر پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے  تیمم کر لو، اس سے  اکثر فقہا نے  استدلال کیا ہے  کہ پانی نہ پانے  والے  کے  لئے  تیمم کی اجازت پانی کی تلاش کے  بعد ہے ۔ کتب فروع میں تلاش کی کیفیت بھی لکھی ہے  بخاری و مسلم میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ایک شخص کو دیکھا کہ الگ تھلگ ہے  اور لوگوں کے  ساتھ اس نے  نماز جماعت کے  ساتھ نہیں  پڑھی تو آپ نے  اس سے  پوچھا تو نے  لوگوں کے  ساتھ نماز کیوں نہ پڑھی؟ کیا تو مسلمان نہیں ؟ اس نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوں تو مسلمان لیکن جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا آپ نے  فرمایا پھر اس صورت میں تجھے  مٹی کافی تھی۔ تیمم کے  لفظی معنی قصد کرنے  کے  ہیں ۔ عرب کہتے  ہیں  تیممک اللہ بحفظہ یعنی اللہ اپنی حفاظت کے  ساتھ تیرا قصد کرے ، امراء القیس کے  شعر میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے، صعید کے  معنی میں کہا گیا ہے  کہ ہر وہ چیز جو زمین میں سے  اوپر کو چڑھے  پس اس میں مٹی ریت درخت پتھر گھاس بھی داخل ہو جائیں گے ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول یہی ہے  اور کہا گیا ہے  کہ جو چیز مٹی کی جنس سے  ہو جیسے  ریت ہڑتال اور چونا یہ مذہب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے  اور یہ بھی کہا گیا کہ صرف مٹی ہے  مگر یہ قول ہے  حضرت امام شافعی اور امام احمد بن حنبل اور ان کے  تمام ساتھیوں کا ہے  اس کی دلیل ایک تو قرآن کریم کے  یہ الفاظ ہیں (آیت فتصبح صعیدا ازلقا) یعنی ہو جائے  وہ مٹی پھسلتی دوسری دلیل صحیح مسلم شریف کی یہ حدیث ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا ہمیں تمام لوگوں پر تین فضیلتیں دی گئی ہیں  ہماری صفیں مثل فرشتوں کی صفوں کے  ترتیب دی گئیں ہمارے  لئے  تمام زمین مسجد بنائی گئی اور زمین کی مٹی ہمارے  لئے  پاک اور پاک کرنے  والی بنائی گئی جبکہ ہم پانی نہ پائیں اور ایک سند سے  بجائے  تربت کے  ترابت کا لفظ مروی ہے ۔ پس اس حدیث میں احسان کے  جتاتے  وقت مٹی کی تخصیص کی گئی، اگر کوئی اور چیز بھی وضو کے  قائم مقام کام آنے  والی ہوتی تو اس کا ذکر بھی ساتھ ہی کر دیتے ۔ یہاں یہ لفظ طیب اسی کے  معنی میں آیا ہے ۔ مراد حلال ہے  اور کہا گیا ہے  کہ مراد پاک ہے  جیسے  حدیث میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے  گو دس سال تک پانی نہ پائے  پھر جب پانی ملے  تو اسے  اپنے  جسم سے  بہائے  یہ اس کے  لئے  بہتر ہے ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اسے  حسن صحیح کہتے  ہیں  حافظ ابو الحسن قطان رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے  صحیح کہتے  ہیں  ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  سب سے  زیادہ پاک مٹی کھیت کی زمین کی مٹی ہے  بلکہ تفسیر ابن مردویہ میں تو اسے  مرفوعاً وارد کیا ہے  پھر فرمان ہے  کہ اسے  اپنے  چہرے  پر اور ہاتھ پر ملنا کافی ہے  اور اس پر اجماع ہے، لیکن کیفیت تیمم میں ائمہ کا اختلاف ہے ۔ جدید مذہب شافعی یہ ہے  کہ دو دفعہ کر کے  منہ اور دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا واجب ہے  اس لئے  کہ یدین کا اطلاق بغلوں تک اور کہنیوں تک ہوتا ہے  جیسے  آیت وضو میں اور اسی لفظ کا اطلاق ہوتا ہے  اور مراد صرف ہتھیلیاں ہی ہوتی ہیں  جیسے  کہ چور کی حد کے  بارے  میں فرمایا (آیت"فاقطعو اایدیھما") کہتے  ہیں  یہاں تیمم کے  حکم میں ہاتھ کا ذکر مطلق ہے  اور وضو کے  حکم سے  مشروط ہے  اس لئے  اس مطلق کو اس مشروط پر محمول کیا جائے  گا کیونکہ طہوریت جامع موجود ہے  اور بعض لوگ اس کی دلیل میں دار قطنی والی روایت پیش کرتے  ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا تیمم کی دو ضربیں ہیں  ایک مرتبہ ہاتھ مار کر منہ پر ملنا اور ایک مرتبہ ہاتھ مار کر دونوں کہنیوں تک ملنا، لیکن یہ حدیث صحیح نہیں  اس لئے  کہ اس کی اسناد میں ضعف ہے  حدیث ثابت نہیں ۔ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے   اپنے  ہاتھ ایک دیوار پر مارے  اور منہ پر ملے  پھر دوبارہ ہاتھ مار کر اپنی دونوں بازوؤں پر ملے ۔ لیکن اس کی اسناد میں محمد بن ثابت عبدی ضعیف ہیں  انہیں  بعض حافظان حدیث نے  ضعیف کہا ہے، اور یہی حدیث بعض ثقہ راویوں نے  بھی روایت کی ہے  لیکن وہ مرفوع نہیں  کرتے  بلکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل بتاتے  ہیں  امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ حدیث بھی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب کر رہے  ہیں  میں نے  آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے  جواب نہ دیا فارغ ہو کر آپ ایک دیوار کے  پاس گئے  اور اپنے  دونوں ہاتھ اس پر مار کر منہ پر ملے  پھر میرے  سلام کا جواب دیا (ابن جریر) یہ تو تھا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا جدید مذہب۔ آپ کا خیال یہ ہے  کہ ضربیں تو تیمم میں دو ہیں  لیکن دوسری ضرب میں ہاتھوں کو پہنچوں تک ملنا چاہیے، تیسرا قول یہ ہے  کہ صرف ایک ہی ضرب یعنی ایک ہی مرتبہ دونوں ہاتھوں کا مٹی پر مار لینا کافی ان گرد آلود ہاتھوں کو منہ پر پھیر لے  اور دونوں پر پہنچے  تک مسند احمد میں ہے  کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  پاس آیا کہ میں جنبی ہو گیا اور مجھے  پانی نہ ملا تو مجھے  کیا کرنا چاہیے  آپ نے  فرمایا نماز نہ پڑھنی چاہیے  دربار میں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی موجود تھے  فرمانے  لگے  امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں  کہ میں اور آپ ایک لشکر میں تھے  اور ہم جنبی ہو گئے  تھے  اور ہمیں پانی نہ ملا تو آپ نے  تو نماز نہ پڑھی اور میں نے  مٹی میں لوٹ پوٹ کر نماز ادا کر لی جب میں واپس پلٹے  اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہنچے  تو میں نے  اس واقعہ کا بیان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  کیا تو آپ نے  فرمایا مجھے  اتنا کافی تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  اپنے  ہاتھ زمین پر مارے  اور ان میں پھونک ماردی اور اپنے  منہ کو ملا اور ہتھیلیوں کو ملا۔ مسند احمد میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا تیمم میں ایک ہی مرتبہ ہاتھ مارنا جو چہرے  کے  لئے  دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے  لئے  ہے، مسند احمد میں ہے  حضرت شقیق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کہ میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابو موسی رض اللہ تعالیٰ عنہا کے  پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت ابو لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے  حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  کہا کہ اگر کوئی شخص پانی نہ پائے  تو نماز نہ پڑھے  اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا کیا تمہیں  یاد نہیں  جبکہ مجھے  اور آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  اونٹوں کے  بارے  میں بھیجا تھا وہاں میں جنبی ہو گیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ لیا واپس آ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  یہ واقعہ بیان کیا تو آپ ہنس دئیے  اور فرمایا اپنے  چہرے  پر ایک بار ہاتھ پھیر لئے  اور ضرب ایک ہی رہی، تو حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  فرمایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اس پر قناعت نہیں  کی یہ سن کر حضرت ابوموسی نے  فرمایا پھر تم اس آیت کا کیا کرو گے  جو سورہ نساء میں ہے  کہ پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو اس کا جواب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ دے  سکے  اور فرمانے لگے سنو ہم نے  لوگوں کو تیمم کی رخصت دیدی تو بہت ممکن ہے  کہ پانی جب انہیں  ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ تیمم کرنے  لگیں گے سورۃ مائدہ میں فرمان ہے  (آیت فاسحوابوجوھکم وایدیکم منہ) اسے  اپنے  چہرے  اور ہاتھ پر ملو۔ اس سے  حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے  دلیل پکڑی ہے  کہ تیمم کا پاک مٹی سے  ہونا اور اس کا بھی غبار آلود ہونا جس سے  ہاتھوں پر غبار لگے  اور وہ منہ اور ہاتھ پر ملا جائے  ضروری ہے  جیسے  کہ حضرت ابو جہم رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی حدیث میں گزرا ہے ۔ کہ انہوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو استنجا کرتے  ہوئے  دیکھا اور سلام کیا اس میں یہ بھی ہے  کہ فارغ ہو کر ایک دیوار کے  پاس گئے  اور اپنی لکڑی سے  کھرچ کر پھر ہاتھ مار کر تیمم کیا۔ پھر فرمان ہے  کہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے  دین میں تنگی اور سختی کرنا نہیں  چاہتا بلکہ وہ تمہیں  پاک صاف کرنا چاہتا ہے  اسی لئے  پانی نہ پانے  کے  وقت مٹی کے  ساتھ تیمم کر لینے  کو مباح قرار دے  کر تم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمایا تاکہ تم شکر کرو۔ پس یہ امت اس نعمت کے  ساتھ مخصوص ہے  جیسے  کہ بخاری و مسلم میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  مجھے  پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں  جو مجھ سے  پہلے  کسی کو نہیں  دی گئیں، مہینے  بھر کی راہ تک میری مدد رعب سے  کی گئی ہے ، میرے  لئے  ساری زمین مسجد اور پاک کرنے  والی بنائی گئی ہے  میرے  جس امتی کو جہاں نماز کا وقت آ جائے  وہ وہیں  پڑھ لے  اس کی مسجد اور اس کا وضو وہیں  اس کے  پاس موجود ہے، میرے  لئے  غنیمت کے  مال حلال کیے  گئے  جو مجھ سے  پہلے  کسی کے  لئے  حلال نہ تھے، مجھے  شفاعت دی گئی تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف بھیجے  جاتے  رہے  لیکن میں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا اور صحیح مسلم کے  حوالے  سے  وہ حدیث بھی پہلے  گزر چکی ہے  کہ تمام لوگوں پر ہمیں تین فضیلتیں عنایت کی گئی ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح بنائی گئیں ہمارے  لئے  زمین مسجد بنائی گئی اور اپنے  ہاتھ پر مسح کر۔پانی نہ ملنے  کے  وقت اللہ معاف کرنے  والا اور بخشنے  والا ہے  اس کی عفو و در گزر شان ہے  کہ اس نے  تمہارے  لئے  پانی نہ ملنے  کے  وقت تیمم کو مشروع کر کے  نماز ادا کرنے  کی اجازت مرحمت فرمائی اگر یہ رخصت نہ ہوتی تو تم ایک گونہ مشکل میں پڑ جاتے  کیونکہ اس آیت کریمہ میں نمازکو ناقص حالت میں ادا کرنا منع کیا گیا ہے  مثلاً نشے  کی حالات میں ہو یا جنابت کی حالت میں ہو یا بے  وضو ہو تو جب تک اپنی باتیں خود سمجھنے  جتنا ہوش اور باقاعدہ غسل اور شرعی طریق پر وضو نہ ہو نماز نہیں  پڑھ سکتے  لیکن بیماری کی حالت میں اور پانی نہ ملنے  کی صورت میں غسل اور وضو کے  قائم مقام تیمم کر دیا، پس اللہ تعالیٰ اس احسان پر ہم اس کے  شکر گزار ہیں  الحمدا للہ ۔ تیمم کی رخصت نازل ہونے  کا واقعہ بھی سن لیجئے  ہم اس واقعہ کو سورۃ نساء کی اس آیت کی تفسیر میں اسی لئے  بیان کرتے  ہیں  کہ سورۃ مائدہ میں جو تیمم کی آیت ہے  وہ نازل ہوئی یہ اس کے  بعد کی ہے  اس کی دلیل یہ ہے  کہ یہ واضح ہے  کہ یہ آیت شراب کی حرمت سے  پہلے  نازل ہوئی تھی اور شراب جنگ احد کے  کچھ عرصہ کے  بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنو نصیر کے  یہودیوں کا محاصرہ کئے  ہوئے  تھے  حرام ہوئی اور سورۃ مائدہ قرآن میں نازل ہونے  والی آخری سورتوں میں سے  ہے  بالخصوص اس سورت کا ابتدائی حصہ لہٰذا مناسب یہی ہے  کہ تیمم کا شان نزول یہیں  بیان کیا جائے ۔ اللہ نیک توفیق دے  اسی کا بھروسہ ہے ۔ مسند احمد میں ہے  کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے  ایک ہار مل گیا لیکن نماز کا وقت اس کی تلاش میں فوت ہو گیا اور ان کے  ساتھ پانی نہ تھا ۔ انہوں نے  بے  وضو نماز ادا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس پہنچ کر اس کی شکایت کی اس پر تیمم کا حکم نازل ہوا، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے  لگے  اے  ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو جزائے  خیر دے  اللہ کی قسم جو تکلیف آپ کو پہنچتی ہے  اس کا انجام ہم مسلمانوں کے  لئے  خیر ہی خیر ہوتا ہے ۔ بخاری میں ہے  حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں  ہم اپنے  کسی سفر میں تھے  بیداء میں یا ذات الجیش میں میرا ہار ٹوٹ کر کہیں  گر پڑا جس کے  ڈھونڈنے  کے  لئے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مع قافلہ ٹھہر گئے  اب نہ تو ہمارے  پاس پانی تھا نہ وہاں میدان میں کہیں  پانی تھا لوگ میرے  والد حضرت ابوبکر صدیق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس میری شکایتیں کرنے  لگے  کہ دیکھو ہم ان کی وجہ سے  کیسی مصیبت میں پڑ گئے  چنانچہ میرے  والد صاحب میرے  پاس آئے  اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر سو گئے  تھے  آتے  ہی مجھے  کہنے  لگے  تو نے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور لوگوں کو روک دیا اب نہ تو ان کے  پاس پانی ہے  نہ یہاں اور کہیں  پانی نظر آتا ہے  الغرض مجھے  خوب ڈانٹا ڈپٹا اور اللہ جانے  کیا کیا کہا اور میرے  پہلو میں اپنے  ہاتھ سے  کچو کے  بھی مارتے  رہے  لیکن میں نے  ذرا سی بھی جنبش نہ کی کہ ایسا نہ ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  آرام میں خلل واقع ہو ساری رات گزر گئی صبح کو لوگ جاگے  لیکن پانی نہ تھا اللہ نے  تیمم کی آیت نازل فرمائی اور سب نے  تیمم کیا حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے  لگے  اے  ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  گھرانے  والو یہ کچھ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں، اب جب ہم نے  اس اونٹ کو اٹھایا جس پر یہ سوار تھی تو اس کے  نیچے  سے  ہی ہار مل گیا ۔ مسند احمد میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  ہمراہ ذات الجیش سے  گزرے ۔ ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یمنی خر مہروں کا ہار ٹوٹ کر کہیں  گر پڑا تھا اور گم ہو گیا تھا اس کی تلاش میں یہاں ٹھہر گئے  ساری رات آپ کے  ہم سفر مسلمانوں نے  اور آپ نے  یہیں  گزاری صبح اٹھے  تو پانی بالکل نہی تھا پس اللہ تعالیٰ نے  اپنے  نبی پر پاک مٹی سے  تیمم کر کے  پاکی حاصل کرنے  کی رخصت کی آیت اتاری اور مسلمانوں نے  حضور کے  ساتھ کھڑے  ہو کر زمین پر اپنے  ہاتھ مارے  اور جو مٹی ان سے  لت پت ہوئی اسے  جھاڑے  بغیر اپنے  چہرے  پر اور اپنے  ہاتھوں پر مونڈھوں تک اور ہاتھوں کے  نیچے  سے  بغل تک مل لی۔ ابن جریر کی روایت میں ہے  کہ اس سے  پہلے  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر سخت غصہ ہو کر گئے  تھے  لیکن تیمم کی رخصت کے  حکم کو سن کر خوشی خوشی اپنی صاحبزادی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے  پاس آئے  اور کہنے  لگے  تم بڑی مبارک ہو مسلمانوں کو اتنی بڑی رخصت ملی پھر مسلمانوں نے  زمین پر ایک ضرب سے  چہرے  ملے  اور دوسری ضرب سے  کہنیوں اور بغلوں تک ہاتھ لے  گئے  ابن مردویہ میں روایت ہے  حضرت اسلع بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے  ہیں  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی کو چلا رہا تھا۔ جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار تھے  جاڑوں کا موسم تھا رات کا وقت تھا سخت سردی پڑ رہی تھی اور میں جنبی ہو گیا ادھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  کوچ کا ارادہ کیا تو میں نے  اپنی اس حالت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی کو چلانا پسند نہ کیا ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر سرد پانی سے  نہاؤں گا تو مر جاؤں گا یا بیمار پڑ جاؤں گا تو میں نے  چپکے  سے  ایک انصاری کو کہا کہ آپ اونٹنی کی نکیل تھام لیجئے  چنانچہ وہ چلاتے  رہے  اور میں نے  آگ سلگا کر پانی گرم کر کے  غسل کیا پھر دوڑ بھاگ کر قافلہ میں پہنچ گیا آپ نے  مجھے  فرمایا اسلع کیا بات ہے ؟ اونٹنی کی چال کیسے  بگڑی ہوئی ہے ؟ میں نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اسے  نہیں  چلا رہا تھا بلکہ فلاں انصاری صاحب چلا رہے  تھے  آپ نے  فرمایا یہ کیوں ؟ تو میں نے  سارا واقعہ کہہ سنایا اس پر اللہ عزوجل نے (آیت"لا تقربوا الصلوٰۃ "سے "غفورا،) تک نازل فرمائی یہ روایت دوسری سند سے  بھی مروی ہے ۔

۴۴

یہودیوں کی ایک مذموم خصلت

اللہ تبارک و تعالیٰ بیان فرماتا ہے  کہ یہودیوں کی ایک مذموم خصلت یہ بھی ہے  کہ وہ گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتے  ہیں ، نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس سے  بھی روگردانی کرتے  ہیں  اور اللہ کا دیا ہوا جو علم ان کے  پاس ہے  اسے  بھی پس پشت ڈال دیتے  ہیں  خود اپنی کتابوں میں نبی موعود کی بشارتیں پڑھتے  ہیں  لیکن اپنے  مریدوں سے  چڑھاوا لینے  کے  لالچ میں ظاہر نہیں  کرتے  بلکہ ساتھ ہی یہ چاہتے  ہیں  کہ خود مسلمان بھی راہ راست سے  بھٹک جائیں اللہ کی کتاب کے  مخالف ہو جائیں ہدایت کو اور سچے  علم کو چھوڑ دیں، اللہ تعالیٰ تمہارے  دشمنوں سے  خوب با خبر ہے  وہ تمہیں  ان سے  مطلع کر رہا ہے  کہ کہیں  تم ان کے  دھوکے  میں نہ آ جاؤ۔ اللہ کی حمایت کافی ہے  تم یقین رکھو کہ وہ اپنی طرف جھکنے  والوں کی ضرور حمایت کرتا ہے  وہ اس کا مددگار بن جاتا ہے ۔ تیسری آیت میں لفظ من سے  شروع ہوئی ہے  اس میں من بیان جنس کے  لئے  ہے  جیسے (آیت "فاجتنبو االرجس من الاوثان") میں پھر یہودیوں کے  اس فرقے  کی جس تحریف کا ذکر ہے  اس سے  مراد یہ ہے  کہ وہ کلام اللہ کے  مطلب کو بدل دیتے  ہیں  اور خلاف منشائے  الٰہی تفسیر کرتے  ہیں  اور ان کا یہ فعل جان بوجھ کر ہوتا ہے  قصداً افترا پردازی کے  مرتکب ہوتے  ہیں ، پھر کہتے  ہیں  کہ اے  پیغمبر جو آپ نے  کہا ہم نے  سنا لیکن ہم ماننے  کے  نہیں  خیال کیجئے  ان کے  کفر و الحاد کو دیکھئے  کہ جان کر سن کر سمجھ کر کھلے  لفظوں میں اپنے  ناپاک خیال کا اظہار کرتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  آپ سنئے  اللہ کرے  آپ نہ سنیں ۔ یا یہ مطلب کہ آپ سنئے  آپ کی نہ سنی جائے  لیکن پہلا مطلب زیادہ اچھا ہے  یہ کہنا ان کا بطور تمسخر اور مذاق کے  تھا اور اللہ انہیں  لعنت کرے  علاوہ ازیں راعنا کہتے  جس سے  بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے  کہ یہ لوگ کہتے  ہیں  ہماری طرف کان لگائے  لیکن وہ اس لفظ سے  مراد یہ لیتے  تھے  کہ تم بڑی رعونت والے  ہو۔ اس کا پورا مطلب (آیت"یاایھا الذین امنوالا تقولو اراعناالخ") کی تفسیر میں گزر چکا ہے ، مقصد یہ ہے  کہ جو ظاہر کرتے  تھے  اس کے  خلاف اپنی زبانوں کو موڑ کر طعن آمیز لہجہ میں کہتے  اور حقیقی مفہوم میں اپنے  دل میں مخفی رکھتے  تھے  دراصل یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے  ادبی اور گستاخی کرتے  تھے  پس انہیں  ہدایت کی گئی ہے  کہ وہ ان دو معنی والے  الفاظ کا استعمال چھوڑ دیں اور صاف صاف کہیں  کہ ہم نے  سنا، مانا، آپ ہماری عرض سنئے ! آپ ہماری طرف دیکھئے ! یہ کہنا ہی ان کے  لئے  بہتر ہے  اور یہی صاف سیدھی سچی اور مناسب بات ہے  لیکن ان کے  دل بھلائی سے  دور ڈال دیئے  گئے  ہیں  ایمان کامل طور سے  ان کے  دلوں میں جگہ ہی نہیں  پاتا، اس جملے  کی تفسیر بھی پہلے  گزر چکی ہے  مطلب یہ ہے  کہ نفع دینے  والا ایمان ان میں نہیں ۔

 

۴۷

قرآن حکیم کا اعجاز تاثیر

اللہ عزوجل یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے  کہ میں نے  اپنی زبردست کتاب اپنے  بہترین نبی کے  ساتھ نازل فرمائی ہے  جس میں خود تمہاری اپنی کتاب کی تصدیق بھی ہے  اس پر ایمان لاؤ اس سے  پہلے  کہ ہم تمہاری صورتیں مسخ کر دیں یعنی منہ بگاڑ کر دیں آنکھیں بجائے  ادھر کے  ادھر ہو جائیں، یا یہ مطلب کہ تمہارے  چہرے  مٹا دیں آنکھیں کان ناک سب مٹ جائیں پھر یہ مسخ چہرہ بھی الٹا ہو جائے ۔ یہ عذاب ان کے  بد اعمال کا بدلہ ہے  یہی وجہ ہے  کہ یہ حق سے  ہٹ کر باطل کی طرف ہدایت سے  پھر کر ضلالت کی جانب بڑھے  چلے  جا رہے  ہیں  بایں ہمہ اللہ تعالیٰ انہیں  احساس دلا رہے  ہیں  کہ اب بھی باز آ جاؤ اور اپنے  سے  پہلے  ایسی حرکت کرنے  والوں کی صورتوں کے  مسخ ہونے  کو یاد کرو کہیں  ایسا نہ ہو کہ ان کی طرح تمہارا منہ الٹ دوں گا تاکہ تمہیں  پچھلے  پیروں چلنا پڑے  تمہاری آنکھیں گدی کی طرف کردوں اور اسی جیسی تفسیر بعض نے (آیت  انا جعلنا فی اعناقھم الخ،) کی آیت میں بھی کی ہے  غرض یہ ان کی گمراہی اور ہدایت سے  دور پڑ جانے  کی بری مثال بیان ہوئی ہے ، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے  مروی ہے  کہ مطلب یہ ہے  کہ ہم تمہیں  سچ مچ حق کے  راستے  سے  ہٹا دیں اور گمراہی کی طرف متوجہ کر دیں، ہم تمہیں  کافر بنا دیں اور تمہارے  چہرے  بندروں جیسے  کر دیں، ابو زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  کہ لوٹا دینا یہ تھا کہ ارض حجاز سے  بلاد شام میں پہنچا دیا۔ یہ بھی مذکور ہے  کہ اسی آیت کو سن کر حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشرف با اسلام ہوئے  تھے ۔ ابن جریر میں ہے  کہ حضرت ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کے  سامنے  حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  اسلام کا تذکرہ ہوا تو آپ نے  فرمایا حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  زمانے  میں مسلمان ہوئے  یہ بیت المقدس جاتے  ہوئے  مدینہ میں آئے  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے  پاس گئے  اور فرمایا اے  کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو جاؤ انہوں نے  جواب دیا تم تو قرآن میں پڑھ چکے  ہو کہ جنہیں  توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے  اسے  کما حقہ قبول نہ کیا۔ ان کی مثال اس گدھے  کی سی ہے  جو بوجھ لادے  ہوئے  ہو اور یہ بھی تم جانتے  ہو کہ میں بھی ان لوگوں میں سے  ہوں جو توراۃ اٹھوائے  گئے  اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اسے  چھوڑ دیا یہ یہاں سے  چل کر حمص پہنچے  وہاں سنا کہ ایک شخص جو ان کے  گھرانے  میں سے  تھا اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے  جب اس نے  آیت ختم کی انہیں  ڈر لگنے  لگا کہ کہیں  سچ مچ اس آیت کی وعید مجھ پر صادق نہ آ جائے  اور میرا منہ مسخ کر پلٹ نہ جائے  یہ جھٹ سے  کہنے  لگے  "یارب اسلمت"میرے  اللہ میں ایمان لایا۔ پھر حمص سے  ہی واپس اپنے  وطن یمن میں آئے  اور یہاں سے  اپنے  تمام گھر والوں کو لے  کر سارے  کنبے  سمیت مسلمان ہو گئے، ابن ابی حاتم میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے  اسلام کا واقعہ اس طرح مروی ہے  کہ ان کے  استاد ابو مسلم جلیلی ان کے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے  میں دیر لگانے  کی وجہ سے  ہر وقت انہیں  ملامت کرتے  رہتے  تھے  پھر انہیں  بھیجا کہ دیکھیں کہ آپ وہی پیغمبر ہیں  جن کی خوشخبری اور اوصاف توراۃ میں ہیں ؟ یہ آئے  تو فرماتے  ہیں  جب میں مدینہ شریف پہنچا تو ایک شخص قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا کہ اے  اہل کتاب ہماری نازل کردہ کتاب تمہارے  پاس موجود کتاب کی تصدیق کرتی ہے  بہتر ہے  کہ اس پر اس سے  پہلے  ایمان لاؤ کہ ہم تمہارے  منہ بگاڑ دیں اور انہیں  الٹا کر دیں ۔ میں چونک اٹھا اور جلدی جلدی غسل کرنے  بیٹھ گیا اور اپنے  چہرے  پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا کہ کہیں  مجھے  ایمان لانے  میں دیر نہ لگ جائے  اور میرا چہرہ الٹا نہ ہو جائے  ۔ پھر میں بہت جلد آ کر مسلمان ہو گیا، اس کے  بعد اللہ تعالیٰ فرماتے  ہیں  یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے  کہ ہفتہ والوں پر ہم نے  لعنت نازل کی یعنی جن لوگوں نے  ہفتہ والے  دن حیلے  کے  لئے  شکار کھیلا حالانکہ انہیں  اس کام سے  منع کیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بندر اور سور بنا دئیے  گئے  ان کا مفصل واقعہ سورۃ اعراف میں آئے  گا انشا اللہ تعالیٰ ارشاد ہوتا ہے  الٰہی کام پورے  ہو کر ہی رہتے  ہیں  وہ جب کوئی حکم کر دے  تو کوئی نہیں  جو اس کی مخالفت یا ممانعت کر سکے ۔ پھر خبر دیتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ اپنے  ساتھ شرک کئے  جانے  کے  گناہ کو نہیں  بخشتا، یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے  اس حال میں ملاقات کرے  کہ وہ مشرک ہو اس پر بخشش بہت سی حدیثیں ہیں  ہم یہاں بقدر آسانی ذکر کرتے  ہیں  ۔ 

گناہوں کی تین دیوان

پہلی حدیث بحوالہ مسند احمد۔ اللہ تعالیٰ کے  نزدیک گناہوں کے  تین دیوان ہیں، ایک تو وہ جس کی اللہ تعالیٰ کچھ پرواہ نہیں  کرتا دوسرا وہ جس میں اللہ تعالیٰ کچھ نہیں  چھوڑتا۔ تیسرا وہ جسے  اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں  بخشتا۔ پس جسے  وہ بخشتا نہیں  وہ شرک ہے  اللہ عزوجل خود فرماتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ اپنے  ساتھ شریک کئے  جانے  کو معاف نہیں  فرماتا اور جگہ ارشاد ہے  جو شخص اللہ کے  ساتھ شریک کر لے، اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔ اور جس دیوان میں اللہ کے  ہاں کوئی وقعت نہیں  وہ بندے  کا اپنی جان پر ظلم کرنا ہے  اور جس کا تعلق اس سے  اور اللہ کی ذات سے  ہے  مثلاً کسی دن کا روزہ جسے  اس نے  چھوڑ دیا یا نماز چھوڑ دی تو اللہ تعالیٰ اسے  بخش دے  گا اور جس دیوان (اعمالنامہ) میں سے  موجود کسی فرد کو اللہ نہیں  چھوڑتا وہ بندوں کے  آپس میں مظالم ہیں  جن کا بدلہ اور قصاص ضروری ہے ۔ دوسری حدیث بحوالہ مسند بزار۔ الفاظ کے  ہیر پھیر کے  ساتھ مطلب وہی ہے ۔ تیسری حدیث بحوالہ مسند احمد ممکن ہے  اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے  مگر وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جس نے  ایمان دار کو جان بوجھ کر قتل کیا۔ چوتھی حدیث بحوالہ مسند احمد۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  اے  میرے  بندے  تو جب تک میری عبادت کرتا رہے  گا اور مجھ سے  نیک امید رکھے  گا میں بھی تیری جتنی خطائیں ہیں  انہیں  معاف فرماتا رہوں گا میرے  بندے  اگر تو ساری زمین بھر کی خطائیں بھی لے  کر میرے  پاس آئے  گا تو میں بھی زمین کی وسعتوں جتنی مغفرت کے  ساتھ تجھ سے  ملوں گا بشرطیکہ تو نے  میرے  ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ پانچویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔ جو بندہ لا الہ الا اللہ کہے  پھر اسی پر اس کا انتقال ہو وہ ضرور جنت میں جائے  گا یہ سن کر حضرت ابو ذررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  دریافت کیا کہ اگر اس نے  زنا اور چوری بھی کیا ہو آپ نے  فرمایا گو اس نے  زناکاری اور چوری بھی کی ہو تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوا۔ چوتھے  سوال پر آپ نے  فرمایا چاہے  ابوذر کی ناک خاک آلود ہو پس حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے  اپنی چادر گھسیٹتے  ہوئے  یہ فرماتے  ہوئے  نکلے  کہ چاہے  ابوذر کی ناک خاک آلود ہو اور اس کے  بعد جب کبھی آپ یہ حدیث بیان فرماتے  یہ جملہ ضروری کہتے  ۔ یہ حدیث دوسری سند سے  قدرے  زیادتی کے  ساتھ بھی مروی ہے ، اس میں ہے  حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  ساتھ مدینہ کے  میدان میں چلا جا رہا تھا احد کی طرف ہماری نگاہیں  تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اے  ابوذر میں کہا لبیک یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا سنو میرے  پاس احد پہاڑ کے  برابر سونا ہو تو میں نہ چاہوں گا کہ تیسری شام کو اس میں سے  کچھ بھی باقی رہ جائے  بجز اس دینار کے  جسے  میں قرضہ چکا نے  کے  لئے  رکھ لوں باقی تمام مال میں اس طرح راہ للہ اس کے  بندوں کو دے  ڈالوں اور آپ نے  دائیں بائیں اور سامنے  لپیں پھینکیں ۔ پھر کچھ دیر ہم چلتے  رہے  پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  مجھے  پکارا اور فرمایا جن کے  پاس یہاں زیادتی ہے  وہی وہاں کمی والے  ہوں گے  مگر جو اس طرح اور اس طرح کرے  یعنی آپ نے  اپنے  دائیں سامنے  اور بائیں لپیں (ہتھیلیاں) بھر کر دیتے  ہوئے  اس عمل کی وضاحت کی، پھر کچھ دیر چلنے  کے  بعد فرمایا ابوذر میں ابھی آتا ہوں تم یہیں  ٹھہرو آپ تشریف لے  گئے  اور میری نگاہوں سے  اوجھل ہو گئے  اور مجھے  آوازیں سنائی دینے  لگیں دل بے  چین ہو گیا کہ کہیں  تنہائی میں کوئی دشمن آ گیا ہو میں نے  قصد کیا کہ وہاں پہنچوں لیکن ساتھ ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ میں جب تک نہ آؤں تم یہیں  ٹھہرے  رہنا چنانچہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ آپ تشریف لے  آئے  تو میں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ آوازیں کیسی آ رہی تھیں آپ نے  فرمایا میرے  پاس حضرت جبرئیل آئے  تھے  اور فرما رہے  تھے  کہ آپ کی امت میں سے  وفات پانے  والا اللہ تعالیٰ کے  ساتھ کسی کو شریک نہ کرے  تو وہ جنت میں جائے  گا میں نے  کہا گو زنا اور چوری بھی اس سے  سرزد ہوئی ہو تو فرمایا ہاں گو زنا اور چوری بھی ہوئی ہو، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے  کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  رات کے  وقت نکلا دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تنہا تشریف لے  جا رہے  ہیں  تو مجھے  خیال ہوا کہ شاید اس وقت آپ کسی کو ساتھ لے  جانا نہیں  چاہتے  تو میں چاند کی چاندنی میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پیچھے  ہو لیا آپ نے  جب مڑ کر مجھے  دیکھا تو پوچھا کون ہے  میں نے  کہا ابوذر اللہ مجھے  آپ پر سے  قربان کر دے  تو آپ نے  فرمایا آؤ میرے  ساتھ چلو تھوڑی دیر ہم چلتے  رہے  پھر آپ نے  فرمایا زیادتی والے  ہی قیامت کے  دن کمی والے  ہوں گے  مگر وہ جنہیں  اللہ تعالیٰ نے  مال دیا پھر وہ دائیں بائیں آئے  پیچھے  نیک کاموں میں خرچ کرتے  رہے  پھر کچھ دیر چلنے  کے  بعد آپ نے  مجھے  ایک جگہ بٹھا کر جس کے  ارد گرد پتھر تھے  فرمایا میری واپس تک یہیں  بیٹھے  رہو پھر آپ آگے  نکل گئے  یہاں تک کہ میری نظر سے  پوشیدہ ہو گئے  آپ کو زیادہ دیر لگ گئی پھر میں نے  دیکھا کہ آپ تشریف لا رہے  ہیں  اور زبان مبارک سے  فرماتے  آ رہے  ہیں  گو زنا کیا ہو یا چوری کی ہو جب میرے  پاس پہنچے  تو میں رک نہ سکا پوچھا کہ اے  نبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ مجھے  آپ پر قربان کرے  اس میدان کے  کنارے  آپ کس سے  باتیں کر رہے  تھے  میں نے  سنا کوئی آپ کو جواب بھی دے  رہا تھا آپ نے  فرمایا وہ جبرئیل تھے  یہاں میرے  پاس آئے  اور فرمایا اپنی امت کو خوش خبری سنا دو کہ جو میرے  اور اللہ کے  ساتھ اس نے  کسی کو شریک نہ کیا وہ جنتی ہو گا میں نے  کہا اے  جبرئیل گو اس نے  چوری کی ہو اور زنا کیا ہو فرمایا ہاں میں نے  پھر یہی سوال کیا سوال کیا جواب دیا ہاں میں نے  پھر یہی فرمایا ہاں اور اگرچہ اس نے  شراب پی ہو۔ چھٹی حدیث بحوالہ مسند عبد بن حمید ایک شخص حضور کے  پاس آیا، اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنت واجب کر دینے  والی چیزیں کیا ہیں ؟ آپ نے  فرمایا جو شخص بغیر شرک کئے  مرا اس کے  لئے  جنت واجب ہے  اور جو شرک کرتے  ہوئے  مرا اس کے  لئے  جہنم واجب ہے ، یہی حدیث اور طریق سے  مروی ہے  جس میں ہے  کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے  ساتھ شرک نہ کرتا ہوا مرا اس کے  لئے  بخشش حلال ہے  اگر اللہ چاہے  اسے  عذاب کرے  اگر چاہے  بخش دے  اللہ کے  ساتھ کسی کو شریک کرنے  والے  کو نہیں  بخشتا اس کے  سوا جسے  چاہے  بخش دے  (ابن ابی حاتم) اور سند سے  مروی ہے  کہ آپ نے  فرمایا بندے  پر مغفرت ہمیشہ رہتی ہے  جب تک کہ پردے  نہ پڑ جائیں دریافت کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پردے  پڑ جانا کیا ہے ؟ فرمایا شرک، جو شخص شرک نہ کرتا ہو اور اللہ تعالیٰ سے  ملاقات کرے  اس کے  لئے  بخشش الٰہی حلال ہو گئی اگر چاہیے  عذاب کرے  اگر چاہے  بخش دے  پھر آپ نے  (آیت ان اللہ لا یغفر الخ،) تلاوت فرمائی (مسند ابو یعلیٰ) ساتویں حدیث بحوالہ مسند احمد، جو شخص مرے  اللہ کے  ساتھ شریک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہو گا آٹھویں حدیث بحوالہ مسند احمد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس آئے  اور فرمایا تمہارے  رب عزوجل نے  مجھے  اختیار دیا کہ میری امت میں سے  ستر ہزار کا بے  حساب جنت میں جانا پسند کروں یا اللہ تعالیٰ کے  پاس جو چیز میرے  لئے  میری امت کی بابت پوشیدہ محفوظ ہے  اسے  قبول کر لوں، تو بعض صحابہ نے  کہا کیا اللہ تعالیٰ آپ کے  لئے  یہ محفوظ چیز بچا کر بھی رکھے  گا؟ آپ یہ سن کر اندر تشریف لے  گئے  پھر تکبیر پڑھتے  ہوئے  باہر آئے  اور فرمانے  لگے  میرے  رب نے  مجھے  ہر ہزار کے  ساتھ ستر ہزار کو جنت عطا کرنا مزید عطا فرمایا اور وہ پوشیدہ حصہ بھی، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب یہ حدیث بیان فرما چکے  تو حضرت ابو رہم نے  سوال کیا کہ وہ پوشیدہ محفوظ کیا ہے ؟ اس پر لوگوں نے  انہیں  کچھ کچھ کہنا شروع کر دیا کہ کہاں تم اور کہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  لئے  اختیار کردہ چیز؟ حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا سنو جہاں تک ہمارا گمان ہے  جو گمان یقین کے  قریب ہے  یہ ہے  کہ وہ چیز جنت میں جانا ہے  ہر اس شخص کا جو سچے  دل سے  گواہی دے  کہ اللہ ایک ہے  اس کے  سوا کوئی معبود نہیں  اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے  بندے  اور رسول ہیں ۔ نویں حدیث بحوالہ ابن ابی حاتم۔ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا بھتیجا حرام سے  باز نہیں  آتا آپ نے  فرمایا اس کی دینداری کیسی ہے ، کہا نمازی ہے  اور توحید والا ہے  آپ نے  فرمایا جاؤ اور اس سے  اس کا دین بطور سبہ کے  طلب کرو اگر انکار کرے  تو اس سے  خرید لو، اس نے  جا کر اس سے  طلب کیا تو اس نے  انکار کر دیا اس نے  آ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی تو آپ نے  فرمایا میں نے  اسے  اپنے  دین پر چمٹا ہوا پایا اس پر (آیت "ان اللہ لا یغفرالخ") نازل ہوئی۔ دسویں حدیث بحوالہ حافظ یعلیٰ ایک شخص رسول کے  پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کوئی حاجت یا حاجت والا نہیں  چھوڑا یعنی زندگی میں سب کچھ کر چکا آپ نے  فرمایا کیا تو یہ گواہی نہیں  دیتا کہ اللہ کے  سوا کوئی معبود نہیں  اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے  رسول ہیں، تین مرتبہ اس نے  کہا ہاں آپ نے  فرمایا یہ ان سب پر غالب آ جائے  گا۔ گیارہویں حدیث بحوالہ مسند احمد ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  ضخم بن جوش یمامی رحمۃ اللہ علیہ سے  کہا کہ اے  یمامی کسی شخص سے  ہرگز یہ نہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ تجھے  نہیں  بخشے  گا یا تجھے  جنت میں داخل نہ کرے  گا، یمامی رحمۃ اللہ علیہ نے  کہا حضرت یہ بات تو ہم لوگ اپنے  بھائیوں اور دوستوں سے  بھی غصے  غصے  میں کہہ جاتے  ہیں  آپ نے  فرمایا خبردار ہرگز نہ کہنا سنو میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سنا ہے  آپ نے  فرمایا بنی اسرائیل میں دو شخص تھے  ایک تو عبادت میں بہت چست چالاک اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے  والا اور دونوں میں دوستانہ اور بھائی چارہ تھا عابد بسا اوقات اس دوسرے  کو کسی نہ کسی گناہ میں دیکھتا رہتا تھا اے  شخص باز رہ جواب دیتا تو مجھے  میرے  رب پر چھوڑ دے  کیا تو مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے  ؟ ایک مرتبہ عابد نے  دیکھا کہ وہ پھر کسی گناہ کے  کام کو کر رہا ہے  جو گناہ اسے  بہت بڑا معلوم ہوا تو کہا افسوس تجھ پر باز آ اس نے  وہی جواب دیا تو عابد نے  کہا اللہ کی قسم اللہ تجھے  ہرگز نہ بخشے  گا یا جنت نے  دے  گا اللہ تعالیٰ نے  ان کے  پاس فرشتہ بھیجا جس نے  ان کی روحیں قبض کر لیں جب دونوں اللہ تعالیٰ کے  ہاں جمع ہوئے  تو اللہ تعالیٰ نے  اس گنہگار سے  فرمایا جا اور میری رحمت کی بنا پر جنت میں داخل ہو جا اور اس عابد سے  فرمایا کیا تجھے  حقیقی علم تھا؟ کیا تو میری چیز پر قادر تھا؟ اسے  جہنم کی طرف لے  جاؤ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  یہ بیان فرمایا اس کی قسم جس کے  ہاتھ میں ابو القاسم کی جان ہے  اس نے  ایک کلمہ زبان سے  ایسا نکال دیا جس نے  اس کی دنیا اور آخرت برباد کر دی۔ بارہویں حدیث بحوالہ طبرانی جس نے  اس بات کا یقین کر لیا کہ میں گناہوں کی بخشش پر قادر ہوں تو میں اسے  بخش ہی دیتا ہوں اور کوئی پرواہ نہیں  کرتا جب تک کہ وہ میرے  ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ۔ تیرہویں حدیث بحوالہ بزار، ابو یعلیٰ جس عمل پر اللہ تعالیٰ نے  ثواب کا وعدہ کیا ہے  اسے  تو مالک ضرور پورا فرمائے  گا اور جس پر سزا کا فرمایا ہے  وہ اس کے  اختیار میں ہے  چاہے  بخش دے  یا سزا دے  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں  ہم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قاتل کے  بارے  میں اور یتیم کا مال کھا جانے  والے  کے  بارے  میں اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے  والے  کے  بارے  میں اور جھوٹی گواہی دینے  والے  کے  بارے  میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں  کرتے  تھے  یہاں تک کہ (آیت ان اللّٰہ  یغفر الخ،) اتری اور اصحاب رسول گمراہی سے  رک گئے  (ابن ابی حاتم) ابن جریر کی یہ روایت اس طرح پر ہے  کہ جن گناہوں پر جہنم کا ذکر کتاب اللہ میں ہے  اسے  کرنے  والے  کے  جہنمی ہونے  میں ہمیں کوئی شک ہی نہیں  تھا یہاں تک کہ ہم پر یہ آیت اتری جب ہم نے  اسے  سنا تو ہم شہادت کے  لئے  رک گئے  اور تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ دئیے ۔ بزار میں آپ ہی کی ایک روایت ہے  کہ کبیرہ گناہ کرنے  والوں کے  لئے  استغفار کرنے  سے  ہم رکے  ہوئے  تھے  یہاں تک کہ ہم نے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  یہ آیت سنی اور آپ نے  یہ بھی فرمایا کہ میں نے  اپنی شفاعت کو اپنی امت میں سے  کبیرہ گناہ کرنے  والوں کے  لئے  موخر کر رکھا ہے  ابو جعفر رازی کی روایت میں آپ کا یہ فرمان ہے  کہ جب (آیت"یا عبادی الذین اسرفوا الخ") نازل ہوئی یعنی اے  میرے  وہ بندو جنہوں نے  اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے  تم میری رحمت سے  مایوس نہ ہو جاؤ تو ایک شخص نے  کھڑے  ہو کر پوچھا حضور شرک کرنے  والا بھی ؟ آپ کو اس کا یہ سوال ناپسند آیا پھر آپ نے  ان (آیت اللہ لا یغفر الخ،) پڑھ کر سنائی ۔ سورۃ تنزیل کی یہ آیت مشروط ہے  توبہ کے  ساتھ پس جو شخص جس گناہ سے  توبہ کرے  اللہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے  گو بار بار کرے  پس مایوس نہ ہونے  کی آیت میں توبہ کی شرط ضرور ہے ۔ ورنہ اس میں شرک بھی آ جائے  گا اور پھر مطلب صحیح نہ ہو گا کیونکہ اس آیت میں وضاحت کے  ساتھ یہاں موجود ہے  کہ اللہ کے  ساتھ شرک کرنے  والے  کی بخشش نہیں  ہے، ہاں اس کے  سوا جسے  چاہے  یعنی اگر اس نے  توبہ بھی نہ کی ہو اس مطلب کے  ساتھ اس آیت میں جو امید دلانے  والی ہے  اور زیادہ امید کی آس پیدا ہو جاتی ہے  واللّٰہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے  اللہ کے  ساتھ جو شرک کرے  اس نے  بڑے  گناہ کا افترا باندھا، جیسے  اور آیت میں ہے  شرک بہت بڑا ظلم ہے  بخاری مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہا سب سے  بڑا گناہ کیا ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  تمہیں  سب سے  بڑا کبیرہ گناہ بتاتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے  ساتھ شریک کرنا ہے  پھر آپ نے  اسی آیت کا یہ آخری حصہ تلاوت فرمایا پھر ماں باپ کی نافرمانی کرنا پھر آپ نے  یہ آیت تلاوت فرمائی کہ (آیت ان اشکر لی ولو الدیک الی المصیر میرا شکر کر اور اپنے  ماں باپ کا شکریہ کر میری طرف لوٹنا ہے ۔

۵۱

مونہہ پر تعریف و توصیف کی ممانعت

یہود و نصاریٰ کا قول تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کہ چہیتے  ہیں  اور کہتے  تھے  کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے  یا نصرانی ان کے  اس قول کی تردید میں یہ (آیت الم تر الخ،) نازل ہوئی اور یہ قول حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کے  خیال کے  مطابق اس آیت کا شان نزول ہی ہے  کہ یہ لوگ اپنے  بچوں کو امام بناتے  تھے  اور کہتے  تھے  کہ یہ بے  گناہ ہے، یہ بھی مروی ہے  کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے  جو بچے  فوت ہو گئے  ہیں  وہ ہمارے  لئے  قربت الہ کا ذریعہ ہیں  ہمارے  سفارشی ہیں  اور ہمیں وہ بچا لیں گے  پس یہ آیت اتری۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہودیوں کا اپنے  بچوں کا آگے  کرنے  کا واقعہ بیان کر کے  فرماتے  ہیں  وہ جھوٹے  ہیں  اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو بے  گناہ کی وجہ سے  چھوڑ نہیں  دیتا، یہ کہتے  تھے  کہ جیسے  ہمارے  بچے  بے  خطا ہیں  ایسے  ہیں  ہم بھی بے  گناہ ہیں  اور کہا گیا ہے  کہ یہ آیت دوسروں کو بڑھی چڑھی مدح و ثنا بیان کرنے  کے  رد میں اتری ہے، صحیح مسلم شریف میں ہے  کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  حکم دیا کہ ہم مدح کرنے  والوں کے  منہ مٹی سے  بھر دیں، بخاری و مسلم میں ہے  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ایک مرتبہ ایک شخص کو دوسرے  کی مدح و ستائش کرتے  ہوئے  سن کر فرمایا افسوس تو نے  اپنے  ساتھی کی گردن توڑ دی پھر فرمایا اگر تم میں سے  کسی کو ایسی ہی ضرورت کی وجہ سے  کسی کی تعریف کرنی بھی ہو تو یوں کہے  کہ فلاں شخص کے  بارے  میں میری رائے  یہ ہے  اللہ کے  نزدیک پسندیدہ عمل یہی ہے  کہ کسی کی منہ پر تعریف نہ کی جائے ۔ مسند احمد میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے  کہ جو کہے  میں مومن ہوں وہ کافر ہے  اور جو کہے  کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے  اور جو کہے  میں جنتی ہوں جہنمی ہے، ابن مردویہ میں آپ کے  فرمان میں یہ بھی مروی ہے  کہ مجھے  تم پر سب سے  زیادہ خوف اس بات کا ہے  کہ کوئی شخص خود پسندی کرنے  لگے  اور اپنی سمجھ پر آپ فخر کرنے  بیٹھ جائے، مسند احمد میں ہے  کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی کم حدیث بیان فرماتے  اور بہت کم جمعے  ایسے  ہوں گے  جن میں آپ نے  یہ چند حدیثیں نہ سنائی ہوں کہ جس کے  ساتھ اللہ کا ارادہ بھلائی کا ہوتا ہے  اسے  اپنے  دین کی سمجھ عطافرماتا ہے  اور یہ مال میٹھا اور سبز رنگ ہے  جو اسے  اس کے  حق کے  ساتھ لے  گا اسے  اس میں برکت دی جائے  گی تم لوگ آپس میں ایک دوسرے  کی مدح و ستائش سے  پرہیز کرو اس لئے  کہ یہ دوسرے  پر چھری پھیرنا ہے  یہ پچھلا جملہ ان سے  ابن ماجہ میں بھی مروی ہے  حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ انسان کے  پاس ایک صبح کو اپنے  دین میں سے  کچھ بھی نہیں  ہوتا (اس کی وجہ یہ ہوتی ہے) کہ وہ صبح کسی سے  اپنا کام نکالنے  کے  لئے  ملا، اس کی تعریف شروع کر دی اور اس کی مدح سرائی شروع کی اور قسمیں کھا کر کہنے  لگا آپ ایسے  ہیں  اور ایسے  ہیں  حالانکہ نہ وہ اس کے  نقصان کا مالک ہے  نہ نفع اور بسا ممکن ہے  کہ ان تعریفی کلمات اور اس کا تفصیلی بیان (آیت فلا تزکو انفسکم) کی تفسیر میں آئے  گا انشاء اللہ تعالیٰ پس یہاں ارشاد ہوتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے  وہ جسے  چاہے  پاک کر دے  کیونکہ تمام چیزوں کی حقیقت اور اصلیت کا عالم وہی ہے، پھر فرمایا کہ اللہ ایک دھاگے  کے  وزن کے  برابر بھی کسی کی نیکی نہ چھوڑے  گا، فتیل کے  معنی ہیں  کھجور کی گٹھلی کے  درمیان کا دھاگہ اور مروی ہے  کہ وہ دھاگہ جسے  کوئی اپنی انگلیوں سے  بٹ لے، پھر فرماتا ہے  ان کی افترا پردازی تو دیکھو کہ کس طرح اللہ عزوجل کی اولاد اور اس کے  محبوب بننے  کے  دعویدار ہیں ؟ اور کیسی باتیں کر رہے  ہیں  کہ ہمیں تو صرف چند دن آگ میں رہنا ہو گا کس طرح اپنے  بروں کے  نیک اعمال پر اعتماد کیے  بیٹھے  ہیں ؟ حالانکہ ایک کا عمل دوسرے  کو کچھ نفع نہیں  دے  سکتا جیسے  ارشاد ہے (آیت تلک امۃ قد خلت الخ،) یہ ایک گروہ ہے  جو گزر چکا ان کے  اعمال ان کے  ساتھ اور تمہارے  اعمال تمہارے  ساتھ پھر فرماتا ہے  ان کا یہ کھلا کذب و افترا ہی ان کے  لئے  کافی ہے  "جبت"کے  معنی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ سے  جادو اور طاغوت کے  معین شیطان کے  مروی ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے  کہ جبت جبش کا لفظ ہے  اس کے  معنی شیطان کے  ہیں، شرک بت اور کاہن کے  معنی بھی بتائے  گئے  ہیں  بعض کہتے  ہیں  کہ اس سے  مراد حی بن اخطب ہے، بعض کہتے  ہیں  کعب بن اشرف ہے، ایک حدیث میں ہے  فال اور پرندوں کو ڈانٹنا یعنی ان کے  نام یا ان کے  اڑنے  یا بولنے  یا ان کے  نام سے  شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچ کر معاملہ طے  کرنا اور جبت ہے، حسن کہتے  ہیں  جبت شیطان کی غنغناہٹ ہے، طلاغوت کی نسبت سوال کیا گیا تو فرمایا کہ یہ کاہن لوگ ہیں  جن کے  پاس شیطان آتے  تھے  مجاہد فرماتے  ہیں  انسانی صورت کے  یہ شیاطین ہیں  جن کے  پاس لوگ اپنے  جھگڑے  لے  کر آتے  ہیں  اور انہیں  حاکم مانتے  ہیں  حضرت امام مالک فرماتے  ہیں  اس سے  مراد ہر چیز ہے  جس کی عبادت اللہ کے  سوا کی جائے  پھر فرمایا کہ ان کی جہالت بے  دینی اور خود اپنی کتاب کے  ساتھ کفر کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے  کہ کافروں کو مسلمانوں پر ترجیح اور افضلیت دیتے  ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے  کہ حی بن اخطب اور کعب بن اشرف مکہ والوں کے  پاس آئے  تو اہل مکہ نے  ان سے  کہا تم اہل کتاب اور صاحب علم ہو بھلا بتاؤ تو تم بہتر ہیں  یا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) انہوں نے  کہا تم کیا ہو؟ اور وہ کیا ہیں ؟ تو اہل مکہ نے  کہا ہم صلہ رحمی کرتے  ہیں  تیار اونٹنیاں ذبح کر کے  دوسروں کو کھلاتے  ہیں  لسی پلاتے  ہیں  غلاموں کو آزاد کرتے  ہیں  حاجیوں کو پانی پلاتے  ہیں  اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو صنبور ہیں  ہمارے  رشتے  ناتے  تڑوا دئیے ۔ ان کا ساتھ حاجیوں کے  چوروں نے  دیا جو قبیلہ غفار میں سے  ہیں  اب بتاؤ ہم اچھے  یا وہ؟ تو ان دونوں نے  کہا تم بہتر ہو اور تم زیادہ سیدھے  راستے  پر ہو اس پر یہ آیت اتری دوسری روایت میں ہے  کہ انہی کے  بارے  میں (آیت ان شانئک ھو الابتر) اتری ہے، بنو وائیل اور بنو نضیر کے  چند سردار جب عرب میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  خلاف آگ لگا رہے  تھے  اور جنگ عظیم کی تیاری میں تھے  اس قوت جب یہ قریش کے  پاس آئے  تو قریشیوں نے  انہیں  عالم و درویش جان کر ان سے  پوچھا کہ بتاؤ ہمارا دین اچھا ہے  یا محمد کا ؟ تو ان لوگوں نے  کہا تم اچھے  دین والے  اور ان سے  زیادہ صحیح راستے  پر ہو اس پر ہی آیت اتری اور خبر دی گئی کہ یہ لعنتی گروہ ہے  اور ان کا ممد و معاون دنیا اور آخرت میں کوئی نہیں  اس لئے  کہ صرف کفار کو اپنے  ساتھ ملانے  کے  لئے  بطور چاپلوسی اور خوشامد کے  یہ کلمات اپنی معلومات کے  خلاف کہہ رہے  ہیں  لیکن یاد رکھ لیں کہ یہ کامیاب نہیں  ہو سکتے  چنانچہ یہی ہوا زبردست لشکر لے  کر سارے  عرب کو اپنے  ساتھ ملا کر تمام تر قوت و طاقت اکٹھی کر کے  ان لوگوں کو مدینہ شریف پر چڑھائی کی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ کے  اردگرد خندق کھودنی پڑی لیکن بالآخر دنیا نے  دیکھ لیا ان کی ساری سازشیں ناکام ہوئیں یہ خائب و خاسر رہے، نامراد و ناکام پلٹے، دامن مراد خالی رہا بلکہ نامرادی مایوسی اور نقصان عظیم کے  ساتھ لوٹنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے  مومنوں کی مدد آپ کی اور اپنی قوت و عزت سے  (کافروں کو) اوندھے  منہ گرا دیا، فالحمد اللہ الکبیر المتعال

۵۳

یہودیوں کی دشمنی کی انتہا اور اس کی سزا

یہاں بطور انکار کے  سوال ہوتا ہے  کہ کیا وہ ملک کے  کسی حصہ کے  مالک ہیں  ؟ یعنی نہیں  ہیں، پھر ان کی بخیلی بیان کی جاتی ہے  کہ اگر ایسا ہوتا ہے  تو یہ کسی کو ذرا سا بھی نفع پہنچانے  کے  دوا دار نہ ہوتے  خصوصاً اللہ کے  اس آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اتنا بھی نہ دیتے  جتنا کھجور کی گٹھلی کے  درمیان کا پردہ ہوتا ہے  جیسے  اور آیت میں ہے (قل لو انتم تملکون خزائن رحمۃ ربی الخ،) یعنی اگر تم میرے  رب کی رحمتوں کے  خزانوں کے  مالک ہوتے  تو تم تو خرچ ہو جانے  کے  خوف سے  بالکل ہی روک لیتے  گو ظاہر ہے  کہ وہ کم نہیں  ہو سکتے  تھے  لیکن تمہاری کنجوسی تمہیں  ڈرا دیتی اسی لئے  فرما دیا کہ انسان بڑا ہی بخیل ہے، ان کے  ان بخیلانہ مزاج کے  بعد ان کا حسد واضح کیا جا رہا ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ہم نے  آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل سے  نہیں  اس لئے  ان سے  حسد کی آگ میں جل رہے  ہیں  اور لوگوں کو آپ کی تصدیق سے  روک رہے  ہیں  ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  یہاں الناس سے  مراد ہم ہیں  کوئی اور نہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ہم نے  آل ابراہیم کو جو بنی اسرائیل کے  قبائل میں اولاد ابراہیم سے  ہیں  نبوۃ دی کتاب نازل فرمائی جینے  مرنے  کے  آداب سکھائے  بادشاہت بھی دی اس کے  باوجود ان میں سے  بعض تو مومن ہوئے  اس انعام و ا کرام کو مانا لیکن بعض نے  خود بھی کفر کیا اور دوسرے  لوگوں کو بھی اس سے  روکا حالانکہ وہ بھی بنی اسرائیل ہی تھے  تو جبکہ یہ اپنے  والوں سے  بھی منکر ہو چکے  ہیں  تو پھر اے  نبی آخر الزمان آپ کا انکار ان سے  کیا دور ہے ؟ جب کہ آپ ان میں سے  بھی نہیں، یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے  کہ بعض اس پر یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے  اور بعض نہ لائے  پس یہ کافر اپنے  کفر میں بہت سخت اور نہایت پکے  ہیں  اور ہدایت و حق سے  بہت ہی دور ہیں  پھر انہیں  ان کی سزا سنائی جا رہی ہے  کہ جہنم کا جلنا انہیں  بس ہے، ان کے  کفر و عناد کی ان کی تکذیب اور سرکشی کی یہ سزا کافی ہے ۔

۵۶

عذاب کی تفصیل اور نیک لوگوں کا انجام بالخیر

اللہ کی آیتوں کے  نہ ماننے  اور رسولوں سے  لوگوں کو برگشتہ کرنے  والوں کی سزا اور ان کے  بد انجام کا ذکر ہوا انہیں  اس آگ میں دھکیلا جائے  گا جو انہیں  چاروں طرف سے  گھیر لے  گی اور ان کے  روم روم کو سلگا دے  اور یہی نہیں  بلکہ یہ عذاب دائمی ایسا ہو گا ایک چمڑا جل گیا تو دوسرا بدل دیا جائے  گا جو سفید کاغذ کی مثال ہو گا ایک ایک کافر کی سو سو کھالیں ہوں گی ہر ہر کھال پر قسم قسم کے  علیحدہ علیحدہ عذاب ہوں گے  ایک ایک دن میں ستر ہزار مرتبہ کھال الٹ پلٹ ہو گی ۔ یعنی کہہ دیا جائے  گا کہ جلد لوٹ آئے  وہ پھر لوٹ آئے  گی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  سامنے  جب اس آیت کی تلاوت ہوئی تو آپ پڑھنے  والے  سے  دوبارہ سنانے  کی فرمائش کرتے  وہ دوبارہ پڑھتا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  میں آپ کو اس کی تفسیر سناؤں ایک ایک ساعت میں سو سو بار بدلی جائے  گی اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  یہی سنا ہے  (ابن مردویہ وغیرہ) دوسری روایت میں ہے  کہ اس وقت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  کہا تھا کہ مجھے  اس آیت کی تفسیر یاد ہے  میں نے  اسے  اسلام لانے  سے  پہلے  پڑھا تھا آپ نے  فرمایا اچھا بیان کرو اگر وہ وہی ہوئی جو میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سنی ہے  تو ہم اسے  قبول کریں گے  ورنہ ہم اسے  قابل التفات نہ سمجھیں گے  تو آپ نے  فرمایا ایک ساعت میں ایک سو بیس مرتبہ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا میں نے  اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سنا ہے  حضرت ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  پہلی کتاب میں لکھا ہوا ہے  کہ ان کی کھالیں چالیس ہاتھ یا چھہتر ہاتھ ہوں گی اور ان کے  پیٹ اتنے  بڑے  ہوں گے  کہ اگر ان میں پہاڑ رکھا جائے  تو سما جائے  ۔ جب ان کھالوں کو آگ کھا لے  گی تو اور کھالیں آ جائیں گی ایک حدیث میں اس سے  بھی زیادہ مسند احمد میں ہے  جہنمی جہنم میں اس قدر بڑے  بڑے  بنا دیئے  جائیں گے  کہ ان کے  کان کی نوک سے  کندھا سات سو سال کی راہ پر ہو گا اور ان کی کھال کی موٹائی ستر ذراع ہو گی اور کچلی مثل احد پہاڑ کے  ہوں گی اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ مراد کھال سے  لباس ہے  لیکن یہ ضعیف ہے  اور ظاہر لفظ کے  خلاف ہے  اس کے  مقابلوں میں نیک لوگوں کے  انجام کو بیان کیا جاتا ہے  کہ وہ جنت عدن میں ہوں گے  جس کے  چپے  چپے  پر نہریں جاری ہوں گی جہاں چاہیں  انہیں  لے  جائیں اپنے  محلات میں باغات میں راستوں میں غرض جہاں ان کے  جی چاہیں  وہیں  وہ پاک نہریں بہنے  لگیں گی، پھر سب سے  اعلیٰ لطف یہ ہے  کہ یہ تمام نعمتیں ابدی اور ہمیشہ رہنے  والی ہوں گی نہ ختم ہوں گی پھر ان کے  لئے  وہاں حیض و نفاس سے  گندگی اور پلیدی سے، میل کچیل اور بو باس سے، رذیل صفتوں اور بے  ہودہ اخلاق سے  پاک بیویاں ہوں گی اور گھنے  لمبے  چوڑے  سائے  ہوں گے  جو بہت فرحت بخش بہت ہی سرور انگیز راحت افزا دل خوش کن ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  جنت میں ایک درخت ہے  جس کے  سائے  تلے  ایک سو سال تک بھی ایک سوار چلا جائے  تو اس کا سایہ ختم نہ ہو یہ شجرۃ الخلد ہے  (ابن جزیر)

۵۸

امانت اور عدل و انصاف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  جو تیرے  ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے  تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے  ساتھ خیانت کرے  تو اس سے  خیانت مت کر (مسند احمد و سنن) آیت کے  الفاظ وسیع المعنی ہیں ۔ ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے  حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے  جیسے  روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ، اور بندوں کے  آپس کے  کل حقوق بھی شامل ہیں  جیسے  امانت دار کا حق اسے  دلوایا جائے  گا یہاں تک کہ بے  سینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے  مارا ہے  تو اس کا بدلہ بھی اسے  دلوایا جائے  گا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ شہادت کی وجہ سے  تمام گناہ مٹ جاتے  ہیں  مگر امانت نہیں  مٹنے  لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے  بھی قیامت کے  دن لایا جائے  گا اور کہا جائے  گا کہ اپنی امانت ادا کر وہ جواب دے  گا کہ دنیا تو اب ہے  نہیں  میں کہاں سے  اسے  ادا کروں ؟ فرماتے  ہیں  پھر وہ چیز اسے  جہنم کی تہہ میں نظر آئے  گی اور کہا جائے  گا کہ جا اسے  لے  آ وہ اسے  اپنے  کندھے  پر لاد کر لے  چلے  گا لیکن وہ گر پڑے  گی وہ پھر اسے  لینے  جائے  گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے  گا حضرت زاذان اس روایت کو سن کر حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس آ کر بیان کرتے  ہیں  وہ کہتے  ہیں  میرے  بھائی نے  سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے  ہیں  ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے  ہیں  ہر نیک و بد کے  لئے  پر یہی حکم ہے، ابو العالیہ فرماتے  ہیں  جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے  منع کیا گیا وہ سب امانت ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  عورت اپنی شرم گاہ کی امانت دار ہے، ربیع بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  جو جو معاملات تیرے  اور دوسرے  لوگوں کے  درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  اس میں یہ بھی داخل ہے  کہ سلطان عید والے  دن عورتوں کو خطبہ سنائے ۔ اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے  کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  مکہ فتح کیا اور اطمینان کے  ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے  تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا۔ حجر اسود کو اپنی لکڑی سے  چھوتے  تھے  اس کے  بعد عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے  بلایا ان سے  کنجی طلب کی انہوں نے  دینا چاہی اتنے  میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اب یہ مجھے  سونپئے  تاکہ میرے  گھرانے  میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں  یہ سنتے  ہی حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اپنا ہاتھ روک لیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ نے  سہ بارہ طلب کی حضرت عثمان نے  یہ کہہ کر دے  دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے  وہاں جتنے  بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں حضرت ابراہیم کا بت بھی تھا جس کے  ہاتھ فال کے  تیر تھی آپ نے  فرمایا اللہ ان مشرکین کو غارت کرے  بھلا خلیل اللہ کو ان سیروں سے  کیا سروکار؟ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے  ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے  نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے  کعبہ کے  دروازے  پر کھڑے  ہو کر آپ نے  کہا کوئی معبود نہیں  بجز اللہ کے  وہ اکیلا ہے  جس کا کوئی شریک نہیں  اس نے  اپنے  وعدے  کو سچا کیا اپنے  بندے  کی مدد کی اور تام لشکروں کو اسی اکیلے  نے  شکست دی پھر آپ نے  ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ جاہلیت کے  تمام جھگڑے  اب میرے  پاؤں تلے  کچل دئیے  گئے  خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے  کا منصب جوں کا توں باقی رہے  گا اس خطبہ کو پورا کر کے  آپ بیٹھے  ہی تھے  جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  آگے  بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے  عنایت فرمائی جائے  تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے  کا منصب دونوں یکجا ہو جائیں لیکن آپ نے  انہیں  نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے  اندر سے  نکال کر آپ نے  کعبہ کی دیوار سے  ملا کر رکھ دیا اور اوروں سے  کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے  پھر آپ طواف میں مشغول ہو گئے  ابھی وہ چند پھیرے  ہی پھرے  تھے  جو حضرت جبرئیل نازل ہوئیے  اور آپ نے  اپنی زبان مبارک سے  اس آیت کی تلاوت شروع کی، اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا میرے  ماں باپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فدا ہوں میں نے  تو اس سے  پہلے  آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے  نہیں  سنا اب آپ نے  حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور انہیں  کنجی سونپ دی اور فرمایا آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے  یہ وہی عثمان بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہی ہیں  جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آتی ہے  یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے  درمیان اسلام لائے  جب ہی خالد بن ولید اور عمرو بن عاص بھی مسلمان ہوئے  تھے  ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے  ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں  بحالت کفر مارا گیا تھا۔ الغرض مشہور تو یہی ہے  کہ یہ آیت اسی بارے  میں اتری ہے  اب خواہ اس بارے  میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے  جیسے  حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت محمد بن حنفیہ کا قول ہے  کہ ہر شخص کو دوسرے  کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے  پھر ارشاد ہے  کہ فیصلے  عدل کے  ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے  کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو، حدیث میں ہے  اللہ حاکم کے  ساتھ ہوتا ہے  جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے  جب ظلم کرتا ہے  تو اسے  اسی کا طرف سونپ دیتا ہے ، ایک اثر میں ہے  ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے  برابر ہے، پھر فرماتا ہے  یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے  تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے  لئے  بہترین اور نافع چیزیں ہیں  جن کا امر پروردگار نے  تمہیں  دیا ہے  (ابن ابی حاتم) اور روایت میں ہے  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اس آیت کے  آخری الفاظ پڑھتے  ہوئے  اپنا انگوٹھا اپنے  کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی (یعنی اشارے  سے  سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتا کر) فرمایا میں نے  اسی طرح پڑھتے  اور کرتے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے، راوی حدیث حضرت ابو زکریا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  ہمارے  استاد مضری رحمۃ اللہ علیہ نے  بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے  ہمیں بتایا اپنے  داہنے  ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے  پاس کی انگلی اپنے  داہنے  کان پر رکھی (ابن ابی حاتم) یہ حدیث اسی طرح امام ابو داؤد نے  بھی روایت کی ہے  اور امام ابن حبان نے  بھی اپنی صحیح میں اسے  نقل کیا ہے ۔ اور حاکم نے  مستدرک میں اور ابن مردویہ نے  اپنی تفسیر میں بھی اسے  وارد کیا ہے، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں  وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  مولی ہیں  اور ان کا نام سلیم بن جیر رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔

۵۹

مشروط اطاعت امیر

صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ایک چھوٹے  سے  لشکر میں حضرت عبد اللہ بن حذافہ بن قیس کو بھیجا تھا ان کے  بارے  میں یہ آیت اتری ہے ، بخاری و مسلم میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ایک لشکر بھیجا جس کی سرداری ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی ایک مرتبہ وہ لوگوں پر سخت غصہ ہو گئے  اور فرمانے  لگے  کیا تمہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  میری فرمانبرداری کا حکم نہیں  دیا؟ سب نے  کہا ہاں بیشک دیا ہے، فرمانے  لگے  اچھا لکڑیاں جمع کرو پھر آگ منگوا کر لکڑیاں جلائیں پھر حکم دیا کہ تم اس آگ میں کود پڑو ایک نوجوان نے  کہا لوگو سنو آگ سے  بچنے  کے  لئے  ہی تو ہم نے  دامن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں پناہ لی ہے  تم جلدی نہ کرو جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ملاقات نہ ہو جائے  پھر اگر آپ بھی یہی فرمائیں تو بے  جھجھک اس آگ میں کود پڑھنا چنانچہ یہ لوگ واپس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے  اور سارا واقعہ کہہ سنایا آپ نے  فرمایا اگر تم اس آگ میں کود پڑھتے  تو ہمیشہ آگ ہی میں جلتے  رہتے ۔ سنو فرمانبرداری صرف معروف میں ہے ۔ ابو داؤد میں ہے  کہ مسلمان پر سننا اور ماننا فرض ہے  جی چاہے  یا طبیعت رو کے  لیکن اس وقت تک کہ (اللہ تعالیٰ اور رسول کی) نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے، جب نافرمانی کا حکم ملے  تو نہ سنے  نہ مانے ۔ بخاری و مسلم میں ہے  حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  ہم سے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  بیعت لی کہ کام کے  اہل سے  اس کام کو نہ چھینیں ۔ لیکن جب تم ان کا کھلا کفر دیکھو جس کے  بارے  میں تمہارے  پاس کوئی واضح الٰہی دلیل بھی ہو، بخاری شریف میں ہے  سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر حبشی غلام امیر بنایا گیا ہو چاہے  کہ اس کا سر کشمکش ہے، مسلم شریف میں ہے  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  مجھے  میرے  خلیل (یعنی رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے  سننے  کی وصیت کی اگرچہ ناقص ہاتھ پاؤں والا حبشی غلام ہی ہو، مسلم کی ہی اور حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  حجۃ الوداع کے  خطبہ میں فرمایا چاہے  تم پر غلام عامل بنایا جائے  جو تمہیں  کتاب اللہ کے  مطابق تمہارا ساتھ چاہے  تو تم اس کی سنو اور مانو ایک روایت میں غلام حبشی اعضاء کٹا کے  الفاظ ہیں، ابن جریر میں ہے  نیکوں اور بدوں سے  بد تم ہر ایک اس امر میں جو مطابق ہو ان کی سنو اور مانو کہ میرے  بعد نیک سے  نیک اور بد سے  بد تم کو ملیں گے  تم پر ایک میں نے  جو حق پر ہو اس کا سننا اور ماننا تم سے  اور ان کے  پیچھے  نمازیں پڑھتے  رہو اگر وہ نیکی کریں گے  ۔ تو ان کے  لئے  نفع ہے  اور تمہارے  لئے  بھی اور اگر وہ بدی کریں گے  تو تمہارے  لئے  اچھائی ہے  اور ان پر گناہوں کا بوجھ ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا بنو اسرائیل میں مسلسل لگاتار رسول آیا کرتے  تھے  ایک کے  بعد ایک اور میرے  بعد کوئی نبی نہیں  مگر خلفاء بکثرت ہوں گے  لوگوں نے  پوچھا پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں کیا حکم دیتے  ہیں ؟ فرمایا پہلے  کی بیعت پوری کرو پھر اس کے  بعد آنے  والے  کی ان کا حق انہیں  دے  دو اللہ تعالیٰ ان سے  ان کی رعیت کے  بارے  میں سوال کرنے  والا ہے ۔ آپ فرماتے  ہیں  جو شخص اپنے  امیر کا کوئی ناپسندیدہ کام دیکھے  اسے  صبر کرنا چاہیے  جو شخص جماعت کے  بالشت بھر جدا ہو گیا پھر وہ جاہلیت کی موت مرے  گا (بخاری و مسلم) ارشاد ہے  جو شخص اطاعت سے  ہاتھ کھینچ لے  وہ قیامت کے  دن اللہ تعالیٰ سے  حجت و دلیل بغیر ملاقات کرے  گا اور جو اس حالت میں مرے  کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے  گا (مسلم) حضرت عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  میں بیت اللہ شریف میں گیا دیکھا تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعبہ کے  سایہ میں تشریف فرما ہیں  اور لوگوں کا ایک مجمع جمع ہے  میں بھی اس مجلس میں ایک طرف بیٹھ گیا اس وقت حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  یہ حدیث بیان کی فرمایا ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  ساتھ تھے  ایک منزل میں اترے  کوئی اپنا خیمہ ٹھیک کرنے  لگا کوئی اپنے  نیز سنبھالنے  لگا کوئی کسی اور کام میں مشغول ہو گیا، اچانک ہم نے  سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے  ہیں  ہر نبی پر اللہ کی طرف سے  فرض ہوتا ہے  کہ اپنی امت کو تمام نیکیاں جو وہ جانتا ہے  ان کی تربیت انہیں  دے  اور تمام برائیوں سے  جو اس کی نگاہ میں ہیں  انہیں  آگاہ کر دے ۔ سنو میری امت کی عافیت کا زمانہ اول کا زمانہ ہے  آخر زمانے  میں بڑی بڑی بلائیں آئیں گی اور ایسے  ایسے  امور نازل ہوں گے  جنہیں  مسلمان ناپسند کریں گے  اور ایک ہر ایک فتنہ برپا ہو گا ایک ایسا وقت آئے  گا کہ مومن سمجھ لے  گا اسی میں میری ہلاکت ہے  پھر وہ ہٹے  گا۔ تو دوسرا اس سے  بھی بڑا آئے  گا جس میں اسے  اپنی ہلاکت کا کامل یقین ہو گا بس یونہی لگا تار فتنے  اور زبردست آزمائشیں اور کال تکلیفیں آتی رہیں  گے  پس جو شخص اس بات کو پسند کرے  کہ جہنم سے  بچ جانے  اور جنت کا مستحق ہو اسے  چاہیے  کہ مرتے  دم تک اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے  دن پر ایمان رکھے  اور لوگوں سے  وہ برتاؤ کرے  جو خود اپنے  لئے  پسند کرتا ہے  سنو جس نے  امام سے  بیعت کر لی اس نے  اپنا ہاتھ اس کے  قبضہ میں اور دل کی تمنائیں اسے  دے  دیں ۔ اور اپنے  دل کا پھل دے  دیا اب اسے  چاہیے  کہ اس کی اطاعت کرے  اگر کوئی دوسرا اس سے  خلاف چھیننا چاہے  تو اس کی گردن اڑا دو، عبدالرحمن فرماتے  ہیں  میں یہ سن کر قریب گیا اور کہا آپ کو میں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا خود آپ نے  اسے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانی سنا ہے ؟ تو آپ نے  اپنے  دونوں ہاتھ اپنے  کان اور دل کی طرف بڑھا کر فرمایا میں نے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  اپنے  ان دو کانوں سے  سنا اور میں نے  اسے  اپنے  اس دل میں محفوظ رکھا ہے  مگر آپ کے  چچا زاد بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں ہمارے  اپنے  مال بطریق باطل سے  کھانے  اور آپس میں ایک دوسرے  سے  جنگ کرنے  کا حکم دیتے  ہیں  حالانکہ اللہ تعالیٰ نے  ان دونوں کاموں سے  ممانعت فرمائی ہے ، ارشاد ہے (آیت"یا ایھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم الخ،) اسے  سن کر حضرت عبداللہ ذرا سی دیر خاموش رہے  پھر فرمایا اللہ کی اطاعت میں ان کی اطاعت کرو اور اگر اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اسے  نہ مانو اس بارے  میں حدیثیں اور بھی بہت سی ہیں، اسی آیت کو تفسیر میں حضرت سدی رحمۃ اللہ علیہ سے  مروی ہے  کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ایک لشکر بھیجا جس کا امیر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنایا اس لشکر میں حضرت عمار بن یاسر رحمۃ اللہ علیہ بھی تھے  یہ لشکر جس قوم کی طرف جانا چاہتا تھا چلا رات کے  وقت اس کی بستی کے  پاس پہنچ کر پڑاؤ کیا ان لوگوں کو اپنے  جاسوسوں سے  پتہ چل گیا اور چھپ چھپ کر سب راتوں رات بھاگ کھڑے  ہوئے ۔ صرف ایک شخص رہ گیا اس نے  ان کے  ساتھ جانے  سے  انکار کر دیا انہوں نے  اس کا سب اسباب جلا دیا یہ شخص رات کے  اندھیرے  میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  لشکر میں آیا اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  ملا اور ان سے  کہا کہ اے  ابو الیقظان میں اسلام قبول کر چکا ہوں کہ اللہ کے  سوا کوئی معبود نہیں  اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے  بندے  اور اس کے  رسول ہیں  میری ساری قوم تمہارا آنا سن کر بھاگ گئی ہے  صرف میں باقی رہ گیا ہوں تو کیا کل میرا یہ اسلام مجھے  نفع دے  گا؟ اگر نفع نہ دے  تو میں بھی بھاگ جاؤں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا یقیناً یہ اسلام تمہیں  نفع دے  گا تم نہ بھاگو بلکہ ٹھہرے  رہو صبح کے  وقت جب حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  لشکر کشی کی تو سوائے  اس شخص کے  وہاں کسی کو نہ پایا اسے  اس کے  مال سمیت گرفتار کر لیا گیا جب حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم ہوا تو آپ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس آئے  اور کہا اسے  چھوڑ دیجئے  یہ اسلام لا چکا ہے  اور میری پناہ میں ہے  حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا تم کون ہو جو کسی کو پناہ دے  سکو؟ اس پر دونوں بزرگوں میں کچھ تیز کلامی ہو گئی اور قصہ بڑھا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا گیا۔ آپ نے  حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پناہ کو جائز قرار دیا اور فرمایا آئندہ امیر کی طرف سے  پناہ نہ دینا پھر دونوں میں کچھ تیز کلامی ہونے  لگی اس پر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  حضور سے  کہا اس ناک کٹے  غلام کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ نہیں  کہتے ؟ دیکھئے  تو یہ مجھے  برا بھلا کہہ رہا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برا نہ کہو۔ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالیاں دینے  والے  کو اللہ گالیاں دے  گا، عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  دشمنی کرنے  والے  سے  اللہ دشمنی رکھے  گا، عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جو لعنت بھیجے  گا اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی اب تو حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لینے  کے  دینے  پڑھ گئے  حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصہ میں چلا رہے  تھے  آپ دوڑ کر ان کے  پاس گئے  دامن تھام لیا معذرت کی اور اپنی تقصیر معاف کرائی تب تک پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ راضی نہ ہو گئے، پس اللہ تعالیٰ نے  یہ آیت نازل فرمائی (امر امارت و خلافت کے  متعلق شرائط وغیرہ کا بیان آیت"واذقال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ"کی تفسیر میں گزر چکا ہے  ہاں ملاحظہ ہو۔ مترجم) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  بھی یہ رویات مروی ہے  (ابن جریر اور ابن مردویہ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ فرماتے  ہیں  اولی الامر سے  مراد سمجھ بوجھ دین والے  ہیں  یعنی علماء کی ظاہر بات تو یہ معلوم ہوتی ہے  آگے  حقیقی علم اللہ کو ہے  کہ یہ لفظ عام ہیں  امراء علماء دونوں اس سے  مراد ہیں  جیسے  کہ پہلے  گزرا قرآن فرماتا ہے (آیت لولا ینھاھم الربانیون الخ،) یعنی ان کے  علماء نے  انہیں  جھوٹ بولنے  اور حرام کھانے  سے  کیوں نہ روکا؟ اور جگہ ہے (آیت  فاسئلوااھل الذکر الخ،) حدیث کے  جاننے  والوں سے  پوچھ لیا کرو کہ اگر تمہیں  علم نہ ہو، صحیح حدیث میں ہے  میری اطاعت کرنے  والا اللہ کی اطاعت کرنے  والا ہے  اور جس نے  میری نافرمانی کی اس نے  اللہ کی نافرمانی کی ہے  پس یہ ہیں  احکام علماء امراء کی اطاعت کرو یعنی اس کی سنتوں پر عمل کرو اور حکم والوں کی اطاعت کرو یعنی اس چیز میں جو اللہ کی اطاعت ہو، اللہ کے  فرمان کے  خلاف اگر ان کا کوئی حکم ہو تو اطاعت نہ کرنی چاہیے  ایسے  وقت علماء یا امراء کی ماننا حرام ہے  جیسے  کہ پہلی حدیث گزر چکی کہ اطاعت صرف معروف میں ہے  یعنی فرمان الہ و فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  دائرے  میں مسند احمد میں ہے  اس سے  بھی زیادہ صاف حدیث ہے  جس میں ہے  کسی کی اطاعت اللہ تعالیٰ کے  فرمان کے  خلاف جائز نہیں ۔ آگے  چل کر فرمایا کہ اگر تم میں کسی بارے  میں جھگڑ پڑے  تو اسے  اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف لوٹاؤ یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف جیسے  کہ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ہے  پس یہاں صریح اور صاف لفظوں میں اللہ عزوجل کا حکم ہو رہا ہے  کہ لوگ جس مسئلہ میں اختلاف کریں خواہ وہ مسئلہ اصول دین سے  متعلق ہو خواہ فروغ دین سے  متعلق اس کے  تصفیہ کی صرف یہی صورت ہے  کہ کتاب و سنت کو حکم مان لیا جائے  جو اس میں ہو وہ قبول کیا جائے، جیسے  اور آیت قرآنی میں ہے (آیت وما اختلفتم فیہ من شیء فحکمہ الی اللہ) یعنی اگر کسی چیز میں تمہارا اختلاف ہو جائے  اس کا فیصلہ اللہ کی طرف ہے  پس کتاب و سنت جو حکم دے  اور جس مسئلہ کی صحت کی شہادت دے  وہی حق ہے  باقی سب باطل ہے، قرآن فرماتا ہے  کہ حق کے  بعد جو ہے  ضلالت و گمراہی ہے، اسی لئے  یہاں بھی اس حکم کے  ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے  اگر تم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتے  ہو، یعنی اگر تم ایمان کے  دعوے  میں سچے  ہو تو جس مسئلہ کا تمہیں  علم نہ ہو یعنی جس مسئلہ میں اختلاف ہو، جس امر میں جدا جدا آراء ہوں ان سب کا فیصلہ کتاب اللہ اور حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  کیا کرو جو ان دونوں میں ہو مان لیا کرو، پس ثابت ہوا کہ جو شخص اختلافی مسائل کا تصفیہ کتاب و سنت کی طرف سے  نہ لے  جائے  وہ اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں  رکھتا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ جھگڑوں میں اور اختلافات میں کتاب اللہ و سنت رسول کی طرف فیصلہ لانا اور ان کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے ، اور یہی نیک انجام خوش آئند ہے  اور یہی اچھے  بدلے  دلانے  والا کام ہے، بہت اچھی جزا اسی کا ثمر ہے ۔

۶۰

حسن سلوک اور دوغلے لوگ

اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے  ان لوگوں کے  دعوے  کو جھٹلایا ہے  جو زبانی تو اقرار کرتے  ہیں  کہ اللہ تعالیٰ کی تمام اگلی کتابوں پر اور اس قرآن و حدیث کی طرف رجوع نہیں  کرتے  بلکہ کسی اور طرف لے  جاتے  ہیں ، چنانچہ یہ آیت ان دو شخصوں کے  بارے  میں نازل ہوئی جن میں کچھ اختلاف تھا ایک تو یہودی تھا دوسرا انصاری، یہودی تو کہتا تھا کہ چل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  فیصلہ کرا لیں اور انصاری کہتا تھا کعب بن اشرف کے  پاس چلو یہ بھی کہا گیا ہے  کہ یہ آیت ان منافقوں کے  بارے  میں اتری ہے  بظاہر مسلمان کہلاتے  ہیں  ان منافقوں کے  بارے  میں اتری ہے  جو بھی مسلمان ہونے  کا دعویٰ کرتے  تھے  لیکن درپردہ احکام جاہلیت کی طرف جھکنا چاہتے  تھے، اس کے  سوا اور اقوال بھی ہیں، آیت اپنے  حکم اور الفاظ کے  اعتبار سے  عام ہے  ان تمام واقعات پر مشتمل ہے  ہر اس شخص کی مذمت اور برائی کا اظہار کرتی ہے  جو کتاب و سنت سے  ہٹ کر کسی اور باطل کی طرف اپنا فیصلہ لے  جائے  اور یہی مراد یہاں طاغوت سے  ہے  (یعنی قرآن و حدیث کے  سوا کی چیز یا شخص) صدور سے  مراد تکبر سے  منہ موڑ لینا، جیسے  اور آیت میں ہے (آیت"واذاقیل لھم اتبعوا ما انزل اللہ قالو ابل نتبع ما وجدنا علی اباونا ") یعنی جب ان سے  کہا جائے  کہ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کی فرمانبرداری کرو تو جواب دیتے  ہیں  کہ ہم تو اپنے  باپ دادا کی پیروی پر ہی اڑے  رہیں  گے، ایمان والوں کو جواب یہ نہیں  ہوتا بلکہ ان کا جواب دوسری آیت میں اس طرح مذکور ہے  (آیت انما کان قول المومنین الخ،) یعنی ایمان والوں کو جب اللہ رسول کے  فیصلے  اور حکم کی طرف بلایا جائے  تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے  کہ ہم نے  سنا اور ہم نے  تہ دل سے  قبول کیا، پھر منافقوں کی مذمت میں بیان ہو رہا ہے  کہ ان کے  گناہوں کے  باعث جب تکلیفیں پہنچتی ہیں  اور تیری ضرورت محسوس ہوتی ہے  تو دوڑے  بھاگے  آتے  ہیں  اور تمہیں  خوش کرنے  کے  لئے  عذر معذرت کرنے  بیٹھ جاتے  ہیں  اور قسمیں کھا کر اپنی نیکی اور صلاحیت کا یقین دلانا چاہتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  کہ آپ کے  سوا دوسروں کی طرف ان مقدمات کے  لے  جانے  سے  ہمارا مقصود صرف یہی تھا کہ ذرا دوسروں کا دل رکھا جائے  آپس میں میل جول نبھ جائے  ورنہ دل سے  کچھ ہم ان کی اچھائی کے  معتقد نہیں، جیسے  اور آیت میں (آیت"فتری الذین فی قوبھم مرض سے  نادمین") تک بیان ہوا ہے ، یعنی تو دیکھے  گا کہ بیمار دل یعنی منافق یہود و نصاریٰ کی باہم دوستی کی تمام تر کوششیں کرتے  پھرتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  کہ ہمیں ان سے  اختلاف کی وجہ سے  آفت میں پھنس جانے  کا خطرہ ہے  بہت ممکن ہے  ان سے  دوستی کے  بعد اللہ تعالیٰ فتح دیں یا اپنا کوئی حکم نازل فرمائیں اور یہ لوگ ان ارادوں پر پشیمان ہونے  لگیں جو ان کے  دلوں میں پوشیدہ ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  ابو برزہ اسلمی ایک کاہن شخص تھا، یہود اپنے  بعض فیصلے  اس سے  کراتے  تھے  ایک واقعہ میں مشرکین بھی اس کی طرف دوڑے  اس میں یہ آیتیں (آیت الم تر سے  ترفیقا) تک نازل ہوئیں، اللہ تعالیٰ فرماتے  ہیں  کہ اس قسم کے  لوگ یعنی منافقین کے  دلوں میں جو کچھ ہے ؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو کامل ہے  اس پر کوئی چھوٹی سے  چھوٹی چیز بھی مخفی نہیں  وہ ان کے  ظاہر و باطن کا اسے  علم ہے  تو ان سے  چشم پوشی کر ان کے  باطنی ارادوں پر ڈانٹ ڈپٹ نہ کر ہاں انہیں  نفاق اور دوسروں سے  شر و فساد وابستہ رہنے  سے  باز رہنے  کی نصیحت کر اور دل میں اترنے  والی باتیں ان سے  کہ بلکہ ان کے  لئے  دعا بھی کر۔

۶۴

اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی ضامن نجات ہے

مطلب یہ ہے  کہ ہر زمانہ کے  رسول کی تابعداری اس کی امت پر اللہ کی طرف سے  فرض ہوتی ہے  منصب رسالت یہی ہے  کہ اس کے  سبھی احکامات کو اللہ کے  احکام سمجھا جائے، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  باذن اللہ سے  یہ مراد ہے  کہ اس کی توفیق اللہ تعالیٰ کے  ہاتھ ہے  اس کی قدرت و مشیت پر موقوف ہے، جیسے  اور آیت میں ہے (آیت اذتحسونھم باذنہ) یہاں بھی اذن سے  مراد امر قدرت اور مشیت ہے  یعنی اس نے  تمہیں  ان پر غلبہ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطا کاروں کو ارشاد فرماتا ہے  کہ انہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے  استغفار کرنا چاہیے  اور خود رسول سے  بھی عرض کرنا چاہیے  کہ آپ ہمارے  لئے  دعائیں کیجئے  جب وہ ایسا کریں گے  تو یقیناً اللہ ان کی طرف رجوع کرے  گا انہیں  بخش دے  گا اور ان پر رحم فرمائے  گا ابو منصور صباغ نے  اپنی کتاب میں جس میں مشہور قصے  لکھے  ہیں  لکھا ہے  کہ عتبی کا بیان ہے  میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تربت کے  پاس بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک اعرابی آیا اور اس نے  کہا اسلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے  قرآن کریم کی اس آیت کو سنا اور آپ کے  پاس آیا ہوں تاکہ آپ کے  سامنے  اپنے  گناہوں کا استغفار کروں اور آپ کی شفاعت طلب کروں پھر اس نے  یہ اشعار پڑھی

باخیر من دفنت بالقاع اعظمہ

فطاب من طیبھن القاع والا کم

نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ

فیہ لعاف وفیہ الجودو الکرم

جن جن کی ہڈیاں میدانوں میں دفن کی گئی ہیں  اور ان کی خوشبو سے  وہ میدان ٹیلے  مہک اٹھے  ہیں  اے  ان تمام میں سے  بہترین ہستی، میری جان اس قبر پر سے  صدقے  ہو جس کا ساکن تو ہے  جس میں پارسائی سخاوت اور کرم ہے، پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے  نیند آ گئی خواب میں کیا دیکھتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے  فرما رہے  ہیں  جا اس اعرابی کو خوش خبری سنا اللہ نے  اس کے  گناہ معاف فرما دئیے  (یہ خیال رہے  کہ نہ تو یہ کسی حدیث کی کتاب کا واقعہ ہے  نہ اس کی کوئی صحیح سند ہے، بلکہ آیت کا یہ حکم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی میں ہی تھا وصال کے  بعد نہیں  جیسے  کہ جاء وک کا لفظ بتلا رہا ہے  اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے  کہ ہر انسان کا ہر عمل اس کی موت کے  ساتھ منقطع ہو جاتا ہے  واللہ اعلم۔ مترجم) پھر اللہ تعالیٰ اپنی بزرگ اور مقدس ذات کی قسم کھا کر فرماتے  ہے  کہ کوئی شخص ایمان کی حدود میں نہیں  آ سکتا جب تک کہ تمام امور میں اللہ کے  اس آخر الزمان افضل تر رسول کو اپنا سچا حاکم نہ مان لے  اور آپ کے  ہر حکم ہر فیصلے  ہر سنت اور ہر حدیث کو قابل قبول اور حق صریح تسلیم نہ کرنے  لگے، دل کو اور جسم کو یکسر تابع رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ بنا دے ۔ غرض جو بھی ظاہر و باطن چھوٹے  بڑے  کل امور میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اصل اصول سمجھے  وہی مومن ہے ۔ پس فرمان ہے  کہ تیرے  احکام کو یہ کشادہ دلی سے  تسلیم کر لیا کریں اپنے  دل میں پسندیدگی نہ لائیں تسلیم کلی تمام احادیث کے  ساتھ رہے، نہ تو احادیث کے  ماننے  سے  رکیں نہ انہیں  بے  اثر کرنے  کے  اسباب ڈھونڈیں نہ ان کے  مرتبہ کی کسی اور چیز کو سمجھیں نہ ان کی تردید کریں نہ ان کا مقابلہ کریں نہ ان کے  تسلیم کرنے  میں جھگڑیں جیسے  فرمان رسول ہے  اس کی قسم جس کے  ہاتھ میری جان ہے  تم میں سے  کوئی صاحب ایمان نہیں  ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنی خواہش کو اس چیز کا تابع نہ بنا دے  جسے  میں لایا ہوں، صحیح بخاری شریف میں ہے  کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کسی شخص سے  نالیوں سے  باغ میں پانی لینے  کے  بارے  میں جھگڑا ہو پڑا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم پانی پلا لو اس کے  بعد پانی کو انصاری کے  باغ میں جانے  دو اس پر انصاری نے  کہا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ تو آپ کے  پھوپھی کے  لڑکے  ہیں  یہ سن کر آپ کا چہرہ متغیر ہو سکتا ہے  اور فرمایا زبیر تم پانی پلا لو پھر پانی کو روکے  رکھو یہاں تک کہ باغ کی دیواروں تک پہنچ جائے  پھر اپنے  پڑوسی کی طرف چھوڑ دو پہلے  تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ایک ایسی صورت نکالی تھی کہ جس میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکلیف نہ ہو اور انصاری کشادگی ہو جائے  لیکن جب انصاری نے  اسے  اپنے  حق میں بہتر نہ سمجھا تو آپ نے  حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کا پورا حق دلوایا حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  جہاں تک میرا خیال ہے  یہ (آیت فلا وربک الخ) اسی بارے  میں نازل ہوئی ہے، مسند احمد کی ایک مرسل حدیث میں ہے  کہ یہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بدری تھے  اور روایت میں ہے  دونوں میں جھگڑا یہ تھا کہ پانی کی نہر سے  پہلے  حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کھجوروں کا باغ پڑتا تھا پھر اس انصاری کا انصاری کہتے  تھے  کہ پانی دونوں باغوں میں ایک ساتھ آئے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ یہ دونوں دعویدار حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حاطب بن ابو بلتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے  آپ کا فیصلہ ان میں یہ ہوا کہ پہلے  اونچے  والا پانی پلا لے  پھر نیچے  والا۔ دوسری ایک زیادہ غریب روایت میں شان نزول یہ مروی ہے  کہ دو شخص اپنا جھگڑا لے  کر دربار محمد میں آئے  آپ نے  فیصلہ کر دیا لیکن جس کے  خلاف فیصلہ تھا اس نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس بھیج دیجئے  آپ نے  فرمایا بہت اچھا ان کے  پاس چلے  جاؤ جب یہاں آئے  تو جس کے  موافق فیصلہ ہوا تھا اس نے  ساراہی واقعہ کہہ سنایا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اس دوسرے  سے  پوچھا کیا یہ سچ ہے ؟ اس نے  اقرار کیا آپ نے  فرمایا اچھا تم دونوں یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں اور فیصلہ کر دیتا ہوں تھوڑی دیر میں تلوار تانے  آ گئے  اور اس شخص کی جس نے  کہا تھا کہ حضرت ہمیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس بھیج دیجئے  گردن اڑا دی دوسرا شخص یہ دیکھتے  ہی دوڑا بھاگا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس پہنچا اور کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا ساتھی تو مار ڈالا گیا اور اگر میں بھی جان بچا کر بھاگ کر نہ آتا تو میری بھی خیر نہ تھی، آپ نے  فرمایا میں عمر کو ایسا نہیں  جانتا تھا کہ وہ اس جرات کے  ساتھ ایک مومن کا خون بہا دے  گا اس پر یہ آیت اتری اور اس کا خون برباد گیا اور اللہ تعالیٰ نے  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بری کر دیا، لیکن یہ طریقہ لوگوں میں اس کے  بعد بھی جاری نہ ہو جائے  اس لئے  اس کے  بعد ہی یہ آیت اتری (آیت ولوانا کتبنا) جو آگے  آتی ہے  (ابن ابی حاتم) ابن مردویہ میں بھی یہ روایت ہے  جو غریب اور مرسل ہے  اور ابن لہیعہ راوی ضعیف ہے  واللہ اعلم۔ دوسری سند سے  مروی ہے  دو شخص رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس اپنا جھگڑا لائے  آپ نے  حق والے  کے  حق میں ڈگری دے  دی لیکن جس کے  خلاف ہوا تھا اس نے  کہا میں راضی نہیں  ہوں آپ نے  پوچھا تو کیا چاہتا ہے ؟ کہا یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس چلیں دونوں وہاں پہنچے  جب یہ واقعہ جناب صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  سنا تو فرمایا تمہارا فیصلہ وہی ہے  جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  کیا وہ اب بھی خوش نہ ہوا اور کہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس چلو وہاں گئے  پھر وہ ہوا جو آپ نے  اوپر پڑھا (تفسیر حافظ ابو اسحاق)

۶۶

عادت جب فطرت ثانیہ بن جائے اور صاحب ایمان کو بشارت رفاقت

اللہ خبر دیتا ہے  کہ اکثر لوگ ایسے  ہیں  کہ اگر انہیں  ان منع کردہ کاموں کا بھی حکم دیا جاتا جنہیں  وہ اس قوت کر رہے  ہیں  تو وہ ان کاموں کو بھی نہ کرتے  اس لئے  کہ ان کی ذلیل طبیعتیں حکم الہ کی مخالفت پر ہی استوار ہوئی ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے  اس حقیقت کی خبردی ہے  جو ظاہر نہیں  ہوئی لیکن ہوتی تو کس طرح ہوتی ؟ اس آیت کو سن کر ایک بزرگ نے  فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتا تو یقیناً ہم کر گزرتے  لیکن اس کا شکر ہے  کہ اس نے  ہمیں اس سے  بچالیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے  فرمایا بیشک میری امت میں ایسے  ایسے  لوگ بھی ہیں  جن کے  دلوں میں ایمان پہاڑوں سے  بھی زیادہ مضبوط اور ثابت ہے ۔ (ابن ابی حاتم) اس روایت کی دوسری سند میں ہے  کہ کسی ایک صحابہ رضوان اللہ علیہم نے  یہ فرمایا تھا سدی کا قول ہے  کہ ایک یہودی نے  حضرت ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  فخریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے  ہم پر خود ہمارا قتل بھی فرض کیا تو بھی ہم کر گزریں گے  اس پر حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  فرمایا واللہ اگر ہم پر یہ فرض ہوتا تو ہم بھی کر گزرتے  اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے  کہ جب یہ آیت اتری تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا اگر یہ حکم ہوتا تو اس کے  بجا لانے  والوں میں ایک ابن ام عبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہوتے  ہیں  (ابن ابی حاتم) دوسری روایت میں ہے  کہ آپ نے  اس آیت کو پڑھ کر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف ہاتھ سے  اشارہ کر کے  فرمایا کہ یہ بھی اس پر عمل کرنے  والوں میں سے  ایک ہیں ۔ ارشاد الٰہی ہے  کہ اگر یہ لوگ ہمارے  احکام بجا لاتے  اور ہماری منع کردہ چیزوں اور کاموں سے  رک جاتے  تو یہ ان کے  حق میں اس سے  بہتر ہوتا کہ اور دنیا اور آخرت کی بہتر راہ کی رہنمائی کرتے  پھر فرماتا ہے اور جو شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے  احکام پر عمل کرے  اور منع کردہ کاموں سے  باز رہے  اسے  اللہ تعالیٰ عزت کے  گھر میں لے  جائے  گا نبیوں کا رفیق بنائے  گا اور صدیقوں کو جو مرتبے  میں نبیوں کے  بعد ہیں  ان کا مصاحب بنائے  گا شہیدوں مومنوں اور صالحین جن کا ظاہر باطن آراستہ ہے  ان کا ہم جنس بنائے  گا حیال تو کرو یہ کیسے  پاکیزہ اور بہترین رفیق ہے  صحیح بخاری شریف میں ہے  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں  میں نے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  سنا تھا کہ ہر نبی کو اس کے  مرض کے  زمانے  میں دنیا میں رہنے  اور آخرت میں جانے  کا اختیار دیا جاتا ہے  جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے  تو شدت نقاہت سے  اٹھ نہیں  سکتے  تھے  آواز بیٹھ گئی تھی لیکن میں نے  سنا کہ آپ فرما رہے  ہیں  ان کا ساتھ جن پر اللہ نے  انعام کیا جو نبی ہیں ، صدیق ہیں ، شہید ہیں، اور نیکو کار ہیں، یہ سن کر مجھے  معلوم ہو گیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے  ۔ یہی مطلب ہے  جو دوسری حدیث میں آپ کے  یہ الفاظ وارد ہوئے  ہیں  کہ اے  اللہ میں بلند و بالا رفیق کی رفاقت کا طالب ہوں یہ کلمہ آپ نے  تین مرتبہ اپنی زبان مبارک سے  نکالا پھر فوت ہو گئے  علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم ۔ 

اس آیت کے شان نزول کا بیان

ابن جریر میں ہے  کہ ایک انصاری حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس آئے  آپ نے  دیکھا کہ سخت مغموم ہیں  سبب دریافت کیا تو جواب ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں تو صبح شام ہم لوگ آپ کی خدمت میں آبیٹھے  ہیں  دیدار بھی ہو جاتا ہے  اور دو گھڑی صحبت بھی میسر ہو جاتی ہے  لیکن کل قیامت کے  دن تو آپ نبیوں کی اعلیٰ مجلس میں ہوں گے  ہم تو آپ تک پہنچ بھی نہ سکیں گے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  کچھ جواب نہ دیا اس پر حضور جبرئیل یہ آیت لائے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  آدمی بھیج کر انہیں  یہ خوشخبری سنا دی۔ یہی اثر مرسل سند بھی مروی ہے  جو سند بہت ہی اچھی ہے، حضرت ربیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  کہا کہ یہ ظاہر ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا درجہ آپ پر ایمان لانے  والوں سے  یقیناً بہت ہی بڑا ہے  پس جب کہ جنت میں یہ سب جمع ہوں گے  تو آپس میں ایک دوسرے  کو کیسے  دیکھیں گے  اور کیسے  ملیں گے  ؟ پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا اوپر کے  درجہ والے  نیچے  والوں کے  پاس اتر آئیں گے  اور پربہار باغوں میں سب جمع ہوں گے  اور اللہ کے  احسانات کا ذکر اور اس کی تعریفیں کریں گے  اور جو چاہیں  گے  پائیں گے  ناز و نعم سے  ہر وقت رہیں  گے ۔ ابن مردویہ میں ہے  ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس آئے  اور کہنے  لگے  یا رسول اللہ میں آپ کو اپنی جان سے  اپنے  اہل عیال سے  اور اپنے  بچوں سے  بھی زیادہ محبوب رکھتا ہوں ۔ میں گھر میں ہوتا ہوں لیکن شوق زیارت مجھے  بیقرار کر دیتا ہے  صبر نہیں  ہو سکتا دوڑتا بھاگتا آتا ہوں اور دیدار کر کے  چلا جاتا ہوں لیکن جب مجھے  آپ کی اور اپنی موت یاد آتی ہے  اور اس کا یقین ہے  کہ آپ جنت میں نبیوں کے  سب سے  بڑے  اونچے  درجے  میں ہوں گے  تو ڈر لگتا ہے  کہ پھر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  دیدار سے  محروم ہو جاؤں گا، آپ نے  تو کوئی جواب نہیں  دیا لیکن یہ آیت نازل ہوئی۔ اس روایت کے  اور بھی طریقے  ہیں ، صحیح مسلم شریف میں ہے  ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  میں رات کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں رہتا اور پانی وغیرہ لا دیا کرتا تھا ایک بار آپ نے  مجھ سے  فرمایا کچھ مانگ لے  میں نے  کہا جنت میں میں آپ کی رفاقت کا طالب ہوں فرمایا اس کے  سوا اور کچھ؟ میں نے  کہا وہ بھی یہی فرمایا میری رفاقت کے  لئے  میری مدد کر بکثرت سجدے  کیا کر، مسند احمد میں ہے  ایک شخص نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  کہا میں اللہ کے  لا شریک ہونے  کی اور آپ کے  رسول ہونے  کی گواہی دیتا ہوں اور رمضان کے  روزے  رکھتا ہوں تو آپ نے  فرمایا جو مرتے  دم تک اسی پر رہے  گا وہ قیامت کے  دن نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے  ساتھ اس طرح ہو گا پھر آپ نے  اپنی دو انگلیاں اٹھا کر اشارہ کر کے  بتایا۔ لیکن یہ شرط ہے  کہ ماں باپ کا نافرمان نہ ہو مسند احمد میں ہے  جس نے  اللہ کی راہ میں ایک ہزار آیتیں پڑھیں وہ انشاء اللہ قیامت کے  دن نبیوں کے  صدیقوں شہیدوں اور صالحوں کے  ساتھ لکھا جائے  گا، ترمذی میں ہے  سچا امانت دار، تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کے  ساتھ ہو گا، ان سب سے  زیادہ زبردست بشارت اس حدیث میں ہے  جو صحاج اور مسانید وغیرہ میں صاحبہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی ایک زبردست جماعت ہے  بہ تواتر مروی ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  اس شخص کے  بارے  میں دریافت کیا گیا جو ایک قوم سے  محبت رکھتا ہے  لیکن اس سے  ملا نہیں  تو آپ نے  فرمایا (حدیث المرء مع من احب) ہر انسان اس کے  ساتھ ہو گا جس سے  وہ محبت رکھتا تھا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  مسلمان جس قدر اس حدیث سے  خوش ہوئے  اتنا کسی اور چیز سے  خوش نہیں  ہوئی، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  واللہ میری محبت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  ہے  حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  ہے  اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  ہے  تو مجھے  امید ہے  کہ اللہ مجھے  بھی انہی کے  ساتھ اٹھائے  گا گو میرے  اعمال ان جیسے  نہیں  (یا اللہ تو ہمارے  دل بھی اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے  چاہنے  والوں کی محبت سے  بھر دے  اور ہمارا حشر بھی انہی کے  ساتھ کر دے  آمین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  جنتی لوگ اپنے  سے  بلند درجہ والے  جنتیوں کو ان کے  بالا خانوں میں اس طرح دیکھیں گے  جیسے  تم چمکتے  ستارے  کو مشرق یا مغرب میں دیکھتے  ہو ان میں بہت کچھ فاصلہ ہو گا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  کہا یہ منزلیں تو انبیاء کرام کے  لئے  ہی مخصوص ہوں گی؟ کیوں اور وہاں تک کیسے  پہنچ سکتا ہے  ؟ آپ نے  فرمایا کیوں نہیں  اس کی قسم جس کے  ہاتھ میں میری جان ہے  ان منزلوں تک وہ بھی پہنچیں گے  جو اللہ پر ایمان لائے  رسولوں کو سچا جانا اور مانا (بخاری مسلم) ایک حبشی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے  آپ فرماتے  ہیں  جو پوچھنا ہو پوچھو اور سمجھو وہ کہتا ہے  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کو صورت میں رنگ میں نبوت میں اللہ عزوجل نے  ہم پر فضیلت دے  رکھی ہے  اگر میں بھی اس چیز پر ایمان لاؤں جس پر آپ ایمان لائے  ہیں  اور ان احکام کو بجا لاؤں جنہیں  آپ بجا لا رہے  ہیں  تو کیا جنت میں آپ کا ساتھ ملے  گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا ہاں اس اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے  ہاتھ جگمگاتا ہوا نظر آئے  گا ۔ لا الہ الا اللہ کہنے  والے  سے  اللہ کا وعدہ ہے  اور سبحان اللہ وبحمدہ کہنے  والے  کے  لئے  ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں  اس پر ایک اور صاحب نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب یہ حقائق ہیں  تو پھر ہم کیسے  ہلاک ہو سکتے  ہیں ؟ تو آپ نے  فرمایا ایک انسان قیامت کے  دن اس قدر اعمال لے  کر آئے  گا اگر کسی پہاڑ پر رکھے  جائیں تو وہ بھی بوجھل ہوئے  لیکن ایک ہی نعمت جو ؟ ؟ ؟ کے  مقابل کھڑی ہو گی جو صرف اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے  کا نتیجہ ہو گی اس کے  سامنے  مذکورہ اعمال کم نظر آئیں گے  محض اس کا شکریہ میں ہی یہ اعمال کم نظر آئیں گے  ہاں یہ اور بات ہے  کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے  اسے  ڈھانک لے  اور جنت دے  دے  اور یہ آیتیں اتریں (آیت ھل اتی علی الانسان سے  ملکا کبیرا) تک۔ تو حبشی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے  لگایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا جنت میں جن جن چیزوں کو آپ کی آنکھیں دیکھیں گی میری آنکھیں بھی دیکھ سکیں گی؟ آپ نے  فرمایا ہاں اس پر وہ حبشی فرط شوق میں روئے  اور اس قدر روئے  کہ اسی حالت میں فوت ہو گئے  رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ارضاہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  میں نے  دیکھا کہ ان کی نعش مبارک کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبر میں اتار رہے  تھے  یہ روایت غریب ہے  اور اس میں اصولی خامیاں بھی ہیں  اس کی سند بھی صغیف ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے  یہ خاص اللہ کی عنایت اور اس کا فضل ہے  اس کی رحمت سے  ہی یہ اس کے  قابل ہوئے  نہ کہ اپنے  اعمال سے ، اللہ خوب جاننے  والا ہے  اس بخوبی معلوم ہے  کہ مستحق معلوم ہدایت و توفیق کون ہے ؟

 

۷۱

طاقتور اور متحد ہو کر زندہ رہو

اللہ رب العزت مسلمانوں کو حکم دیتا ہے  کہ وہ ہر وقت اپنے  بچاؤ کے  اسباب تیار رکھیں ہر وقت ہتھیار بند رہیں  تاکہ دشمن ان پر با آسانی کامیاب نہ ہو جائے ۔ ضرورت کے  ہتھیار تیار رکھیں اپنی تعداد بڑھاتے  رہیں  قوت مضبوط کرتے  رہیں  منظم مردانہ وار جہاد کے  لئے  بیک آواز اٹھ کھڑے  ہوں چھوٹے  چھوٹے  لشکروں میں بٹ کر یا متحدہ فوج کی صورت میں جیسا موقعہ ہو آواز سنتے  ہی ہوشیار رہیں  کہ منافقین کی خصلت ہے  کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ سے  جی چرائیں اور دوسروں کو بھی بزدل بنائیں، جیسے  عبداللہ بن ابی بن سلول سردار منافقین کا فعل تھا اللہ تعالیٰ اسے  رسوا کرے  اس کا کردار یہ تھا کہ اگر حکمت الہیہ سے  مسلمانوں کو دشمنوں کے  مقابلہ میں کامیابی نہ ہوتی دشمن ان پر چھا جاتا انہیں  نقصان پہنچاتا ان کے  آدمی شہید ہوتے  تو یہ گھر بیٹھا خوشیاں مناتا اور اپنی دانائی پر اکڑتا اور اپنا اس جہاد میں شریک نہ ہونا اپنے  حق میں اللہ تعالیٰ کا انعام قرار دیتا لیکن بے  خبر یہ نہیں  سمجھتا کہ جو اجر و ثواب ان مجاہدین کو ملا اس سب سے  یہ بد نصیب یک لخت محروم رہا اگر یہ بھی ان میں شامل ہو یا تو غازی کا درجہ پاتا اپنے  صبر کے  ثواب سمیٹتا یا شہادت کے  بلند مرتبے  تک پہنچ جاتا، اور اگر مسلمان مجاہدین کا اللہ کا فضل معاون ہوتا یعنی یہ دشمنوں پر غالب آ جاتے  ان کی فتح ہوتی دشمنوں کو انہوں نے  پامال کیا اور مال غنیمت لونڈی غلام لے  کر خیر عافیت ظفر اور نصرت کے  ساتھ لوٹتے  تو یہ انگاروں پر لوٹتا اور ایسے  لمبے  لمبے  سانس لے  کر ہائے  وائے  کرتا ہے  اور اس طرح پچھتاتا ہے  اور ایسے  کلمات زبان سے  نکالتا ہے  گویا یہ دین تمہارا نہیں  بلکہ اس کا دین ہے  اور کہتا افسوس میں ان کے  ساتھ نہ ہوا ورنہ مجھے  بھی حصہ ملتا اور میں بھی لونڈی، غلام، مال، متاع والا بن جاتا الغرض دنیا پر ریجھا ہوا اور اسی پر مٹا ہوا ہے ۔ پس اللہ کی راہ میں نکل کھڑے  ہونے  والے  مومنوں کو چاہیے  کہ ان سے  جہاد کریں جو اپنے  دین کو دنیا کے  بدلے  فروخت کر رہے  ہیں  اپنے  کفر اور عدم ایمان کے  باعث اپنی آخرت کو برباد کر کے  دنیا بناتے  ہیں ۔ سنو! اللہ کی راہ کا مجاہد کبھی نقصان نہیں  اٹھاتا اس کے  دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں  قتل کیا گیا تو اجر موجود غالب رہا تو ثواب حاضر۔ بخاری مسلم میں ہے  کہ اللہ کی راہ کے  مجاہد کا ضامن خود اللہ عزوجل ہے  یا تو اس فوت کر کے  جنت میں پہنچائے  گا جس جگہ سے  وہ چلا ہے  وہیں  اجر و غنیمت کے  ساتھ صحیح سالم واپس لائے  گا فالحمد اللہ۔

۷۵

شیطان کے دوستوں سے جنگ لازم ہے

اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنی راہ کے  جہاد کی رغبت دلاتا ہے  اور فرماتا ہے  کہ وہ کمزور بے  بس لوگو جو مکہ میں ہیں  جن میں عورتیں اور بچے  بھی ہیں  جو وہاں کے  قیام سے  اکتا گئے  ہیں  جن پر کفار نت نئی مصیبتیں توڑ رہے  ہیں ۔ جو محض بے  بال و پر ہیں  انہیں  آزاد کراؤ، جو بے  کس دعائیں مانگ رہے  ہیں  کہ اسی بستی یعنی مکہ سے  ہمارا نکلنا ممکن ہو، مکہ شریف کو اس آیت میں بھی قریہ کہا گیا ہے (آیت وکاین من قریۃ ھی اشد قوۃ من قریتک التی اخرجتک) بہت سی بستیاں اس بستی سے  زیادہ طاقتور تھیں جس بستی سے  (یعنی وہاں کے  رہنے  والوں نے) تمہیں  نکالا۔ اسی مکہ کے  رہنے  والے  مسلمان کافروں کے  ظلم کے  شکایت بھی کر رہے  ہیں  اور ساتھ ہی اپنی دعاؤں میں کہہ رہے  ہیں  کہ اے  رب کسی کو اپنی طرف سے  ہمارا ولی اور مددگار بنا کر ہماری امداد کو بھیج۔ صحیح بخاری شریف میں ہے  حضرت عبد اللہ بن عباس انہی کمزوروں میں تھے  اور روایت میں ہے  کہ آپ نے (آیت الا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان) پڑھ کر فرمایا میں اور میری والدہ صاحبہ بھی انہی لوگوں میں سے  ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ نے  معذور رکھا۔ ارشاد ہے  ایماندار اللہ تعالیٰ نے  معذور رکھا ۔ ارشاد ہے  ایماندار اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اس کی رضا جوئی کے  لئے  جہاد کرتے  ہیں  اور کفار اطاعت شیطان میں لڑتے  ہیں  تو مسلمانوں کو چاہیے  کہ شیطان کے  دوستوں سے  جو جو اللہ کے  دشمن ہیں  دل کھول کر جنگ کریں اور یقین مانیں کہ شیطان کے  ہتھکنڈے  اور اس کے  مکر و فریب سب نقش بر آب ہیں ۔

۷۷

اولین درس صبر و ضبط

واقعہ بیان ہو رہا ہے  کہ ابتدائے  اسلام میں جب مکہ شریف میں تھے  کمزور تھے  حرمت والے  شہر میں تھے  کفار کا غلبہ تھا یہ انہی کے  شہر میں تھے  وہ بکثرت تھے  جنگی اسباب میں ہر طرح فوقیت رکھتے  ہیں، اس لئے  اس وقت اللہ تعالیٰ نے  مسلمانوں کو جہاد و قتال کا حکم نہیں  دیا تھا، بلکہ ان سے  فرمایا تھا کہ کافروں کی ایذائیں سہتے  چلے  جائیں ان کی مخالفت برداشت کریں، ان کے  ظلم و ستم برداشت کریں، جو احکام اللہ نازل ہو چکے  ہیں  ان پر عامل رہیں  نماز ادا کرتے  رہیں  زکوٰۃ دیتے  رہا کریں، گو ان میں عموماً مال کی زیادتی بھی نہ تھی لیکن تاہم مسکینوں اور محتاجوں کے  کام آنے  کا اور ان کی ہمدردی کرنے  کا انہیں  حکم دیا گیا تھا مصلحت الٰہی کا تقاضہ یہ تھا کہ سردست یہ کفار سے  نہ لڑیں بلکہ صبر و ضبط سے  کام لیں ادھر کافی بڑی دلیری سے  ان پر ستم کے  پہاڑ توڑ رہے  تھے  ہر چھوٹے  بڑے  کو سخت سے  سخت سزائیں دے  رہے  تھے، مسلمانوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اس لئے  ان کے  دل میں رہ رہ کر جوش اٹھتا تھا اور زبان سے  الفاظ نکل جاتے  تھے  کہ اس روز مرہ کی مصیبتوں سے  تو یہی بہتر ہے  کہ ایک مرتبہ دل کی بھڑاس نکل جائے، دو دو ہاتھ میدان میں ہو لیں کاش کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جہاں کا حکم دے  دے، لیکن اب تک حکم نہیں  ملا تھا، جب انہیں  ہجرت کی اجازت ملی اور مسلمان اپنی زمین، زر، رشتہ، کنبے، اللہ عزوجل کے  نام پر قربان کر کے  اپنا دین لے  کر مکہ سے  ہجرت کر کے  مدینے  پہنچے  یہاں انہیں  اللہ تعالیٰ نے  ہر طرح کی سہولت دی امن کی جگہ دی امداد کے  لئے  انصار مدینہ دئیے، تعداد میں کثرت ہو گئی قوت و طاقت قدر بڑھ گئی تو اب اللہ حاکم مطلق کی طرف سے  اجازت ملی کہ اپنے  لڑنے  والوں سے  لڑو، جہاد کا حکم اترتے  ہی بعض لوگ سٹپٹائے، خوف زدہ ہوئے  جہاد کا تصور کر کے  میدان میں قتل کئے  جانے  کا تصور عورتوں کے  رنڈاپے  کا خیال، بچوں کی یتیمی کا منظر آنکھوں کے  سامنے  آگیا گھبراہٹ میں کہہ اٹھے  کہ اے  اللہ ابھی سے  جہاد کیوں فرض کر دیا کچھ تو مہلت دی ہوتی۔ اسی مضمون کو دوسری آیتوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے  ۔ (آیت ویقول الذین امنوا لولا نزلت سورۃ) الخ، مختصر مطلب یہ ہے  کہ ایماندار کہتے  ہیں  کوئی سورت کیوں نازل نہیں  کی جاتی جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے  اور اس میں جہاد کا ذکر ہوتا ہے  تو بیمار دل لوگ چیخ اٹھتے  ہیں  ٹیڑھے  تیوروں سے  تجھے  گھورتے  ہیں  اور موت کی غشی والوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیتے  ہی ان پر افسوس ہے  حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور آپ کے  ساتھی مکہ شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس آتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  اے  نبی اللہ ہم کفر کی حالت میں منع کرتے  ہیں  جن سے  کفار کی جرأت بڑھ گئی ہے ۔ اور وہ ہمیں ذلیل کرنے  لگے  ہیں  تو آپ ہمیں مقابلہ کی اجازت کیوں نہیں  دیتے ؟) لیکن آپ نے  جواب دیا مجھے  اللہ کا حکم یہی ہے  کہ ہم درگزر کریں کافروں سے  جنگ نہ کریں ۔ پھر جب مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی اور جہاد کے  احکام نازل ہوئے  تو لوگ ہچکچانے  لگے  اس پر یہ آیت اتری (نسائی حاکم ابن مردویہ) سدی فرماتے  ہیں  صرف صلوٰۃ و زکوٰۃ کا حکم ہی تھا تو تمنائیں کرتے  تھے  کہ جہاد فرض ہو جب فریضہ جہاد نازل ہوا تو کمزور دل لوگ انسانوں سے  ڈرنے  لگے  جیسے  اللہ سے  ڈرنا چاہیے  بلکہ اس سے  بھی زیادہ کہنے  لگے  اے  رب تو نے  ہم پر جہاد کیوں فرض کیا کیوں ہمیں اپنی موت کے  صحیح وقت تک فائدہ نہ اٹھانے  دیا۔ انہیں  جواب ملتا ہے  کہ دنیوی نفع بالکل نا پائیدار اور بہت ہی کم ہے  ہاں متقیوں کے  لئے  آخرت دنیا سے  بہتر اور پاکیزہ تر ہے ۔ حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  یہ آیت یہودیوں کے  بارے  میں اتری ہے، جواباً کہا گیا کہ پرہیزگاروں کا انجام آغاز سے  بہت ہی اچھا ہے ۔ تمہیں  تمہارے  اعمال پورے  پورے  دیئے  جائیں گے  کامل اجر ملے  گا ایک بھی نیک عمل غارت نہ کیا جائے  گا ناممکن ہے  کہ ایک بال برابر ظلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے  کسی پر کیا جائے ۔ اس جملے  میں انہیں  دنیا سے  بے  رغبتی دلائی جا رہی ہے  آخرت کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے  جہاد کی رغبت دی جا رہی ہے  ۔ حضرت حسن فرماتے  ہیں  اللہ اس بندے  پر رحم کرے  جو دنیا کے  ساتھ ایسا ہی رہے  ساری دنیا اول سے  آخرت تک اس طرح ہے  جیسے  کوئی سویا ہوا شخص اپنے  خواب میں اپنی پسندیدہ چیز کو دیکھے  لیکن آنکھ کھلتے  ہیں  معلوم ہو جاتا ہے  کہ کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو مصہر کا یہ کلام کتنا پیارا ہے  

ولا خیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ

من اللہ فی دار المقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانھا

متاع قلیل والزوال قریب

یعنی اس شخص کے  لئے  دنیا بھلائی سے  یکسر خالی ہے  جسے  کل آخرت کا کوئی حصہ ملنے  والا نہیں ۔ گو دنیا کو دیکھ دیکھ کر بعض لوگ ریجھ رہے  ہیں  لیکن دراصل یہ یونہی سا فائدہ ہے  اور وہ بھی جلد فنا ہو جانے  والا۔ پھر ارشاد باری ہے  کہ آخرش موت کا مزا ہر ایک چکھنا ہی ہے  کوئی ذریعہ کسی کو اس سے  بچا نہیں  سکتا، جسے  فرمان ہے (آیت کل من علیھا فان) جتنے  یہاں ہیں  سب فانی ہیں، اور جگہ ارشاد ہے  (آیت کل نفس ذائقۃ الموت) ہر ہر جاندار مرنے  والا ہے  فرماتا ہے (آیت وما جعلنالبشر من قبلک الخلد) تجھ سے  اگلے  لوگوں میں سے  بھی کسی کے  لئے  ہم نے  ہمیشہ کی زندگی مقرر نہیں  کی۔ مقصد یہ ہے  کہ خواہ جہاد کر لے  یا نہ کرے  ذات اللہ کے  سوا موت کا مزا تو ایک نہ ایک روز ہر کسی کو چکھنا ہی پڑے  گا۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے  اور ہر ایک کی موت کی جگہ معین ہے، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قوت جبکہ آپ بستر مرگ پر ہیں  فرماتے  ہیں  اللہ کی قسم فلاں جگہ فلاں جگہ غرض بیسیوں لڑائیوں میں سینکڑوں معرکوں میں گیا ثابت قدمی پامردی کے  ساتھ دلیرانہ جہاد کئے  آؤ دیکھ لو میرے  جسم کا کوئی عضو ایسا نہ پاؤ گے  جہاں کوئی نہ کوئی نشان نیزے  یا برچھے  یا تیر یا بھالے  کا تلوار اور ہتھیار کا نہ ہو لیکن چونکہ میدان جنگ میں موت نہ لکھی تھی اب دیکھو اپنے  بسترے  پر اپنی موت کے  پنجے  سے  بلند و بالا مضبوط اور مضبوط قلعے  اور محل بھی بچا نہیں  سکتے  ۔ بعض نے  کہا مراد اس سے  آسمان کے  برج ہیں، لیکن یہ قول ضعیف ہے  صحیح یہی ہے  کہ مراد محفوظ مقامات ہیں  یعنی کتنی ہی حفاظت موت سے  کی جائے ۔ لیکن وہ اپنے  وقت سے  آگے  پیچھے  نہیں  ہو سکتی زہیر کا شعر ہے  کہ موت سے  بھاگنے  والا گو زینہ لگا کر اسباب آسمانی بھی جمع کر لے  تو بھی اسے  کوئی نفع نہیں  پہنچ سکتا، ایک قول ہے  مشیدہ بہ تشدید مشید بغیر تشدید ایک ہی معنی میں ہیں  اور بعض ان دونوں میں فرق کے  قائل ہیں  کہتے  ہیں  کہ اول کا معنی مطول دوسرے  کا معنی مزین یعنی چونے  سے  ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر ایک مطول قصہ بزبان حضرت مجاہد مروی ہے  کہ اگلے  زمانے  میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے  درد ہونے  لگے  اور بچی تولد ہوئی تو اس نے  اپنے  ملازم سے  کہا کہ جاؤ کہیں  سے  آگ لے  آؤ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے  پر ایک شخص کھڑا ہے  پوچھتا ہے  کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا ؟ اس نے  کہا لڑکی ہوئی ہے  کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے  زنا کرائے  گی پھر اس کے  ہاں اب جو شخص ملازم ہے  اسی سے  اس کا نکاح ہو گا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے  گی۔ یہ شخص یہیں  سے  پلٹ آیا اور آتے  ہی ایک تیز چھری لے  کر اس لڑکی کے  پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے  مردہ سمجھ کر وہاں سے  بھاگ نکلا اس کی ماں نے  یہ حال دیکھ کر اپنی بچی کے  پیٹ کو ٹانکے  دئیے  اور علاج معالجہ شروع کیا جس سے  اس کا زخم بھر گیا اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی بد چلنی میں پڑ گئی ادھر ملازم سمندر کے  راستے  کہیں  چلا گیا کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے  گاؤں میں آ گیا ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گاؤں میں جو بہت خوبصورت عورت ہو اس سے  میرا نکاح کرا دو، یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے  زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں  پیغام بھیجا، منظور ہو گیا، نکاح بھی ہو گیا اور وداع ہو کر یہ اس کے  ہاں آ بھی گئی دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہو گئی، ایک دن ذکر اذکار میں اس عورت نے  اس سے  پوچھا آپ کون ہیں  کہاں سے  آئے  ہیں  یہاں کیسے  آ گئے ؟ وغیرہ اس نے  اپنا تمام ماجرا بیان کر دیا کہ میں یہاں ایک عورت کے  ہاں ملازم تھا اور وہاں سے  اس کی لڑکی کے  ساتھ یہ حرکت کر کے  بھاگ گیا تھا اب اتنے  برسوں کے  بعد یہاں آیا ہوں تو اس لڑکی نے  کہا جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے  تھے  میں وہی ہوں یہ کہہ کر اپنے  اس زخم کا نشان بھی اسے  دکھایا تب تو اسے  یقین ہو گیا اور کہنے  لگا جب تو وہی ہے  تو ایک بات تیری نسبت مجھے  اور بھی معلوم ہے  وہ یہ کہ تو ایک سو آدمیوں سے  مجھ سے  پہلے  مل چکی ہے  اس نے  کہا ٹھیک ہے  یہ کام تو مجھ سے  ہوا ہے  لیکن گنتی یاد نہیں ۔ اس نے  کہا کہ مجھے  تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے  وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے  گی، خیر چونکہ مجھے  تجھ سے  بہت زیادہ محبت ہے  میں تیرے  لئے  ایک بلند و بالا پختہ اور اعلیٰ محل تعمیر کرا دیتا ہوں اسی میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے  کیڑے  مکوڑے  پہنچ ہی نہ سکیں چنانچہ ایسا ہی محل تیار ہوا اور یہ وہاں رہنے  لگی، ایک مدت کے  بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے  ہوئے  تھے  کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی اسے  دیکھتے  ہیں  اس شخص نے  کہا دیکھو آج یہاں مکڑی دکھائی دی عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے  ؟ تو میں اس کی جان لوں گی غلاموں کو حکم دیا کہ اسے  زندہ پکڑ کر میرے  سامنے  لاؤ نوکر پکڑ کر لے  آئے  اس نے  زمین پر رکھ کر اپنے  پیر کے  انگوٹھے  سے  اسے  مل ڈالا اس کی جان نکل گئی لیکن اس میں سے  پیپ کا ایک آدھ قطرہ اس کے  انگوٹھے  کے  ناخن اور گوشت کے  درمیان اڑ کر چپک گیا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑ گیا اور اسی میں آخر مر گئی، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب باغی چڑھ دوڑے  تو آپ نے  امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خیر خواہی اور ان کے  اتفاق کی دعا کے  بعد دو شعر پڑھے  جن کا مطلب بھی یہی ہے  کہ موت کو ٹالنے  والی کوئی چیز اور کوئی حیلہ کوئی قوت اور کوئی چالاکی نہیں، حضر کے  بادشاہ ساطرون کو کسرفی شاپور ذوالا کناف نے  جس طرح قتل کیا وہ واقعہ بھی ہم یہاں لکھتے  ہیں، ابن ہشام میں ہے  جب شاہ پور عراق میں تھا تو اس کے  علاقہ یر ساطرون نے  چڑھائی کی تھی اس کے  بدلے  میں جب اس نے  چڑھائی کی تو یہ قلعہ بند ہو گیا دو سال تک محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہو سکا ایک روز ساطرون کی بیٹی نضیرہ اپنے  باپ کے  قلعہ کا گشت لگا رہی تھی اچانک اس کی نظر شاہ پور پر پڑھ گئی یہ اس وقت شاہانہ پر تکلف ریشمی لباس میں تاج شاہی سر پر رکھے  ہوئے  تھا نضیرہ کے  دل میں آیا کہ اس سے  میری شادی ہو جائے  تو کیا ہی اچھا ہو؟ چنانچہ اس نے  خفیہ پیغام بھیجنے  شروع کیے  اور وعدہ ہو گیا کہ اگر یہ لڑکی اس قلعہ پر شاہ پور کا قبضہ کرا دے  تو شاہ پور اس سے  نکاح کر لے گا اس کا باپ ساطرون بڑا شرابی تھا اس کی ساری رات نشہ میں کٹتی تھی اس کی لڑکی نے  موقعہ پا کر رات کو اپنے  باپ کو نشہ میں مد ہوش دیکھ کر اس کے  سرہانے  سے  قلعہ کے  دروازے  کی کنجیاں چپکے  سے  نکال لیں اور اپنے  ایک با اعتماد غلام کے  ہاتھ ساطرون تک پہنچا دیں جس سے  اس نے  دروازہ کھول لیا اور شہر میں قتل عام کرایا اور قابض ہو گیا یہ بھی کہا گیا کہ اس قلعہ میں ایک جادو تھا جب تک اس طلسم کو توڑا نہ جائے  قلعہ کا فتح ہونا ناممکن تھا اس لڑکی نے  اس کے  توڑنے  کا گر اسے  بتا دیا کہ ایک چت کبرا کبوتر لے  کر اس کے  پاؤں کسی با کرہ کے  پہلے  حیض کے  خون سے  رنگ لو پھر اس کبوتر کو چھوڑو وہ جا کر قلعہ کی دیوار پر بیٹھے  تو فوراً وہ طلسم ٹوٹ جائے  گا اور قلعہ کا پھاٹک کھل جائے  گا چنانچہ شاہ پور نے  یہی کیا اور قلعہ فتح کر کے  ساطرون کو قتل کر ڈالا تمام لوگوں کو تیغ کیا اور تمام شہر کو اجاڑ دیا اور اس لڑکی کو اپنے  ہمراہ لے  گیا اور اس سے  نکاح کر لیا۔ ایک رات جبکہ لڑکی نضیرہ اپنے  بسترے  پر لیٹی ہوئی تھی اسنے  نیند نہ آ رہی تھی سلملا رہی تھی اور بے  چینی سے  کروٹیں بدل رہی تھی تو شاہ پور نے  پوچھا کیا بات ہے  اس نے  کہا میرے  بستر میں کچھ ہے  جس سے  مجھے  نید نہیں  آ رہی، شمع جلائی گئی بستر ٹٹولا گیا تو گل آس کی ایک بتی نکلی شاہ پور اس نزاکت پر حیران رہ گیا کہ ایک اتنی چھوٹی سی بتی بستر میں ہونے  پر اسے  نیند نہیں  آئی؟ پوچھا تیرے  والد کے  ہاں تیرے  لئے  کیا ہوتا تھا؟ اس نے  کہا نرم ریشم کا بسترا تھا صرف باریک نرم ریشمی لباس تھا صرف نلیوں کا گودا کھایا کرتی تھی اور صرف انگوری خالص شراب پیتی تھی۔ یہ انتظام میرے  باپ نے  میرے  لئے  کر رکھا تھا۔ یہ تھی بھی ایسی کہ اس کی پنڈلی کا گودا تک باہر سے  نظر آتا تھا ۔ ان باتوں سے  شاہ پور پر ایک اور رنگ چڑھا دیا اور اس نے  کہا جس باپ نے  تجھے  اس طرح پالا پوسا اس کے  ساتھ تو نے  یہ سلوک کیا کہ میرے  ہاتھوں اسے  قتل کرایا اس کے  مالک کو تاخت و تاراج کرایا پھر مجھے  تجھ سے  کیا امید رکھنی چاہیے ؟ اللہ جانے  میرے  ساتھ تو کیا کرے ؟ اسی وقت حکم دیا کہ اس کے  سر کے  بال گھوڑے  سے  باندھ دیئے  جائیں اور گھوڑے  کو بے  لگام چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ یہی ہوا گھوڑا بد کا بھاگا اچھلنے  کودنے  لگا اور اس کی ٹاپوں سے  زمین پر پچھاڑیں کھاتے  ہوئے  اس کے  جسم کا چورا چورا ہو گیا۔ چنانچہ اس واقعہ کو عرب شعراء نے  نظم بھی کیا ہے  اس کے  بعد اللہ تعالیٰ فرماتے  ہیں  کہ اگر انہیں  خوش حالی پھلواری اولاد و کھیتی ہاتھ لگے  تو کہتے  ہیں  یہ اللہ کی طرف سے  ہے  اور اگر قحط سالی پڑے  تنگ روزی ہو موت ہونے  کا یہ پھل ہے  صاحب ایمان بننے  کا،  فرعونی بھی اسی طرح برائیوں کو حضرت موسیٰ اور مسلمانوں سے  منسوب بد شگونی لیا کرتے  تھے  جیسے  کہ قرآن نے  اس کا ذکر کیا ہے  ایک آیت میں ہے (آیت"ومن الناس من یعبد اللہ علی حرف") الخ یعنی بعض لوگ ایسے  بھی ہیں  جو ایک کنارے  کھڑے  رہ کر اللہ کی عبادت کرتے  ہیں  یعنی اگر بھلائی ملی تو باچھیں کھل جاتی ہیں  اور اگر برائی پہنچے  تو الٹے  پیروں پلٹ جاتے  ہیں  ۔ یہ ہیں  جو دونوں جہان میں برباد ہوں گے  پس یہاں بھی ان منافقوں کی جو بظاہر مسلمان ہیں  اور دل کے  کھوٹے  ہیں  برائی بیان ہو رہی ہے ۔ کہ جہاں کچھ نقصان ہوا اور بہک گئے  کہ اسلام لانے  کی وجہ سے  ہمیں نقصان ہوا۔ سدی فرماتے  ہیں  کہ حسنہ سے  مراد یہاں بارشوں کا ہونا جانوروں میں زیادتی ہونا بال بچے  بہ کثرت ہونا خوشحالی میسر آنا وغیرہ ہے  اگر یہ ہوا تو  کہتے  کہ یہ سب من جانب اللہ ہے  اور اگر اس کے  خلاف ہو تو اس بے  برکتی کا باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتاتے  اور کہتے  یہ سب تیری وجہ سے  ہے  یعنی ہم نے  اپنے  بڑوں کی راہ چھوڑ دی اور اس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تابعداری اختیار کی اس لئے  اس مصیبت میں پھنس گئے  اور اس بلا میں گرفتار ہوئے  پس پروردگار ان کے  ناپاک قول اور اس پلید عقیدے  کی تردید کرتے  ہوئے  فرماتا ہے  کہ سب کچھ اللہ کی طرف سے  ہے ، اس کی قضا و قدر ہر بھلے  برے  فاسق فاجر نیک بد مومن کافر پر جاری ہے، بھلائی برائی سب اس کی طرف سے  ہے  پھر ان کے  اس قول کی جو محض شک و شبہ کم علمی بے  وقوفی جہالت اور ظلم کی بنا پر ہے  تردید کرتے  ہوئے  فرماتا ہے  کہ انہیں  کیا ہو گیا ہے ؟ بات سمجھنے  کی قابلیت بھی ان سے  جاتی رہی۔ "ایک غریب حدیث جو (آیت کل من عند اللہ) کے  متعلق ہے  اسے  بھی سنئے  " بزار میں ہے  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  ساتھ بیٹھے  تھے  کہ کچھ لوگوں کے  ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے  ان دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  قریب آ کر دونوں صاحب بیٹھ گئے  تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  دریافت کیا کہ بلند آواز گفتگو کیا ہو رہی تھی؟ ایک شخص نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو کہہ رہے  تھے  ؟ حضرت عمر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  کہا میں کہہ رہا تھا کہ دونوں باتیں اللہ جل شانہ کی طرف سے  ہیں  آپ نے  فرمایا یہی بحث اول اول حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل وہی کہتے  تھے  جو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم کہ رہے  ہو۔ پس آسمان والوں میں جب اختلاف ہوا تو زمین والوں میں تو ہونا لازمی تھا، آخر حضرت اسرافیل کی طرف فیصلہ گیا اور انہوں نے  فیصلہ کیا کہ حسنات اور سیات دونوں اللہ مختار کل کی طرف سے  ہیں، پھر آپ نے  دونوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا میرا فیصلہ سنو اور یاد رکھو اگر اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کے  عمل کو نہ چاہتا تو ابلیس کو پیدا ہی نہ کرتا، لیکن شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس حضرت ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  یہ حدیث موضوع ہے  اور تمام ان محدثین کا جو حدیث کی پرکھ رکھتے  ہیں  اتفاق ہے  کہ یہ روایت گھڑی ہوئی ہے  ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  خطاب فرماتے  ہیں  جس سے  مراد عموم ہے  یعنی سب سے  ہی خطاب ہے  کہ تمہیں  جو بھلائی پہنچتی ہے  وہ اللہ کا فضل لطف رحمت اور جو برائی پہنچتی ہے  وہ خود تمہاری طرف سے  تمہارے  اعمال کا نتیجہ ہے، جیسے  اور آیت میں ہے (آیت وما اصابکم من مصیبۃ فما کسبت ایدیکم ویعفو عن کثیر) یعنی جو مصیبت تمہیں  پہنچتی ہے  ۔ وہ تمہارے  بعض اعمال کی وجہ سے  اور بھی تو اللہ تعالیٰ بہت سی بد اعمالیوں سے  دو گزر فرماتا رہتا ہے (آیت  فمن نفسک) سے  مراد بسبب گناہ ہے  یعنی شامت اعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  منقول ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا جس شخص کا ذرا سا جسم کسی لکڑی سے  جل جائے  یا اس کا قدم پھسل جائے  یا اسے  ذرا سی محنت کرنی پڑے  جس سے  پسینہ آ جائے  تو وہ بھی کسی نہ کسی گناہ پر ہوتا ہے  اور ابھی تک تو اللہ تعالیٰ جن گناہوں سے  چشم پوشی فرماتا ہے  جنہیں  معاف کر دیتا ہے  وہ بہت سارے  ہیں، اس مرسل حدیث کا مضمون ایک متصل حدیث میں بھی ہے  حضور فرماتے  ہیں  اس کی قسم جس کے  ہاتھ میں میری جان ہے  کہ ایمان دار کو رنج یا جو بھی تکلیف و مشقت پہنچتی ہے  یہاں تک کہ جو کانٹا بھی لگتا ہے  اسے  اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کا کفارہ بنا دیتا ہے، ابو صالح فرماتے  ہیں  مطلب اس آیت کا یہ ہے  کہ جو برائی تجھے  پہنچتی ہے  اس کا باعث تیرا گناہ ہے  ہاں اسے  مقدر کرنے  والا اللہ تعالیٰ آپ ہے، حضرت مطرف بن عبد اللہ فرماتے  ہیں  تم تقدیر کے  بارے  میں کیا جانتے  ہو؟ کیا تمہیں  سورہ نساء کی یہ آیت کافی نہیں، پھر اس آیت کو پڑھ کر فرماتے  ہیں  اللہ سبحانہ کی قسم لوگ اللہ سبحانہ کی طرف سونپ نہیں  دئیے  گئے  انہیں  حکم دیئے  گئے  ہیں  اور اسی کی طرف وہ لوٹتے  ہیں  یہ قول بہت قوی اور مضبوط ہے  قدریہ اور جبریہ کی پوری تردید کرتا ہے، تفسیر اس بحث کا موضوع نہیں ، پھر فرماتا ہے  کہ تیرا کام اے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریعت کی تبلیغ کرنا ہے  اس کی رضامندی اور ناراضگی کے  کام کو اس کے  احکام اور اس کی ممانعت کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے، اللہ کی گواہی کافی ہے  کہ اس نے  تجھے  رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنا کر بھیجا ہے، اسی طرح کی گواہی اس امر پر بھی کافی ہے  کہ تو نے  تبلیغ کر دی تیرے  ان کے  درمیان جو ہو رہا ہے  کہ اسے  بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے  یہ جس طرح کفار عناد اور تکبر تیرے  ساتھ برتتے  ہیں  اسے  بھی وہ دیکھ رہا ہے ۔

۸۰

ظاہر و باطن نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مطیع بنا لو

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  کہ میرے  بندے  اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تابعدار صحیح معنی میں میرا ہی اطاعت گزار ہے  آپ کا نافرمان میرا نافرمان ہے، اس لئے  کہ آپ اپنی طرف سے  کچھ نہیں  کہتے  جو فرماتے  ہیں  وہ وہی ہوتا ہے  جو میری طرف سے  وحی کیا جاتا ہے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  کہ میری ماننے  والا اللہ تعالیٰ کی ماننے  والا ہے  اور جس نے  میری نافرمانی کی اس نے  اللہ کی بات نہ مانی جس نے  امیر کی اطاعت کی اور جس نے  امیر کی نافرمانی کی اس نے  میری نافرمانی کی  یہ حدیث بخاری و مسلم میں ثابت ہے، پھر فرماتا ہے  جو بھی منہ موڑ کر بیٹھ جائے  تو اس کا گناہ اے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ پر نہیں  آپ کا ذمہ تو طرف پہنچا دینا ہے، جو نیک نصیب ہوں گے  مان لیں گے  نجات اور اجر حاصل کر لیں گے  ہاں ان کی نیکیوں کا ثواب آپ کو بھی ہو گا کیونکہ دراصل اس راہ کا راہبر اس نیکی کے  معلم آپ ہی ہیں ۔ اور جو نہ مانے  نہ عمل کرے  تو نقصان اٹھائے  گا بدنصیب ہو گا اپنے  بوجھ سے  آپ مرے  گا اس کا گناہ آپ پر نہیں  اس لئے  کہ آپ نے  سمجھانے  بجھانے  اور راہ حق دکھانے  میں کوئی کسر اٹھا نہیں  رکھی۔ حدیث میں ہے  اللہ اور اس کے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کرنے  والا رشد و ہدایت والا ہے  اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نافرمان اپنے  ہی نفس کو ضرور نقصان پہنچانے  والا ہے، پھر منافقوں کا حال بیان ہو رہا ہے  کہ ظاہری طور پر اطاعت کا اقرار کرتے  ہیں  موافقت کا اظہار کرتے  ہیں  لیکن جہاں نظروں سے  دور ہوئے  اپنی جگہ پر پہنچے  تو ایسے  ہو گئے  گویا ان تلوں میں تیل ہی نہ تھا جو کچھ یہاں کہا تھا اس کے  بالکل برعکس راتوں کو چھپ چھپ کر سازشیں کرنے  بیٹھ گے  حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کی ان پوشیدہ چالاکیوں اور چالوں کو بخوبی جانتا ہے  اس کے  مقرر کردہ زمین کے  فرشتے  ان کی سب کرتوتوں اور ان کی تمام باتوں کو اس کے  حکم سے  ان کے  نامہ اعمال میں لکھ رہے  ہیں  پس انہیں  ڈانٹا جا رہا ہے  کہ یہ کیا بیہودہ حرکت ہے ؟ جس نے  تمہیں  پیدا کیا ہے  اس سے  تمہاری کوئی بات چھپ سکتی ہے ؟ تم کیوں ظاہر و باطن یکساں نہیں  رکھتے، ظاہر باطن کا جاننے  والا تمہیں  تمہاری اس بیہودہ حرکت پر سزا دے  گا ایک اور آیت میں بھی منافقوں کی اس خصلت کا بیان ان الفاظ میں فرمایا ہے (آیت"ویقولون امنا باللہ وبالرسول واطعنا") الخ پھر اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیتا ہے  کہ آپ ان سے  درگزر کیجئے  بردباری برتئے، ان کی خطا معاف کیجئے ، ان کا حال ان کے  نام سے  دوسروں سے  نہ کہئے، ان سے  بالکل بے  خوف رہیے  اللہ پر بھروسہ کیجئے  جو اس پر بھروسہ کرے  جو اس کی طرف رجوع کرے  اسے  وہی کافی ہے ۔

