تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ المطفّفِین

ناپ تول میں کمی کے نتائج

نسائی اور ابن ماجہ میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ویل للمطففین الخ ہے۔ پس تطفیف سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے کیا اور دیتے وقت کم دیا۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔ ٹھیک یہ ہے کہ کالو اور وزنو کو متعدی مانیں اور ھُم کو محلا منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکدمانا ہے۔ جو کالو اور وزنو کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے۔ قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے۔ اوفو الکیل اذا کلتم وزنو بالقسطاس المستقیمِ یعنی جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو۔ اور جگہ حکم ہے۔ اوفو الکیل والمیزان بالقسط الخ ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جگہ فرمایا واقیمواالوزن بالقسط ولا تُخسِرون والمیزان یعنی تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بدعادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت وبرباد کر دیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے۔ کہ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہیگا صحیح حدیث میں ہے کہ آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہو گا۔ (موطا مالک) مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عز و جل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیززے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کیمطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگا بنا ہوا ہو گا اور حدیث میں ہے دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگا چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چایل ہزارسال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بشیر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو کیا کر گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئے گی نہ کوئی حکم کیا جائے گا حضرت بشیر کہنے لگے اللہ ہی مددگار ہے آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ حضرت ابنمسعود سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگا میں چڑھی ہوئی ہوں گی۔ ابن عمر فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے (ابن جریر) ابو داؤد، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ اللہ اکبر کہتے، دس مرتبہ الحمد اللہ کہتے، دس مرتبہ سبحان اللہ کہتے، دس مرتبہ استغفر اللہ کہتے۔ پھر کہتے اللھم اغفرلی واھدنی وارزقنی وعافنی اے اللہ مجھے بخش مجھے ہدایت دے مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰسے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے۔

 

