آیت ۱۱۷ ، ۱۱۸ میں قبولیت توبہ کی بشارت سنائی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "توبہ" ہے۔ اس کا دوسرا نام "برأۃ" بھی ہے۔ اس لحاظ سے کہ پہلی ہی آیت میں عہد شکنی کرنے والے مشرکین کے معاہدوں سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ سورہ ۰۸ ھ اور ۰۹ ھ کے دوران مختلف مواقع پر مختلف اجزاء کی شکل میں نازل ہوئی ہے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ۰۸ ھ میں جب مشرکین نے حدیبیہ کے معاہدہ کو توڑ دیا تو آیات ۱۳ تا ۲۴ نازل ہوئیں۔ غزوہ تبوک (رجب ۰۹ ھ سے کچھ پہلے )آیات ۲۹ تا ۳۵ اور پھر اس کی تیاری کے سلسلہ میں آیات ۳۸ تا ۴۱ نازل ہوئیں۔ تبوک سے واپسی پر آیات ۴۱ تا ۱۲۷ نازل ہوئیں۔ ان میں سے متعدد آیات تو واپسی کے سفر ہی میں نازل ہوئی تھیں زیادہ تر آیتیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ پہنچنے کے بعد وقفہ وقفہ سے نازل ہوئی ہیں۔ ذی قعدہ ۰۹ ھ میں جب آپ نے حضرت ابو بکر کو امیر بنا کر حج کے لیے روانہ کر دیا تو آیات ۱ تا ۱۲ اور ۲۵ تا ۲۸ نیز ۳۶ ، ۳۷ نازل ہوئیں آپ نے حضرت علی کو ان کے پیچھے بھیجا تاکہ وہ حج کے موقع پر سورہ برأۃ کا ابتدائی حصہ جو آیت ۱ تا ۳۷ پر مشتمل ہے اور جس میں اہم اعلانات ہیں لوگوں کو سنائیں۔
آخری دو آیتیں ۱۲۸ اور ۱۲۹ اخیر اخیر میں نازل ہوئیں ہیں غالباً ۱۰ ھ کے اواخر میں۔
سورہ انفال کی طرح اس کا بھی مضمون جہاد ہے۔ جہاد کا آغاز غزوہ بدر سے ہوا تھا جو سورہ انفال کا عنوان ہے اور اس کا نقطہ عروج فتح مکہ اور غزوہ تبوک تھا جو سورہ توبہ کا عنوان ہے۔ گویا یہ سورہ اس وقت نازل ہوئی جب کہ اسلام اپنی انقلابی جد و جہد کے آخری مرحلہ میں داخل ہو گیا تھا۔ اس مرحلہ میں جس رہنمائی کی ضرورت تھی اس کا سامان اس میں کیا گیا۔
آیت ۱ تا ۲۸ میں مشرکین عرب کو جن پر اسلام کی حجت پوری طرح قائم ہو گئی تھی اور متعدد قبائل کے ساتھ صلح کے معاہدے بھی ہوئے تھے لیکن اسلام دشمنی میں وہ ان معاہدوں کی صریح خلاف ورزی کر رہے تھے آخری طور سے چیلنج کیا گیا ہے کہ اب اسلام کے سوا کوئی چیز ان سے قبول نہیں کی جائے گی۔ البتہ جن قبائل کے ساتھ مسمانوں نے مقررہ مدت کے لیے معاہدہ کر رکھا تھا اور انہوں نے عہد شکنی نہیں کی تھی ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ان کا معاہدہ مدت پوری ہونے تک برقرار رہے گا لیکن اس کے بعد اس کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ جو قوم اتمام حجت کے بعد بھی رسول کے خلاف تلوار اٹھائے اس کے لیے اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ یہ مٹانا قدرتی حوادث کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور رسول کے ساتھیوں کی تلوار کے ذریعے بھی مشرکین عرب کے معاملہ میں اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ تلوار کے ذریعہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ جہاد کے اس آخری مرحلہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں اور پوری قوت کے ساتھ تلوار سنبھال لیں۔
آیت ۲۹ تا ۳۵ میں اہل کتاب کے تعلق سے اسلامی ریاست کی پالیسی واضح کی گئی ہے نیز ان کی اسلام دشمنی کے اسباب کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کو اپنے آخری انجام سے آگاہ کیا گیا ہے۔
آیت ۳۶ اور ۳۷ میں ماہ اور سال کے سلسلہ میں قدرتی جنتری کی تباع کرنے اور محترم مہینوں کا احترام ملحوظ رکھنے نیز مشرکوں کی من گھڑت جنتری کو رد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ گویا ان دو آیتوں کی حیثیت ان احکام پر جو مشرکین کے سلسلہ میں اوپر بیان ہوئے ایک ضمیمہ کی ہے۔
آیت ۳۸ تا ۴۱ غزوہ تبوک کے موقع پر نازل ہوئیں ہیں اور ان میں مسلمانوں کو جہاد کے لیے نکلنے پر ابھارا گیا ہے۔
آیت ۴۲ تا ۷۰ غزوہ تبوک کے بعد نازل ہوئی ہیں اور ان میں منافقین پر جو جہاد سے جی چرا رہے تھے سخت گرفت کی گئی ہے۔ اور موقع کی مناسبت سے آیت ۶۰ میں صدقات کے مصارف بیان کیے گیے ہیں۔
آیت ۷۱ اور ۷۲ میں سچے اہل ایمان کو کامیابی کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔
آیت ۷۳ تا ۸۷ میں منافقین کے ساتھ سختی برتنے اور جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ساتھ ہی ان کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ اگر واقعی ان کو خدا اور اس کے رسول سے لگاؤ ہے تو وہ اپنے طرز عمل کی اصلاح کریں ورنہ ان کے رویہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ وہ اپنے دعوے ایمان میں جھوٹے ہیں۔
آیت ۸۸ اور ۸۹ میں رسول کے مخلص ساتھیوں کی قربانیوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔
آیت ۹۰ میں بدو عربوں کو منافقانہ طرز عمل اختیار کرنے پر سخت سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔
آیت ۹۱ اور ۹۲ میں واقعی عذر کی بنا پر جہاد میں شریک نہ ہونے والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفا دار بن کر رہیں۔
آیت ۹۳ تا ۹۶ میں جہاد سے جی چرانے والوں کے جھوٹے عذرات کی قلعی کھول دی گئی ہے۔
آیت ۹۷ تا ۱۰۱ میں بتایا گیا ہے کہ بدوی عربوں میں منافق قسم کے لوگ بھی ہیں اور مخلص مومن بھی۔ منافقانہ رویہ اختیار کرنے والوں کو ان کے برے انجام کی خبر دی گئی ہے۔ اور مخلص مومنوں کو اللہ کی رحمت میں داخل ہونے کی بشارت۔ پھر جب رحمت کا ذکر ہوا تو جن لوگوں نے اسلام کی راہ میں سب سے پہلے سبقت کی تھی اور ان کی قربانیوں کی پوری پوری قدر کرتے ہوئے نیز ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کی تحسین کرتے ہوئے انہیں عظیم کامیابی کا مژدہ جانفزا سنایا ہے۔
آیت ۱۰۲ تا ۱۰۶ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اہل ایمان میں سے تھے لیکن ان سے قصور سرزد ہوئے تھے۔
آیت ۱۰۷ تا ۱۱۰ میں منافقوں کی ایک خاص سازش کو بے نقاب کیا گیا ہے جو انہوں نے ایک نئی مسجد کھڑی کرنے آڑ میں کی تھی۔
آیت ۱۱ اور ۱۱۲ میں مخلص مومنین کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور انہیں کامیابی کی خوش خبری دے دی گئی ہے۔
آیت ۱۱۳ تا ۱۱۶ میں مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کی ممانعت کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے۔
آیت ۱۱۷ تا ۱۱۹ میں ان لوگوں کے قصوروں کی معافی اور قبولیت توبہ کا اعلان جنہوں نے نازک وقت میں نبی کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا اور یہ ہدایت کہ وہ صداقت شعار لوگوں کی رفاقت اختیار کریں۔
آیت ۱۲۰ تا ۱۲۲ میں اہل مدینہ اور اطراف کے بدوی عزلوں کو رسول کے ساتھ کامل وفاداری اور جاں نثاری کا طریقہ اختیار کرنے نیز دین کا فہم حاصل کرتے کی ہدایت۔
آیت ۱۲۳ میں اہل ایمان کو اپنے گرد و پیش کے کفار سے جنگ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آیت ۱۲۴ تا ۱۲۷ میں منافقوں کے بارے میں آخری بات کہی گئی ہے۔
آیت ۱۱۸ اور ۱۲۹ خاتمہ کلام ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے تعلق سے آخری بات ارشاد ہوئی ہے یعنی یہ بات کہ رسول تمہارا سچا بہی خواہ ہے اس کی قدر جانو کہ اس میں تمہاری اپنی بھلائی ہے۔
قرآن کی ہر سورت کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہوا ہے لیکن اس سورہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورہ کے ساتھ بسم اللہ نازل نہیں ہوئی اس لیے اس کو مصحف میں نہیں لکھا گیا اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قرآن جس طرح نازل ہوا تھا اسی طرح محفوظ ہے۔ صحابہ کرام نے اس کی کتابت میں غایت درجہ احتیاط برتی ہے اور وہ نسلاً بعد نسل جوں کا توں منتقل ہوتا رہا ہے۔
رہی اس کی حکمت تو جس طرح ہر سورہ اپنی خصوصیات میں منفرد ہے اسی طرح اس سورہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک تلوار بے نیام ہے جو ان لوگوں پر گرا چاہتی ہے جنہوں نے قرآن کے سارے مضامین سن لینے کے بعد اس کا کوئی اثر قبول نہیں کیا بلکہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے اور حاملین قرآن کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔
واضح رہے کہ سورہ توبہ نزول کے اعتبار سے بجز سورہ نصر کے قرآن کی آخری سورت ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ مصحف میں سورتوں کی ترتیب وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی الٰہی کے ذریعہ قائم فرمائی تھی اور ترتیب کا یہ کام ٹھیک اس ارشاد الٰہی کے مطابق ہوا جس میں فرمایا گیا ہے : اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرآنَہٗ (القیامۃ) "اس کو جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے "۔
اس لیے جن روایتوں میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بتلایا نہیں تھا کہ سورہ برات کہاں رکھنا ہے اور حضرت عثمان نے سورہ انفال سے اس کی مناسبت دیکھ کر اس سورہ کے بعد اس کو رکھا تو یہ روایتیں قابل قبول نہیں ہیں کیونکہ اس سے کچھ دوسرے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں امام رازی نے اس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے۔
"صحیح بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی کے ذریعہ یہ حکم دیا تھا کہ اس سورہ کو سورہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو حذف فرمایا تھا۔" (التفسیر الکبیر ، ج ۱۵ ص ۲۱۶ )
اور جب سورتوں کی موجودہ ترتیب وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم فرمائی تھی تو ہمیں اس میں تبدیلی کا کوئی حق نہیں ہے موجودہ دور میں بعض لوگ اپنی بے بصیرتی کی وجہ سے قرآن کی موجودہ ترتیب سے مطمئن نہیں ہیں وہ ان کو نزولی ترتیب پر قائم کرنا چاہتے ہیں مگر ان کا یہ خیال ایک نئے فتنہ کو دعوت دینے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین سے جن سے تم نے معاہدے کیے تھے ۱*۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تم زمین میں چار مہینے چل پھر لو۲* اور جان رکھو کہ تم اللہ کو شکست نہیں دے سکتے اور اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے ۳*۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لوگوں کے لیے اعلان عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن۴* کہ اللہ مشرکین سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول بھی۔ ۵* اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر نہیں مانتے تو جان رکھو تم اللہ کے قابو سے باہر نہیں جا سکتے۔ اور (اے پیغمبر!) کافروں کو درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ وہ مشرکین اس سے مستثنیٰ ہیں جن سے تم نے معاہدہ کر رکھا ہے اور اس کے بعد انہوں نے اس کو نباہنے میں کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی۔ ایسے لوگوں کے معاہدے کو ان کی مدت ختم ہونے تک پورا کرو۶* کہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔ ۷*۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں ۸* تو ان مشرکین کو جہان پاؤ قتل کرو ۹* اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ ۱۰* پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دین تو انہیں چھوڑ دو ۱۱*۔ بلاشبہ اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص تم سے امان طلب کرے تو اسے امان دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے ۱۲*۔ پھر اسے اس کے امن کی جگہ پہنچا دو۔ یہ اس لیے کہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان مشرکین کو کوئی عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ بجز۱۳* ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا تھا ۱۴*۔ تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کہ اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ (ان کے سوا دوسرے مشرکین کا عہد) کس طرح باقی رہ سکتا ہے جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر قابو پائیں تو تمہارے بارے میں نہ قرابت کا لحاظ کریں اور نہ عہد کا ۱۵*۔ وہ اپنی زبان سے تم کو خوش کرنے کی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے دل اس سے انکاری ہیں اور ان میں زیادہ تر لوگ فاسق ہیں ۱۶*۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اللہ کی آیتوں کے بدلہ حقیر قیمت قبول کر لی ۱۷* اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے ۱۸*بہت بری حرکت ہے جو یہ کرتے رہے ہیں۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی مؤمن کے معاملہ میں نہ قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد و پیمان کا۔ یہی لوگ ہیں جو زیادتی کرنے والے ہیں ۱۹*۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں ۲۰* اور ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں ۲۱*۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر یہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ۲۲* اور تمہارے دین پر طعنہ زنی کرنے لگیں ۲۳* تو کفر کے پیشواؤں (لیڈروں ) سے لڑو۲۴* کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں (ان سے لڑو) تاکہ وہ باز آ جائیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ۲۵*اور رسول کو (اس کے وطن) سے نکالنے کا قصد کیا ۲۶* اور تمہارے خلاف جنگ کرنے میں پہل کی ۲۷* ؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو (تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ) اللہ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سے جنگ کرو۔ اللہ تمہارے ہاتھوں ان کو عذاب دے گا ۲۸* اور انہوں رسوا کرے گا اور ان پر تم کو غالب کرے گا۲۹*۔ اور ایمان رکھنے والوں کے دل ٹھنڈے کرے گا۳۰*۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے دلوں کی جلن دور کرے گا ۳۱* اور اللہ جس کو چاہے گا توبہ کی توفیق بخشے گا۳۲*۔ اللہ علم والا حکمت والا ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے حالانکہ اللہ نے ابھی تو یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کن لوگوں نے جہاد کیا ۳۳* اور اللہ اور اس کے رسول اور مؤمنین کے سوا کسی کو اپنا معتمد نہیں بنایا۳۴*۔ تم جو کچھ کرتے ہو اس سے اللہ با خبر ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین اس لائق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ خود اپنے اوپر کفر کی گواہی دے رہے ہیں ۳۵*۔ ان کے سارے عمل ضائع ہو گئے ۳۶* اور دوزخ میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی مسجدوں کو آباد تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۳۷* ایسے لوگوں کے بارے میں یہ توقع بجا ہے کہ وہ راہیاب ہوں گے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے کے کام اور مسجد حرام کی خدمت کو ان لوگوں کے عمل کا درجہ دے رکھا ہے جو اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اللہ کے نزدیک دونوں یکساں نہیں ہیں ۳۸* اور اللہ ظالموں پر راہ نہیں کھولتا۳۹*۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کیا۔ ان کا درجہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا ہے ۴۰* اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا رب انہیں خوش خبری دیتا ہے اپنی رحمت اور خوشنودی کی اور ایسے باغوں کی جہاں ان کے لیے ابدی نعمت ہو گی۴۱*۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۴۲*۔ یقیناً اللہ کے پاس (دینے کے لیے ) بہت بڑا اجر ہے ۴۳*۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلہ میں کفر کو عزیز رکھیں تو ان کو اپنا دوست نہ بناؤ۴۴* اور تم میں سے جو لوگ ان کو دوست بنائیں گے تو (یاد رکھو) ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی تمہارے بیویاں ، تمہارا خاندان اور وہ مال جو تم نے حاصل کیا ہے اور وہ تجارت جس کے مندا پڑ جانے کا تم کو اندیشہ ہے اور وہ گھر جو تم کو پسند ہیں تمہیں اللہ سے ، اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائے ۴۵*۔ اور اللہ نا فرمانوں پر راہ نہیں کھولتا ۴۶*۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہارے مدد کر چکا ہے ۴۷*۔ اور حنین۴۸* کے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کثرت کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ۴۹*۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اللہ نے اپنی رسول پر اور مومنوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور ایسی فوجیں اتاریں جو تم کو نظر نہیں آئیں ۵۰*۔ اور کفروں کو سزا دی اور یہی بدلہ ہے کافروں کا ۵۱*۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسکے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق دیتا ہے ۵۲*اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! مشرکین بالکل نجس ہیں ۵۳* لہٰذا اس سال کے بعد ۵۴* یہ مسجد حرام کے پاس آنے نہ پائیں ۵۵*۔ اور اگر تمہیں معاشی تنگی کا اندیشہ ہے تو اللہ چاہے گا تو اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا ۵۶*۔ اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ مغلوب ہو کر جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں ۵۷*۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہود کہتے ہیں عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے ۵۸* اور نصاریٰ کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۵۹*۔ یہ محض باتیں ہیں جو وہ اپنے منھ سے نکال رہے ہیں ان لوگوں کی باتوں کی نقل اتارتے ہوئے جو ان سے پہلے کافر ہوئے۶۰*۔ اللہ ان کو غارت کرے۔ یہ کس طرح باطل کا شکار ہو رہے ہیں !
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو رب (خدا ) بنا لیا ہے۔ ۶۱*۔ اور مسیح ابن مریم کو بھی ۶۲*۔ حالانکہ انہیں صرف ایک معبود کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا۔ ۶۳*۔ وہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ پاک ہے وہ اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اللہ کی روشنی (نور) کو اپنی پھونکوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ اپنی روشنی پوری کیے بغیر رہنے والا نہیں ہے اگرچہ کافروں کو ناگوار ہو ۶۴*
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ہے جس نے اپنی رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو ناگوار ہو۶۵*۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! اہل کتاب کے علماء اور مشائخ میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں اور ۶۶* اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۶۷*۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوش خبری دے دو ۶۸*
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن جہنم کی آگ میں اسے تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیوں ، پہلوؤں ، اور پیٹھوں کو داغا جائے گا ۶۹*۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ تو چکھو اب اپنے خزانہ جمع کرنے کا مزہ۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مہینوں کی صحیح تعداد اللہ کے نزدیک بارہ ہے جو اللہ کے نوشتہ میں جس روز کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا لکھی ہوئی ہے ۷۰* جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں ۷۱*۔ یہی سیدھا دین ہے ۷۲*۔ لہٰذا ان میں اپنے نفس پر ظلم نہ کرو ۷۳*۔ اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ نَسِی (مہینہ کو اس کی جگہ سے پیچھے ہٹا دینا ) کفر میں سراسر زیادتی ہے۔ جس کے ذریعہ کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ کسی سال اس (مہینہ) کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال حرام تا کہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کو تعداد پوری کر لیں اور ساتھ ہی اللہ کے حرام ٹھہرائے ہوئے مہینوں کو حلال کر لیں ۷۴*۔ ان کے برے اعمال ان کی نگاہوں میں خود نما بنا دیئے گئے ہیں اور اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ ہیں اور اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا گیا کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو زمین سے چمٹ کر رہ گئے۷۵* ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ؟۷۶* دنیوی زندگی کا سامان تو آخرت کے مقابلہ میں بہت تھوڑا ہے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو وہ تمہیں درد ناک سزا دے گا ۷۷*۔ اور تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لا کھڑا کر ے گا ۷۸*اور تم اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے ۷۹*۔ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم اس کی ۸۰* مدد نہ کرو گے تو (کچھ پروا نہیں ) اللہ اس کی مدد ایسے وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا ۸۱* اور وہ دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے۔ جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی ۸۲* اور ایسے لشکروں سے اس کی مدد کی جو تم کو نظر نہ آئے ۸۳*۔ اور کافروں کا بول پست کر دیا اور اللہ کا بول بالا رہا۔ اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۸۴*۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نکل کھڑے ہو خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ۸۵* اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانو ۸۶*۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر فائدہ فوری ہوتا اور سفر بھی سہل ہوتا تو یہ ضرور تمہارے پیچھ ہولیتے لیکن انہیں یہ مسافت دراز معلوم ہوئی۸۷*۔ اب یہ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہمارے بس میں ہوتا تو ہم ضرور تمہارے ساتھ نکلتے یہ اپنے کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۸۸* اور اللہ جانتا ہے یہ بالکل جھوٹے ہیں۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی !) اللہ نے تمہیں معاف کر دیا، تم نے انہیں کیوں اجازت دے دی ؟ (تم اجازت نہ دیتے ) جب تک کہ تم پر یہ کھل نہ جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور یہ معلوم نہ کر لیتے کہ کون لوگ جھوٹے ہیں ۸۹*۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ اپنے مال اور جان سے جہاد نہ کرنے کی رخصت تم سے کبھی نہ طلب کریں گے۔ اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے ۹۰*۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ رخصت تو وہی لوگ طلب کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے اور جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہوئے ہیں۔ اور وہ اپن شک میں ڈانواں ڈول ہیں ۹۱*۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو اس کے لیے کچھ سامان ضرور کر لیتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا ناپسند ہوا. اس لیے ان کو اس سے باز رکھا۹۲* اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھے رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے لیے خرابی ہی کا باعث بنتے اور تمہارے درمیان ان کی دوڑ دھوپ فتنہ انگیزی کے لیے ہوتی اور تم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی بات پر کان دھرنے والے ہیں ۹۳*۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور تمہارے خلاف ہر طرح کی تدبیریں کرتے رہے ہیں ۹۴* یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوا۔ اور جب کہ ایسا ہونا ان کو ناگوار تھا۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے مجھے رخصت دے دیجیے اور فتنہ میں نہ ڈالیے ۹۵*۔ سن لو یہ فتنہ میں گر چکے ۹۶* اور جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو انہیں بری لگتی ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی احتیاط سے کام لیا اور وہ اس طرح پلٹتے ہیں کہ خوشی سے پھولے نہیں سما تے ۹۷*۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو، ہمیں وہی کچھ پیش آئے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے۔ وہی ہمارا مولیٰ ہے اور مومنوں کو چاہیے کہ اسی پر بھروسہ کریں۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو، تم ہمارے لیے جس بات کا انتظار کرتے ہو وہ اس کے سوا کیا کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے ۹۸*۔ اور ہم تمہارے لیے جس بات کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ یا تو اپنے پاس سے کو ئی عذاب بھیج دے یا ہمارے ہاتھوں تمہیں سزا دلوائے۹۹*۔ اب تم بھی انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں۔
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو، خوشی سے خرچ کرو یا ناگواری کے ساتھ انفاق قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ تم فاسق لوگ ہو۱۰۰*۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے انفاق قبول نہ کیے جانے کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور رماز کے لیے آتے ہیں تو کاہلی کے ساتھ آتے ہیں ۱۰۱* اور خرچ کرنے ہیں تو ناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں ۱۰۲*
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ان کے مال اور اولاد کو دیکھ کر تعجب نہ کرو، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعے ان کو دنیا کی زندگی میں عذاب دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں ۱۰۳*
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ گھبرائے ہوئے لوگ ہیں ۱۰۴*۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ کوئی پناہ کی جگہ یا کوئی غار یا کوئی چھپنے کی جگہ پالیں تو پوری سرکشی کے ساتھ اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوں ۱۰۵*