۸۲

کتاب اللہ میں اختلاف نہیں ہمارے دماغ میں فتور ہے

اللہ تعالیٰ اپنے  بندوں کو حکم دیتا ہے  کہ وہ قرآن کو غور و فکر تامل و تدبر سے  پڑھیں اس سے  تغافل نہ برتیں، بے  پرواہی نہ کریں اس کے  مستحکم مضامین اس کے  حکمت بھرے  احکام اس کے  فصیح و بلیغ الفاظ پر غور کریں، ساتھ یہ خبر دیتا ہے  کہ یہ پاک کتاب اختلاف، اضطراب، تعارض اور تضاد سے  پاک ہے  اس لئے  کہ حکم و حمید اللہ کا کلام ہے  وہ خود حق ہے  اور اسی طرح اس کا کلام بھی سراسر حق ہے، چنانچہ اور جگہ فرمایا (آیت افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالھا) یہ لوگ کیوں قرآن میں غور و خوض نہیں  کرتے ؟ کیا ان کے  دلوں پر سنگین قفل لگ گئے  ہیں، پھر فرماتا ہے  اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے  نازل شدہ نہ ہوتا جیسے  کہ مشرکین اور منافقین کا زعم ہے  یہ اگر یہ فی الحقیقت کسی کا اپنی طرف سے  وضع کیا ہوا ہوتا یا کوئی اور اس کا کہنے  والا ہوتا تو ضروری بات ًتھی کہ اس میں انسانی طبائع کے  مطابق اختلاف ملتا، یعنی ناممکن ہے  کہ انسانی اضطراب و تضاد سے  مبرا ہو لازماً یہ ہوتا کہ کہیں  کچھ کہا جاتا اور کہیں  کچھ اور یہاں ایک بات کہی تو آگے  جا کر اس کے  خلاف بھی کہہ گئے ۔ چنانچہ عالموں کا قول بیان کیا گیا ہے  کہ وہ کہے  ہیں  ہم اس پر ایمان لائے  یہ سب ہمارے  رب کی طرف سے  ہیں  یعنی محکم اور متشابہ کو محکم کی طرف لوٹا دیتے  ہیں  اور ہدایت پالیتے  ہیں  اور جن کے  دلوں میں کجی ہے  بد نیتی ہے  وہ محکم متشابہ کی طرف موڑ توڑ کر کے  گمراہ ہو جاتے  ہیں ۔ یہی وجہ ہے  جو اللہ تعالیٰ نے  پہلے  صحیح مزاج والوں کی تعریف کی اور دوسری قسم کے  لوگوں کی برائی بیان فرمائی عمرو بن شعیب سے  مروی ہے  عن ابیہ عن جدہ والی حدیث میں ہے  کہ میں ہے  کہ میں اور میرے  بھائی ایک ایسی مجلس میں شامل ہوئے  کہ اس کے  مقابلہ میں سرخ اونٹوں کا مل جانا بھی اس کے  پاسنگ برابر بھی قیمت نہیں  رکھتا ہم دونوں نے  دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  دروازے  پر چند بزرگ صحابہ کھڑے  ہوئے  ہیں  ہم ادب کے  ساتھ ایک طرف بیٹھ گئے  ان میں قرآن کریم کی کسی آیت کی بابت مذاکرہ ہو رہا تھاجس میں اختلافی مسائل بھی تھے  آخر بات بڑھ گئی اور زور زور سے  آپس میں بات چیت ہونے  لگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسے  سن کر سخت غضبناک ہو کر باہر تشریف لائے  چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا ان پر مٹی ڈالتے  ہوئے  فرمانے  لگے  خاموش رہو تم سے  اگلی امتیں اسی باعث تباہ و برباد ہو گئیں، کہ انہوں نے  اپنے  انبیاء سے  اختلاف کیا اور کتاب اللہ کی ایک آیت کو دوسری آیت کے  خلاف سمجھایاد رکھو قرآن کی کوئی آیت دوسری آیت کے  خلاف اسے  جھٹلانے  والی نہیں  بلکہ قرآن کی ایک ایک آیت ایک دوسرے  کی تصدیق کرتی ہے  تم جسے  جان لو عمل کرو جسے  نہ معلوم کر سکو اس کے  جاننے  والے  کے  لئے  چھوڑ دو۔ دوسری آیت میں ہے  کہ صحابہ تقدیر کے  بارے  میں مباحثہ کر رہے  تھے، راہی کہتے  ہیں  کہ کاش کہ میں اس مجلس میں نہ بیٹھتا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ میں دوپہر کے  وقت حاضر حضور ہوا تو بیٹھا ہی تھا کہ ایک آیت کے  بارے  میں دو شخصوں کے  درمیان اختلاف ہوا ان کی آوازیں اونچی ہوئیں تو آپ نے  فرمایا تم سے  پہلی امتوں کی ہلاکت کا باعث صرف ان کا کتاب اللہ کا اختلاف کرنا ہی تھا (مسند احمد) ۔ پھر ان جلد باز لوگوں کو روکا جا رہا ہے  جو کسی امن یا خوف کی خبر پاتے  ہی بے  تحقیق بات ادھر سے  ادھر تک پہنچا دیتے  ہیں  حالانکہ ممکن ہے  وہ بالکل ہی غلط ہو، صحیح مسلم شریف میں ہے  جو شخص کوئی بات بیان کرے  اور وہ گمان کرتا ہو کہ یہ غلط ہے  وہ بھی جھوٹوں میں کا ایک جھوٹا ہے، یہاں پر ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی روایت کا ذکر کرنا بھی مناسب سمجھتے  ہیں  کہ جب انہیں  یہ خبری پہنچا کہ حضور علیہ السلام نے  اپنی بیویوں کو طلاق دے  دی تو آپ اپنے  گھر سے  چلے  مسجد میں آئے  یہاں بھی لوگوں کو یہی کہتے  سنا تو بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس پہنچے  اور خود آپ سے  دریافت کیا کہ کیا یہ سچ ہے ؟ کہ آپ نے  اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے  دی؟ آپ نے  فرمایا غلط ہے  چنانچہ فاروق اعظم نے  اللہ کی بڑائی بیان کی۔ صحیح مسلم میں ہے  کہ پھر مسجد کے  دروازے  پر کھڑے  ہو کر بہ آواز بلند فرمایا لوگو رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  اپنی بیویوں کو طلاق نہیں  دی۔ اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں  جنہوں نے  اس معاملہ کی تحقیق کی ۔ علمی اصطلاح میں استنباط کہتے  ہیں  کسی چیز کو اس کے  منبع اور مخزن سے  نکالنا مثلاً جب کوئی شخص کسی کان کو کھود کر اس کے  نیجے  سے  کوئی چیز نکالے  تو عرب کہتے  ہیں  "استنبط الرجل "پھر فرماتا ہے  اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و رحم تم پر نہ ہوتا تو تم سب کے  سب سوائے  چند کامل ایمان والوں کے  شیطان کے  تابعدار بن جاتے  ایسے  موقعوں پر محاورۃ معنی ہوتے  ہیں  کہ تم کل کے  کل شامل ہو چنانچہ عرب کے  ایسے  شعر بھی ہیں ۔

۸۴

حکم جہاد امتحان ایمان ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم ہو رہا ہے  کہ آپ تنہا اپنی ذات سے  اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں چاہیے  کوئی بھی آپ کا ساتھ نہ دے، ابو اسحاق حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  دریافت فرماتے  ہیں  کہ ایک مسلمان اکیلا تنہا ہو اور دشمن ایک سو ہوں تو کیا وہ ان سے  جہاد کرے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں تو کہا پھر قرآن کی اس آیت سے  تو ممانعت تاکید ہوتی ہے  کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  اپنے  ہاتھوں آپ ہلاکت میں نہ پڑو تو حضرت براء نے  فرمایا اللہ تعالیٰ اسی آیت میں اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  فرماتا ہے  اللہ کی راہ میں لڑ تجھے  فقط تیرے  نفس کی تکلیف دی جاتی ہے  اور حکم دیا جاتا ہے  کہ مومنوں کو بھی اس سے  مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے  سے  رکنے  والا ہے  اور روایت میں ہے  کہ جب یہ آیت ہلاکت اتری تو آپ نے  صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  فرمایا مجھے  میرے  رب نے  جہاد کا حکم دیا ہے  پس تم بھی جہاد کرو یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے  مومنوں کو دلیری دلا اور انہیں  جہاد کی رغبت دلا، چنانچہ بدر والے  دن میدان جہاد میں مسلمانوں کی صفیں درست کرتے  ہوئے  حضور علیہ السلام نے  فرمایا اٹھو اور بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہے، جہاد کی ترغیب کی بہت سی حدیثیں ہیں، بخاری میں ہے  جو اللہ پر اور اس کے  رسول پر ایمان لائے ، صلوٰۃ قائم کرے، زکوٰۃ دیتا رہے، رمضان کے  روزے  رکھے  اللہ پر اس کا حق ہے  کہ وہ اسے  جنت میں داخل کرے  اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہو جہاں پیدا ہوا ہے  وہیں  ٹھہرا رہا ہو، لوگوں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری ہم نہ دے  دیں ؟ آپ نے  فرمایا سنو جنت میں سو درجے  ہیں  جن میں سے  ایک درجے  میں اس قدر بلندی ہے  جتنی زمین و آسمان میں اور یہ درجے  اللہ نے  ان کے  لئے  تیار کیے  ہیں  جو اس کی راہ میں جہاد کریں ۔ پس جب تم اللہ سے  جنت مانگو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ بہترین جنت ہے  اور سب سے  اعلیٰ ہے  اس کے  اوپر رحمٰن کا عرش ہے  اور اسی سے  جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں، مسلم کی حدیث میں ہے  جو شخص رب ہونے  پر اسلام کے  دین ہونے  پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  رسول و نبی ہونے  پر راضی ہو جائے  اس کے  لئے  جنت واجب ہے  حضرت ابو سعید اسے  سن کر خوش ہو کر کہنے  لگے  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوبارہ ارشاد ہو آپ نے  دوبارہ اسی کو بیان فرما کر کہا ایک اور عمل ہے  جس کے  باعث اللہ تعالیٰ اپنے  بندے  کے  سو درجے  بلند کرتا ہے  ایک درجے  سے  دوسرے  درجے  تک اتنی بلندی ہے  جتنی آسان و زمین کے  درمیان ہے  پوچھا وہ عمل کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد۔ ارشاد ہے  جب آپ جہاد کے  لئے  تیار ہو جائیں گے  مسلمان آپ کی تعلیم سے  جہاد پر آمادہ ہو جائیں گے  تو پھر اللہ کی مدد شامل حال ہو گی اللہ تعالیٰ کفر کی کمر توڑ دے  گا کفار کی ہمت پست کر دے  گا ان کے  حوصلے  ٹوٹ جائیں گے  پھر کیا مجال کہ دنیا میں بھی انہیں  مغلوب کرے  اور یہیں  انہیں  عذاب بھی دے  اسی طرح آخرت میں بھی اسی کو قدرت حاصل ہے، جیسے  اور آیت میں ہے ۔ (آیت ولو یشاء اللہ لا نتصر منھم) الخ، اگر اللہ چاہے  ان سے  از خود بدلہ لے  لے ، لیکن وہ ان کو اور تمہیں  آزما رہا ہے  ۔ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے  تو اسے  بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے  گا، اور جو اس کے  خلاف کوشش کرے  اور بد نتیجہ برآمد کرے  اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہو گا، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  سفارش کرو اجر پاؤ گے  اور اللہ اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان پر وہ جاری کرے  گا جو چاہے، یہ آیت ایک دوسرے  کی سفارش کرنے  کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے، اس مہربانی کو دیکھئے  فرمایا محض شفاعت پر ہی اجر مل جائے  گا خواہ اس سے  کام بنے  یا نہ بنے، اللہ ہر چیز کا حافظ ہے، ہر چیز پر حاضر ہے، ہر چیز کا حساب لینے  والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے، ہر چیز کو دوام بخشنے  والا ہے، ہر ایک کو روزی دینے  والا ہے، ہر انسان کے  اعمال کا اندازہ کرنے  والا ہے ۔

سلام کہنے  والے  کو اس سے  بہتر جواب دو

مسلمانو! جب تمہیں  کوئی مسلمان سلام کرے  تو اس کے  سلام کے  الفاظ سے  بہتر الفاظ سے  اس کا جواب دو، یا کم سے  کم انہی الفاظ کو دوہرا دو پس زیادتی مستحب ہے  اور برابری فرض ہے، ابن جریر میں ہے  ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا السلام علیکم یا رسول اللہ آپ نے  فرمایا وعلیک السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ پھر ایک صاحب آئے  انہوں نے  السلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہ آپ نے  جواب میں فرمایا و علیک تو اس نے  کہا اے  اللہ کے  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فلاں اور فلاں نے  آپ کو سلام کیا تو آپ نے  جواب دیا کچھ زیادہ دعائیہ الفاظ کے  ساتھ دیا جو مجھے  نہیں  دیا آپ نے  فرمایا تم نے  ہمارے  لئے  کچھ باقی ہی نہ چھوڑا اللہ کا فرمان ہے  جب تم پر سلام کیا جائے  تو تم اس سے  اچھا جواب دو یا اسی کو لوٹا دو اس لئے  ہم نے  وہی الفاظ لوٹا دئیے  یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی اسی طرح مروی ہے ، اسے  ابوبکر مردویہ نے  بھی روایت کیا مگر میں نے  اسے  مسند میں نہیں  دیکھا واللہ اعلم اس حدیث سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کے  کلمات میں سے  زیادتی نہیں، اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس آخری صحابی کے  جواب میں وہ لفظ کہہ دیتے  ۔ مسند احمد میں ہے  کہ ایک شخص حضور کے  پاس آئے  اور السلام علیکم یا رسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے  آپ نے  جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ملیں، دوسرے  آئے  اور السلام علیکم و رحمۃ اللہ یا رسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے  آپ نے  فرمایا بیس نیکیاں ملیں، پھر تیسرے  صاحب آئے  انہوں نے  کہا السلام علیکم و رحمۃ و برکاتہ آپ نے  فرمایا تیس نیکیاں ملیں، امام ترمذی اسے  حسن غریب بتاتے  ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو عام لیتے  ہیں  اور فرماتے  ہیں  کہ خلق اللہ میں سے  جو کوئی سلام کرے  گا اسے  جواب دو گو وہ مجوسی ہو، حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  سلام کا اس سے  بہتر جواب دینا تو مسمانوں کے  لئے  ہے  اور اسی کو لوٹا دینا اہل ذمہ کے  لئے  ہے، لیکن اس تفسیر میں ذرا اختلاف ہے  جیسے  کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے  مراد یہ ہے  کہ اس کے  سلام سے  اچھا جواب دیں اور اگر مسلمان سلام کے  سبھی الفاظ کہہ دے  تو پھر جواب دینے  والا انہی کو لوٹا دے ، ذمی لوگوں کو خود کریں تو جواب میں اتنے  ہی الفاظ کہہ دے، بخاری و مسلم میں ہے  جب کوئی یہودی تمہیں  سلام کرے  تو خیال رکھو یہ کہ دیتے  ہیں  السام علیک تو تم کہ دو و علیک صحیح مسلم میں ہے  یہود و نصاریٰ کو تم پہلے  سلام نہ کرو اور جب راستے  میں مڈ بھیڑ ہو جائے  تو انہیں  تنگی کی طرف مضطر کر، امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  سلام نفل ہے  اور جواب سلام فرض ہے  اور علماء کرام کا فرمان بھی یہی ہے ، پس اگر جواب نہ دے  گا تو گنہگار ہو گا اس لئے  کہ جواب سلام کا اللہ کا حکم ہے  اس کے  بعد اللہ تعالیٰ اپنی توحید بیان فرماتا ہے  اور الوہیت اور اپنا یکتا ہونا ظاہر کرتا ہے  اور اس میں ضمنی مضامین بھی ہیں  اسی لئے  دوسرے  جملے  کو لام سے  شروع کیا جو قسم کے  جواب میں آتا ہے، تو اگلا جملہ خبر ہے  اور قسم بھی ہے  کہ وہ عنقریب تمام مقدم و موخر کو میدان محشر میں جمع کرے  گا اور وہاں ہر ایک کو اس کے  عمل کا بدلہ دے  گا، اس اللہ سمیع بصیر سے  زیادہ سچی بات والا اور کوئی نہیں ، اس کی خبر اس کا وعدہ اس کی وعید سب سچ ہے، وہی معبود برحق ہے ، اس کے  سوا کوئی مربی نہیں ۔

۸۸

منافقوں سے ہوشیار رہو

اس میں اختلاف ہے  کہ منافقوں کے  کس معاملہ میں مسلمانوں کے  درمیان دو قسم کے  خیالات داخل ہوئے  تھے ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میدان احد میں تشریف لے  گئے  تب آپ کے  ساتھ منافق بھی تھے  جو جنگ سے  پہلے  ہی لوٹ آئے  تھے  ان کے  بارے  میں بعض مسلمان تو کہتے  تھے  کہ انہیں  قتل کر دینا چاہیے  اور بعض کہتے  تھے  نہیں  یہ بھی ایماندار ہیں، اس پر یہ آیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا یہ شہر طیبہ ہے  جو خود بخود میل کچیل کو اس طرح دور کر دے  گا جس بھٹی لوہے  کے  میل کچیل کو چھانٹ دیتی ہے ۔ (بخاری و مسلم) ابن اسحاق میں ہے  کہ کل لشکر جنگ احد میں ایک ہزار کا تھا، عبد اللہ بن ابی سلول تین سو آدمیوں کو اپنے  ہمراہ لے  کر واپس لوٹ آیا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  ساتھ پھر سات سو ہی رہ گئے  تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  مکہ سے  نکلے ، انہیں  یقین تھا کہ حب رسول سے  ان کی کوئی روک ٹوک نہیں  ہو گی کیونکہ بظاہر کلمہ کے  قائل تھے  ادھر جب مدنی مسلمانوں کو اس کا علم ہوا تو ان میں سے  بعض کہنے  لگے  ان نا مرادوں سے  پہلے  جہاد کرو یہ ہمارے  دشمنوں کے  طرف دار ہیں  اور بعض نے  کہا سبحان اللہ جو لوگ تم جیسا کلمہ پڑھتے  ہیں  تم ان سے  لڑو گے ؟ صرف اس وجہ سے  کہ انہوں نے  ہجرت نہیں  کی اور اپنے  گھر نہیں  چھوڑے ، ہم کس طرح ان کے  خون اور ان کے  مال اپنے  اوپر حلال کر سکتے  ہیں ؟ ان کا یہ اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  سامنے  ہوا آپ خاموش تھے  جو یہ آیت نازل ہوئی (ابن ابی حاتم) حضرت سعید بن معاذ کے  لڑکے  فرماتے  ہیں  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب تہمت لگائی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  ممبر پر کھڑے  ہو کر فرمایا کوئی ہے  جو مجھے  عبد اللہ بن ابی کی ایذا سے  بچائے  اس پر اوس و خزرج کے  درمیان جو اختلاف ہوا اس کی بابت یہ آیت نازل ہوئی ہے، ان کی ہدایت کی کوئی راہ نہیں ۔ یہ تو چاہتے  ہیں  کہ سچے  مسلمان بیھ ان جیسے  گمراہ ہو جائیں ان کے  دلوں میں اس قدر عداوت ہے، تو تمہیں  ممانعت کی جاتی ہے  کہ جب تک یہ ہجرت نہ کریں انہیں  اپنا نہ سمجھو، یہ خیال نہ کرو کہ یہ تمہارے  دوست اور مددگار ہیں، بلکہ یہ خود اس لائق ہیں  کہ ان سے  باقاعدہ جہاد کیا جائے ۔ پھر ان میں سے  ان حضرات کا استثنا کیا جاتا ہے  جو کسی ایسی قوم کی پناہ میں چلے  جائیں جس سے  مسلمانوں کا عہد و پیمان صلح و سلوک ہو تو ان کا حکم بھی وہی ہو گا جو معاہدہ والی قوم کا ہے ، سراقہ بن مالک مدلجی فرماتے  ہیں  جب جنگ بدر اور جنگ احد میں مسلمان غالب آئے  اور آس پاس کے  لوگوں میں اسلام کی بخوبی اشاعت ہو گئی تو مجھے  معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارادہ ہے  کہ خالد بن ولید کو ایک لشکر دے  کر میری قوم بنو مدلج کی گوشمالی کے  لئے  روانہ فرمائیں تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں آپ کو احسان یاد دلایا ہوں لوگوں نے  مجھ سے  کہا خاموش رہ لیکن حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا اسے  کہنے  دو، کہو کیا کہنا چاہتے  ہو؟ میں نے  کہا مجھے  معلوم ہوا ہے  کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے  والے  ہیں  میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے  صلح کر لیں اس بات پر کہ اگر قریش اسلام لائیں تو وہ بھی مسلمان ہو جائیں گے  اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان پر بھی آپ چڑھائی نہ کریں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  حضرت خالد بن ولید کا ہاتھ اپنے  ہاتھ میں لے  کر فرمایا ان کے  ساتھ جاؤ اور ان کے  کہنے  کے  مطابق ان کی قوم سے  صلح کر آؤ پس اس بات پر صلح ہو گئی کہ وہ دشمنان دین کی قسم کق مدد نہ کریں اور اگر قریش اسلام لائیں تو ہی بھی مسلمان ہو جائیں پس اللہ نے  یہ آیت اتاری کہ یہ چاہتے  ہیں  کہ تم بھی کفر کرو جیسے  وہ کفر کرتے  ہیں  پھر تم اور وہ برابر ہو جائیں پس ان میں سے  کسی کو دوست نہ انو، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے  کہ تم بھی کفر کرو جیسے  وہ کفر کرتے  ہیں  پھر تم وہ برابر ہو جاؤ پس ان میں سے  کسی کو دوست نہ جانو، یہی روایت ابن مردویہ میں ہے  اور ان میں ہی آیت "الاالذین یصلون"الخ نازل ہوئی پس جو بھی ان سے  مل جاتا وہ انہی کی طرح پر امن رہتا کلام کے  الفاظ سے  زیادہ مناسبت اسی کو ہے، صحیح بخاری شریف میں صلح حدیبیہ کے  قصے  میں ہے  کہ پھر جو چاہتا ہے  کہ کفار کی جماعت میں داخل ہو جاتا ہے  اور امن پا لیتا ہے  جو چاہتا ہے  مدنی مسلمانوں سے  ملتا اور عہد نامہ کی وجہ سے  مامون ہو جاتا ہے  حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قوم ہے  کہ اس حکم کو پھر اس آیت نے  منسوخ کر دیا کہ "فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلواالمشرکین حیث وجدتموھم"الخ یعنی جب حرمت والے  مہینے  گزر جائیں تو مشرکین سے  جہاد کرو جہاں کہیں  انہیں  پاؤ۔ ایک دوسری جماعت کا ذکر ہو رہا ہے  جسے  مستثنیٰ کیا ہے  جو میدان میں لائے  جاتے  ہیں  لیکن یہ بیچارے  بے  بس ہوتے  ہیں  وہ نہ تو تم سے  لڑنا چاہتے  ہیں  نہ تمہارے  ساتھ مل کر اپنی قوم سے  لڑنا پسند کرتے  ہیں  بلکہ وہ ایسے  بیچ کے  لوگ ہیں  جو نہ تمہارے  دشمن کہے  جاسکتے  ہیں  نہ دوست۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے  کہ اس نے  ان لوگوں کو تم پر مسلط نہیں  کیا اگر وہ چاہتا تو انہیں  زور و طاقت دیتا اور ان کے  دل میں ڈال دیتا کہ وہ تم سے  لڑیں پس اگر یہ تمہاری لڑائی سے  باز رہیں  اور صلح و صفائی سے  یکسو ہو جائیں تو تمہیں  بھی ان سے  لڑنے  کی اجازت نہیں ، اسی قسم کے  لوگ تھے  جو بدر والے  دن بنو ہاشم کے  قبیلے  میں سے  مشرکین کے  ساتھ آئے  تھے  جو دل سے  اسے  ناپسند رکھتے  تھے  جیسے  حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  قتل کو منع فرما دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ انہیں  زندہ گرفتار کر لیا جائے ۔ پھر ایک اور گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے  جو بظاہر تو اوپر والوں جیسا ہے  لیکن دراصل نیت میں بہت کھوٹ ہے  یہ لوگ منافق ہیں  حضور کے  پاس آ کر اسلام ظاہر کر کے  اپنے  جان و مال مسلمانوں سے  محفوظ کرا لیتے  ہیں  ادھر کفار میں مل کر ان کے  معبود ان باطل کی پرستش کر کے  ان میں سے  ہونا ظاہر کر کے  ان سے  فائدہ اٹھاتے  رہتے  ہیں  تاکہ ان کے  ہاتھوں سے  بھی امن میں رہیں، دراصل یہ لوگ کافر ہیں، جیسے  اور جگہ ہے  اپنے  شیاطین کے  پاس تنہائی میں جا کر کہتے  ہیں  ہم تمہارے  ساتھ ہیں  یہاں بھی فرماتا ہے  کہ جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے  جاتے  ہیں  تو جی کھول کر پوری سرگرمی سے  اس میں حصہ لیتے  ہیں  جیسے  کوئی اوندھے  منہ گرا ہوا ہو۔ "فتنہ"سے  مراد یہاں شرک ہے  حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  کہ یہ لوگ بھی مکہ والے  تھے  یہاں آ کر بطور ریا کاری کے  اسلام قبول کرتے  تھے  وہاں جا کر ان کے  بت پوجتے  تھے  تو مسلمانوں کو فرمایا جاتا ہے  کہ اگر یہ انی دو غلی روش سے  باز نہ آئیں ایذا رسانی سے  ہاتھ نہ روکیں صلح نہ کریں تو انہیں  امن امان نہ دو ان سے  بھی جہاد کرو، انہیں  بھی قیدی بناؤ اور جہاں پاؤ پتل کردو، بے  شک ان پر ہم نے  تمہیں  ظاہر غلبہ اور کھلی حجت عطا فرمائی ہے ۔

۹۲

قتل مسلم، قصاص و دیت کے مسائل اور قتل خطا

ارشاد ہوتا ہے  کہ کسی مسلمان کو لائق نہیں  کہ کسی حال میں اپنے  مسلمان بھائی کا خون ناحق کرے  صحیح میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے  ہیں  کسی مسلمان کا جو اللہ کی ایک ہونے  کی اور میرے  رسول ہونے  کی شہادت دیتا ہو خون بہانا حلال نہیں  مگر تین حالتوں میں ایک تو یہ کہ اس نے  کسی کو قتل کر دیا ہو، دوسرے  شادی شدہ ہو کر زنا کیا ہو، تیسرے  دین اسلام کو چھوڑ دینے  والا جماعت سے  علیحدہ ہونے  والا۔ پھر یہ بھی یاد رہے  کہ جب ان تینوں کاموں میں سے  کؤی کام کسی سے  واقع ہو جائے  تو رعایا میں سے  کسی کو اس کے  قتل کا اختیار نہیں  البتہ امام یا نائب امام کو بہ عہدہ قضا کا حق ہے، اس کے  بعد استثناء منقطع ہے، عرب شاعروں کے  کلام میں بھی اس قسم کے  استثناء بہت سے  ملتے  ہیں، اس آیت کے  شان نزول میں ایک قول تو یہ مروی ہے  کہ عیاش بن ابی ربیعہ جو ابوجہل کا ماں کی طرف سے  بھائی تھا جس ماں کا نام اسماء بنت مخرمہ تھا اس کے  بارے  میں اتری ہے  اس نے  ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا جسے  وہ اسلام لانے  کی وجہ سے  سزائیں دے  رہا تھا یہاں تک کہ اس کی جان لے  لی، ان کا نام حارث بن زید عامری تھا، حضرت عیاش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  دل میں یہ کانٹا رہ گیا اور انہوں نے  ٹھان لی کہ موقعہ پا کر اسے  قتل کر دوں گا اللہ تعالیٰ نے  کچھ دنوں بعد قاتل کو بھی اسلام کی ہدایت دی وہ مسلمان ہو گئے  اور ہجرت بھی کر لی لیکن حضرت عیاش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم نہ تھا، فتح مکہ والے  دن میہ ان کی نظر پڑے  یہ جان کر کہ یہ اب تک کفر پر ہیں  ان پر اچانک حملہ کر دیا اور قتل کر دیا اس پر یہ آیت اتری دوسرا قول یہ ہے  کہ یہ آیت حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے  جبکہ انہوں نے  ایک شخص کافر پر حملہ کیا تلوار سونتی ہی تھی تو اس نے  کلمہ پڑھ لیا لیکن ان کی تلوار چل گئی اور اسے  قتل کر ڈالا، جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے  یہ واقعہ بیان ہوا تو حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  اپنا یہ عذر بیان کیا کہ اس نے  صرف جان بچانے  کی غرض سے  یہ کلمہ پڑھا تھا، آپ ناراض ہو کر فرمانے  لگے  کیا تم نے  اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ یہ واقعہ صحیح حدیث میں بھی ہے  لیکن وہاں نام دوسرے  صحابی کا ہے ، پھر قتل خطا کا ذکر ہو رہا ہے  کہ اس میں دو چیزیں واجب ہیں  ایک تو غلام آزاد کرنا دوسرے  دیت دینا، اس غلام کے  لئے  بھی شرط ہے  کہ وہ ایماندار ہو، کافر کو آزاد کرنا کافی نہ ہو گا چھوٹا نابالغ بچہ بھی کافی نہ ہو گا جب تک کہ وہ اپنے  ارادے  سے  ایمان کا قصد کرنے  والا اور اتنی عمر کا نہ ہو مذہب یہ ہے  کہ مسلمان گردن کا آزاد کرنا ہے  اگر یہ مسلمان ہو تو میں اسے  آزاد کر دوں، آپ نے  اس لونڈی سے  پوچھا کیا تو گواہی دیتی ہے  کہ اللہ کے  سوا کوئی معبود نہیں ؟ اس نے  کہا ہاں، آپ نے  فرمایا اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے  کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ اس نے  کہا ہاں فرمایا کیا مرنے  کے  بعد جی اٹھنے  کی بھی تو قائل ہے ؟ اس نے  کہا ہاں، آپ نے  فرمایا اسے  آزاد کر دو اس نے  اسناد صحیح ہے  اور صحابی کون تھے ؟ اس کا مخفی رہنا سند میں مضر نہیں، یہ روایت حدیث کی اور بہت سی کتابوں میں اس طرح ہے  کہ آپ نے  اس سے  پوچھا اللہ کہاں ہے ؟ اس نے  کہا آسمانوں میں دریافت کیا میں کون ہوں ؟ جواب دیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں  آپ نے  فرمایا سے  آزاد کر دو۔ یہ ایماندار ہے  پس ایک تو گردن آزاد کرنا واجب ہے  دوسرے  خوں بہا دینا جو مقتول کے  گھر والوں کو سونپ دیا جائے  گا یہ ان کے  مقتول کا عوض ہے  یہ دیت سو اونٹ ہے  پانچ سو قسموں کے  بیس تو دوسری سال کی عمر کی اونٹنیاں اور بیس اسی عمر کے  اونٹ اور بیس تیسرے  سال میں لگی ہوئی اونٹنیاں اور بیس پانچویں سال میں لگی ہوئی اور بیس چوتھے  سال میں لگی ہوئی یہی فیصلہ قتل خطا کے  خون بہا کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  کیا ہے  ملاحظہ ہو سنن و مسند احمد۔ یہ حدیث یہ روایت حضرت عبد اللہ موقوف بھی مروی ہے، حضرت علی رضی  اللہ تعالیٰ عنہ اور ایک جماعت سے  بھی یہی منقول ہے  اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ دیت چار چوتھائیوں میں بٹی ہوئی ہے  یہ خون بہا قاتل کے  عاقلہ اور اس کے  عصبہ یعنی وارثوں کے  بعد کے  قریبی رشتہ داروں پر ہے  اس کے  اپنے  مال پر نہیں  امام شافعی فرماتے  ہیں  میرے  خیال میں اس امر میں کوئی بھی مخالف نہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  دیت کا فیصلہ انہی لوگوں پر کیا ہے  اور یہ حدیث خاصہ میں کثرت سے  مذکور ہے  امام صاحب جن احادیث کی طرف اشارہ کرتے  ہیں  وہ بہت سی ہیں، بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑیں ایک نے  دوسرے  کو پتھر مارا وہ حاملہ تھی بچہ بھی ضائع ہو گیا اور وہ بھی مر گئی قصہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے  پاس تو آپ نے  یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بچہ کے  عوض تو ایک لونڈی یا غلام دے  اور عورت مقتولہ کے  بدلے  دیت قاتلہ عورت کے  حقیقی وارثوں کے  بعد کے  رشتے  داروں کے  ذمے  ہے، اس سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قتل عمد خطا سے  ہو وہ بھی حکم میں خطاء محض کے  ہے ۔ یعنی دیت کے  اعتبار سے  ہاں اس میں تقسیم ثلث پر ہو گی تین حصے  ہونگے  کیونکہ اس میں شباہت عمد یعنی بالقصد بھی ہے، صحیح بخاری شریف میں ہے  بنو جذیمہ کی جنگ کے  لئے  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور نے  ایک لشکر پر سردار بنا کر بھیجا انہوں نے  جا کر انہیں  دعوت اسلام دی انہوں نے  دعوت تو قبول کر لی لیکن بوجہ لا علمی بجائے  اسلمنا یعنی ہم مسلمان ہوئے  کے  "صبانا "کہا یعنی ہم بے  دین ہوئے ، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  انہیں  قتل کرنا شروع کر دیا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے  ہاتھ اٹھا کر جناب باری میں عرض کی یا اللہ خالد کے  اس فعل میں اپنی بیزاری اور بیزاری اور برات تیرے  سامنے  ظاہر کرتا ہوں، پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر انہیں  بھیجا کہ جاؤ ان کے  مقتولوں کی دیت چکا،ؤ اور جو ان کا مالی نقصان ہوا ہو اسے  بھی کوڑی کوڑی چکا،ؤ، اس سے  ثابت ہوا کہ امام یا نائب امام کی خطا کا بوجھ بیت المال پر ہو گا۔ پھر فرمایا ہے  کہ خوں بہا جو واجب ہے  اگر اولیاء مقتول از خود اس سے  دست بردار ہو جائیں تو انہیں  اختیار ہے  وہ بطور صدقہ کے  اسے  معاف کر سکتے  ہیں ۔ پھر فرمان ہے  کہ اگر مقتول مسلمان ہو لیکن اس کے  اولیاء حربی کافر ہوں تو قاتل پر دیت نہیں، قاتل پر اس صورت میں صرف آزادگی گردن ہے  اور اگر اس کے  ولی وارث اس قوم میں سے  ہوں جن سے  تمہاری صلح اور عہد و پیمان ہے  تو دیت دینی پڑے  گی اگر مقتول مومن تھا تو کامل خوں بہا اور اگر مقتول کافر تھا تو بعض کے  نزدیک تو پوری دیت ہے  بعض کے  نزدیک آدھی بعض کے  نزدیک تہائی، تفصیل کتب احکام میں ملاحظہ ہو اور قاتل پر مومن بردے  کو آزاد کرنا بھی لازم ہے  اگر کسی کو اس کی طاقت بوجہ مفلسی کے  نہ ہو تو اس کے  ذمے  دو مہینے  کے  روزے  ہیں  جو لگاتار پے  درپے  رکھنے  ہوں گے  اگر کسی شرعی عذر مثلاً بیاری یا حیض یا نفاس کے  بغیر کوئی روزہ بیچ میں سے  چھوڑ دیا تو پھر نئے  سرے  سے  روزے  شروع کرنے  پڑیں گے، سفر کے  بارے  میں دو قول ہیں  ایک تو  یہ کہ یہ بھی شرعی عذر ہے  دوسرے  یہ کہ یہ عذر نہیں ۔ پھر فرماتا ہے  قتل خطا کجی توبہ کی یہ صورت یہ ہے  کہ غلام آزاد نہیں  کر سکتا تو روزے  رکھ لے  اور جسے  روزوں کی بھی طاقت نہ ہو تو  وہ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے  یا نہیں ؟ تو ایک قول تو یہ ہے  کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دے  جیسے  کہ ظہار کے  کفارے  میں ہے، وہاں صاف بیان فرما دیا یہاں اس لئے  بیان نہیں  کیا گیا کہ یہ ڈرانے  اور خوف دلانے  کا مقام ہے  آسانی کی صورت اگر بیان کر دی جاتی تو ہیبت وہظمت اتنی باقی نہ رہتی، دوسرا قول یہ ہے  کہ روزے  کے  نیچے  کچھ نہیں  اگر ہوتا تو بیان کے  ساتھ ہی بیان کر دیا جاتا، حاجب کخ وقت سے  بیان کو موخر کرنا ٹھیک نہیں  (یہ بظاہر قول ثانی ہی صحیح معلوم ہوتا ہے  واللہ اعلم۔ مترجم) اللہ علیم و حکیم ہے، اس کی تفسیر کئی مرتبہ گزر چکی ہے ۔ 

قتل عمداً اور قتل مسلم

قتل خطا کے  بعد اب قتل عمداً کا بیان ہو رہا ہے، اس کی سختی برائی اور انتہائی تاکید والی ڈراؤنی وعید فرمائی جا رہی ہے  یہ وہ گناہ جسے  اللہ تعالیٰ نے  شرک کے  ساتھ ملا دیا ہے  فرماتا ہے  والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر ولا یقنتلون النفس حرم اللہ الا بالحق الخ، یعنی مسلمان بندے  وہ ہیں  جو اللہ کے  ساتھ کسی اور کو معبود ٹھہرا کر نہیں  پکارتے  اور نہ وہ کسی شخص کو ناحق قتل کرتے  ہیں، دوسری جگہ فرمان ہے  قل تعالوا اتل ماحرم ربکم علیکم الخ، یہاں بھی اللہ کے  حرام کئے  ہوئے  کاموں کا ذکر کرتے  ہیں  شرک کا اور قتل کا ذکر فرمایا ہے  اور بھی اس مضمون کی آیتیں بہت سی ہیں  اور حدیث بھی اس باب میں بہت سی منقول ہوئی ہیں، بخاری مسلم میں ہے  کہ سب سے  پہلے  خون کا فیصلہ قیامت کے  دن ہو گا، ابوداؤد میں ہے  ایماندار نیکیوں اور بھلائیوں میں بڑھتا رہتا ہے  جب تک کہ خون ناحق نہ کرے  اگر ایسا کر لیا تو تباہ ہو جاتا ہو جاتا ہے، دوسری حدیث میں ہے  ساری دنیا کا زوال اللہ کے  نزدیک ایک مسلما کے  قتل سے  کم درجے  کا ہے  اور حدیث میں ہے  اگر تمام روئے  زمین کے  اور آسمان کے  لوگ کسی ایک مسلمان کے  قتل میں شریک ہوں تو اللہ سب کے  اوندھے  منہ جہنم میں ڈال دے، اور حدیث میں ہے  جس شخص نے  کسی مسلمان کے  قتل میں آدھے  کلمے  سے  بھی اعانت کی وہ قیامت کے  دن اللہ کے  سامنے  اس حالت میں آئے  گا اس کی پیشانی میں لکھا ہو گا کہ یہ شخص اللہ کی رحمت سے  محروم ہے، حضرت ابن عباس کا تو قول ہے  کہ جس نے  مومن کو قصداً قتل کیا اس کی توبہ قبول ہی نہیں، اہل کوفہ جب اس مسئلہ میں اختلاف کرتے  ہیں  تو ابن جیبر ابن عباس کے  پاس آ کر دریافت کرتے  ہیں  آپ فرماتے  ہیں  یہ آخری آیت ہے  جسے  کسی آیت نے  منسوخ نہیں  کیا، اور آپ فرماتے  ہیں  کہ دوسری آیت والذین لایدعون جس میں تو یہ ذکر ہے  کہ وہ اہل شرک کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے، پس جبکہ کسی شخص نے  اسلام کی حالت میں کسی مسلمان کو غیر شرعی وجہ سے  قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے  اور اس کی توبہ قبول نہیں  ہو گی، حضرت مجاہد سے  جب یہ قول عباس بیان ہوا تو فرمانے  لگے  مگر جو نادم ہو، سالم بن ابولجعد فرماتے  ہیں، حضرت ابن عباس جب نابینا ہو گئے  تھے  ایک مرتبہ ہم ان کے  پاس بیٹھے  ہوئے  تھے  جو ایک شخص آیا اور آپ کو آواز دذے  کر پوچھا کہ اس کے  بارے  میں آپ کیا فرماتے  ہیں  جس نے  کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا آپ نے  فرمایا اس کی سزا جہنم ہے  جس میں وہ ہمیشہ رہے  گا اللہ کا اس پر غضب ہے  اس پر اللہ کی لعنت ہے  اور اس کے  لئے  عذاب عظیم تیار ہے، اس نے  پھر پوچھا اگر وہ توبہ کرے  نیک عمل کرے  اور ہدایت پر جم جائے  تو؟ فرمانے  لگے  اس کی ماں اسے  روئے  اسے  توبہ اور ہدایت کہاں ؟ اس کی قسم جس کے  ساتھ میں میرا نفس ہے  میں نے  تمہارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے  بنا ہے  اس کی ماں اسے  روئے  جس نے  مومن کو جان بوجھ مار ڈالا ہے  وہ قیامت کے  دن اسے  دائیں یا بائیں ہاتھ سے  تھامے  ہوئے  رحمان کے  عرش کے  سامنے  آئے  گا اس کی رگوں سے  خون بہہ رہا ہو گا اور اللہ سے  کہے  گا کہ اے  اللہ اس سے  پوچھ کہ اس نے  مجھے  کیوں قتل کیا؟ اس اللہ عظیم کی قسم جس کے  ہاتھ میں عبد اللہ کی جان ہے  کہ اس آیت کے  نازل ہونے  کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات تک اسے  منسوخ کرنے  والی کوئی آیت نہیں  اتری، اور روایت میں اتنا اور بھی ہے  کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  بعد کوئی وحی اترے  گی حضرت زید بن ثابت، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن، عبید بن عمیر، حسن، قتادہ، ضحاک بھی حضرت بن عباس کے  خیال کے  ساتھ ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ مقتول اپنے  قاتل کو پکڑ کر قیامت کے  دن اللہ کے  سامنے  لائے  گا دوسرے  ہاتھ سے  اپنا سر اٹھائے  ہوئے  ہو گا اور کہے  گا میرے  رب اس سے  پوچھ کہ اس نے  مجھے  کیوں قتل کیا؟ قاتل کہے  گا پروردگار اس لئے  کہ تیری عزت ہو اللہ فرمائے  گا پس یہ میری راہ میں ہے ۔ دوسرا مقتول بھی اپنے  قاتل کو پکڑے  ہوئے  لائے  گا اور یہی کہے  گا، قاتل جواباً کہے  گا اس لئے  کہ فلاں کی عزت ہو اللہ فرمائے  گا قاتل کا گناہ اس نے  اپنے  سر لے  لیا پھر اسے  آگ میں جھونک دیا جائے  گا جس گڑھے  میں ستر سال تک تو نیچے  چلا جائے  گا۔ مسند احمد میں ہے  ممکن ہے  اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے، لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دو سرا وہ جو کسی مومن کا قصداً قاتل بنا۔ ابن مردویہ میں بھی ایس ہی حدیث ہے  اور وہ بالکل غریب ہے، محفوظ وہ حدیث ہے  جو بحوالہ مسند بیان ہوئی۔ ابن مردویہ میں اور حدیث ہے  کہ جنن بوجھ کر ایماندار کو مار ڈالنے  کافر ہے ۔ یہ حدیث منکر ہے  اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے ۔ حمید کہتے  ہیں  میرے  پاس ابوالعالیہ آئے  میرے  دوست بھی اس وقت میرے  پاس تھے  ہم سے  کہنے  لگے  تم دونوں کم عمر اور زیادہ یادداشت والے  ہو آؤ میرے  ساتھ بشر بن عاصم کے  پاس چلو جب وہاں پہنچے  تو بشر سے  فرمایا انہیں  بھی وہ حدیث سنا دو انہوں نے  سنانی شروع کی کہ عتبہ بن مالک لیثی نے  کہا رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا اس نے  ایک قوم پر چھاپہ مارا وہ لوگ بھاگ کھڑے  ہوئے  ان کے  ساتھ ایک شخص بھاگا جا رہا تھا اس کے  پیچھے  ایک لشکری بھاگا جب اس کے  قریب ننگی تلوار لئے  ہوئے  پہنچ گیا تو اس نے  کہا میں تو مسلمان ہوں ۔ اس نے  کچھ خیال نہ کیا تلوار چلا دی۔ اس واقعہ کی خبر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے  اور سخت سست کہا یہ خبر اس شخص کو بھی پہنچی۔ ایک روز رسول ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ پڑھ رہے  تھے  کہ اس قاتل نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کی اس نے  تو یہ بات محض قتل سے  بچنے  کے  لئے  کہی تھی آپ نے  اس کی طرف سے  نگاہ پھیر لی اور خطبہ ساتے  رہے ۔ اس نے  دوبارہ کہا آپ نے  پھر منہ موڑ لیا، اس سے  صبر نہ ہو سکا، تیسری باری کہا تو آپ نے  اس کی طرف توجہ کی اور ناراضگی آپ کے  چہرے  سے  ٹپک رہی تھی، فرمانے  لگے  مومن کے  قاتل کی کوئی بھی معذرت قبول کرنے  سے  اللہ تعالیٰ انکار کرتے  ہیں  تین بار یہی فرمایا یہ روایت نسائی میں بھی ہے  پس ایک مذہب تو یہ ہوا کہ قاتل مومن کی توبہ نہیں  دوسرا مذہب یہ کے  کہ توبہ اس کے  اور اللہ کے  درمیان ہے  جمہور سلف و خلف کی یہی مذہب ہے  کہ اگر اس نے  توبہ کی اللہ کی طرف رجوع کیا خشوع خضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے  لگ گیا تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے  گا اور مقتول کو اپنے  پاس سے  عوض دے  کر اسے  راضی کر لے  گا اللہ فرماتا ہے  الا من تاب الخ، یہ خبر اور خبر میں نسخ کا احتمال نہیں  اور اس آیت کو مشرکوں کے  بارے  میں اور اس آیت کو مومنوں کے  بارے  میں خاص کرنا بظاہر خلاف قیاس ہے  اور کسی صاف دلیل کا محتاج ہے  واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے  قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم الخ، اے  میرے  وہ بندو جنہوں نے  اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے  تم میری رحمت سے  مایوس نہ ہو۔ یہ آیت اپنے  عموم کے  اعتبار سے  ہر گناہ پر محیط ہے  خواہ کفرو شرک ہو خواہ شک و نفاق ہو خواہ قتل وفسق ہو خواہ کچھ ہی ہو، جو اللہ کی طرف رجوع کرے  اللہ اس کی طرف مائل ہو گا جو توبہ کرے  اللہ اسے  معاف فرمائے  گا۔ فرماتا ہے  ان اللّٰہ لایغفر ان یشرک بہ الخ، اللہ تعالیٰ شرک کو بخشتا نہیں  اس کے  سوا کے  تمام گناہ جسے  چاہے  بخش دے ۔ اللہ اس کی کریمی کے  صدقے  جائیے  کہ اس نے  اسی سورت میں اس آیت سے  پہلے  بھی جس کی تفسیر اب ہم کر رہے  ہیں  اپنی عام بخشش کی آیت بیان فرمائی اور پھر اس آیت کے  بعد ہی اسے  دوہرا دیا اسی طرح اپنی عام بخشش کا اعلان پھر کیا تا کہ بندوں کو اس کی کامل فطرت سے  کامل امید بند جائے  واللہ اعلم۔ بخاری مسلم کی وہ حدیث بھی اس موقعہ پر یاد رکھنے  کے  قابل ہے  جس میں ہے  کہ ایک نبی اسرائیلی نے  ایک سو قتل کئے  تھے ۔ پھر ایک عالم سے  پوچھتا ہے  کہ کیا میر توبہ قبول ہو سکتی ہے  وہ جواب دیتا ہے  کہ تجھ میں اور تیری توبہ میں کون ہے  جو حائل ہے ؟ جاؤ اس بدبستی کو چھوڑ کر نیکوں کے  شہر میں بسو چنانچہ یہ اس نے  ہجرت کی مگر راستے  میں ہی فوت ہو گیا اور رحمت کے  فرشتے  اسے  لے  گئے  یہ حدیث پوری پوری کئی مرتبہ ہو چکی ہے  جبکہ بنی اسرائیل میں یہ ہے  تو اس اُمت مرحومہ کے  لئے  قاتل کی توبہ کے  لئے  دروازے  بند کیوں ہوں ؟ ہم پر تو پہلے  بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے  اللہ نے  ہمیں آزاد کر دیا اور رحمۃ للعالمین جیسے  سردار انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا سیدھا صاف اور واضح ہے، لیکن یہاں جو سزا قاتل کی بیان فرمائی ہے  اس سے  مرادیہ ہے  کہ اس کی سزا یہ ہے  کہ اسے  سزا ضرور دی جائے ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ اور سلف کی ایک جماعت بھی یہی فرماتی ہے، بلکہ اس معنی کی ایک حدیث بھی ابن مردویہ میں ہے  لیکن سنداً وہ صحیح نہیں  اور اسی طرح ہر وعید کا مطلب یہی ہے  کہ اگر کوئی عمل صالح وغیرہ اس کے  مقابل میں نہیں  تو اس بدی کا بدلہ وہ ہے  جو وعید میں واضح بیان ہوا ہے  اور یہی طریقہ وعید کے  بارے  میں ہمارے  نزدیک نہایت درست اور احتیاط والا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب، اور قاتل کا مقدر جہنم بن گیا۔ چاہے  اس کی وجہ توبہ کی عدم قبولیت کہا جائے  یا اس کے  متبادل کسی نیک عمل کا مفقود ہونا خواہ بقول جمہور دوسرا نیک عمل نجات دہندہ نہ ہونے  کی وجہ سے  ہو۔ وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے  گا بلکہ یہاں خلود سے  مراد بہت دیر تک رہنا ہے  جیسا کہ متواتر احادیث سے  ثابت ہے  کہ جہنم میں سے  وہ بھی نکل آئیں گے  جن کے  دل میں رائی کے  چھوٹے  سے  چھوٹے  دانے  برابر بھی ایمان ہو گا۔ اوپر جو ایک حدیث بیان ہوئی ہے  کہ ممکن ہے  اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بجز کفر اور قتل مومن کے  معاف فرما دے ۔ اس میں "عسی" ترجی کا مسئلہ ہے  ان دونوں صورتوں میں ترجی یعنی اُمید گو اٹھ جائے  پھر بھی وقوع پذیر ہوتا یعنی ایسا ہونا یعنی ایسا ہونا ان دونوں میں سے  ایک بھی ممکن نہیں  اور وہ قتل ہے، کیونکہ شرک وکفر کا معاف نہ ہونا تو الفاظ قرآن سے  ثابت ہو چکا اور جو حدیثیں گزریں جن میں قاتل کو مقتول لے  کر آئے  گا وہ بالکل ٹھیک ہیں  چونکہ اس میں انسانی حق ہے  وہ توبہ سے  ٹل نہیں  جاتا ۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے  کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے  اس میں جس طرح قتل ہے  اسی طرح چوری ہے  غضب ہے  تہمت ہے  اور دوسرے  حقوق انسان ہیں  جن کا توبہ سے  معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے  بلکہ توبہ کے  لئے  صحت کی شرط ہے  کہ ان حقوق کو ادا کرے ۔ اور جب ادائیگی محال ہے  تو قیامت کے  روز اس کا مطالبہ ضروری ہے ۔ لیکن مطالبہ سے  سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں ۔ ممکن ہے  کہ قاتل کے  اور سب اعمال صالحہ مقتول کو جے  دئے  جائیں یا بعض دے  دیے  جائیں اور اس کے  پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے  اور یہ بھی ممکن ہے  کہ قاتل کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے  فضل و کرم سے  اپنے  پاس سے  اور اپنی طرف سے  حورو قصور اور بلند درجات جنت دے  کر پورا کر دے  اور اس کے  عوض وہ اپنے  قاتل سے  درگزر کرنے  پر خوش ہو جائے  اور قاتل کو اللہ تعالیٰ بخش دے  وغیرہ۔ واللہ اعلم۔ جان بوجھ کر مارا ڈالنے  والے  کے  لئے  کچھ تو دنیوی احکام ہیں  اور کچھ اخروی۔ دنیا میں تو اللہ نے  مقتول کے  ولیوں کو اس پر غلبہ دیا ہے  فرماتا ہے  ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا الخ، جو ظلم سے  قتل کیا جائے  ہم نے  اس کے  پیچھے  والوں کو غلبہ دیا ہے  کہ انہیں  اختیار ہے  کہ یا تو وہ بدلہ لیں یعنی قاتل کو بھی قتل کرائیں یا معاف کر دیں یا دیت یعنی خون بہا یعنی جرمانہ وصول کر لیں اور اس کے  جرمانہ میں سختی ہے  جو تین قسموں پر مشتمل ہے ے  تیس تو چوتھے  سال کی عمر میں لگے  ہوئے  اونٹ، تیس پانچویں سال میں لگے  ہوئے، چالیس حاملہ اونٹنیاں جیسے  کہ کتب احکام میں ثابت ہیں، اس میں ائمہ نے  اختلاف کیا ہے  کہ اس پر غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے  پے  درپے  روزے  رکھے  یا کھانا کھلانا ہے  یا نہیں ؟ پس امام شافعی اور ان کے  اصحاب اور علماء کی ایک جماعت تو اس کی قائل ہے  کہ جب خطا میں یہ حکم ہے  تو عمداً میں بطور ادنیٰ یہی حکم ہونا چاہئے  اور ان پر جواباً جھوٹی غیر شرعی قسم کے  کفارے  کو پیش کیا گیا ہے  اور انہوں نے  اس کا عذر عمداً چھوڑ دی ہوئی دی نماز کو قضا قرار دیا ہے  جیسے  کہ اس پر اجماع ہے  خطا میں، امام احمد کے  اصحاب اور دوسرے  کہتے  ہیں  قتل عمداً ناقابل کفارہ ہے ۔ اس لئے  اس یعنی کفارہ نہیں  اور اسی طرح جھوٹی قسم اور ان کے  لئے  ان دونوں صورتوں میں اور عمداً چھوٹی ہوئی نماز میں فرق کرنے  کی کوئی راہ نہیں، اسلئے  کہ یہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے  پاس آئے  اور کہا کوئی ایسی حدیث بھی ہے  جو مسند احمد میں مروی ہے  کہ لوگ حضرت واثلہ بن اسقع کے  پاس آئے  اور کہا کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کمی زیادتی نہ ہو تو وہ بہت ناراض ہوئے  اور فرمانے  لگے  کیا تم قرآن لے  کر پڑھتے  ہو تو اس میں کمی زیادتی بھی کرتے  ہو؟ انہوں نے  کہا حضرت ہمارا مطلب یہ ہے  کہ خود رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے  آپ نے  جو سنی ہو کہا ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس اپنوں میں سے  ایک آدمی کو بابت حاضر ہوئے  جس نے  بوجہ قتل جے  اپنے  تئیں جہنمی بنا لیا تھا۔ تو آپ نے  فرمایا اس کی طرف سے  ایک غلام آزاد کرو اس کے  ایک ایک عضو بدلہ اس کا ایک عضو اللہ تعالیٰ جہنم سے  آزاد کر دے  گا۔

۹۴

مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل ناقابل معافی جرم ہے

ترمذی وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے  کہ بنو سلیم کا ایک شخص بکریاں چراتا ہوا صحابہ کی ایک جماعت کے  پاس سے  گزرا اور سلام کیا تو صحابہ آپس میں کہنے  لگے  یہ مسلمان تو ہے  نہیں  صرف اپنی جان بچانے  کے  لئے  سلام کرتا ہے  چنانچہ اسے  قتل کر دیا اور بکریاں لے  کر چلے  آئے، اس پر یہ آیت اتری، یہ حدیث تو صحیح ہے  لیکن بعض نے  اس میں تو صحیح ہے  لیکن بعض نے  اس میں علتیں نکالی ہیں  کہ سماک راوی کے  سوائے  اس طریقے  کا اور کوئی مخرج ہی اس کا نہیں، اور یہ کہ عکرمہ سے  اس کے  روایت کرنے  کے  بھی قائل ہے، اور یہ کہ اس آیت کے  شان نزول میں اور واقعات بھی مروی ہیں، بعض کہتے  ہیں  محکم بن جثامہ کے  بارے  میں اتری ہے  بعض کہتے  ہیں  اسامہ بن زید کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے  اور اس کے  علاوہ بھی اقوال ہیں، لیکن میرے  خیال میں یہ سب نا قابل تسلیم ہے  سماک سے  اسے  بہت سے  ائمہ کبار نے  روایت کیا ہے، عکرمہ سے  صحیح دلیل لی گئی ہے، یہی روایت دوسرے  طریق سے  حضرت ابن عباس سے  صحیح بخاری میں مروی ہے، سعید بن منصور میں یہی مروی ہے، ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں ہے  کہ ایک شخص کو اس کے  والد اور اس کی قوم نے  اپنے  اسلام کی خبر پہنچانے  کے  لئے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا، راستے  میں اسے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  بھیجے  ہوئے  ایک لشکر سے  رات کے  وقت ملاقات ہوئی اس نے  ان سے  کہا کہ میں مسلمان ہوں لیکن انہیں  یقین نہ آیا اور اسے  دشمن سمجھ کر قتل کر ڈالا ان کے  والد کو جب یہ علم ہوا تو یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے  اور واقعہ بیان کیا چنانچہ آپ نے  انہیں  ایک ہزار دینار دئے  اور دیت دی اور انہیں  عزت کے  ساتھ رخصت کیا، اس پر یہ آیت اتری، محکم بن جثامہ کا واقعہ پہ ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنا ایک چھوٹا سا لشکر اخسم کی طرف بھیجا جب یہ لشکر بطل اخسم میں پہنچا تو عامر بن اضبط اشجعی اپنی سواری پر سوار مع اسباب کے  آرہے  تھے  پاس پہنچ کر سلام کیا سب تو رک گئے  لیکن محکم بن جثامہ نے  آپس کی پرانی عداوت کی بنا پر اس پر جھپٹ کر حملہ کر دیا، انہیں  قتل کر ڈالا اور ان کا اسباب قبضہ میں کر لیا پھر ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس پہنچے  اور آپ یہ واقعہ بیان کیا اس پر یہ آیت اتری۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ عامر نے  اسلامی طریقہ کے  مطابق سلام کیا تھا لیکن جاہلیت کی پہلی عداوت کے  باعث محکم نے  اسے  تیر مار کر مار ڈالا یہ خبر پا کر عامر کے  لوگوں سے  محکم بن جثامہ نے  مصالحانہ گفتگو کی لیکن عینیہ نے  کہا نہیں  نہیں  اللہ کی قسم جب تک اس کی عورتوں پر بھی وہی مصیبت نہ آئے  جو میری عورتوں پر آئی۔ چنانچہ محکم اپنی دونوں چادریں اوڑھے  ہوئے  آئے  اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  بیٹھ گئے  اس اُمید پر کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کے  لئے  استغفارریں لیکن آپ نے  فرمایا اللہ تجھے  معاف نہ کرے  یہ یہاں سے  سخت نادم شرمسار روتے  ہوئے  اُٹھے  اپنی چادریوں سے  اپنے  آنسو پونچھتے  جاتے  تھے  سات روز بھی نہ گزرنے  پائے  تھے  انتقال کر گئے ۔ لوگوں نے  انہیں  دفن کیا لیکن زمین نے  ان کی نعش اگل دی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  جب یہ ذکر ہوا تو آپ نے  فرمایا تمہارے  اس ساتھی سے  نہایت بدتر لوگوں کو زمین سنبھال لیتی ہے  لیکن اللہ کا ارادہ ہے  کہ وہ تمہیں  مسلمان کی حرمت دکھائے  چنانچہ ان کے  لاشے  کو پہاڑ پر ڈال دیا گیا اور اُوپر سے  پتھر رکھ دئے  گئے  اور یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  مقداد سے  فرمایا جبکہ انہوں نے  قوم کفار کے  ساتھ جو مسلمان مخفی ایمان والا تھا اسے  قتل کر دیا تھا باوجودیکہ اس نے  اپنے  سلام کا اظہار کر دیا تھا کہ تم بھی مکہ میں اسی طرح ایمان چھپائے  ہوئے  تھے ۔ بزار میں یہ واقعہ پورا اس طرح مرودی وے  کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا جس میں حضرت مقداد بھی تھے  جب دشمنوں کے  پاس پہنچے  تو دیکھا کہ سب تو اِدھر اُدھر ہو گئے  ہیں  ایک شخص مالدار وہاں رہ گیا ہے  اس نے  انہیں  دیکھتے  ہی اشھد ان الا اللّٰہ الا اللّٰہ کہا۔ تاہم انہوں نے  حملہ کر دیا اور اسے  قتل کر ڈالا، ایک شخص جس نے  یہ واقعہ دیکھا تھا وہ سخت برہم ہوا اور کہنے  لگا مقداد نے  اسے  قتل کر ڈالا جس نے  کلمہ پڑھا تھا؟ میں اس کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  کروں گا، جب یہ لشکر واپس پہنچا تو اس شخص نے  یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  عرض کیا آپ حضرت مقداد کو بلوایا اور فرمایا تم نے  یہ کیا کیا؟ کل قیات کے  دن تم لا اللّٰہ الا اللّٰہ کے  سامنے  کیا جواب دو گے ؟ پس اللہ تعالیٰ نے  یہ آیت اُتاری اور آپ نے  فرمایا کہ اے  مقداد وہ شخص مسلمان تھا جس طرح تو مکہ میں اپنے  ایمان کو مخفی رکھتا تھا پھر تو نے  اس کے  اسلام ظاہر کرنے  کے  باوجود اسے  مارا؟ اس کے  بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ جس غنیمت کے  لالچ میں تم غفلت برتتے  ہو اور سلام کرنے  والوں کے  ایمان میں شک وشبہ کر کے  انہیں  قتل کر ڈالتے  ہو یاد رکھو وہ غنیمت اللہ کی طرف سے  ہے  اس کے  پاس بہت سے  غنیمتیں ہیں  جو وہ تمہیں  حلال ذرائع سے  دے  گا اور وہ تمہارے  لئے  اس مال سے  بہت بہتر ہوں گے ۔ تم بھی اپنا وہ وقت یاد کرو کہ تم بھی ایسے  ہی لاچار تھے  اپنے  ضعف اور اپنی کمزوری کی وجہ سے  ایمان ظاہر کرنے  کی جرأت نہیں  کر سکتے  تھے  قوم میں چھپے  لگے  پھرتے  تھے  آج اللہ خالق کل نے  تم پر احسان کیا تمہیں  قوت دی اور تم کھلے  بندوں اپنے  اسلام کا اظہار کر رہے  ہو، تو جو بے  اسباب اب تک دشمنوں کے  پنجے  میں پھنسے  ہوئے  ہیں  اور ایمان کا اعلان کھلے  طور پر نہیں  کر سکے  جب وہ اپنا ایمان ظاہر کریں تمہیں  تسلیم کر لینا چاہئے  اور آیت میں ہے  واذ کرو اذا نتم قلیل الخ، یاد کرو جبکہ تم کم تھے  کمزور تھے ۔ الغرض ارشاد ہوتا ہے  کہ جس طرح یہ بکری کا چرواہا اپنا ایمان چھپائے  ہوئے  تھا اسی طرح اس سے  پہلے  جبکہ بے  سرو سامانی اور قلت کی حالت میں تم مشرکوں کے  درمیان تھے  ایمان چھپائے  پھرتے  تھے، یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے  کہ تم بھی پہلے  اسلام والے  نہ تھے  اللہ نے  تم پر احسان کیا اور تمہیں  اسلام نصیب فرمایا، حضرت اسامہ نے  قسم کھائی تھی کہ اس کے  بعد بھی کسی لا الہ الا اللّٰہ کہنے  والے  کو قتل نہ کروں گا کیونکہ انہیں  بھی اس بارے  میں پوری سرزنش ہوئی تھی۔ پھر تاکیداً دوبارہ فرمایا کہ نجوبی تحقیق کر لیا کرو، پھر دھمکی دی جاتی ہے  کہ اللہ جل شانہ کو اپنے  اعمال سے  غافل نہ سمجھو، جو تم کر رہے، وہ سب کی پوری طرح خبر رکھتا ہے ۔

 

۹۵

مجاہد اور عوام میں فرق

صحیح بخاری میں ہے  کہ جب اس آیت کے  ابتدائی الفاظ اترے  کہ گھروں میں بیٹھ رہنے  والے  جہاد کرنے  والے  مومن برابر نہیں، تو آپ اسے  حضرت زید کو بلوا کر لکھوا رہے  تھے  اس وقت حضرت ابن ام مکتوم نابینا آئے  اور کہنے  لگے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں تو نابینا ہوں معذور ہوں اس پر الفاظ غیر اولی الضرر نازل ہوئے  یعنی وہ بیٹھ رہنے  والے  جو بے  عذر ہوں ان کا ذکر ہے ۔ اور روایت میں ہے  کہ حضرت زید اپنے  ساتھ قلم دوات اور شانہ لے  کر آئے  تھے  اور حدیث میں ہے  کہ ام مکتوم نے  فرمایا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد میں شامل ہوتا اس پر وہ آیت اتری اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ران حضرت زید کی ران پر تھی ان پر اس قدر بوجھ پڑا قریب تھا کہ ران ٹوٹ جائے ۔ وہ حدیث میں ہے  کہ جس وقت ان آیات کی وحی اتری اور اس کے  بعد طمانیت آپ پر نازل ہوئی میں آپ کے  پہلو میں تھا اللہ کی قسم مجھ پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ران کا ایسا بوجھ پڑا کہ میں نے  اس سے  زیادہ بوجھل چیز زندگی بھر کوئی اٹھائی پھر وحی ہٹ جانے  کے  بعد آپ نے  عظیما تک آیت لکھوائی اور میں نے  اسے  شانے  کی ہڈی پر لکھ لیا اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں  کہ ابھی تو ابن ام مکتوم کے  الفاظ ختم بھی نہ ہوئے  تھے  جو آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی، حضرت زید فرماتے  ہیں  وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے  سامنے  ہے  گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں اترے  ہوئے  الفاظ کو میں نے  ان کی جگہ پر اپنی تحریر میں بعد میں بڑھایا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  مراد بدر کی لڑائی میں جانے  والے  اور اس میں حاضر نہ ہونے  والے  ہیں، غزوہ بدر کے  موقعہ پر حضرت عبد اللہ بن جعش اور حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم آ کر حضور سے  کہنے  لگے  ہم دونوں نابینا ہیں  کیا ہمیں رخصت ہیں ؟ تو انہیں  آیت قرآنی میں رخصت دی گئی، پس مجاہدین کو جس قسم کے  بیٹھ رہنے  والوں پر فضلیت دی گئی ہے  وہ وہ ہیں  جو صحت وتندرستی والے  ہوں، پس پہلے  تو مجاہدین کو جس قسم کے  بیٹھ رہنے  والوں پر فضلیت دی گئی ہے  وہ وہ ہیں  جو صحت وتندرستی والے  ہوں، پس پہلے  تو مجاہدین کو بیٹھ رہنے  والوں پر مطلقاً فضلیت تھی لیکن اسی وحی میں جو الفاظ اترے  اس نے  ان لوگوں کو جنہیں  مباح عذر ہوں عام بیٹھ رہنے  والوں سے  مستثنیٰ کر دیا جیسے  اندھے  لنگڑے  لولے  اور بیمار، یہ مجاہدین کے  درجے  میں ہیں ۔ پھر مجاہدین کی جو فضلیت بیان ہوئی ہے  وہ ان لوگوں پر بھی ہے  جو بے  وجہ جہاد میں شامل نہ ہوئے  ہوں، جیسے  کہ ابن عباس کی تفسیر گزری اور یہ ہونا بھی چاہئے  بخاری میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا مدینہ میں ایسے  لوگ بھی ہیں  کہ تم جس جہاد کے  لئے  سفر کرو اور جس جنگل میں کوچ کرو وہ تمہارے  ساتھ اجر میں یکساں ہیں، صحابہ نے  کہا باوجود یکہ وہ مدینے  میں مقیم ہیں، آپ نے  فرمایا اس لئے  کہ انہیں  عذر نے  روک رکھا ہے  اور روایت میں ہے  کہ تم جو خرچ کرتے  ہو اس کا ثواب بھی جو تمہیں  ملتا ہے  انہیں  بھی ملتا ہے، اسی مطلب کو ایک شاعر نے  ان الفاظ میں

یارا حلین الی البیت العتیق لقد

سر تم جسو ماو سرنا نحن ارواحا

انا اقمنا علی عذروعن قدر

ومن اقام علی عذر فقدراحا

 یعنی اے  اللہ کے  گھر کے  حج کو جانے  والو! اگر تم اپنے  جسموں سمیت اس طرف چل رہے  ہو لیکن ہم بھی اپنی روحانی روش سے  اسی طرف لپکے  جا رہے  ہیں، سنو ہماری جسمانی کمزوری اور عذر نے  ہمیں روک رکھا ہے  اور ظاہر ہے  کہ عذر سے  رک جانے  والا کچھ جانے  والے  سے  کم نہیں  پھر فرمایا ہے  ہر ایک سے  اللہ تعالیٰ کا وعدہ جنت کا اور بہت بڑے  اجر کا ہے، اس سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں  بلکہ فرض کفایہ ہے، پھر ارشاد ہے، مجاہدین کو غیر مجاہدین پر بڑی فضلیت ہے ۔ پھر ان کے  بلند درجات ان کے  گناہوں کی معافی اور ان پر جو برکت و رحمت ہے  اس کا بیان فرمایا اور اپنی عام بخشش اور عام رحم کی خبر دی۔ بخاری مسلم میں ہے  جنت میں سو درجے  ہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ نے  راہ کے  مجاہدین کے  لئے  تیار کیا ہے  ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے  جتنا آسمان و زمین میں، اور حدیث میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے  اسے  جنت کا درجہ ملتا ہے  ایک شخص نے  پوچھا درجہ کیا ہے ؟ آپ نے  فرمایا وہ تمہارے  یہاں کے  گھروں کے  بالا خانوں جتنا نہیں  بلکہ دو درجوں میں سو سال کا فاصلہ ہے ۔

۹۷

بے معنی عذر مسترد ہوں گے ہجرت اور نیت

محمد بن عبدالرحمن ابوالا سود فرماتے  ہیں  اہل مدینہ سے  جنگ کرنے  کے  لئے  جو لشکر تیار کیا گیا اس میں میرا نام بھی تھا۔ میں حضرت ابن عباس کے  مولیٰ حضرت عکرمہ سے  ملا اور اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے  مجھے  اس میں شمولیت کرنے  سے  بہت سختی سے  روکا۔ اور کہا سنو حضرت ابن عباس سے  میں نے  سنا ہے  کہ بعض مسلمان لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  زمانے  میں مشرکوں کے  ساتھ تھے  اور ان کی تعداد بڑھاتے  تھے  بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ ان میں سے  کوئی تیر سے  ہلاک کر دیا جاتا یا مسلمانوں کی تلواروں سے  قل کر دیا جاتا، انہی کے  بارے  میں یہ آیت اتری ہے  یعنی موت کے  وقت ان کا اپنی بے  طاقتی کا حیلہ اللہ تعالیٰ کے  ہاں قبول نہیں  ہوتا اور روایت میں ہے  کہ ایسے  لوگ جو اپنے  ایمان کو مخفی رکھتے  تھے  جب وہ بدر کی لڑائی میں کافروں کے  ساتھ آ گئے  تو مسلمانوں کے  ہاتھوں ان میں سے  بھی بعض مارے  گئے  جس پر مسلمان غمگین ہوئے  کہ افسوس یہ تو ہمارے  ہی بھائی تھے، اور ہمارے  ہی ہاتھوں مارے  گئے  ان کے  لئے  استغفار کرنے  لگے  اس اس پر یہ آیت اتری۔ پس باقی مادہ مسلمانوں کی طرف یہ آیت لکھ یکہ ان کا کوئی عذر نہ تھا کہا یہ نکلے  اور ان سے  مشرکین ملے  اور انہوں نے  تقیہ کیا پس یہ آیت اتری ومن الناس من یقول امنا باللّٰہ الخ، حضرت عکرمہ فرماتے  ہیں  یہ آیت ان لوگوں کے  بارے  میں اتری ہے  جو اسلام کا کلمہ پڑھتے  تھے  اور تھے  مکے  میں ہی ان میں علی ابن امیہ بن خلف اور ابوقیس بن ولید بن مغیرہ اور ابو منصور بن حجاج اور حاث بن زمعہ تھے  ضحاک کہتے  ہی یہ ان منافقوں کے  بارے  میں اتری ہے  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت کے  بعد مکے  میں رہ گئے  پھر بدر کی لڑائی میں مشرکوں کے  ساتھ آئے  ان میں سے  بعض میدان جنگ میں کام بھی آ گئے ۔ مقصد یہ ہے  کہ آیت کا حکم عام ہے  ہر اس شخص کا جو ہجرت پر قادر ہو پھر بھی مشرکوں میں پڑا رہے  اور دین پر مضبوط نہ رہے  اوہ اللہ تعالیٰ کے  نزدیک ظالم ہے  اور اس آیت کی رو سے  اور مسلمانوں کے  اجماع سے  رہ حرام کام کا مرتکب ہے  اس آیت میں ہجرت سے  گریز کرنے  کو ظلم کہا گیا ہے، ایسے  لوگوں سے  ان کے  نزع کے  عالم میں فرشتے  کہتے  ہیں  کہ تم یہاں کیوں ٹھہرے  رہے ؟ کیوں ہجرت نہ کی؟ یہ جواب دیتے  ہیں  کہ ہم اپنے  شہر سے  دوسرے  شہر کہیں  نہیں  جاسکتے  تھے  خ، جس کے  جواب میں فرشتے  کہتے  ہیں  کیا اللہ تعالیٰ کی زمین میں کشادگی نہ تھی؟ ابوداؤد میں ہے  جو شخص مشرکین میں مل جا رہے  انہی کے  ساتھ رہے  سہے  وہ بھی انہی جیسا ہے ۔ سدی فرماتے  ہیں  جبکہ حضرت عباس عقیل اور نوفل گرفتار کئے  گئے  تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا عباس تم اپنا فدیہ بھی دو اور پنے  بھتیجے  کا بھی، حضرت عباس نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا ہم آپ کے  قبلے  کی طرف نمازیں نہیں  پڑھتے  تھے ؟ کیا ہم کلمہ شہادت ادا نہیں  کرتے  تھے ؟ آپ نے  فرمایا عباس تم نے  بحث تو چھیڑی لیکن اس میں تم ہار جاؤ گے  سنو اللہ جل شانہ فرماتا ہے  پھر آپ نے  یہی تلاوت فرمائی یعنی تم نے  ہجرت کیوں نہ کی؟ پھر جن لوگوں کو ہجرت کے  چھوڑ دینے  پر ملامت نہ ہو گی ان کا ذکر فرماتا ہے  کہ جو لوگ مشرکین کے  ہاتھوں سے  نہ چھوٹ سکیں اور اگر کبھی چھوٹ بھی جائیں تو راستے  کا علم انہیں  نہیں  ان سے  اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے  گا، "عسی" کلمہ اللہ کے  کلام میں وجوب اور یقین کے  لئے  ہوتا ہے ۔ اللہ درگزر کرنے  والا اور بہت ہی معافی دینے  والا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  عشاء کی نماز میں سمع اللہ لمن حمد کہنے  کے  بعد سجدے  میں جانے  سے  پہلے  یہ دعا مانگی اے  اللہ عیاش ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو ولید بن ولید کو اور تمام بے  بس نا طاقت مسلمانوں کو کفار کے  پنجے  سے  رہائی دے  اے  اللہ اپنا سخت عذاب قبیلہ مضر پر ڈال اے  اللہ ان پر ایسی قحط سالی نازل فرما جیسی حضرت یوسف کے  زمانے  میں آئی تھی۔ ابن ابی حاتم میں حضرت ابوہریرہ سے  مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  سلام یپھرنے  کے  بعد قبلے  کی طرف منہ کئے  ہوئے  ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اے  اللہ ولید بن ولید کو عشا بن ابو ربیعہ کو سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بے  طاقت مسلمانوں کو اور جو بے  حیلے  کی طاقت رکھتے  ہیں  نہ راہ پانے  کی کافروں کے  ہاتھوں سے  نجات دے ۔ ابن جریر میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز کے  بعد یہ دعا مانگا کرتے  تھے ۔ اس حدیث کے  شواہد صحیح میں بھی اس سند کے  سوا اور سندوں میں بھی ہیں  کہ جیسے  کہ پہلے  گزرا۔ حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  میں اور میری والدہ ان ضعیف عورتوں اور بچوں میں تھے  جن کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ ہمیں اللہ نے  معذور رکھا۔ ہجرت کی ترغیب دیتے  ہوئے  اور مشرکوں سے  الگ ہونے  کی ہدایات کرتے  ہوئے  فرماتا ہے  کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے  والا ہراساں نہ ہو وہ جہاں جائے  گا اللہ تعالیٰ اس کے  لئے  اسباب پناہ تیار کر دے  گا اور وہ بہ آرام وہاں اقامت کر سکے  گا مراغم کے  ایک معنی یایک جگہ سے  دوسری جگہ جانے  کے  بھی ہیں، مجاہد فرماتے  ہیں  وہ اپنے  دکھ سے  بچاؤ کی بہت سی صورتیں پالے  گا، امن کے  بہت سے  اسباب اسے  مل جائیں گے، دشمنوں کے  شر سے  بچ جائے  گا اور وہ روزی بھی پائے  گا گمراہی کی جگہ ہدایت اسے  ملے  گی اس کی فقیری تونگری سے  بدل جائے  ارشاد ہوتا ہے  جو شخص بہ نیت ہجرت اپنے  گھر سے  نکلا پھر ہجرت گاہ پہنچنے  سے  پہلے  ہی راستے  میں اسے  موت آ گئی اسے  بھی ہجرت اللہ کی طرف اور اس کے  رسول کی طرف ہو اس کی ہجرت اللہ کی رضامندی اور رسول کی خوشنودی کا باعث ہو گی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے  کے  لئے  ہو یا کسی عورت سے  نکاح کرنے  کے  لئے  ہو تو اسے  اصل ہجرت کا ثواب نہ ملے  گا بلکہ اس کی ہجرت اس کے  بارے  میں ہے  جس نے  ننانوے  قتل کئے  تھے  پھر ایک عابد کو قتل کر کے  سو پورے  کئے  پھر ایک عالم سے  پوچھا کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ اس نے  کہا تیری توبہ کے  اور تیرے  درمیان کوئی چیز حائل نہیں  تو اپنی بستی سے  ہجرت کر کے  فلاں شہر چلا جا جہاں اللہ کے  عابد بندے  رہتے  ہیں  چنانچہ یہ ہجرت کر کے  اس طرف چلا راستہ میں ہی تھا جو موت آ گئی۔ رحمت اور عذاب کے  فرشتوں میں اس کے  بارے  میں اختلاف ہوا بحث یہ تھی کہ یہ شخص توبہ کر کے  ہجرت مگر چلا تو سہی یہ وہاں پہنچا تو نہیں  پھرا نہیں  حکم کیا گیا کہ وہ اس طرف کی اور اس طرف کی زمین ناپیں جس بستی سے  یہ شخص قریب ہو اس کے  رہنے  والوں میں اسے  ملا دیا جائے  پھر زمین کو اللہ تعالیٰ نے  حکم دیا کہ بری بستی کی جانب سے  دور ہو جا اور نیک بستی والوں کی طرف قریب ہو جا، جب زمین ناپی گئی تو توحید والوں کی بستی سے  ایک بالشت برابر قریب نکلی اور اسے  رحمت کے  فرشتے  لے  گئے ۔ ایک روایت میں ہے  کہ موت کے  وقت یہ اپنے  سینے  کے  بل نیک لوگوں کی بستی کی طرف گھسیٹتا ہوا گیا۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے  جو شخص اپنے  گھر سے  اللہ کی راہ میں ہجرت کی نیت سے  نکلا پھر آپ نے  اپنی تینوں انگلیوں یعنی کلمہ کی انگلی بیچ کی انگلی اور انگوٹھے  کو ملا کر کہا۔ پھر فرمایا کہاں ہیں  مجاہد؟ پھر وہ اپنی سواری پر سے  گر پڑا یا اسے  کسی جانور نے  کاٹ لیا یا اپنی موت مر گیا تو اس کا ہجرت کا ثواب اللہ کے  ذمے  ثابت ہو گیا (راوی کہتے  ہیں  اپنی موت مرنے  کے  لئے  جو کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  استعمال کیا) واللہ میں نے  اس کلمہ کو آپ سے  پہلے  کسی عربی کی زبانی نہیں  سنا اور جو شخص غضب کی حالت میں قتل کیا گیا وہ جگہ کا مستحق ہو گیا، حضرت خالد بن خرام ہجرت کر کے  حبشہ کی طرف چلے  لیکن راہ میں ہی انہیں  ایک سانب نے  ڈس لیا اور اسی میں ان کی روح قبض ہو گئی ان کے  بارے  میں یہ آیت اتری۔ حضرت زبیر فرماتے  ہیں  میں چونکہ ہجرت کر کے  حبشہ پہنچ گیا اور مجھے  ان کی خبر مل گئی تھی کہ یہ بھی ہجرت کر کے  آرہے  ہیں  اور میں جانتا تھا کہ قبیلہ بنو اسد سے  ان کے  سوا اور کوئی ہجرت کر کے  آنے  کا نہیں  اور کم و بیش جتنے  مہاجر تھے  ان کے  ساتھ رشتے  کنبے  کے  لوگ تھے  لیکن میرے  ساتھ کوئی نہ تھا میں ان کا یعنی حضرت خالد کا بے  چینی سے  انتظار کر رہا تھا جو مجھے  ان کی اس طرح کی اچانک شہادت کی خبر ملی تو مجھے  بہت ہی رنج ہوا۔ یہ اثر بہت ہی غریب ہے، یہ بھی وجہ ہے  کہ یہ قصہ مکے  کا ہے  اور آیت مدینے  میں اتری ہے ۔ لیکن بہت ممکن ہے  کہ راوی کا مقصود یہ ہو کہ آیت کا حکم عام ہے  گوشان نزول یہ نہ ہو واللہ اعلم۔ اور وایت میں ہے  کہ حضرت ضمرہ بن جندب ہجرت کر کے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چلے  لیکن آپ کے  پاس پہنچنے  سے  پہلے  ہی راستے  میں انتقال کر گئے  ان کے  بارے  میں یہ آیت شریفہ نازل ہوئی اور روایت میں ہے  کہ حضرت سعد بن ابی ضمرہ جن کو آنکھوں سے  دکھائی نہ دیتا تھا جب وہ آیت الا المستضعفین الخ، سنتے  ہیں  تو کہتے  ہیں  میں مالدار ہوں اور چارہ کار بھی رکھتا ہوں مجھے  ہجرت کرنی چاہئے  چنانچہ سامان سفر تیار کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چل کھڑے  ہوئے  لیکن ابھی تنعیم میں ہی تھے  جو موت آ گئی ان کے  بارے  میں یہ آیت نازل ہوئی۔ طبرانی میں ہے  رسول اللہ نے  فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  جو شخص میری راہ میں غزوہ کرنے  کے  لئے  نکلا صرف میرے  وعدوں کو سچا جان کر اور میرے  رسولوں پر ایمان رکھ کر بس وہ اللہ کی ضمانت میں ہے  یا تو وہ لشکر کے  ساتھ فوت ہو کر جنت میں پہنچے  گا یا اللہ کی ضمانت میں واپس لوٹے  گا اجرو غنیمت اور فضل رب لے  کر۔ اگر وہ اپنی موت مر جائے  یا مار ڈالا جائے  یا گھوڑے  سے  گر جائے  یا اونٹ پر سے  گر پڑے  یا کوئی زہریلا جانور کاٹ لے  یا اپنے  بستر پر کسی طرح فوت ہو جائے  وہ شہید ہے ۔ ابوداؤد میں اتنی زیادتی بھی ہے  کہ وہ جتنی ہے  بعض الفاظ ابو داؤد میں نہیں  ہیں ۔ ابو یعلیٰ میں ہے  جو شخص حج کے  لئے  نکلا پھر مر گیا قیامت تک اس کے  لئے  حج کا ثواب لکھا جاتا ہے، جو عمرے  کے  لئے  نکلا اور راستے  میں فوت ہو گیا اس کے  لئے  قیامت تک عمرے  کا اجر لکھا جاتا ہے ۔ جو جہاد کے  لئے  نکلا اور فوت ہو گیا اس کے  لئے  قیامت تک کا ثواب لکھا جاتا ہے ۔ یہ حدیث بھی غریب ہے ۔

۱۰۱

صلوٰۃ قصر؟

فرمان الٰہی ہے  کہ تم کہیں  سفر میں جا رہے  ہو۔ یہی الفاظ سفر کے  لئے  سورہ مزمل میں بھی آئے  ہیں ۔ تو تم پر نماز کی تخفیف کرنے  میں کوئی گناہ نہیں، یہ کمی یا تو کمیت میں یعنی بجائے  چار رکعت کے  دو رکعت ہے  جیسے  کہ جمہور نے  اس آیت سے  سمجھا ہے  گو پھر ان میں بعض مسائل میں اختلاف ہوا ہے  بعض تو کہتے  ہیں  یہ شرط ہے  کہ سفر اطاعت کا ہو مثلاً جہاد کے  لئے  یا حج و عمرے  کے  لئے  یا طلب و زیارت کے  لئے  وغیرہ۔ ابن عمر عطا یحییٰ اور ایک روایت کی رو سے  امام مالک کا یہی قول ہے، کیونکہ اس سے  آگے  فرمان ہے  اگر تمہیں  کفار کی ایذا رسانی کا خوف ہو، بعض کہتے  ہیں  اس قید کی کوئی ضرورت نہیں  کہ سفر قربت الہیہ کا ہو بلکہ نماز کی کمی ہر مباح سفر کے  لئے  ہے  جیسے  اضطرار اور بے  بسی کی صورت میں مردار کھانے  کی اجازت ہے، ہاں یہ شرط ہے  کہ سفر معصیت کا نہ ہو، امام شافعی وغیرہ ائمہ کا یہی قول ہے، ایک شخص نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا کہ میں تجارت کے  سلسلے  میں دریائی سفر کرتا ہوں تو آپ نے  اسے  دو رکعتیں پڑھنے  کا حکم دیا، یہ حدیث مرسل ہے، بعض لوگوں کا مذہب ہے  کہ ہر سفر میں نماز کو قصر کرنا جائز ہے  سفر خواہ مباح ہو خواہ ممنوع ہو یہاں تک کہ اگر کوئی ڈاکہ ڈالنے  کے  لئے  اور مسافروں کو ستانے  کے  لئے  نکلا ہوا ہے  اسے  بھی نماز قصر کرنے  کی اجازت ہے، ابوحنیفہ ثوری اور داؤد کا یہی قول ہے  کہ آیت عام ہے، لیکن یہ قول جمہور کے  قول کے  خلاف ہے ۔ کفار سے  ڈر کی جو شرط لگائی ہے  یہ باعتبار اکثریت کے  ہے  آیت کے  نازل ہونے  کے  وقت چونکہ عموماً یہی حال تھا اس لئے  آیت میں بھی اسے  بیان کر دیا گیا، ہجرت کے  بعد سفر مسلمانوں کے  سب کے  سب خوف والے  ہی ہوتے  تھے  قدم قدم پر دشمن کا خطرہ رہتا تھا بلکہ مسلمان سفر کے  لئے  نکل ہی نہ سکتے  تھے  بجز اس کے  کہ یا تو جہاد کو جائیں یا کسی خاص لشکر کے  ساتھ جائیں اور یہ قاعدہ ہے  کہ جب منطوق بہ اعتبار غالب کے  آئے  تو اس کا مفہوم معتبر نہیں  ہوتا۔ جیسے  اور آیت میں ہے  اپنے  لونڈیوں کو بدکاری کے  لئے  مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کرنا چاہیں  اور جیسے  فرمایا ان کی بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں  جن عورتوں سے  تم نے  محبت کی ہے ۔ پس جیسے  کہ ان دونوں آیتوں میں قید کا بیان ہے  لیکن اس کے  ہونے  پر ہی حکم کا دارومدار نہیں  بلکہ بغیر اس کے  بھی حکم وہی ہے  یعنی لونڈیوں کو بدکاری کے  لئے  مجبور کرنا حرام ہے  چاہے  وہ پاکدامنی میں ہو یا نہ ہو، حالانکہ دونوں جگہ قرآن میں یہ قید موجود ہے، پس جس طرح ان دونوں موقعوں میں بغیر ان قیود کے  بھی حکم یہی ہے  اسی طرح یہاں بھی گو خوف نہ تو بھی محض سفر کی وجہ سے  نماز کو قصر کرنا جائز ہے، مسند احمد میں ہے  کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ نے  حضرت عمر فاروق سے  پوچھا کہ نماز کی تخفیف کا حکم تو خوف کی حالت میں ہے  اور اب تو امن ہے ؟ حضرت عمر نے  جواب دیا کہ یہی خیال مجھے  ہوا تھا اور یہی سوال میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  کیا تھا تو آپ نے  فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے  جو اس نے  تمہیں  دیا ہے  تم اس کے  صدقے  کو قبول کرو۔ مسلم اور سنن وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے  بالکل صحیح روایت ہے ۔ ابو حنظلہ خداء نے  حضرت عمر سے  سفر کی نماز کا پوچھا تو آپ نے  فرمایا دو رکعت ہیں  انہوں نے  کہا قرآن میں تو خوف کے  وقت دو  رکعت ہیں  اور اس وقت تو پوری طرح امن و امان ہے  تو آپ نے  فرمایا یہی سنت ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی (ابن ابی شیبہ) ایک اور شخص کے  سوال پر حضرت عمر نے  فرمایا تھا آسمان سے  تو یہ رخصت اتر ی ہے  اب اگر تم چاہو تو اسے  لوٹا دو، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  مکہ اور مدینہ کے  درمیان ہم نے  باوجود امن کے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ دو رکعت پڑھیں (نسائی وغیرہ) اور حدیث میں ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ سے  مکے  کی طرف چلے  تو اللہ کے  سوا کسی سے  خوف نہ تھا اور آپ برابر دو رکعت ہی ادا فرماتے  رہے ۔ بخاری کی حدیث میں ہے  کہ واپسی میں بھی یہی دو رکعت آپ پڑھتے  رہے  اور مکے  میں اس سفر میں آپ نے  دس روز قیام کیا تھا۔ مسند احماد میں حضرت حارثہ سے  روایت ہے  کہ میں نے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ منی میں ظہر کی اور عصر کی نماز دو دو رکعت پڑھی ہیں  حالانکہ اس وقت ہم بکثرت تھے  اور نہایت ہی پر امن تھے، صحیح بخاری میں ہے  حضرت عبد اللہ کے  ساتھ (سفر میں) دو رکعت پڑھی ہیں، لیکن حضرت عثمان صلی اللہ علیہ و سلم کی چار رکعات کا ذکر آیا تو آپ نے  انا للہ الخ، پڑھ کر فرمایا میں نے  تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ بھی منی میں دو رکعت پڑھ ہیں  اور صدیق اکبر کے  ساتھ بھی اور عمر فاروق کے  ساتھ بھی کاش کہ بجائے  ان چار رکعات کے  میرے  حصے  میں دو ہی مقبول رکعات آئیں، پس یہ حدیثیں کھلم کھلا دلیل ہیں  اس بات کی کہ سفر کی دو رکعات کے  لئے  خوف کا ہونا شرط نہیں  بلکہ نہایت امن و اطمینان کے  سفر میں بھی دو گانہ ادا کر سکتا ہے، اسی لئے  علماء کرام نے  فرمایا ہے  کہ یہاں کیفیت میں یعنی قرآت قومہ رکوع سجود وغیرہ میں قصر اور کمی مراد ہے  نہ کہ کمیت میں یعنی تعداد رکعات میں تخفیف کرنا، ضحاک، مجاہد اور سدی کا یہی قول ہے  جیسے  کہ آ رہا ہے، اس کی ایک دلیل اما مالک کی رویت کردہ یہ حدیث بھی ہے  کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں  نماز دو دو رکعتیں ہی سفر حضر میں فرض کی گئی تھی پھر سفر میں تو وہی دو رکعتیں رہیں  اور اقامت کی حالت میں دو اور بڑھا دی گئیں، پس علماء کی یہ جماعت کہتی ہے  کہ اصل نماز دو رکعتیں تھی تو پھر اس آیت میں قصر سے  مراد کمیت یعنی رکعتوں کی تعداد میں کمی کیسے  ہو سکتی ہے ؟ اس قول کی بہت بڑی تائید صراحتاً اس حدیث سے  بھی ہوتی ہے  جو مسند احمد میں حضرت عمر کی روایت سے  ہے  کہ بہ زبان نبی صلی اللہ علیہ و سلم سفر کی دو رکعتیں ہیں  اور ضحی کی نماز بھی دو رکعت ہے  اور عید الفطر کی نماز بھی دو رکعت ہے  اور جمعہ کی نماز بھی دو رکعت ہے  یہ یہی پوری نماز ہے  قصر والی نہیں، یہ حدیث نسانی، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں بھی ہے  اس کی سندبہ شرط مسلم ہے ۔ اس کی روای ابن ابی لیلیٰ کا حضرت عمر سے  سننا ثابت ہے  جیسے  کہ امام مسلم نے  اپنی صحیح کے  مقدمہ میں لکھا ہے  اور خود اس روایت اور اس کے  علاوہ بھی صراحتاً موجود ہے  اور یہی ٹھیک بھی ہے  انشاء اللہ۔ گو بعض محدثین سننے  پر فیصلہ دینے  کے  قائل نہیں، لیکن اسے  مانتے  ہوئے  بھی اس سند میں کمی واقع نہیں  ہوتی کیونکہ بعض طرق میں ابن ابی لیلیٰ کا ایک ثقہ سے  اور ان کا حضرت عمر سے  سننا مروی ہے، اور ابن ماجہ میں ان کا کعب ابن عجرہ سے  روایت کرنا اور ان کا حضرت عمر سے  روایت کرنا سے  روایت کرنا بھی مروی ہے  فاللہ اعلم۔ مسلم و غریہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس سے  مروی ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے  تمہارے  نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی نماز کو اقامت کی حالت میں چار رکعت فرض کی ہے  اور سفر میں دو رکعت اور خوف میں ایک رکعت پس جیسے  کہ قیام میں اس سے  پہلے  اور اس کے  پیچھے  نماز پڑھتے  تھے  یا پڑھی جاتی تھی اسی طرح سفر میں بھی اور اس روایت میں اور حضرت عائشہ والی روایت میں جو اوپر گزری کہ حضر میں اللہ تعالیٰ نے  دو رکعتیں ہی فرض کی تھیں گویا مسافات سے  مشروط ہیں  اس لئے  کہ اصل دوہی تھیں بعد میں دو اور بڑھا دی گئیں پھر حضر کی چار رکعت ہو گئیں تو اب کہہ سکتے  ہیں  کہ اقامت کی حالت میں فرض چار رکعتیں ہیں ۔ جیسے  کہ ابن عباس کی اس روایت میں ہے  واللہ اعلم۔ الغرض یہ دونوں روایتیں اسے  ثابت کرتی ہیں  کہ سفر میں دو رکعت نماز ہی پوری نماز سے  کم نہیں  اور یہی حضرت عمر کی روایت سے  بھی ثابت ہو چکا ہے ۔ مراد اس میں قصر کمیت ہے  جیسے  کہ صلوٰۃ خوف میں ہے  اسی لئے  فرمایا ہے  اگر تم ڈرو اس بات سے  کہ کافر تمہیں  فتنے  میں ڈال دیں گے  اور اس کے  بعد فرمایا جب وقت ان میں ہو اور نماز پڑھو تو بھی۔ پھر قصر کا مقصود صفت اور کیفیت بھی بیان فرما دی امام المحدثین حضرت بخاری نے  کتاب صلوٰۃ خوف کو اسی آیت واذاضرمبتم سے  مھینا تک لکھ کر شروع کیا ہے، ضحاک اس کی تفسیر میں فرماتے  ہیں  کہ یہ لڑائی کے  وقت ہے  انسان اپنی سواری پر نماز دو تکبیریں پڑھ لے  اس کا منہ جس طرف بھی ہو اسی طرف صحیح ہے ۔ سدی فرماتے  ہیں  کہ سفر میں جب تو نے  دو رکعت پڑھیں تو وہ قصر کی پوری مقدار ہے  ہاں جب کافروں کی فتنہ انگریزی کا خوف ہو تو ایک ہی رکعت قصر ہے  البتہ یہ کسی سنین خوف کے  بغیر جائز نہیں ۔ مجاہد فرماتے  ہیں  اس آیت سے  مراد وہ دن ہے  جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  تمام صحابہ کے  ساتھ حسب معمول چار رکعتیں پوری ادا کیں پھر مشرکین نے  سامان واسباب کو لوٹ لینے  کر ارادہ کیا، ابن جریر اسے  مجاہد اور سدی اور جابر اور ابن عمر سے  روایت کرتے  ہیں  اور اسی کو اختیار کرتے  ہیں  اور اسی کو کہتے  ہیں  کہ یہی ٹھیک ہے ۔ حضرت خالد بن اسید حضرت عبد اللہ بن عمر سے  کہتے  ہیں  صلوٰۃ خوف کے  قصر کا حکم تو ہم کتاب اللہ میں پاتے  ہیں  لیکن صلوٰۃ مسافر کے  قصر کا حکم کتاب اللہ میں نہیں  ملتا تو حضرت ابن عمر جواب دیتے  ہیں  ہم نے  اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سفر میں نماز کو قصر کرتے  ہوئے  پایا اور ہم نے  بھی اس پر عمل کیا۔ خیال فرمائیے  کہ اس میں قصر کا اطلاق صلوٰۃ خوف پر کیا اور آیت سے  مراد بھی صلوٰۃ خوف لی اور صلوٰۃ مسافر کو اس میں شامل نہیں  کیا اور حضرت ابن عمر نے  بھی اس کا اقرار کیا۔ اس آیت سے  مسافرت کی نماز کا قصر بیان نہیں  فرمایا بلکہ اس کے  لئے  فعل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو سند بتایا۔ اس سے  زیادہ صراحت والی روایت ابن جریر کی ہے  کہ حضرت سماک آپ سے  صلوٰۃ پوچھتے  ہیں  آپ فرماتے  ہیں  سفر کی نماز دو رکعت ہے  اور یہی دو رکعت سفر کی پوری نماز ہے  قصر نہیں، قصر تو صلوٰۃ خوف میں ہے  کہ امام ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھاتا ہے  دوسری جماعت دشمن کے  سامنے  ہے  پھر یہ چلے  گئے  وہ آ گئے  ایک رکعت امام نے  انہیں  پڑھائی تو امام کی دو رکعت ہوئیں اور ان دونوں جماعتوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔

۱۰۲

صلوٰۃ خوف کے مسائل

نماز خوف کی کئی قسمیں مختلف صورتیں اور حالتیں ہیں، کبھی تو ایسا ہوتا ہے  کہ دشمن قبلہ کی طرف کبھی دشمن دوسری جانب ہوتا ہے، نماز بھی کبھی چار رکعت ہوتی ہے  کبھی تین رکعت جیسے  مغرب اور فجر کی دو صلوٰۃ سفر، کبھی جماعت سے  ادا کرنی ممکن کرتی ہے  کبھی لشکر اس طرح باہم گتھے  ہوئے  ہوتے  ہیں  کہ نماز با جماعت ممکن ہی نہیں  ہوتی بلکہ الگ الگ قبلہ کی طرف اور غیر قبلہ کی طرف پیدل اور سوار جس طرح ممکن ہو پڑھی جاتی ہے  بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے  جو جائز بھی ہے  کہ دشمنوں کے  حملوں سے  بچتے  بھی جائیں ان پر برابر حملے  بھی کرتے  جائیں اور نماز بھی ادا کرتے  جائیں، ایسی حالت میں صرف ایک رکعت ہی نماز پڑھی جاتی ہے  جس کے  جواز میں علماء کا فتویٰ ہے  اور دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس کی حدیث ہے  جو اس سے  اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے  عطا، جابر، حسن، مجاہد، حکم، قتادہ، حماد، طاؤس، ضحاک، محمد بن نصر، مروزی، ابن حزم اجمعین کا یہی فتویٰ ہے، صبح کی نماز میں ایک ہی رکعت اس حالت میں رہ جاتی ہے، اسحق راہویہ فرماتے  ہیں  ایسی دوڑ دھوپ کے  وقت ایک ہی رکعت کافی ہے ۔ ارشاد ہے  ادا کر لے  اگر اس قدر پر بھی قادریہ ہو تو سجدہ کر لے  یہ بھی ذکر اللہ ہے، اور لوگ کہتے  ہیں  صرف ایک تکبیر ہی کافی ہے  لیکن یہ ہو سکتا ہے  کہ ایک سجدہ اور ایک تکبیر سے  مراد بھنی ایک رکعت ہو۔ جیسے  کہ حضرت امام احمد بن حنبل اور ان کے  اصحاب کا فتویٰ ہے  اور یہی قول ہے  جابر بن عبداللہ، عبد اللہ بن عم کعب وغیرہ صحابہ کا رضی اللہ عنہم اجمعین، سدی بھی فرماتے  ہیں  لیکن جن لوگوں کا قول صرف ایک تکبیر کا ہی بیان ہوا ہے  اس کا بیان کرنے  والے  اسے  پوری رکعت پر محمول نہیں  کرتے  بلکہ صرف تکبیر ہی جو ظاہر ہے  مراد لیتے  ہیں  جیسے  کہ اسحاق بن راہویہ کا مذہب ہے، امیر عبدالوہاب بن بخت مکی بھی اسی طرف گئے  ہیں  وہ یہاں تک کہتے  ہیں  کہ اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو اسے  اپنے  نفس میں بھی نہ چھوڑے  یعنی نیت ہی کر لے  واللہ اعلم۔ (لیکن صرف نیت کے  کر لینے  یا صرف اللہ اکبر کہہ لینے  پر اکتفا کرنے  یا صرف ایک ہی سجدہ کر لینے  کی کوئی دلیل قرآن حدیث سے  نظر سے  نہیں  گزری۔ واللہ اعلم مترجم) بعض علماء نے  ایسے  خاص اوقات میں نماز کو تاخیر کر کے  پڑھنے  کی رخصت بھی دی وے  ان کی دلیل یہ ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے  جنگ خندق میں سورج ڈوب جانے  کے  بعد ظہر عصر کی نماز پھڑ تھی پھر مغرب عشاء، پھر اس کے  بعد بنو قریظہ کی جنگ کے  دن ان کی طرف جنہیں  بھیجا تھا انہیں  تاکید کر دی تھی کہ تم میں سے  کوئی بھی بنو قریظہ تک پہنچنے  سے  پہلے  عصر کی نماز نہ پڑھے  یہ جماعت ابھی راستے  میں ہی تھی تو عصر کا وقت آگیا بعض نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد اس فرمان سے  صرف یہی تھا کہ ہم جلدی بنو قریظہ پہنچیں کر نماز پڑھی جبکہ سورج غروب ہو چکا تھا۔ جب اس بات کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ہوا تو آپ نے  دونوں جماعتوں میں سے  کسی ایک کو بھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں  کی ہم نے  اس پر تفصیلی بحث اپنی کتاب السیرۃ میں کی ہے  اور اسے  ثابت کیا ہے  کہ صحیح بات کے  قریب وہ جماعت تھی جنہوں نے  وقت پر نماز ادا کر لی گو دوسری جماعت بھی معذور تھی، مقصود یہ ہے  کہ اس جماعت نے  جہاد کے  موقعہ پر دشمنوں پر تاخت کرتے  ہوئے  ان کے  قلعے  کی طرف یورش جاری رکھتے  ہوئے  نماز کو موخر کر دیا، دشمنوں کا یہ گروہ ملعون یہودیوں کا تھا جنہوں نے  عہد توڑ دیا تھا اور صلح کے  خلاف کیا تھا۔ لیکن جمہور کہتے  ہیں  صلوٰۃ خوف کے  نازل ہونے  سے  یہ سب منسوخ ہو گیا یہ واقعات اس آیت کے  نازل ہونے  سے  پہلے  کے  ہیں  صلوٰۃ خوف کے  حکم کے  بعد اب جہاد کے  وقت نماز کو وقت سے  ٹالنا جائز نہیں  رہا، ابوسعید کی روایت سے  بھی یہی ظاہر ہے  جسے  شافعی نے  مروی کی ہے، لیکن صحیح بخاری کے  باب الصلوٰۃ عند منا ھضتہ الحصون الخ، میں ہے  کہ اوزاعی فرماتے  ہیں  اگر فتح کی تیاری ہو اور نماز با جماعت کا امکان نہ ہو تو ہر شخص الگ الگ اپنی اپنی نماز اشارے  سے  ادا کر لے  اگر یہ بھی نہ ہو سکتا ہو تو نماز میں تاخیر کر لیں یہاں تک کہ جنگ ختم ہو یا امن ہو جائے  اس وقت دو رکعتیں پڑھ لیں اور اگر امن نہ ملے  تو ایک رکعت ادا کر لیں صرف تکبیر کا کہہ لینا کافی نہیں ۔ ایسا ہو تو نماز کو دیر کر کے  پڑھیں جبکہ اطمینان نصیب ہو جائے  حضرت مکحول کا فرمان بھی یہی ہے  حضرت انس بن مالک فرماتے  ہیں  کہ ستر کے  قلعہ کے  محاصرے  میں میں موجود تھا صبح صادق کے  وقت دست بدست جنگ شروع ہوئی اور سخت گھمسان کا رن پڑا ہم لوگ نماز نہ پڑھ سکے  اور برابر جہاد میں مشغول رہے  جب اللہ تعالیٰ نے  ہمیں قلعہ پر قابض کر دیا اس وقت ہم نے  دن چڑھے  نماز پڑھی اس جنگ میں ہمارے  امام حضرت ابو موسیٰ تھے  حضرت انس فرماتے  ہیں  اس نماز کے  متبادل ساری دنیا کی تمام چیزیں بھی مجھے  خوش نہیں  کر سکتیں امام بخاری اس کے  بعد جنگ خندق میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا نمازوں کو تاخیر کرنے  کا ذکر کرتے  ہیں  پھر بنو قریظہ والا واقعہ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان کہ تم بنو قریظہ پہنچنے  سے  پہلے  عصر کی نماز نہ پڑھنا وارد کرتے  ہیں  گویا امام ہمام حضرت امام بخاری اسی سے  اتفاق کرتے  ہیں  کہ ایسی اشد لڑائی اور پورے  خطرے  اور قرب فتح کے  موقع پر اگر نماز موخر ہو جائے  تو کوئ حرج نہیں  حضرت ابو موسیٰ نے  اس پر اعتراض کیا ہو اور یہ لوگ یہ بھی کہتے  ہیں  کہ خندق کے  موقع پر بھی صلوٰۃ خوف کی آیتیں موجود تھیں اس لئے  کہ یہ آیتیں غزوہ ذات الرقاع میں نازل ہوئی ہیں  اور یہ غزوہ غزوہ خندق سے  پہلے  کا ہے  اور اس پر جمہور علماء سیرو مغازی کا اتفاق ہے، محمد بن اسحق، موسیٰ بن عقبہ واقدی، محمد بن سعد، کاتب واقدی اور خطیفہ بن خیاط وغیرہ بھی اسی کے  قائل ہیں، ہاں امام بخاری وغیرہ کا قول ہے  کہ غزوہ ذات الرقاع خندق کے  بعد ہوا تھا بہ سبب بحوالہ حدیث ابوموسیٰ کے  اور یہ خود خیبر میں ہی آئے  تھے  واللہ اعلم، لیکن سب سے  زیادہ تعجب تو اس امر پر ہے  کہ قاضی ابو یوسف مزنی ابراہیم بن اسمٰعیل بن علیہ کہتے  ہیں  کہ صلوٰۃ خوف منسوخ ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  غزوہ خندق میں میں دیر کر کے  نماز پڑھنے  سے ۔ یہ قول بالکل ہی غریب ہے  اس لئے  کہ غزوہ خندق کے  بعد کے  صلوٰۃ کے  بعد کی صلوٰۃ خوف کی حدیثیں ثابت ہیں، اس دن کی نماز کی تاخیر کو مکحول اور اوزاعی کے  قول پر ہی محمول کرنا زیادہ قوی اور زیادہ درست ہے  یعنی ان کا وہ قول جو بحوالہ بخاری بیان ہوا کہ قرب فتح اور عدم اکان صلوٰۃ خوف کے  باوجود تاخیر جائز ہے  واللہ اعلم۔ آیت میں حکم ہوتا ہے  کہ جب تو انہیں  با جماعت نماز پڑھائے ۔ یہ حالت پہیلی کے  سوا ہے  اس وقت یعنی انتہائی خوف کے  وقت تو ایک ہی رکعت جائز ہے  اور وہ بھی الگ، الگ، پیدل سوار قبلہ کی طرف منہ کر کے  یا نہ کر کے، جس طرح ممکن ہو، جیسے  کہ حدیث گزر چکی ہے ۔ یہ امامت اور جماعت کا حال بیان ہو رہا ہے  جماعت کے  واجب ہونے  پر یہ آیت بہترین اور مضبوط دلیل ہے  کہ جماعت کی وجہ سے  بہت کمی کر دی گئی۔ اگر جماعت واجب نہ ہوتی تو صرف ایک رکعت جائز نہ یک جاتی۔ بعض نے  اس سے  ایک اور استدلال بھی کیا ہے  وہ کہتے  ہیں  کہ اس میں چونکہ یہ لفظ ہیں  کہ جب تو ان میں ہو اور یہ خطاب نبی کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم سے  ہے  تو معلوم ہوا کہ صلوٰۃ خوف کا حکم آپ کے  بعد منسوخ ہے، یہ استدلال بالکل ضعیف ہے، یہ استدلال تو ایسا ہی ہے  جیسا استدلال ان لوگوں کا تھا جو زکوٰۃ کو خلفائے  راشدین سے  روک بیٹھے  تھے  اور کہتے  تھے  کہ قرآن میں ہے  خذمن اموالھم صدقۃ الخ، یعنی تو ان کے  مالوں سے  زکوٰۃ لے  جس سے  تو انہیں  پاک صاف کر اور تو ان کے  لۓ رحمت کی دعا کر تیری دعا کر تیری دعا ان کے  لئے  باعث تسکین ہے ۔ تو ہم آپ کے  بعد کسی کو زکوٰۃ نہ دیں گے  بلکہ ہم آپ اپنے  ہاتھ سے  خود جسے  چاہیں  دیں گے  اور صرف اسی کو دیں گے  جس کو دعا ہمارے  لئے  سبب سکون بنے ۔ لیکن یہ استدلال ان کا بے  معنی تھا اسی لئے  کہ صحابہ نے  اسے  رد کر دیا اور انہیں  مجبور کیا کہ یہ زکوٰۃ ادا کریں بلکہ ان میں سے  جن لوگوں نے  اسے  روک لیا تھا ان سے  جنگ کی۔ آئیے  ہم آیت کی صفت بیان کرنے  سے  پہلے  اس کا شان نزول بیان کر دیں ابن جریر میں ہے  کہ بنو بخار کی ایک قوم نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا کہ ہم برابر اِدھر اُدھر آمد و رفت کیا کرتے  ہیں، ہم نماز کس طرح پڑھیں تو اللہ عزوجل نے  اپنا یہ قول نازل فرمایا واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوٰۃ اس کے  بعد سال بھر تک کوئی حکم نہ آیا پھر جبکہ آپ ایک غزوے  میں ظہر کی نماز کے  لئے  کھڑے  ہوئے  تو مشرکین کہنے  لگے  افسوس کیا ہی اچھا موقعہ ہاتھ سے  جاتا رہا کاش کہ نماز کی حالت میں ہم یکبارگی ان پر حملہ کر دیتے، اس پر بعض مشرکین نے  کہا یہ موقعہ تو تمہیں  پھر بھی ملے  گا اس کے  تھوڑی دیر بعد ہی یہ دوسری نماز (یعنی نماز عصر) کے  لئے  کھڑے  ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے  عصر کی نماز سے  پہلے  اور ظہر کی نماز کے  بعد ان خفتم والی پوری دو آیتوں تک نازل فرما دیں اور کافر ناکام رہے  خود اللہ تعالیٰ وقدوس نے  صلوٰۃ خوف کی تعلیم دی۔ گو یہ سیاق نہایت ہی غریب ہے  لیکن اسے  مضبوط کرنے  والی اور روایتیں بھی ہیں، حضرت ابو عیاش زرقی فرماتے  ہیں  عسفان میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ تھے  خالد بن ولید اس وقت اسلام نہیں  لائے  تھے  اور مشرکین کے  لشکر کے  سردار تھے  یہ لوگ ہمارے  سامنے  پڑاؤ ڈالے  تھے  خالد بن ولید اس وقت اسلام نہیں  لائے  تھے  اور مشرکین کے  لشکر کے  سردار تھے  یہ لوگ ہمارے  سامنے  پڑاؤ ڈالے  تھے  تب ہم نے  قبلہ رخ، ظہر کی نماز جب ہم نے  ادا کی تو مشرکوں کے  منہ میں پانی بھر آیا اور وہ کہنے  لگے  افسوس ہم نے  موقعہ ہاتھ سے  کھو دیا وقت تھا کہ یہ نماز میں مشغول تھے  اِدھر ہم ان پر دفعۃً دھاوا بول دیتے  پھر ان میں کے  بعض جاننے  والوں نے  کہا خیر کوئی بات نہیں  اس کے  بعد ان کی ایک اور نماز کا وقت آ رہا ہے  اور وہ نماز تو انہیں  اپنے  بال بچوں سے  بلکہ اپنی جانوں سے  بھی زیادہ عزیز ہے  اس وقت سہی۔ پس ظہر عصر کے  درمیان اللہ عزوجل نے  حضرت جبرئیل علیہ السلام کو نازل فرمایا اور آیت اذا کنت فیھم اتاری چنانچہ عصر کی نماز کے  وقت ہمیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  حکم دیا ہم نے  ہتھیار سجا لئے  اور اپنی دو صفوں میں سے  پہلی صف آپ کے  ساتھ سجدے  میں گئی اور دوسری صف کھڑی کی کھڑی ان کی نگہبانی کرتی رہی جب سجدوں سے  فارغ ہو کر یہ لوگ کھڑے  ہو گئے  تو اب دوسری صف والے  سجدے  میں گئے  جب یہ دونوں سجدے  کر چلے  تو اب پہلی صف والے  دوسری صف کی جگہ چلے  گئے  اور دوسری صف والے  پہلی صف والوں کی جگہ آ گئے، پھر قیام رکوع اور قومہ سب نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ ہی ساتھ ادا کیا اور جب آپ سجدے  میں گئے  تو صف اوّل آپ کے  ساتھ سجدے  میں گئی اور دوسری صف والے  کھڑے  ہوئے  پہرہ دیتے  رہے  جب یہ سجدوں سے  فارغ ہو گئے  اور التحیات میں بیٹھے  تب دوسری صف کے  لوگوں نے  سجدے  کئے  اور التحیات میں سب کے  سب ساتھ مل گئے  اور سلام بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ سب نے  ایک ساتھ پھیرا۔ صلوٰۃ خوف ایک بار تو آپ نے  یہاں عسفان میں پڑھی اور دوسری مرتبہ بنو سلیم کی زمین میں ۔ یہ حدیث مسند احمد ابوداؤد اور نسائی میں بھی ہے  اس کی اسناد صحیح ہے  اور شاہد بھی بکثرت ہیں  بخاری میں بھی یہ روایت اختصار کے  ساتھ ہے  اور اس میں ہے  باوجود یکہ سب لوگ نماز میں تھے  لیکن ایک دوسرے  کی چوکیداری کر رہے  تھے ۔ ابن جریر میں ہے  کہ سلیمان بن قیس یشکری نے  حضرت جابر بن عبد اللہ سے  پوچھا نماز کے  قصر کرنے  کا حکم کب نازل ہوا؟ تو آپ نے  فرمایا قریشیوں کا ایک قافلہ شام سے  آ رہا تھا ہم اس یک طرف چلے ۔ وادی نخل میں پہنچے  تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس پہنچ گیا اور کہنے  لگا کیا آپ مجھ سے  ڈرتے  نہیں ؟ آپ نے  فرمایا نہیں  اس نے  کہا آپ کو مجھ سے  اس وقت کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے  فرمایا اللہ مجھ تجھ سے  بچا لے  گا پھر تلوار کھینچ لی اور ڈرایا دھمکایا، پھر کوچ کی منادی ہوئی اور آپ ہتھیار سجا کر چلے ۔ پھر اذان ہوئی اور صحابہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئے  ایک حصہ آپ کے  ساتھ نماز ادا کر رہا تھا اور دوسرا حصہ پہرہ دے  رہا تھا جو آپ کے  متصل تھے  وہ دور رکعت آپ کے  ساتھ پڑھ کر پیچھے  والوں کی جگہ چلے  گئے  اور پیچھے  والے  اب آگے  بڑھ اور ان اگلوں کی جگہ کھڑے  ہو گئے  انہیں  بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  دور رکعت پڑھائیں پھر اسلام پھیر دیا پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی چار رکعت ہوئیں اور سب کی دو دو ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے  نماز کی کمی کا اور ہتھیار لئے  رہنے  کا حکم نازل فرمایا۔ مسند احمد ہے  کہ جو شخص تلوار تانے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر حملہ اور ہوا تھا یہ دشمن کے  قبیلے  میں سے  تھا اس کا نام غورث بن حارث تھا جب آپ نے  اللہ کا نام لیا تو اس کے  ہاتھ سے  تلوار چھوٹ گئی آپ نے  تلوار اپنے  ہاتھ میں لے  لی اور اس سے  کہا اب تو بتا کہ تجھے  کون بچائے  گا تو وہ معافی مانگنے  لگا کہ مجھ پر آپ رحم کیجئے  آپ نے  فرمایا کیا تو اللہ کے  ایک ہونے  کی اور میرے  رسول ہونے  کی شہادت دیتا ہے ؟ اس نے  کہا یہ تو نہیں  ہاں میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ سے  لڑوں گا نہیں  اور اس لوگوں کا ساتھ نہ دوں گا جو آپ سے  برسر پیکار ہوں آپ نے  اسے  معافی  دی۔ جب یہ اپنے  والوں میں آیا تو کہنے  لگا روئے  زمین پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  بہتر کوئی شخص نہیں ۔ اور روایت میں ہے  کہ یزید فقیر نے  حضرت جابر سے  پوچھا کہ سفر میں جو دو رکعت ہیں  کیا یہ قصر کہلاتی ہیں ؟ آپ نے  فرمایا یہ پوری نماز ہے  قصر تو بوقت جہاد ایک رکعت ہے  پھر صلوٰۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے  کہ آپ کے  سلام کے  ساتھ آپ کے  پیچھے  والوں نے  اور ان لوگوں نے  سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے  ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے  کا بیان ہے  پس سب کی ایک ایک رکعت ہے  پھر صلوٰۃ خوف کا اسی طرح ذکر کیا اس میں یہ بھی ہے  کہ آپ کے  سلام کے  ساتھ آپ کے  پیچھے  والوں نے  ان لوگوں نے  سلام پھیرا اور اس میں دونوں حصہ فوج کے  ساتھ ایک ایک رکعت پڑھنے  کا بیان ہے  پس سب کی ایک ایک رکعت ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دو رکعتیں ۔ اور روایت میں ہے  کہ ایک جماعت آپ کے  پیچھے  صف بستہ نماز میں تھی اور ایک جماعت دشمن کے  مقابل تھی پھر ایک رکعت کے  بعد آپ کے  پیچھے  والے  اگلوں کی جگہ آ گئے  اور پہ پیچھے  آ گئے ۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں کے  ساتھ حضرت جابر سے  مروی ہے ۔ ایک اور حدیث جو بہ روایت سالم عن ابیہ مروی ہے  اس میں یہ بھی ہے  کہ پھر کھڑے  ہو کر صحابہ نے  ایک ایک رکعت اپنی اپنی ادا کر لی۔ اس حدیث کی بھی بہت سی سندیں اور بہت سے  الفاظ ہیں  حافظ ابوبکر بن مردویہ نے  ان سب کو جمع کر دیا، اور اسی طرح ابن جریر نے  بھی، ہم اسے  کتاب احکام کبیر میں لکھنا چاہتے  ہیں  انشاء اللہ۔ خوف کی نماز میں ہتھیار لئے  رہنے  کا حکم بعض نے  نزدیک تو  بطور وجوب کے  ہے  کیونکہ آیت کے  ظاہری الفاظ ہیں  امام شافعی کا بھی یہی قول ہے  اور اسی کی تائید اس آیت کے  پچھلے  فقرے  سے  بھی ہوتی ہے  کہ بارش یا بیماری کی وجہ سے  ہتھیار اتار رکھنے  میں تم پر گناہ نہیں  اپنا بچاؤ ساتھ لئے  رہو، یعنی ایسے  تار رہو کہ وقت آتے  ہی بے  تکلف و بے  تکلیف ہتھیار سے  آراستہ ہو جاؤ۔ اللہ نے  کافروں کے  لئے  اہانت والا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

 

۱۰۳

صلوٰۃ خوف کے بعد کثرت ذکر

جناب باری غراسمہ اس آیت میں حکم دیتا ہے  کہ نماز خوف کے  بعد اللہ کا ذکر بکثرت کیا کرو، گو ذکر اللہ کا حکم اور اس کی ترغیب و تاکید اور نمازوں کے  بعد بلکہ ہر وقت ہی ہے، لیکن یہاں خصوصیت سے  اس لئے  بیان فرمایا کہ یہاں بہت بڑی رخصت عنایت فرمائی ہے  نماز میں تخفیف کر دی، پھر حالت نماز میں اِدھر اُدھر ہٹنا جانا اور آنا مصلحت کے  مطابق جائز رکھا، جیسے  حرمت والے  مہینوں کے  متعلق فرمایا ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، جب کہ اور اوقات میں بھی ظلم ممنوع ہے  لیکن ان کے  مہینوں میں اس سے  بچاؤ کی مزید تاکید کی، تو فرمان ہوتا ہے  کہ اپنی ہر حالت میں اللہ عزوجل کا ذکر کرتے  رہو، اور جب اطمینان حاصل ہو جائے  ڈر خوف نہ رہے  تو باقاعدہ خشوع خضوع سے  ارکان نماز کو پابندی کے  مطابق شرع بجالاؤ، نماز پڑھنا وقت مقرہ پر منجانب اللہ فرض عین ہے، جس طرح حج کا وقت معین ہے  اسی طرح نماز کا وقت بھی مقرر ہے، ایک وقت کے  بعد دوسرا پھر دوسرے  کے  بعد تیسرا پھر فرماتا ہے  دشمنوں کی تلاش میں کم ہمتی نہ کرو چستی اور چالاکی سے  گھاٹ کی جگہ بیٹھ کر ان کی خبر لو، اگر قتل و زخم و نقصان تمہیں  پہنچتا ہے  تو کیا انہیں  نہیں  پہنچتا؟ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بھی ادا کیا گیا ہے  ان یمسکم قرح الخ، پس مصیبت اور تکلیف کے  پہنچنے  میں تم اور وہ برابر ہیں، لیکن بہت بڑا فرق یہ ہے  کہ تمہیں  ذات عزاسمہ سے  وہ اُمیدیں اور وہ آسرے  ہیں  جو انہیں  نہیں، تمہیں  اجرو ثواب بھی ملے  گا تمہاری نصرت و تائید بھی ہو گی، جیسے  کہ خود باری تعالیٰ نے  خبر دی ہے  اور وعدہ کیا، نہ اس کی خبر جھوٹی نہ اس کے  وعدے  ٹلنے  والے، پس تمہیں  بہ نسبت ان کے  بہت تنگ و دو چاہئے  تمہارے  دلوں میں جہاد کا ولولہ ہونا چاہئے، تمہیں  اس کی رغبت کامل ہونی چاہئے، تمہارے  دلوں میں اللہ کے  کلمے  کو مستحکم کرنے  توانا کرنے  پھیلانے  اور بلند کرنے  کی تڑپ ہر وقت موجود رہنی چاہئے  اللہ تعالیٰ جو کچھ مقرر کرتا ہے  جو فیصلہ کرتا ہے  جو جاری کرتا ہے  جو شرع مقرر کرتا ہے  جو کام کرتا ہے  سب میں پوری خبر کا مالک صحیح اور سچے  علم والا ساتھ ہی حکمت والا بھی ہے، ہر حال میں ہر وقت سزا وار تعریف و حمد وہی ہے ۔

 

۱۰۵

حقیقت چھپ نہیں سکتی

اللہ تعالیٰ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم سے  فرماتا ہے  کہ یہ قرآن کریم جو آپ پر اللہ نے  اُتارا ہے  وہ مکمل طور پر اور ابتداء تا انتہا حق ہے، اس کی خبریں بھی حق اس کے  فرمان بھی برحق۔ پھر فرماتا ہے  تاکہ تم لوگوں کے  درمیان وہ انصاف کرو جو اللہ تعالیٰ تمہیں  سمجھائے، بعض علمائے  اصول نے  اس سے  استدلال کیا ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اجتہاد سے  حکم سے  حکم کرنے  کا اختیار دیا گیا تھا، اس کی دلیل بخاری مسلم کی حدیث بھی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  دروازے  پر دو جھگڑنے  والوں کی آواز سنی تو آپ باہر آئے  اور فرمانے  لگے  میں ایک انسان ہوں جو سنتا ہوں اس کے  مطابق فیصلہ کرتا ہوں بہت ممکن ہے  کہ یہ ایک شخص زیادہ حجت باز اور چرب زبان ہو اور میں اس کی باتوں کو صحیح جان کر اس کے  حق میں فیصلہ دے  دوں اور جس کے  حق میں فیصلہ کر دوں فی الواقع وہ حقدار نہ ہو تو وہ سمجھ لے  کہ وہ اس کے  لئے  جہنم کا ٹکڑا ہے  اب اسے  اختیار ہے  کہ لے  لے  یا چھوڑ دے ۔ مسند احمد میں ہے  کہ دو انصاری ایک ورثے  کے  بارے  میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس اپنا قضیہ لائے  واقعہ کو زمانہ گزر چکا تھا دونوں کے  پاس گواہ کوئی نہ تھا تو اس وقت آپ نے  وہی حدیث بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے  فیصلے  کی بنا پر اپنے  بھائی کا حق نہ لے  لے  اگر ایسا کرے  گا تو قیامت کے  دن اپنی گردن میں جہنم کی آگ لٹکا کر آئے  گا اب تو وہ دونوں بزرگ رونے  لگے  اور ہر ایک کہنے  لگا میں اپنا حق بھی اپنے  بھائی کو دے  رہا ہوں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اب تم جاؤ اپنے  طور پر جہاں تک تم سے  ہو سکے  ٹھیک ٹھیک حصے  تقسیم کرو پھر قرعہ ڈال کر حصہ لے  لو اور ہر ایک دوسرے  کو اپنا رہا سہا غلطی کا حق معاف کر دو۔ ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے  اور اس میں یہ الفاظ ہیں  کہ میں تمہارے  درمیان اپنی سمجھ سے  ان امور میں فیصلہ کرتا ہوں جن میں کوئی وحی مجھ پر نازل شدہ نہیں  ہوتی، ابن مردویہ میں ہے  کہ انصار کا ایک گروہ ایک جہاد میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ تھا وہاں ایک شخص کی ایک چادر کسی نے  چرا لی اور اس چوری کا گمان طعمہ بن ابیرق کی طرف تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں یہ قصہ پیش ہوا چور نے  اس چادر کو ایک شخص کے  گھر میں اس کی بے  خبری میں ڈال دیا اور اپنے  کنبہ قبیلے  والوں سے  کہا میں نے  چادر فلاں کے  گھر میں ڈال دی ہے  تم رات کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس جاؤ اور آپ سے  ذکر کرو کہ ہمارا ساتھی تو چور نہیں  چور فلاں یہ اور ہم نے  پتہ لگا لیا ہے  کہ چادر بھی اس کے  گھر میں موجود ہے  اس طرح آپ ہمارے  ساتھ کی تمام لوگوں کی ربربو بریت کر دیجئے  اور اس کی حمایت کیجئے  ورنہ ڈر ہے  کہ کہیں  وہ ہلاک نہ ہو جائے  آپ نے  ایسا ہی کیا اس پر یہ آیتیں اتری اور جو لوگ اپنے  جھوٹ کو پوشیدہ کر کے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آئے  تھے  ان کے  بارے  میں یستخفون سے  دو دو آیتیں نازل ہوئیں، پھر اللہ عزوجل نے  فرمایا جو برائی اور بدی کا کام کرے  اس سے  مراد بھی یہی لوگ ہیں  اور چور کے  اور اس کے  حمایتوں کے  بارے  میں اترا کہ جو گناہ اور خطا کرے  اور نا کردہ گناہ کے  ذمہ الزام لگائے  وہ بہتان باز اور کھلا گنہگار ہے، لیکن یہ سیاق غریب ہے  بعض بزرگوں سے  مروی ہے  کہ یہ آیت بنو ابیرق کے  چور کے  بارے  میں نززل ہوئی ہے، یہ قصہ مطلوب ترمذی کتاب التفسیر میں بزبانی حضرت قتادہ اس طرح مروی ہے  کہ ہمارے  گھرانے  کے  بنو ابیرق قبیلے  کا ایک گھر تھا جس میں بشر، بشیر اور مبشر تھے، بشیر ایک منافق شخص تھا اشعار کو کسی اور کی طرف منسوب کر کے  خوب مزے  لے  لے  کر پڑھا کرتا تھا، اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم جانتے  تھے  کہ یہی خبیث ان اشعار کا کہنے  والا ہے، یہ لوگ جاہلیت کے  زمانے  سے  ہی فاقہ مست چلے  آتے۔  مدینے  کے  لوگوں کا اکثر کھانا جو اور کھجوریں تھیں، ہاں تونگر لوگ شام کے  آئے  ہوئے  قافلے  والوں سے  میدہ خرید لیتے  جسے  وہ خود اپنے  لئے  مخصوص کر لیتے، باقی گھر والے  عموماً جو اور کھجوریں ہی کھاتے، میرے  چچا رفاعہ یزید نے  بھی شام کے  آئے  ہوئے  قافلے  سے  ایک بورا میدہ کا خریدا اور اپنے  بالا خانے  میں اسے  محفوظ کر دیا جہاں ہتھیار زرہیں  تلواریں وغیرہ بھی رکھی ہوئی تھیں رات کو چوروں نے  نیچے  سے  نقب لگا کر اناج بھی نکال لیا اور ہتھیار بھی چرا لے  گئے، صبح میرے  پاس آئے  اور سارا واقعہ بیان کیا، اب ہم نجس کرنے  لگے  تو پتہ چلا کہ آج رات کو بنو بیرق کے  گھر میں آگ جل رہی تھی اور کچھ کھا پکار رہے  تھے  غالباً وہ تمہارے  ہاں سے  چوری کر گئے  ہیں، اس سے  پہلے  جب اپنے  گھرانے  والوں سے  پوچھ گچھ کر رہے  تھے  تو اس قبیلے  کے  لوگوں نے  ہم سے  کہا تھا کہ تمہارا چور لبید بن سہل ہے، ہم جانتے  تھے  کہ لبید کا یہ کام نہیں  وہ ایک دیانتدار سچا مسلمان شخص تھا۔ حضرت لبید کو جب یہ خبر ملی تو وہ آپے  سے  باہر ہو گئے  تلوار تانے  بنو ابیرق کے  پاس آئے  اور کہنے  لگے  یا تو تم میری چوری ثابت کر ورنہ میں تمہیں  قتل کر دونگا ان لوگوں نے  ان کی برات کی اور معافی چاہ لی وہ چلے  گئے، ہم سب کے  سب پوری تحقیقات کے  بعد اس نتیجہ پر پہنچے  کہ چوری بنو ابیرق نے  کی ہے، میرے  چچا نے  مجھے  کہا کہ تم جا کر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر تو دو، میں نے  جا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سارا واقعہ بیان کیا اور یہ بھی کہا کہ آپ ہمیں ہمارے  ہتھیار دلوا دیجئے  غلہ کی واپسی کی ضرورت نہیں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  مجھے  اطمینان دلایا کہ اچھا میں اس کی تحقیق کروں گا، یہ خبر جب بنو ابیرق کو ہوئی تو انہوں نے  اپنا ایک آدمی آپ کے  پاس بھیجا جن کا نام اسید بن عروہ تھا انہوں نے  آ کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ تو ظلم ہو رہا ہے، بنو ابیرق کو ہوئی تو صلاحیت اور اسلام والے  لوگ ہیں  انہیں  قتادہ بن نعمان اور ان کے  چچا چور کہتے  ہیں  اور بغیر کسی ثوب اور دلیل کے  چور کا بدنما الزام ان پر رکھتے  ہیں  وغیرہ، پھر جب میں خدمت نبوی میں پہنچا تو آپ نے  مجھ سے  فرمایا یہ تو تم بہت برا کرتے  ہو کہ دیندار اور بھلے  لوگوں کے  ذمے  چوری چپکاتے  ہو جب کہ تمہارے  پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں، میں چپ چاپ واپس چلا آیا اور دل میں سخت پشیمان اور پریشان تھا خیال آتا تھا کہ کاش کہ میں اس مال سے  چپ چاپ دست بردار ہو جاتا اور آپ سے  اس کا ذکر ہی نہ کرتا تو اچھا تھا، اتنے  میں میرے  چچا آئے  اور مجھ سے  پوچھا تم نے  کیا کیا؟ میں نے  سارا واقعہ ان سے  بیان کیا جسے  بن کر انہوں نے  کہا اللّٰہ المستعان اللہ ہی سے  ہم مدد چاہتے  ہیں، ان کا جانا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی میں یہ آیتیں اتریں پس خائنین سے  مراد بنو ابیرق ہیں، آپ کو استغفار کا حکم ہوا یہ آپ نے  حضرت قتادہ کو فرمایا تھا، پھر ساتھ ہی فرما دیا گیا کہ اگر یہ لوگ استفغار کریں تو اللہ انہیں  بخش دے  گا، پھر فرمایا نا کردہ گناہ کے  ذمہ گناہ تھوپنا بدترین جرم ہے، اجرا عظیما تک یعنی انہوں نے  جو حضرت لبید کی نسبت کہا کہ چور یہ ہیں  جب یہ آیتیں اتریں تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  بنو ابریق سے  ہمارے  ہتھیارو دلوائے  میں انہیں  لے  کر اپنے  چچا کے  پاس آیا یہ بیچارے  بوڑھے  تھے  آنکھوں سے  بھی کم نظر آتا تھا مجھ سے  فرمانے  لگے  بیٹا جاؤ یہ سب ہتھیار اللہ کے  نام خیرات کر دو، میں آج تک اپنے  چچا کی نسبت قدرے  بدگمان تھا کہ یہ دل سے  اسلام میں پورے  طور پر داخل نہیں  ہوئے  لیکن اس واقعہ نے  بدگمانی میرے  دل سے  دور کر دی اور میں ان کے  سچے  اسلام کا قائل ہو گیا، بشیر یہ سن کر مشرکین میں جا ملا اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے  ہاں جا کر اپنا قیام کیا، اس کے  بارے  میں اس کے  بعد کی آیتیں ومن یشاقق الرسول سے  بعیدا تک نازل ہوئیں اور حضرت حسان نے  اس کے  اس فعل کی مذمت اور اس کی ہجو اپنے  شعروں میں کی، ان اشعار کو سن کر اس عورت کو بڑی غیرت آئی اور بشیر کا سب اسباب اپنے  سر پر رکھ کر ابطح میدان میں پھینک آئی اور کہا تو کوئی بھلائی لے  کر میرے  پاس نہیں  آیا بلکہ حسان کی ہجو کے  اشعار لے  کر آیا ہے  میں تجھے  اپنے  ہاں نہیں  ٹھہراؤں گی، یہ روایت بہت سی کتابوں میں بہت سی سندوں سے  مطول اور مختصر مروی ہے ۔ ان منافقوں کی کم عقلی کا بیان ہو رہا ہے  کہ وہ جو اپنی سیاہ کاریوں کو لوگوں سے  چھپاتے  ہیں  بھلا ان سے  کیا نتیجہ؟ اللہ تعالیٰ سے  تو پوشیدہ نہیں  رکھ سکتے، پھر انہیں  خبردار کیا جا رہا ہے  کہ تمہارے  پوشیدہ راز بھی اللہ سے  چھپ نہیں  سکتے، پھر فرماتا ہے  مانا کہ دنیوی حاکموں کے  ہاں جو ظاہر داری پر فیصلے  کرتے  ہیں  تم نے  غلبہ حاصل کر لیا، لیکن قیامت کے  دن اللہ کے  سامنے  جو ظاہر و باطن کا عالم ہے  تم کیا کر سکو گے ؟ وہاں کسے  وکیل بنا کر پیش کرو گے  جو تمہارے  جھوٹے  دعوے  کی تائید کرے، مطلب یہ ہے  کہ اس دن تمہاری کچھ نہیں  چلے  گی۔

۱۱۰

سچی توبہ کبھی مسترد نہیں ہوتی

اللہ تعالیٰ اپنا کرم اور اپنی مہربانی کو بیان فرماتا ہے  کہ جس گناہ سے  جو کوئی توبہ کرے  اللہ اس کی طرف مہربانی سے  رجوع کرتا ہے، ہر وہ شخص جو رب کی طرف جھکے  رب اپنی مہربانی سے  اور اپنی وسعت رحمت سے  اسے  ڈھانپ لیتا ہے  اور اس کے  صغیرہ کبیرہ گناہ کو بخشش دیتا ہے، چاہے  وہ گناہ آسمان و زمین اور پہاڑوں سے  بھی بڑے  ہوں، بنو اسرائیل میں جب کوئی گناہ کرتا تو اس کے  دروازے  پر قدرتی حروف میں کفارہ لکھا ہوا نظر آ جاتا جو اسے  ادا کرنا پڑتا اور انہیں  یہ بھی حکم تھا کہ ان کے  کپڑے  پر اگر پیشاب لگ جائے  تو اتنا کپڑا کتروا ڈالیں اللہ نے  اس اُمت پر آسانی کر دی پانی سے  دھو لینا ہی کپڑے  کی پاکی رکھی اور توبہ کر لینا ہی گناہ کی معافی، ایک عورت نے  حضرت عبد اللہ بن مفضل سے  سوال کیا کہ عورت نے  بدکاری کی پھر جب بچہ ہوا تو اسے  مار ڈالا آپ نے  فرمایا اس کی سزا جہنم ہے  وہ روتی ہوئی واپس چلی تو آپ نے  اسے  بلایا اور آیت ومن یعمل الخ، پڑھ کر سنائی تو اس نے  اپنے  آنسو پونچھ ڈالے  اور واپس لوٹ گئی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جس مسلمان سے  کوئی گناہ سرزد ہو جائے  پھر وہ وضو کر کے  دو رکعت نماز ادا کر کے  اللہ سے  استغفار کرے  تو اللہ اس کے  اس گناہ کو بخش دیتا ہے  پھر آپ نے  یہ آیت اور آیت والذین اذا فعلوافا حشۃ الخ، کی تلاوت کی۔ اس حدیث کا پورا بیان ہم نے  مسند ابوبکر میں کر دیا ہے  اور کچھ بیان سورہ آل عمران کی تفسیر میں بھی گزرا ہے، حضرت ٍابو درداء فرماتے  ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارک تھی کہ مجلس میں سے  اُٹھ کر اپنے  کسی کام کے  لئے  کبھی جاتے  اور واپس تشریف لانے  کا ارادہ بھی ہوتا جوتی یا کپڑا کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتے، ایک مرتبہ آپ اپنی جوتی چھوڑے  ہوئے  اُٹھے  ڈولچی پانی کی ساتھ لے  چلے  میں بھی آپ کے  پیچھے  ہو لیا آپ کچھ دور جا کر بغیر حاجت پوری کئے  واپس آئے  اور فرمانے  لگے ۔ میرے  پاس میرے  رب کی طرف سے  ایک آنے  والا آیا اور مجھے  یہ پیغام دے  گیا، پھر آپ نے  آیت ومن یعمل الخ، پڑھی اور فرمایا میں اپنے  صحابہ کو یہ خوشخبری سنانے  کے  لئے  راستے  میں ہی لوٹ آیا ہوں اس سے  پہلے  چونکہ آیت من یعمل سوایجزبہ یعنی ہر برائی کرنے  والے  کو اس کی برائی کا بدلہ ملے  گا اتر چکی تھی اس لئے  صحابہ بہت پریشان تھے، میں نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی نے  زنا کیا ہو؟ چور کی ہو؟ پھر وہ استفغار کرے  تو اسے  بھی اللہ بخش دے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں، میں نے  دوبارہ پوچھا آپ نے  کہا ہاں میں نے  سہ بارہ دریافت کیا تو آپ نے  فرمایا ہاں گو ابو دراداء کی ناک خاک آلود ہو، پس حضرت ٍابو درداء جب یہ حدیث بیان کرتے  اپنی ناک پر مار کر بتاتے ۔ اس کی اسناد ضعیف ہے  اور یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر فرمایا گناہ کرنے  والا اپنا ہی برا کرتا ہے  جیسے  اور جگہ ہے  کوئی دوسرے  کا بوجھ نہیں  اٹھائے  گا، ایک دوسرے  کو نفع نہ پہنچا سکے  گا، ہر شخص اپنے  کرتوت کا ذمہ دار ہے، کوئی بوجھ بٹائی نہ ہو گا، اللہ کا علم، اللہ کی حکمت اور الٰہی عدل و رحمت کے  خلاف ہے  کہ ایک گناہ کرے  اور دوسرا پکڑا جائے ۔ پھر فرماتا ہے  جو خود برا کام کر کے  کسی بے  گناہ کے  سر تھوپ دے  جیسے  بنو ابیرق نے  لبید کا نام لے  دیا جو واقعہ تفصیل وار اس سے  اگلی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکا ہے، یا مراد زید بن سمین یہودی ہے  جیسے  بعض اور مفسرین کا خیال ہے  کہ اس چوری کی تہمت اس قبیلے  نے  اس بے  گناہ شخص کے  ذمہ لگائی تھی اور خود ہی خائن اور ظلم تھے، آیت گو شانِ نزول کے  اعتبار سے  خاص ہے  لیکن حکم کے  اعتبار سے  عام ہے  جو بھی ایسا کرے  وہ اللہ کی سزا کا مستحق ہے ۔ اس کے  بعد کی آیت ولولا الخ، کا تعلق بھی اسی واقعہ سے  ہے  یعنی لبید بن عروہ اور ان کے  ساتھیوں نے  بنو ابیرق کے  چوروں کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  برات اور ان کی پاکدامنی کا اظہار کر کے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اصلیت سے  دور رکھنے  کا سارا کام پورا کر لیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے  جو آپ کی عصمت کا حقیقی نگہبان ہے  آپ کو اس خطرناک موقعہ پر خائنوں کی طرف داری سے  بچا لیا اور اصلی واقعہ صاف کر دیا۔ کتاب سے  مراد قرآن اور حکم سے  مراد سنت ہے ۔ نزول وحی سے  پہلے  آپ جو نہ جانتے  تھے  ان کا علم پروردگار نے  آپ کو بذریعہ وحی کر دیا جیسے  اور آیت میں ہے  وکذلک اوجینا الیک روحا من امرنا سے  پوری سوت تک اور آیت میں ہے  وما کنت ترجوا ان یلقی الیک الکتاب الخ، اسی لئے  یہاں بھی فرمایا۔ یہ سب باتیں اللہ کا فضل ہیں  جو آپ کے  شامل حال ہے ۔

۱۱۴

اچھے کاموں کی دعوت اور برے کاموں سے روکنے کے علاوہ تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں

لوگوں کے  اکثر کلام بے  معنی ہوتے  ہیں  سوائے  ان کے  جن کی باتوں کا مقصد دوسروں کی بھلائی اور لوگوں میں میل ملاپ کرانا ہو، حضرت سفیان ثوری کی عیادت کے  لئے  لوگ جاتے  ہیں  ان میں سعید بن حسان بھی ہیں  تو آپ فرماتے  ہیں  سعید تم نے  ام صالح کی روایت سے  جو حدیث بیان کی تھی آج اسے  پھر سناؤ، آپ سندبیان کر کے  فرماتے  ہیں  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا انسان کی تمام باتیں قابل مواخذہ ہیں  بجز اللہ کے  ذکر اور اچھے  کاموں کے  بتانے  اور برے  کاموں سے  روکنے  کے، حضرت سفیان نے  کہا یہی مضمون اس آیت میں ہے، یہی مضمون آیت یوم یقول الروح الخ، میں ہے  یہی مضمون سورہ والعصر میں ہے  مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے  کہ لوگوں کی آپس میں محبت بڑھانے  اور صلح صفائی کے  لئے  جو بھی بات کہے  اِدھر کہنے  کی تین صورتوں میں اجازت دیتے  ہوئے  سنا ہے  "جہاد کی ترغیب میں، لوگوں میں صلح کرانے  اور میاں بیوی کو ملانے  کی صورت میں " یہ ہجرت کرنے  والیوں اور بیعت کرنے  والیوں میں سے  ہیں ۔ ایک اور حدیث میں وہ کیا میں تمہیں  ایک ایسا عمل بتاؤں ؟ جو روزہ نماز اور صدقہ سے  بھی افضل ہے  لوگوں نے  خواہش کی تو آپ نے  فرمایا وہ آپس میں اصلاح کرانا ہے  فرماتے  ہیں  اور پس کا فساد نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے  (ابوداؤد وغیرہ) بزار میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت ابو ایوب سے  فرمایا آمیں تجھے  ایک تجارت بتاؤں لوگ جب لڑ جھگڑے  رہے  ہوں تو ان میں مصالحت کرا دے  جب ایک دوسرے  سے  رنجیدہ ہوں تو انہیں  ملا دے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ ایسی بھلی باتیں رب کی رضامندی خلوص اور نیک نیتی سے  جو کرے  وہ اجر عظیم پائے  گا۔ جو شخص غیر شرعی طریق پر چلے  یعنی شرعی طریق پر چلے  یعنی شرع ایک طرف ہو اور اس کی راہ ایک طرف ہو۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کچ ہو اور اس کا مقصد عمل ہو۔ حالانکہ اس پر حق واضح ہو چکا ہو دلیل دیکھ چکا ہو پھر بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کر کے  مسلمانوں کی صاف راہ سے  ہٹ جائے  تو ہم بھی اسے  ٹیڑھی اور بری راہ پر ہی لگا دیتے  ہیں  اسے  وہی غلط راہ اچھی اور بھلی معلوم ہونے  لگتی ہے  یہاں تک کہ بیچوں جہنم میں جا پہنچتا ہے ۔ مومنوں کی راہ کے  علاوہ راہ اختیار کرنا دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اور دشمنی کے  مترادف ہے  جو کبھی تو شارع علیہ السلام کی صاف بات کے  خلاف اور کبھی اس چیز کے  خلاف ہوتا ہے  جس پر ساری اُمت محمدیہ متفق ہے  جس میں انہیں  اللہ نے  بوجہ ان کی شرافت و کرامت کے  محفوظ کر رکھا ہے ۔ اس بارے  میں بہت سی حدیثیں بھی ہیں  اور ہم نے  بھی احادیث اصول میں ان کا بڑا حصہ بیان کر دیا ہے، بعض علماء تو اس کے  تواتر معنی کے  قائل ہیں، حضرت امام شافعی غور و فکر کے  بعد اس آیت سے  اُمت کے  اتفاق کی دلیل ہونے  پر استدلال کیا ہے  حقیقتاً یہی موقف بہترین اور قوی تر ہے، بعض دیگر ائمہ نے  اس دلالت کو مشکل اور دور از آیت بھی بتایا ہے، غرض ایسا کرنے  والے  کی رسی اللہ میاں بھی ڈھیلی چھوڑ دیتے  ہیں ۔ جیسے  فرمان ہے  سنستدر جھم اور فلمازاغوا اور نذرھم یعنی ہم ان کی بے  خبری میں آہستہ آہستہ مہلت بڑھاتے  رہتے  ہیں، ان کے  بہکتے  ہی ہم بھی ان کے  دلوں کو ٹیڑھا کر دیتے  ہیں، ہم انہیں  ان کی سرکشی میں گم چھوڑ دیتے  ہیں، بالاخر ان کے  جائے  بازگشت جہنم بن جاتی ہے  جیسے  فرمان ہے  ظالموں کو ان کے  ساتھیوں کے  ساتھ قبروں سے  اٹھائیں گے، اور جیسے  فرمایا ظالم آگ کو دیکھ کر جان لے  گا کہ اس میں کودنا پڑے  گا لیکن کوئی صورت چھٹکارے  کی نہ پائے  گی۔

