اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔
۱۔۔۔ بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے
۲۔۔۔ جن کا حال یہ ہے کہ ان کو جب لوگوں سے لینا ہوتا ہے تو پورا پورا لیتے ہیں
۳۔۔۔ اور جب ان کو ناپ یا تول کر دینا ہو تو کم دیتے ہیں
۴۔۔۔ کیا یہ لوگ اس کا خیال نہیں کرتے کہ یہ (دوبارہ) اٹھائے جانے والے ہیں ؟
۶۔۔۔ جس دن کہ کھڑے ہوں گے لوگ رب العالمین (جل جلالہ) کے حضور
۷۔۔۔ ہرگز نہیں یقیناً بدکاروں کے اعمال نامے ایک نہایت ہی تنگ و تاریک قید خانے کے دفتر میں ہوں گے
۸۔۔۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے اس تنگ و تاریک قید خانے کا وہ دفتر؟
۱۰۔۔۔ بڑی خرابی ہو گی اس دن ان جھٹلانے والوں کے لیے
۱۱۔۔۔ جو جھٹلاتے ہیں بدلے کے (اس ہولناک) دن کو
۱۲۔۔۔ اور اس کو نہیں جھٹلاتا مگر وہی شخص جو حد سے بڑھنے والا پکا بدکار ہے
۱۳۔۔۔ جب اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری (صاف و صریح) آیتیں تو کہتا ہے کہ یہ تو کہانیاں ہیں پہلے لوگوں کی
۱۴۔۔۔ ہرگز نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی اپنی اس کمائی نے جو یہ کرتے رہے ہیں
۱۵۔۔۔ ہرگز نہیں یقیناً یہ لوگ اس دن اپنے رب (کے دیدار) سے قطعی طور پر محروم (اور بے بہرہ) ہوں گے
۱۶۔۔۔ پھر انہوں نے بہرحال داخل ہونا ہے دوزخ(کی اس دہکتی بھڑکتی آگ) میں
۱۷۔۔۔ پھر (ان سے ) کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے
۱۸۔۔۔ ہرگز نہیں یقیناً نیک لوگوں کے اعمال نامے علیین میں (محفوظ و مصون) ہوں گے
۱۹۔۔۔ اور تم کیا جانو کہ کیا (اور کیسی شان کا) ہے وہ علیون؟
۲۰۔۔۔ وہ لکھی ہوئی ایک ایسی کتاب ہے
۲۱۔۔۔ جس کی نگہداشت فرشتے کرتے ہیں
۲۲۔۔۔ بلاشبہ نیک لوگ بڑی ہی نعمتوں میں ہوں گے
۲۳۔۔۔ اونچی اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے
۲۴۔۔۔ تم ان کے چہروں میں (ہمیشہ بشاشت و) تازگی دیکھو گے وہاں کی اس آسائش کی بناء پر
۲۵۔۔۔ ان کو ایک ایسی نِتھری سر بمہر شراب پلائی جائے گی
۲۶۔۔۔ جس کی مہر مشک کی ہو گی تو اس میں بازی لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے ان لوگوں کو جو بازی لے جانا چاہتے ہیں
۲۷۔۔۔ اور اس کی آمیزش تسنیم سے ہو گی
۲۸۔۔۔ یہ ایک ایسا عظیم الشان چشمہ ہو گا جس کے (پانی کے ) ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے
۲۹۔۔۔ بے شک مجرم لوگ (دنیا میں ) ایمان والوں سے ہنسا کرتے تھے
۳۰۔۔۔ اور جب یہ ان کے پاس سے گزرتے تو وہ آپس میں آنکھیں مار مار کر ان کی طرف اشارہ کیا کرتے تھے
۳۱۔۔۔ اور جب یہ لوگ لوٹتے اپنے گھروں کو تو وہاں بھی (انہی کی باتوں سے ) دل لگیاں کرتے
۳۲۔۔۔ اور جب وہ ان کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ تو بالکل ہی بہکے ہوئے لوگ ہیں
۳۳۔۔۔ حالانکہ یہ ان پر کوئی نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے
۳۴۔۔۔ پس آج وہ لوگ جو ایمان لائے تھے ان کفار پر ہنس رہے ہوں گے
۳۵۔۔۔ اونچی اونچی مسندوں پر بیٹھے (ان کا حال اپنی آنکھوں سے ) دیکھ رہے ہوں گے
۳۶۔۔۔ کیا مل گیا کافروں کو بدلہ اپنی ان حرکتوں کا جو وہ کیا کرتے تھے ؟
۳۔۔۔ سو ایسے لوگ اپنے لئے نپوانے اور تلوانے میں، اور اپنے حق کے وصول کرنے میں تو بڑے حساس اور چوکس ہوتے ہیں اور ایسی کسی بات کو برداشت کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے کہ ان کے لئے ناپی یا تولی جانے والی چیز کے اندر رتی برابر کوئی کمی ہو۔ لیکن جب ان کو دوسروں کے لئے ناپنا یا تولنا ہوتا ہے تو یہ ڈنڈی مارنے کی کوشش کرتے ہیں سو ایسے لوگوں کا یہ رویہ اور طرز عمل خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان طبعی طور پر عدل و انصاف کے تصور اور اس کے واجب ہونے کے شعور سے عاری نہیں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ لینے کے باٹ الگ اور دینے کے باٹ الگ رکھنا درست نہیں، بلکہ ان کا ایک ہونا ضروری ہے، اسی طرح وہ اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف و آگاہ ہے کہ جو چیز وہ اپنے لئے پسند نہیں کرتا وہ اس کو دوسروں کے لئے بھی پسند نہیں کرنی چاہیئے، ایک چور جو دوسروں کے گھروں میں نقب لگاتا ہے۔ وہ اس بات کو ہرگز نہیں چاہے گا کہ کوئی دوسرا اس کے گھر میں نقب لگائے۔ اسی طرح ایک قاتل جو دوسروں کو قتل کرتا ہے وہ اس بات کو کبھی پسند نہیں کر سکتا کہ کوئی دوسرا خود اس کو، یا اس کے عزیز و اقارب میں سے کسی کی جان کے درپے ہو۔ اسی طرح کوئی زانی جو دوسروں کی عزت وناموس پر حملہ کرتا ہے و العیاذُ باللہ۔ وہ اس بات پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا کہ کوئی دوسرا اس کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اس طرح کے جرائم اور ذمائم میں سے کسی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا باعث اور سبب دراصل یہ ہوتا ہے کہ وہ محض اپنی خود غرضی سے مغلوب ہو کر اس طرح کی کسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے۔ جو کہ ایک کھلی ہوئی نا انصافی۔ اور پرلے درجے کی دنائت اور کمینگی ہے والعیاذ باللہ۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت فاطر حکیم جَلَّ جَلَالُہ، نے انسان کی فطرت کے اندر عدل اور ظلم کے درمیان فرق و تمیز کے لئے ایک کسوٹی بھی رکھی ہے اور عدل و انصاف کے ساتھ محبت بھی رکھی ہے اور ظلم و بے انصافی کے ساتھ نفرت بھی اس کے اندر ودیعت فرمائی ہے اس کے باوجود اگر وہ ظلم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا اصل سبب اور باعث یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کسی خواہش یا جزبے سے مغلوب ہو کر اور نفس کے فطری تقاضوں کو دبا کر ایسے کرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، سو ایسے کمی کرنے والوں کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو دوسروں سے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب ان کو دینا ہوتا ہے تو یہ اس میں کمی کرتے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم،
۱۳۔۔۔ ان آیات کریمات سے ان بدبختوں کے اصل مرض کی بھی نشاندہی فرما دی گئی، اور ان کے ہولناک انجام کو بھی واضح فرما دیا گیا، سو اس سے واضح فرما دیا گیا، کہ یہ جو اللہ کی آیتوں کو اگلوں کے افسانے قرار دے رہے ہیں تو بات ایسے نہیں، بلکہ یہ ان کی اپنی محرومی اور مت ماری اور انکی بدبختی کا ثبوت ہے، کیونکہ یہ اگلوں کے افسانے نہیں، بلکہ یہ ایسے ٹھوس حقائق ہیں جن کی تائید، اور ان کے حق میں آفاق و انفس، اور خود انسانی عقل و فطرت میں ناقابل انکار دلائل موجود ہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ اس طرح چڑھ گیا ہے جس سے یہ ناکارہ اور حق کے فہم و ادراک اور اس کے قبول سے معطل و ماؤف ہو گئے ہیں اب حق کی کوئی کرن ان کے اندر نفوذ نہیں کر پاتی، کیونکہ سنت الٰہی اور دستور خداوندی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کے اندر جو دلائل ودیعت فرمائے ہیں اور اس کی عقل و دل کے اندر سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیت رکھی ہے یہ سب چیزیں اسی صورت میں کام آتی اور نفع دیتی ہیں جبکہ انسان ان کی قدر کرتا، اور ان سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، اور اس کے برعکس جب وہ ان کے مقابلے میں نفس کی خواہشوں ہی کو اپنا امام، اور اپنا اصل مقصد بنا لیتا ہے، تو اس کی بد عملیوں کا اثر اور ان کا زنگ اس کے دل و دماغ پر چڑھنا شروع ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان کا احاطہ کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں بالآخر ایسے لوگ عقل و دل کی صلاحیتوں اور اپنے فہم و ادراک کی قوتوں ہی سے محروم ہو جاتے ہیں، اور اس سٹیج پر پہنچ جاتے ہیں جب ان کے اندر کسی صحیح چیز کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہ جاتی، اور وہ قرآن حکیم کی تصریح کے مطابق کان آنکھ اور زبان وغیرہ رکھنے کے باوجود اندھا بہرا، اور گونگا گن کر رہ جاتا ہے والعیاذ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال،