۵۸اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو صدقات کے معاملہ میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر ان کو اس میں سے کچھ دیا جائے تو خود ہوتے ہیں اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوتے ہیں ۱۰۶*۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ اور اس کے رسول نے انہیں دیا اور کہتے کہ "ہمارے لیے اللہ کافی ہے وہ ہمیں اپنے فضل سے عطا فرمائے گا اور اس کا رسول بھی ۱۰۷*۔ ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں ۱۰۸*" تو ان کے حق میں بہتر ہوتا۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ صدقات۱۰۹* تو صرف محتاجوں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ۱۱۰* ان کے لیے ہیں جو صدقات کے کام پر مامور ہوں ۱۱۱* اور وہ جن کے دلوں میں (اسلام)کی انسیت پیدا کرنا۱۱۲* ہو نیز اس لیے ہیں کہ گردنیں چھڑانے میں ۱۱۳* اور قرض داروں کا بوجھ ہلکا کرنے میں ۱۱۴* اور اللہ کی راہ میں ۱۱۵* اور مسافروں پر خرچ کیے جائیں ۱۱۶*۔ یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے ۱۱۷*۔ اور اللہ علم والا حکمت والا ہے۔ ۱۱۸*۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ شخص کان کا کچا ہے۔ کہو وہ تمہارے لیے گوش خیر ہے ۱۱۹*، اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، مومنوں کی بات پر یقین کرتا ہے ۱۲۰* اور جو لوگ تم میں سے ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے سر تا سر رحمت ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں حالانکہ اگر وہ مومن ہیں تو اللہ اور اسے کا رسول اس کا زیادہ حق دار ہے اسے راضی کریں ۱۲۱*۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کیا مخالفت کرتا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ ہے جسمیں وہ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔ منافق ڈر رہے ہیں کہ ان پر (مسلمانوں پر) کوئی ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو ان کو ان (منافقین) کے دلوں کے بھید سے آگاہ کر دے ۱۲۲*۔ کہو مذاق اڑاؤ۔ اللہ اس چیز کو ظاہر کرتے والا ہے جس سے تم ڈرتے ہو۱۲۳*۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم ان سے پوچھو تو جواب دیں گے ہم تو یوں ہی باتوں میں مشغول تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ کہو کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہو۱۲۴* ؟
۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔ بہانے نہ بناؤ۔ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ اگر ہم تمہارے کسی گروہ سے درگذر کر بھی لیں تو دوسرے گروہ کو ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے ۱۲۵*۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہیں ۱۲۶*۔ برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں ۱۲۷* اور اپنے ہاتھوں کو بند دکھتے ہیں ۱۲۸*۔ یہ اللہ کو بھول۱۲۹* گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۱۳۰*۔ یقیناً یہ منافق بڑے فاسق ہیں۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے منافق مردوں ، منافق عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر رکھا ہے جسمیں وہ ہمیشہ رہیں گے ۱۳۱*۔ وہی ان کے لیے کافی ہے ، ان پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا حال بھی وہی ہوا جو تمہارے پیش روؤں کا تھا۔ وہ تم سے کہیں زیادہ طاقتور تھے۔ اور مال و اولاد میں بھی بڑھ چڑھ کر تھے۔ تو (ان کا کیا حال ہوا؟)انہوں نے اپنے حصہ کا فائدہ اٹھا لیا اور تم نے بھی اپنے حصہ کا فائدہ اسی طرح اٹھا لیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اٹھا یا تھا۔ اور تم بھی اسی طرح الجھتے رہے جو طرح وہ الجھتے رہی( ۱۳۲*۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہو گئے ۱۳۳* اور یہی لوگ ہیں تباہ ہونے والے۔
۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ نوح ، عاد اور ثمود کی قومیں ۱۳۴*، ابراہیم کی قوم ۱۳۵*، اہل مدین ۱۳۶* اور وہ بستیاں جو الٹ دی گئیں۔ ۱۳۷* ان کے رسول ۱۳۸* ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے۔ پھر ایسانہیں ہو کہ اللہ نے ان پر ظلم کیا ہو بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مؤمن کر اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ۱۳۹*۔ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقیناً اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مومن مردوں عورتوں سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انہیں ایسے باغوں سے نوازے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی۔ وہ ا ن میں ہمیشہ رہیں گے اور ان جاودانی باغوں ۱۴۰*میں پاکیزہ مکانات ہوں گے اور انہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہو گی جو سب سے بڑی چیز ہے ۱۴۱*۔ یہی عظیم کامیابی ہے۔
۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اے بنی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ۱۴۲*ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے پہنچنے کی۔
۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے ایسا نہیں کہا حالانکہ انہوں نے ضرور کفر کی بات کہی اور اسلام لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کیا اور وہ کچھ کرنا چاہا جو کر نہ سے ۱۴۳*۔ ان کی خفگی محض اس بنا پر ہے کہ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کر دیا اور اس کے رسول نے بھی ۱۴۴* اگر یہ توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیر لیں گے تو اللہ انہیں دنیا میں بھی درد ناک سزا دے گا اور آخرت میں بھی اور روئے زمین پر ان کا نہ کوئی حمایتی ہو گا اور نہ مدد گار۔
۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہمیں عطا فرمایا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور نیک بن کر رہیں گے۔
۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطاء فرمایا تو وہ بخل کرنے لگے اور اپنے عہد سے پھر گئے اور وہ ہیں ہی نیک روی سے یکسر پھرے ہوئے۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے ان کے دلوں میں اس کے حضور پیشی کے دن تک کے لیے نفاق بٹھا دیا یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدہ کی خلاف ورزی کی اور اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے ۱۴۵*۔
۷۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ ان کی راز کی باتوں اور انکی سرگوشیوں کو جانتا ہے اور اللہ غیب کی تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ خو ش دلی سے انفاق کرنے والے مومنوں پر صدقات کے بارے میں طعن کرتے ہیں اور ان لوگو کا مذاق اڑاتے ہیں جو اپنی محنت مزدوری کے سوا انفاق کے لیے کچھ نہیں پاتے ۱۴۶*۔ اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے
۸۰۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے پیغمبر !) تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو۔ تم اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو گے تو بھی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا۱۴۷* اور اللہ فاسق لوگوں کو راہ یاب نہیں کرتا ۱۴۸*۔
۸۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ پیچھے چھوڑ دیے گئے تھے ۱۴۹* وہ اللہ کے رسول کے پیچھے بیٹھ رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں یہ بات نا گوار ہوئی کہ اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ انہوں نے کہا کہ گرمی میں نہ نکلو ، کہو جہنم کی آ گ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے ۱۵۰* کاش وہ سمجھ لیتے !
۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ ۱۵۱* ، اس (برائی) کی پاداش میں جو یہ کماتے رہے ہیں۔
۸۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر اللہ ان کے کسی گروہ کی طرف تمہیں واپس لے جائے ۱۵۲* اور وہ تم سے (جہاد میں ) نکلنے کی اجازت مانگیں تو کہدو تم میرے ساتھ کبھی نہیں نکل سکتے اور نہ کبھی میرے ساتھ ہو کر دشمن سے لڑ سکتے ہو۱۵۳*۔ تم نے پہلی مرتبہ بیٹھ رہنا پسند کیا تو ان بھی پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
۸۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں سے جو مرے اس کی نماز (جنازہ) تم ہر گز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ فاسق تھے ۱۵۴*۔
۸۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے مال اور اولاد تم کو تعجب میں نہ ڈالیں۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے ذریعہ دنیا میں ان کو سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں ۱۵۵*۔
۸۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب کوئی سورت (اس حکم کو لے کر) اترتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو جو لوگ ان میں مقدور والے ہیں وہی تم سے اجازت مانگنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں ۱۵۶*۔
۸۷۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے پیچھے رہ جانے والیوں کے ساتھ رہنا پسند کیا ۱۵۷* اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اس لیے وہ کچھ نہیں سمجھتے ۱۵۸*۔
۸۸۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنے مال و جان سے جہاد کیا۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے بھلائیاں ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے سب سے بڑی کامیابی۔
۹۰۔۔۔۔۔۔۔۔ بدوؤں میں سے بھی غدر کرنے والے آئے تاکہ انہیں بھی اجازت دی جائے ۱۵۹* اور جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے جھوٹ بولا تھا وہ بیٹھے رہے ۱۶۰*۔ ان (بدوؤں ) میں سے جن لوگوں نے کفر کیا وہ عنقریب درد ناک سزا سے دو چار ہوں گے ۱۶۱*۔
۹۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کمزوروں ، بیماروں اور ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جنہیں خرچ کے لیے کچھ میسر نہیں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے وفاداری کریں ۱۶۲*۔ ایسے نیکو کاروں پر کوئی الزام نہیں اور اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۹۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ ان لوگوں پر کوئی الزام ہے جو تمہارے پاس آئے کہ تم ان کے لے سواری کا انتظام کر دو اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کر سکتا تو اس حال میں واپس ہوئے کہ خرچ کی مقدرت نہ رکھنے کے غم میں ان کی آنکھیں اشکبار تھیں ۱۶۳*
۹۳۔۔۔۔۔۔۔۔ الزام تو دراصل ان لوگوں پر ہے جو غنی ہونے کے باوجود تم سے رخصت طلب کرتے ہیں۔ انہوں نے پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اس لیے وہ کچھ نہیں جانتے۔
۹۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تم ان کی طرف واپس جاؤ گے تو وہ تمہارے سامنے عذرات پیش کریں گے ۱۶۴*۔ تم ان سے کہا کہ عذرات نہ تراشو۔ ہم تمہاری باتوں کا اعتبار کرنے والے نہیں اللہ نے تمہارے حالات سے ہمیں باخبر کر دیا ہے ۱۶۵*۔ اب اللہ اور اس کا رسول ہی تمہارے عمل کو دیکھے گا ۱۶۶*۔ پھر تم لوٹائے جاؤ گے اس کی طرف جو غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے وہ تمہیں بتا دیے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔
۹۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تم ان کی طرف لوٹو گے تو وہ اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صرف نظر کرو تو تم ان سے صرف نظر ہی کرو۱۶۷* وہ ناپاک ہیں ۱۶۸* اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے بدلہ میں اس چیز کے جو وہ کماتے رہے ہیں۔
۹۶۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم راضی ہو جاؤ ، لیکن اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ فاسق لوگوں سے کبھی راضی ہونے والا نہیں۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔۔ بدو لوگ ۱۶۹* کفر و نفاق میں بہت سخت ہیں ۱۷۰* اور ان سے یہ بعید نہیں کہ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس کے حدود سے وہ ناواقف ہیں ۱۷۱*۔ اور اللہ سب کچھ سننے والا حکمت والا ہے ۱۷۲*۔
۹۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو (اللہ کی راہ میں ) انفاق کو اپنے اوپر تاوان سمجھتے ہیں ۱۷۳*اور اس بات کے منتظر ہیں کہ تم کسی نہ کسی گردش میں آ جاؤ۱۷۴* (اور واقعہ یہ ہے کہ ) بری گردش میں وہ خود ہی آ گئے ہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