۱۱۶

مشرک کی پہچان اور ان کا انجام

اس سورت کے  شروع میں پہلی آیت کے  متعلق ہم پوری تفسیر کر چکے  ہیں  اور وہیں  اس آیت سے  تعلق رکھنے  والی حدیثیں بھی بیان کر دی ہیں، حضرت علی فرمایا کرتے  تھے  قرآن کی کوئی آیت مجھے  اس آیت سے  زیادہ محبوب نہیں  (ترمذی) مشرکین سے  دنیا اور آخرت کی بھلائی دور ہو جاتی ہے  اور وہ راہ حق سے  دور ہو جاتے  ہیں  وہ اپنے  آپ کو اور اپنے  دونوں جہانوں کو برباد کر لیتے  ہیں، یہ مشرکین عورتوں کے  پرستار ہیں، حضرت کعب فرماتے  ہیں  ہر صنم کے  ساتھ ایک جنبیہ عورت ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں  اِنَاثًا سے  مراد بت ہیں، یہ قول اور بھی مفسرین کا ہے، ضحاک کا قول ہے  کہ مشرک فرشتوں کو پوجتے  تھے  اور انہیں  اللہ کی لڑکیاں مانتے  تھے  اور کہتے  تھے  کہ ان کی عبادت ہے  ہماری اصل غرض اللہ عزوجل کی نزدیکی حاصل کرنا ہے  اور ان کی تصویریں عورتوں کی شکل پر بناتے  تھے  پھر حکم کرتے  تھے  اور تقلید کرتے  تھے  اور کہتے  تھے  کہ یہ صورتیں فرشتوں کی ہیں  جو اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہ تفسیر آیت افرایتم الات الخ، کے  مضمون سے  خوب ملتی ہے  جہاں ان کے  بتوں کے  نام لے  کر اللہ تعالیٰ نے  فرمایا ہے  کہ یہ خوب انصاف ہے  کہ لڑکے  تو تمہارے  اور لڑکیاں میری؟ اور آیت میں ہے  وجعلوا الملانکۃ الذین عبادالرحمن اناثا الخ، ان لوگوں نے  اللہ تعالیٰ اور جنات میں نسب نکالے  ہیں، ابن عباس فرماتے  ہیں  مراد مردے  ہیں، حسن فرماتے  ہیں  ہر بے  روح چیز اناث ہے  خواہ خشک لکڑی ہو خواہ پتھر ہو، لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر ارشاد ہے  کہ دراصل یہ شیطانی پوجا کے  پھندے  میں تھے، شیطان کو رب نے  اپنی رحمت سے  کر دیا اور اپنی بارگاہ سے  نکال باہر کیا ہے، اس نے  بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے  کہ اللہ کے  بندوں کو معقول تعداد میں بہکائے، قتادہ فرماتے  ہیں  یعنی ہر ہزار میں سے  نو سو ننانوے  کو جنم میں اپنے  ساتھ لے  جائے  گا، ایک بچ رہے  گا جو جنت کا مستحق ہو گا، شیطان نے  کہا ہے  کہ میں انہیں  حق سے  بہکاؤں گا اور انہیں  اُمید دلاتا رہوں گا یہ توبہ ترک کر بیٹھیں گے، خواہشوں کے  پیچھے  پڑ جائیں گے  موت کو بھول بیٹھیں گے  نفس پروری اور آخرت سے  غافل ہو جائیں گے، جانوروں کے  کان کا کر یا سوراخ دار کر کے  اللہ کے  سوا دوسروں کے  نام کرنے  کی انہیں  تلقین کروں گا، اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑنا سکھاؤں گا جیسے  جانوروں کو خصی کرنا۔ ایک حدیث میں اس سے  بھی ممانعت آئی ہے  (شاہد مراد اس سے  نل منقطع کرنے  کی غرض سے  ایسا کرنا ہے) ایک معنی یہ بھی کئے  گئے  ہیں  کہ چہرے  پر گودنا گدوانا، جو صحیح مسلم کی حدیث میں ممنوع ہے  اور جس کے  کرنے  والے  پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے، ابن مسعود سے  صحیح سند سے  مروی ہے  کہ گود نے  والیوں اور گدوانے  والیوں، پیشانی کے  بال نوچنے  والیوں اور نچوانے  والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے  والیوں پر جو حسن و خوبصورتی کے  لئے  اللہ کی بناوٹ کو بگاڑتی ہیں  اللہ کی لعنت ہے  میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں ؟ جن پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  لعنت کی ہے  اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے  پھر آپ نے  آیت ومااتا کم الرسول الخ، پڑھی بعض اور مفسرین کرام سے  مروی ہے  کہ مراد اللہ کے  دین کو بدل دینا ہے  جیسے  اور آیت میں ہے  فاقم وجھک للذین حنیفافطرۃ اللہ التی فرطا الناس علیھالا تبدیل لخلق اللہ یعنی اپنا چہرہ قائم رکھ کر اللہ کے  یکطرفہ دین کا رخ اختیار کرنا یہ اللہ کی وہ فطرت ہے  جس پر تمام انسانوں کو اس نے  پیدا کیا ہے  اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں، اس سے  پچھلے  (آخری) جملے  کو اگر امر کے  معنی میں لیا جائے  تو یہ تفسیر ٹھیک ہو جاتی ہے  عینی اللہ کی فطرف کو نہ بدلو لوگوں کو میں نے  جس فطرت پر پیدا کیا ہے  اسی پر رہنے  دو، بخاری و مسلم میں ہے  ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے  لیکن اس کے  ماں باپ پھر اسے  یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے  ہیں  جیسے  بکری کا صحیح سالم بچہ بے  عیب ہوتا ہے  لیکن پھر لوگ اس کے  کان وغیرہ کاٹ دیتے  ہیں  اور اسے  عیب دار کر دیتے  ہیں، صحیح مسلم میں ہے  اللہ عزوجل فرماتا ہے  میں نے  اپنے  بندوں کو یکسوئی والے  دین پر پیدا کیا لیکن شیطان نے  آ کر انہیں  بہکا دیا پھر میں نے  اپنے  حلال کو ان پر حرام کر دیا۔ شیطان کو دوست بنانے  والا اپنا نقصان کرنے  والا ہے  جس نقصان کی کبھی تلافی نہ ہو سکے ۔ کیونکہ شیطان انہیں  سز باغ دکھاتا رہتا ہے  غلط راہوں میں ان کی فلاح و بہود کا یقین دلاتا ہے  دراصل وہ بڑا فریب اور صاف دھوکا ہوتا ہے، چنانچہ شیطان قیامت کے  دن صاف کہے  گا اللہ کے  وعدے  سچے  تھے  اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تم پر تھا ہی نہیں  میری پکار کو سنتے  ہی کیوں تم مست و بے  عقل بن گئے ؟ اب مجھے  کیوں کوستے  ہو؟ اپنے  آپ کو برا کہو۔ شیطانی وعدوں کو صحیح جاننے  والے  اس کی دلائی ہوئی اُمیدوں کو پوری ہونے  والی سمجھنے  والے  آخرش جہنم واصل ہو ں گے  جہاں سے  چھٹکارا محال ہو گا۔ ان بدبختوں کے  ذکر کے  بعد اب نیک لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے  کہ جو دل سے  میرے  ماننے  والے  ہیں  اور جسم سے  میر تابعداری کرنے  والے  ہیں  میرے  احکام پر عمل کرتے  ہیں  میر منع کردہ چیزوں سے  باز رہتے  ہیں  میں انہیں  اپنی نعمتیں دوں گا انہیں  جنتوں میں لے  جاؤں گا جن کی نہریں جہاں یہ چاہیں  خود بخود بہنے  لگیں جن میں زوال، کمی یا نقصان بھی نہیں  ہے، اللہ کا یہ وعدہ اصل اور بالکل سچا ہے  اور یقیناً ہونے  والا ہے  اللہ سے  زیادہ سچی بات اور کس کی ہو گی؟ اس کے  سوا کوئی معبود برحق نہیں  نہ ہی کوئی اس کے  سوا مربی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے  خطبے  میں فرمایا کرتے  تھے  سب سے  زیادہ سچی بات اللہ کا کلام ہے  اور سب سے  بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت ہے  اور تمام کاموں میں سب سے  برا کام دین میں نئی بات نکالنا ہے  اور ہر ایسی نئی بات کا نام بدعت ہے  اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ۔

۱۲۳

صائب گناہوں کا کفارہ

حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  ہم سے  ذکر کیا گیا کہ اہل کتاب اور مسلمان میں چرچہ ہونے  لگا اہل کتاب تو یہ کہ کر اپنی فضلیت جتا رہے  تھے  کہ ہمارے  نبی تمہارے  نبی سے  پہلے  کے  ہیں  اور ہماری کتاب بھی تمہاری کتاب سے  پہلے  کی ہے  اور مسلمان کہہ رہے  تھے  کہ ہمارے  نبی خاتم الانبیاء ہیں  اور ہماری کتاب تمام اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے  والے  وے  اس پر یہ آیتیں اتریں اور مسلمانوں کی سابقہ دین والوں پر فضلیت بیان ہوئی، مجاہد سے  مروی ہے  کہ عرب نے  کہا نہ تو ہم مرنے  کے  بعد جئیں گے  نہ ہمیں عذاب ہو گا یہودیوں نے  کہا صرف ہم ہی جنتی ہیں، یہی قول نصرانیوں کا بھی تھا اور کہتے  تھے  آگ ہمیں صرف چند دن ستائے  گی، آیت کا مضمون یہ ہے  کہ صرف اظہار کرنے  اور دعویٰ کرنے  سے  صداقت و حقانیت ثابت نہیں  ہوتی بلکہ ایماندار وہ ہے  جس کا دل صاف ہو اور عمل شاہد ہوں اور اللہ تعالیٰ کی دلیل اس کے  ہاتھوں میں ہو، تمہاری خواہشیں اور زبانی دعوے  کوئی وقعت نہیں  رکھتے  نہ اہل کتاب کی تمنائیں اور بلند باتیں، نجات کا مدار ہیں  بلکہ وقار و نجات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی فرماں برداری اور رسولوں کی تابعداری میں ہے، برائی کرنے  والے  کسی نسبت کی وجہ سے  اس برائی کے  خمیازے  سے  چھوٹ جائیں ناممکن ہے  بلکہ رتی رتی بھلائی اور برائی قیامت کے  دن اپنی آنکھوں سے  اپنے  سامنے  دیکھ لیں گے، یہ آیت صحابہ پر بہت گراں گزری تھی اور حضرت صدیق نے  کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اب نجات کیسے  ہو گی؟ جبکہ ایک ایک عمل کا بدلہ ضروری ہے  تو آپ نے  فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے  بخشے  ابوبکر یہ سزا وہی ہے  جو کبھی تیری بیماری کی صورت میں ہوتی ہے  کبھی تکلیف کی صورت میں کبھی صدمے  اور غم ورنج کی صورت میں اور کبھی بلاؤ مصیبت کش شکل میں (مسند احمد) اور روایت میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ہر برائی کرنے  والا دنیا میں بدلہ پالے  گا۔ ابن مردویہ میں ہے  حضرت عبد اللہ بن عمر نے  اپنے  غلام سے  فرمایا دیکھو جس جگہ حضرت عبد اللہ بن زبیر کو سولی دی گئی ہے  وہاں تم نہ چلنا، غلام بھول گیا، اب حضرت عبد اللہ کی نظر ابن زبیر پر پڑی تو فرمانے  لگے  والہل جہاں تک میری معلومات ہیں  میری گواہی ہے  کہ تو روزے  دار اور نمازی اور رشتے  ناتے  جوڑے  والا تھا مجھے  اللہ سے  اُمید ہے  کہ جو لغزشیں تجھ سے  ہو گئیں ان کا بدلہ دنیا میں ہی مکمل ہو اب تجھے  اللہ کوئی عذاب نہیں  دے  گا پھر حضرت مجاہد کی طرف دیکھ کر فرمانے  لگے  میں نے  حضرت ابوبکر سے  سنا ہے  وہ فرماتے  تھے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  میں نے  سنا جو شخص برائی کرتا ہے  اس کا بدلہ دنیا میں ہی پالیتا ہے، دوسری روایت میں ہے  کہ حضرت ابن عمر نے  حضرت ابن زبیر کو سولی پر دیکھ کر فرمایا اے  ابوحبیب اللہ تجھ پر حم کرے  میں نے  تیرے  والد کی زبان سے  یہ حدیث سنی ہے، ابن مردویہ غم ناک ہو گئے  انہیں  یہ معلوم ہونے  لگا کہ گویا ہر ہر عمل کا بدلہ ہی ملنا جب ٹھہرا تو تو نجات مشکل ہو جائے  گی آپ نے  فرمایا سنو صدیق تم اور تمہارے  ساتھی یعنی مومن تو دنیا میں ہی بدلہ دئے  جاؤ گے  اور ان مصیبتوں کے  باعث تمہارے  گناہ معاف ہو جائیں گے  قیامت کے  دن پاک صاف اٹھو گے  ہاں اور لوگ کی برائیاں جمع ہوتی جاتی ہیں  اور قیامت کے  دن انہیں  سزا دی جائے  گی، یہ حدیث ترمدذی نے  بھی روایت کی ہوے  اور کہا ہے  کہ اس کاروای موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہے  اور دوسرا روای مولی بن سباع مجہول ہے  اور بھی بہت سے  طریق سے  اس روایت کا ماحصل مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت عائشہ نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ آیت سب سے  زیادہ ہم پر بھاری پڑتی ہے  تو آپ نے  فرمایا مومن کا یہ بدلہ وہی ہے  جو مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکلیفوں کی صورت میں اسے  دنیا میں ہی مل جاتا ہے  اور حدیث میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا یہاں تک کہ مومن اپنی نقدی جیب میں رکھ لے  پھر ضرورت کے  وقت تلاش کرے  تھوڑی دیر نہ ملے  پھر جیب میں ہاتھ ڈالنے  سے  نکل آئے  تو اتنی دیر میں جو اسے  صدمہ ہوا اس سے  بھی اس کے  گناہ معاف ہوتے  ہیں  اور یہ بھی اس کی برائیوں کا بدلہ ہو جاتا ہے  یونہی مصائب دنیا اسے  یونہی مصائب دنیا اسے  کندن بنا دیتے  ہیں  کہ قیامت کا کوئی بوجھ اس پر نہیں  رہتا جس طرح سونا بھٹی میں تپا کر نکال لیا جائے  اس طرں دنیا میں پاک صاف ہو کر اللہ کے  پاس جاتا ہے، ابن مردویہ میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  اس آیت کے  بارے  میں سوال کیا گیا تو آپ نے  فرمایا مومن کو ہر چیز میں اجر دیا جاتا ہے  یہاں تک کہ موت کی سختی کا بھی، مسند احمد میں ہے  جب بندے  کے  گناہ زیادہ ہو جاتے  ہیں  اہو انہیں  دور کرنے  والے  بکثرت نیک اعمال ہوتے  ہیں  تو اللہ اس پر کوئی غم ڈال دیتا ہے  جس سے  اس کے  گناہ معاف ہو جاتے  ہیں، سعیدین منصور لائے  ہیں  کہ جب صحابہ پر اس آیت کا مضمون گراں گزرا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان سے  فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو اور ملے  جلے  رہو مسلمان کی ہر تکلیف اس کے  گناہ کا کفارہ ہے  یہاں تک کہ کانٹے  کا لگنا بھی اس سے  کم تکلیف بھی روایت میں ہے  کہ جب صحابہ رو رہے  تھے  اور رنج میں تھے  اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان سے  یہ فرمایا، ایک شخص نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا کہ ہماری ان بیماریوں میں ہمیں کیا ملتا ہے ؟ آپ نے  فرمایا یہ تمہارے  گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں " اسے  بن کر حضرت کعب بن عجزہ نے  دعا مانگی کہ یا اللہ مرتے  دم تک مجھ سے  بخار جدا نہ ہو لیکن حج وعمہ جہاد اور نماز با جماعت سے  محروم نہ ہوں ان کی یہ دعا قبول ہوئی جب ان کے  جسم پر ہاتھ لگایا جاتا تو بخار چڑھا رہتا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ (مسند) حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ایک مرتبہ کہا گیا کہ کیا ہر برائی کا بدلہ دیا جائے  گا؟ آپ نے  فرمایا ہاں، اسی جیسا اور اسی جتنا لیکن ہر بھلائی کا بدلہ دس گنا کر کے  دیا جائیگا پس اس پر افسوس ہے  جس کی اکائیاں دہائیوں سے  بڑھ جائیں، (ابن مردویہ) حضرت حسن فرماتے  ہیں  اس سے  مراد کافر ہیں  جیسے  اور آیت میں ہے  وھل نجازی الا الکفور ابن عباس اور سعید بن جبیر فرماتے  ہیں  یہاں برائی سے  مراد شرک ہے ۔ یہ شخص اللہ کے  سوا اپنا کوئی ولی اور مددگار نہ پائے  گا، ہاں یہ اور بات ہے  کہ توبہ کر لے ، امام ابن جری فرماتے  ہیں  ٹھیک بات یہی ہے  کہ ہر برائی کو یہ آیت شامل ہے  جیسے  کہ احادیث گزر چکیں واللہ اعلم۔ بدعملیوں کی سزا کا ذکر کرے  اب نیک اعمال کی جزا کا بیان فرما رہا ہے  بدی یک سزا یا تو دنیا میں ہی ہو جاتی ہے  اور بندے  کے  لئے  یہی اچھا یا آخرت میں ہوتی ہے  اللہ اس سے  محفوظ رکھے، ہم اللہ تعالیٰ سے  سوال کرتے  ہیں  کہ وہ ہمیں دونوں جہان کی عافیت عطا فرمائے  اور مہربانی اور درگزر کرے  اور اپنی پکڑ اور ناراضگی سے  بچالے، اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے  اور اپنے  احسان و کر ورحم سے  انہیں  قبول کرتا ہے  کسی مرد عورت کے  کسی نیک عمل کو وہ ضائع نہیں  کرتا ہاں یہ شرط ہے  کہ کوہ ایماندار ہو، ان نیک لوگوں کو وہ اپنی جنت میں داخل کرے  گا اور ان کی حسنات میں کوئی کمی نہیں  آنے  دے  گا، فتیل کہتے  ہیں  اس گٹھلی کے  درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے  اس کو مگر یہ دونوں تو کھجور کے  بیج میں ہوتے  ہیں  اور قطمیر کہتے  ہیں  اس بیج کے  اوپر کے  لفافے  کو اور یہ تینوں لفظ اس موقعہ پر قرآن میں آئے  ہیں ۔ پھر فرمایا اس سے  اچھے  دین والا کون ہے ؟ جو نیک نیتی کے  ساتھ اس کے  فرمان کے  مطابق اس کے  احکام بجا لائے  اور ہو بھی وہ محسن یعنی شریعت کا پابند دین حق اور ہدایت پر چلنے  والا رسول کی حدیث پر عمل کرنے  والا ہر نیک عمل کی قبولیت کے  لئے  یہ دونوں باتیں شرط ہیں  یعنی خلوص اور وحی کے  مطابق ہونا، خلوص سے  یہ مطلب کہ فقط اللہ کی رضامندی مطلوب ہو اور ٹھیک ہونان یہ ہے  کہ شرعیت کی ماتحتی میں ہو، پس ظاہر تو قرآن حدیث کے  موافق ہونے  سے  ٹھیک ہو جاتا ہے  اور باطن نیک نیتی سے  سنور جاتا ہے، اگر ان دو باتوں میں سے  ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل فاسد ہوتا ہے، اخلاص نہ ہونے  سے  منافقت آجاتی ہے  لوگوں کی رضا جوئی اور انہیں  کھانا مقصود ہو جاتا ہے  اور عمل قابل قبول نہیں  رہتا سنت کے  موافق نہ ہونے  سے  ضلالت وجہالت کا مجموعہ ہو جات ہے  اور اس سے  بھی عمل پایہ قبولیت سے  گر جاتا ہے  اور چونکہ مومن کا عمل ریاکاری اور شرعیت کے  مخالفت سے  بچا ہوا ہوتا ہے  اس لئے  اس کا عمل سب سے  اچھا عمل ہو جاتا ہے  جو اللہ کو پسند آتا ہے  اور اس کی جزا کا بلکہ اور گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے ۔ 

اعزاز خلیل کیوں اور کیسے ملا؟

اسی لئے  اس کے  بعد ہی فرمایا ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کرو یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اور آپ کے  قدم بہ قدم چلنے  والوں کی بھی قیامت تک ہوں، جیسے  اور آیت میں ہے  ان اولی الناس بابراھیم الخ، یعنی ابراہیم علیہ السلام سے  قریب تر وہ لوگ ہیں  جو ان کے  ہر حکم یک تعمیل کرتے  رہے  اور نبی ہوئے ۔ دوسری آیت میں فرمایا ثم اوجینا الیک الخ، پھر ہم نے  تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم حنیف کی مل کی پیروی کر جو مشرک نہ تھے، حنیف کہتے  ہیں  قصداً شرک سے  بیزار اور پوری طرح حق کی طرف متوجہ ہونے  والا جسے  کوئی روکنے  والا روک نہ سکے  اور کوئی ہٹانے  والا ہٹا نہ سکے ۔ پھر حضرت خلیل اللہکی اتباع کی تاکید اور ترغیب کے  لئے  ان کا وصف بیان کیا کہ وہ اللہ کے  دوست ہیں، یعنی بندہ ترقی کر کے  جس اعلیٰ سے  اعلیٰ درجے  تک پہنچ سکتا ہے  اس تک وہ پہنچ گئے  خلت کے  درجے  سے  کوئی بڑا درجہ نہیں  محبت کا یہ اعلیٰ تر مقام ہے  اور یہاں تک حضرت ابراہیم عروج کر گئے  ہیں  اس کی وجہ کی کامل اطاعت ہے  جیسے  فرمان ہے  وابراھیم الذی وی o یعنی ابراہیم کو جو حکم ملا وہ اسے  بخوشی بجا لائے، کبھی اللہ کی مرضی سے  منہ نہ موڑا، کبھی عبادت سے  نہ اکتائے  کوئی چیز نہیں  عبادت الہیہ سے  مانع نہ ہوئی اور آیت میں ہے  واذاہتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن الخ، جب جب جس جس طرح اللہ عزاسمہ نے  ان کی آزمائش لی وہ پورے  اترے  جو جو اللہ تعالیٰ نے  فرمایا انہوں نے  دکھایا۔ فرمان ہے  کہ ابراہیم مکمل یکسوئی سے  توحید کے  رنگ میں شرک سے  بچتا ہوا ہمارا تابع فرمان بنا رہا۔ حضرت معاد نے  یمن میں صبح کی نماز میں جب یہ آیت پڑھی تو ایک شخص نے  کہا لقدقررت عین ام الراہیم ابراہیم کی ماں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، بعض لوگ کہتے  ہیں  کہ خلیل اللہ لقب کی یہ وجہ ہوئی کہ ایک مرتبہ قحط سالی کے  موقعہ پر آپ اپنے  ایک دوست کے  پاس مصر میں یا موصل میں گئے  تاکہ وہاں سے  کچھ اناج غلہ لے  آئیں یہاں کچھ نہ ملا خالی ہات لوٹے  جب اپنی بستی کے  قریب پہنچے  تو خیال آیا آؤ اس ریت کے  تودے  میں سے  اپنی بوریاں بھر کر لے  چلو تاکہ گر والوں کو قدرے  تسکین ہو جائے  چنانچہ بھر لیں اور جانوروں پر لاد کے  لے  چلے، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے  وہ ریت سچ مچ آٹا بن گئی آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ رہے  تھے  کہ ہارے  تہ تھے  ہی آنکھ لگ گئی گھر والوں نے  بوریاں کھولیں اور انہیں  بہترین آٹے  بھر ہوا پایا آٹا گوندھا روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے  اور گھر میں سب کو خوش خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے  پوچھنے  لگے  آٹا کہاں سے  آیا؟ جو تو تم نے  روٹیاں پکائیں انہوں نے  کہا آپ ہی تو اپنے  دوست کے  ہاں سے  لائے  ہیں  اب آپ سمجھ گئے  اور فرمایا ہاں یہ میں اپنے  دوست اللہ عزوجل سے  لایا ہوں پس اللہ نے  بھی آپ کو اپنا دووست بنا لیا اور خلیل اللہ نام رکھ دیا، لیکن اس کی صحت اور اس واقعہ میں ذرا تامل ہے، زیادہ سے  زیادہ یہ ہے  کہ یہ بنی اسرائی کی روایت ہو جسے  ہم سچا نہیں  کہہ سکتے  گو جھٹلا بھی نہیں  سکتے  حقیقت یہ ہے  کہ آپ کہ یہ لقب اس لئے  ملا کہ آپ کے  دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت حد درجہ کی تھی کامل اطاعت شعاری اور فرمانبرداری تھی اپنی عبادتوں سے  اللہ تعالیٰ کو خوش کر لیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے  بھی اپنے  آخری خطبہ میں فرمایا تھا، لوگو اگر میں زمین والوں میں سے  کسی کو خلیل اور ولی دوست بنانے  والا ہوتا تو ابکر بن ابو قحافہ کو بناتا بلکہ تمہارے  ساتھی اللہ تعالیٰ نے  خلیل ہیں، (بخاری مسلم) اور روایت میں ہے  اللہ اعلیٰ وا کرم نے  جس طرح ابراہیم کو خلیل بنا لیا تھا اسی طرح مجھے  بھی اپنا خلیل کر لیا ہے ، ایک مرتبہ اصحاب رسول آپ کے  انتظار میں بیٹھے  ہوئے  آپ میں ذکر تذکرے  کررہے  تھے  ایک کہہ رہا تھا تعجب ہے  کہ اللہ نے  اپنی مخلوق میں سے  حضرت ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا دوسرے  نے  کہا اس سے  بھی بڑھ کر مہربانی یہ کہ حضرت موسیٰ سے  خود باتیں کیں اور انہیں  کلیم بنایا، ایک نے  کہا اور عیسیٰ تو روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہے ، ایک نے  کہا آدم صفی اللہ اور اللہ تعالیٰ کے  پسندیدہ ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب باہر تشریف لائے  سلام کیا اور یہ باتیں سنیں تو فرمایا بیشک تمہارا قول صحیح ہے، ابراہیم خلیل اللہ ہیں  اور موسیٰ کلیم اللہ ہیں  اور عیسیٰ رو اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں  اور دم صفی اللہ ہیں  اور اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، مگر میں حقیقت بیان کرتا ہوں کچھ فخر کے  طور پر نہیں  کہتا کہ میں حبیب اللہ ہو، میں سب سے  پہلا شفاعت کرنے  والا ہوں اور سب سے  پہلے  شفاعت قبول کیا جانے  والا ہوں اور سب سے  پہلے  جنت کے  دروازے  پر دستک دینے  والا ہوں اللہ میرے  لئے  جنت کو کھول دے  گا اور مجھے  اس میں داخل کرے  گا اور میرے  ساتھ مومن فقراء ہوں گے  قیامت کے  دن تمام اگلوں پچھلوں سے  زیادہ ا کرام و عزت والا ہوں یہ بہ بطورفخر کے  نہیں  بلکہ بطور سچائی کو معلوم کرانے  کیلئے  میں تم سے  کہہ رہا ہوں، یہ حدیث اس سند سے  تو غریب ہے  لیکن اس کے  بعض کے  شاہد موجود ہیں ۔ حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  کیا تم اس سے  تعجب کرتے  ہو کہ خلت صرف حضرت ابراہیم کے  لئے  تھی اور کلام حضرت موسیٰ کے  لئے  تھا اور دیدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے  لئے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیھم اجمعین (مستدرک حاکم) اسی طرح کی روایت حضرت انس بن مالک اور بہت سے  صحابہ تابعین اور سلف وخلف سے  مروی ہے، ابن ابی حاتم میں ہے  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ مہانوں کیساتھ کھائیں ۔ ایک دن آپ مہمان کی جستجو میں نکلے  لیکن کوئی نہ ملا واپس آئے  گھر میں داخل ہوئے  تو دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے  پوچھاے  اللہ کے  بندے  تجھے  میرے  گھر میں آنے  کی اجازت کس نے  دی؟ اس نے  کہا اس مکان کے  حقیقی مالک نے ، پوچھا تم کون ہو؟ کہا میں ملک الموت ہوں مجھے  اللہ تعالیٰ نے  اپنے  ایک بندے  کے  پاس اس لئے  بھیجا ہے  کہ میں اسے  یہ بشارت سنا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے  اسے  پانا خلیل بنا لیا ہے، یہ سن کر حضرت نے  کہا پھر تو مجھے  ضرور بتائیے  کہ وہ بزرگ کون ہیں ؟ اللہ عزوجل کی قسم اگر وہ زمین کے  کسی دور کے  گوشے  میں بھی ہوں گے  میں ضرور جا کر ان سے  ملاقات کروں گا پھر دریافت فرمایا کیا سچ مچ میں ہی ہوں ؟ فرشیت نے  کہا ہاں آپ ہی ہیں ۔ آپ نے  پھر دریافت فرمایا کہ آپ مجھے  یہ بھی بتائیں گے  کہ کس بنا پر کن کاموں پر اللہ تعالیٰ نے  مجھے  اپنا خلیل بنایا؟ فرشتے  نے  فرمایا اس لئے  کہ تم ہر ایک کو دیتے  رہتے  ہو اور خود کسی سے  کچھ طلب نہیں  کرتے  اور روایت میں ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خلیل اللہ کے  ممتاز اور مبارک لقب سے  اللہ نے  ملقب کیا تب سے  تو ان کے  دل میں اس قدر خوف رب اور ہیبت رب سما گئی کہ ان کے  دل کا اچھلنا دور سے  اس طرح سنا جاتا تھا جس طرح فضا میں پرند کے  پرواز کی آواز۔ صحیح حدیث میں جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت بھی وارد ہے  کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آپ پر غالب آ جاتا تھا تو آپ کے  رونے  کی آواز جسے  آپ ضبط کرتے  جاتے  تھے  اس طرح دور و نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی جیسے  کسی ہنڈیا کے  کھولنے  کی آواز ہو۔ پھر فرمایا کہ زمین وآسمان میں جو کچھ ہے  سب اللہ کی ملکیت میں اور اس غلامی میں اور اسی کا پیدا ہوا ہے ۔ جس طرح جب جو تصرف ان میں وہ کرنا چاہتا ہے  بغیر کسی روک ٹوک کے  بلامشورہ غیرے  اور بغیر کسی کی شراکت اور مدد کے  کر گزرتا ہے  کوئی نہیں  جو اس کے  ارادے  سے  اسے  باز رکھ سکے  کوئی نہیں  کو اس کے  حکم میں حائل ہو سکے  کوئی نہیں  کو اس کی مرضی کو بدل سکے  وہ عظمتوں اور قدرتوں والا وہ عدل وحکمت والا وہ لطف و رحم والا واحد وصمد اللہ ہے ۔ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو گھیرے  ہوئے  ہے، مخفی سے  مخفی اور چھوٹی سے  چھوٹی اور دور سے  دور والی چیز بھی اس پر پوشیدہ نہیں، ہماری نگاہوں سے  جو پوشیدہ نہیں، ہماری نگاہوں سے  جو پوشیدہ ہیں  اس کے  علم میں سب ظاہر ہیں ۔

۱۲۷

یتیموں کے مربیوں کی گوشمالی اور منصفانہ احکام

صحیح بخاری شریف میں ہے  حضرت عائشہ فرماتی ہے  اس سے  مراد وہ شخص ہے  جس کی پرورش میں کوئی یتیم بچی ہو جس کا ولی وارث بھی وہی مال میں شریک ہو گیا ہو اب چاہتا یہ ہو کہ اس یتیم سے  میں نکاح کر لوں اس بنا پر اور جگہ اس کی شادی روکتا ہو ایسے  شخص کے  بارے  میں یہ آیت اتری ہے، ایک روایت میں ہے  کہ اس آیت کے  اترنے  کے  بعد جب پھر لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ان یتیم لڑکیوں کے  بارے  میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے  آیت کے  اترنے  کے  بعد جب پھر لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ان یتیم لڑکیوں کے  بارے  میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے  آیت ویستفتونک الخ، نازل فرمائی۔ فرماتی ہیں  کہ اس آیت میں جو یہ فرمایا گیا ہے  ومایتلی علیکم فی الکتاب اس سے  مراد پہلی آیت وان خفتم ان لا تقسطوا فی الیتامی الخ، ہے  آپ سے  بھی منقول ہے  کہ یتیم لڑکیوں کے  ولی وارث جب ان کے  پاس مال کم پاتے  یا وہ حسین نہ ہوتیں تو ان سے  نکاح کرنے  سے  باز رہتے  اور اگر مالدار اور صاحب جمال پاتے  تو نکاح کی رغبت کرتے  لیکن اس حال میں بھی چونکہ ان لڑکیوں کا اور کوئی محافظ نہیں  ہوتا تھا ان کے  مہر اور حقوق میں کمی کرتے  تھے  تو اللہ تعالیٰ نے  انہیں  روک دیا کہ بغیر پورا مہر اور پورے  حقوق دینے  کے  نکاح کر لینے  کی اجازت نہیں ۔ مقصد یہ ہے  کہ ایسی یتیم بچی جس سے  اس کے  ولی کو نکاح حلال ہو تو وہ اس سے  نکاح کر سکتا ہے  بشرطیکہ جو مہر اس جیسی اس کے  کنبے  قبیلے  کی اور لڑکیوں کو ملا ہے  اسے  بھی اتنا ہی دے  اور اگر ایسا نہ کے  تو اسے  چاہئے  اس سے  نکاح بھی نہ کرے ۔ اس سورت کے  شروع کی اس مضمون کی پہلی آیت کا بھی یہی مطلب ہے  اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے  کہ اس یتیم بچی سے  خود اس سورت کے  شروع کی اس مضمون کی پہلی آیت کا بھی یہی مطلب ہے  اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے  کہ اس یتیم بچی سے  خود اس کا ایسا ولی جسے  اس سے  نکاح کرنا حلال ہے  اسے  اپنے  نکاح میں لانا نہیں  چاہتا خواہ کسی وجہ سے  ہو لیکن یہ جان کر کہ جب یہ دوسرے  کے  نکاح میں چلی جائے  گی تو جو مال میرے  اس لڑکی کے  درمیان شراکت میں وہ بھی میرے  قبضے  سے  جاتا رہے  گا۔ تو ایسے  ناواجبی فعل سے  اس آیت میں روک دیا گیا۔ یہ بھی مروی ہے  کہ جاہلیت میں دستور تھا کہ یتیم لڑکی کا والی جب لڑکی کو اپنی ولایت میں لیتا تو اس پر ایک کپڑا ڈال دیتا اب کسی کی مجال نہ تھی کہ اس سے  خود آپ نکاح کر لیتا اور مال بھی ہضم کر جاتا اور اگر وہ صورت شکل میں اچھی نہ ہوتی اور مالدار ہوتی تو اسے  دوسری جگہ نکاح کرنے  سے  روک دیتا وہ بیچاری یونہی مر جاتی اور یہ اس کا مال قبضہ میں کر لیتا۔ اس سے  اللہ تعالیٰ اس آیت میں منع فرما رہا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے  اس کے  ساتھ ہی یہ بھی مروی ہے  کہ جاہلیت والے  چھوٹے  لڑکوں کو وارث نہیں  سمجھتے  تھے  اس رسم کو بھی قرآن نے  ختم دیا اور ہر ایک کو حصہ دیوایا اور فرمایا کہ لڑکی اور لڑکے  کو خواہ چھوٹے  ہوں خواہ بڑے  حصہ ضرور دو۔ البتہ لڑکی کو آدھا اور لڑکے  کو پورا یعنی دو لڑکوں کے  برابر اور یتیم لڑکیوں کے  بارے  میں انصاف کا حکم دیا کہ جب جمال و مال والی سے  خود تم اپنا نکاح کر لیتے  ہو تو پھر ان سے  بھی کر لیا کرو جو مال وجمال میں کم ہوں پھر فرمایا یقین مانو کہ تمہارے  تمام اعمال سے  اللہ تعالیٰ باخبر ہے ۔ تمہیں  چاہئے  کہ خیر کے  کام کرو فرماں برداری کرو اور نیک جزا حاصل کرو۔

۱۲۸

میاں بیوی میں صلح و خیر کا اصول

اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے  حالات اور ان کے  احکام بیان فرما رہا ہے  کبھی مرد اس سے  ناخوش ہو جاتا ہے  کبھی چاہنے  لگتا ہے  اور کبھی الگ کر دیتا ہے ۔ پس پہلی حالت میں جبکہ عورت کو اپنے  شوہر کی ناراضگی کا خیال ہے  اور اسے  خوش کرنے  کے  لئے  اپنے  تمام حقوق سے  یا کسی خاص حق سے  وہ دست برداری کرنا چاہے  تو کر سکتی ہے ۔ مثلاً اپنا کھانا کپڑا چھوڑ دے  یا شب باشی کا حق معاف کر دے  تو دونوں کے  لئے  جائز ہے ۔ پھر اسی کی رغبت دلاتا ہے  کہ صلح ہی بہتر ہے ۔ حضرت سودہ بنت زمعہ جب بہت بڑی عمر کی ہو جاتی ہیں  اور انہیں  معلوم ہوتا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اسے  قبول فرما لیا۔ ابوداؤد میں ہے  کہ اسی پر یہ آیت اتری۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  میاں بیوی جس بات پر رضامند ہو جائیں وہ جائز ہے ۔ آپ فرماتے  ہیں  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  وصال کے  وقت آپ کی نوبیویاں تھیں جن میں سے  آپ نے  آٹھ کو باریاں تقسیم کر رکھی تھیں ۔ بخاری مسلم میں ہے  کہ حضرت سودہ کا دن بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ کو دیتے  تھے ۔ حضرت عروہ کا قول ہے  کہ حضرت سودہ کو بڑی عمر میں جب یہ معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم راضی ہو جائیں اور میں آپ کی بیویوں میں ہی آخر دم تک رہ جاؤں ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے  کہ حضور رات گزارنے  میں اپنی تمام بیویوں کو برابر کے  درجے  پر رکھا کرتے  تھے  عموماً ہر روز سب بیویوں کے  ہاں آتے  بیٹھتے  بولتے  چالتے  مگر ہاتھ نہ بڑھاتے  پھر آخر میں جن بیوی صاحبہ کی باری ہوتی ان کے  ہاں جاتے  اور رات وہیں  گزارتے  ۔ پھر حضرت سودہ کا واقعہ بیان فرماتے  جو اوپر گزار (ابوداؤد) معجم ابولعباس کی ایک مرسل حدیث میں ہے  کہ حضور نے  حضرت سودہ کو اطلاق کی خبر اپنا کلام نازل فرمایا اور اپنی مخلوق میں سے  آپ کو برگزیدہ اور اپنا پسندیدہ بنایا آپ مجھ سے  رجوع کر لیجئے  میری عمر بڑی ہو گئی ہے  مجھے  مرد کی خاص خواہش نہیں  رہی لیکن یہ چاہت ہے  کہ قیامت کے  دن آپ کی بیویوں میں اٹھائی جاؤں چنانچہ آپ نے  یہ منظور فرمالیا اور رجوع کر لیا پھر یہ کہنے  لگیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنی باری کا دن اور رات آپ کی محبوب حضرت عائشہ کو ہبہ کرتی ہوں ۔ بخاری شریف میں آتا ہے  کہ اس آیت سے  مراد یہ ہے  کہ ایک بڑھیا عورت جو اپنے  خاوند کو دیکھتی ہے  کہ وہ اس سے  محبت نہیں  کر سکتا بلکہ اسے  الگ کرنا چاہتا ہے  تو وہ کہتی ہے  کہ میں اپنے  حق چھوڑتی ہوں تو مجھے  جدا نہ کر تو آیت دونوں کی رخصت دیتی ہے  یہی صورت اس وقت بھی ہے  کہ جب کسی کو دو بیویاں ہوں اور ایک سے  اس کی بوجہ اس کے  بڑھاپے  یا بدصورتی کے  محبت نہیں  کر سکتا بلکہ اسے  الگ کرنا چاہتا ہے  تو وہ کہتی ہے  کہ میں اپنے  حق چھوڑتی ہوں تو مجھے  جدانہ کر بڑھاپے  یا بدصورتی کے  محبت نہ ہوا اور وہ اے  جد کرنا چاہتا ہو اور یہ بوجہ اپنے  لگاؤ یا بعض اور مصالح کے  الگ ہونا پسند نہ کرتی تو اسے  حق ہے  کہ اپنے  بعض یا سب حقوق سے  الگ ہو جائے  اور خاوند اس کی بات کو منظور کر کے  اسے  جدا نہ کرے ۔ ابن جریر میں ہے  کہ ایک شخص نے  حضرت عمر سے  ایک سوال (جسے  اس کی بیہودگی کی وجہ سے) آپ نے  ناپسند فرمایا اور اسے  کوڑا مار دیا پھر ایک اور نے  اسی آیت کی بابت سوال کیا تو آپ نے  فرمایا کہ ہاں یہ باتیں پوچھنے  کی ہیں  اس سے  ایسی صورت مراد ہے  کہ مثلاً ایک شخص کی بیوی ہے  لیکن وہ بڑھیا ہو گئی ہے  اولاد نہیں  ہوتی اس نے  اولاد کی خاطر کسی جوان عورت سے  اور نکاح کیا پھر یہ دونوں جس چیز پر آپس میں اتفاق کر لیں جائز ہے ۔ حضرت علی سے  جب اس آیت کی نسبت پوچھا گیا تو آپ نے  فرمایا کہ اس سے  مراد وہ عورت ہے  جو بوجہ اپنے  بڑھاپے  کے  یا بدصورتی کے  یا بد خلقی کے  یا گندگی کے  اپنے  خاوند کی نظروں میں گر جائے  اور اس کی چاہت یہ ہو کہ خاوند مجھے  نہ چھوڑے  تو یہ اپنا پورا یا ادھورا مہر معاف کر دے  یا اپنی باری معاف کر دے  وغیرہ تو اس طرح صلح کر سکتے  ہیں  سلف اور ائمہ سے  برابری اس کی یہی تفسیر مروی ہے  بلکہ تقریباً اس پر اتفاق ہے  میرے  خیال سے  تو اس کا کوئی مخلاف نہیں  واللہ اعلم۔ محمد بن مسلم کی صاحبزادی حضرت رافع بن خدیج کے  گھر میں تھیں بوجہ بڑھاپے  کے  یا کسی اور امر کے  یہ انہیں  چاہتے  نہ تھے  یہاں تک کہ طلاق دینے  کا ارادہ کر لیا اس پر انہوں نے  کہا آپ مجھے  طلاق تو نہ دیجئے  اور جو آپ چاہیں  فیصلہ کریں مجھے  منظور ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری۔ ان دونوں آیتوں میں ذکر ہے  اس عورت کا جس سے  اس کا خاوند بگڑا ہوا ہو اسے  چاہئے  کہ اپنی بیوی سے  کہہ دے  کہ اگر وہ چاہے  تو اسے  طلاق دے  دے  اور اگر وہ چاہے  تو اس بات کو پسند کر کے  اس کے  گھر میں رہے  کہ وہ مال کی تقسیم میں اور باری کی تقسیم میں اس پر دوسری بیوی کو ترجیح دے  گا اب اسے  اختیار ہے  اگر یہ دوسری شق کو منظور کر لے  تو شرعاً خاوند کو جائز ہے  کہ اسے  باری نہ دے  اور جو مہر وغیرہ اس نے  چھوڑا ہے  اسے  اپنی ملکیت سمجھے ۔ حضرت رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی صاحبہ جب سن رسید ہو گئیں تو انہوں نے  ایک نوجوان لڑکی سے  نکاح کیا اور پھر اسے  زیادہ چاہنے  لگے  اور اسے  پہلی بیوی پر مقدم رکھنے  لگے  آخر اس سے  تنگ آ کر طلاق طلب کی آپ نے  دے  دی پھر عدت ختم ہونے  کے  قریب لوٹا لی، لیکن پھر وہی حال ہوا کہ جوان بیوی کو زیادہ چاہنے  لگے  اور اس کی طرف جھک گئے  اس نے  پھر طلاق مانگی آپ نے  دوبارہ طلاق دے  دی پھر لوٹا لیا لیکن پھر وہی نقشہ پیش آیا پھر اس نے  قسم دی کہ مجھے  طلاق دے  دو تو آپ نے  فرمایا دیکھو اب یہ تیسری آخری طلاق ہے  اگر تم چاہو تو میں دے  دوں اور اگر چاہو تو اسی طرح رہنا منظور کرو اس نے  سوچ کر جواب دیا کہ اچھا مجھے  اسے  طرح منظور ہے  چنانچہ وہ اپنے  حقوق سے  دست بردار ہو گئیں اور اسی طرح رہنے  سہنے  لگیں ۔ اس جملے  کا صلح خیر ہے  ایک معنی تو یہ بیان کیا گیا ہے  کہ خاوند کا اپنی بیوی کو یہ اختیار دینا کہ اگر تو چاہے  تو اسی طرح رہ کر دوسری بیوی کے  برابر تیرے  حقوق نہ ہوں اور اگر تو چاہے  تو طلاق لے  لے، یہ بہتر ہے  اس سے  کہ یونہی دوسری کو اس پر ترجیح دئے  ہوئے  رہے ۔ لیکن اس سے  اچھا مطلب یہ ہے  کہ بیوی اپنا کچھ چھوڑے  دے  اور خاوند اسے  طلاق نہ دے  اور آپس میں مل کر رہیں  یہ طلاق دینے  اور لینے  سے  بہتر ہے، جیسے  کہ خود نبی اللہ علیہ صلوات اللہ نے  حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنی زوجیت میں رکھا اور انہوں نے  اپنا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہبہ کر دیا۔ آپ کے  اس فعل میں بھی آپ کی امت کے  لئے  بہترین نمونہ ہے  کہ نا موافقت کی صورت میں بھی طلاق کی نوبت نہ آئے ۔ چونکہ اللہ اعلیٰ و اکبر کے  نزدیک صلح افتراق سے  بہتر ہے  اس لئے  یاں فرما دیا کہ صلح خیر ہے ۔ بلکہ ابن ماجہ وغیرہ کی حدیث میں ہے  تمام حلال چیزوں میں سے  سب سے  زیادہ ناپسند چیز اللہ کے  نزدیک طلاق ہے ۔ پھر فرمایا تمہارا احسان اور تقویٰ کرنا یعنی عورت کی طرف کی ناراضگی سے  درگزر کرنا اور اسے  باوجود ناپسندیگی کے  اس کا پورا حق دینا باری میں لین دین میں برابری کرنا یہ بہترین فعل ہے  جسے  اللہ بخوبی جانتا ہے  اور جس پر وہ بہت اچھا بدلہ عطا فرمائے  گا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ گو تم چاہو کہ اپنی کئی ایک بیویوں کے  درمیان ہر طرح بالکل پورا عدل و انصاف اور برابری کرو تو بھی تم کر نہیں  سکتے ۔ اس لئے  کہ گو ایک ایک رات کی باری باندھ لو لیکن محبت چاہت شہوت جماع وغیرہ میں برابری کیسے  کر سکتے  ہو؟ ابن ملکیہ فرماتے  ہیں  یہ بات حضرت عائشہ کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم انہیں  بہت چاہتے  تھے، اسی لئے  ایک حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم عورتوں کے  درمیان صحیح طور پر مساوات رکھتے  تھے  لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ سے  دعا کرتے  ہوئے  فرماتے  تھے  الٰہی یہ وہ تقسیم ہے  جو میرے  بس میں تھی اب جو چیز میرے  قبضہ سے  باہر ہے  یعنی دلی تعلق اس میں تو مھے  ملامت نہ کرنا (ابو داؤد) اس کی اسناد صحیح ہے  لیکن امام ترمذی فرماتے  ہیں  دوسری سند سے  یہ مرسلاً مروی ہے  اور وہ زیادہ صحیح ہے ۔ پھر فرمایا بالکل ہی ایک جانب جھک نہ جاؤ کہ دوسری کو لٹکا دو وہ نہ بے  خاوند کی رہے  نہ خاوند والی وہ تمہاری زوجیت میں ہو اور تم اس سے  بے  رخی برتو نہ تو اسے  طلاق ہی دو اپنا دوسرا نکاح کر لے  نہ اس کے  وہ حقوق ادا کرو جو ہر بیوی کے  لئے  اس کے  میاں پر ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جس کی دو بیویاں ہوں پھر وہ بالکل ہی ایک کی طرف جھک جائے  تو قیامت کے  دن اللہ کے  سامنے  اس طرح آئے  گا کہ اس کا آدھا جسم ساقط ہو گا (احمد وغیرہ) امام ترمذی فرماتے  ہیں  یہ حدیث مرفوع طری سے  سوائے  ہمام کی حدیث کے  پہچانی نہیں  جاتی۔ پھر فرماتا ہے  اگر تم اپنے  کاموں کی اصلاح کر لو اور جہاں تک تمہارے  اختیار میں ہو عورتوں کے  درمیان عدل و انصاف اور مساوات برتو ہر حال میں اللہ سے  ڈرتے  رہا کرو، اس کے  باوجود اگر تم کسی وقت کسی ایک کی طرف کچھ مائل ہو گئے  ہو اسے  اللہ تعالیٰ معاف فرما دے  گا۔ پھر تیسری حالت بیان فرماتا ہے  کہ اگر کوئی صورت بھی نباہ کی نہ و اور دونوں الگ ہو جائیں تو اللہ ایک کو دوسرے  سے  بے  نیاز کر دے  گا، اسے  اس سے  اچھا شوہر اور اسے  اس سے  اچھی بیوی دے  دے  گا۔ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے  وہ بڑے  احسانوں والا ہے  اور ساتھ ہی وہ حکیم ہے  تمام افعال ساری تقدیریں اور پوری شریعت حکمت سے  سراسر بھرپور ہے ۔

۱۳۱

مانگو تو صرف اللہ اعلیٰ و اکبر سے مانگو

اللہ تعالیٰ مطلع کرتا ہے  کہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم وہی ہے  فرماتا ہے  جو احکام تمہیں  دیئے  جاتے  ہیں  کہ اللہ سے  ڈرو اس کی وحدانیت کو مانو اس کی عبادت کرو اور کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی احکام تم سے  پہلے  کے  اہل کتاب کو بھی دئے  گئے  تھے  اور اگر تم کفر کرو (تو اللہ کا کیا بگاڑو گے ؟) وہ تو زمین آسمان کا تنہا مالک ہے، جیسے  کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے  اپنی قوم سے  فرمایا تھا کہ اگر تم اور تمام روئے  زمین کے  انسان کفر کرنے  لگو تو بھی اللہ تعالیٰ بے  پرواہ اور لائق ستائش ہے  اور جگہ فرمایا فکفروا وتولوا واستغنی اللہ واللہ غن حمید انہوں نے  کفر کیا اور منہ موڑ لیا اللہ نے  ان سے  بے  نیازی کی اور اللہ بہت ہی بے  نیاز اور تعریف کیا گیا ہے ۔ اپنے  تمام بندوں سے  غنی اور اپنے  تمام کاموں میں حمد کیا گیا ہے ۔ آسمان و زمین کی ہر چیز کا وہ مالک ہے  اور ہر شخص کے  تمام افعال پر وہ گواہ ہے  اور ہر چیز کا وہ عالم اور شاہد ہے ۔ وہ قادر ہے  کہ اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو تو وہ تمہیں  برباد کر دے  اور غیروں کو آباد کر دے، جیسا کہ دوسری آیت میں ہے  وان تنولوایستبدل قوما غیر کم ثملایکونوا امثالکم ٭ اگر تم منہ موڑو گے  تو اللہ تعالیٰ تمہیں  بدل کر تمہارے  سوا اور قوم کو لائے  گا جو تم جیسے  نہ ہوں گے  بعض سلف سے  منقول ہے  کہ اس آیت پر غور کرو اور سوچہ کہ گنہگار بندے  اللہ اکبر و اعلیٰ کے  نزدیک کس قدر ذلیل اور فرومایہ ہیں ؟ اور آیت میں یہ بھی فرمایا ہے  کہ اللہ مقتدر پر یہ کام کچھ مشکل نہیں ۔ پھر فرماتا ہے  اے  وہ شخص جس کا پورا قصد اور جس کی تمام تر کوشش صرف دنیا کے  لئے  ہے  تو جان لے  کہ دونوں جہاں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اللہ کے  قبضے  میں ہیں، تو جب اس سے  دونوں ہی طلب کرے  گا تو وہ تجھے  دے  گا اور تجھے  بے  پرواہ کر دے  گا اور آسودہ بنا دے  گا اور جگہ فرمایا بعض لوگ وہ ہیں  جو کہتے  ہیں  اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا دے  ان کا کوئ حصہ آخرت میں نہیں  اور یاسے  بھی ہیں  جو دعائیں کرتے  ہیں  کہ اے  ہمارے  رب ہمیں دنیا کی بھلائیاں دے  اور آخرت میں بھی بھلائیاں عطا فرما اور جہنم کے  عذاب سے  ہمیں نجات عطا فرما۔ یہ ہیں  جنہیں  ان کے  اعمال کا پورا حصہ ملے  گا اور جگہ ہے  جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھے  ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کریں گے  اور آیت میں ہے  من کان یرید العاجلۃ الخ جو شخص دنیا طلب ہو تو ہم جسے  چاہیں  جتنا چاہیں  دنیا میں دے  دیں امام ابن جریر نے  اس آیت کے  یہ معنی بیان کئے  ہیں  کہ جن منافقوں نے  دنیا کی جستجو میں ایمان قبول کیا تھا انہیں  دنیا چاہے  مل گئی یعنی مسلمان سے  مال غنیمت میں حصہ مل گیا، لیکن آخرت میں ان کے  لئے  الہ العلمین کے  پاس جو تیاری ہے  وہ انہیں  وہاں ملے  گی یعنی جہنم کی آگ اور وہاں کے  گوناگوں عذاب تو امام صاحب مذکور کے  نزدیک یہ آیت مثل آیت من کان یریدالحیوۃ الدنیا وزینتھا الخ، کے  ہے ۔ کوئی شک نہیں  کہ اس آیت کے  معنی تو بظاہر یہی ہیں  لیکن پہلی آیت کو بھی اسی معنی میں لینا ذرا غور طلب امر ہے  کیونکہ اس آیت کے  الفاظ تو صاف بتا رہے  ہیں  کہ دنیا اور آخرت کی بھلائی دنیا الہ العالمین کے  ہاتھ ہے  تو ہر شخص کو چاہئے  کہ وہ اپنی ہمت ایک ہی چیز کی جستجو میں خرچ نہ کر دے  بلکہ دونوں چیزوں کے  حاصل کرنے  کی کوشش کرے  جو تمہیں  دنیا دیتا ہے  وہی آخرت کا مالک بھی ہے  اور آخرت دے  سکتا ہے  یہ بڑی پست ہمتی ہو گی کہ تم اپنی آنکھیں بند کر لو اور بہت دینے  والے  سے  تھوڑا مانگو، نہیں  نہیں  بلکہ تم دنیا اور آخرت کے  بڑے  بڑے  کاموں اور بہترین مقاصد کو حاصل کرنے  کی کوشش کرو، اپنا نصب العین صرف دنیا کو نہ بنا لو، عالی ہمتی اور بلند پردازی سے  وسعت نظری کو کام میں لا کر عیش جاودانی کی کوشش وسعی کرو یاد رکھو دونوں جہان کا مالک وہی ہے  ہر ہر نفع اسی کے  ہاتھ میں ہے  کوئی نہیں  جسے  اس کے  ساتھ شراکت ہو یا اس کے  کاموں میں دخل ہوسعادت و شقاوت اس نے  تقسیم کی ہے  خزانوں کی کنجیاں اس نے  اپنی مٹھی میں رکھ لی ہیں، وہ ہر ایک مستحق کو جانتا ہے  اور جس کا وہ مستحق ہوتا ہے  اسے  وہی پہچانتا ہے، بھلا تم غور تو کرو کہ تمہیں  دیکھنے  سننے  کی طاقت دینے  والے  کا اپنا دیکھنا سننا کیسا ہو گا۔

۱۳۵

انصاف اور سچی گواہی تقوے کی روح ہے

اللہ تعالیٰ ایمانداری کو حکم دیتا ہے  کہ وہ عدل و انصاف پر مبوطی سے  جمے  رہیں  اس سے  ایک انچ اندھر ادھر نہ سرکیں، ایسا نہ ہو کہ ڈر کی وجہ سے  یا کسی لالچ کی بنا پر یا کسی خوشامد میں یا کسی پر رحم کھا کر یا کسی سفارش سے  عدل و انصاف چھوڑ بیٹھیں ۔ سب مل کر عدل کو قائم و جاری کریں ایک دوسری کی اس معاملہ میں مدد کریں اور اللہ کی مخلوق میں عدالت کے  سکے  جما دیں ۔ اللہ کے  لئے  گواہ بن جائیں جیسے  اور جگہ ہے  واقیموا الشھادۃ للہ الخ، یعنی گواہیاں اللہ کی رضا جوئی کے  لئے  دو جو بالکل صحیح صاف سچی اور بے  لاگ ہوں ۔ انہیں  بدبو نہیں، چھپاؤ نہیں، چبا کر نہ بولو صاف صاف سچی شہادت دوچاہے  وہ تمہارے  اپنے  ہی خلاف ہو تم حق گوئی سے  نہ رکو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے  فرماں بردار غلاموں کی مخلصی کی صورتیں بہت سی نکال دیتا ہے  کچھ اسی پر موقوف نہیں  کہ جھوٹی شہادت سے  ہی اس کا چھٹکارا ہو۔ گو سچی شہادت ماں باپ کے  خلاف ہوتی ہو گو اس شہادت سے  رشتے  داروں کا نقصان پہنچتا ہو، لیکن تم سچ ہاتھ سے  نہ جانے  دو گواہی سچی دو، اس لئے  کہ حق ہر ایک پر غالب ہے، گواہی کے  وقت نہ تونگر کا لحاظ کرو نہ غریب پر رحم کرو، ان کی مصلحتوں کو اللہ اعلیٰ و اکبر تمسے  بہت بہتر جانتا ہے، تم ہر صورت اور ہر حالت میں سچی شہادت ادا کرو، دیکھو کسی کے  برے  میں آ کر خود اپنا برا نہ کر لو، کسی کی دشمنی میں عصبیت اور قومیت میں فنا ہو کر عدل و انصاف ہاتھ سے  نہ جانے  دو بلکہ ہر حال ہر آن عدل و انصاف کا مجسمہ بنے  رہو، جیسے  اور جگہ فرمان باری ہے ۔ ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لاتعللوا عدلوا ھوا قرب للتقوی کسی قوم کی عداوت تمہیں  خلاف عدل کرنے  پر آمادہ نہ کر دے  عدل کرتے  رہو یہی تقویٰ کی شان کے  قریب تر ہے، حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے  خیبر والوں کی کھیتیوں اور باغوں کا اندازہ کرنے  کو بھیجا تو انہوں نے  آپ کو رشوت دینا چاہی کہ آپ مقدار کم بتائیں تو آپ نے  فرمایا سنو اللہ کی قسم نبی صلی اللہ علیہ و سلم مجھے  تمام مخلوق سے  زیادہ عزیز ہیں  اور تم میرے  نزدیک کتوں اور خنزیروں سے  بدتر ہو لیکن باوجود اس کے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت میں آ کر یا تمہاری عداوت کو سامنے  رکھ کر ناممکن ہے  کہ میں انصاف سے  ہٹ جاؤں اور تم میں عدل نہ کروں ۔ یہ سن کر وہ کہے  لگے  بس اسی سے  تو زمین و آسمان قائم ہے ۔ یہ پوری حدیث سورہ مائدہ کی تفسیر میں آئے  گی انشاء اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے  اگر تم نے  شہادت میں تحریف کی یعنی بدل دی غلط گوئی سیک املیا واقعہ کے  خلاف گواہی دی دبی زبان سے  پیچیدہ الفاظ کہے  واقعات غلط پیش کر دئے  یا کچھ چھپا لیا کچھ بیان کیا تو یاد رکھو اللہ جیسے  باخبر حاکم کے  سامنے  یہ چال چل نہیں  سکتی وہاں جا کر اس کا بدلہ پاؤ گے  اور سزا بھگتو گے، حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے  بتہرین گواہ وہ ہیں  جو دریافت کرنے  سے  پہلے  ہی سچی گواہی دے  دیں ۔

۱۳۶

ایمان کی تکمیل مکمل اطاعت میں مضمر ہے

ایمان والوں کو حکم دیا جارہا ہے  کہ ایمان میں پورے  پورے  داخل ہو جائیں تمام احکام کو کل شریعت کو ایمان کی تمام جزئیات کو مان لیں، یہ خیال نہ ہو کہ اس میں تحصیل حاصل ہے  نہیں  بلکہ تکمیل کامل ہے ۔ ایمان لائے  ہو تو اب اسی پر قائم رہو اللہ جل شانہ کو مانا ہے  تو جس طرح وہ منوائے  مانتے  چلے  جاؤ۔ یہی مطلب ہر مسلمان کی اس دعا کا ہے  کہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت کر، یعنی ہماری ہدایت کو ثابت رکھ مدام رکھ اس میں ہمیں مضبوط کر اور دن بدن بڑھتا تارہ، اسی طرح یہاں بھی مومنوں کو اپنی ذات پر اور اپنے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے  کو فرمایا ہے  اور آیت میں ایمانداروں سے  خطاب کر کے  فرمایا اللہ سے  ڈرو اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاؤ۔ پہلی کتاب سے  مراد قرآن ہے  اور اس سے  پہلے  کی کتاب سے  مراد تمام نبیوں پر جو جو کتابیں نازل ہوئیں سب ہیں ۔ قرآن کے  لئے  لفظ "نزل" بولاگ یا اور دیگر کتابوں کے  لئے  انزل اس لئے  کہ قرآن بتدریج وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا کر کے  اترا اور باقی کتابیں پوری پوری ایک ساتھ نازل ہوئیں، پھر فرمایا جو شخص اللہ جل شانہ کے  ساتھ اس کے  فرشتوں کے  ساتھ اس کی کتابوں کے  ساتھ اس کے  رسولوں کے  ساتھ آخرت کے  دن کے  ساتھ کفر کرے  وہ راہ ہدایت سے  بہک گیا اور بہت دور غلط راہ پڑ گیا گمراہی میں راہ حق سے  ہٹ کر راہ باطل پہ چلا گیا۔

۱۳۷

صحبت بد سے بچو

ارشاد ہو رہا ہے  کہ جو ایمان لا کر پھر مرتد ہو جائے  پھر وہ مومن ہوا کر کافر بن جائے  پھر اپنے  کفر پر جم جائے  اور اسی حالت میں مر جائے  تو نہ اس کی توبہ قبول نہ اس کی بخشش کا امکان اس کا چھٹکارا، نہ فلاح، نہ اللہ اسے  بخشے، نہ راہ راست پر لائے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تلاوت فرما کر فرماتے  تھے  مرتد سے  تین بار کہا جائے  کہ توبہ کر لے ۔ پھر فرمایا یہ منافقوں کا حال ہے  کہ آخرش ان کے  دلوں پر مہر لگ جاتی ہے  پھر وہ مومنوں کو چھوڑ کافروں سے  دوستیاں گانٹھتے  ہیں، ادھر بظاہر مومنوں سے  ملے  جلے  رہتے  ہیں  اور کافروں میں بیٹھ کر ان مومنوں کا مذاق اڑاتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  ہم تو انہیں  بیوقوف بنا رہے  ہیں  دراصل ہم تو تمہارے  ساتھ ہیں، پس اللہ تعالیٰ ان کے  مقصود اصلی کو ان کے  سامنے  پیش کر کے  اس میں ان کی ناکامی کو بیان فرماتا ہے  کہ تم چاہتے  ہو ان کے  پاس تمہاری عزت ہو مگر یہ تمہیں  دھوکا ہوا ہے  اور تم غلطی کر رہے  ہو بگوش ہوش سنو عزتزوں کا مالک تو اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک لہٗ ہے ۔ وہ جسے  چاہے  عزت دیتا ہے  اور آیت میں ہے  من کان یریدالعزۃ الخ اور فرمایا واللہ العزۃ الخ، یعنی عزت اللہ کے  لئے  ہے  اور اس کے  رسول اور مومنوں کا حق ہے، لیکن منافق بے  سمجھ لوگ ہیں ۔ مقصود یہ ہے  کہ اگر حقیقی عزت چاہتے  ہو تو اللہ کے  نیک بندوں کے  اعمال اختیار کرو اس کی عبادت کی طرف جھک جاؤ اور اس جناب باری سے  عزت کے  خواہاں بنو، دنیا اور آخرت میں وہ تمہیں  وقار بنا دے  گا، مسند احمد میں حنبل کی یہ حدیث اس جگہ یاد رکھنے  کے  قابل ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جو شخص فخر و غرور کے  طور پر اپنی عزت ظاہر کرنے  کے  لئے  اپنا نسب اپنے  کفار باپ دادا سے  جوڑے  اور نو تک پہنچ جائے  وہ بھی ان کے  ساتھ دسواں جہنمی ہو گا۔ پھر فرمان ہے  جب میں تمہیں  منع کر چکا کہ جس مجلس میں اللہ کی آیتوں سے  انکار کیا جا رہا ہو اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس میں نہ بیٹھو، پھر بھی اگر تم ایسی مجلسوں میں شریک ہوتے  رہو گے  تو یاد رکھو میرے  ہاں تم بھی ان کے  شریک کار سمجھے  جاؤ گے ۔ ان کے  گناہ میں تم بھی انہی جیسے  ہو جاؤ گے  جیسے  ایک حدیث میں ہے  کہ جس دستر خوان پر شراب نوشی ہو رہی ہے  اس پر کسی ایسے  شخص کو نہ بیٹھنا چاہئے  جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو اس آیت میں جس ممانعت کا حو آلہ دیا گیا ہے  وہ سورہ انعام کی جو مکیہ ہے  یہ آیت الخ، جب تو انہیں  دیکھے  جو میری آیتوں میں غوطے  لگانے  بیٹھ جاتے  ہیں  تو تو ان سے  منہ موڑ لے ۔ حضرت مقاتل بن حیان فرماتے  ہیں  اس آیت کا یہ حکم انکم اذا مثلھم اللہ تعالیٰ کے  اس فرمان وما علی الذین یقون من حسابھم من شئی ولکن ذکری اللعلھم یتقون سے  منسوخ ہو گیا ہے  یعنی متقیوں پر ان کے  احسان کا کوئی بوجھ نہیں  لکین نصیحت ہے  کیا عجب کہ وہ بچ جائیں ۔ پھر فرمان باری ہے  اللہ تعالیٰ تمام منافقوں کو اور سارے  کافروں کو جہنم میں جمع کرنے  والا ہے ۔ یعنی جس طرح یہ منافق ان کافروں کے  کفر میں یہاں شریک ہیں  قیامت کے  دن جہنم میں بھی اور ہمیشہ رہین والے  وہاں کے  سخت تر دل ہلا دینے  والے  عذابوں کے  سہنے  میں بھی ان کے  شریک حال رہیں  گے ۔ وہاں کی سزاؤں میں وہاں کی قید و بند میں طوق و زنجیر میں گرم پانی کے  کڑوے  گھونٹ اتارنے  میں اور پیپ کے  لہو کے  زہر مار کرنے  میں بھی ان کیساتھ ہوں گے  اور دائمی سا کا اعلان سب کو ساتھ سنا دیا جائے  گا۔

۱۴۱

عمل میں صفر، دعویٰ میں اصلی مسلمان

منافقوں کی بد باطنی کا ذکر ہے  کہ مسلمانوں کی بربادی اس کی پستی کی تلاش میں لگے  رہتے  ہیں  ٹوہ لیتے  رہتے  ہیں، اگر کسی جہاد میں مسلمان کامیاب و کامران ہو گئے  اللہ کی مدد سے  یہ غالب آ گئے  تو ان کے  پیٹ میں گھسنے  کے  لئے  آ آ کر کہتے  ہیں  کیوں جی ہم بھی تو تمہارے  ساتھی ہیں  اور اگر کسی وقت مسلمانوں کی آزمائش کے  لئے  اللہ جل شانہ نے  کافروں کو غلبہ دے  دیا جیسے  احد میں ہوا تھا گو انجام کار حق ہی غالب رہا تو یہ ان کی طرف لپکتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  دیکھو پوشیدہ طور پر تو ہم تمہاری تائید ہی کرتے  رہے  اور انہیں  نقصان پہنچاتے  رہے  یہ ہماری ہی چالاکی تھی جس کی بدولت آج تم نے  ان پر فتح پا لی۔ یہ ہیں  ان کے  کرتوت کہ دو کشتیوں میں پاؤں رکھ چھوڑتے  ہیں  "دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا" گو یہ اپنی اس مکاری کو اپنے  لئے  باعث فخر جانتے  ہوں لیکن دراصل یہ سرا ان کی بے  ایمانی اور کم یقینی کی دلیل ہے  بھلا کچا رنگ کب تک رہتا ہے ؟ گاجر کی پونگی کب تک بجے  گی؟ کاغذ کی ناؤ کب تک چلے  گی؟ وقت آ رہا ہے  کہ اپنے  کئے  پر نادم ہوں گیں اپنی بیوقوفی پر ہاتھ ملیں گے  اپنے  شرمناک کرتوت پر ٹسوے  بہائیں گے  اللہ کا سچا فیصلہ سن لیں گے  اور تمام بھلائیوں سے  ناامید ہو جائیں گے ۔ بھرم کھل جائے  گا ہر راز فاش ہو جائے  گا اندر کا باہر آ جائے  گا یہ پالیسی اور حکمت عملی یہ مصلحت وقت اور مقتضائے  موقعہ نہایت ڈراؤنی صورت سے  سامنے  آ جائے  گا اور عالم الغیب کے  بے  پناہ عذابوں کا شکار بن جائیں گے  ناممکن ہے  کہ کافروں کو اللہ تعالیٰ مومنوں پر غالب کر دے، حضرت علی سے  ایک شخص نے  اس کا مطلب پوچھا تو آپ نے  اول جملے  کے  ساتھ ملا کر پڑھ دیا۔ مطلب یہ تھا کہ قیامت کے  دن ایسا نہ و گا، یہ بھی مروی ہے  کہ سبیل سے  مراد حجت ہے، لیکن تاہم اس کے  ظاہری معنی مراد لینے  میں بھی کوئی مانع نہیں  یعنی یہ ناممکن ہے  کہ اللہ تعالیٰ اب سے  لے  کر قیامت تک کوئی ایسا وقت لائے  کہ کافر اس قدر غلبہ حاصل کر لیں کہ مسلمانوں کا نام مٹا دیں یہ اور بات ہے  کہ کسی جگہ کسی وقت دنیاوی طور پر انہیں  غلبہمل جائے  لیکن انجام کار مسلمانوں کے  حق میں ہی مفید ہو گا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فرمان الٰہی ہے  انا لننصررسلنا والذین امنوافی الحیوۃ الدنیا الخ، ہم اپنے  رسولوں اور ایماندار بندوں کو مدد دینا میں بھی ضرور دیں گے  اور یہ معنی لینے  میں ایک لطافت یہ بھی ہے  کہ منافقوں کے  دلوں میں مسلمانوں کو ذلت اور بربادی کا شکار دیکھنے  کا جو انتظار تھا مایوس کر دیا گیا کہ کفار کو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ اس طرح غالب نہیں  کرے  گا کہ تم پھولے  نہ سماؤ اور کچھ لوگ جس ڈر سے  مسلمانوں کا ساتھ کھلے  طور پر نہ دیتے  تھے  ان کے  ڈر کو بھی زائل کر دیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ کسی وقت بھی مسلمان مٹ جائیں گے  اسی مطلب کی وضاحت آیت فتری الذین فی قلوبھم مرض الخ، میں کر دی ہے ۔ اس آیت کریمہ سے  حضرات علماء کرام نے  اس امر پر بھی استدلال کیا ہے  کہ مسلمان غلام کو کافر کے  ہاتھ بیچنا جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں ایک کافر کو ایک مسلمان پر غالب کر دینا ہے  اور اس میں مسلمان کی ذلت ہے  جن بعض ذی علم حضرات نے  اس سودے  کو جائز رکھا ہے  ان کا فیصلہ ہے  کہ وہ اپنی ملک سے  اس کو اسی وقت آزاد کر دے ۔

۱۴۲

دو ریوڑ کے درمیان کی بکری

سورہ بقرہ کے  شروع میں بھی آیت یخادعون اللہ الخ، اسی مضمون کی گزر چکی ہے، یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے  کہ یہ کم سمجھ منافق اس اللہ تعالیٰ کے  سامنے  چالیں چلتے  ہیں  جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے  پوشیدہ رازوں سے  آگاہ ہے ۔ کم فہمی سے  یہ خیال کئے  بیٹھے  ہیں  کہ جس طرح ان کی منافقت اس دنیا میں چل گئی اور مسلمانوں میں ملے  جلے  رہے  اسی طرح اللہ تعالیٰ کے  پاس بھی یہ مکاری چل جائے  گی۔ چنانچہ قرآن میں ہے  کہ قیامت کے  دن بھی یہ لوگ اللہ خبیر و علیم کے  سامنے  اپنی یک رنگی کی قسمیں کھائیں گے  جیسے  یہاں کھاتے  ہیں  لکین اس عالم الغیب کے  سامنے  یہ ناکارہ قسمیں ہرگز کارآمد نہیں  ہو سکتیں ۔ اللہ بھی انہیں  دھوکے  میں رکھ رہا ہے  وہ ڈھیل دیتا ہے  حوصلہ افزائی کرتا ہے  یہ پھولے  نہیں  سماتے  خوش ہوتے  ہیں  اور اپنے  لئے  اسے  اچھائی سمجھتے  ہیں، قیامت میں بھی ان کا یہی حال ہو گا مسلمانوں کے  نور کے  سہارے  میں ہوں گے  وہ آگے  نکل جائیں گے  یہ آوازیں دیں گے  کہ ٹھہرو ہم بھی تمہاری روشنی میں چلیں جواب ملے  گا کہ پیچھے  مڑ جاؤ اور روشنی تلاش کر لاؤ یہ مڑیں گے  ادھر حجاب حائل ہو جائے  گا۔ مسلمانوں کی جانب رحمت اور ان کے  لئے  زحمت، حدیث شریف میں ہے  جو سنائے  گا اللہ بھی اسے  سنائے  گا اور جو ریکاری کرے  گا اللہ بھیاسے  ویسا ہی دکھائے  گا۔ ایک اور حدیث میں ہے  ان منافقوں میں وہ بھی ہوں گے  کہ لوگوں کے  سامنے  اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرمائے  گا کہ انہیں  جنت میں لے  جاؤ فرشتے  لے  جا کر دوزخ میں ڈال دیں گے  اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔ پھر ان منافقوں کی بد ذوقی کا حال بیان ہو رہا ہے  کہ انہیں  نماز جیسی بہترین عبادت میں بھی یکسوئی اور خشوع و خضوع نصیب نہیں  ہوتا کیونکہ نیک نیتی حسن عمل، حقیقی ایمان، سچا یقین، ان میں ہے  ہی نہیں  حضرت ابن عباس تھکے  ماندے  بدن سے  کسما کر نماز پڑھا مکر وہ جانتے  تھے  اور فرماتے  تھے  نمازی کو چاہئے  کہ ذوق و شوق سے  راضی خوشی پوری رغبت اور انتہائی توجہ کے  ساتھ نماز میں کھڑا ہو اور یقین مانے  کہ اس کی آواز پر اللہ تعالیٰ کے  کان ہیں، اسکی طلب پوری کرن کو اللہ تعالیٰ تیار ہے، یہ تو ہوئی ان منافقوں کی ظاہری حالت کہ تھکے  ہارے  تنگ دلی کے  ساتھ بطور بیگار ٹالنے  کے  نماز کے  لئے  آئے  پھر اندرونی حالت یہ ہے  کہ اخلاص سے  کوسوں دور ہیں  رب سے  کوئی تعلق نہیں  رکھتے  نمازی مشہور ہونے  کے  لئے  لوگوں میں اپنے  ایمان کو ظاہر کرنے  کے  لئے  نماز پڑھ رہے  ہیں، بھلا ان صنم آشنا دل والوں کو نماز میں کیا ملے  گا؟ یہی وجہ ہے  کہ ان نمازوں میں جن میں لوگ ایک دوسرے  کو کم دیکھ سکیں یہ غیر حاضر رہتے  ہیں  مثلاً عشاء کی نماز اور فجر کی نماز، بخاری مسلم میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  سب سے  زیادہ بوجھل نماز منافقوں پر عشاء اور فجر کی ہے ، اگر دراصل یہ ان نمازوں کے  فضائل کے  دس سے  قائل ہوتے  تو گھٹنوں کے  بل بھی چل کر آنا پڑتا یہ ضرور آ جاتے  ہیں  تو ارادہ کر رہا ہوں کہ تکبیر کہلوا کر کسی کو اپنی امامت کیجگہ کھڑا کر کے  نماز شروع کرا کر کچھ لوگوں سے  لکڑیاں اٹھوا کر ان کے  گھروں میں جاؤں جو جماعت میں شامل نہیں  ہوتے  اور لکڑیاں ان کے  گھروں کے  اردگرد لگا کر کم دوں کہ آگ لگا دو اور ان کے  گھروں کو جلا دو، ایک روایت میں ہے  اللہ تعالیٰ کی قسم اگر انہیں  ایک چرب ہڈی یا دو اچھے  کھر ملنے  کی امید ہو تو دوڑے  چلے  آئیں لیکن آخرت کی اور اللہ کے  ثوابوں کی انہیں  اتنی بھی قدر نہیں ۔ اگر بال بچوں اور عورتوں کا جو گھروں میں رہتی ہیں  مجھے  خیال نہ ہوتا تو قطعاً میں ان کے  گھر جلا دیتا، ابو یعلی میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جو شخص لوگوں کی موجودگی میں نماز کر سنوار کر ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے  لیکن جب کوئی نہ ہو تو بری طرح نماز پڑھ لے  یہ وہ ہے  جس نے  اپنے  رب کی اہانت کی۔ پھر فرمایا یہ لوگ ذکر اللہ بھی بہت ہی کم کرتے  ہیں  یعنی نماز میں ان کا دل نہیں  لگتا، یہ اپنی کہی ہوئی بات سمجھتے  بھی نہیں، بلکہ غافل دل اور بے  پرواہ نفس سے  نماز پڑھ لیتے  ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  یہ نماز منافق کی ہے  یہ نماز منافق کی ہے  کہ بیٹھا ہوا سورج کی طرف دیکھ رہا ہے  یہاں تک کہ جب وہ ڈوبنے  لگا اور شیطان نے  اپنے  دونوں سینگ اس کے  اردگرد لگا دیئے  تو یہ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی چار رکعت پڑھ لیں جن میں اللہ کا ذکر برائے  نام ہی کیا (مسلم وغیرہ) یہ منافق متحیر اور ششدر و پریشان حال ہیں  ایمان اور کفر کے  درمیان ان کا دل ڈانوا ڈول ہو رہا ہے  نہ تو صاف طور سے  مسلمانوں کے  استھی ہیں  نہ بالکل کفار کے  ساتھ کبھی نور ایمان چمک اٹھا تو اسلام کی صداقت کرنے  لگے  کبھی کفر کی اندھیریاں غالب آ گئیں تو ایمان سے  الگ تھلگ ہو گئے ۔ نہ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  صحابہ کی طرف ہیں  نہ یہودیوں کی جانب۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے  کہ منافق کی مثال ایسی ہے  جیسی دو ریوڑ کے  درمیان کی بکری کہ کبھی تو وہ میں میں کرتی اس ریوڑ کی طرف دوڑتی ہے  کبھی اس طرف اس کے  نزدیک ابھی طے  نہیں  ہوا کہ ان میں جائے  یا اس کے  پیچھے  لگے ۔ ایک روایت میں ہے  کہ اس معنی کی حدیث حضرت عبید بن عمیر نے  حضرت عبد اللہ بن عمر کی موجودگی میں کچھ الفاظ کے  ہیر پھیر سے  بیان کی تو حضرت عبد اللہ نے  اپنے  سنے  ہوئے  الفاظ دوہرا کر کا یوں نہیں  بلکہ دراصل حدیث یوں ہے  جس پر حضرت عبید ناراض ہوئے  (ممکن ہے  ایک بزرگ نے  ایک طرح کے  الفاظ سنے  ہوں دوسرے  نے  دوسری قسم کے) ابن ابی حاتم میں ہے  مومن کافر اور منافق کی مثال ان تین شخصوں جیسی ہے  جو ایک دریا پر گئے  ایک تو کنارے  ہی کھڑا رہ گیا دوسرا پار ہو کر منزل مقصود کو پہنچ گیا تیرا اتر چلا مگر جب بیچوں بیچ پہنچا تو ادھر والے  نے  پکارنا شروع کیا کہ کہاں ہلاک ہونے  جا رہا ہے  ادھر آ واپس چلا آ، ادھر والے  نے  آواز دی جاؤ نجات کے  ساتھ منزل مقصود پر میری طرف پہنچ جاؤ آدھا راستہ طے  کر چکے  ہو اب یہ حیران ہو کر کبھی ادھر دیکھتا ہے  کبھی ادھر نظر ڈالتا ہے  تذبذب ہے  کہ کدھر جاؤں کدھر نہ جاؤں ؟ اتنے  میں ایک زبردست موج آئی اور بہا کر لے  گئی اور وہ غوطے  کھا کھا کر مر گیا، پس پار جانے  والا مسلمان ہے  کنارے  کھڑا بلانے  والا کافر ہے  اور موج میں ڈوب مرنے  الا منافق ہے، اور حدیث میں ہے  منافق کی مثال اس بکری جیسی ہے  جو ہرے  بھرے  ٹیلے  پر بکریوں کو دیکھ کر آئی اور سونگھ کر چل دی، پھر دوسرے  ٹیلے  پر چڑھی اور سونگھ کر آگی۔ پھر فرمایا جسے  اللہ ہی راہ حق سے  پھیر دے  اس کا ولی و مرشد کون ہے ؟ اس کے  گمراہ کردہ کو کون راہ دکھا سکے ؟ اللہ نے  منافقوں کو ان کی بدترین بدعملی کے  باعث راستی سے  دھکیل دیا ہے  اب نہ کوئی انہیں  راہ راست پر لا سکے  نہ چھٹکارا دلا سکے، اللہ کی مرضی کے  خلاف کون کر سکتا ہے  وہ سب پر حاکم ہے  اسی پر کسی کی حکومت نہیں ۔

۱۴۴

کافر سے دوستی آگ سے دوستی کے مترادف ہے

کافروں سے  دوستیاں کرنے  سے  ان سے  دلی محبت رکھنے  سے  ان کے  ساتھ ہر وقت اٹھنے  بیٹھنے  سے  مسلمانوں کے  بھید ان کو دینے  سے  اور پوشیدہ تعلقات ان سے  قائم رکھنے  سے  اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو روک رہا ہے  جیسے  اور آیت میں ہے  یایتخذالمومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین الخ مومنوں کو چاہئے  کہ بجز مومنوں کے  کفار سے  دوستی نہ کریں ایسا کرنے  والا اللہ کے  ہاں کسی بھلائی کا مستحق نہیں  ہاں اگر صرف بچاؤ کے  طور پر ظاہر داری ہو تو اور بات ہے  اللہ تعالیٰ تمہیں  اپنے  آپ سے  ڈرا رہا ہے  یعنی اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو گے  تو تمہیں  اس کے  عذابوں کو یاد رکھنا چاہئے، ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا فرمان مروی ہے  کہ آپ نے  فرمایا قرآن میں جہاں کہیں  ایسی عبارتوں میں سلطان کا لفظ ہے  وہاں اس سے  مراد حجت ہے  یعنی تم نے  اگر مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے  دلی دوستی کے  تعلقات پیدا کئے  تو تمہارا یہ فعل کافی ثبوت ہو گا اور پوری دلیل ہو گی جس کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ تمہیں  سزا دے ، کئی ایک سلف مفسرین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے  اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے ۔ پھر منافقوں کا انجام بیان فرماتا ہے  کہ یہ اپنے  اس سخت کفر کی وجہ سے  جہنم کے  سب سے  نچلے  طبقے  میں داخل کئے  جائیں گے  درک درجہ کے  مقابل کا مظہر ہے  بہشت میں درجے  ہیں  ایک سے  ایک بلند اور دوزخ میں درک ہیں  ایک سے  ایک پست۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے  ہیں  انہیں  آگ کے  صندوقوں میں بند کر کے  جہنم میں ڈالا جائے  گا اور یہ جلتے  بھنتے  رہیں  گے، حضرت ابن مسعود فرماتے  ہیں  یہ صندوق لوہے  کے  ہوں گے  جو آگ لگتے  ہی آگ کے  ہو جائیں گے  اور چاروں طرف سے  بالکل بند ہوں گے  اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی کسی طرح کی مدد کرے ۔ جہنم سے  نکال سکے  یا عذابوں میں ہی کچھ کم کروا سکے ۔ ہاں ان میں سے  جو توبہ کر لیں نادم ہو جائیں اور سچے  دل سے  منافقت چھوڑ دیں اور رب سے  اپنے  اس گناہ کی معافی چاہیں ۔ پھر اپنے  اعمال میں اخلاص پیدا کریں صرف خوشنودی اللہ اور مرضی مولی کے  لئے  نیک اعمال پر کمر کس لیں ۔ ریا کاری کو اخلاص سے  بدل دیں ۔ اللہ تعالیٰ کے  دین کو مضبوطی سے  تھام لیں تو بیشک اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے  گا اور انہیں  سچے  مومنوں میں داخل کر دے  گا اور بڑے  ثواب اور اعلیٰ اجر عنایت فرمائے  گا، ابن ابی حاتم میں ہے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  اپنے  دین کو اخلاص کر لو تو تھوڑا عمل بھی تمہیں  کافی ہو جائے  گا، پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ اللہ غنی ہے  بے  نیاز ہے  بندوں کو سزا کرنی وہ نہیں  چاہتا، ہاں جب گناہوں پر دلیر ہو جائیں تو گوش مالی ضروری ہے ، پس فرمایا اگر تم اپنے  اعمال کو سنوار لو اور اللہ تعالیٰ پر اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر سچے  دل سے  ایمان لے  آؤ تو کوئی وجہ نہیں  جو اللہ تمہیں  عذاب دے ۔ وہ تو چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی بھی قدر دانی کرنے  الا ہے، جو اس کا شکر کرے  وہ اس کی عزت افزائی کرتا ہے  وہ پورے  اور صحیح علم والا ہے ۔ جانتا ہے  کہ کس کا عمل اخلاص والا اور قبولیت اور قدر کے  لائق ہے ۔ اسے  معلوم ہے  کہ کس دل میں قوی ایمان ہے  اور کونسا دل ایمان سے  خالی ہے، جو اخلاص اور ایمان والے  ہیں  انہیں  بھر پور اور کامل بدلے  اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے  گا (اللہ ہمیں ایمان و اخلاص کی دولت سے  مالا مال کرے  اور پھر اجر و ثواب سے  نہال کرے  آمین)

الحمد اللہ! تفسیر محمدی ابن کثیر کا پانچواں پارہ ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے  اور ہمیں اپنے  کلام کے  سمجھنے  سمجھانے  کی اور اس پر عالم بن جانے  کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین! الہ تو اس پاک تفسیر کو میرے  ہاتھوں ختم کرا اور پوری کتاب چھپی ہوئی مجھے  دکھا۔ میرے  نامہ اعمال سے  گناہوں کو مٹا کر نیکیاں تحریر فرما اور اپنے  نیک بندوں میں شمار کر، آمین!!

 

۱۴۸

مظلوم کو فریاد کا حق ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے  ہیں  کہ کسی مسلمان کو دوسرے  کو بد دعا دینا جائز نہیں، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے  اپنے  ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے  اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کر لے  تو افضل یہی ہے ۔ ابو داؤد میں ہے  "حضرت عائشہ صدیقہ کی کوئی چیز چور چرا لے  گئے  تو آپ ان پر بد دعا کرنے  لگیں ۔ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہ سن کر فرمایا! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو؟ " حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  اس پر بد دعا نہ کرنی چاہئے  بلکہ یہ دعا کرنی چاہئے  دعا (اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ) یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے  میرا حق دلوا دے، آپ سے  ایک اور روایت میں مروی ہے  کہ اگرچہ مظلوم کے  ظالم کو کوسنے  کی رخصت ہے  مگر یہ خیال رہے  کہ حد سے  نہ بڑھ جائے ۔ عبدالکریم بن مالک جزری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے  ہیں  "گالی دینے  والے  کو یعنی برا کہنے  والے  کو برا تو کہہ سکتے  ہیں  لیکن بہتان باندھنے  والے  پر بہتان نہیں  باندھ سکتے ۔ " ایک اور آیت میں ہے  (ولمن انتصر بعد ظلمہ فاولئک ما علیھم من سبیل) جو مظلوم اپنے  ظالم سے  اس کے  ظلم کا انتقام لے، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ ابو داؤد میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "دو گالیاں دینے  والوں کا وبال اس پر ہے، جس نے  گالیاں دینا شروع کیا۔ ہاں اگر مظلوم حد سے  بڑھ جائے  تو اور بات ہے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  جو شخص کسی کے  ہاں مہمان بن کر جائے  اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے  تو اسے  جائز ہے  کہ لوگوں کے  سامنے  اپنے  میزبان کی شکایت کرے ، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے ۔ ابو داؤد، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے  "صحابہ نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے  ہیں ۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے  کہ وہاں کے  لوگ ہماری مہمانداری نہیں  کرتے " آپ نے  فرمایا "اگر وہ میزبانی کریں تو درست، ورنہ تم ان سے  لوازمات میزبانی خود لے  لیا کرو۔ مسند احمد کی حمایت میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے  کہ "جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے  ہاں مہمان بن کر جائے  اور ساری رات گزر جائے  لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے  تاکہ میزبان کے  مال سے  اس کی کھیتی سے  بقدر مہمانی دلائیں ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے  "ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے  تو یہ اس میزبان کے  ذمہ قرض ہے، خواہ ادا کرے  خواہ باقی رکھے " ان احادیث کی وجہ سے  امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا مذہب ہے  کہ میزبان کے  ذمہ قرض ہے، خواہ ادا کرے  خواہ باقی رکھے " ان احادیث کی وجہ سے  امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا مذہب ہے  کہ ضیافت واجب ہے، ابو داؤد شریف وغیرہ میں ہے  "ایک شخص سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے  کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے ، آپ نے  فرمایا ایک کام کرو، اپنا کل مال اسباب گھر سے  نکال کر باہر رکھ دو۔ اس نے  ایسا ہی کیا راستے  پر اسباب ڈلا کر وہیں  بیٹھ گیا، اب جو گزرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے ؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے  ستاتا ہے  میں تنگ آ گیا ہوں، راہ گزر اسے  برا بھلا کہتا، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے  اس پڑوسی کو، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے  پاس آیا، منتیں کر کے  کہا "اپنے  گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے  دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا۔ " پھر ارشاد ہے  کہ اے  لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کر دیا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے  ظلم کیا ہو اور تم اس سے  درگزر کرو تو اللہ کے  پاس تمہارے  لئے  بڑا ثواب، پورا اجر اور اعلیٰ درجے  ہیں ۔ خود وہ بھی معاف کرنے  والا ہے  اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے  پسند ہے ، وہ انتقام کی قدرت کے  باوجود معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے  کہ "عرش کو اٹھانے  والے  فرشتے  اللہ کی تسبیح کرتے  رہتے  ہیں ۔ " بعض تو کہتے  ہیں " دعا (سبحانک علی حلمک بعد علمک) یا اللہ تیری ذات پاک ہے  کہ تو باوجود جاننے  کے  پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے ۔ بعض کہتے  ہیں  دعا (سبحانک علی عفوک بعد قدرتک اے  قدرت کے  باوجود درگزر کرنے  والے  اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے  لئے  مختص ہیں ۔ صحیح حدیث شریف میں ہے  صدقے  اور خیرات سے  کسی کا مال گھٹتا نہیں، عفو و درگزر کرنے  اور معاف کر دینے  سے  اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے  اور جو شخص اللہ کے  حکم سے  تواضع، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے  اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے ۔ "

۱۵۰

کسی ایک بھی نبی کو نہ ماننا کفر ہے

اس آیت میں بیان ہو رہا ہے  کہ جو ایک نبی کو بھی نہ مانے  کافر ہے، یہودی سوائے  حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہما کے  اور تمام نبیوں کو مانتے  تھے، نصرانی افضل الرسل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے  سوا تمام انبیاء پر ایمان رکھتے  تھے، سامری یوشع علیہ السلام کے  بعد کسی کی نبوت کے  قائل نہ تھے، حضرت یوشع حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کے  خلیفہ تھے، مجوسیوں کی نسبت مشہور ہے  کہ وہ اپنا نبی زردشت کو مانتے  تھے  لیکن جب یہ بھی ان کی شریعت کے  منکر ہو گئے  تو اللہ تعالیٰ نے  وہ شریعت ہی ان سے  اٹھا لی۔ واللہ اعلم۔ پس یہ لوگ ہیں  جنہوں نے  اللہ اور اس کے  رسولوں میں تفریق کی یعنی کسی نبی کو مانا، کسی سے  انکار کر دیا۔ کسی ربانی دلیل کی بنا پر نہیں  بلکہ محض اپنی نفسانی خواہش جوش تعصب اور تقلید آبائی کی وجہ سے، اس سے  یہ بھی معلم ہوا کہ ایک نبی کو نہ ماننے  والا اللہ کے  نزدیک تمام نبیوں کا منکر ہے، اس لئے  کہ اگر اور انبیاء کو بوجہ نبی ہونے  کے  مانتا تو اس نبی کو ماننا بھی اسی وجہ سے  اسپر ضروری تھا، جب وہ ایک کو نہیں  مانتا تو معلوم ہوا کہ جنہیں  وہ مانتا ہے  انہیں  بھی کسی دنیاوی غرض اور ہواؤں کی وجہ سے  مانتا ہے، ان کا شریعت ماننا یا نہ ماننا دونوں بے  معنی ہے، ایسے  لوگ حتماً اور یقیناً کافر ہیں، کسی نبی پر ان کا شرعی ایمان نہیں  بلکہ تقلیدی اور تعصبی ایمان ہے  جو قابل قبول نہیں، پس ان کفار کو اہانت اور رسوائی آمیز عذاب کئے  جائیں گے ۔ کیونکہ جن پر یہ ایمان نہ لا کر ان کی توہین کرتے  تھے  اس کا بدلہ یہی ہے  کہ ان کی توہین ہو اور انہیں  ذلت والے  عذاب میں ڈالا جائے  گا، ان کے  ایمان نہ لانے  کی وجہ خواہ غور و فکر کے  بغیر نبوت کی تصدیق نہ کرنا ہو، خواہ حق واضح ہو چکنے  کے  بعد دنیوی وجہ سے  منہ موڑ کر نبوت سے  انکار کرنا ہو، جیسے  اکثر یہودی علماء کا شیوہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  بارے  میں تھا کہ محض حسد کی وجہ سے  آپ کی عظیم الشان نبوت کے  منکر تھے  اور آپ کی مخالفت اور عداوت میں آ  کر مقابلے  پر تل گئے، پس اللہ نے  ان پر دنیا کی ذلت بھی مسلط کر دی اور آخرت کی ذلت کی مار بھی ان کے  لئے  تیار کر رکھی ۔ پھر امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف ہو رہی ہے  کہ یہ اللہ پر ایمان رکھ کر تمام انبیاء علیہم السلام کو اور تمام آسمانی کتابوں کو بھی الہامی کتابیں تسلیم کرتے  ہیں ۔ جیسے  ایک اور آیت میں ہے  (کل امن باللہ) پھر ان کے  لئے  جو اجر جمیل اور ثواب عظیم اس نے  تیار کر رکھا ہے  اسے  بھی بیان فرما دیا کہ ان کے  ایمان کامل کے  باعث انہیں  اجر و ثواب عطا ہوں گے ۔ اگر ان سے  کوئی گناہ بھی سر زد ہو گیا تو اللہ معاف فرما دے  گا اور ان پر اپنی رحمت کی بارش برسائیں گے ۔

۱۵۳

محسوس معجزہ کی مانگ اور بنی سرائیل کی حجت بازیاں

یہودیوں نے  جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے  کہا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے  توراۃ ایک ساتھ لکھی ہوئی ہمارے  پاس لائے، آپ بھی کوئی آسمانی کتاب پوری لکھی لکھائی لے  آیئے  ۔ یہ بھی مروی ہے  کہ انہوں نے  کہا تھا کہ ہمارے  نام اللہ تعالیٰ خط بھیجے  کہ ہم آپ کی نبوت کو مان لیں ۔ یہ سوال بھی ان کا بدنیتی سے  بطور مذاق اور کفر تھا۔ جیسا کہ اہل مکہ نے  بھی اسی طرح کا ایک سوال کیا تھا، جس طرح سورہ سبحان میں مذکور ہے  کہ "جب تک عرب کی سر زمین میں دریاؤں کی ریل پیل اور ترو تازگی کا دور دورہ نہ ہو جائے  ہم آپ پر ایمان نہیں  لائیں گے ۔ " پس بطور تسلی کے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ان کی اس سرکشی اور بیجا سوال پر آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں ان کی یہ بد عادت پرانی ہے، انہوں نے  حضرت موسیٰ سے  اس سے  بھی زیادہ بیہودہ سوال کیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ خود کو دکھائے ۔ اس تکبر اور سرکشی اور فضول سوالوں کی پاداش بھی یہ بھگت چکے  ہیں  یعنی ان پر آسمانی بجلی گری تھی۔ جیسے  سورہ بقرہ میں تفصیل وار بیان گزر چکا۔ ملاحظہ ہو آیت (واذ قلتم یا موسیٰ لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ) الخ، یعنی "جب تم نے  کہا تھا کہ اے  موسیٰ ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے  جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو ہم صاف طور پر اپنی آنکھوں سے  نہ دیکھ لیں پس تمہیں  بجلی کے  کڑاکے  نہ پکڑ لیا اور ایک دوسرے  کے  سامنے  سب ہلاک ہو گئے، پھر بھی ہم نے  تمہاری موت کے  بعد دوبارہ تمہیں  زندہ کر دیا تا کہ تم شکر کرو۔ " پھر فرماتا ہے  کہ "بڑی بڑی نشانیاں دیکھ چکنے  کے  بعد بھی ان لوگوں نے  بچھڑے  کو پوجنا شروع کر دیا۔ " مصر میں اپنے  دشمن فرعون کا حضرت موسیٰ کے  مقابلے  میں ہلاک ہونا اس کے  تمام لشکروں کا نامرادی کی موت مرنا، ان کا دریا سے  بچ کر پار نکل آنا، ابھی ابھی ان کی نگاہوں کے  سامنے  ہوا تھا لیکن وہاں سے  چل کر کچھ دور جا کر ہی بت پرستوں کو بت پرستی کرتے  ہوئے  دیکھ کر اپنے  پیغمبر سے  کہتے  ہیں  "ہمارا بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دو۔ " جس کا پورا بیان سورہ اعراف میں ہے  اور سورہ طہ میں بھی ۔ پھر حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے  مناجات کرتے  ہیں، ان کی توبہ کی قبولیت کی یہ صورت ٹھہرتی ہے  کہ جنہوں نے  گو سالہ پرستی نہیں  کی وہ گوسالہ پرستوں کو قتل کریں ۔ جب قتل شروع ہو جاتا ہے، اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے  اور مرے  ہوؤں کو بھی دوبارہ زندہ کر دیتا ہے ۔ پس یہاں فرماتا ہے  ہم نے  اس سے  بھی درگزر کیا اور یہ جرم عظیم بھی بخش دیا اور موسیٰ کو ظاہر حجت اور کھلا غلبہ عنایت فرمایا اور جب ان لوگوں نے  توراۃ کے  احکام ماننے  سے  انکار کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرمانبرداری سے  بیزاری ظاہر کی تو ان کے  سروں پر طور پہاڑ کو معلق کھڑا کر دیا اور ان سے  کہا کہ اب بولو! پہاڑ گرا کر پاش پاش کر دیں یا احکام قبول کرتے  ہو؟ تو یہ سب سجدے  میں گر پڑے  اور گریہ زاری شروع کی اور احکام الٰہی بجا لانے  کا مضبوط عہد و پیمان کیا یہاں تک کہ دل میں دہشت تھی اور سجدے  میں کنکھیوں سے  اوپر دیکھ رہے  تھے  کہ کہیں  پہاڑ نہ گر پڑے  اور دب کر نہ مر جائیں، پھر پہاڑ ہٹایا گیا۔ ان کی دوسری کشی کا بیان ہو رہا ہے  کہ قول و فعل دونوں کو بدل دیا، حکم ملا تھا کہ بیت المقدس کے  دروازے  میں سجدے  کرتے  ہوئے  جائیں اور حطۃ کہیں  "یعنی اے  اللہ ہماری خطائیں بخش کہ ہم نے  جہاد چھوڑ دیا اور تھک کر بیٹھ رہے  جس کی سا میں چالیس سال میدان تیہ میں سرگشتہ و حیران و پریشان رہے " لیکن ان کی کم ظرفی کا یہاں بھی مظاہرہ ہوا اور اپنی رانوں کے  بل گھسٹتے  ہوئے  دروازے  میں داخل ہونے  لگے  اور حنطتہ فی شعرۃ کہنے  لگے  یعنی گیہوں کی بالیں ہمیں دے ۔ پھر ان کی اور شرارت سنئے  ہفتہ وار دن کی تعظیم و کریم کرنے  کا ان سے  وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے  اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمربستہ ہو کر حرمت کرنے  کا ان سے  وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے  اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمر بستہ ہو کر حرمت کے  ارتکاب کے  حیلے  نکال لئے ۔ جیسے  کہ سورہ اعراف میں مفصل بیان ہے  ملاحظہ ہو آیت (واسئلھم عن القریۃ التی کانت حاضرۃ البحر) الخ، ایک حدیث میں بھی ہے  کہ یہودیوں سے  خاصۃ اللہ تعالیٰ نے  ہفتہ والے  دن کی تعظیم کا عہد لیا تھا۔ یہ پوری حدیث سورہ سبحان کی آیت (ولقد اتینا موسیٰ تسع ایات بینات) الخ، کی تفسیر میں آئے  گی انشاء اللہ!

۱۵۵

اہل کتاب، قاتلان انبیاء، عیسیٰ علیہ السلام کی روداد اور مراحل قیامت

اہل کتاب کے  ان گناہوں کا بیان ہو رہا ہے  جن کی وجہ سے  وہ اللہ کی رحمتوں سے  دور ڈال دیئے  گئے  اور ملعون و جلا وطن کر دیئے  گئے  اولاً ان کی عہد شکنی یہ تھی کہ جو وعدے  انہوں نے  اللہ سے  کئے  ان پر قائم نہ رہے، دوسرے  اللہ کی آیتوں یعنی حجت و دلیل اور نبیوں کے  معجزوں سے  انکار اور کفر، تیر سے  بلا وجہ، ناحق انبیاء کرام کا قتل۔ ان کے  رسولوں کی ایک بڑی جماعت ان کے  ہاتھوں قتل ہوئی۔ چوتھی ان کا یہ خیال اور قول کہ ہمارے  دل غلافوں میں ہیں  یعنی پردے  میں ہیں، جیسے  مشرکین نے  کہا تھا آیت (قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ) یعنی "اے  نبی تیری دعوت سے  ہمارے  دل پردے  میں ہیں " اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ ان کے  اس قول کا مطلب یہ ہے  کہ "ہمارے  دل علم کے  ظروف ہیں  وہ علم و عرفان سے  پُر ہیں ۔ " سورہ بقرہ میں بھی اس کی نظیر گزر چکی ہے، اللہ تعالیٰ ان کے  اس قول کی تردید کرتا ہے  کہ یوں نہیں  بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے  مہر لگا دی ہے  کیونکہ یہ کفر میں پختہ ہو چکے  تھے ۔ پس پہلی تفسیر کی بنا پر یہ مطلب ہوا کہ وہ عذر کرتے  تھے  کہ ہمارے  دل بوجہ ان پر غلاف ہونے  کے  نبی کی باتوں کو یاد نہیں  کر سکتے  تو انہیں  جواب دیا گیا کہ ایسا نہیں  بلکہ تمہارے  کفر کی وجہ سے  تمہارے  دل مسخ ہو گئے  ہیں  اور دوسری تفسیر کی بنا پر تو جواب ہر طرح ظاہر ہے ۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس کی پوری تفصیل و تشریح گزر چکی ہے ۔ پس بطور نتیجے  کے  فرما دیا کہ اب ان کے  دل کفر و سرکشی اور کمی ایمان پر ہی رہیں  گے، پھر ان کا پانچواں جرم عظیم بیان ہو رہا ہے  کہ انہوں نے  سیدہ مریم علیہا السلام پر زنا کاری جیسی بدترین اور شرمناک تہمت لگائی اور اسی زنا کاری کے  حمل سے  حضرت عیسیٰ کو پیدا شدہ بتایا، بعض نے  اس سے  بھی ایک قدم آگے  رکھا اور کہا کہ یہ بدکاری حیض کی حالت میں ہوئی تھی۔ اللہ کی ان پر پھٹکار ہو کہ ان کی بد زبانی سے  اللہ کے  مقبول بندے  بھی نہ بچ سکے ۔ پھر ان کا چھٹا گناہ بیان ہو رہا ہے  کہ یہ بطور تمسخر اور اپنی بڑائی کے  یہ ہانک بھی لگاتے  ہیں  کہ "ہم نے  حضرت عیسیٰ کو مار ڈالا" جیسے  کہ بطور تمسخر کے  مشرکین حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  کہتے  ہیں  کہ اے  وہ شخص جس پر قرآن اتارا گیا ہے  تو تو مجنون ہے ۔ پورا واقعہ یہ ہے  کہ جب اللہ تعالیٰ نے  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت دے  کر بھیجا اور آپ کے  ہاتھ پر بڑے  بڑے  معجزے  دکھائے  مثلاً بچپن کے  اندھوں کو بینا کرنا، کوڑھیوں کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے  پرند بنا کر پھونک مارنا اور ان کا جاندار ہو کر اڑ جانا وغیرہ تو یہودیوں کو سخت طیش آیا اور مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے  اور ہر طرح سے  ایذاء رسانی شروع کر دی، آپ کی زندگی تنگ کر دی، کسی بستی میں چند دن آرام کرنا بھی آپ کو نصیب نہ ہوا، ساری عمر جنگلوں اور بیابانوں میں اپنی والدہ کے  ساتھ سیاحت میں گذاری، پھر بھی انہیں  چین نہ لینے  دیا، یہ دمشق کے  بادشاہ کے  پاس گئے  جو ستارہ پرست مشرک شخص تھا (اس مذہب والوں کے  ملک کو اس وقت یونان کہا جاتا تھا) یہ بہت روئے  پیٹے  اور بدشاہ کو حضرت عیسیٰ کے  خلاف اکسایا اور کہا کہ یہ شخص بڑا مفسد ہے ۔ لوگوں کو بہکا رہا ہے، روز نئے  فتنے  کھڑے  کرتا ہے، امن میں خلل ڈالتا ہے ۔ لوگوں کو بغاوت پہ اکساتا ہے  وغیرہ۔ بادشاہ نے  اپنے  گورنر کو جو بیت المقدس میں تھا، ایک فرمان لکھا کہ وہ حضرت عیسیٰ کو گرفتار کر لے  اور سولی پر چڑھا کر اس کے  سر پر کانٹوں کا تاج رکھ کر لوگوں کو اس دکھ سے  نجات دلوائے ۔ اس نے  فرمان شاہی پڑھ کر یہودیوں کے  ایک گروہ کو اپنے  ساتھ لے  کر اس مکان کا محاصرہ کر لیا جس میں روح اللہ تھے، آپ کے  ساتھ اس وقت بارہ تیرہ یا زیادہ سے  زیادہ ستر آدمی تھے، جمعہ کے  دن عصر کے  بعد اس نے  محاصرہ کیا اور ہفتہ کی رات تک مکان کو گھیرے  میں لئے  رہا جب حضرت عیسیٰ نے  یہ محسوس کر لیا کہ اب وہ مکان میں گھس کر آپ کو گرفتار کر لیں گے  یا آپ کو خود باہر نکلنا پڑے  گا تو آپ نے  صحابہ سے  فرمایا تم میں سے  کون اس بات کو پسند کرتا ہے  کہ اس پر میری مشابہت ڈال دی جائے  یعنی اس کی صورت اللہ مجھ جیسی بنا دے  اور وہ ان کے  ہاتھوں گرفتار ہو اور مجھے  اللہ مخلصی دے ؟ میں اس کے  لئے  جنت کا ضامن ہوں ۔ " اس پر ایک نوجوان نے  کہا مجھے  یہ منظور ہے  لیکن حضرت عیسیٰ نے  انہیں  اس قابل نہ جان کر دوبارہ یہی کہا، تیسری دفعہ بھی کہا مگر ہر مرتبہ صرف یہی تیار ہوئے  رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ اب آپ نے  یہی منظور فرما لیا اور دیکھتے  ہی دیکھتے  اس کی صورت قدرتاً بدل گئی بالکل یہ معلوم ہونے  لگا کہ حضرت عیسیٰ یہی ہیں  اور چھت کی طرف ایک روزن نمودار ہو گیا اور حضرت عیسیٰ کی اونگھ کی حالت ہو گئی اور اسی طرح وہ آسمان پر اٹھا لئے  گئے ۔ جیسے  قرآن کریم میں ہے  آیت (اذ قال اللہ یا عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی) الخ، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے  فرمایا "اے  عیسیٰ میں تم سے  مکمل تعاون کرنے  والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے  والا ہوں ۔ " حضرت روح اللہ کے  سوئے  ہوئے  آسمان پر اٹھائے  جانے  کے  بعد یہ لوگ اس گھر سے  باہر نکلے، یہودیوں کی جماعت نے  اس بزرگ صحابی کو جس پر جناب مسیح علیہ السلام کی شباہت ڈال دی گئی تھی، عیسیٰ سمجھ کر پکڑ لیا اور راتوں رات اسے  سولی پر چڑھا کر اس کے  سر پر کانٹوں کا تاج رکھ دیا۔ اب یہود خوشیاں منانے  لگے  کہ ہم نے  عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا اور لطف تو یہ ہے  کہ عیسائیوں کی کم عقل اور جاہل جماعت نے  بھی یہودیوں کی ہاں میں ہاں ملا دی اور ہاں صرف وہ لوگ جو مسیح علیہ السلام کے  ساتھ اس مکان میں تھے  اور جنہیں  یقینی طور پر معلوم تھا کہ مسیح آسمان پر چڑھا لئے  گئے  اور یہ فلاں شخص ہے  جو دھوکے  میں ان کی جگہ کام آیا۔ باقی عیسائی بھی یہودیوں کا سا راگ الاپنے  لگے، یہاں تک کہ پھر یہ بھی گھڑ لیا کہ عیسیٰ کی والدہ سولی تلے  بیٹھ کر روتی چلاتی رہیں  اور یہ بھی کہتے  ہیں  کہ آپ نے  ان سے  کچھ باتیں بھی کیں، واللہ اعلم۔ دراصل یہ سب باتیں اللہ کی طرف سے  اپنے  بزرگ بندوں کا امتحان ہیں  جو اس کی حکمت بالغہ کا تقاضا ہے، پس اس غلطی کو اللہ تعالیٰ نے  واضح اور ظاہر کر کے  حقیقت حال سے  اپنے  بندوں کو مطلع فرما دیا اور اپنے  سب سے  بہتر رسول اور بڑے  مرتبے  والے  پیغمبر کی زبانی اپنے  پاک، سچے  اور بہترین کلام میں صاف فرما دیا کہ "حقیقتاً نہ کسی نے  حضرت عیسیٰ کو قتل کیا، نہ سولی دی بلکہ ان کی شبیہ جس پر ڈالی گئی تھی، اسے  عیسیٰ ہی سمجھ بیٹھے، جو یہود و نصاریٰ آپ کے  قتل کے  قائل ہو گئے  وہ سب کے  سب شک و شبہ میں حیرت و ضلالت میں مبتلا ہیں ۔ ان کے  پاس کوئی دلیل نہیں  نہ انہیں  خود کچھ علم ہے  صرف سنی سنائی باتوں پہ یقین کے  سوا کوئی ان کے  پاس دلیل نہیں ۔  اسی لئے  پھر اسی کے  متصل فرما دیا کہ "یہ یقینی امر ہے  کہ روح اللہ کو کسی نے  قتل نہیں  کیا بلکہ جناب باری عزاسمہ نے  جو غالب تر ہے  اور جس کی قدرتیں بندوں کے  فہم میں بھی نہیں  آ سکتیں اور جس کی حکمتوں کی تہ تک اور کاموں کی لم تک کوئی نہیں  پہنچ سکتا، اپنے  خاص بندے  کو جنہیں  اپنی روح کہا تھا اپنے  پاس اٹھا لیا" حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے  ہیں  جب اللہ تعالیٰ نے  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھانا چاہا تھا، آپ گھر میں آئے  اور گھر میں بارہ حواری تھے، آپ کے  بالوں سے  اپنی کے  قطرے  ٹپک رہے  تھے، آپ نے  فرمایا! تم میں بعض ایسے  ہیں  جو مجھ پر ایمان لا چکے  ہیں  مگر کچھ مجھ سے  کفر کریں گے ۔ پھر آپ نے  فرمایا "تم میں سے  کون شخص اسے  پسند کرتا ہے  کہ اس پر میری شبیہ ڈالی جائے  اور میری جگہ وہ قتل کر دیا جائے  اور جنت میں میرا رفیق بنے ۔ " اس روایت میں یہ بھی ہے  کہ حضرت روح اللہ کی پیش گوئی کے  مطابق بعض نے  آپ سے  بارہ بارہ بار کفر کیا۔ پھر ان کے  تین گروہ ہو گئے، یعقوبیہ، نسطوریہ اور مسلمان، یعقوبیہ تو کہنے  لگے  خود اللہ ہم میں تھا، جب تک چاہا رہا، پھر آسمان پر چڑھ گیا، نسطوریہ کا خیال ہو گیا کہ اللہ کا لڑکا ہم میں تھا، جسے  ایک زمانے  تک ہم میں رکھ کر پھر اللہ نے  اپنی طرف اٹھا لیا اور مسلمانوں کا یہ عقیدہ رہا کہ اللہ کا بندہ اور رسول ہم میں تھا جب تک اللہ نے  چاہا وہ ہم میں رہا اور پھر اللہ نے  اسے  اپنی طرف اٹھا لیا۔ ان پہلے  دو گمراہ فرقوں کا زور ہو گیا اور انہوں نے  تیسرے  سچے  اور اچھے  فرقے  کو کچلنا اور دبانا شروع کیا، چنانچہ یہ کمزور ہوتے  گئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے  پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرما کر اسلام کو غالب کیا۔ اس کی اسناد بالکل صحیح ہے  اور نسائی میں حضرت ابومعاویہ سے  بھی یہی منقول ہے  اسی طرح سلف میں سے  بہت سے  بزرگوں کا قول ہے، حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  جس وقت شاہی سپاہی اور یہودی حضرت عیسیٰ پر چڑھ دوڑے  اور گھیرا ڈال دیا اس وقت آپ کے  ساتھ سترہ آدمی تھے ۔ ان لوگوں نے  جب دروازے  کھول کر دیکھا تو دیکھا کہ سب کے  سب حضرت عیسیٰ کی صورت میں ہیں  تو کہنے  لگے  تم لوگوں نے  ہم پر جادو کر دیا ہے، اب یا تو تم اسے  جو حقیقی عیسیٰ ہوں ہمیں سونپ دو یا اسے  منظور کر لو کہ ہم تم سب کو قتل کر ڈالیں ۔ یہ سن کر روح اللہ نے  فرمایا "کوئی ہے  جو جنت میں میرا رفیق بنے  اور یہاں میرے  بدلے  سولی پر چڑھنا منظور کرے " ایک صحابی اس کے  لئے  تیار ہو گئے  اور کہنے  لگے  عیسیٰ میں تیار ہوں، چنانچہ دشمنان دین نے  انہیں  گرفتار کیا قتل کیا اور سولی چڑھایا اور بغلیں بجانے  لگے  کہ ہم نے  عیسیٰ کو قتل کیا، حالانکہ دراصل ایسا نہیں  ہوا بلکہ وہ دھوکے  میں پڑ گئے  اور اللہ نے  اپنے  رسول کو اسی وقت اپنے  پاس چڑھا لیا۔ تفسیر ابن جریر میں ہے  کہ جب اللہ تعالیٰ نے  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ وحی کر دیا کہ وہ دنیا سے  رخصت ہونے  والے  ہیں  تو آپ پر بہت گراں گزرا اور موت کی گھبراہٹ بڑھ گئی تو آپ نے  حواریوں کی دعوت کی، کھانا تیار کیا اور سب سے  کہہ دیا کہ آج رات کو میرے  پاس تم سب ضرور آنا، مجھے  ایک ضروری کام ہے ۔ جب وہ آئے  تو خود کھانا کھلایا سب کام کاج اپنے  ہاتھوں کرتے  رہے، جب وہ کھا چکے  تو خود ان کے  ہاتھ دھلائے  اور اپنے  کپڑوں سے  کے  ہاتھ پونچھے  یہ ان پر بھاری پڑا اور برا بھی لگا لیکن آپ نے  فرمایا "اس رات میں جو کچھ کر رہا ہوں، اگر تم میں سے  کسی نے  مجھے  اس سے  روکا تو میرا اس کا کچھ واسطہ نہیں  نہ وہ میرا نہ میں اس کا۔ " چنانچہ وہ سب خاموش رہے ۔ جب آپ ان تمام کاموں سے  فارغ ہو گئے  تو فرمایا دیکھو! تمہارے  نزدیک میں تم سب سے  بڑے  مرتبے  والا ہوں اور میں نے  تمہاری خدمت خود کی ہے، یہ اس لئے  کہ تم میری اس سنت کے  عامل بن جاؤ، خبردار تم میں سے  کوئی اپنے  آپ کو اپنے  بھائیوں سے  بڑا نہ سمجھے، بلکہ ہر بڑا چھوٹے  کی خدمت کرے، جس طرح خود میں نے  تمہاری خدمت کی ہے ۔ اب تم سے  میرا جو خاص کام تھا جس کی وجہ سے  آج میں نے  تمہیں  بلایا ہے  وہ بھی سن لو کہ "تم سب مل کر آج رات بھر خشوع و خضوع سے  میرے  لئے  دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے ۔ " چنانچہ سب نے  دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع سے  میرے  لئے  دعائیں کرو کہ اللہ میری اجل کو مؤخر کر دے ۔ " چنانچہ سب نے  دعائیں شروع کیں لیکن خشوع و خضوع کا وقت آنے  سے  پہلے  ہی اس طرح انہیں  نیند آنے  لگی کہ زبان سے  ایک لفظ نکالنا مشکل ہو گیا، آپ نے  انہیں  بیدار کی کوشش میں ایک ایک کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہا تمہیں  کیا ہو گا؟ ایک رات بھی جاگ نہیں  سکتے ؟ میری مدد نہیں  کرتے ؟ لیکن سب نے  جواب دیا اے  رسول اللہ ہم خود حیران ہیں  کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ ایک چھوڑ کئی کئی راتیں جاگتے  تھے، جاگنے  کے  عادی ہیں  لیکن اللہ جانے ، آج کیا بات ہے  کہ بری طرح نیند نے  گھیر رکھا ہے، دعا کے  اور ہمارے  درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے  تو آپ نے  فرمایا! اچھا پھر چرواہا رہے  گا اور بکریاں تین تیرہ ہو جائیں گی، غرض اشاروں کنایوں میں اپنا مطلب ظاہر کرتے  رہے، پھر فرمایا "دیکھو تم میں سے  ایک شخص صبح کا مرغ بولنے  سے  پہلے  تین مرتبہ میرے  ساتھ کفر کرے  گا اور تم میں سے  ایک چندہ درہموں کے  بدلے  مجھے  بیچ دے  گا اور میری قیمت کھائے  گا۔ " اب یہ لوگ یہاں سے  باہر نکلے  ادھر ادھر چلے  گئے، یہود جو اپنی جستجو میں تھے، انہوں نے  شمعون حواری کو پہچان کر اسے  پکڑا اور کہا یہ بھی اس کا ساتھی ہے، مگر شمعون نے  کہا "غلط ہے  میں اس کا ساتھی نہیں  ہوں ۔ انہوں نے  یہ باور کر کے  اسے  چھوڑ دیا لیکن کچھ آگے  جا کر یہ دوسری جماعت کے  ہاتھ لگ گیا، وہاں سے  بھی اسی طرح انکار کر کے  اپنا آپ چھڑایا۔ اتنے  میں مرغ نے  بانگ دی اب یہ پچھتانے  لگے  اور سخت غمگین ہوئے ۔ صبح ایک حواری یہودیوں کے  پاس پہنچتا ہے  اور کہتا ہے  کہ اگر میں تمہیں  عیسیٰ کا پتہ بتا دوں تو تم مجھے  کیا دلواؤ گے ؟ انہوں نے  کہا تیس درہم، چانچہ اس نے  وہ رقم لے  لی، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پتہ بتا دیا۔ اس سے  پہلے  وہ شبہ میں تھے، اب انہوں نے  گرفتار کر لیا اور رسیوں میں جکڑ کر گھسیٹتے  ہوئے  لے  چلے  اور بطور طعنہ زنی کے  کہتے  جاتے  تھے  کہ آپ تو مردوں کو زندہ کرتے  تھے، جنات کو بھگا دیا کرتے  تھی، مجنون کو اچھا کر دیا کرتے  تھے، اب کیا بات ہے  کہ خود اپنے  آپ کو نہیں  بچا سکتے  ان رسیوں کو بھی نہیں  توڑ سکتے، تھو ہے  تمہارے  منہ پر! یہ کہتے  جاتے  تھے  اور کانٹے  ان کے  اوپر ڈالتے  جاتے  تھے ۔ اسی طرح بے  دردی سے  گھسیتے  ہوئے  جب اس لکڑی کے  پاس لائے  جہاں سولی دینا تھی اور ارادہ کیا کہ سولی پر چڑھا دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے  اپنے  نبی کو اپنی طرف چڑھا لیا اور انہوں نے  دوسرے  شخص کو جو آپ کے  مشابہ تھا سولی پر چڑھا دیا۔ " پھر سات دن کے  بعد حضرت مریم اور وہ عورت جس کو حضرت عیسیٰ نے  جن سے  نجات دلوائی تھی۔ وہاں آئیں اور رونے  پیٹنے  لگیں تو ان کے  پاس حضرت عیسیٰ آئے  اور ان سے  کہا کہ "کیوں روتی ہو؟ مجھے  تو اللہ تعالیٰ نے  اپنی طرف بلند کر لیا ہے  اور مجھے  ان کی اذیتیں نہیں  پہنچیں، ان پر تو شبہ ڈال دیا گیا ہے  میرے  حواریوں سے  کہو کہ مجھ سے  فلاں جگہ ملیں " چنانچہ یہ بشارت جب حواریوں کو ملی تو وہ سب کے  سب گیارہ آدمی اس جگہ پہنچے، جس حواری نے  آپ کو بیچا تھا، اسے  انہوں نے  وہاں نہ پایا، دریافت کرنے  پر معلوم ہوا کہ وہ ندامت اور شرمندگی کی وجہ سے  اپنا گلا گھونٹ کر آپ ہی مر گیا، اس نے  خودکشی کر لی۔ آپ نے  فرمایا "اگر وہ توبہ کرتا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا۔ " پھر پوچھا کہ یہ بچہ جو تمہارے  ساتھ ہے، اس کا نام یحییٰ ہے، اب یہ تمہارا ساتھی ہے  سنو صبح کو تمہاری زبانیں بدل دی جائیں گی، ہر شخص اپنی اپنی قوم کی زبان بولنے  لگے  گا، اسے  چاہئے  کہ اسی قوم میں جا کر اسے  میری دعوت پہنچائے  اور اللہ سے  ڈرائے ۔ یہ واقعہ نہایت ہی غریب ہے، ابن اسحاق کا قول ہے  کہ بنی اسرائیل کا بادشاہ جس نے  حضرت عیسیٰ کے  قتل کے  لئے  اپنی فوج بھیجی تھی اس کا نام داؤد تھا۔ حضرت عیسیٰ اس وقت سخت گھبراہٹ میں تھے، کوئی شخص اپنی موت سے  اس قدر پریشان حواس باختہ اور اس قدر واویلا کرنے  والا نہ ہو گا، جس قدر آپ نے  اس وقت کیا۔ یہاں تک کہ فرمایا یا اللہ اگر تو موت کے  پیالے  کو کسی سے  بھی ٹالنے  والا ہے  تو مجھ سے  ٹال دے  اور یہاں تک کہ گھبراہٹ اور خوف کے  مارے  ان کے  بدن سے  خون پھوٹ کر بہنے  لگا، اس وقت اس مکان میں آپ کے  ساتھ بارہ حواری تھے، جن کے  نام یہ ہیں  فرطوس، یعقوبس، ربداء، یبخس، (یعقوب کا بھائی) اندارا ابلیس، فیلبس، ابن یلما، منتا طوماس، یعقوب بن حلقایا، نداوسیس، قتابیا، لیودس وکریا یوطا۔ بعض کہتے  ہیں  تیرہ آدمی تھے  اور ایک کا نام سرجس تھا۔ اسی نے  اپنا آپ سولی پر چڑھایا جانا حضرت عیسیٰ کی بشارت پر منظور کیا تھا۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر چڑھا لئے  گئے  اور بقیہ لوگ یہودیوں کے  ہاتھوں میں اسیر ہو گئے، اب جو گنتی گنتے  ہیں  تو ایک کم نکلا۔ اس کے  بارے  میں ان میں آپس میں اختلاف ہوا۔ یہ لوگ جب اس جماعت پر چھاپہ مارتے  ہیں  اور انہیں  گرفتار کرنا چاہتے  ہیں  تو حضرت عیسیٰ کو چونکہ پہچانتے  نہ تھے  تو لیودس وکریا یوطا نے  تیس درہم لے  کر ان سے  کہا تھا کہ میں سب سے  پہلے  جاتا ہوں جسے  میں جا کر بوسہ دوں تم سمجھ لینا کہ عیسیٰ وہی ہے، جب یہ اندر پہنچتے  ہیں، اس وقت حضرت عیسیٰ اٹھا لئے  گئے  تھے  اور حضرت سرجس آپ کی صورت میں بنا دیئے  گئے  تھے، اس نے  جا کر حسب قرار داد انہی کا بوسہ لیا اور یہ گرفتار کر لئے  گئے  پھر تو یہ بہت نادم ہوا اور اپنے  گلے  میں رسی ڈال کر پھانسی پر لٹک گیا اور نصرانیوں میں ملعون بنا۔ بعض کہتے  ہیں  اس کا نام یودس رکریا بوطا تھا، یہ جیسے  ہی حضرت عیسیٰ کی پہچان کرانے  کے  لئے  اس گھر میں داخل ہوا، حضرت عیسیٰ تو اٹھا لئے  گئے  اور خود اس کی صورت حضرت عیسیٰ جیسی ہو گئی اور اسی کو لوگوں نے  پک لیا، یہ ہزار چیختا چلاتا رہا کہ میں عیسیٰ نہیں  ہوں، میں تو تمہارا ساتھی ہوں، میں نے  ہی تو تمہیں  عیسیٰ کا پتہ دیا تھا لیکن کون سنتا؟ آخر اسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا، اب اللہ ہی کو علم ہے  کہ یہی تھا یا وہ تھا، جس کا ذکر پہلے  ہوا۔ حضرت مجاہد کا قول ہے  کہ حضرت روح اللہ کی مشابہت جس پر ڈال دی گئی تھی اسے  صلیب پر چڑھایا اور حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے  زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ امام ابن جریر فرماتے  ہیں  "حضرت عیسیٰ کی شبیہ آپ کے  ان تمام ساتھیوں پر ڈال دی گی تھی۔ " اس کے  بعد ذکر ہوتا ہے  کہ جناب روح اللہ کی موت سے  پہلے  جملہ اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے  اور قیامت تک آپ ان کے  گواہ ہوں گے ۔ امام ابن جریر فرماتے  ہیں  اس کی تفسیر میں کئی قول ہیں  ایک تو یہ کہ عیسیٰ موت سے  پہلے  یعنی جب آپ دجال کو قتل کرنے  کے  لئے  دوبارہ زمین پر آئیں گے  اس وقت تمام مذاہب ختم ہو چکے  ہوں گے  اور صرف ملت اسلامیہ جو دراصل ابراہیم حنیف کی ملت ہے  رہ جائے  گی۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  (موتہ) سے  مراد موت عیسیٰ ہے  ابو مالک فرماتے  ہیں  جب جناب مسیح اتریں گے، اس وقت کل اہل کتاب آپ پر ایمان لائیں گے ۔ ابن عباس سے  اور روایت میں ہے  خصوصاً یہودی ایک بھی باقی نہیں  رہے  گا۔ حسن بصری فرماتے  ہیں  یعنی نجاشی اور ان کے  ساتھی آپ سے  مروی ہے  کہ قسم اللہ کی حضرت عیسیٰ اللہ کے  پاس اب زندہ موجود ہیں ۔ جب آپ زمین پر نازل ہوں گے، اس وقت اہل کتاب میں سے  ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ پر ایمان نہ لائے ۔ آپ سے  جب اس آیت کی تفسیر پوچھی جاتی ہے  تو آپ فرماتے  ہیں  اللہ تعالیٰ نے  مسیح علیہ السلام کو اپنے  پاس اٹھا لیا ہے  اور قیامت سے  پہلے  آپ کو دوبارہ زمین پر اس حیثیت سے  بھیجے  گا کہ ہر نیک و بد آپ پر ایمان لائے  گا۔ حضرت قتادہ، حضرت عبدالرحمٰن وغیرہ بہت سے  مفسرین کا یہی فیصلہ ہے  اور یہی قول حق ہے  اور یہی تفسیر بالکل ٹھیک ہے، انشاء اللہ العظیم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق سے  ہم اسے  بادلائل ثابت کریں گے ۔ دوسرا قول یہ ہے  کہ ہر اہل کتاب آپ پر اپنی موت سے  پہلے  ایمان لاتا ہے ۔ اس لئے  کہ موت کے  وقت حق و باطل سب کھل جاتا ہے  تو ہر کتابی حضرت عیسیٰ کی حقانیت کو زمین سے  سدھارنے  سے  پہلے  یاد کر لیتا ہے  ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے  ہیں  کوئی یہودی نہیں  مرتا جب تک کہ وہ حضرت روح اللہ پر ایمان نہ لائے ۔ حضرت مجاہد کا یہی قول ہے  ۔ بلکہ ابن عباس سے  تو یہاں تک مروی ہے  کہ اگر کسی اہل کتاب کی گردن تلوار سے  اڑا دی جائے  تو اس کی روح نہیں  نکلتی جب تک کہ وہ حضرت عیسیٰ پر ایمان نہ لائے  اور یہ نہ کہہ دے  کہ آپ اللہ کے  بندے  اور اس کے  رسول ہیں ۔ حضرت ابی کی تو قرات میں (قبل موتھم) ہے ۔ ابن عباس سے  پوچھا جاتا ہے  کہ فرض کرو کوئی دیوار سے  گر کر مر جائے ؟ فرمایا پھر بھی اس درمیانی فاصلے  میں وہ ایمان لا چکتا ہے ۔ عکرمہ، محمد بن سیرین، محمد ضحاک، سعید بن جبیر سے  بھی یہی مروی ہے ۔ ایک قول امام حسن سے  ایسا بھی مروی ہے  کہ جس کا مطلب پہلے  قول کا سا بھی ہو سکتا ہے  اور حضرت عیسیٰ کی موت سے  پہلے  کا بھی ہو سکتا ہے ۔

۱۵۶

تیسرا قول یہ ہے  کہ اہل کتاب میں سے  کوئی بھی ایسا نہیں  ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی موت سے  پہلے  ایمان لائے  گا۔ عکرمہ یہی فرماتے  ہیں ۔ امام ابن جریر فرماتے  ہیں  ان سب اقوال میں زیادہ تر صحیح قول پہلا ہے  کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے  قیامت کے  قریب اتریں گے، اس وقت کوئی اہل کتاب آپ پر ایمان لائے  بغیر نہ رہے  گا۔ فی الواقع امام صاحب کا یہ فیصلہ حق بجانب ہے ۔ اس لئے  کہ یہاں کی آیتوں سے  صاف ظاہر ہے  کہ اصل مقصود یہودیوں کے  اس دعوے  کو غلط ثابت کرنا ہے  کہ ہم نے  جناب مسیح کو قتل کیا اور سولی دی اور اسی طرح جن جاہل عیسائیوں نے  یہ بھی کہا ہے  ان کے  قول کو بھی باطل کرنا ہے، روح اللہ نہ مقتول ہیں، نہ مصلوب ۔ تو اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے  کہ فی الواقع نفس الامر میں نہ تو روح اللہ مقتول ہوئے، نہ مصلوب ہوئے  بلکہ ان کے  لئے  شبہ ڈال دیا گیا اور انہوں نے  حضرت عیسیٰ جیسے  ایک شخص کو قتل کیا لیکن خود انہیں  اس حقیقت کا علم نہ ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ نے  اپنے  نبی کو تو اپنے  پاس چڑھا لیا۔ وہ زندہ ہیں، اب تک باقی ہیں، قیامت کے  قریب اتریں گے ۔ جیسے  صحیح متواتر احادیث میں ہے  مسیح ہر گمراہ کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیروں کو قتل کریں گے، جزیہ قبول نہیں  کریں گے، اعلان کر دیں گے  کہ یا تو اسلام کو قبول کرو یا تلوار سے  مقابلہ کرو۔ پس اس آیت میں خبر دیتا ہے  کہ اس وقت تمام اہل کتاب آپ کے  ہاتھ پر ایمان قبول کریں گے  اور ایک بھی ایسا نہ رہے  گا جو اسلام کو مانے  بغیر رہ جائے  یا رہ سکے ۔ پس جسے  یہ گمراہ یہود اور یہ جاہل نصرانی مرا ہوا جانتے  ہیں  اور سولی پر چڑھایا ہوا مانتے  ہیں، یہ ان کی حقیقی موت سے  پہلے  ہی ان پر ایمان لائیں گے  اور جو کام انہوں نے  ان کی موجودگی میں کئے  ہیں  اور کریں گے  یہ ان پر قیامت کے  دن اللہ کے  سامنے  گواہی دیں گے  یعنی آسمان پر اٹھائے  جانے  کے  قبل زندگی کے  مشاہدہ کئے  ہوئے  کام اور دوبارہ کی آخری زندگی جو زمین پر گذاریں گے، اس میں ان کے  سامنے  جتنے  کام انہوں نے  کئے  وہ سب آپ کی نگاہوں کے  سامنے  ہوں گے  اور انہیں  اللہ کے  سامنے  انہیں  پیش کریں گے ۔ ہاں اس کی تفسیر میں جو دو قول اور بیان ہوئے  ہیں  وہ بھی واقعہ کے  اعتبار سے  بالکل صحیح اور درست ہیں ۔ موت کا فرشتہ آ جانے  کے  بعد احوال آخرت، سچ جھوٹ کا معائنہ ہو جاتا ہے ، اس وقت ہر شخص سچائی کو سچ کہنے  اور سمجھنے  لگتا ہے  لیکن وہ ایمان اللہ کے  نزدیک معتبر نہیں ۔ اسی سورت کے  شروع میں ہے  آیت (ولیست التوبۃ للذین یعملون السیات حتی اذا حضر احدھم الموت قال انی تبت الان) الخ، اور جگہ فرمان ہے  آیت (فلما راو باسنا قالوا امنا باللہ وحدہ) الخ، یعنی جو لوگ موت کے  آ جانے  تک برائیوں میں مشغول رہے  ان کی توبہ قبول نہیں  اور جو لوگ عذاب رب دیکھ کر ایمان لائیں، انہیں  بھی ان کا ایمان نفع نہ دے  گا۔ پس ان دونوں آیتوں کو سامنے  رکھ کر ہم کہتے  ہیں  کہ پچھلے  دو اقوال جن کی امام ابن جریر نے  تردید کی ہے  وہ ٹھیک نہیں ۔ اس لئے  کہ امام صاحب فرماتے  ہیں  اگر پچھلے  دونوں قولوں کو اس آیت کی تفسیر میں صحیح مانا جائے  تو لازم آتا ہے  کہ کسی یہودی یا نصرانی کے  اقرباء اس کے  وارث نہ ہوں، اس لئے  کہ وہ تو حضرت عیسیٰ پر اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لا کر مرا اور اس کے  وارث یہود و نصاریٰ ہیں، مسلمان کا وارث کافر نہیں  ہو سکتا۔ لیکن ہم کہتے  ہیں  یہ اس وقت ہے  جب ایمان ایسے  وقت لائے  کہ اللہ کے  نزدیک معتبر ہو، نہ ایسے  وقت ایمان لانا جو بالکل بے  سود ہے ۔ ابن عباس کے  قول پر گہری نظر ڈالئے  کہ دیوار سے  گرتے  ہوئے، درندے  کے  جبڑوں میں، تلوار کے  چلتے  ہوئے  وہ ایمان لاتا ہے  تو ایسی حالت کا ایمان مطلق نفع نہیں  دے  سکتا۔ جیسے  قرآن کی مندرجہ بالا دونوں آیتیں ظاہر کر رہی ہیں  واللہ اعلم۔ میرے  خیال سے  تو یہ بات بہت صاف ہے  کہ اس آیت کی تفسیر کے  پچھلے  دونوں قول بھی معتبر مان لینے  سے  کوئی اشکال پیش نہیں  آتی۔ اپنی جگہ وہ بھی ٹھیک ہیں ۔ لیکن ہاں آیت سے  واقعی مطلب تو یہ نکلتا ہے  جو پہلا قول ہے ۔ تو اس سے  مراد یہ ہے  کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں، قیامت کے  قریب زمین پر اتریں گے  اور یہودیوں و نصرانیوں دونوں کو جھوٹا بتائیں گے  اور جو افراط تفریط انہوں نے  کی ہے، اسے  باطل قرار دیں گے ۔ ایک طرف ملعون جماعت یہودیوں کی ہے، جنہوں نے  آپ کو آپ کی عزت سے  بہت گرا دیا اور ایسی ناپاک باتیں آپ کی شان میں کہیں  جن سے  ایک بھلا انسان نفرت کرے ۔ دوسری جانب نصرانی ہیں  جنہوں نے  آپ کے  مرتبے  کو اس قدر بڑھایا کہ جو آپ میں نہ تھا اس کے  اثبات میں اتنے  بڑھے  کہ مقام نبوت سے  مقام ربوبیت تک پہنچا دیا جس سے  اللہ کی ذات بالکل پاک ہے ۔ اب ان احادیث کو سنئے  جن میں بیان ہے  کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام آخر زمانے  میں قیامت کے  قریب آسمان سے  زمین پر اتریں گے  اور اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ کی عبادت کی طرف سب کو بلائیں گے ۔ صحیح بخاری شریف جسے  ساری امت نے  قبول کیا ہے  اس میں امام محمد بن اسماعیل بخاری علیہ رحمۃ و الرضوان کتاب ذکر انبیاء میں یہ حدیث لائے  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اس کی قسم جس کے  ہاتھ میں میری جان ہے  کہ عنقریب تم میں ابن مریم نازل ہوں گے ۔ عادل منصف بن کر صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے ۔ جزیہ ہٹا دیں گے ۔ مال اس قدر بڑھ جائے  گا کہ اسے  لینا کوئی منظور نہ کرے  گا، ایک سجدہ کر لینا دنیا اور دنیا کی سب چیزوں سے  محبوب تر ہو گا۔ اس حدیث کو بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابوہریرہ نے  بطور شہادت قرآنی کے  اسی آیت (وان من) کی آخر تک تلاوت کی۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے  اور سند سے  یہی روایت بخاری مسلم میں مروی ہے  اس میں ہے  کہ سجدہ اس وقت فقط اللہ رب العالمین کے  لئے  ہی ہو گا۔ اور اس آیت کی تلاوت میں قبل موتہ کے  بعد یہ فرمان بھی ہے  کہ قبل موت عیسیٰ بن مریم پھر اسے  حضرت ابوہریرہ کا تین مرتبہ دوہرانا بھی ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے  حضرت عیسیٰ حج یا عمرے  پر یا دونوں پر لبیک کہیں  گے، میدان حج میں، روحاء میں ۔ یہ حدیث مسلم میں بھی ہے ۔ مسند کی اور حدیث میں ہے  عیسیٰ بن مریم اتریں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو مٹائیں گے، نماز با جماعت ہو گی اور اللہ کی راہ میں مال اس قدر کثرت سے  دیا جائے  گا کہ کوئی قبول نہ کرنے  والا نہ ملے  گا۔ خراج چھوڑ دیں گے، روحاء میں جائیں گے  اور وہاں سے  حج یا عمرہ کریں گے  یا دونوں ایک ساتھ کریں گے ۔ پھر ابوہریرہ نے  یہی آیت پڑھی لیکن آپ کے  شاگرد حضرت حنظلہ کا خیال ہے  کہ حضرت ابوہریرہ نے  فرمایا "حضرت عیسیٰ کے  انتقال سے  پہلے  آپ پر ایمان لائیں گے ۔ " مجھے  نہیں  معلوم کہ یہ سب حدیث کے  ہی الفاظ ہیں  یا حضرت ابوہریرہ کے  اپنے ۔