۷

انتہائی المناک اور دکھ درد کی جگہ

مطلب یہ ہے کہ برے لوگوں کا ٹھکانا سجین ہے یہ لفظ فعیل کے وزن پر صجین سے ماخوذ ہے سجن کہتے ہیں لغتا تنگی کو ضییق شریب خمیر سکیر وغیرہ کی طرح یہ لفظ بھی سجین ہے پھر اس کی مزید برائیاں بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ تمہیں اس کی حقیقت معلوم نہیں وہ المناک اور ہمیشہ کے دکھ درد کی جگہ ہے مروی ہے کہ یہ جگہ ساتوں زمینوں کے نیچے ہے حضرت براء بن عازب کی ایک مطول حدیث میں یہ گزر چکا ہے کہ کافر کی روح کے بار میں جناب باری ارشاد ہوتا ہے کہ اس کی کتاب سجین میں لکھ لو اور سجین ساتویں زمین کے نیچے ہے کہا گیا ہے کہ یہ ساتویں زمین کے نیچے سبز رنگ کی ایک چٹان ہے اور کہا گیا ہے کہ جہنم میں ایک گڑھا ہے ابن جریر کی ایک غریب منکر اور غیر صحیح حدیث میں ہے کہ فل جہنم کا ایک منہ بند کردہ کنواں ہے اور سجین کھلے منہ والا گڑھا ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں تنگ جگہ جیل خانہ کے نیچے کی مخلوق میں تنگی ہے اور اوپر کی مخلوق میں کشادگی آسمانوں میں ہر اوپر والا آسمان نیچے والے آسمان سے کشادہ ہے اور زمینوں میں ہر نیچے کی زمین اوپر کی زمین سے تنگ ہے یہاں تک کہ بالکل نیچے کی تہہ بہت تنگ ہے اور سب سے زیادہ تنگ جگہ ساتویں زمین کا وسطی مرکز ہے چونکہ کافروں کے لوٹنے کی جگہ جہنم ہے اور وہ سب سے نیچے ہے۔ اور جگہ ہے ثم رددناہ اسفل سافلین الا الذین امنوا وعملو الصالحات یعنی ہم نے اسے پھر نیچوں کا نیچ کر دیا ہاں جو ایمان والے اور نیک اعمال والے ہیں غرض سجین ایک تنگ اور تہہ کی جگہ ہے جیسے قرآن کریم نے اور جگہ فرمایا ہے اذا لقوا منھا مکانا ضیقا مقرنین دعواھنالک ثبورا جب وہ جہنم کی کسی تنگ جگہ میں ہاتھ پاؤں جکڑ کر ڈال دئیے جائیں گے تو وہاں موت ہی موت پکاریں گے۔ کتاب مرقوم یہ سجین کی تفسیر نہیں بلکہ یہ اس کی تفسیر ہے جو ان کے لیے لکھا جا چکا ہے کہ آخرش جہنم میں پہنچیں گے ان کا یہ نتیجہ لکھا جا چکا ہے اور اس سے فراغت حاصل کر لی گئی ہے نہ اب اس میں کچھ زیادتی ہو نہ کمی، تو فرمایا ان کا انجام سجین ہونا ہماری کتاب میں پہلے سے ہی لکھا جا چکا ہے انجھٹلانے والوں کی اس دن خرابی ہو گی انہیں جہنم کا قید خانہ اور رسوائی والے المناک عذاب ہوں گے ویل کی مکمل تفسیر اس سے پہلے گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ ان کی ہلاکی بربادی اور خرابی ہے جیسے کہا جاتا ہے ویل لفلان مسند اور سنن کی حدیث میں ہے ویل ہے اس شخص کے لیے جو کوئی جھوٹی بات کہہ کر لوگوں کو ہنسانا چاہے اور اسے ویل ہے اسے ویل ہے پھر ان جھٹلانے والوں بدکار کافروں کی مزید تشریح کی اور فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو روز جزاء کو نہیں مانتے اسے خلاف عقل کہہ کر اس کے واقع ہونے کو محال جانتے ہیں پھر فرمایا کہ قیامت کا جھٹلانا انہی لوگوں کا کام ہے جوا پنے کاموں میں حد سے بڑھ جائیں اسی طرح اپنے اقوال میں گنہگار ہوں جھوٹ بولیں وعدہ خلافی کریں گالیاں بکیں وغیرہ یہ لوگ ہیں کہ ہماری آیتوں کو سن کر انہیں جھٹلاتے ہیں بدگمانی کرتے ہیں اور کہہ گزرتے ہیں کہ پہلی کتابوں سے کچھ جمع اکٹھا کر لیا ہے جیسے اور جگہ فرمایا واذا قیل لھم ماذا انزل ربکم قانوا اساطیر الاولین جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا کچھ نازل فرمایا تو کہتے ہیں اگلوں کے افسانے ہیں اور جگہ ہے وقالو اساطیر الاولین کتتبھا فیھی تملی علیہ بکرۃ وعشیا یعنی یہ کہتے ہیں کہ اگلوں کے قصے ہیں جو اسے صبح شام لکھوائے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جواب میں فرماتا ہے کہ واقعہ ان کے قول اور ان کے خیال کے مطابق نہیں بلکہ دراصل یہ قرآن کلام الٰہی ہے اس کی وحی ہے جو اس نے اپنے بندے پر نازل کی ہے ہاں ان کے دلوں پر ان کے بداعمال نے پردے ڈال دئیے ہیں گناہوں اور خطاؤں کی کثرت نے ان کے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے کافروں کے دلوں پر رین ہوتا ہے اور نیک کار لوگوں کے دلوں پر غیم ہوتا ہے ترمذی نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں رسول اللہ صیل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ ہو جاتا ہے اگر توبہ کر لیتا ہے تو اس کی صفائی ہو جاتی ہے اور اگر گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہی پھیلتی جاتی ہے اسی کا بیان کلا بل ران میں ہے نسائی کے الفاظ میں کچھ اختلافبھی ہے مسند احمد میں بھی یہ حدیث ہے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا فرمان ہے کہ گناہوں پر گناہ کرنے سے دل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے پھر فرمایا کہ یہ لوگ ان عذابوں میں مبتلا ہو کر دیدار باری سے بھی محروم اور محجوب کر دئیے جائیں گے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس میں دلیل ہے کہ مومن قیامت کے دن دیدار باری تعالیٰ سے مشرف وہں گے امام صاحب کا یہ فرمان بالکل درست ہے اور آیت کا صاف مفہوم یہی ہے اور دوسری جگہ کھلے الفاظ میں بھی یہب یان موجود ہے فرمان ہے وجوہ یومئذضرۃ الیٰ ربھا ناظرۃ یعنی اس دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے صحیح اور متواتر احادیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ ایمان دار قیامت والے دن اپنے رب عز و جل کو اپنی آنکھوں سے قیامت کے میدان میں اور جنت کے نفیس باغیچوں میں دیکھیں گے حضرت حسن فرماتے ہیں کہ حجاب ہٹ جائیں گے اور مومن اپنے رب کو دیکھیں گے اور کافر پھر کافروں کو پردوں کے پیچھے کر دیا جائے گا البتہ مومن ہر صبح و شام پروردگار عالم کا دیدار حاصل کریں گے یا اسی جیسا اور کلام ہے پھر فرماتا ہے کہ برے لوگ نہ صرف دیدار الٰہی سے ہی محروم رہیں گے بلکہ یہ لوگ جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے اور انہیں حقارت ذلت اور ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر غصہ کے ساتھ کہا جائے گا کہ یہی وہ جسے تم جھٹلاتے رہے۔