۹۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بدوؤں میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں ۱۷۵* اور انفاق (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے ) کو اللہ کے حضور تقرب اور رسول کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ۱۷۶*۔ سنو وہ ضرور ان کے لیے قربت کا ذریعہ ہے ۱۷۷*۔ اللہ عنقریب ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یقیناً اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مہاجرین ۱۷۸* اور انصار۱۷۹* میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی ۱۸۰*نیز وہ جنہوں نے حسن و خوبی کے ساتھ ان کی اتباع کی ۱۸۱*اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ ان سے راضی ہوئے ۱۸۲* ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں۔ وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے اور یہی ہے بہت بڑی کامیابی۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارے ارد گرد جو بدو رہتے ہیں ان میں منافق ہیں اور مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں مشاق ہو گئے ہیں ۱۸۳*۔ تم انہیں نہیں جانتے ہم ان کو جانتے ہیں ۱۸۴* انہیں ہم دو مرتبہ سزا دیں گے ۱۸۵* پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے ۱۸۶*۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ انہوں نے ملے چلے کام کیے ہیں اچھے بھی اور برے بھی۱۸۷* عجب نہیں کہ اللہ ان کو توبہ قبول فرمائے۔ اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) تم ان کے مال سے صدقہ ۱۸۸* لے لو کہ اس کے ذریعے تم انہیں پاک کرو گے۔ اور ان کا تزکیہ کرو گے ۱۸۹*۔ اور ان کے حق میں تم دعائے رحمت کرو۔ یقیناً تمہاری دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے۔ اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات کو قبولیت بخشتا ہے اور یہ کہ اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو تم عمل کرو۔ اللہ تمہارے عمل کو دیکھے گا نیز اس کا رسول اور مومنین بھی دیکھیں گے ۱۹۰* اور تم عنقریب اس کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ جو غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے پر وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ اور لوگ ہیں جن کو اللہ کے فیصلے کے انتظار میں رکھا گیا ہے ۱۹۱*۔ یا تو انہیں سزا دے یا ان پر مہربان ہو جائے۔ اللہ علیم و حکیم ہے۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور (کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنائی کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کریں اور اہل ایمان میں تفرقہ ڈالیں اور ان لوگوں کے لیے کمین گا بنائیں جو اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر چکے ہیں ۱۹۲*۔ وہ ضرور قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کا تھا۔ مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ قطعاً جھوٹے ہیں۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اس میں ہر گز کھڑے نہ ہونا ۱۹۳*۔ وہ مسجد جس کی بنیاد اول روز سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہی اس بات کی حقدار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۱۹۴* اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں ۱۹۵* اور اللہ پاک رہنے والوں ہی کو پسند کرتا ہے۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے تقویٰ اور اس کی خوشنودی پر رکھی یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کھوکھلی گرتی ہوئی کگر کے کنارہ پر رکھی اور پھر وہ اس کو لے کر آتش جہنم میں جا گری ۱۹۶*۔ اللہ ایسے ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا ۱۹۷*۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہمیشہ ان کے دلوں میں خلجان کا باعث بنی رہے گی الّا یہ کہ ان کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں ۱۹۸*۔ اور اللہ نہایت علم والا حکمت والا ہے۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ در حقیقت اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۱۹۹*۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور مارتے اور مرتے ہیں ۲۰۰*۔ یہ اللہ کے ذمہ ایک سچا وعدہ ہے۔ تورات۲۰۱* ، انجیل اور قرآن میں۔ اور کون ہے اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا ؟ تو خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جوتم نے اس کے ساتھ کیا ہے۔ یہی ہے سب سے بڑی کامیابی۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ توبہ کرنے والے ۲۰۲*، عبادت کرنے ۲۰۳* والے ، حمد کرنے ۲۰۴* والے ، (اس کی راہ میں ) سیاحت کرنے والے ۲۰۵* ، رکوع کرنے والے ، سجدہ کرنے والے ۲۰۶*، بھلائی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے ۲۰۷* ، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے ۲۰۸*۔ اور (اے پیغمبر !) ان مؤمنوں کو خوش خبری دے دو۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی کو اور اہل ایمان کو زیبا نہیں ہے کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں خواہ وہ ان کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر یہ واضح ہو چکا کہ وہ جہنم والے ہیں۔ ۲۰۹*۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے جو مغفرت کی دعا کی تھی وہ تو اس وعدہ کی وجہ سے تھی جو اس نے اس سے کیا تھا لیکن جب اس پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بے تعلق ہو گیا ۲۱۰*۔ در حقیقت ابراہیم بڑا ہی درد مند اور بردبار تھا ۲۱۱*۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کرے جب تک کہ اس پر وہ باتیں واضح نہ کر دے جن سے اسے بچنا چاہیے ۲۱۲*۔ بلا شبہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔
۱۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت۔ وہی جلاتا اور مارتا ہے۔ اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار ۲۱۳*۔
۱۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ معاف کیا نبی کو اور مہاجرین و انصار کو جنہوں نے تنگی کے وقت میں بنی کا ساتھ دیا ۲۱۴* اور ایسی حالت میں دیا کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل کجی کی طرف مائل ہو جائیں۔ پھر اللہ نے انہیں معاف کر دیا ۲۱۵*۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان تینوں کو بھی اس نے معاف کیا جن کا معاملہ ملتوی کر دیا گیا تھا ۲۱۶* یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آ گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اللہ کا غضب سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے مگر اسی کے پاس تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تاکہ وہ اس کی طرف رجوع ہوں ۲۱۷*۔ بلا شبہ اللہ ہی ہے بڑا توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ ۲۱۸*۔
۱۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مدینہ کے باشندوں اور اس کے اطراف میں بسنے والے بدویوں کے لیے روا نہ تھا کہ وہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہتے اور اس کی جان سے بے پروا ہو کر اپنی جانوں کی فکر میں لگے رہتے ۲۱۹*۔ یہ اس لیے کہ اللہ کی راہ میں پیدا اس تکان اور بھوک کی جو تکلیف بھی ان کو پہنچی ہے اور کافروں کو غیظ و غضب میں مبتلا کرنے والا جو قدم بھی وہ اٹھا تے ہیں اور دشمن کو جو ایک بیک عمل لکھا جاتا ہے ۲۲۰*۔ اللہ ان لوگوں کا عمل ضائع نہیں کرتا جو نیکو کار ہیں۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو چھوٹا یا بڑا خرچ وہ کرتے ہیں اور جو وادی بھی وہ طے کرتے ہیں وہ سب ان کے حق میں لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کے عمل کی انہیں بہترین جزا دے۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ سب اہل ایمان نکل کھڑے ہوتے۔ مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل آتے کہ وہ دین کا فہم حاصل کرتے اور جب واپس جاتے تو اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ بیدار ہو جاتے ۲۲۱*
۱۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! جنگ کرو ان کافروں سے جو تم سے قریب ہیں ۲۲۲*اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی محسوس کریں ۲۲۳* اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے ۲۲۴*
۱۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۲۲۵* جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان میں سے بعض کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ؟ تو جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کے ایمان میں اس نے ضرور اضافہ کیا ۲۲۶* ہے اور وہ اس سے بشارت حاصل کرتے ہیں۔
۱۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں روگ ہے انکی نجات پر اس نے ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا اور وہ اس حال پر مرے کہ کافر تھے ۲۲۷*۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ دیکھتے نہیں کہ یہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں پھر بھی یہ ہیں کہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ سبق حاصل کرتے ہیں ۲۲۸*۔
۱۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے پھر چل دیتے ہیں ۲۲۹*۔ اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں۔
۱۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاس ایک رسول آگیا ہے جو تم ہی میں سے ہے ۲۳۰*۔ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق ہے ۲۳۱* وہ تمہاری بھلائی کا بڑا ہی خواہشمند ہے ۲۳۲*۔ اور ایمان لانے والوں کے لیے شفیق و رحیم ہے ۲۳۳ *۔
۱۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر بھی اگر یہ لوگ منہ پھیر تے ہیں ۲۳۴* تو ان سے کہ دو میرے لیے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ۲۳۵*۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد قبائل سے صلح کے معاہدے کیے تھے لیکن ان میں سے اکثر قبائل معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہے تھے اس لیے ایسے تمام معاہدوں کے ختم ہونے اک اعلان کیا گیا۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی تاکہ اس مدت میں وہ اپنے بارے میں کوئی آخری فیصلہ کر لیں۔ یا تو شرک اور بت پرستی کو ترک کر دیں یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے مشرکین کو رسوا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے جو لوگ اخیر وقت تک شرک پر قائم رہیں گے اللہ کا یہ فیصلہ ان پر نافذ ہو ر رہے گا۔ وہ کتنی ہی طاقت لگائیں اللہ کے فیصلے کو اپنے اوپر نافذ ہونے سے روک نہیں سکتے اور تاریخ شاہد ہے کہ اللہ کا فیصلہ مشرکین عرب پر نافذ ہو کر رہا۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ لفظ اکبر حج کی صفت ہے جو اسے عمرہ سے جسے "حج اصغر" کہا جاتا تھا ممتاز کرتی ہے نیز یہ صفت حج کے عظیم اجتماع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
یہ اجتماع عرفات میں بھی ہوتا ہے اور منیٰ میں بھی لیکن یہاں حج اکبر کے دن سے مراد "یوم النحر " یعنی ۱۰/ ذی الحجہ ہے اس روز منیٰ میں حج کا اجتماع ہوتا ہے اور چونکہ قریش عرفات نہیں جایا کرتے تھے اس لیے اس اعلان کے لیے جو حج کے موقع پر کرنا تھا منیٰ ہی کا دن موضوع ہو سکتا تھا جس میں ہر قسم کے مشرک شریک ہوتے تھے۔
آج کل مسلمان عرفات کا دن اگر جمعہ کو پڑتا ہے تو اسے حج اکبر سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ اس آیت کی رو سے ہر حج حج اکبر ہی ہے کیونکہ یہ حج کی مستقل صفت ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بری الذمہ ہونے کا یہ اعلان ان مشرکین کے بارے میں ہے جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ اور اللہ اور اس کے رسول کے بری الذمہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان ان کے لیے نہ اللہ کے قانون میں کوئی امان ہے اور نہ اس کے رسول کی طرف سے ان کی جانوں کی کوئی ضمانت۔ صلح اور معاہدہ کا دور گزر چکا اب یا تو انہیں مشرکانہ روش سے باز آنا ہو ا یا پھر ان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی۔
یہ اعلان ۰۹ھ میں حج کے موقع پر یعنی ۱۰ ذی الحجہ کو منیٰ میں کیا گیا۔ اس وقت مشرکین نے اپنے طریقے پر حج کے مراسم ادا کیے تھا اور مسلمانوں نے اپنے طریقہ پر حج کیا تھا۔ یہ حج حضرت ابوبکر کی قیادت میں ہوا تھا اور حضرت علی نے نبی صلی اللہ علیہ سولم کی طرف سے چار باتوں کا اعلان کیا تھا۔
۱) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہیں ہو گاجو ایمان نہ لایا ہو۔
۲) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا۔
۳) اور نہ کوئی برہنہ حالت میں کعبہ کا طواف کر سکتا ہے۔
۴) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا معاہدہ ہے مقررہ مدت تک پورا کیا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی تو میں منادی کرنے لگا۔ (تفسیر طبری ، ج ۱۰ ص ۴۵)
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جن مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے صلح کے معاہدے ایک مقررہ مدت کے لیے ہوئے تھے اور انہوں نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی تھی ان کے ساتھ مدت معاہدہ ختم ہونے تک وفا کرتے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے۔ یہ قبیلے خزاعہ، بنو ضمرہ اور بنو کنانہ تھے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن اپنے پیروؤں کی ہر حال میں تقویٰ کی روش اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے خواہ معاملہ معاہدات کی پابندی کا ہو یا صلح و جنگ کا یا سیاست و اجتماعیت کا ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ انفرادی معاملہ میں تقویٰ پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ حرمت والے مہینوں کی وضاحت سورہ بقرہ نوٹ ۲۶۹ میں گزر چکی۔