۱۵۷

صحیح بخاری میں ہے  اس وقت کیا ہو گا، جب تم میں مسیح بن مریم اتریں گے  اور تمہارا امام تمہیں  میں سے  ہو گا ۔ ابو داؤد، مسند احمد وغیرہ میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا "انبیاء کرام علیہم السلام سب ایک باپ کے  بیٹے  بھائی کی طرح ہیں، مائیں جدا جدا اور دین ایک۔ عیسیٰ بن مریم سے  زیادہ تر نزدیک میں ہوں اس لئے  کہ میرے  اور ان کے  درمیان کوئی اور نبی نہیں، یقیناً وہ اترنے  والے  ہیں  پس تم انہیں  پہچان رکھو۔ درمیان قد ہے ، سرخ سفید رنگ ہے ۔ وہ دو گیروے  رنگ میں رنگے  ہوئے  کپڑے  اوڑھے  اور باندھے  ہوں گے، بال خشک ہونے  کے  باوجود ان کے  سر سے  قطرے  ٹپک رہے  ہوں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ قبول نہ کریں گے ، لوگوں کو اسلام کی طرف بلائیں گے، ان کے  زمانے  میں تمام ملتیں مٹ جائیں گی، صرف اسلام ہی اسلام رہے  گا، ان کے  زمانے  میں اللہ تعالیٰ مسیح دجال کو ہلاک کرے  گا۔ پھر زمین پر امن ہی امن ہو گا یہاں تک کہ کالے  ناگ اونٹوں کے  ساتھ، چیتے  گایوں کے  ساتھ اور بھیڑیئے  بکریوں کے  ساتھ چرتے  پھریں گے  اور بچے  سانپوں سے  کھیلیں گے، انہیں  کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے، چالیس برس تک ٹھہریں گے، پھر فوت ہوں گے  اور مسلمان آپ کے  جنازے  کی نماز ادا کریں گے ۔ " ابن جریر کی اسی روایت میں ہے، آپ لوگوں سے  اسلام کے  لئے  جہاد کریں گے، اس حدیث کا ایک ٹکڑا بخاری شریف میں بھی ہے  اور روایت میں ہے  "سب سے  زیادہ قریب تر حضرت عیسیٰ سے  دنیا اور آخرت میں میں ہوں ۔ " صحیح مسلم میں ہے  "قیامت قائم نہ ہو گی، جب تک رومی اعماق یا والق میں نہ اتریں اور ان کے  مقابلہ کے  لئے  مدینہ سے  مسلمانوں کا لشکر نہ نکلے  گا، جو اس وقت تمام زمین کے  لوگوں سے  زیادہ اللہ کے  پسندیدہ بندے  ہوں گے، جب صفیں بندھ جائیں گی تو رومی کہیں  گے  تم سے  ہم لڑنا نہیں  چاہتے، ہم میں سے  جو دین بدل کر تم میں ملے  ہم ان سے  لڑنا چاہتے  ہیں  تم بیچ میں سے  ہٹ جاؤ لیکن مسلمان کہیں  گے  واللہ یہ ہو ہی نہیں  سکتا کہ ہم اپنے  ان کمزور بھائیوں کو تمہارے  حوالے  کر دیں ۔ چنانچہ لڑائی شروع ہو گی مسلمانوں کے  اس لشکر کا تہائی حصہ تو شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہو گا، ان کی توبہ اللہ تعالیٰ ہرگز قبول نہ فرمائے  گا اور تہائی حصہ شہید ہو جائے  گا، جو اللہ کے  نزدیک سب سے  افضل شہید ہیں  لیکن آخری تہائی حصہ فتح حاصل کرے  گا اور رومیوں پر غالب آ جائے  گا، پھر یہ کسی فتنے  میں نہ پڑیں گے، قسطنطنیہ کو فتح کریں گے، ابھی تو وہ اپنی تلواریں زیتون کے  درختوں پر لٹکائے  ہوئے  مال غنیمت تقسیم کر ہی رہے  ہوں گے  جو شیطان چیخ کر کہے  گا کہ تمہارے  بال بچوں میں دجال آ گیا، اس کے  اس جھوٹ کو سچ جان کر مسلمان یہاں سے  نکل کھڑے  ہوں گے، شام میں پہنچیں گے، دشمنوں سے  جنگ آزما ہونے  کے  لئے  صفیں ٹھیک کر رہے  ہوں گے  کہ دوسری جانب نماز کی اقامت ہو گی اور حضرت عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے، ان کی امامت کرائیں گے، جب دشمن رب انہیں  دیکھے  گا تو اسی طرح گھلنے  لگے  گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے، اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے  یونہی چھوڑ دیں، جب بھی وہ گھلتے  گھلتے  ختم ہو جائے  لیکن اللہ تعالیٰ اسے  آپ کے  ہاتھ سے  قتل کرائے  گا اور آپ اپنے  حربے  پر اس کا خون لوگوں کو دکھائیں گے ۔ " مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "معراج والی رات میں نے  ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے  ملاقات کی، آپس میں قیامت کی نسبت بات چیت ہونے  لگی، ابراہیم علیہ اسلام نے  اپنی لاعلمی ظاہر کی، اس طرح موسیٰ علیہ السلام نے  بھی، لیکن حضرت عیسیٰ نے  فرمایا اس کے  آنے  کا ٹھیک وقت تو سوائے  اللہ عزوجل کے  کوئی نہیں  جانتا، ہاں مجھ سے  میرے  رب نے  جو عہد لیا ہے  وہ یہ ہے  کہ دجال نکلے  گا اس کے  ہمراہ دو شاخیں ہوں گی، مجھے  دیکھ کر اس طرح پگھلنے  لگے  گا جس طرح سیسہ پگھلتا ہے، یہاں تک کہ پتھر اور درخت بھی بولنے  لگیں گے  کہ اے  مسلمان یہاں میرے  پیچھے  ایک کافر ہے  اور اسے  قتل کر لیں، اللہ تعالیٰ ان سب کو غارت کر دے  گا اور لوگ امن و امان کے  ساتھ اپنے  اپنے  وطن اور شہروں کو لوٹ جائیں گے، اب یاجوج ماجوج نکلیں گے، ہر طرف سے  چڑھ دوڑیں گے، تمام شہرں کو روندیں گے، جس جس چیز پر گزر ہو گا اسے  ہلاک کر دیں گے، جس پانی کے  پاس سے  گزریں گے  پی جائیں گے، لوگ پھر لوٹ کر میرے  پاس آئیں گے، میں اللہ سے  دعا کروں گا، اللہ ان سب کو ایک ساتھ فنا کر دے  گا لیکن ان کے  مردہ جسموں سے  ہوا بگڑ جائے  گی، بدبو پھیل جائے  گی، پھر مینہ برسے  گا اور اس قدر کہ ان کی تمام لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال دے  گا۔ بس اس وقت قیامت کی اس طرح آمد آمد ہو گی جس طرح پورے  دن کی حاملہ عورت ہو کہ اس کے  گھر والے  نہیں  جانتے  کہ صبح کو بچہ ہو جائے  یا شام کو، رات کو پیدا ہو یا دن کو؟ " مسند احمد میں ہے  حضرت ابونضرہ فرماتے  ہیں  ہم حضرت عثمان بن ابو العاص کے  پاس جمعہ والے  دن آئے  کہ ہم اپنا لکھا ہوا قرآن ان کے  قرآن سے  ملائیں، جب جمعہ کا وقت آیا تو آپ نے  ہم سے  فرمایا "غسل کر لو" پھر خوشبو لے  آئے  جو ہم نے  ملی، پھر ہم مسجد میں آئے  اور ایک شخص کے  پاس بیٹھ گئے  جنہوں نے  ہم سے  دجال والی حدیث بیان کی پھر حضرت عثمان بن ابوالعاص آئے، ہم کھڑے  ہو گئے، پھر سب بیٹھ گئے، آپ نے  فرمایا "میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا ہے  کہ مسلمان کے  تین شہر میں جائیں گے، ایک دونوں سمندر کے  ملنے  کی جگہ پر، دوسرا حیرہ میں اور تیسرا شام میں، پھر تین گھبراہٹیں لوگوں کو ہوں گی، پھر دجال نکلے  گا، یہ پہلے  شہر کی طرف جائے  گا، وہاں کے  لوگ تین حصوں میں بٹ جائیں گے، ایک حصہ تو کہے  گا ہم اس کے  مقابلہ پر ٹھہرے  رہیں  گے  اور دیکھیں گے  کہ کیا ہوتا ہے ؟ دوسری جماعت گاؤں کے  لوگوں میں مل جائے  گی اور تیسری جماعت دوسرے  شہر میں چلی جائے  گی جو ان سے  قریب ہو گا، دجال کے  ساتھ ستر ہزار لوگ ہوں گے، جن کے  سروں پر تاج ہوں گے، ان کی اکثریت یہودیوں کی اور عورتوں کی ہو گی، یہاں کے  یہ مسلمان ایک گھاٹی میں سمٹ کر محصور ہو جائیں گے، ان کے  جانور جو چرنے  چگنے  کو گئے  ہوں گے، وہ بھی ہلاک ہو جائیں گے، اس سے  ان کے  مصائب بہت بڑھ جائیں گے  اور بھوک کے  مارے  برا حال ہو جائے  گا، یہاں تک کہ اپنی کمانوں کی تانیں سینک سینک کر کھا لیں گے، جب سخت تنگی کا عالم ہو گا تو انہیں  سمندر میں سے  آواز آئے  گی کہ لوگو تمہاری مدد آ گئی، اس آواز کو سن کر یہ لوگ خوش ہوں گے، کیونکہ آواز سے  جان لیں گے  کہ یہ کسی آسودہ شخص کی آواز ہے، عین صبح کی نماز کے  وقت حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے، ان کا امیر آپ سے  کہے  گا کہ اے  روح اللہ آگے  بڑھئے  اور نماز پڑھایئے  لیکن آپ کہیں  گے  کہ اس امت کے  بعض بعض کے  امیر ہیں، چنانچہ انہی کا امیر آگے  بڑھے  گا اور نماز پڑھائے  گا، نماز سے  فارغ ہو کر  اپنا حربہ ہاتھ میں لے  کر مسیح دجال کا رخ کریں گے، دجال آپ کو دیکھ کر سیسے  کی طرح پگھلنے  لگے  گا، آپ اس کے  سینہ پر وار کریں گے  جس سے  وہ ہلاک ہو جائے  گا اور اس کے  ساتھی شکست کھا کر بھاگ کھڑے  ہوں گے، لیکن انہیں  کہیں  امن نہیں  ملے  گا، یہاں تک کہ اگر وہ کسی درخت تلے  چھپیں گے  تو وہ درخت پکار کر کہے  گا کہ اے  مومن یہ ایک کافر میرے  پاس چھپا ہوا ہے  اور اسی طرح پتھر بھی۔ " ابن ماجہ میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  ایک خطبہ کا کم و بیش حصہ دجال کا واقعہ بیان کرنے  اور اس سے  ڈرانے  میں ہی صرف کیا، جس میں یہ بھی فرمایا کہ دنیا کی ابتداء سے  لے  کر انتہا تک کوئی فتنہ اس سے  بڑا نہیں، تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کو اس سے  آگاہ کرتے  رہے  ہیں، میں سب سے  آخری نبی ہوں اور تم سب سے  آخری امت ہو، وہ یقیناً تمہیں  میں آئے  گا، اگر میری موجودگی میں آ گیا تو میں آپ اس سے  نمٹ لوں گا اور اگر بعد میں آیا تو ہر شخص کو اپنے  آپ کو اس سے  بچانا پڑے  گا۔ میں اللہ تعالیٰ کو ہر مسلمان کا خلیفہ بناتا ہوں ۔ وہ شام و عراق کے  درمیان نکلے  گا، دائیں بائیں خوب گھومے  گا، لوگو اے  اللہ کے  بندو! دیکھو دیکھو تم ثابت قدم رہنا، سنو میں تمہیں  اس کی ایسی صفت بتاتا ہوں جو کسی نبی نے  اپنی امت کو نہیں  بتائی۔ وہ ابتداء میں دعویٰ کرے  گا کہ میں نبی ہوں، پس تم یاد رکھنا کہ میرے  بعد کوئی نبی نہیں، پھر وہ اس سے  بھی بڑھ جائے  گا اور کہے  گا میں اللہ ہوں، پس تم یاد رکھنا کہ اللہ کو ان آنکھوں سے  کوئی نہیں  دیکھ سکتا، ہاں مرنے  کے  بعد دیدار باری تعالیٰ ہو سکتا ہے  اور سنو وہ کانا ہو گا اور تمہارا رب کانا نہیں، اس کی دونوں آنکھوں کے  درمیان "کافر" لکھا ہو گا جسے  پڑھا لکھا اور ان پڑھ غرض ہر ایمان دار پڑھ لے  گا۔ اس کے  ساتھ آگ ہو گی اور باغ ہو گا اس کی آگ دراصل جنت ہو گی اور اس کا باغ دراصل جہنم ہو گا، سنو تم میں سے  جسے  وہ آگ میں ڈالے، وہ اللہ سے  فریاد رسی چاہے  اور سورہ کہف کی ابتدائی آیتیں پڑھے، اس کی وہ آگ اس پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے  گی جیسے  کہ خلیل اللہ پر نمرود کی آگ ہو گئی، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک اعرابی سے  کہے  گا کہ اگر میں تیرے  مرے  ہوئے  باپ کو زندہ کر دوں تو تو مجھے  رب مان لے  گا وہ اقرار کرے  گا، اتنے  میں دو شیطان اسکی ماں اور باپ کی شکل میں ظاہر ہوں گے  اور ان سے  کہیں  گے  بیٹے  یہی تیرا رب ہے  تو اسے  مان لے، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک شخص پر مسلط کر دیا جائے  گا اسے  آرے  سے  چروا کر دو ٹکڑے  کروا دے  گا، پھر لوگوں سے  کہے  گا میرے  اس بندے  کو دیکھنا اب میں اسے  زندہ کر دوں گا، لیکن پھر بھی یہی کہے  گا کہ اس کا رب میرے  سوا اور ہے، چنانچہ یہ اسے  اٹھا بیٹھائے  گا اور یہ خبیث اس سے  پوچھے  گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ جواب دے  گا میرا رب اللہ ہے  اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے ۔ اللہ کی قسم اب تو مجھے  پہلے  سے  بھی بہت زیادہ یقین ہو گیا۔ دوسری سند سے  مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا "یہ مومن میری تمام امت سے  زیادہ بلند درجہ کا جنتی ہو گا۔ " حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  اس حدیث کو سن کر ہمارا خیال تھا کہ یہ شخص حضرت عمر بن خطاب ہی ہوں گے  آپ کی شہادت تک ہمارا یہی خیال رہا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ آسمان کو پانی برسانے  کا حکم دے  گا اور آسمان سے  بارش ہو گی، وہ زمین کو پیداوار اگانے  کا حکم دے  گا اور زمین سے  پیداوار نکلے  گی، اس کا ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ وہ ایک قبیلے  کے  پاس جائے  گا وہ اسے  نہ مانیں گے، اسی وقت ان کی تمام چیزیں برباد اور ہلاک ہو جائیں گی، ایک اور قبیلے  کے  پاس جائے  گا جو اسے  خدا مان لے  گا، اسی وقت اس کے  حکم سے  ان پر آسمان سے  بارش برسے  گی اور زمین پھل اور کھیتی اگائے  گی، ان کے  جانور پہلے  سے  زیادہ موٹے  تازے  اور دودھ والے  ہو جائیں گے ۔ سوائے  مکہ اور مدینہ کے  تمام کا گشت کرے  گا، ان کے  جانور پہلے  سے  زیادہ موٹے  تازے  اور دودھ والے  ہو جائیں گے ۔ سوائے  مکہ اور مدینہ کے  تمام زمین کا گشت کرے  گا، جب مدینہ کا رخ کرے  گا تو یہاں ہر ہر راہ پر فرشتوں کو کھلی تلواریں لئے  ہوئے  پائے  گا تو ضریب کی انتہائی حد پر ضریب احمر کے  پاس ٹھہر جائے  گا، پھر مدینے  میں تین بھونچال آئیں گے، اس وجہ سے  جتنے  منافق مرد اور جس قدر منافقہ عورتیں ہوں گی، سب مدینہ سے  نکل کر اس کے  لشکر میں مل جائیں گے  اور مدینہ ان گندے  لوگوں کو اس طرح اپنے  میں سے  دور پھینک دے  گا جس طرح بھٹی لوہے  کے  میل کچیل کو لاگ کر دیتی ہے، اس دن کا نام یوم الخلاص ہو گا۔ " ام شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس دن عرب کہاں ہوں گے ؟ فرمایا اولاً تو ہوں گے  ہی بہت کم اور اکثریت ان کی بیت المقدس میں ہو گی، ان کا امام پچھلے  پیروں پیچھے  ہٹے  گا تا کہ آپ آگے  بڑھ کر امامت کرائیں لیکن آپ اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر فرمائیں گے  کہ آگے  بڑھو اور نماز پڑھاؤ، اقامت تمہارے  لئے  کی گی ہے  پس ان کا امام ہی نماز پڑھائے  گا، فارغ ہو کر آپ فرمائیں گے، دروازہ کھول دو، پس کھول دیا جائے  گا، ادھر دجال ستر ہزار یہودیوں کا لشکر لئے  ہوئے  موجود ہو گا، جن کے  سر پر تاج اور جن کی تلواروں پر سونا ہو گا، دجال آپ کو دیکھ کر اس طرح گھلنے  لگے  گا جس طرح نمک پانی میں گھلتا ہے  اور ایک دم پیٹھ پھیر کر بھاگنا شروع کر دے  گا لیکن آپ فرمائیں گے  اللہ تعالیٰ نے  یہ فیصلہ کر دیا ہے  کہ تو میرے  ہاتھ سے  ایک ضرب کھائے  تو اسے  ٹال نہیں  سکتا۔ چنانچہ آپ اسے  مشرقی باب لد کے  پاس پکڑ لیں گے  اور وہیں  اسے  قتل کریں گے، اب یہودی بد حواسی سے  منتشر ہو کر بھاگیں گے  لیکن انہیں  کہیں  سر چھپانے  کو جگہ نہ ملے  گی، ہر پتھر ہر درخت ہر دیوار اور ہر جانور بولتا ہو گا کہ اے  مسلمان یہاں یہودی ہے، آ اسے  مار ڈال، ہاں ببول کا درخت یہودیوں کا درخت ہے  یہ نہیں  بولے  گا۔ " حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  اس کا رہنا چالیس سال تک ہو گا، سال آدھے  سال کے  برابر اور سال مہینہ بھر جیسا اور مہینہ جمعہ جیسا اور باقی دن مثل شرارہ کے ۔

۱۵۸

صبح ہی ایک شخص شہر کے  ایک دروازے  سے  چلے  گا، ابھی دوسرے  دروازے  تک نہیں  پہنچا تو شام ہو جائے  گی۔ لوگوں نے  دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر ان چھوٹے  دنوں میں ہم نماز کیسے  پڑھیں گے ؟ آپ نے  فرمایا اندازہ کر لیا کرو جیسے  ان لمبے  دنوں میں اندازہ سے  پڑھا کرتے  تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  پس عیسیٰ بن مریم میری امت میں حاکم ہوں گے، عادل ہوں گے، امام ہوں گے، با انصاف ہوں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کو ہٹا دیں گے  صدقہ چھوڑ دیا جائے  گا پس بکری اور اونٹ پر کوشش نہ کی جائے  گی، حسد اور بغض بالکل جاتا رہے  گا، ہر زہریلے  جانور کا زہر ہٹا دیا جائے  گا، بچے  اپنی انگلی سانپ کے  منہ میں ڈالیں گے  لیکن وہ انہیں  کوئی ضرر نہیں  پہنچائے  گا، شیروں سے  لڑکے  کھیلیں گے  نقصان کچھ نہ ہو گا، بھیڑئے  بکریوں کے  گلے  میں اس طرح پھریں گے  جیسے  رکھوالا کتا ہو تمام زمین اسلام اور اصلاح سے  اس طرح بھر جائے  گی جیسے  کوئی برتن پانی سے  لبالب بھرا ہوا ہو، سب کا کلمہ ایک ہو جائے  گا، اللہ کے  سوا کسی کی عبادت نہ ہو گی، لڑائی اور جنگ بالکل موقف ہو جائے  گی، قریش اپنا ملک سلب کر لیں گے ، زمین مثل سفید چاندی کے  منور ہو جائے  گی اور جیسی برکتیں زمانہ آدم میں تھیں لوٹ آئیں گی، ایک جماعت کو ایک انگور کا خوشہ پیٹ بھرنے  کے  لئے  کافی ہو گا، ایک انار اتنا ہو گا کہ ایک جماعت کھائی اور سیر ہو جائے  بیل اتنی اتنی قیمت پر ملے  گا اور گھوڑا چند درہموں پر ملے  گا۔ لوگوں نے  پوچھا اس کی قیمت گر جانے  کی کیا وجہ؟ فرمایا اس لئے  کہ لڑائیوں میں اس کی سواری بالکل نہ لی جائے  گی۔ دریافت کیا گیا بیل کی قیمت بڑھ جانے  کی کیا وجہ ہے ؟ فرمایا اس لئے  کہ تمام زمین پر کھیتیاں ہونی شروع ہو جائیں گی۔ دجال کے  آنے  سے  تین سال پیشتر سے  سخت قحط سالی ہو گی، پہلے  سال بارش کا تیسرا حصہ بحکم الٰہی روک لیا جائے  گا اور زمین کی پیداوار کا بھی تیسرا حصہ کم ہو جائے  گا، پھر دوسرے  سال اللہ آسمان کو حکم دے  گا کہ بارش کی دو تہائیاں روک لے  اور یہی حکم زمین کو اپنی پیداوار کی دو تہائیاں کم کر دے، تیسرے  سال آسمان بارش کا ایک قطرہ نہ برسے  گا، نہ زمین سے  کوئی روئیدگی پیدا ہو گی، تمام جانور اس قحط سے  ہلاک ہو جائیں گے  مگر جسے  اللہ چاہے ۔ آپ سے  پوچھا گیا کہ پھر اس وقت لوگ زندہ کیسے  رہ جائیں گے، آپ نے  فرمایا "ان کی غذا کے  قائم مقام اس وقت ان کا لا الہ الا اللہ کہنا اور اللہ اکبر کہنا اور سبحان اللہ کہنا اور الحمد اللہ کہنا ہو گا۔ " امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  میرے  استاد نے  اپنے  استاد سے  سنا وہ فرماتے  تھے  یہ حدیث اس قابل ہے  کہ بچوں کے  استاد اسے  بچوں کو بھی سکھا دیں بلکہ لکھوائیں تاکہ انہیں  بھی یاد رہے  یہ حدیث اس سند سے  ہے  تو غریب لیکن اس کے  بعض حصوں کی شواہد دوسری حدیثیں ہیں ۔ اسی حدیث جیسی ایک حدیث نواس بن سمعان عنہ سے  مروی ہے  اسے  بھی ہم یہاں ذکر کرتے  ہیں "صحیح مسلم شریف میں ہے  ایک دن صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  دجال کا ذکر کیا اور اس طرح اسے  واضح بیان فرمایا کیا کہ ہم سمجھے، کہیں  مدینہ کے  نخلستان میں وہ موجود نہ ہو پھر جب ہم لوٹ کر آپ کی طرف آئے  تو ہمارے  چہروں سے  آپ نے  جان لیا اور دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ ہم نے  دل کی بات کہہ دی تو آپ نے  فرمایا ! دجال کے  علاوہ مجھے  تو تم سے  اس سے  بھی بڑا خوف ہے، اگر وہ میری موجودگی میں نکلا تو میں آپ اس سے  سمجھ لوں گا اور اگر وہ میرے  بعد آیا تو ہر مسلمان اس سے  آپ بھگت لے  گا، اگر وہ میری موجودگی میں نکلا تو میں آپ اس سے  سمجھ لوں گا اور اگر وہ میرے  بعد آیا تو ہر مسلمان اس سے  آپ بھگت لے  گا، میں اپنا خلیفہ ہر مسلمان پر اللہ کو بناتا ہوں، وہ جوان ہو گا، آنکھ اس کی ابھری ہوئی ہو گی، بس یوں سمجھ لو کہ عبد العزیٰ بن قطن جیسا ہو گا، تم میں جو اسے  دیکھے  اسے  چاہئے  کہ سورہ کہف کی شروع کی آیتیں پڑھے  وہ شام و عراق کے  درمیانی گوشے  سے  نکلے  گا اور دائیں بائیں گشت کرے  گا، اے  اللہ کے  بندو! خوب ثابت قدم رہنا، ہم نے  پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم وہ رہے  گا کتنی مدت؟ آپ نے  فرمایا چالیس دن، ایک دن سال کے  برابر، ایک دن ایک مہینے  کے  برابر، ایک دن جمعہ کے  برابر اور باقی دن تمہارے  معمولی دنوں جیسے، پھر ہم نے  دریافت کیا کہ جو دن سال بھر کے  برابر ہو گا، کیا اس میں ایک ہی دن کی نماز کافی ہوں گی؟ آپ نے  فرمایا نہیں  بلکہ اندازہ کر لو اور نماز ادا کر لو، ہم نے  پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! اس کی رفتار کی سرعت کیسی ہو گی؟ فرمایا ایسی جیسے  بادل ہواؤں سے  بھاگتے  ہیں ۔ ایک قوم کو پانی طرف بلائے  گا وہ مان لیں گے  تو آسمان سے  ان پر بارش برسے  گی، زمین سے  کھیتی اور پھل اگیں گے، ان کے  جانور ترو تازہ اور زیادہ دودھ والے  ہو جائیں گے، ایک قوم کے  پاس جائے  گا جو اسے  جھٹلائے  گی اور اس کا انکار کر دے  گی، یہ وہاں سے  لوٹے  گا تو ان کے  ہاتھ میں کچھ نہ رہے  گا وہ بنجر زمین پر کھڑے  ہو کر حکم دے  گا کہ اے  زمین کے  خزانو نکل آؤ تو وہ سب نکل آئیں گے  اور شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے  پیچھے  پیچھے  پھریں گے ۔ یہ ایک نوجوان کو بلائے  گا اور اسے  قتل کرے  گا اس کے  ٹھیک دو ٹکڑے  کر کے  اتنی اتنی دور ڈال دے  گا جو کسی تیر کی کمان سے  نکلے  ہوئے  دوری ہو، پھر اسے  آواز دے  گا تو وہ زندہ ہو کر ہنستا ہوا اس کے  پاس آ جائے  گا۔ اب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو بھیجے  گا اور وہ دمشق کے  سفید شرقی مینارے  کے  پاس دو چادریں اوڑھے  دو فرشتوں کے  پروں پر بازو رکھے  ہوئے  اتریں گے، جب سر جھکائیں گے  تو قطرے  ٹپکیں گے  اور جب اٹھائیں گے  تو مثل موتیوں کے  وہ قطرے  لڑھکیں گے، جس کافر تک ان کا سانس پہنچ جائے  وہ مر جائے  گا اور آپ کا سانس وہاں تک پہنچے  گا جہاں تک نگاہ پہنچے، آپ دجال کا پیچھا کریں گے  اور باب لد کے  پاس اسے  پا کر قتل کریں گے، پھر ان لوگوں کے  پاس آئیں گے ، جنہیں  اللہ نے  اسے  فتنے  سے  بچایا ہو گا، ان کے  چہروں پر ہاتھ پھیریں گے  اور جنت کے  درجنوں کی انہیں  خبر دیں گے، اب اللہ کی طرف سے  حضرت عیسیٰ کے  پاس وحی آئے  گی کہ میں اپنے  ایسے  بندوں کو بھیجتا ہوں جن کا مقابلہ کوئی نہیں  کر سکتا تم میرے  ان خاص بندوں کو طور کی طرف لے  جاؤ، پھر یاجوج، ماجوج نکلیں گے  اور وہ ہر طرف سے  کودتے  پھاندتے  آ جائیں گے، بحیرہ طبریہ پر ان کا پہلا گروہ آئے  گا اور اس کا سارا پانی پی جائے  گا، جب ان کے  بعد ہی دوسرا گروہ آئے  گا تو وہ اسے  ایسا سوکھا ہوا پائے  گا کہ وہ کہیں  گے  شاید یہاں کبھی پانی نہیں  ہو گا؟ حضرت عیسیٰ اور آپ کے  ساتھی مومن وہاں اس قدر محصور رہیں  گے  کہ ایک بیل کا سرا نہیں  اس سے  بھی اچھا لگے  جیسے  تمہیں  آج ایک سو دینار محبوب ہیں، اب آپ اور مومن اللہ سے  دعائیں اور التجائیں کریں گے، اللہ ان پر گردن کی گلٹی کی بیماری بھیج دے  گا، جس میں سارے  کے  سارے  ایک ساتھ ایک دم میں فنا ہو جائیں گے، پھر حضرت عیسیٰ اور آپ کے  ساتھی زمین پر اتریں گے  مگر زمین پر بالشت بھر بھی ایسی نہ پائیں گے  جو ان کی لاشوں سے  اور بدبو سے  خالی ہو، پھر اللہ تعالیٰ سے  دعائیں اور التجائیں کریں گے  تو بختی اونٹوں کی گردنوں کے  برابر ایک قسم کے  پرند اللہ تعالیٰ بھیجے  گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ چاہے  ڈال آئیں گے، پھر بارش ہو گی، جس سے  تمام زمین دھل دھلا کر ہتھیلی جیسی صاف ہو جائے  گی، پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے  پھل نکال اور اپنی برکتیں لوٹا، اس دن ایک انار ایک جماعت کو کافی ہو گا اور وہ سب اس کے  چھلکے  تلے  آرام حاصل کر سکیں گے، ایک اونٹنی کا دودھ ایک پورے  قبیلے  سے  نہیں  پیا جائے  گا، پھر پروردگار عالم ایک لطیف اور پاکیزہ ہوا چلائے  گا جو تمام ایماندار مردوں عورتوں کی بغل تلے  سے  نکل جائے  گی اور ساتھ ہی ان کی روح بھی پرواز کر جائے  گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے  جو آپس میں گدھوں کی طرح دھینگا مشتی میں مشغول ہو جائیں گے  ان پر قیامت قائم ہو گی۔ مسند احمد میں بھی ایک ایسی ہی حدیث ہے  اسے  ہم سورہ انبیاء کی آیت (حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج) الخ، کی تفسیر میں بیان کریں گے  انشاء اللہ تعالیٰ۔

۱۵۹

صحیح مسلم میں ہے  کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عمرو کے  پاس آیا اور کہا کہ یہ کیا بات ہے  جو مجھے  پہنچی ہے  کہ آپ فرماتے  ہیں  قیامت یہاں یہاں تک آ جائے  گی آپ نے  سبحان اللہ یا لا الہ الا اللہ کہہ کر فرمایا میرا تو اب جی چاہتا ہے  کہ تمہیں  اب کوئی حدیث ہی نہ سناؤں، میں نے  تو یہ کہا تھا کہ کچھ زمانے  کے  بعد تم بڑے  بڑے  امر دیکھو گے، بیت اللہ جلا دیا جائے  گا اور یہ ہو گا وہ ہو گا وغیرہ۔ پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے  کہ دجال نکلے  گا اور میری امت میں چالیس تک ٹھہرے  گا، مجھے  نہیں  معلوم کہ چالیس دن یا چالیس مہینے  یا چالیس سال۔ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو بھیجے  گا، آپ کی صورت مثل حضرت عروہ بن مسعود کے  ہے ۔ آپ اسے  تلاش کر کے  قتل کریں گے  پھر سات سال تک لوگ اسی طرح رہیں  گے  کہ وہ بھی کچھ عداوت ہو گی، پھر ٹھنڈی ہوا شام کی طرف سے  چلے  گی اور سب ایمان والوں کو فوت کر دے  گی، جس کے  دل میں ایک ذرے  برابر بھی بھلائی یا ایمان ہو گا اگرچہ وہ کسی پہاڑ کے  غار میں ہو وہ بھی فوت ہو جائے  گا، پھر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے  جو پرندوں جیسے  ہلکے  اور درندوں جیسے  دماغوں والے  ہوں گے، اچھائی برائی کی کی کوئی تمیز ان میں نہ ہو گی، شیطان ان کے  پاس انسانی صورت میں آ کر انہیں  بت پرستی کی طرف مائل کرے  گا لیکن ان کی اس حالت میں بھی ان کی روزی کے  دوازے  ان پر کھلے  ہوں گے  اور زندگی بہ آرام گزر رہی ہو گی، پھر صور پھونکا جائے  گا، جس سے  لوگ گرنے  مرنے  لگیں گے، ایک شخص جو اپنے  اونٹوں کو پانی پلانے  کے  لئے  ان کا حوض ٹھیک کر رہا ہو گا، سب سے  پہلے  صور کی آواز اس کے  کان میں پڑے  گی، جس سے  یہ اور تمام اور لوگ بیہوش ہو جائیں گے ۔ غرض سب کچھ فنا ہو چکنے  کے  بعد اللہ تعالیٰ مینہ برسائے  گا، جو مثل شبنم کے  یا مثل سائے  کے  ہو گا، اس سے  دوبارہ جسم پیدا ہوں گے  پھر دوسرا صور پھونکا جائے  گا، سب کے  سب جی اٹھیں گے، پھر کہا جائے  گا لوگو اپنے  رب کی طرف چلو، انہیں  ٹھہرا کر ان سے  سوال کیا جائے  گا پھر فرمایا جائے  گا جہنم کا حصہ نکالو، پوچھا جائے  گا کتنوں سے  کتنے ؟ جواب ملے  گا ہر ہزار میں سے  نو سو ننانوے، یہ دن ہے  جو بچوں کو بوڑھا بنا دے  گا اور یہی دن ہے  جس میں پنڈلی کھولی جائے  گی۔ مسند احمد میں ہے  ابن مریم باب لد کے  پاس یا لد کی جانب مسیح دجال کو قتل کریں گے ۔ ترمذی میں باب لد ہے  اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ اس کے  بعد امام ترمذی نے  چند اور صحابہ کے  نام بھی لئے  ہیں  کہ ان سے  بھی اس باب کی حدیثیں مروی ہیں  تو اس سے  مراد وہ حدیثیں ہیں  جن میں دجال کا مسیح علیہا لسلام کے  ہاتھ سے  قتل ہونا مذکور ہے ۔ صرف دجال کے  ذکر کی حدیثیں تو بے  شمار ہیں، جنہیں  جمع کرنا سخت دشوار ہے ۔ مسند میں ہے  کہ عرفے  سے  آتے  ہوئے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے  صحابہ کے  ایک مجمع کے  پاس سے  گزرے  اس وقت وہاں قیامت کے  ذکر افکار ہو رہے  تھے  تو آپ نے  فرمایا جب تک دس باتیں نہ ہولیں، قیامت قائم نہ ہو گی، آفتاب کا مغرب کی جانب سے  نکلنا، دھوئیں کا آنا، دابۃ الارض کا نکلنا، یاجوج ماجوج کا آنا، عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا، دجال کا آنا، تین جگہ زمین کا دھنس جانا، شرق میں، غرب میں اور جزیرہ عرب میں اور عدن سے  ایک آگ کا نکلنا جو لوگوں کو ہنکا کر ایک جگہ کر دے  گی وہ شب باشی بھی انہی کے  ساتھ کریں گے  اور جب دوپہر کو وہ آرام کریں گے  یہ آگ ان کے  ساتھ ٹھہری رہے  گی۔ یہ حدیث مسلم اور سنن میں بھی ہے  اور حضرت حذیفہ بن اسید غفاری سے  موقوفاً یہی مروی ہے  واللہ اعلم۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ متواتر حدیثیں جو حضرت ابوہریرہ حضرت ابن مسعود حضرت عثمان بن ابوالعاص، حضرت ابو امامہ، حضرت نواس بن سمعان، حضرت عبد اللہ بن  عمرو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، ساتھ ہی ان میں یہ بھی بیان ہے  کہ کس طرح اتریں گے  اور کہاں اتریں گے  اور کس وقت اتریں گے ؟ یعنی صبح کی نماز کی اقامت کے  وقت شام کے  شہر دمشق کے  شرقی مینارہ پر آپ اتریں گے ۔ اس زمانہ میں یعنی سن سات سو اکتالیس میں جامع اموی کا مینارہ سفید پتھر سے  بہت مضبوط بنایا گیا ہے، اس لئے  کہ آگ کے  شعلہ سے  یہ جل گیا ہے  آگ لگانے  والے  غالباً ملعون عیسائی تھے  کیا عجب کہ یہی وہ مینارہ ہو جس پر مسیح بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے  اور خنزیروں کو قتل کریں گے، صلیبوں کو توڑ دیں گے، جزیئے  کو ہٹا دیں گے  اور سوائے  دین اسلام کے  اور کوئی دین قبول نہ فرمائیں گے ۔ جیسے  کہ بخاری و مسلم کی حدیثیں گزر چکیں، جن میں پیغمبر صادق و مصدق علیہ السلام نے  یہ خبر دی ہے  اور اسے  ثابت بتایا ہے ۔ یہ وہ وقت ہو گا جبکہ تمام شک شبے  ہٹ جائیں گے، اور لوگ حضرت عیسیٰ کی پیروی کے  ماتحت اسلام قبول کر لیں گے ۔ جیسے  اس آیت میں ہے  اور جیسے  فرمان ہے  آیت (وانہ لعلم للساعتہ) اور ایک قرات میں (لعلم) ہے ۔ یعنی جناب مسیح قیامت کا ایک زبردست نشان ہے، یعنی قرب قیامت کا اس لئے  کہ آپ دجال کے  آ چکنے  کے  بعد تشریف لائیں گے  اور اسے  قتل کریں گے ۔ جیسے  کہ صحیح حدیث میں ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے  کوئی بیماری ایسی نہیں  پیدا کی جس کا علاج نہ مہیا کیا ہو، آپ ہی کے  وقت میں یاجوج ماجوج نکلیں گے، جنہیں  اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کی برکت سے  ہلاک کرے  گا۔ قرآن کریم ان کے  نکلنے  کی خبر بھی دیتا ہے، فرمان ہے  آیت (حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وھم من کل حدب ینسلون واقترب الوعد الحق) یعنی ان کا نکلنا بھی قرب قیامت کی دلیل ہے ۔

اب حضرت عیسیٰ کی صفتیں ملاحظہ ہوں ۔ پہلے  کی دو احادیث میں بھی آپ کی صفت گزر چکی ہے، بخاری مسلم میں ہے  کہ لیلۃ المعراج میں میں نے  حضرت موسیٰ سے  ملاقات کی وہ درمیانہ قد صاف بالوں والے  ہیں، جیسی شنوہ قبیلے  کے  لوگ ہوتے  ہیں  اور حضرت عیسیٰ سے  بھی ملاقات کی، وہ سرخ رنگ میانہ قد ہیں  ایسا معلوم ہوتا ہے  گویا ابھی حمام سے  نکلے  ہیں، حضرت ابراہیم کو بھی میں نے  دیکھا بس وہ بالکل مجھ جیسے  تھے ۔ بخاری کی اور روایت میں ہے  "حضرت عیسیٰ سرخ رنگ، گھنگریالے  بالوں والے، چوڑے  چکلے  سینے  والے  تھے، حضرت موسیٰ گندمی رنگ کے  جسم اور سیدھے  بالوں والے  تھے، جیسے  زط کے  لوگ ہوتے  ہیں ، اسی طرح آپ نے  دجال کی شکل و صورت بھی بیان فرما دی ہے  کہ اس کی داہنی آنکھ کافی ہو گی، جیسے  پھولا ہوا انگور، آپ فرماتے  ہیں  مجھے  کعبہ کے  پاس خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک بہت گندمی رنگ والے  آدمی جن کے  سر کے  پٹھے  دونوں کندھوں تک تھے، صاف بالوں والے  جن کے  سر سے  پانی کے  قطرے  ٹپک رہے  تھے، دو شخصوں کے  کندھوں پر ہاتھ رکھے  طواف کر رہے  ہیں، میں نے  پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو مجھے  بتلایا گیا کہ یہ مسیح بن مریم ہیں، میں نے  ان کے  پیچھے  ہی ایک شخص کو دیکھا جس کی داہنی آنکھ کافی تھی، ابن قطن سے  بہت ملتا جلتا تھا، سخت الجھے  ہوئے  بال تھے، وہ بھی دو شخصوں کے  کندھوں پر ہاتھ رکھے  بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے، میں نے  کہا یہ کون یہ؟ کہا گیا یہ مسیح دجال ہے ۔ بخاری کی اور روایت میں حضرت عبد اللہ سے  مروی ہے  کہ اللہ کی قسم حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت عیسیٰ کو سرخ رنگ نہیں  بتایا بلکہ آپ نے  گندمی رنگ بتایا ہے، پھر اوپر والی پوری حدیث ہے ۔ حضرت زہری فرماتے  ہیں  ابن قطن قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص تھا، جو جاہلیت میں مر چکا تھا۔ وہ حدیث بھی گزر چکی جس میں یہ بیان ہے  کہ جناب مسیح علیہ السلام اپنے  نزول کے  بعد چالیس سال یہاں رہیں  گے  پھر فوت ہوں گے  اور مسلمان آپ کے  جنازے  کی نماز ادا کریں گے ۔ ہاں مسلم کی ایک حدیث میں ہے  کہ آپ یہاں سال ہا سال رہیں  گے، تو ممکن ہے  کہ چالیس سال کا فرمان اس مدت سمیت کا ہو جو آپ نے  دنیا میں اپنے  آسمانوں پر اٹھائے  جانے ے  پہلے  گذاری ہے ۔ جس وقت آپ اٹھائے  گئے  اس وقت آپ کی عمر تینتیس سال کی تھی اور سات سال اب آخر زمانے  کے  تو پورے  چالیس سال ہو گئے ۔ واللہ اعلم (ابن عسا کر) بعض کا قول ہے  کہ جب آپ آسمانوں پر چڑھائے  گئے  اس وقت آپ کی عمر ڈیڑھ سال کی تھی، یہ بالکل فضول سا قول ہے، ہاں حافظ ابو القاسم رحمۃ اللہ علیہ نے  اپنی تاریخ میں بعض سلف سے  یہ بھی لکھا ہے  کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  حجرے  میں آپ کے  ساتھ دفن کئے  جائیں گے  واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہے  کہ یہ قیامت کے  دن ان پر گواہ ہوں گے  یعنی اس بات کے  کہ اللہ کی رسالت آپ نے  انہیں  پہنچا دی تھی اور خود آپ نے  اللہ کی عبودیت کا اقرار کیا تھا، جیسے  سورہ مائدہ کے  آخر میں آیت (واذ قال اللہ) سے  (الحکیم) تک ہے  یعنی آپ کی گواہی کا وہاں ذکر ہے  اور اللہ کے  سوال کا۔

۱۶۰

یہودیوں کے خود ساختہ حلال و حرام

اس آیت کے  دو مطلب ہو سکتے  ہیں  ایک تو یہ کہ حرام کام ان کا مقدر تھا یعنی اللہ کی طرف سے  لکھا جا چکا تھا کہ یہ لوگ اپنی کتاب کو بدل دیں، اس میں تحریف کر لیں اور حلال چیزوں کو اپنے  اوپر حرام ٹھہرا لیں، صرف اپنے  تشدد اور اپنی سخت گیری کی وجہ سے، دوسرا یہ کہ یہ حرمت شرعی ہے  یعنی نزول تورات سے  پہلے  جو بعض چیزیں ان پر حلال تھیں، توراۃ کے  اترنے  کے  وقت ان کی بعض بدکاریوں کی وجہ سے  وہ حرام قرار دے  دی گئیں جیسے  فرمان ہے  آیت (کل الطعام کان حلا لبنی اسرائیل) الخ، یعنی اونٹ کا گوشت اور دودھ جو حضرت اسرائیل نے  اپنے  اوپر حرام کر لیا تھا، اس کے  سوا تمام طعام بنی اسرائیل کے  لئے  حلال تھے  پھر توراۃ میں ان پر بعض چیزیں حرام کی گئیں، جیسے  سورہ انعام میں فرمایا آیت (وعلی الذین ھادوا حرمنا) الخ، یہودیوں پر ہم نے  ہر ناخن دار جانور حرام کر دیا اور گائے  بکری کی چربی بھی جو الگ تھلگ ہو، ہم نے  ان پر حرام قرار دے  دی، یہ اس لئے  کہ یہ باغی، طاغی، مخالف رسول اور اختلاف کرنے  والے  لوگ تھے  پہلے  یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے  کہ ان کے  ظلم و زیادتی کے  سبب وہ خود اللہ کے  راستہ سے  الگ ہو کر اور دوسروں کو بھی بہکانے  کے  باعث (جو ان کی پرانی عادت تھی) رسولوں کے  دشمن بن جاتے  تھے ۔ انہیں  قتل کر ڈالتے  تھے، انہیں  جھٹلاتے  تھے، ان کا مقابلہ کرتے  تھے  اور طرح طرح کے  حیلے  کر کے  سود خوری کرتے  تھے  جو محض حرام تھی اور بھی جس طرح بن پڑتا لوگوں کے  مال غصب کرنے  کی تاک میں لگے  رہتے  اور اس بات کو جانتے  ہوئے  کہ اللہ نے  یہ کام حرام کئے  ہیں  جرات سے  انہیں  کر گزرے  تھے، اس وجہ سے  ان پر بعض حلال چیزیں بھی ہم نے  حرام کر دیں، ان کفار کے  لئے  درد ناک عذاب تیار ہیں ۔ ان میں جو سچے  دین والے  اور پختہ علم والے  ہیں، اس جملے  کی تفسیر سورہ آل عمران میں گزر چکی ہے  اور جو با ایمان ہیں  وہ تو قرآن کو اور تمام پہلی کتابوں کو مانتے  ہیں، حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  اس سے  مراد حضرت عبد اللہ بن سلام، حضرت ثعلبہ بن سعید، زید بن سعید، حضرت اسید بن عبید رضی اللہ عنہم ہیں، جو اسلام قبول کر چکے  تھے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کو مان چکے  تھے  آگے  کا جملہ آیت (والمقیمین الصلوٰۃ) تمام ائمہ کے  قرآن میں اور ابی بن کعب کے  مصحف میں اسی طرح ہے  لیکن بقول علامہ ابن جریر ابن مسعود کے  صحیفہ میں آیت (والمقیمون الصلوٰۃ) ہے ۔ صحیح قرأت اگلی ہے  جن بعض لوگوں نے  اسے  کتابت کی غلطی بتایا ہے  ان کا قول غلط ہے ۔ بعض تو کہتے  ہیں  اس کی نصبی حالت مدح کی وجہ سے  ہے، جیسے  آیت (والموفون بعھدھم اذا عاھدوا والصابرین) الخ، میں ہے  اور کلام عرب میں اور شعروں میں برابر یہ قاعدہ موجود پایا جاتا ہے ۔ بعض کہتے  ہیں  یہ عطف ہے  اگلے  جملے  پر یعنی آیت (بما انزل الیک وما انزل من قبلک) پر یعنی وہ اس پر بھی ایمان لاتے  ہیں  اور نماز قائم کرنے  پر بھی ان کا ایمان ہے  یعنی اسے  واجب و برحق مانتے  ہیں، یا یہ مطلب ہے  کہ اس سے  مراد فرشتے  ہیں  یعنی ان کا قرآن پر اور الہامی کتابوں پر اور فرشتوں پر ایمان ہے ۔ امام ابن جریر اسی کو پسند فرماتے  ہیں  لیکن اس میں تامل کی ضرورت ہے  واللہ اعلم، اور زکوٰۃ ادا کرنے  والے  ہیں  یعنی مال کی یا جان کی اور دونوں بھی مراد ہو سکتے  ہیں  واللہ اعلم اور صرف اللہ ہی کو لائق عبادت جانتے  ہیں  اور موت کے  بعد کی زندگانی پر بھی یقین کامل رکھتے  ہیں  کہ ہر بھلے  برے  عمل کی جزا سزا اس دن ملے  گی، یہی لوگ ہیں  جنہیں  ہم اجر عظیم یعنی جنت دیں گے ۔

۱۶۳

نزول انبیاء، تعداد انبیاء، صحائف اور ان کے مرکزی مضامین

حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ سکین اور عدی بن زید نے  کہا "اے  محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ہم نہیں ‏ مانتے  کہ حضرت موسیٰ کے  بعد اللہ نے  کسی انسان پر کچھ اتارا ہو۔ " اس پر یہ آیتیں اتریں، محمد بن کعب قرظی فرماتے  ہیں  جب آیت (یسئلک اھل الکتاب) (عظیما)  تک اتری اور یہودیوں کے  برے  اعمال کا آئینہ ان کے  سامنے  رکھ دیا گیا تو انہوں نے  صاف کر دیا کہ کسی انسان پر اللہ نے  اپنا کوئی کلام نازل ہی نہیں  فرمایا، نہ موسیٰ پر، نہ عیسیٰ پر، نہ کسی اور نبی پر، آپ اس وقت گوٹ لگائے  بیٹھے  تھے، اسے  آپ نے  کھول دیا اور فرمایا کسی پر بھی نہیں ؟ پس اللہ تعالیٰ نے  آیت (وما قدروا اللہ) الخ، نازل فرمائی، لیکن یہ قول غور طلب ہے  اس لئے  کہ یہ آیت سورہ انعام میں ہے  جو مکیہ ہے  اور سورہ نساء کی مندرجہ بالا آیت مدنیہ ہے  جو ان کی تردید میں ہے، جب انہوں نے  کہا تھا کہ آسمان سے  کوئی کتاب آپ اتار لائیں، جس کے  جواب میں فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ سے  انہوں نے  اس سے  بھی بڑا سوال کیا تھا۔ پھر ان کے  عیوب بیان فرمائے  ان کی پہلی اور موجودہ سیاہ کاریاں واضح کر دیں پھر فرمایا کہ اللہ نے  اپنے  بندے  اور رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اسی طرح وحی نازل فرمائی ہے  جس طرح اور انبیاء کی طرف وحی کی ۔ زبور اس کتاب کا نام ہے  جو حضرت داؤد علیہ السلام پر اتری تھی، ان انبیاء علیہم السلام کے  قصے  سورہ قصص کی تفسیر میں بیان کریں گے  انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر فرمایا ہے  تعداد اختیار اور اس آیت یعنی مکی سورت کی آیت سے  پہلے  بہت سے  انبیاء کا ذکر ہو چکا ہے  اور بہت سے  انبیاء کا ذکر نہیں  بھی ہوا۔ جن انبیاء کرام کے  نام قرآن کے  الفاظ میں آ گئے  ہیں  وہ یہ ہیں، آدم، ادریس، نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، یوسف، شعیب، موسیٰ، ہارون، یونس، داؤد، سلیمان، یوشع، زکریا، عیسیٰ، یحییٰ، اور بقول اکثر مفسرین ذوالکفل اور ایوب اور الیاس) اور ان سب کے  سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم اور بہت سے  ایسے  رسول بھی ہیں  جن کا ذکر قرآن میں نہیں  کیا گیا، اسی وجہ سے  انبیاء اور مرسلین کی تعداد میں اختلاف ہے، اس بارے  میں مشہور حدیث حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے  جو تفسیر ابن مردویہ میں یوں ہے  کہ آپ نے  پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء کتنے  ہیں ؟ فرمایا تین سو تیرہ، بہت بڑی جماعت۔ میں نے  پھر دریافت کیا، "سب سے  پہلے  کون سے  ہیں ؟ " فرمایا "آدم" میں نے  کہا "کیا وہ بھی رسول تھے ؟ " فرمایا "ہاں اللہ نے  انہیں  اپنے  ہاتھ سے  پیدا کیا، پھر ان میں اپنی روح پھونکی، پھر درست اور ٹھیک ٹھاک کیا " پھر فرمایا اے  ابوذر چار سریانی ہیں، آدم، شیث، نوح، خنوخ جن کا مشہور نام ادریس ہے، انہی نے  پہلے  قلم سے  خط لکھا، چار عربی ہیں، ہود، صالح، شعیب اور تمہارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم، اے  ابوذر بنو اسرائیل کے  پہلے  نبی حضرت موسیٰ ہیں  اور آخری حضرت عیسیٰ ہیں ۔ تمام نبیوں میں سب سے  پہلے  نبی حضرت آدم ہیں  اور سب سے  آخری نبی تمہارے  نبی ہیں ۔ " اس پوری حدیث کو جو بہت طویل ہے ۔ حافظ ابوحاتم نے  اپنی کتاب الانواع و التقاسیم میں روایت کیا ہے  جس پر صحت کا نشان دیا ہے، لیکن ان کے  برخلاف امام ابوالفرج بن جوزی رحمۃ ہے  کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے  بہت سے  لوگوں نے  ان پر اس حدیث کی وجہ سے  کلام کیا ہے  واللہ اعلم، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے  حضرت ابوامامہ سے  بھی مروی ہے، لیکن اس میں معان بن رفاعہ سلامی ضعیف ہیں  اور علی بن یزید بھی ضعیف ہیں  اور قاسم بن عبدالرحمٰن بھی ضعیف ہیں، ایک اور حدیث ابویعلی میں ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے  آٹھ ہزار نبی بھیجے  ہیں، چار ہزار بنو اسرائیل کی طرف اور چار ہزار باقی اور لوگوں کی طرف، یہ حدیث بھی ضعیف ہے  اس میں زیدی اور ان کے  استاد رقاشی دونوں ضعیف ہیں، واللہ اعلم، ابو یعلی کی اور حدیث میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا آٹھ ہزار انبیاء میرے  بھائی گزر چکے  ہیں  ان کے  بعد حضرت عیسیٰ آئے  اور ان کے  بعد میں آیا ہوں اور حدیث میں ہے  میں آٹھ ہزار نبیوں کے  بعد آیا ہوں جن میں سے  چار ہزار نبی بنی اسرائیل میں سے  تھے ۔ یہ حدیث اس سند سے  غریب تو ضرور ہے  لیکن اس کے  تمام راوی معروف ہیں  اور سند میں کوئی کمی یا اختلاف نہیں  بجز احمد بن طارق کے  کہ ان کے  بارے  میں مجھے  کوئی علالت یا جرح نہیں  ملی، واللہ اعلم۔ ابوذر غفاری والی طویل حدیث جو انبیاء کی گنتی کے  بارے  میں ہے، اسے  بھی سن لیجئے، آپ فرماتے  ہیں  میں مسجد میں آیا اور اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم تنہا تشریف فرما تے، میں بھی آپ کے  پاس بیٹھ گیا اور کہا آپ نے  نماز کا حکم دیا ہے  آپ نے  فرمایا "ہاں وہ بہتر چیز ہے، چاہے  کوئی زیادتی کرے  چاہے  کمی" میں نے  کہا "حضور صلی اللہ علیہ و سلم کون سے  اعمال افضل ہیں ؟ " فرمایا "اللہ پر ایمان لانا، اس کی راہ میں جہاد کرنا " میں نے  کہا "حضور صلی اللہ علیہ و سلم کونسا مسلمان اعلیٰ ہے ؟ " فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے  مسلمان سلامت رہیں " میں نے  پوچھا " کونسی ہجرت افضل ہے ؟ " فرمایا "برائیوں کو چھوڑ دینا " میں نے  پوچھا کونسی نماز افضل ہے ؟ فرمایا "لمبے  قنوت والی " میں نے  کہا کونسا روزہ افضل ہے ؟ فرمایا "فرض کفایت کرنے  والا ہے  اور اللہ کے  پاس بہت بڑھا چڑھا ثواب ہے  " میں نے  پوچھا کونسا جہاد افضل ہے ؟ "فرمایا جس کا گھوڑا بھی کاٹ دیا جائے  اور خود اس کا بھی خون بہا دیا جائے ۔ " میں نے  کہا غلام کو آزاد کرنے  کے  عمل میں افضل کیا ہے ؟ "فرمایا جس قدر گراں قیمت ہو اور مالک کو زیادہ پسند ہو۔ " میں نے  پوچھا صدقہ کونسا افضل ہے ؟ فرمایا "کم مال والے  کا کوشش کرنا اور چپکے  سے  محتاج کو دے  دینا۔ " میں نے  کہا قران میں سب سے  بڑی آیت کونسی ہے ؟ فرمایا "آیت الکرسی" پھر آپ نے  فرمایا "اے  ابوذر ساتوں آسمان کرسی کے  مقابلے  میں ایسے  ہیں  جیسے  کوئی حلقہ کسی چٹیل میدان کے  مقابلے  میں اور عرش کی فضیلت کرسی پر، بھی ایسی ہے  جیسے  وسیع میدان کی حلقے  پر" میں نے  عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء کتنے  ہیں ؟ فرمایا "ایک لاکھ چوبیس ہزار" میں نے  کہا ان میں سے  رسول کتنے  ہیں ؟ فرمایا "تین سو تیرہ کی بہت بڑی پاک جماعت " میں نے  پوچھا سب سے  پہلے  کون ہیں ؟ فرمایا "آدم" میں نے  کہا کیا وہ بھی نبی رسول تھے ؟ فرمایا "ہاں انہیں  اللہ نے  اپنے  ہاتھ سے  پیدا کیا اور اپنی روح ان میں پھونکی اور انہیں  صحیح تر بنایا۔ " پھر آپ نے  فرمایا سنو چار تو سریانی ہیں، آدم، شیث، خنوخ اور یہی ادریس ہیں، جنہوں نے  سب سے  پہلے  قلم سے  لکھا اور نوح اور چار عربی ہیں  ہود، شعیب، صالح اور تمہارے  نبی، سب سے  پہلے  رسول حضرت آدم ہیں  اور سب سے  آخری رسول حضرت محمد ہیں  (صلی اللہ علیہ و سلم) میں نے  پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ نے  کتابیں کس قدر نازل فرمائی ہیں ؟ فرمایا ایک سو چار، حضرت شیث علیہ اسلام پر پچاس صحیفے، حضرت خنوخ علیہ السلام پر تیس صحیفے، حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفے  اور حضرت موسیٰ پر توراۃ سے  پہلے  دس صحیفے  اور توراۃ انجیل زبور اور فرقان، میں نے  کہا یا رسول اللہ حضرت ابراہیم کے  صحیفوں میں کیا تھا؟ فرمایا اس کی مرکزی تعلیم جبر سے  مسلط بادشاہ کو اس کے  اقتدار کا مقصد سمجھانا تھا اور اسے  مظلوم کی فریاد رسی کرنے  کا احساس دلانا تھا۔ جس کی دعا کو اللہ تعالیٰ لازماً قبول فرماتے  ہیں ۔ چاہے  وہ کافر ہی کیوں نہ ہو!" دنیا کا مال جمع کرنے  سے  روکنا تھا اور ان میں نصائح تھیں مثلاً یہ کہ عقل مند کے  لئے  ضروری ہے  کہ وہ اپنا نظام الاوقات بنائے  وقت کے  ایک حصہ میں وہ اپنے  اعمال کا محاسبہ کرے، دوسرے  حصہ میں اپنے  خالق کی صفات پہ غور و فکر کرے، بقیہ حصہ میں تدبیر معاش میں مشغول ہو۔ عقل مند کو تین چیزوں کے  سوا کسی اور چیز میں دلچسپی نہ لینا چاہئے، ایک تو آخرت کے  زاد راہ کی فکر، دوسرے  سامان زیست اور تیسرے  اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ نعمتوں سے  لطف اندوز ہونا یا فکر معاش یا غیر حرام چیزوں سے  سرور و لذت، عقل مند کو اپنے  وقت کو غنیمت سمجھ کر سرگرم عمل رہنا چاہئے، اپنی زبان پر قابو اور قول و فعل میں یکسانیت برقرار رکھنا چاہئے، وہ بہت کم گو ہو گا، بات وہی کہو جو تمہیں  نفع دے، میں نے  پوچھا موسیٰ علیہ اسلام کے  صحیفوں میں کیا تھا؟ فرمایا وہ عبرت دلانے  والی تحریروں کا مجموعہ تھے، مجھے  تعجب ہے  اس شخص پر جو موت کا یقین رکھتا ہے  پھر بھی غافل ہے، تقدیر کا یقین رکھتا ہے  پھر بھی مال دولت کے  لئے  پاگل ہو رہا ہے، ہائے  وائے  میں پڑا ہوا ہے، دنیا کی بے  ثباتی دیکھ کر بھی اسی کو سب کچھ سمجھتا رہے، قیامت کے  دن حساب کو جانتا ہے  پھر بے  عمل ہے، میں نے  عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم اگلے  انبیاء کی کتابوں میں جو تھا اس میں سے  بھی کچھ ہماری کتاب میں ہمارے  ہاتھوں میں ہے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں پڑھو آیت (قد افلح من تزکی) آخر سورت تک، میں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھے  وصیت کیجئے ۔ آپ نے  فرمایا میں تجھے  اللہ سے  ڈرتے  رہنے  کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے  اعمال کی روح ہے، میں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھے  وصیت کیجئے ۔ آپ نے  فرمایا میں تجھے  اللہ سے  ڈرتے  رہنے  کی وصیت کرتا ہوں، یہی تیرے  اعمال کی روح ہے، میں نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کچھ اور بھی، آپ نے  فرمایا قرآن کی تلاوت اور اللہ کے  ذکر میں مشغول رہ وہ تیرے  لئے  آسمانوں میں ذکر اور زمین میں نور کے  حصول کا سبب ہو گا، میں نے  پھر کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے  باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے، میں نے  کہا پھر کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کچھ مزید فرمایئے، فرمایا خبردار زیادہ ہنسی سے  باز رہو زیادہ ہنسی دل کو مردہ اور چہرہ کا نور دور کر دیتی ہے، میں نے  کہا اور زیادہ فرمایا جہاد میں مشغول رہو، میری امت کی رہبانیت یعنی درویشی یہی ہے، میں نے  کہا اور وصیت کیجئے  فرمایا بھلی بات کہنے  کے  سوا زبان بند رکھو، اس سے  شیطان بھاگ جائے  گا اور دینی کاموں میں بڑی تائید ہو گی۔ میں نے  کہا کچھ اور بھی فرما دیجئے  فرمایا اپنے  سے  نیچے  درجے  کے  لوگوں کو دیکھا کر اور اپنے  سے  اعلیٰ درجہ کے  لوگوں پر نظریں نہ ڈالو، اس سے  تمہارے  دل میں اللہ کی نعمتوں کی عظمت پیدا ہو گی، میں نے  کہا مجھے  اور زیادہ نصیحت کیجئے  فرمایا مسکینوں سے  محبت رکھو اور ان کے  ساتھ بیٹھو، اس سے  اللہ کی رحمتیں تمہیں  گراں قدر معلوم ہوں گی، میں نے  کہا اور فرمایئے  فرمایا "قرابت داروں سے  ملتے  رہو، چاہے  وہ تجھ سے  نہ ملیں " میں نے  کہا اور ؟ فرمایا سچ بات کہو چاہے  وہ کسی کو کڑوی لگے ، میں نے  اور بھی نصیحت طلب کی فرمایا اللہ کے  بارے  میں ملامت کرنے  والے  کی ملامت کا خوف نہ کر، میں نے  کہا اور فرمایئے  فرمایا اپنے  عیبوں پر نظر رکھا کر، دوسروں کی عیب جوئی سے  باز رہو، پھر میرے  سینے  پر آپ نے  اپنا دست مبارک رکھ کر فرمایا اے  ابوذر تدبیر کے  مانند کوئی عقل مندی نہیں  اور حرام سے  رک جانے  سے  بڑھ کر کوئی پرہیز گاری نہیں  اور اچھے  اخلاق سے  بہتر کوئی حسب نسب نہیں ۔ مسند احمد میں بھی یہ حدیث کچھ اسی مفہوم کی ہے ۔ حضرت ابو سعید خدری پوچھتے  ہیں  کیا خارجی بھی دجال کے  قائل ہیں، لوگوں نے  کہا نہیں  فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ہے  میں ایک ہزار بلکہ زیادہ نبیوں کا ختم کرنے  والا ہوں اور ہر نبی نے  اپنی امت کو دجال سے  ڈرایا ہے  لیکن مجھ سے  اللہ نے  اس کی وہ علامت بیان فرمائی ہے  جو کسی اور کو نہیں  فرمائی "سنو وہ بھینگا ہو گا اور رب ایسا ہو نہیں  سکتا اس کی داہنی آنکھ کافی بھینگی ہو گی، آنکھ کا ڈھیلا اتنا اٹھا ہوا جیسے  چونے  کی صاف دیوار پر کسی کا کھنکار پڑا ہو اور اسکی بائیں آنھ ایک جگمگاتے  ستارے  جیسی ہے، وہ تمام زبانیں بولے  گا، اس کے  ساتھ سر سبز و شاداب جنت سیاہ دھواں دھار دوزخ نظر آئے  گا " ایک حدیث میں ہے  ایک لاکھ نبیوں کو ختم کرنے  والا ہوں بلکہ زیادہ کا۔ پھر فرمایا ہے  موسیٰ سے  خود اللہ نے  صاف طور پر کلام کیا۔ یہ ان کی خاص صفت ہے  کہ وہ کلیم اللہ تھے، ایک شخص حضرت ابوبکر بن عیاش رحمۃ اللہ علیہ کے  پاس آتا ہے  اور کہتا ہے  کہ ایک شخص اس جملہ کو یوں پڑھتا ہے  آیت (وکلم اللہ موسیٰ تکلیما) یعنی موسیٰ نے  اللہ سے  بات کی ہے، اس پر آپ بہت بگڑے  اور فرمایا یہ کسی کافر نے  پڑھا ہو گا۔ میں نے  اعمش سے  اعمش نے  یحییٰ نے  عبدالرحمٰن سے، عبدالرحمٰن سے  علی سے، علی نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  پڑھا ہے  کہ آیت (وکلم اللہ موسیٰ تکلیما) غرض اس شخص کی معنوی اور لفظی تحریف پر آپ بہت زیادہ ناراض ہوئے  مگر عجب نہیں  کہ یہ کوئی معتزلی ہو، اس لئے  کہ معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے  کہ اللہ نے  موسیٰ سے  کلام کیا نہ کسی اور سے  ۔ کسی معتزلی نے  ایک بزرگ کے  سامنے  اسی آیت کو اسی طرح پڑھا تو انہوں نے  اسے  ڈانٹ کر فرمایا پھر اس آیت میں یہ بد دیانتی کیسے  کرو گے ؟ جہاں فرمایا ہے  آیت (ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ) ۔ یعنی موسیٰ ہمارے  وعدے  پر آیا اور ان سے  ان کے  رب نے  کلام کیا، مطلب یہ ہے  کہ یہاں تو یہ تاویل و تحریف نہیں  چلے  گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا "جب اللہ تعالیٰ نے  حضرت موسیٰ سے  کلام کیا تو وہ اندھیری رات میں سیاہ چیونٹی کا کسی صاف پتھر پر چلنا بھی دیکھ لیتے  تھے ۔ " یہ حدیث غریب ہے  اور اس کی اسناد صحیح نہیں  اور جب موقوفاً بقول ابی ہریرہ ثابت ہو جائے  تو بہت ٹھیک ہے ۔ مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے ۔ کہ کلیم اللہ سے  جب اللہ نے  کلام کیا وہ صوفی کی چادر اور صوف کی سردول اور غیر مذبوح گدھے  کی کھال کی جوتیاں پہنے  ہوئے  تھے، ابن عباس فرماتے  ہیں  اللہ تعالیٰ نے  ایک لاکھ چالیس ہزار باتیں حضرت موسیٰ سے  کیں جو سب کی سب وصیتیں تھیں، نتیجہ یہ کہ لوگوں کی باتیں حضرت موسیٰ سے  سنی نہیں  جاتی تھیں کیونکہ کانوں میں کلام الٰہی کی گونج رہتی تھی، اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں ۔ پھر اس میں انقطاع بھی ہے ۔ ایک اثر ابن مردویہ میں ہے  حضرت جابر فرماتے  ہیں  جو کلام اللہ تعالیٰ نے  طور والے  دن حضرت موسیٰ سے  کیا تھا یہ تو میرے  اندازے  کے  مطابق اس کی صفت جس دن پکارا تھا اس انداز کلام کی صفت سے  الگ تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے  اس کا راز معلوم کرنا چاہا اللہ تعالیٰ نے  فرمایا موسیٰ ابھی تو میں نے  دس ہزار زبانوں کی قوت سے  کلام کیا ہے  حالانکہ مجھے  تمام زبانوں کی قوت حاصل ہے  بلکہ ان سب سے  بھی بہت زیادہ۔ بنو اسرائیل نے  آپ سے  جب کلام زبانی کی صفت پوچھی آپ نے  فرمایا "میں تو کچھ نہیں  کہہ سکتا " انہوں نے  کہا کچھ تشبیہ تو بیان کرو، آپ نے  فرمایا تم نے  کڑاکے  کی آواز سنی ہو گی، وہ اس کے  مشابہ تھی لیکن ویسی نہ تھی، اس کے  ایک راوی فضل رقاشی ضعیف ہیں  اور بہت ہی ضعیف ہیں ۔ حضرت کعب فرماتے  ہیں  اللہ تعالیٰ نے  جب حضرت موسیٰ سے  کلام کیا تو یہ تمام زبانوں پہ محیط تھا۔ حضرت کلیم اللہ نے  پوچھا "باری تعالیٰ یہ تیرا کلام ہے ؟ فرمایا نہیں  اور نہ تو میرے  کلام کی استقامت کر سکتا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے  دریافت کیا کہ اسے  رب تیری مخلوق میں سے  کسی کا کلام تیرے  کلام سے  مشابہ ہے ؟ فرمایا نہیں  سوائے  سخت تر کڑاکے  کے، یہ روایت بھی موقوف ہے  اور یہ ظاہر ہے  کہ حضرت کعب اگلی کتابوں سے  روایت کیا کرتے  تھے  جن میں بنو اسرائیل کی حکایتیں ہر طرح صحیح اور غیر صحیح ہوتی ہیں ۔ یہ رسول ہی ہیں  جو اللہ کی اطاعت کرنے  والوں اور اس کی رضامندی کے  متلاشیوں کو جنتوں کی خوشخبریاں دیتے  ہیں  اور اس کے  اور اس کے  رسولوں کو جھٹلانے  والوں کو عذاب اور سزا سے  ڈراتے  ہیں ۔ پھر فرماتا ہے  اللہ تعالیٰ نے  جو اپنی کتابیں نازل فرمائی ہیں  اور اپنے  رسول بھیجے  ہیں  اور ان کے  ذریعہ اپنے  اوامر و نواہی کی تعلیم دلوائی یہ اس لئے  کہ کسی کو کوئی حجت یا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے ۔ جیسے  اور آیت میں ہے  آیت (ولو انا اھلکناھم بعذاب من قبلہ) الخ، یعنی اگر ہم انہیں  اس سے  پہلے  ہی اپنے  عذاب سے  ہلاک کر دیتے  تو وہ یہ کہہ سکتے  تھے  کہ اے  ہمارے  رب تو نے  ہماری طرف رسول کیوں نہیں  بھیجے  جو ہم ان کی باتیں مانتے  اور اس ذلت و رسوائی سے  بچ جاتے، اسی جیسی یہ آیت بھی ہے  آیت (لو لا ان تصیبھم) الخ، بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  اللہ سے  زیادہ غیرت مند کوئی نہیں  اسی لئے  اللہ تعالیٰ نے  تمام برائیوں کو حرام کیا ہے  خواہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور ایسا بھی کوئی نہیں  جسے  بہ نسبت اللہ کے  مدح زیادہ پسند ہو یہی وجہ ہے  کہ اس نے  خود اپنی مدح آپ کی ہے  اور کوئی ایسا نہیں  جسے  اللہ سے  زیادہ ڈر پسند ہو، اسی وجہ سے  اللہ تعالیٰ نے  نبیوں کو خوش خبریاں سنانے  والے  اور ڈرانے  والے  بنا کر بھیجا۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں  کہ اسی وجہ سے  اس نے  رسول بھیجے  اور کتابیں اتاریں ۔

۱۶۶

ہمارے ایمان اور کفر سے اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے

چونکہ سابقہ آیتوں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کا ثبوت تھا اور آپ کی نبوت کے  منکروں کی تردید تھی، اس لئے  یہاں فرماتا ہے  کہ گو کچھ لوگ تجھے  جھٹلائیں، تیری مخالفت خلاف کریں لیکن اللہ خود تیری رسالت کا شاہد ہے  ۔ وہ فرماتا ہے  کہ اس نے  اپنی پاک کتاب قرآن مجید و فرقان حمید تجھ پر نازل فرمایا ہے  جس کے  پاس باطل پھٹک ہی نہیں  سکتا، اس کتاب میں ان چیزوں کا علم ہے  جن پر اس نے  اپنے  بندوں کو مطلع فرمانا چاہا یعنی دلیلیں، ہدایت اور فرقان، اللہ کی رضامندی اور ناراضگی کے  احکام اور ماضی کی اور مستقبل کی خبریں ہیں  اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ مقدس صفتیں ہیں  جنہیں  نہ تو کؤی نبی مرسل جانتا ہے  اور نہ کوئی مقرب فرشتہ، بجز اس کے  کہ وہ خود معلوم کرائے ۔ جیسے  ارشاد ہے  آیت (ولا یحیطون بشئی من علمہ الا بما شاء) اور فرماتا ہے  آیت (ولا یحیطون بہ علما) حضرت عطاء بن سائب جب حضرت ابو عبدالرحمٰن سلمی سے  قرآن شریف پڑھ چکتے  ہیں  تو آپ فرماتے  ہیں  تو نے  اللہ کا علم حاصل کیا ہے  پس آج تجھ سے  افضل کوئی نہیں، بجز اس کے  جو عمل میں تجھ سے  بڑھ جائے، پھر آپ نے  آیت (انزلہ بعلمہ) سے  آخر تک پڑھی۔ پھر فرماتا ہے  کہ اللہ کی شہادت کے  ساتھ ہی ساتھ فرشتوں کی شہادت بھی ہے  کہ تیرے  پاس جو علم آیا ہے، جو وحی تجھ پر اتری ہے  وہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ یہودیوں کی ایک جماعت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آتی ہے  تو آپ فرماتے  ہیں  خدا کی قسم مجھے  پختہ طور پر معلوم ہے  کہ تم میری رسالت کا علم رکھتے  ہو، ان لوگوں نے  اس کا انکار کر دیا پس اللہ عزوجل نے  یہ آیت اتاری۔ پھر فرماتا ہے  جن لوگوں نے  کفر کیا، حق کی اتباع نہ کی، بلکہ اور لوگوں کو بھی راہ حق سے  روکتے  رہے، یہ صحیح راہ سے  ہٹ گئے  ہیں  اور حقیقت سے  الگ ہو گئے  اور ہدایت سے  ہٹ گئے  ہیں ۔ یہ لوگ جو ہماری آیتوں کے  منکر ہیں، ہماری کتاب کو نہیں  مانتے، اپنی جان پر ظلم کرتے  ہیں  ہماری راہ سے  روکتے  اور رکتے  ہیں، ہمارے  منع کردہ کام کو کر رہے  ہیں، ہمارے  احکام سے  منہ پھیرتے  ہیں، انہیں  ہم بخشیں گے  نہ خیر و بھلائی کی طرف ان کی رہبری کریں گے ۔ ہاں انہیں  جہنم کا راستہ دکھا دیں گے  جس میں وہ ہمیشہ پڑے  رہیں  گے ۔ لوگو! تمہارے  پاس تمہارے  رب کی طرف سے  حق لے  کر اللہ کے  رسول آ گئے، تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی فرمانبرداری کرو، یہی تمہارے  حق میں اچھا ہے  اور اگر تم کفر کرو گے  تو اللہ تم سے  بے  نیاز ہے، تمہارا ایمان نہ اسے  نفع پہنچائے، نہ تمہارا کفر اسے  ضرر پہنچائے ۔ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں ۔ یہی قول حضرت موسیٰ کا اپنی قوم سے  تھا کہ تم اور روئے  زمین کے  تمام لوگ بھی اگر کفر پر اجماع کر لیں تو اللہ کا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے  ۔ وہ تمام جہان سے  بے  پرواہ ہے، وہ علیم ہے ، جانتا ہے  کہ مستحق ہدایت کون ہے  اور مستحق ضلالت کون ہے ؟ وہ حکیم ہے  اس کے  اقوال، اس کے  افعال، اس کی شرع اس کی تقدیر سب حکمت سے  پر ہیں ۔

۱۷۱

اپنی اوقات میں رہو حد سے تجاوز نہ کرو

اہل کتاب کو زیادتی سے  اور حد سے  آگے  بڑھ جانے  سے  اللہ تعالیٰ روک رہا ہے ۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کے  بارے  میں حد سے  نکل گئے  تھے  اور نبوت سے  بڑھا کر الوہیت تک پہنچا رہے  تھے ۔ بجائے  ان کی اطاعت کے  عبادت کرنے  لگے  تھے، بلکہ اور بزرگان دین کی نسبت بھی ان کا عقیدہ خراب ہو چکا تھا، وہ انہیں  بھی جو عیسائی دین کے  عالم اور عامل تھے  معصوم محض جاننے  لگ گئے  تھے  اور یہ خیال کر لیا تھا کہ جو کچھ یہ ائمہ دین کہہ دیں اس کا ماننا ہمارے  لئے  ضروری ہے، سچ و جھوٹ، حق و باطل، ہدایت و ضلالت کے  پرکھنے  کا کوئی حق ہمیں حاصل نہیں ۔ جس کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے  آیت (اتخذوا احبارہم ورھبانھم اربابا من دون اللہ) مسند احمد میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا "مجھے  تم ایسا نہ بڑھانا جیسا نصاریٰ نے  عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا، میں تو صرف ایک بندہ ہوں پس تم مجھے  عبد اللہ اور رسول اللہ کہنا۔ " یہ حدیث بخاری وغیرہ میں بھی ہے  اسی کی سند ایک حدیث میں ہے  کہ کسی شخص نے  آپ سے  کہا اے  محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! اے  ہمارے  سردار اور سردار کے  لڑکے، اے  ہم سب سے  بہتر اور بہتر کے  لڑکے ! تو آپ نے  فرمایا "لوگو اپنی بات کا خود خیال کر لیا کرو تمہیں  شیطان بہکا نہ دے، میں محمد بن عبد اللہ ہوں، میں اللہ کا غلام اور اس کا رسول ہوں، قسم اللہ کی میں نہیں  چاہتا کہ تم مجھے  میرے  مرتبے  سے  بڑھا دو" پھر فرماتا ہے  اللہ پر افتراء نہ باندھو، اس سے  بیوی اور اولاد کو منسوب نہ کرو، اللہ اس سے  پاک ہے، اس سے  دور ہے، اس سے  بلند و بالا ہے، اس کی بڑائی اور عزت میں کوئی اس کا شریک نہیں، اس کے  سوا نہ تو کوئی معبود اور نہ رب ہے ۔ مسیح عیسیٰ بن مریم رسول اللہ ہیں، وہ اللہ کے  غلاموں میں سے  ایک غلام ہیں  اور اس کی مخلوق ہیں، وہ صرف کلمہ کن کے  کہنے  سے  پیدا ہوئے  ہیں، جس کلمہ کو لے  کر حضرت جبرائیل حضرت مریم صدیقہ کے  پاس گئے  اور اللہ کی اجازت سے  اسے  ان میں پھونک دیا پس حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے ۔ چونکہ محض اسی کلمہ سے  بغیر باپ کے  آپ پیدا ہوئے، اس لئے  خصوصیت سے  کلمۃ اللہ کہا گیا۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے  آیت (ماالمسیح ابن مریم الا رسول) الخ، یعنی مسیح بن مریم صرف رسول اللہ ہیں  ان سے  پہلے  بھی بہت سے  رسول گزر چکے  ہیں، ان کی والدہ سچی ہیں، یہ دونوں کھانا کھایا کرتے  تھے  اور آیت میں ہے  آیت (ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم) الخ، عیسیٰ کی مثال اللہ کے  نزدیک آدم کی طرح ہے  جسے  مٹی سے  بنا کر فرمایا ہو جا پس وہ ہو گیا۔ قرآن کریم اور جگہ فرماتا ہے  آیت (والتی احصنت فرجھا) الخ، جس نے  اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور ہم نے  اپنی روح پھونکی اور خود اسے  اور اس کے  بچے  کو لوگوں کے  لئے  اپنی قدرت کی علامت بنایا اور جگہ فرمایا آیت (ومریم ابنۃ عمران) سے  آخر سورت تک۔ حضرت عیسیٰ کی بابت ایک اور آیت میں ہے  آیت (ان ھو الا عبد انعمنا علیہ) الخ، وہ ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے  انعام کیا۔ پس یہ مطلب نہیں  کہ خود کلمۃ الٰہی عیسیٰ بن گیا بلکہ کلمہ الٰہی سے  حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے ۔ امام ابن جریر نے  آیت (اذ قالت الملائکتہ) الخ، کی تفسیر میں جو کچھ کہا ہے  اس سے  یہ مراد ٹھیک ہے  کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ جو حضرت جبرائیل کی معرفت پھونکا گیا، اس سے  حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ صحیح بخاری میں ہے  "جس نے  بھی اللہ کے  ایک اور لا شریک ہونے  اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے  عبد و رسول ہونے  کی عیسیٰ کے  عبد و رسول ہونے  اور یہ کہ آپ اللہ کے  کلمہ سے  تھے  جو مریم کی طرف پھونکا گیا تھا اور الہ کی پھونکی ہوئی روح تھے  اور جس نے  جنت دوزخ کو برحق مانا وہ خواہ کیسے  ہی اعمال پر ہو، اللہ پر حق ہے  کہ اسے  جنت میں لے  جائے ۔ ایک روایت میں اتنی زیادہ بھی ہے  کہ جنت کے  آٹھوں دروازوں میں سے  جس سے  چاہے  داخل ہو جائے " جیسے  کہ جناب عیسیٰ کو آیت وحدیث میں (روح منہ) کہا ہے  ایسے  ہی قرآن کی ایک آیت میں ہے  آیت (وسخرلکم ما فی السموات وما فی الارض جمیعا منہ) اس نے  مسخر کیا تمہارے  لئے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو زمین میں ہے، تمام کا تمام اپنی طرف ہے ۔ یعنی اپنی مخلوق اور اپنے  پاس کی روح سے  ۔ پس لفظ من تبعیض (اس کا حصہ) کے  لئے  نہیں  جیسے  ملعون نصرانیوں کا خیال ہے  کہ حضرت عیسیٰ اللہ کا ایک جزو تھے  بلکہ من ابتداء کے  لئے  ہے ۔ جیسے  کہ دوسری آیت میں ہے، حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  روح منہ سے  مراد رسول منہ ہے  اور لوگ کہتے  ہیں  آیت (محبتہ منہ) لیکن زیادہ قوی پہلا قول ہے  یعنی آپ پیدا کئے  گئے  ہیں، روح سے  جو خود اللہ کی مخلوق ہے ۔ پس آپ کو روح اللہ کہنا ایسا ہی ہے  جیسے  (ناقۃ اللہ) اور بت اللہ کہا گیا ہے  یعنی صرف اس کی عظمت کے  اظہار کے  لئے  اپنی طرف نسبت کی اور حدیث "میں بھی ہے  کہ "میں اپنے  رب کے  پاس اس کے  گھر میں جاؤں گا۔ " پھر فرماتا ہے  تم اس کا یقین کر لو کہ اللہ واحد ہے  بیوی بچوں سے  پاک ہے  اور یقین مان لو کہ جناب عیسیٰ اللہ کا کلام اللہ کی مخلوق اور اس کے  برگزیدہ رسول ہیں ۔ تم تین نہ کہو یعنی عیسیٰ اور مریم کو اللہ کا شریک نہ بناؤ اللہ کی الوہیت شرکت سے  مبرا ہے ۔ سورہ مائدہ میں فرمایا آیت (لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثہ) الخ، یعنی جو کہتے  ہیں  کہتے  ہیں  کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے  وہ کافر ہو گئے، اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے، اس کے  سوا کوئی اور لائق عبادت نہیں ۔ سورہ مائدہ کے  آخر میں ہے  کہ قیامت کے  دن حضرت عیسیٰ سے  سوال ہو گا کہ اپنی اور اپنی والدہ کی عبادت کا حکم لوگوں کو تم نے  دیا تھا، آپ صاف طور پر انکار کر دیں گے ۔ نصرانیوں کا اس بارے  میں کوئی اصول ہی نہیں  ہے، وہ بری طرح بھٹک رہے  ہیں  اور اپنے  آپ کو برباد کر رہے  ہیں ۔ ان میں سے  بعض تو حضرت عیسیٰ کو خود اللہ مانتے  ہیں، بعض شریک الہیہ مانتے  اور بعض اللہ کا بیٹا کہتے  ہیں ۔ سچ تو یہ ہے  کہ اگر دس نصرانی جمع ہوں تو ان کے  خیالات گیارہ ہوں گے ۔ سعید بن بطریق اسکندری جو سن ۴۰۰ ھ کے  قریب گزرا ہے  اس نے  اور بعض ان کے  اور بڑے  علماء نے  ذکر کیا ہے  کہ قسطنطین بانی قسطنطنیہ کے  زمانے  میں اس وقت کے  نصرانیوں کا اس بادشاہ کے  حکم سے  اجتماع ہوا، جس میں دو ہزار سے  زیادہ ان کے  مذہبی پیشوا شامل ہوتے  تھے، باہم ان کے  اختلاف کا یہ حال تھا کہ کسی بات پر ستر اسی آدمیوں کا اتفاق مفقود تھا، دس کا ایک عقیدہ ہے، بیس کا ایک خیال ہے، چالیس اور ہی کچھ کہتے  ہیں، ساٹھ اور طرف جا رہے  ہیں ، غرض ہزار ہا کی تعداد میں سے  بہ مشکل تمام تین سو اٹھارہ آدمی ایک قول پر جمع ہوئے، بادشاہ نے  اسی عقیدہ کو لے  لیا، باقی کو چھوڑ دیا اور اسی کی تائید و نصرت کی اور ان کے  لئے  کلیساء اور گرجے  بنا دئے  اور کتابیں لکھوا دیں، قوانین ضبط کر دئے، یہیں  انہوں نے  امانت کبریٰ کا مسئلہ گھڑا، جو دراصل بدترین خیانت ہے، ان لوگوں کو ملکانیہ کہتے  ہیں ۔ پھر دوبارہ ان کا اجتماع ہوا، اس وقت جو فرقہ بنا اس کا نام یعقوبیہ ہے ۔ پھر تیسری مرتبہ کے  اجتماع میں جو فرقہ بنا اس کا نام نسطوریہ ہے، یہ تینوں فرقے  اقانیم ثلثہ کو حضرت عیسیٰ کے  لئے  ثابت کرتے  ہیں، ان میں بھی باہم دیگر اختلاف ہے  اور ایک دوسرے  کو کافر کہتے  ہیں  اور ہمارے  نزدیک تو تینوں کافر ہیں ۔ اللہ فرماتا ہے  اس شرک سے  باز آؤ، باز رہنا ہی تمہارے  لئے  اچھا ہے، اللہ تو ایک ہی ہے، وہ توحید والا ہے، اس کی ذات اس سے  پاک ہے  کہ اس کے  ہاں اولاد ہو۔ تمام چیزیں اس کی مخلوق ہیں  اور اس کی ملکیت میں ہیں، سب اس کی غلامی میں ہیں  اور سب اس کے  قبضے  میں ہیں، وہ ہر چیز پر وکیل ہے، پھر مخلوق میں سے  کوئی اس کی بیوی اور کوئی اس کا بچہ کیسے  ہو سکتا ہے ؟ دوسری آیت میں ہے  آیت (بدیع السموات والارض انی یکون لہٗ ولد) یعنی وہ تو آسمان و زمین کی ابتدائی آفرنیش کرنے  والا ہے، اس کا لڑکا کیسے  ہو سکتا ہے ؟ سورہ مریم میں آیت (وقالوا اتخذ الرحمٰن) سے  (فردا) تک بھی اس کا مفصلاً انکار فرمایا ہے ۔

۱۷۲

اس کی گرفت سے فرار ناممکن ہے

مطلب یہ ہے  کہ مسیح علیہ السلام اور اعلیٰ ترین فرشتے  بھی اللہ کی بندگی سے  انکار اور فرار نہیں  کر سکتے، نہ یہ ان کی شان کے  لائق ہے  بلکہ جو جتنا مرتبے  میں قریب ہوتا ہے، وہ اسی قدر اللہ کی عبادت میں زیادہ پابند ہوتا ہے ۔ بعض لوگوں نے  اس آیت سے  استدلال کیا ہے  کہ فرشتے  انسانوں سے  افضل ہیں ۔ لیکن دراصل اس کا کوئی ثبوت اس آیت میں نہیں، اس لئے  یہاں ملائکہ کا عطف مسیح پر ہے  اور استنکاف کا معنی رکنے  کے  ہیں  اور فرشتوں میں یہ قدرت بہ نسبت مسیح کے  زیادہ ہے ۔ اس لئے  یہ فرمایا گیا ہے  اور رک جانے  پر زیادہ قادر ہونے  سے  افضیلت ثابت نہیں  ہوتی اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو لوگ پوجتے  تھے، اسی طرح فرشتوں کی بھی عبادت کرتے  تھے ۔ تو اس آیت میں مسیح علیہ السلام کو اللہ کی عبادت سے  رکنے  والا بتا کر فرشتوں کی بھی یہی حالت بیان کر دی، جس سے  ثابت ہو گیا کہ جنہیں  تم پوجتے  ہو وہ خود اللہ کو پوجتے  ہیں، پھر ان کی پوجا کیسی؟ جیسے  اور آیت میں ہے  آیت (بل عباد مکرمون) اور اسی لئے  یہاں بھی فرمایا کہ جو اس کی عبادت سے  رکے، منہ موڑے  اور بغاوت کرے، وہ ایک وقت اسی کے  پاس لوٹنے  والا ہے  اور اپنے  بارے  میں اس کا فیصلہ سننے  والا ہے  اور جو ایمان لائیں، نیک اعمال کریں، انہیں  ان کا پورا ثواب بھی دیا جائے  گا، پھر رحمت ایزدی اپنی طرف سے  بھی انعام عطا فرمائے  گی۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے  کہ اجر تو یہ ہے  کہ جنت میں پہنچا دیا اور زیادہ فضل یہ ہے  کہ جو لوگ قابل دوزخ ہوں، انہیں  بھی ان کی شفاعت نصیب ہو گی، جن سے  انہوں نے  بھلائی اور اچھائی کی تھی، لیکن اس کی سند ثابت شدہ نہیں، ہاں اگر ابن مسعود کے  قول پر ہی اسے  روایت کیا جائے  تو ٹھیک ہے ۔ پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی عبادت و اطاعت سے  رک جائیں اور اس سے  تکبر کریں، انہیں  پروردگار درد ناک عذاب کرے  گا اور یہ اللہ کے  سوا کسی کو دلی و مددگار نہ پائیں گے ۔ جیسے  اور آیت میں ہے  آیت (ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین) جو لوگ میری عبادت سے  تکبر کریں، وہ ذلیل و حقیر ہو کر جہنم میں جائیں گے، یعنی ان کے  انکار اور ان کے  تکبر کا یہ بدلہ انہیں  ملے  گا کہ ذلیل و حقیر خوار و بے  بس ہو کر جہنم میں داخل کئے  جائیں گے ۔

۱۷۴

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مکمل دلیل اور حجت تمام ہے

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام انسانوں کو فرماتا ہے  کہ میری طرف سے  کامل دلیل اور عذر معذرت کو توڑ دینے  والی، شک و شبہ کو الگ کرنے  والی برہان (دلیل) تمہاری طرف نازل ہو چکی ہے  اور ہم نے  تمہاری طرف کھلا نور صاف روشنی پورا اجالا اتار دیا ہے، جس سے  حق کی راہ صحیح طور پر واضح ہو جاتی ہے ۔ ابن جریج وغیرہ فرماتے  ہیں  اس سے  مراد قرآن کریم ہے ۔ اب جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور توکل اور بھروسہ اسی پر کریں، اس سے  مضبوط رابطہ کر لیں، اس کی سرکار میں ملازمت کر لیں، مقام عبودیت اور مقام توکل میں قائم ہو جائیں، تمام امور اسی کو سونپ دیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ اللہ پر ایمان لائیں اور مضبوطی کے  ساتھ اللہ کی کتاب کو تھام لیں ان پر اللہ اپنا رحم کرے  گا، اپنا فضل ان پر نازل فرمائے  گا، نعمتوں اور سرور والی جنت میں انہیں  لے  جائے  گا، ان کے  ثواب بڑھا دے  گا، ان کے  درجے  بلند کر دے  گا اور انہیں  اپنی طرف لے  جانے  والی سیدھی اور صاف راہ دکھائے  گا، جو کہیں  سے  ٹیڑھی نہیں، کہیں  سے  تنگ نہیں ۔ گویا وہ دنیا میں صراط مستقیم پر ہوتا ہے ۔ راہ اسلام پر ہوتا ہے  اور آخرت میں راہ جنت پر اور راہ سلامتی پر ہوتا ہے ۔ شروع تفسیر میں ایک پوری حدیث گزر چکی ہے  جس میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے  کہ اللہ کی سیدھی راہ اور اللہ کی مضبوط رسی قرآن کریم ہے ۔

۱۷۶

عصبہ اور کلالہ کی وضاحت! مسائل وراثت

حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  سورتوں میں سب سے  آخری سورت سورہ برأت اتری ہے  اور آیتوں میں سب سے  آخری آیت (یستفتونک) اتری ہے، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  "میں بیماری کے  سبب بیہوش پڑا تھا کہ اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم میری عیادت کے  لئے  تشریف لائے، آپ نے  وضو کیا اور وہی پانی مجھ پر ڈالا، جس سے  مجھے  افاقہ ہوا اور میں نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم وارثوں کے  لحاظ سے  میں کلالہ ہوں، میری میراث کیسے  بٹے  گی؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے  آیت فرائض نازل فرمائی (بخاری و مسلم) اور روایت میں بھی اسی آیت کا اترنا آیا ہے ۔ پس اللہ فرماتا ہے  کہ لوگ تجھ سے  پوچھتے  ہیں  یعنی کلالہ کے  بارے  میں ۔ پہلے  یہ بیان گزر چکا ہے  کہ لفظ کلالہ اکیل سے  ماخوذ ہے  جو کہ سر کو چاروں طرف سے  گھیرے  ہوئے  ہوتا ہے ۔ اکثر علماء نے  کہا ہے  کہ کلالہ وہ ہے  جس میت کے  لڑکے  پوتے  نہ ہوں اور بعض کا قول یہ بھی ہے  کہ جس کے  لڑکے  نہ ہوں، جیسے  کہا آیت میں ہے  آیت (ولیس لہٗ ولد) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  سامنے  جو مشکل مسائل آئے  تھے، ان میں ایک یہ مسئلہ بھی تھا۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا تین چیزوں کی نسبت میری تمنا رہ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان میں ہماری طرف کوئی ایسا عہد کرتے  کہ ہم اسی کی طرف رجوع کرتے  دادا کی میراث، کلالہ اور سود کے  ابواب اور روایت میں ہے، آپ فرماتے  یہیں  کہ کلالہ کے  بارے  میں میں نے  جس قدر سوالات حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  کئے، اتنے  کسی اور مسئلہ میں نہیں  کئے  یہاں تک کہ آپ نے  اپنی انگلی سے  میرے  سینے  میں کچوکا لگا کر فرمایا کہ تجھے  گرمیوں کی وہ آیت کافی ہے، جو سورہ نساء کے  آخر میں ہے  اور حدیث میں ہے  اگر میں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  مزید اطمینان کر لیا ہوتا تو وہ میرے  لئے  سرخ اونٹوں کے  ملنے  سے  زیادہ بہتر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  اس فرمان کا مطلب یہ ہے  کہ یہ آیت موسم گرما میں نازل ہوئی ہو گی واللہ اعلم اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس کے  سمجھنے  کی طرف رہنمائی کی تھی اور اسی کو مسئلہ کا کافی حل بتایا تھا، لہٰذا فاروق اعظم اس کے  معنی پوچھنے  بھول گئے، جس پر اظہار افسوس کر رہے  ہیں ۔ ابن جریر میں ہے  کہ جناب فاروق نے  حضور سے  کلالہ کے  بارے  میں سوال کیا پس فرمایا "کیا اللہ نے  اسے  بیان نہیں  فرمایا۔ " پس یہ آیت اتری۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے  خطبے  میں فرماتے  ہیں  جو آیت سورہ نساء کے  شروع میں فرائض کے  بارے  میں ہے، وہ ولد و والد کے  لئے  ہے  اور دوسری آیت میاں بیوی کے  لئے  ہے  اور ماں زاد بہنوں کے  لئے  اور جس آیت سے  سورہ نساء کو ختم کیا ہے  وہ سگے  بہن بھائیوں کے  بارے  میں ہے  جو رحمی رشتہ عصبہ میں شمار ہوتا ہے  (ابن جریر) اس آیت کے  معنی ھلک کے  معنی ہیں  مر گیا، جیسے  فرمان ہے  حدیث (کل شئی ھالک) الخ، یعنی ہر چیز فنا ہونے  والی ہے  سوائے  ذات الٰہی کے  جو ہمیشہ باقی رہنے  والا ہے ۔ جیسے  اور آیت میں فرمایا آیت (کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام) یعنی ہر ایک جو اس پر ہے  فانی یہ اور تیرے  رب کا چہرہ ہی باقی رہے  گا جو جلال و ا کرام والا ہے ۔ پھر فرمایا اس کا ولد نہ ہو، اس سے  بعض لوگوں نے  دلیل لی ہے  کہ کلالہ کی شرط میں باپ کا نہ ہونا نہیں  بلکہ جس کی اولاد نہ ہو وہ کلالہ ہے، بروایت ابن جریر حضرت عمر بن خطاب سے  بھی یہی مروی ہے  لیکن صحیح قول جمہور کا ہے  اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ بھی یہی ہے  کہ کلالہ وہ ہے  جس کا نہ ولد ہو، نہ والد اور اس کی دلیل آیت میں اس کے  بعد کے  الفاظ سے  بھی ثابت ہوتی ہے  جو فرمایا آیت (ولہ اخت فلھا نصف ما ترک) یعنی اس کی بہن ہو تو اس کے  لئے  کل چھوڑے  ہوئے، مال کا آدھوں آدھ ہے  اور اگر بہن باپ کے  ساتھ ہو تو باپ اسے  ورثہ پانے  سے  روک دیتا ہے  اور اسے  کچھ بھی اجماعاً نہیں  ملتا، پس ثابت ہوا کہ کلالہ وہ ہے  جس کا ولد نہ ہو جو نص سے  ثابت ہے  اور باپ بھی نہ ہو یہ بھی نص سے  ثابت ہوتا ہے  لیکن قدرے  غور کے  بعد، اس لئے  کہ بہن کا نصف حصہ باپ کی موجودگی میں ہوتا ہی نہیں  بلکہ وہ ورثے  سے  محروم ہوتی ہے ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مسئلہ پوچھا جاتا ہے  کہ ایک عورت مر گئی ہے  اس کا خاوند ہے  اور ایک سگی بہن ہے  تو آپ نے  فرمایا آدھا بہن کو دے  دو اور آدھا خاوند کو جب آپ سے  اس کی دلیل پوچھی گئی تو آپ نے  فرمایا میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایسی صورت میں یہی فیصلہ صادر فرمایا تھا (احمد) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  ابن جریر میں منقول ہے  کہ ان دونوں کا فتویٰ صادر فرمایا تھا (احمد) حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  ابن جریر میں منقول ہے  کہ ان دونوں کا فتویٰ اس میت کے  بارے  میں جو ایک لڑکی اور ایک بہن چھوڑ جائے، یہ تھا کہ اس صورت میں بہن محروم رہے  گی، اسے  کچھ بھی نہ ملے  گا، اسی لئے  کہ قرآن کی اس آیت میں بہن کو آدھا ملنے  کی صورت یہ بیان کی گئی ہے  کہ میت کی اولاد نہ ہو اور یہاں اولاد ہے ۔ لیکن جمہور ان کے  خلاف ہیں  وہ کہتے  ہیں  کہ اس صورت میں بھی آدھا لڑکی کو ملے  گا اور بہ سبب فرض اور عصبہ آدھا بہن کو بھی ملے  گا۔ ابراہیم اسود کہتے  ہیں  ہم میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  زمانے  میں فیصلہ کیا کہ آدھا لڑکی کا اور آدھا بہن کا۔ صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے  کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے  لڑکی اور پوتی اور بہن کے  بارے  میں فتویٰ دیا کہ آدھا لڑکی کو اور آدھا بہن کو پھر فرمایا ذرا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  پاس بھی ہو آؤ وہ بھی میری موافقت ہی کریں گے، لیکن جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  سوال ہوا اور حضرت ابو موسیٰ کا فیصلہ بھی انہیں  سنایا گیا تو آپ نے  فرمایا ان سے  اتفاق کی صورت میں گمراہ ہو جاؤں گا اور راہ یافتہ لوگوں میں میرا شمار نہیں  رہے  گا، سنو میں اس بارے  میں وہ فیصلہ کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  کیا ہے  آدھا تو بیٹی کو اور چھٹا حصہ پوتی کو تو دو ثلث پورے  ہو گئے  اور جو باقی بچا وہ بہن کو۔ ہم پھر واپس آئے  اور حضرت ابو موسیٰ کو یہ خبر دی تو آپ نے  فرمایا جب تک یہ علامہ تم میں موجود ہیں، مجھ سے  مسائل نہ پوچھا کرو۔ پھر فرمان ہے  کہ یہ اس کا وارث ہو گا اگر اس کی اولاد نہ ہو، یعنی بھائی اپنی بہن کے  کل مال کا وارث ہے  جبکہ وہ کلالہ مرے  یعنی اس کی اولاد اور باپ نہ ہو، اس لئے  کہ باپ کی موجودگی میں تو بھائی کو ورثے  میں سے  کچھ بھی نہ ملے  گا۔ ہاں اگر بھائی کے  ساتھ ہی اور کوئی مقررہ حصے  والا اور وارث ہو جیسے  خاوند یا ماں جایا بھائی تو اسے  اس کا حصہ دے  دیا جائے  گا اور باقی کا وارث بھائی ہو گا۔ صحیح بخاری میں ہے  حضور علیہ السلام فرماتے  ہیں  فرائض کو ان کے  اہل سے  ملا دو، پھر جو باقی بچے  وہ اس مرد کا ہے  جو سب سے  زیادہ قریب ہو۔ پھر فرماتا ہے  اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں  مال متروکہ کے  دو ثلث ملیں گے ۔ یہی حکم دو سے  زیادہ بہنوں کا بھی ہے، یہیں  سے  ایک جماعت نے  دو بیٹیوں کا حکم لیا ہے ۔ جیسے  کہ دو سے  زیادہ بہنوں کا حکم لڑکیوں کے  حکم سے  لیا ہے  جس آیت کے  الفاظ یہ ہیں  آیت (فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثا ما ترک) پھر فرماتا ہے  اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو ہر مرد کا حصہ دو عورتوں کے  برابر ہے، یہی حکم عصبات کا ہے  خواہ لڑکے  ہوں یا پوتے  ہوں یا بھائی ہوں، جب کہ ان میں مرد و عورت دونوں موجود ہوں ۔ تو جتنا دو عورتوں کو ملے  گا اتنا ایک مرد کو۔ اللہ اپنے  فرائض بیان فرما رہا ہے، اپنی حدیں مقرر کر رہا ہے، اپنی شریعت واضح کر رہا ہے ۔ تاکہ تم بہک نہ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کے  انجام سے  واقف اور ہر مصلحت سے  دانا، بندوں کی بھلائی برائی کا جاننے  والا، مستحق کے  استحقاق کو پہچاننے  والا ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کہیں  سفر میں جا رہے  تھے ۔ حذیفہ کی سواری کے  دوسرے  سوار کے  پاس تھا جو یہ آیت اتری پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت حذیفہ کو سنائی اور حضرت حذیفہ نے  حضرت فاروق اعظم کو اس کے  بعد پھر حضرت عمر نے  جب اس کے  بارے  میں سوال کیا تو کہا واللہ تم بے  سمجھ ہو، اس لئے  کہ جیسے  مجھے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  سنائی ویسے  ہی میں نے  آپ کو سنا دی، واللہ میں تو اس پر کوئی زیادتی نہیں  کر سکتا، پس حضرت فاروق فرمایا کرتے  تھے  الٰہی اگرچہ تو نے  ظاہر کر دیا ہو مگر مجھ پر تو کھلا نہیں ۔ لیکن یہ روایت منقطع ہے  اسی روایت کی اور سند میں ہے  کہ حضرت عمر نے  دوبارہ یہ سوال اپنی خلافت کے  زمانے  میں کیا تھا اور حدیث میں ہے  کہ حضرت عمر نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا تھا کہ کلالہ کا ورثہ کس طرح تقسیم ہو گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے  یہ آیت اتاری لیکن چونکہ حضرت کی پوری تشفی نہ ہوئی تھی، اس لئے  اپنی صاحبزادی زوجہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت حفصہ سے  فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خوشی میں ہوں تو تم پوچھ لینا۔ چنانچہ حضرت حفصہ نے  ایک روز ایسا ہی موقعہ پا کر دریافت کیا تو آپ نے  فرمایا شاید تیرے  باپ نے  تجھے  اس کے  پوچھنے  کی ہدایت کی ہے  میرا خیال ہے  کہ وہ اسے  معلوم نہ کر سکیں گے ۔ حضرت عمر نے  جب یہ سنا تو فرمانے  لگے  جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہ فرما دیا تو بس میں اب اسے  جان ہی نہیں  سکتا اور روایت میں ہے  کہ حضرت عمر کے  حکم پر جب حضرت حفصہ نے  سوال کیا تو آپ نے  ایک کنگھے  پر یہ آیت لکھوا دی، پھر فرمایا کیا عمر نے  تم سے  اس کے  پوچھنے  کو کہا تھا؟ میرا خیال ہے  کہ وہ اسے  ٹھیک ٹھاک نہ کر سکیں گے ۔ کیا انہیں  گرمی کی وہ آیت جو سورہ نساء میں ہے  کافی نہیں ؟ وہ آیت (وان کان رجل یورث کلالتہ) ہے  پھر جب لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا تو وہ آیت اتری جو سورہ نساء کے  خاتمہ پر ہے  اور کنگھی پھینک دی۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرتبہ حضرت عمر نے  صحابہ کو جمع کر کے  کنگھے  کے  ایک ٹکڑے  کو لے  کر فرمایا میں کلالہ کے  بارے  میں آج ایسا فیصلہ کر دونگا کہ پردہ نشین عورتوں تک کو معلوم رہے، اسی وقت گھر میں سے  ایک سانپ نکل آیا اور سب لوگ ادھر ادھر ہو گئے، پس آپ نے  فرمایا اگر اللہ عزوجل کا ارادہ اس کام کو پورا کرنے  کا ہوتا تو اسے  پورا کر لینے  دیتا۔ اس کی اسناد صحیح ہے، مستدرک حاکم میں ہے  حضرت عمر نے  فرمایا کاش میں تین مسئلے  رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کر لیتا تو مجھے  سرخ اونٹوں کے  لنے  سے  بھی زیادہ محبوب ہوتا۔ ایک تو یہ کہ آپ کے  بعد خلیفہ کون ہو گا؟ دوسرے  یہ کہ جو لوگ زکوٰۃ کے  ایک تو قائل ہوں لیکن کہیں  کہ ہم تجھے  ادا نہیں  کریں گے  ان سے  لڑنا حلال ہے  یا نہیں ؟ تیسرے  کلالہ کے  بارے  میں ایک اور حدیث میں بجائے  زکوٰۃ ادا نہ کرنے  والوں کے  سودی مسائل کا بیان ہے ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  حضرت عمر کے  آخری وقت میں نے  آپ سے  سنا فرماتے  تھے  قول وہی ہے  جو میں نے  کہا، تو میں نے  پوچھا وہ کیا؟ فرمایا یہ کہ کلالہ وہ ہے  جس کی اولاد نہ وہ۔ ایک اور روایت میں ہے  حضرت فاروق فرماتے  ہیں  میرے  اور حضرت صدیق کے  درمیان کلالہ کے  بارے  میں اختلاف ہوا اور بات وہی تھی جو میں کہتا تھا۔ حضرت عمر نے  سگے  بھائیوں اور ماں زاد بھائیوں کو جبکہ وہ جمع ہوں، ثالث میں شریک کیا تھا اور حضرت ابوبکر اس کے  خلاف تھے ۔ ابن جریر میں ہے  کہ خلیفۃ المومنین جناب فاروق نے  ایک رقعہ پر دادا کے  ورثے  اور کلالہ کے  بارے  میں کچھ لکھا پھر استخارہ کیا اور ٹھہرے  رہے  اور اللہ سے  دعا کی کہ پروردگار اگر تیرے  علم میں اس میں بہتری ہے  تو تو اسے  جاری کر دے  پھر جب آپ کو زخم لگایا گیا تو آپ نے  اس رقعہ کو منگوا کر مٹا دیا اور کسی کو علم نہ ہوا کہ اس میں کیا تحریر تھا پھر خود فرمایا کہ میں نے  اس میں دادا کا اور کلالہ کا لکھا تھا اور میں نے  استخارہ کیا تھا پھر میرا خیال یہی ہوا کہ تمہیں  اسی پر چھوڑ دوں جس پر تم ہو۔ ابن جریر میں ہے  میں اس بارے  میں ابوبکر کے  خلاف کرتے  ہوئے  شرماتا ہوں اور ابوبکر کا فرمان تھا کہ کلالہ وہ ہے  جس کا ولد و والد نہ ہو۔ اور اسی پر جمہور صحابہ اور تابعین اور ائمہ دین ہیں  اور یہی چاروں اماموں اور ساتوں فقہاء کا مذہب ہے  اور اسی پر قرآن کریم کی دلالت ہے  جیسے  کہ باری تعالیٰ عزاسمہ نے  اسے  واضح کر کے  فرمایا اللہ تمہارے  لئے  کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے  تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے  والا ہے، واللہ اعلم۔

سورۂ مائدہ

حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں  کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی عضباء کی نکیل تھامے  ہوئی تھی جب آپ پر سورہ مائدہ پوری نازل ہوئی۔ قریب تھا کہ اس بوجھ سے  اونٹنی کے  بازو ٹوٹ جائیں (مسند احمد) اور روایت میں ہے  کہ اس وقت آپ سفر میں تھے، وحی کے  بوجھ سے  یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا اونٹنی کی گردن ٹوٹ گئی (ابن مردویہ) اور روایت میں ہے  کہ جب اونٹنی کی طاقت سے  زیادہ بوجھ ہو گیا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس پر سے  اتر گئے  (مسند احمد) ترمذی شریف کی روایت میں ہے  کہ سب سے  آخری سورت جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر اتری وہ سورہ آیت (اذا جاء نصر اللہ) ہے ۔ مستدرک حاکم میں ہے  حضرت جبیر بن نفیر فرماتے  ہیں، میں حج کے  لئے  گیا وہاں حضرت اماں عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے  مجھ سے  فرمایا تم سورہ مائدہ پڑھا کرتے  ہو؟ میں نے  کہا ہاں فرمایا سنو سب سے  آخری یہی سورت نازل ہوئی ہے  اس میں جس چیز کو حلال پاؤ، حلال ہی سمجھو اور اس میں جس چیز کو حرام پاؤ حرام ہی جانو۔ مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے  کہ پھر میں نے  اماں محترمہ سے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  اخلاق کی نسبت سوال کیا تو آپ نے  فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  اخلاق قرآن کا عملی نمونہ تھے ۔ یہ روایت نسائی شریف میں بھی ہے ۔

ایک بے دلیل روایت اور وفائے عہد کی تاکید

ابن ابی حاتم میں ہے  کہ ایک شخص نے  حضرت عبد اللہ بن مسعود سے  کہا! آپ مجھے  خاص نصیحت کیجئے ۔ آپ نے  فرمایا "جب تو قرآن میں لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) سن لے  تو فوراً کان لگا کر دل سے  متوجہ ہو جا، کیونکہ اس کے  بعد کسی نہ کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی نہ کسی برائی سے  ممانعت ہو گی۔ " حضرت زہری فرماتے  ہیں  "جہاں کہیں  اللہ تعالیٰ نے  ایمان والوں کو کوئی حکم دیا ہے  اس حکم میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی شامل ہیں ۔ " حضرت فیثمہ فرماتے  ہیں  کہ توراۃ میں بجائے  (یا ایھا الذین امنوا) کے  (یاایھا المساکین) ہے ۔ ایک روایت ابن عباس کے  نام سے  بیان کی جاتی ہے  کہ جہاں کہیں  لفظ آیت (یا ایھا الذین امنوا) ہے ، ان تمام مواقع پر ان سب ایمان والوں کے  سردار و شریف اور امیر حضرت علی ہیں، اصحاب رسول میں سے  ہر ایک کو ڈانٹا گیا ہے  بجز حضرت علی بن ابوطالب کے  کہ انہیں  کسی امر میں نہیں  ڈانٹا گیا، یاد رہے  کہ یہ اثر بالکل بے  دلیل ہے ۔ اس کے  الفاظ منکر ہیں  اور اس کی سند بھی صحیح نہیں ۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں  اس کا راوی عیسیٰ بن راشد مجہول ہے، اس کی روایت منکر ہے ۔ میں کہتا ہوں اسی طرح اس کا دوسرا راوی علی بن بذیمہ گو ثقہ ہے  مگر اعلیٰ درجہ کا شیعہ ہے ۔ پھر بھلا اس کی ایسی روایت جو اس کے  اپنے  خاص خیالات کی تائید میں ہو، کیسے  قبول کی جا سکے  گی؟ یقیناً وہ اس میں ناقابل قبول ٹھہرے  گا، اس روایت میں یہ کہا گیا ہے  کہ تمام صحابہ کو بجز حضرت علی کے  ڈانٹا گیا، اس سے  مراد ان کی وہ آیت ہے  جس میں اللہ تعالیٰ نے  اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے  سرگوشی کرنے  سے  پہلے  صدقہ نکالنے  کا حکم دیا تھا، پس ایک سے  زیادہ مفسرین نے  کہا ہے  کہ اس پر عمل صرف حضرت علی ہی نے  کیا اور پھر یہ فرمان اترا کہ آیت (ااشفقتم ان تقدموا) الخ، لیکن یہ غلط ہے  کہ اس آیت میں صحابہ کو ڈانٹا گیا، بلکہ دراصل یہ حکم بطور واجب کے  تھا ہی نہیں، اختیاری امر تھا۔ پھر اس پر عمل ہونے  سے  پہلے  ہی اللہ تعالیٰ نے  اسے  منسوخ کر دیا۔ پس حقیقتاً کسی سے  اس کے  خلاف عمل سرزد ہی نہیں  ہوا۔ پھر یہ بات بھی غلط ہے  کہ حضرت علی کو کسی بات میں ڈانٹا نہیں  گیا۔ سورہ انفال کی آیت ملاحظہ ہو جس میں ان تمام صحابہ کو ڈانٹا گیا ہے ۔ جنہوں نے  بدری قیدیوں سے  فدیہ لے  کر انہیں  چھوڑ دینے  کا مشورہ دیا تھا، دراصل سوائے  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  باقی تمام صحابہ کا مشورہ یہی تھا پس یہ ڈانٹ بجز حضرت عمر کے  باقی سب کو ہے، جن میں حضرت علی بھی شامل ہیں، پس یہ تمام باتیں اس امر کی کھلی دلیل ہیں  کہ یہ اثر بالکل ضعیف اور بودا ہے، واللہ اعلم۔ ابن جریر میں حضرت محمد بن سلمہ فرماتے  ہیں  جو کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت عمرو بن حزم کو لکھوا کر دی تھی جبکہ انہیں  نجران بھیجا تھا، اس کتاب کو میں نے  ابوبکر بن حزم کے  پاس دیکھا تھا اور اسے  پڑھا تھا، اس میں اللہ اور رسول کے  بہت سے  احکام تھے، اس میں آیت (یاایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود) سے  آیت (ان اللہ سریع الحساب) تک بھی لکھا ہوا تھا۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ حضرت عمرو بن حزم کے  پوتے  حضرت ابوبکر بن محمد نے  فرمایا ہمارے  پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ کتاب ہے  جسے  آپ نے  حضرت عمرو بن حزم کو لکھ کر دی تھی جبکہ انہیں  یمن والوں کو دینی سمجھ اور حدیث سکھانے  کے  لئے  اور ان سے  زکوٰۃ وصول کرنے  کے  لئے  یمن بھیجا تھا، اس وقت یہ کتاب لکھ کر دی تھی، اس میں عہد و پیمان اور حکم احکام کا بیان یہ۔ اس میں آیت (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) کے  بعد لکھا ہے  یہ کتاب ہے  اللہ اور اس کے  رسول کی طرف سے، ایمان والو وعدوں کو اور عہد و پیمان کو پورا کرو، یہ عہد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے  عمرو بن حزم کے  لئے  ہے  جبکہ انہیں  یمن بھیجا انہیں  اپنے  تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے  ڈرتے  رہنے  کا حکم ہے  یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے  ساتھ ہے  جو اس سے  ڈرتے  رہیں  اور جو احسان خلوص اور نیکی کریں ۔ حضرت ابن عباس وغیرہ فرماتے  ہیں  "عقود سے  مراد عہد ہیں ۔ " ابن جریر اس پر اجماع بتاتے  ہیں ۔ خواہ قسمیہ عہد و پیمان ہو یا اور وعدے  ہوں، سب کو پورا کرنا فرض ہے ۔ حضرت ابن عباس سے  یہ بھی مروی ہے  کہ "عہد کو پورا کرنے  میں اللہ کے  حلال کو حلال جاننا، اس کے  حرام کو حرام جاننا، اس کے  فرائض کی پابندی کرنا، اس کی حد بندی کی نگہداشت کرنا بھی ہے، کسی بات کا خلاف نہ کرو، حد کو نہ توڑو، کسی حرام کام کو نہ کرو، اس پر سختی بہت ہے ۔ پڑھو آیت (والذین ینقضون عہد اللہ) کو سوء الدار تک۔ " حضرت ضحاک فرماتے  ہیں  "اس سے  مراد یہ کہ اللہ کے  حلال کو، اس کے  حرام کو، اس کے  وعدوں کو، جو ایمان کے  بعد ہر مومن کے  ذمہ آ جاتے  ہیں  پورا کرنا اللہ کی طرف سے  فرض ہے، فرائض کی پابندی، حلال حرام کی عقیدت مندی وغیرہ وغیرہ"حضرت زید بن اسلم فرماتے  ہیں  "یہ چھ عہد ہیں، اللہ کا عہد، آپس کی یگانگت کا قسمیہ عہد، شرکت کا عہد، تجارت کا عہد، نکاح کا عہد اور قسمیہ وعدہ" محمد بن کعب کہتے  ہیں  "پانچ ہیں، جن میں جاہلیت کے  زمانہ کی قسمیں ہیں  اور شرکت تجارت کے  عہد و پیمان ہیں، جو لوگ کہتے  ہیں  کہ خرید و فروخت پوری ہو چکنے  کے  بعد گو اب تک خریدا اور بیچنے  والے  ایک دوسرے  سے  جدا نہ ہوئے  ہوں تاہم واپس لوٹانے  کا اختیار نہیں  وہ اپنی دلیل اس آیت کو بتلاتے  ہیں ۔ " امام ابو حنیفہ اور امام مالک کا یہی مذہب ہے، لیکن امام شافعی اور امام احمد اس کے  خلاف ہیں  اور جمہور علماء کرام بھی اس کے  مخالف ہیں ، اور دلیل میں وہ صحیح حدیث پیش کرتے  ہیں  جو صحیح بخاری مسلم میں حضرت ابن عمر سے  مروی ہے  کہ رسول ا کرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  فرمایا "خرید و فروخت کرنے  والوں کو سودے  کے  واپس لینے  دینے  کا اختیار ہے  جب تک کہ جدا جدا نہ ہو جائیں " صحیح بخاری شریف کی ایک روایت میں یوں بھی ہے  کہ "جب وہ شخصوں نے  خرید و فروخت کر لی تو ان میں سے  ہر ایک کو دوسرے  سے  علیحدہ ہونے  تک اختیار باقی ہے ۔ یہ حدیث صاف اور صریح ہے  کہ یہ اختیار خرید و فروخت پورے  ہو چکنے  کے  بعد کا ہے ۔ ہاں اسے  بیع کے  لازم ہو جانے  کے  خلاف نہ سمجھا جائے  بلکہ یہ شرعی طور پر اسی کا مقتضی ہے، پس اسے  نبھانا بھی اسی آیت کے  ماتحت ضروری ہے ۔ پھر فرماتا ہے  مویشی چوپائے  تمہارے  لئے  حلال کئے  گئے  ہیں  یعنی اونٹ، گائے، بکری۔ ابوالحسن، قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ ابن جریر فرماتے  ہیں  "عرب میں ان کے  لغت کے  مطابق بھی یہی ہے " حضرت ابن عمر حضرت ابن عباس وغیرہ بہت سے  بزرگوں نے  اس آیت سے  استدلال کیا ہے  کہ جس حلال مادہ کو ذبح کیا جائے  اور اس کے  پیٹ میں سے  بچہ نکلے  گو وہ مردہ ہو پھر بھی حلال ہے ۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے  کہ صحابہ نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا کہ اونٹنی، گائے، بکری ذبح کی جاتی ہے، ان کے  پیٹ سے  بچہ نکلتا ہے  تو ہم اسے  کھا لیں یا پھینک دیں ۔ آپ نے  فرمایا "اگر چاہو کھا لو، اس کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذیبحہ ہے ۔ "امام ترمذی اسے  حسن کہتے  ہیں، ابو داؤد میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "پیٹ کے  اندر والے  بچے  کا ذبیحہ اس کی ماں کا ذبیحہ ہے ۔ "پھر فرماتا ہے  مگر وہ جن کا بیان تمہارے  سامنے  کیا جائے  گا۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  "اس سے  مطلب مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ہے ۔ " حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  "مراد اس سے  از خود مرا ہوا جانور اور وہ جانور ہوے  جس کے  ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو" پورا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے  لیکن بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے  کہ اس سے  مراد اللہ کا فرمان آیت (حرمت علیکم المیتتہ) ہے  یعنی تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور ہر وہ چیز جو اللہ کے  سوا دوسرے  کے  نام پر منسوب و مشہور کی جائے  اور جو گلا گھونٹنے  سے  مر جائے، کسی ضرب سے  مر جائے، اونچی جگہ سے  گر کر مر جائے  اور کسی ٹکر لگنے  سے  مر جائے، جسے  درندہ کھانے  لگے  پس یہ بھی گو مویشیوں چوپایوں میں سے  ہیں  لیکن ان وجوہ سے  وہ حرام ہو جاتے  ہیں  اسی لئے  اس کے  بعد فرمایا لیکن جس کو ذبح کر ڈالو۔ جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جائے، وہ بھی حرام ہے  اور ایسا حرام کہ اس میں سے  کوئی چیز حلال نہیں، اسی لئے  اس سے  استدراک نہیں  کیا گیا اور حلال کے  ساتھ اس کا کوئی فرد ملایا نہیں  گیا، پس یہاں یہی فرمایا جا رہا ہے  کہ چوپائے  مویشی تم پر حلال ہیں  لیکن وہ جن کا ذکر ابھی آئے  گا۔ بعض احوال میں حرام ہیں، اس کے  بعد کا جملہ حالیت کی بناء پر منصوب ہے ۔ مراد انعام سے  عام ہے  بعض تو وہ جو انسانوں میں رہتے  پلتے  ہیں، جیسے  اونٹ، گائے، بکری اور بعض وہ جو جنگلی ہیں  جیسے  ہرن، نیل گائے  اور جنگلی گدھے، پس پالتو جانوروں میں سے  تو ان کو مخصوص کر لیا جو بیان ہوئے  اور وحشی جانوروں میں سے  احرام کی حالت میں کسی کو بھی شکار کرنا ممنوع قرار دیا، یہ بھی کہا گیا ہے  کہ اس سے  مراد یہ ہے  "ہم نے  تمہارے  لئے  چوپائے  جانور ہر حال میں حلال کئے  ہیں  پس تم احرام کی حالت میں شکار کھیلنے  سے  رک جاؤ اور اسے  حرام جانو" کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے  جس طرح اس کے  تمام احکام سراسر حکمت سے  پر ہیں، اسی طرح اس کی ہر ممانعت میں بھی حکمت ہے، اللہ وہ حکم فرماتا ہے  جو ارادہ کرتا ہے ۔ ایماندار! رب کی نشانیوں کی توہین نہ کرو، یعنی مناسک حج، صفا، مروہ، قربانی کے  جانور، اونٹ اور اللہ کی حرام کردہ ہر چیز، حرمت والے  مہینوں سمیت کسی کی توہین نہ کرو، ان کا ادب کرو، ان کا لحاظ رکھو، ان کی عظمت کو مانو اور ان میں خصوصیت کے  ساتھ اللہ کی نافرمانیوں سے  بچو اور ان مبارک اور محترم مہینوں میں اپنے  دشمنوں سے  از خود لڑائی نہ چھیڑو۔ جیسے  ارشاد ہے  آیت (یسئلونک عن الشھر الحرام) اے  نبی لوگ تم سے  حرمت والے  مہینوں میں جنگ کرنے  کا حکم پوچھتے  ہیں  تم ان سے  کہو کہ ان میں لڑائی کرنا گناہ ہے  اور آیت میں ہے  مہینوں کی گنتی اللہ کے  نزدیک بارہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے  مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  حجۃ الودع میں فرمایا "زمانہ گھوم گھام کر ٹھیک اسی طرز پر آ گیا ہے  جس پر وہ اس وقت تھا، جس دن اللہ تعالیٰ نے  آسمان اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے  چار ماہ حرمت والے  ہیں ۔ تین تو یکے  بعد دیگرے  ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب، جسے  قبیلہ مضر رجب کہتا ہے  جو جمادی الاخر اور شعبان کے  درمیان یہ۔ " اس سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ ان مہینوں کی حرمت تاقیامت ہے  جیسے  کہ سلف کی ایک جماعت کا مذہب ہے  آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس وغیرہ سے  یہ مروی ہے  کہ ان "مہینوں میں لڑائی کرنا حلال نہ کر لیا کرو۔ " لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے  کہ یہ حکم منسوخ ہے  اور حرمت والے  مہینوں میں بھی دشمنان اسلام سے  جہاد کی ابتداء کرنا بھی جائز ہے ۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے  آیت (فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) یعنی جب حرمت والے  مہینے  گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور مراد یہاں ان چار مہینوں کا گزر جانا ہے، جب وہ چار مہینے  گزر چکے  جو اس وقت تھے، تو اب ان کے  بعد برابر جہاد جاری ہے  اور قرآن نے  پھر کوئی مہینہ خاص نہیں  کیا، بلکہ امام ابو جعفر تو اس پر اجماع نقل کرتے  ہیں  کہ "اللہ تعالیٰ نے  مشرکین سے  جہاد کرنا، ہر وقت اور ہر مہینے  میں جاری ہی رکھا ہے ۔ " آپ فرماتے  ہیں  کہ اس پر بھی اجماع ہے  کہ "اگر کوئی کافر حرم کے  تمام درختوں کی چھال اپنے  اوپر لپیٹ لے  تب بھی اس کے  لئے  امن و امان نہ سمجھی جائے  گی۔ اگر مسلمانوں نے  از خود اس سے  پہلے  اسے  امن نہ دیا ہو۔ " اس مسئلہ کی پوری بحث یہاں نہیں  ہو سکتی۔ پھر فرمایا کہ ھدی اور قلائد کی بے  حرمتی بھی مت کرو۔ یعنی بیت اللہ شریف کی طرف قربانیاں بھیجنا بند نہ کرو، کیونکہ اس میں اللہ کی نشانوں کی تعظیم ہے  اور قربانی کے  لئے  جو اونٹ بیت الحرام کی طرف بھیجو، ان کے  گلے  میں بطور نشان پٹا ڈالنے  سے  بھی نہ رکو۔ تا کہ اس نشان سے  ہر کوئی پہچان لے  کہ یہ جانور اللہ کے  لئے  اللہ کی راہ کے  لئے  وقف ہو چکا ہے  اب اسے  کوئی برائی سے  ہاتھ نہ لگائے  گا بلکہ اسے  دیکھ کر دوسروں کو بھی شوق پیدا ہو گا کہ ہم بھی اس طرح اللہ کے  نام جانور بھیجیں اور اس صورت میں تمہیں  اس کی نیکی پر بھی اجر ملے  گا کیونکہ جو شخص دوسروں کو ہدایت کی طرف بلائے  اسے  بھی وہ اجر ملے  گا، جو اس کی بات مان کر اس پر عمل کرنے  والوں کو ملتا ہے ۔ یہ بھی خیال رہے  اللہ تعالیٰ ان کے  اجر کو کم کر کے  اسے  نہیں  دے  گا بلکہ اسے  اپنے  پاس سے  عطا فرمائے  گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب حج کے  لئے  نکلے  تو آپ نے  وادی عقیق یعنی ذوالحلیفہ میں رات گذاری، صبح اپنی نو بیویوں کے  پاس گئے، پھر غسل کر کے  خوشبو ملی اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنی قربانی کے  جانور کے  کوہان پر نشان کیا اور گلے  میں پٹہ ڈالا اور حج اور عمرے  کا احرام باندھا۔ قربانی کے  لئے  آپ نے  بہت خوش رنگ مضبوط اور نوجوان اونٹ ساٹھ سے  اوپر اوپر اپنے  ساتھ لئے  تھے، جیسے  کہ قرآن کا فرمان ہے  جو شخص اللہ کے  احکام کی تعظیم کرے  اس کا دل تقوے  والا ہے ۔ بعض سلف کا فرمان ہے  کہ "تعظیم یہ بھی ہے  کہ قربانی کے  جانوروں کو اچھی طرح رکھا جائے  اور انہیں  خوب کھلایا جائے  اور مضبوط اور موٹا کیا جائے ۔ " حضرت علی بن ابوطالب فرماتے  ہیں  "ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  حکم دیا کہ ہم قربانی کے  جانوروں کی آنکھیں اور کان دیکھ بھال کر خریدیں " (رواہ اہل السنن) مقاتل بن حیان فرماتے  ہیں  "جاہلیت کے  زمانے  میں جب یہ لوگ اپنے  وطن سے  نکلتے  تھے  اور حرمت والے  مہینے  نہیں  ہوتے  تھے  تو یہ اپنے  اوپر بالوں اور اون کو لپیٹ لیتے  تھے  اور حرم میں رہنے  والے  مشرک لوگ حرم کے  درختوں کی چھالیں اپنے  جسم پر باندھ لیتے  تھے، اس سے  عام لوگ انہیں  امن دیتے  تھے  اور ان کو مارتے  پیٹتے  نہ تھے ۔ " حضرت ابن عباس سے  بروایت حضرت مجاہد سے  مروی ہے  کہ اس سورت کی دو آیتیں منسوخ ہیں  "آیت قلائد اور یہ آیت (فان جاوک فاحکم بینھم او اعرض عنھم) " لیکن حضرت حسن سے  جب سوال ہوتا ہے  کہ "کیا اس سورت میں سے  کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے ؟ " تو آپ فرماتے  ہیں  "نہیں " حضرت عطاء فرماتے  ہیں  کہ "وہ لوگ حرم کے  درختوں کی چھالیں لٹکا لیا کرتے  تھے  اور اس سے  انہیں  امن ملتا تھا، پس اللہ تعالیٰ نے  حرم کے  درختوں کو کاٹنا منع فرما دیا۔ " پھر فرماتا ہے  "جو لوگ بیت اللہ کے  ارادے  سے  نکلے  ہوں، ان سے  لڑائی مت لڑو۔ یہاں جو آئے  وہ امن میں پہنچ گیا، پس جو اس کے  قصد سے  چلا ہے  اس کی نیت اللہ کے  فضل کی تلاش اور اس کی رضامندی کی جستجو ہے  تو اب اسے  ڈر خوف کے  دباؤ میں نہ رکھو، اس کی عزت اور ادب کرو اور اسے  بیت اللہ سے  نہ روکو۔ " بعض کا قول ہے  کہ "اللہ کا فضل تلاش کرنے  سے  مراد تجارت ہے ۔ " جیسے  اس آیت میں ہے  (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم) یعنی زمانہ حج میں تجارت کرنے  میں تم پر کوئی گناہ نہیں ۔ رضوان سے  مراد حج کرنے  میں اللہ کی مرضی کو تلاش کرنا ہے ۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے  ہیں  "یہ آیت خطیم بن ہند، بکری کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے، اس شخص نے  مدینہ کی چراگاہ پر دھاوا ڈالا تھا پھر اگلے  سال یہ عمرے  کے  ارادے  سے  آ رہا تھا تو بعض صحابہ کا ارادہ ہوا کہ اسے  راستے  میں روکیں، اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ " امام ابن جرید نے  اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے  کہ "جو مشرک مسلمانوں کی امان لئے  ہوئے  نہ ہو تو چاہے  وہ بیت اللہ شریف کے  ارادے  سے  جا رہا ہو یا بیت المقدس کے  ارادے  سے، اسے  قتل کرنا جائز ہے  یہ حکم ان کے  حق میں منسوخ ہے  واللہ اعلم وہاں جو شخص وہاں الحاد پھیلانے  کیلئے  جا رہا ہے  اور شرک و کفر کے  ارادے  کا قصد کرتا ہو تو اسے  روکا جائے  گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  پہلے  مومن و مشرک سب حج کرتے  تھے  اور اللہ تعالیٰ کی ممانعت تھی کہ کسی مومن کافر کو نہ روکو لیکن اس کے  بعد یہ آیت اتری کہ (انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا) یعنی مشرکین سراسر نجس ہیں  اور وہ اس سال کے  بعد مسجد حرام کے  پاس بھی نہ آئیں گے  اور فرمان ہے  آیت (انمام یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر) یعنی مشرکین اللہ کی مسجد کو آباد رکھنے  کے  ہرگز اہل نہیں  فرمان ہے  آیت (انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر) یعنی اللہ کی مسجد کو تو صرف وہی آباد رکھ سکتے  ہیں  جو اللہ پر اور قیامت کے  دن پر ایمان رکھتے  ہوں ۔ پس مشرکین مسجدوں سے  روک دیئے  گئے، حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  منسوخ ہے، جاہلیت کے  زمانہ میں جب کوئی شخص اپنے  گھر سے  حج کے  ارادے  سے  نکلتا تو وہ درخت کی چھال وغیرہ باندھ لیتا تو راستے  میں اسے  کوئی نہ ستاتا، پھر لوٹتے  وقت بالوں کا ہار ڈال لیتا اور محفوظ رہتا اس وقت تک مشرکین بیت اللہ سے  روکے  نہ جاتے  تھے، اب مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حرمت والے  مہینوں میں نہ لڑیں اور نہ بیت اللہ کے  پاس لڑیں، پھر اس حکم کو اس آیت نے  منسوخ کر دیا کہ مشرکین سے  لڑو جہاں کہیں  انہیں  پاؤ۔ " ابن جریر کا قول ہے  کہ "قلائد سے  مراد یہی ہے  جو ہار وہ حرم سے  گلے  میں ڈال لیتے  تھے  اور اس کی وجہ سے  امن میں رہتے  تھے، عرب میں اس کی تعظیم برابر چلی آ رہی تھی اور جو اس کے  خلاف کرتا تھا اسے  بہت برا کہا جاتا تھا اور شاعر اس کو ہجو کرتے  تھے " پھر فرماتا ہے  "جب تم احرام کھول ڈالو تو شکار کر سکتے  ہو" احرام میں شکار کی ممانعت تھی، اب احرام کے  بعد پھر اس کی اباحت ہو گئی جو حکم ممانعت کے  بعد ہو اس حکم سے  وہی ثابت ہوتا ہے  جو ممانعت سے  پہلے  اصل میں تھا۔ یعنی اگر وجوب اصلی تھا تو ممانعت کے  بعد کا امر بھی وجوب کیلئے  ہو گا۔ اور اسی طرح مستحب و مباح کے  بارے  میں ۔ گو بعض نے  کہا ہے  کہ ایسا امر وجوب کیلۓ ہی ہوتا ہے  اور بعض نے  کہا ہے، صرف مباح ہونے  کیلئے  ہی ہوتا ہے  لیکن دونوں جماعتوں کے  خلاف قرآن کی آیتیں موجود ہیں ۔ پس صحیح مذہب جس سے  تمام دلیلیں مل جائیں وہی ہے  جو ہم نے  ذکر کیا اور بعض علماء اصول نے  بھی اسے  ہی اختیار کیا واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے  جس قوم نے  تمہیں  حدیبیہ والے  سال مسجد حرام سے  روکا تھا تو تم ان سے  دشمنی باندھ کر قصاص پر آمادہ ہو کر اللہ کے  حکم سے  آگے  بڑھ کر ظلم و زیادتی پر نہ اتر آنا، بلکہ تمہیں  کسی وقت بھی عدل کو ہاتھ سے  نہ چھوڑنا چاہئے ۔ اسی طرح کی وہ آیت بھی ہے  جس میں فرمایا ہے  "تمہیں  کسی قسم کی عداوت خلاف عدل کرنے  پر آمادہ نہ کر دے ۔ عدل کیا کرو، عدل ہی تقوے  سے  زیادہ قریب ہے ۔ " بعض سلف کا قول ہے  کہ "گو کوئی تجھ سے  تیرے  بارے  میں اللہ کی نافرمانی کرے  لیکن تجھے  چاہئے  کہ تو اس کے  بارے  میں اللہ کی فرمانبرداری ہی کرے ۔ عدل ہی کی وجہ سے  آسمان و زمین قائم ہے ۔ " حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے  اصحاب کو جبکہ مشرکین نے  بیت اللہ کی زیارت سے  روکا اور حدیبیہ سے  آگے  بڑھنے  ہی نہ دیا، اسی رنج و غم میں صحابہ واپس آ رہے  تھے  جو مشرقی مشرک مکہ جاتے  ہوئے  انہیں  ملے  تو ان کا ارادہ ہوا کہ جیسے  ان کے  گروہوں نے  ہمیں روکا ہم بھی انہیں  ان تک نہ جانے  دیں ۔ اس پر یہ آیت اتری (شنان) کے  معنی بغض کے  ہیں  بعض عرب اسے  شنان بھی کہتے  ہیں  لیکن کسی قاری کی یہ قرأت مروی نہیں، ہاں عربی شعروں میں شنتان بھی آیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اپنے  ایمان والے  بندوں کو نیکی کے  کاموں پر ایک دوسرے  کی تائید کرنے  کو فرماتا ہے، بر" کہتے  ہیں  نیکیاں کرنے  کو اور تقویٰ " کہتے  ہیں  برائیوں کے  چھوڑنے  کو اور انہیں  منع فرماتا ہے  گناہوں اور حرام کاموں پر کسی کی مدد کرنے  کو ابن جریر فرماتے  ہیں  جس کام کے  کرنے  کا اللہ کا حکم ہو اور انسان اسے  نہ کرے، یہ اثم" ہے  اور دین میں جو حدیں اللہ نے  مقرر کر دی ہیں  جو فرائض اپنی جان یا دوسروں کے  بارے  میں جناب باری نے  مقرر فرمائے  ہیں، ان سے  آگے  نکل جانا عدوان ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے  "اپنے  بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظالم ہو خواہ مظلوم ہو" تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال ہوا کہ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مظلوم ہونے  کی صورت میں مدد کرنا ٹھیک ہے  لیکن ظالم ہونے  کی صورت میں کیسے  مدد کریں ؟ " فرمایا "اسے  ظلم نہ کرنے  دو، ظلم سے  روک لو، یہی اس وقت کی اس کی مدد ہے " یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے، مسند احمد میں ہے  "جو مسلمان لوگوں سے  ملے  جلے  اور دین کے  حوالے  سے  ان کی ایذاؤں پر صبر کرے  وہ ان مسلمانوں سے  بڑے  اجر والا ہے، جو نہ لوگوں سے  ملے  جلے، نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے " مسند بزار میں ہے  "جو شخص کسی بھلی بات کی دوسرے  کو ہدایت کرے  وہ اس بھلائی کے  کرنے  والے  جیسا ہی ہے " امام ابوبکر بزار اسے  بیان فرما کر فرماتے  ہیں  کہ "یہ حدیث صرف اسی ایک سند سے  مروی ہے ۔ " لیکن میں کہتا ہوں اس کی شاہد یہ صحیح حدیث ہے  کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو بلائے، اسے  ان تمام کے  بابر ثواب ملے  گا جو قیامت تک آئیں گے  اور اس کی تابعداری کریں گے ۔ لیکن ان کے  ثواب میں سے  گھٹا کر نہیں  اور جو شخص کسی کو برائی کی طرف چلائے  تو قیامت تک جتنے  لوگ اس برائی کو کریں گے ۔ ان سب کا جتنا گناہ ہو گا، وہ سارا اس اکیلے  کو ہو گا۔ لیکن ان کے  گناہ گھٹا کر نہیں ۔ طبرانی میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "جو شخص کسی ظالم کے  ساتھ جائے  تاکہ اس کی اعانت و امداد کرے  اور وہ جانتا ہو کہ یہ ظالم ہے  وہ یقیناً دین اسلام سے  خارج ہو جاتا ہے ۔،