 

۱۸

نعمتوں، راحتوں اور عزت و جاہ کی جگہ

بدکاروں کا حشر بیان کرنے کے بعد اب نیک لوگوں کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کا ٹھکانا علیین ہے جو کہ سجین کے بالکل برعکس ہے حضرت ابن عباس نے حضرت کعب سے سجین کا سوال کیا تو فرمایا کہ وہ ساتویں زمین ہے اور اس میں کافروں کی روحیں ہیں اور علیین کے سوال کے جواب میں فرمایا یہ ساتواں آسمان ہے اور اس میں مومنوں کی روحیں ہیں ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے جنت ہے عوفی آپ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے اعمال اللہ کے نزدیک آسمان میں ہیں قتادہ فرماتے ہیں یہ عرش کا داہنا پایہ ہے اور لوگ کہتے ہیں یہ سدرۃ المنتہی کے پاس ہے ظاہر یہ ہے کہ لفظ علو یعنی بلندی سے ماخوذ ہے۔ جس قدر کوئی چیز اونچی اور بلند ہو گی اسی قدر بڑی اور کشادہ ہو گی اس لیے اس کی عظمت و بزرگی کے اظہار کے لیے فرمایا تمہیں اس کی حقیقت معلوم ہی نہیں پھر اس کی تاکید کی کہ یہ یقینی چیز ہے کتاب میں لکھی جا چکی ہے کہ یہ لوگ علیین میں جائیں گے جس کے پاس ہر آسمان کے مقرب فرشتے جاتے ہیں پھر فرمایا کہ قیامت کے دن یہ نیکو کار دائمی والی نعمتوں اور باغات میں ہوں گے یہ مسہریوں پربیٹھے ہوں گے اپنے ملک و مال نعمتوں راحتوں عزت و جاہ مال و متاع کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے یہ خیر و فضل یہ نعمت و رحمت نہ کبھی کم ہو نہ گم ہو نہ گھٹے نہ مٹے اور یہ بھی معنی ہیں کہ اپنی آرام گاہوں میں تخت سلطنت پر بیٹھے دیدار الٰہ سے مشرف ہوتے رہیں گے تو گویا کہ فاجروں کے بالکل برعکس ہوں گے ان پر دیدار باری حرام تھا ان کے لیے ہر وقت اجازت ہے جیسے کہ ابن عمر کی حدیث میں ہے جو پلے بیان ہو چکی کہ سب سے نیچے درجے کا جنتی اپنے ملک اور ملکیت کو دو ہزار سال کی راہ تک دیکھے گا اور سب سے آخر کی چیزیں اس طرح اس کی نظروں کے سامنے ہوں گی جس طرح سب سے اول چیز۔ اور اعلیٰ درجہ کے جنتی تو دن بھر میں دو دو مرتبہ دیدار باری کی نعمت سے اپنے دل کو مسرور اور اپنی آنکھوں کو پر نور کریں گے ان کے چہرے پر کوئی نظر ڈالے تو بیک نگاہ آسودگی اور خوش حالی جاہ و حشمت شوکت و سطوت خوشی و سرور بہجت و نور دیکھ کر ان کا مرتبہ تاڑلے اور سمجھ لے کہ راحت و آرام میں خوش و خرم ہیں جنتی شراب کا دور چلتا رہتا ہے رحیق جنت کی ایک قسم کی شراب ہے رسول اللہ صیل اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں جو کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے رحیق مختوم پلائے گا یعنی جنت کی مہر والی شراب اور جو کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے اسے اللہ تعالیٰ جنت کے میوے کھلائے گا اور جو کسی ننگے مسلمان کو کپڑا پہنائے اللہ تعالیاسے جنتی سبز ریشم کے جوڑے پہنائے گا (مسند احمد) ختام کے معنی ملونی اور آمیزش کے ہیں اسے اللہ نے پاک صاف کر دیا ہے اور مشک کی مہر لگا دی ہے یہ بھی معنی ہیں کہ انجام اس کا مشک ہے یعنی کوئی بدبو نہیں بلکہ مشک کی سی خوشبو ہے چاندی کی طرح سفید رنگ شراب ہے جس قدر مہر لگے گی یا ملاوٹ ہو گی اس قدر خوشبو والی ہے کہ اگر کسی اہل دنیا کی انگلی اس میں تر ہو جائے پھر چاہے اسی وقت اسے وہ نکال لے لیکن تمام دنیا اس کی خوشبو سے مہک جائے اور ختام کے معنی خوشبو کے بھی کیے گئے ہیں پھر فرماتا ہے کہ حرص کرنے والے فخر و مباہات کرنے والے کثرت اور سبقت کرنے والوں کو چاہیے کہ اس کی طرف تمام تر توجہ کریں جیسے اور جگہ ہے لمثل ھذا فلیعمل العاملون ایسی چیزوں کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے تسنیم جنت کی بہترین شراب کا نام ہے یہ ایک نہر ہے جس سے سابقین لوگ توبرابرپیا کرتے ہیں اور داہنے ہاتھ والے اپنی شراب رحیق میں ملا کر پیتے ہیں۔

