دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ التّغَابُن

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۹؂ میں یوم التغابُن ( وہ دن جب آخرت کا انکار کرنے والے زبردست خسارہ سے دو چار ہوں گے ) کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ اَلتَّغابُن‘ ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مدینہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی۔

 

مرکزی مضمون

 

اس بات کا یقین پیدا کرنا ہے کہ آخرت کی کامیابی اصل کامیابی ہے اس لیے اس کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اپنا طرز عمل درست کرلینا چاہیے جو لوگ اس کو نظر انداز کریں گے وہ سخت گھاٹے سے دو چار ہونے والے ہیں ۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا۴ میں اللہ کی معرفت بخشی گئی ہے اور واضح کیاگیا ہے کہ کائنات کی تخلیق مقصدِ حق کے لیے ہوئی ہے ۔

 

آیت ۵ تا ۷ میں رسالت اور آخرت کا انکار کرنے والوں کو اس کے نتائج سے خبردار کیاگیا ہے ۔

 

آیت ۸ تا ۱۰ میں ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور خسارہ کے دن سے آگاہ کیاگیا ہے ۔

 

اس خسارہ سے اہلِ ایمان پوری طرح محفوظ رہیں گے اور انہیں زبردست کامیابی حاصل ہوگی لیکن انکار کرنے اور جھٹلانے والوں کو جہنم کا ابدی عذاب بھگتنا ہوگا۔

 

آیت ۱۱ تا ۱۳ میں فہمائش کی گئی ہے کہ دنیوی مصیبتوں کے ڈر سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑنا اپنے ہی حق میں غلط فیصلہ کرنا ہے جس کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے ۔

 

آیت ۱۴ تا ۱۸ میں اہل ایمان کو موقع کی مناسبت سے چند ہدایتیں دی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی طرف سے چوکنا رہیں کہ وہ ان کو غلط راہ پر تو نہیں ڈال رہے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ مال اور اولاد آزمائش ہیں لہٰذا ان کی محبت میں ایسے گرفتار نہ ہوں کہ آخرت سے غافل ہوجائیں ۔ تیسرے یہ کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کریں ۔ جتنا کہ بس میں ہے اور چوتھے یہ کہ دل کی تنگی سے بچیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کریں ۔

ترجمہ

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی تسبیح کرتی ہیں وہ تمام چیزیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں ۔ اسی کی بادشاہی ہے اور اس کے لیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔۲* تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔ ۳*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔ ۴* اور تمہاری صورت گری کی تو اچھی صورتیں بنائیں ۵* اور اسی کی طرف لوٹنا ہوگا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور تم جو کچھ چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو اسے وہ جانتا ہے اور اللہ سینے کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچتی جنہوں نے اس سے پہلے کفر کیا تو انہوں نے اپنے عمل کا وبال چکھ لیا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔۶*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح نشانیوں کے ساتھ آتے رہے لیکن انہوں نے کہا کیا انسان ہماری رہنمائی کریں گے ؟ ۷* اس طرح انہوں نے کفر کیا اور منہ موڑ لیا ( لہٰذا۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بھی ان سے بے پرواہ ہوگیا۔ ۸* اور اللہ بے نیاز اور لائقِ حمد ہے ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے ۔ کہو کیوں نہیں ! میرے رب کی قسم، تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ۹* پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت آسان ہے ۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے ۔ ۱۰* جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے ۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن اللہ تمہیں اکھٹا کرے گا( سب کو) اکٹھا کرنے کے دن۔۱۱* وہ خسارے کے ظاہر ہونے کا دن ہوگا۔ ۱۲* جو ایمان لائے ہوں گے اور نیک عمل کرتے رہے ہوں گے ان کے گناہوں کو وہ دور کرے گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔ ۱۳*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہوگا وہ دوزخی ہوں گے ہمیشہ اس میں رہنے والے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے ۔ ۱۴*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے ۔۱۵* جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے ۔ ۱۶* اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ اگر تم منہ پھیرتے ہو تو ہمارے رسول پر صرف صاف صاف پہنچادینے کی ذمہ داری ہے ۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ(معبود)نہیں ۔ اور اللہ ہی پر مومنوں کو بھروسہ کرنا چاہیے ۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ۔ تو ان سے ہوشیار رہو۔ ۱۷* اور اگر تم معاف کرو، درگذر سے کام لو اور بخش دو تو اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔ ۱۸*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں ۔ ۱۹* اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔۲۰* اور سنو اور اطاعت کرو ۔۲۱* اور خرچ کرو اپنی بھلائی کے لیے ۔ ۲۲* جو اپنے دل کی تنگی سے بچالئے گئے وہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔ ۲۳*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو۔ ۲۴* تو وہ تمہارے لیے اسے کئی گنا کر دے گااور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑا قدر داں اور بردبار ہے ۔ ۲۵*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ غائب اور حاضر سب کا جاننے والااور غلبہ اور حکمت والا ہے ۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ سورہ کی تمہیدی آیت ہے جس میں اللہ کی معرفت بخشی گئی ہے ۔ اللہ پر ایمان اور اس کی اطاعت اس کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں اس لیے قرآن ایمان لانے اور اطاعت کرنے کاصرف حکم ہی نہیں دیتا بلکہ اس کے ساتھ علم کی روشنی بھی عطا کرتا ہے تاکہ قلب و ذہن اس کے لیے پوری طرح آمادہ ہوں ۔