۳

حلال و حرام کی وضاحتیں

ان آیتوں میں اللہ ان کا بیان فرما رہا ہے  ''جن کا کھانا اس نے  حرام کیا ہے، یہ خبر ان چیزوں کے  نہ کھانے  کے  حکم میں شامل ہے '' میتہ وہ ہے  جو از خود اپنے  آپ مر جائے، نہ تو اسے  ذبح کیا جائے، نہ شکار کیا جائے ۔ اس کا کھانا اس لئے  حرام کیا گیا کہ اس کا وہ خون جو مضر ہے  اسی میں وہ جاتا ہے، ذبں کرنے  سے  توبہ جاتا ہے  اور یہ خون دین اور بدن کو مضر ہے، ہاں یہ یاد رہے  ہر مردار حرام ہے  مگر مچھلی نہیں ۔ کیونکہ موطا مالک، مسند شافعی، مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجو، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابو ہریرہ سے  مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سمندر کے  پانی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اس کا پانی پاک ہے  اور اس کا مردہ حلال ہے  اور اسی طرح، مڈی بھی گو خود ہی مر گئی ہو، حلال ہے ۔ اس کی دلیل کی حدیث آ رہی ہے ۔ دم سے  مراد دم مسفوح یعنی وہ خون ہے  جو بوقت ذبح بہتا ہے ۔ حضرت ابن عباس سے  سوال ہوتا ہے  کہ آیا تلی کھا سکتے  ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  ہاں، لوگوں نے  کہا وہ تو خون ہے، آپ نے  فرمایا ہاں صرف وہ خون حرام ہے  جو بوقت ذبح بہا ہو۔ حضرت عائشہ بھی یہی فرماتی ہیں  کہ صرف بہا ہوا خون حرام ہے ۔ امام شافعی حدیث لائے  ہیں  کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ہمارے  لئے  دو قسم کے  مردے  اور دو خون حلال کئے  گئے  ہیں، مچھلی، ٹڈی، کلیجی اور تلی۔ یہ حدیث مسند احمد، ابن ماجہ، دار قطنی اور بیہقی میں بھی بروایت عبد الرحمن بن زید بن اسلم مروی ہے  اور وہ ضعیف ہیں، حافظ بیہقی فرماتے  ہیں  ''عبد الرحمان کے  ساتھ ہی اسے  اسماعیل بن ادریس اور عبد اللہ بھی روایت کرتے  ہیں  لیکن میں کہتا ہوں یہ دونوں بھی ضعیف ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے  کہ ان کے  ضعف میں کمی بیشی ہے ۔ '' لیمان بن بلال نے  بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے  اور وہ ہیں  بھی ثقہ لیکن اس روایت کو بعض نے  ابن عمر پر موقوف رکھا ہے ۔ حافظ ابو زرعہ رازی فرماتے  ہیں  زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت سدی بن عجلان سے  مروی ہے  کہ مجھے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنی قوم کی طرف بھیجا کہ میں انہیں  اللہ کی طرف بلاؤں اور احکام اسلام ان کے  سامنے  پیش کروں ۔ میں وہاں پہنچ کر اپنے  کام میں مشغول ہو گیا، اتفاقاً ایک روز وہ ایک پیالہ خون کا بھر کر میرے  سامنے  آ بیٹھے  اور حلقہ باندھ کر کھانے  کے  ارادے  سے  بیٹھے  اور مجھے  سے  کہنے  لگے  آؤ سدی تم بھی کھالو میں نے  کہا۔ تم غضب کر رہے  ہو میں تو ان کے  پاس سے  آ رہا ہوں جو اس کا کھانا ہم سب پر حرام کرتے  ہیں، تب تو وہ سب کے  سب میری طرف متوجہ ہو گئے  اور کہا پوری بات کہو تو میں نے  یہی آیت حرمت علیکم المیتتہ والدم الخ، پڑھ کر سنا دی، یہ روایت ابن مردویہ میں بھی ہے  اس میں اس کے  بعد یہ بھی ہے  کہ میں وہاں بہت دنوں تک رہا اور انہیں  پیغام اسلام پہنچاتا رہا لیکن وہ ایمان نہ لائے، ایک دن جبکہ میں سخت پیاسا ہوا اور پانی بالکل نہ ملا تو میں نے  ان سے  پانی مانگا اور کہا کہ پیاس کے  مارے  میرا برا حال ہے، تھوڑا سا پانی پلا دو، لیکن کسی نے  مجھے  پانی نہ دیا، بلکہ کہا ہم تو تجھے  یونہی پیاسا ہی تڑپا تڑپا کر مار ڈالیں گے، میں غمناک ہو کر دھوپ میں تپتے  ہوئے  انگاروں جیسے  سنگریزوں پر اپنا کھردرا کمبل منہ پر ڈال کر اسی سخت گرمی میں میدان میں پڑا رہا، اتفاقاً میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص بہترین جام لئے  ہوئے  اور اس میں بہترین خوش ذائقہ مزیدار پینے  کی چیز لئے  ہوئے  میرے  پاس آیا اور جام میرے  ہاتھ میں دے  دیا، میں نے  خوب پیٹ بھر کر اس میں سے  پیا، وہیں  آنکھ کھل گئی تو اللہ کی قسم مجھے  مطلق پیاس نہ تھی بلکہ اس کے  بعد سے  لے  کر آج تک مجھے  کبھی پیاس کی تکلیف ہی نہیں  ہوئی، بلکہ یوں کہنا چاہئے  کہ پیاس ہی نہیں  لگی۔ یہ لوگ میرے  جاگنے  کے  بعد آپس میں کہنے  لگے  کہ آخر تو یہ تمہاری قوم کا سردار ہے ، تمہارا مہمان بن کر آیا ہے ، اتنی بے  رخی بھی ٹھیک نہیں  کہ ایک گھونٹ پانی بھی ہم اسے  نہ دیں، چنانچہ اب یہ لوگ میرے  پاس کچھ لے  کر آئے ، میں نے  کہا اب تو مجھے  کوئی حاجت نہیں ، مجھے  میرے  رب نے  کھلا پلا دیا، یہ کہہ کر میں نے  انہیں  اپنا بھرا ہوا پیٹ دکھا دیا، اس کرامت کو دیکھ کر وہ سب کے  سب مسلمان ہو گئے '' اعشی نے  اپنے  قصیدے  میں کیا ہی خواب کہا ہے  کہ مردار کے  قریب بھی نہ ہو اور کسی جانور کی رگ کاٹ کر خون نکال کر نہ پی اور پرستش گاہوں پر چڑھا ہوا نہ کھا اور اللہ کے  سوا دوسرے  کی عبادت نہ کر، صرف اللہ ہی کی عبادت کیا کر لحکم الحنزیر حرام ہے  خواہ وہ جنگلی ہو، لفظ لحکم شامل ہے  اس کے  تمام اجزاء کو، جس میں چربی بھی داخل ہے  پس ظاہر یہ کی طرح تکلفات کرنے  کی کوئی حاجت نہیں  کہ وہ دوسری آیت میں سے  فانہ رجس لے  کر ضمیر کا مرجع خنزیر کو بتلاتے  ہیں  تاکہ اس کے  تمام اجزاء حرمت میں آ جائیں ۔ در حقیقت یہ لغت سے  بعید ہے  مضاف الیہ کی طرف سے  ایسے  موقعوں پر ضمیر پھرتی ہی نہیں ، صرف مضاف ہی ضمیر کا مرجع ہوتا ہے ۔ صاف ظاہر بات یہی ہے  کہ لفظ لحم شامل ہے  تمام اجزاء کو۔ لغت عرب کا مفہوم اور عام عرف یہی ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث کے  مطابق ''شطرنج کھیلنے  والا اپنے  اتھوں کو سور کے  گوشت و خون میں رنگنے  والا ہے ۔ خیال کیجئے  کہ صرف چھونا بھی شرعاً کس قدر نفرت کے  قابل ہے ، تو پھر کھانے  کیلئے  بے  حد برا ہونے  میں کیا شک رہا؟'' اور اس میں یہ دلیل بھی ہے  کہ لفظ لحم شامل ہے  تمام اجزاء کو خواہ چربی ہو خواہ اور بخاری و مسلم میں ہے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  اللہ تعالیٰ نے  شراب، مردار، خنزیر بتوں کی تجارت کی ممانعت کر دی ہے ، پوچھا گیا کہ ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مردار کی چربی کے  بارے  میں کیا ارشاد ہے ؟'' وہ کشتیوں پر چڑھائی جاتی ہے ، کھالوں پر لگائی جاتی ہے  اور چراغ جلانے  کے  کام بھی آتی ہے ۔ آپ نے  فرمایا ''نہیں ! وہ حرام ہے '' صحیح بخاری شریف میں ہے  کہ ابو سفیان نے  ہر قل سے  کہا ''وہ (نبی) ہمیں مردار سے  اور خون سے  روکتا ہے ۔ '' وہ جانور بھی حرام ہے  جس کو ذبح کرنے  کے  وقت اللہ کے  سوا دوسرے  کا نام لیا جائے  اللہ تعالیٰ نے  اپنی مخلوق پر اسے  فرض کر دیا وہ اسی کا نام لے  کر جانور کو ذبح کرے ، پس اگر کوئی اس سے  ہٹ جائے  اور اس کے  نام پاک کے  بدلے  کسی بت وغیرہ کا نام لے ، خواہ وہ مخلوق میں سے  کوئی بھی ہو تو یقیناً وہ جانور بالا جماع حرام ہو جائے  گا، ہاں جس جانور کے  ذبیحہ کے  وقت بسم اللہ کہنا رہ جائے ، خواہ جان بوجھ کر خواہ بھولے  چوکے  سے  وہ حرام ہے  یا حلال؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے  جس کا بیان سورہئ انعام میں آئیگا۔ حضرت ابو الطفیل فرماتے  ہیں  ''حضرت آدم  کے  وقت سے  لے  کر آج تک یہ چاروں چیزیں حرام رہیں ، کس وقت ان میں سے  کوئی بھی حلال نہیں  ہوئی (١) مردار (٢) خون (٣) سور کا گوشت (٤) اور اللہ کے  سوا دوسرے  کے  نام کی چیز۔ البتہ بنو اسرائیل کے  گناہگاوں کے  گناہوں کی وجہ سے  بعض غیر حرام چیزیں بھی ان پر حرام کر دی گئی تھیں ۔ پھر حضرت عیسیٰ  کے  ذریعہ وہ دوبارہ حلال کر دی گئیں، لیکن بنو اسرائیل نے  آپ کو سچا نہ جانا اور آپ کی مخالفت کی'' (ابن ابی حاتم) یہ اثر غرب ہے ۔ حضرت علی جب کوفے  کے  حاکم تھے  اس وقت ابن نائل نامی قبیلہ بنو رباح کا ایک شخص جو شاعر تھا، فرزوق کے  دادا غالب کے  مقابل ہوا اور یہ شرط ٹھہری کہ دونوں آمنے  سامنے  ایک ایک سو اونٹوں کی کوچیں کاٹیں گے ، چنانچہ کوفے  کی پشت پر پانی کی جگہ پر جب ان کے  اونٹ آئے  تو یہ اپنی تلواریں لے  کر کھڑے  ہو گئے  اور اونٹوں کی کوچیں کاٹنی شروع کیں اور دکھاوے ، سناوے  اور فخریہ ریاکاری کیلئے  دونوں اس میں مشغول ہو گئے  کوفیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اپنے  گدھوں اور خچروں پر سوار ہو کر گوشت لینے  کیلئے  آنا شروع ہوئے ، اتنے  میں جناب علی مرتضیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے  سفید خچر پر سوار ہو کر یہ منادی کرتے  ہوئے  وہاں پہنچے  کہ لوگو یہ گوشت نہ کھانا یہ جانور مااہل بھالغیر اللہ میں شامل ہیں ۔ (ابن ابی حاتم) یہ اثر بھی غریب ہے  ہاں اس کی صحت کی شاہد وہ حدیث ہے  جو ابو داؤد میں ہے  کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  اعراب کی طرف مقابلہ میں کوچیں کاٹنے  سے  ممانعت فرما دی، پھر ابو داؤد نے  فرمایا کہ محمد بن جعفر نے  اسے  ابن عباس پر وقف کیا ہے ۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان دونوں شخصوں کا کھانا کھانا منع فرما دیا جو آپس میں ایک دوسرے  سے  سبقت لے  جانا اور ایک دوسرے  کا مقابلہ کرنا اور ریا کاری کرنا چاہتے  ہوں ۔ مخنقہ جس کا گلا گھٹ جائے  خواہ کسی نے  عمداگلا گھونٹ کر گلا مروڑ کر اسے  مار ڈالا ہو، خواہ از خود اس کا گلا گھٹ گیا ہو۔ مثلاً اپنے  کھوٹنے  میں بندھا ہوا ہے  اور بھاگنے  لگا، پھندا گلے  میں پڑ گیا اور کھچ کھچاؤ کرتا ہوا مر گیا پس یہ حرام ہے ۔ موقودہ وہ ہے  جس جانور کو کسی نے  ضرب لگائی، لکڑی وغیرہ ایسی چیز سے  جو دھاری دار نہیں  لیکن اسی سے  وہ مر گیا، تو وہ بھی حرام ہے ، جاہلیت میں یہ بھی دستور تھا کہ جانور کولٹھ سے  مار ڈالتے  اور پھر کھاتے ۔ لیکن قرآن نے  ایسے  جانور کو حرام بتایا۔ صحیح سند سے  مروی ہے  کہ حضرت عدی بن حاتم نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں معراض سے  شکار کھیلتا ہوں تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا جب تو اسے  پھینکے  اور وہ جانور کو زخم لگائے  تو کھا سکتا ہے  اور اگر وہ چوڑائی کی طرف سے  لگے  تو وہ جانور کی جانب سے  لگا ہو فرق کیا۔ اول کو حلال اور دوسرے  کو حرام۔ فقہا کے  نزدیک بھی یہ مسئلہ متفق علیہ ہے ۔ ہاں اختلاف اس میں ہے  کہ جب کسی زخم کرنے  والی چیز نے  شکار کو صدمہ تو پہنچایا لیکن وہ مرا ہے  اس کے  بوجھ اور چوڑائی کی طرف سے  تو آیا یہ جانور حلال ہے  یا حرام۔ امام شافعی کے  اس میں دونوں قول ہیں ، ایک تو حرام ہونا اوپر والی حدیث کو سامنے  رکھ کر۔ دوسرے  حلال کرنا کتے  کے  شکار کی حلت کو مدنظر رکھ کر۔ اس مسئلہ کی پوری تفصیل ملا حظہ ہو۔ (فصل) علماء کرام کا اس میں اختلاف ہے  کہ جب کسی شخص نے  اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور کتے  نے  اسے  اپنی مار سے  اور بوجھ سے  مار ڈالا، زخمی نہیں  کیا تو وہ حلال ہے  یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں  ایک تو یہ کہ یہ حلال ہے  کیونکہ قرآن کے  الفاظ عام ہیں  فکلوا مما امسکن علیکم یعنی وہ جن جانوروں کو روک لیں تم انہیں  کھا سکتے  ہو۔ اسی طرح حضرت عدی وغیرہ کی صحیح حدیثیں بھی عام ہی ہیں ۔ امام شافعی کے  ساتھیوں نے  امام صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے  اور متاخرین نے  اس کی صحت کی ہے ، جیسے  نووی اور رافعی مگر میں کہتا ہوں کہ گو یوں کہا جاتا ہے  لیکن امام صاحب کے  کلام سے  صاف طور پر یہ معلوم ہوتا۔ ملاحظہ ہو کتا الام اور مختصر ان دونوں میں جو کلام ہے  وہ دونوں معنی کا احتمال رکھتا ہے ۔ پس دونوں فریقوں نے  اس کی توجیہہ کر کے  دونوں جانب علی الاطلاق ایک قول کہہ دیا۔ ہم تو بصد مشکل صرف یہی کہہ سکتے  ہیں  کہ اس بحث میں حلال ہونے  کے  قول کی حکایت کچھ قدرے  قلیل زخم کا ہونا بھی ہے ۔ گو ان دونوں میں سے  کسی کی تصریح نہیں ، اور وہ کسی کی مضبوط رائے ، ابن الصباح نے  امام ابو حنیفہ سے  حلال ہونے  کا قول نقل کیا ہے  اور دوسرا کوئی قول ان سے  نقل نہیں  کیا اور امام ابن جریر ابن اپنی تفسیر میں اس قوت کو حضرت سلمان فارسی، حضرت ابوہریرہ، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت ابن عمر نے  نقل کیا ہے  لیکن یہ بہت غریب ہے  اور دراصل ان بزرگوں سے  صراحت کے  ساتھ یہ اقوال نہیں  پائے  جاتے ۔ یہ صرف اپنا تصرف ہے  واللہ اعلم۔ دوسرا قول یہ ہے  کہ وہ حلال نہیں ، حضرت امام شافعی کے  دو قولوں میں سے  ایک قول یہ ہے ، مزنی نے  روایت کیا ہے  اور یہی مشہور ہے  امام احمد بن حنبل سے  اور یہی قول ٹھیک ہونے  سے  زیادہ مشابہت رکھتا ے  واللہ اعلم۔ اس لئے  کہ اصولی قواعد اور احکام شرعی کے  مطابق یہی جاری ہے ۔ ابن الصباغ نے  حضرت رافع بن خدیج کی حدیث سے  دلیل پکڑی ہے  کہ انہوں نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم کل دشمنوں سے  بھڑنے  والے  ہیں  اور ہمارے  ساتھ چھریاں نہیں  تو کیا ہم تیز بانس سے  ذبح کر لیا کریں ؟ آپ نے  فرمایا جو چیز خون بہائے  اور اس کے  اوپر اللہ کا نام ذکر کیا جائے  اسے  کھا لیا کرو (بخاری مسلم) یہ حدیث گو ایک خاص موقعہ کیلئے  ہے  لیکن عام الفاظ کا حکم ہو گا، جیسے  کہ جمہور علماء اصول و فروغ کا فرمان ہے ۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا گیا کہ تبع جوشہد کی نبیذ سے  ہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے  فرمایا ہر وہ پینے  کی چیز جو نشہ لائے  حرام ہے ، پس یہاں سوال ہے  شہد کی نبیذ سے  لیکن جو اب کے  الفاظ عام ہیں  اور مسئلہ بھی ان سے  عام سمجھا گیا، اسی طرح اوپر والی حدیث ہے  کہ گو سوال ایک خاص نوعیت میں ذبح کرنے  کا ہے  لیکن جواب کے  الفاظ اسی اور اس کے  سوا کی عام نوعیتوں پر مشتمل ہیں ، اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی ایک خاص معجزہ ہے  کہ الفاظ تھوڑے  اور معافی بہت، اسے  ذہن میں رکھنے  کے  بعد اب غور کیجئے  کہ کتے  کے  صدمے  سے  جو شکار مر جائے  یا اس کے  بوجھ یا تھپڑ کی وجہ سے  شکار کا دم نکل جائے ۔ ظاہر ہے  کہ اس کا خون کسی چیز سے  نہیں  بہا، پس اس حدیث کے  مفہوم کی بناء پر وہ حلال نہیں  ہو سکتا، اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے  کہ اس حدیث کو کتے  کے  شکار کے  مسئلہ سے  دور کا تعلق بھی نہیں ، اس لئے  کہ سائل نے  ذبح کرنے  کے  ایک آلے  کی نسبت سوال کیا تھا۔ ان کا سوال اس چیز کی نسبت نہ تھا، جس سے  ذبح کیا جائے ، اسی لئے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس سے  دانت اور ناخن کو مستثنیٰ کی دلالت جنس مستثنیٰ منہ پر ہوا کرتی ہے ، ورنہ متصل نہیں  مانا جا سکتا، پس ثابت ہوا کہ سوال آلہ ذبح کا ہی تھا تو اب کوئی دلالت تمہارے  قول پر باقی نہیں  رہی۔ اس کا جواب یہ ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  جواب کے  جملے  کو دیکھو آپ نے  یہ فرمایا ہے  کہ جو چیز خون بہا دے  اور اس پر نام اللہ بھی لیا گیا ہو، اسے  کھالو۔ یہ نہیں  فرمایا کہ اس کے  ساتھ ذبح کر لو۔ پس اس جملہ سے  دو حکم ایک ساتھ معلوم ہوتا ہیں ، ذبح کرنے  کے  آلہ کا حکم بھی اور خود ذبیحہ کا حکم بھی اور یہ کہ اس جانور کا خون کسی آلہ سے  بہانا ضروری ہے ، جو دانت اور ناخن کے  سوا ہو۔ ایک مسلک تو یہ ہے ۔ دوسرا مسلم جو مزنی کا ہے  وہ یہ کہ تیر کے  بارے  میں صاف لفظ آچکے  کہ اگر وہ اپنی چوڑائی کی طرف سے  لگا ہے  اور جانور مر گیا ہے  تو نہ کھاؤ اور اگر اس نے  اپنی دھار اور انی سے  زخم کیا ہے  پھر مرا ہے  تو کھالو اور کتے  کے  بارے  میں علی الاطلاق احکام ہیں  پس چونکہ موجب یعنی شکار دونوں جگہ ایک ہی ہے  تو مطلق کا حکم بھی مقید پر محمول ہو گا گو سبب الگ الگ ہوں ۔ جیسے  کہ ظہار کے  وقت آزادگی گردن جو مطلق ہے  محمول کی جاتی ہے  قتل کی آزادگی گردن پر جو مقید ہے  ایمان کے  ساتھ۔ بلکہ اس سے  بھی زیادہ ضرورت شکار کے  اس مسئلہ میں ہے  یہ دلیل ان لوگوں پر یقیناً بہت بڑی حجت ہے  جو اس قاعدہ کی اصل کو مانتے  ہیں  اور چونکہ ان لوگوں میں اس قاعدے  کے  مسلم ہونے  میں کوئی اختلاف نہیں  تو ضروری ہے  کہ یا تو وہ اسے  تسلیم کریں ورنہ کوئی پختہ جواب دیں ۔ علاوہ ازیں فریق یہ بھی کہہ سکتا ہے  کہ چونکہ اس شکار کو کتے  نے  بوجہ اپنے  ثقل کے  مار ڈالا ہے  اور یہ ثابت ہے  کہ تیر جب اپنی چوڑائی سے  لگ کر شکار کو مار ڈالے  تو وہ حرام ہو جاتا ہے  پس اس پر قیاس کر کے  کتے  کا یہ شکار بھی حرام ہو گیا کیونکہ دونوں میں یہ بات مشترک ہے  کہ دونوں شکار کے  آلات ہیں  اور دونوں نے  اپنے  بوجھ اور زور سے  شکار کی جان لی ہے  اور آیت کا عموم اس کے  معارض نہیں  ہو سکتا کیونکہ عموم پر قیاس مقدم ہے  جیسا کہ چاروں اماموں اور جمہور کا مذہب ہے ۔ یہ مسلک بھی بہت اچھا ہے ، دوسری بات یہ ہے  کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان آیت (فکلوا مماامسکن علیکم) یعنی شکار کتے  جس جانور کو روک رکھیں اس کا کھانا تمہارے  لئے  حلال ہے ، یہ عام نوعیت پر یعنی اسے  بھی جسے  زخم کیا ہو اور اس کے  سوا کو بھی، لیکن جس صورت پر اس وقت بحث ہے  وہ یا تو ٹکر لگا ہوا ہے  یا اس کے  حکم پر یا گلا گھونٹا ہوا ہے  یا اس کے  حکم میں، بہر صورت اس آیت کی تقدیم ان وجوہ پر ضرور ہو گی۔ اولاً تو یہ کہ شارع نے  اس آیت کا حکم شکار کی حالت میں معتبر مانا ہے ۔ کیونکہ حضرت عدی بن حاتم سے  اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہی فرمایا اگر وہ چوڑائی کی طرف سے  لگا ہے  تو وہ لٹھ مارا ہوا ہے  اسے  نہ کھاؤ۔ جہاں تک ہمارا علم ہے  ہم جانتے  ہیں  کہ کسی عالم نے  یہ نہیں  کہا کہ لٹھ سے  اور مار سے  مرا ہوا تو شکار کی حالت میں معتبر ہو اور سینگ اور ٹکر لگا ہوا معتبر نہ ہو۔ پس جس صورت میں اس وقت بحث ہو رہی ہے  اس جانور کو حلال کہنا اجماع کو توڑنا ہو گا، جسے  کوئی بھی جائز نہیں  کہہ سکتا بلکہ اکثر علماء اسے  ممنوع بتاتے  ہیں ۔ دوسرے  یہ کہ آیت (فکلوا مما امسکن) اپنے  عموم پر باقی نہیں  اور اس پر اجتماع ہے ، بلکہ آیت سے  مراد صرف حلال حیوان ہیں  ۔ تو اس کے  عام الفاظ سے  وہ حیوان جن کا کھانا حرام ہے  بالاتفاق نکل گئے  اور یہ قاعدہ ہے  کہ عموم محفوظ عموم غیر محفوظ پر مقدم ہوتا ہے ۔ ایک تقریر اسی مسئلہ میں اور بھی گوش گزار کر لیجئے  کہ اس طرح کا شکار میتہ کے  حکم میں ہے ، پس جس وجہ سے  مردار حرام ہے ، وہی وجہ یہاں بھی ہے  تو یہ بھی اسی قیاس سے  حلال نہیں ۔ ایک اور وجہ بھی سنئے  کہ حرمت کی آیت (حرمت) الخ، بالکل محکم ہے ، اس میں کسی طرح نسخ کا دخل نہیں ، نہ کوئی تخصیص ہوئی ہے ، ٹھیک اسی طرح آیت تحلیل بھی محکم ہی ہونی چاہئے ۔ یعنی فرمان باری تعالیٰ آیت (یسئلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبات لوگ تجھ سے  دریافت کرتے  ہیں  کہ ان کیلئے  حلال کیا ہے  تو کہہ دے  کہ تمام طیب چیزیں تمہارے  لئے  حلال ہیبں ۔ جب دونوں آیتیں محکم اور غیر منسوخ ہیں  تو یقیناً ان میں تعارض نہ ہونا چاہئے  لہٰذا حدیث کو اس کی وضاحت کیلئے  سمجھنا چاہئے  اور تیر کا واقعہ اسی کی شہادت دیتا ہے ، جس میں یہ بیان کیا ہے  کہ اس آیت میں یہ صورت واضح طور پر شامل ہے  کہ آنی اور دھار تیزی کی طرف سے  زخم کرے  تو جانور حلال ہو گا، کیونکہ وہ (طیبات) میں آ گیا۔ ساتھ ہی حدیث میں یہ بھی بیان کر دیا گیا کہ آیت تحریم میں کونسی صورت شامل ہے ۔ یعنی وہ صورت جس میں جانور کی موت تیر کی چوڑائی کی چوٹ سے  ہوئی ہے ، وہ حرام ہو گیا جسے  کھایا نہیں  جائیگا۔ اس لئے  کہ وہ وقیذ ہے  اور وقیذ آیت تحریم کا ایک فرد ہے ، ٹھیک اسی طرح اگر شکاری کتے  نے  جانور کو اپنے  دباؤ زور بوجہ اور سخت پکڑ کی وجہ سے  مار ڈالا ہے  تو وہ نطیح ہے  یا فطیح یعنی ٹکر اور سینگ لگے  ہوئے  کے  حکم میں ہے  اور حلال نہیں ، ہاں اگر اسے  مجروح کیا ہے  تو وہ آیت تحلیل کے  حکم میں ہے  اور یقیناً حلال ہے ۔ اس پر اگر یہ اعتراض کیا جائے  کہ اگر یہی مقصود ہوتا تو کتے  کے  شکار میں بھی تفصیل بیان کر دی جاتی اور فرما دیا جاتا کہ اگر وہ جانور کو چیرے  پھاڑے ، زخمی کرے  تو حلال اور اگر زخم نہ لگائے  تو حرام۔ اس کا جواب یہ ہے  کہ چونکہ کتے  کا بغیر زخمی کئے  قتل کرنا بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ اس کی عادت یہ نہیں  بلکہ عادت تو یہ ہے  کہ اپنے  پنجوں یا کچلیوں سے  ہی شکار کو مارے  یا دونوں سے ، بہت کم کبھی کبھی شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے  کہ وہ اپنے  دباؤ اور بوجھ سے  شکار کو مار ڈالے ، اس لئے  اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ اس کا حکم بیان کیا جائے  اور دوسری وجہ یہ بھی ہے  کہ جب آیت تحریم میں میتہ، موقوذہ، متردیہ، نطیحہ کی حرمت موجود ہے  تو اس کے  جاننے  والے  کے  سامنے  اس قسم کے  شکار کا حکم بالکل ظاہر، تیر اور معراض میں اس حکم کو اس لئے  الگ بیان کر دیا کہ وہ عموماً خطا کر جاتا ہے  بالخصوص اس شخص کے  ہاتھ سے  جو قادر تیر انداز نہ ہو یا نشانے  میں خطا کرتا ہو، اس لئے  اس کے  دونوں حکم تفصیل وار بیان فرما دیئے  واللہ اعلم۔ دیکھئے  چونکہ کتے  کے  شکار میں یہ احتمال تھا کہ ممکن ہے  وہ اپنے  کئے  ہوئے  شکار میں سے  کچھ کھا لے ، اس لئے  یہ حکم صراحت کے  ساتھ الگ بیان فرما دیا اور ارشاد ہوا کہ اگر وہ خود کھا لے  تو تم اسے  نہ کھاؤ، ممکن ہے  کہ اس نے  خود اپنے  لئے  ہی شکار کو روکا ہو۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجود ہے  اور یہ صورت اکثر حضرات کے  نزدیک آیت تحلیل کے  عموم سے  مخصوص ہے  اور ان کا قول ہے  کہ جس شکار کو کتا کھا لے  اس کا کھانا حلال نہیں ، حضرت ابو ہریرہ حضرت ابن عباس سے  یہی روایت کیا جاتا ہے ۔ حضرت حسن، شعبی اور نخعی کا قول بھی یہی ہے  اور اسی کی طرف ابو حنیفہ، ان کے  دونوں اصحاب، احمد بن حنبل اور مشہور روایت میں شافعی بھی گئے  ہیں ۔ ابن جریر نے  اپنی تفسیر میں علی، سعد، سلمان، ابو ہریرہ، ابن عمر اور ابن عباس سے  نقل کیا ہے  کہ گو کتے  نے  شکار میں سے  کچھ کھا لیا ہو تاہم اسے  کھا لینا جائز ہے ، بلکہ حضرت سعد، حضرت سلمان، حضرت ابو ہریرہ وغیرہ فرماتے  ہیں  گو کتا آدھا حصہ کھا گیا ہو تاہم اس شکار کا کھا لینا جائز ہے ۔ امام مالک اور شافعی بھی اپنے  قدیم قول میں اسی طرف گئے  ہیں  اور قول جدید میں دونوں قولوں کی طرف اشارہ کیا ہے ، جیسے  کہ امام ابو منصور بن صباغ وغیرہ نے  کہا ہے ۔ ابو داؤد میں قوی سند سے  مروی ہے  کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ''جب تو اپنے  کتے  کو چھوڑے  اور اللہ کا نام تو نے  لے  لیا ہو تو کھا لے ، گو اس نے  بھی اس میں سے  کھا لیا ہو اور کھا لے  اس چیز کو جسے  تیرا ہاتھ تیری طرف لوٹا لائے '' نسائی میں بھی یہ روایت ہے ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جب کسی شخص نے  اپنا کتا شکار پر چھوڑا، اس نے  شکار کو پکڑا اور اس کا کچھ گوشت کھا لیا تو اسے  اختیار ہے  کہ باقی جانور یہ اپنے  کھانے  کے  کام میں لے ۔ اس میں اتنی علت ہے  کہ یہ موقوفاً حضرت سلمان کے  قول سے  مروی ہے ، جمہور نے  عدی والی حدیث کو اس پر مقدم کیا ہے  اور ابو عجلہ وغیرہ کی حدیث کو ضعیف بتایا ہے ۔ بعض علماء کرام نے  اس حدیث کو اس بات پر محمول کیا ہے  کہ یہ حکم اس وقت ہے ، جب کتے  نے  شکار پکڑا اور دیر تک اپنے  مالک کا انتظار کیا، جب وہ نہ آیا تو بھوک وغیرہ کے  باعث اس نے  کچھ کھا لیا اس صورت میں یہ حکم ہے  کہ باقی کا گوشت مالک کھا لے  کیونکہ ایسی حالت میں یہ ڈر باقی نہیں  رہتا کہ شاید کتا ابھی شکار کا سدھارا ہوا نہیں ، ممکن ہے  اس نے  اپنے  لئے  ہی شکار کیا ہو، بخلاف اس کے  کہ کتے  نے  پکڑتے  ہی کھانا شروع کر دیا تو اس سے  معلوم ہو جاتا ہے  کہ اس نے  اپنے  لئے  ہی شکار دبوچا ہے  واللہ اعلم۔ اب رہے  شکاری پرند تو امام شافعی نے  صاف کہا ہے  کہ یہ کتے  کے  حکم میں ہیں ۔ تو اگر یہ شکار میں سے  کچھ کھا لیں تو شکار کا کھانا جمہور کے  نزدیک تو حرام ہے  اور دیگر کے  نزدیک حلال ہے ، ہاں مزنی کا مختار یہ ہے  کہ گوشکاری پرندوں نے  شکار کا گوشت کھا لیا ہو تاہم وہ حرام نہیں ۔ یہی مذہب ابو حنیفہ اور احمد کا ہے ۔ اس لئے  کہ پرندوں کو کتوں کی طرح مار پیٹ کر سدھا بھی نہیں  سکتے  اور وہ تعلیم حاصل کر ہی نہیں  سکتا جب تک اسے  کھائے  نہیں ، یہاں بات معاف ہے  اور اس لئے  بھی کہ نص کتے  کے  بارے  میں وارد ہوئی ہے ، پرندوں کے  بارے  میں نہیں ، شیخ ابو علی افصاح میں فرماتے  ہیں  جب ہم نے  یہ طے  کر لیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے  جس میں سے  شکاری کتے  نے  کھا لیا ہو تو جس شکار میں سے  شکاری پرند کھا لے  اس میں دو وجوہات ہیں ۔ لیکن قاضی ابو الطیب نے  اس فرع کا اور اس ترتیب سے  انکار کیا ہے ۔ کیونکہ امام شافعی نے  ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔ متردیہ وہ ہے  جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے  گر کر مر گیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے ، ابن عباس یہی فرماتے  ہیں ۔ قتادہ فرماتے  ہیں  یہ وہ ہے  جو کنویں میں گر پڑے ، نطیحہ وہ ہے  جسے  دوسرا جانور سینگ وغیرہ سے  ٹکر لگائے  اور وہ اس صدمہ سے  مر جائے ، گو اس سے  زخم بھی ہوا ہو اور گو اس سے  خون بھی نکلا ہو، بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے  کی جگہ ہی لگا ہو اور خون بھی نکلا، یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے  ہے ، یہ وزن عموماً کلام عرب میں بغیر تے  کے  آتا ہے  جیسے  عین کحیل اور کف خضیب ان مواقع میں کحیلۃ اور خضیبۃ نہی کہتے ، اس جگہ تے  اس لئے  لایا گیا ہے  کہ یہاں اس لفظ کا استعمال قائم مقام اسم کے  ہے ، جیسے  عرب کا یہ کلام طریقۃ طویلتہ۔ بعض نحوی کہتے  ہیں  تاء تانیث یہاں اس لئے  لایا گیا ہے  کہ پہلی مرتبہ ہی ثانیث پر دلالت ہو جائے  بخلاف کحیل اور خضیب کے  کہ وہاں تانیث کلام کے  ابتدائی لفظ سے  معلوم ہوتی ہے ۔ آیت (ما اکل اسبع) سے  مراد وہ جانور ہے  جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے  اور اس کا کوئی حصہ کھا جائے  اور اس سبب سے  مر جائے  تو اس جانور کو کھانا بھی حرام ہے ، اگرچہ اس سے  خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے  کی جگہ سے  ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالاجماع حرام ہے ۔ اہل جاہلیت میں ایسے  جانور کا بقیہ کھا لیا کرتے  تھے ، اللہ تعالیٰ نے  مومنوں کو اس سے  منع فرمایا۔ پھر فرماتا ہے  مگر وہ جسے  تم ذبح کر لو، یعنی گلا گھونٹا، لٹھ مارا ہوا، اوپر سے  گر پڑا ہو، سینگ اور ٹکر لگا ہو، درندوں کا کھایا ہو، اگر اس حالت میں تمہیں  مل جائے  کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے  کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے  لئے  حلال ہو جائیں گے ۔ حضرت ابن عباس سعید بن جیبر، حسن اور سدی یہی فرماتے  ہیں ، حضرت علی سے  مروی ہے  اگر تم ان کو اس حالت میں پالو کہ چھری پھیرتے  ہوئے  وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے  ڈھیلے  پھرائیں تو بیشک ذبح کر کے  کھا لو، ابن جریر میں آپ سے  مروی ہے  کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے  گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں  وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے  تو تم اسے  ذبح کر کے  کھا سکتے  ہو۔ حضرت طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک اور بہت سے  حضرات سے  مروی ہے  کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے  جس سے  یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے  تو وہ حلال ہے ۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے  جس سے  یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے  تو وہ حلال ہے ۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے  تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے ، امام مالک اس بکری کے  بارے  میں جسے  بھیڑیا پھاڑ ڈالے  اور اس کی آنتیں نکل آئیں فرماتے  ہیں  میرا خیال ہے  کہ اسے  ذبح نہ کیا جائے  اس میں سے  کس چیز کا ذبیحہ ہو گا؟ ایک مرتبہ آپ سے  سوال ہوا کہ درندہ اگر حملہ کر کے  بکری کی پیٹھ توڑ دے  تو کیا اس بکری کو جان نکلنے  سے  پہلے  ذبح کر سکتے  ہیں ؟ آپ نے  فرمایا اگر بالکل آخر تک پہنچ گیا ہے  تو میری رائے  میں نہ کھانی چاہئے  اور اگر اطراف میں یہ ہے  تو کوئی حرج نہیں ، سائل نے  کہا درندے  نے  اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے  پکڑ لیا، جس سے  اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے  تو آپ نے  فرمایا مجھے  اس کا کھانا پسند نہیں  کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے  بعد زندہ نہیں  رہ سکتی، آپ سے  پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈالا اور آنتیں نہیں  نکلیں تو کیا حکم ہے ، فرمایا میں تو یہی رائے  رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے ۔ یہ ہے  امام مالک کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے  اس لئے  امام صاحب نے  جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے  ان پر کوئی خاص دلیل چاہئے ، واللہ اعلم۔ بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج سے  مروی ہے  کہ میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا۔ ''حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہم کل دشمن سے  لڑائی میں باہم ٹکرانے  والے  ہیں  اور ہمارے  ساتھ چھریاں نہیں  کیا ہم بانس سے  ذبح کر لیں '' آپ نے  فرمایا ''جو چیز خون بہائے  اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے ، اسے  کھا لو، سوائے  دانت اور ناخن کے ، یہ اس لئے  کہ دانت ہڈی ہے  اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں '' مسند احمد اور سنن میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا گیا کہ ''ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے  میں ہی ہوتا ہے ؟'' آپ نے  فرمایا ''اگر تو نے  اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے '' یہ حدیث ہے  تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے  جبکہ صحیح طور پر ذبح کرنے  پر قادر نہ ہوں ۔ مجاہد فرماتے  ہیں  یہ پرستش گاہیں  کعبہ کے  اردگرد تھیں، ابن جریج فرماتے  ہیں  ''یہ تین سو ساٹھ بت تھے ، جاہلیت کے  عرب ان کے  سامنے  اپنے  جانور قربان کرتے  تھے  اور ان میں سے  جو بیت اللہ کے  بالکل متصل تھا، اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے  تھے  اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے  تھے '' پس اللہ تعالیٰ نے  یہ کام مومنوں پر حرام کیا اور ان جانوروں کا کانا بھی حرام کر دیا۔ اگرچہ ان جانوروں کے  ذبح کرنے  کے  وقت بسم اللہ بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے  جسے  اللہ تعالیٰ وحدہٗ لا شریک نے  اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  حرام کیا ہے ، اور اسی لائق ہے ، اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے  کیونکہ اس سے  پہلے  ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے  جو اللہ کے  سوا دوسروں کے  نام پر چڑھائے  جائیں ۔ (ازلام) سے  تقسیم کرنا حرام ہے ، یہ جاہلیت کے  عرب میں دستور تھا کہ انہوں نے  تین تیر رکھ چھوڑے  تھے ، ایک پر لکھا ہوا تھا افعل یعنی کر، دوسرے  پر لکھا ہوا تھا لاتعفل یعنی نہ کر، تیسرا خالی تھا۔ بعض کہتے  ہیں  ایک پر لکھا تھا مجھے  میرے  رب کا حکم ہے ، دوسرے  پر لکھا تھا مجھے  میرے  رب کی ممانعت ہے ، تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا۔ بطور قرعہ اندازی کے  کسی کام کے  کرنے  نہ کرنے  میں جب انہیں  تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے ، اگر حکم ''کر'' نکلا تو اس کام کو کرتے  اگر ممانعت کا تیر نکلا تو باز آ جاتے  اگر خالی تیر نکلا تو پھر نئے  سرے  سے  قرعہ اندازی کرتے ، ازلام جمع ہے  زلم کی اور بعض زلم بھی کہتے  ہیں ۔ استسقام کے  معنی ان تیروں سے  تقسیم کی طلب ہے ، قریشیوں کا سب سے  بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے  اندر کے  کنوئیں پر نصب تھا، جس کنویں میں کعبہ کے  ہدیے  اور مال جمع رہا کرتے  تھے ، اس بت کے  پاس سات تیر تھے ، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا جس کام میں اختلاف پڑتا یہ قریشی یہاں آ کر ان تیروں میں سے  کسی تیر کو نکالتے  اور اس پر جو لکھا پاتے  اسی کے  مطابق عمل کرتے ۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب کعبہ میں داخل ہوئے  تو وہاں حضرت ابراہیم  اور حضرت اسماعیل  کے  مجسمے  گڑے  ہوئے  پائے ، جن کے  ہاتھوں میں تیر تھے  تو آپ نے  فرمایا اللہ انہیں  غارت کرے ، انہیں  خوب معلوم ہے  کہ ان بزرگوں نے  کبھی تیروں سے  فال نہیں  لی۔ صحیح حدیث میں ہے  کہ سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابو بکر صدیق کو ڈھونڈنے  کیلئے  نکلا کہ انہیں  پکڑ کر کفار مکہ کے  سپرد کرے  اور آپ اس وقت ہجرت کر کے  مکہ سے  مدینے  کو جا رہے  تھے  تو اس نے  اسی طرح قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے  کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو میری مرضی کے  خلاف تھا میں نے  پھر تیروں کو ملا جلا کر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا تو انہیں  کوئی ضرر نہ پہنچا سکے  گا، میں نے  پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے  کیلئے  تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے  ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے  انعام حاصل کرنے  اور سرخرو ہونے  کیلئے  تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکلا لیکن میں ہمت کر کے  ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے  انعام حاصل کرنے  اور سرخرو ہونے  کیلئے  آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان نہیں  ہوا تھا، یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے  اللہ نے  اسلام سے  مشرف فرمایا۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  ''وہ شخص جنت کے  بلند درجوں کو نہیں  پا سکتا جو کہانت کرے ، یا تیر اندازی کرے  یا کسی بدفالی کی وجہ سے  سفر سے  لوٹ آئے '' حضرت مجاہد نے  یہ بھی کہا ہے  کہ عرب ان تیروں کے  ذریعہ اور فارسی اور رومی پانسوں کے  ذریعہ جوا کھیلا کرتے  تھے  جو مسلمانوں پر حرام ہے ۔ ممکن ہے  کہ اس قول کے  مطابق ہم یوں کہیں  کہ تھے  تو یہ تیر استخارے  کیلئے  مگر ان سے  جو ابھی گاہے  بگاہے  کھیل لیا کرتے ۔ واللہ اعلم۔ اسی سورت کے  آخر میں اللہ تعالیٰ نے  جوئے  کو بھی حرام کیا ہے  اور فرمایا ''ایمان والو! شراب، جواء، بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں ، تم ان سے  الگ رہو تاکہ تمہیں  نجات ملے ، شیطان تو یہ چاہتا ہے  کہ ان کے  ذریعہ تمہارے  درمیان عداوت و بغض ڈال دے '' اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے  کہ تیروں سے  تقسیم طلب کرنا حرام ہے ، اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے ۔ اس کے  بجائے  مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں  اپنے  کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالیٰ سے  استخارہ کر لو، اس کی عبادت کر کے  اس سے  بھلائی طلب کرو۔ مسند احمد، بخاری اور سنن میں مروی ہے  حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے  ہیں  ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے  تھے ، اسی طرح ہمارے  کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے  تھے ، آپ ارشاد فرمایا کرتے  تھے  کہ جب تم سے  کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے  تو اسے  چاہئے  کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے   اللھم انی استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم فانک تقدر ولا اقدر وتعلم اولا اعلم وانت علام الغیوب اللھم ان کنت تعلم ان ھذا الامر خیر لی فی دینی ودنیای ومعاشی وعاقبۃ امری فقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم انہ شر لی فی دینی ونیای ومعاشی وعاقبۃ امری فاصرفہ عنی واقدرلی الخیر حیث کان ثم رضنی بہ ۔ یعنی اے  اللہ میں تجھ سے  تیرے  علم کے  ذریعہ بھلائی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے  وسیلے  سے  تجھ سے  قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے  تیرے  بڑے  فضل کا طالب ہوں، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے  اور میں محض مجبور ہوں، تو تمام علم والا ہے  اور میں مطلق بے  علم ہوں، تو ہی تمام غیب کو بخوبی جاننے  والا ہے ، اے  میرے  اللہ اگر تیرے  علم میں یہ کام میرے  لئے  دین دنیا میں آغاز و انجام کے  اعتبار سے  بہتر ہی بہتر ہے  تو اسے  میرے  لئے  مقدر کر دے  اور اسے  میرے  لئے  آسان بھی کر دے  اور اس میں مجھے  ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور اگر تیرے  علم میں یہ کام میرے  لئے  دین کی دنیا زندگی اور انجام کار کے  لحاظ سے  برا ہے  تو اسے  مجھ سے  دور کر دے  اور مجھے  اس سے  دور کر دے  اور میرے  لئے  خیرو برکت جہاں کہیں  ہو مقرر کر دے  پھر مجھے  اسی سے  راضی و ضا مند کر دے ۔ دعا کے  یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں  ھذا الامر جہاں ہے  وہاں اپنے  کام کا نام لے  مثلاً نکاح ہو تو ھذا النکاح سفر میں ہو تو ھذا السفر بیوپار میں ہو تو ھذا التجارۃ وغیرہ۔ بعض روایتوں میں خیر لی فی دینی سے  امری تک کے  بجائے  یہ الفاظ ہیں ۔ دعا (خیر لی فی عاجل امری و اجلہ) ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتلاتے  ہیں ، پھر فرماتا ہے  آج کافر تمہارے  دین سے  مایوس ہو گئے ، یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے  دین میں کچھ خلط ملط کر سکیں یعنی اپنے  دین کو تمہارے  دین میں شامل کر لیں ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  ''فرمایا شیطان اس سے  تو مایوس ہو چکا ہے  کہ نمازی مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں، ہاں وہ اس کوشش میں رہے  گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے  کے  خلاف بھڑکائے ۔ '' یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ مشرکین مکہ اس سے  مایوس ہو گئے  کہ مسلمانوں سے  مل جل کر رہیں ، کیونکہ احکام اسلام نے  ان دونوں جماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا، اسی لئے  حکم ربانی ہو رہا ہے  کہ مومن صبر کریں، ثابت قدم رہیں  اور سوائے  اللہ کے  کسی سے  نہ ڈریں، کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں  اپنے  مخالفین پر غلبہ دے  گا اور ان کے  ضرر سے  ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں، اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں  اپنے  مخالفین پر غلبہ دے  گا اور ان کے  ضرر سے  ان کی محافظت کریگا اور دنیا و آخرت میں انہیں  بلند و بالا رکھے  گا۔ پھر اپنی زبردست بہترین اعلیٰ اور افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے  کہ ''میں نے  تمہارا دین ہر طرح اور ہر حیثیت سے  کامل و مکمل کر دیا، تمہیں  اس دین کے  سوا کسی دین کی احتیاج نہیں ، نہ اس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  سوا اور کسی بنی کی تمہیں  حاجت ہے ، اللہ نے  تمہارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خاتم الانبیاء کیا ہے ، انہیں  تمام جنوں اور انسانوں کی طرف بھیجا ہے ، حلال وہی ہے  جسے  وہ حلال کہیں ، حرام وہی ہے  جسے  وہ حرام کہیں ، دین وہی ہے  جسے  یہ مقرر کریں، ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی، جن میں کسی طرح کا جھوٹ اور تضاد نہیں ''۔ جیسے  فرمان باری ہے  آیت (و تمت کلمۃ ربک صدقاً وعدلاً) یعنی تیرے  رب کا کلمہ پورا ہوا، جو خبریں دینے  میں سچا ہے  اور حکم و منع میں عدل والا ہے ۔ دین کو کامل کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے  چونکہ میں خود تمہارے  اس دین اسلام پر خوش ہوں، اس لئے  تم بھی اسی پر راضی رہو، یہی دین اللہ کا پسندیدہ، اسی کو دے  کر اس نے  اپنی افضل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا ہے  اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی ہے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ اس دین اسلام کو اللہ تعالیٰ نے  تمہارے  لئے  کامل کر دیا ہے  اور اپنے  نبی اور مومنوں کو اس کا کامل ہونا خود اپنے  کلام میں فرما چکا ہے  اب یہ رہتی دنیا تک کسی زیادتی کا محتاج نہیں ، اسے  اللہ نے  پورا کیا ہے  جو قیامت تک ناقص نہیں  ہو گا۔ اس سے  اللہ خوش ہے  اور کبھی بھی ناخوش نہیں  ہونے  والا ۔ حضرت سدی فرماتے  ہیں  یہ آیت عرفہ کے  دن نازل ہوئی، اس کے  بعد حلال و حرام کا کوئی حکم نہیں  اترا، اس حج سے  لوٹ کر اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہو گیا، حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں  ''اس آخری حج میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ میں بھی تھی، ہم جا رہے  تھے  اتنے  میں حضرت جبرئیل  کی تجلی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اونٹنی پر جھک پڑے  وحی اترنی شروع ہوئی، اونٹنی وحی کے  بوجھ کی طاقت نہیں  رکھتی تھی۔ میں نے  اسی وقت اپنی چادر اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اڑھا دی''۔ ابن جریر وغیرہ فرماتے  ہیں  اس کے  بعد اکیاسی دن تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حیات رہے ، حج اکبر والے  دن جبکہ یہ آیت اتری تو حضرت عمر رونے  لگے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے  کہ کمال کے  بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے  فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے  ہوتی ہے  جس میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے  کہ اسلام غربت اور انجان پن سے  شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا، پس غرباء کیلئے  خوشخبری ہے ۔ مسند احمد میں ہے  کہ ایک یہودی نے  حضرت فاروق اعظم سے  کہا تم جو اس آیت (الیوم اکملت) الخ، کو پڑھتے  ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے  ''حضرت عمر نے  فرمایا واللہ مجھے  علم ہے  کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی، عرفے  کے  دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے ، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے ، تمام سیرت والے  اس بات پر متفق ہیں  کہ حجۃ الوادع والے  سال عرفے  کا دن جمعہ کو تھا، ایک اور روایت میں ہے  کہ حضرت کعب نے  حضرت عمر سے  یہ کہا تھا کہ حضرت عمر نے  فرمایا یہ آیت ہمارے  ہاں دوہری عید کے  دن نازل ہوئی ہے ۔ حضرت ابن عباس کی زبانی اس آیت کی تلاوت سن کر بھی یہودیوں نے  یہی کہا تھا کہ جس پر آپ نے  فرمایا ہمارے  ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے  دن اتری ہے ، عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن تھی۔ حضرت علی سے  مروی ہے  کہ یہ آیت عرفے  کے  دن شام کو اتری ہے ، حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے  منبر پر اس پوری آیت کی تلاوت کی اور فرمایا جمعہ کے  دن عرفے  کو یہ اتری یہ ہے ۔ حضرت سمرہ فرماتے  ہیں  اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم موقف میں کھڑے  ہوئے  تھے ، ابن عباس سے  مروی ہے  کہ تمہارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیر والے  دن پیدا ہوئے ، پیر والے  دن ہی مکہ سے  نکلے  اور پیر والے  دن ہی مدینے  میں تشریف لائے ، یہ اثر غریب ہے  اور اس کی سند ضعیف ہے ۔ مسند احمد میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم پیر والے  دن پیدا ہوئے ، پیر والے  دن نبی بنائے  گئے ، پیر والے  دن ہجرت کے  ارادے  سے  نکلے ، پیر کے  روز ہی مدینے  پہنچے  اور پیر کے  دن ہی فوت کئے  گئے ، حجر اسود بھی پیر کے  دن واقع ہوا، اس میں سورہ مائدہ کا پیر کے  دن اترنا مذکور نہیں ، میرا خیال یہ ہے  کہ ابن عباس نے  کہا ہو گا دو عیدوں کے  دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے  بھی لفظ اثنین ہے ، اور پیر کے  دن کو بھی اثنین کہتے  ہیں  اس لئے  راوی کو شبہ سا ہو گیا واللہ اعلم۔ دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں  ایک تو یہ کہ یہ دن لوگوں کو نامعلوم ہے  دوسرا یہ کہ یہ آیت غدیر خم کے  دن نازل ہوئی ہے  جس دن کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت علی کی نسبت فرمایا تھا کہ جس کا مولیٰ میں ہوں، اس کا مولیٰ علی ہے  گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی، جبکہ آپ حجۃ الوداع سے  واپس لوٹ رہے  تھے  لیکن یہ یاد رہے  کہ یہ دونوں قول صحیح نہیں ۔ بالکل صحیح اور بے  شک و شبہ قول یہی ہے  کہ یہ آیت عرفے  کے  دن جمعہ کو اتری ہے ، امیر المومنین عمر بن خطاب اور امیر المومنین علی بن ابو طالب اور امیر المومنین حضرت امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت سمرہ بن جندب سے  یہی مروی ہے  اور اسی کو حضرت شعبی، حضرت قتادہ، حضرت شہیر وغیرہ ائمہ اور علماء نے  کہا ہے ، یہی مختار قول ابن جریر اور طبری کا ہے ، پھر فرماتا ہے  ''جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے  کسی چیز کے  استعمال کی طرف مجبور و بے  بس ہو جائے  تو وہ ایسے  اضطرار کی حالت میں انہیں  کام لا سکتا ہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ، وہ جانتا ہے  کہ اس بندے  نے  اس کی حد نہیں  توڑی لیکن بے  بسی اور اضطرار کے  موقعہ پر اس نے  یہ کیا ہے  تو اللہ سے  معاف فرما دے  گا۔ صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر سے  مرفوعاً مروی ہے  کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر بندوں کا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے  جیسے  اپنی نافرمانی سے  رک جانا۔ مسند احمد میں ہے  جو شخص اللہ کی دی ہوئی رخصت نہ قبول کرے ، اس پر عرفات کے  پہاڑ برابر گناہ ہے ، اسی لئے  فقہاء کہتے  ہیں  کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہو جاتا ہے  جیسے  کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے  کہ اب مرا چاہتا ہے  کہ کبھی جائز ہو جاتا ہے  اور کبھی مباح، ہاں اس میں اختلاف ہے  کہ بھوک کے  وقت جبکہ حلال چیز میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے  کہ جان بچ جائے  یا پیٹ بھر سکتا ہے  بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے ، اس کے  تفصیلی بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں ۔ اس مسئلہ میں جب بھوکا شخص جس کے  اوپر اضطرار کی حالت ہے ، مردار اور دوسرے  کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے  تو کیا وہ مردار کھا لے ؟ یہ حالت احرام میں ہونے  کے  باوجود شکار کر لے  اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے  یا دوسرے  کی چیز بلا اجازت کھا لے  اور اپنی آسانی کے  وقت اسے  وہ واپس کر دے ، اس میں دو قول ہیں  امام شافعی سے  دونوں مروی ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے  کہ مردار کھانے  کی یہ شرط جو عوام میں مشہور ہے  کہ جب تین دن کا فاقہ ہو جائے  تو حلال ہوتا ہے  یہ بالکل غلط ہے  بلکہ جب اضطرار ، بے  قراری اور مجبوری حالت میں ہو، اس کیلئے  مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے  کہ لوگوں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا کہ ''حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہم ایسی جگہ رہتے  ہیں  کہ آئے  دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے ، تو ہمارے  لئے  مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے ؟ آپ نے  فرمایا ''جب صبح شام نہ ملے  اور نہ کوئی سبزی ملے  تو تمہیں  اختیار ہے ۔ '' اس حدیث کی ایک سند میں ارسال بھی ہے ، لیکن مسند والی مرفع حدیث کی اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے ۔ ابن عون فرماتے  ہیں  حضرت حسن کے  پاس حضرت سمرہ کی کتاب تھی، جسے  میں ان کے  سامنے  پڑھتا تھا، اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار ہے ، ایک شخص نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا کہ ''حرام کھانا کب حلال ہو جاتا ہے ؟'' آپ نے  فرمایا ''جب تک کہ تو اپنے  بچوں کو دودھ سے  شکم سیر نہ کر سکے  اور جب تک ان کا سامان نہ آ جائے ۔ '' ایک اعرابی نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  حلال حرام کا سوال کیا، آپ نے  جواب دیا کہ ''کل پاکیزہ چیزیں حلال اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف محتاج ہو جائے  تو انہیں  کھا سکتا ہے  جب تک کہ ان سے  غنی نہ ہو جائے '' اس نے  پھر دریافت کیا کہ ''وہ محتاجی کونسی جس میں میرے  لئے  وہ حرام چیز حلال ہوئے  اور وہ غنی ہونا کونسا جس میں مجھے  اس سے  رک جانا چاہئے '' فرمایا۔ ''جبکہ تو صرف رات کو اپنے  بال بچوں کو دودھ سے  آسودہ کر سکتا ہو تو تو حرام چیز سے  پرہیز کر۔ '' ابو داؤد میں ہے  حضرت نجیع عامری نے  رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے  دریافت کیا کہ ''ہمارے  لئے  مردار کا کھانا کب حلال ہو جاتا ہے ؟'' آپ نے  فرمایا ''تمہیں  کھانے  کو کیا ملتا ہے ؟'' اس نے  کہا ''صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ اور شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ'' آپ نے  کہا ''یہی ہے  اور کونسی بھوک ہو گی؟'' پس اس حالت میں آپ نے  انہیں  مردار کھانے  کی اجازت عطا فرمائی۔ مطلب حدیث کا یہ ہے  کہ صبح شام ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں  ناکافی تھا، بھوک باقی رہتی تھی، اس لئے  ان پر مردہ حلال کر دیا گیا، تا کہ وہ پیٹ بھر لیا کریں، اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے  فرمایا ہے  کہ اضطرار کے  وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے ، صرف جان بچ جائے  اتنا ہی کھانا جائز ہو، یہ حد ٹھیک نہیں  واللہ اعلم۔ ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے  کہ ایک شخص مع اہل و عیال کے  آیا اور حرہ میں ٹھہرا، کسی صاحب کی اونٹنی گم ہو گئی تھی، اس نے  ان سے  کہا اگر میری اونٹنی تمہیں  مل جائے  تو اسے  پکڑ لینا۔ اتفاق سے  یہ اونٹنی اسے  مل گئی، اب یہ اس کے  مالک کو تلاش کرنے  لگے  لیکن وہ نہ ملا اور اونٹنی بیمار پڑ گئی تو اس شخص کی بیوی صاحبہ نے  کہا کہ ہم بھوکے  رہا کرتے  ہیں ، تم اسے  ذبح کر ڈالو لیکن اس نے  انکار کر دیا، آخر اونٹنی مر گئی تو پھر بیوی صاحبہ نے  کہا، اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے  گوشت اور چربی کو ٹکڑے  کر کے  سلکھا لو، ہم بھوکوں کو کام آ جائیگا، اس بزرگ نے  جواب دیا، میں تو یہ بھی نہیں  کرونگا، ہاں اگر اللہ کے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دے  دیں تو اور بات ہے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے  تمام قصہ بیان کیا آپ نے  فرمایا کیا تمہارے  پاس اور کچھ کھانے  کو ہے  جو تمہیں  کافی ہو؟ جواب دیا کہ نہیں  آپ نے  فرمایا پھر تم کھا سکتے  ہو۔ اس کے  بعد اونٹنی والے  سے  ملاقات ہوئی اور جب اسے  یہ علم ہوا تو اس نے  کہا پھر تم نے  اسے  ذبح کر کے  کھا کیوں نہ لیا؟ اس بزرگ صحابی نے  جواب دیا کہ شرم معلوم ہوئی۔ یہ حدیث دلیل ہے  ان لوگوں کی جو کہتے  ہیں  کہ یہ بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے  مطابق اپنے  پاس رکھ لینا بھی جائز ہے  واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوا ہے  کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے  مباح ہے  جو کسی گناہ کی طرف میلان نہ رکھتا ہو، اس کیلئے  اسے  مباح کر کے  دوسرے  سے  خاموشی ہے،جیسے  سورہ بقرہ میں ہے  آیت (فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم) یعنی وہ شخص بے  قرار کیا جائے  سوائے  باغی اور حد سے  گزرنے  والے  کے  پس اس پر کوئی گناہ نہیں ، اللہ تعالیٰ بخشنے  والا مہربانی کرنے  والا ہے ۔ اس آیت سے  یہ استدعا کیا گیا ہے  کہ جو شخص اللہ کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے ، اسے  شریعت کی رخصتوں میں سے  کوئی رخصت حاصل نہیں ، اس لئے  کہ رخصتیں گناہوں سے  حاصل نہیں  ہوتیں و اللہ تعالیٰ اعلم۔

۴

شکاری کتے اور شکار

چونکہ اس سے  پہلے  اللہ تعالیٰ نے  نقصان پہنچانے  والی خبیث چیزوں کی حرمت کا بیان فرمایا خواہ نقصان جسمانی ہو یا دینی یا دونوں، پھر ضرورت کی حالت کے  احکامات مخصوص کرائے  گئے  جیسے  فرمان ہے  آیت (وقد فصل لکم ما حرم علیکم الا ما ضطررتم الیہ) یعنی تمام حرام جانوروں کا بیان تفصیل سے  تمہارے  سامنے  آ چکا ہے  یہ اور بات ہے  کہ تم حالات کی بناء پر بے  بس اور بے  قرار ہو جاؤ۔ تو اس کے  بعد ارشاد ہو رہا ہے  کہ حلال چیزوں کے  دریافت کرنیوالوں سے  کہہ دیجئے  کہ تمام پاک چیزیں تم پر حلال ہیں ، سورہ اعراف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ صفت بیان فرمائی گئی ہے  کہ آپ طیب چیزوں کو حلال کرتے  ہیں  اور خبیث چیزوں کو حرام کرتے  ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ قبیلہ طلائی کے  دو شخصوں حضرت عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا کہ مردہ جانور تو حرام ہو چکا اب حلال کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری۔ حضرت سعید فرماتے  ہیں  یعنی ذبح کئے  ہوئے  جانور حلال طیب ہیں  ۔ مقاتل فرماتے  ہیں  ہر حلال رزق طیبات میں داخل ہے ۔ امام زہری سے  سوال کیا گیا کہ دوا کے  طور پر پیشاب کا پینا کیسا ہے ؟ جواب دیا کہ وہ طیبات میں داخل نہیں ۔ امام مالک سے  پوچھا گیا کہ اس مٹی کا بیچنا کیسا ہے  جسے  لوگ کھاتے  ہیں  فرمایا و طیبات میں داخل نہیں  اور تمہارے  لئے  شکاری جانوروں کے  ذریعہ کھیلا ہوا شکار بھی حلال کیا جاتا ہے  مثلاً سدھائے  ہوئے  کتے  اور شِکرے  وغیرہ کے  ذریعے ۔ یہی مذہب ہے  جمہور صحابہ تابعین ائمہ وغیرہ کا۔ ابن عباس سے  مروی ہے  کہ شکاری سدھائے  ہوئے  کتے ، باز، چیتے ، شکرے  وغیرہ ہر وہ پرندہ جو شکار کرنے  کی تعلیم دیا جا سکتا ہو اور بھی بہت سے  بزرگوں سے  یہی مروی ہے  کہ پھاڑنے  والے  جانوروں اور ایسے  ہی پرندوں میں سے  جو بھی تعلیم حاصل کر لے ، ان کے  ذریعہ شکار کھیلنا حلال ہے ، لیکن حضرت مجاہد سے  مروی ہے  کہ انہوں نے  تمام شکاری پرندوں کا کیا ہوا شکار مکروہ کہا ہے  اور دلیل میں آیت (وما علمتم من الجوارح مکلبین) پڑھا ہے  سعید بن جبیر سے  بھی اسی طرح روایت کی گئی ہے ۔ ضحاک اور سدی کا بھی یہی قول ابن جریر میں مروی ہے ۔ حضرت ابن عمر فرماتے  ہیں  باز وغیرہ پرند جو شکار پکڑیں اگر وہ تمہیں  زندہ مل جائے  تو تم ذبح کر کے  کھا لو ورنہ نہ کھاؤ، لیکن جمہور علماء اسلام کا فتویٰ یہ ہے  کہ شکاری پرندوں کے  ذریعہ جو شکار ہو، اس کا اور شکاری کتوں کے  کئے  ہوئے  شکار کا ایک ہی حکم ہے ، ان میں تفریق کرنے  کی کوئی چیز باقی نہیں  رہتی۔ چاروں اماموں وغیرہ کا مذہب بھی یہی ہے ، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند کرتے  ہیں  اور اس کی دلیل میں اس حدیث کو لاتے  ہیں  کہ حضرت عدی بن حاتم نے  رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم سے  باز کے  کئے  ہوئے  شکار کا مسئلہ پوچھا تو آپ نے  فرمایا "جس جانور کو وہ تیرے  لئے  روک رکھے  تو اسے  کھا لے " امام احمد نے  سیاہ کتے  کا کیا ہوا شکار بھی مستثنیٰ کر لیا ہے ، اس لئے  کہ ان کے  نزدیک اس کا قتل کرنا واجب ہے  اور پالنا حرام ہے ، کیونکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "نماز کو تین چیزیں توڑ دیتی ہیں ، گدھا، عورت اور سیاہ کتا۔ اس پر حضرت ابی نے  سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سیاہ کتے  کی خصوصیت کی کیا وجہ ہے ؟ تو آپ نے  فرمایا "شیطان ہے ۔ " دوسری حدیث میں ہے  کہ آپ نے  کتوں کے  مار ڈالنے  کا حکم دیا پھر فرمایا انہیں  کتوں سے  کیا واسطہ؟ ان کتوں میں سے  سخت سیاہ کتوں کو مار ڈالا کرو۔ شکاری حیوانات کو جوارح اس لئے  کہا گیا کہ جرح کہتے  ہیں  کسب اور کمائی کو، جیسے  عرب کہتے  ہیں  (فلان جرح اہلہ خیرا) یعنی فلاں شحص نے  اپنی اہل کیلئے  بھلائی حاصل کر لی اور عرب کہتے  ہیں  (فلان لا جارح لہٗ فلاں) شخص کا کوئی کماؤ نہیں ، قرآن میں بھی لفظ جرح کسب اور کمائی اور حاصل کرنے  کے  معنی میں آیا ہے  فرمان ہے  آیت (ویعلم ماجرحتم بالنھار) یعنی دن کو جو بھلائی برائی تم حاصل کرتے  ہو اور اسے  بھی اللہ جانتا ہے ۔ اس آیت کریمہ کے  اترنے  کی وجہ ابن ابی حاتم میں یہ ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کتوں کے  قتل کرنے  کا حکم دیا اور وہ قتل کئے  جانے  لگے  تو لوگوں نے  آ کر آپ سے  پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس امت کے  قتل کا حکم آپ نے  دیا ان سے  ہمارے  لئے  کیا فائدہ حلال ہے ؟ آپ خاموش رہے  اس پر یہ آیت اتری۔ پس آپ نے  فرمایا جب کوئی شخص اپنے  کتے  کو شکار کے  پیچھے  چھوڑے  اور بسم اللہ بھی کہے  پھر وہ شکار پکڑ لے  اور روک رکھے  تو جب تک وہ نہ کھائے  یہ کھا لے ۔ ابن جریر میں ہے  "جبرئیل نے  حضور سے  اندر آنے  کی اجازت چاہی، آپ نے  اجازت دی لیکن وہ پھر بھی اندر نہ آئے  تو آپ نے  فرمایا اے  قاصد رب ہم تو تمہیں  اجازت دے  چکے  پھر کیوں نہیں  آتے ؟ اس پر فرشتے  نے  کہا! ہم اس گھر میں نہیں  جاتے ، جس میں کتا ہو، اس پر آپ نے  حضرت رافع کو حکم دیا کہ مدینے  کے  کل کتے  مار ڈالے  جائیں، ابو رافع فرماتے  ہیں ، میں گیا اور سب کتوں کو قتل کرنے  لگا، ایک بڑھیا کے  پاس کتا تھا، جو اس کے  دامن میں لپٹنے  لگا اور بطور فریاد اس کے  سامنے  بھونکنے  لگا، مجھے  رحم آگیا اور میں نے  اسے  چھوڑ دیا اور آ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دی آپ نے  حکم دیا کہ اسے  بھی باقی نہ چھوڑو، میں پھر واپس گیا اور اسے  بھی قتل کر دیا، اب لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا کہ جس امت کے  قتل کا آپ نے  حکم دیا ہے ، ان سے  کوئی فائدہ ہمارے  لئے  حلال بھی ہے  یا نہیں ؟ اس پر آیت (یسألونک) الخ، نازل ہوئی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے  کہ مدینے  کے  کتوں کو قتل کر کے  پھر ابو رافع آس پاس کی بستیوں میں پہنچے  اور مسئلہ دریافت کرنیوالوں کے  نام بھی اس میں ہیں  یعنی حضرت عاصم بن عذی حضرت سعید بن خیثمہ حضرت عمویمر بن ساعدرہ ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے  ہیں  کہ آیت کا شان نزول کتوں کا قتل ہے  (مکلبین) کا لفظ ممکن ہے  کہ (علمتم) کی ضمیر یعنی فاعل کا حال ہو اور ممکن ہے  کہ جوارح یعنی مقتول کا حاصل ہو۔ یعنی جن شکار حاصل کرنے  والے  جانوروں کو تم نے  سدھایا ہو اور حالانکہ وہ شکار کو اپنے  پنجوں اور ناخنوں سے  شکار کرتے  ہوں، اس سے  بھی یہ استدلال ہو سکتا ہے  کہ شکاری جانور جب شکار کو اپنے  صدمے  سے  ہی دبوچ کر مار ڈالے  تو وہ حلال نہ ہو گا جیسے  کہ امام شافعی کے  دونوں قولوں میں سے  ایک قول ہے  اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے ۔ اسی لئے  فرمایا تم نے  انہیں  اس سے  کچھ سکھا دیا ہو جو اللہ نے  تمہیں  لکھا رکھا ہے  "یعنی جب تم چھوڑو، جائے ، جب تم روک لو رک جائے  اور شکار پکڑ کر تمہارے  لئے  روک رکھے ۔ تاکہ تم جا کر اسے  لے  لو، اس نے  خود اپنے  لئے  اسے  شکار نہ کیا ہو، اس لئے  اس کے  بعد ہی فرمایا کہ جب شکاری جانور سدھایا ہوا ہو اور اس نے  اپنے  چھوڑنے  والے  کیلئے  شکار کیا ہو اور اس نے  بھی اس کے  چھوڑنے  کے  وقت اللہ کا نام لیا ہو تو وہ شکار مسلمانوں کیلئے  حلال ہے  گو وہ شکار مر بھی گیا ہو، اس پر اجماع ہے ۔ اس آیت کے  مسئلہ کے  مطابق ہی بخاری و مسلم کی یہ حدیث ہے  کہ حضرت عبد اللہ بن سلام نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں اللہ کا نام لے  کر اپنے  سدھائے  ہوئے  کتے  کو شکار پر چھوڑتا ہوں تو آپ نے  فرمایا جس جانور کو وہ پکڑ رکھے  تو اسے  کھا لے  اگرچہ کتے  نے  اسے  مار بھی ڈالا ہو، ہاں یہ ضرور ہے  کہ اس کے  ساتھ شکار کرنے  میں دوسرا کتا نہ ملا ہو اس لئے  کہ تو نے  اپنے  کتے  کو اللہ کا نام لے  کر چھوڑا ہے  دوسرے  کو بسم اللہ پڑھ کر نہیں  چھوڑا میں نے  کہا کہ میں نوکدار لکڑی سے  شکار کھیلتا ہوں فرمایا اگر وہ اپنی تیزی کی طرف سے  زخمی کرے  تو کھا لے  اور اگر اپنی چوڑائی کی طرف سے  لگا ہو تو نہ کھا کیونکہ وہ لٹھ مارا ہوا ہے ، دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں  کہ جب تو اپنے  کتے  کو چھوڑے  تو اللہ کا نام پڑھ لیا کر پھر وہ شکار کو تیرے  لئے  پکڑ رکھے  اور تیرے  پہنچ جانے  پر شکار زندہ مل جائے  تو تو اسے  ذبح کر ڈال اور اگر کتے  نے  ہی اسے  مار ڈالا ہو اور اس میں سے  کھایا نہ ہو تو تو اسے  بھی کھا سکتا ہے  اس لئے  کہ کتے  کا اسے  شکار کر لینا ہی اس کا ذبیحہ ہے  اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں  کہ "اگر اس نے  کھا لیا ہو تو پھر اسے  نہ کھا، مجھے  تو ڈر ہے  کہ کہیں  اس نے  اپنے  کھانے  کیلئے  شکار نہ پکڑا ہو؟ " یہی دلیل جمہور کی ہے  اور حقیقتاً امام شافعی کا صحیح مذہب بھی یہی ہے  کہ جب کتا شکار کو کھا لے  تو وہ مطلق حرام ہو جاتا ہے  اس میں کوئی گنجاش نہیں  جیسا کہ حدیث میں ہے ۔ ہاں سلف کی ایک جماعت کا یہ قول بھی ہے  کہ مطلقاً حلال ہے ۔ ان کے  دلائل یہ ہیں ۔ سلمان فارسی فرماتے  ہیں  تو کھا سکتا ہے  اگرچہ کتے  نے  تہائی حصہ کھا لیا ہو، حضرت سعید بن ابی وقاص فرماتے  ہیں  کہ گو ایک ٹکڑا ہی باقی رہ گیا ہو پھر بھی کھا سکتے  ہیں ۔ حضرت سعد بن ابی وقاض فرماتے  ہیں  گو دو تہائیاں کتا کھا گیا ہو پھر بھی تو کھا سکتا ہے ، حضرت ابوہریرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے  ہیں  جب بسم اللہ کہہ کر تو نے  اپنے  سدھائے  ہوئے  کتے  کو شکار پر چھوڑا ہو تو جس جانور کو اس نے  تیرے  لئے  پکڑ رکھا ہے  تو اسے  کھا لے  کتے  نے  اس میں سے  کھایا ہو یا نہ کھایا ہو، یہی مروی ہے  حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے ۔ حضرت عطاء اور حضرت حسن بصری سے  اس میں مختلف اقوال مروی ہیں ، زہری ربیعہ اور مالک سے  بھی یہی روایت کی گئی ہے ، اسی کی طرف امام شافعی اپنے  پہلے  قول میں گئے  ہیں  اور نئے  قول میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ حضرت سلمان فارسی سے  ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جب کوئی شخص اپنے  کتے  کو شکار پر چھوڑے  پھر شکار کو اس حالت میں پائے  کہ کتے  نے  اسے  کھا لیا ہو تو جو باقی ہو اسے  وہ کھا سکتا ہے ۔ اس حدیث کی سند میں بقول ابن جریر نظر ہے  اور سعید راوی کا حضرت سلمان سے  سننا معلوم نہیں  ہوا اور دوسرے  ثقہ راوی اسے  مرفوع نہیں  کرتے  بلکہ حضرت سلمان کا قول نقل کرتے  ہیں  یہ قول ہے  تو صحیح لیکن اسی معنی کی اور مرفوع حدیثیں بھی مروی ہیں ، ابو داؤد میں ہے  حضرت عمرو بن شعیب اپنے  باپ سے  وہ اپنے  دادا سے  روایت کرتے  ہیں  کہ ایک اعرابی ابو ثعلبہ نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم میرے  پاس شکاری کتے  سدھائے  ہوئے  ہیں  ان کے  شکار کی نسبت کیا فتویٰ ہے ؟ آپ نے  فرمایا جو جانور وہ تیرے  لئے  پکڑیں وہ تجھ پر حلال ہے ، اس نے  کہا ذبح کر سکوں جب بھی اور ذبح نہ کر سکوں تو بھی؟ اور اگرچہ کتے  نے  کھا لیا ہو تو بھی؟ آپ نے  فرمایا ہاں گو کھا بھی لیا ہو، انہوں نے  دوسرا سوال کیا کہ میں اپنے  تیر کمان سے  جو شکار کروں اس کا کیا فتویٰ ہے ؟ فرمایا اسے  بھی تو کھا سکتا ہے ، پوچھا اگر وہ زندہ ملے  اور میں اسے  ذبح کر سکوں تو بھی اور تیر لگتے  ہی مر جائے  تو بھی؟ فرمایا بلکہ گو وہ تجھے  نظر نہ پڑے  اور ڈھونڈنے  سے  مل جائے  تو بھی۔ بشرطیکہ اس میں کسی دوسرے  شخص کے  تیر کا نشان نہ ہو، انہوں نے  تیسرا سوال کیا کہ بوقت ضرورت مجوسیوں کے  برتنوں کا استعمال کرنا ہمارے  لئے  کیسا ہے ؟ فرمایا تم انہیں  دھو ڈالو پھر ان میں کھا پی سکتے  ہو۔ یہ حدیث نسائی میں بھی ہے  ابو داؤد کی دوسری حدیث میں ہے  جب تو نے  اپنے  کتے  کو اللہ کا نام لے  کر چھوڑا ہو تو تو اس کے  شکار کو کھا سکتا ہے  گو اس نے  اس میں سے  کھا بھی لیا ہو اور تیرا ہاتھ جس شکار کو تیرے  لئے  لایا ہو اسے  بھی تو کھا سکتا ہے ۔ ان دونوں احادیث کی سندیں بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہیں  اور حدیث میں ہے  کہ تیرا سدھایا ہوا کتا جو شکار تیرے  لئے  کھیلے  تو اسے  کھا لے ، حضرت عدی نے  پوچھا اگرچہ اس نے  اس میں سے  کھا لیا ہو فرمایا ہاں پھر بھی، ان آثار اور احادیث سے  ثابت ہوتا ہے  کہ شکاری کتے  نے  شکار کو گو کھا لیا ہو تاہم بقیہ شکار شکاری کھا سکتا ہے ۔ کتے  وغیرہ کے  کھائے  ہوئے  شکار کو حرام نہ کہنے  والوں کے  یہ دلائل ہیں ۔ ایک اور جماعت ان دونوں جماعتوں کے  درمیان ہے  وہ کہتی ہے  کہ اگر شکار پکڑتے  ہی کھانے  بیٹھ گیا تو بقیہ حرام اور اگر شکار پکڑ کر اپنے  مالک کا انتظار کیا اور باوجود خاصی دیر گزر جانے  کے  اپنے  مالک کو نہ پایا اور بھوک کی وجہ سے  اسے  کھا لیا تو بقیہ حلال ۔ پہلی بات پر محمول ہے  حضرت عدی والی حدیث اور دوسری پر محمول ہے  ابو ثعلبہ والی حدیث میں ۔ یہ فرق بھی بہت اچھا ہے  اور اس سے  دو صحیح حدیثیں بھی جمع ہو جاتی ہیں ۔ استاذ ابو المعالی جوینی نے  اپنی کتاب نہایہ میں یہ تمنا ظاہر کی تھی کہ کاش کوئی اس بارہ میں یہ وضاحت کرے  تو الحمد اللہ یہ وضاحت لوگوں نے  کر لی۔ اس مسئلہ میں ایک چوتھا قول بھی ہے  وہ یہ کہ کتے  کا کھایا ہوا شکار تو حرام ہے  جیسا کہ حضرت عدی کی حدیث میں ہے ، اور شکرے  وغیرہ کا کھایا ہوا شکار حرام نہیں  اس لئے  کہ وہ تو کھانے  سے  ہی تعلیم قبول کرتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ اگر پرند اپنے  مالک کے  پاس لوٹ آیا اور مار سے  نہیں  پھر وہ پر نوچے  اور گوشت کھائے  تو کھا لے ۔ ابراہیم نخعی، شعبی، حماد بن سلیمان یہی کہتے  ہیں  ان کی دلیل ابن ابی حاتم کی یہ روایت ہے  کہ حضرت عدی نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور باز سے  شکار کھیلا کرتے  ہیں  تو ہمارے  لئے  کیا حلال ہے ؟ آپ نے  فرمایا جو شکاری جانور یا شکار حاصل کرنے  والے  خود شکار کرنے  والے  اور سدھائے  ہوئے  تمہارے  لئے  شکار روک رکھیں اور تم نے  ان پر اللہ کا نام لے  لیا ہو اسے  تم کھا لو۔ پھر فرمایا جسے  کتے  کو تو نے  اللہ کا نام لے  کر چھوڑا ہو وہ جس جانور کو روک رکھے  تو اسے  کھا لے  میں نے  کہا گو اسے  مار ڈالا ہو فرمایا گو مار ڈالا ہو لیکن یہ شرط ہے  کہ کھایا نہ ہو میں نے  کہا اگر اس کتے  کے  ساتھ دوسرے  کتے  بھی مل گئے  ہوں ؟ تو؟ فرمایا پھر نہ کھا جب تک کہ تجھے  اس بات کا پورا اطمینان نہ ہو کہ تیرے  ہی کتے  نے  شکار کیا ہے ۔ میں نے  کہا ہم لوگ تیر سے  بھی شکار کیا کرتے  ہیں  اس میں سے  کونسا حلال ہے ؟ فرمایا جو تیر زخمی کرے  اور تو نے  اللہ کا نام لے  کر چھوڑا ہو اسے  کھا لے ، وجہ دلالت یہ ہے  کہ کتے  میں نہ کھانے  کی شرط آپ نے  بتائی اور باز میں نہیں  بتائی، پس ان دونوں میں فرق ثابت ہو گیا واللہ اعلم۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے  کہ تم کھا لو جن حلال جانوروں کو تمہارے  یہ شکاری جانور پکڑ لیں اور تم نے  ان کے  چھوڑنے  کے  وقت اللہ کا نام لے  لیا ہو۔ جیسے  کہ حضرت عدی اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیث میں ہے  اسی لئے  حضرت امام احمد وغیرہ اماموں نے  یہ شرط ضروری بتلائی ہے  کہ شکار کیلئے  جانور کو چھوڑتے  وقت اور تیر چلاتے  وقت بسم اللہ پڑھنا شرط ہے ۔ جمہوری کا مشہور مذہب بھی یہی ہے  کہ اس آیت اور اس حدیث سے  مراد جانور کے  چھوڑنے  کا وقت ہے ، ابن عباس سے  مروی ہے  کہ اپنے  شکاری جانور کو بھیجتے  وقت بسم اللہ کہہ لے  ہاں اگر بھول جائے  تو کوئی حرج نہیں ۔ بعض لوگ کہتے  ہیں  کہ مراد کھانے  کے  وقت بسم اللہ پڑھنا ہے ۔ جیسے  کہ بخاری و مسلم میں عمر بن ابو سلمہ کے  ربیبہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا مروی ہے  کہ اللہ کا نام لے  اور اپنے  داہنے  ہاتھ سے  اپنے  سامنے  سے  کھا۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے  مروی ہے  کہ لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پوچھا لوگ ہمارے  پاس جو لوگ گوشت لاتے  ہیں  وہ نو مسلم ہیں  ہمیں اس کا علم نہیں  ہوتا کہ انہوں نے  اللہ کا نام لیا بھی ہے  یا نہیں ؟ تو کیا ہم اسے  کھا لیں آپ نے  فرمایا تم خود اللہ کا نام لے  لو اور کھا لو۔ مسند میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم چھ صحابہ کے  ساتھ کھانا تناول فرما رہے  تھے  کہ ایک اعرابی نے  آ کر دو لقمے  اس میں سے  اٹھائے  آپ نے  فرمایا اگر یہ بسم اللہ کہہ لیتا تو یہ کھانا تم سب کو کافی ہو جاتا تم میں سے  جب کوئی کھانے  بیٹھے  تو بسم اللہ پڑھ لیا کرے  اگر اول میں بھول گیا تو جب یاد آ جائے  کہہ دے  دعا (بسم اللہ اولہ و اخرہ) یہی حدیث منقطع سند کے  ساتھ ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ دوسری سند سے  یہ حدیث ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں ہے  اور امام ترمذی اسے  حسن صحیح بتاتے  ہیں ۔ جابربن صبیح فرماتے  ہیں ۔ حضرت مثنی بن عبدالرحمن خزاعی کے  ساتھ میں نے  واسط کا سفر کیا ان کی عادت یہ تھی کہ کھانا شروع کرتے  وقت بسم اللہ کہہ لیتے  اور آخری لقمہ کے  وقت دعا (بسم اللہ اولہ اخرہ) کہہ لیا کرتے  اور مجھ سے  انہوں نے  فرمایا کہ خالد بن امیہ بن مخشی صحابی کا فرمان ہے  کہ شیطان اس شخص کے  ساتھ کھانا کھاتا رہتا ہے  جس نے  اللہ کا نام نہ لیا ہو جب کھانے  والا اللہ کا نام یاد کرتا ہے  تو اسے  قے  ہو جاتی ہے  اور جتنا اس نے  کھایا ہے  سب نکل جاتا ہے  (مسند احمد وغیرہ) اس کے  راوی کو ابن معین اور نسائی تو ثقہ کہتے  ہیں  لیکن ابو الفتح ازوی فرماتے  ہیں  یہ دلیل لینے  کے  قابل راوی نہیں ۔ حضرت حذیفہ فرماتے  ہیں  ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ کھانا کھا رہے  تھے  کہ ایک لڑکی گرتی پڑتی آئی، جیسے  کوئی اسے  دھکے  دے  رہا ہو اور آتے  ہی اس نے  لقمہ اٹھانا چاہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس کا ہاتھ تھام لیا اور ایک اعرابی بھی اسی طرح آیا اور پیالے  میں ہاتھ ڈالا آپ نے  اس کا ہاتھ بھی اپنے  ہاتھ میں پکڑ لیا اور فرمایا جب کسی کھانے  پر بسم اللہ نہ کہی جائے  تو شیطان اسے  اپنے  لئے  حلال کر لیتا ہے  وہ پہلے  تو اس لڑکی کے  ساتھ آیا تاکہ ہمارا کھانا کھائے  تو میں نے  اس کا ہاتھ تھام لیا پھر وہ اعرابی کے  ساتھ میں نے  اس کا بھی ہاتھ تھام لیا اس کی قسم جس کے  قبضہ میں میری جان ہے  کہ شیطان کا ہاتھ ان دونوں کے  ہاتھ کے  ساتھ میرے  ہاتھ میں ہے  (مسند، مسلم، ابو داؤد، نسائی) مسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں ہے  کہ جب انسان اپنے  گھر میں جاتے  ہوئے  اور کھانا کھاتے  ہوئے  اللہ کا نام یاد کر لیا کرتا ہے  تو شیطان کہتا ہے  کہ اسے  شیطانو نہ تو تمہارے  لئے  رات گزارنے  کی جگہ ہے  نہ اس کا کھانا اور جب وہ گھر میں جاتے  ہوئے  کھاتے  ہوئے  اللہ کا نام نہیں  لیتا تو وہ پکار دیتا ہے  کہ تم نے  شب باشی کی اور کھانا کھانے  کی جگہ پالی۔ مسند، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے  کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں شکایت کی کہ ہم کھاتے  ہیں  اور ہمارا پیٹ نہیں  بھرتا تو آپ نے  فرمایا شاید تم الگ الگ کھاتے  ہو گے  کھانا سب مل کر کھاؤ اور بسم اللہ کہہ لیا کرو اس میں اللہ کی طرف سے  برکت دی جائے  گی۔

۵

ذبیحہ کس نام اور کن ہاتھوں کا حلال ہے ؟

حلال و حرام کے  بیان کے  بعد بطور خلاصہ فرمایا کہ کل ستھری چیزیں حلال ہیں ، پھر یہود و نصاریٰ کے  ذبح کئے  ہوئے  جانوروں کی حلت بیان فرمائی۔ حضرت ابن عباس، ابو امامہ، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ، عطاء، حسن، مکحول، ابراہیم، نخعی، سدی، مقاتل بن حیان یہ سب یہی کہتے  ہیں  کہ طعام سے  مراد ان کا اپنے  ہاتھ سے  ذبح کیا ہوا جانور ہے ، جس کا کھانا مسلمانوں کو حلال ہے ، علماء اسلام کا اس پر مکمل اتفاق ہے  کہ ان کا ذبیحہ ہمارے  لئے  حلال ہے ، کیونکہ وہ بھی غیر اللہ کیلئے  ذبح کرنا ناجائز جانتے  ہیں  اور ذبح کرتے  وقت اللہ کے  سوا دوسرے  کا نام نہیں  لیتے  گو ان کے  عقیدے  ذات باری کی نسبت یکسر اور سراسر باطل ہیں ، جن سے  اللہ تعالیٰ بلند و بالا اور پاک و منزہ ہے ۔ صحیح حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مغفل کا بیان ہے  کہ جنگ خیبر میں مجھے  چربی کی بھری ہوئی ایک مشک مل گئی، میں نے  اسے  قبضہ میں کیا اور کہا اس میں سے  تو آج میں کسی کو بھی حصہ نہ دونگا، اب جو ادھر ادھر نگاہ پھرائی تو دیکھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم میرے  پاس ہی کھڑے  ہوئے  تبسم فرما رہے  ہیں ۔ اس حدیث سے  یہ بھی استدلال کیا گیا ہے  کہ مال غنیمت میں سے  کھانے  پینے  کی ضروری چیزیں تقسیم سے  پہلے  بھی لے  لینی جائز ہیں  اور یہ استدلال اس حدیث سے  صاف ظاہر ہے ، تینوں مذہب کے  فقہاء نے  مالکیوں پر اپنی سند پیش کی ہے  اور کہا ہے  کہ تم جو کہتے  ہو کہ اہل کتاب کا وہی کھانا ہم پر حلال ہے  جو خود ان کے  ہاں بھی حلال ہو یہ غلط ہے  کیونکہ چربی کو یہودی حرام جانتے  ہیں  لیکن مسلمان کیلئے  حلال ہے  لیکن یہ ایک شخص کا انفرادی واقعہ ہے ۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ یہ وہ چربی ہو جسے  خود یہودی بھی حلال جانتے  تھے  یعنی پشت کی چربی انتڑیوں سے  لگی ہوئی چربی اور ہڈی سے  ملی ہوئی چربی، اس سے  بھی زیادہ دلالت والی تو وہ روایت ہے  جس میں ہے  کہ خیبر والوں نے  سالم بھنی ہوئی ایک بکری حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تحفہ میں دی جس کے  شانے  کے  گوشت کو انہوں نے  زہر آلود کر رکھا تھا کیونکہ انہیں  معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو شانے  کا گوشت پسند ہے ، چنانچہ آپ نے  اس کا یہی گوشت لے  کر منہ میں رکھ کر دانتوں سے  توڑا تو فرمان باری سے  اس شانے  نے  کہا، مجھ میں زہر ملا ہوا ہے ، آپ نے  اسی وقت اسے  تھوک دیا اور اس کا اثر آپ کے  سامنے  کے  دانتوں وغیرہ میں رہ گیا، آپ کے  ساتھ حضرت بشر بن براء بن معرور بھی تھے ، جو اسی کے  اثر سے  راہی بقاء ہوئے ، جن کے  قصاص میں زہر ملانے  والی عورت کو بھی قتل کیا گیا، جس کا نام زینب تھا، وجہ دلالت یہ ہے  کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  مع اپنے  ساتھیوں کے  اس گوشت کے  کھانے  کا پختہ ارادہ کر لیا اور یہ نہ پوچھا کہ اس کی جس چربی کو تم حلال جانتے  ہو اسے  نکال بھی ڈالا ہے  یا نہیں ؟ اور حدیث میں ہے  کہ ایک یہودی نے  آپ کی دعوت میں جو کی روٹی اور پرانی سوکھی چربی پیش کی تھی، حضرت مکحول فرماتے  ہیں  جس چیز پر نام رب نہ لیا جائے  اس کا کھانا حرام کرنے  کے  بعد اللہ تعالیٰ نے  مسلمانوں پر رحم فرما کر منسوخ کر کے  اہل کتاب کے  ذبح کئے  جانور حلال کر دئے  یہ یاد رہے  کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہونے  سے  یہ ثابت نہیں  ہوتا کہ جس جانور پر بھی نام الٰہی نہ لیا جائے  وہ حلال ہو؟ اس لئے  کہ وہ اپنے  ذبیحوں پر اللہ کا نام لیتے  تھے  بلکہ جس گوشت کو کھاتے  تھے  اسے  ذبیحہ پر موقوف نہ رکھتے  تھے  بلکہ مردہ جانور بھی کھا لیتے  تھے  لیکن سامرہ اور صائبہ اور ابراہیم وشیث وغیرہ پیغمبروں کے  دین کے  مدعی اس سے  مستثنیٰ تھے ، جیسے  کہ علماء کے  دو اقوال میں سے  ایک قول ہے  اور عرب کے  نصرانی جیسے  بنو تغلب، تنوخ بہرا، جذام لحم، عاملہ کے  ایسے  اور بھی ہیں  کہ جمہور کے  نزدیک ان کے  ہاتھ کا کیا ہوا ذبیحہ نہیں  کھایا جائے  گا۔ حضرت علی فرماتے  ہیں  قبیلہ بنو تغلب کے  ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور نہ کھاؤ، اس لئے  کہ انہوں نے  تو نصرانیت سے  سوائے  شراب نوشی کے  اور کوئی چیز نہیں  لی، ہاں سعید بن مسیب اور حسن بنو تغلب کے  نصاریٰ کے  ہاتھوں ذبح کئے  ہوئے  جانور کے  کھا لینے  میں کوئی حرج نہیں  جانتے  تھے ، باقی رہے  مجوسی ان سے  گو جزیہ لیا گیا ہے  کیونکہ انہیں  اس مسئلہ میں یہود و نصاریٰ میں ملا دیا گیا ہے  اور ان کا ہی تابع کر دیا گیا ہے ، لیکن ان کی عورتوں سے  نکاح کرنا اور ان کے  ذبح کئے  ہوئے  جانور کا کھانا ممنوع ہے ۔ ہاں ابو ثور ابراہیم بن خالد کلبی جو شافعی اور احمد کے  ساتھیوں میں سے  تھے ، اس کے  خلاف ہیں ، جب انہوں نے  اسے  جائز کہا اور لوگوں میں اس کی شہرت ہوئی تو فقہاء نے  اس قول کی زبردست تردید کی ہے ۔ یہاں تک کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے  تو فرمایا کہ ابو ثور اس مسئلہ میں اپنے  نام کی طرح ہی ہے  یعنی بیل کا باپ، ممکن ہے  ابو ثور نے  ایک حدیث کے  عموم کو سامنے  رکھ کر یہ فتویٰ دیا ہو جس میں حکم ہے  کہ مجوسیوں کے  ساتھ اہل کتاب کا سا طریقہ برتو لیکن اولاً تو یہ روایت ان الفاظ سے  ثابت ہی نہیں  دوسرے  یہ روایت مرسل ہے ، ہاں البتہ صحیح بخاری شریف میں صرف اتنا تو ہے  کہ ہجر کے  مجوسیوں سے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  جزیہ لیا ۔ علاوہ ان سب کے  ہم کہتے  ہیں  کہ ابوثور کی پیش کردہ حدیث کو اگر ہم صحیح مان لیں، تو بھی ہم کہہ سکتے  ہیں  کہ اس کے  عموم سے  بھی اس آیت میں حکم امتناعی کو دلیل بنا کر اہل کتاب کے  سوا اور دین والوں کا ذبیحہ بھی ہمارے  لئے  حرام ثابت ہوتا ہے ، پھر فرماتا ہے  کہ تمہارا ذبیحہ بھی ہمارے  لئے  حرام ثابت ہو سکتا ہے ، پھر فرماتا ہے  کہ تمہارا ذبیحہ ان کیلئے  حلال ہے  یعنی تم انہیں  اپنا ذبیحہ کھلا سکتے  ہو۔ یہ اس امر کی خبر نہیں  کہ ان کے  دین میں ان کیلئے  تمہارا ذبیحہ حلال ہے  ہاں زیادہ سے  زیادہ اتنا کہا جا سکتا ہے  کہ یہ اس بات کی خبر ہو کہ انہیں  بھی ان کی کتاب میں یہ حکم دیا گیا ہے  کہ جس جانور کا ذبیحہ اللہ کے  نام پر ہوا ہو اسے  وہ کھا سکتا ہے  بلحاظ اس سے  کہ ذبح کرنے  والا انہیں  میں سے  ہو یا ان کے  سوا کوئی اور ہو، لیکن زیادہ باوزن بات پہلی ہی ہے ۔ یعنی یہ کہ تمہیں  اجازت ہے  کہ انہیں  اپنا ذبیحہ کھلاؤ جیسے  کہ ان کے  ذبح کئے  ہوئے  جانور تم کھا لیتے  ہو۔ یہ گویا اول بدل کے  طور پر ہے ، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  عبد اللہ بن ابی بن سلول منافق کو اپنے  خاص کرتے  ہیں  کفن دیا جس کی وجہ سے  بعض حضرات نے  یہ بیان کیا ہے  کہ اس نے  آپ کے  چچا حضرت عباس کو اپنا کرتا دیا تھا جب وہ مدینے  میں آئے  تھے  تو آپ نے  اس کا بدلہ چکا دیا۔ ہاں ایک حدیث میں ہے  کہ مومن کے  سوا کسی اور کی ہم نشینی نہ کر اور اپنا کھانا بجز پرہیز گاروں کے  اور کسی کو نہ کھلا اسے  اس بدلے  کے  خلاف نہ سمجھنا چاہئے ، ہو سکتا ہے  کہ حدیث کا یہ حکم بطور پسندیدگی اور افضلیت کے  ہو، واللہ اعلم۔ پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ پاک دامن مومن عورتوں سے  نکاح کرنا تمہارے  لئے  حلال کر دیا گیا ہے  یہ بطور تمہید کے  ہے  اسی لئے  اس کے  بعد ہی فرمایا کہ تم سے  پہلے  جنہیں  کتاب دی گئی ہے  ان کی عفیفہ عورتوں سے  بھی نکاح تمہیں  حلال ہے ۔ یہ قول بھی ہے  کہ مراد محصنات سے  آزاد عورتیں ہیں  یعنی لونڈیاں نہ ہوں ۔ یہ قول حضرت مجاہد کی طرف منسوب ہے  اور حضرت مجاہد کے  الفاظ یہ ہیں  کہ محصنات سے  آزاد مراد ہیں  اور جب یہ ہے  تو جہاں اس قول کا وہ مطلب لیا جا سکتا ہے  کہ لونڈیاں اس سے  خارج ہیں  وہاں یہ معنی بھی لئے  جا سکتے  ہیں  کہ پاک دامن عفت شعار، جیسے  کہ انہی سے  دوسری روایت ان ہی لفظوں میں موجود ہے ، جمہور بھی کہتے  ہیں  اور یہ زیادہ ٹھیک بھی ہے ۔ تاکہ ذمیہ ہونے  کے  ساتھ ہی غیر عفیفہ ہونا شامل ہو کر بالکل ہی باعث فساد نہ بن جائے  اور اس کا خاوند صرف فضول بھرتی کے  طور پر بری رائے  پر نہ چل پڑے  پس بظاہر یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے  کہ محصنات سے  مراد عفت ماب اور بدکاری سے  بچاؤ والیاں ہی لی جائیں، جیسے  دوسری آیت میں محصنات کے  ساتھ ہی آیت (غیر مسافحات ولا متخذی اخدان) آیا ہے ۔ علماء اور مفسرین کا اس میں بھی اختلاف ہے  کہ کیا آیت ہر کتابیہ عفیفہ عورت پر مشتمل ہے ؟ خواہ وہ آزاد ہو خواہ لونڈی ہو؟ ابن جریر میں سلف کی ایک جماعت سے  اسے  نقل کیا ہے  جو کہتے  ہیں  کہ محصنات سے  مراد پاک دامن ہے ، ایک قول یہ بھی کہا گیا ہے  کہ یہاں مراد اہل کتاب سے  اسرائیلی عورتیں ہیں ، امام شافعی کا یہی مذہب ہے  اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ اس سے  مراد ذمیہ عورتیں ہیں  سوائے  آزاد عورتوں کے  اور دلیل یہ آیت ہے  (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر) الخ، یعنی ان سے  لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے  دن پر ایمان نہیں  لاتے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر نصرانیہ عورتوں سے  نکاح کرنا جائز نہیں  جانتے  تھے  اور فرماتے  تھے  اس سے  بڑا شرک کیا ہو گا؟ کہ وہ کہتی ہو کہ اس کا رب عیسیٰ ہے  اور جب یہ مشرک ٹھہریں تو نص قرآنی موجود ہے  کہ آیت (ولا تنکحوا المشرکات حتی یومن) الخ، یعنی مشرکہ عورتوں سے  نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے  مروی ہے  کہ جب مشرکہ عورتوں سے  نکاح نہ کرنے  کا حکم نازل ہوا تو صحابہ ان سے  رک گئے  یہاں تک کہ اس کے  بعد کی آیت اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے  نکاح کرنے  کی رخصت نازل ہوئی تو صحابہ نے  اہل کتاب عورتوں سے  نکاح کئے  اور صحابہ کی ایک جماعت سے  ایسے  نکاح اسی آیت کو دلیل بنا کر کرنے  ثابت ہیں  تو گویا پہلے  سورہ بقرہ کی آیت کی ممانعت میں یہ داخل تھیں لیکن دوسری آیت نے  انہیں  مخصوص کر دیا۔ یہ اس وقت جب یہ مان لیا جائے  کہ ممانعت والی آیت کے  حکم میں یہ بھی داخل تھیں ورنہ ان دونوں آیتوں میں کوئی معارض نہیں ، اس لئے  کہ اور بھی بہت سی آیتوں میں عام مشرکین سے  انہیں  الگ بیان کیا گیا ہے  جیسے  آیت لم یکن الذین کفروا ۔قل اللذین اوتوا الکتاب والامین۔ پھر فرماتا ہے  جب تم انہیں  ان کے  مقررہ مہر دے  دو وہ اپنے  نفس کو بچانے  والیاں ہوں اور تم ان کے  مہر ادا کرنے  والے  ہو، حضرت جابر بن عبد اللہ عامر شعبی ابراہیم نخعی حسن بصری کا فتویٰ ہے  کہ جب کسی شخص نے  کسی عورت سے  نکاح کیا اور دخول سے  پہلے  اس نے  بدکاری کی تو میاں بیوی میں تفریق کرا دی جائے  گی اور جو مہر خاوند نے  عورت کو دیا ہے  اسے  واپس دلوایا جائے  گا (ابن جریر) پھر فرماتا ہے  تم بھی پاک دامن عفت ماب ہو اور علانیہ یا پوشیدہ بدکار نہ ہوؤ۔ پس عورتوں میں جس طرح پاک دامن اور عفیفہ ہونے  کی شرط لگائی تھی مردوں میں بھی یہی شرط لگائی اور ساتھ ہی فرمایا کہ وہ کھلے  بدکار نہ ہوں کہ ادھر ادھر منہ مارتے  پھرتے  ہوں اور نہ ایسے  ہوں کہ خاص تعلق سے  حرام کاری کرتے  ہوں ۔ سورہ نساء میں بھی اسی کے  تماثل حکم گزر چکا ہے ۔ حضرت امام احمد اسی طرف گئے  ہیں  کہ زانیہ عورتوں سے  توبہ سے  پہلے  ہرگز کسی بھلے  آدمی کو نکاح کرنا جائز نہیں ، اور یہی حکم ان کے  نزدیک مردوں کا بھی ہے  کہ بدکار مردوں کا نکاح نیک کار عفت شعار عورتوں سے  بھی ناجائز ہے  جب تک وہ سچی توبہ نہ کریں اور اس رذیل فعل سے  باز نہ آجائیں ۔ ان کی دلیل ایک حدیث بھی ہے  جس میں ہے  کوڑے  لگایا ہوا زانی اپنے  جیسی سے  ہی نکاح کر سکتا ہے ۔ خلیفۃ المومنین حضرت عمر فاروق نے  ایک مرتبہ فرمایا کہ میں ارادہ کر رہا ہوں کہ جو مسلمان کوئی بدکاری کرے  میں اسے  ہرگز کسی مسلمان پاک دامن عورت سے  نکاح نہ کرنے  دوں ۔ اس پر حضرت ابی بن کعب نے  عرض کی کہ اے  امیر المومنین شرک اس سے  بہت بڑا ہے  اس کے  باوجود بھی اس کی توبہ قبول ہے ۔ اس مسئلے  کو ہم آیت (الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ)  الخء، کی تفسیر میں پوری طرح بیان کریں گے  انشاء اللہ تعالیٰ۔ آیت کے  خاتمہ پر ارشاد ہوتا ہے  کہ کفار کے  اعمال اکارت ہیں  اور وہ آخرت میں نقصان یافتہ ہیں ۔

۶

وضو اور غسل کے احکامات

اکثر مفسرین نے  کہا ہے  کہ حکم وضو اس وقت ہے  جب کہ آدمی بے  وضو ہو۔ ایک جماعت کہتی ہے  جب تم کھڑے  ہو یعنی نیند سے  جاگو یہ دونوں قول تقریباً ایک ہی مطلب کے  ہیں  اور حضرات فرماتے  ہیں  آیت تو عام ہے  اور اپنے  عموم پر ہی رہے  گی لیکن جو بے  وضو ہو اس پر وضو کرنے  کا حکم وجوباً ہے  اور جو باوضو ہو اس پر استحباباً۔ ایک جماعت کا خیال ہے  کہ ابتداء اسلام میں ہر صلوٰۃ کے  وقت وضو کرنے  کا حکم تھا پھر منسوخ ہو گیا۔ مسند احمد وغیرہ میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہر نماز کیلئے  تازہ وضو کیا کرتے  تھے ، فتح مکہ والے  دن آپ نے  وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا اور اسی ایک وضو سے  کئی نمازیں ادا کیں، یہ دیکھ کر حضرت عمر نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آج آپ نے  وہ کام کیا جو آج سے  پہلے  نہیں  کرتے  تھے ۔ آپ نے  فرمایا ہاں میں نے  بھول کر ایسا نہیں  کیا بلکہ جان بوجھ کر قصداً یہ کیا ہے ، ابن ماجہ وغیرہ میں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ ایک وضو سے  کئی نمازیں پڑھا کرتے  تھے  ہاں پیشاب کریں یا وضو ٹوٹ جائے  تو نیا وضو کر لیا کرتے  اور وضو ہی کے  بچے  ہوئے  پانی سے  جرابوں پر مسح کر لیا کرتے ۔ یہ دیکھ کر حضرت فضل بن مبشر نے  سوال کیا کہ کیا آپ اسے  اپنی رائے  سے  کرتے  ہیں ؟ فرمایا نہیں  بلکہ میں نے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسا کرتے  دیکھا، مسند احمد وغیرہ میں ہے  کہ حضرت عبد اللہ بن عمر کو ہر نماز کیلئے  تازہ وضو کرتے  دیکھ کر خواہ وضو ٹوٹا ہو یا نہ ٹوٹا ہو ان کے  صاحبزادے  عبید اللہ سے  سوال ہوتا ہے  کہ اس کی کیا سند ہے ؟ فرمایا اس سے  حضرت اسماء بنت زید بن خطاب نے  کہا ہے  کہ ان سے  حضرت عبد اللہ بن حنظلہ نے  جو فرشتوں کے  غسل دئیے  ہوئے  کے  صاحبزادے  تھے  بیان کیا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ہر نماز کیلئے  تازہ وضو کرنے  کا حکم دیا گیا تھا اس حالت میں وضو باقی ہو تو بھی اور نہ ہو تو بھی، لیکن اس میں قدرے  مشقت معلوم ہوئی تو وضو کے  حکم کے  بدلے  مسواک کا حکم رکھا گیا ہاں جب وضو ٹوٹے  تو نماز کیلئے  نیا وضو ضروری ہے  اسے  سامنے  رکھ کر حضرت عبد اللہ کا خیال ہے  کہ چونکہ انہیں  قوت ہے  اس لئے  وہ ہر نماز کے  وقت وضو کرتے  ہیں ۔ آخری دم تک آپ کا یہی حال رہا، رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعن والدہ۔ اس کے  ایک راوی حضرت محمد بن اسحاق ہیں  لیکن چونکہ انہوں نے  صراحت کے  ساتھ حدثنا کہا ہے  اس لئے  تدلیس کا خوف بھی جاتا رہا۔ ہاں ابن عسا کر کی روایت میں یہ لفظ نہیں  اللہ اعلم۔ حضرت عبد اللہ کے  اس فعل اور اس پر ہمیشگی سے  یہ ثابت ہوتا ہے  کہ یہ مستحب ضرور ہے  اور یہی مذہب جمہور کا ہے ۔ ابن جریر میں ہے  کہ خلفاء ہر نماز کے  وقت وضو کر لیا کرتے  تھے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ یوم القیامہ ہر نماز کیلئے  وضو کرتے  اور دلیل میں یہ آیت تلاوت فرما دیتے  ایک مرتبہ آپ نے  ظہر کی نماز ادا کی پھر لوگوں کے  مجمع میں تشریف فرما تھے  پھر پانی لایا گیا اور آپ نے  منہ دھویا ہاتھ دھوئے  پھر سر کا مسح کیا اور پھر پیر کا۔ اور فرمایا یہ وضو ہے  اس کا جو بے  وضو نہ ہوا ہو، ایک مرتبہ آپ نے  خفیف وضو کر کے  بھی یہی فرمایا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضوان اللہ علیہ سے  بھی اسی طرح مروی ہے ۔ ابوداؤد طیالسی میں حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے  کہ وضو ٹوٹے  بغیر وضو کرنا زیادتی ہے ۔ اولاً تو یہ فعل سنداً بہت غریب ہے ، دوسرا یہ کہ مراد اس سے  وہ شخص ہے  جو اسے  واجب جانتا ہو اور صرف مستحب سمجھ کر جو ایسا کرے  وہ تو عامل بالحدیث ہے ، بخاری سنن وغیرہ میں مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہر نماز کیلئے  نیا وضو کرتے  تھے ، ایک انصاری نے  حضرت انس سے  یہ سن کر کہا اور آپ لوگ کیا کرتے  تھے ؟ فرمایا ایک وضو سے  کئی نمازیں پڑھتے  تھے  جب تک وضو ٹوٹے  نہیں ، ابن جریر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان مروی ہے  کہ جو شخص وضو پر وضو کرے  اس کیلئے  دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، ترمذی وغیرہ میں بھی یہ روایت ہے  اور امام ترمذی نے  اسے  ضعیف کہا ہے  ایک جماعت کہتی ہے  کہ آیت سے  صرف اتنا ہی مقصود ہے  کہ کسی اور کام کے  وقت وضو کرنا واجب نہیں  صرف نماز کیلئے  ہی اس کا وجوب ہے ۔ یہ فرمان اس لئے  ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت یہ تھی کہ وضو ٹوٹنے  پر کوئی کام نہ کرتے  تھے  جب تک پھر وضو نہ کر لیں، ابن ابی حاتم وغیرہ کی ایک ضعیف غریب روایت میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب پیشاب کا ارادہ کرتے  ہم آپ سے  بولتے  لیکن آپ جواب نہ دیتے  ہم سلام علیک کرتے  پھر بھی جواب نہ دیتے  یہاں تک کہ یہ آیت رخصت کی اتری۔ ابوداؤد میں ہے  کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پاخانے  سے  نکلے  اور کھانا آپ کے  سامنے  لایا گیا تو ہم نے  کہا اگر فرمائیں تو وضو کا پانی کا حاضر کریں فرمایا وضو کا حکم تو مجھے  صرف نماز کیلئے  کھڑا ہونے  کے  وقت ہی کیا گیا ہے ۔ امام ترمذی اسے  حسن بتاتے  ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ آپ نے  فرمایا مجھے  کچھ نماز تھوڑا ہی پڑھنی ہے  جو میں وضو کروں ۔ آیت کے  ان الفاظ سے  کہ جب تم نماز کیلئے  کھڑے  ہو تو وضو کر لیا کرو علماء کرام کی ایک جماعت نے  استدلال کیا ہے  کہ وضو میں نیت واجب ہے ، مطلب کلام اللہ شریف کا یہ ہے  کہ نماز کیلئے  وضو کر لیا کرو۔ جیسے  عرب میں کہا جاتا ہے ، جب تو امیر کو دیکھے  تو کھڑا ہو جا تو مطلب یہ ہوتا ہے  کہ امیر کیلئے  کھڑا ہو جا۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے  اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے  اور ہر شخص کیلئے  صرف وہی ہے  جو وہ نیت کرے  اور منہ کے  دھونے  سے  پہلے  وضو میں بسم اللہ کہنا مستحب ہے ۔ کیونکہ ایک پختہ اور بالکل صحیح حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اس شخص کا وضو نہیں  جو اپنے  وضو میں بسم اللہ نہ کہے  (حدیث کے  ظاہری الفاظ تو نیت کی طرح بسم اللہ کہنے  پر بھی وجوب کی دلالت کرتے  ہیں  واللہ اعلم۔ مترجم) یہ بھی یاد رہے  کہ وضو کے  پانی کے  برتن میں ہاتھ ڈالنے  سے  پہلے  کا ان کا دھو لینا مستحب ہے  اور جب نیند سے  اٹھا ہو تب تو سخت تاکید آتی ہے  بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان مروی ہے  کہ تم میں سے  کوئی نیند سے  جاگ کر برتن میں ہاتھ نہ ڈالے  جب تک کہ تین مرتبہ دھو نہ لے ، اسے  نہیں  معلوم کہ اس کے  ہاتھ رات کے  وقت کہاں رہے  ہوں ؟ منہ کی حد فقہاء کے  نزدیک لمبائی میں سر کے  بالوں کی اگنے  کی جو جگہ عموماً ہے  وہاں سے  داڑھی کی ہڈی اور تھوڑی تک ہے  اور چوڑائی میں ایک کان سے  دوسرے  کان تک۔ اس میں اختلاف ہے  کہ دونوں جانب کی پیشانی کے  اڑے  ہوئے  بالوں کی جگہ سر کے  حکم میں ہے  یا منہ کے ؟ اور داڑھی کے  لکٹتے  ہوئے  بالوں کا دھونا منہ کے  دھونے  کی فرضیت میں داخل ہے  یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ، ایک تو یہ کہ ان پر پانی کا بہانا واجب ہے  اس لئے  کہ منہ سامنے  کرنے  کے  وقت اس کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک شخص کو داڑھی ڈھانپے  ہوئے  دیکھ کر فرمایا اسے  کھول دے  یہ بھی منہ میں داخل ہے ، حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  عرب کا محاورہ بھی یہی ہے  کہ جب بچے  کے  داڑھی نکلتی ہے  تو وہ کہتے  ہیں  طلع وجھہ پس معلوم ہوتا ہے  کہ کلام عرب میں داڑھی منہ کے  حکم میں ہے  اور لفظ وجہہ میں داخل ہے ۔ داڑھی گھنی اور بھری ہوئی ہو تو اس کا خلال کرنا بھی مستحب ہے ۔ حضرت عثمان کے  وضو کا ذکر کرتے  ہوئے  راوی کہتا ہے  کہ آپ نے  منہ دھوتے  وقت تین دفعہ داڑھی کا خلال کیا۔ پھر فرمایا جس طرح تم نے  مجھے  کرتے  دیکھا اسی طرح میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کرتے  دیکھا ہے  (ترمذی وغیرہ) اس روایت کو امام بخاری اور امام ترمذی حسن بتاتے  ہیں  ابو داؤد میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم وضو کرتے  وقت ایک چلو پانی لے  کر اپنی تھوڑی تلے  ڈال کر اپنی داڑھی مبارک کا خلال کرتے  تھے  اور فرماتے  تھے  کہ مجھے  میرے  رب عزوجل نے  اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔ حضرت امام بیہقی فرماتے  ہیں  داڑھی کا خلال کرنا حضرت عمار حضرت عائشہ حضرت ام سلمہ حضرت علی سے  مروی ہے ، اور اس کے  ترک کی رخصت ابن عمر حسن بن علی اور تابعین کی ایک جماعت سے  مروی ہے  صحاح وغیرہ میں مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب وضو کرتے  بیٹھتے  کلی کرتے  اور ناک میں پانی دیئے ۔ ائمہ کا اس میں اختلاف ہے  کہ یہ دونوں وضو اور غسل میں میں واجب ہیں  یا مستحب؟ امام احمد بن حنبل کا مذہب تو وجوب کا ہے  اور امام شافعی اور امام مالک مستحب کہتے  ہیں  ان کی دلیل سنن کی وہ صحیح حدیث ہے  جس میں جلدی جلدی نماز پڑھنے  والے  سے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا مروی ہے  کہ وضو کر جس طرح اللہ نے  تجھے  حکم دیا ہے ، امام حنیفہ کا مسلک یہ ہے  کہ غسل میں واجب اور وضو میں نہیں ، ایک روایت امام احمد سے  مروی ہے  کہ ناک میں پانی دینا تو واجب اور کلی کرنا مستحب، کیونکہ بخاری و مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے  جو وضو کرے  وہ ناک میں پانی ڈالے  اور روایت میں ہے  تم میں سے  جو وضو کرے  وہ اپنے  دونوں نتھنوں میں پانی ڈالے  اور اچھی طرح وضو کرے ۔ مسند احمد اور بخاری میں ہے  حضرت عبد اللہ بن عباس وضو کرنے  بیٹھے  تو منہ دھویا ایک چلو پانی کا لے  کر کلی کی اور ناک کو صاف کیا پھر ایک چلو لے  کر داہنا ہاتھ دھویا پھر ایک چلو لے  کر اسی سے  بایاں ہاتھ دھویا۔ پھر اپنے  سر کا مسح کیا۔ پھر پانی کا ایک چلو لے  کر اپنے  داہنے  پاؤں پر ڈال کر اسے  دھویا پھر ایک چلو سے  بایاں پاؤں دھویا۔ پھر فرمایا میں نے  اللہ کے  پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے  دیکھا ہے ۔ (الی المرافق) سے  مراد (مع المرافق) ہے ، جیسے  فرمان ہے  آیت (ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم انہ کان حوبا کبرا) یعنی یتیموں کے  مالوں کو اپنے  مالوں سمیت نہ کھا جایا کرو یہ بڑا ہی گناہ ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی ہے  کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک نہیں ، بلکہ کہنیوں سمیت دھونا چاہئے ۔ دار قطنی وغیرہ میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم وضو کرتے  ہوئے  اپنی کہنیوں پر پانی بہاتے  تھے ، لیکن اس کے  دو راویوں میں کلام ہے ۔ واللہ اعلم۔ وضو کرنے  والے  کیلئے  مستحب ہے  کہ کہنیوں سے  آگے  اپنے  شانے  کو بھی وضو میں دھوئے  کیونکہ بخاری مسلم میں حدیث ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  میری امت وضو کے  نشانوں کی وجہ سے  قیامت کے  دن چمکتے  ہوئے  اعضاؤں سے  آئے  گی پس تم میں سے  جس سے  وہ ہو سکے  وہ اپنی چمک کو دور تک لے  جائے  صحیح مسلم میں ہے  مومن کو وہاں تک زیور پہنائے  جائیں گے  جہاں تک اس کے  وضو کا پانی پہنچتا تھا۔ (برؤسکم) میں جواب ہے  اس کا الحاق یعنی ملا دینے  کیلئے  ہونا تو زیادہ غالب ہے  اور تبعیض یعنی کچھ حصے  کیلئے  ہونا تامل طلب ہے ۔ بعض اصولی حضرات فرماتے  ہیں  چونکہ آیت میں اجمال ہے  اس لئے  سنت نے  جو اس کی تفصیل کی ہے  وہی معتبر ہے  اور اسی کی طرف لوٹنا پڑے  گا، حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم صحابی سے  ایک شخص نے  کہا "آپ وضو کر کے  ہمیں بتلایئے ۔ آپ نے  پانی منگوایا اور اپنے  دونوں ہاتھ دو دو دفعہ دھوئے ، پھر تین بار کلی کی اور ناک میں پانی دیا، تین ہی دفعہ اپنا منہ دھویا، پھر کہنیوں سمیت اپنے  دونوں ہاتھ دو مرتبہ دھوئے ، پھر دونوں ہاتھ سے  سر کا مسح کیا سر کے  ابتدائی حصے  سے  گدی تک لے  گئے ، پھر وہاں سے  یہیں  تک واپس لائے ، پھر اپنے  دونوں پیر دھوئے  (بخاری و مسلم) حضرت علی سے  بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  وضو کا طریقہ اسی طرح منقول ہے ۔ ابو داؤد میں حضرت معاویہ اور حضرت مقداد سے  بھی اسی طرح مروی ہے ، یہ حدیثیں دلیل ہیں  اس پر کہ پورے  سر کا مسح فرض ہے ۔ یہی مذہب حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا ہے  اور یہی مذہب ان تمام حضرات کا ہے  جو آیت کو مجمل مانتے  ہیں  اور حدیث کو اس کی وضاحت جانتے  ہیں  حنیفوں کا خیال ہے  کہ چوتھائی سر کا مسح فرض ہے  جو سر کا ابتدائی حصہ ہے  اور ہمارے  ساتھی کہتے  ہیں  کہ فرض صرف اتنا ہے  جتنے  پر مسح کا اطلاق ہو جائے ، اس کی کوئی حد نہیں ۔ سر کے  چند بالوں پر بھی مسح ہو گیا تو فرضیت پوری ہو گئی، ان دونوں جماعتوں کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ والی حدیث ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیچھے  رہ گئے  اور میں بھی آپ کے  ساتھ پیچھے  رہ گیا جب آپ قضائے  حاجت کر چکے  تو مجھ سے  پانی طلب کیا میں لوٹا لے  آیا آپ نے  اپنے  دونوں پہنچے  دھوئے  پھر منہ دھویا پھر کلائیوں پر سے  کپڑا ہٹایا اور پیشانی سے  ملے  ہوئے  بالوں اور پگڑی پر مسح کر کے  باقی پگڑی پر پورا کر لیا اور اس کی بہت سی مثالیں احادیث میں ہیں  ۔ آپ صافے  پر اور جرابوں پر برابر مسح کیا کرتے  تھے ، پس یہی اولی ہے  اور اس میں ہرگز اس بات پر کوئی دلالت نہیں  کہ سر کے  بعض حصے  پر یا صرف پیشانی کے  بالوں پر ہی مسح کر لے  اور اس کی تکمیل پگڑی پر نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ پھر اس میں بھی اختلاف ہے  کہ سر کا مسح بھی تین بار ہو یا ایک ہی بار؟ امام شافعی کا مشہور مذہب اول ہے  اور امام احمد اور ان کے  متبعین کا دوم ۔ دلائل یہ ہیں  حضرت عثمان بن عفان وضو کرنے  بیٹھتے  ہیں  اپنے  دونوں ہاتھوں پر تین بار پانی ڈالتے  ہیں ، انہیں  دھو کر پھر کلی کرتے  ہیں  اور ناک میں پانی دیتے  ہیں ، پھر تین مرتبہ منہ دھوتے  ہیں ، پھر تین تین بار دونوں ہاتھو کہنیوں سمیت دھوتے  ہیں ، پہلے  دایاں پھر بایاں ۔ پھر اپنے  سر کا مسح کرتے  ہیں  پھر دونوں پیر تین تین بار دھوتے  ہیں  پہلے  داہنا پھر بایاں ۔ پھر آپ نے  فرمایا میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے  دیکھا اور وضو کے  بعد آپ نے  فرمایا جو شخص میرے  اس وضو جیسا وضو کرے  پھر دو رکعت نماز ادا کرے  جس میں دل سے  باتیں نہ کرے  تو اس کے  تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے  ہیں  (بخاری و مسلم) سنن ابی داؤد میں اسی روایت میں سر کے  مسح کرنے  کے  ساتھ ہی یہ لفظ بھی ہیں  کہ سر کا مسح ایک مرتبہ کیا، حضرت علی سے  بھی اسی طرح مروی ہے  اور جن لوگوں نے  سر کے  مسح کو بھی تین بار کہا ہے  انہوں نے  حدیث سے  دلیل لی ہے ۔ جس میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  تین تین بار اعضاء وضو کو دھویا۔ حضرت عثمان سے  مروی ہے  کہ آپ نے  وضو کیا پھر اسی طرح روایت ہے  اور اس میں کلی کرنی اور ناک میں پانی دینے  کا ذکر نہیں  اور اس میں ہے  کہ پھر آپ نے  تین مرتبہ سر کا مسح کیا اور تین مرتبہ اپنے  دونوں پیر دھوئے ۔ پھر فرمایا میں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح کرتے  دیکھا اور آپ نے  فرمایا جو ایسا وضو کرے  اسے  کافی ہے ۔ لیکن حضرت عثمان سے  جو حدیثیں صحاح میں مروی ہیں  ان سے  تو سر کا مسح ایک بار ہی ثابت ہوتا ہے  (ارجلکم) لام کی زبر سے  عطف ہے  جو (وجوھکم و ایدیکم) پر ماتحت ہے  دھونے  کے  حکم کے ۔ ابن عباس یونہی پڑھتے  تھے  اور یہی فرماتے  تھے ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عروہ، حضرت عطاء، حضرت عکرمہ، حضرت حسن، حضرت مجاہد، حضرت ابراہیم، حضرت ضحاک، حضرت سدی، حضرت مقاتل بن حیان، حضرت زہری، حضرت ابراہیم تیمی وغیرہ کا یہی قول اور یہی قرات ہے ، اور یہ بالکل ظاہر ہے  کہ پاؤں دھونے  چاہئیں، یہی سلف کا فرمان ہے  اور یہیں  سے  جمہور نے  وضو کی ترتیب کے  وجوب پر استدلال کیا ہے ، صرف ابو حنیفہ اس کے  خلاف ہیں ، وہ وضو میں ترتیب کو شرط نہیں  جانتے ۔ ان کے  نزدیک اگر کوئی شخص پہلے  پیروں کو دھوئے  پھر سر کا مسح کرے  پھر ہاتھ دھوئے  پھر منہ دھوئے  جب بھی جائز ہے  اس لئے  کہ آیت نے  ان اعضاء کے  دھونے  کا حکم دیا ہے ۔ واؤ کی دلالت ترتیب پر نہیں  ہوتی، اس کے  جواب جمہور نے  کئی ایک دیئے  ہیں ، ایک تو یہ کہ "ف" ترتیب پر دلالت کرتی ہے ، آیت کے  الفاظ میں نماز پڑھنے  والے  کو منہ دھونے  کا حکم لفظ (فاغسلوا) سے  ہوتا ہے ۔ تو کم از کم منہ کا اول اول دھونا تو لفظوں سے  ثابت ہو گیا اب اس کے  بعد کے  اعضاء میں ترتیب اجماع سے  ثابت ہے  جس میں اختلاف نظر نہیں  آتا۔ پھر جبکہ "ف" جو تعقیب کیلئے  ہے  اور جو ترتیب کی مقتضی ہے  ایک پر داخل ہو چکی تو اس ایک کی ترتیب مانتے  ہوئے  دوسری کی ترتیب کا انکار کوئی نہیں  کرتا بلکہ تو سب کی ترتیب کے  قائل ہیں  یا کسی ایک کی بھی ترتیب کے  قائل نہیں ۔ پس یہ آیت ان پر یقیناً حجت ہے  جو سرے  سے  ترتیب کے  منکر ہیں ، دوسرا جواب یہ ہے  کہ واؤ ترتیب پر دلالت نہیں  کرتا اسے  بھی ہم تسلیم نہیں  کرتے  بلکہ وہ ترتیب پر دلالت کرتا ہے  جیسے  کہ نحویوں کی ایک جماعت کا اور بعض فقہاء کا مذہب ہے  پھر یہ چیز بھی قابل غور ہے  کہ بالفرض لغتاً اس کی دلالت پر ترتیب پر نہ بھی ہوتا ہم شرعاً تو جن چیزوں میں ترتیب ہو سکتی ہے  ان میں اس کی دلالت ترتیب پر ہوتی ہے ، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں حدیث ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بیت اللہ شریف کا طواف کر کے  باب صفا سے  نکلے  تو آپ آیت (ان الصفا المروۃ من شعائر اللہ) کی تلاوت کر رہے  تھے  اور فرمایا میں اسی سے  شروع کروں گا جسے  اللہ نے  پہلے  بیان فرمایا، چنانچہ صفا سے  سعی شروع کی، نسائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم دینا بھی مروی ہے  کہ اس سے  شروع کرو جس سے  اللہ تعالیٰ نے  شروع کیا۔ اس کی اسناد بھی صحیح ہے  اور اس میں امر ہے  پس معلوم ہوا کہ جس کا ذکر پہلے  ہو اسے  پہلے  کرنا اور اس کے  بعد اسے  جس کا ذکر بعد میں ہو کرنا واجب ہے ۔ پس صاف ثابت ہو گیا کہ ایسے  مواقع پر شرعاً ترتیب مراد ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم، تیسری جماعت جواباً کہتی ہے  ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونے  کے  حکم اور پیروں کو دھونے  کے  حکم کے  درمیان سر کے  مسح کے  حکم کو بیان کرنا اس امر کی صاف دلیل ہے  کہ مراد ترتیب کو باقی رکھنا ہے ، ورنہ نظم کلام کو یوں الٹ پلٹ نہ کیا جاتا۔ ایک جواب اس کا یہ بھی ہے  کہ ابو داؤد وغیرہ میں صحیح سند سے  مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اعضاء وضو کو ایک ایک بار دھو کر وضو کیا پھر فرمایا یہ وضو ہے  کہ جس کے  بغیر اللہ تعالیٰ نے  نماز کو قبول نہیں  کرتا۔ اب دو صورتیں ہیں  یا تو اس وضو میں ترتیب تھی یا نہ تھی؟ اگر کہا جائے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ وضو مرتب تھا یعنی باقاعدہ ایک کے  پیچھے  ایک عضو دھویا تھا تو معلوم ہوا کہ جس وضو میں تقدیم تاخیر ہو اور صحیح طور پر ترتیب نہ ہو وہ نماز نامقبول لہٰذا ترتیب واجب و فرض اور اگر یہ مان لیا جائے  کہ اس وضو میں ترتیب نہ تھی بلکہ بے  ترتیب تھا، پیر دھو لئے  پھر کلی کر لی پھر مسح کر لیا پھر منہ دھو لیا وغیرہ تو عدم ترتیب واجب ہو جائے  گی حالانکہ اس کا قائل امت میں سے  ایک بھی نہیں  پس ثابت ہو گیا کہ وضو میں ترتیب فرض ہے ، آیت کے  اس جملے  کی ایک قرات اور بھی ہے  یعنی (وارجلکم) لام کے  زیر سے  اور اسی سے  شیعہ نے  اپنے  اس قول کی دلیل لی ہے  کہ پیروں پر مسح کرنا واجب ہے  کیونکہ ان کے  نزدیک اس کا عطف سر کے  مسح کرنے  پر ہے ۔ بعض سلف سے  بھی کچھ ایسے  اقوال مروی ہیں  جن سے  مسح کے  قول کا وہم پڑتا ہے ، چنانچہ ابن جریر میں ہے  کہ موسیٰ بن انس نے  حضرت انس سے  لوگوں کی موجودگی میں کہا کہ حجاج نے  اہواز میں خطبہ دیتے  ہوئے  طہارت اور وضو کے  احکام میں کہا کہ منہ ہاتھ دھوؤ اور سر کا مسح کرو اور پیروں کو دھویا کرو عموماً پیروں پر ہی گندگی لگتی ہے ۔ پس تلوؤں کو اور پیروں کی پشت کو اور ایڑی کو خوب اچھی طرح دھویا کرو۔ حضرت انس نے  جواباً کہا کہ اللہ سچا ہے  اور حجاج چھوٹا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (وامسحو برؤسکم وارجلکم) اور حضرت انس کی عادت تھی کہ پیروں کا جب مسح کرتے  انہیں  بالکل بھگو لیا کرتے ، آپ ہی سے  مروی ہے  کہ قرآن کریم میں پیروں پر مسح کرنے  کا حکم ہے ، ہاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پیروں کا دھونا ہے ۔ ابن عباس سے  مروی ہے  کہ وضو میں دو چیزوں کا دھونا ہے  اور دو پر مسح کرنا۔ حضرت قتادہ سے  بھی یہی مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں حضرت عبد اللہ سے  مروی ہے  کہ آیت میں پیروں پر مسح کرنے  کا بیان ہے ۔ ابن عمر، علقمہ، ابو جعفر، محمد بن علی اور ایک روایت میں حضرت حسن اور جابر بن زید اور ایک روایت میں مجاہد سے  بھی اسی طرح مروی ہے ۔ حضرت عکرمہ اپنے  پیروں پر مسح کر لیا کرتے  تھے  شعبی فرماتے  ہیں  کہ حضرت جبرائیل کی معرفت مسح کا حکم نازل ہوا ہے ، آپ سے  یہ بھی مروی ہے  کہ کیا تم دیکھتے  نہیں  ہو کہ جن چیزوں کے  دھونے  کا حکم تھا ان پر تو تیمم کے  وقت مسح کا حکم رہا اور جن چیزوں پر مسح کا حکم تھا تیمم کے  وقت انہیں  چھوڑ دیا گیا عامر سے  کسی نے  کہا کہ لوگ کہتے  ہیں  حضرت جبرائیل پیروں کے  دھونے  کا حکم لائے  ہیں  آپ نے  فرمایا جبرائیل مسح کے  حکم کے  ساتھ نازل ہوئے  تھے ۔ پس یہ سب آثار بالکل غریب ہیں  اور محمول ہیں  اس امر پر کہ مراد مسح سے  ان بزرگوں کی ہلکا دھونا ہے ، کیونکہ سنت سے  صاف ثابت ہے  کہ پیروں کا دھونا واجب ہے ، یاد رہے  کہ زیر کی قرات یا تو مجاورت اور تناسب کلام کی وجہ سے  ہے  جیسے  عرب کا کلام حجر ضب خرب میں اور اللہ کے  کلام آیت (عالیھم ثیاب سندس خضر و استبرق) میں لغت میں عرب میں پاس ہونے  کی وجہ سے  دونوں لفظوں کو ایک ہی اعراب دے  دینا یہ اکثر پایا گیا ہے ۔ حضرت امام شافعی نے  اس کی ایک توجیہہ یہ بھی بیان کی ہے  کہ یہ حکم اس وقت ہے  جب پیروں پر جرابیں ہوں بعض کہتے  ہیں  مراد مسح سے  ہلکا دھو لینا ہے  جیسے  کہ بعض روایتوں میں سنت سے  ثابت ہے ۔ الغرض پیروں کا دھونا فرض ہے  جس کے  بغیر وضو نہ ہو گا۔ آیت بھی یہی ہے  اور احادیث میں بھی یہی ہے  جیسے  کہ اب ہم انہیں  وارد کریں گے ، انشاء اللہ تعالیٰ بیہقی میں ہے  حضرت علی بن ابو طالب ظہر کی نماز کے  بعد بیٹھک میں بیٹھے  رہے  پھر پانی منگوایا اور ایک چلو سے  منہ کا، دونوں ہاتھوں سر کا اور دونوں پیروں کا مسح کیا اور کھڑے  ہو کر بچا ہوا پانی پی لیا پھر فرمانے  لگے  کہ لوگ کھڑے  کھڑے  پانی پینے  کو مکروہ کہتے  ہیں  اور میں نے  جو کیا یہی کرتے  ہوئے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے  اور فرمایا یہ وضو ہے  اس کا جو بے  وضو نہ ہوا ہو (بخاری) شعیوں میں سے  جن لوگوں نے  پیروں کو مسح اسی طرح قرار دیا جس طرح جرابوں پر مسح کرتے  ہیں  ان لوگوں نے  یقیناً غلطی کی اور لوگوں کو گمراہی میں ڈالا۔ اسی طرح وہ لوگ بھی خطا کار ہیں  جو مسح اور دھونا دونوں کو جائز قرار دیتے  ہیں  اور جن لوگوں نے  امام ابن جریر کی نسبت یہ خیال کیا ہے  کہ انہوں نے  احادیث کی بنا پر پیروں کے  دھونے  کو اور آیت قرآنی کی بنا پر پیروں کے  مسح کو فرض قرار دیا ہے ۔ ان کی تحقیق بھی صحیح نہیں ، تفسیر ابن جریر ہمارے  ہاتھوں میں موجود ہے  ان کے  کلام کا خلاصہ یہ ہے  کہ پیروں کو رگڑنا واجب ہے  اور اعضاء میں یہ واجب نہیں  کیونکہ پیر زمین کی مٹی وغیرہ سے  رگڑتے  رہتے  ہیں  تو ان کو دھونا ضروری ہے  تا کہ جو کچھ لگا ہو ہٹ جائے  لیکن اس رگڑنے  کیلئے  مسح کا لفظ لائے  ہیں  اور اسی سے  بعض لوگوں کو شبہ ہو گیا ہے  اور وہ یہ سمجھ بیٹھے  ہیں  کہ مسح اور غسل جمع کر دیا ہے  حالانکہ دراصل اس کے  کچھ معنی ہی نہیں  ہوتے  مسح تو غسل میں داخل ہے  چاہے  مقدم ہو چاہے  مؤخر ہو پس حقیقتاً امام صاحب کا ارادہ یہی ہے  جو میں نے  ذکر کیا اور اس کو نہ سمجھ کر اکثر فقہاء نے  اسے  مشکل جان لیا، میں نے  مکرر غورو فکر کیا تو مجھ پر صاف طور سے  یہ بات واضح ہو گئی ہے  کہ امام صاحب دونوں قرأتوں کو جمع کرنا چاہتے  ہیں  پس زیر کی قرأت یعنی مسح کو تو وہ محمول کرتے  ہیں  دلک پر یعنی اچھی طرح مل رگڑ کر صاف کرنے  پر اور زبر کی قرأت کو غسل پر یعنی دھونے  پر دلیل ہے  ہی پس وہ دھونے  اور ملنے  دونوں کو واجب کہتے  ہیں  تا کہ زیر اور زبر کی دونوں قراتوں پر ایک ساتھ ہو جائے  "اب ان احادیث کو سنئے  جن میں پیروں کے  دھونے  کا اور پیروں کے  دھونے  کے  ضروری ہونے  کا ذکر ہے  "امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان امیر المومنین حضرت علی بن ابو طالب حضرت ابن عباس حضرت معاویہ حضرت عبد اللہ بن زید عاصم حضرت مقداد بن معدی کرب کی روایات پہلے  بیان ہو چکی ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  وضو کرتے  ہوئے  اپنے  پیروں کو دھویا، ایک بار یا دو بار یا تین بار، عمرو بن شعیب کی حدیث میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  وضو کیا اور اپنے  دونوں پیر دھوئے  پھر فرمایا یہ وضو ہے  جس کے  بغیر اللہ تعالیٰ نماز قبول نہیں  فرماتا۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ ایک مرتبہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے  پیچھے  رہ گئے  تھے  جب آپ آئے  تو ہم جلدی جلدی وضو کر رہے  تھے  کیونکہ عصر کی نماز کا وقت کافی دیر سے  ہو چکا تھا ہم نے  جلدی جلدی اپنے  پیروں پر چھوا چھوئی شروع کر دی تو آپ نے  بہت بلند آواز سے  فرمایا وضو کو کامل اور پورا کرو ایڑیوں کو خرابی سے  آگ کے  لگنے  سے ، ایک اور حدیث میں ہے  ویل ہے  ایڑیوں کیلئے  اور تلوں کیلئے  آگ سے  (بیہقی و حاکم) اور روایت میں ہے  ٹخنوں کو ویل ہے  آگ سے  (مسند امام احمد) ایک شخص کے  پیر میں ایک درہم کے  برابر جگہ بے  دھلی دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا خرابی ہے  ایڑیوں کیلئے  آگ سے  (مسند) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے  کہ کچھ لوگوں کو وضو کرتے  ہوئے  دیکھ کر جن کی ایڑیوں پر اچھی طرح پانی نہیں  پہنچا تھا اللہ کے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ان ایڑیوں کو آگ سے  خرابی ہو گی، مسند احمد میں بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  یہ الفاظ وارد ہیں ۔ ابن جریر میں دو مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ان الفاظ کو کہنا وارد ہے  راوی حضرت ابو امامہ فرماتے  ہیں  پھر تو مسجد میں ایک بھی شریف و وضیع ایسا نہ رہا جو اپنی ایڑیوں کو بار بار دھو کر نہ دیکھتا ہو اور روایت میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک شخص کو نماز پڑھتے  ہوئے  دیکھا جس کی اڑی یا ٹخنے  میں بقدر نیم درہم کے  چمڑی خشک رہ گئی تھی تو یہی فرمایا پھر تو یہ حالت تھی کہ اگر ذرا سی جگہ پیر کی کسی خشک رہ جاتی تو وہ پورا وضو پھر سے  کرتا، پس ان احادیث سے  کھلم کھلا ظاہر ہے  کہ پیرو کا دھونا فرض ہے ، اگر ان کا مسح فرض ہوتا تو ذرا سی جگہ کے  خشک رہ جانے  پر اللہ کے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم وعید سے  اور وہ بھی جہنم کی آگ کی وعید سے  نہ ڈراتے ، اس لئے  کہ مسح میں ذرا ذرا اسی جگہ پر ہاتھ کا پہنچانا داخل ہی نہیں ۔ بلکہ پھر تو پیر کے  مسح کی وہی صورت ہوتی ہے  جو پیر کے  اوپر جراب ہونے  کی صورت میں مسح کی صورت ہے ۔ یہی چیز امام ابن جریر نے  شیعوں کے  مقابلہ میں پیش کی ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے  کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  دیکھا کہ ایک شخص نے  وضو کیا اور اس کا پیر کسی جگہ سے  ناخن کے  برابر دھلا نہیں  خشک رہ گیا تو آپ نے  فرمایا لوٹ جاؤ اور اچھی طرح وضو کرو۔ بیہقی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ، مسند میں ہے  کہ ایک نمازی کو آپ نے  نماز میں دیکھا کہ اس کے  پیر میں بقدر درہم کے  جگہ خشک رہ گئی ہے  تو اسے  وضو لوٹانے  کا حکم کیا۔ حضرت عثمان سے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  وضو کا وضو کا طریقہ جو مروی ہے  اس میں یہ بھی ہے  کہ آپ نے  انگلیوں کے  درمیان خلال بھی کیا۔ سنن میں ہے  حضرت صبرہ نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  وضو کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے  فرمایا وضو کامل اور اچھا کرو انگلیوں کے  درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی اچھی طرح دھو ہاں روزے  کی حالت میں ہو تو اور بات ہے ، مسند و مسلم وغیرہ میں ہے  حضرت عمرو بن عنبسہ کہتے  ہیں  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے  وضو کی بابت خبر دیجئے  آپ نے  فرمایا جو شخص وضو کا پانی لے  کر کلی کرتا ہے  اور ناک میں پانی دیتا ہے  اس کے  منہ سے  نتھنوں سے  پانی کے  ساتھ ہی خطائیں جھڑ جاتی ہیں  جبکہ وہ ناک جھاڑتا ہے  پھر جب وہ منہ دھوتا ہے  جیسا کہ اللہ کا حکم ہے  تو اس کے  منہ کی خطائیں داڑھی اور داڑھی کے  بالوں سے  پانی کے  گرنے  کے  ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں  پھر وہ اپنے  دونوں ہاتھ دھوتا ہے  کہنیوں سمیت تو اس کے  ہاتھوں کو گناہ اس کی پوریوں کی طرح جھڑ جاتے  ہیں ، پھر وہ مسح کرتا ہے  تو اس کے  سر کی خطائیں اس کے  بالوں کے  کناروں سے  پانی کے  ساتھ ہی جھڑ جاتی ہیں  پھر جب وہ اپنے  پاؤں ٹخنوں سمیت حکم الٰہی کے  مطابق دھوتا ہے  تو انگلیوں سے  پانی ٹپکنے  کے  ساتھ ہی اس کے  پیروں کے  گناہ بھی دور ہو جاتے  ہیں ، پھر وہ کھڑا ہو کر اللہ تعالیٰ کے  لائق جو حمد وثنا ہے  اسے  بیان کر کے  دو رکعت نماز جب ادا کرتا ہے  تو وہ اپنے  گناہوں سے  ایسا پاک صاف ہو جاتا ہے  جیسے  وہ تولد ہوا ہو۔ یہ سن کر حضرت ابو امامہ نے  حضرت عمرو بن عنبسہ سے  کہا خوب غور کیجئے  کہ آپ کیا فرما رہے  ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  آپ نے  اسی طرح سنا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ ایک ہی مقام میں انسان حاصل کر لیتا ہے ؟ حضرت عمرو نے  جواب دیا کہ ابو امامہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، میری ہڈیاں ضعیف ہو چکی ہیں ، میری موت قریب آپہنچی ہے ، مجھے  کیا فائدہ جو میں اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ بولوں، ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں ، تین دفعہ نہیں ، میں نے  تو اسے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی سات بار بلکہ اس سے  بھی زیادہ سنا ہے ، اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ۔ صحیح مسلم کی دوسری سند والی حدیث میں ہے  پھر وہ اپنے  دونوں پاؤں کو دھوتا ہے  جیسا کہ اللہ نے  اسے  حکم دیا ہے ۔ پس صاف ثابت ہوا کہ قرآن حکیم کا حکم پیروں کے  دھونے  کا ہے ۔ ابو اسحاق سبیعی نے  حضرت علی کرم اللہ وجہہ فی الجنہ سے  بواسطہ حضرت حارث روایت میں حضرت علی سے  مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  دونوں قدم جوتی میں ہی بھگو لئے  اس سے  مراد جوتیوں میں ہی ہلکا دھونا ہے  اور چپل جوتی پیر میں ہوتے  ہوئے  پیر دھل سکتا ہے  غرض یہ حدیث بھی دھونے  کی دلیل ہے  البتہ اس سے  ان وسواسی اور وہمی لوگوں کی تردید ہے  جو حد سے  گزر جاتے  ہیں ، اسی طرح وہ دوسری حدیث ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک قوم کے  کوڑا ڈالنے  کی جگہ پر پیشاب کیا پھر پانی منگوا کر وضو کیا اور اپنے  نعلین پر مسح کر لیا، لیکن یہی حدیث دوسری سندوں سے  مروی ہے  اور ان میں سے  کہ آپ نے  اپنی جرابوں پر مسح کیا اور ان میں مطابقت کی صورت یہ بھی ہو سکتی ہے  کہ جرابیں پیروں میں تھیں اور ان پر نعلین تھے  اور ان دونوں پر آپ نے  مسح کر لیا۔ یہی مطلب اس حدیث کا بھی ہے ، مسند احمد میں اوس ابو اوس سے  مروی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  میرے  دیکھتے  ہوئے  وضو کیا اور اپنے  نعلین پر مسح کیا اور نماز کیلئے  کھڑے  ہو گئے ، یہی روایت دوسری سند سے  مروی ہے  اس میں آپ کا کوڑے  پر پیشاب کرنا پھر وضو کرنا اور اس میں نعلین اور دونوں قدموں پر مسح کرنا مذکور ہے ، امام ابن جریر اسے  بیان کرتے  ہیں ، پھر فرمایا ہے  کہ یہ محمول اس پر ہے  کہ اس وقت آپ کا پہلا وضو تھا (یا یہ محمول ہے  اس پر کہ نعلین جرابوں کے  اوپر تھے ۔ مترجم) بھلا کوئی مسلمان یہ کیسے  قبول کر سکتا ہے  کہ اللہ کے  فریضے  میں اور پیغمبر کی سنت میں تعارض ہو اللہ کچھ فرمائے  اور پیغمبر کچھ اور ہی کریں ؟ پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ہمیشہ کے  فعل سے  وضو میں پیروں کے  دھونے  کی فرضیت ثابت ہے  اور آیت کا صحیح مطلب بھی یہ ہے  جس کے  کانوں تک یہ دلیلیں پہنچ جائیں اس پر اللہ کی حجت پوری ہو گئی۔ چونکہ زیر کی قرأت سے  پیروں کا دھونا اور زیر کی قرأت کا بھی اسی پر محمول ہونا فرضیت کا قطعی ثبوت ہے  اس سے  بعض سلف تو یہ بھی کہہ گئے  ہیں  کہ اس آیت سے  جرابوں کا مسح ہی منسوخ ہے ، گو ایک روایت حضرت علی سے  بھی ایسی مروی ہے  لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں  بلکہ خود آپ سے  صحت کے  ساتھ اس کے  خلاف ثابت ہے  اور جن کا بھی یہ قول ہے  ان کا یہ خیال صحیح نہیں  بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  اس آیت کے  نازل ہونے  کے  بعد بھی جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ مسند احمد میں حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی کا قول ہے  کہ سورہ مائدہ کے  نازل ہونے  کے  بعد ہی میں مسلمان ہوا اور اپنے  اسلام کے  بعد میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو جرابوں پر مسح کرتے  دیکھا۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ حضرت جریر نے  پیشاب کیا پھر وضو کرتے  ہوئے  اپنی جرابوں پر مسح کیا ان سے  پوچھا گیا کہ آپ ایسا کرتے  ہیں ؟ تو فرمایا یہی کرتے  ہوئے  میں نے  اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے ۔ راوی حدیث حضرت ابراہیم فرماتے  ہیں  لوگوں کو یہ حدیث بہت اچھی لگتی تھی اس لئے  کہ حضرت جریر کا اسلام لانا سورہ مائدہ کے  نازل ہو چکنے  کے  بعد کا تھا۔ احکام کی بڑی بڑی کتابوں میں تواتر کے  ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  قول و فعل سے  جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے ۔ اب مسح کی مدت ہے  یا نہیں ؟ اس کے  ذکر کی یہ جگہ نہیں  احکام کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے ، رافضیوں نے  اس میں بھی گمراہی اختیار کی ہے ۔ خود حضرت علی کی روایت سے  صحیح مسلم میں یہ ثابت ہے ، لیکن روافض اسے  نہیں  مانتے ، جیسے  کہ حضرت علی کی ہی روایت سے  بخاری مسلم میں نکاح متعہ کی ممانعت ثابت ہے  لیکن تاہم شیعہ اسے  مباح قرار دیتے  ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح یہ آیہ کریمہ دونوں پیروں کے  دھونے  پر صاف دلالت کرتی ہے  اور یہی امر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا متواتر احادیث سے  ثابت ہے  لیکن شیعہ جماعت اس کی بھی مخالف ہے ۔ فی واقع ان مسائل میں ان کے  ہاتھ دلیل سے  بالکل خالی ہیں ۔ وللہ الحمد۔ اسی طرح ان لوگوں نے  آیت کا اور سلف صالحین کا مسح کے  بارے  میں بھی الٹ مفہوم لیا ہے  وہ کہتے  ہیں  کہ قدم کی پشت ابھار کعبین ہے  پس ان کے  نزدیک ہر قدم میں ایک ہی کعب یعنی ٹخنہ ہے  اور جمہور کے  نزدیک ٹخنے  کی وہ ہڈیاں جو پنڈلی اور قدم کے  درمیان ابھری ہوئی ہیں  اور وہ کعبین ہیں ۔ امام شافعی کا فرمان ہے  کہ جن کعبین کا یہاں ذکر ہے  یہ ٹخنے  کی دو ہڈیاں ہیں  جو ادھر ادھر قدرے  ظاہر دونوں طرف ہیں ، ایک ہی قدم میں کعبین ہیں  لوگوں کے  عرض میں بھی یہی ہے  اور حدیث کی دلالت بھی اسی پر ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے  کہ حضرت عثمان نے  وضو کرتے  ہوئے  اپنے  داہنے  پاؤں کو کعبین سمیت دھویا پھر بائیں کو بھی اسی طرح۔ بخاری میں تعلیقاً بصیغہ جزم اور صحیح ابن خزیمہ میں اور سنن ابی داؤد میں ہے  کہ ہماری طرف متوجہ ہو کر اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا "اپنی صفیں ٹھیک ٹھیک درست کر لو" تین بار یہ فرما کر فرمایا قسم اللہ کی یا تو تم اپنی صفوں کو پوری طرح درست کرو گے  یا اللہ تمہارے  دلوں میں مخالفت ڈال دے  گا۔ حضرت نعمان بن بشیر راوی حدیث فرماتے  ہیں  پھر تو یہ ہو گیا کہ ہر شخص اپنے  ساتھی کے  ٹخنے  سے  ٹخنہ اور گھٹنے  سے  گھٹنا اور کندھے  سے  کندھا ملا لیا کرتا تھا۔ اس روایت سے  صاف معلوم ہو گیا کہ کعبین اس ہڈی کا نام نہیں  جو قدم کی پشت کی طرف ہے  کیونکہ اس کا ملانا دو پاس پاس کے  شخصوں میں ممکن نہیں  بلکہ وہی دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں  جو پنڈلی کے  خاتمے  پر ہیں  اور یہی مذہب اہلسنت کا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں یحییٰ بن حارث تیمی سے  منقول ہے  کہ زید کے  جو ساتھی شیعہ قتل کئے  گئے  تھے  انہیں  میں نے  دیکھا تو ان کا ٹخنہ قدم کی پشت پر پایا انہیں  قدرتی سزا تھی جو ان کی موت کے  بعد ظاہر کی گئی اور مخالفت حق اور کتمان حق کا بدلہ دیا گیا۔ اس کے  بعد تیمم کی صورتیں اور تیمم کا طریقہ بیان ہوا ہے  اس کی پوری تفسیر سورہ نساء میں گزر چکی ہے  لہٰذا یہاں بیان نہیں  کی جاتی۔ آیت تیمم کا شان نزول بھی وہیں  بیان کر دیا گیا ہے ۔ لیکن امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری نے  اس آیت کے  متعلق خاصتًا ایک حدیث وارد کی ہے  اسے  سن لیجئے  حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین کا بیان ہے  کہ میرے  گلے  کا ہار بیداء میں گر گیا ہم مدینہ میں داخل ہونے  والے  تھے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  سواری روکی اور میری گود میں سر رکھ کر سو گئے  اتنے  میں میرے  والد حضرت ابوبکر صدیق میرے  پاس تشریف لائے  اور مجھ پر بگڑنے  لگے  کہ تو نے  ہار کھو کر لوگوں کو روک دیا اور مجھے  کچو کے  مارنے  لگے ۔ جس سے  مجھے  تکلیف ہوئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نیند میں خلل اندازی نہ ہو، اس خیال سے  میں ہلی جلی نہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب جاگے  اور صبح کی نماز کا وقت ہو گیا اور پانی کی تلاش کی گئی تو پانی نہ ملا، اس پر یہ پوری آیت نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حفیر کہنے  لگے  اے  آل ابوبکر اللہ تعالیٰ نے  لوگوں کیلئے  تمہیں  بابرکت بنا دیا ہے  تم ان کیلئے  سرتاپا برکت ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  میں تم پر حرج ڈالنا نہیں  چاہتا اسی لئے  اپنے  دین کو سہل آسان اور ہلکا کر دیا ہے ۔ بوجھل سخت اور مشکل نہیں ۔ حکم تو اس کا یہ تھا کہ پانی سے  وضو کرو لیکن جب میسر نہ ہو یا بیماری ہو تو تمہیں  تیمم کرنے  کی رخصت عطا فرماتا ہے ، باقی احکام احکام کی کتابوں میں ملاحظہ ہوں ۔ بلکہ اللہ کی چاہت یہ ہے  کہ تمہیں  پاک صاف کر دے  اور تمہیں  پوری پوری نعمتیں عطا فرمائے  تا کہ تم اس کی رحمتوں پر اس کی شکر گزاری کرو اس کی توسیع احکام اور رأفت و رحمت آسانی اور رخصت پر اس کا احسان مانو۔ وضو کے  بعد اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک دعا تعلیم فرمائی ہے  جو گویا اس آیت کے  ماتحت ہے ۔ مسند، سنن اور صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر سے  روایت ہے  کہ ہم باری باری اونٹوں کو چرایا کرتے  تھے  میں اپنی باری والی رات عشاء کے  وقت چلا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے  ہوئے  لوگوں سے  کچھ فرما رہے  ہیں  میں بھی پہنچ گیا اس وقت میں نے  آپ سے  یہ سنا کہ جو مسلمان اچھی طرح وضو کر کے  دلی توجہ کے  ساتھ دو رکعت نماز ادا کرے  اس کیلئے  جنت واجب ہے ۔ میں نے  کہا واہ واہ یہ بہت ہی اچھی بات ہے ۔ میری یہ بات سن کر ایک صاحب نے  جو میرے  آگے  ہی بیٹھے  تھے  فرمایا اس سے  پہلے  جو بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمائی ہے  وہ اس سے  بھی زیادہ بہتر ہے ۔ میں نے  جو غور سے  دیکھا تو وہ حضرت عمر فاروق تھے  آپ مجھ سے  فرمانے  لگے  تم ابھی آئے  ہو، تمہارے  آنے  سے  پہلے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ہے  کہ جو شخص عمدگی اور اچھائی سے  وضو کرے  پھر کہے  دعا (اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ) ۔ اس کیلئے  جنت کے  آٹھوں دروازے  کھل جاتے  ہیں  جس میں سے  چاہے  داخل ہو۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ جب ایمان و اسلام والا وضو کرنے  بیٹھتا ہے  اس کے  منہ دھوتے  ہوئے  اس کی آنکھوں کی تمام خطائیں پانی کے  ساتھ یا پانی کے  آخری قطرے  کے  ساتھ جھڑ جاتی ہے  ہیں  اسی طرح ہاتھوں کے  دھونے  کے  وقت ہاتھوں کی تمام خطائیں اور اسی طرح پیروں کے  دھونے  کے  وقت پیروں کی تمام خطائیں دھل جاتی ہیں  وہ گناہوں سے  بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے ۔ ابن جریر میں ہے  جو شخص وضو کرتے  ہوئے  جب اپنے  ہاتھ یا بازوؤں کو دھوتا ہے  تو ان سے  ان کے  گناہ دور ہو جاتے  ہیں ، منہ کو دھوتے  وقت منہ کے  گناہ الگ ہو جاتے  ہیں ، سر کا مسح سر کے  گناہ جھاڑ دیتا ہے  پیر کا دھونا ان کے  گناہ دھو دیتا ہے ۔ دوسری سند میں سر کے  مسح کا ذکر نہیں ۔ ابن جریر میں ہے  جو شخص اچھی طرح وضو کر کے  نماز کیلئے  کھڑا ہوتا ہے  اس کے  کانوں سے  آنکوں سے  ہاتھوں سے  پاؤ سے  سب گناہ الگ ہو جاتے  ہیں ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے  وضو آدھا ایمان ہے ، الحمد للہ کہنے  سے  نیکی کا پلڑا بھر جاتا ہے ۔ قرآن یا تو تیری موافقت میں دلیل ہے  یا تیرے  خلاف دلیل ہے ، ہر شخص صبح ہی صبح اپنے  نفس کی فروخت کرتا ہے  پس یا تو اپنے  تئیں آزاد کرا لیتا ہے  یا ہلاک کر لیتا ہے  اور حدیث میں ہے  "مال حرام کا صدقہ اللہ قبول نہیں  فرماتا اور بے  وضو کی نماز بھی غیر مقبول ہے " (صحیح مسلم) یہ روایت ابو داؤد، طیالسی، مسند احمد، ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔

۷

اسلام" زبان سے عہد اور "ایمان" عمل سے اطاعت اس عہد کا اظہار"