۱۷۔۔۔ اس سے ان لوگوں کی نشاندہی فرما دی گئی جو سزا و جزاء کے یوم عظیم کی تکذیب اور اس کے انکار میں پیش پیش ہیں۔ اور ساتھ ہی ان کی تکذیب اور انکار کے سبب اور باعث کو بھی ذکر فرما دیا گیا، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس کو وہی شخص جھٹلاتا ہے جو حد سے بڑھنے والا گنہگار ہے اعتداء اور اثم یوں تو دونوں ہی گناہ ہیں۔ لیکن ان دونوں کی شکلیں اور جہتیں مختلف اور باہم متعاکس ہیں جس کا پتہ ان دونوں لفظوں کے مآخذ اور مادہ اشتقاق سے چلتا ہے۔ جو کہ عربی زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں کا مظہر و آئینہ دار ہے سو معتدی اعتداء سے مشتق و ماخوذ ہے جس کے معنی تجاوز کرنے اور حد سے بڑھنے کے ہوتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق ان گناہوں اور زیادتیوں پر ہوتا ہے جن کا تعلق دوسروں کے حقوق پر دست درازی سے ہوتا ہے جبکہ اثم کا تعلق ان گناہوں سے ہوتا ہے جن کا تعلق دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنے اور ان میں کوتاہی برتنے سے ہوتا ہے سو جو لوگ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرنے یا ان کے حقوق واجبہ کو دبا بیٹھنے کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے الٹا جزاء و سزا کے قانون اور عدل و انصاف کے تقاضوں ہی کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں تاکہ اس طرح وہ اپنے ضمیروں کو تعدیوں اور حق تلفیوں کو خلش سے بچا سکیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہ خود اپنے ساتھ دھوکہ اور اپنے آپ کو دائمی ہلاکت میں ڈالنے کا راستہ اور طریقہ ہے مگر ایسے لوگوں کے دلوں کو ہویٰ پرستی کے زنگ نے ایسا ناکارہ کر دیا ہوتا ہے کہ ان کو اپنے اس نقصان کا احساس بھی نہیں ہونے پاتا، جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم
۳۶۔۔۔ اس سورہ کریمہ کے خاتمے کی ان آیات کریمات میں بعض ان خاص مسرتوں کو ذکر فرمایا گیا ہے جو فائزالمرام اہل ایمان کو آخرت کے اس جہان غیب میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نصیب ہوں گی، جو کہ کشف حقائق اور ظہور نتائج کا جہان ہو گا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز اہل ایمان کفار کے مآل و انجام اور ان کے حال بد پر ہنس رہے ہوں گے، اور ان کا ان پر یہ ہنسنا بالکل بجا ہو گا۔ کیونکہ انہوں نے دنیا میں ان پر حجت قائم کر دی۔ مگر ان بدبختوں نے اپنے کبر و غرور کی بناء پر حق کو اپنانے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے الٹا اہل حق ہی کا مذاق اڑایا، اور انہی کو مجرم ٹھہرایا۔ اور پھر قرآن حکیم نے غیب کے ان حقائق کو اس صراحت و وضاحت کے ساتھ ان لوگوں کے سامنے اسی دنیا میں پیش کر دیا تاکہ یہ سنبھال جائیں مگر ان منکروں نے اس سب کے باوجود اس سے کوئی سبق نہ لیا۔ بلکہ یہ اپنے کفر و انکار پر اڑے ہی رہے۔ اس لئے اس روز یہ کسی ہمدردی کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اور دوسری خاص بات اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ یہ خوش نصیب لوگ وہاں تختوں پر بیٹھے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے نظارے کر رہے ہوں گے۔ اور انہی تختوں پر بیٹھے بیٹھے جب یہ چاہیں گے دوزخ میں پڑے بدبختوں کا حال بھی دیکھ لیا کریں گے۔ بلکہ ان سے سوال جواب بھی کر لیا کریں گے۔ جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مختلف مقامات پر اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ اور تیسری بات یہاں پر اس سلسلے میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اہل ایمان سے طلب تصدیق کے طور پر پوچھا جائے گا کہ کیا کفار کو ان کے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ مل گیا کہ نہیں؟ سو اس سے جو خوشی ومسرت اہل ایمان کو نصیب ہو گی اس کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے؟ فالحمد للہ رب العالمین