 

جب یہ حقیقت ابھر کر انسان کے سامنے آجاتی ہے کہ کائنات کی پوری بزم اللہ کی تسبیح اور حمد کرنے میں زمزمہ سنج ہے تو یہ حقیقت اس کے دل کو مس کرتی ہے اور وہ بھی اس بزم کی ہم نوائی کرتے ہوئے اللہ کی تسبیح اور اس کی حمد کرنے میں سرگرم ہوجاتا ہے ۔ اور یہ بہت بڑی عبادت ہے ۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جب یہ ناقابلِانکار حقیقت ہے کہ اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے تو تمہیں اس پر ایمان لانا چاہیے مگر صورتِ حال یہ ہے کہ تم میں سے کوئی مومن ہے تو کوئی کافر۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  وہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اس لیے عمل کے مطابق وہ جزا یا سزا دے گا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی مقصدِ حق کے لیے پیدا کیا ہے اور وہ ہے عدل و انصاف اور جزا و سزا کا معاملہ جس کا مکمل ظہور قیامت کے دن ہوگا۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مومن نوٹ ۹۱۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ ہے ہلاک شدہ قوموں کی طرف مثلاً قومِ نوح،عاد، ثمود وغیرہ۔

 

ان قوموں کو ان کے کفر کی سزا دنیا میں بھی ملی اور آخرت میں تو انہیں دردناک عذاب بھگتنا ہوگا۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  رسولوں کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے بھیجا تھا مگر چونکہ یہ رسول انسان تھے اس لیے مغرور لوگوں نے اپنی کسرشان سمجھی کہ وہ بشر کو رسول اور اپنا رہنما تسلیم کر لیں ۔ ان کے نزدیک ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری تھا کہ اللہ فرشتوں کو رسول بناکر بھیجتا۔ ایک طرف تو انہیں بشر ہونے کی بنا پر رسول کو رہنما تسلیم کرنے سے انکار تھا اور دوسری طرف ان کا حال یہ تھا کہ وہ گمراہ لوگوں کو اپنا رہنما بنائے ہوئے تھے اور اینٹ پتھر کو انہوں نے اپنا خدا بنالیا تھا ان کھلی حماقتوں پور نہ انہیں غیرت محسوس ہوئی تھی اور نہ وہ انہیں اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے ۔ اور جو عقل کا اندھا ہو وہ ہدایت کیا پاسکتا ہے !

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جب انہوں نے ہدایت کی طرف سے منہ موڑلیا تو اللہ کو بھی ان کی ہدایت کی پرواہ نہ رہی کیونکہ اللہ ہدایت اسی کو دیتا ہے جو اس کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کہ اپنے رب کی قسم کھاکر یہ اعلان کریں کہ لوگوں کو ضرور دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا وثوق اور قطعیت کے اظہار کے لیے ہے ۔ یعنی میں اپنے رب کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ تمہارا دوبارہ اٹھایا جانا بالکل یقینی اور قطعی ہے اس میں ذرہ برابر شبہ کی گنجائش نہیں ۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  نور سے مراد قرآن ہے جو علم کی روشنی ہے ۔ اس آیت میں اللہ ، اس کے رسول اور قرآن پر ایمان لانے کی براہِ راست دعوت دی گئی ہے ۔ یہ دعوت حقیقۃً  تمام انسانوں کے لیے ہے ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کا دن تمام اگلے پچھلے انسانوں کو اکھٹا کرنے کا دن ہوگا اور اس دن وہ تم سب کو اکھٹا کرے گا۔ گویا اس اجتماع کے دن روئے زمین پر انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوگا۔ کوئی نہ ہوگا جو مرنے کے بعد زندہ نہ ہوا ہو۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اصل میں لفظ تغابُن استعمال ہوا ہے جو غَبن سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور جس کے معنی خرید و فروخت میں گھاٹے اور نقصان کے ہیں ۔ لسان العرب میں ہے :