اس دین عظیم اور اس رسول کریم کو بھیج کر جو احسان اللہ تعالیٰ نے  اس امت پر کیا ہے ، اسے  یاد دلا رہا ہے  اور اس عہدے  پر مضبوط رہنے  کی ہدایت کر رہا ہے  جو مسلمانوں نے  اللہ کے  پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری اور امداد کرنے ، دین پر قائم رہنے ، اسے  قبول کر لینے ، اسے  دوسروں تک پہنچانے  کیلئے  کیا ہے ، اسلام لاتے  وقت انہی چیزوں کا ہر مومن اپنی بیعت میں اقرار کرتا تھا، چنانچہ صحابہ کے  الفاظ ہیں  کہ ہم نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  بیعت کی کہ "ہم سنتے  رہیں  گے  اور مانتے  چلے  جائیں گے ، خواہ جی چاہے  خواہ نہ چاہے ، خواہ دوسروں کو ہم پر ترجیح دی جائے  اور کسی لائق شخص سے  ہم کسی کام کو نہیں  چھینیں گے ۔ " باری تعالیٰ عزوجل کا ارشاد ہے  کہ تم کیوں ایمان نہیں  لاتے ؟ حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں  رب پر ایمان لانے  کی دعوت دے  رہے  ہیں ، اگر تمہیں  یقین ہو اور اس نے  تم سے  عہد بھی لے  لیا ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ اس آیت میں یہودیوں کو یاد دلایا جا رہا ہے  کہ تم سے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری کے  قول قرار ہو چکے  ہیں ، پھر تمہاری نافرمانی کے  کیا معنی؟ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ "حضرت آدم کی پیٹھ سے  نکال کر جو عہد اللہ رب العزت نے  بنو آدم سے  لیا تھا، اسے  یاد دلایا جا رہا ہے  جس میں فرمایا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں  ہوں ؟ سب نے  اقرار کیا کہ ہاں ہم اس پر گواہ ہیں ، لیکن پہلا قول زیادہ ظاہر ہے ، سدی اور ابن عباس سے  وہی مروی ہے  اور امان اب جریر نے  بھی اسی کو مختار بتایا ہے ۔ ہر حال میں ہر حال میں انسان کو اللہ کا خوف رکھنا چاہئے ۔ دلوں اور سینوں کے  بھید سے  وہ واقف ہے ۔ ایمان والو لوگوں کو دکھانے  کو نہیں  بلکہ اللہ کی وجہ سے  حق پر قائم ہو جاؤ اور عدل کے  ساتھ صحیح گواہ بن جاؤ۔ بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر سے  روایت ہے  کہ میرے  باپ نے  مجھے  ایک عطیہ دے  رکھا تھا، میری ماں عمرہ بنت رواحہ نے  کہا کہ میں تو اس وقت تک مطمئن نہیں  ہونے  لگی جب تک کہ تم اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گواہ نہ بنا لو، میرے  باپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے  واقعہ بیان کیا تو آپ نے  دریافت فرمایا کیا اپنی دوسری اولاد کو بھی ایسا ہی عطیہ دیا ہے ؟ جواب دیا کہ نہیں  تو آپ نے  فرمایا اللہ سے  ڈرو، اپنی اولاد میں عدل کیا کرو، جاؤ میں کسی ظلم پر گواہ نہیں  بنتا۔ چنانچہ میرے  باپ نے  وہ صدقہ لوٹا لیا، پھر فرمایا دیکھو کسی کی عداوت اور ضد میں آ کر عدل سے  نہ ہٹ جانا۔ دوست ہو یا دشمن ہو، تمہیں  عدل و انصاف کا ساتھ دینا چاہئے ، تقوے  سے  زیادہ قریب یہی ہے ، ھو کی ضمیر کے  مرجع پر دلالت فعل نے  کر دی ہے  جیسے  کہ اس کی نظریں قرآن میں اور بھی ہے  اور کلام عرب میں بھی، جیسے  اور جگہ ہے  ۔آیت (وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ھو ازکی لکم) یعنی اگر تم کسی مکان میں جانے  کی اجازت مانگو اور نہ ملے  بلکہ کہا جائے  کہ واپس جاؤ تو تم واپس چلے  جاؤ یہی تمہارے  لئے  زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے ۔ پس یہاں ھو کی ضمیر کا مرجع مذکور نہیں ، لیکن فعل کی دلالت موجود ہے  یعنی لوٹ جانا اسی طرح مندرجہ آیت میں یعنی عدل کرنا۔ یہ بھی یاد رہے  کہ یہاں پر اقرب افعل التفضیل کا صیغہ ایسے  موقعہ پر ہے  کہ دوسری جانب اور کوئی چیز نہیں ، جیسے  اس آیت میں ہے  ۔ اصحاب الجنۃ یومئذ خیرا مستقرا واحسن مقیلا) ۔ اور جیسے  کہ کسی صحابیہ کا حضرت عمر سے  کہنا کہ ۔انت واغلظ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ سے  ڈرو! وہ تمہارے  عملوں سے  باخبر ہے ، ہر خیرو شر کا پورا پورا بدلہ دے  گا۔ وہ ایمان والوں، نیک کاروں سے  ان کے  گناہوں کی بخشش کا اور انہیں  اجر عظیم یعنی جنت دینے  کا وعدہ کر چکا ہے ۔ گو دراصل وہ اس رحمت کو صرف فعل الٰہی سے  حاصل کرینگے  لیکن رحمت کی توجہ کا سبب ان کے  نیک اعمال بنے ۔ پس حقیقتاً ہر طرح قابل تعریف و ستائش اللہ ہی ہے  اور یہ سب کچھ اس کا فضل و رحم ہے ۔ حکمت و عدل کا تقاضا یہی تھا کہ ایمانداروں اور نیک کاروں کو جنت دی جائے  اور کافروں اور جھٹلانے  والوں کو جہنم واصل کیا جائے  چنانچہ یونہی ہو گا۔ پھر اپنی ایک اور نعمت یاد دلاتا ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے ، حضرت جابر فرماتے  ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایک منزل میں اترے ، لوگ ادھر ادھر سایہ دار درختوں کی تلاش میں لگ گئے  آپ نے  ہتھیار اتار کر ایک درخت پر لٹکا دئے ۔ ایک اعرابی نے  آ کر آپ کی تلوار اپنے  ہاتھ میں لے  لی اور اسے  کھینچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس کھڑا ہو گیا اور کہنے  لگا اب بتا کہ مجھ سے  تجھے  کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے  فوراً بعد جواب دیا کہ اللہ عزوجل، اس نے  پھر یہی سوال کیا اور آپ نے  پھر یہی جواب دیا، تیسری مرتبہ کے  جواب کے  ساتھ ہی اس کے  ہاتھ سے  تلوار گر پڑی، اب آپ نے  صحابہ کو آواز دی اور جب وہ آ گئے  تو ان سے  سارا واقعہ کہہ دیا، اعرابی اس وقت بھی موجود تھا، لیکن آپ نے  اس سے  کوئی بدلہ نہ لیا۔ قتادہ فرماتے  ہیں  کہ کچھ لوگوں نے  دھوکے  سے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنا چاہا تھا اور انہوں نے  اس اعرابی کو آپ کی گھات میں بھیجا تھا لیکن اللہ نے  اسے  ناکام اور نامراد رکھا فالحمدللہ۔ اس اعرابی کا نام صحیح احادیث میں غوث بن حارث آیا ہے ۔ ابن عباس سے  مروی ہے  کہ یہودیوں نے  آپ کو اور آپ کے  صحابہ کو قتل کرنے  کے  ارادہ سے  زہر ملا کر کھانا پکا کر دعوت کر دی، لیکن اللہ نے  آپ کو آگاہ کر دیا اور آپ بچ رہے ، یہ بھی کہا گیا ہے  کہ کعب بن اشرف اور اس کے  یہودی ساتھیوں نے  اپنے  گھر میں بلا کر آپ کو صدمہ پہنچانا چاہا تھا۔ ابن اسحاق وغیرہ کہتے  ہیں  کہ اس سے  مراد بنو نضیر کے  وہ لوگ ہیں  جنہوں نے  چکی کا پاٹ قلعہ کے  اوپر سے  آپ کے  سر پر گرانا چاہتا تھا جبکہ آپ عامری لوگوں کی دیت کے  لینے  کیلئے  ان کے  پاس گئے  تھے  تو ان شریروں نے  عمرو بن حجاش بن کعب کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نیچے  کھڑا کر کے  باتوں میں مشغول کر لیں گے  تو اوپر سے  یہ پھینک کر آپ کا کام تمام کر دینا لیکن راستے  میں ہی اللہ تعالیٰ نے  اپنے  پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی شرارت و خباثت سے  آگاہ کر دیا، آپ مع اپنے  صحابہ کے  وہیں  سے  پلٹ گئے ، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ، مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے  جو کفایت کرنے  والا، حفاظت کرنے  والا ہے ۔ اس کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے  حکم سے  بنو نضیر کی طرف مع لشکر گئے ، محاصرہ کیا، وہ ہارے  اور انہیں  جلا وطن کر دیا۔

۱۲

عہد شکن لوگ؟ اور امام مہدی کون؟

اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے  اپنے  مومن بندوں کو عہد و پیمانے  کی وفاداری، حق پر مستقیم رہنے  اور عدل کی شہادت دینے  کا حکم دیا تھا۔ ساتھ ہی اپنی ظاہری و باطنی نعمتوں کو یاد دلایا تھا۔ تو اب ان آیتوں میں ان سے  پہلے  کے  اہل کتاب سے  جو عہد و میثاق لیا تھا، اس کی حقیقت و کیفیت کو بیان فرما رہا ہے ، پھر جبکہ انہوں نے  اللہ سے  کئے  ہوئے  عہد و پیمان توڑ ڈالے  تو ان کا کیا حشر ہوا، اسے  بیان فرما کر گویا مسلمانوں کو عہد شکنی سے  روکتا ہے ۔ ان کے  بارہ سردار تھے ۔ یعنی بارہ قبیلوں کے  بارہ چودھری تھے  جو ان سے  ان کی بیعت کو پورا کراتے  تھے  کہ یہ اللہ اور رسول کے  تابع فرمان رہیں  اور کتاب اللہ کی اتباع کرتے  رہیں ۔ حضرت موسیٰ جب سرکشوں سے  لڑنے  کیلئے  گئے  تب ہر قبیلہ میں سے  ایک ایک سردار منتخب کر گئے  تھے ۔ اوبیل قبیلے  کا سردار شامون بن اکون تھا، شمعونیوں کا چودھری شافاط بن جدی، یہودا کا کالب بن یوحنا، فیخائیل کا ابن یوسف اور افرایم کا یوشع بن نون اور بنیامین کے  قبیلے  کا چودھری قنطمی بن وفون، زبولون کا جدی بن شوری، منشاء کاجدی بن سوسی، دان حملاسل کا ابن حمل، اشار کا ساطور، تفتای کا بحر اور یاسخر کالابل۔ توراۃ کے  چوتھے  جز میں بنو اسرائیل کے  قبیلوں کے  سرداروں کے  نام مذکور ہیں ۔ جو ان ناموں سے  قدرے  مختلف ہیں ۔ واللہ اعلم۔ موجودہ تورات کے  نام یہ ہیں ۔ بنو ادبیل پر صونی بن سادون، بنی شمعون پر شموال بن صور، بنو یہود پر حشون بن عمیاذب، بنو یساخر پر شال بن صاعون، بنو زبولوں پر الیاب بن حالوب، بنو افرایم پر منشا بن عنہور، بنو منشاء پر حمائیل بنو بیبا میں پر ابیدن، بنودان پر جعیذ ربنو اشاذ نحایل۔ بون کان پر سیف بن دعوابیل، بنو نفعالی پر اجذع۔ یاد رہے  کہ لیلۃ العقبہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  انصار سے  بیعت لی اس وقت ان کے  سردار بھی بارہ ہی تھے ۔ تین قبیلہ اوس کے ۔ حضرت اسید بن حضیر، حضرت سعد بنی خیشمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذر اور نو سردار قبیلہ خزرج تھے ۔ ابو امامہ، اسعد بن زرارہ، سعد بن ربیع، عبد اللہ بن رواحہ، رافع بن مالک بن عجلان براء بن معرور عبادہ بن صامت، سعد بن عبادہ، عبد اللہ بن عمرو بن حرام، منذربن عمرو بن حنیش اجمعین۔ انہی سرداروں نے  اپنی اپنی قوم کی طرف سے  پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم سے  فرامین سننے  اور ماننے  کی بیعت کی، حضرت مسروق فرماتے  ہیں  ہم لوگ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے  پاس بیٹھے  تھے ، آپ ہمیں اس وقت قرآن پڑھا رہے  تھے  تو ایک شخص نے  سوال کیا کہ آپ لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  یہ بھی پوچھا ہے  کہ اس امت کے  کتنے  خلیفہ ہوں گے ؟ حضرت عبد اللہ نے  فرمایا میں جب سے  عراق آیا ہوں، اس سوال کو بجز تیرے  کسی نے  نہیں  پوچھا، ہم نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  اس بارے  میں دریافت کیا تھا تو آپ نے  فرمایا، بارہ ہوں گے ، جتنی گنتی بنو اسرائیل کے  نقیبوں کی تھی۔ یہ روایت سنداً غریب ہے ، لیکن مضمون حدیث بخاری اور مسلم کی روایت سے  بھی ثابت ہے ، جابر بن سمرہ فرماتے  ہیں  "میں نے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا ہے ، لوگوں کا کام چلتا رہے  گا، جب تک ان کے  والی بارہ شخص نہ ہو لیں، پھر ایک لفظ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا لیکن میں نہ سن سکا تو میں نے  دوسروں سے  پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اب کونسا لفظ فرمایا، انہوں نے  جواب دیا یہ فرمایا کہ یہ سب قریش ہوں گے ۔ " صحیح مسلم میں یہی لفظ ہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے  کہ بارہ خلیفہ صالح نیک بخت ہونگے ۔ جو حق کو قائم کرینگے  اور لوگوں میں عدل کرینگے ۔ اس سے  یہ ثابت نہیں  ہوتا کہ یہ سب پے  درپے  یکے  بعد دیگرے  ہی ہوں ۔ پس چار خلفاء تو پے  درپے  حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت جن کی خلافت بطریق نبوت رہی۔ انہی بارہ میں سے  پانچویں حضرت عمر بن عبد العزلز ہیں ۔ بنو عباس میں سے  بھی بعض اسی طرح کے  خلیفہ ہوئے  ہیں  اور قیامت سے  پہلے  پہلے  ان بارہ کی تعداد پوری ہونی ضروری ہے  اور انہیں  میں سے  حضرت امام مہدی ہیں ، جن کی بشارت احادیث میں آ چکی ہے  ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  نام پر ہو گا اور ان کے  والد کا نام حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  والد کا ہو گا، زمین کو عدل و انصاف سے  بھر دینگے  حالانکہ اس سے  پہلے  وہ ظلم و جبر سے  پر ہو گی لیکن اس سے  شیعوں کا امام منتظر مراد نہیں ، اس کی تو دراصل کوئی حقیقت ہی نہیں ، نہ سرے  سے  اس کا کوئی وجود ہے ، بلکہ یہ تو صرف شیعہ کی وہم پرستی اور ان کا تخیل ہے ، نہ اس حدیث سے  شیعوں کے  فرقے  اثنا عشریہ کے  ائمہ مراد ہیں ۔ اس حدیث کو ان ائمہ پر محمول کرنا بھی شیعوں کے  اس فرقہ کی بناوٹ ہے  جو ان کی کم عقلی اور جہالت کا کرشمہ ہے ۔ توراۃ میں حضرت اسعمیل کی بشارت کے  ساتھ ہی مرقوم ہے  کہ ان کی نسل میں سے  بارہ بڑے  شخص ہونگے ، اسے  مراد بھی یہی مسلمانوں کے  بارہ قریشی بادشاہ ہیں  لیکن جو یہودی مسلمان ہوئے  تھے ، وہ اپنے  اسلام میں کچے  اور جاہل بھی تھے ، انہوں نے  شیعوں کے  کان میں کہیں  یہ صور پھونک دیا اور وہ سمجھ بیٹھے  کہ اس سے  مرادن کے  بارہ امام ہیں ، ورنہ حدیثیں اس کے  واضح خلاف موجود ہیں ۔ اب اس عہد و پیمان کا ذکر ہو رہا ہے  جو اللہ تعالیٰ نے  یہودیوں سے  لیا تھا کہ وہ نمازیں پڑھتے  رہیں ، زکوٰۃ دیتے  رہیں ، اللہ کے  رسولوں کی تصدیق کریں، ان کی نصرت و اعانت کریں اور اللہ کی مرضی کے  کاموں میں اپنا مال خرچ کریں ۔ جب وہ ایسا کریں گے  تو اللہ کی مدد و نصرت ان کے  ساتھ رہے  گی، ان کے  گناہ معاف ہونگے  اور یہ جنتوں میں داخل کئے  جائیں گے ، مقصود حاصل ہو گا اور خوف زائل ہو گا، لیکن اگر وہ اس عہد و پیما کے  بعد پھر گئے  اور اسے  غیر معروف کر دیا تو یقیناً وہ حق سے  دور ہو جائیں گے ، بھٹک اور بہک جائیں گے ۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انہوں نے  میثاق توڑ دیا، وعدہ خلافی کی تو ان پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی، ہدایت سے  دور ہو گئے ، ان کے  دل سخت ہو گئے  اور وعظ و پند سے  مستفید نہ ہو سکے ، سمجھ بگڑ گئی، اللہ کی باتوں میں ہیر پھیر کرنے  لگے ، باطل تاویلیں گھڑنے  لگے ، جو مراد حقیقی تھی، اس سے  کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے  سمجھانے  لگے ، اللہ کا نام لے  کر وہ مسائل بیان کرنے  لگے ، جو مراد حقیقی تھی، اس سے  کلام اللہ کو پھیر کر اور ہی مطلب سمجھنے  سمجھانے  لگے ، اللہ کا نام لے  کر وہ مسائل بیان کرنے  لگے  جو اللہ کے  بتائے  ہوئے  نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ کی کتاب ان کے  ہاتھوں سے  چھوٹ گئی، وہ اس سے  بے  عمل چھوٹ جانے  کی توجہ سے  نہ تو دل ٹھیک رہے ، نہ فطرت اچھی رہی۔ نہ خلوص و اخلاص رہا، غداری اور مکاری کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ نت نئے  جال نبی صلی اللہ علیہ و سلم اصحاب نبی کے  خلاف بنتے  رہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوتا ہے  کہ آپ ان سے  چشم پوشی کیجئے ، یہی معاملہ ان کے  ساتھ اچھا ہے ، جیسے  حضرت عمر فاروق سے  مروی ہے  کہ جو تجھ سے  اللہ کے  فرمان کے  خلاف سلوک کرے  تو اس سے  حکم الٰہی کی بجا آوری کے  ماتحت سلوک کر۔ اس میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے  کہ ممکن ہے  ان کے  دل کھچ آئیں، ہدایت نصیب ہو جائے  اور حق کی طرف آ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے  والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ یعنی دوسروں کی بدسلوکی سے  چشم پوشی کر کے  خود نیا سلوک کرنے  والے  اللہ کے  محبوب ہیں ۔ حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  "درگزر کرنے  کا حکم جہاد کی آیت سے  منسوب ہے ۔ " پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ "ان نصرانیوں سے  بھی ہم نے  وعدہ لیا تھا کہ جو رسول آئے  گا، یہ اس پر ایمان لائیں گے ، اس کی مدد کرینگے  اور اس کی باتیں مانیں گے ۔ " لیکن انہوں نے  بھی یہودیوں کی طرح بد عہدی کی، جس کی سزا میں ہم نے  ان میں آپس میں عداوت ڈال دی جو قیامت تک جاری رہے  گی۔ ان میں فرقے  فرقے  بن گئے  جو ایک دوسرے  کو کافر و ملعون کہتے  ہیں  اور اپنے  عبادت خانوں میں بھی نہیں  آنے  دیتے  "ملکیہ فرقہ یعقوبیہ فرقے  کو، یعقوبیہ ملکیہ کو کھلے  بندوں کافر کہتے  ہیں ، اسی طرح دوسرے  تمام فرقے  بھی، انہیں  ان کے  اعمال کی پوری تنبیہ عنقریب ہو گی۔ انہوں نے  بھی اللہ کی نصیحتوں کو بھلا دیا ہے  اور اللہ پر تہمتیں لگائی ہیں  اس پر بیوی اور اولاد والا ہونے  کا بہتان باندھا ہے ، یہ قیامت کے  دن بری طرح پکڑے  جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ واحد واحد فرد و صمدلم یلدولم یو لدولم یکن لہٗ کفوا احد ہے ۔

۱۵

علمی بد دیانت

فرماتا ہے  کہ رب العلی نے  اپنے  عالی قدر رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت اور دین حق کے  ساتھ تمام مخلوق کی طرف بھیج دیا ہے ، معجزے  اور روشن دلیلیں انہیں  عطا فرمائی ہیں  جو باتیں یہود و نصاریٰ نے  بدل ڈالی تھیں، تاویلیں کر کے  دوسرے  مطلب بنا لئے  تھے  اور اللہ کی ذات پر بہتان باندھتے  تھے ، کتاب اللہ کے  جو حصے  اپنے  نفس کے  خلاف پاتے  تھے ، انہیں  چھپا لیتے  تھے ، ان سب علمی بد دیانتیوں کو یہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم بے  نقاب کرتے  ہیں ۔ ہاں جس کے  بیان کی ضرورت ہی نہ ہو، بیان نہیں  فرماتے ۔ مستدرک حاکم میں ہے  "جس نے  رجم کے  مسئلہ کا انکار کیا، اس نے  بے  عملی سے  قرآن سے  انکار کیا " چنانچہ اس آیت میں اسی رجم کے  چھپانے  کا ذکر ہے ، پھر قرآن عظیم کی بابت فرماتا ہے  کہ "اسی نے  اس نبی کریم پر اپنی یہ کتاب اتاری ہے ، جو جویائے  حق کوسلامتی کی راہ بتاتی ہے ، لوگوں کو ظلمتوں سے  نکال کر نور کی طرف لے  جاتی ہے  اور راہ مستقیم کی رہبر ہے ۔ اس کتاب کی وجہ سے  اللہ کے  انعاموں کو حاصل کر لینا اور اس کی سزاؤں سے  بچ جانا بالکل آسان ہو گیا ہے  یہ ضلالت کو مٹا دینے  والی اور ہدایت کو واضح کر دینے  والی ہے ۔ "

۱۷

اللہ وحدہٗ لا شریک ہے

اللہ تبارک و تعالیٰ عیسائیوں کے  کفر کو بیان فرماتا ہے  کہ انہوں نے  اللہ کی مخلوق کو الوہیت کا درجہ دے  رکھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک سے  پاک ہے ، تمام چیزیں اس کی محکوم اور مقدور ہیں ، ہر چیز پر اس کی حکومت اور ملکیت ہے ۔ کوئی نہیں  جو اسے  کسی ارادے  سے  باز رکھ سکے ، کوئی نہیں  جو اس کی مرضی کے  خلاف لب کشائی کی جرأت کر سکے ۔ وہ اگر مسیح کو، ان کی والدہ کو اور روئے  زمین کی تمام مخلوق کا موجد و خالق وہی ہے ۔ سب کا مالک اور سب کا حکمراں وہی ہے ۔ جو چاہے  کر گزرے  کوئی چیز اس کے  اختیار سے  باہر نہیں ، اس سے  کوئی باز پرس نہیں  کر سکتا، اس کی سلطنت و مملکت بہت وسیع ہے ، اس کی عظمت، عزت بہت بلند ہے ، وہ عادل و غالب ہے ۔ جسے  جس طرح چاہتا ہے  بناتا بگاڑتا ہے ، اس کی قدرتوں کی کوئی انتہا نہیں ۔ نصرانیوں کی تردید کے  بعد اب یہودیوں اور نصرانیوں دونوں کی تردید ہو رہی ہے  کہ انہوں نے  اللہ پر ایک جھوٹ یہ باندھا کہ ہم اللہ کے  بیٹے  اور اس کے  محبوب ہیں ، ہم انبیاء کی اولاد ہیں  اور وہ اللہ کے  لاڈلے  فرزند ہیں ، اپنی کتاب سے  نقل کرتے  تھے  کہ اللہ تعالیٰ نے  اسرائیل کو کہا ہے  انت ابنی بکری پھر تاویلیں کر کے  مطلب الٹ پلٹ کر کے  کہتے  کہ جب وہ اللہ کے  بیٹے  ہوئے  تو ہم بھی اللہ کے  بیٹے  اور عزیز ہوئے  حالانکہ خود ان ہی میں سے  جو عقلمند اور صاحب دین تھے  وہ انہیں  سمجھاتے  تھے  کہ ان لفظوں سے  صرف بزرگی ثابت ہوتی ہے ، قرابت داری نہیں ۔ اسی معنی کی آیت نصرانی اپنی کتاب سے  نقل کرتے  تھے  کہ حضرت عیسیٰ نے  فرمایا انی داھب الی ابی وابیکم اس سے  مراد بھی سگا باپ نہ تھا بلکہ ان کے  اپنے  محاورے  میں اللہ کیلئے  یہ لفظ بھی آتا تھا پس مطلب اس کا یہ ہے  کہ میں اپنے  اور تمہارے  رب کی طرف جا رہا ہوں اور عبادت کا مفہوم واضح بتا رہا ہے  کہ یہاں اس آیت میں جو نسبت حضرت عیسیٰ کی طرف سے ، وہی نسبت ان کی تمام امت کی طرف ہے  لیکن وہ لوگ اپنے  باطل عقیدے  میں حضرت عیسیٰ کو اللہ سے  جو نسبت دیتے  ہیں ، اس نسبت کا اپنے  اپنے  اوپر اطلاق نہیں  مانتے ۔ پس یہ لفظ صرف عزت و وقعت کیلئے  تھا نہ کہ کچھ اور ۔ اللہ تعالیٰ انہیں  جواب دیتا ہے  کہ اگر یہ صحیح ہے  تو پھر تمہارے  کفر و کذب، بہتان و افترا پر اللہ تمہیں  سزا کیوں کرتا ہے ؟ کسی صوفی نے  کسی فقیہ سے  دریافت فرمایا کہ کیا قرآن میں یہ بھی کہیں  ہے  کہ حبیب اپنے  حبیب کو عذاب نہیں  کرتا؟ اس سے  کوئی جواب بن نہ پڑا تو صوفی نے  یہی آیت تلاوت فرما دی، یہ قول نہایت عمدہ ہے  اور اسی کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے  کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے  اصحاب کی ایک جماعت کے  ساتھ راہ سے  گزر رہے  تھے ۔ ایک چھوٹا سا بچہ راستہ میں کھیل رہا تھا، اس کی ماں نے  جب دیکھا کہ ای جماعت کی جماعت اسی راہ آ رہی ہے  تو اسے  ڈر لگا کہ بچہ روندا نہ جائے  میرا بچہ میرا بچہ کہتی ہوئی دوڑی ہوئی آئی اور جھٹ سے  بچے  کو گود میں اٹھا لیا اس پر صحابہ نے  کہا "حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ عورت تو اپنے  پیارے  بچے  کو کبھی بھی آگ میں نہیں  ڈال سکتی" آپ نے  فرمایا "ٹھیک ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اپنے  پیارے  بندوں کو ہرگز جہنم میں لے  جائیگا۔ " یہودیوں کے  جواب میں فرماتا ہے  کہ تم بھی منجملہ اور مخلوق کے  ایک انسان ہو تمہیں  دوسروں پر کوئی فوقیت و فضیلت نہیں ، اللہ سبحان و تعالیٰ اپنے  بندوں پر حاکم ہے  اور وہی ان میں سچے  فیصلے  کرنے  والا ہے ، وہ جسے  چاہے  بخشے  جسے  چاہے  پکڑے ، وہ جو چاہے  کر گزرتا ہے ، اس کا کوئی حاکم نہیں ، اسے  کوئی رد نہیں  کر سکتا، "وہ بہت جلد بندوں سے  حساب لینے  والا ہے ۔ زمین و آسان اور ان کے  درمیان کی مخلوق سب اس کی ملکیت ہے " اس کے  زیر اثر ہے ، اس کی بادشاہت تلے  ہے ، سب کا لوٹنا اس کی طرف ہے ، وہی بندوں کے  فیصلے  کریگا، وہ ظالم نہیں  عادل ہے ، نیکوں کو نیکی اور بدوں کو بدی دے  گا، نعمان بن آصا، بحربن عمرو، شاس بن عدی جو یہودیوں کے  بڑے  بھاری علماء تھے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آئے  آپ نے  انہیں  سمجھایا بجھایا، آخرت کے  عذاب سے  ڈرایا تو کہنے  لگے  سنئے ، حضرت آپ ہمیں ڈرا رہے  ہیں ، ہم تو اللہ کے  بچے  اور اس کے  پیارے  ہیں ، یہی نصرانی بھی کہتے  تھے  پس یہ آیت اتری۔ ان لوگوں نے  ایک بات یہ بھی گھڑ کر مشہور کر دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے  حضرت اسرائیل کی طرف وحی نازل فرمائی کہ تیرا پہلو نٹھا بیٹا میری اولاد میں سے  ہے ۔ اس کی اولاد چالیس دن تک جہنم میں رہے  گی، اس مدت میں آگ انہیں  پاک کر دے  گی اور ان کی خطاؤں کو کھا جائے  گی، پھر ایک فرشتہ منادی کرے  گا کہ اسرائیل کی اولاد میں سے  جو بھی ختنہ شدہ ہوں، وہ نکل آئیں، یہی معنی ہیں  ان کے  اس قول کے  جو قرآن میں مروی ہے  وہ کہتے  ہیں  ہمیں گنتی کے  چند ہی دن جہنم میں رہنا پڑے  گا۔

۱۹

محمد صلی اللہ علیہ و سلم مطلقاً خاتم الانبیاء ہیں

اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو خطاب کر کے  فرماتا ہے  کہ میں نے  تم سب کی طرف اپنا رسول بھیج دیا ہے  جو خاتم الانبیاء ہے ، جس کے  بعد کوئی نبی رسول آنے  والا نہیں ، یہ سب کے  بعد ہیں ، دیکھ لو حضرت عیسیٰ کے  بعد سے  لے  کر اب تک کوئی رسول نہیں  آیا، فترت کی اس لمبی مدت کے  بعد یہ رسول آئے ، بعض کہتے  ہیں  یہ مدت چھ سو سال کی تھی، بعض کہتے  ہیں  ساڑھے  پانچ سو برس کی، بعض کہتے  ہیں  پانچ سو چالیس برس کی، کوئی کہتا ہے  چار سو کچھ اوپر تیس برس کی۔ ابن عسا کر میں ہے  کہ حضرت عیسیٰ کے  آسمان کی طرف اٹھائے  جانے  اور ہمارے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  ہجرت کرنے  کے  درمیان نو تینتیس سال کا فاصلہ تھا۔ لیکن مشہور قول پہلا ہی ہے  یعنی چھ سو سال کا، بعض کہتے  ہیں  چھ سو بیس سال کا فاصلہ تھا۔ ان دونوں قولوں میں اس طرح تطبیق بھی ہو سکتی ہے  کہ پہلا قول شمسی حساب سے  ہو اور دوسرا قمری حساب سے  ہو اور اس گنتی میں ہر تین سو سال میں تقریباً آٹھ کا فرق پڑ جاتا ہے ۔ اسی لئے  اہل کہف کے  قصے  میں ہے ۔ ۔ وہ لوگ اپنے  غار میں تین سو سال تک رہے  اور نو برس اور زیادہ کئے ۔ پس شمسی حساب سے  اہل کتاب کو جو مدت ان کی غار کی معلوم تھی، وہ تین سو سال کی تھی، نو بڑھا کر قمری حساب پورا ہو گیا، آیت سے  معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ سے  لے  کر جو بنی اسرائیل کے  آخری نبی تھے ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تک جو علی الا طلاق خاتم الانبیاء تھے ، فترۃ کا زمانہ تھا یعنی درمیان میں کوئی نبی نہیں  ہوا۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں ہے  "حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  حضرت عیسیٰ سے  یہ بہ نسبت اور لوگوں کے  میں زیادہ اولیٰ ہوں، اس لئے  کہ میرے  اور ان کے  درمیان کوئی نبی نہیں ۔ " اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے  جو خیال کرتے  ہیں  کہ ان دونوں جلیل القدر پیغمبروں کے  درمیان بھی ایک نبی گزرے  ہیں ، جن کا نام خالد بن سنان تھا۔ جیسے  کہ قضاعی وغیرہ نے  حکایت کی ہے ۔ مقصود یہ ہے  کہ خاتم الانبیاء حبیب اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں اس وقت تشریف لاتے  ہیں  جبکہ رسولوں کی تعلیم مٹ چکی ہے ، ان کی راہیں  بے  نشان ہو چکی ہیں ، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے ، دنیا توحید کو بھلا چکی ہے ، جگہ جگہ مخلوق پرستی ہو رہی ہے ، سورج چاند بت آگ کی پوجا جا رہی ہے ، اللہ کا دین بدل چکا ہے ، کفر کی تاریکی نور دین پر چھا چکی ہے ، دنیا کا چپہ چپہ سرکشی اور طغیانی سے  بھر گیا ہے ، عدل و انصاف بلکہ انسانیت بھی فنا ہو چکی ہے ، جہالت و قساوت کا دور دورہ ہے ، بجز چند نفوس کے  اللہ کا نام لیوا زمین پر نہیں  رہا، پس معلوم ہوا کہ آپ کی جلالت و عزت اللہ کے  پاس بہت بڑی تھی اور آپ نے  جو رسالت کی ذمہ داری ادا کی، وہ کوئی معمولی نہ تھی، صلی اللہ علیہ و سلم۔ مسند احمد میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  ایک خطبہ میں فرمایا "مجھے  میرے  رب کا حکم ہے  کہ میں تمہیں  وہ باتیں سکھاؤں، جن سے  تم ناواقف ہو اور اللہ تعالیٰ نے  مجھے  آج بھی بتائی ہیں ، فرمایا ہے  میں نے  اپنے  بندوں کو جو کچھ عنایت فرمایا ہے  وہ ان کیلئے  حلال ہے ، میں نے  اپنے  سب بندوں کو موحد پیدا کیا ہے ، لیکن پھر شیطان ان کے  پاس آتا ہے  اور انہیں  بہکاتا ہے  اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کرتا ہے  اور انہیں  کہتا ہے  کہ وہ میرے  ساتھ باوجود دلیل نہ ہونے  کے  شرک کریں ۔ سنو اللہ تعالیٰ نے  زمین والوں کو دیکھا اور تمام عرب و عجم کو ناپسند فرمایا بجز ان چند بقایا بنی اسرائیل کے  (جو توحید پر قائم ہیں) پھر (مجھ سے) فرمایا، میں نے  تجھے  اسی لئے  اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے  کہ تیری آزمائش کروں اور تیری وجہ سے  اوروں کی بھی آزمائش کر لوں ۔ میں تجھ پر وہ کتاب نازل فرمائی ہے ، جسے  پانی دھو نہیں  سکتا جسے  تو سوتے  جاگتے  پڑھتا ہے ، پھر مجھے  میرے  رب نے  حکم دیا کہ قریشیوں میں پیغام الٰہی پہنچاؤں میں نے  کہا یا رب یہ تو میرا سر کچل کر روٹی جیسا بنا دیں گے ، پروردگار نے  فرمایا تو انہیں  نکال، جیسے  انہوں نے  تجھے  نکالا تو ان سے  جہاد کر، تیری امداد کی جائے  گی۔ تو ان پر خرچ کر، تجھ پر خرچ کیا جائے  گا، تو ان کے  مقابلے  پر لشکر بھیج، ہم اس سے  پانچ گنا لشکر اور بھیجیں گے  اپنے  فرمانبرداروں کو لے  کر اپنے  نا فرمانوں سے  نگ کر، جنتی لوگ تین قسم کے  ہیں ، بادشاہ عادل، توفیق خیر والا، صدقہ خیرات کرنے  والا اور باوجود مفلس ہونے  کے  حرام سے  بچنے  والا، حالانکہ اہل و عیال بھی ہے ، اور جہنمی لوگ پانچ قسم کے  ہیں  وہ سفلے  لوگ جو بے  دین، خوشامد خورے  اور ماتحت ہیں ، جن کی آل اولاد دھن دولت ہے  اور وہ حائن لوگ جن کے  دانت چھوٹی سے  چھوٹی چیز پر بھی ہوتے  ہیں  اور حقیر چیزوں میں بھی خیانت سے  نہیں  چوکتے  اور وہ لوگ جو صبح شام لوگوں کو ان کے  اہل و مال میں دھوکہ دیتے  پھرتے  ہیں  اور بخیل ہیں  فرمایا کذاب اور شنطیر یعنی بد گو۔ " یہ حدیث مسلم اور نسائی میں ہے ۔ مقصود یہ ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے  وقت سچا دین دنیا میں نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے  آپ کی وجہ سے  لوگوں کو اندھیروں سے  اور گمراہیوں سے  نکال کر اجالے  میں اور راہ راست پر لاکھڑا کیا اور انہیں  روشن و ظاہر شریعت عطا فرمائی۔ اس لئے  کہ لوگوں کا عذر نہ رہے ، انہیں  یہ کہنے  کی گنجائش نہ رہے  کہ ہمارے  پاس کوئی نبی نہیں  آیا، ہمیں نہ تو کسی نے  کوئی خوشخبری سنائی نہ دھمکایا ڈرایا۔ پس کامل قدرتوں والے  اللہ نے  اپنے  برگزیدہ پیغمبروں کو ساری دنیا کی ہدایت کیلئے  بھیج دیا، وہ اپنے  فرمانبرداروں کو ثواب دینے  پر اور نافرمانوں کو عذاب کرنے  پر قادر ہے ۔

 

۲۰

محمد صلی اللہ علیہ و سلم مطلقاً خاتم الانبیاء ہیں

تسلسل انبیاء نسل انسانی پہ اللہ کی رحمت

حضرت موسیٰ نے  اپنی قوم کو اللہ کی جو نعمتیں یاد دلا کر اس کی اطاعت کی طرف مائل کیا تھا، اس کا بیان ہو رہا ہے  کہ فرمایا "لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے  ایک کے  بعد ایک نبی تم میں تمہیں  میں سے  بھیجا۔ " حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے  بعد سے  انہی کی نسل میں نبوت رہی۔ یہ سب انبیاء تمہیں  دعوت توحید و اتباع دیتے  رہے ۔ یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ روح اللہ پر ختم ہوا، پھر خاتم الانبیاء و الرسل حضرت محمد بن عبد صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت کاملہ عطا ہوئی، آپ اسماعیل کے  واسطہ سے  حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے  تھے ، جو اپنے  سے  پہلے  کے  تمام رسولوں اور نبیوں سے  افضل تھے ۔ اللہ آپ پر درود و سلام نازل فرمائے  اور تمہیں  اس نے  بادشاہ بنا دیا یعنی خادم دیئے ، بیویاں دیں، گھر بار دیا اور اس وقت جتنے  لوگ تھے ، ان سب سے  زیادہ نعمتیں تمہیں  عطا فرمائیں ۔ یہ لوگ اتنا پانے  کے  بعد بادشاہ کہلانے  لگتے  ہیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے  ایک شخص نے  پوچھا کہ کیا میں فقراء مہاجرین میں سے  نہیں  ہوں ؟ آپ نے  فرمایا تیری بیوی ہے ؟ اس نے  کہا ہاں گھر بھی ہے ؟ کہا ہاں، کہا پھر تو تو غنی ہے ، اس نے  کہا یوں تو میرا خادم بھی ہے ، آپ نے  فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے  ہے ۔ حسن بصری فرماتے  ہیں  "سواری اور خادم ملک ہے "۔ بنو اسرائیل ایسے  لوگوں کو ملوک کہا کرتے  تھے ۔ بقول قتادہ خادموں کا اول اول رواج ان بنی اسرائیلیوں نے  ہی دیا ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے  کہ ان لوگوں میں جس کے  پاس خادم، سواری اور بیوی ہو وہ بادشاہ کہا جاتا تھا۔ ایک اور مرفوع حدیث میں ہے  "جس کا گھر ہو اور خادم ہو وہ بادشاہ ہے "۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے  "جو شخص اس حالت میں صبح کرے  کہ اس کا جسم صحیح سالم ہو، اس کا نفس امن و امان میں ہو، دن بھر کفایت کرے ، اس کیلئے  اتنا مال بھی ہو تو اس کیلئے  گویا کل دنیا سمٹ کر آ گئی"۔ اس وقت جو یونانی قبطی وغیرہ تھے  ان سے  یہ اشرف و افضل مانے  گئے  تھے  اور آیت میں ہے  ہم نے  بنو اسرائیل کو کتاب، حکم، نبوت، پاکیزہ روزیاں اور سب پر فضیلت دی تھی۔ حضرت موسیٰ سے  جب انہوں نے  مشرکوں کی دیکھا دیکھی اللہ بنانے  کو کہا اس کے  جواب میں حضرت موسیٰ نے  اللہ کے  فضل بیان کرتے  ہوئے  یہی فرمایا تھا کہ اس نے  تمہیں  تمام جہان پر فضیلت دے  رکھی ہے ۔ مطلب سب جگہ یہی ہے  کہ اس وقت کے  تمام لوگوں پر کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے  کہ یہ امت ان سے  افضل ہے ، کیا شرعی حیثیت سے ، کیا احامی حیثیت سے ، کیا نبوت کی حیثیت سے ، کیا بادشاہت، عزت، مملکت، دولت، حشمت مال، اولاد وغیرہ کی حیثیت سے ، خود قرآن فرماتا ہے  کنتم خیرامۃ الخ، اور فرمایا و جعلنا کم امۃ وسطا الخ، یہ بھی کہا گیا ہے  کہ "بنو اسرائیل کے  ساتھ اس فضیلت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی شامل کر کے  خطاب کیا گیا ہے " اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ "بعض امور میں انہیں  فی الواقع علی الاطلاق فضیلت دی گئی تھی جیسے  من و سلویٰ کا اترنا، بادلوں سے  سایہ مہیا کرنا وغیرہ جو خلاف عادت چیزیں تھیں "۔ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے  جیسا پہلے  بیان ہو چکا ہے  کہ مراد اس سے  ان کے  اپنے  زمانے  والوں پر انہیں  فضیلت دیا جانا ہے  واللہ اعلم۔ پھر بیان ہوتا ہے  کہ "بیت المقدس دراصل ان کے  دادا حضرت یعقوب کے  زمانہ میں انہی کے  قبضے  میں تھا اور جب وہ مع اپنے  اہل و عیال کے  حضرت یوسف کے  پاس مصر چلے  گئے  تو یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی، وہ بڑے  مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی۔ اب حضرت موسیٰ اپنی قوم سے  فرماتے  ہیں  کہ تم ان سے  جہاد کرو اللہ تمہیں  ان پر غالب کرے  گا اور یہاں کا قبضہ پھر تمہیں  مل جائے  گا لیکن یہ نامردی دکھاتے  ہیں  اور بزدلی سے  منہ پھیر لیتے  ہیں ۔ ان کی سزا میں انہیں  چالیس سال تک وادی تیہ میں حیران و سرگرداں خانہ بدوشی میں رہنا پڑتا ہے ، مقدسہ سے  مراد پاک ہے ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  یہ وادی طور اور اس کے  پاس کی زمین کا ذکر ہے  ایک روایت میں اریحاء کا ذکر ہے  لیکن یہ ٹھیک نہیں ، اس لئے  کہ نہ تو اریحاء کا فتح کرنا مقصود تھا، نہ وہ ان کے  راستے  میں تھا، کیونکہ وہ فرعون کی ہلاکت کے  بعد مصر کے  شہروں سے  آ رہے  تھے  اور بیت المقدس جا رہے  تھے ، یہ ہو سکتا ہے  کہ وہ مشہور شہر جو طور کی طرف بیت المقدس کے  مشرقی رخ پر تھا " "اللہ نے  اسے  تمہارے  لئے  لکھ دیا ہے " مطلب یہ ہے  کہ تمہارے  باپ اسرائیل سے  اللہ نے  وعدہ کیا ہے  کہ وہ تیری اولاد کے  با ایمان لوگوں کے  ورثے  میں آئے  گا، تم اپنی پیٹھوں پر مرتد نہ ہو جاؤ۔ یعنی جہاد سے  منہ پھیر کر تھک کر نہ بیٹھ جاؤ، ورنہ زبردست نقصان میں پڑ جاؤ گے ۔ جس کے  جواب میں وہ کہتے  ہیں  کہ جس شہر میں جانے  اور جن شہریوں سے  جہاد کرنے  کیلئے  آپ فرما رہے  ہیں ، ہمیں معلوم ہے  کہ وہ بڑے  قوی طاقتور اور جنگجو ہیں ، ہم ان سے  مقابلہ نہیں  کر سکتے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں ، ہم اس شہر میں نہیں  جا سکتے ، ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے  نکل جائیں تو ہم چلے  جائیں گے ،، ورنہ آپ کے  حکم کی تعمیل ہماری طاقت سے  باہر ہے ، ابن عباس کا بیان ہے  کہ "حضرت موسیٰ جب اریحاء کے  قریب پہنچ گئے  تو آپ نے  بارہ جاسوس مقرر کئے ، بنو اسرائیل کے  ہر قبیلے  میں سے  ایک جاسوس لیا اور انہیں  اریحاء میں بھیجا کر صحیح خبریں لے  آئیں ۔ یہ لوگ جب گئے  تو ان کی جسامت اور قوت سے  خوف زدہ ہو گئے ۔ ایک باغ میں یہ سب کے  سب تھے ، اتفاقاً باغ والا پھل توڑنے  کیلئے  آ گیا، وہ پھل توڑتا ہوا ان کے  قدموں کے  نشان ڈھونڈتا ہوا ان کے  پاس پہنچ گیا اور انہیں  بھی پھلوں کے  ساتھ ہی ساتھ اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا اور جا کر بادشاہ کے  سامنے  باغ کے  پھل کی گٹھڑی کھول کر ڈال دی، جس میں یہ سب کے  سب تھے ، بادشاہ نے  انہیں  کہا اب تو تمہیں  ہماری قوت کا اندازہ ہو گیا ہے ، تمہیں  قتل نہیں  کرتا جاؤ واپس جاؤ اور اپنے  لوگوں سے  ہماری قوت بیان کر دو۔ چنانچہ انہوں نے  جا کر سب حال بیان کیا جس سے  بنو اسرائیل رعب میں آ گئے "۔ لیکن اس کی اسناد ٹھیک نہیں ۔ دوسری روایت میں ہے  کہ ان بارہ لوگوں کو ایک شخص نے  پکڑ لیا اور اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ کر نہر میں لے  گیا اور لوگوں کے  سامنے  انہیں  ڈال دیا، انہوں نے  پوچھا تم کون لوگ ہو؟ جواب دیا کہ ہم موسیٰ کی قوم کے  لوگ ہیں ، ہم تمہاری خبریں لینے  کیلئے  بھیجے  گئے  تھے ۔ انہوں نے  ایک انگور ان کو دیا جو ایک شخص کو کافی تھا اور کہا جاؤ ان سے  کہہ دو کہ یہ ہمارے  میوے  ہیں ۔ انہوں نے  واپس جا کر قوم سے  سب حال کہہ دیا، اب حضرت موسیٰ نے  انہیں  جہاد کا اور اس شہر میں جانے  کا حکم دیا تو انہوں نے  صاف کہہ دیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جائیں اور لڑیں ہم تو یہاں سے  ہلنے  کے  بھی نہیں ۔ حضرت انس نے  ایک بانس لے  کر ناپا جو پچاس یا پچپن ہاتھ کا تھا، پھر اسے  گاڑ کر فرمایا "ان عمالیق کے  قد اس قد لانبے  تھے "۔ مفسرین نے  یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں  کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے ، اتنے  موٹے  اور اتنے  لمبے  قد تھے ، انہی میں عوج بن عنق بن حضرت آدم تھا، جس کا قد لمبائی میں تین ہزار تین سو تیتس (۳۳۳۳) گز کا تھا، اور چوڑائی اس کے  جسم کی تین گزر کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں ، ان کے  تو ذکر سے  بھی حیا مانع ہے ، پھر یہ صحیح حدیث کے  خلاف بھی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے  حضرت آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا، پھر سے  آج تک مخلوق کے  قد گھٹتے  ہی رہے ، ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے  کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے  اور حضرت نوح کے  ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا، تاہم پانی اس کے  گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے  بلکہ قرآن کے  خلاف ہے ، قرآن کریم میں نوح کی دعا یہ مذکور ہے  کہ زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہئے ، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی، قرآن فرماتا ہے  "ہم نے  نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی، پھر باقی کے  سب کافروں کو غرق کر دیا "۔ خود قرآن میں ہے  کہ "آج کے  دن بجز ان لوگوں کے  جن پر رحمت حق ہے ، کوئی بھی بچنے  کا نہیں " تعجب سا تعجب ہے  کہ نوح کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے  لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزناء بچ رہے ۔ یہ بالکل عقل و نقل کے  خلاف ہے  بلکہ ہم تو سرے  سے  اس کے  بھی قائل نہیں  کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا واللہ اعلم۔ بنی اسرائیل جب اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نہیں  مانتے  بلکہ ان کے  سامنے  سخت کلامی اور بے  ادبی کرتے  تو وہ شخص جن پر اللہ کا انعام و ا کرام تھا، وہ انہیں  سمجھاتے  ہیں ۔ ان کے  دلوں میں اللہ کا خوف تھا، وہ ڈرتے  تھے ، کہ بنی اسرائیل کی اس سرکشی سے  کہیں  عذاب الٰہی نہ آ جائے ، ایک قرات میں یخافون کے  بدلے  بھابون ہے ، اس سے  مراد یہ ہے  کہ "ان دونوں بزرگوں کی قوم میں عزت و عظمت تھی"۔ ایک کا نام حضرت یوشع بن نون تھا دوسرے  کا نام کالب بن یوفا تھا "۔ انہوں نے  کہا کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے ، اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو گے  تو اللہ تعالیٰ تمہیں  ان دشمنوں پر غالب کر دے  گا اور وہ تمہاری مدد کو تائید کرے  گا اور تم اس شہر میں غلبے  کے  ساتھ پہنچ جاؤ گے ، تم دروازے  تک تو چلے  چلو، یقین مانو کہ غلبہ تمہارا ہی ہے ۔ لیکن ان نامرادوں نے  اپنا پہلا جواب اور مضبوط کر دیا اور کہا کہ اس جبار قوم کی موجودگی میں ہمارا ایک قدم بڑھانا بھی ناممکن ہے ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے  دیکھ کر بہت سمجھایا یہاں تک کہ ان کے  سامنے  بڑی عاجزی کی لیکن وہ نہ جانے ۔ یہ حال دیکھ کر حضرت یوشع اور حضرت کالب نے  اپنے  کپڑے  پھاڑ ڈالے  اور انہیں  بہت کچھ ملامت کی۔ لیکن یہ بدنصیب اور اکڑ گئے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ ان دونوں بزرگوں کو انہوں نے  پتھروں سے  شہید کر دیا، ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا اور بے  طرح مخالفت رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر تل گئے ۔ ان کے  اس حال کو سامنے  رکھ کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  صحابہ کے  حال کو دیکھئے  کہ جب نو سا یا ایک ہزار کافر اپنے  قافلے  کو بچانے  کیلئے  چلے ، قافلہ تو دوسرے  راستے  سے  نکل گیا لیکن انہوں نے  اپنی طاقت و قوت کے  گھمنڈ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نقصان پہنچائے  بغیر واپس جانا اپنی امیدوں پر پانی پھیرنا، سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے  کے  ارادے  سے  مدینہ کا رخ کیا، ادھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ حالات معلوم ہوئے  تو آپ نے  اپنے  صحابہ سے  کہا کہ بتاؤ اب کیا کرنا چاہئے ؟ اللہ ان سب سے  خوش رہے ، انہوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  مقابلہ میں اپنے  مال اپنی جانیں اور اپنے  اہل عیال سب کو ہیچ سمجھا نہ کفار کے  غلبے  کو دیکھا، نہ اسباب پر نظر ڈالی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  فرمان پہ قربان ہیں ۔ سب سے  پہلے  حضرت صدیق نے  اس قسم کی گفتگو کی، پھر مہاجرین صحابہ میں سے  کئی ایک نے  اسی قسم کی تقریر کی۔ لیکن پھر بھی آپ نے  فرمایا؟ اور بھی کوئی شخص اپنا ارادہ ظاہر کرنا چاہے  تو کرے ، آپ کا مقصد اس سے  یہ تھا کہ انصار کا دلی ارادہ معلوم کریں، اس لئے  کہ یہ جگہ انہ کی تھی اور تعداد میں بھی یہ مہاجرین سے  زیادہ تھے ۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ انصاری و انصار کھڑے  ہو گئے  اور فرمانے  لگے  شاید آپ کا ارادہ ہماری منشاء معلوم کرنے  کا ہے  "سنئے  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! قسم ہے  اس اللہ کی جس نے  آپ کو حق کے  ساتھ سچا نبی بنا کر بھیجا ہے  کہ اگر آپ ہمیں سمندر کے  کنارے  کھڑا کر کے  فرمائیں کہ اس میں کود جاؤ تو بغیر کسی پس و پیش کے  اس میں کود جائیں گے ۔ آپ دیکھ لیں گے  کہ ہم میں سے  ایک بھی نہ ہو گا جو کنارے  پر کھڑا رہ جائے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم آپ اپنے  دشمنوں کے  مقابلے  میں ہمیں شوق سے  لے  چلئے ۔ آپ دیکھ لیں گے  کہ ہم لڑائی میں صبر اور ثابت قدمی دکھانے  والے  لوگ ہیں ، آپ جان لیں گے  کہ ہم اللہ کی ملاقات کو سچ جاننے  والے  لوگ ہیں ، آپ اللہ کا نام لیجئے ، کھڑے  ہو جائیے  ہمیں دیکھ کر ہماری بہادری اور استقلال کو دیکھ کر انشاء اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی" یہ سن کر اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم خوش ہو گئے  اور آپ کو انصار کی یہ باتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوئیں رضی اللہ عنہم۔ " ایک روایت میں ہے  کہ بدر کی لڑائی کے  موقعہ پر آپ نے  مسلمانوں سے  مشورہ لیا، حضرت عمر نے  کچھ کہا پھر انصاریوں نے  کہا کہ اگر آپ ہماری سننا چاہتے  ہیں ، تو سنئے  ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ، جو کہہ دیں کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑیں، ہم یہاں بیٹھے  ہیں ، بلکہ ہمارا جواب یہ ہے  کہ آپ اللہ کی مدد لے  کر جہاد کیلئے  چلئے ، ہم جان و مال سے  آپ کے  ساتھ ہیں ۔ حضرت مقداد انصاری نے  بھی کھڑے  ہو کر یہی فرمایا تھا۔ حضرت ابن مسعود فرمایا کرتے  تھے  کہ حضرت مقداد کے  اس قول سے  اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم خوش ہو گئے ، انہوں نے  کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم لڑائی کے  وقت دیکھ لیں گے  کہ آپ کے  آگے  پیچھے  دائیں بائیں ہم ہی ہم ہوں گے ۔ کاش کہ کوئی ایسا موقع مجھے  میسر آتا کہ میں اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اس قدر خوش کر سکتا۔ ایک روایت میں حضرت مقداد کا یہ قول حدیبیہ کے  دن مروی ہے  جبکہ مشرکین نے  آپ کو عمرہ کیلئے  بیت اللہ شریف جاتے  ہوئے  راستے  میں روکا اور قربانی کے  جانور بھی ذبح کی جگہ نہ پہنچ سکے  تو آپ نے  فرمایا میں تو اپنی قربانی کے  جانور کو لے  کر بین اللہ پہنچ کر قربان کرنا چاہتا ہوں تو حضرت مقداد بن اسود نے  فرمایا ہم اصحاب موسیٰ کی طرح نہیں  کہ انہوں نے  اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے  کہہ دیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑ لو ہم تو یہاں بیھٹے  ہیں ۔ ہم کہتے  ہیں  حضور صلی اللہ علیہ و سلم آپ چلئے  اللہ کی مدد آپ کے  ساتھ ہو اور ہم سب کے  سب آپ کے  ساتھی ہیں ، یہ سن کر اصحاب نے  بھی اسی طرح جاں نثاروں کے  وعدے  کرنے  شروع کر دیئے ۔ پس اگر اس روایت میں حدیبیہ کا ذکر محفوظ ہو تو ہو سکتا ہے  کہ بدر والے  دن بھی آپ نے  یہ فرمایا ہو اور حدیبیہ والے  دن بھی یہی فرمایا ہو واللہ اعلم۔ حضرت موسیٰ کو اپنی امت کا یہ جواب سن کر ان پر بہت غصہ آیا اور اللہ کے  سامنے  ان سے  اپنی بیزاری کا اظہار کیا کہ "رب العالمین مجھے  تو اپنی جان پر اور اپنے  بھائی پر اختیار ہے ، تو میرے  اور میری قوم کے  ان فاسقوں کے  درمیان فیصلہ فرما "۔ جناب باری نے  یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ اب چالیس سال تک یہاں سے  جا نہیں  سکتے ۔ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں گھومتے  پھرتے  رہیں  گے ، کسی طرح اس کی حدود سے  باہر نہیں  جا سکتے  تھے ۔ یہاں انہوں نے  عجیب و غریب خلاف عادت امور دیکھے  مثلاً ابر کا سایہ ان پر ہونا، من و سلویٰ کا اترنا۔ ایک ٹھوس پتھر سے ، جو ان کے  ساتھ تھا، پانی کا نکلنا، حضرت موسیٰ نے  اس پتھر پر ایک لکڑی ماری تو فوراً ہی اس سے  بارہ چشمے  پانی کے  جاری ہو گئے  اور ہر قبیلے  کی طرف ایک چشمہ بہ نکلا، اس کے  سوا اور بھی بہت سے  معجزے  بنو اسرائیل نے  واہاں پر دیکھے ، یہیں  تورات اتری، یہیں  احکام الٰہی نازل ہوئے  وغیرہ وغیرہ، اسی میدان میں چالیس سال تک یہ گھومتے  پھرتے  رہے  لیکن کوئی راہ وہاں سے  گزر جانے  کی انہیں  نہ ملی۔ ہاں ابر کا یہ ان پر کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا۔ فتون کی مطول حدیث میں ابن عباس سے  یہ سب مروی ہے ۔ پھر حضرت ہارون کی وفات ہو گئی اور اس کے  تین سال بعد کلیم اللہ حضرت موسیٰ بھی انتقال فرما گئے ، پھر آپ کے  خلیفہ حضرت یوشع بن نون بنی بنائے  گئے ۔ اسی اثناء میں بہت سے  بنی اسرائیل مر مرا چکے  تھے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ صرف حضرت یوشع اور کالب ہی باقی رہے  تھے ۔ بعض مفسرین سنتہ پر وقف تام کرتے  ہیں  اور اربعین سنتہ کو نصب کی حالت میں مانتے  ہیں  اور اس کا عامل یتبھون فی الارض کو بتلاتے  ہیں ۔ اس سے  بھی باقی بنو اسرائیل ان کے  ساتھ ہو لئے  اور آپ نے  بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔ جمعہ کے  دن عصر کے  بعد جب کہ فتح کا وقت آ پہنچا دشمنوں کے  قدم اکھڑ گئے ، اتنے  میں سورج ڈوبنے  لگا اور سورج ڈوبنے  کے  بعد ہفتے  کی تعظیم کی وجہ سے  لڑائی ہو نہیں  سکتی تھی اس لئے  اللہ کے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اے  سورج تو بھی اللہ کا غلام ہے  اور میں بھی اللہ کا محکوم ہوں، اے  اللہ اسے  ذرا سی دیر روک دے ۔ چنانچہ اللہ کے  حکم سے  سورج رک گیا اور آپ نے  دلجمعی کے  ساتھ بیت المقدس کو فتح کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو کہہ دو  اس شہر کے  دروازے  میں سجدے  کرتے  ہوئے  جائیں اور حطۃ کہیں  یعنی یا اللہ ہماری گناہ معاف فرما۔ لیکن انہوں نے  اللہ کے  حکم کو بدل دیا۔ رانوں پر گھسٹتے  ہوئے   اور زبان سی جتہ فی شعرۃ کہتے  ہوئے  شہر میں گئے ، مزید تفصیل سورہ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے  کہ اس قدر مال غنیمت انہیں  حاصل ہوا کہ اتنا مال کبھی انہوں نے  نہیں  دیکھا تھا۔ فرمان رب کے  مطابق اسے  آگ میں جلانے  کیلئے  آگ کے  پاس لے  گئے  لیکن آگ نے  اسے  جلایا نہیں  اس پر ان کے  نبی حضرت یوشع نے  فرمایا "تم میں سے  کسی نے  اس میں سے  کچھ چرا لیا ہے  پس میرے  پاس ہر قبیلے  کا سردار آئے  اور میرے  ہاتھ پر بیعت کرے " چنانچہ یونہی کیا گیا، ایک قبیلے  کے  سردار کا ہاتھ اللہ کے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے  ہاتھ سے  چپک گیا، آپ نے  فرمایا "تیرے  پاس جو بھی خیانت کی چیز ہے ، اسے  لے  آ"۔ اس نے  ایک گائے  کا سر سونے  کا بنا ہوا پیش کیا، جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے  تھے ، جب وہ بھی دوسرے  مال کے  ساتھ ڈال دیا گیا، اب آگ نے  اس سب مال کو جلا دیا۔ امام ابن جریر نے  بھی اسی قول کو پسند کیا ہے  اربعین سنۃ میں فانھا محرمۃ عامل ہے ، اور بنی اسرائیل کی یہ جماعت چالیس برس تک اسی میدان تیہ میں سرگرداں رہی پھر حضرت موسیٰ کے  ساتھ یہ لوگ نکلے  اور بیت المقدس کو فتح کیا اس کی دلیل اگلے  علماء یہود کا اجماع ہے  کہ عوج بن عنق کو حضرت کلیم اللہ نے  ہی قتل کیا ہے ۔ اگر اس کا قتل عمالیق کی اس جنگ سے  پہلے  کا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل جنگ عمالیق کا انکار کر بیٹھتے ؟ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تیہ سے  چھوٹنے  کے  بعد کا ہے ، علماء یہود کا اس پر بھی اجماع ہے  کہ بلعام بن باعورا نے  قوم عمالیق کے  جباروں کی اعانت کی اور اس نے  حضرت موسیٰ پر بددعا کی۔ یہ واقعہ بھی اس میدان کی قید سے  چھوٹنے  کے  بعد کا ہے ۔ اس لئے  کہ اس سے  پہلے  تو جباروں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے  کوئی ڈر نہ تھا۔ ابن جریر کی یہی دلیل ہے  وہ یہ بھی کہتے  ہیں  کہ حضرت موسیٰ کا عصادس ہاتھ کا تھا اور آپ کا قد بھی دس ہاتھ کا تھا اور دس ہاتھ زمین سے  اچھل کر آپ نے  عوج بن عنق کو وہ عصا مارا تھا جو اس کے  ٹخنے  پر لگا اور وہ مر گیا، اس کے  جثے  سے  نیل کا پل بنایا گیا تھا، جس پر سے  سال بھر تک اہل نیل آتے  جاتے  رہے ۔ نوف بکالی کہتے  ہیں  کہ اس کا تخت تین گز کا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دیتے  ہوئے  فرماتا ہے  کہ تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر غم و رنج نہ کر، وہ اسی جیل خانے  کے  مستحق ہیں ، اس واقعہ میں درحقیقت یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر ہے  اور ان کی مخالفتوں کا اور برائیوں کا بیان ہے  یہ دشمنان رب سختی کے  وقت اللہ کے  دین پر قائم نہیں  رہتے  تھے ، رسولوں کی پیروی سے  انکار کر جاتے  تھے ، جہاد سے  جی چراتے  تھے ، اللہ کے  اس کلیم و بزرگ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی کا، ان کے  وعدے  کا، ان کے  حکم کا کوئی پاس انہوں نے  نہیں  کیا، دن رات معجزے  دیکھتے  تھے ، فرعون کی بربادی اپنی آنکھوں دیکھ لی تھی اور اسے  کچھ زمانہ بھی نہ گزرا تھا، اللہ کے  بزرگ کلیم پیغمبر ساتھ ہیں ، وہ نصرت و فتح کے  وعدے  کر رہے  ہیں ، مگر یہ ہیں  کہ اپنی بزدلی میں مرے  جا رہے  ہیں  اور نہ صرف انکار بلکہ ہولناکی کے  ساتھ انکار کرتے  ہیں ، نبی اللہ کی بے  ادبی کرتے  ہیں  اور صاف جواب دیتے  ہیں ۔ اپنی آنکھوں دیکھ چکے  ہیں  کہ فرعون جیسے  با سامان بادشاہ کو اس کے  سازو سامان اور لشکر و رعیت سمیت اس رب نے  ڈبو دیا۔ لیکن پھر بھی اسی بستی والوں کی طرف اللہ کے  بھروسے  پر اس کے  حکم کی ماتحتی میں نہیں  بڑھتے  حالانکہ یہ فرعون کے  دسویں حصہ میں بھی نہ تھے ۔ پس اللہ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے ، ان کی بزدلی دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے  اور آئے  دن ان کی رسوائی اور ذلت بڑھتی جاتی ہے ۔ گو یہ لوگ اپنے  تئیں اللہ کے  محبوب جانتے  تھے  لیکن حقیقت اس کے  بالکل برعکس تھی۔ رب کی نظروں سے  یہ گر گئے  تھے ، دنیا میں ان پر طرح طرح کے  عذاب آئے ، سور بندر بھی بنائے  گئے ، لعنت ابدی میں یہاں گرفتار ہو کر عذاب اخروی کے  دائمی شکار بنائے  گئے ۔ پس تمام تعریف اس اللہ کیلئے  ہے ، جس کی فرمانبرداری تمام بھلائیوں کی کنجی ہے ۔

۲۷

حسد و بغض سے ممانعت

اس قصے  میں حسد و بغض سرکشی اور تکبر کا بد انجام بیان ہو رہا ہے  کہ کس طرح حضرت کے  دو صلبی بیٹوں میں کشمکش ہو گئی اور ایک اللہ کا ہو کر مظلوم بنا اور مار ڈالا گیا اور اپنا ٹھکانا جنت میں بنا لیا اور دوسرے  نے  اسے  ظلم و زیادتی کے  ساتھ بے  وجہ قتل کیا اور دونوں جہان میں برباد ہوا۔ فرماتا ہے  "اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم انہیں  حضرت آدم کے  دونوں بیٹوں کا صحیح صحیح بے  کم و کاست قصہ سنا دو۔ ان دونوں کا نام ہوابل و قابیل تھا۔ مروی ہے  کہ چونکہ اس وقت دنیا کی ابتدائی حالت تھی، اس لئے  یوں ہوتا تھا کہ حضرت آدم کے  ہاں ایک حمل سے  لڑکی لڑکا دو ہوتے  تھے ، پھر دوسرے  حمل میں بھی اسی طرح تو اس حمل کا لڑکا اور دوسرے  حمل کی لڑکی ان دونوں کا نکاح کرا دیا جاتا تھا، ہابیل کی بہن تو خوبصورت نہ تھی اور قابیل کی بہن خوبصورت تھی تو قابیل نے  چاہا کہ اپنی ہی بہن سے  اپنا نکاح کر لے ، حضرت آدم اس سے  منع کیا آخر یہ فیصلہ ہوا کہ تم دونوں اللہ کے  نام پر کچھ نکالو، جس کی خیرات قبول ہو جائے  اس کا نکاح اس کے  ساتھ کر دیا جائے  گا۔ ہابیل کی خیرات قاعدہ جو اوپر مذکور ہوا بیان فرمانے  کے  بعد مروی ہے  کہ بڑا بھائی قابیل کھیتی کرتا تھا اور ہابیل جانوروں والا تھا، قابیل کی بہن بہ نسبت ہابیل کی بہن کے  خوب رو تھی۔ جب ہابیل کا پیغام اس سے  ہوا تو قابیل نے  انکار کر دیا اور اپنا نکاح اس سے  کرنا چاہا، حضرت آدم نے  اس سے  روکا۔ اب ان دونوں نے  خیرات نکالی کہ جس کی قبول ہو جائے  وہ نکاح کا زیادہ حقدار ہے  حضرت آدم اس وقت مکے  چلے  گئے  کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے  حضرت آدم سے  فرمایا زمین پر جو میرا گھر ہے  اسے  جانتے  ہو؟ آپ نے  کہا نہیں  حکم ہوا مکے  میں ہے  تم وہیں  جاؤ، حضرت آدم نے  آسمان سے  کہا کہ میرے  بچوں کی تو حفاظت کرے  گا؟ اس نے  انکار کیا زمین سے  کہا اس نے  بھی انکار کر دیا، پہاڑوں سے  کہا انہوں نے  بھی انکار کیا، قابیل سے  کہا، اس نے  کہا ہاں میں محافظ ہوں، آپ جایئے  آ کر ملاحظہ فرما لیں گے  اور خوش ہوں گے ۔ اب ہابیل نے  ایک خوبصورت موٹا تازہ مینڈھا اللہ کے  نام پر ذبح کیا اور بڑے  بھائی نے  اپنی کھیتی کا حصہ اللہ کیلئے  نکالا۔ آگ آئی اور ہابیل کی نذر تو جلا گئی، جو اس زمانہ میں قبولیت کی علامت تھی اور قابیل کی نذر قبول نہ ہوئی، اس کی کھیتی یونہی رہ گئی، اس نے  راہ اللہ کرنے  کے  بعد اس میں سے  اچھی اچھی بالیں توڑ کر کھا لیں تھیں ۔ چونکہ قابیل اب مایوس ہو چکا تھا کہ اس کے  نکاح میں اس کی بہن نہیں  آ سکتی، اس لئے  اپنے  بھائی کو قتل کی دھمکی دی تھی اس نے  کہا کہ "اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے  کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کی قربانی فرمایا کرتا ہے ۔ اس میں میرا کیا قصور؟ ایک روایت میں یہ بھی ہے  کہ یہ مینڈھا جنت میں پلتا رہا اور یہی وہ مینڈھا ہے  جسے  حضرت ابراہیم نے  اپنے  بچے  کے  بدلے  ذبح کیا۔ ایک روایت میں ہے  کہ ہابیل نے  اپنے  جانوروں میں سے  بہترین اور مرغوب و محبوب جانور اللہ کے  نام اور خوشی کے  ساتھ قربان کیا، برخلاف اس کے  قابیل نے  اپنی کھیتی میں سے  نہایت ردی اور واہی چیز اور وہ بے  دلی سے  اللہ کے  نام نکالی۔ ہابیل تنو مندی اور طاقتوری میں بھی قابیل سے  زیادہ تھا تاہم اللہ کے  خوف کی وجہ سے  اس نے  اپنے  بھائی کا ظلم و زیادتی سہ لی اور ہاتھ نہ اٹھایا۔ بڑے  بھائی کی قربانی جب قبول نہ ہوئی اور حضرت آدم نے  اس سے  کہا تو اس نے  کہا کہ چونکہ آپ ہابیل کو چاہتے  ہیں  اور آپ نے  اس کیلئے  دعا کی تو اس کی قربانی قبول ہو گئی۔ اب اس نے  ٹھان لی کہ میں اس کانٹے  ہی کو اکھاڑ ڈالوں ۔ موقع کا منتظر تھا ایک روز اتفاقاً حضرت ہابیل کے  آنے  میں دیر لگ گئی تو انہیں  بلانے  کیلئے  حضرت آدم نے  قابیل کو بھیجا۔ یہ ایک چھری اپنے  ساتھ لے  کر چلا، راستے  میں ہی دونوں بھائیوں کی ملاقات ہو گئی، اس نے  کہا میں تجھے  مار ڈالوں گا کیونکہ تیری قربانی قبول ہوئی اور میری نہ ہوئی اس پر ہابیل نے  کہا میں نے  بہترین، عمدہ، محبوب اور مرغوب چیز اللہ کے  نام نکالی اور تو نے  بے  کار بے  جان چیز نکالی، اللہ تعالیٰ اپنے  متقیوں ہی کی نیکی قبول کرتا ہے ۔ اس پر وہ اور بگڑا اور چھری گھونپ دی، ہابیل کہتے  رہ گئے  کہ اللہ کو کیا جواب دے  گا؟ اللہ کے  ہاں اس ظلم کا بدلہ تجھ سے  بری طرح لیا جائیگا۔ اللہ کا خوف کر مجھے  قتل نہ کر لیکن اس بے  رحم نے  اپنے  بھائی کو مار ہی ڈالا۔ قابیل نے  اپنی توام بہن سے  اپنا ہی نکاح کرنے  کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ ہم دونوں جنت میں پیدا ہوئے  ہیں  اور یہ دونوں زمین میں پیدا ہوئے  ہیں ، اسی لئے  میں اس کا حقدار ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے  کہ قابیل نے  گیہوں نکالے  تھے  اور ہابیل نے  گائے  قربان کی تھی۔ چونکہ اس وقت کوئی مسکین تو تھا ہی نہیں  جسے  صدقہ دیا جائے ، اس لئے  یہی دستور تھا کہ صدقہ نکال دیتے  آگ آسمان سے  آتی اور اسے  جلا جاتی یہ قبولیت کا نشان تھا۔ اس برتری سے  جو چھوٹے  بھائی کو حاصل ہوئی، بڑا بھائی حسد کی آگ میں بھڑکا اور اس کے  قتل کے  درپے  ہو گیا، یونہی بیٹھے  بیٹھے  دونوں بھائیوں نے  قربانی کی تھی۔ نکاح کے  اختلاف کو مٹانے  کی وجہ نہ تھی، قرآن کے  ظاہری الفاظ کا اقتضا بھی یہی ہے  کہ ناراضگی کا باعث عدم قبولیت قربانی تھی نہ کچھ اور ۔ ایک روایت مندرجہ روایتوں کے  خلاف یہ بھی ہے  کہ قابیل نے  کھیتی اللہ کے  نام نذر دی تھی جو قبول ہوئی لیکن معلوم ہوتا ہے  کہ اس میں راوی کا حافظہ ٹھیک نہیں  اور یہ مشہور امر کے  بھی خلاف ہے  واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول کرتا ہے  جو اپنے  فعل میں اس سے  ڈرتا رہے ۔ حضرت معاذ فرماتے  ہیں  لوگ میدان قیامت میں ہوں گے  تو ایک منادی ندا کرے  گا کہ پرہیزگار کہاں ہیں ؟ پس پروردگار سے  ڈرنے  والے  کھڑے  ہو جائیں گے  اور اللہ کے  بازو کے  نیچے  جا ٹھہریں گے  اللہ تعالیٰ نہ ان سے  رخ پوشی کرے  گا نہ پردہ۔ راوی حدیث ابو عفیف سے  دریافت کیا گیا کہ متقی کون ہیں ؟ فرمایا وہ جو شرک اور بت پرستی سے  بچے  اور خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے  پھر یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے ۔ جس نیک بخت کی قربانی قبول کی گئی تھی، وہ اپنے  بھائی کے  اس ارادہ کو سن کر اس سے  کہتا ہے  کہ تو جو چاہے  کر، میں تو تیری طرح نہیں  کروں گا بلکہ میں صبر و ضبط کروں گا، تھے  تو زور و طاقت میں یہ اس سے  زیادہ مگر اپنی بھلائی، نیک بختی اور تواضع و فروتنی اور پرہیز گاری کی وجہ سے  یہ فرمایا کہ تو گناہ پر آمادہ ہو جائے  لیکن مجھ سے  اس جرم کا ارتکاب نہیں  ہو سکتا، تو اللہ تعالیٰ سے  ڈرتا ہوں وہ تمام جہان کا رب ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ "جب دو مسلمان تلواریں لے  کر بھڑ گئے  تو قاتل مقتول دونوں جہنمی ہیں ۔ " صحابہ نے  پوچھا قاتل تو خیر لیکن مقتول کیوں ہوا؟ آپ نے  فرمایا اس لئے  کہ وہ بھی اپنے  ساتھی کے  قتل پر حریص تھا۔ حضرت سعد بن وقاص نے  اس وقت جبکہ باغیوں نے  حضرت عثمان ذوانلورین کو گھیر رکھا تھا کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ہے  "عنقریب فتنہ برپا ہو گا۔ بیٹھا رہنے  والا اس وقت کھڑے  رہنے  والے  سے  اچھا ہو گا اور کھڑا رہنے  والا چلنے  والے  سے  بہتر ہو گا اور چلنے  والا دوڑنے  والے  سے  بہتر ہو گا "۔ کسی نے  پوچھا "حضور صلی اللہ علیہ و سلم اگر کوئی میرے  گھر میں بھی گھس آئے  اور مجھے  قتل کرنا چاہے "۔ آپ نے  فرمایا پھر بھی تو حضرت آدم کے  بیٹے  کی طرح ہو جا۔ ایک روایت میں آپ کا اس کے  بعد اس آیت کی تلاوت کرنا بھی مروی ہے ۔ حضرت ایوب سختیاتی فرماتے  ہیں  "اس امت میں سب سے  پہلے  جس نے  اس آیت پر عمل کیا وہ امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان ہیں "۔ ایک مرتبہ ایک جانور پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سوار تھے  اور آپ کے  ساتھ ہی آپ کے  پیچھے  حضرت ابوذر تھے ، آپ نے  فرمایا ابوذر بتاؤ تو جب لوگوں پر ایسے  فاقے  آئیں گے  کہ گھر سے  مسجد تک نہ جا سکیں گے  تو تو کیا کرے  گا؟ میں نے  کہا جو حکم رب اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہو فرمایا صبر کرو۔ پھر فرمایا جبکہ آپس میں خونریزی ہو گی یہاں تک کہ ریت کے  تھر بھی خون میں ڈوب جائیں تو تو کیا کرے  گا؟ میں نے  وہی جواب دیا تو فرمایا کہ اپنے  گھر میں بیٹھ جا اور دروازے  بند کر لے  کہا پھر اگرچہ میں نہ میدان میں اتروں ؟ فرمایا تو ان میں چلا جا، جن کا تو ہے  اور وہیں  رہ۔ عرض کیا کہ پھر میں اپنے  ہتھیار ہی کیوں نہ لے  لوں ؟ فرمایا پھر تو تو بھی ان کے  ساتھ ہی شامل ہو جائے  گا بلکہ اگر تجھے  کسی کی تلوار کی شعاعیں پریشان کرتی نظر آئیں تو بھی اپنے  منہ پر کپڑا ڈال لے  تاکہ تیرے  اور خود اپنے  گناہوں کو وہی لے  جائے ۔ حضرت ربعی فرماتے  ہیں  ہم حضرت حذیفہ کے  جنازے  میں تھے ، ایک صاحب نے  کہا میں نے  مرحوم سے  سنا ہے  آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنی ہوئی حدیثیں بیان فرماتے  ہوئے  کہتے  تھے  کہ اگر تم آپس میں لڑو گے  تو میں اپنے  سب سے  دور دراز گھر میں چلا جاؤں گا اور اسے  بند کر کے  بیٹھ جاؤں گا، اگر وہاں بھی کوئی گھس آئے  گا تو میں کہہ دوں گا کہ لے  اپنا اور میرا گناہ اپنے  سر پر رکھ لے ، پس میں حضرت آدم کے  ان دو بیٹوں میں سے  جو بہتر تھا، اس کی طرح ہو جاؤں گا۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے  سر رکھ لے  جائے ۔ یعنی تیرے  وہ گناہ جو اس سے  پہلے  کے  ہیں  اور میرے  قتل کا گناہ بھی۔ یہ مطلب بھی حضرت مجاہد سے  مروی ہے  کہ میری خطائیں بھی مجھ پر آ پڑیں اور میرے  قتل کا گناہ بھی۔ لیکن انہی سے  ایک قول پہلے  جیسا بھی مروی ہے ، ممکن ہے  یہ دوسرا ثابت نہ ہو۔ اسی بنا پر بعض لوگ کہتے  ہیں  کہ قاتل مقتول کے  سب گناہ اپنے  اوپر بار کر لیتا ہے  اور اس معنی کی ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے  لیکن اس کی کوئی اصل نہیں ۔ بزار میں ایک حدیث ہے  کہ "بے  سبب کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے "۔ گو یہ حدیث اوپر والے  معنی میں نہیں ، تاہم یہ بھی صحیح نہیں  اور اس روایت کا مطلب یہ بھی ہے  کہ قتل کی ایذا کے  باعث اللہ تعالیٰ مقتول کے  سب گناہ معاف کر دیتا ہے ۔ اب وہ قاتل پر آ جاتے  ہیں ۔ یہ بات ثابت نہیں  ممکن ہے  بعض قاتل ویسے  بھی ہوں، قاتل کو میدان قیامت میں مقتول ڈھونڈھتا پھرے  گا اور اس کے  ظلم کے  مطابق اس کی نیکیاں لے  جائے  گا۔ اور سب نیکیاں لے  لینے  کے  بعد بھی اس ظلم کی تلافی نہ ہوئی تو مقتول کے  گناہ قاتل پر رکھ دیئے  جائیں گے ، یہاں تک کہ بدلہ ہو جائے  تو ممکن ہے  کہ سارے  ہی گناہ بعض قاتلوں کے  سر پڑ جائیں کیونکہ ظلم کے  اس طرح کے  بدلے  لئے  جانے  احادیث سے  ثابت ہیں  اور یہ ظاہر ہے  کہ قتل سب سے  بڑھ کر ظلم ہے  اور سب سے  بدتر۔ واللہ اعلم۔ امام ابن جریر فرماتے  ہیں  مطلب اس جملے  کا صحیح تر یہی ہے  کہ میں چاہتا ہوں کہ تو اپنے  گناہ اور میرے  قتل کے  گناہ سب ہی اپنے  اوپر لے  جائے ، تیرے  اور گناہوں کے  ساتھ ایک گناہ یہ بھی بڑھ جائے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں  کہ میرے  گناہ بھی تجھ پر آ جائیں، اس لئے  کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے  کہ ہر عامل کو اس کے  عمل کی جزا ملتی ہے ، پھر یہ کیسے  ہو سکتا ہے  کہ مقتول کے  عمر بھر کے  گناہ قاتل پر ڈال دیئے  جائیں، اور اس کے  گناہوں پر اس کی پکڑ ہو؟ باقی رہی یہ بات کہ پھر ہابیل نے  یہ بات اپنے  بھائی سے  کیوں کہی؟ اس کا جواب یہ ہے  کہ اس نے  آخری مرتبہ نصیحت کی اور ڈرایا اور خوف زدہ کیا کہ اس کام سے  باز آ جا، ورنہ گنہگار ہو کر جہنم واصل ہو جائے  گا کیونکہ میں تو تیرا مقابلہ کرنے  ہی کا نہیں ، سارا بوجھ تجھ ہی پر ہو گا اور تو ہی ظالم ٹھہرے  گا اور ظالموں کا ٹھکانا دوزخ ہے ۔ اس نصیحت کے  باوجود اس کے  نفس نے  اسے  دھوکا دیا اور غصے  اور حسد اور تکبر میں آ کر اپنے  بھائی کو قتل کر دیا، اسے  شیطان نے  قتل پر ابھار دیا اور اس نے  اپنے  نفس امارہ کی پیروی کر لی ہے  اور لوہے  سے  اسے  مار ڈالا۔ ایک روایت میں ہے  کہ یہ اپنے  جانوروں کو لے  کر پہاڑیوں پر چلے  گئے  تھے ، یہ ڈھونڈھتا ہوا وہاں پہنچا اور ایک بھاری پتھر اٹھا کر ان کے  سر پر دے  مارا، یہ اس وقت سوئے  ہوئے  تھے ۔ بعض کہتے  ہیں  مثل درندے  کے  کاٹ کاٹ کر، گلا دبا دبا کر ان کی جان لی۔ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ شیطان نے  جب دیکھا کہ اسے  قتل کرنے  کا ڈھنگ نہیں  آتا، یہ اس کی گردن مروڑ رہا ہے  تو اس لعین نے  ایک جانور پکڑا اور اس کا سر ایک پتھر پر رکھ کر اسے  دو سرا پتھر زور سے  دے  مارا، جس سے  وہ جانور اسی وقت مر گیا، یہ دیکھ اس نے  بھی اپنے  بھائی کے  ساتھ یہی کیا یہ بھی مروی ہے  کہ چونکہ اب تک زمین پر کوئی قتل نہیں  ہوا تھا، اس لئے  قابیل اپنے  بھائی کو گرا کر کبھی اس کی آنکھیں بند کرتا، کبھی اسے  تھپڑ اور گھونسے  مارتا۔ یہ دیکھ کر ابلیس لعین اس کے  پاس آیا اور اسے  بتایا کہ پتھر لے  کر اس کا سر کچل ڈال، جب اس نے  کچل ڈالا تو لعین دوڑتا ہوا حضرت حوا پاس آیا اور کہا قابیل نے  ہابیل کو قتل کر دیا، انہوں نے  پوچھا قتل کیسا ہوتا ہے ؟ کہا اب نہ وہ کھاتا پیتا ہے  نہ بولتا چالتا ہے ، نہ ہلتا جلتا ہے  کہا شاید موت آ گئی اس نے  کہا ہاں وہی موت۔ اب تو مائی صاحبہ چیخنے  چلانے  لگیں، اتنے  میں حضرت آدم آئے  پوچھا کیا بات ہے ؟ لیکن یہ جواب نہ دے  سکیں، آپ نے  دوبارہ دریافت فرمایا لیکن فرط غم و رنج کی وجہ سے  ان کی زبان نہ چلی تو کہا اچھا تو اور تیری بیٹیاں ہائے  وائے  میں ہی رہیں  گی اور میں اور میرے  بیٹے  اس سے  بری ہیں ۔ قابیل خسارے  ٹوٹے  اور نقصان والا ہو گیا، دنیا اور آخرت دونوں ہی بگڑیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "جو انسان ظلم سے  قتل کیا جاتا ہے ، اس کے  خون کا بوجھ آدم کے  اس لڑکے  پر بھی پڑتا ہے ، اس لئے  کہ اسی نے  سب سے  پہلے  زمین پر خون ناحق گرایا ہے "۔ مجاہد کا قول ہے  کہ "قاتل کے  ایک پیر کی پنڈلی کو ران سے  اس دن سے  لٹکا دیا گیا اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا، اس کے  گھومنے  کے  ساتھ گھومتا رہتا ہے ، جاڑوں اور گرمیوں میں آگ اور برف کے  گڑھے  میں وہ معذب ہے "۔ ضرت عبد اللہ سے  مروی ہے  کہ "جہنم کا آدھوں آدھ عذاب صرف اس ایک کو ہو رہا ہے ، سب سے  بڑا معذب یہی ہے  زمین کے  ہر قتل کے  گناہ کا حصہ اس کے  ذمہ ہے "۔ ابراہیم نخعی فرماتے  ہیں  "اس پر اور شیطان پر ہر خون ناحق کا بوجھ پڑتا ہے "۔ جب مار ڈالا تو اب یہ معلوم نہ تھا کہ کیا کرے ، کس طرح اسے  چھپائے ؟ تو اللہ نے  دو کوے  بھیجے ، وہ دونوں بھی آپس میں بھائی بھائی تھے ، یہ اس کے  سامنے  لڑنے  لگے ، یہاں تک کہ ایک نے  دوسرے  کو مار ڈالا، پھر ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کی لاش کو رکھ کر اوپر سے  مٹی ڈال دی، یہ دیکھ کر قابیل کی سمجھ میں بھی یہ ترکیب آ گئی اور اس نے  بھی ایسا ہی کیا۔ حضرت علی سے  مروی ہے  کہ از خود مرے  ہوئے  ایک کوے  کو دوسرے  کوے  نے  اس طرح گڑھا کھود کر دفن کیا تھا۔ یہ بھی مروی ہے  کہ سال بھر تک قابیل اپنے  بھائی کی لاش اپنے  کندھے  پر لادے  لادے  پھرتا رہا، پھر کوے  کو دیکھ کر اپنے  نفس پر ملامت کرنے  لگا کہ میں اتنا بھی نہ کر سکا، یہ بھی کہا گیا ہے  مار ڈال کر پھر پچھتایا اور لاش کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا اور اس لئے  بھی کہ سب سے  پہلی میت اور سب سے  پہلا قتل روئے  زمین پر یہی تھا۔ اہل توراۃ کہتے  ہیں  کہ جب قابیل نے  اپنے  بھائی ہابیل کو قتل کیا تو اللہ نے  اس سے  پوچھا کہ تیرے  بھائی ہابیل کو کیا ہوا؟ اس نے  کہا مجھے  کیا خبر؟ میں اس کا نگہبان تو تھا ہی نہیں ، اللہ تعالیٰ نے  فرمایا سن تیرے  بھائی کا خون زمین میں سے  مجھے  پکار رہا ہے ، تجھ پر میری لعنت ہے ، اس زمین میں جس کا منہ کھول کر تو نے  اسے  اپنے  بے  گناہ بھائی کا خون پلایا ہے ، اب تو زمین میں جو کچھ کام کرے  گا وہ اپنی کھیتی میں سے  تجھے  کچھ نہیں  دے  گی، یہاں تک تم زمین پر عمر بھر بے  چین پھٹکتے  رہو گے  پھر تو قابیل بڑا ہی نادم ہوا۔ نقصان کے  ساتھ ہی پچھتاوا گویا عذاب پر عذاب تھا۔ اس قصہ میں مفسرین کے  اقوال اس بات پر تو متفق ہیں  کہ یہ تو دونوں حضرت آدم کے  صلبی بیٹے  تھے  اور یہی قرآن کے  الفاظ سے  بظاہر معلوم ہوتا ہے  اور یہی حدیث میں بھی ہے  کہ روئے  زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے  اس کا ایک حصہ بوجھ اور گناہ کا حضرت آدم کے  اس پہلے  لڑکے  پر ہوتا ہے ، اس لئے  کہ اسی نے  سب سے  پہلے  قتل کا طریقہ ایجاد کیا ہے ، لیکن حسن بصری کا قول ہے  کہ "یہ دونوں بنی اسرائیل میں تھے ، قربانی سب سے  پہلے  انہی میں آئی اور زمین پر سب سے  پہلے  حضرت آدم کا انتقال ہوا ہے " لیکن یہ قول غور طلب ہے  اور اس کی اسناد بھی ٹھیک نہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ واقعہ بطور ایک مثال کے  ہے " تم اس میں سے  اچھائی لے  لو اور برے  کو چھوڑ دو"۔ یہ حدیث مرسل ہے  کہتے  ہیں  کہ اس صدمے  سے  حضرت آدم بہت غمگین ہوئے  اور سال بھر تک انہیں  ہنسی نہ آئی، آخر فرشتوں نے  ان کے  غم کے  دور ہونے  اور انہیں  ہنسی آنے  کی دعا کی۔ حضرت آدم نے  اس وقت اپنے  رنج و غم میں یہ بھی کہا تھا کہ شہر اور شہر کی سب چیزیں متغیر ہو گئی۔ زمین کا رنگ بدل گیا اور وہ نہایت بدصورت ہو گئی، ہر ہر چیز کا رنگ و مزہ جاتا رہا اور کشش والے  چہروں کی ملاحت بھی سلب ہو گئی۔ اس پر انہیں  جواب دیا گیا کہ اس مردے  کے  ساتھ اس زندے  نے  بھی گویا اپنے  تئیں ہلاک کر دیا اور جو برائی قاتل نے  کی تھی، اس کا بوجھ اس پر آ گیا، بظاہر معلوم ہوتا ہے  کہ قابیل کو اس سی وقت سزا دی گئی چنانچہ وارد ہوا ہے  کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے  لٹکا دی گئی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا گیا اور اس کے  ساتھ ہی ساتھ گھومتا رہتا تھا یعنی جدھر سورج ہوتا ادھر ہی اس کا منہ اٹھا رہتا۔ حدیث شریف میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جتنے  گناہ اس لائق ہیں  کہ بہت جلد ان کی سزا دنیا میں بھی دی جائے  اور پھر آخرت کے  زبردست عذاب باقی رہیں  ان میں سب سے  بڑھ کر گناہ سرکشی اور قطع رحمی ہے ۔ تو قابیل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو گئیں فانا للہ و انا الیہ راجعون (یہ یاد رہے  کہ اس قصہ کی تفصیلات جس قدر بیان ہوئی ہے ، ان میں سے  اکثر و  بیشتر حصہ اہل کتاب سے  اخذ کیا ہوا ہے ۔ واللہ اعلم۔ مترجم)

اسی وجہ سے ، ہم نے  بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے  کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے  والا ہو قتل کر ڈالے  تو گویا اس نے  تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے  اس نے  گویا تمام لوگوں کو بچا لیا، ان کے  پاس ہمارے  بہت سے  رسول ظاہر دلیلیں لے  کر آئے  لیکن پھر اس کے  بعد بھی ان میں سے  اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے  والے  ہی رہے ۔ انکی سزا جو اللہ سے  اور اس کے  رسول سے  لڑیں اور زمین میں فساد کرتے  پھریں یہی ہے  کہ وہ قتل کر دیئے  جائیں یا سولی چڑھا دیئے  جائیں یا الٹے  طور سے  ان کے  ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے  جائیں یا انہیں  جلا وطن کر دیا جائے ، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری اور آخرت میں تو ان کیلئے  بڑا بھاری عذاب ہے ۔ ہاں جو لوگ ان سے  پہلے  توبہ کر لیں کہ تم ان پر اختیار پالو، تو یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ بہت بڑی بخشش اور رحم و کرم والا ہے ۔

۳۲

ایک بے گناہ شخص کا قتل تمام انسانوں کا قتل

فرمان ہے  کہ حضرت آدم کے  اس لڑکے  کے  قتل بیجا کی وجہ سے  ہم نے  بنی اسرائیل سے  صاف فرما دیا ان کی کتاب میں لکھ دیا اور ان کیلئے  اس حکم کو حکم شرعی کر دیا کہ "جو شخص کسی ایک کو بلا وجہ مار ڈالے  نہ اس نے  کسی کو قتل کیا تھا نہ اس نے  زمین میں فساد پھیلایا تھا تو گویا اس نے  تمام لوگوں کو قتل کیا، اس لئے  کہ اللہ کے  نزدیک ساری مخلوق یکساں ہے  اور جو کسی بے  قصور شخص کے  قتل سے  باز رہے  اسے  حرام جانے  تو گویا اس نے  تمام لوگوں کو زندگی، اس لئے  کہ یہ سب لوگ اس طرح سلامتی کے  ساتھ رہیں  گے "۔ میر المومنین حضرت عثمان کو جب باغی گھیر لیتے  ہیں ، تو حضرت ابوہریرہ ان کے  پاس جاتے  ہیں  اور کہتے  ہیں  میں آپ کی طرف داری میں آپ کے  مخالفین سے  لڑنے  کیلئے  آیا ہوں، آپ ملاحظہ فرمایئے  کہ اب پانی سر سے  اونچا ہو گیا ہے ، یہ سن کر معصوم خلیفہ نے  فرمایا، کیا تم اس بات پر آمادہ ہو کہ سب لوگوں کو قتل کر دو، جن میں ایک میں بھی ہوں ۔ حضرت ابوہریرہ نے  فرمایا نہیں  نہیں ، فرمایا سنو ایک کو قتل کرنا ایسا برا ہے  جیسے  سب کو قتل کرنا۔ جاؤ واپس لوٹ جاؤ، میری یہی خواہش ہے  اللہ تمہیں  اجر دے  اور گناہ نہ دے ، یہ سن کر آپ واپس چلے  گئے  اور نہ لڑے ۔ مطلب یہ ہے  کہ قتل کا اجر دنیا کی بربادی کا باعث ہے  اور اس کی روک لوگوں کی زندگی کا سبب ہے ۔ حضرت سعید بن جیر فرماتے  ہیں  "ایک مسلمان کا خون حلال کرنے  والا تمام لوگوں کا قاتل ہے  اور ایک مسلم کے  خون کو بچانے  والا تمام لوگوں کے  خون کو گویا بچا رہا ہے "۔ ایک مسلمان کا خون حلال کرنے  والا تمام لوگوں کا قاتل ہے  اور ایک مسلم کے  خون کو بچانے  والا تمام لوگوں کے  خون کو گویا بچا رہا ہے "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ "نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور عادل مسلم بادشاہ کو قتل کرنے  والے  پر ساری دنیا کے  انسانوں کے  قتل کا گناہ ہے  اور نبی اور امام عادل کے  بازو کو مضبوط کرنا دنیا کو زندگی دینے  کے  مترادف ہے " (ابن جریر) ایک اور روایت میں ہے  کہ "ایک کو بے  وجہ مار ڈالتے  ہی جہنمی ہو جاتا ہے  گویا سب کو مار ڈالا "۔ مجاہد فرماتے  ہیں  "مومن کو بے  وجہ شرعی مار ڈالنے  والا جہنمی دشمن رب، ملعون اور مستحق سزا ہو جاتا ہے ، پھر اگر وہ سب لوگوں کو بھی مار ڈالتا تو اس سے  زیادہ عذاب اسے  اور کیا ہوتا؟ جو قتل سے  رک جائے  گویا کہ اس کی طرف سے  سب کی زندگی محفوظ ہے "۔ عبد الرحمن فرماتے  ہیں  "ایک قتل کے  بدلے  ہی اس کا خون حلال ہو گیا، یہ نہیں  کہ کئی ایک کو قتل کرے ، جب ہی وہ قصاص کے  قابل ہو، اور جو اسے  زندگی دے  یعنی قاتل کے  ولی سے  درگزر کرے  اور اس نے  گویا لوگوں کو زندگی دی"۔ اور یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے  کہ جس نے  انسان کی جان بچا لی مثلاً ڈوبتے  کو نکال لیا، جلتے  کو بچا لیا، کسی کو ہلاکت سے  ہٹا لیا۔ مقصد لوگوں کو خون ناحق سے  روکنا اور لوگوں کی خیر خواہی اور امن و امان پر آمادہ کرنا ہے ۔ حضرت حسن سے  پوچھا گیا کہ "کیا بنی اسرائیل جس طرح اس حکم کے  مکلف تھے ، ہم بھی ہیں ، فرمایا ہاں یقیناً اللہ کی قسم! بنو اسرائیل کے  خون اللہ کے  نزدیک ہمارے  خون سے  زیادہ بے وقعت نہ تھے، پس ایک شخص کا بے  سبب قتل سب کے  قتل کا بوجھ ہے  اور ایک کی جان کے  بچاؤ کا ثواب سب کو بچا لینے  کے  برابر ہے "۔ ایک مرتبہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھے  کوئی ایسی بات بتائے  کہ میری زندگی با آرام گزرے ۔ آپ نے  فرمایا کیا کسی کو مار ڈالنا تمہیں  پسند ہے  یا کسی کو بچا لینا تمہیں  محبوب ہے ؟ جواب دیا بچا لینا، فرمایا "بس اب اپنی اصلاح میں لگے  رہو"۔ پھر فرماتا ہے  ان کے  پاس ہمارے  رسول واصح دلیلیں اور روشن احکام اور کھلے  معجزات لے  کر آئے  لیکن اس کے  بعد بھی اکثر لوگ اپنی سرکشی اور دراز دستی سے  باز نہ رہے ۔ بنو قینقاع کے  یہود و بنو قریظہ اور بنو نضیر وغیرہ کو دیکھ لیجئے  کہ اوس اور خزرج کے  ساتھ مل کر آپس میں ایک دوسرے  سے  لڑتے  تھے  اور لڑائی کے  بعد پھر قیدیوں کے  فدیئے  دے  کر چھڑاتے  تھے  اور مقتول کی دیت ادا کرتے  تھے ۔ جس پر انہیں  قرآن میں سمجھایا گیا کہ تم سے  عہد یہ لیا گیا تھا کہ نہ تو اپنے  والوں کے  خون بہاؤ، نہ انہیں  دیس نکالا دو لیکن تم نے  باوجود پختہ اقرار اور مضبوط عہد پیمان کے  اس کے  خلاف گو فدیئے  ادا کئے  لیکن نکالنا بھی تو حرام تھا،ے  کیا معنی کہ کسی حکم کو مانو اور کسی سے  انکار کر، ایسے  لوگوں کو سزا یہی ہے  کہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہوں اور آخرت میں سخت تر عذابوں کا شکار ہوں، اللہ تمہارے  اعمال سے  غافل نہیں ۔ محاربہ کے  معنی حکم کے  خلاف کرنا، برعکس کرنا، مخالفت پر تل جانا ہیں ۔ مراد اس سے  کفر، ڈاکہ زنی، زمین میں شورش و فساد اور طرح طرح کی بدامنی پیدا کرنا ہے ، یہاں تک کہ سلف نے  یہ بھی فرمایا ہے  کہ سکے  کو توڑ دینا بھی زمین میں فساد مچانا ہے ۔ قرآن کی ایک اور آیت میں ہے  جب وہ کسی اقتدار کے  مالک ہو جاتے  ہیں  تو فساد پھیلا دیتے  ہیں  اور کھیت اور نسل کو ہلاک کرنے  لگتے  ہیں  اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں  فرماتا۔ یہ آیت مشرکین کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے ۔ اس لئے  کہ اس میں یہ بھی ہے  کہ جب ایسا شخص ان کاموں کے  بعد مسلمانوں کے  ہاتھوں میں گرفتار ہونے  سے  پہلے  ہی توبہ تلا کر لے  تو پھر اس پر کوئی مواخذہ نہیں ، برخلاف اس کے  اگر مسلمان ان کاموں کو کرے  اور بھاگ کر کفار میں جا ملے  تو حد شرعی سے  آزاد نہیں  ہوتا۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  "یہ آیت مشرکوں کے  بارے  میں اتری ہے ، پھر ان میں سے  جو کئی مسلمان کے  ہاتھ آ جانے  سے  پہلے  توبہ کر لے  تو جو حکم اس پر اس کے  فعل کے  باعث ثابت ہو چکا ہے  وہ ٹل نہیں  سکتا "۔ 

فساد اور قتل و غارت

حضرت ابی سے  مروی ہے  کہ اہل کتاب کے  ایک گروہ سے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معاہدہ ہو گیا تھا لیکن انہوں نے  اسے  توڑ دیا اور فساد مچا دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے  اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار دیا کہ اگر آپ چاہیں  تو انہیں  قتل کر دیں، چاہیں  تو الٹے  سیدھے  ہاتھ پاؤں کٹوا دیں ۔ حضرت سعد فرماتے  ہیں  "یہ حرودیہ خوارج کے  بارے  میں نازل ہوئی ہے "۔ صحیح یہ ہے  کہ جو بھی اس فعل کا مرتکب ہو اس کیلئے  یہ حکم ہے ۔ چنانچہ بخاری مسلم میں ہے  کہ "قبیلہ عکل کے  آٹھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آئے ، آپ نے  ان سے  فرمایا اگر تم چاہو تو ہمارے  چرواہوں کے  ساتھ چلے  جاؤ اونٹوں کا دودھ اور پیشاب تمہیں  ملے  گا چنانچہ یہ گئے  اور جب ان کی بیماری جاتی رہی تو انہوں نے  ان چرواہوں کو مار ڈالا اور اونٹ لے  کر چلتے  بنے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے  صحابہ کو ان کے  پیچھے  دوڑایا کہ انہیں  پکڑ لائیں، چنانچہ یہ گرفتار کئے  گئے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  پیش کئے  گئے ۔ پھر ان کے  ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے  گئے  اور آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں اور دھوپ میں پڑے  ہوئے  تڑپ تڑپ کر مر گئے "۔ مسلم میں ہے  یا تو یہ لوگ عکل کے  تھے  یا عرینہ کے ۔ یہ پانی مانگتے  تھے  مگر انہیں  پانی نہ دیا گیا نہ ان کے  زخم دھوئے  گئے ۔ انہوں نے  چوری بھی کی تھی، قتل بھی کیا تھا، ایمان کے  بعد کفر بھی کیا تھا اور اللہ رسول سے  لڑتے  بھی تھے ۔ انہوں نے  چرواہوں کی آنکھوں میں گرم سلائیاں بھی پھیری تھیں، مدینے  کی آب و ہوا اس وقت درست نہ تھی، سرسام کی بیماری تھی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان کے  پیچھے  بیس انصاری گھوڑ سوار بھیجے  تھے  اور ایک کھوجی تھا، جو نشان قدم دیکھ کر رہبری کرتا جاتا تھا۔ موت کے  وقت ان کی پیاس کے  مارے  یہ حالت تھی کہ زمین چاٹ رہے  تھے ، انہی کے  بارے  میں یہ آیت اتری ہے ۔ ایک مرتبہ حجاج نے  حضرت انس سے  سوال کیا کہ سب سے  بڑی اور سب سے  سخت سزا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی کو دی ہو، تم بیان کرو تو آپ نے  یہ واقعہ بیان فرمایا۔ اس میں یہ بھی ہے  کہ یہ لوگ بحرین سے  آئے  تھے ، بیماری کی وجہ سے  ان کے  رنگ زرد پڑ گئے  تھے  اور پیٹ بڑھ گئے  تھے  تو آپ نے  انہیں  فرمایا کہ جاؤ اونٹوں میں رہو اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو۔ حضرت انس فرماتے  ہیں  پھر میں نے  دیکھا کہ حجاج نے  تو اس روایت کو اپنے  مظالم کی دلیل بنا لی تب تو مجھے  سخت ندامت ہوئی کہ میں نے  اس سے  یہ حدیث کیوں بیان کی؟ اور روایت میں ہے  کہ ان میں سے  چار شخص تو عرینہ قبیلے  کے  تھے  اور تین عکل کے  تھے ، یہ سب تندرست ہو گئے  تو یہ مرتد بن گئے ۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ راستے  بھی انہوں نے  بند کر دیئے  تھے  اور زنا کار بھی تھے ، جب یہ آئے  تو اب سب کے  پاس بوجہ فقیری پہننے  کے  کپڑے  تک نہ تھے ، یہ قتل و غارت کر کے  بھاگ کر اپنے  شہر کو جا رہے  تھے ۔ حضرت جریر فرماتے  ہیں  کہ یہ اپنی قوم کے  پاس پہنچنے  والے  تھے  جو ہم نے  انہیں  جالیا۔ وہ پانی مانگتے  تھے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  تھے ، اب تو پانی کے  بدلے  جہنم کی آگ ملے  گی۔ اس روایت میں یہ بھی ہے  کہ آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا اللہ کو ناپسند آیا، یہ حدیث ضعیف اور غریب ہے  لیکن اس سے  یہ معلوم ہوا کہ جو لشکر ان مرتدوں کے  گرفتار کرنے  کیلئے  بھیجا گیا تھا، ان کے  سردار حضرت جریر تھے ۔ ہاں اس روایت میں یہ فقرہ بالکل منکر ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے  ان کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنا مکرو رکھا۔ اس لئے  کہ صحیح مسلم میں یہ موجود ہے  کہ انہوں نے  چرواہوں کے  ساتھ بھی یہی کیا تھا، پس یہ اس کا بدلہ اور ان کا قصاص تھا جو انہوں نے  ان کے  ساتھ کیا تھا وہی ان کے  ساتھ کیا گیا واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے  کہ یہ لوگ بنو فزارہ کے  تھے ، اس واقعہ کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  یہ سزا کسی کو نہیں  دی۔ ایک اور روایت میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک غلام تھا، جس کا نا یسار تھا چونکہ یہ بڑے  اچھے  نمازی تھے ، اس لئے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  آزاد کر دیا تھا اور اپنے  اونٹوں میں انہیں  بھیج دیا تھا کہ یہ ان کی نگرانی رکھیں، انہی کو ان مرتدوں نے  قتل کیا اور ان کی آنکھوں میں کانٹے  گاڑ کر اونٹ لے  کر بھاگ گئے ، جو لشکر انہیں  گرفتار کر کے  لایا تھا، ان میں ایک شاہ زور حضرت کرز بن جابر فہری تھے ۔ حافظ ابوبکر بن مردویہ نے  اس روایت کے  تمام طریقوں کو جمع کر دیا اللہ انہیں  جزائے  خیر دے ۔ ابو حمزہ عبد الکریم سے  اونٹوں کے  پیشاب کے  بارے  میں سوال ہوتا ہے  تو آپ ان محاربین کا قصہ بیان فرماتے  ہیں  اس میں یہ بھی ہے  کہ یہ لوگ منافقانہ طور پر ایمان لائے  تھے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  مدینے  کی آب و ہوا کی ناموافقت کی شکایت کی تھی، جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی دغا بازی اور قتل و غارت اور ارتداد کا علم ہوا، تو آپ نے  منادی کرائی کہ اللہ کے  لشکریو اٹھ کھڑے  ہو، یہ آواز سنتے  ہی مجاہدین کھڑے  ہو گئے ، بغیر اس کے  کہ کوئی کسی کا انتظار کرے  ان مرتد ڈاکوؤں اور باغیوں کے  پیچھے  دوڑے ، خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان کو روانہ کر کے  ان کے  پیچھے  چلے ، وہ لوگ اپنی جائے  امن میں پہنچنے  ہی کو تھے  کہ صحابہ نے  انہیں  گھیر لیا اور ان میں سے  جتنے  گرفتار ہو گئے ، انہیں  لے  کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  پیش کر دیا اور یہ آیت اتری، ان کی جلاوطنی یہی تھی کہ انہیں  حکومت اسلام کی حدود سے  خارج کر دیا گیا۔ پھر ان کو عبرتناک سزائیں دی گئیں، اس کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی کے  بھی اعضا بدن سے  جدا نہیں  کرائے  بلکہ آپ نے  اس سے  منع فرمایا ہے ، جانوروں کو بھی اس طرح کرنا منع ہے ۔ بعض روایتوں میں ہے  کہ قتل کے  بعد انہیں  جلا دیا گیا، بعض کہتے  ہیں  یہ بنو سلیم کے  لوگ تھے ۔ بعض بزرگوں کا قول ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جو سزا انہیں  دی وہ اللہ کو پسند نہ آئیں اور اس آیت سے  اسے  منسوخ کر دیا۔ ان کے  نزدیک گویا اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس سزا سے  روکا گیا ہے ۔ جیسے  آیت عفا اللہ عنک میں اور بعض کہتے  ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  مثلہ کرنے  سے  یعنی ہاتھ پاؤں کان ناک کاٹنے  سے  جو ممانعت فرمائی ہے ، اس حدیث سے  یہ سزا منسوخ ہو گئی لیکن یہ ذرا غور طلب ہے  پھر یہ بھی سوال طلب امر ہے  کہ ناسخ کی تاخیر کی دلیل کیا ہے ؟ بعض کہتے  ہیں  حدود اسلام مقرر ہوں اس سے  پہلے  کا یہ واقعہ ہے  لیکن یہ بھی کچھ ٹھیک نہیں  معلوم ہوتا، بلکہ حدود کے  تقرر کے  بعد کا واقعہ معلوم ہوتا ہے  اس لئے  کہ اس حدیث کے  ایک راوی حضرت جریر بن عبد اللہ ہیں  اور ان کا اسلام سورہ مائدہ کے  نازل ہو چکنے  کے  بعد کا ہے ۔ بعض کہتے  ہیں  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنی چاہی تھیں لیکن یہ آیت اتری اور آپ اپنے  ارادے  سے  باز رہے ، لیکن یہ بھی درست نہیں ۔ اس لئے  کہ بخاری و مسلم میں یہ لفظ ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان کی آنکھوں میں سلائیں پھروائیں ۔ محمد بن عجلان فرماتے  ہیں  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جو سخت سزا انہیں  دی، اس کے  انکار میں یہ آیتیں اتری ہیں  اور ان میں صحیح سزا بیان کی گئی ہے  جو قتل کرنے  اور ہاتھ پاؤں الٹی طرف سے  کاٹنے  اور وطن سے  نکال دینے  کے  حکم پر شامل ہے  چنانچہ دیکھ لیجئے  کہ اس کے  بعد پھر کسی کی آنکھوں میں سلائیاں پھیرنی ثابت نہیں ، لیکن "اوزاعی کہتے  ہیں  کہ یہ ٹھیک نہیں  کہ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  اس فعل پر آپ کو ڈانٹا گیا ہو، بات یہ ہے  کہ انہوں نے  جو کیا تھا اس کا وہی بدلہ مل گیا، اب آیت نازل ہوئی جس نے  ایک خاص حکم ایسے  لوگوں کا بیان فرمایا اور اس میں آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیرنے  کا حکم نہیں  دیا "۔ اس آیت سے  جمہور علماء نے  دلیل پکڑی ہے  کہ راستوں کی بندش کر کے  لڑنا اور شہروں میں لڑنا دونوں برابر ہے  کیونکہ لفظ ویسعون فی الارض فسادا کے  ہیں ۔ مالک، اوزاعی، لیث، شافعی،، احمد رجمہم اللہ اجمعین کا یہی مذہب ہے  کہ باغی لوگ خواہ شہر میں ایسا فتنہ مچائیں یا بیرون شہر، ان کی سزا یہی ہے  کہ بلکہ امام مالک تو یہاں تک فرماتے  ہیں  کہ اگر کوئی شخص دوسرے  کو اس کے  گھر میں اس طرح دھوکہ دہی سے  مار ڈالے  تو اسے  پکڑ لیا جائے  اور اسے  قتل کر دیا جائے  اور خود امام وقت ان کاموں کو از خود کرے  گا، نہ کہ مقتول کے  اولیاء کے  ہاتھ میں یہ کام ہوں بلکہ اگر وہ درگزر کرنا چاہیں  تو بھی ان کے  اختیار میں نہیں  بلکہ یہ جرم، بے  واسطہ حکومت اسلامیہ کا ہے ۔ امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ نہیں ، وہ کہتے  ہیں  کہ "مجاربہ اسی وقت مانا جائے  گا جبکہ شہر کے  باہر ایسے  فساد کوئی کرے ، کیونکہ شہر میں تو امداد کا پہنچنا ممکن ہے ، راستوں میں یہ بات ناممکن سی ہے " جو سزا ان محاربین کی بیان ہوئی ہے  اس کے  بارے  میں حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  "جو شخص مسلمانوں پر تلوار اٹھائے ، راستوں کو پر خطر بنا دے ، امام المسلمین کو ان تینوں سزاؤں میں سے  جو سزا دینا چاہے  اس کا اختیار ہے "۔ یہی قول اور بھی بہت سوں کا ہے  اور اس طرح کا اختیار ایسی ہی اور آیتوں کے  احکام میں بھی موجود ہے  جیسے  محرم اگر شکار کھیلے  تو اس کا بدلہ شکار کے  برابر کی قربانی یا مساکین کا کھانا ہے  یا اس کے  برابر روزے  رکھنا ہے ، بیماری یا سر کی تکلیف کی وجہ سے  حالت احرام میں سر منڈوانے  اور خلاف احرام کام کرنے  والے  کے  فدیئے  میں بھی روزے  یا صدقہ یا قربانی کا حکم ہے ۔ قسم کے  کفارے  میں درمیانی درجہ کا کھانا دیں مسکینوں کا یا ان کا کپڑا یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے ۔ تو جس طرح یہاں ان صورتوں میں سے  کسی ایک کے  پسند کر لینے  کا اختیار ہے ، اسی طرح ایسے  محارب، مرتد لوگوں کی سزا بھی یا تو قتل ہے  یا ہاتھ پاؤں الٹی طرح سے  کاٹنا ہے  یا جلا وطن کرنا۔ اور جمہور کا قول ہے  کہ یہ آیت کئی احوال میں ہے ، جب ڈاکو قتل و غارت دونوں کے  مرتکب ہوتے  ہوں تو قابل دار اور گردن وزنی ہیں  اور جب صرف قتل سرزد ہوا ہو تو قتل کا بدلہ صرف قتل ہے  اور اگر فقط مال لیا ہو تو ہاتھ پاؤں الٹے  سیدھے  کاٹ دیئے  جائیں گے  اور اگر راستے  پر خطر کر دیئے  ہوں، لوگوں کو خوف زدہ کر دیا ہو اور کسی گناہ کے  مرتکب نہ ہوئے  ہوں اور گرفتار کر لئے  جائیں تو صرف جلاوطنی ہے ۔ اکثر سلف اور ائمہ کا یہی مذہب ہے  پھر بزرگوں نے  اس میں بھی اختلاف کیا ہے  کہ آیا سولی پر لٹکا کر یونہی چھوڑ دیا جائے  کہ بھوکا پیاسا مر جائے ؟ یا نیزے  وغیرہ سے  قتل کر دیا جائے ؟ یا پہلے  قتل کر دیا جائے  پھر سولی پر لٹکایا جائے  تاکہ اور لوگوں کو عبرت حاصل ہو؟ اور کیا تین دن تک سولی پر رہنے  دے  کر پھر اتار لیا جائے ؟ یا یونہی چھوڑ دیا جائے  لیکن تفسیر کا یہ موضوع نہیں  کہ ہم ایسے  جزئی اختلافات میں پڑیں اور ہر ایک کی دلیلیں وغیرہ وارد کریں ۔ ہاں ایک حدیث میں کچھ تفصیل سزا ہے ، اگر اس کی سند صحیح ہو تو وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جب ان محاربین کے  بارے  میں حضرت جبرئیل سے  دریافت کیا تو آپ نے  فرمایا "جنہوں نے  مال چرایا اور راستوں کو خطرناک بنا دیا ان کے  ہاتھ تو چوری کے  بدلے  کاٹ دیجئے  اور جس نے  قتل اور دہشت گردی پھیلائی اور بدکاری کا ارتکاب کیا ہے ، اسے  سولی چڑھا دو۔ فرمان ہے  کہ زمین سے  الگ کر دیئے  جائیں یعنی انہیں  تلاش کر کے  ان پر حد قائم کی جائے  یا وہ دار الاسلام سے  بھاگ کر کہیں  چلے  جائیں یا یہ کہ ایک شہر سے  دوسرے  شہر اور دوسرے  سے  تیسرے  شہر انہیں  بھیج دیا جاتا رہے  یا یہ کہ اسلامی سلطنت سے  بالکل ہی خارج کر دیا جائے "۔ شعبی تو نکال ہی دیتے  تھے  اور عطا خراسانی کہتے  ہیں  "ایک لشکر میں سے  دوسرے  لشکر میں پہنچا دیا جائے  یونہی کئی سال تک مارا مارا پھرایا جائے  لیکن دار الاسلام سے  باہر نہ کیا جائے "۔ ابو حنیفہ اور ان کے  اصحاب کہتے  ہیں  "اسے  جیل خانے  میں ڈال دیا جائے "۔ ابن جریر کا مختار قول یہ ہے  کہ "اسے  اس کے  شہر سے  نکال کر کسی دوسرے  شہر کے  جیل خانے  میں ڈال دیا جائے "۔ "ایسے  لوگ دنیا میں ذلیل و رذیل اور آخرت میں بڑے  بھاری عذابوں میں گرفتار ہوں گے "۔ آیت کا یہ ٹکڑا تو ان لوگوں کی تائید کرتا ہے  جو کہتے  ہیں  کہ یہ آیت مشرکوں کے  بارے  میں اتری ہے  اور مسلمانوں کے  بارے  وہ صحیح حدیث ہے  جس میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ہم سے  ویسے  ہی عہد لئے  جیسے  عورتوں سے  لئے  تھے  کہ "ہم اللہ کے  ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنی اولادوں کو قتل نہ کریں، ایک دوسرے  کی نافرمانی نہ کریں جو اس وعدے  کو نبھائے ، اس کا اجر اللہ کے  ذمے  ہے  اور جو ان میں سے  کسی گناہ کے  ساتھ آلودہ ہو جائے  پھر اگر اسے  سزا ہو گئی تو وہ سزا کفارہ بن جائے  گی اور اگر اللہ تعالیٰ نے  پردہ پوشی کر لی تو اس امر کا اللہ ہی مختار ہے  اگر چاہے  عذاب کرے، اگر چاہے  چھوڑ دے "۔ اور حدیث میں ہے  "جس کسی نے  کوئی گناہ کیا پھر اللہ تعالیٰ نے  اسے  ڈھانپ لیا اور اس سے  چشم پوشی کر لی تو اللہ کی ذات اور اس کا رحم و کرم اس سے  بہت بلند و بالا ہے ، معاف کئے  ہوئے  جرائم کو دوبارہ کرنے  پہ اسے  دنیوی سزا ملے  گی، اگر بے  توبہ مر گئے  تو آخرت کی وہ سزائیں باقی ہیں  جن کا اس وقت صحیح تصور بھی محال ہے  ہاں توبہ نصیب ہو جائے  تو اور بات ہے "۔ پھر توبہ کرنے  والوں کی نسبت جو فرمایا ہے  "اس کا اظہار اس صورت میں تو صاف ہے  کہ اس آیت کو مشرکوں کے  بارے  میں نازل شدہ مانا جائے ۔ لیکن جو مسلمان مغرور ہوں اور وہ قبضے  میں آنے  سے  پہلے  توبہ کر لیں تو ان سے  قتل اور سولی اور پاؤں کاٹنا تو ہٹ جاتا ہے  لیکن ہاتھ کا کٹنا بھی ہٹ جاتا ہے  یا نہیں ، اس میں علماء کے  دو قول ہیں ، آیت کے  ظاہری الفاظ سے  تو یہی معلوم ہوتا ہے  کہ سب کچھ ہٹ جائے ، صحابہ کا عمل بھی اسی پر ہے ۔ چنانچہ جاریہ بن بدر تیمی بصری نے  زمین میں فساد کیا، مسلمانوں سے  لڑا، اس بارے  میں چند قریشیوں نے  حضرت علی سے  سفارش کی، جن میں حضرت حسن بن علی، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن جعفر بھی تھے  لیکن آپ نے  اسے  امن دینے  سے  انکار کر دیا۔ وہ سعید بن قیس ہمدانی کے  پاس آیا، آپ نے  اپنے  گھر میں اسے  ٹھہرایا اور حضرت علی کے  پاس آئے  اور کہا بتایئے  تو جو اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے  لڑے  اور زمین میں فساد کی سعی کرے  پھر ان آیتوں کی قبل ان تقدروا علیھم تک تلاوت کی تو آپ نے  فرمایا میں تو ایسے  شخص کو امن لکھ دوں گا، حضرت سعید نے  فرمایا یہ جاریہ بن بدر ہے ، چنانچہ جاریہ نے  اس کے  بعد ان کی مدح میں اشعار بھی کہے  ہیں ۔ قبیلہ مراد کا ایک شخص حضرت ابو موسیٰ اشعری کے  پاس کوفہ کی مسجد میں جہاں کے  یہ گورنر تھے ، ایک فرض نماز کے  بعد آیا اور کہنے  لگا اے  امیر کوفہ فلاں بن فلاں مرادی قبیلے  کا ہوں، میں نے  اللہ اور اس کے  رسول سے  لڑائی لڑی، زمین میں فساد کی کوشش کی لیکن آپ لوگ مجھ پر قدرت پائیں، اس سے  پہلے  میں تائب ہو گیا اب میں آپ سے  پناہ حاصل کرنے  والے  کی جگہ پر کھڑا ہوں ۔ اس پر حضرت ابو موسیٰ کھڑے  ہو گئے  اور فرمایا اے  لوگو! تم میں سے  کوئی اب اس توبہ کے  بعد اس سے  کسی طرح کی بڑائی نہ کرے ، اگر یہ سچا ہے  تو الحمدللہ اور یہ جھوٹا ہے  تو اس کے  گناہ ہی اسے  ہلاک کر دیں گے ۔ یہ شخص ایک مدت تک تو ٹھیک ٹھیک رہا لیکن پھر بغاوت کر گیا، اللہ نے  بھی اس کے  گناہوں کے  بدلے  اسے  غارت کر دیا اور یہ مار ڈالا گیا۔ علی نامی ایک اسدی شخص نے  بھی گزر گاہوں میں دہشت پھیلا دی، لوگوں کو قتل کیا، مال لوٹا، بادشاہ لشکر اور رعایا نے  ہر چند اسے  گرفتار کرنا چاہا، لیکن یہ ہاتھ نہ لگا۔ ایک مرتبہ یہ جنگل میں تھا، ایک شخص کو قرآن پڑھتے  سنا اور وہ اس وقت یہ آیت تلاوت کر رہا تھا قل یا عبادی الذین اسرفوا الخ، یہ اسے  سن کر رک گیا اور اس سے  کہا اے  اللہ کے  بندے  یہ آیت مجھے  دوبارہ سنا، اس نے  پھر پڑھی اللہ کی اس آواز کو سن کر وہ فرماتا ہے  اے  میرے  گنہگار بندو تم میری رحمت سے  ناامید نہ ہو جاؤ، میں سب گناہوں کو بخشنے  پر قادر ہوں میں غفور و رحیم ہوں ۔ اس شخص نے  جھٹ سے  اپنی تلوار میان میں کر لی، اسی وقت سچے  دل سے  توبہ کی اور صبح کی نماز سے  پہلے  مدینے  پہنچ گیا، غسل کیا اور مسجد نبوی میں نماز صبح جماعت کے  ساتھ ادا کی اور حضرت ابوہریرہ کے  پاس جو لوگ بیٹھے  تھے ، ان ہی میں ایک طرف یہ بھی بیٹھ گیا۔ جب دن کا اجالا ہوا تو لوگوں نے  اسے  دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو سلطنت کا باغی، بہت بڑا مجرم اور مفرور شخص علی اسدی ہے ، سب نے  چاہا کہ اسے  گرفتار کر لیں ۔ اس نے  کہا سنو بھائیو! تم مجھے  گرفتار نہیں  کر سکتے ، اس لئے  کہ مجھ پر تمہارے  قابو پانے  سے  پہلے  ہی میں تو توبہ کر چکا ہوں بلکہ توبہ کے  بعد خود تمہارے  پاس آ گیا ہوں، حضرت ابوہریرہ نے  فرمایا! یہ سچ کہتا ہے  اور اس کا ہاتھ پکڑ کر مروان بن حکم کے  پاس لے  چلے ، یہ اس وقت حضرت معاویہ کی طرف سے  مدینے  کے  گورنر تھے ، وہاں پہنچ کر فرمایا کہ یہ علی اسدی ہیں ، یہ توبہ کر چکے  ہیں ، اس لئے  اب تم انہیں  کچھ نہیں  کہہ سکتے ۔ چنانچہ کسی نے  اس کے  ساتھ کچھ نہ کیا، جب مجاہدین کی ایک جماعت رومیوں سے  لڑنے  کیلئے  چلی تو ان مجاہدوں کے  ساتھ یہ بھی ہو لئے ، سمندر میں ان کی کشتی جا رہی تھی کہ سامنے  سے  چند کشتیاں رومیوں کی آ گئیں، یہ اپنی کشتی میں سے  رومیوں کی گردنیں مارنے  کیلئے  ان کی کشتی میں کود گئے ، ان کی آبدار خارا شگاف تلوار کی چمک کی تاب رومی نہ لا سکے  اور نامردی سے  ایک طرف کو بھاگے ، یہ بھی ان کے  پیچھے  اسی طرف چلے  چونکہ سارا بوجھ ایک طرف ہو گیا، اس لئے  کشتی الٹ گئی جس سے  وہ سارے  رومی کفار ہلاک ہو گئے  اور حضرت علی اسدی بھی ڈوب کر شہید ہو گئے (اللہ ان پر اپنی رحمتیں ناز فرمائے)

۳۵

تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے

تقوے  کا حکم ہو رہا ہے  اور وہ بھی اطاعت سے  ملا ہوا۔ مطلب یہ ہے  کہ اللہ کے  منع کردہ کاموں سے  جو شخص رکا رہے ، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے ۔ وسیلے  کے  یہی معنی حضرت ابن عباس سے  منقول ہیں ۔ حضرت مجاہد، حضرت وائل، حضرت حسن، حضرت ابن زید اور بہت سے  مفسرین سے  بھی مروی ہے ۔ قتادہ فرماتے  ہیں  اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے  اعمال کرنے  سے  اس سے  قریب ہوتے  جاؤ۔ ابن زید نے  یہ آیت بھی پڑھی اولئک الذین یدعون یبتغون الی ربھم الوسیلۃ جنہیں  یہ پکارتے  ہیں  وہ تو خود ہی اپنے  رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے  ہوئے  ہیں ۔ ان ائمہ نے  وسیلے  کے  جو معنی اس آیت میں کئے  ہیں  اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں ۔ امام جریر نے  اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے  مستعمل ہوا ہے ۔ وسیلے  کے  معنی اس چیز کے  ہیں  جس سے  مقصود کے  حاصل کرنے  کی طرف پہنچا جائے  اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے  جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جگہ ہے ۔ عرش سے  بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے ۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے  "جو شخص اذان سن کر اللھم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ الخ، پڑھے  اس کیلئے  میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے "۔ مسلم کی حدیث میں ہے  "جب تم اذان سنو تو جو موذن کہہ رہا ہو، وہی تم بھی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، ایک درود کے  بدلے  تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے  گا۔ پھر میرے  لئے  اللہ تعالیٰ سے  وسیلہ طلب کرو، وہ جنت کا ایک درجہ ہے ، جسے  صرف ایک ہی بندہ پائے  گا، مجھے  امید ہے  کہ وہ بندہ میں ہی ہوں ۔ پس جس نے  میرے  لئے  وسیلہ طلب کیا، اس کیلئے  میری شفاعت واجب ہو گئی"۔ مسند احمد میں ہے  "جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے  لئے  وسیلہ مانگو، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے ؟ فرمایا جنت کا سب سے  بلند درجہ جسے  صرف ایک شخص ہی پائے  گا اور مجھے  امید ہے  کہ وہ شخص میں ہوں "۔ طبرانی میں ہے  "تم اللہ سے  دعا کرو کہ اللہ مجھے  وسیلہ عطا فرمائے  جو شخص دنیا میں میرے  لئے  یہ دعا کرے  گا، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے  دن بن جاؤں گا "۔ اور حدیث میں ہے  "وسیلے  سے  بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں ۔ لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے  میرے  لئے  وسیلے  کے  ملنے  کی دعا کرو"۔ ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے  کہ لوگوں نے  آپ سے  پوچھا کہ وسیلے  میں آپ کے  ساتھ اور کون ہوں گے ؟ تو آپ نے  حضرت فاطمہ اور حسن حسین کا نام لیا۔ ایک اور بہت غریب روایت میں ہے  کہ حضرت علی نے  کوفہ کے  منبر پر فرمایا کہ جنت میں دو موتی ہیں ، ایک سفید ایک زرد، زرد تو عرش تلے  ہے  اور مقام محمود سفید موتی کا ہے ، جس میں ستر ہزار بالا خانے  ہیں ، جن میں سے  ہر ہر گھر تین میل کا ہے ۔ اس کے  دریچے  دروازہ تخت وغیرہ سب کے  سب گویا ایک ہی جڑ سے  ہیں ۔ کا نام وسیلہ ہے ، یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی اہل بیت کیلئے  ہے ۔ تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے  رکنے  کا اور حکم احکام کے  بجا لانے  کا حکم دے  کر پھر فرمایا کہ "اس کی راہ میں جہاد کرو، مشرکین و کفار کو جو اس کے  دشمن ہیں  اس کے  دین سے  الگ ہیں ، اس کی سیدھی راہ سے  بھٹک گئے  ہیں ، انہیں  قتل کرو۔ ایسے  مجاہدین با مراد ہیں ، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے  ہیں ، جنت کے  بلند بالا خانے  اور اللہ کی بے  شمار نعمتیں انہی کیلئے  ہیں ، یہ اس جنت میں پہنچائے  جائیں گے ، جہاں موت و فوت نہیں ، جہاں کمی اور نقصان نہیں ، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے "۔ اپنے  دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے  دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے  کہ "ایسے  سخت اور بڑے  عذاب انہیں  ہو رہے  ہوں گے  کہ اگر اس وقت روئے  زمین کے  مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے  بچنے  کیلئے  بطور بدلے  کے  سب دے  ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے  تو بھی ان سے  اب فدیہ قبول نہیں  بلکہ جو عذاب ان پر ہیں ، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں "۔ جیسے  اور جگہ ہے  کہ "جہنمی جب جہنم میں سے  نکلنا چاہئیں گے  تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے  جائیں گے ۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے  شعلوں کے  ساتھ اوپر آ جائیں گے  کہ داروغے  انہیں  لوہے  کے  ہتھوڑے  مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے ۔ غرض ان دائمی عذابوں سے  چھٹکارا محال ہے "۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "ایک جہنمی کو لایا جائے  گا پھر اس سے  پوچھا جائے  گا کہ اے  ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے ؟ وہ کہے  گا بدترین اور سخت ترین۔ اس سے  پوچھا جائے  گا کہ اس سے  چھوٹنے  کیلئے  تو کیا کچھ خرچ کر دینے  پر راضی ہے ؟ وہ کہے  گا ساری زمین بھر کا سونا دے  کر بھی میں یہاں سے  چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے  گا جھوٹا ہے  میں نے  تو تجھ سے  اس سے  بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے  کچھ بھی نہ کیا۔ پھر حکم دیا جائے  گا اور اسے  جہنم میں ڈال دیا جائے  گا " (مسلم) ایک مرتبہ حضرت جابر نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان بیان کیا کہ ایک قوم جہنم میں سے  نکال کر جنت میں پہنچائی جائے  گی۔ اس پر ان کے  شاگرد حضرت یزید فقیر نے  پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے ؟ کہ یریدون ان یخر جوا منھا الخ، یعنی وہ جہنم سے  آزاد ہونا چاہیں  گے  لیکن وہ آزاد ہونے  والے  نہیں  تو آپ نے  فرمایا اس سے  پہلے  کی آیت ان الذین کفروا الخ، پڑھو جس سے  صاف ہو جاتا ہے  کہ یہ کافر لوگ ہیں  یہ کبھی نہ نکلیں گے  (مسند وغیرہ) دوسری روایت میں ہے  کہ یزید کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے  کوئی بھی نہ نکلے  گا اس لئے  یہ سن کر انہوں نے  حضرت جابر سے  کہا کہ مجھے  اور لوگوں پر تو افسوس نہیں  ہاں آپ صحابیوں پر افسوس ہے  کہ آپ بھی قرآن کے  الٹ کہتے  ہیں  اس وقت مجھے  بھی غصہ آ گیا تھا اس پر ان کے  ساتھیوں نے  مجھے  ڈانٹا لیکن حضرت جابر بہت ہی حلیم الطبع تھے  انہوں نے  سب کو روک دیا اور سمجھے  سمجھایا کہ قرآن میں جن کا جہنم سے  نہ نکلنے  کا ذکر ہے  وہ کفار ہیں ۔ تم نے  قران نہیں  پڑھا؟ میں نے  کہا ہاں مجھے  سارا قرآن یاد ہے ؟ کہاں پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں  ہے ؟ ومن اللیل فتھجدبہ الخ، اس میں مقام محمود کا ذکر ہے  یہی مقام شفاعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے  ڈالے  گا اور جب تک چاہے  انہیں  جہنم میں ہی رکھے  گا پھر جب چاہے  گا انہیں  اس سے  آزاد کر دے  گا۔ حضرت یزید فرماتے  ہیں  کہ اس کے  بعد سے  میرا خیال ٹھیک ہو گیا۔ حضرت طلق بن حبیب کہتے  ہیں  میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ حضرت جابر سے  ملا اور اپنے  دعوے  کے  ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے  ہمیشہ رہنے  والوں کا ذکر ہے  سب پڑھ ڈالیں تو آپ نے  سن کر فرمایا! اے  طلق کیا تم اپنے  تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  علم میں مجھ سے  افضل جانتے  ہو؟ سنو جتنی آیتیں تم نے  پڑھی ہیں  وہ سب اہل جہنم کے  بارے  میں ہیں  یعنی مشرکوں کیلئے ۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے  یہ وہ لوگ ہیں  جو مشرک نہ تھے  لیکن گنہگار تھے  گناہوں کے  بدلے  سزا بھگت لی پھر جہنم سے  نکال دیئے  گئے ۔ حضرت جابر نے  یہ سب فرما کر اپنے  دونوں ہاتھوں سے  اپنے  دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے  فرمایا یہ دونوں بہرے  ہو جائیں اگر میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  یہ نہ سنا ہو کہ جہنم میں داخل ہونے  بعد بھی لوگ اس میں سے  نکالے  جائیں گے  اور وہ جہنم سے  آزاد کر دیئے  جائیں گے  قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے  ہو ہم بھی پڑھتے  ہی ہیں ۔

۳۸

احکام جرم و سزا

حضرت ابن مسعود کی قرات میں فاقطعوا ایمانھما ہے  لیکن یہ قرات شاذ ہے  کو عمل اسی پر ہے  لیکن وہ عمل اس قرات کی وجہ سے  نہیں  بلکہ دوسرے  دلائل کی بناء پر ہے ۔ چور کے  ہاتھ کاٹنے  کا طریقہ اسلام سے  پہلے  بھی تھا اسلام نے  اسے  تفصیل وار اور منظم کر دیا اسی طرح قسامت دیت فرائض کے  مسائل بھی پہلے  تھے  لیکن غیر منظم اور ادھور اسلام نے  انہیں  ٹھیک ٹھاک کر دیا۔ ایک قول یہ بھی ہے  کہ سب سے  پہلے  دو یک نامی ایک خزاعی شخص کے  ہاتھ چوری کے  الزام میں قریش نے  کاٹے  تھے  اس نے  کعبے  کا غلام چرایا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے  کہ چوروں نے  اس کے  پاس رکھ دیا تھا۔ بعض فقہا کا خیال ہے  کہ چوری کی چیز کی کوئی حد نہیں  تھوڑی ہو یا بہت محفوظ جگہ سے  لی ہو یا غیر محفوظ جگہ سے  بہر صورت ہاتھ کاٹا جائے  گا۔ ابن عباس سے  مروی ہے  کہ یہ آیت عام ہے  تو ممکن ہے  اس قول کا یہی مطلب ہو اور دوسرے  مطالب بھی ممکن ہیں  ۔ ایک دلیل ان حضرات کی یہ حدیث بھی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے  کہ انڈا چراتا ہے  اور ہاتھ کٹواتا ہے  رسی چرائی ہے  اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے ، جمہور علماء کا مذہب یہ ہے  کہ چوری کے  مال کی حد مقرر ہے ۔ گو اس کے  تقرر میں اختلاف ہے ۔ امام مالک کہتے  ہیں  تین درہم سکے  والے  خالص یا ان کی قیمت یا زیادہ کی کوئی چیز چنانچہ صحیح بخاری مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹنا مروی ہے  اور اس کی قیمت اتنی ہی تھی۔ حضرت عثمان نے  اترنج کے  چور کے  ہاتھ کاٹے  تھے  جبکہ وہ تین درہم کی قیمت کا تھا۔ حضرت عثمان کا فعل گویا صحابہ اجماع سکوتی ہے  اور اس سے  یہ بھی ثابت ہوتا ہے  کہ پھل کے  چور کے  ہاتھ بھی کاٹے  جائیں گے ۔ حنفیہ اسے  نہیں  مانتے  اور ان کے  نزدیک چوری کے  مال کا درس درہم کی قیمت کا ہونا ضروری ہے ۔ اس میں شافعیہ کا اختلاف ہے  پاؤ یا دینار کے  تقرر میں ۔ امام شافعی کا فرمان ہے  کہ پاؤ دینار کی قیمت کی چیز ہو یا اس سے  زیادہ۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی حدیث ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا چور کا ہاتھ پاؤ دینار میں پھر جو اس سے  اوپر ہو اس میں کاٹنا چاہئے  مسلم کی ایک حدیث میں ہے  چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے  مگر پاؤ دینار پھر اس سے  اوپر میں ۔ پس یہ حدیث اس مسئلے  کا صاف فیصلہ کر دیتی ہے  اور جس حدیث میں تین درہم میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ہاتھ کاٹنے  کو فرمانا مروی ہے  وہ اس کے  خلاف نہیں  اس لئے  کہ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا۔ پس اصل چوتھائی دینار ہے  نہ کہ تین درہم۔ حضرت عمر بن خطاب حضرت عثمان بن عفان حضرت علی بن ابی طالب بھی یہی فرماتے  ہیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز لیث بن سعد اوزاعی شافعی اسحاق بن راہو یہ ابو ثور داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی قول ہے ۔ ایک روایت میں امام اسحق بن راہویہ اور امام احمد بن حنبل سے  مروی ہے  کہ خواہ ربع دینار ہو خواہ تین درہم دونوں ہی ہاتھ کاٹنے  کا نصاب ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے  چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹ دو اس سے  کم میں نہیں ۔ اس وقت دینار بارہ درہم کا تھا تو چوتھائی دینار تین درہم کا ہوا۔ نسائی میں ہے  چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے  کم میں نہ کاٹا جائے ۔ حضرت عائشہ سے  پوچھا گیا ڈھال کی قیمت کیا ہے ؟ فرمایا پاؤ دینار۔ پس ان تمام احادیث سے  صاف صاف ثابت ہو رہا ہے  کہ دس درہم شرط لگانی کھلی غلطی ہے  واللہ اعلم۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے  ساتھیوں نے  کہا ہے  کہ جس ڈھال کے  بارے  میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  زمانے  میں چور کا ہاتھ کاٹا گیا اس کی قیمت نو درہم تھی چنانچہ ابوبکر بن شیبہ میں یہ موجود ہے  اور عبد اللہ بن عمر سے ۔ عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن عمرو مخالفت کرتے  رہے  ہیں  اور حدود کے  بارے  میں اختیار پر عمل کرنا چاہئے  اور احتیاط زیادتی میں ہے  اس لئے  دس درہم نصاب ہم نے  مقرر کیا ہے ۔ بعض سلف کہتے  ہیں  کہ دس درہم یا ایک دینار حد ہے  علی ابن مسعود ابراہیم نخعی ابو جعفر باقر سے  یہی مروی ہے ۔ سعید بن جیر فرماتے  ہیں  پانچوں نہ کاٹی جائیں مگر پانچ دینار پچاس درہم کی قیمت کے  برابر کے  مال کی چوری میں ۔ ظاہر یہ کا مذہب ہے  کہ ہر تھوڑی بہت چیز کی چوری پر ہاتھ کٹے  گا انہیں  جمہور نے  یہ جواب دیا ہے  کہ اولاً تو یہ اطلاق منسوخ ہے  لیکن یہ جواب ٹھیک نہیں  اس لئے  تاریخ نسخ کا کوئی یقینی عمل نہیں ۔ دوسرا جواب یہ ہے  کہ انڈے  سے  مراد لوہے  کا انڈا ہے  اور رسی سے  مراد کشتیوں کے  قیمتی رسے  ہیں ۔ تیسرا جواب یہ ہے  کہ یہ فرمان باعتبار نتیجے  کے  ہے  یعنی ان چھوٹی چھوٹی معمولی سی چیزوں سے  چوری شروع کرتا ہے  آخر قیمتی چیزیں چرانے  لگتا ہے  اور ہاتھ کاٹا جاتا ہے  اور یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بطور افسوس کے  اوپر چور کو نادم کرنے  کے  فرما رہے  ہیں  کہ کیسا ذیل اور بے  خوف انسان ہے  کہ معمولی چیز کیلئے  ہاتھ جیسی نعمت سے  محروم ہو جاتا ہے ۔ مذکور ہے  کہ ابو العلام معری جب بغداد میں آیا تو اس نے  اس بارے  میں بڑے  اعتراض شروع کئے  اور اس کے  جی میں یہ خیال بیٹھا گیا کہ میرے  اس اعتراض کا جواب کسی سے  نہیں  ہو سکتا تو اس نے  ایک شعر کہا کہ اگر ہاتھ کاٹ ڈالا جائے  تو دیت میں پانچ سو دلوائیں اور پھر اسی ہاتھ کو پاؤ دینار کی چوری پر کٹوا دیں یہ ایسا تناقض ہے  کہ ہماری سمجھ میں تو آتا ہی نہیں  خاموش ہیں  اور کہتے  ہیں  کہ ہمارا مولا ہمیں جہنم سے  بچائے ۔ لیکن جب اس کی یہ بکواس مشہور ہوئی تو علماء کرام نے  اسے  جواب دینا چاہا تو یہ بھاگ گیا پھر جواب بھی مشہور کر دیئے  گئے ۔ قاضی عبد الوہاب نے  جواب دیا تھا کہ جب تک ہاتھ امین تھا تب تک ثمین یعنی قیمتی تھا اور جب یہ حائن ہو گیا اس نے  چوری کر لی تو اس کی قیمت گھٹ گئی۔ بعض بزرگوں نے  اسے  قدرے  تفصیل سے  جواب دیا تھا کہ اس سے  شریعت کی کامل حکمت ظاہر ہوتی ہے  اور دنیا کا امن و امان قائم ہوتا ہے ، جو کسی کا ہاتھ بے  وجہ کاٹ دینے  کا حکم دیا تاکہ چوری کا دروازہ اس خوف سے  بند ہو جائے ۔ پس یہ تو عین حکمت ہے  اگر چوری میں بھی اتنی رقم کی قید لگائی جاتی تو چوریوں کا انسداد نہ ہوتا۔ یہ بدلہ ہے  ان کے  کرتوت کا۔ مناسب مقام یہی ہے  کہ جس عضو سے  اس نے  دوسرے  کو نقصان پہنچایا ہے ، اسی عضو پر سزا ہو۔ تاکہ انہیں  کافی عبرت حاصل ہو اور دوسروں کو بھی تنبیہ ہو جائے ۔ اللہ اپنے  انتقام میں غالب ہے  اور اپنے  احکام میں حکیم ہے ۔ جو شخص اپنے  گناہ کے  بعد توبہ کر لے  اور اللہ کی طرف جھک جائے ، اللہ اسے  اپنا گناہ معاف فرما دیا کرتا یہ۔ ہاں جو مال چوری میں کسی کا لے  لیا ہے  چونکہ وہ اس شخص کا حق ہے ، لہٰذا صرف توبہ کرنے  سے  وہ معاف نہیں  ہوتا تاوقتیکہ وہ مال جس کا ہے  اسے  نہ پہنچائے  یا اس کے  بدلے  پوری پوری قیمت ادا کرے ۔ جمہور ائمہ کا یہی قول ہے ، صرف امام ابو حنیفہ کہتے  ہیں  کہ "جب چوری پر ہاتھ کٹ گیا اور مال تلف ہو چکا ہے  تو اس کا بدلہ دینا اس پر ضروری نہیں "۔ دار قطنی وغیرہ کی ایک مرسل حدیث میں ہے  کہ "ایک چور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  لایا گیا، جس نے  چادر چرائی تھی، آپ نے  اس سے  فرمایا، میرا خیال ہے  کہ تم نے  چوری نہیں  کی ہو گی، انہوں نے  کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے  چوری کی ہے  تو آپ نے  فرمایا اسے  لے  جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو جب ہاٹھ کٹ چکا اور آپ کے  پاس آئے  تو آپ نے  فرمایا توبہ کرو، انہوں نے  توبہ کی، آپ نے  فرمایا اللہ نے  تمہاری توبہ قبول فرما لی" (رضی اللہ عنہ) ابن ماجہ میں ہے  کہ "حضرت عمر بن سمرہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آ کر کہتے  ہیں  کہ مجھ سے  چوری ہو گئی ہے  تو آپ مجھے  پاک کیجئے ، فلاں قبیلے  والوں کا اونٹ میں نے  چرا لیا ہے ۔ آپ نے  اس قبیلے  والوں کے  پاس آدمی بھیج کر دریافت فرمایا تو انہوں نے  کہا کہ ہمارا اونٹ تو ضرور گم ہو گیا ہے ۔ آپ نے  حکم دیا اور ان کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا وہ ہاتھ کٹنے  پر کہنے  لگے ، اللہ کا شکر ہے  جس نے  تجھے  میرے  جسم سے  الگ کر دیا، تو نے  میرے  سارے  جسم کو جہنم میں لے  جانا چاہا تھا" (رضی اللہ عنہ) ابن جریر میں ہے  کہ "ایک عورت نے  کچھ زیور چرا لئے ، ان لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس اسے  پیش کیا، آپ نے  اس کا داہنا ہاتھ کاٹنے  کا حکم دیا، جب کٹ چکا تو اس عورت نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میری توبہ بھی ہے ؟ آپ نے  فرمایا تم تو ایسی پاک صاف ہو گئیں کہ گویا آج ہی پیدا ہوئی"۔ اس پر آیت فمن تاب نازل ہوئی۔ مسند میں اتنا اور بھی ہے  کہ اس وقت اس عورت والوں نے  کہا ہم اس کا فدیہ دینے  کو تیار ہے  لیکن آپ نے  اسے  قبول نہ فرمایا اور ہاتھ کاٹنے  کا حکم دے  دیا۔ یہ عورت مخزوم قبیلے  کی تھی اور اس کا یہ واقعہ بخاری و مسلم میں بھی موجود ہے  کہ چونکہ یہ بڑی گھرانے  کی عورت تھی، لوگوں میں بڑی تشویش پھیلی اور ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  اس کے  بارے  میں کچھ کہیں  سنیں، یہ واقعہ غزوہ فتح میں ہوا تھا، بالاخر یہ طے  ہوا کہ حضرت اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے  بہت پیارے  ہیں ، وہ ان کے  بارے  میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سفارش کریں، حضرت اسامہ نے  جب اس کی سفارش کی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سخت ناگوار گزرا اور غصے  سے  فرمایا! اسامہ تو اللہ کی حدود میں سے  ایک حد کے  بارے  میں سفارش کر رہا ہے ؟ اب تو حضرت اسامہ بہت گھبرائے  اور کہنے  لگے  مجھ سے  بڑی خطا ہوئی، میرے  لئے  آپ استفغار کیجئے ۔ شام کے  وقت اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک خطبہ سنایا جس میں اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثنا کے  بعد فرمایا کہ تم سے  پہلے  کے  لوگ اسی خصلت پر تباہ و برباد ہو گئے  کہ ان میں سے  جب کوئی شریف شخص بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اسے  چھوڑ دیتے  تھے  اور جب کوئی معمولی آدمی ہوتا تو اس پر حد جاری کرتے ۔ اس اللہ کی قسم جس کے  ہاتھ میں میری جان ہے  اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی چوری کریں تو میں ان کے  بھی ہاتھ کاٹ دوں ۔ پھر حکم دیا اور اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ حضرت صدیقہ فرماتی ہیں  پھر اس بیوی صاحبہ نے  توبہ کی اور پوری اور پختہ توبہ کی اور نکاح کر لیا، پھر وہ میرے  پاس اپنے  کسی کام کاج کیلئے  آتی تھیں اور میں اس کی حاجت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے  بیان کر دیا کرتی تھی۔ (رضی اللہ عنہما) "مسلم میں ہے  ایک عورت لوگوں سے  اسباب ادھار لیتی تھی، پھر انکار کر جایا کرتی تھی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اس کے  ہاتھ کاٹنے  کا حکم دیا" اور روایت میں ہے  یہ زیور ادھار لیتی تھی اور اس کا ہاتھ کاٹنے  کا حکم حضرت بلال کو ہوا تھا۔ کتاب الاحکام میں ایسی بہت سی حدیثیں وارد ہیں  جو چوری سے  تعلق رکھتی ہیں ۔ فالحمد للہ۔ جمیع مملوک کا مالک ساری کائنات کا حقیقی بادشاہ، سچا حاکم، اللہ ہی ہے ۔ جس کے  کسی حکم کو کوئی روک نہیں  سکتا۔ جس کے  کسی ارادے  کو کوئی بدل نہیں  سکتا، جسے  چاہے  بخشے  جسے  چاہے  عذاب کرے ۔ ہر ہر چیز پر وہ قادر ہے  اس کی قدرت کامل اور اس کا قبضہ سچا ہے ۔