یہاں حرمت والے مہینوں کے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس سلسلہ کا آخری مہینو یعنی محرم گزر جائے تو ان مشرکین کی جن سے تمہارا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا تلوار سے خبر لو۔
واضح رہے کہ آیت ۲ میں چار ماہ کی جو مہلت دی گئی تھی وہ ان مشرکین کے لیے تھی جن کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے ہوئے تھے اور وہ ان کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ الٹی میٹم (چیلنج) خاص طور سے مشرکین عرب کو دیا گیا تھا کیوں کہ ان کا معاملہ دوسری قوموں سے مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ نے عربوں ہی میں سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول بنا کر اٹھایا تھا اور ان کی اپنی زبان عربی میں کتاب نازل فرمائی تھی اس لیے ان پر حق بدرجہ اتم واضح ہو گیا تھا اور اللہ کی یہ سنت ہے کہ جب اس کے رسول کے ذریعہ کسی قوم پر حجت پوری طرح قائم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد بھی وہ ایمان نہیں لاتی تو وہ اسے تباہ کر دیتا ہے کیونکہ اللہ سے بغاوت پر ان کا یہ اصرار انہیں اللہ کی زمین پر جینے کے حق سے محروم کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ مردہ ہوتے ہیں اور مردوں کے لیے جگہ زمین کے اوپر نہیں بلکہ زمین کے نیچے ہے۔ اس لیے دو صورتوں میں سے ایک صورت لازماً ان کو پیش آتی ہے یا تو ان پر آسمانی عذاب نازل ہوتا ہے۔ جو ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے جیسا کہ قوم عاد اور ثمود وغیرہ پر نازل ہوا یا پھر رسول کے ساتھیوں کے ہاتھوں انکا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ مشرکین عرب کے بارے میں اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ ان کی بڑی تعداد کو ایمان کی توفیق نصیب ہو گی اور جو قلیل تعداد شرک پر قائم رہے گی اس کا خاتمہ اصحاب رسول کی تلوار کے ذریعہ ہو گا۔
جو لوگ ان آیات کے پس منظر اور موقع محل کو سامنے نہیں رکھتے وہ اس حکم کو دیکھ کر کہ "مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کرو" یہ نتیجہ اخذ کرنے لگتے ہیں کہ قرآن مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ دنیا کے جس ملک میں رہتے ہوں وہاں کے مشرکین کو جہاں پائیں قتل کریں خواہ ان پر اللہ کی حجت قائم ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ اور خواہ حالت امن کی ہو یا جنگ کی۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو خاص طور سے ہندوستان کے غیر مسلمین میں پائی جاتی ہے۔ اس کا ازالہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ آیت کے موقع محل کو سامنے رکھ کر اس کے مدعا کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے خلاف اقدام کرو اور جنگی کاروائی کرنے میں کوئی کس اٹھا نہ رکھو۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ مشرکین اگر شرک اور بت پرستی سے توبہ کر کے اسلام قبول کرتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کے ثبوت میں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے لگتے ہیں تو پھر ان سے تعرض کرتے کی کوئی وجہ نہیں۔ نہ تو ان سے پچھلی باتوں پر مواخذہ کیا جائے اور نہ انہیں کوئی تکلیف پہونچائی جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد جب عرب کے بعض قبائل نے جو مسلمان ہو گئے تھے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے اسی آیت کے پیش نظر ان کے خلاف تلوار اٹھائی تھی اور فرمایا تھا کہ جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان تفریق کریں گے میں ن سے ضرور لڑوں گا۔ (مشکوٰۃ کتاب الزکوٰۃ)۔
اس سے نماز اور زکوٰۃ کی اہمیت کا ایک اور پہلو واضح ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام میں ان دو عبادتوں کو قانون کا درجہ بھی حاصل ہے اور ایک اسلامی حکومت کے فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اس قانون کو بزور نافذ کرے۔
آج مسلمانوں میں نماز اور زکوٰۃ کے معاملہ میں جو عام غفلت پائی جاتی ہے اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کو غفلت سے چونکا دینے کے لیے کوئی تازیانہ نہیں ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی مشرک جنگ کے دوران بھی قرآن سننے اور سمجھنے کی غرض سے امان طلب کرتا ہے تو اسے امان دینا اور بعد میں اس کو بحفاظت اس کے امن کی جگہ تک پہنچانا مسلمانوں پر فرض ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرکین سے اسلام کی جنگ ایک نہایت ہی پاکیزہ مقصد کے لیے ہے قوم دشمنی اور ملک گیری کے لیے نہیں ہے۔
اس آیت سے ضمناً یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کی غرض سے غیر مسلموں کو قرآن سے متعارف کرانا ، اس کو سمجھنے کی ترغیب دینا اور اس کی آیات کے معنی ان کی زبان میں پیش کرنا نہایت اہم اور ضروری کام ہے تاکہ وہ اپنے رب کے کلام کو سمجھ سکیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جملہ معترضہ ہے یعنی ایک سلسلہ بیان کو منقطع کر کے دوسری بات کہی گئی ہے۔ سلسلہ بیان کے لحاظ سے حکم ان مشرکین کا بیان کیا جا رہا تھا جن کے ساتھ عہد برقرار نہیں رہا۔ لیکن جملہ معترضہ کے ذریعے اس کے ذریعے اس حکم سے ان لوگوں کو مستثنیٰ کر دیا گیا۔ جنہوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ مسجی حرم کے پاس سے مراد حدیبیہ ہے جو حدود حرم میں داخل ہے۔ ذی قعدہ ۰۶ ھ میں مدینہ کے مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدہ کی ایک دفعہ یہ تھی کہ عرب قبائل میں سے جو قبیلہ جس فریق کا حلیف بننا چاہے بن سکتا ہے۔ اس موقع پر قبیلہ خزاعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیف بن گیا۔ اگرچہ ۰۸ ھ کے اوائل میں قریش نے حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا تھا اور اس کے بعد رمضان ۰۸ ھ میں فتح مکہ کا واقعہ پیش آیا لیکن خزاعہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ برقرار رہا اور انہوں نے چونکہ اس کی خلاف ورزی نہیں کی تھی اس لیے یہاں ہدایت کی گئی کہ جب تک وہ اس پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عرب میں قبائلی سسٹم رائج تھا اس لیے اجتماعی معاملات میں رشتہ داری کے تعلقات کو بڑا دخل ہوتا ہے اور دوسرے چیز جو بین القبائلی تعلقات کو درست رکھنے میں معاون ہوتی تھی وہ باہمی امن و صلح کے معاہدے تھے۔ لیکن مشرکین نے اسلام دشمنی میں ایسا رویہ اختیار کیا تھا کہ نہ معاشرتی تعلقات کو خاطر میں لاتے اور نہ معاہدہ کی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے بلکہ جب بھی موقع ملتا مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی حرکت کر گزرتے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کا ان سے کیے ہوئے معاہدہ کو باقی رکھنا مشکل تھا کیونکہ کوئی بھی معاہدہ قائم نہیں رہ سکتا جب تک کہ دونوں فریق اس کو نباہنے کی کوشش نہ کریں۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں فاسق سے مراد عہد شکن لوگ ہیں ۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی آیتوں میں دو جہاں کی دولت چھپی ہوئی تھی مگر ان نا قدروں نے دنیا کے حقیر فائدوں کو ترجیح دی اور اپنے کو بہت بڑے خیر سے محروم کر لیا۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب دنیا کا مفاد ہی اصل نصب العین ٹھیرا تو دین کی دعوت کو وہ کیونکہ برداشت کر سکتے تھی جو آخرت کو نصب العین بنانے کے لیے دی جا رہی تھی اس لیے وہ اس راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گیے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت ۸ میں اہل ایمان کے گروہ کے ساتھ مشرکین کے رویہ کا ذکر ہوا تھا۔ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ کسی بھی مومن کے معاملہ میں انہیں نہ قرابت کا لحاظ ہے اور نہ عہد کا پاس بلکہ انہوں نے صریح جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان تمام دشمنانہ حرکتوں کے باوجود اگر وہ توبہ کر کے اسلام قبول کر لیتے ہیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے لگتے ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ انہوں نے مشرکانہ دین کو ترک کر کے دین توحید کو اپنا لیا ہے اس لیے اب تمہارا ان کا رشتہ دینی بھائیوں کا ہو گا۔
واضح ہوا کہ اسلامی برادری میں مسلم اور نو مسلم کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ معاشرتی درجہ کا یکساں ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مشرکین کے بارے میں نہایت وضاحت کے ساتھ احکام بیان کر دیئے گئے ہیں لیکن اس فائدہ وہی لوگ اٹھا سکیں گے جو جانتے ہیں کہ ہدایت کا سرچشمہ اللہ کی آیتیں ہیں نہ کہ کوئی اور چیز۔ علم کی روشنی میں چلنے والے قدم قدم پر اللہ کی آیتوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں لیکن جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے والے اس سے محروم رہتے ہیں۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر سے جو سلسلہ بیان چلا آ رہا ہے اس میں مشرکین کے مختلف گروہوں کا حال بیان ہوا ہے اور اس کی مناسبت سے احکام دیئے گئے ہیں۔ اس آیت میں ان کے ایک گروہ کا حال بیان کر کے ان سے جنگ کرنے پر مسلمانوں کو ابھارا گیا ہے جو نہ صرف معاہدوں کی خلاف ورزی کر بیٹھا تھا بلکہ جس نے آگے بڑھ کر اسلام کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا۔
عربوں میں معاہدہ کرتے وقت حلف لینے کا طریقہ رائج تھا تا کہ عہد پختہ ہو۔ اسی مناسبت سے یہاں قسموں کے توڑنے کا ذکر ہوا ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ دین اسلام پر طعنہ زنی کرنا اس کا مذاق اڑانا اور اللہ اور اس کے رسول کی توہین کرنا سراسر کفر سنگین جرم ہے۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ میں کافروں کے لیڈروں اور پیشواؤں کو نشانہ پر رکھو کہ یہ سب سے بڑے مفسد ہیں اور تمہارا کام یہ ہونا چاہیے کہ کفر کی جڑ پر کلہاڑا چلاؤ تاکہ انسانیت کو ان سے نجات ملے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد صلح حدیبیہ (ذی قعدہ ۰۶ ھ) کا معاہدہ ہے جو قریش نے توڑ ڈالا تھا اس کی صورت یہ ہوئی کہ بنو بکر نے جو قریش نے توڑ ڈالا تھا اس کی صورت یہ ہوئی کہ بنو بکر نے جو قریش کے حلیف تھا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حلیف خزاعہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی شکایت کی۔ قریش اور بنو بکر کی یہ حرکت معاہدہ کی کھلی خلاف ورزی تھی اس لیے حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اس آیت میں ان کی اسی عہد شکنی کا ذکر ہوا ہے اور مسلمانوں کو ان سے جن کرنے پر ابھارا ہے چنانچہ رمضان ۸ ھ میں غزوہ فتح مکہ پیش آیا۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ ہجرت کر جانے سے پہلے قریش آپ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کر رہے تھے جن میں ایک سازش یہ بھی تھی کہ آپ کو جلا وطن کر دیا جائے مگر وہ نا پاک ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکے بلکہ اللہ کے منصوبہ کے مطابق آپ نے مدینہ کو اس طرح ہجرت فرمائی کہ وہ آپ کا بال بھی بیکا نہ کر سکے۔ ان کے ان ہی نا پاک ارادوں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ کے لیے پیش قدمی قریش (مشرکین مکہ) ہی نے کی اور وہی جارح بن کر بدر کے میدان میں آئے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ مکہ اور عرب کے مشرکین کے بارے میں یہ تھا اللہ تعالیٰ کا منصوبہ جسے یہاں کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ان کی تباہی آسمانی عذاب کے ذریعہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی تلوار کے ذریعہ ہو گی اور قرآن کی یہ بات حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات کے نزول کے بعد مکہ فتح ہو گیا اور پھر فتوحات کا سلسلہ ایسا چلا کہ دو سال کے اندر پورا عرب مسلمانوں کے زیر اقتدار آگیا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں سخت اذیت پہنچائی تھی۔ اس لیے ان کے برے انجام کو دیکھ کر مسلمانوں کے دلوں کا ٹھنڈا ہو جانا ایک نفسیاتی بات تھی۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کے دلوں میں مشرکین کے خلاف غصہ ان کے شرک اور کفر کی بنا پر تھا اس لیے ان کا خاتمہ شرک اور کفر کا خاتمہ اور توحید کی فتح تھی۔ اور یہ بات مسلمانوں کے غصہ کو فرو کرنے والی تھی۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد کا یہ مثبت نتیجہ تھا جو بڑے پیمانے پر برآمد ہوا۔ جن لوگوں کے دلوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے ہوئے تھے اور نصیحت ان پر کار گر نہیں ہو سکی تھی میدان کار زار کو گرم ہوتا دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ اور اپنے برسر غلط ہونے کا احساس ان کے اندر کروٹیں لیے لگا۔ چنانچہ بہت بڑی تعداد کو توبہ کی توفیق نصیب ہوئی اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے اس طرح ان کے جہنم کی آگ سے بچنے کا سامان ہوا اس سے بڑھ کر خیر خواہی ان کی کیا ہو سکتی تھی۔