 

۲۹

یعنی دنیا میں تو ان کافروں کی خوب بن آئی تھی ایمان داروں کو مذاق میں اڑاتے رہے، چلتے پھرتے آواز کستے رہے اور حقارت و تذلیل کرتے رہے اور اپنے والوں میں جا کر خوب باتیں بناتے تھے جو چاہتے تھے پاتے تھے لیکن شکر تو کہاں اور کفر پر آمادہ ہو کر مسلمانوں کی ایذارسانی کے درپے ہو جاتے تھے اور چونکہ مسلمان ان کی مانتے نہ تھے تو یہ انہیں گمراہ کہا کرتے تھے اللہ فرماتا ہے کچھ یہ لوگ محافظ بنا کر تو نہیں بھیجے گئے انہیں مومنوں کی کیا پڑی کیوں ہر وقت ان کے پیچھے پڑے ہیں اور ان کے اعمال افعال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں اور طعنہ آمیز باتیں بناتے رہتے ہیں؟ جیسے اور جگہ ہے اخسؤافیھا الخ یعنی اس جہنم میں پڑے جھلستے رہو مجھ سے بات نہ کرو میرے بعض خاص بندے کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم کر تو سب سے بڑا رحم و کرم کرنے والا ہے تو تم نے انہیں مذاق میں اڑایا اور اس قدر غافل ہوئے کہ میری یاد بھلا بیٹھے اور ان سے ہنسی مداق کرنے لگے دیکھو آج میں نے انہیں ان کے صبر کا یہ بدلا دیا ہے کہ وہ ہر طرح کامیاب ہیں یہاں بھی اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ آج قیامت کے دن ایماندار ان بدکاروں پر ہنس رہے ہیں اور تختوں پر بیٹھے اپنے اللہ کو دیکھ رہے ہیں جو اس کا صاف ثبوت ہے کہ یہ گمراہ نہ تھے گو تم انہیں گم کردہ راہ کہا کرتے تھے بلکہ یہ دراصل اولیاء اللہ تھے مقربین اللہ تھے اسی لیے آج اللہ کا دیدار ان کی نگاہوں کے سامنے ہے یہ اللہ کے مہمان ہیں اور اس کے بزرگی والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جیسا کچھ ان کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں کیا تھا اس کا پورا بدلہ انہیں آخرت میں مل گیا یا نہیں؟ ان کے مذاق کے بدلے آج ان کی ہنسی اڑائی گئی یہ ان کا مرتبہ گھٹاتے تھے اللہ نے ان کا مرتبہ بڑھایا غرض پورا پورا تمام و کمال بدلہ دے دیا۔ الحمد اللہ سورۂ مطففین کی تفسیر ختم ہوئی۔