۴۱

جھوٹ سننے اور کہنے کے عادی لوگ

ان آیتوں میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہو رہی ہے ، جو رائے ، قیاس اور خواہش نفسانی کو اللہ کی شریعت پر مقدم رکھتے  ہیں ۔ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت سے  نکل کر کفر کی طرف دوڑتے  بھاگتے  رہتے  ہیں ۔ گو یہ لوگ زبانی ایمان کے  دعوے  کریں لیکن ان کا دل ایمان سے  خالی ہے ۔ منافقوں کی یہی حالت ہے  کہ زبان کے  کھرے ، دل کے  کھوٹے  اور یہی خصلت یہودیوں کی ہے  جو اسلام اور اہل اسلام کے  دشمن ہیں  ۔ یہ جھوٹ کو مزے  مزے  سے  سنتے  ہیں  اور دل کھول کر قبول کرتے  ہیں ۔ لیکن سچ سے  بھاگتے  ہیں ، بلکہ نفرت کرتے  ہیں  اور جو لوگ آپ کی مجلس میں نہیں  آتے  یہ یہاں کی وہاں پہنچاتے  ہیں ۔ ان کی طرف سے  جاسوسی کرنے  کو آتے  ہیں ۔ پھر نالائقی یہ کرتے  ہیں  کہ یہ بات کو بدل ڈالا کرتے  ہیں  مطلب کچھ ہو، لے  کر کچھ اڑتے  ہیں ، ارادے  یہی ہیں  کہ اگر تمہاری خواہش کے  مطابق کہے  تو مان لو، طبیعت کے  خلاف ہو تو دور رہو۔ کہا کیا گیا ہے  کہ یہ آیت ان یہودیوں کے  بارے  میں اتری تھی جن میں ایک کو دوسرے  نے  قتل کر دیا تھا، اب کہنے  لگے  چلو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس چلیں اگر آپ دیت جرمانے  کا حکم دیں تو منظور کر لیں گے  اور اگر قصاص بدلے  کو فرمائیں تو نہیں  مانیں گے ۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے  کہ وہ ایک زنا کار کو لے  کر آئے  تھے ۔ ان کی کتاب توراۃ میں دراصل حکم تو یہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے ۔ لیکن انہوں نے  اسے  بدل ڈالا تھا اور سو کوڑے  مار کر، منہ کالا کر کے ، الٹا گدھا سوار کر کے  رسوائی کر کے  چھوڑ دیتے  تھے ۔ جب ہجرت کے  بعد ان میں سے  کوئی زنا کاری کے  جرم میں پکڑا گیا تو یہ کہنے  لگے  آؤ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس چلیں اور آپ سے  اس کے  بارے  میں سوال کریں، اگر آپ بھی وہی فرمائیں جو ہم کرتے  ہیں  تو اسے  قبول کریں گے  اور اللہ کے  ہاں بھی یہ ہماری سند ہو جائے  گی اور اگر رجم کو فرمائیں گے  تو نہیں  مانیں گے ۔ چنانچہ یہ آئے  اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  ذکر کیا کہ ہمارے  ایک مرد عورت نے  بدکاری کی ہے ، ان کے  بارے  میں آپ کیا ارشاد فرماتے  ہیں ؟ آپ نے  فرمایا تمہارے  ہاں توراۃ میں کیا حکم ہے ؟ انہوں نے  کہا ہم تو اسے  رسوا کرتے  ہیں  اور کوڑے  مار کر چھوڑ دیتے  ہیں ۔ یہ سن کر حضرت عبد اللہ بن سلام نے  فرمایا، جھوٹ کہتے  ہیں ، تورات میں سنگسار کا حکم ہے ۔ لاؤ تورات پیش کرو، انہوں نے  تورات کھولی لیکن آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے  پیچھے  کی سب عبارت پڑھ سنائی۔ حضرت عبد اللہ سمجھ گئے  اور آپ نے  فرمایا اپنے  ہاتھ کو تو ہٹا، ہاتھ ہٹایا تو سنگسار کرنے  کی آیت موجود تھی، اب تو انہیں  بھی اقرار کرنا پڑا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  حکم سے  زانیوں کو سنگسار کر دیا گیا، حضرت عبد اللہ فرماتے  ہیں  "میں نے  دیکھا کہ وہ زانی اس عورت کو پتھروں سے  بچانے  کیلۓ اس کے  آڑے  آ جاتا تھا" (بخاری مسلم) اور سند سے  مروی ہے  کہ یہودیوں نے  کہا "ہم تو اسے  کالا منہ کر کے  کچھ مار پیٹ کر چھوڑ دیتے  ہیں "۔ اور آیت کے  ظاہر ہونے  کے  بعد انہوں نے  کہا، ہے  تو یہی حکم لیکن ہم نے  تو اسے  چھپایا تھا، جو پڑھ رہا تھا اسی نے  رجم کی آیت پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا، جب اس کا ہاتھ اٹھوایا تو آیت پر اچٹتی ہوئی نظر پڑ گئی۔ ان دونوں کے  رجم کرنے  والوں میں حضرت عبد اللہ بن عمر بھی موجود تھے ، ایک اور روایت میں ہے  کہ ان لوگوں نے  اپنے  آدمی بھیج کر آپ کو بلوایا تھا، اپنے  مدرسے  میں گدی پر آپ کو بٹھایا تھا اور جو اب تورات آپ کے  سامنے  پڑھ رہا تھا، وہ ان کا بہت بڑا عالم تھا۔ ایک روایت میں ہے  کہ آپ نے  ان سے  قسم دے  کر پوچھا تھا کہ تم تورات میں شادی شدہ زانی کی کیا سزا پاتے  ہو؟ تو انہوں نے  یہی جواب دیا تھا لیکن ایک نوجوان کچھ نہ بولا، خاموش ہی کھڑا رہا، آپ نے  اس کی طرف دیکھ کر خاص اسے  دوبارہ قسم دی اور جواب مانگا، اس نے  کہا جب آپ ایسی قسمیں دے  رہے  ہیں  تو میں جھوٹ نہ بولوں گا، واقعی تورات میں ان لوگوں کی سزا سنگساری ہے ۔ آپ نے  فرمایا اچھا پھر یہ بھی سچ سچ بتاؤ کہ پہلے  پہل اس رجم کو تم نے  کیوں اور کس پر سے  اڑایا؟ اس نے  کہا حضرت ہمارے  کسی بادشاہ کے  رشتے  دار، بڑے  آدمی نے  زنا کاری کی۔ اس کی عظمت اور بادشاہ کی ہیبت کے  مارے  اسے  رجم کرو ورنہ اسے  بھڑ چھوڑو۔ آخر ہم نے  مل ملا کر یہ طے  کیا کہ بجائے  رجم کے  اس قسم کی کوئی سزا مقرر کر دی جائے ۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  توراۃ کے  حکم کو جاری کیا اور اسی بارے  میں آیت انا انزلنا الخ، اتری۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی ان احکام کے  کاری کرنے  والوں میں سے  ہیں  (احمد ابو داؤد) مسند احمد میں ہے  کہ ایک شخص کو یہودی کالا منہ کئے  لے  جا رہے  تھے  اور اسے  کوڑے  بھی مار رکھے  تھے ، تو آپ نے  بلا کر ان سے  ماجرا پوچھا انہوں نے  کہا کہ اس نے  زنا کیا ہے ۔ آپ نے  فرمایا کہ کیا زانی کی یہی سزا تمہارے  ہاں ہے ؟ کہا ہاں ۔ آپ نے  ان کے  ایک عالم کو بلا کر اسے  سخت قسم دے  کر پوچھا تو اس نے  کہا کہ اگر آپ ایسی قسم نہ دیتے  تو میں ہرگز نہ بتاتا، بات یہ ہے  کہ ہمارے  ہاں دراصل زنا کاری کی سزا سنگساری ہے  لیکن چونکہ امیر امراء اور شرفاء لوگوں میں یہ بدکاری بڑھ گئی تھی اور انہیں  اس قسم کی کی سزا دینی ہم نے  مناسب نہ جانی، اس لئے  انہیں  تو چھوڑ دیتے  تھے  اور اللہ کا حکم مارا نہ جائے  اس لئے  غریب غرباء، کم حیثیت لوگوں کو رجم کرا دیتے  تھے  پھر ہم نے  رائے  زنی کی کہ آؤ کوئی ایسی سزا تجویز کرو کہ شریف و غیر شریف، امیر غریب پر سب پر یکساں جاری ہو سکے  چنانچہ ہمارا سب کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ منہ کالے  کر دیں اور کوڑے  لگائیں ۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حکم دیا کہ ان دونوں کو سنگسار کرو چنانچہ انہیں  رجم کر دیا گیا اور آپ نے  فرمایا اے  اللہ میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے  تیرے  ایک مردہ حکم کو زندہ کیا۔ اس پر آیت باایھا الرسول لا یحزنک سے  ہم الکافرون تک نازل ہوئی۔ انہی یہودیوں کے  بارے  میں ۔ اور آیت میں ہے  کہ اللہ کے  نازل کردہ حکم کے  مطابق فیصلہ نہ کرنے  والے  ظالم ہیں  اور آیت میں ہے  (فاسق ہیں  (مسلم وغیرہ اور روایت میں ہے  "واقعہ زنا فدک میں ہوا تھا اور وہاں کے  یہودیوں نے  مدینے  شریف کے  یہودیوں کو لکھ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پچھوایا تھا جو عالم ان کا آیا اس کا نام ابن صوریا تھا، یہ آنکھ کا بھینگا تھا، اور اس کے  ساتھ دوسرا عالم بھی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  جب انہیں  قسم دی تو دونوں نے  قول دیا تھا، آپ نے  انہیں  کہا تھا، تمہیں  اس اللہ کی قسم جس نے  بنو اسرائیل کیلئے  پانی میں راہ کر دی تھی اور ابر کا سایہ ان پر کیا تھا اور فرعونیوں سے  بچا لیا تھا اور من و سلویٰ اتارا تھا۔ اس قسم سے  وہ چونک گئے  اور آپس میں کہنے  لگے  بڑی زبردست قسم ہے ، اس موقع پر جھوٹ بولنا ٹھیک نہیں  تو کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم تورات میں یہ ہے  کہ بری نظر سے  دیکھنا بھی مثل زنا کے  ہے  اور گلے  لگانا بھی اور بوسہ لینا بھی، پھر اگر چار گواہ اس بات کے  ہوں کہ انہوں نے  وخول خروج دیکھا ہے  جیسا کہ سلائی سرمہ دانی میں جاتی آتی ہے  تو رجم واجب ہو جاتا ہے ۔ آپ نے  فرمایا یہی مسئلہ ہے  پھر حکم دیا اور انہیں  رجم کرا دیا گیا"۔ اس پر آیت فان جاء وک الخ، اتری (ابو داؤد وغیرہ) ایک روایت میں جو دو عالم سامنے  لائے  گئے  تھے ، یہ دونوں صوریا کے  لڑکے  تھے ۔ تر حد کا سبب اس روایت میں یہودیوں کی طرف سے  یہ بیان ہوا ہے  کہ جب ہم میں سلطنت نہ رہی تو ہم نے  اپنے  آدمیوں کی جان لینی مناسب نہ سمجھی پھر آپ نے  گواہوں کو بلوا کر گواہی لی جنہوں نے  بیان دیا کہ ہم نے  اپنی آنکھوں سے  انہیں  اس برائی میں دیکھا ہے ، جس طرح سرمہ دانی میں سلائی ہوتی ہے ۔ دراصل توراۃ وغیرہ کا منگوانا ان کے  عالموں کو بلوانا، یہ سب انہیں  الزام دینے  کیلئے  نہ تھا، نہ اس لئے  تھا کہ وہ اسی کے  ماننے  کے  مکلف ہیں ، نہیں  بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان واجب العمل ہے ، اس سے  مقصد ایک تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی کا اظہار تھا کہ اللہ کی وحی سے  آپ نے  یہ معلوم کر لیا کہ ان کی تورات میں بھی حکم رجم موجود ہے  اور یہی نکلا، دوسرے  ان کی رسوائی کہ انہیں  پہلے  کے  انکار کے  بعد اقرار کرنا پڑا اور دنیا پر ظاہر ہو گیا کہ یہ لوگ فرمان الٰہی کو چھپا لینے  والے  اور اپنی رائے  قیاس پر عمل کرنے  والے  ہیں  اور اس لئے  بھی کہ یہ لوگ سچے  دل سے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس اس لئے  نہیں  آئے  تھے  کہ آپ کی فرماں برداری کریں بلکہ محض اس لئے  آئے  تھے  کہ اگر آپ کو بھی اپنے  اجماع کے  موافق پائیں گے  تو اتحاد کر لیں گے  ورنہ ہرگز قبول نہ کریں گے ، اسی لئے  فرمان ہے  کہ "جنہیں  اللہ گمراہ کر دے  تو ان کو کسی قسم سے  راہ راست آنے  کا اختیار نہیں  ہے  ان کے  گندے  دلوں کو پاک کرنے  کا اللہ کا ارادہ نہیں ، یہ دنیا میں ذلیل و خواہ ہوں گے  اور آخرت میں داخل نار ہوں گے ۔ یہ باطل کو کان لگا کر مزے  لے  کر سننے  والے  ہیں  اور رشوت جیسی حرام چیز کو دن دہاڑے  کھانے  والے  ہیں ، بھلا ان کے  نجس دل کیسے  پاک ہوں گے ؟ اور ان کی دعائیں اللہ کیسے  سنے  گا؟ اگر یہ تیرے  پاس آئیں تو تجھے  اختیار ہے  کہ ان کے  فیصلے  کر یا نہ کر اگر تو ان سے  منہ پھیر، لے  جب بھی یہ تیرا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے  کیونکہ ان کا قصد اتباع حق نہیں  بلکہ اپنی خواہشوں کی پیروی ہے "۔ بعض بزرگ کہتے  ہیں  یہ آیت منسوخ ہے  اس آیت سے  وان احکم بینھم بما انزل اللہ پھر فرمایا "اگر تو ان میں فیصلے  کرے  تو عدل و انصاف کے  ساتھ کر، گو یہ خود ظالم ہیں  اور عدل سے  ہٹے  ہوئے  ہیں  اور مان لو کہ اللہ تعالیٰ عادل لوگوں سے  محبت رکھتا ہے ۔ پھر انی کی خباثت بد باطنی اور سرکشی بیان ہو رہی ہے  کہ "ایک طرف تو اس کتاب اللہ کو چھوڑ رکھا ہے ، جس کی تابعداری اور حقانیت کے  خود قائل ہیں ، دوسری طرف اس جانب جھک رہے  ہیں ، جسے  نہیں  مانتے  اور جسے  جھوٹ مشہور کر رکھا ہے ، پھر اس میں بھی نیت بد ہے  کہ اگر وہاں سے  ہماری خواہش ہے  مطابق حکم ملے  گا تو لے  لیں گے ، ورنہ چھوڑ چھاڑ دیں گے "۔ یہ فرمایا کہ یہ کیسے  تیری فرماں برداری کریں گے ؟ انہوں نے  تو تورات کو بھی چھوڑ رکھا ہے ، جس میں اللہ کے  احکامات ہونے  کا اقرار نہیں  بھی ہے  لیکن پھر بھی بے  ایمانی کر کے  اس سے  پھر جاتے  ہیں ۔ پھر اس تورات کی مدحت و تعریف بیان فرمائی جو اس نے  اپنے  برگزیدہ رسول حضرت موسیٰ بن عمران پر نازل فرمائی تھی کہ اس میں ہدایت و نورانیت تھی۔ انبیاء جو اللہ کے  زیر فرمان تھے ، اسی پر فیصلے  کرتے  رہے ، یہودیوں میں اسی کے  احکام جاری کرتے  رہے ، تبدیلی اور تحریف سے  بچے  رہے ، ربانی یعنی عابد، علماء اور احبار یعنی ذی علم لوگ بھی اسی روش پر رہے ۔ کیونکہ انہیں  یہ پاک کتاب سونپی گئی تھی اور اس کے  اظہار کا اور اس پر عمل کرنے  کا انہیں  حکم دیا گیا تھا اور وہ اس پر گواہ و شاہد تھے ۔ اب تمہیں  چاہئے  کہ بجز اللہ کے  کسی اور سے  نہ ڈرو۔ ہاں قدم قدم اور لمحہ لمحہ پر خوف رکھو اور میری آیتوں کو تھوڑے  تھوڑے  مول فروخت نہ کیا کرو۔ جان لو کہ اللہ کی وحی کا حکم جو نہ مانے  وہ کافر ہے ۔ اس میں دو قول ہیں  جو ابھی بیان ہوں گے  انشاء اللہ۔ ان آیتوں کا ایک شان نزول بھی سن لیجئے ۔ ابن عباس سے  مروی ہے  کہ ایسے  لوگوں کو اس آیت میں تو کافر کہا دوسری میں ظالم تیسری میں فاسق۔ بات یہ ہے  کہ یہودیوں کے  دو گروہ تھے ، ایک غالب تھا، دوسرا مغلوب۔ ان کی آپس میں اس بات پر صلح ہوئی تھی کہ غالب، ذی عزت فرقے  کا کوئی شخص اگر مغلوب ذلیل فرقے  کے  کسی شخص کو قتل کر ڈالے  تو پچاس وسق دیت دے  اور ذلیل لوگوں میں سے  کوئی عزیز کو قتل کر دے  تو ایک سو دسق دیت دے ۔ یہی رواج ان میں چلا آ رہا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینے  میں آئے ، اس کے  بعد ایک واقعہ ایسا ہوا کہ ان نیچے  والے  یہودیوں میں سے  کسی نے  کسی اونچے  یہودی کو مار ڈالا۔ یہاں سے  آدمی گیا کہ لاؤ سو دسق دلاؤ دلواؤ، وہاں سے  جواب ملا کہ یہ صریح ناانصافی ہے  کہ ہم دونوں ایک ہی قبیلے  کے ، ایک ہی دین کے ، ایک ہی نسب کے ، ایک ہی شہر کے  پھر ہماری دیت کم اور تمہاری زیادہ؟ ہم چونکہ اب تک تمہارے  دبے  ہوئے  تھے ، اس ناانصافی کو بادل ناخواستہ برداشت کرتے  رہے  لیکن اب جب کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم جیسے  عادل بادشاہ یہاں آ گئے  ہیں  ہم تمہیں  اتنی ہی دیت دیں گے  جتنی تم ہمیں دو۔ اس بات پر ادھر ادھر سے  آستینیں چڑھ گئیں، پھر آپس میں یہ بات طے  ہوئی کہ اچھا اس جھگڑے  کا فیصلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کریں گے ۔ لیکن اونچی قوم کے  لوگوں نے  آپس میں جب مشورہ کیا تو ان کے  سمجھداروں نے  کہا دیکھو اس سے  ہاتھ دھو رکھو کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کوئی ناانصافی پہ مبنی حکم کریں ۔ یہ تو صریح زیادتی ہے  کہ ہم آدھی دیں اور پوری لیں اور فی الواقع ان لوگوں نے  دب کر اسے  منظور کیا تھا جو تم نے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم اور ثالث مقرر کیا ہے  تو یقیناً تمہارا یہ حق مارا جائے  گا کسی نے  رائے  دی کہ اچھا یوں کرو، کسی کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس چپکے  سے  بھیج دو، وہ معلوم کر آئے  کہ آپ فیصلہ کیا کریں گے ؟ اگر ہماری حمایت میں ہوا تب تو بہت اچھا چلو اور ان سے  حق حاصل کر آؤ اور اگر خلاف ہوا تو پھر الگ تھلگ ہی اچھے  ہیں ۔ چنانچہ مدینہ کے  چند منافقوں کو انہوں نے  جاسوس بنا کر حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس بھیجا۔ اس سے  پہلے  کہ وہ یہاں پہنچیں اللہ تعالیٰ نے  یہ آیتیں اتار کر اپنے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ان دونوں فرقوں کے  بد ارادوں سے  مطلوع فرما دیا (ابو داؤد) ایک روایت میں ہے  کہ یہ دونوں قبیلے  بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے ۔ بنو نضیر کی پوری دیت تھی اور بنو قریظہ کی آدھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  دونوں کی دیت یکساں دینے  کا فیصلہ صادر فرمایا۔ ایک روایت ہے  کہ قرظی اگر کسی نضری کو قتل کر ڈالے  تو اس سے  قصاص لیتے  تھے  لیکن اس کے  خلاف میں قصاص تھا ہی نہیں  سو دسق دیت تھی۔ یہ بہت ممکن ہے  کہ ادھر یہ واقعہ ہوا، ادھر زنا کا قصہ واقع ہوا، جس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے  ان دونوں پر یہ آیتیں نازل ہوئیں واللہ اعلم۔ ہاں ایک بات اور ہے  جس سے  اس دوسری شان نزول کی تقویت ہوتی ہے  وہ یہ کہ اس کے  بعد ہی فرمایا ہے  وکتبنا علیھم فیھا الخ، یعنی ہم نے  یہودیوں پر تورات میں یہ حکم فرض کر دیا تھا کہ جان کے  عوض جان، آنکھ کے  عوض آنکھ۔ واللہ اعلم۔ پھر انہیں  کافی کہا گیا جو اللہ کی شریعت اور اس کی اتاری ہوئی وحی کے  مطابق فیصلے  اور حکم نہ کریں گو یہ آیت شان نزول کے  اعتبار سے  بقول مفسرین اہل کتاب کے  بارے  میں ہے  لیکن حکم کے  اعتبار سے  ہر شخص کو شامل ہے ۔ بنو اسرائیل کے  بارے  میں اتری اور اس امت کا بھی یہی حکم ہے ۔ ابن مسعود فرماتے  ہیں  کہ رشوت حرام ہے  اور رشوت ستانی کے  بعد کسی شرعی مسئلہ کے  خلاف فتویٰ دینا کفر ہے ۔ سدی فرماتے  ہیں  جس نے  وحی الٰہی کے  خلاف عمداً فتویٰ دیا جاننے  کے  باوجود اس کے  خلاف کیا وہ کافر ہے ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  جس نے  اللہ کے  فرمان سے  انکار کیا، اس کا یہ حکم ہے  اور جس نے  انکار تو نہ کیا لیکن اس کے  مطابق نہ کہا وہ ظالم اور فاسق ہے ۔ خواہ اہل کتاب ہو خواہ کوئی اور شعبی فرماتے  ہیں  "مسلمانوں میں جس نے  کتاب کے  خلاف فتویٰ دیا وہ کافر ہے  اور یہودیوں میں دیا ہو تو ظالم ہے  اور نصرانیوں میں دیا ہو تو فاسق ہے "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  "اس کا کفر اس آیت کے  ساتھ ہے "۔ طاؤس فرماتے  ہیں  "اس کا کفر اس کے  کفر جیسا نہیں  جو سرے  سے  اللہ کے  رسول قرآن اور فرشتوں کا منکر ہو"۔ عطا فرماتے  ہیں  "کتم (چھپانا) کفر سے  کم ہے  اسی طرح ظلم و فسق کے  بھی ادنیٰ اعلیٰ درجے  ہیں ۔ اس کفر سے  وہ ملت اسلام سے  پھر جانے  والا جاتا ہے "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  "اس سے  مراد وہ کفر نہیں  جس کی طرف تم جا رہے  ہو"۔

۴۵

قتل کے بدلے تقاضائے عدل ہے

یہودیوں کو اور سرزنش کی جا رہی ہے  کہ ان کی کتاب میں صاف لفظوں میں جو حکم تھا یہ کھلم کھلا اس کا بھی خلاف کر رہے  ہیں  اور سرکشی اور بے  پرواہی سے  اسے  بھی چھوڑ رہے  ہیں ۔ نضری یہودیوں کو تو قرظی یہودیوں کے  بدلے  قتل کرتے  ہیں  لیکن قریظہ کے  یہود کو بنو نضیر کے  یہود کے  عوض قتل نہیں  کرتے  بلکہ دیت لے  کر چھوڑ دیتے  ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے  شادی شدہ زانی کی سنگساری کے  حکم کو بدل دیا ہے  اور صرف کالا منہ کر کے  رسوا کر کے  مار پیٹ کر چھوڑ دیتے  ہیں ۔ اسی لئے  وہاں تو انہیں  کافر کہا یہاں انصاف نہ کرنے  کی وجہ سے  انہیں  ظالم کہا۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا والعین پڑھنا بھی مروی ہے  (ابو داؤد وغیرہ) علماء کرام کا قول ہے  کہ اگلی شریعت چاہے  ہمارے  سامنے  بطور تقرر بیان کی جائے  اور منسوخ نہ ہو تو وہ ہمارے  لئے  بھی شریعت ہے ۔ جیسے  یہ احکام سب کے  سب ہماری شریعت میں بھی اسی طرح ہیں ۔ امام نووی فرماتے  ہیں  اس مسئلے  میں تین مسلک ہیں  ایک تو وہی جو بیان ہوا، ایک اس کے  بالکل برعکس ایک یہ کہ صرف ابراہیمی شریعت جاری اور باقی ہے  اور کوئی نہیں ۔ اس آیت کے  عموم سے  یہ بھی استدلال کیا گیا ہے  کہ مرد عورت کے  بدلے  بھی قتل کیا جائے  گا کیونکہ یہاں لفظ نفس ہے  جو مرد عورت دونوں کو شامل ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی ہے  کہ مرد عورت کے  خون کے  بدلے  قتل کیا جائے  گا اور حدیث میں ہے  کہ مسلمانوں کے  خون آپس میں مساوی ہیں ۔ بعض بزرگوں سے  مروی ہے  کہ "مرد جب کسی عورت کو قتل کر دے  تو اسے  اس کے  بدلے  قتل نہ کیا جائے  گا بلکہ صرف دیت لی جائے  گی" لیکن یہ قول جمہور کے  خلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہ تو فرماتے  ہیں  کہ "ذی کافر کے  قتل کے  بدلے  بھی مسلمان قتل کر دیا جائے  گا اور غلام کے  قتل کے  بدلے  آزاد بھی قتل کر دیا جائے  گا۔ لیکن یہ مذہب جمہور کے  خلاف ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "مسلمان کافر کے  بدلے  قتل کیا نہ کیا جائے  گا اور سلف کے  بہت سے  آثار اس بارے  میں موجود ہیں  کہ وہ غلام کا قصاص آزاد سے  نہیں  لیتے  تھے  اور آزاد غلام کے  بدلے  قتل نہ کیا جائے  گا۔ حدیثیں بھی اس بارے  میں مروی ہیں  لیکن صحت کو نہیں  پہنچیں ۔ امام شافعی تو فرماتے  ہیں  اس مسئلہ میں امام ابو حنیفہ کے  خلاف اجماع ہے  لیکن ان باتوں سے  اس قول کا بطلان لازم نہیں  آتا تاوقتیکہ آیت کے  عموم کو خاص کرنے  والی کوئی زبردست صاف ثابت دلیل نہ ہو۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ "حضرت انس بن نضر کی پھوپھی ربیع نے  ایک لونڈی کے  دانت توڑ دیئے ، اب لوگوں نے  اس سے  معافی چاہی لیکن وہ نہ مانی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس معاملہ آیا آپ نے  بدلہ لینے  کا حکم دے  دیا، اس پر حضرت انس بن نضر نے  فرمایا کیا اس عورت کے  سامنے  کے  دانت توڑ دیئے  جائیں گے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں اے  انس اللہ کی کتاب میں قصاص کا حکم موجود ہے ۔ یہ سن کر فرمایا نہیں  نہیں  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قسم ہے  اس اللہ کی جس نے  آپ کو حق کے  ساتھ بھیجا ہے ، اس کے  دانت ہرگز نہ توڑے  جائیں گے ، چنانچہ ہوا بھی یہی کہ لوگ راضی رضامند ہو گئے  اور قصاص چھوڑ دیا بلکہ معاف کر دیا۔ اس وقت آپ نے  فرمایا بعض بندگان رب ایسے  بھی ہیں  کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ اسے  پوری ہی کر دے "۔ دوسری روایت میں ہے  کہ "پہلے  انہوں نے  نہ تو معافی دی نہ دیت لینی منظور کی۔ "نسائی وغیرہ میں ہے ، ایک غریب جماعت کے  غلام نے  کسی مالدار جماعت کے  غلام کے  کان کاٹ دیئے ، ان لوگوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  آ کر عرض کیا کہ ہم لوگ فقیر مسکین ہیں ، مال ہمارے  پاس نہیں  تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ان پر کوئی جرمانہ نہ رکھا۔ ہو سکتا ہے  کہ یہ غلام بالغ نہ ہو اور ہو سکتا ہے  کہ آپ نے  دیت اپنے  پاس سے  دے  دی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ ان سے  سفارش کر کے  معاف کرا لیا ہو۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ جان جان کے  بدلے  ماری جائے  گی، آنکھ پھوڑ دینے  والے  کی آنکھ پھوڑ دی جائے  گی، ناک کاٹنے  والے  کا ناک کاٹ دیا جائے  گا، دانت توڑنے  والے  کا دانت توڑ دیا جائے  گا اور زخم کا بھی بدلہ لیا جائے  گا۔ اس میں آزاد مسلمان سب کے  سب برابر ہیں ۔ مرد عورت ایک ہی حکم میں ۔ جبکہ یہ کام قصداً کئے  گئے  ہوں ۔ اس میں غلام بھی آپس میں برابر ہیں ، ان کے  مرد بھی اور عورتیں بھی۔ قاعدہ اعضا کا کٹنا تو جوڑ سے  ہوتا ہے  اس میں تو قصاص واجب ہے ۔ جیسے  ہاتھ، پیر، قدم، ہتھیلی وغیرہ۔ لیکن جو زخم جوڑ پر نہ ہوں بلکہ ہڈی پر آئے  ہوں، ان کی بابت حضرت امام مالک فرماتے  ہیں  کہ "ان میں بھی قصاص ہے  مگر ران میں اور اس جیسے  اعضا میں اس لئے  کہ وہ خوف و خطر کی جگہ ہے "۔ ان کے  برخلاف ابو حنیفہ اور ان کے  دونوں ساتھیوں کا مذہب ہے  کہ کسی ہڈی میں قصاص نہیں ، بجز دانت کے  اور امام شافعی کے  نزدیک مطلق کسی ہڈی کا قصاص نہیں ۔ یہی مروی ہے  حضرت عمر بن خطاب اور حضرت ابن عباس سے  بھی اور یہی کہتے  ہیں  عطا، شبعی، حسن بصری، زہری، ابراہیم، تخعی اور عمر بن عبد العزیز بھی اور اسی کی طرف گئے  ہیں  سفیان ثوری اور لیث بن سعد بھی۔ امام احمد سے  بھی یہی قول زیادہ مشہور ہے ۔ امام ابو حنیفہ کی دلیل وہی حضرت انس والی روایت ہے  جس میں ربیع سے  دانت کا قصاص دلوانے  کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمودہ ہے ۔ لیکن دراصل اس روایت سے  یہ مذہب ثابت نہیں  ہوتا۔ کیونکہ اس میں یہ لفظ ہیں  کہ اس کے  سامنے  کے  دانت اس نے  توڑ دیئے  تھے  اور ہو سکتا ہے  کہ بغیر ٹوٹنے  کے  جھڑ گئے  ہوں ۔ اس حالت میں قصاص اجماع سے  واجب ہے ۔ ان کی دلیل کا پورا حصہ وہ ہے  جو ابن ماجہ میں ہے  کہ "ایک شخص نے  دوسرے  کے  بازو کو کہنی سے  نیچے  نیچے  ایک تلوار مار دی، جس سے  اس کی کلائی کٹ گئی، حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس مقدمہ آیا، آپ نے  حکم دیا کہ دیت ادا کرو اس نے  کہا میں قصاص چاہتا ہوں، آپ نے  فرمایا اسی کو لے  لے  اللہ تجھے  اسی میں برکت دے  گا اور آپ نے  قصاص کو نہیں  فرمایا"۔ لیکن یہ حدیث بالکل ضعیف اور گری ہوئی ہے ، اس کے  ایک راوی ہشم بن عکلی اعرابی ضعیف ہیں ، ان کی حدیث سے  حجت نہیں  پکڑی جاتی، دوسرے  راوی غران بن جاریہ اعرابی بھی ضعیف ہیں ۔ پھر وہ کہتے  ہیں  کہ زخموں کا قصاص ان کے  درست ہو جانے  اور بھر جانے  سے  پہلے  لینا جائز نہیں  اور اگر پہلے  لے  لیا گیا پھر زخم بڑھ گیا تو کوئی بدلہ دلوایا نہ جائے  گا۔ اس کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے  کہ ایک شخص نے  دوسرے  کے  گھٹنے  میں چوٹ مار دی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس آیا اور کہا مجھے  بدلہ دلوایئے ، آپ نے  دلوا دیا، اس کے  بعد وہ پھر آیا اور کہنے  لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں تو لنگڑا ہو گیا، آپ نے  فرمایا میں نے  تجھے  منع کیا تھا لیکن تو نہ مانا، اب تیرے  اس لنگڑے  پن کا بدلہ کچھ نہیں ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  زخموں کے  بھر جانے  سے  پہلے  بدلہ لینے  کو منع فرما دیا۔ مسئلہ٭٭ اگر کسی نے  دوسرے  کو زخمی کیا اور بدلہ اس سے  لے  لیا گیا، اس میں یہ مر گیا تو اس پر کچھ نہیں ۔ مالک، شافعی، احمد اور جمہوری صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے ۔ ابو حنیفہ کا قول ہے  کہ اس پر دیت واجب ہے ، اسی کے  مال میں سے ۔ بعض اور بزرگ فرماتے  ہیں  "اس کے  ماں باپ کی طرف کے  رشتہ داروں کے  مال پر وہ دیت واجب ہے "۔ بعض اور حضرات کہتے  ہیں  "بقدر اس کے  بدلے  کے  تو ساقط ہے  باقی اسی کے  مال میں سے  واجب ہے "۔ پھر فرماتا ہے  "جو شخص قصاص سے  درگزر کرے  اور بطور صدقے  کے  اپنے  بدلے  کو معاف کر دے  تو زخمی کرنے  والے  کا کفارہ ہو گیا اور جو زخمی ہوا ہے ، اسے  ثواب ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے  ذمے  ہے "۔ بعض نے  یہ بھی کہا ہے  کہ "وہ زخمی کیلئے  کفارہ ہے  یعنی اس کے  گناہ اسی زخم کی مقدار سے  اللہ تعالیٰ کے  ذمے  ہے "۔ بعض نے  یہ بھی کہا ہے  کہ "وہ زخمی کیلئے  کفارہ ہے  یعنی اس کے  گناہ اسی زخم کی مقدار سے  اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے "۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ آیا ہے  کہ "اگر چوتھائی دیت کے  برابر کی چیز ہے  اور اس نے  درگزر کر لیا تو اس کے  چوتھائی گناہ معاف ہو جاتے  ہیں ۔ ثلث ہے  تو تہائی گناہ، آدھی ہے  تو آدھے  گناہ اور پوری ہے  تو پورے  گناہ"۔ ایک قریشی نے  ایک انصاری کو زور سے  دھکا دے  دیا جس سے  اس کے  آگے  کے  دانت ٹوٹ گئے ۔ حضرت معاویہ کے  پاس مقدمہ گیا اور جب وہ بہت سر ہو گیا تو آپ نے  فرمایا، اچھا جا تجھے  اختیار ہے ۔ حضرتٍ ابو درداء وہیں  تھے  فرمانے  لگے  میں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنا ہے  کہ "جس مسلمان کے  جسم میں کوئی ایذا پہنچائی جائے  اور وہ صبر کر لے ، بدلہ نہ لے  تو اللہ اس کے  درجے  بڑھاتا ہے  اور اس کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اس انصاری نے  یہ سن کر کہا، کیا سچ مچ آپ نے  خود ہی اسے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی سنا ہے ؟ آپ نے  فرمایا ہاں میرے  ان کانوں نے  سنا ہے  اور میرے  دل نے  یاد کیا ہے ، اس نے  کہا پھر گواہ رہو کہ میں نے  اپنے  مجرم کو معاف کر دیا۔ حضرت معاویہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے  اور اسے  انعام دیا" (ابن جریر) ترمذی میں بھی یہ روایت ہے  لیکن امام ترمذی کہتے  ہیں  یہ حدیث غریب ہے ۔ ابو سفر راوی کا ٍابو درداء سے  سننا ثابت نہیں  اور روایت میں ہے  کہ تین گنی دیت وہ دینا چاہتا تھا لیکن یہ راضی نہیں  ہوا تھا، اس حدیث کے  الفاظ یہ ہیں  کہ "جو شخص خون یا اس سے  کم کو معاف کر دے ، وہ اس کی پیدائش سے  لے  کر موت تک کا کفارہ ہے "۔ مسند میں ہے  کہ "جس کے  جسم میں کوئی زخم لگے  اور وہ معاف کر دے  تو اللہ تعالیٰ اس کے  اتنے  ہی گناہ معاف فرما دیتا ہے "۔ مسند میں یہ بھی حدیث ہے  "اللہ کے  حکم کے  مطابق حکم نہ کرنے  والے  ظالم ہیں "۔ پہلے  گزر چکا ہے  کہ کفر کفر سے  کم ہے ، ظلم میں بھی تفاوت ہے  اور فسق بھی درجے  ہیں ۔

۴۶

باطل کے غلام لوگ

انبیاء بنی اسرائیل کے  پیچھے  ہم عیسیٰ نبی کو لائے  جو توراۃ پر ایمان رکھتے  تھے ، اس کے  احکام کے  مطابق لوگوں میں فیصلے  کرتے  تھے ، ہم نے  انہیں  بھی اپنی کتاب انجیل دی، جس میں حق کی ہدایت تھی اور شبہات اور مشکلات کی توضیح تھی اور پہلی الہامی کتابوں کی تصدیق تھی، ہاں چند مسائل جن میں یہودی اختلاف کرتے  تھے ، ان کے  صاف فیصلے  اس میں موجود تھے ۔ جیسے  قرآن میں اور جگہ ہے  کہ "حضرت عیسیٰ نے  فرمایا، میں تمہارے  لئے  بعض وہ چیزیں حلال کروں گا جو تم پر حرام کر دی گئی ہیں "۔ اسی لئے  علماء کا مشہور مقولہ ہے  کہ انجیل نے  تورات کے  بعض احکام منسوخ کر دیئے  ہیں ۔ انجیل سے  پارسا لوگوں کی رہنمائی اور وعظ و پند ہوتی تھی کہ وہ نیکی کی طرف رغبت کریں اور برائی سے  بچیں ۔ اھل الانجیل بھی پڑھا گیا ہے  اس صورت میں والیحکم میں لام کے  معنی میں ہو گا۔ مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے  حضرت عیسیٰ کو انجیل اس لئے  دی تھی کہ وہ اپنے  زمانے  کے  اپنے  ماننے  والوں کو اسی کے  مطابق چلائیں اور اس لام کو امر کا لام سمجھا جائے  اور مشہور قراۃ ولیحکم پڑھی جائے  تو معنی یہ ہوں گے  کہ انہیں  چاہئے  کہ انجیل کے  کل احکام پر ایمان لائیں اور اسی کے  مطابق فیصلہ کریں ۔ جیسے  اور آیت میں ہے  قل یا اھل الکتاب لستم علی شئی الخ، یعنی اے  اہل کتاب جب تک تم تورات و انجیل پر اور جو کچھ اللہ کی طرف سے  اترا ہے ، اگر اس پر قائم ہو تو تم کسی چیز پر نہیں  ہوا۔ اور آیت میں ہے  الذین یتبعون الرسول النبی الخ، جو لوگ اس رسول نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تابعداری کرتے  ہیں ، جس کی صفت اپنے  ہاں توراۃ میں لکھی ہوئی پاتے  ہیں  وہ لوگ جو کتاب اللہ اور اپنے  نبی کے  فرمان کے  مطابق حکم نہ کریں وہ اللہ کی اطاعت سے  خارج، حق کے  تارک اور باطل کے  عامل ہیں ، یہ آیت نصرانیوں کے  حق میں ہے ۔ روش آیت سے  بھی یہ ظاہر ہے  اور پہلے  بیان بھی گزر چکا ہے ۔

۴۸

قرآن ایک مستقل شریعت ہے

تورات و انجیل کی ثنا و صفت اور تعریف و مدحت کے  بعد اب قرآن عظیم کی بزرگی بیان ہو رہی ہے  کہ "ہم نے  اسے  حق و صداقت کے  ساتھ نازل فرمایا ہے  یہ بالیقین اللہ واحد کی طرف سے  ہے  اور اس کا کلام ہے ۔ یہ تمام پہلی الٰہی کتابوں کو سچا مانتا ہے  اور ان کتابوں میں بھی اس کی صفت و ثنا موجود ہے  اور یہ بھی بیان ان میں ہے  کہ یہ پاک اور آخری کتاب آخری اور افضل رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اترے  گی، پس ہر دانا شخص اس پر یقین رکھتا ہے  اور اسے  مانتا ہے ۔ جیسے  فرمان ہے  ان الذین اوتو العلم من قبلہ الخ، جنہیں  اس سے  پہلے  علم دیا گیا تھا، جب ان کے  سامنے  اس کی تلاوت کی جاتی ہے  تو وہ ٹھوڑیوں کے  بل سجدے  میں گر پڑتے  ہیں  اور زبانی اقرار کرتے  ہیں  کہ ہمارے  رب کا وعدہ سچا ہے  اور وہ سچا ثابت ہو چکا، اس نے  اگلے  رسولوں کی زبانی جو خبر دی تھی وہ پوری ہوئی اور آخری رسول رسولوں کے  سرتاج رسول آ ہی گئے  اور یہ کتاب ان پہلی کتابوں کی امین ہے ۔ یعنی اس میں جو کچھ ہے ، وہی پہلی کتابوں میں بھی تھا، اب اس کے  خلاف کوئی کہے  کہ فلاں پہلی کتاب میں یوں ہے  تو یہ غلط ہے ۔ یہ ان کی سچی گواہ اور انہیں  گھیر لینے  والی اور سمیٹ لینے  والی ہے ۔ جو جو اچھائیاں پہلے  کی تمام کتابوں میں جمع تھیں، وہ سب اس آخری کتاب میں یکجا موجود ہیں ، اسی لئے  یہ سب پر حاکم اور سب پر مقدم ہے  اور اس کی حفاظت کا کفیل خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ جیسے  فرمایا انا نحن نزلنا الذکر وانا الہ لحافظون بعض نے  کہا ہے  کہ مراد اس سے  یہ ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس کتاب پر امین ہیں ۔ واقع میں تو یہ قول بہت صحیح ہے  لیکن اس آیت کی تفسیریہ کرنی ٹھیک نہیں  بلکہ عربی زبان کے  اعتبار سے  بھی یہ غور طلب امر ہے ۔ صحیح تفسیر پہلی ہی ہے ۔ امام ابن جریر نے  بھی حضرت مجاہد سے  اس قول کو نقل کر کے  فرمایا ہے  " یہ بہت دور کی بات ہے  بلکہ ٹھیک نہیں  ہے  اس لئے  مھیمن کا عطف مصدق پر ہے ، پس یہ بھی اسی چیز کی صفت ہے  جس کی صفت مصدق کا لفظ تھا"۔ اگر حضرت مجاہد کے  معنی صحیح مان لئے  جائیں تو عبارت بغیر عطف کے  ہونی چاہئے  تھی خواجہ عرب ہوں، خواہ عجم ہوں، خواہ لکھے  پڑھے  ہوں، خواہ ان پڑھ ہوں ۔ اللہ کی طرف سے  نازل کردہ سے  مراد وحی اللہ ہے  خواہ وہ اس کتاب کی صورت میں ہو، خواہ جو پہلے  احکام اللہ نے  مقرر کر رکھے  ہوں ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  اس آیت سے  پہلے  تو آپ کو آزادی دی گئی تھی، اگر چاہیں  ان میں فیصلے  کریں چاہیں  کریں، لیکن اس آیت نے  حکم دیا کہ وحی الٰہی کے  ساتھ ان میں فیصلے  کرنے  ضروری ہیں ، ان بدنصیب جاہلوں نے  اپنی طرف سے  جو احکام گھڑ لئے  ہیں  اور ان کی وجہ سے  کتاب اللہ کو پس پشت ڈال دیا ہے ، خبردار اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو ان کی چاہتوں کے  پیچھے  لگ کر حق کو نہ چھوڑ بیٹھنا۔ ان میں سے  ہر ایک کیلئے  ہم نے  راستہ اور طریقہ بنا دیا ہے ۔ کسی چیز کی طرف ابتداء کرنے  کو شرعۃ کہتے  ہیں ، منہاج لغت میں کہتے  ہیں  واضح اور آسان راستے  کو۔ پس ان دونوں لفظوں کی یہی تفسیر زیادہ مناسب ہے ۔ پہلی تمام شریعتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے  تھیں، وہ سب توحید پر متفق تھیں، البتہ چھوٹے  موٹے  احکام میں قدرے  ہیر پھیر تھا۔ جیسے  حدیث شریف میں ہے  "ہم سب انبیاء علاتی بھائی ہیں ، ہم سب کا دین ایک ہی ہے ، ہر نبی توحید کے  ساتھ بھیجا جاتا رہا اور ہر آسمانی کتاب میں توحید کا بیان اس کا ثبوت اور اسی کی طرف دعوت دی جاتی رہی"۔ جیسے  قرآن فرماتا ہے  کہ "تجھ سے  پہلے  جتنے  بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہم نے  بھیجے ، ان سب کی طرف یہی وحی کی کہ میرے  سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ، تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے  رہو"۔ اور آیت میں ولقدبعثنا الخ، ہم نے  ہر امت کو بزبان رسول کہلوا دیا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے  سوال دوسروں کی عبادت سے  بچو۔ احکام کا اختلاف ضرور، کوئی چیز کسی زمانے  میں حرام تھی پھر حلال ہو گئی یا اس کے  برعکس۔ یا کسی حکم میں تخفیف تھی اب تاکید ہو گئی یا اس کے  خلاف اور یہ بھی حکمت اور مصلحت اور حجت ربانی کے  ساتھ مثلاً توراۃ ایک شریعت ہے ، انجیل ایک شریعت ہے ، قرآن ایک مستقل شریعت ہے  تاکہ ہر زمانے  کے  فرمانبرداروں اور نافرمانوں کا امتحان ہو جایا کرے ۔ البتہ توحید سب زمانوں میں یکساں رہی اور معنی اس جملہ کے  یہ ہیں  کہ اے  امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ! تم میں سے  ہر شخص کیلئے  ہم نے  اپنی اس کتاب قرآن کریم کو شریعت اور طریقہ بنایا ہے ، تم سب کو اس کی اقتدار اور تابعداری کرنی چاہئے ۔ اس صورت میں جلعنا کے  بعد ضمیرہ کی محذوف ماننی پڑے  گی۔ پس بہترین مقاصد حاصل کرنے  کا ذریعہ اور طریقہ صرف قرآن کریم ہی ہے  لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے  اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے  کہ اس کے  بعد ہی فرمان ہوا ہے  کہ اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت کر دیتا۔ پس معلوم ہوا کہ اگلا خطاب صرف اس امت سے  ہی نہیں  بلکہ سب امتوں سے  ہے  اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور کامل قدرت کا بیان ہے  کہ اگر وہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی شریعت اور دین پر کر دیتا کوئی تبدیلی کسی وقت نہ ہوتی۔ لیکن رب کی حکمت کاملہ کا تقاضا یہ ہوا کہ علیحدہ علیحدہ شریعتیں مقرر کرے ، ایک کے  بعد دوسرا نبی بھیجے  اور بعض احکام اگلے  نبی کے  پچھلے  نبی سے  بدلوا دے ، یہاں تک کہ اگلے  دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت سے  منسوخ ہو گئے  اور آپ تمام روئے  زمین کی طرف بھیجے  گئے  اور خاتم الانبیاء بنا کر بھیجے  گئے ۔ یہ مختلف شریعتیں صرف تمہاری آزمائش کیلئے  ہوئیں تاکہ تابعداروں کو جزا اور نافرمانوں کو سزا ملے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے  کہ وہ تمہیں  آزمائے ، اس چیز میں جو تمہیں  اس نے  دی ہے  یعنی کتاب۔ پس تمہیں  خیرات اور نیکیوں کی طرف سبقت اور دوڑ کرنی چاہئے ۔ اللہ کی اطاعت، اس کی شریعت کی فرمانبرداری کی طرف آگے  بڑھنا چاہئے  اور اس آخری شریعت، آخری کتاب اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی بہ دل و جاں فرماں برداری کرنی چاہئے ۔ لوگو! تم سب کا مرجع و ماویٰ اور لوٹنا پھرنا اللہ ہی کی طرف ہے ، وہاں وہ تمہیں  تمہارے  اختلاف کی اصلیت بتا دے  گا۔ سچوں کو ان کی سچائی کا اچھا بھل دے  گا اور بروں کو ان کی کج بحثی، سرکشی اور خواہش نفس کی پیروی کی سزا دے  گا۔ جو حق کو ماننا تو ایک طرف بلکہ حق سے  چڑتے  ہیں  اور مقابلہ کرتے  ہیں ۔ ضحاک کہتے  ہیں  مراد امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے ، مگر اول ہی اولیٰ ہے ۔ پھر پہلی بات کی اور تاکید ہو رہی ہے  اور اس کے  خلاف سے  روکا جاتا ہے  اور فرمایا جاتا ہے  کہ "دیکھو کہیں  اس خائن، مکار، کذاب، کفار یہود کی باتوں میں آ کر اللہ کے  کسی حکم سے  ادھر ادھر نہ ہو جانا۔ اگر وہ تیرے  احکام سے  رو گردانی کریں اور شریعت کے  خلاف کریں تو تو سمجھ لے  کر ان کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے  اللہ کا کوئی عذاب ان پر آنے  والا ہے ۔ اسی لئے  توفیق خیر ان سے  چھین لی گئی ہے ۔ اکثر لوگ فاسق ہیں  یعنی اطاعت حق سے  خارج۔ اللہ کے  دین کے  مخالف، ہدایت سے  دور ہیں ۔ " جیسے  فرمایا وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین یعنی گو تو حرص کر کے  چاہے  لیکن اکثر لوگ مومن نہیں  ہیں  ۔ اور فرمایا و ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ اگر تو زمین والوں کی اکثریت کی مانے  گا تو وہ تجھے  بھی راہ حق سے  بہکا دیں گے ۔ یہودیوں کے  چند بڑے  بڑے  رئیسوں اور عالموں نے  آپس میں ایک میٹنگ کر کے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ جانتے  ہیں  اگر ہم آپ کو مان لیں تو تمام یہود آپ کی نبوت کا اقرار کر لیں گے  اور ہم آپ کو ماننے  کیلئے  تیار ہیں ، آپ صرف اتنا کیجئے  کہ ہم میں اور ہماری قوم میں ایک جھگڑا ہے ، اس کا فیصلہ ہمارے  مطابق کر دیجئے ، آپ نے  انکار کر دیا اور اسی پر یہ آیتیں اتریں ۔ اس کے  بعد جناب باری تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہے  جو اللہ کے  حکم سے  ہٹ جائیں، جس میں تمام بھلائیاں موجود اور تمام برائیاں دور ہیں ۔ ایسے  پاک حکم سے  ہٹ کر رائے  قیاس کی طرف، خواہش نفسانی کی طرف اور ان احکام کی طرف جھکے  جو لوگوں نے  از خود اپنی طرف سے  بغیر دلیل شرعی کے  گھڑ لئے  ہیں  جیسے  کہ اہل جاہلیت اپنی جہالت و ضلالت اور اپنی رائے  اور اپنی مرضی کے  مطابق حکم احکام جاری کر لیا کرتے  تھے  اور جیسے  کہ تاتاری ملکی معاملات میں چنگیز خان کے  احکام کی پیروی کرتے  تھے  جو الیاسق نے  گھڑ دیئے  تھے ۔ وہ بہت سے  احکام کے  مجموعے  اور دفاتر تھے  جو مختلف شریعتوں اور ندہبوں سے  چھانٹے  گئے  تھے ۔ یہودیت، نصرانیت، اسلامیت وغیرہ سب کے  احکام کا وہ مجموعہ تھا اور پھر اس میں بہت سے  احکام وہ بھی تھے ، جو صرف اپنی عقلی اور مصلحت وقت کے  پیش نظر ایجاد کئے  گئے  تھے ، جن میں اپنی خواہش کی ملاوٹ بھی تھی۔ پس وہی مجموعے  ان کی اولاد میں قابل عمل ٹھہر گئے  اور اسی کو کتاب و سنت پر فوقیت اور تقدیم دے  لی۔ درحقیقت ایسا کرنے  والے  کافر ہیں  اور ان سے  جہاد واجب ہے  یہاں تک کہ وہ لوٹ کر اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے  حکم کی طرف آ جائیں اور کسی چھوٹے  یا بڑے  اہم یا غیر اہم معاملہ میں سوائے  کتاب و سنت کے  کوئی حکم کسی کا نہ لیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ یہ جاہلیت کے  احکام کا ارادہ کرتے  ہیں  اور حکم رب سے  سرک رہے  ہیں ؟ یقین والوں کیلئے  اللہ سے  بہتر حکمراں اور کار فرما کون ہو گا؟ اللہ سے  زیادہ عدل و انصاف والے  احکام کس کے  ہوں گے ؟ ایماندار اور یقین کامل والے  بخوبی جانتے  اور مانتے  ہیں  کہ اس احکم الحاکمین اور الرحم الراحمین سے  زیادہ اچھے ، صاف، سہل اور عمدہ احکام و قواعد مسائل و ضوابط کسی کے  بھی نہیں  ہو سکتے ۔ وہ اپنی مخلوق پر اس سے  بھی زیادہ مہربان ہے  جتنی ماں اپنی اولاد پر ہوتی ہے ، وہ پورے  اور پختہ علم والا کامل اور عظیم الشان قدرت والا اور عدل و انصاف والا ہے ۔ حضرت حسن فرماتے  ہیں  "اللہ کے  فیصلے  کے  بغیر جو فتویٰ دے  اس کا فتویٰ جاہلیت کا حکم ہے "۔ ایک شخص نے  حضرت طاؤس سے  پوچھا کیا میں اپنی اولاد میں سے  ایک کو زیادہ اور ایک کو کم دے  سکتا ہوں ؟ تو آپ نے  یہی آیت پڑھی۔ طبرانی میں ہے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  سب سے  بڑا اللہ کا دشمن وہ ہے  جو اسلام میں جاہلیت کا طریقہ اور حیلہ تلاش کرے  اور بے  وجہ کسی کی گردن مارنے  کے  درپے  ہو جائے ۔ یہ حدیث بخاری میں بھی قدرے  الفاظ کی زیادتی کے  ساتھ ہے ۔

۵۱

دشمن اسلام سے دوستی منع ہے

دشمنان اسلام یہود و نصاریٰ سے  دوستیاں کرنے  کی اللہ تبارک و تعالیٰ ممانعت فرما رہا ہے  اور فرماتا ہے  کہ "وہ تمہارے  دوست ہرگز نہیں  ہو سکتے  کیونکہ تمہارے  دین سے  انہیں  بغض و عداوت ہے ۔ ہاں اپنے  والوں سے  ان کی دوستیاں اور محبتیں ہیں ۔ میرے  نزدیک تو جو بھی ان سے  دلی محبت رکھے  وہ ان ہی میں سے  ہے "۔ حضرت عمر نے  حضرت ابو موسیٰ کو اس بات پر پوری تنبیہ کی اور یہ آیت پڑھ سنائی۔ حضرت عبد اللہ بن عتبہ نے  فرمایا لوگو! تمہیں  اس سے  بچنا چاہئے  کہ تمہیں  خود تو معلوم نہ ہو اور تم اللہ کے  نزدیک یہود و نصرانی بن جاؤ، ہم سمجھ گئے  کہ آپ کی مراد اسی آیت کے  مضمون سے  ہے ۔ ابن عباس سے  عرب نضرانیوں کے  ذبیحہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے  یہی آیت تلاوت کی۔ جس کے  دل میں کھوٹ ہے  وہ تو لپک لپک کر پوشیدہ طور پر ان سے  سازباز اور محبت و مودت کرتے  ہیں  اور بہانہ یہ بناتے  ہیں  کہ ہمیں خطرہ ہے  اگر مسلمانوں پر یہ لوگ غالب آ گئے  تو پھر ہماری تباہی کر دیں گے ، اس لئے  ہم ان سے  بھی میل ملاپ رکھتے  ہیں ، ہم کیوں کسی سے  بگاڑیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  ممکن ہے  اللہ مسلمانوں کو صاف طور پر غالب کر دے ، مکہ بھی ان کے  ہاتھوں فتح ہو جائے ، فیصلے  اور حکم ان ہی کے  چلنے  لگیں، حکومت ان کے  قدموں میں سر ڈال دے ۔ یا اللہ تعالیٰ اور کوئی چیز اپنے  پاس سے  لائے  یعنی یہود نصاریٰ کو مغلوب کر کے  انہیں  ذلیل کر کے  ان سے  جزیہ لینے  کا حکم مسلمانوں کو دے  دے  پھر تو یہ منافقین جو آج لپک لپک کر ان سے  گہری دوستی کرتے  پھرتے  ہیں ، بڑے  بھنانے  لگیں گے  اور اپنی اس چالاکی پر خون کے  آنسو بہانے  لگیں گے ۔ ان کے  پردے  کھل جائیں گے  اور یہ جیسے  اندر تھے  ویسے  ہی باہر سے  نظر آئیں گے ۔ اس وقت مسلمان ان کی مکاریوں پر تعجب کریں گے  اور کہیں  گے  اے  لو یہی وہ لوگ ہیں ، جو بڑی بڑی قسمیں کھا کھا کر ہمیں یقین دلاتے  تھے  کہ یہ ہمارے  ساتھی ہیں ۔ انہوں نے  جو پایا تھا وہ کھو دیا تھا اور برباد ہو گئے ۔ ویقول تو جمہور کی قرات ہے ۔ ایک قرات بغیر واؤ کے  بھی ہے  اہل مدینہ کی یہی قرات ہے ۔ یقول تو مبتدا اور دوسری قرات اس کی یقول ہے  تو یہ فعسی پر عطف ہو گا گویا وان یقول ہے ۔ ان آیتوں کا شان نزول یہ ہے  کہ جنگ احد کے  بعد ایک شخص نے  کہا کہ میں اس یہودی سے  دوستی کرتا ہوں تاکہ موقع پر مجھے  نفع پہنچے ، دوسرے  نے  کہا، میں فلاں نصرانی کے  پاس جاتا ہوں، اس سے  دوستی کر کے  اس کی مدد کروں گا۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ عکرمہ فرماتے  ہیں  "لبابہ بن عبد المنذر کے  بارے  میں یہ آیتیں اتریں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  بنو قریظہ کی طرف بھیجا تو انہوں نے  آپ سے  پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے  ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟ تو آپ نے  اپنے  گلے  کی طرف اشارہ کیا یعنی تم سب کو قتل کرا دیں گے "۔ ایک روایت میں ہے  کہ یہ آیتیں عبد اللہ بن ابی بن سلول کے  بارے  میں اتری ہیں ۔ حضرت عبادہ بن صامت نے  حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے  کہا کہ بہت سے  یہودیوں سے  میری دوستی ہے  مگر میں ان سب کی دوستیاں توڑتا ہوں، مجھے  اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دوستی کافی ہے ۔ اس پر اس منافق نے  کہا میں دور اندیش ہوں، دور کی سوچنے  کا عادی ہوں، مجھ سے  یہ نہ ہو سکے  گا، نہ جانے  کس وقت کیا موقعہ پڑ جائے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اے  عبد اللہ تو عبادہ کے  مقابلے  میں بہت ہی گھاٹے  میں رہا، اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے  کہ "جب بدر میں مشرکین کو شکست ہوئی تو بعض مسلمانوں نے  اپنے  ملنے  والے  یہودیوں سے  کہا کہ یہی تمہاری حالت ہو، اس سے  پہلے  ہی تم اس دین برحق کو قبول کر لو انہوں نے  جواب دیا کہ چند قریشیوں پر جو لڑائی کے  فنون سے  بے  بہرہ ہیں ، فتح مندی حاصل کر کے  کہیں  تم مغرور نہ ہو جانا، ہم سے  اگر پالا پڑا تو ہم تو تمہیں  بتا دیں گے  کہ لڑائی اسے  کہتے  ہیں ۔ اس پر حضرت عبادہ اور عبد اللہ بن ابی کا وہ مکالمہ ہوا جو اوپر بیان ہو چکا ہے ۔ جب یہودیوں کے  اس قبیلہ سے  مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور بفضل رب یہ غالب آ گئے  تو اب عبد اللہ بن ابی آپ سے  کہنے  لگا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم میرے  دوستوں کے  معاملے  میں مجھ پر احسان کیجئے ، یہ لوگ خزرج کے  ساتھی تھے ، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اسے  کوئی جواب نہ دیا، اس نے  پھر کہا، آپ نے  منہ موڑ لیا، یہ آپ کے  دامن سے  چپک گیا، آپ نے  غصہ سے  فرمایا کہ چھوڑ دے ، اس نے  کہا نہیں  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں نہ چھوڑوں گا، یہاں تک کہ آپ ان کے  بارے  میں احسان کریں، ان کی بڑی پوری جماعت ہے  اور آج تک یہ لوگ میرے  طرفدار رہے  اور ایک ہی دن میں یہ سب فنا کے  گھاٹ اتر جائیں گے ۔ مجھ تو آنے  والی مصیبتوں کا کھٹکا ہے ۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا، جا وہ سب تیرے  لئے  ہیں "۔ ایک روایت میں ہے  کہ "جب بنو قینقاع کے  یہودیوں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  جنگ کی اور اللہ نے  انہیں  نیچا دکھایا تو عبد اللہ بن ابی ان کی حمایت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  کرنے  لگا اور حضرت عبادہ بن صامت نے  باوجود یکہ یہ بھی ان کے  حلیف تھے  لیکن انہوں نے  ان سے  صاف برأت ظاہر کی"۔ اس پر یہ آیتیں ہم الغالبون تک اتریں ۔ مسند احمد میں ہے  کہ "اس منافق عبد اللہ بن ابی کی عیادت کیلئے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے  گئے  تو آپ نے  فرمایا، میں نے  تو تجھے  بارہا ان یہودیوں کی محبت سے  روکا تو اس نے  کہا سعد بن زرارہ تو ان سے  دشمنی رکھتا تھا وہ بھی مر گیا"۔

۵۴

قوت اسلام اور مرتدین

اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے  خبر دیتا ہے  کہ اگر کوئی اس پاک دین سے  مرتد ہو جائے  تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں  دے  گا، اللہ تعالیٰ ایسے  لوگوں کے  بدلے  ان لوگوں کو اس سچے  دین کی خدمت پر مامور کرے  گا، جو ان سے  ہر حیثیت میں اچھے  ہوں گے ۔ جیسے  اور آیت میں ہے  وان تتلوا اور آیت میں ہے  ان یشا یذھبکم ایھا الناس ویات باخرین اور جگہ فرمایا ویات بخلق جدید الخ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے  جو بیان ہوا۔ ارتداد کہتے  ہیں ، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے  کو۔ محمد بن کعب فرماتے  ہیں  یہ آیت سرداران قریش کے  بارے  میں اتری ہے ۔ حسن بصری فرماتے  ہیں  "خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے  پھر گئے  تھے ، ان کا حکم اس آیت میں ہے ۔ جس قوم کو ان کے  بدلے  لانے  کا وعدے  دے  رہا ہے  وہ اہل قادسیہ ہیں  یا قوم سبا ہے ۔ یا اہل یمن ہیں  جو کندہ اور سکون بیلہ کے  ہیں "۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے ۔ ایک روایت میں ہے  کہ آپ نے  حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے  فرمایا وہ اس کی قوم ہے ۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے  کہ "یہ اپنے  دوستوں یعنی مسلمانوں کے  سامنے  تو بچھ جانے  والے ، جھک جانے  والے  ہوتے  ہیں  اور کفار کے  مقابلہ میں تن جانے  والے ، ان پر بھاری پڑنے  والے  اور ان پر تیز ہونے  والے  ہوتے  ہیں "۔ جیسے  فرمایا اشداء علی الکفار رحماء بینھم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صفتوں میں ہے  کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے  اور قتال بھی یعنی دوستوں کے  سامنے  ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے  مقابلہ میں سخت اور جنگجو، سچے  مسلمان راہ حق کے  جہاد سے  نہ منہ موڑتے  ہیں ، نہ پیٹھ دکھاتے  ہیں ، نہ تھکتے  ہیں ، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے  ہیں ، نہ کسی کی مروت میں آتے  ہیں ، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے  ہیں ، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے  دشمنوں سے  جنگ کرنے  میں بھلائی کا حکم نے  میں اور برائیوں سے  روکنے  میں مشغول رہتے  ہیں ۔ حضرت ابوذر فرماتے  ہیں  "مجھے  میرے  خلیل صلی اللہ علیہ و سلم نے  سات باتوں کا حکم دیا ہے ۔ مسکینوں سے  محبت رکھنے ، ان کے  ساتھ بیٹھنے  اٹھنے  اور دنیوی امور میں اپنے  سے  کم درجے  کے  لوگوں کو دیکھنے  اور اپنے  سے  بڑھے  ہوؤں کو نہ دیکھنے ، صلہ رحمی کرتے  رہنے ، گو دوسرے  نہ کرتے  ہوں اور کسی سے  کچھ بھی نہ مانگنے ، حق بیان کرنے  کا گو وہ سب کو کڑوی لگے  اور دین کے  معاملات میں کسی ملامت کرنے  والے  کی ملامت سے  نہ ڈرنے  کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے  کا، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے  نیچے  کا خزانہ ہے "۔ (مسند احمد) ایک روایت میں ہے  "میں نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  پانچ مرتبہ بیعت کی ہے  اور سات باتوں کی آپ نے  مجھے  یاد دہانی کی ہے  اور سات مرتبہ اپنے  اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے  دین کے  بارے  میں کسی بد گو کی بد گوئی کی مطلق پرواہ نہیں  کرتا۔ مجھے  بلا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا کیا مجھ سے  جنت کے  بدلے  میں بیعت کرے  گا؟ میں نے  منظور کر کے  ہاتھ بڑھایا تو آپ نے  شرط کی کہ کسی سے  کچھ بھی نہ مانگنا۔ میں نے  کہا بہت اچھا، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے  تو خود سواری سے  اتر کر لے  لینا" (مسند احمد) حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  "لوگوں کی ہیبت میں آ کر حق گوئی سے  نہ رکنا، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے ، نہ رزق کو دور کر سکتا ہے "۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند۔ "فرماتے  ہیں  خلاف شرع امر دیکھ کر، سن کر اپنے  تئیں کمزور جان کر، خاموش نہ ہو جانا۔ ورنہ اللہ کے  ہاں اس کی باز پرس ہو گی، اس وقت انسان جواب دے  گا کہ میں لوگوں کے  ڈر سے  چپکا ہو گیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے  گا، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے  ڈرتا"۔ (مسند احمد) فرماتے  ہیں  اللہ تعالیٰ اپنے  بندے  سے  قیامت کے  دن ایک سوال یہ بھی کرے  گا کہ تو نے  لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے  دیکھ کر اس سے  روکا کیوں نہیں ؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے  جواب سمجھائے  گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے  تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے  ڈرا (ابن ماجہ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے  "مومن کو نہ چاہئے  کہ اپنے  تئیں ذلت میں ڈالے  صحابہ نے  پوچھا، یہ کس طرح؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے  اوپر لے  لے ، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے  جے  چاہے  دے ۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں ، اسی کی طرف سے  ان کی توفیق ہوتی ہے ، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے  اور وہ کامل علم والا ہے ، خوب جانتا ہے  کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے ؟ پھر ارشاد ہوتا ہے  کہ تمہارے  دوست کفار نہیں  بلکہ حقیقتاً تمہیں  اللہ سے  اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنوں سے  دوستیاں رکھنی چاہئیں ۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے  پورے  پابند ہوں، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے  اور صرف اللہ کا حق ہے  اور زکوٰۃ ادا کرتے  ہیں  جو اللہ کے  ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے " اور آخری جملہ جو ہے  اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہو گیا ہے  کہ یہ بوتون الزکوٰۃ سے  حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے  ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اگر اسے  مان لیا جائے  تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہو جائے  گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے  حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں ، ان وہمیوں نے  یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے  کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے  رکوع میں تھے  جو ایک سائل آ گیا تو آپ نے  اپنی انگوٹھی اتار کر اسے  دے  دی، والذین امنوا سے  مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے  اور بعض دیگر مفسرین نے  بھی یہ تفسیر کی ہے  لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں ، رجال ایک کے  بھی ثقہ اور ثابت نہیں ، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے  اور صحیح نہیں ۔ ٹھیک رہی ہے  جو ہم پہلے  بیان کر چکے  ہیں  کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے  بارے  میں نازل ہوئی ہیں  جبکہ انہوں نے  کھلے  لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے  رسول اور با ایمان لوگوں کی دوستی رکھے  وہ اللہ کے  لشکر میں داخل ہے  اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے ۔ جیسے  فرمان باری ہے  کتب اللہ لا غلبن انا ورملی الخ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے  کہ میں اور میرے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی غالب رہیں  گے  اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے  والوں کو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے  دشمنوں سے  دوستی رکھنے  والا کبھی پسند نہ آئے  گا چاہے  وہ باپ بیٹے  بھائی اور کنبے  قبیلے  کے  لوگوں میں سے  ہی کیوں نہ ہو، یہی ہیں  جن کے  دلوں میں اللہ نے  ایمان لکھ دیا ہے  اور اپنی روح سے  ان کی تائید کی ہے ، انہیں  اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے  جائے  گا، جن کے  نیچے  نہریں بہ رہی ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں  گے ، رب ان سے  راضی ہے ، یہ اللہ سے  خوش ہیں ، یہی اللہ کے  لشکر ہیں  اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے  والا ہے ۔ پس جو اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہو جائے ، وہ دنیا میں فاتح ہے  اور آخرت میں فلاح پان والا ہے ۔ اسی لئے  اس آیت کو بھی اس جملے  پر ختم کیا۔

۵۷

اذان اور دشمنان دین

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی محبت سے  نفرت دلاتا ہے  اور فرماتا ہے  کہ "کیا تم ان سے  دوستیاں کرو گے  جو تمہارے  طاہر و مطہر دین کی ہنسی اڑاتے  ہیں  اور اسے  ایک بازیچہ اطفال بنائے  ہوئے  ہیں "۔ من بیان جنس کیلئے  جیسے  من الاوثان میں ۔ بعض نے  والکفار پڑھا ہے  اور عطف ڈالا ہے  اور بعض نے  والکفار پڑھا ہے  اور لاتتخذوا کا نیا معمول بنایا ہے  تو تقدیر عبارت والا الکفار اولیاء ہو گی، کفار سے  مراد مشرکین ہیں ، ابن مسعود کی قرات میں و من الذین اشرکوا ہے ۔ اللہ سے  ڈرو اور ان سے  دوستیاں نہ کرو اگر تم سچے  مومن ہو۔ یہ تو تمہارے  دین کے ، اللہ کی شریعت کے  دشمن ہیں ۔ جیسے  فرمایا لایتخذ المومنون الخ، مومن مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے  دوستیاں نہ کریں اور جو ایسا کرے  وہ اللہ کے  ہاں کسی بھلائی میں نہیں  ہاں ان سے  بچاؤ مقصود ہو تو اور بات ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں  اپنی ذات سے  ڈرا رہا ہے  اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے ۔ اسی طرح یہ کفار اہل کتاب اور مشرک اس وقت بھی مذاق اڑاتے  ہیں  جب تم نمازوں کیلئے  لوگوں کو پکارتے  ہو حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے  پیاری عبادت ہے ، لیکن یہ بیوقوف اتنا بھی نہیں  جانتے ، اس لئے  کہ یہ متبع شیطان ہیں ، اس کی یہ حالت ہے  کہ اذان سنتے  ہی بدبو چھوڑ کر دم دبائے  بھاگتا ہے  اور وہاں جا کر ٹھہرتا ہے ، جہاں اذان کی آواز نہ سن پائے ۔ اس کے  بعد آ جاتا ہے  پھر تکبیر سن کر بھاگ کھڑا ہوتا ہے  اور اس کے  ختم ہوتے  ہی آ کر اپنے  بہکاوے  میں لگ جاتا ہے ، انسان کو ادھر ادھر کی بھولی بسری باتیں یاد دلاتا ہے  یہاں تک کہ اسے  یہ بھی خبر نہیں  رہتی کہ نماز کی کتنی رکعت پڑھیں ؟ جب ایسا ہو تو وہ سجدہ سہو کر لے ۔ (متفق علیہ) امام زہری فرماتے  ہیں  "اذان کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے  پھر یہی آیت تلاوت کی"۔ ایک نصرانی مدینے  میں تھا، اذان میں جب اشہد ان محمد رسول اللہ سنتا تو کہتا کذاب جل جائے ۔ ایک مرتبہ رات کو اس کی خادمہ گھر میں آگ لائی، کوئی پتنگا اڑا جس سے  گھر میں آگ لگ گئی، وہ شخص اس کا گھر بار سب جل کر ختم ہو گیا۔ فتح مکہ والے  سال حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  حضرت بلال کو کعبے  میں اذان کہنے  کا حکم دیا، قریب ہی ابو سفیان بن حرب، عتاب بن اسید، حارث بن ہشام بیٹھے  ہوئے  تھے ، عتاب نے  تو اذان سن کر کہا میرے  باپ پر تو اللہ کا فضل ہوا کہ وہ اس غصہ دلانے  والی آواز کے  سننے  سے  پہلے  ہی دنیا سے  چل بسا۔ حارث کہنے  لگا اگر میں اسے  سچا جانتا تو مان ہی نہ لیتا۔ ابو سفیان نے  کہا بھئی میں تو کچھ بھی زبان سے  نہیں  نکلتا، ڈر ہے  کہ کہیں  یہ کنکریاں اسے  خبر نہ کر دیں انہوں نے  باتیں ختم کی ہی تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آ گئے  اور فرمانے  لگے  اس وقت تم نے  یہ یہ باتیں کیں ہیں ، یہ سنتے  ہی عتاب اور حارث تو بول پڑے  کہ ہماری گواہی ہے  کہ آپ اللہ کے  سچے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ، یہاں تو کوئی چوتھا تھا ہی نہیں ، ورنہ گمان کر سکتے  تھے  کہ اس نے  جا کر آپ سے  کہہ دیا ہو گا (سیرۃ محمد بن اسحاق) حضرت عبد اللہ بن جیر جب شام کے  سفر کو جانے  لگے  تو حضرت محذورہ سے  جن کی گود میں انہوں نے  ایام یتیمی بسر کئے  تھے ، کہا آپ کی اذان کے  بارے  میں مجھ سے  وہاں کے  لوگ ضرور سوال کریں گے  تو آپ اپنے  واقعات تو مجھے  بتا دیجئے ۔ فرمایا ہاں سنو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حنین سے  واپس آ رہے  تھے ، راستے  میں ہم لوگ ایک جگہ رکے ، تو نماز کے  وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  موذن نے  اذان کہی، ہم نے  اس کا مذاق اڑانا شروع کیا، کہیں  آپ کے  کان میں بھی آوازیں پڑ گئیں ۔ سپاہی آیا اور ہمیں آپ کے  پاس لے  گیا۔ آپ نے  دریافت فرمایا کہ تم سب میں زیادہ اونچی آواز کس کی تھی؟ سب نے  میری طرف اشارہ کیا تو آپ نے  اور سب کو چھوڑ دیا اور مجھے  روک لیا اور فرمایا "اٹھو اذان کہو" واللہ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات سے  اور آپ کی فرماں برداری سے  زیادہ بری چیز میرے  نزدیک کوئی نہ تھی لیکن بے  بس تھا، کھڑا ہو گیا، اب خود آپ نے  مجھے  اذان سکھائی اور جو سکھاتے  رہے ، میں کہتا رہا، پھر اذان پوری بیان کی، جب میں اذان سے  فارغ ہوا تو آپ نے  مجھے  ایک تھیلی دے ، جس میں چاندی تھی، پھر اپنا دست مبارک میرے  سر پر رکھا اور پیٹھ تک لائے ، پھر فرمایا اللہ تجھ میں اور تجھ پر اپنی برکت نازل کرے ۔ اب تو اللہ کی قسم میرے  دل سے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی عداوت بالکل جاتی رہی، ایسی محبت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دل میں پیدا ہو گئی، میں نے  آرزو کی کہ مکے  کا موذن حضور صلی اللہ علیہ و سلم مجھ کو بنا دیں ۔ آپ نے  میری یہ درخواست منظور فرما لی اور میں مکے  میں چلا گیا اور وہاں کے  گورنر حضرت عتاب بن اسید سے  مل کر اذان پر مامور ہو گیا۔ حضرت ابو مخدورہ کا نام سمرہ بن مغیرہ بن لوذان تھا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  چار موذنوں میں سے  ایک آپ تھے  اور لمبی مدت تک آپ اہل مکہ کے  موذن رہے ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔

۵۹

بد ترین گروہ اور اس کا انجام

حکم ہوتا ہے  کہ جو اہل کتاب تمہارے  دین پر مذاق اڑاتے  ہیں ، ان سے  کہو کہ تم نے  جو دشمنی ہم سے  کر رکھی ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے  سوا نہیں  کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے  ہیں ۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے ، نہ سبب مذمت بہ استثنا منقطع ہے ۔ اور آیت میں ہے  و مانقمو امنھم الخ، یعنی فقط اس وجہ سے  انہوں نے  ان سے  دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے  تھے ۔ اور جیسے  اور آیت میں ۔ ۔ یعنی انہوں نے  صرف اس کا انتقام لیا ہے  کہ انہیں  اللہ نے  اپنے  فضل سے  اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  مال دے  کر غنی کر دیا ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے  "ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے  کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے  اسے  غنی کر دیا اور یہ کہ تم میں سے  اکثر صراط مستقیم سے  الگ اور خارج ہو چکے  ہیں ۔ تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے  ہو آؤ میں تمہیں  بتاؤں کہ اللہ کے  ہاں سے  بدلہ پانے  میں کو بدتر ہے ؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ یعنی جسے  اللہ نے  لعنت کی ہو، اپنی رحمت سے  دور پھینک دیا ہو، اس پر غضبناک ہوا ہو، ایسا جس کے  بعد رضامند نہیں  ہو گا اور جن میں سے  بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں، بندر اور سور بنا دیئے  ہوں "۔ اس کا پورا بیان سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں ؟ تو آپ نے  فرمایا، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ، ان کی نسل ہی نہیں  ہوتی، ان سے  پہلے  بھی سور اور بندر تھے ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے ۔ مسند میں ہے  کہ "جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی۔ جیسے  کہ بندر اور سور بنا دیئے  گئے "۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔ انہی میں سے  بعض کو غیر اللہ کے  پرستار بنا دیئے ۔ ایک قرات میں اضافت کے  ساتھ طاغوت کی زیر سے  بھی ہے ۔ یعنی انہیں  بتوں کا غلام بنا دیا۔ حضرت برید اسلمی اسے  عابد الطاغوت پڑھتے  تھے ۔ حضرت ابو جعفر قاری سے  وعبد الطاغوت بھی منقول ہے  جو بعید از معنی ہو جاتا ہے  لیکن فی الواقع ایسا نہیں  ہوتا مطلب یہ ہے  کہ تم ہی وہ ہو، جنہوں نے  طاغوت کی عبادت کی۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے  کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے  ہو، حالانکہ ہم موحد ہیں ، صرف ایک اللہ برحق کے  ماننے  والے  ہیں  اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں ۔ اسی لئے  خاتم پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے  بہت برے  ہیں  اور باعتبار گمراہی کے  انتہائی غلط راہ پر پڑے  ہوئے  ہیں ۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں  اور یہاں تو سرے  سے  ہے  ہی نہیں ۔ جیسے  اس آیت میں اصحاب الجنۃ یومئذ مستقرا واحسن مقیلا پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے  کہ "ظاہر میں تو وہ مومنوں کے  سامنے  ایمان کا اظہار کرتے  ہیں  اور ان کے  باطن کفر سے  بھرے  پڑے  ہیں ۔ یہ تیرے  کفر کی حالت میں پاس آتے  ہیں  اور اسی حالت میں تیرے  پاس سے  جاتے  ہیں  تو تیری باتیں، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں  کرتیں ۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں  کیا کام آئے  گی، جس سے  ان کا معاملہ ہے ، وہ تو عالم الغیب ہے ، دلوں کے  بھید اس پر روشن ہیں ۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے  گا۔ تو دیکھ رہا ہے  کہ یہ لوگ گناہوں پر، حرام پر اور باطل کے  ساتھ لوگوں کے  مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے  ہیں ؟ ان کے  اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے  ہیں ۔ ان کے  اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے  علماء انہیں  ان باتوں سے  کیوں نہیں  روکتے ؟ دراصل ان کے  علماء اور پیروں کے  اعمال بدترین ہو گئے  ہیں "۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  کہ "علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے  اس سے  زیادہ سخت آیت کوئی نہیں "۔ حضرت ضحاک سے  بھی اسی طرح منقول ہے ۔ حضرت علی نے  ایک خطبے  میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے  بعد فرمایا "لوگو تم سے  اگلے  لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے  گئے  کہ وہ برائیاں کرتے  تھے  تو ان کے  عالم اور اللہ والے  خاموش رہتے  تھے ، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے  انہیں  قسم قسم کی سزائیں دیں ۔ پس تمہیں  چاہئے  کہ بھلائی کا حکم کرو، برائی سے  روکو، اس سے  پہلے  کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے  پہلے  والوں پر آئے ، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے  ممانعت نہ تو تمہارے  روزی گھٹائے  گا، نہ تمہارے  موت قریب کر دے  گا"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے  کہ "جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے  اور وہ لوگ باوجود روکنے  کی قدرت اور غلبے  کے  اسے  نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے  گا" (مسند احمد) ابو داؤد میں ہے  کہ "یہ عذاب ان کی موت سے  پہلے  ہی آئے  گا"۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔

۶۴

بخل سے بچو اور فضول خرچی سے ہاتھ روکو

اللہ ملعون یہودیوں کا ایک خبیث قول بیان فرما رہا ہے  کہ یہ اللہ کو بخیل کہتے  تھے ، یہی لوگ اللہ کو فقیر بھی کہتے  ہیں ۔ اللہ کی ذات ان کے  اس ناپاک مقولے  سے  بہت بلند و بالا ہے ۔ پس اللہ کے  ہاتھ بندھے  ہوئے  ہیں ، مطلب ان کا یہ نہ تھا کہ ہاتھ جکڑ دیئے  گئے  ہیں  بلکہ مراد اس سے  بخل تھا۔ یہی محاورہ قرآن میں اور جگہ بھی ہے  فرماتا ہے ۔ یعنی اپنے  ہاتھ اپنی گردن سے  باندھ بھی نہ لے  اور نہ حد سے  زیادہ پھیلا دے  کہ پھر تھکان اور ندامت کے  ساتھ بیٹھ رہنا پڑے ، پس بخل سے  اور اسراف سے  اللہ نے  اس آیت میں روکا۔ پس ملعون یہودیوں کی بھی ہاتھ باندھا ہوا ہونے  سے  یہی مراد تھی۔ فخاص نامی یہودی نے  یہ کہا تھا اور اسی ملعون کا وہ دوسرا قول بھی تھا کہ اللہ فقیر ہے  اور ہم غنی ہیں ۔ جس پر حضرت صدیق اکبر نے  اسے  پیٹا تھا۔ ایک روایت میں ہے  کہ شماس بن قیس نے  یہی کہا تھا جس پر یہ آیت اتری۔ اور ارشاد ہوا کہ بخیل اور کنجوس ذلیل اور بزدل یہ لوگ خود ہیں ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے  کہ اگر یہ بادشاہ بن جائیں تو کسی کو کچھ بھی نہ دیں ۔ بلکہ یہ تو اوروں کی نعمتیں دیکھ کر جلتے  ہیں ۔ یہ ذلیل تر لوگ ہیں ۔ بلکہ اللہ کے  ہاتھ کھلے  ہیں  وہ سب کچھ خرچ کرتا رہتا ہے  اس کا فضل وسیع ہے ، اس کی بخشش عام ہے ، ہر چیز کے  خزانے  اس کے  ہاتھوں میں ہیں ۔ ہر نعمت اس کی طرف سے  ہے ۔ ساری مخلوق دن رات ہر وقت ہر جگہ اسی کی محتاج ہے ۔ فرماتا ہے  ۔ "تم نے  جو مانگا، اللہ نے  دیا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو شمار بھی نہیں  کر سکتے ، یقیناً انسان بڑا ہی ظالم بے  حد ناشکرا ہے "۔ مسند میں حدیث ہے  کہ "اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ اوپر ہے ، دن رات کا خرچ اس کے  خزانے کو گھٹاتا نہیں ، شروع سے  لے  کر آج تک جو کچھ بھی اس نے  اپنی مخلوق کو عطا فرمایا، اس نے  اس کے  خزانے  میں کوئی کمی نہیں  کی۔ اس کا عرش پہلے  پانی پر تھا، اسی کے  ہاتھ میں فیض ہی فیض ہے ، وہی بلند اور پست کرتا ہے ۔ اس کا فرمان ہے  کہ لوگو تم میری راہ میں خرچ کرو گے  تم تو دیئے  جاؤں گے "۔ بخاری مسلم میں بھی یہ حدیث ہے ۔ پھر فرمایا "اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! جس قدر اللہ کی نعمتیں تم پر زیادہ ہوں گی، اتنا ہی ان شیاطین کا کفر حسد اور جلا پا بڑھے  گا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح مومنوں کا ایمان اور ان کی تسلیم و اطاعت بڑھتی ہے ۔ جیسے  اور آیت میں ہے ۔ ۔ ایمان والوں کیلئے  تو یہ ہدایت و شفا ہے  اور بے  ایمان اس سے  اندھے  بہرے  ہوتے  ہیں ۔ یہی ہیں  جو دروازے  سے  پکارے  جاتے  ہیں ۔ اور آیت میں ہے  وننزل من القرآن ہم نے  وہ قرآن اتارا ہے  جو مومنوں کیلئے  شفا اور رحمت ہے  اور ظالموں کا تو نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے ۔ پھر ارشاد ہوا کہ ان کے  دلوں میں سے  خود آپس کا بغض و بیر بھی قیامت تک نہیں  مٹے  گا، ایک دوسرے  کا آپس میں ہی خون پینے  والے  لوگ ہیں ۔ ناممکن ہے  کہ یہ حق پر جم جائیں، یہ اپنے  ہی دین میں فرقہ فرقہ ہو رہے  ہیں ، ان کے  جھگڑے  اور عداوتیں آپس میں جاری ہیں  اور جاری رہیں  گی۔ یہ لوگ بسا اوقات لڑائی کے  سامان کرتے  ہیں ، تیرے  خلاف چاروں طرف ایک آگ بھڑکانا چاہتے  ہیں  لیکن ہر مرتبہ منہ کی کھاتے  ہیں ، ان کا مکر و فریب انہی پر لوٹ جاتا ہے ، یہ مفسد لوگ ہیں  اور اللہ کے  دشمن ہیں ، کسی مفسد کو اللہ اپنا دوست نہیں  بناتا۔ اگر یہ با ایمان اور پرہیزگار بن جائیں تو ہم ان سے  تمام ڈر دور کر دیں اور اصل مقصد حیات سے  انہیں  ملا دیں ۔ اگر یہ تورات و انجیل اور اس قرآن کو مان لیں کیونکہ توراۃ و انجیل کا ماننا، قرآن کے  ماننے  کو لازم کر دے  گا، ان کتابوں کی صحیح تعلیم یہی ہے  کہ یہ قرآن سچا ہے  اس کی اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق پہلے  کی کتابوں میں موجود ہے  تو اگر یہ اپنی ان کتابوں کو بغیر تحریف و تبدیل اور تاویل و تفسیر کے  مانیں تو وہ انہیں  اسی اسلام کی ہدایت دیں گی، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بتاتے  ہیں ۔ اس صورت میں اللہ انہیں  دنیا کے  کئی فائدے  دے  گا، آسمان سے  پانی برسائے  گا، زمین سے  پیداوار اگائے  گا، نیچے  اوپر کی یعنی زمین و آسمان کی برکتیں انہیں  مل جائیں گی۔ " جیسے  اور آیت میں ہے  والوان اھل القری امنوا واتقوا یعنی اگر بستیوں والے  ایمان لاتے  ہیں  اور پرہیز گاری کرتے  تو ہم ان پر آسمان و زمین سے  برکتیں نازل فرماتے ۔ اور آیت میں ۔ لوگوں کی برائیوں کی وجہ سے  خشکی اور تری میں فساد ظاہر ہو گیا ہے ، اور یہ بھی معنی ہو سکتے  ہیں  کہ بغیر مشقت و مشکل کے  ہم انہیں  بکثرت بابرکت روزیاں دیتے  ہیں ، بعض نے  اس جملہ کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے  کہ یہ لوگ ایسا کرتے  تو بھلائیوں سے  مستفید ہو جاتے ۔ لیکن یہ قول اقوال سلف کے  خلاف ہے ۔ اب ابی حاتم نے  اس جگہ ایک اثر وارد کیا ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا قریب ہے  کہ علم اٹھا لیا جائے ۔ یہ سن کر حضرت زیاد بن لبید نے  عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ کیسے  ہو سکتا ہے  کہ علم اٹھ جائے ، ہم نے  قرآن سیکھا، اپنی اولادوں کو سکھایا۔ آپ نے  فرمایا افسوس میں تو تمام مدینے  والوں سے  زیادہ تم کو سمجھدار جانتا تھا لیکن کیا تو نہیں  دیکھتا کہ یہود و نصاریٰ کے  ہاتھوں میں بھی تورات و انجیل ہے ۔ لیکن کس کام کی؟ جبکہ انہوں نے  اللہ کے  احکام چھوڑ دیئے  پھر آپ نے  یہی آیت تلاوت فرمائی"۔ یہ حدیث مسند میں بھی ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی چیز کا بیان فرمایا کہ یہ بات علم کے  جاتے  رہنے  کے  وقت ہو گی، اس پر حضرت ابن لبید نے  کہا علم کیسے  جاتا رہے  گا؟ ہم قرآن پڑھے  ہوئے  ہیں  اپنے  بچوں کو پڑھا رہے  ہیں ، وہ اپنی اولادوں کو پڑھائیں گے ، یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے  گا، اس پر آپ نے  یہ فرمایا جو اوپر بیان ہوا۔ پھر فرمایا ان میں ایک جماعت میانہ رو بھی ہے  مگر اکثر بداعمال ہے ۔ جیسے  فرمان و من قوم موسیٰ امۃ یھدون بالحق وبہ یعللون موسیٰ کی قوم میں سے  ایک گروہ حق کی ہدایت کرنے  والا اور اسی کے  ساتھ عدل انصاف کرنے  والا بھی تھا۔ اور قوم عیسیٰ کے  بارے  میں فرمان ہے  ۔ ان میں سے  با ایمان لوگوں کو ہم نے  ان کے  ثواب عنایت فرمائے ، یہ نکتہ خیال میں رہے  کہ ان کا بہترین درجہ بیچ کا درجہ بیان فرمایا اور اس امت کا یہ درجہ دوسرا درجہ ہے ، جس پر ایک تیسرا اونچا درجہ بھی ہے ۔ جیسے  فرمایا ۔ ۔ یعنی پھر ہم نے  کتاب کا وارث اپنے  چیدہ بندوں کو بنایا، ان میں سے  بعض تو اپنے  نفسوں پر ظلم کرنے  والے  ہیں ، بعض میانہ رو ہیں  اور بعض اللہ کے  حکم سے  نیکیوں میں آگے  بڑھنے  والے  ہیں ، یہی بہت بڑا فضل ہے ۔ تینوں قسمیں اس امت کی داخل جنت ہونے  والی ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ صحابہ کے  سامنے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا "موسیٰ کی امت کے  اکہتر گروہ ہو گئے ، جن میں سے  ایک تو جنتی ہے ، باقی ستر دوزخی۔ میری یہ امت دونوں سے  بڑھ جائے  گی۔ ان کا بھی ایک گروہ تو جنت میں جائے  گا، باقی بہتر گروہ جہنم میں جائیں گے ، لوگوں نے  پوچھا، وہ کون ہیں ؟ فرمایا جماعتیں "۔ یعقوب بن یزید کہتے  ہیں  جب حضرت علی بن ابو طالب یہ حدیث بیان کرتے  تو قرآن کی آیت ۔ ۔ بھی پڑھتے  اور فرماتے  ہیں  اس سے  مراد امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہے ۔ لیکن یہ حدیث ان لفظوں اور اس سند سے  بے  حد غریب ہے  اور ستر سے  اوپر اوپر فرقوں کی حدیث بہت سی سندوں سے  مروی ہے ، جسے  ہم نے  اور جگہ بیان کر دیا ہے  فالحمد للہ

۶۷

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو چھپایا نہیں

اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول کے  پیارے  خطاب سے  آواز دے  کر اللہ تعالیٰ حکم دیا ہے  کہ اللہ تعالیٰ کے  کل احکام لوگوں کو پہنچا دو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  بھی ایسا ہی کیا۔ صحیح بخاری میں ہے  "حضرت عائشہ فرماتی ہیں  جو تجھ سے  کہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اللہ تعالیٰ کے  نازل کردہ کسی حکم کو چھپا لیا تو جان لو کہ وہ جھوٹا ہے ، اللہ نے  اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ حکم دیا ہے  پھر اس آیت کی تلاوت آپ نے  کی"۔

یہ حدیث یہاں مختصر ہے  اور جگہ پر مطول بھی ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے  "اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے  کسی فرمان کو چھپانے  والے  ہوتے  تو اس آیت کو چھپا لیتے ۔ ۔ یعنی تو اپنے  دل میں وہ چھپاتا تھا جسے  اللہ ظاہر کرنے  والا تھا اور لوگوں سے  جھینپ رہا تھا حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے  کہ تو اس سے  ڈرے "۔ ابن عباس سے  کسی نے  کہا کہ لوگوں میں یہ چرچا ہو رہا ہے  کہ تمہیں  کچھ باتیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایسی بتائی ہیں  جو اور لوگوں سے  چھپائی جاتی تھیں تو آپ نے  یہی آیت پڑھی اور فرمایا قسم اللہ کی ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  کسی ایسی مخصوص چیز کا وارث نہیں  بنایا (ابن ابی حاتم) صحیح بخاری شریف میں ہے  کہ "حضرت علی سے  ایک شخص نے  پوچھا کیا تمہارے  پاس قرآن کے  علاوہ کچھ اور وحی بھی ہے ؟ آپ نے  فرمایا اس اللہ کی قسم جس نے  دانے  کو اگایا ہے  اور جانوروں کو پیدا کیا ہے  کہ کچ نہیں  بجز اس فہم و روایت کے  جو اللہ کسی شخص کو دے  اور جو کچھ اس صحیفے  میں ہے ، اس نے  پوچھا صحیفے  میں کیا ہے ؟ فرمایا دیت کے  مسائل ہیں ، قیدیوں کو چھوڑ دینے  کے  احکام ہیں  اور یہ ہے  کہ مسلمان کافر کے  بدلے  قصاصاً قتل نہ کیا جائے "۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت زہری کا فرمان ہے  کہ اللہ کی طرف سے  رسالت ہے  اور پیغمبر کے  ذمے  تبلیغ ہے  اور ہمارے  ذمہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہونا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اللہ کی سب باتیں پہنچا دیں، اس کی گواہ آپ کی تمام امت ہے  کہ فی الواقع آپ نے  امانت کی پوری ادائیگی کی اور سب سے  بڑی مجلس جو تھی، اس میں سب نے  اس کا اقرار کیا یعنی حجۃ الوداع خطبے  میں، جس وقت آپ کے  سامنے  چالیس ہزار صحابہ کا گروہ عظیم تھا"۔ صحیح مسلم میں ہے  کہ "آپ نے  اس خطبے  میں لوگوں سے  فرمایا تم میرے  بارے  میں اللہ کے  ہاں پوچھے  جاؤ گے  تو بتاؤ کیا جواب دو گے ؟ سب نے  کہا ہماری گواہی ہے  کہ آپ نے  تبلیغ کر دی اور حق رسالت ادا کر دیا اور ہماری پوری خیر خواہی کی، آپ نے  سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے  اللہ! کیا میں نے  تیرے  تمام احکامات کو پہنچا دیا، اے  اللہ! کیا میں نے  پہنچا دیا؟ " مسند احمد میں یہ بھی ہے  کہ آپ نے  اس خطبے  میں پوچھا کہ لوگو یہ کونسا دن ہے ؟ سب نے  کہا حرمت والا، پوچھا یہ کونسا شہر ہے ، جواب دیا، حرمت والا۔ فرمایا یہ کونسا مہینہ ہے ؟ جواب ملا، حرمت والا، فرمایا پس تمہارے  مال اور خون و آبرو آپس میں ایک دوسرے  پر ایسی ہی حرمت والے  ہیں  جیسے  اس دن کی اس شہر میں اور اس مہینے  میں حرمت ہے ۔ پھر بار بار اسی کو دوہرایا۔ پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے  اللہ! کیا میں نے  پہنچا دیا"۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  اللہ کی قسم یہ آپ کے  رب کی طرف آپ کی وصیت تھی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا دیکھو ہر حاضر شخص غیر حاضر کو یہ بات پہنچا دے ۔ دیکھو میرے  فرمان میرے  بندوں تک نہ پہنچائے  تو تو نے  حق رسالت ادا نہیں  کیا، پھر اس کی جو سزا ہے  وہ ظاہر ہے ، اگر ایک آیت بھی چھپا لی تو حق رسالت ادا نہ ہوا۔ حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  جب یہ حکم نازل ہوا کہ جو کچھ اترا ہے  سب پہنچا دو تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا اللہ میں اکیلا ہوں اور یہ سب مل کر مجھ پر چڑھ دوڑتے  ہیں ، میں کس طرح کروں تو دوسرا جملہ اترا کہ اگر تو نے  نہ کیا تو تو نے  رسالت کا حق ادا نہیں  کیا۔ پھر فرمایا تجھے  لوگوں سے  بچا لینا میرے  ذمہ ہے ۔ تیرا حافظ و ناصر میں ہوں، بے  خطر رہئے  وہ کوئی تیرا کچھ نہیں  بگاڑ سکتے ، اس آیت سے  پہلے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم چوکنے  رہتے  تھے ، لوگ نگہبانی پر مقرر رہتے  تھے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ فرماتے  ہیں  کہ ایک رات کو حضور بیدار تھے  انہیں  نیند نہیں  آ رہی تھی میں نے  کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آج کیا بات ہے ؟ فرمایا کاش کہ میرا کوئی نیک بخت صحابی آج پہرہ دیتا، یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے  کانوں میں ہتھیار کی آواز آئی آپ نے  فرمایا کون ہے ؟ جواب ملا کہ میں سعد بن مالک ہوں، فرمایا کیسے  آئے ؟ جواب دیا اس لئے  کہ رات بھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی چوکیداری کروں ۔ اس کے  بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم با آرام سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے  لگی (بخاری و مسلم) ایک روایت میں ہے  کہ یہ واقعہ سنہ ٢ھ کا ہے ۔ اس آیت کے  نازل ہوتے  ہی آپ نے  خیمے  سے  سر نکال کر چوکیداروں سے  فرمایا، "جاؤ اب میں اللہ کی پناہ میں آ گیا، تمہاری چوکیداری کی ضرورت نہیں  رہی"۔ ایک روایت میں ہے  کہ ابو طالب آپ کے  ساتھ ساتھ کسی نہ کسی آدمی کو رکھتے ، جب یہ آیت اتری تو آپ نے  فرمایا بس چچا! اب میرے  ساتھ کسی کے  بھیجنے  کی ضرورت نہیں ، میں اللہ کے  بچاؤ میں آ گیا ہوں ۔ لیکن یہ روایت غریب اور منکر ہے  یہ واقعہ ہو تو مکہ کا ہو اور یہ آیت تو مدنی ہے ، مدینہ کی بھی آخری مدت کی آیت ہے ، اس میں شک نہیں  کہ مکے  میں بھی اللہ کی حفاظت اپنے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ رہی باوجود دشمن جاں ہونے  کے  اور ہر ہر اسباب اور سامان سے  لیس ہونے  کے  سردار ان مکہ اور اہل مکہ آپ کا بال تک بیکا نہ کر سکے ، ابتدا رسالت کے  زمانہ میں اپنے  چچا ابو طالب کی وجہ سے  جو کہ قریشیوں کے  سردار اور بارسوخ شخص تھے ، آپ کی حفاظت ہوتی رہی، ان کے  دل میں اللہ نے  آپ کی محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت اور عزت ڈال دی، یہ محبت طبعی تھی شرعی نہ تھی۔ اگر شرعی ہوتی تو قریش حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  ساتھ ہی ان کی بھی جان کے  خواہاں ہو جاتے ۔ ان کے  انتقال کے  بعد اللہ تعالیٰ نے  انصار کے  دلوں میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شرعی محبت پیدا کر دی اور آپ انہی کے  ہاں چلے  گئے ۔ اب تو مشرکین بھی اور یہود بھی مل ملا کر نکل کھڑے  ہوئے ، بڑے  بڑے  سازو سامان لشکر لے  کر چڑھ دوڑے ، لیکن بار بار کی ناکامیوں نے  ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح خفیہ سازشیں بھی جتنی کیں، قدرت نے  وہ بھی انہی پر الٹ دیں ۔ ادھر وہ جادو کرتے  ہیں ، ادھر سورہ معوذتین نازل ہوتی ہے  اور ان کا جادو اتر جاتا ہے ۔ ادھر ہزاروں جتن کر کے  بکری کے  شانے  میں زہر ملا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کر کے  آپ کے  سامنے  رکھتے  ہیں ، ادھر اللہ تعالیٰ اپنے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی دھوکہ دہی سے  آگاہ فرما دیتا ہے  اور یہ ہاتھ کاٹتے  رہ جاتے  ہیں  اور بھی ایسے  واقعات آپ کی زندگی میں بہت سارے  نظر آتے  ہیں ۔ ابن جریر میں ہے  کہ "ایک سفر میں آپ ایک درخت تلے ، جو صحابہ اپنی عادت کے  مطابق ہر منزل میں تلاش کر کے  آپ کیلئے  چھوڑ دیتے  تھے ، دوپہر کے  وقت قیولہ کر رہے  تھے  تو ایک اعرابی اچانک آ نکلا، آپ کی تلوار جو اسی درخت میں لٹک رہی تھی، اتار لی اور میان سے  باہر نکال لی اور ڈانٹ کر آپ سے  کہنے  لگا، اب بتا کون ہے  جو تجھے  بچا لے ؟ آپ نے  فرمایا اللہ مجھے  بچائے  گا، اسی وقت اس اعرابی کا ہاتھ کانپنے  لگتا ہے  اور تلوار اس کے  ہاتھ سے  گر جاتی ہے  اور وہ درخت سے  ٹکراتا ہے ، جسے  سے  اس کا دماغ پاش پاش ہو جاتا ہے  اور اللہ تعالیٰ یہ آیت اتارتا ہے "۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  بنو نجار سے  غزوہ کیا" ذات الرقاع کھجور کے  باغ میں آپ ایک کنوئیں میں پیر لٹکائے  بیٹھے  تھے ، جو بنو نجار کے  ایک شخص وارث نامی نے  کہا دیکھو میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرتا ہوں ۔ لوگوں نے  کہا کیسے ؟ کہا میں کسی حیلے  سے  آپ کی تلوار لے  لوں گا اور پھر ایک ہی وار کر کے  پار کر دوں گا۔ یہ آپ کے  پاس آیا اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر آپ سے  تلوار دیکھنے  کو مانگی، آپ نے  اسے  دے  دی لیکن تلوار کے  ہاتھ میں آتے  ہی اس پر اس بلا کا لرزہ چڑھا کہ آخر تلوار سنبھل نہ سکی اور ہاتھ سے  گر پڑی تو آپ نے  فرمایا تیرے  اور تیرے  بد ارادے  کے  درمیان اللہ حائل ہو گیا اور یہ آیت اتری۔ حویرث بن حارث کا بھی ایسا قصہ مشہور ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ "صحابہ کی عادت تھی کہ سفر میں جس جگہ ٹھہرتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کیلئے  گھنا سایہ دار بڑا درخت چھوڑ دیتے  کہ آپ اسی کیلئے  تلے  آرام فرمائیں، ایک دن آپ اسی طرح ایسے  درخت تلے  سو گئے  اور آپ کی تلوار اس درخت میں لٹک رہی تھی، ایک شخص آ گیا اور تلوار ہاتھ میں لے  کر کہنے  لگا، اب بتا کہ میرے  ہاتھ سے  تجھے  کون بچائے  گا؟ آپ نے  فرمایا اللہ بچائے  گا، تلوار رکھ دے  اور وہ اس قدر ہیبت میں آ گیا کہ تعمیل حکم کرنا ہی پڑی اور تلوار آپ کے  سامنے  ڈال دی۔ " اور اللہ نے  یہ آیت اتاری کہ اللہ یعصمک من الناس مسند میں ہے  کہ "حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  ایک موٹے  آدمی کے  پیٹ کی طرف اشارہ کر کے  فرمایا اگر یہ اس کے  سوا میں ہوتا تو تیرے  لئے  بہتر تھا۔ ایک شخص کو صحابہ پکڑ کر آپ کے  پاس لائے  اور کہا یہ آپ کے  قتل کا ارادہ کر رہا تھا، وہ کانپنے  لگا، آپ نے  فرمایا گھبرا نہیں  چاہے  تو ارادہ کرے  لیکن اللہ اسے  پورا نہیں  ہونے  دے  گا"۔ پھر فرماتا ہے  تیرے  ذمہ صرف تبلیغ ہے ، ہدایت اللہ کے  ہاتھ ہے ، وہ کافروں کو ہدایت نہیں  دے  گا۔ تو پہنچا دے ، حساب کا لینے  والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔

۶۸

آخری رسول پر ایمان اولین شرط ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  کہ یہود و نصاریٰ کسی دین پر نہیں ، جب تک کہ اپنی کتابوں پر اور اللہ کی اس کتاب پر ایمان لائیں لیکن ان کی حالت تو یہ ہے  کہ جیسے  جیسے  قرآن اترتا ہے  یہ لوگ سرکشی اور کفر میں بڑھتے  جاتے  ہیں ۔ پس اے  نبی صلی اللہ علیہ و سلم تو ان کافروں کیلئے  حسرت و افسوس کر کے  کیوں اپنی جان کو روگ لگاتا ہے ۔ ضابی، نصرانیوں اور مجوسیوں کی بے  دین جماعت کو کہتے  ہیں  اور صرف مجوسیوں کو بھی علاوہ ازیں ایک اور گروہ تھا، یہود اور نصاریٰ دونوں مثل مجوسیوں کے  تھے ۔ قتادہ کہتے  ہیں  یہ زبور پڑھتے  تھے  غیر قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے  تھے  اور فرشتوں کو پوجتے  تھے ۔ وہب فرماتے  ہیں  اللہ کو پہچانتے  تھے ، اپنی شریعت کے  حامل تھے ، ان میں کفر کی ایجاد نہیں  ہوئی تھی، یہ عراق کے  متصل آباد تھے ، یلوثا کہے  جاتے  تھے ، نبیوں کو مانتے  تھے ، ہر سال میں تیس روزے  رکھتے  تھے  اور یمن کی طرف منہ کر کے  دن بھر میں پانچ نمازیں بھی پڑھتے  تھے  اس کے  سوا اور قول بھی ہیں  چونکہ پہلے  دو جملوں کے  بعد انکا ذکر آیا تھا، اس لئے  رفع کے  ساتھ عطف ڈالا۔ ان تمام لوگوں سے  جناب باری فرماتا ہے  کہ "امن و امان والے  بے  ڈر اور بے  خوف وہ ہیں  جو اللہ پر اور قیامت پر سچا ایمان رکھیں اور نیک اعمال کریں اور یہ ناممکن ہے ، جب تک اس آخری رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان نہ ہو جو کہ تمام جن و انس کی طرف اللہ کے  رسول بنا کر بھیجے  گئے  ہیں ۔ پس آپ پر ایمان لانے  والے  آنے  والی زندگی کے  خطرات سے  بے  خوف ہیں  اور یہاں چھوڑ کر جانے  والی چیزوں کو انہیں  کوئی تمنا اور حسرت نہیں "۔ سورہ بقرہ کی تفسیر میں اس جملے  کے  مفصل معنی بیان کر دیئے  گئے  ہیں ۔

۷۰

سیاہ عمل یہود اور نصاریٰ

اللہ تعالیٰ نے  یہود و نصاریٰ سے  وعدے  لئے  تھے  کہ وہ اللہ کے  احکام کے  عامل اور وحی کے  پابند رہیں  گے ۔ لیکن انہوں نے  وہ میثاق توڑ دیا۔ اپنی رائے  اور خواہش کے  پیچھے  لگ گئے  کتاب اللہ کی جو بات ان کی منشا اور رائے  کے  مطابق تھی مان لی جس میں اختلاف نظر آیا ترک کر دی، نہ صرف اتنا ہی کیا بلکہ رسولوں کے  مخالف ہو کر بہت سے  رسولوں کو جھوٹا بتایا اور بہتیروں کو قتل بھی کر دیا کیونکہ ان کے  لائے  ہوئے  احکام ان کی رائے  اور قیاس کے  خلاف تھے  اتنے  بڑے  گناہ کے  بعد بھی بے  فکر ہو کر بیٹھے  رہے  اور سمجھ لیا کہ ہمیں کوئی سزا نہ ہو گی لیکن انہیں  زبردست روحانی سزا دی گئی یعنی وہ حق سے  دور پھینک دیئے  گئے  اور اس سے  اندھے  اور بہرے  بنا دیئے  گئے  نہ حق کو سنیں اور نہ ہدایت کو دیکھ سکیں لیکن پھر بھی اللہ نے  ان پر مہربانی کی افسوس اس کے  بعد بھی ان میں سے  اکثر حق سے  نابینا اور حق کے  سننے  سے  محروم ہی ہو گئے  اللہ ان کے  اعمال سے  باخبر ہے  وہ جانتا ہے  کہ کون کس چیز کا مستحق ہے ۔

۷۲

خود ساختہ معبود بنانا ناقابل معافی جرم ہے

نصرانیوں کے  فرقوں کی یعنی ملکیہ، یعقوبیہ، نسطوریہ کی کفر کی حالت بیان کی جا رہی ہے  کہ یہ مسیح ہی کو اللہ کہتے  ہیں  اور مانتے  ہیں ۔ اللہ ان کے  قول سے  پاک، منزہ اور مبرا ہے  مسیح تو اللہ کے  غلام تھے  سب سے  پہلا کلمہ ان کا دنیا میں قدم رکھتے  ہی گہوارے  میں ہی یہ تھا کہ انی عبد اللہ میں اللہ کا غلام ہوں ۔ انہوں نے  یہ نہیں  کہا تھا کہ میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں بلکہ اپنی غلامی کا اقرار کیا تھا اور ساتھ ہی فرمایا تھا کہ میرا اور تم سب کا رب اللہ ہی ہے  اسی کی عبادت کرتے  رہو سیدھی اور صحیح راہ یہی ہے  اور یہی بات اپنی جوانی کے  بعد کی عمر میں بھی کہی کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے  ساتھ دوسرے  کی عبادت کرنے  والے  یہ جنت حرام ہے  اور اس کیلئے  جہنم واجب ہے ۔ جیسے  قرآن کی اور آیت میں ہے  اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں  فرماتا۔ جہنمی جب جنتیوں سے  کھانا پانی مانگیں گے  تو اہل جنت کا یہی جواب ہو گا کہ یہ دونوں چیزیں کفار پر حرام ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے  بذریعہ منادی کے  مسلمانوں میں آواز لگوائی تھی کہ جنت میں فقط ایمان و اسلام والے  ہی جائیں گے ۔ سورہ نساء کی آیت ان اللہ لایغفر الخ، کی تفسیر میں وہ حدیث بھی بیان کر دی گئی ہے  جس میں ہے  کہ گناہ کے  تین دیوان ہیں  جس میں سے  ایک وہ ہے  جسے  اللہ نے  کبھی نہیں  بخشا اور وہ اللہ کے  ساتھ شرک کا ہے ۔ حضرت مسیح نے  بھی اپنی قوم میں یہی وعظ بیان کیا اور فرما دیا کہ ایسے  ناانصاف مشرکین کا کوئی مددگار بھی کھڑا نہ ہو گا۔ اب ان کا کفر بیان ہو رہا ہے  کہ جو اللہ کو تین میں سے  ایک مانتے  تھے  یہودی حضرت عزیز کو اور نصرانی حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا کہتے  تھے  اور اللہ تین میں کا ایک مانتے  تھے  پھر ان تینوں کے  مقرر کرنے  میں بھی بہت بڑا اختلاف تھا اور ہر فرقہ دوسرے  کو کافر کہتا تھا اور حق تو یہ ہے  کہ سبھی سب کافر تھے  حضرت عیسیٰ سے  فرمائے  گا کیا تم نے  لوگوں سے  کہوا تھا کہ مجھے  اور میری والدہ کو بھی اللہ مانو، وہ اس سے  صاف انکار کریں گے  اور اپنی لاعلمی اور بے  گناہی ظاہر کریں گے ۔ زیادہ ظاہر قول بھی یہی ہے  واللہ اعلم۔ دراصل لائق عبادت سوائے  اس ذات واحد کے  اور کوئی نہیں  تمام کائنات اور کل موجودات کا معبود برحق وہی ہے ۔ اگر یہ اپنے  اس کافرانہ نظریہ سے  باز نہ آئے  تو یقیناً یہ المناک عذابوں کا شکار ہوں گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے  کرم وجود کو، بخشش و انعام اور لطف و رحمت کو بیان فرما رہا ہے  اور باوجود ان کے  اس قدر سخت جرم، اتنی اشد بے  حیائی اور کذب و افترا کے  انہیں  اپنی رحمت کی دعوت دیتا ہے  اور فرماتا ہے  کہ اب بھی میری طرف جھک جاؤ ابھی سب معاف فرما دوں گا اور دامن رحمت تلے  لے  لوں گا۔ حضرت مسیح اللہ کے  بندے  اور رسول ہی تھے ۔ ان جیسے  رسول ان سے  پہلے  بھی ہوئے  ہیں  جیسے  فرمایا ان ھو الاعبد الخ، وہ ہمارے  ایک غلام ہی تھے  ہاں ہم نے  ان پر رحمت نازل فرمائی تھی اور بنی اسرائیل کیلئے  قدرت کی ایک نشانی بنائی۔ والدہ عیسیٰ مومنہ اور سچ کہنے  والی تھیں اس لئے  معلوم ہوا کہ نبیہ نہ تھیں کیونکہ یہ مقام وصف ہے  تو بہترین وصف جو آپ کا تھا وہ بیان کر دیا اگر نبوت والی ہوتیں تو اس موقعہ پر اس کا بیان نہایت ضروری تھا۔ ابن حرم وغیرہ کا خیال ہے  کہ ام اسحاق اور ام موسیٰ اور ام عیسیٰ نبیہ تھیں اور دلیل یہ دیتے  ہیں  کہ فرشتوں نے  حضرت سارہ اور حضرت مریم سے  خطاب اور کلام کیا اور والدہ موسیٰ کی نسبت فرمان ہے  واواحینا الی ام موسیٰ الخ، ہم نے  موسیٰ کی والدہ کی طرف وحی کی کہ تو انہیں  دودھ پلا۔ لیکن جمہور کا مذہب اس کے  خلاف ہے  وہ کہتے  ہیں  کہ نبوت مردوں میں ہی رہی۔ جیسے  قرآن کا فرمان ہے  وما ارسلنا قبلک الا رجالا الخ، تجھ سے  پہلے  ہم نے  بستی والوں میں سے  مردوں ہی کی طرف رسالت انعام فرمائی ہے  شیخ ابو الحسن اشعری نے  تو اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ پھر فرماتا ہے  کہ ماں بیٹا تو دونوں کھانے  پینے  کے  محتاج تھے  اور ظاہر ہے  کہ جو اندر جائے  گا وہ باہر بھی آئے  گا پس ثابت ہوا کہ وہ بھی مثل اوروں کے  بندے  ہی تھے  اللہ کی صفات ان میں نہ تھیں دیکھ تو ہم کس طرح کھول کھول کر ان کے  سامنے  اپنی حجتیں پیش کر رہے  ہیں ؟ پھر یہ بھی دیکھ کہ باوجود اس کے  یہ کس طرح ادھر ادھر بھٹکتے  اور بھاگتے  پھرتے  ہیں ؟ کسے  گمراہ مذہب قبول کر رہے  ہیں ؟ اور کیسے  ردی اور بے  دلیل اقوال کو گرہ میں باندھے  ہوئے  ہیں ؟

۷۶

معبود ان باطل کی جو اللہ کے  سوا ہیں  عبادت کرنے  سے  ممانعت کی جاتی ہے  کہ ان تمام لوگوں سے  کہہ تو دو کہ جو تم سے  ضرر کو دفع کرنے  کی اور نفع کے  پہنچانے  کی کچھ بھی طاقت نہیں  رکھتے ، آخر تم کیوں انہیں  پوجے  چلے  جا رہے  ہو؟ تمام باتوں کے  سننے  والے  تمام چیزوں سے  باخبر اللہ سے  ہٹ کر بے  سمع و بصر، بے  ضرر و بے  نفع و بے  قدر اور بے  قدرت چیزوں کے  پیچھے  پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے ؟ اے  اہل کتاب اتباع حق کی حدود سے  آگے  نہ بڑھو، جس کی توقیر کرنے  کا جتنا حکم ہو اتنی ہی اس کی توقیر کرو۔ انسانوں کو جنہیں  اللہ نے  نبوت دی ہے  نبوت کے  درجے  سے  معبود تک نہ پہنچاؤ۔ جیسے  کہ تم جناب مسیح کے  بارے  میں غلطی کر رہے  ہو اور اس کی اور کوئی وجہ نہیں  بجز اس کے  کہ تم اپنے  پیروں مرشدوں استادوں اور اماموں کے  پیچھے  لگ گئے  ہو وہ تو خود ہی گمراہ ہیں  بلکہ گمراہ کن ہیں ۔ استقامت اور عدل کے  راستے  کو چھوڑے  ہوئے  انہیں  زمانہ گزر گیا۔ ضلالت اور بدعتوں میں مبتلا ہوئے  عرصہ ہو گیا۔ ابن ابی حاتم میں ہے  کہ ایک شخص ان میں بڑا پابند دین حق تھا ایک زمانہ کے  بعد شیطان نے  اسے  بہکا دیا کہ جو اگلے  کر گئے  وہی تم بھی کر رہے  ہو اس میں کیا رکھا ہے ؟ اس کی وجہ سے  نہ تو لوگوں میں تمہاری قدر ہو گی نہ شہرت تمہیں  چاہئے  کہ کوئی نئی بات ایجاد کرو اسے  لوگوں میں پھیلاؤ پھر دیکھو کہ کیسی شہرت ہوتی ہے ؟ اور کس طرح جگہ بہ جگہ تمہارا ذکر ہونے  لگتا ہے  چنانچہ اس نے  ایسا ہی کیا اس کی بدعتیں لوگوں میں پھیل گئیں اور زمانہ اس کی تقلید کرنے  لگا۔ اب تو اسے  بڑی ندامت ہوئی سلطنت و ملک چھوڑ دیا اور تنہائی میں اللہ کی عبادتوں میں مشغول ہو گیا لیکن اللہ کی طرف سے  اسے  جواب ملا کر میری خطا ہی صرف کی ہوتی تو میں معاف کر دیتا لیکن تو نے  عام لوگوں کو بگاڑ دیا اور انہیں  گمراہ کر کے  غلط راہ پر لگا دیا۔ جس راہ پر چلتے  چلتے  وہ مر گئے  ان کا بوجھ تجھ پر سے  کیسے  ٹلے  گا؟ میں تو تیری توبہ قبول نہیں  فرماؤں گا پس ایسوں ہی کے  بارے  میں یہ آیت اتری ہے ۔

۷۸

امر معروف سے گریز کا انجام

ارشاد ہے  کہ بنو اسرائیل کے  کافر پرانے  ملعون ہیں ، حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی انہی کے  زمانہ میں ملعون قرار پا چکے  ہیں ۔ کیونکہ وہ اللہ کے  نافرمان تھے  اور مخلوق پر ظالم تھے ، توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں ۔ یہ اپنے  زمانہ میں بھی ایک دوسرے  کو برے  کاموں دیکھتے  تھے  لیکن چپ چاپ بیٹھے  رہتے  تھے ، حرام کاریاں اور گناہ کھلے  عام ہوتے  تھے  اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا۔ یہ تھا ان کا بدترین فعل۔ مسند احمد میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے  کہ "بنو اسرائیل میں پہلے  پہل جب گناہوں کا سلسلہ چلا تو ان کے  علماء نے  انہیں  روکا۔ لیکن جب دیکھا کہ باز نہیں  آتے  تو انہوں نے  انہیں  الگ نہیں  کیا بلکہ انہی کے  ساتھ اٹھتے  بیٹھتے  کھاتے  پیتے  رہے ، جس کی وجہ سے  دونوں گروہوں کے  دلوں میں آپس میں ٹکرا دیا اللہ تعالیٰ نے  ایک دوسرے  کے  دل بھڑا دیئے  اور حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ کی زبانی ان پر اپنی لعنت نازل فرمائی۔ کیونکہ وہ نافرمان اور ظالم تھے ۔ اس کے  بیان کے  وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم ٹیک لگائے  ہوئے  تھے  لیکن اب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے  اور فرمایا نہیں  نہیں  اللہ کی قسم تم پر ضروری ہے  کہ لوگوں کو خلاف شرع باتوں سے  روکو اور انہیں  شریعت کی پابندی پر لاؤ۔ "، ابو داؤد کی حدیث میں ہے  کہ "سب سے  پہلے  برائی بنی اسرائیل میں داخل ہوئی تھی کہ ایک شخص دوسرے  کو خلاف شرع کوئی کام کرتے  دیکھتا تو اسے  روکتا، اسے  کہتا کہ اللہ سے  ڈر اور اس برے  کام کو چھوڑ دے ۔ یہ حرام ہے ۔ لیکن دوسرے  روز جب وہ نہ چھوڑتا تو یہ اس سے  کنارہ کشی نہ کرتا بلکہ اس کا ہم نو آلہ پیالہ رہتا اور میل جول باقی رکھتا، اس وجہ سے  سب میں ہی سنگدلی آ گئی۔ پھر آپ نے  اس پوری آیت کی تلاوت کر کے  فرمایا واللہ تم پر فرض ہے  کہ بھلی باتوں کا ہر ایک کو حکم کرو، برائیوں سے  روکو، ظالم کو اس کے  ظلم سے  باز رکھو اور اسے  تنگ کرو کہ حق پر آ جائے ۔ " ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے ۔ ابو داؤد وغیرہ میں اسی حدیث کے  آخر میں یہ بھی ہے  کہ اگر تم ایسا نہ کرو گے  تو اللہ تمہارے  دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے  کے  ساتھ ٹکرا دے  گا اور تم پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے  گا جیسی ان پر نازل فرمائی۔ اس بارے  میں اور بہت سی حدیثیں ہیں  کچھ سن بھی لیجئے  حضرت جابر والی حدیث تو آیت لولا ینھاھم الربانیون الخ، کی تفسیر میں گزر چکی اور یا ایھا الذین امنوا علیکم انفسکم کی تفسیر میں حضرت ابوبکر اور حضرت ابو ثعلبہ کی حدیثیں آئیں گی، انشاء اللہ تعالیٰ۔ مسند اور ترمذی ہے  کہ "یا تو تم بھلائی کا حکم اور برائی سے  منع کرتے  رہو گے  یا اللہ تم پر اپنی طرف سے  کوئی عذاب بھیج دے  گا پھر تم اس سے  دعائیں بھی کرو گے  لیکن وہ قبول نہیں  فرمائے  گا۔ " ابن ماجہ میں ہے  "اچھائی کا حکم اور برائی سے  ممانعت کرو اس سے  پہلے  کہ تمہاری دعائیں قبول ہونے  سے  روک دی جائیں ۔ " صحیح حدیث میں ہے  "تم میں سے  جو شخص خلاف شرع کام دیکھے ، اس پر فرض ہے  کہ اسے  اپنے  ہاتھ سے  مٹائے  اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے ، اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے  اور بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے " (مسلم) مسند احمد میں ہے  "اللہ تعالیٰ خاص لوگوں کے  گناہوں کی وجہ سے  عام لوگوں کو عذاب نہیں  کرتام لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے  انکار نہ کریں، اس وقت عام خاص سب کو اللہ تعالیٰ عذاب میں گھیر لیتا ہے ۔ " ابو داؤد میں ہے  کہ جس جگہ اللہ کی نافرمانی ہونی شروع ہو وہاں جو بھی ہو، ان خلاف شرع امور سے  ناراض ہو (ایک اور روایت میں ہے  ان کا انکار کرتا ہو) وہ مثل اس کے  ہے  جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جو ان خطاؤں سے  راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے  گویا ان میں حاضر ہے ۔ ابو داؤد میں ہے  لوگوں کے  عذر جب تک ختم نہ ہو جائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے ۔ ابن ماجہ میں ہے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اپنے  خطبے  میں فرمایا خبردار کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت حق بات کہنے  سے  روک نہ دے ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو سعید خدری رو پڑے  اور فرمانے  لگے  افسوس ہم نے  ایسے  موقعوں پر لوگوں کی ہیبت مان لی۔ ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے  افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشاہ کے  سامنے  کہہ دینا ہے  ابن ماجہ میں ہے  کہ جمرۂ اولیٰ کے  پاس حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  سامنے  ایک شخص آیا اور آپ سے  سوال کیا کہ سب سے  افضل جہاد کون سا ہے ؟ آپ خاموش رہے ۔ پھر آپ جمرۂ ثانیہ پر آئے  تو اس نے  پھر وہی سوال کیا مگر آپ خاموش ہو رہے  جب جمرۂ عقبہ پر کنکر مار چکے  اور سواری پر سوار ہونے  کے  ارادے  سے  رکلب میں پاؤں رکھے  تو دریافت فرمایا کہ وہ پوچھنے  والا کہاں ہے ؟ اس نے  کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوں فرمایا حق بات ظالم بادشاہ کے  سامنے  کہہ دینا۔ ابن ماجہ میں ہے  کہ تم میں سے  کسی شخص کو اپنی بے  عزتی نہ کرنی چاہئے  لوگوں نے  پوچھا؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ کیسے ؟ فرمایا خلاف شرع کوئی امر دیکھے  اور کچھ نہ کہے  قیامت کے  دن اس سے  باز پرس ہو گی کہ فلاں موقعے  پر تو کیوں خاموش رہا؟ یہ جواب دے  گا کہ لوگوں کے  ڈر کی وجہ سے  تو اللہ تعالیٰ فرمائے  گا میں سب سے  زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے  خوف کھائے ۔ ایک روایت میں ہے  کہ جب اسے  اللہ تلقین حجت کرے  گا تو یہ کے  گا کہ تجھ سے  تو میں نے  امید رکھی اور لوگوں سے  خوف کھا گیا۔ مسند احمد میں ہے  کہ مسلمانوں کو اپنے  تئیں ذلیل نہ کرنا چاہئے ۔ لوگوں نے  پوچھا کیسے ؟ فرمایا ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔ ابن ماجہ میں ہے  کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  سوال کیا گیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب چھوڑی جائے ؟ فرمایا اس وقت جب تم میں بھی وہی خرابی ہو جائے  جو تم سے  اگلوں میں ظاہر ہوئی تھی ہم نے  پوچھا وہ کیا چیز ہے ؟ فرمایا کمینے  آدمیوں میں سلطنت کا چلا جانا۔ بڑے  آدمیوں میں بدکاری کا آ جانا۔ رذیلوں میں علم کا آ جانا۔ حضرت زید کہتے  ہیں  رذیلوں میں علم آ جانے  سے  مراد فاسقوں میں علم کا آ جانا ہے ۔ اس حدیث کی شاہد حدیثیں ابو ثعلبہ کی روایت سے  آیت لایضرکم کی تفسیر میں آئیں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ پھر فرماتا ہے  کہ اکثر منافقوں کو تو دیکھے  گا کہ وہ کافروں سے  دوستیاں گانٹھتے  ہیں  ان کے  اس فعل کی وجہ سے  یعنی مسلمانوں سے  دوستیاں چھوڑ کر کافروں سے  دوستیاں کرنے  کی وجہ سے  انہوں نے  اپنے  لئے  برا ذخیرہ جمع کر رکھا ہے ۔ اس کی پاداش میں ان کے  دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا ہے ۔ اور اسی بناء پر اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے  اور قیامت کے  دن کیلئے  دائمی عذاب بھی ان کیلئے  آگے  آ رہے  ہیں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے  اسے  مسلمانو، زنا کاری سے  بچو، اس سے ۔ چھ برائیاں آتی ہیں ، تین دنیا میں اور تین آخرت میں ۔ اس سے  عزت و وقار، رونق و تازگی جاتی رہتی ہے ۔ اس سے  فقرو فاقہ آ جاتا ہے ۔ اس سے  عمر گھٹتی ہے  اور قیامت کے  دن تین برائیاں یہ ہیں  اللہ کا غضب، حساب کی سختی اور برائی، اور جہنم کا خلود۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  اسی آخری جملے  کی تلاوت فرمائی۔ یہ حدیث ضعیف ہے  واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے  اگر یہ لوگ اللہ پر اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اور قرآن پر پورا ایمان رکھتے  تو ہرگز کافروں سے  دوستیاں نہ کرتے  اور چھپ چھپا کر ان سے  میل ملاپ جاری نہ رکھتے ۔ نہ سچے  مسلمانوں سے  دشمنیاں رکھتے ۔ دراصل بات یہ ہے  کہ ان میں سے  اکثر لوگ فاسق ہیں  یعنی اللہ اور اس کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت سے  خارج ہو کے  ہیں  اس کی وحی اور اس کے  پاک کلام کی آیتوں کے  مخالف بن بیٹھے  ہیں ۔

۸۲

یہودیوں کا تاریخی کردار

یہ آیت اور اس کے  بعد کی چار آیتیں نجاشی اور ان کے  ساتھیوں کے  بارے  میں اتری ہیں ۔ جب ان کے  سامنے  حبشہ کے  ملک میں حضرت جعفر بن ابو طالب نے  قرآن کریم پڑھا تو ان کی آنکھوں سے  آنسو جاری ہو گئے  اور ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں ۔ یہ خیال رہے  کہ یہ آیتیں مدینے  میں اتری ہیں  اور حضرت جعفر کا یہ واقعہ ہجرت سے  پہلے  کا ہے ۔ یہ بھی مروی ہے  کہ یہ آیتیں اس وفد کے  بارے  میں نازل ہوئی ہیں  جسے  نجاشی نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیجا تھا کہ وہ آپ سے  ملیں، حاضر خدمت ہو کر آپ کے  حالات و صفات دیکھیں اور آپ کا کلام سنیں ۔ جب یہ آئے  آپ سے  ملے  اور آپ کی زبان مبارک سے  قرآن کریم سنا تو ان کے  دل نرم ہو گئے  بہت روئے  دھوئے  اور اسلام قبول کیا اور واپس جا کر نجاشی سے  سب حال کہا نجاشی اپنی سلطنت چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہجرت کر کے  آنے  لگے  لیکن راستے  میں ہی انتقال ہو گیا۔ یہاں بھی یہ خیال رہے  کہ یہ بیان صرف سدی کا ہے  اور صحیح روایات سے  یہ ثابت ہے  کہ وہ حبشہ میں ہی سلطنت کرتے  ہوئے  فوت ہوئے  ان کے  انتقال والے  دن ہی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  صحابہ کو ان کے  انتقال کی خبر دی اور ان کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی۔ بعض تو کہتے  ہیں  اس وفد میں سات تو علماء تھے  اور پانچ زاہد تھے  یا پانچ علماء اور سات زاہد تھے ۔ بعض کہتے  ہیں  یہ کل پچاس آدمی تھے  اور کہا گیا ہے  کہ ساٹھ سے  کچھ اوپر تھے  ایک قول یہ بھی ہے  کہ یہ ستر تھے ۔ فاللہ اعلم۔ حضرت عطا فرماتے  ہیں  جن کے  اوصاف آیت میں بیان کئے  گئے  ہیں  یہ اہل حبشہ ہیں ۔ مسلمان مہاجرین حبشہ جب ان کے  پاس پہنچے  تو یہ سب مسلمان ہو گئے  تھے ۔ حضرت قتادہ فرماتے  ہیں  پہلے  یہ دین عیسوی پر قائم تھے  لیکن جب انہوں نے  مسلمانوں کو دیکھا اور قرآن کریم کو سنا تو فوراً سب مسلمان ہو گئے ۔ امام ابن جریر کا فیصلہ ان سب اقوال کو ٹھیک کر دیتا ہے  اور فرماتے  ہیں  کہ یہ آیتیں ان لوگوں کے  بارے  میں ہیں  جن میں یہ اوصاف ہوں خواہ وہ حبشہ کے  ہوں یا کہیں  کے ۔ یہودیوں کو مسلمانوں سے  جو سخت دشمنی ہے  اس کی وجہ یہ ہے  کہ ان میں سرکشی اور انکار کا مادہ زیادہ ہے  اور جان بوجھ کر کفر کرتے  ہیں  اور ضد سے  ناحق پر اڑتے  ہیں ، حق کے  مقابلہ میں بگڑ بیٹھتے  ہیں  حق والوں پر حقارت کی نظریں ڈالتے  ہیں  ان سے  بغض و بیر رکھتے  ہیں ۔ علم سے  کورے  ہیں  علماء کی تعداد ان میں بہت ہی کم ہے  اور علم اور ذی علم لوگوں کی کوئی وقعت ان کے  دل میں نہیں  یہی تھے  جنہوں نے  بہت سے  انبیاء کو قتل کیا خود پیغمبر الزمان احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے  قتل کا ارادہ بھی کیا اور ایک دفعہ نہیں  بلکہ بار بار۔ آپ کو زہر دیا، آپ پر جادو کیا اور اپنے  جیسے  بدباطن لوگوں کو اپنے  ساتھ ملا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر حملے  کئے  لیکن اللہ نے  ہر مرتبہ انہیں  نامراد اور ناکام کیا۔ ابن مردویہ میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے  ہیں  جب کبھی کوئی یہودی کسی مسلمانوں کو تنہائی میں پاتا ہے  اس کے  دل میں اس کے  قتل کا قصد پیدا ہوتا ہے  ایک دوسری سند سے  بھی یہ حدیث مروی ہے  لیکن ہے  بہت ہی غریب ہاں مسلمانوں سے  دوستی میں زیادہ قریب وہ لوگ ہیں  جو اپنے  تئیں نصاریٰ کہتے  ہیں  حضرت مسیح کے  تابعدار ہیں  انجیل کے  اصلی اور صحیح طریقے  پر قائم ہیں  ان میں ایک حد تک فی الجملہ مسلمانوں اور اسلام کی محبت ہے  یہ اس لئے  کہ ان میں نرم دلی ہے  جیسے  ارشاد باری وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ و رحمۃ الخ، یعنی حضرت عیسیٰ کے  تابعداروں کے  دلوں میں ہم نے  نرمی اور رحم ڈال دیا ہے ۔ ان کی کتاب میں حکم ہے  کہ جو تیرے  داہنے  کلے  پر تھپڑ مارے  تو اس کے  سامنے  بیاں کلہ بھی پیش کر دے ۔ ان کی شریعت میں لڑائی ہے  ہی نہیں ۔ یہاں ان کی اس دوستی کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان میں خطیب اور واعظ ہیں  قسسین اور قس کی قسیسین ہے  قسوس بھی اس کی جمع آتی ہے  رھبان جمع ہے  راہب کی، راہب کہتے  ہیں  عابد کو۔ یہ لفظ مشتق ہے  رہب سے  اور رہبت کے  معنی ہیں  خوف اور ڈر کے ۔ جیسے  راکب کی جمع رکبان ہے  اور فرسان ہے  امام ابن جریر فرماتے  ہیں  کبھی رہبان واحد کیلئے  بھی آتا ہے  اور اس کی جمع رہابین آتی ہے  جیسے  قربان اور قرابین اور جوازن اور جوازین اور کبھی اس کی جمع رہابنہ بھی آتی ہے ۔ عرب کے  اشعار میں بھی لفظ رہبان واحد کیلئے  آیا۔ حضرت سلمان سے  ایک شخص قسیسین و رھبانا پڑھ کر اس کے  معنی دریافت کرتا ہے  تو آپ فرماتے  ہیں  قسیسین کو خانقا ہوں اور غیر آباد جگہوں میں چھوڑ مجھے  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  صدیقین و رھبانا پڑھایا (بزار اور ابن مردویہ) الغرض ان کے  تین اوصاف یہاں بیان ہوئے  ہیں  ان میں عالموں کا ہونا۔ ان میں عابدوں کا ہونا۔ ان میں تواضع فروتنی اور عاجزی کا ہونا۔

۸۳

ایمان والو کی پہچان

اوپر بیان گزر چکا ہے  کہ عیسائیوں میں سے  جو نیک دل لوگ اس پاک مذہب اسلام کو قبول کئے  ہوئے  ہیں  ان میں جو اچھے  اوصاف ہیں  مثلاً عبادت، علم، تواضع، انکساری وغیرہ، ساتھ ہی ان میں رحمدلی وغیرہ بھی ہے  حق کی قبولیت بھی ہے  اللہ کے  احکامات کی اطلاعت بھی ہے  ادب اور لحاظ سے  کلام اللہ سنتے  ہیں، اس سے  اثر لیتے  ہیں  اور نرم دلی سے  رو دیتے  ہیں  کیونکہ وہ حق کے  جاننے  والے  ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے  بشارت سے  پہلے  ہی آگاہ ہو چکے  ہیں  ۔ اس لئے  قرآن سنتے  ہی دل موم ہو جاتے  ہیں  ۔ ایک طرف آنکھیں آنسو بہانے  لگتی ہیں  دوری جانب زبان سے  حق کو تسلیم کرتے  ہیں  ۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں  یہ آیتیں حضرت نجاشی اور ان کے  ساتھیوں کے  بارے  میں نازل ہوئی ہیں  ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے  کہ کچھ لوگ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے  ساتھ جشہ سے  آئے  تھے  حضور کی زبان مبارک سے  قرآن کریم سن کر ایمان لائے  اور بے  تحاشہ رونے  لگے  ۔ آپ نے  ان سے  دریاف فرمایا کہ کہیں  اپنے  وطن پہنچ کر اس سے  پھر تو نہیں  جاؤ گے ؟ انہوں ں ے  کہا ناممکن ہے  اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے  ۔ حضرت ابن عباس فرماتے  ہیں  شاہدوں سے  مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ کی شہادت ہے  پھر اس قسم کے  نصرانیوں کا ایک اور وصف بیان ہو رہا ہے  ان ہی کا دوسرا وصف اس آیت میں ہے  آیت (وان من اہل الکتاب لمن یومن باللہ و ما انزل الیکم و ما انزل الیھم خاشعین للہ) الخ، یعنی اہل کتاب میں ایسے  لوگ بھی ہیں  جو اللہ پر اور اس قرآن پر اور جوان پر نازل کیا گیا ہے  سب پر ایمان رکھتے  ہیں  اور پھر اللہ سے  ڈرنے  والے  بھی ہیں  ۔ ان ہی کے  بارے  میں فرمان ربانی آیت (الذین اتیناھم الکتاب من قبلہ ہم بہ یومنون سے  لا نتبغی الجاھلین) تک ہے  ۔ کہ یہ لوگ اس کتاب کو اور اس کتاب کو سچ جانتے  ہیں  اور دونوں پر ایمان رکھتے  ہیں  ۔ پس یہاں بھی فرمایا کہ وہ کہتے  ہیں  کہ جب ہمیں صالحین میں ملنا ہے  تو اللہ پر اور اس کی اس آخری کتاب پر ہم ایمان کیوں نہ لائیں ؟ ان کے  اس ایمان و تصدیق اور قبولیت حق کا بدلہ اللہ نے  انہیں  یہ دیا کہ وہ ہمیشہ رہنے  والے  ترو تازہ باغات و چشموں والی جنتوں میں جائیں گے  ۔ محسن، نیکو کار، مطیع حق، تابع فرمان الٰہی لوگوں کی جزا یہی ہے، وہ کہیں  کے  بھی ہوں کوئی بھی ہوں ۔ جو ان کے  خلاف ہیں  انجام کے  لحاظ سے  بھی ان کے  برعکس ہیں، کفرو تکذب اور مخالفت یہاں ان کا شیوہ ہے  اور وہاں جہنم ان کا ٹھکانا ہے  ۔