اس آیت کے نزول کے بعد جن مشرکین کو توبہ کی توفیق نصیب ہوئی ان میں ابوسفیان جیسے لیڈر اور عکرمہ بن ابو جہل جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب کا اصل رخ ان مسلمانوں کی طرف ہے جو ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ اور جنہیں جہاد سے سابقہ پیش نہیں آیا تھا۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کفار سے دوستی کی ممانعت جن معنی میں کی گئی ہے اس کی تشریح سورہ مائدہ نوٹ ۱۲۴ میں گزر چکی۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مسجدیں اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہیں پھر جو لوگ شرک اور بت پرستی میں مبتلا ہیں اور خدائے واحد کی عبادت سے جنہیں انکار ہے وہ ان کو آباد کرنے کے کہاں اہل ہیں اور ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ مسجدوں کے خادم اور متولی بنیں۔ کیا وہ خدا اور بت دونوں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ؟ کیسی متضاد باتیں ہیں جن کو لوگ اپنے اندر جمع کرتے ہیں۔
اگر چہ کہ بات عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے تاکہ مساجد کے بارے میں ایک اصولی بات سامنے آئے لیکن یہاں خاص طور سے اشارہ مسجد حرام کی طرف ہے جس پر قریش قابض تھے اور شرک کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کی خدمت اور تولیت پر فخر کرتے تھے۔
مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انفال نوٹ ۴۷۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی مسجد کی خدمت اللہ کے نزدیک کوئی وزن نہیں رکھتی اگر خدمت کرنے والوں کا ذہن شرک سے پاک نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی نیکیاں اکارت جانے والی ہیں۔ اور ان کی ان خدمات کا انہیں کوئی صلہ نہیں ملے گا۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی عبادت گاہوں کی صحیح معنی میں آباد کرنے والے اور اس کے انتظام اور تولیت کے صحیح معنی میں حقدار وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کے اندر یہ اوصاف پائے جاتے ہیں نہ کہ مشرکین۔
اس سے چند اصولی باتیں واضح ہوئیں :۔
ایک یہ کہ مسجدوں پر کافروں کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا تسلط ہونا چاہیے دوسری یہ کہ مسجدوں کی تعمیر، ان کی خدمت ان کے انتظامات اور تولیت کے کاموں کے لیے کافر ہر گز موزوں نہیں ہیں۔
تیسری یہ کہ ان کاموں کے لیے موزوں وہی لوگ ہیں جو توحید پر یقین رکنے والے اور دین کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں۔
اور چوتھی یہ کہ کسی بھی مسجد کا متولی کسی ایسے مسلمان کو نہیں بنانا چاہیے جو نے شرک سے دوستی کر لی ہو یا جو نماز اور زکوٰۃ سے بے پروا ہو یا فاسق و فاجر ہو۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ قریش اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ بیت اللہ کے خادم اور اس کے متولی ہیں۔ مسجد حرام کی حفاظت ، حج کے انتظامات اور حاجیوں کو پاری پلانے کے لیے مستقلاً ایک شعبہ کا قیام جیسی خدمات پر انہیں فخر تھا اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ان خدمات کے بعد وہ خدا کی نظر میں نا پسندیدہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ ان کے اسی خیال کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ یہ کام اسی صورت میں اللہ کے ہاں وزن رکھتے ہیں جب کہ آدمی اللہ سے وفاداری کا تعلق قائم کیے ہوئے ہو۔ شرک خدا سے بے وفائی اور بغاوت ہے اس لیے جو شخص شرک کرتا ہے وہ سب سے بڑا مجرم ہے اور اس کے خلاف قیامت کے دن عدالت خداوندی میں بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ ایسے شخص کو اس کی "مذہبی خدمات" پر انعام دینے کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے۔ ؟
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ظالم سے مراد مشرک ہیں مطلب یہ ہے کہ مشرکین خواہ کیسی ہی "مذہبی خدمات" انجام دیں ان پر کامیابی کی راہ کبھی کھلنے والی نہیں۔ وہ ناکام اور نا مراد رہنے والے لوگ ہیں۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے نزدیک مشرکین کا تو کوئی درجہ اور مرتبہ نہیں ہے البتہ اس کے وفادار بندوں کا جنہوں نے ایمان لا کر اس کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دیں نہ صرف درجہ اور مرتبہ ہے بلکہ نہایت ہی اونچا مقام ہے۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کے باغ سدا بہار ہوں گے اور وہاں کی نعمتیں لازوال ہوں گی۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل ایمان کو جنت میں ابدی زندگی نصیب ہو گی۔ مکاں اور مکیں دونوں جاودانی۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ جب اپنے مخلص بندوں کو ان کی خدمات کا صلہ دینا چاہے گا تو اس کے پاس کس چیز کی کمی ہو سکتی ہے۔ جو وہ تنگی برتے وہ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک ہے اس لیے اس کی بخشش کی کوئی انتہا نہیں ہو سکتی۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ "اپنا دوست نہ بناؤ" کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارا باپ یا تمہارا بھائی اللہ کا باغی ہے اور اپنی اس کافرانہ روش کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہے تو وہ خدا کا دشمن ہے اور جو خدا کا دشمن ہو اس کو مومن اپنا دوست کس طرح بنا سکتا ہے ؟ خاص طور سے جب جہاد کا موقع ہو تو وہ رشتوں کو کس طرح خاطر میں لا سکتا ہے ؟ اس وقت تو ہر اس شخص کے ساتھ جو دشمن کی صف میں شامل ہو اپنا دشمن سمجھ کر ہی معاملہ کرنا ہو گا۔
اس وقت کتنے ہی مسلمانوں کے اعزاء و اقرباء دار الکفر میں تھے اور انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ اسلام اور کفر کی جنگ میں ان کی ساری ہمدردیاں نہ صرف کافروں کے ساتھ ہوتیں بلکہ ان کے ساتھ مل کر مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جن میں ان کے بیٹے بھی ہوتے اور بھائی بھی جنگ کرنے کے لیے نکلتے یہی وہ حالات تھے جن میں مسلمانوں کو واضح طور سے یہ ہدایت دی گئی کہ وہ حق و باطل کی جنگ میں نہ باپ کو خاطر میں لائیں اور نہ بھائی کو۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک مسلمان کہتا تو یہی ہے کہ وہ اللہ ، اس کے رسول اور اس کے دین کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہے لیکن جب آزمائشیں سامنے آتیں ہیں تو اس کا کھرا کھوٹا ہونا ظاہر ہو جاتا ہے۔ کفر و اسلام کی کشمکش میں جن جن چیزوں کو انسان محبوب رکھتا ہے ان کے بارے میں کڑی آزمائشیں ہوتی ہیں۔ ایک طرف ان چیزوں کی محبت اسے اپنی طرف کھینچتی ہے اور دوسری طرف دین کا تقاضا ہوتا ہے کہ بے لاگ طور پر حمایت حق کا اعلان کر دو اگرچہ کہ اس کی زد اپنے کاروبار پر پڑتی ہو یا مثلاً یہ تقاضا ابھرتا ہے کہ کلمہ حق بلند کرنے کے لیے جان جوکھوں میں ڈال دو۔ اسی طرح کفر و اسلام کی جنگ میں اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے آگے بڑھے اور بال بچوں ، گھر بار وغیرہ کی محبت کو رکاوٹ نہ بننے دے۔ ایسے موقع پر جو شخص عمل کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے وہ یہ ثابت کر دکھاتا ہے کہ اللہ اس کے رسول، اور اس کے دین سے زیادہ کوئی چیز بھی اس کو پیاری نہ تھی۔ لیکن جو لوگ اپنے اعزاء و اقرباء اہل و عیال اور اپنے کاروبار وغیرہ کی محبت میں ایسے گرفتار ہو جاتے ہیں کہ انتہائی نازک موقع پر بھی حمایت حق کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں تاکہ ان کی "دنیا" آباد رہے تو ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ پھر انہیں خدا کے فیصلہ کا ہی انتظار کرنا چاہیے یعنی اپنے برے انجام کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اللہ کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں ان پر سعادت کی راہ نہیں کھلتی اس لیے ان کے حصہ میں محرومی ہی آتی ہے۔
۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غزوہ بدر ، غزوہ خندق ، غزوہ خیبر ، اور غزوہ مکہ جیسے کتنے ہی نازک مواقع پر اللہ تمہاری مدد کر چکا ہے۔ اور جب اس کی نصرت ماضی میں تمہارے ساتھ رہی ہے تو اب کیوں نہ ہو گی۔ لہٰذا مشرکین سے جنگ کرنے کا جو حکم تمہیں دیا جا رہا ہے اس میں پس و پیش نہ کرو۔
۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے جو مکہ سے ۲۵ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ یہاں شوال ۰۸ ھ (فروری ۶۳۰ء) میں مشرکین کے ساتھ جنگ ہوئی۔
۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کی مہم ابھی سر کر ہی لی تھی کہ طائف کی جانب قبیلہ ثقیف نے جو مدرک تھے فتح مکہ سے مشتعل ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ آپ کو جب ان کے مذموم ارادوں کی اطلاع ہوئی تو آپ بارہ ہزار لشکر کے ساتھ ان کے مقابلہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ اس مرتبہ مسلمانوں کے لشکر کی تعداد چونکہ بہت زیادہ تھی۔ اور ابھی ابھی مکہ بھی فتح ہو چکا تھا اس لیے مسلمانوں میں خور اعتمادی ضرورت سے کسی قدر غافل کر دیا اور وہ بے جگری کے ساتھ لڑ نہ سکے۔ جنگ میں محل وقوع کو بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ حنین کا علاقہ پہاڑی ہے جہاں دشمن پہلے سے مورچے لگائے بیٹھے تھے اور یہ قبائل تیر اندازی میں بڑے ماہر تھے اس لیے مسلمانوں کا لشکر جب وادی سے گزرنے لگا تو دشمن نے اچانک حملہ کر دیا اور تیروں کی ایسی بوچھار کی کہ مسلمانوں کا لشکر تتر بتر ہو گیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے کچھ جاں نثار ساتھی اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ پھر جب آپ کے اشارہ سے حضرت عباس نے مسلمانوں کو للکارا تو وہ آپ کے گرد جمع ہو گئے اور پھر بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ فتح نے ان کے قدم چوم لیے۔ آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد فرشتوں کا لشکر ہے جو اس نازک موقع پر مسلمانوں کی نصرت کے لیے نازل ہوا۔ فرشتوں کی اس کمک نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی کیوں کہ وہ آسمان سے سامان سکینت یعنی دل کا قرار ، اطمینان اور سکون لے کر نازل ہوئے تھے۔ اس چیز نے ان کے اندر ایسی روح پھونک دی کہ وہ زخمی شیر کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے اور اس حملہ کی تاب نہ لا کر دشمن نے ہتھیار ڈال دیئے۔ ہزارہا لوگ قید کیے گیے اور زبردست مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ وہ غیبی مدد تھی جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے۔ کفر و اسلام کی جنگ میں اہل ایمان کی مدد کے لیے فرشتوں کی جو کمک بھیجی جاتی ہے اس کی تشریح سورہ انفال نوٹ ۱۵ اور ۱۹ میں گزر چکی۔
۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حنین میں کافروں کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سزا انہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھوں دلوا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا جو انہیں دنیا ہی میں ملا اور ح کا بول بالا ہوا۔
۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنگ میں جہاں خونریزی اور شکست و ریخت کا سامان ہوتا ہے وہاں کتنے ہی بندگان خدا پر ہدایت کے دروازے کھلتے ہیں۔ وہ اللہ سے توفیق پاکر کفر سے توبہ کر لیتے ہیں اور رحمت الٰہی کی آغوش میں پناہ لے لیتے ہیں۔ جہاد کا یہ مثبت پلو ہے۔ اور انسانیت کے حق میں یہ اتنا بڑا فائدہ ہے کہ اس کا منفی پہلو یعنی جنگ کے نقصانات اس کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتے۔ چنانچہ جنگ حنین میں مشرکین کے شکست کھانے کے بعد ان کی بہت بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہوئی۔ کیوں کہ ان کو یہ یقین ہو گیا کہ رسول کے ساتھ غیبی نصرت ہے اس لیے ہر جگہ اور ہر میدان میں اس کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ پھر جو ہستی اپنے رسول کی مدد کے لیے یہ کرشمے دکھا رہی ہے اس پر وہ ایمان کیوں نہ لائیں اور اس کے دین کو کیوں نہ قبول کر لیں ؟
۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ نجاست سے مراد شرک کی نجاست ہے۔ جس سے مرکز توحید کو پاک رکھنا ضروری ہے۔ مشرکین اور کفار کے معاملہ میں اسلام نے چھوت چھات کا کوئی تصور نہیں دیا بلکہ ان کے شرک اور ان کے کفر کے اثرات سے اپنے کو بچانے کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ اسلام کے نزدیک قلب و ذہن اور اعتقاد کی نجاست تمام نجاستوں سے بڑھ کر ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سال سے مراد ۰۹ ھ ( ۶۳۱ ء ) ہے جب کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اس سال حضرت ابوبکر کی قیادت میں حج ہوا تھا اور اس موقع پر اس حکم کی تعمیل میں اعلان کر دیا گیا تھا کہ آئندہ کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا۔
۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مشرکین حدود حرم میں داخل نہ ہونے پائیں۔ اس حکم کے مطابق نہ صرف مسجد حرام میں بلکہ پورے حرم میں مشرکین کا داخلہ قیامت تک کے لیے ممنوع قرار پایا۔ بالفاظ دیگر حرم کی سر زمین غیر مسلموں کے لیے ممنوع قرار علاقہ (Prohibited Area) ہے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین کا داخلہ حرم میں ممنوع قرار دینے کے نتیجہ میں کاروبار اور تجارت کے متاثر ہونے کا اندیشہ تھا کیوں کہ اس وقت مکہ کی منڈی میں باہر سے غذائی اجناس لانے لے جانے والے زیادہ تر مشرک ہی تھے لیکن اس اندیشہ کو اللہ تعالیٰ نے خاطر میں نہ لانے کی ہدایت فرمائی اور یہ امید دلائی کہ اللہ تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا چنانچہ عملاً مسلمانوں کو یہی صورت پیش آئی یعنی مشرکین کے حدود حرم میں داخلہ کو ممنوع قرار دینے سے مسلمانوں کی اقتصادی اور معاشی حالت پر کوئی برا اثر نہیں پڑا بلکہ وہ روز بروز اس میں ترقی کرتے چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ اصل چیز اللہ کے حکم کی اس پر توکل کرتے ہوئے اطاعت کرنا ہے پھر مسائل بھی حل ہونے لگتے ہیں۔ اور اس کی طرف سے برکتوں کا ظہور بھی ہونے لگتا ہے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد سے متعلق یہ اہم ترین آیت ہے جو ۰۹ ھ میں غزوہ تبوک سے پہلے نازل ہوئی۔ اس سے پہلے اہل کتاب میں سے صرف یہود سے جنگ کی نوبت آئی تھی جن کی بستیاں مدینہ کے اطراف یا اس سے قریبی علاقہ میں تھیں اور اس جنگ کی وجہ ان کی وہ سازشی کاروائیاں تھیں جو مسلمانوں کے خلاف اور مشرکین کی حمایت میں وہ کر رہے تھے۔ اب اس آیت میں عام اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے ساتھ معاملہ کرنے کے سلسلہ میں اصولی ہدایت دی گئی ہے جس کی نوعیت اسلامی ریاست کی مستقل پالیسی کی ہے۔
"اہل کتاب میں سے " کا مطلب یہ ہے کہ جو اہل کتاب اسلام قبول کر لیں ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا بلکہ صرف ان لوگوں سے جنگ یا جزیہ کا مطالبہ کیا جائے گا جو اسلام قبول نہ کریں۔ اہل کتاب کے اللہ اور روز آخر پر ایمان نہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اگر چہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کا دعویٰ ایمان کی حقیقت لحاظ سے بالکل بے معنی ہے کیوں کہ وہ اللہ کو اس طرح نہیں مانتے جس طرح ماننا چاہیے۔ وہ اللہ کا اقرار کرتے ہیں مگر اس کے بیٹا ہونے کے بھی قائل ہیں۔ اس کو تنہا معبود مان کر خالصۃً اس کی پرستش اور بندگی کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ اس کو عیوب و نقائص سے پاک نہیں مانتے اور اس کی توحید میں انہوں نے شرک کی آمیزش کر رکھی ہے۔ اسی طرح وہ آخرت کے قائل ضرور ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کی سفارش سے یا فلاں نبی پر "کفارہ" کا عقیدہ رکھنے سے ان کی نجات ہو جائے گی۔ ظاہر ہے ان کے اس عقیدہ نے آخرت کے عقیدہ کو عملاً بالکل معطل کر رکھا ہے۔ اور آخرت کی باز پرس کا خیال ذہنوں سے یکسر مٹ گیا ہے اس لیے حقیقت یہی ہے کہ اہل کتاب آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔
اللہ نے جن چیزوں کو اپنی کتاب میں حرام ٹھیرایا ہے مثلاً سود خواہ وہ اپنوں سے لیا جائے یا غیروں سے ، شراب خنزیر وغیرہ۔ اسی طرح اللہ کا آخری رسول اس کی ہدایت کے تحت حرمت کے سلسلہ میں جو تفصیلی احکام دے رہا ہے انکو ماننے کے لیے وہ تیار نہیں بالفاظ دیگر انہیں اللہ کی آخری شریعت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔
"اور نہ دین کو اپنا دین بناتے ہیں " کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو دین حق ہے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ جو اللہ کا دین نہیں ہے چمٹ کر رہنا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب نے مذہب کا روپ ضرور اختیار کر لیا ہے لیکن ان کو نہ سچی خدا پرستی سے واسطہ ہے اور نہ اس کی اطاعت سے ، اور نہ ہی سچی دین داری سے۔ ایسی صورت میں وہ دنیا میں خیر و صلاح کا کام کرنے سے تو رہے البتہ کفر کو فروغ دینے اور شر و فساد پھیلانے میں ضرور سرگرم رہیں گے لہٰذا اس اعلیٰ مقصد کی خاطر جو اسلام کے پیش نظر ہے کہ کفر اور شر کی طاقتیں دب جائیں اور خدا پرستی اور خیر کی طاقتیں ابھریں ان سے جنگ نا گزیر ہے الا یہ کہ وہ جزیہ دے کر اسلامی ریاست کے ماتحت رہنا قبول کر لیں کیوں کہ اس صورت میں ان کا شر بھی دب سکتا ہے اور بدلے ہوئے ماحول میں انہیں اسلام کی حقانیت پر غور کرنے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔
"جزیہ" وہ ٹیکس ہے جو غیر مسلم ریاست کو اس کی وفاداری کی علامت کے طور پر اور اس کی طرف سے ملنے والے امان کے معاوضہ میں ادا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت کو اختیار ہے کہ حالات اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس کی مقدار متعین کرے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی مقدار فی کس سالانہ ایک دینار۱۰ درہم تقریباً ۳۰ گرام چاندی) مقرر کی تھی بعد میں حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں جب کہ ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہو گئی تھی جزیہ کی مقدار بڑھا کر چار دینار ۴۰ درہم = تقریباً ۱۲۰ گرام چاندی ) کر دی۔ (کتاب الاموال ابوعبید ، ص ۳۹۔ ۴۱)۔
آیت میں اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے جزیہ لے کر انہیں امان دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لیکن یہ سہولت مشرکین کو دینے کا حکم صراحت کے ساتھ نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ رعایت مشرکین عرب کے لیے تھی جن سے اصلاً نزول قرآن کے دور کے مسلمانوں کو واسطہ تھا۔
مشرکین عرب سے جن کی طرف براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تھی اسلام ہی قبول کیا جا سکتا تھا لیکن بعد میں جب عجم کے مشرکین سے واسطہ پیش آیا تو جزیہ کے اس حکم کا انطباق مشرکین عجم پر بھی کیا گیا چنانچہ نبی صلی اللہ ولیہ و سلم نے ہجر (بحرین) کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا (ابو داؤد کتاب الخراج) اور فرمایا تھا : سُنّوُ ابِھِمْ سُنَّۃَ اَھْلِ الْکِتَاب ، یعنی اہل کتاب کے لیے (جزیہ کا ) جو قاعدہ مقرر کیا گیا ہے وہی قاعدہ ان پر بھی لاگو کرو۔ (کتاب الاموال۔ ابوعبید، ص ۳۲)۔
(ابو عبید المتوفی ۲۲۴ ھ ) کتاب الاموال میں جو اسلام کے مالیاتی نظام پر نہایت مشہور اور مستند کتاب ہے لکھتے ہیں :
"رہے عجمی (غیر عرب) تو ان سے جزیہ لیا جا سکتا ہے اگر چہ وہ اہل کتاب نہ ہوں اس قاعدہ کی بنا پر جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجوسیوں کے معاملہ میں اختیار فرمایا تھا حالانکہ وہ اہل کتاب نہیں ہیں " ۔ (ص ۳۰)۔
آیت میں اہل کتاب سے جنگ کرنے کے جو وجوہ بیان کیے گیے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں مدافعانہ جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے ، یہ حکم تو اس سے بہت پہلے دیا جا چکا تھا بلکہ ایک مقصدی اصلاحی اور انقلابی جنگ کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس کی حیثیت اسلامی ریاست کی اصولی پالیسی کی ہے اور اس سلسلہ میں وہ کوئی اقدام حالات اور وسائل کو سامنے رکھ کر ہی کرے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے رومن امپائر سے جب خطرہ محسوس کیا تو تیس ہزار لشکر کے ساتھ تبوک پہنچ گئے جو اس کی سرحد پر واقع تھا لیکن جب رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے بلکہ انہوں نے اپنی فوجیں سرحد سے ہٹا لیں تو آپ نے اس وقت ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی مناسب سمجھا بعد میں خلافت راشدہ کے زمانے میں جب حالات سازگار ہوئے تو مسلمانوں نے ان ممالک کو فتح کر لیا۔
واقعہ یہ ہے کہ جہاد کو مدافعانہ جنگ (Defensive War) کے دائرے میں محدود سمجھنا صحیح نہیں اور نہ اس کی تقسیم موجود اصطلاح میں جارحانہ جنگ (Aggressive War) سے تعبیر کرنا ہی صحیح ہے کیونکہ وہ ملک گیری، قومی تعصبات، مادی اغراض یا فاسد نظریات کے لیے لڑی جانے والی جنگ نہیں ہے بلکہ وہ بندگان خدا کو جھوٹے خداؤں کی خدائی سے آزاد کرنے ظلم جور کو مٹانے اور انہیں پاکیزہ ماحول عطا کرنے کے لیے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ یہ جنگ در حقیقت انسانیت کو اس کے فاسد عضو کا آپریشن کر کے صحت مند زندگی عطا کرنے کے ہم معنی ہے اس لیے اس کو ان پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا جو مدافعت اور جارحیت کے نام سے لوگوں نے قائم کر رکھے ہیں اور جو دین عالم گیر صداقت (Universal Truth) کا حامل ہو وہ ان ظروف میں بند ہو کر کیسے رہ سکتا ہے ؟
موجودہ زمانہ میں مرعوب ذہنیت کے مسلمان جہاد کے احکام کے سلسلہ میں بڑا معذرت خواہانہ انداز اختیار کرتے ہیں مگر اللہ کا کلام اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی معذرت خواہانہ توجیہ کی جائے۔ اور جہاں تک یہود و نصاریٰ کا تعلق ہے وہ اسلام کے اس اقدامی نوعیت کے جہاد پر اگر معترض ہوتے ہیں تو وہ تورات کو اٹھا کر دیکھیں اس میں بھی اقدامی نوعیت کے جہاد کے احکام موجود ہیں چنانچہ بنی اسرائیل کو ارض مقدس (فلسطین) فتح کر لینے کا جو حکم دیا گیا تھا تو اس کی وجہ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو ان کے لیے لکھ دیا تھا اور اس لیے لکھ دیا تھا تاکہ وہ دعوت اسلامی کا مرکز قرار پائے۔ پھر کیا اس کو بھی مدافعانہ جنگ کہا جائے گا ؟ تورات میں فلسطین کے بت پرستوں کے سلسلہ میں تو نہایت سخت احکام دیئے گئے تھے یعنی یہ کہ اس کو فتح کر لینے کے بعد کسی مشرک کو وہاں رہنے نہ دیا جائے :
"جب تم یردُن کو عبور کر کے ملک کنعان میں داخل ہو تو تم اس ملک کے سب باشندوں کو وہاں سے نکال دینا اور ان کے شبیہ اور پتھروں کو اور ان ڈھالے ہوئے بتوں کو توڑ ڈالنا اور ان کے سب اونچے مقاموں کو مسمار کر دینا اور تم اس ملک پر قبضہ کر کے اس میں بسنا کیوں کہ میں نے وہ ملک تم کو دیا ہے کہ اس کے مالک بنو"۔ (گنتی ۳۳ : ۵۱ تا ۵۳)۔
اور اگر بنی اسرائیل فلسطین کے علاوہ کسی اور ملک سے جنگ کرنے کے لیے نکلتے ہیں لیکن جنگ کی نوبت نہیں آتی اور صلح ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں اس کے باشندوں سے خراج وصول کرنے کا حکم تورات میں دیا گیا ہے :
"جب تو کسی شہر سے جنگ کر نے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باجگزار بن کر تیری خدمت کریں اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا سے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا" ۔ (استثنا ۲۰ :۱۰ تا ۱۳)۔
۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ عُزیر کا نام بائبل میں عزرا (Ezra) آیا ہے جن کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ بخت نصر کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر جو تباہی آئی اور جس دینی ، اخلاقی و عملی زوال کا وہ شکار ہوئے اس سے ان کو نجات دلانے تورات سے ان کا تعلق مضبوط کر کے ان کی اصلاح کرنے اور ان کے اندر دین کی روح پھونکنے کا کام جس شخصیت نے انجام دیا وہ حضرت عزیر ہیں۔ بنی اسرائیل کے اخلاقی بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے اس دور انحطاط میں مشرک قوموں سے مخلوط شادیاں کر لی تھیں جن کا اثر اخلاقی بگاڑ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ شرک نے بھی ان کے اندر نفوذ کر لیا۔ بائبل میں ہے :۔
"جب عزرا خدا کے گھر کے آگے رو رو کر اور اوندھے منہ گر کر دعا اور اقرار کر رہا تھا تو اسرائیل میں سے مردوں اور عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی جماعت اس کے پاس فراہم ہو گئی اور لوگ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔۔۔۔ تب عزرا کاہن کھڑا ہو کر ان سے کہنے لگا کہ تم نے خطا کی ہے اور اسرائیل کا گناہ بڑھانے کو اجنبی عورتیں بیاہ لی ہیں۔ پس خداوند اپنے باپ دادا کے خدا کے آگے اقرار کرو اور اس کی مرضی پر عمل کرو اور اس سر زمین کے لوگوں اور اجنبی عورتوں سے الگ ہو جاؤ۔ تب ساری جماعت نے جواب دیا اور بلند آواز سے کہا کہ جیسا تو نے کہا ویسا ہی ہم کو کرنا لازم ہے۔ " (عزرا ۱۰ : ۱ اور ۱۰ تا ۱۲ )۔
ان کی ان اصلاحی کوششوں کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کو نئی زندگی ملی، بیت المقدس کی دوبارہ تعمیر ہوئی اور تورات کی شریعت زیر عمل آئی۔ اس طرح بنی اسرائیل کی نشاۃ ثانیہ کا کام حضرت عزیر کے ہاتھوں انجام پایا چنانچہ اسٹنڈرڈ جیوش انسائیکلو پیڈیا کا مؤلف لکھتا ہے :
"Ezra (5th cent. B. C.E.) Refounder or Palestinian Jewry and reformer of Jewish Life."
(Standard Jewish Encyclopedia p. 66)
یعنی عزرا فلسطینی یہودی قوم کے نئے بانی اور مصلح ہیں۔ اور انسائکلو پیڈیا برٹانیکا کا مقالہ نگار لکھتا ہے :
"So important was he in the eyes of his People that later tradition regarded him as no less than a second Moses."