 

وَالْغَبْن فی البیع والشراء الوکس’’ بیع و شراء میں غَبن یعنی نقصان ۔‘‘(ج ۱۳ ص ۳۱۰)

 

دنیا میں انسان اپنا جو سرمایۂ حیات لگاتا ہے اسے قرآن تجارت سے تعبیر کرتا ہے ۔ کافر اپنا سرماے ۂ حیات اپنی دنیا بنانے اور گمراہی خریدنے میں لگاتا ہے اس لیے وہ گھاٹے کا سودا کرتا ہے اور یہ گھاٹا قیامت کے دن کھل کر سامنے آئے گا اور اس وقت اسے احساس ہوگا کہ اس نے بالکل غلط کام میں اپنا سرماے ۂ حیات لگایا تھا اور اس کا نتیجہ آج ( قیامت کے دن) یہ ہے کہ وہ خسران اور تباہی سے دو چار ہے ۔

 

اُولٰئِکَ الَّذینَ اشْتَرَوُ الضَّلاَ لَۃَ بِالْہُدیٰ فَمَارَبِحَتْ تِّجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوْامُہْتَدِینَ۔ ’’ یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلہ گمراہی خریدی تو ان کی تجارت ان کے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہوئی اور نہ وہ ہدایت پانے والے بنے ۔‘‘

 

قیامت کا دن کافروں کے لیے تغابن یعنی خسارہ سے دو چار ہونے کا دن ہوگا۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح سورۂ قمر میں فرمایا ہے : ے قُوْلُ الْکافِرُوْنَ ہذَاے وْمٌ عَسِر ’’ کافر کہیں گے یہ بڑا سخت دن ہے ۔‘‘

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جن لوگوں نے ایمان لاکر صالحانہ زندگی گذاری تھی وہ قیامت کے دن ہر طرح کے خسارہ سے محفوظ ہوں گے اور انہیں زبردست کامیابی حاصل ہوگی یعنی جنت کیونکہ انہوں نے اپنا سرمایہ حیات اس کام میں لگایا تھا جو آخرت میں مفید ہونے والا تھا۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  جس خسارہ سے کافر قیامت کے دن دو چار ہوں گے یہ اس کی تشریح ہے ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ حدید نوٹ ۴۷ میں گزر چکی۔

 

یہاں یہ بات اس مناسبت سے ارشاد ہوئی ہے کہ مصائب کے ہجوم کو دیکھ کر ایک مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ترک نہ کر دے ۔ مصیبتیں اللہ کے اذن سے آتی ہیں اور ان میں اہل ایمان کا امتحان ہوتا ہے اور اس امتحان میں وہ پورے اسی وقت اترسکتے ہیں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ثبوت دیں ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جو شخص اللہ پر پختہ ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ مصائب کے ہجوم میں اس کے دل کو ہدایت کی روشنی بخشتا ہے اور اس کی ایسی رہنمائی کرتا ہے کہ اللہ کے بارے میں اس کے دل میں بدگمانی پیدا نہیں ہوپاتی اور نہ وہ شکوہ شکایت کرنے لگتا ہے ۔ اللہ اس کے جذبات کو صحیح رخ پر موڑتا ہے جس سے ایمانی کیفیت کا ظہور ہوتا ہے اور اسے قضائے الٰہی پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرماتا ہے ۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں دشمن کا لفظ ان معنی میں استعمال ہوا ہے کہ بعض بیویاں اور اولاد مسلمان ہونے کے باوجود اپنی جہالت ، کم فہمی، یا نافرمانی وغیرہ کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مال کمانے اور معاشی لحاظ سے معیارِ زندگی کو بلند کرنے پر اس طرح اکساتی ہیں کہ آدمی دنیا ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے اور دین کے تقاضوں کو پورا کر نہیں پاتا۔ اسی طرح دین جب قربانیوں کا طالب ہو تو وہ حوصلہ کو پست کر دیتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ محض اپنی دنیا بنانے کے لیے خلافِ شرع کام کرنے پر اصرار کرنے لگتی ہیں ۔ ایسے ہی موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان سے ہوشیار رہیں اور ان کی باتوں اور ان کے مشوروں کو شریعت کی روشنی میں دیکھیں بے سوچے سمجھے ان کی باتیں ہرگز نہ مانیں ۔ یہ احتیاط بیویوں اور اولاد کے سلسلہ میں ضروری ہے ۔

 