۸۷

رہبانیت (خانقاہ نشینی) اسلام میں ممنوع ہے

ابن ابی حاتم میں ہے  کہ چند صحابہ نے  آپس میں کہا کہ ہم خصی ہو جائیں، دنیوی لذتوں کو ترک کر دیں، بستی چھوڑ کر جنگلوں میں جا کر تارک دنیا لوگوں کی طرح زندگی یاد الٰہی میں بسر کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی یہ باتیں معلوم ہو گئیں، آپ نے  انہیں  یاد فرمایا اور ان سے  پوچھا، انہوں نے  اقرار کیا، اس پر آپ نے  فرمایا تم دیکھ نہیں  رہے ؟ کہ میں نفلی روزے  رکھتا ہوں اور نہیں  بھی رکھتا ۔ رات کو نفلی نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں ۔ میں نے  نکاح بھی کر رکھے  ہیں  ۔ سنو جو میرے  طریقے  پر ہو وہ تو میرا ہے  اور جو میری سنتوں کو نہ لے  وہ میرا نہیں  ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے  کہ "لوگوں نے  امہات المومنین سے  حضور کے  اعمال کی نسبت سوال کیا پھر بعض نے  کہا کہ ہم گوشت نہیں  کھائیں گے  بعض نے  کہا ہم نکاح نہیں  کریں گے  بعض نے  کہا ہم بستر پر سوئیں گے  ہی نہیں ، جب یہ واقعہ حضور کے  گوش گزار ہوا تو آپ نے  فرمایا ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے  کہ ان میں سے  بعض یوں کہتے  ہیں  حالانکہ میں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں  بھی رکھتا، سوتا بھی ہوں اور تہجد بھی پڑھتا ہوں، گوشت بھی کھاتا ہوں اور نکاح بھی کئے  ہوئے  ہوں جو میری سنت سے  منہ موڑے  وہ میرا نہیں  ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے  کہ کسی شخص نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ گوشت کھانے  سے  میری قوت باہ بڑھ جاتی ہے  اس لئے  میں نے  اپنے  اوپر گوشت کو حرام کر لیا ہے  اس پر یہ آیت اتری۔ امام ترمذی اسے  حسن غریب بتاتے  ہیں  اور سند سے  بھی یہ روایت مرسلاً مروی ہے  اور موقوفا بھی واللہ اعلم ۔ بخاری و مسلم میں ہے  حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ماتحتی میں جہاد کرتے  تھے  اور ہمارے  ساتھ ہماری بیویاں نہیں  ہوتی تھیں تو ہم نے  کہا اچھا ہو گا اگر ہم خصی ہو جائیں لیکن اللہ کے  رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  ہمیں اس سے  روکا اور مدت معینہ تک کیلئے  کپڑے  کے  بدلے  پر نکاح کرنے  کی رخصت ہمیں عطا فرمائی پھر حضرت عبد اللہ نے  یہی آیت پڑھی ۔ یہ یاد رہے  کہ یہ نکاح کا واقعہ متعہ کی حرمت سے  پہلے  کا ہے  واللہ اعلم۔ ۔ معقل بن مقرن نے  حضرت عبد اللہ بن مسعود کو کہا کہ میں نے  تو اپنا بستر اپنے  اوپر حرام کر لیا ہے  تو آپ نے  یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ حضرت ابن مسعود کے  سامنے  کھانا لایا جاتا ہے  تو ایک شخص اس مجمع سے  الگ ہو جاتا ہے  آپ اسے  بلاتے  ہیں  کہ آؤ ہمارے  ساتھ کھا لو وہ کہتا ہے  میں نے  تو اس چیز کا کھانا اپنے  اوپر حرام کر رکھا ہے  ۔ آپ فرماتے  ہیں  آؤ کھا لو اپنی قسم کا کفارہ دے  دینا، پھر آپ نے  اسی آیت کی تلاوت فرمائی (مستدرک حاکم) ابن ابی حاتم میں ہے  کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے  گھر کوئی مہمان آئے  آپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے  پاس سے  رات کو جب واپس گھر پہنچے  تو معلوم ہوا کہ گھر والوں نے  آپ کے  انتظار میں اب تک مہمان کو بھی کھانا نہیں  کھلایا ۔ آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمایا تم نے  میری وجہ سے  مہمان کو بھوکا رکھا، یہ کھانا مجھ پر حرام ہے  ۔ بیوی صاحبہ بھی ناراض ہو کر یہی کہہ بیٹھیں مہمان نے  دیکھ کر اپنے  اوپر بھی حرام کر لیا اب تو حضرت عبد اللہ بہت گھبرائے  کھانے  کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سب سے  کہا چلو بسم اللہ کرو کھا پی لیا پھر جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے  سارا واقعہ کہہ سنایا پس یہ آیت اتری، لیکن اثر منقطع ہے، صحیح بخاری شریف میں اس جیسا ایک قصہ حضرت ابوبکر صدیق کا اپنے  مہمانوں کے  ساتھ کا ہے  اس سے  امام شافعی وغیرہ علماء کا وہ قوم ثابت ہوتا ہے  کہ جو شخص علاوہ عورتوں کے  کسی اور کھانے  پینے  کی چیز کو اپنے  اوپر حرام کر لے  تو وہ اس پر حرام نہیں  ہو جاتی اور نہ اس پر اس میں کوئی کفارہ ہے ، دلیل یہ آیت اور دوسری وہ حدیث ہے  جو اوپر گزر چکی کہ جس شخص نے  اپنے  اوپر گوشت حرام کر لیا تھا اسے  حضور نے  کسی کفارے  کا حکم نہیں  فرمایا ۔ لیکن امام احمد اور ان کے  ہم خیال جماعت علماء کا خیال ہے  کہ جو شخص کھانے  پہننے  وغیرہ کی کسی چیز کو اپنے  اوپر حرام کر لے  تو اس پر قسم کا کفارہ ہے  ۔ جیسے  اس شخص پر جو کسی چیز کے  ترک پر قسم کھا لے  ۔ حضرت ابن عباس کا فتویٰ یہی ہے  اور اس کی دلیل یہ آیت (یا یھا النبی لم تحرم) الخ، بھی ہے  اور اس آیت کے  بعد ہی کفارہ قسم کا ذکر بھی اسی امر کا مقتضی ہے  کہ یہ حرمت قائم مقام قسم کے  ہے  واللہ اعلم ۔ حضرت مجاہد فرماتے  ہیں  بعض حضرات نے  ترک دنیا کا، خصی ہو جانے  کا اور ٹاٹ پہننے  کا عزم مصمم کر لیا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ ایک روایت میں ہے  کہ حضرت عثمان بن مظعون، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت مقداد بن اسود، حضرت سالم مولی، حضرت ابی حذیفہ وغیرہ ترک دنیا کا ارادہ کر کے  گھروں میں بیٹھ رہے  باہر آنا جانا ترک کر دیا عورتوں سے  علیحدگی اختیار کر لی ٹاٹ پہننے  لگے  اچھا کھانا اور اچھا پہننا حرام کر لیا اور نبی اسرائیل کے  عابدوں کی وضع کر لی بلکہ ارادہ کر لیا کہ خصی ہو جائیں تاکہ یہ طاقت ہی سلب ہو جائے  اور یہ بھی نیت کر لی کہ تمام راتیں عبادت میں اور تمام دن روزے  میں گزاریں گے  اس پر یہ آیت اتری یعنی یہ خلاف سنت ہے  ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  انہیں  بلا کر فرمایا کہ تمہاری جانوں کا تم پر حق ہے، تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے  ۔ نفل روزے  رکھو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دو ۔ نفل نماز رات کو پڑھو اور کچھ دیر سو بھی جاؤ جو ہماری سنت کو چھوڑ دے  وہ ہم میں سے  نہیں  اس پر ان بزرگوں نے  فرمایا یا اللہ ہم نے  سنا اور جو فرمان ہوا اس پر ہماری گردنیں خم ہیں  ۔ یہ واقعہ بہت سے  تابعین سے  مرسل سندوں سے  مروی ہے  ۔ اس کی شاہد وہ مرفوع حدیث بھی ہے  جو اوپر بیان ہو چکی ۔ فالحمد اللہ ۔ ابن جریر میں ہے  کہ ایک دن رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے  صحابہ کے  سامنے  وعظ کیا اور اس میں خوف اور ڈر کا ہی بیان تھا اسے  سن کر دس صحابیوں نے  جن میں حضرت علی، حضرت عثمان بن مظعون وغیرہ تھے  آپس میں کہا کہ ہمیں تو کوئی بڑے  بڑے  طریقے  عبادت کے  اختیار کرنا چاہئیں نصرانیوں کو دیکھو کہ انہوں نے  اپنے  نفس پر بہت سی چیزیں حرام کر رکھی ہیں  اس پر کسی نے  گوشت اور چربی وغیرہ کھانا اپنے  اوپر حرام کیا، کسی نے  دن کو کھانا بھی حرام کر لیا، کسی نے  رات کی نیند اپنے  اوپر حرام کر لی، کسی نے  عورتوں سے  مباشرت حرام کر لی ۔ حضرت عثمان بن مظعون نے  اپنی بیوی سے  میل جول اسی بنا پر ترک کر دیا ۔ میاں بیوی اپنے  صحیح تعلقات سے  الگ رہنے  لگے  ایک دن یہ بیوی صاحبہ حضرت خولہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کے  پاس آئیں وہاں حضور کی ازواج مطہرات بھی تھیں انہیں  پراگندہ حالت میں دیکھ کر سب نے  پوچھا کہ تم نے  اپنا یہ حلیہ کیا بنا رکھا ہے ؟ نہ کنگھی نہ چوٹی کی خبر ہے  نہ لباس ٹھیک ٹھاک ہے  نہ صفائی اور خوبصورتی کا خیال ہے ؟ کیا بات ہے ؟ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے  فرمایا مجھے  اب اس بناؤ سنگار کی ضرورت ہی کیا رہی ؟ اتنی مدت ہوئی جو میرے  میاں مجھ سے  ملے  ہی نہیں  نہ کبھی انہوں نے  میرا کپڑا ہٹایا، یہ سن کر اور بیویاں ہنسنے  لگیں اتنے  میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے  اور دریاف فرمایا کہ یہ ہنسی کیسی ہے ؟ حضرت عائشہ نے  سارا واقعہ بیان فرمایا آپ نے  اسی وقت آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو بلوایا اور فرمایا یہ کیا قصہ ہے ؟ حضرت عثمان نے  کل واقعہ بیان کر کے  کہا کہ میں نے  اسے  اس لئے  چھوڑ رکھا ہے  کہ اللہ کی عبادت دلچسپی اور فارغ البالی سے  کر سکوں بلکہ میرا ارادہ ہے  کہ میں خصی ہو جاؤں تاکہ عورتوں کے  قابل ہی نہ رہوں ۔ آپ نے  فرمایا میں تجھے  قسم دیتا ہوں جا اپنی بیوی سے  میل کر لے  اور اس سے  بات چیت کر ۔ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تو میں روزے  سے  ہوں فرمایا جاؤ روزہ توڑ ڈالو چنانچہ انہوں نے  حکم برداری کی، روزہ توڑ دیا اور بیوی سے  بھی ملے  ۔ اب پھر جو حضرت خولاء آئیں تو وہ اچھی ہئیت میں تھیں ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے  ہنس کر پوچھا کہو اب کیا حال ہے  جواب دیا کہ اب حضرت عثمان نے  اپنا عہد توڑ دیا ہے  اور کل وہ مجھ سے  ملے  بھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  لوگوں میں فرمایا لوگو یہ تمہارا کیا حال ہے  کہ کوئی بیویاں حرام کر رہا ہے، کوئی کھانا، کوئی سونا۔ تم نہیں  دیکھتے  کہ میں سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں اور روزے  سے  بھی رہتا ہوں ۔ عورتوں سے  ملتا بھی ہوں نکاح بھی کر رکھے  ہیں ۔ سنو جو مجھ سے  بے  رغبتی کرے  وہ مجھ سے  نہیں  ہے ، اس پر یہ آیت اتری ۔ حد سے  نہ گزرو سے  مطلب یہ ہے  کہ عثمان کو خصی نہیں  ہونا چاہیے ۔ یہ حد سے  گزر جانا ہے  اور ان بزرگوں کو اپنی قسموں کا کفارہ ادا کرنے  کا حکم ہوا اور فرمایا آیت (لا یواخذ کم اللہ) الخ، پس لا تعتدوا سے  مراد یا تو یہ ہے  کہ اللہ نے  جن چیزوں کو تمہارے  لئے  مباح کیا ہے  تم انہیں  اپنے  اوپر حرام کر کے  تنگی نہ کرو اور یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے  کہ حلال بقدر کفایت لے  لو اور اس حد سے  آگے  نہ نکل جاؤ ۔ جیسے  فرمایا کھاؤ پیو لیکن حد سے  نہ بڑھو ۔ ایک اور آیت میں ہے  ایمانداروں کا ایک وصف یہ بھی ہے  کہ وہ خرچ کرنے  میں اسراف اور بخیلی کے  درمیان درمیان رہتے  ہیں  ۔ پس افراط و تفریط اللہ کے  نزدیک بری بات ہے  اور درمیانی روش رب کو پسند ہے  ۔ اسی لئے  یہاں بھی فرمایا حد سے  گزر جانے  والوں کو اللہ نا پسند فرماتا ہے  ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ جو حلال و طیب چیزیں تمہیں  دے  رکھی ہیں  انہیں  کھاؤ پیو اور اپنے  تمام امور میں اللہ سے  ڈرتے  رہو اس کی اطاعت اور طلب رضا مندی میں رہا کرو ۔ اس کی نافرمانی اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے  الگ رہو ۔ اسی اللہ پر تم یقین رکھتے  ہو، اسی پر تمہارا ایمان ہے  پس ہر امر میں اس کا لحاظ رکھو۔

۸۹

غیر ارادی قسمیں اور کفارہ

لغو قسمیں کیا ہوتی ہیں ؟ ان کے  کیا احکام ہیں ؟ یہ سب سورۃ بقرہ کی تفسیر میں بالتفصیل بیان کر چکے  ہیں  اس لئے  یہاں ان کے  دوہرانے  کی ضرورت نہیں  فالحمد اللہ ۔ مقصد یہ ہے  کہ روانی کلام میں انسان کے  منہ سے  بغیر قصد کے  جو قسمیں عادۃ نکل جائیں وہ لغو قسمیں ہیں  ۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے ، مذاق میں قسم کھا بیٹھنا، اللہ کی نافرمانی کے  کرنے  پر قسم کھا بیٹھنا، زیادتی گمان کی بنا پر قسم کھا بیٹھنا بھی اس کی تفسیر میں کہا گیا ہے  ۔ غصے  اور عضب میں، نسیان اور بھول چوک سے  کھانے  پینے  پہننے  اوڑھنے  کی چیزوں میں قسم کھا بیٹھنا مراد ہے ، اس قوم کی دلیل میں آیت (لا تحرموا طیبات) الخ، کو پیش کیا جاتا ہے ، بالکل صحیح بات یہ ہے  کہ لغو قسموں سے  مراد بغیر قصد کی قسمیں ہیں  اور اس کی دلیل (ولکن یواخذ کم بما عقدتم الایمان ہے  یعنی جو قسمیں بالقصد اور بالعزم ہوں ان پر گرفٹ ہے  اور ان پر کفارہ ہے  ۔ کفارہ دس مسکینوں کا کھانا جو محتاج فقیر ہوں جن کے  پاس بقدر کفایت کے  نہ ہو اوسط درجے  کا کھانا جو عموماً گھر میں کھایا جاتا ہو وہی انہیں  کھلا دینا ۔ مثلاً دودھ روٹی، گھی روٹی، زیتون کا تیل روٹی، یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے  کہ بعض لوگوں کی خوراک بہت اعلی ہوتی ہے  بعض لوگ بہت ہی ہلکی غذا کھاتے  ہیں  تو نہ وہ ہو نہ یہ ہو، تکلف بھی نہ ہو اور بجل بھی نہ ہو، سختی اور فراخی کے  درمیان ہو، مثلاً گوشت روٹی ہے، سرکہ اور روٹی ہے ، روٹی اور کھجوریں ہیں  ۔ جیسی جس کی درمیانی حثییت، اسی طرح قلت اور کثرت کے  درمیان ہو ۔ حضرت علی سے  منقول ہے  کہ صبح شام کا کھانا، حسن اور محمد بن خفیہ کا قول ہے  کہ دس مسکینوں کو ایک ساتھ بٹھا کر روٹی گوشت کھلا دینا کافی ہے  یا اپنی حیثیت کے  مطابق روٹی کسی اور چیز سے  کھلا دینا، بعض نے  کہا ہے  ہر مسکین کو آدھا صاع گہیوں کھجوریں وغیرہ دے  دینا، امام ابو حنیفہ کا قول ہے  کہ گہیوں تو آدھا صاع کافی ہے  اور اس کے  علاوہ ہر چیز کا پورا صاع دے  دے  ۔ ابن مردویہ کی روایت میں ہے  کہ حضور صی اللہ علیہ و سلم  نے  ایک صاع کھجوروں کا کفارے  میں ایک ایک شخص کو دیا ہے  اور لوگوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے  لیکن جس کی اتنی حثییت نہ ہو وہ آدھا صاع گہیوں کا دے  دے، یہ حدیث ابن ماجہ میں بھی ہے  لیکن اس کا ایک راوی بالکل ضعیف ہے  جس کے  ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے  ۔ در قطنی نے  اسے  متروک کہا ہے  اس کا نام عمر بن عبد اللہ ہے ، ابن عباس کا قول ہے  کہ ہر مسکین کو ایک مد گہیوں مع سالن کے  دے  دے، امام شافعی بھی یہی فرماتے  ہیں  لیکن سالن کا ذکر نہیں  ہے  اور دلیل ان کی وہ حدیث ہے  جس میں ہے  کہ رمضان شریف کے  دن میں اپنی بیوی سے  جماع کرنے  والے  کو ایک کمتل (خاص پیمانہ) میں سے  ساٹھ مسکینوں کو کھلا نے  کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے  دیا تھا اس میں پندرہ صاع آتے  ہیں  تو ہر مسکین کے  لئے  ایک مد ہوا ۔ ابن مدویہ کی ایک اور حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  قسم کے  کفارے  میں گہیوں کا ایک مد مقرر کیا ہے  لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں  کیونکہ نضیر بن زرارہ کوفی کے  بارے  میں امام ابو حاتم رازی کا قول ہے  کہ وہ مجہول ہے  گو اس سے  بہت سے  لوگوں نے  روایت کی ہے  اور امام ابن حبان نے  اسے  ثقہ کہا ہے  واللہ اعلم، پھر ان کے  استاد عمری بھی ضعیف ہیں ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے  کہ گہیوں کا ایک مد اور باقی اناج کے  دو مد دے  ۔ واللہ اعلم (یہ یاد رہے  کہ صاع انگریزی اسی روپے  بھر کے  سیر کے  حساب سے  تقریباً پونے  تین سیر کا ہوتا ہے  اور ایک صاع کے  چار مد ہو تے  ہیں  واللہ اعلم، مترجم) یا ان دس کو کپڑا پہنانا، امام شافعی کا قول ہے  کہ ہر ایک کو خواہ کچھ ہی کپڑا دے  دے  جس پر کپڑے  کا اطلاق ہوتا ہو کافی ہے ، مثلاً کرتہ ہے، پاجامہ ہے، تہمد ہے، پگڑی ہے  یا سر پر لپیٹنے  کا رومال ہے  ۔ پھر امام صاحب کے  شاگردوں میں سے  بعض تو کہتے  ہیں  ٹوپی بھی کافی ہے  ۔ بعض کہتے  ہیں  یہ نا کافی ہے ، کافی کہنے  والے  یہ دلیل دیتے  ہیں  کہ حضرت عمران بن حصین سے  جب اس کے  بارے  میں سوال ہوتا ہے  تو آپ فرماتے  ہیں  اگر کوئی وفد کسی امیر کے  پاس آئے  اور وہ انہیں  ٹوپیاں دے  تو عرب تو یہی کہیں  گے  کہ قد کسوا انہیں  کپڑے  پہنائے  گئے  ۔ لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہیں  کیونکہ محمد بن زبیر ضعیف ہیں  واللہ اعلم ۔ موزے  پہنانے  کے  بارے  میں بھی اختلاف ہے  ۔ صحیح یہ ہے  کہ جائز نہیں  ۔ امام مالک اور امام احمد فرماتے  ہیں  کہ کم سے  کم اتنا اور ایسا کپڑا ہو کہ اس میں نماز جائز ہو جائے  مرد کو دیا ہے  تو اس کی اور عورت کو دیا ہے  تو اس کی ۔ واللہ اعلم ۔ ابن عباس فرماتے  ہیں  عباہو یا شملہ ہو ۔ مجاہد فرماتے  ہیں  ۔ ادنیٰ درجہ یہ ہے  کہ ایک کپڑا ہو اور اس سے  زیادہ جو ہو ۔ غرض کفارہ قسم میں ہر چیز سوائے  جانگئے  کے  جائز ہے  ۔ بہت سے  مفسرین فرماتے  ہیں  ایک ایک کپڑا ایک ایک مسکین کو دے  دے  ۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے  ایسا کپڑا جو پورا کار آمد ہو مثلاً لحاف چادر وغیرہ نہ کہ کرتہ دوپٹہ وغیرہ ابن سیرن اور حسن دو دو کپڑے  کہتے  ہیں ، سعید بن مسیب کہتے  ہیں  عمامہ جسے  سر پر باندھے  اور عبا جسے  بدن پر پہنے  ۔ حضرت ابو موسیٰ قسم کھاتے  ہیں  پھر اسے  توڑتے  ہیں  تو دو کپڑے  بحرین کے  دے  دیتے  ہیں  ۔ ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے  کہ ہر مسکین کیلئے  ایک عبا، یہ حدیث عریب ہے ، یا ایک غلام کا آزاد کرنا، امام ابو حنیفہ تو فرماتے  ہیں  کہ یہ مطلق ہے  کافر ہو یا مسلمان، امام شافعی اور دوسرے  بزرگان دین فرماتے  ہیں  اس کا مومن ہونا ضروری ہے  کیونکہ قتل کے  کفارے  میں غلام کی آزادی کا حکم ہے  اور وہ مقید ہے  کہ وہ مسلمان ہونا چاہے، دونوں کفاروں کا سبب چاہے  جدا گانہ ہے  لیکن وجہ ایک ہی ہے  اور اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے  جو مسلم وغیرہ میں ہے  کہ حضرت معاویہ بں حکم اسلمی کے  ذمے  ایک گردن آزاد کرنا تھی وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے  اور اپنے  ساتھ ایک لونڈی لئے  ہوئے  آئے  ۔ حضور نے  اس سیاہ فام لونڈی سے  دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے  کہا آسمان میں پوچھا ہم کون ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں  آپ نے  فرمایا اسے  آزاد کرو یہ ایماندار عورت ہے  ۔ پس ان تینوں کاموں میں سے  جو بھی کر لے  وہ قسم کا کفارہ ہو جائے  گا اور کافی ہو گا اس پر سب کا اجماع ہے  ۔ قرآن کریم نے  ان چیزوں کا بیان سب سے  زیادہ آسان چیز سے  شروع کیا ہے  اور بتدریج اوپر کو پہنچایا ہے  ۔ پس سب سے  سہل کھانا کھلانا ہے  ۔ پھر اس سے  قدرے  بھاری کپڑا پہنانا ہے  اور اس سے  بھی زیادہ بھاری غلام کو آزاد کرنا ہے  ۔ پس اس میں ادنی سے  اعلی بہتر ہے  ۔ اب اگر کسی شخص کو ان تینون میں سے  ایک کی بھی قدرت نہ ہو تو وہ تین دن کے  روزے  رکھ لے  ۔ سعید بن جبیر اور حسن بصری سے  مروی ہے  کہ جس کے  پاس تین درہم ہوں وہ تو کھانا کھلا دے  ورنہ روزے  رکھ لے  اور بعض متاخرین سے  منقول ہے  کہ یہ اس کے  لئے  ہے  جس کے  پاس ضروریات سے  فاضل چیز نہ ہو معاش وغیرہ پونجی کے  بعد جو فالتو ہو اس سے  کفارہ ادا کرے ، امام ابن جرید فرماتے  ہیں  جس کے  پاس اس دن کے  اپنے  اور اپنے  بال بچوں کے  کھانے  سے  کچھ بچے  اس میں سے  کفارہ ادا کرے ، قسم کے  توڑنے  کے  کفارے  کے  روزے  پے  در پے  رکھنے  واجب ہیں  یا مستحب ہیں  اس میں دو قول ہیں  ایک یہ کہ واجب نہیں، امام شافعی نے  باب الایمان میں اسے  صاف لفظوں میں کہا ہے  امام مالک کا قول بھی یہی ہے  کیونکہ قرآن کریم میں روزوں کا حکم مطلق ہے  تو خواہ پے  در پے  ہوں خواہ الگ الگ ہوں تو سب پر یہ صادق آتا ہے  جیسے  کہ رمضان کے  روزوں کی قضا کے  بارے  میں آیت (فعدۃ من ایام اخر) فرمایا گیا ہے  وہاں بھی پے  در پے  کی یا علیحدہ علیحدہ کی قید نہیں  اور حضرت امام شافعی نے  کتاب الام میں ایک جگہ صراحت سے  کہا ہے  کہ قسم کے  کفارے  کے  روزے  پے  در پے  رکھنے  چاہیئں یہی قول خفیہ اور حنابلہ کا ہے  ۔ اس لئے  کہ حضرت ابی بن کعب وغیرہ سے  مروی ہے  کہ ان کی قرات آیت (فصیام ثلثۃ ایام متتابعات) ہے  ابن مسعود سے  بھی یہی قرات مروی ہے ، اس صورت میں اگرچہ اس کا متواتر قرات ہونا ثابت نہ ہو ۔ تاہم خبر واحد یا تفسیر صحابہ سے  کم درجے  کی تو یہ قرات نہیں  پس حکماً "یہ بھی مرفوع ہے  ۔ ابن مردویہ کی ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے  کہ حضرت حذیفہ نے  پوچھا یا رسول اللہ ہمیں اختیار ہے  آپ نے  فرمایا ہاں، تو اختیار پر ہے  خواہ گردن آزاد کر خواہ کپڑا پہنا دے  خواہ کھانا کھلا دے  اور جو نہ پائے  وہ پے  در پے  تین روزے  رکھ لے  ۔ پھر فرماتا ہے  کہ تم جب قسم کھا کر توڑ دو تو یہ کفارہ ہے  لیکن تمہیں  اپنی قسموں کی حفاظت کرنی چاہیے  انہیں  بغیر کفارے  کے  نہ چھوڑنا چاہیے  اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے  سامنے  اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما رہا ہے  تاکہ تم شکر گزاری کرو ۔

۹۰

پانسہ بازی، جوا اور شراب

ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے  روکتا ہے  ۔ شراب کی ممانعت فرمائی، پھر جوئے  کی روک کی ۔ امیر المونین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے  مروی ہے  کہ شطرنج بھی جوئے  میں داخل ہے  (ابن ابی حاتم) عطا مجاہد اور طاؤس سے  یا ان میں سے  دو سے  مروی ہے  کہ جوئے  کی ہر چیز میسر میں داخل ہے  گو بچوں کے  کھیل کے  طور پر ہو ۔ جاہلیت کے  زمانے  میں جوئے  کا بھی عام رواج تھا جسے  اسلام نے  غارت کیا ۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے  بدلے  بیجتے  تھے، پانسے  پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے  ۔ حضرت قاسم بن محمد فرماتے  ہیں  کہ جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے  غافل کر دے  وہ جوا ہے ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا ان پانسوں سے  بچو جن سے  لوگ کھیلا کرتے  تھے، یہ بھی جوا ہے  صحیح مسلم شریف میں ہے  پانسوں سے  کھیلنے  والا گویا اپنے  ہاتھوں کو سور کے  خون اور گوشت میں آلودہ کرنے  والا ہے  ۔ سنن میں ہے  کہ وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے  ۔ حضرت ابو موسیٰ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے  ۔ واللہ اعلم، مسند میں ہے  پانسوں سے  کھیل کر نماز پڑھنے  والے  کی مثال ایسی ہے  جیسے  کوئی شخص قے  اور گندگی سے  اور سور کے  خون سے  وضو کر کے  نماز ادا کرے  ۔ حضرت عبد اللہ فرماتے  ہیں  میرے  نزدیک شطرنج اس سے  بھی بری ہے  ۔ حضرت علی سے  شطرنج کا جوئے  میں سے  ہونا پہلے  بیان ہو چکا ہے  ۔ امام مالک امام ابو حنیفہ امام احمد تو کھلم کھلا اسے  حرام بتاتے  ہیں  اور امام شافعی بھی اسے  مکروہ بتاتے  ہیں  ۔ انصاب ان پتھروں کو کہتے  ہیں  جن پر مشرکین اپنے  جانور چڑھایا کرتے  تھے  اور انہیں  وہیں  ذبح کرتے  تھے  ازلام ان تیروں کو کہتے  ہیں  جن میں وہ فال لیا کرتے  تھے  ۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ یہ اللہ کی ناراضگی کے  اور شیطانی کام ہیں  ۔ یہ گناہ کے  اور برائی کے  کام ہیں  تم ان شیطانی کاموں سے  بچو انہیں  چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ ۔ اس فقرے  میں مسلمانوں کو ان کاموں سے  روکنے  کی ترغیب ہے  ۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے  ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے  روکا گیا ہے  ۔ 

حرمت شراب کی مزید وضاحت

اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے  ہیں  ۔ مسند احمد میں ہے  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں  شراب تین مرتبہ حرام ہوئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینے  شریف میں آئے  تو لوگ جواری شرابی تھے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے  اس بارے  میں سوال ہوا اور آیت (یسئلونک عن الخمیر و المیسر) الخ، نازل ہوئی ۔ اس پر لوگوں نے  کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں  کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے  کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے  اور لوگوں کیلئے  کچھ فوائد بھی ہیں ۔ چنانچہ شراب پیتے  رہے  ۔ ایک دن ایک صحابی اپنے  ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے  کیلئے  کھرے  ہوئے  تو قرات خط ملط ہو گئی اس پر آیت (یا ایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوٰۃ و انتم سکاری) الخ، نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے  زیادہ سخت تھی اب لوگوں نے  نمازوں کے  وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی اس پر اس سے  بھی زیادہ سخت اور صریح آیت (انما الخمر والمیسر) الخ، نازل ہوئی اسے  سن کر سارے  صحابہ بول اٹھے  انتھینا ربنا اے  اللہ ہم اب باز رہے ، ہم رک گئے، پھر لوگوں نے  ان لوگوں کے  بارے  میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے  کی حرمت کے  نازل ہونے  سے  پیشتر اللہ کی راہ میں شہید کئے  گئے  تھے  اس کے  جواب میں اس کے  بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی اور آپ نے  فرمایا اگر ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے  مان لیتے، مسند احمد میں ہے  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے  تحریم شراب کے  نازل ہونے  پر فرمایا یا اللہ ہمارے  سامنے  اور کھول کر بیان فرما پس سورہ بقرہ کی آیت (فیھما اثم کبیر) نازل ہوئی ۔ حضرت عمر فاروق کو بلوایا گیا اور ان کے  سامنے  اس کی تلاوت کی گئی پھر بھی آپ نے  فرمایا اے  اللہ تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما! پس سورہ نساء کی آیت (وانتم سکاری) نازل ہوئی اور مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ کہتا تو ساتھ ہی کہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے  قریب بھی نہ آئیں ۔ حضرت عمر کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں  سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ نے  یہی فرمایا کہ اے  اللہ اس بارے  میں صفائی سے  بیان فرما ۔ پس سورہ مائدہ کی آیت اتری آپ کو بلوایا گیا اور یہ آیت سنائی گئی جب آیت (فھل انتم منتھون) تک سنا تو فرمانے  لگے  انتھینا انتھینا ہم رک گئے  ہم رک گۓ ۔ بخاری و مسلم میں ہے  کہ حضرت فاروق اعظم نے  منبر نبوی پر خطبہ دیتے  ہوئے  فرمایا کہ شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی، انگور، شہد، کجھور، گہیوں اور جو ۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آ جائے  خمر ہے  ۔ یعنی شراب کے  حکم میں ہے  اور حرام ہے  صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر سے  مروی ہے  کہ شراب کی حرمت کی آیت کے  نزول کے  موقع پر مدینے  شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی، ابوداؤد طیالسی میں ہے  ابن عمر فرماتے  ہیں  شراب کے  بارے  میں تین آیتیں اتریں ۔ اول تو آیت (یسلونک عن الخمر) والی آیت اتری تو کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی اس پر بعض صحابہ نے  فرمایا رسول اللہ ہمیں اس سے  نفع اٹھانے  دیجئے  جیسے  کہ اللہ تعالیٰ نے  فرمایا، آپ خاموش ہو گئے  پھر آیت (وانتم سکاری) والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب حرام ہو گئی ۔ لیکن صحابہ نے  فرمایا دیا رسول اللہ ہم بوقت نماز نہ پئیں گے  ۔ آپ پھر چپ رہے  پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرما دیا کہ اب شراب حرام ہو گئی ۔ مسلم وغیرہ میں ہے  کہ حضور کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے  یا قبیلہ دوس میں سے  ۔ فتح مکہ والے  دن وہ آپ سے  ملا اور ایک مشک شراب کی آپ کو تحفتاً دینے  لگا آپ نے  فرمایا کیا تمہیں  معلوم نہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے  اسے  حرام کر دیا ہے  ۔ اب اس شخص نے  اپنے  غلام سے  کہا کہ جا اسے  بیچ ڈال، آپ نے  فرمایا کیا کہا؟ اس نے  جواب دیا کہ بیچنے  کو کہہ رہا ہوں آپ نے  فرمایا جس اللہ نے  اس کا پینا حرام کیا ہے  اسی نے  اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے ۔ اس نے  اسی وقت کہا جاؤ اسے  لے  جاؤ اور بطحا کے  میدان میں بہا آؤ ۔ ابو یعلی موصلی میں ہے  کہ حضرت تمیم دارمی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تحفہ دینے  کیلئے  ایک مشک شراب کی لائے، آپ اسے  دیکھ کر ہنس دیئے  اور فرمایا یہ تو تمہارے  جانے  کے  بعد حرام ہو گئی ہے  کہا خیر یا رسول اللہ میں اسے  واپس لے  جاتا ہوں اور بیچ کر قیمت وصول کر لوں گا، یہ سن کر آپ نے  فرمایا یہودیوں پر اللہ کی لنعٹ ہوئی کہ ان پر جب گائے  بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے  اسے  پگھلا کر بیچنا شروع کیا، اللہ تعالیٰ نے  شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کر دیا ہے  مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے  کہ اس میں ہے  کہ ہر سال حضرت دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے  تھے، اس کے  آخر میں حضور کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے  کہ شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی حرام، ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے  اس میں ہے  کہ حضرت کیسان رضی اللہ تعلی عنہ شراب کے  تاجر تھے  جس سال شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے  ملک سے  بہت سی شراب تجارت کیلئے  لائے  تھے  حضور سے  ذکر کیا آپ نے  فرمایا اب تو حرام ہو گئی پوچھا پھر میں اسے  بیچ ڈالوں ؟ آپ نے  فرمایا یہ بھی حرام ہے  اور اس کی قیمت بھی حرام ہے  ۔ چنانچہ حضرت کیسان نے  وہ ساری شراب بہا دی، مسند احمد میں ہے  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے  ہیں ، میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح حضرت ابی بن کعب، حضرت سہل بن بیضاء اور صحابہ کرام کی ایک جماعت کو شراب پلا رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت اندوز ہو رہے  تھے  قریب تھا کہ نشے  کا پارہ بڑھ جائے، اتنے  میں کسی صحابی نے  آ کر خبر دی کہ کیا تمہیں  علم نہیں  شراب تو حرام ہو گئی ؟ انہں نے  کہا بس کرو جو باقی بچی ہے  اسے  لنڈھا دو اللہ کی قسم اس کے  بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے  کسی کے  حلق میں نہیں  گیا ۔ یہ شراب کھجو کی تھی اور عامتاً اسی کی شراب بنا کرتی تھی، یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے  اور روایت میں ہے  کہ شراب خوری کی یہ مجلس حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے  مکان پر تھی، نا گاہ منادی کی آواز پڑی مجھ سے  کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے ؟ میں نے  جا کر سنا منادی ندا دے  رہا ہے  کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے ، میں نے  آ کر خبر دی تو حضرت ابو طلحہ نے  فرمایا اٹھو جتنی شراب ہے  سب بہادو میں نے  بہادی اور میں نے  دیکھا کہ مدینے  کے  گلی کوچوں میں شراب بہہ رہی ہے ، بعض اصحاب نے  کہا ان کا کیا حال ہو گا جن کے  پیٹ میں شراب تھی اور وہ قتل کر دیئے  گئے  ؟ اس پر اس کے  بعد کی آیت (لیس علی الذین) الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں ، ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے  ناموں میں حضرت ابو دجانہ اور حضرت معاذ بن جبل کا نام بھی ہے  اور یہ بھی ہے  کہ ندا سنتے  ہی ہمنے  شراب بہا دی، مٹکے  اور پیپے  توڑ ڈالے  ۔ کسی نے  وضو کر لیا، کسی نے  غسل کر لیا اور حضرت ام سلیم کے  ہاں سے  خوشبو منگوا کر لگائی اور مسجد پہنچے  تو دیکھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ آیت پڑھ رہے  تھے ، ایک شخص نے  سوال کیا کہ حضور اس سے  پہلے  جو لوگ فوت ہو گئے  ہیں  ان کا کیا حکم ہے  ؟ پس اس کے  بعد آیت اتری، کسی نے  حضرت قتادہ سے  پوچھا کہ آپ نے  یہ حدیث خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے  سنی ہے ؟ فرمایا ہاں ہم جھوٹ نہیں  بولتے  بلکہ ہم تو جانتے  بھی نہیں  کہ جھوٹ کسے  کہتے  ہیں ؟ مسند احمد میں ہے  حضور فرماتے  ہیں  اللہ تبارک و تعالیٰ نے  شراب اور پانسے  اور بربط کا باجا حرام کر دیا ہے ، شراب سے  بچو غبیرا نام کی شراب عام ہے  مسند احمد میں ہے  حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے  ہیں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا جو شخص مجھسے  وہ بات منسوب کے  جو میں نے  نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔ میں نے  آپ سے  سنا ہے  کہ شراب جوا پانسے  اور غبیرا سب حرام ہیں  اور ہر نشے  والی چیز حرام ہے ، مسند احمد میں ہے  شراب کے  بارے  میں دس لعنتیں ہیں  خود شراب پر، اس کے  پینے  والے  پر، اس کے  پلانے  والے  پر، اس کے  بیچنے  والے  پر، اس کے  خریدنے  والے  پر اس کے  نچوڑنے  والے  پر، اس کے  بنانے  والے  پر، اس کے  اٹھانے  والے  پر اور اس پر بھی جس کے  پاس یہ اٹھا کر لے  جایا جائے  اور اس کی قیمت کھانے  والے  پر (ابو داؤد، ابن ماجہ) مسند میں ہے  ابن عمر فرماتے  ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باڑے  کی طرف نکلے  میں آپ کے  ساتھ تھا ۔ آپ کے  دائیں جانب چل رہا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق آئے  میں ہٹ گیا اور آپ کے  داہنے  حضرت صدیق چلنے  لگے  تھوڑی دیر میں حضرت عمر آ گئے  میں ہٹ گیا آپ حضور کے  بائیں طرف ہو گئے  جب آپ باڑے  میں پہنچے  تو دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں  آپ نے  مجھے  بلایا اور فرمایا چھری لاؤ جب میں لایا تو آپ نے  حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں پھر فرمایا شراب پر، اس کے  پینے  والے  پر، پلانے  والے  پر، بیچنے  والے  پر، خریدار پر، اٹھانے  والے  پر، اٹھوانے  والے  پر، بنانے  والے  پر، بنوانے  والے  پر، قیمت لیین والے  پر سب پر لعنت ہے ، مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ حضور نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو، پس ہم گئے اور سارے بازار میں ایک ممشک بھی نہ چھوڑی ۔ بہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیجتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے حضرت ابن عباس سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے، اے امت محمد اگر تمہاری کتبا کے بعد کوئی کتاب اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی کے بعد کوئی نبی اور آنے والا ہوتا، جس طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر وخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے، پھر حضرت عبد اللہ بن عمر سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا سنو میں حضور کے ساتھ مسجد میں تھا ۔ آپ گوٹھ لگائے ہوئے بیٹدھے تھے فرمانے لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس لائے ۔ لوگوں نے لانی شروع کی، جس کے پاس جتنی تھی حاضر کی ۔ آپ نے فرمایا جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فلاں فلاں جگہ رکھو ۔ جب سب جمع ہو جائے مجھے خبر کو، جب جمع ہو گئی اور آپ سے کہا گیا تو آپ اٹھے میں آپ کے داہنے جانب تھا آپ مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے حضرت ابوبکر صدیق جب آئے تو آپ نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں کر دیا اور میری جگہ حضرت ابوبکر نے لے لی، پھر حضرت عمر سے ملاقت ہوئی تو آپ نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق کو اپنے بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں  یہ شراب ہے، فرمایا سنو اس پر اس کے بنانے والے پر، بنوانے والے پر، پینے والے پر، پلانے والے پر، اٹھانے والے پر، اٹھوانے والے پر، بیچنے والے پر، خریدنے والے پر، قیمت لینے والے پر اللہ کی پھٹکار ہے ۔ پھر چھری منگوائی اور مٹکو کو رہنے دیجئے اور کام آئیں گی فرمایا ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و غضہ اللہ کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب اراض ہے ۔ حضرت عمر نے فرمایا حضور آپ خود کیوں تکلیف کرتے ہیں  ہم حاضر ہیں  فرمایا نہیں  میں اپنے ہاتھ سے انہیں  نیست و نابود کروں گا ۔ بیہقی کی حدیث میں ہے کہ شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں  ۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں ۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے نام و نسب پر فخر کرنے لگے، ہم افضل ہیں ۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں  ۔ ایک انصاری نے اونٹ کو جبڑا لے کر حضرت سعد کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت اتری ۔ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس میں لاف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں  اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے، کہنے لگے مجھے فلاں نے مارا میری بے حرمتی فلاں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتر ۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فلاں فلاں صحابہ تو اسے پیتے ہوئے ہی رحلت کر گئے ہیں  ان کا کیا حال ہو گا ؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں  اس کے جواب میں اگلی آیت اتری ۔ ابن جریر میں ہے حضرت ابو بیردہ کے والد کہتے ہیں  کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھاناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ سلام کیا وہیں  حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ میں پچھلے پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی، بعض وہ بھی تھے، جن کے منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن واللہ انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر کے نکال دیا اور کہنے لگے یا اللہ ہم رک گئے ہم باز آ گئے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ جنگ احد کی صۃہ ۃعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں اسی روز اللہ کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں  ہوئی تھی ۔ بزار میں یہ ذاتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت یس علی الذین امنوا الخ، نازل ہوئی، ابو یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب لا کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن وہ لا رہا تھا ایک صحابی راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو گئی وہ واپس مڑ گیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آ گیا اور حضور سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ نے فرمایا ہاں سچ ہے کہا پھر مجھے اجازت دیجئے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کردوں ۔ فرمایا اس کا لوٹانا بھی جائز نہیں ، کہا پھر اجازت دیجئے کہ میں اسے اسیے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے دے آپ نے فرمایا یہ بھی ٹیک نہیں  کہ حضور اس میں یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے فرمایا دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تہمارے یتیموں کی مدد کریں گے پھر مدینہ میں منا دی ہو گئی ایک شخص نے کہا حضور شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئے آپ نے فرمایا جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے ۔ یہ حدیث غریب ہے، مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ میرے ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں  ان کے ورثے میں انہیں  شراب ملی ہے آپ نے فرمایا جاؤ اس یبہا دو عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنالوں فرمایا نہیں  ۔ یہ حدیث مسلم ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو نے فرمایا جیسے یہ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے ۔ شرابی کیلئے شراب نقصان دہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ جو اسے حرمت کے بعد پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت کے پاکیزہ چشمے سے پلاؤں گا ۔ حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے کی سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی اللہ تعالیٰ اسے طینۃ الخیال پلائے گا ۔ پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا لہو پیپ پسینہ پیشاب وغیرہ (مسند احمد) ابوداؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں نا قبول ہیں  ۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور طینۃ الخیال پلائے گا پوچھا گیا وہ کیا ہے ؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پلائے گا جو حلالا حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پلائے ۔ بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  ہر نشے والی چیز خمرہے اور ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بے توبہ مر گیا وہ جنت کی شراب سے محروم رہے گا ۔ نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نظر حمت سے نہ دیکھے گا، ماں باپ کا نافرمان، شراب کی عادت والا اور اللہ کی راہ میں دے کر احسان جتلانے والا، مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں  جائے گا ۔ مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اولاد بھی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعلای عنہ فرماتے ہیں  شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جر ہے ۔ سنو اگلے لوگوں میں ایک والی اللہ تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا ۔ بستی سے الگ تھلگ ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہا کرتا تھا، ایک بدکار عورت اس کے پیچھے لگ گئی، اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا، یہ چلے گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں  لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے بند کرتی جاتی ۔ آخری کمرے میں جن گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بھیٹیھ ہے، اس کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے ۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں  بلوایا فی الواقع اس لۓ بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا، سارا پی گیا ۔ کہنے لگا اور لاؤ اور لاؤ، خوب پیا، جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا ۔ پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں  ہو تے ایک کا آنا دوسرے کا جانا ہے (بیہقی) امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اے وارد کیا ہے اور اس میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے واللہ اعلم، اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زائی زنا کے وقت، چور چوری کے وقت، شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں  رہتا ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں  جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں  ان کا کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت لیس علی الزین الخ، نازل ہوئی یعنی ان پر اس میں کوئی حرج نہیں  اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدلا اور بیت اللہ شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پرھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا تو آیت ماکان اللہ لیضیع ایمانکم الخ، نازل ہوئی یعنی ان کی نمازیں ضائع نہ ہوں گی۔ مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ اسی حالت میں مگر گیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو اللہ تعالیٰ دوزخیوں کا فضلہ پلائے گا اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں  تو حضور نے فرمایا مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے ۔ مسند احمد میں ہے پانسوں کے کھیل سے بچو یہ عجمیوں کا جوا ہے ۔

۹۴

حرام میں شکار کے مسائل کی تفصیلات

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں  چھوٹے چھوٹے شکار اور کمزور شکار اور ان کے بچے جنہیں  انسان اپنے ہاتھ سے پکڑ لے اور اپنے نیزے کی نوک پر رکھ لے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا ۔ یعنی انہیں  منع فرمایا ہے کہ تم باوجود اس کے بھی ان کا شکار حالت احرام میں نہ کرو خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے خواہ آسانی سے شکار ہو سکتا ہو خواہ سختی سے ۔ چنانچہ عمرہ حدیبیہ کے موقعہ پر یہی ہوا کہ قسم قسم کے شکار اس قدر بکثرت آ پڑے کہ صحابہ کے خیموں میں گھسنے لگے ادھر اللہ کی طرف سے ممانعت ہو گئی تاکہ پوری آزمائش ہو جائے ادھر شکار گویا ہنڈیا میں ہے ادھر ممانعت ہے ہتھیار تو کہاں یونہی اگر چاہیں  تو ہاتھ سے پکڑ سکتے یہیں  اور پوشیدہ طور سے شکار قبضہ میں کر سکتے ہیں  ۔ یہ صرف اس لئے تھا کہ فرمانبردار اور نافرامن کا امتحان ہو جائے پوشیدگی میں بھی اللہ کا ڈر رکھنے والے غیروں سے ممتاز ہو جائی، چنانچہ فرمان ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے غائبانہ ڈرتے رہتے ہیں  ان کے لئے بڑی بھاری مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے ۔ اب جو خص اس حکم کے آنے کیبعد بھی حالت احرام میں شکار کھیلے گا شریعت کی مخالفت کرے گا، پھر فرمایا ایماندار و حالت احرام میں شکار نہ کھیلو ۔ یہ حکم اپنے معنی کی حیثیت سے تو حلال جانوروں اور ان سے جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں  کیلئے ہے، لیکن جو خشکی کے حرام جانور ہیں  ان کا شکار کھیلنا امام شافعی کے نزدیک تو جائز ہے اور جمہور کے نزدیک حرما ہے، ہاں اس عام حکم سے صرف وہ چیزیں مخصوص ہیں  جن کا ذکر بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں  وہ حرام میں قتل کر دیئے جائیں اور غیر حرم میں بھی، کوا چیل بچھو چوہا اور کانٹے والا کالا کتا اور روایت کے الفاظ یوں ہیں  کہ ان پانچ جانوروں کے قتل میں احرام والے پر بھی کوئی گناہ نہیں  ۔ اس روایت کو سن کر حضرت ایوب اپنے استاد حضرت نافع سے پوچھتے ہیں  کہ سانپ کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ اس میں شامل ہے یہ بھی قتل کر دیا جائے اس میں کسی کو اختلاف نہیں  بعض علماء نے جیسے امام احمد امام مالک وغیرہ نے کتے کے حکم پر درندوں کو بھی رکھا ہے جیسے بھیڑیا شیروغیرہ ۔ اس لئے کہ یہ کتے سے بہت زیادہ ضرر والے ہیں  ۔ حضرت زید بن اسلم اور حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں  کہ ہر حملہ کرنے والے درندے کا حکم ہے دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عتبہ بن ابولہب کے حق میں جب دعا کی تو فرمایا اے اللہ اس پر شام میں اپنا کوئی کتا مقرر کر دے، پاس جب وہ زرقا میں پہنچا وہاں اسے بھیڑئیے نے پھاڑ ڈالا ۔ ہاں اگر محرم نے حالت احرام میں کوے کویا لومڑی وغیرہ کو مار ڈالا تو اس یبدلہ دینا پڑے گا ۔ اسی طرح ان پانچون قسم کے جانوروں کے بچے اور حملہ کرنے والے درندوں کے بچے بھی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں  ۔ امام شافعی فرماتے ہیں  ہر وہ جانور جو کھایا نہیں  جاتا اس کے قتل میں اور اس کے بچوں کے قتل میں محرم پر کوئی حرج نہیں  ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کا گوشت کھای انہیں  جاتا ۔ امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں  کالا کتا حملہ کرنے والا اور بھیڑیا تو محرم قتل کر سکتا ہے اس لئے کہ بھیڑیا بھی جنگلی کتا ہے ان کے سوا جس جانور کا شکار کھیلے گا فدیہ دنیا پڑے گا ۔ ہاں اگر کوئی شیر وغیرہ جنگی درندہ اس پر حملہ کرے اور یہ اسے مار ڈالے تو اس صورت میں فدیہ نہیں  ۔ آپ کے شاگرد زفر کہتے ہیں  یہ حملہ کرنے کی صورت میں بھی اگر مار ڈالے گا تو فدیہ دینا پڑے گا۔ بعض احادیث میں غراب ابقع کا لفظ آیا ہے یہ وہ کوا ہے جس کے پیٹ اور پیٹھ پر سفیدی ہوتی ہے ۔ مطلق سیاہ اور بالکل سفید کوے کو غراب ابقع نہیں  کہتے لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر قسم کے کوے کا یہی حکم ہے کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث میں مطلق کوے کا ذکر ہے ۔ امام ملک فرماتے ہیں  کوے کو بھی اس حال میں مار سکتا ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے یا اسے ایذادے مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ اس حالت میں بھی مار نہ ڈالے بلکہ اسے پتھر وغیرہ پھینک کر ہٹا دے ۔ حضرت علی سے بھی یہ مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوا کہ مہرم کس کس جانور کو قتل کر دے ؟ تو آپ نے فرمایا سانپ، بچھو اور چوہا اور کوے کو کنکرمارے اسے مار نہ ڈالے اور کالا کتا اور چیل اور حملہ کرنے والا درندہ ۔ (ابو داؤد وغیرہ) پھر فرماتا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر حالت احرام میں شکار کرے اس پر فدیہ ہے ۔ حضرت طاؤس کا فرمان ہے کہ خطا سے قتل کرنے والے پر کچھ نہیں  ۔ لیکن یہ مذہب غریب ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی مشتق ہے ۔ مجاہدین جیبر سے مروی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو شکار تو قصداً کرتا ہے لیکن اپنی حالت احرام کی یاد اسے نہیں  رہی ۔ لیکن جو شخص باوجود احرام کی یاد کے عمداً شکار کرے وہ تو کفارے کی حد سے نکل گیا اس کا احرام باطل ہو گیا ۔ یہ قول بھی غریب ہے ۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ قصداً شکار کرنے والا اور بھول کر کرنے والا دونوں کفارے میں برابر ہیں  امام زہیری فرماتے ہیں  قرآن سے تو قصد اً شکار کھیلین والے پر کفارہ ثابت ہوا اور حدیث نے یہی حکم بھولنے والے کا بھی بیان فرمایا ۔ مطلب اس قول کا یہ ہے کہ قصداً شکار کھیلنے والے پر کفارہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا گنہگار ہونا بھی ۔ کیونکہ اس کے بعد لیذوق و بال امرہ فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے اصحاب سے خطا میں بھی یہی حکم ثابت ہے اور اس لۓ بھی کہ شکار کو قتل کرنا اس کا تلف کرنا ہے اور ہر تلف کرنے کا بدلہ ضروری ہے خواہ وہ بالقصد ہو یا انجان پنے سے ہو۔ ہاں قصداً کرنے والا گنہگار بھی ہے اور بلا قصد جس سے سرزد ہو جائے وہ قابل ملامت نہیں  ۔ پھر فرمایا اس کا بدلہ یہ ہے کہ اسی کے مثل چوپایہ جانور راہ للہ قربان کرے ۔ ابن مسعود کی قرات میں فجزاوہ ہے ان دونوں قراتوں میں مالک شافعی احمد اور جمہور کی دلی ہے کہ جب شکار چوپالیوں کی مانند ہو تو وہی اس کے بدلے میں دینا ہو گا ۔ امام ابو حنفیہ اس کے خلاف کہتے ہیں  کہ خواہ شکار کے کسی جانور کی مثل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں قیمت دینی پڑے گی ہاں اس محرم شکاری کو اختیار ہے کہ خواہ اس قیمت کو صدقہ کر دے خواہ اس سے قربانی کا کوئی جانور خریدلے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ امام صاحب کے اس قول سے صحابہ رضی اللہ عنہم کا فیصلہ ہمارے لئے زیادہ قابل عمل ہے انہوں ے شتر مڑع کے شکار کے بدلے اونٹ مقرر کیا ہے اور جنگلی گائے کے بدلے پالتو گائے مقرر فرمائی ہے اور ہرن کے بدلے بکری۔ یہ فیصلے ان بزرگ صحابیوں کے سندوں سمیت احکامکی کتابوں میں موجود ہیں  جہاں شکار جیسا اور کوئی پالتو چوپایہ نہ ہو اس میں ابن عباس رضی اللہ تعلای عنہم کا فیصلہ قیمت کا ہے جو مکہ شریف پہنچائی جائے (بیہقی) پھر فرمایا کہ اس کا فیصلہ دو عادل مسلمان کر دیں کہ کیا قیمت ہے یا کونسا جانور بدلے میں دیا جائے ۔ فقہانے اس بارے میں اختلاف کیا کہ فیصلہ کرنے والے دو میں ایک خود قاتل ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام مالک وغیرہ نے تو انکار کیا ہے کیونکہ اسی کا معاملہ ہو اور وہی حکم کرنے والا ہو اور امام شافعی امام احمد وغیرہ نے آیت کے عموم کو سامنے رکھ کر فرمایا ہے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پہلے مذہب کی دلیل تو یہ ہے کہ خود حاکم اپنے اوپر اپنا ہی حکم کر کے اسی حکم میں اپنا منصف آپ نہیں  بن سکتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک اعرابی حضرات ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے ایک شکار کو احرام کی حالت میں قتل کر دیا ہے اب آپ فرمائیے کہ اس میں مجھ پر بدلہ کیا ہے ؟ آپ نے حضرت ابی بن کعب کی طرف دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا کہ آپ فرمائیے کیا حکم ہے ؟ اس پر اعرابی نے کہا سبحان اللہ میں آپ سے دریافت کرنے آیا ہوں آپ خلیفہ رسول ہیں  اور آپ کسی سے دریافت فرما رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس میں تیرا کیا بگڑا؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دو عادل جو فیصلہ کر دیں اس لئے میں نے اپنے ساتھی سے دریافت کیا ۔ جب ہم دونوں کسی بات پر اتفاق کر لیں گے تو تجھ سے کہہ دیں گے ۔ اس کی سند تو بہت مضبوط ہے لیکن اس میں میمون اور صدیق کے درمیان انقطاع ہے ۔ یہاں یہی چاہیے تھا حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ ارابی جاہل ہے اور جہل کی دو اتعلیم ہے تو آپ نے اسے نرمی اور محبت سے سمجھا دیا اور جبکہ اعتراض کرنے والا خود مدعی علم ہو پھر وہاں یہ صورت نہیں  رہتی ۔ چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت قبیصہ بن جابر کہتے ہیں  ہم حج کیلئے چلے ہماری عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھتے ہی ہم سواریوں سے اتر پڑتے اور انہیں  چلاتے ہوئے باتیں کرتے ہوئے پیدل چل پڑتے ۔ ایک دن اسی طرح جا رہے تھے کہ ایک ہرن ہماری نگاہ میں پڑا ہم میں سے ایک شخص نے اسے پتھر مارا جو اسے پوری طرح لگا اور وہ مر کر گر گیا وہ شخص اسے مردہ چھوڑ کر اپنی سواری پر سوار ہو گیا ۔ ہمیں یہ کام بڑا برامعلوم ہوا اور ہم نے اسے بہت کچھ کہا سنا مکہ شریف پہنچ کر میں اسے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعلای عنہ کے پاس لے گیا اس نے سارا واقعہ خود بیان کیا اس وقت جناب فاروق کے پہلو میں ایک صاحب کھڑے تھے جن کا چہرہ چاندی کی طرح جگمگا رہا تھا یہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر کچھ باتیں کیں پھر میرے ساتھ سے فرمایا کہ تو نے اسے جان بوجھ کر مار ڈالا یا بھول چوک سے اس نے کہا میں نے پتھر اسی پر پھینکا اور قصداً پھینکا لیکن اسے مار ڈالنے کی مریی نیت نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا پھر تو خطا اور عمد کے درمیان درمیان ہے ۔ جا تو ایک بکری ذبح کر دے اس کا گوشت صدقہ کر دے اور اس کی کھال اپنے کام میں لا ۔ یہ سن کر ہم وہاں سے چلے آئے میں نے اپنے ساتھی سے کہا دیکھ تو نے بڑا قصور کیا ہے اللہ جل شانہ کی نشانیوں کی تجھے عظمت کرنی چاہیے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ خود امیر لامونین کو تو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا انہوں نے اپنے ساتھی سے دریافت کی امیرے خٌا سے تو اپنی اونٹنی اللہ کے نام سے قربان کر دے شاید اس سے تیر اجرم معاف ہو جائے ۔ افسوس کہ اس وقت مجھے یہ آیت یاد ہی نہ رہی کہ حضرت عمر نے تو اس حکم پر عمل کیا ہے کہ دو عادل شخص باہم اتفاق سے جو فیصلہ کریں ۔ حضرت عمر کو بھی مریا یہ فتوی دینا معلوم ہو گیا اچانک آپ کوڑہ لئے ہوئے آ گئے اول تو میرے ساتھی پر کوڑا اٹھا کر فرمایا تونے ایک تو جرم میں قتل کیا دوسرے حکم کی تعمیل میں بیوقوفی کر رہا ہے ۔ اب میری طرف متوجہ ہوئے میں نے کہا امیر المومنین اگر آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی تو میں آپ کو آج کی تکلیف ہرگز معاف نہیں  کروں گا ۔ آپ نرم پڑ گئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے قبصیہ میرے خیال سے تو تو جوانی کی عمر والا کشادہ سینے والا اور چلتی زبان والا ہے ۔ یاد رکھ نوجوانوں میں اگر نو خصلتیں اچھی ہوں اور ایک بری ہو تو وہ ایک بری خصلت نو بھلی خصلتوں کو مات کر دیتی ہے ۔ سن جوانی کی لغزشوں سے بچارہ ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے احرام کی حالت میں ایک ہرن کا شکار کر لیا پھر حضرت عمر کے پاس گئے آپ نے فرمایا جاؤ اپنے دو رشتے داروں کو لے آؤ وہی فیصلہ کریں گے میں جا کر حضرت عبدالرحمن کو اور حضرت سعد کو بلا لایا ۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ میں ایک موٹا تازہ بکرا فدیہ دوں ۔ حضرت طارق فرماتے ہیں  ایک شخص نے ایک ہرن کو تیر مارا وہ مر گیا حضرت عمر سے اس نے مسئلہ پوچھا تو آپ نے خود اس کو بھی مشورے میں شریک کر لیا دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ گھر کی پالتو بکری راہ للہ قربان کرو اس میں یہ دلدیل ہے کہ خود قاتل بھی دو حکم کرنے والوں میں ایک بن سکتا ہے ۔ جیسے کہ امام شافعی اور ماام احمد کا مزہب ہے ۔ پھر آیا ہر معاملہ میں اب بھی موجودہ لوگوں میں سے دو حکم فیصلہ کریں گے یا صحابہ کے فیصلے کافی ہیں  ؟ اس میں بھی اختلاف ہے امام مالک اور امام بو حنیفہ فرماتے ہیں  ہر فیصلہ اس وقت کے موجود دو عقلمند لوگوں سے کرایا جائے گو اس میں پہلے کا کوئی فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ پھر فرماتا ہے یہ فدیئے کی قربانی حرم میں پہنچے یعنی وہیں  ذبح ہو اور وہیں  اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم ہو اس پر سب کا اتفاق ہے پھر فرمایا کفارہ ہے مسکینوں کا کھانا کھلانا یا اس کے برابر کے روزے، یعنی جب محرم اپنے قتل کئے ہوئے شکار کے مانند کوئی جانور نہ پائے یا خود شکار ایسا ہوا ہی نہیں  جس کے مثل کوئی جانور پالتو ہو یہاں پر لفظ او اختیار کے ثابت کنے کیلئے ہے یعنی بدلے کے جانور میں کھانا کھالانے میں اور روزے رکھنے میں اختیار ہے جیسے کہ امام مالک امام بو حنیفہ امام ابو یوسف امام محمد بن حسن اور امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول اور ماما احمد کامشہور قول ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ بھی یہی ہیں ، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ترتیب وار ہیں ، یعنی پہلے تو بدلہ پس مالک ابو حنیفہ ان کے ساتھی، حماد اور ابراہیم کا تو قول ہے کہ خود شکار کی قیمت لگائی جائے گی اور امام شافعی فرماتے ہیں  شکار کے برابر کے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اگر وہ موجود ہو پھر اس کا اناج خریدا جائے گا اور اس میں سے ایک ایک مد ایک ایک مسکین کو دیا جائے گا مالک اور فقہاء حجاز کا قول بھی یہی ہے، امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں  ہر مسکین کو دو مد دیئے جائیں گے مجاہد کا قول یہی ہے، امام احمد فرماتے ہیں  گہیو ہوں تو ایک مد اور اس کے سوا کچھ ہو تو دو مد، پس اگر نہ پائے یا اختیار اس آیت سے ثابت ہو جائے تو ہر مسکین کے کھانے کے عوض ایک روزہ رکھ لے، بعض کہتے ہیں  جتنا اناج ہو اس کے ہر ایک صاع کے بدلے ایک روزہ رکھے جسے کہ اس شخص کے لئے یہ حکم ہے جو خوشبو وغیرہ لگائے، شارع علیہ السلام نے حضرت کعب بن عجرہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک فرق کو چھ شخصوں کے درمیان تقسیم کر دیں یا تین دن کے روزے رکھیں، فرق تین صاع کا ہوتا ہے اب کھانا پہنچانے کی جگہ میں بھی اختلاف ہے، امام شافعی کا فرمان ہے کہ اس کی جگہ حرم ہے، عطاء کا قول بھی یہی ہے، مجاہد فرماتے ہیں  جہاں شکار کیا ہے وہیں  کھلوا دے، یا اس سے بہت زیادہ کی قریب کی جگہ میں، امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں  خواہ حرم میں خواہ غیر حرم میں اختیار ہے ۔ سلف کے اس آیت کے متعلق اقوال ملاحظہ ہوں، ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب محرم شکار کھیل لے اس پر اس کے بدلے کے چوپائے کا فیصلہ کیا جائے گا اگر نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ وہ کس قیمت کا ہے، پھر اس نقدی کے اناج کا اندازہ کیا جائے گا پھر جتنا اناج ہو گا اسی کے ناپ سے ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہو گا پھر جب طعام پایا جائے گا جزا پالی گئی اور روایت میں ہے جب محرم نے ہرن کو مار ڈالا تو اس پر ایک بکری ہے جو مکے میں ذبح کی جائے گی اگر نہ پائے تو چھ مسکین کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تین روزے ہیں  اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے زمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور خرو غیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو تین روزے ہیں  ۔ اگر کسی نے اونٹ کو قتل کیا تو اس کے ذمہ ایک گائے ہے اگر نہ پائے تو بیس مسکینوں کا کھانا دینا اگر یہ بھی نہ پائے تو بیس روزے، اگر شتر مرغ یا گور کرو عیرہ مارا ہے تو اس پر ایک اونٹنی ہے اگر نہ ملے تو تیس مسکینون کا کھانا ہے اگر نہ پائے تو تیس دن کے روزے، ابن جریر کی اسی روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ طعام ایک ایک مد ہو جو ان کا پیٹ بھر دے، دوسرے بہت سے تابعین نے بھی طعام کی مقدار بتلائی ہے ۔ سدی فرماے ہیں  یہ سب چیزیں ترتیب وار ہیں  اور بزرگ فرماتے ہیں  کہ تینوں باتوں میں اختیار ہے، امام ابن جریر کا مکتار قول بھی یہی ہے پھر فرمان ہے کہ یہ کفارہ ہم نے اس لئے واجب کیا ہے کہ وہ اپنے کرتوت کی سزا کو پہنچ جائے، زمانہ جاہلیت میں جو کچھ کسی نے خطا کی ہے وہ اسلام کی اچھائی کی وجہ سے معاف ہے، اب اسلام میں ان احکام کی موجودگی میں بھی پھر سے اگر کوئی شخص یہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ گو اس میں حد نہیں  امام وقت اس پر کوئی سزا نہیں  دے سکتا یہ گناہ اللہ اور بندے کے درمیان ہے ہاں اسے فدیہ ضرور دینا پڑے گا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فدیہ ہی انتقام ہے ۔ یہ یاد رہے کہ جب کبھی محرم حالت احرام میں شکار کو مارے گا اس پر بدلہ واجب ہو گا خواہ کئی دفعہ اس سے یہ حرکت ہو جائے اور خواہ عمداً ہو خواہ خطا ہو ایک دفعہ شکار کے بعد اگر دوبارہ شکار کیا تو اس سے کہ دیا جائے کہ اللہ تجھ سے بدلہ لے، ابن عباس سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے کہ پہلیع دفعہ کے شکار پر فدیہ کا حکم ہو گا دوبارہ کے سکار پر خو د اللہ اس سے انتقام لے گا اس پر فیصلہ فدیہ کا نہ ہو گا لیکن امام ابن جرید کا مختار مذہب پہلا قول ہی ہے، امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  ایک شخص نے محرم ہو کر شکار کیا اس پر فدائے کا فیصلہ کیا گیا اس نے پھر شکار کیا تو آسمان سے آگ آ گئی اور اسے جلا کر بھسم کر دیا یہی معنی ہیں  اللہ کے فرمان فینتقم الللہ منہ کے ۔ اللہ اپنی سلطنت میں غالب ہے اسے کوئی مغلوب نہیں  کر سکتا کوئی اسے انتقام سے روک نہیں  سکتا اس کا عذاب جس پر آ جائے کوئی نہیں  جو اسے ٹال دے، مخلوق سب اسی کی پیدا کی ہوئی ہے حکم اس کا سب پر نافذ ہے عزت اور غلبہ اسی کیلئے ہے، وہ اپنے نافرمانوں سے زبر دست انتقام لیتا ہے ۔

۹۶

عام اور شکار میں فرق اور حلال کی مزید تشریحات

دریائی شکار سے مراد تازہ پکڑے ہوئے جانور اور طعام سے مراد ہے ان کا جو گوشت سکھا کر نمکین بطور توشے کے ساتھ رکھا جاتا ہے، یہ بھی مروی ہے کہ پانی میں سے جو زندہ پکڑا جائے وہ صید یعنی شکار ہے اور جو مردہ ہو کر باہر نکل آئے وہ طعام یعنی کھانا ہے حضرت ابوبکر صدیق حضرت زید بن ثابت حضرت عبد اللہ بن عمرو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم اجمعین، حضرت عکرمہ، حضرت ابو سلمہ، حضرت ابراہیم نخعی، حضرت حسن بصری رحمیم اللہ سے بھی یہی مردی ہے، خلیفہ بلا فصل رضٌ اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ پانی میں جتنے بھی جانور ہیں  وہ سب طعام ہیں  ۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) آپ نے ایک خطبے میں اس آیت کے اگلے حصے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ جو چیز سمندر پھینک دے وہ طعام ہے (ابن جریر) ابن عباس سے بھی یہی منقول ہے ایک روایت میں ہے کہ جو مرداہ جانور پانی نکال دے ۔ سعید بن مسیب سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ جس زندہ آبی جانور کو پانی کنارے پر ڈال دے یا پانی اس سے ہٹ جائے یا وہ باہر مردہ ملے (ابن ابی حاتم) ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبالرحمن بن ابوہیرہ نے ایک مرتبہ حضرت ابن عمر سے سوال کیا کہ سمندر نے بہت سی مردہ مچھلیاں کنارے پر پھینک دی ہیں  تو آپ کیا فرماتے ہیں ؟ ہم انہیں  کھا سکتے ہیں  یا نہیں ؟ ابن عمر نے جواب دیا نہیں  نہ کھاؤ، جب واپس آئے تو حضرت عباللہ رضی اللہ عالی عنہ نے قرآن کریم کھول کر تلاوت کی اور سورہ مائدہ کی اس آیت پر نظر پڑی تو ایک آدمی کو دوڑایا اور کہا جاؤ کہہ دو  کہ وہ اسے کھا لیں یہی بحری طعام ہے، امام ابن جریر کے نزدیک بھی قول مختار یہی ہے کہ مراد طعام سے وہ آبی جانور ہیں  جو پانی میں ہی مر جائیں، فرماتے ہیں  اس بارے میں ایک روایت مروی ہے گو بعض نے اسے موقوف روایت کہا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے آپ نے احل لکم صید البحرا و طعامہ متاعا لکم پڑھ کر فرمایا اس کا طعام وہ ہے جسے وہ پھینک دے اور وہ مرا ہوا ہو ۔ بعض لوگں نے اسے بقول ابی ہریرہ موقوف روایت کیا ہے، پھر فرماتا ہے یہ منفعت ہے تمہارے لئے اور راہ رو مسافروں کے لئے، یعنی جو سمندر کے کنارے رہتے ہوں اور جو وہاں وارد ہوئے ہوں، پس کنارے رہنے والے تو تازہ شکار خود کھیلتے ہیں  پانی جسے دھکے دے کر باہر پھینک دے اور مر جائے اسے کھا لیتے ہیں  اور نمکین ہو کر دوردراز والوں کو سوکھا ہو اپہنچتا ہے ۔ الغرض جمہور علماء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ پانی کا جانور خواہ مردہ ہی ہو حلال ہے اس کی دلیل علاوہ اس آیت کے امام مالک کی روایت کردہ وہ حدیث بھی ہے کہ حضور نے سمندر کے کنارے پر ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا جس کا سردار حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا، یہ لوگ کوئی تین سو تھے حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں  میں بھی ان میں سے تھا ہم ابھی راستے میں ہی تھے جو ہمارے توشے تھے ختم ہو گئے، امیر لشکر کو جب یہ علم ہوا تو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو میرے پاس لاؤ چنانچہ سب جمع کر لیا اب حصہ رسدی کے طور پر ایک مقررہ مقدار ہر ایک کو بانٹ دیتے تھے یہاں تک کہ آخر میں ہمیں ہر دن ایک ایک کھجور ملنے لگی آخر میں یہ بھی ختم ہو گئی۔ اب سمندر کے کنارے پہنچ گئے دیکھتے ہیں  کہ کنارے پر پہہنچ گئے دیکھتے ہیں  کہ کنارے پر ایک بڑی مچھلی ایک ٹیلے کی طرح پڑی ہوئی ہے، سارے لشکر نے اٹھارہ راتوں تک اسے کھایا، وہ اتنی بڑی تھی کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی گئیں تو اس کے نیچے سے ایک شتر سوار نکل گیا اور اس کا سر اس پسلی کی ہڈی تک نہ پہنچا، یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ اس کا نام عنبر تھا ایک روایت میں ہے کہ یہ مردہ ملی تھی اور صحابہ نے آپس میں کہا تھا کہ ہم رسول اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں  اور اس وقت سخت دقت اور تکلیف میں ہیں  اسے کھا لو ہم تین سو آدمی ایک مہیں ے تک وہیں  رہے اور اسی کو کھاتے رہے یہاں تک کہ ہم موٹے تازے اور تیار ہو گئے اس کی آنکھ کے سوراخ میں سے ہم چربی ہاتھوں میں بھر بھر کر نکالتے تھے تیرہ شخص اس کی آنکھ کی گہرائی میں بیٹھ گئے تھے، اس کی پسلی کی ہڈی کے درمیان سے سانڈنی سوار گزر جاتا تھا، ہم نے اس کے گوشت اور چربی سے مٹکے بھر لئے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس واپس پہنچے اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کی طرف سے روزی تھی جو اللہ جل مجدہ نے تمہیں  دی کیا اس کا گوشت اب بھی تمہارے پاس ہے ؟ اگر ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ، ہمارے پاس تو تھا ہی ہم نے حضور کی خدمت میں پیش کیا اور خود آپ نے بھی کھایا، مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اس واقعہ میں خود پیغمبر اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی موجود تھھے اس وجہ سے بعض محدثین کہتے ہیں  کہ ممکن ہے یہ دو واقع ہوں اور بعض کہتے ہیں  واقعہ تو ایک ہی ہے، شڑوع میں اللہ کے نبی بھی ان کے ساتھ تھے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ہم سمندر کے سفر کو جاتے ہیں  ہمارے ساتھ پانی بہت کم ہوتا ہے اگر اسی سے وضو کرتے ہیں  تو پیاسے رہ جائیں تو کیا ہمیں سمندر کے پانی سے وضو کر لینے کی اجازت ہے ؟ حضور نے فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے، امام شافعی امام احمد اور سنن اربعہ والوں نے اسے روایت کیا ہے امام بخاری امام ترمذی امام ابن خزیمہ امام ابن حبان وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے صحابہ کی ایک جماعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے، ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے حضرت ابو ہیریرہ فرماتے ہیں  ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج یا عمرے میں تھے اتفاق سے ٹڈیوں کا دل کا دل آ پہنچ اہم نے انہیں  مارنا اور پکڑنا شروع کیا لیکن پھر خیال آیا کہ ہم تو احرام کی حالت میں ہیں  انہیں  کیا کریں گے ؟ چنانچہ ہم نے جا کر حضور علیہ السلام سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ دریائی جانورون کے شکار میں کوئی حرج نہیں ، اس کا ایک راوی ابو المہزم ضعیف ہے، واللہ اعلم ابن ماجہ میں ہے کہ جب ٹڈیاں نکل آتیں اور نقصان پہنچاتیں تو رسول کریم علیہ افضل الصلوٰۃ و التسلیم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے اللہ ان سب کو خاہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ہلاک کر ان کے انڈے تباہ کر ان کا سلسلہ کاٹ دے اور ہماری معاش سے ان کے منہ بند کر دیے یا اللہ ہمیں روزیاں دے یقیناً تو دعاؤں کا سننے والا ہے، حضرت خالد نے کہا یا رسول اللہ آپ ان کے سلسلہ کے کٹ جانے کی دعا کرتے ہیں  حالانکہ وہ بھی ایک قسم کا مخلوق ہے آپ نے فرمایا ان کی پیدائش کی اصل مچھلی سے ہے، حضرت زیاد کا قول ہے کہ جس نے انہیں  مچھلی سے ظاہر ہوتے دیکھا تھا خود اسی نے مجھ سے بیان کیا ہے، ابن عباس سے مروی ہے کہ انہوں نے حرم میں ٹڈی کے شکار بھی منع کیا ہے جن فقہا کرام کا یہ مذہب ہے کہ سمندر میں جو کچھ ہے سب حلال ہے ان کا استد لالا اسی آیت سے ہے وہ کسی آبی جانور کو حرام نہیں  کہتے حضرت ابوبکر صدیق کا وہ قول بیان ہو چکا ہے کہ طعام سے مراد پانی میں رہنے والی ہر ایک چیز ہے، بعض حضرات نے صرف میں ڈک کو اس حکم سے الگ کر لیا ہے اور میں ڈک کے سوا پانی کے تمام جانوروں کو وہ مباح کہت یہیں  کیونکہ مسند وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میں ڈک کے مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی آواز اللہ کی تسبیح ہے، بعض اور کہتے ہیں  سمندر کے شکار سے مچھلی کھائی جائے گی اور میں ڈک نہیں  کھا یا جائے گا اور باقی کی چیزوں میں اختلاف ہے کچھ تو کہتے ہیں  کہ باقی سب حلال ہے اور کچھ کہتے ہیں  باقی سب نہ کھایا جائے، ایک جماعت کا خیال ہے کہ خشکی کے جو جانور حلال ہیں  ان جیسے جو جانور پانی کے حوں وہ بھی حلالا ہیں  اور خشکی کے جو جانور حرام ہیں  ان کی مشابہت کے جو جانور تری کے ہوں وہ بھی حرام، یہ سب وجوہ مذہب شافعی میں ہیں  حنفی مذہب یہ ہے کہ سمندر میں مر جائے اس کا کھانا حلال نہیں  جیسے کہ خشکی میں از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلالا نہیں  کیونکہ قرآن نے اپنی موت آپ مرے ہوئے جانور کو حرمت علیکم المیتۃ میں حرام کر ذیا ہے اور یہ عام ہے، ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جو تم شکار کر لو اور وہ زندگہ ہو پھر مر جائے تو اسے کھالو اور جسے پانی آپ ہی پھینک دے اور وہ مرا ہوا الٹا پڑا ہوا ہوا سے نہ کھاؤ، لیکن یہ حدیث مسند کی رو سے منکر ہے صحیح نہیں ، مالکیوں شافعیوں اور حنبلیوں کی دلدیل ایک تو ہی عنبر والی حدیث ہے جو پہلے گزر چکی دوسری دلی وہ حدیث ہے جس میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردہ حلال کئے گئے ہیں  دو مردے مچھلی اور ٹڈی اور دو خون کلیجی اور تلی، یہ حدیث مسند احمد ابن ماجہ دار قطنی اور بیہقی میں بھی ہے اور اس کے سواہد بھی ہیں  اور یہی روایت موقوفاً بھی مروی ہے، واللہ اعلم، پھر فرماتا ہے کہ تم پر احرام کی حالت میں شکار کھیلنا حرام ہے، پس اگر کسی احرام والے نے شکار کر لیا اور اگر قصداً کیا ہے تو اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا اور گنہگار بھی ہو گا اور اگر خطا اور غلطی سے شکار کر لیا ہے تو اسے کفارہ دینا پڑے گا اور اس کا کھانا اس پر حرام ہے خواہ وہ احرام والے ہوں یا نہ ہوں ۔ عطا قاسم سالم ابو یوسف محمد بن حسن وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں، پھر اگر اسے کھا لیا تو عطا وغیرہ کا قول ہے کہ اس پر دو کفارے لازم ہیں  لیکن امام مالک وغیرہ فرماتے ہیں  کہ کھانے میں کوئی کفارہ نہیں ، جمہور بھی امام صاحب کے ساتھ ہیں ، ابو عمر نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ جس طرح زانی کے کئی زنا پر حد ایک ہی ہوتی ہے، حضرت ابو حنیفہ کا قول ہے کہ شکار کر کے کھانے والے کو اس کی قیمت بھی دینی پڑے گی، ابو ثور کہتے ہیں  کہ محرم نے جب کوئی شکار مارا تو اس پر جزا ہے، ہاں اس شکار کا کھانا اس کیلئے حلال ہے لیکن میں اسے اچھا نہیں  سمجھتا، کیونکہ فرمان رسول ہے کہ خشکی کے شکار کو کھانا تمہارے لئے حلال ہے جب تک کہ تم آپ شکار نہ کرو اور جب تک کہ خاص تمہارے لئے شکار نہ کیا جائے، اس حدیث کا تفصیلی بیان آگے آ رہا ہے، ان کا یہ قول غریب ہے، ہاں شکاری کے سوا اور لوگ بھی اسے کھا سکتے ہیں  یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے، بعض تو منع کرتے ہیں  جیسے پہلے گزر چکا اور بعض جائز بتاتے ہیں  ان کی دلدیل وہی حدیث ہے جو اوپر ابو ثور کے قول کے بیان میں گزری، واللہ اعلم، اگر کسی ایسے شخص نے شکار کیا جو احرام باندھے ہوئے نہیں  پھر اس نے کسی احرام والے کو وہ جانور ہدیئے میں دیا تو بعض تو کہتے ہیں  کہ یہ مطلقاً حلالا ہے خواہ اسی کی نیت سے شکار کیا ہو خواہ اس کے لئے شکار نہ کیا ہو، حضرت عمر حضرت ابوہریرہ حضرت زبیر حضرت کعب احبار حضرت مجاہد، حضرت عطا، حضرت سعید بن جیر اور کو فیوں کا یہی خیال ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ غیر محرم کے شکار کو محرم کھا سکتا ہے ؟ تو آپ نے جواز کا فتوی دیا، جب حضرت عمر کو یہ خبر ملی تو آپ نے فرمایا گر تو اس کے خلاف فتوی دیتا تو میں نیری سزا کرتا کچھ لوگ کہتے ہیں  کہ اس صورت میں بھی محرم کو اس کا کھانا درست نہیں ، ان کی دلیل اس آیت کے کا عموم ہے حضرت ابن عباس اور ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے اور بھی صحابہ تابعین اور ائمہ دین اس طرف گئے ہیں ۔ تیسری جماعت نے اس کی تفصیل کی ہے وہ کہتے ہیں  کہ اگر کسی غیر محرم نے کسی محرم کے ارادے سے شکار کیا ہے تو اس مہرم کو اس کا کھانا جائز ہنہیں ، ورنہ جائز ہے ان کی دلیل حضرت صعب بن جثامہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ابوا کے میدان میں یا ودان کے میدان میں ایک گور خر شکار کردہ بطور ہدئیے کے دیا تو آپ نے اسے واپس کر دیا جس سے صحابی رنجیدہ ہوئے، آثار رنج ان کے چہرے پر دیکھ کر رحمۃ للعالمیں نے فرمایا اور کچھ خیال نہ کرو ہم نے بوجہ احرام میں ہونے کے ہی اسے واپس کیا ہے، یہ حدیث بخاری و مسلم میں موجودہ ہے، تو یہ لوٹانا آپ کا اسی وجہ سے تھا کہ آپ نے سمجھ لیا تھا کہ اس نے یہ شکار خاص میرے لئے ہی کیا ہے اور جب شکار محرم کیلئے ہی نہ ہو تو پھر اسے قبول کرنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں  کیونکہ حضرت ابو قتادہ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے بھی جبکہ وہ احرام کی حالت میں نہ تھے ایک گورخر شکار کیا صحابہ جو احرام میں تھے انہوں نے اس کے کھانے میں توقف کیا اور حضور سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے فرمایا کیا تم میں سے کسی نے اسے اشارہ کیا تھا؟ یا اسے کوئی مدد دی تھی ؟ سب نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا پھر کھا لو اور خود آپ نے بھی کھایا یہ واقعہ بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنگلی شکار کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اس حالت میں بھی کہ تم احرام میں ہو جب تک کہ خود تم نے شکار نہ کیا ہو اور جب تک کہ خود تمہارے لئے شکار نہ کیا گیا ہو، ابو داؤد ترمذی نسائی میں بھی یہ حدیث موجود ہے، امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ اس کے راوی مطلب کا جابر سے سننا ثابت نہیں ، ربیعہ فرماتے ہی کہ عرج میں جناب خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، آپ احرام کی حالت میں تھے جاڑوں کے دن تھے ایک چادر سے آپ منہ ڈھکے ہوئے تھے کہ آپ کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم کھا لو انہوں نے کہا اور آپ کیوں نہیں  کھاتے ؟ فرمایا مجھ میں تم میں فرق ہے یہ شکار میرے ہی لئے کیا گیا ہے اس لئے میں نہیں  کھاؤں گا تمہارے لئے نہیں  گیا اس لئے تم کھا سکتے ہو ۔

۱۰۰

رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بے برکت اور کثرت سوالات

مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور عافل کر دے، ابن حاطب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے آپ نے فرمایا کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے، اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ، پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ بے فائدہ سوالات مت کیا کرو، کرید میں نہ پرو، ایس نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے، صحیح حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کی میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو، صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں خطبہ سنایا، ایسا بے مثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے، یہ سن کر اصحاب رسول منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثنا میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا فلاں، اس پر یہ آیت اتری بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضور سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ منبر پر آ گئے اور فرمایا آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے، صحابہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے جہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں  لوگ ان کے بباپ کے سوا دو سرے کی طرف نسبت کر کے بلاتے تھے اس نے کہا حضور میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا خزافہ، پھر حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ کے سوال ہونے پر راضی ہو گئے ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، آپ نے فرمایا آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں  دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بوطر نقشے کے پیش کر دی گئی تھی اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں  دیکھا ۔ تجھے کیا کۃر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہو گئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بے آبروئی ہوتی، آپ نے فرمایا سنو اماں اگر رسول اللہ کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا، ابن جریر میں ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سخت غصلے کی حالت میں آئے منبر پر جڑھ گئے آپ کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا جہنم میں دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا حذافہ، حضرت عمر نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے پر، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں  یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں ؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری، ایک مرسل حدیث میں ہے کہ اس دن حضور نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا جو چاہو پوچھو، جو پوچھو گے، بتاؤں گا، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جناب عمر نے حضور کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ سے درگزر فرمائے، اسی دن حضور نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے، بخاری شریف میں ہے کہ بعض لوگ از روئے مذاق حضور سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گم شدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری، سمدن احمد میں ہے کہ جب آیت واللہ علی الناس حن البیت من اسطاع الیہ سبیلا نازل ہوئی یعنی صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ نے فرمایا ہر سال نہیں  اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادانہ کر سکتے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، یہ نحدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے، امام ترمذی فرماتے ہیں  یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے حضرت علی سے ملاقات نہیں  کی، ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقینات کافر ہو جاتے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی تھے، دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محضن مروی ہے، یہی زیادہ ٹھیک ہے اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لئے حلال کر دوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کر دوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے، اس کی سند بھی ضعیف ہے، ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو، پس اولی یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کر لیا جائے، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے اپنے صحابہ سے فرما دیا دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں، پھر فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں  روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں  برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کردو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے ۔ حدیث شریف میں ہے مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی، یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں  کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے، پس تمہیں  بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے، صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  جب تک میں تمہیں  چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے اور حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں  انہیں  ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں  انہیں  نہ توڑو، جو چیزیں حرام کر دی ہیں  ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو، پھر فرماتا ہے ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں  بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے، ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں  کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں  کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ، پاس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ کو ممانعت کر دی کہ کہیں  وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہو گئے پس منع کر دیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں  برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ بہ روایت مجاہد حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں  جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے، عکرمہ فرماتے ہیں  مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وا ما منعنا ان نرسل بالا یات الخ، یعنی معجزوں کے ظاہر کین سے مانع تو کچھ بھی نہیں  مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں  اور آیت میں ہے واقسمو اباللہ جھد ایما نھم لئن جاءتھم ایۃ لیومنن بھا الخ، بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں  کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں  لائے تھے اور ہم انہیں  ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں  ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں  ہی بے علم ۔

۱۰۳

بتوں کے نام کٹے ہوئے جانوروں کے نام؟

صحیح بخاری شریف میں حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بحیرہ اس جانور کو کہتے ہیں  جس کے بطن کا دودھ وہ لوگ اپنے بتوں کے نام کر دیتے تھے اسے کوئی دو ہتا نہ تھا سائبہ ان جانوروں کو کہتے تھے جنہیں  وہ اپنے معوبد باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے سواری اور بوجھ سے آزاد کر دیتے تھے، حضرت ابوہریرہ راوی ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا ہے اس نے سب سے پہلے یہ رسم ایجاد کی تھی ۔ وصیلہ وہ اونٹنی ہے جس کے پلوٹھے دو بچے اوپر تلے کے مادہ ہوں ان دونوں کے درمیان کوئی نر اونٹ پیدا نہ ہوا ہوا سے بھی وہ اپنے بتوں کے نام وقف کر دیتے تھے ۔ حام اس نر اونٹ کا نام تھا جس کی نسل سے کئی بچے ہو گئے ہوں پھر اس یبھی اپنے بزرگوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور کسی کام میں نہ لیتے تھے، ایک حدیث میں ہے کہ میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو گویا کھائے جا رہا تھا اس میں میں نے عمرو کو دیکھا کہ اپنی آنتیں گھسیٹا پھرتا ہے اسی نے سائبہ کا رواج سب سے پہلے نکالا تھا ایک حدیث میں ہے حضور نے عمورو کا یہ ذکر حضرت اکتم بن جون رضی اللہ تعلای عنہ سے کر کے فرمایا وہ صورت شکل میں بالکل تیرے جسیا ہے اس پر حضرت اکتم نے فرمایا یا رسول اللہ کہیں  یہ مشابہت مجھے نقصان نہ پہنچائے ؟ آپ نے فرمایا نہیں  بے فکر رہو وہ کافر تھا تم مسلمان ہو ۔ اسی نے حضرت ابراہیم کے دین کو سب سے پہلے بد لا اسی نے بحیرہ، سائبہ اور حام کی رسم نکالی، اسی نے بت پرستی دین ابراہیمی میں ایجاد کی، ایک روایت میں ہے یہ بنو کعب میں سے ہے، جہنم میں اس کے جلنے کی بد بو سے دوسرے جہنمیوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے، بحیرہ کی رسم کو ایجاد کرنے والا بن مد لج کا ایک شخص تھا اس کی دو انٹنیاں تھیں جن کے کام کاٹ دیئے اور عودھ حرام کر دیا پھر کچھ عرصہ کے بعد پینا شروع کر دیا، میں نے اسے بھی دوزخ میں دیکھا دونوں اونٹنیاں اسے کاٹ رہی تھیں اور روند رہی تھیں یاد رہے کہ یہ عمر ولحی بن قمعہ کا لڑکا ہے جو خزاعہ کے سرداروں میں سے ایک تھا قبیلہ جرہم کے بعد بیت اللہ شریف کی تو لیت انہی کے پاس تھی یہی شخص عرب میں بت لایا اور سفلے لوگوں میں ان کی عبادت جاری کی اور بہت سی بد عتیں ایجاد کیں جن میں سے چوپایوں کو الگ الگ طریقے سے بتوں کے نام کرنے کی رسم بھی تھی ۔ جس کی طرف اشارہ آیت وجعلو اللہ مما ذرا من الحرث والا نعام نصیبا میں ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اونٹنی کے جب پانچ بچے ہوتے تو پانچواں اگر نر ہوتا تو اسے ذبح کر ڈالتے اور اس کا گوشت صرف مرد کھاتے عورتوں پر حرام جانتے اور اگر مادہ ہوتی تو اس کے کان کاٹ کر اس کا نام بحیرہ رکھتے ۔ سائبہ کی تفسیر میں مجاہد سے اسی کے قریب قریب بکریوں میں مروی ہے ۔ محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ جس اونٹنی کے پے درپے دس اونٹنیاں پیدا ہوتیں اسے چھوڑ دیتے نہ سواری لیتے نہ بال کاٹتے نہ دودھ دوہتے اور اسی کا نام سائبہ ہے ۔ صرف مہمان کے لئے تو دودھ نکال لیتے ورنہ اس کا دودھ یونہی رکا رہتا، ابو روق کہتے ہیں  یہ نذر کا جانور ہوتا تھا جب کسی کی کوئی حاجت پوری ہو جاتی تو وہ اپنے بت اور بزرگ کے نام کوئی جانور آزاد کر دیتا پھر اس کی نسل بھی آزاد سمبھی جاتی، سدی کہتے ہیں  اگر کوئی شخص اس جانور کی بے حرمتی کرتا تو اسے یہ لوگ سزا دیتے، ابن عباس سے مروی ہے کہ وصیلہ اس جانور کو کہتے ہیں  کہ مثلاً ایک بکری کا ساتواں بچہ ہے اب اگر وہ نر ہے اور ہے مرداہ تو اسے مرد عورت کھاتے اور اگر وہ مادہ ہے تو اسے زندہ باقی رہنے دیتے اور اگر نرما وہ دونوں ایک ساتھ ہوئے ہیں  تو اس نر کو بھی زندگہ رکھتے اور کہتے کہ اس کے ساتھ اس کی بہن ہے اس نے اسے ہم پر حرام کر دیا ۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں  کہ جس اونٹنی کے مادہ پیدا ہو پھر دوسرا بچہ بھی مادہ ہو تو اسے وصیلہ کہتے تھے، محمد بن اسحاق فرماتے ہیں  جو بکری پانچ دفعہ دو دو مادہ بکریاں بچے دے اس کا نام وصیلہ تھا پھر اسے چھوڑ دیا جاتا تھا اس کے بعد اس کا جو بچہ ہوتا اسے ذبح کر کے صرف مرد کھا لیتے اور اگر مردہ پیدا ہوتا تو مرد عورت سب کا حصہ سمجھا جاتا، ابن عباس فرماتے ہیں  حام اس نر اونٹ کو کہتے ہیں  جس کی نسل سے دس بچے پیدا ہو جائیں یہ بھی مردوی ہے کہ جس کے بچے سے کوئی بچہ ہو جائے اسے وہ آزاد کر دیتے نہ اس پر سواری لیتے نہ اس پر بوجھ لادتے، نہ اس کے بال کام میں لیتے نہ کسی کھیتی یا چارے یا حوض سے اسے روکتے، اور اقوال بھی ہیں، حضرت مالک بن نفلہ فرماتے ہیں  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھا آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تیرے پاس کچھ مال بھی ہے ؟ میں نے کہا ہاں، فرمایا کس قسم کا کہا ہر قسم کا اونٹ بکریاں گھوڑے غلام وغیرہ آپ نے فرمایا پھر تو اللہ نے تجھے بہت کچھ دے رکھا ہے سن اونٹ کے جب بچہ ہوتا ہے تو صحیح سالم کان والا ہی ہوتا ہے ؟ میں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا پھر تو استرالے کر ان کے کان کاٹ دیتا ہے اور ان کا نام بحیرہ رکھ دیتا ہے ؟ اور بعض کے کان چیر کر انہیں  حرام سمجھنے لگتا ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ فرمایا خبردار ایسا نہ کرنا اللہ نے تجھے جتنے جانور دے رکھے ہیں  سب حلال ہیں  ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی، بحیرہ وہ ہے جس کے کان کاٹ دیئے جاتے تھے پھر گھر والوں میں سے کوئی بھی اس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں  اٹھا سکتا تھا ہاں جب وہ مر جاتا تو سب بیٹھ کر اس کا گوشت کھا جاتے، سائبہ اس جانور کو کہتے ہیں  جسے اپنے معبودوں کے پاس لے جا کر ان کے نام کا کر دیتے تھے ۔ وصیلہ اس بکری کو کہتے تھے جس کے ہاں ساتویں دفعہ بچہ ہو اس کے کان اور سینگ کاٹ کر آزاد کر دیتے، اس روایت کے مطابق تو حدیث ہی میں ان جانورون کی تفصیل ملی جلی ہے ایک روایت میں یہ بقول حضرت عوف بن مالک مروی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے پھر فرمان قرآن ہے کہ یہ نام اور چیزیں اللہ کی مقرر کردہ نہیں  نہ اس کی شریعت میں داخل ہیں  نہ ذریعہ ثواب ہیں  یہ لوگ اللہ کی پاک صاف شریعت کی طرف دعوت دیئے جاتے ہیں  تو اپنے باب دادوں کے طریقوں کو اس کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں  حالانکہ ان کے بڑے محض نا واقف اور بے راہ تھے ان کی تابعداری تو وہ کرے گا جوان سے بھی زیادہ بہکا ہوا اور بے عقل ہو ۔

۱۰۵

اپنی اصلاح آپ کرو

اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ خود اپنی اصلاح کریں اور اپنی طاقت کے مطابق نیکیوں میں مشغول رہیں ، جب وہ خو دٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے تو برے لوگوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں  پڑے گا خواہ وہ رشتے دار اور قریبی ہوں خواہ اجنبی اور دور کے ہوں ۔ حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں  مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عامل ہو جائے برائیوں سے بچ جائے تو اس پر گنہگار لوگوں کے گناہ کا کوئی بوجھ بارنہیں ۔ مقاتال سے مروی ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ ملتا ہے بروں کو سزا اچھوں کو جزا، اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اچھی بات کا حکم اور بری باتوں سے منع بھی نہ کرے، کیونکہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو سنو! میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ لوگ جب بری باتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں  نہیں  روکیں گے تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی عام عذاب آ جائے، امیر المومنین کا یہ فرمان بھی ہے کہ جھوٹ سے بچو جھوٹ ایمان کی ضد (سنین اربعہ) حضرت ابو ثتلبہ خشنی سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا نہیں  بلکہ تم بھلائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرتے رہو یہاں تک کہ بخیلی کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع اور دنیا کی پسندیدگی اور ہر شخص کا اپنی رائے پر پھولنا عام نہ ہو جائے اس وقت تم صرف اپنی اصلاح میں مشغول ہو جاؤ اور عام لوگوں کو چھوڑ دو، یاد رکھو تمہارے پیچھے صبر کے دن آ رہے ہیں  اس وقت دین اسلام پر جما رہنے والا ایسا ہو گا جیسے کوئی انگارے کو مٹھی میں لئے ہوئے ہو اس وقت عمل کرنے والے کو مثل پچاس شخصوں کے عمل کا اجر ملے گا جو بھی اچھے اعمال کرے گا ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ مثل پچاس شخصوں کے ان ممیں سے یا ہم میں سے ؟ آپ نے فرمایا نہیں  بلہ تم میں سے (ترمذی) حضرت ابن مسعود سے بھی جب اس آیت کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ وقت نہیں  آج تو تمہاری باتیں مان لی جاتی ہیں  لیکن ہاں ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ نیک باتیں کہنے اور بھلائی کا حکم کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی اور اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اس وقت تم صرف اپنے نفس کی اصلاح میں لگ جانا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے دو شخصوں میں کچھ جھگڑا ہو گیا اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہو گئے تو ایک نے کہا میں اٹھتا ہوں اور انہیں  نیکی کا حکم کرتا ہوں اور برائی سے روکتا ہوں تو دوسرے نے کہا مجھے کیا پڑی؟ تو اپنی اصلاح میں لگا رہ، پھر یہی آیت تلاوت کی اسے سن کر حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا چپ رہ اس آیت کے عمل کا یہ وقت نہیں  قرآن میں کئی طرح کی آیتیں ہیں  بعض تو وہ ہیں  جن کے مضامین گزر چکے بعض وہ ہیں  جن کے واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہو گئے، بعض کے واقعت حضور کے بعد ہوئے بعض قیامت کے دن ہوں گے مثلاً جنت دوزخ وغیرہ، سنو جب تک تمہارے دل نہ پھٹیں تمہارا مقصود ایک ہی ہو تم میں پھوٹ نہ پڑی ہو تم میں لڑائی دنگے شروع نہ ہوئے ہوں تم اچھی باتوں کی ہدایت کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ۔ ہاں جب دلوں میں جدائی ہو جائے ۔ آپ میں اختلاف پڑجائیں لڑائیاں شروع ہو جائیں اس وقت صرف اپنے تیئس پابند شریعت رکھنا کافی ہے اور وہی وقت ہے اس آیت کے عمل کا (ابن جریر) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ ان دنوں تو آپ اگر اپنی زبان روک لیں تو اچھا ہو آپ کو کیا پڑی کوئی کچھ ہی کرے آپ نہ کسی کو روکیں نہ کچھ کہیں  دیکھئے قرآن میں بھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنے تیئس سنبھالو گمراہوں کی گمراہی کا وبال تم پر نہیں  جبکہ تم خود راہ راست پر ہو ۔ تو حضرت ابن عمر نے کہا یہ حکم میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے نہیں  اس لئے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے خبردار ہر موجود شخص غیر موجود لوگوں کو پہنچا دے ۔ پس ہم موجود تھے اور تم غیر موجود تھے ۔ یہ آیت تو ان لوگوں کے حق میں ہے جو بعد میں آئیں گے وہ لوگوں کو نیک باتیں کہیں  گے لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی (ابن جریر) حضرت ابن عمر کی مجلس میں ایک صاحب آئے بڑے غصیل اور تیز زبان، کہنے لگے سنیئے جناب چھ شخص ہٌن سب قرآن پڑھے ہوئے جاننے بوجھنے والے مجہتد سمجھار لیکن ہر ایک دوسرے کو مشرک بتلاتا ہے، اس نے کہا میں تم سے نہیں  پوچھتا میں تو حضرت ابن عمر سے سوال کرتا ہوں اور پھر وہی بات دوہرا دی تو حضرت عبد اللہ نے فرمایا شاید تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے یہ کہہدوں کہ جا انہی قتل کر ڈال نہیں  میں کہتا ہوں جا انہیں  نصیحت کر انہیں  برائی سے روک نہ مانیں تو اپنی راہ لگ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت کی، خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت ابن مازن مدینے میں آتے ہیں  یہاں مسلمانوں کا ایک مجمع جمع تھا جس میں سے ایک شخص نے اسی آیت کی تلاوت کی تو اکثر لوگوں نے کہا اس کے عمل کا وقت ابھی تک نہیں  آیا ۔ حضرت جیر بن نفیر کہتے ہیں  میں ایک مجلس میں تھا جس میں بہت سے صحابہ کرام موجود تھے یہی ذکر ہو رہا تھا کہ اچھی باتوں کا حکم کرنا چاہیے اور بری باتوں سے روکنا چاہیے میں اس مجلس میں سب سے چھوٹی عمر کا تھا لیکن جرات کر کے یہ آیت پڑھ دی اور کہا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر مجھے جواب دیا کہ اس کا صحیح مطلب تمہیں  معلوم نہیں  اور جو مطلب تم لے رہے ہو بالکل غلط ہے مجھے بڑا افسوس ہوا، پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے جب اٹھنے کا وقت آیا تو مجھ سے فرمایا تم ابھی بچے ہو بے ٤وقعہ آیت پڑھ دیتے ہو اصلی مطلب تک نہیں  پہنچتے بہت ممکن ہے کہ تم اس آیت کے زمانے کو پالو یہ حکم اس وقت ہے جب بخیلی کا دور دورہ ہو خواہش پر ستی عام ہو ہر شخص اپنی سمجھ پر نازاں ہو اس وقت انسان خود نیکیوں اور بھلائیوں میں مشغول رہے گمراہوں کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں  پہنچائے گی ۔ حضرت حسن نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا اس پر بھی اللہ کا شکر ہے اگلے اور پچھلے مومنوں کے ساتھ منافق ضرور رہے جو ان کے اعمال سے بیزار ہی رہے، حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  جب تم نے اچھی بات کی نصیحت کر دی اور بری بات سے روک دیا پھر بھی کسی نے برائیاں کیں نیکیاں چھوڑیں تو تمہیں  کوئی نقصان نہیں  ۔ حضرت حذیفہ بھی یہی فرمائے ہیں  حضرت کعب فرماتے ہیں  اس کا وقت وہ ہے جب مسجد دمشق کا کلیساڈھا دیا جائے اور تعصب بڑھ جائے ۔

۱۰۶

معتبر گواہی کی شرائط

بعض لوگوں نے اس آیت کو عزیز حکم کو منسوخ کہا ہے لیکن اکثر حضرات اس کے خاف ہیں  اثنان خبر ہے، اس کی تقدیر شھداۃ اثنین ہے مضاف کو حذف کر کے مضاف الیہ اس کے قائم مقام کر دیا گیا ہے یا دلالت کلام کی بنا پر فعل محذوف کر دیا گیا ہے یعنی ان یشھد اثنان، ذواعدل صفت ہے، منکم سے مراد مسلمانوں میں سے ہونا یا وصیت کرنے والے کے اہل میں سے ہونا ہے، من غیر کم سے مراد اہل کتاب ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ منکم سے مراد قبیلہ میں اور من غیر کم سے مراد اس کے قبیلے کے سوا، شرطیں دو ہیں  ایک مسافر کے سفر میں ہونے کی صورت میں موت کے وقت وصیت کے لیے غیر مسلم کی گواہی چل سکتی ہے، حضرت شریح سے یہی مروی ہے، امام احمد بھی یہی فرماتے ہیں  اور تینوں امام خلاف ہیں ، امام ابو حنیفہ ذمی کافروں کی گواہی آپس میں ایک دوسرے پر جائز مانتے ہیں، زہری کا قول ہے کہ سنت جاری ہو چکی ہے کہ کافر کی شہادت جائز نہیں  نہ سفر میں نہ حضر میں ۔ ابن زید کہتے ہیں  کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری ہے جس کی موت کے وقت اس کے پاس کوئی مسلمان نہ تھا یہ ابتدائے اسلام کا وقت تھا جبکہ زمین کافرون سے بھری تھی اور وصیت سے ورثہ بٹتا تھا، ورثے کے احکام نازل نہیں  ہوئے تھے، پھر وصیت منسوخ ہو گئی ورثے کے احکام اترے اور لوگوں نے ان پر عمل درآمد شروع کر دیا، پھر یہ بھی کہ ان دونوں غیر مسلموں کی وصی بنایا جائے گا یا گواہ؟ حضرت ابن مسعود کا قول ہے کہ یہ حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو سفر میں ہو اور وہیں  اجل آ جائے اور مال اس کے پاس ہو پس اگر دو مسلمان اسے مل جائیں تو انہیں  اپنا مال سونپ دے اور دو گواہ مسلمان مقرر کر لے، اس قول کے مطابق تو یہ دونوں وصی ہوئے، دوسرا قول یہ ہے کہ یہ دونوں گواہ ہوں گے، آیت کے الفاظ کا ظاہر مطلب بھی یہی معلوم ہوتا ہے، ہاں جس صورت میں ان کے ساتھ اور گواہ نہ ہوں تو یہی وصی ہوں گے اور یہی گواہ بھی ہوں گے امام ابن جریر نے ایک مشکل اس میں یہ بیان کی ہے کہ شریعت کے کسی حکم میں گواہ پر قسم نہیں  ۔ لیکن ہم کہتے ہیں  یہ ایک حکم ہے جو مستقل طور پر بالکل علیہدہ صورت میں ہے اور احکام کا قیاس اس پر جاری نہیں  ہے، یہ ایک خاص شہادت خاص موقعہ کی ہے اس میں اور بھی بہت سی ایسی باتیں جو دوسرے احکام میں نہیں  ۔ پس شک کے قرینے کے وقت اس آیت کے حکم کے مطابق ان گواہوں پر قسم لازم آتی ہے، نماز کے بعد ٹھہرالو سے مطلب نماز عصر کے بعد ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ نماز سے مراد مسلمانوں کی نماز ہے ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے مذہب کی نماز، مقصود یہ ہے کہ انہیں  نماز کے بعد لوگوں کی موجودگی میں کھڑا کیا جائے اور اگر خیانت کا شک ہو تو ان سے قسم اٹھوائی جائے وہ کہیں  کہ اللہ کی قسم ہم اپنی قسموں کو کسی قیمت بیچنا نہیں  چاہتے ۔ دنیوی مفاد کی بنا پر جھوٹی قسم نہیں  کھاتے چاہے ہماری قسم سے کسی ہمارے قریبی رشتہ دار کو نقصان پہنچ جائے تو پہنچ جائے لیکن ہم جھوٹی قسم نہیں  کھائیں گے اور نہ ہم سچی گواہی چھپائیں گے، اس گواہی کی نسبت اللہ کی طرف اس کی عزت و عظمت کے اظہار کیلئے ہے بعض نے اسے قسم کی بنا پر مجرور پڑھا ہے لیکن مشہور قرات پہلی ہی ہے وہ ساتھ ہی یہ بھی کہیں  کہ اگر ہم شہادت کو بدلیں یا الٹ پلٹ کریں یا کجھ حصہ چھپالی تو ہم بھی گنہگار، پھر اگر یہ مشہور ہو یا ظاہر ہو جائے یا اطلاع مل جائے کہ ان دونوں نے مرنے والے کے مال میں سے کچھ چرالیا یا کسی قسم کی خیانت کی ۔ اولیان کی دوسری قرات اولان بھی ہے مطلب یہ ہے کہ جب کسی خبر صحیح سے پتہ چلے کہ ان دونوں نے کوئی خیانت کی ہے تو میت کے وارثوں میں سے جو میت کے زیادہ نزدیک ہوں وہ دو شخص کھڑے ہوں اور حلیفہ بیان دیں کہ ہماری شہادت ہے کہ انہوں نے چرایا اور یہی زیادہ حق زیادہ صحیح اور پوری سچی بات ہے، ہم ان پر جھوٹ نہیں  باندھتے اگر ہم ایسا کریں تو ہم ظالم، یہ مسئلہ اور قسامت کا مسئلہ اس بارے ممیں بہت ملتا جلتا ہے، اس میں بھی مقتول کے اولیاء قسمیں کھاتے ہیں، تمیم داری سے منقول ہے کہ اور لوگ اس سے بری ہیں  صرف میں اور عدی بن بداء اس سے متعلق ہیں، یہ دونوں نصرانی تھے اسلام سے پہلے ملک شام میں بغرض تجارت آتے جاتے تھے بن سہم کے مولی بدیل بن ابو مریم بھی مال تجارت لے کر شام کے ملک سے ہوتے ھے ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا، جسے وہ خاص بادشاہ کے ہاتھ فروخت کرنے کیلئے لے جا رہے تھے ۔ قتفاقاً وہ بیمار ہو گئے ان دونوں کو وصیت کی اور مال سونپ دیا کہ یہ میرے وارثوں کو دے دینا اس کے مرنے کے بعد ان دونوں نے وہ جام تو مال سے الگ کر دیا اور ایک ہزار درہم میں بیچ کر آدھوں آدھ بانٹ لئے باقی مال واپس لا کر بدیل کے رشتہ داروں کو دے دیا، انہوں ے پوچھا کہ چاندی کا جام کیا ہواً دونوں نے جواب دیا ہمیں کیا خبر؟ ہمیں تو جو دیا تھا وہ ہم نے تمہیں  دے دیا ۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ تعلای عنہ فرماتے ہیں  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینے میں آئے اور اسلام نے مجھے پر اثر کیا، میں مسلمان ہو گیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ یہ انسانی حق مجھ پر رہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں میں پکڑا جاؤں گا تو میں بدیل کے وارثان کے پاس آیا اور اس سے کہا پانچ سو درہم جو تو نے لے لئے ہیں  وہ بھی واپس کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اس سے قسم لی جائے اس پر یہ آیت اتری اور عمرو بن عاص نے اور ان میں سے ایک اور شخص نے قسم کھائی عدی بن بداء کو پانچ سو درہم دینے پڑے (ترمذی) ایک روایت میں ہے کہ عدی جھوٹی قسم بھی کھا گیا تھا اور روایت میں ہے کہ اس وقت ارض شام کے اس حصے میں کوئی مسلمان نہ تھا، یہ جام چاندی کا تھا اور سونے سے منڈھا ہوا تھا اور مکے میں سے جام خریدا گیا تھا جہاں سے ملا تھا انہوں نے بتایا تھا کہ ہم نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا ہے، اب یت کے دو وارث کھڑے ہوئے اور قسم کھائی، اسی کا ذکر اس آیت میں ہے ایک روایت میں ہے کہ قسم عصر کی نماز کے بعد کوئی تھی ابن جریر میں ہے کہ ایک مسلمان کی وفات کا موقعہ سفر میں آیا، جہان کوئی مسلمان اسے نہ ملا تو اس نے اپنی وصیت پر دو اہل کتاب گواہ رکھے، ان دونوں نے کوفے میں آ کر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے سامنے شہادت دی وصیت بیان کی اور ترکہ پیش کیا حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ واقعہ پہلا ہے پس عصر کی نماز کے بعد ان سے قسم لی کہ نہ انہوں نے خیانت کی ہے، نہ جھوٹ بولا ہے، نہ بدلا ہے، نہ چھپایا ہے، نہ الٹ پلٹ کیا ہے بلکہ سج وصیت اور پورا ترکہ انہوں نے پیش کر دیا ہے آپ نے ان کی شہادت کو مان لیا، حضرت ابو موسیٰ کے فرمان کا مطلب یہی ہے کہ ایسا واقعہ حضور کے سمانے میں تمیم اور عدی کا ہوا تھا اور اب یہ دوسرا اس قسم کا واقع ہے، حضرت تمیم بن داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اسلام سنہ ۹ہجری کا ہے اور یہ آخری زمانہ یہ ۔ سدی فرماتے ہیں  لازم ہے کہ موت کے وقت وصیت کرے اور دو گواہ کے اگر سفر میں ہے اور مسلمان نہیں  ملتے تو خیر غیر مسلم ہی سہی ۔ انہیں  وصیت کرے اپنا مال سونپ دے، اگر میت کے وارثوں کا اطمیں ان ہو جائے تو خیر آئی گئی بات ہوئی ورنہ سلطان اسلام کے سامنے وہ مقدمہ پیش کر دیا جائے، اوپر جو واقعہ بیان ہوا اس میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت ابو موسیٰ نے ان سے عصر کے بعد قسم لینی چاہی تو آپ سے کہا گیا کہ انہیں  عصر کے بعد کی کیا پرواہ؟ ان سے ان کی نماز کے وقت قسم لی جائے اور ان سے کہا جائے کہ اگر تم نے کچھ چھپا یا یا خیانت کی تو ہم تمہیں  تمہاری قوم میں رسوا کر دیں گے اور تمہاری گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے گی اور تمہیں  سنگین سزا دی جائے گی، بہت ممکن ہے کہ اس طرح ان کی زبان سے حق بات معلوم ہو جائے پھر بھی اگر شک شبہ رہ جائے اور کسی اور طریق سے ان کی خیانت معلوم ہو جائے تو مرحوم کے دو مسلمان وارث قسمیں کھائیں کہ ان کافروں کی شہادت غلط ہے تو ان کی شہادت غلط مان لی جائے گی اور ان سے ثبوت لے کر فیصلہ کر دیا جائے گا پھر بیان ہوتا ہے کہ اس صورت میں فائدہ یہ ہے کہ شہادت ٹھیک ٹھیک آ جائے گی ایک تو اللہ کی قسم کا لحاظظ ہو گا دوسرے لوگوں میں رسوا ہونے کا ڈر رہے گا، لوگو! اللہ تعالیٰ سے اپنے سب کاموں میں ڈرتے رہو اس کی باتیں سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ، جو لوگ اس کے فرمان سے ہٹ جائیں اور اس کے احکام کے خلاف چلیں وہ راہ راست نہیں  پاتے ۔

۱۰۹

روز قیامت انبیاء سے سوال

اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ رسولوں سے قیامت کے دن سوال ہو گا کہ تمہاری امتوں نے تمہیں  مانا یا نہیں ؟ جیسے اور آیت میں ہے فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن المرسلین یعنی رسولوں سے بھی اور ان کی امتوں سے بھی یہ ضرور دریافت فرمائیں گے اور جگہ ارشاد ہے فوربک لنسئلنھم اجمعین الخ، تیرے رب کی قسم ہم سب سے ان کے اعمال کا سوال ضرور ضرور کریں گے، رسولوں کا یہ جواب کہ ہمیں مطلق علم نہیں  اس دن کی ہول و دہشت کی وجہ سے ہو گا، گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ جواب بن نہ پڑے گا، یہ وہ وقت ہو گا کہ عقل جاتی رہے گی پھر دوسری منزل میں ہر نبی اپنی اپنی امت پر گواہی دے گا ۔ ایک مطلب اس آیت کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ سوال کی غرض یہ ہے کہ تاہری امتوں نے تماہرے بعد کیا کیا عمل کئے اور کیا کیا نئی باتیں نکالیں ؟ تو وہ ان سے اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے، یہ معنی بھی درست ہو سکتے ہیں  کہ ہمٌن کوئی ایسا علم نہیں  جو اے جناب باری تیرے علم میں نہ ہو، حقیقتاً یہ قول بہت ہی درست ہے کہ اللہ کے علم کے مقابلے میں بندے محض بے علم ہیں  تقاضائے ادب اور طرقیہ گفتگو یہی مناسب مقام ہے، گو انبیاء جانتے تھے کہ کس کس نے ہماری نبوت کو ہمارے زمانے میں تسلیم کیا لیکن چونکہ وہ ظاہر کے دیکھنے والے تھے اور رب عالم باطن بین ہے اس لئے ان کا یہی جواب بالکل درست ہے کہ ہمیں حقیقی علم مطلقاً نہیں  تیرے علم کی نسبت تو ہمارا علم محض لا علمی ہے حقیقی عالم تو صرف ایک تو ہی ہے ۔

۱۱۰

جناب مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام پر جو احسانات تھے انکا اور آپکے معجزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ بغری باپ کے صرف ماں سے آپکو پیدا کیا اور اپنی کمال قدرت کا نشان آپ کو بنایا، پھر آپلی والدہ پر احسان کیا کہ انکی برات اسی بچے کے منہ سے کرائی اور جا برائی کی نسبت انکی طرف بیہودہ لوگ کر رہے تھے اللہ نے آج کے پیدا شدہ بچے کی زبان سے ان کی پاک دامنی کی شہادت اپنی قدرت سے دلوائی، جبرائیل علیہ السلام کو اپنے نبی کی تائید پر مقرر کر دیا، بچپن میں اور بڑی عمر میں انہیں  اپنی دورت دینے ولاا بنایا گیا، گہوارے میں ہی بولنے کی طاقت عطا فرمائی، اپنی والدہ محترمہ کی برات ظاہر کر کے اللہ کی عبودیت کا اقرر کیا اور اپنی رسالت کی طرف لوگوں کو بلایا، مراد کلام کرنے سے اللہ کی طرف بلانا ہے ورنہ بڑی عمر میں کلام کرنا کوئی خاص بات یا تعجب کی چیز نہیں  ۔ لکھنا اور سمجھنا آپ کو سکھایا ۔ تورات جو کلیم اللہ پر اتری تھی اور انجیل جو آپ پر نازل ہوئی دونوں کا علم آپ کو سکھایا ۔ آپ مٹی سے پرند کی صورت بناتے پھر اس میں دم کر دیتے تو وہ اللہ کے حکم سے چڑیا بن کر اڑ جاتا، اندھوں اور کوڑھیوں کے بھلا چنگا کرنے کی پوری تفسیر سورہ آل عمران میں گزر چکی ہے، مردوں کی آپ بلاتے تو وہ بحکم الہی زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کر آ جاتے، ابو ہذیل فرماتے ہیں  جب حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کسی مردے کے زندہ کرنے کا ارادہ کرتے تو دو رکعت نامز ادا کرتے پہلی میں سورہ تبارک اور دوسری میں سورہ الم تنزیل السجدہ پڑھتے پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پڑھتے اور اسکے سات نام اور لیتے یا حی یا قیوم، یا اللہ، یا رحمن،، یا رحیم، یا ذوالاجلا و الا کرام، یا نور السموات والارض ثما بینھما ورب العرش العظیم، یہ اثر بڑا زبردست اور عظمت والا ہے اور میرے اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جب تم دلائل و براہیں  لے کر اپنی امت کے پاس آئے اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے اسے جادو بتایا اور درپے آزار ہوئے تو انکے شر سے میں نے تمہیں  بچا لیا، انہوں نے قتل کرنا چاہا، سولی دینا چاہی، لیکن میں ہمیشہ تیرا کفیل و حفیظ رہا اس سے ثبات ہوتا ہے کہ یہ احسان آپکے آسمان پر چڑھا لینے کے بعد کے ہیں  یا یہ کہ یہ خطاب آپ سے بروز قیامت ہو گا اور ماضی کے صیغہ سے اسکا بیان اس کے پختہ اور یقینی ہونے کے سبب ہے ۔ یہ غیبی اسرار میں سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی کو مطلع فرما دیا، پھر اپنا ایک اور احسان بتایا کہ میں نے تیرے مددگار اور ساتھی بنا دیئے، ہواریوں کے دل میں الہام اور القا کیا ۔ یہاں بھی لفظ وحی کا اطلاق ویسا ہی ہے جیسا ام موسیٰ کے بارے میں ہے اور شہد کی مکھی کے بارے میں ہے ۔ انہوں نے الہام رب پر عملکیا، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تیری زبانی ان تک اپنی وحی پہنچائی اور انہیں  قبولیت کی توفیق دی، تو انہوں نے مان لیا اور کہہ دیا کہ ہم تو مسلمین یعنی تابع فرمان اور فرماں بردار ہیں  ۔

۱۱۲

بی اسرائیل کی نا شکری اور عذاب الٰہی

یہ مائدہ کا واقعہ ہے اور اسی کی وجہ سے اس سورت کا نام سورہ مائدہ ہے یہ بھی جناب مسیح علیہ السلام کی نبوت کی ایک زبر دست دلیل اور آپ کا ایک اعلی معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سے آسمانی دستر خوان اتارا اور آپ کی سچائی ظاہر کی ۔ بعض ائمہ نے فرمایا ہے کہ اس کا ذکر موجودہ انجیل میں نہیں  عیسائیوں نے اسے مسلمانوں سے لیا ہے، واللہ اعلم، حضرت عیسیٰ کے ماننے والے آپ سے تمنا کرتے ہیں  کہ اگر ہو سکے تو اللہ تعالیٰ سے ایک خوان کھانے سے بھرا ہوا طلب کیجئے ایک قرات میں ھل یستطیع ربک یعنی کیا آپ سے یہ ہو سکتا ہے ؟ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ؟ مائدہ کہتے ہیں  اس دستر خوان کو جس پر کھانا رکھا ہوا ہو، بعض لوگوں کا بیان ہے کہ انہوں نے بوجہ فقر و فاقہ، تنگی اور حاجت کے یہ سوال کیا تھا، جناب مسیہ علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ اللہ پر بھروسہ رکھو اور رزق کی تلاش کرو، ایسے انوکھے سوالات نہ کرو، کہیں  ایسا نہ ہو کہ یہ فتنہ ہو جائے اور تمہارے ایمان ڈگمگا جائیں ۔ انہں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ہم تو کھانے پینے سے تنگ ہو رہے ہیں  محتاج ہو گئے ہیں  اس سے ہمارے دل مطمئن ہو جائیں گے کیونکہ ہم اپنی آنکھوں سے اپنی روزیاں آسمان سے اترتی خود دیکھ لیں گے، اسی طرح آپ پر جو ایمان ہے وہ بھی بڑھ جائے گا، آپ کی رسالت کو یوں تو ہم مانتے ہی ہیں  لیکن یہ دیکھ کر ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور اس پر خود ہم گواہ بن جائیں گے، اللہ کی قدرت اور آپ کے معجزہ کی یہ ایک روشن دلیل ہو گی جس کی شہادت ہم خود دیں گے اور یہ آپ کی نبوت کی کافی دلیل ہو گی، اب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، عید ہونے سے مراد تو عید کا دن یا نماز گذارنے کا دن ہونا ہے یا اپنے بعد والوں کے لئے یادگار کا دن ہونا ہے یا اپنی اور اپنے بعد کی نسلوں کیلئے نصیحت و عبرت ہونا ہے یا اگلوں پچھلوں کے لئے کافی وانی ہونا ہے، حضرت عیسیٰ فرماتے ہیں  یا اللہ یہ تیری قدرت کی یک نشانی ہو گی اور میری سچائی کی بھی کہ تو نے میری دعا قبول فرمالی، پس لوگوں تک ان باتوں کو جو تیرے نام سے ہیں  انہیں  پہنچاؤں گا یقین کر لیا کریں گے، یا اللہ تو ہمیں یہ روزی بغیر مشقت و تکلیف کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا فمرا تو تو بہترین رازق ہے، اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کا وعدہ فرما لیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ اس کے اترنے کے بعد تم میں سے جو کوئی بھی جھٹلائے گا اور کفر کرے گا تو میں اسے وہ عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب دوں گا جو تمہارے زمانے میں کسی اور کو نہ دیا ہو، جیسے آل فرعون کو قیامت کے دن کہا جائے گا کہ تم سخت تر عذاب میں داخل ہو جاؤ، اور جیسے منافقوں کے لئے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ قیامت کے دن بدترین عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہو گا، منافقوں کو اور مائدہ آسمانی کے بعدانکار کرنے والوں کو اور فرعونیوں کو، اب ان روایات کو سنیئے جو اس بارے میں سلف سے مروی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں  حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی اسرائیل سے فرمایا کہ تم اللہ کے لئے ایک مہینے کے روزے رکھو پھر رب سے دعا کرو وہ قبول فرمائے گا انہوں نے تیس روزے پورے کر کے کہا اے بھلائیوں کے بتانے والے ہم اگر کسی کا کام ایک ماہ کامل کرتے تو وہ بعد فراغت ضرور ہماری دعوت کرتا تو آپ بھی اللہ سے بھرے ہوئے خوان کے آسمان سے اترنے کی دعا کیجئے حضرت عیسیٰ نے پہلے تو انہیں  سمجھایا لیکن ان کی نیک نیتی کے اظہار پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ساتھ ہی دھمکا بھی دیا پھر فرشتوں کے ہاتھوں آسمان سے خوان نعمت اتارا، جس پر سات مچھلیاں تھیں سات روٹیاں تھیں، جہاں یہ تھے وہیں  وہ ان کے کھانے کو رکھ گئے سب بیٹھ گئے اور شکم سیر ہو کر اتھے، ابن ابی حاتم کی ایک مر فوع حدیث میں ہے کہ اس مائدہ آسمانی میں گوشت روٹی اترا تھا حکم تھا کہ خیانت نہ کریں کل کے لئے نہ لے جائیں لیکن انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی، لے بھی گئے اور چرا بھی لیا، جس کی سزا میں وہ بندر بن گئے حضرت عمار فرماتے ہیں  اس میں جنت کے میوے تھے، آپ فرماتے ہیں  اگر وہ لوگ خیانت اور ذخیرہ نہ کرتے تو وہ خوان یوں ہی رہتا لیکن شام ہونے سے پہلے ہی انہوں نے چوریاں شروع کر دیں، پھر سخت عذاب کئے گئے، اے عرب بھائیو! یاد کرو تم اونٹوں اور بکریوں کی دمیں مروڑ تے تھے، اللہ نے تم پر احسان کیا خود تم ہی میں سے رسول کو بھیجا جن سے تم واقف تھے جن کے حسب و نسب سے تم آگاہ تھے، اس رسول علیہ سلام نے تمہیں  بتا دیا کہ عجمیوں کے ملک تمہارے ہاتھوں فتح ہوں گے لیکن خبردار تم سونے چاندی کے خزانوں کے درپے نہ ہو جانا لیکن واللہ دن رات وہی ہیں  اور تم وہ نہ رہے، تم نے خزانے جمع کرنے شروع کر دیئے، مجھے تو خوف ہے کہ کہیں  تم پر بھی اللہ کا عذاب برس نہ پرے، اسحق بن عبد اللہ فرماتے ہیں  جن لوگوں نے مائدہ آسمانی میں سے چرایا ان کا خیال ہیہ تھا کہ کہیں  ایسا نہ ہو کہ یہ ختم ہو جائے اور کل کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ رہے، مجادہ سے مروی ہے کہجب وہ اتر تے ان پر مائدہ اترتا عطیہ فرماتے ہیں  گو وہ تھی تو مچھلی لیکن اس میں ذائقہ ہر چیز کا تھا، وہب بن منبہ فرماتے ہیں  ہر دن اس مائدہ پر آسمان سے میوے اتر تے تھے قسم قسم کی روزیاں کھاتے تھے، چار ہزار آدمی ایک وقت اس پر بیٹھ جاتے پھر اللہ کی طرف سے غذا تبدیل ہو جاتی یہ بھی فرماتے ہیں  کہ اس پر روٹیاں جو کہ تھیں، سعید بن جیبر فرماتے ہیں  اس پر سوائے گوشت کے تمام چیزیں تھیں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں  اس پر چاول کی روٹی تھی، حضرت وہب فرماتے ہیں  کہ ان کے اس سوال پر حضرت عیسیٰ بہت رنجیدہ ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ زمین کے رزق پر قناعت کرو اور آسمانی دستر خوان نہ مانگو اگر وہ اترا تو چونکہ زبردست نشان ہو گا اگر ناقدری کی تو بری طرح پکڑے جاؤ گے ۔ ثمودیوں کی ہلاکت کا باعث بھی یہی ہوا کہ انہوں نے اپنے نبی سے نشان طلب کیا تھا لیکن حواریوں نے حضرت عیسیٰ کی ایک نہ مانی اور اصرار کیا کہ نہیں  آپ ضرور دعا کیجئے اب جناب عیسیٰ اٹھے، صوف کا جبہ اتار دیا، سیاہ بالوں کا لبادہ پہن لیا اور چادر بھی بالوں کی اوڑھ لی، وضو کر کے غسل کر کے، مسجد میں جا کر نماز پڑھ کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کھڑے ہو گئے، دونوں پیر ملائے، ایک پنڈلی دوسری پنڈالی سے لگا لی، انگلیاں بھی ملا لیں، اپنے سینے پر اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، نگاہیں  زین میں گاڑلیں سر جھکا دیا اور نہایت خشوع و خضوع سے عاجزانہ طور پر گریہ وزاری شروع کر دی، آنسو رخسارون سے بہ کرداڑھی کو تر کر کے زمین پر ٹپکنے لگے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہو گئی، اب دعا کی جس کا بیان اس آیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ایک سرخ رنگ کا خوان دو بادلوں کے درمیان آسمان سے اترا، جسے اتر تے ہوئے سب نے دیکھا، سب تو خوشیاں ما رہے تھے لیکن روح اللہ کانپ رہے تھے، رنگ اڑ گیا تھا اور زار و قطار رو رہے تھے کہ اللہ ہی خیر کر ے، ذرا بے ادبی ہوئی تو مارے گئے زبان مبارک سے یہ دعا نکل رہی تھی کہ یا اللہ اسے تو رحمت کا سبب بنا عذاب کا سب نہ بنا، یا اللہ بہت سی عجیب و غریب چیزیں میں نے تجھ سے طلب کیں اور تو نے عطا فرمائیں، باری تعالیٰ تو ان نعمتوں کے شکر کی ہمیں تو فیق عطا فرما، اے پروردگار تو اپنی اس نعمت کو ہامرے لئے سبب غضب نہ بنا، الٰہی تو اسے سلامتی اور عافیت کر، اسے فتنہ اور عذاب نہ کر، یہاں تک کہ وہ خوان زمین تک پہنچ گیا اور حضرت عیسیٰ حواری اور عیسائیوں کے سامنے رکھ دیا گیا، اس میں سے ایسی پاکیزہ خوشبوئیں آ رہی تھیں کہ کسی دماغ میں ایسی خوشبو اس سے پہلے کبھی نہیں  آئی تھی، حضرت عیسیٰ اور آپ کے اصحاب اسے دیکھ کر سجدے میں گر پڑے یہودی بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور جل بھن رہے تھے، حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی اس دسترخوان کے اردگرد بیٹھ گئے دیکھا کہ اس پر ایک رومال ڈھکا ہوا ہے، مسیح علیہ السلام نے فرمایا کون نیک بخٹ جرات و ہمت کر کے اسے کھولتا ہے ؟ حواریوں نے کہ اے کلمۃ اللہ آپ سے زیادہ حقدار اس کا کون ہے ؟ یہ سن کر حضرت عیسیٰ کھڑے ہوئے، نئے سرے سے وضو کیا، مسجد میں جا کر کئی رکعت نماز ادا کی دیر تک روتے رہے پھر دعا کی کہ یا اللہ اس کے کھولنے کی اجازت مرحمت ہو اور اسے برکت و رزق بن دیا جائے، پھر واپس آئے اور بسم اللہ خیر الرازقین کہہ کر رومال اٹھایا، تو سب نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی لمبی چوڑی اور موٹی بھنی ہوئی مچھلی ہے، جس کے اوپر چھلکا نہیں  اور جس میں کانٹے نہیں ، گھی اس میں سے بہ رہا ہے اسی میں ہر قسم کی سبزیاں بھی ہیں ، سوائے گندنا اور مولی کے اس کے سر کے پاس سرکہ رکھا ہوا ہے اور دم کے پاس نمک ہے، سبزیوں کے پاس پانچ روٹیاں ہیں، ایک پر زیتون کا تیل ہے دوسری پر کھجوریں ہیں  اور ایک پر پانچ انار ہیں ، شمعون نے جو حواریوں کے سردار تھے کہا کہ اے روح اللہ یہ دنیا کا کھانا ہے یا جنت کا؟ آپ نے فرمایا ابھی تک تمہارے سوال ختم نہیں  ہوئے ؟ ابھی تک کریدنا باقی ہی ہے ؟ واللہ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں  اس پر تمہیں  کوئی عذاب نہ ہو، حضرت شمعون نے کہا اسرائیل کے معوبد برحق کی قسم میں کسی سرکشی کی بنا پر نہیں  پوچھ رہا، اے سچی ماں کے اچھے بیٹے ! یقین ما نئے کہ میری نیت بد نہیں، آپ نے فرمایا نہ یہ طعام دنیا ہے نہ طعام جنت بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص حکم سے اسے آسمان و زمین کے درمیان اسی طرح کا پیدا کر دیا ہے اور تمہارے پاس بھیج دیا ہے، اب اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور کھا کر اس کا شکر ادا کرو شکر گزاروں کو وہ زیادہ دیتا ہے اور وہ ابتداء پیدا کرنے وال اقادر اور قدر دان ہے، شمعون نے کہا اے نبی اللہ ہم چاہتے ہیں  کہ اس نشان قدرت میں ہی اور نشان قدرت دیکھیں ۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ گویا ابھی تم نے کوئی نشان قدرت دیکھا ہی نہیں  ؟ اچھا لو دیکھو یہ کہہ کر آپ نے اس مچھلی سے فرمایا اے مچھلی اللہ کے حکم سے جیسی تو زندہ تھی، زندہ ہو جا، اسی وقت اللہ کی قدرت سے وہ زندہ ہو گئی اور ہل جل کر چلنے پھرنے لگی، آنکھیں چمکنے لگیں، دیدے کھل گئے اور شیر کی طرح منہ پھاڑ نے لگی اور اس کے جسم پر کھپرے بھی آ گئے، یہ دیکھتے ہی تمام حاضرین ڈر گئے اور ادھر ادھر ہٹنے اور دبکنے لگے، آپ نے فرمایا دیکھو تو خود ہی نشان طلب کرتے ہو خود ہی اسے دیکھ کر گھبراتے ہو واللہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ یہ مائدہ آسمانی تمہارے لئے غضب اللہ کا نمونہ نہ بن جائے، اسے مچھلی تو بحکم الٰہی جیسی تھی، ویسی ہی ہو جا، چنانچہ اسی وقت وہ ویسی ہی ہو گئی، اب سب نے کہا کہ اے نبی اللہ آپ اسے کھانا شروع کیجئے اگر آپ کو کوئی برائی نہ پہنچے تو ہم بھی کھا لیں گے، آپ نے فرمایا معاذ اللہ وہی پہلے کھائے جس نے مانگی ہے، اب تو سب کے دلوں میں دہشت بیٹھ گئی کہ کہیں  اس کے کھانے سے کسی وبال میں نہ پڑجائیں، حضرت عیسیٰ السلام نے یہ دیکھ کر فقیروں کو مسکینوں کو اور بیماروں کو بلا لیا اور حکم یا کہ تم کھانا شروع کر دو یہ تمہارے رب کی دی ہوئی روزی ہے جو تماہرے نبی کی دعا سے اتری ہے، اللہ کا شکر کر کے کھاؤ ہیں  مبارک ہو اس کی پکڑ اوروں پر ہو گی تم بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کرو اور الحمد اللہ پر ختم کرو، پس تیرہ سو آدمیوں نے بیٹھ کر پیٹ بھر کر کھانا کھایا لیکن وہ کھانا مطلقاً کم نہیں  ہوا تھا پھر سب نے دیکھا وہ دستر خوان آسمان پر چڑھ گیا وہ کل فقیر غنی ہو گئے وہ تمام بیمار تندرست ہو گئے اور ہمیشہ تک امیری اور صحت والے رہے، حواری اور صحابی سب کے سب بڑے ہی نادم ہوئے اور مرتے دم تک حسرت و افسوس کرتے رہے، آپ فرماتے ہیں  اس کے بعد جب یہ دستر خوان اترتا تو نبی اسرائیل ادھر ادھر سے دوڑے بھاگے آتے کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا امیر، فقیر تندرست کیا مریض ایک بھیڑ لگ جاتی ایک دوسرے پر گرتے پڑتے آتے، یہ دیکھ کر باری مقرر ہو گئی ایک دن اترتا ایک دن نہ اترتا، چالیس دن تک یہی کیفیت رہی کہ دن چڑھے اترتا اور ان کے سونے کے وقت چڑھ جاتا جس کا سایہ سب دیکھتے رہتے ۔ اس کے بعد فرمان ہوا کہ اب اس میں صرف یتیم فقیر اور بیمار لوگ ہی کھائیں، مالداروں نے اس سے بہت برا مانا اور لگے باتیں بنانے، خود بھی شک میں پڑ گئے اور لوگوں کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے ڈالنے لگے یہاں تک حضرت عیسیٰ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ سچ سچ بتائیے کہ کیا واقعی یہ آسمان سے ہی اترتا ہے ؟ سنئے ہم میں سے بہت سے لوگ اس میں متردد ہیں  ۔ جناب مسیح علیہ السلا سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے قسم ہے مسیح کے رب کی اب تمہاری ہلاکت کا وقت آ گیا، تم نے خود طلب کیا، تمہارے نبی کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی آسمانی دستر خوان تم پر اترا، تم نے آنکھوں سے اسے اترتے دیکھا، رب کی رحمت و روزی اور برکت تم پر نازل ہوئی، بڑی عبرت و نصیحت کی نشانی تم نے دیکھ لی آہ اب تک تمہارے دلوں کی کمزوری نہ گئی اور تمہاری زبانیں نہ رکیں، مجھے توڈر ہے کہ اگر رب نے تم پر رحم نہ کیا تو عنقریب تم بدترین عذابوں کے شکار ہو جاؤ گے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی کہ جس طرح میں نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میں ان لوگوں کو وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں ۔ دن غروب ہوا اور یہ بے ادب، گستاخ، جھٹلانے والے اور بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے اپنے اپنے بستروں پر جا لیٹے نہایت امن و امان سے ہمیشہ کی طرح اپنے بال بچوں کے ساتھ میٹھی نیند میں تھے کہ پچھلی رات عذاب الٰہی آ گیا اور جتنے بھی یہ لوگ تھے سب کے سب سور بنا دیئے گئے جو صبح کے وقت پا خانوں کی پلیدی کھا رہے تھے، یہ اثر بہت غریب ہے، ابن ابی حاتم میں قصہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے منقول ہے لیکن میں نے اسے پورا بیان کر دیا ہے تاکہ سمجھ آ جائے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اغلم ۔ بہر صورت ان تمام آثار سے صاف ظاہر ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بنو اسرائیل کی طلب پر آپ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے یہ دستر خوان نازل فرمایا ۔ یہی قرآن عظیم کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ بعض کا یہ بھی قول ہے کہ یہ مائدہ اترا ہی نہ تھا یہ صرف بطور مثال کے بیان فرمادیا ہے ۔ چنانچہ حضرت مجاہد سے منقول ہے کہ جب عذاب کی دھمکی سنی تو خاموش ہو گئے اور مطالبہ سے دستبردار ہو گئے ۔ حسن کا قول بھی یہی ہے اس قول کی تائید اس سے بھی ہو سکتی ہے کہ نصرانیوں کی کتب میں اس کا ذکر نہیں  ۔ اتنے بڑے اہم واقع کا ان کی کتابوں میں مطلق نہ پایا جانا حضرت حسن اور حضرت مجاہد کے اس قول کو قوی بناتا ہے اور اس کی سند بھی ان دونوں بزرگوں تک صحت کے ساتھ پہنچتی ہے واللہ اعلم۔ لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ مائدہ نازل ہوا تھا امام ابن جریر کا مختار مذہب بھی یہی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں  کہ فرمان ربی انی منزلھا علیکم میں وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں  صحیح اور حقیقی علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن زیادہ ٹھیک قول یہی ہے جیسے کہ سلف کے آثار و اقوال سے ظاہر ہے ۔ تاریخ میں بھی اتنا تو ہے کہ نبی امیہ کے نائب موسیٰ بن نصیر نے مغربی شہروں کی فتح کے موقعہ پر وہیں  یہ مائدہ پایا تھا اور اسے امیر المومنین ولید بن عبد الملک کی خدمت میں جو بانی جامع دمشق ہیں  بھیجا تھا لیکن ابھی قاصد راستے ہی میں تھے کہ خلیفۃ المسلمیں کا انتقال ہو گیا ۔ آپ کے بعد آپ کے بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ ہوئے اور ان کی خدمت میں اسے پیش کیا گیا یہ ہر قسم کے جڑاؤ اور جواہر سے مرصع تھا جسے دیکھ کر بادشاہ اور درباری سب دنگ رہ گئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مائدہ حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کا تھا واللہ اعلم، مسند احمد میں ہے کہ قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ صفا پہاڑ کو ہمارے لئے سونے کا بنا دے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے، آپ نے فرمایا بالکل سچا وعدہ ہے، انہوں نے کہا نہایت پختہ اور بالکل سچا ۔ آپ نے دعا کی اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر آپ چاہیں  تو میں کوہ صفا کو سونے کا بنا دیت اہوں لیکن اگر پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو میں انہیں  وہ عذاب دوں گا جو کسی کو نہ دیا ہو اس پر بھی اگر آپ کا ارادہ ہو تو میں ان کے لئے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دوں ۔ آپ نے فرمایا یا اللہ معاف فرما، توبہ اور رحمت کا دروازہ ہی کھول دے، یہ حدیث ابن مردویہ اور مستدرک حاکم میں بھی ہے ۔

۱۱۶

روز قیامت نصاریٰ کی شرمندگی

جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی، ان کی موجودگی میں قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کرے گا کہ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور اپنی والدہ کی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے ؟ اس سوال سے مردود نصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں ۔ حضرت قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت ھذا یوم ینفع الصادقین الخ، سے استدلال کر تے ہیں  ۔ سدی فرماتے ہیں  یہ خطاب اور جواب دنیا ہی کافی ہے، امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں  کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا، اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کلام لفظ ماضی کے ساتھ ہے، دوسری دلیل آیت ان تعذبھم ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں ٹھیک نہیں ، پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت کے دن ہونے وال ہیں  ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے ساتھ موجود ہے، اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع اور ثبوت بخوبی ثابت ہو جائے، دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس سے مقصود جناب مسیح علیہ السلام کا یہ ہے کہ ان سے اپنی برات ظاہر کر دیں اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں، اسے شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع لازم نہیں  جیسے کہ اسی جگہ اور آیتوں میں ہے، زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو حضرت قتادہ وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال جواب قیامت کے دن ہوں گے تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپت ہو چنانچہ ایک مر فوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے، جسے حافظ ابن عسا کر رحمۃ اللہ علیہ ابو عبد اللہ مولی عمر بن عبدالعزیز کے حالات میں لائے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت اللہ کے سامنے بلوائے جائیں گے پھر حضرت عیسیٰ بلوائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے احسان انہیں  جتائے گا جن کا وہ اقرار کریں گے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری والدہ پر کئے، انہیں  یاد کر، پھر فرمائے گا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ کو الہ سمجھنا، آپ اس کا بالکل انکار کریں گے، پھر نصرانیوں کو بلا کر ان سے دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں  گے، ہاں انہوں ں ے ہی ہمیں اس راہ پر ڈالا تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا، اسی حضرت عیسیٰ کے سارے بدن کے بال کھڑے ہو جائیں گے، جنہیں  لے کر فرشتے اللہ کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ عیسائیوں پر حجت قائم ہو جائے گی، اب ان کے سامنے صلیب کھڑی کی جائے گی اور انہیں  دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا، جناب عیسیٰ کے جواب کو دیکھئے کہ کس قدر باادب اور کامل ہے ؟ دراصل یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے، آپ کو اسی وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ آپ فرمائیں گے کہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسی بات کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا، تجھ سے نہ میری کوئی بات پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ چھپا ہوا ہے، دلی راز تجھ پر ظاہر ہیں، ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں  پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ پر کھلی ہوئی ہیں  غیبوں کا جاننے والا تو ہی ہے، جس تبلیغ پر میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبیلغ کی تھی جو کچھ مجھ سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بلا کم و کاست میں نے ان سے کہہ دیا تھا ۔ جا کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرو، وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار ہے، جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیھکتا بھالتا تھا لیکن جب تو نے مجھے بلا لیا پھر تو تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو تو ہر چیز پر شاہد ہے، ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ایک وعظ میں فرمایا اے لوگو تم سب اللہ عز و جل کے سامنے ننگے پیر، ننگے بدن، بے ختنہ جمع ہونے والے ہو، جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ لو ٹائیں گے، سب سے پہلا خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ میری امت کے ایسے لاۓ جائیں گے جنہیں  بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ تو میرے ہیں ، کہا جائے گا، آپ کو نہیں  معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا گل کھلائے تھے، تو میں وہی کہوں گا جو اللہ کے صالح بندے کا قول ہے کہ جب تک میں ان میں رہا، ان کے اعمال پر شاہد تھا، پس فرمایا جائے گا کہ آپ کے بعد یہ تو دین سے مرتدہی ہوتے رہے ۔ اس کے بعد کی آیت کا مضمون اللہ تعالیٰ کی چاہت اور اسکی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے، وہ جو کچھ چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں  کر سکتا اور وہ ہر ایک سے باز پرس کرتا ہے، ساتھ ہی اس مقولے میں جناب مسیح کی بیزاری ہے، ان نصرانیوں سے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر بہتان باندھتے تھے اور اللہ کا شریک ٹھہراے تھے اور اس کی اولاد اور بیوی بتاتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کی ان تہمتوں سے پاک ہے اور وہ بلند و برتر ہے ۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے، جس میں ہے کہ پوری ایک رات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے رہے، چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تلاوت فرماتے رہے، اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے رہے، وہ آیت یہی ہے صبح کو حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یا رسول اللہ آج کی رات تو آپ نے اسی ایک آیت میں گذاری رکوع میں بھی اس کی تلاوت رہی اور سجدے میں بھی، آپ نے فرمایا میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کی شفات کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا، پس میری یہ شفاعت ہر موحد شخص کیلئے ہو گی، انشاء اللہ تعالیٰ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے حضرت جرہ بنت دجاجہ عمرے کے ارادے سے جاتی ہیں  جب بذہ میں پہنچتنی ہیں  تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث سنتی ہیں  کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کی نماز پڑھائی، فرضوں کے بعد دیکھا کہ صحابہ نماز میں مشغول ہیں  تو آپ اپنے خیمے کی طرف تشریف لے گئے، جب جگہ خالی ہو گئی اور صحابہ چلے گئے تو آپ واپس تشریف لائے اور نماز میں کھڑے ہو گئے میں بھی آ گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے کا مجھے اشارہ کیا، میں دائیں جانب آ گیا، پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور وہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تو آپ نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چنانچہ وہ آ کر بائیں جانب کھڑے ہو گئے، اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع کی الگ الگ تلاوت قرآن اپنی نماز میں کر رہے تھے اور حضور علیہ السلام کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی، بار بار اسی کو پڑھ رہے تھے، جب صبح ہوئی تو میں نے حضرت ابن مسعود سے کہا کہ ذرا حضور سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اگر حضور خود کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھو گا، اب میں نے خود ہی جرات کر کے آپ سے دریافت کیا کہ حضور پر میرے ماں باپ فدا ہوں، سارا قرآن تو آپ پر اترا ہے اور آپ کے سینے میں ہے پھر آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا، آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے دعا کر رہا تھا، میں نے پوچھا پھر کیا جواب ملا؟ آپ نے فرمایا اتنا اچھا، ایسا پیارا، اس قدر آسانی والا کہ اگر عام لوگ سن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں  نماز بھی نہ چھوڑ بیٹھیں، میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ خوش خبری پہنچا دوں ؟ آپ نے اجازت دی، میں ابھی کچھ ہی دور گیا ہوں گا کہ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ اگر یہ خبر آپ نے عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں  لوگ عبادت سے بے پرواہ نہ ہو جائیں تو آپ نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت ان تعذبھم الخ، تھی ابن ابی حاتم میں ہے حضور نے حضرت عیسیٰ کے اس قول کی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے میرے رب میری امت اور آپ رونے لگے، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو حکم دیا کہ جا کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں ؟ حالانکہ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاؤ کہہ دو  کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور آپ بالکل رنجیدہ نہ ہوں گے، مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ فرماتے ہیں  ایک روز رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پا آئے ہی نہیں  یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آج آپ آئیں گے ہی نہیں، پھر آپ تسریف لائے اور آتے ہی سجدے میں گر پڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں  آپ کی روح پر واز نہ کر گئی ہو؟ تھوڑی دیر میں آپ نے سر اٹھایا اور فرمانے لگے مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں ؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ وہ تری مخلوق ہے وہ سب تیرے بندے اور تیرے غلام مہیں  تجھے اختیار ہے، پھر مجھ سے دوبارہ میرے اللہ نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا تو مجھ سے اللہ عزوجل نے فرمایا اے نبی میں آپ کو آپ کی امت کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا، سنو مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے، ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے، ان سب پر حساب کتاب مطلقاً نہیں ، پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا میں نے اس قاصد سے کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں اسی لئے تو مجھے اللہ نے بھیجا ہے، چنانچہ میرے رب نے بہت کچھ عطا فرمایا، میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں  کہہ رہا، مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا، اگلے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے حالانکہ زندہ سلامت چل پھر رہا ہوں، مجھے میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی وجہ سے بھوک کے مارے ہلاک نہ ہو گی اور نہ سب کے سب مغلوب ہو جائیں گے، مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے، وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے، مجھے اس نے عزت، مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے آگے مہیں ہ بھر کی راہ پر چلتا ہے، تمام نبیوں میں سب سے پہلے میں جنت ہی میں جاؤں گا، میرے اور میری امت کے لئے غنیمت کا مال حلال طیب کر دیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی نہیں  رکھی گئی ۔

۱۱۹

موحدین کے لیے خوش خبریاں

حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو ان کی بات کا جو جواب قیامت کے دن ملے گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ آج کے دن موحدوں کو توحید نفع دے گی، وہ ہمیشگی والی جنت میں جائیں گے، وہ اللہ سے خوش ہوں گے اور اللہ ان سے خوش ہو گا، فی الواقع رب کی رضامندی زبر دست چیز ہے، ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ ان پر تجلی فرمائے گا اور ان سے کہے گا تم جو چاہو مجھ سے مانگو میں دوں گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی خوشنودی طلب کریں گے، اللہ تعالیٰ سب کے سامنے اپنی رضامندی کا اظہار کرے گا، پھر فرماتا ہے یہ ایسی بے مثل کامیابی ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی کامیابی نہیں  ہو سکتی، جیسے اور جگہ ہے اسی کیلئے عمل کرنے والوں کو عمل کی کوشش کرنی چاہیے اور آیت میں ہے رغبت کرنے والے اس کی رغبت کر لیں، پھر فرماتا ہے سب کا خالق، سب کا مالک، سب پر قادر، سب کا متصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، ہر چیز اسی کی ملکیت میں اسی کے قبضے میں اسی کی چاہت میں ہے، اس جیسا کوئی نہیں ، نہ کوئی اس کا وزیر و مشیر ہے، نہ کوئی نظیر و عدیل ہے نہ اس کی ماں ہے، نہ باپ، نہ اولاد نہ بیوی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں  نہ کوئی اس کے سوا رب ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں  ۔ سب سے آخری سورت یہی سورہ مائدہ اتری ہے ۔

 (الحمد اللہ سورہ مائدہ کی تفسیر ختم ہوئی)