واضح رہے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایاگیا ہے کہ ہر شخص کی بیوی اور اولاد ایسی ہی ہوتی ہے بلکہ فرمایا گیا ہے کہ بعض ایسی ہوتی ہیں اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ کتنے ہی لوگوں کی بیویاں اور کتنے ہی لوگوں کی اولاد صالح ہوتی ہیں ۔ ایسی بیویاں اپنے شوہروں کے دینی کاموں میں معاون بن جاتی ہیں اور بہترین رفیقۂ حیات ثابت ہوتی ہیں ۔ اسی طرح نیک اولاد اپنے باپ کے لیے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مددگار بنتی ہے اور اپنے ماں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے ۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی چوکنا رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی غلط روش پر سخت گیر بنو یا انتقامی کاروائی کرنے لگو نہیں بلکہ تمہارا رویہ معاف کرنے ، چشم پوشی سے کام لینے اور بخش دینے کا ہونا چاہیے ۔ یہاں ایک نہیں تین تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں تاکہ عفودرگذر میں حسن کا پہلو نمایاں ہو۔ معاف کرو کا مطلب یہ ہے کہ ان پر سخت گرفت نہ کرو۔ درگزر سے کام لو کا مطلب یہ ہے کہ ان کی غلط باتوں سے چشم پوشی کرو اور ان کا کوئی اثر قبول نہ کرو اور بخش دو کا مطلب یہ ہے کہ دل سے انہیں معاف کر دو۔ یہ وسیع الظرفی تمہیں اللہ کی نظر میں محبوب بنائے گی اور وہ بھی تمہیں بخش دے گا اور تم کو اپنی رحمتوں سے نوازے گا اور کیا عجب کہ تمہارے اس طرز عمل سے متاثر ہو کر تمہاری بیویاں اور تمہاری اولاد بھی اصلاح کی طرف مائل ہوجائے ۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  آزمائش اس بات کی کہ مال اور اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر تم اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیتے ہو یا اس کی محبت کو غالب رکھتے ہوئے اس کی اطاعت میں زندگی گذارتے ہو۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ منافقون نوٹ ۱۷۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  مال اور اولاد کی کشش تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے قدم قدم پر رکاوٹ کا باعث بنتی ہے لیکن اگر ایک مومن جس حد تک اس کے بس میں ہے تقویٰ اختیار کرے تو اللہ سخت گرفت نہیں کرے گا اور قصوروں سے درگذر فرمائے گا۔ یہ ارشاد متقیوں کے لیے امید کی کرن ہے ۔

 

قرآن میں دوسری جگہ فرمایاگیا ہے : اِتَّقُوْ اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ ’’ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ اختیار کرنے کا حق ہے ۔‘‘(آل عمران: ۱۰۲)

 

اور یہاں فرمایا: فَاتَّقُوااللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ‘’جہاں تک تمہارے بس میں ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘

 

معلوم ہوا کہ ایک شخص جس حد تک کہ اس کے بس میں ہے اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے تو وہ تقویٰ کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اس سے اسی قدر مطالبہ کیاگیا ہے اور کوئی ایسی ذمہ داری اس پر نہیں ڈالی گئی ہے جو اس کے بس میں نہ ہو۔

 

یہ ارشاد کہ ’’ جہاد تک تمہارے بس میں ہے اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ بہت بڑا رہنما اصول ہے جس سے ہر طرح کے ناسازگار حالات اور پرپیچ مسائل میں روشنی حاصل کی جاسکتی ہے اور موجودہ ماحلو میں جب کہ ہر طرف سے شر کی یلغار ہے اور باطل نظاموں نے شریعت پر چلنا دوبھر کر دیا ہے اس رہنما اصول کی روشنی میں ایک مسلمان تقویٰ کی راہ طے کرسکتا ہے ۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  مجبوریاں اپنے دائرہ میں لیکن ایک مسلمان کا عام رویہ اللہ کے احکام کو دل سے سننے اور ان کی اطاعت کرنے ہی کا ہونا چاہیے ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ کے لیے خرچ کرنے سے مال کی محبت گھٹ جاتی ہے اور اللہ کی محبت بڑھ جاتی ہے ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ حشر نوٹ ۲۳ میں گزر چکی۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد اللہ کی راہ میں بالخصوص جہاد کے لیے خرچ کرنا ہے ۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ قدر داں ہے ۔ وہ اپنے بندوں کے ہر نیک عمل کی قدر فرماتا ہے اور وہ حلیم( بردبار) ہے اس لیے قصوروں پر فوراً سزا نہیں دیتا بلکہ اصلاح کا موقع دیتا ہے ۔

 

٭٭٭٭