(Ency. Britannica Vol. 7 P. 127)
یعنی وہ ان کی قوم کی نظروں میں اس قدر اہم شخصیت بن گئے کہ بعد والوں نے انہیں موسیٰ ثانی کا مقام دیا۔
ان کی یہی عظمت ہے جس میں غلو کر کے یہود کے ایک گروہ نے عیسائیوں کی دیکھا دیکھی ان کو اللہ کا بیٹا ٹھیرایا۔ تعال اللہُ عمّا یُشرِکون۔
واضح رہے کہ عزیر کے خدا کا بیٹا ہونے ا عقیدہ یہود کا عام عقیدہ نہیں ہے بلکہ ان کے اس فرقہ کا عقیدہ ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھا۔
۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مسیح کے خدا کا بیٹا ہونے کا عقیدہ وہ سب سے بڑی بدعت ہے۔ جو نصاریٰ نے اللہ کے دین میں داخل کی اور اس کو ان میں مقبول بنانے اور رائج کرنے میں پال:(Paul) کا بڑا ہاتھ ہے چنانچہ اس کے خطوط جو بائبل کے مجموعہ میں شامل ہیں۔ اس کی جسارت پر شاہد ہیں مثال کے طور پر رومیوں کے نام پال نے جو خط لکھا تھا اس میں وہ لکھتا ہے :
"اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا جو جسم کے اعتبار سے تو داؤد کی نسل سے پیدا ہوا لیکن پاکیزگی کی روح کے اعتبار سے مُردوں میں سے جی اٹھنے کے سبب سے قدرت کے ساتھ خدا کا بیٹا ٹھیرا۔ " ۱:۳، ۴)۔
خدا کا بیٹا ہونے کے باطل عقیدہ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اخلاص نوٹ۔ ۵۔
۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کی اولاد ہونے ، کا تصور اصل میں مشرک قوموں میں رہا ہے۔ نصاریٰ میں بدعت پال نے رائج کی۔ اس نے روم اور یونان کے مشرکانہ فلسفہ سے متاثر ہو کر اور مسیحیت کو ان قوموں میں مقبول بنانے کی خاطر دین مسیحی کو اس میں ڈھال دیا ورنہ موجودہ انجیلوں میں نہ تثلیث کا عقیدہ پایا جاتا ہے اور نہ ان معنی میں حضرت مسیح کے بیٹا ہونے کا عقیدہ پایا جاتا ہے جن معنی میں کہ مسیحیوں نے اختیار کر رکھا ہے یعنی موجودہ انجیلوں میں جو تحریف شدہ ہیں اگر مسیح کو خدا کا بیٹا کہا گیا ہے تو محض مجازی معنی میں نہ کہ حقیقی معنی میں لیکن انجیل کے مؤلفین کی اس غلطی کو پال نے گمراہی کا روپ دے دیا۔
۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل کتاب میں جو گمراہیاں پیدا ہوئیں ان کی بنیادی وجہ ان کا اپنے علماء اور مشائخ کی اندھی تقلید میں مبتلا ہونا تھا۔ ان کے اقوال نے کتاب الٰہی کی جگہ لے لی اور رد و قول کا معیار ان کے اقوال اور فتوے قرار پائے۔ انہوں نے جو مشرکانہ عقائد اور مدعات دین میں داخل کیں ان پر لوگ جم گئے اور یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ صحیح عقائد کیا ہیں اور باطل کیا توحید کیا ہے اور شرک کیا ، عبادت کیا ہے اور بدعت کیا اور حلال کیا ہے اور حرام کیا۔ یہ حال یہود کا بھی ہوا اور نصاریٰ کا بھی لیکن نصاریٰ نے ایک قدم آگے بڑھ کر حضرت مسیح کے بارے میں ایسے عقائد اور خرافات (Mythology) گڑھ لیں کہ پورا دین ان باطل تصورات کے محور پر گردش کرنے لگا۔ یہاں ان کے اسی طرز عمل کو "رب بنا لینے" سے تعبیر کیا گیا ہے چنانچہ حدیث میں اس آیت کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس طرح منقول ہے :
"عدی بن حاتم کہتے ہیں ، میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھا۔ آپ نے فرمایا : عدی اس بت کو پھینک دو،۔ عدی کہتے ہیں میں نے آپ کو سورہ برأۃ کی آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ ’انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ ان کے لیے حلال ٹھیراتے اس کو وہ حلال اور جس چیز کو حرام ٹھیراتے اس کو وہ حرام قرّار دیتے"۔ (الترمذی ابواب تفسیر القرآن)۔
یہ حدیث اگرچہ اسناد کے لحاظ سے قوی نہیں ہے کیونکہ ترمذی نے اس کو روایت کر کے خود لکھا ہے۔ "وھذا حدیثً غریبٌ لاتعرنہ اِلامن حدیث السلام بن حرب۔ وَعُطَیفُ بن اَعْینَ لیس بمعروفٍی الحدیث" ۔"یہ غریب حدیث ہے ہم اسے عبدالسلام بن حرب ہی کے واسطہ سے جانتے ہیں۔ اس کے راوی غُطیف بن اَغْیَن حدیث کے معاملے میں معروف نہیں ہیں۔ "
لیکن نہاں تک حدیث کے مضمون کا تعلق ہے وہ اس آیت کی بہترین تفسیر ہے اور ابن عباس کا تعلق ہے وہ اس آیت کی بہترین تفسیر ہے اور ابن عباس ، ضحاک حذیفہ اور ابو العالیہ سے جو تفسیری اقوال منقول ہیں وہ بھی اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں (ملاحظہ ہو تفسیر طبری، ج ۱۰ ص ۸۰)۔
اس آیت پر غور کرنے سے درج ذیل اصولی باتیں واضح ہوتی ہیں:
!۔ دین کے معاملہ میں اصل چیز اللہ کی اطاعت ہے۔ اس کو چھوڑ کر کسی اور کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالنا اس کو رب بنا لینے اور اس کی بندگی کرنے کے ہم معنی ہے۔
۲۔ علماء ہوں یا فقہاء ، امام ہو یا مفتی، پیر ہو یا ولی کسی کا یہ مقام نہیں کہ اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت کی جگہ لے لے۔
۳۔ اللہ کے حکم کو ثابت کرنے والی چیز دلیل شرعی ہے نہ کہ علماء و فقہاء اور بزرگوں کے اقوال اور اسالم کی راہ دلیل و حجت کی راہ ہے نہ کہ تقلید و جمود کی۔
جو لوگ اللہ کی شریعت کے بالمقابل انسانی زندگی کے لیے قانون سازی کا حق اپنے ہی جیسے انسانوں کو دیتے ہیں اور احکام شریعت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے وہ ان کو خدائی کے مقام پر بٹھاتے ہیں۔
۶۲ ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح کو رب (Lord) بنانے والے اصل میں عیسائی راہب اور علماء ہیں خاص طور سے پال(Paul) جس نے حضرت مسیح کے دین کو جو حقیقت میں اسلام تھا مسیحیت میں بدل ڈالا اسے حضرت مسیح کو خداوند کہنے میں کوئی باک نہیں ہے۔
"پس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خدا نے اسی یسوع کو جسے تم نے مصلوب کیا خداوند بھی کیا اور مسیح بھی" (اعمال ۲:۳۶)۔
"پولُس(پال) کی طرف سے جو یسوع مسیح کا بندہ ہے۔ " (رومیوں کے نام ۱:۱)۔
"جس نے ہمارے خداوند یسوع کو مُردوں میں سے جلایا" ۔ (رومیوں کے نام۴:۲۵)۔
۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حکم آج بھی تورات و انجیل میں موجود ہے :
"میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کے آگے سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا" ۔ (خروج ۲۰:۳، ۵)۔
"خداوند تیرا خدا آج تجھ کو ان آئین اور احکام کے ماننے کا حکم دیتا ہے۔ سو تو اپنے سارے دل اور سارے جان سے ان کو مانتا اور ان پر عمل کرنا" ۔ (استثنا ۲۶ :۱۶)
"یسوع نے اس سے کہا اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر" ۔ (متی ۴:۱۰)۔
۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی روشنی (نور) سے مراد اسلام ہے اور اس کو پورا کرنے سے مراد اسلام کی تکمیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کافروں کو اسلام کی ترقی بالکل نہیں بھاتی وہ دنیا کے افق پر اسلام کے آفتاب کو ابھرتا ہوا دیکھ کر سخت ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو گئے ہیں اور انہیں کچھ سمجھائی نہیں دے رہا ہے کہ وہ اس روشنی کو پیلتے سے کس طرف روکیں اس کی کوئی تدبیر جب اس کی سمجھ میں نہیں آتی تو وہ اس روشنی کو پھونکوں سے بجھانے کی طفلانہ حرکت کر گزرتے ہیں مگر اسلام کا آفتاب عالم تاب ان کے پھونکوں سے بجھنے سے رہا اس کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیل کر رہے گی۔
یہ کافر نہ آفتاب ہدایت کو ابھرنے سے روک سکتے ہیں اور نہ اسلام کے ہلال کو ماہ کامل بننے سے کیوں کہ دین اسلام کی تکمیل اللہ کا اٹل فیصلہ ہے اور اللہ کا فیصلہ نافذ ہو کر رہتا ہے خواہ کوئی پسند کرے یا ناپسند۔
۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت میں ہدایت سے مراد وہ رہنمائی ہے جو دین حق کی راہ روشن کرتی ہے یعنی وہ نشانیاں اور دلائل جو اسلام کے دین حق ہونا ثابت کرتے ہیں اور دین حق سے مراد اسلام کا مکمل نظام بندگی اور کامل شریعت ہے جس کا دائرہ عقائد سے لے کر سیاست تک وسیع ہے۔
لِیُطْھِرَہٗ عَلی الدّیْنِ کُلِّہٖ۔ میں اطہار کی معنی غلبہ کے ہیں۔
نلانٌ ظاہ، علیٰ فلانٍ دی غالبٌ علیہ " فلاں شخص فلاں شخص پر ظاہر ہے یعنی غالب ہے۔ " (ج ۴ ص ۵۲۶) ۔
قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوا ہے۔
یاقوم لَکُمُ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ظاحٗ، رِیْنَ فی الْارضِ۔ (المؤمن ۲۹) "اے میری قوم کے لوگو! آج تمہیں اقتدار حاصل ہے اور ملک میں تم غالب ہو"۔
آیت زیر تفسیر میں اظہار سے مراد اقتدار کا غلبہ اور حاکمانہ تسلط ہے کہ حجت کا غلبہ کیوں کہ یہ غلبہ تو رسول کو اول روز سے حاصل تھا چنانچہ امام رازی لکھتے ہیں :
و ظھور ھذاالدین بالحجۃ مقرر معلوم فالواجب حملہ علی اظھور بالغلبۃ۔ (التفسیر الکبیر ، ج ص ۴۰)۔ " اس دین کا حجت کے ذریعہ ظہور ایک معلوم حقیقت ہے اس لیے ضروری ہے کہ اسے غلبہ کے ذریعے ظہور پر محمول کیا جائے"۔
لِیُظْھِرَہٗ "تاکہ اسے غالب کر دے " لا فاعل اللہ ہے نہ کہ رسول اور اس پر سلیل اوپر والی آیت ہے جس میں"یُتِمَّ نُورَہٗ" اللہ اپنی روشنی کو پورا کر دے گا" فرمایا گیا ہے۔ اس لیے جس طرح تمام نور کا فاعل اللہ ہے اسی طرح اظہار دین کا فاعل اللہ ہی ہے۔
یہ دونوں آیتیں آخری رسول کے تعلق سے خدائی منصوبہ کو ظاہر کرتی ہیں پہلی آیت میں اتمام نور یعنی تکمیل دین کی خبر دی گئی ہے اور دوسری آیت میں اظہار دین یعنی رسول ہاتھوں تمام مذاہب پر اسلام کے غلبہ کی تکمیل دین کے پس منظر میں اہل کتاب ہیں اس لیے پہلی آیت میں وَلوکَرِہَالْکَفِرُونَ "اگر چہ کافروں کو ناگوار ہو"۔ فرمایا اور غلبہ دین کے پس منظر میں اہل کتاب کے علاوہ مشرکین بھی تھے اس لیے اس آیت میں وَلَوْکَرِہَ المشرِکونَ "اگر چہ مشرکوں کو نا گوار ہو"۔ فرمایا یہ در حقیقت اس بات کا اعلان تھا کہ آخری رسول کے بارے میں خدا یہ فیصلہ فرما چکا ہے کہ اس کے ہاتھوں اسلام کو عرب کے تمام مذاہب پر غالب کر دیا جائے گا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہی اس فیصلہ الٰہی کو ظہور ہوا اور یہ منصوبہ پورا ہو کر رہا، اس طور سے کہ پورے عرب میں بت پرستی اور مشرکانہ مذہب کا وجود باقی نہ رہا اور یہودیت کا جلا وطن ہونا پڑا۔ رہی نصرانیت تو وہ عرب کے صرف سرحدی علاقوں میں باقی رہی اور وہ بھی مغلوب ہو کر اور اسلامی ریاست کی باجگزار بن کر۔
اس سے واضح ہوا کہ یہ آیت خدا کے منصوبہ کو بیان کرتی ہے جو اس نے خاص طور سے اپنے رسول کے سلسلہ میں بنایا تھا اور جمہور مفسرین نے اس کو اسی مفہوم میں لیا ہے لیکن بعض معاصر مفسرین نے دین کے سیاسی غلبہ کو رسول کا مشن قرار دے کر نظام اسلامی کے غلبہ کی جد و جہد کے لیے اس آیت کو دلیل بنایا ہے سراسر تکلیف ہے کیونکہ اس میں رسول کا مشن نہیں بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ فیصلہ خداوندی کا اعلان کیا گیا ہے۔
رہا یہ سوال پھر رسول کا مشن کیا تھا اور دین کا سیاسی غلبہ مطلوب ہے یا نہیں ؟ تو جہاں تک رسول کے مشن کا سوال ہے وہ کسی ایک آیت میں نہیں بلکہ سیکڑوں آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ اس کے لیے مکی سورتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے کیوں کہ ہر رسول اپنا مشن آغاز ہی میں بیان کرتا ہے۔ رہا دین کا سیاسی غلبہ تو وہ یقیناً مطلوب ہے اور جہاد اسی مقصد کے لیے مشروع ہوا ہے جس کی وضاحت اس سورہ کی تفسیر میں ہم کر چکے ہیں اور سورہ انفال کی تفسیر میں بھی لیکن اس کا تعلق دعوتی جدوجہد کے خاص مرحلہ سے ہی اس لیے اس کو پیغمبر کا مشن قرار دینا صحیح نہیں۔
۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل کتاب کے علماء و مشائخ کا حال یہ تھا کہ وہ بڑی ہوشیاری سے دینداری کے آڑ میں دوکانداری کرنے لگے تھے۔ ان کے اس حال کا ذکر قرآن نے اہل ایمان کو خطاب کر کے کیا ہے تاکہ اہل ایمان اس سے سبق لیں۔ افسوس کہ اس تنبیہ کے باوجود مسلمانوں میں کتنے علماء مولوی ’ملا‘ امام اور پیر ایسے ہیں جنہوں نے دنیا کو پیشہ بنا لیا ہے۔ وہ الٹی سیدھی تاویل کر کے دین کے نام سے گمراہ کن باتیں لوگوں کو بتاتے ہیں۔ انہوں نے پیری مریدی کے چکر میں لوگوں کو پھانس رکھا ہے تاکہ ان سے نذرانہ وصول کرتے رہیں۔ انہوں نے بزرگوں کی نام کی نذر و نیاز کا ڈھونگ رچا رکھا ہے تاکہ ان کے حلوے مانڈے کا سامان ہوتا رہے۔ انہوں نے تعویذ گنڈے ایجاد کر رکھے ہیں تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ وہ بدعات اور جاہلی رسموں کو فروغ دیتے رہتے ہیں تاکہ ہر مجلس میں ان کی ضرورت محسوس ہوتی رہے اور ان کا کام بنتا رہے۔ ان کو شرک کی سرپرستی قبول کرنے سے بھی عار نہیں ہے درگاہوں کی مجاوری کا اصل محرک "چراغی" اور "چڑھاوے" ہیں جن سے ان کی جیبیں گرم ہوتی رہتی ہیں۔ ان تمام بدعات و رسوم کی تمہیں جو چیز نظر آئے گی وہ "معاش" ہے نہ کہ معاد۔ نتیجہ یہ کہ اکل حرام کی وجہ سے ان کی ساری دینداری ڈھکوسلا بن کر رہ گئی ہے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان عالموں اور راہبوں کا حال عجیب ہے۔ ان کو سچی خدا پرستی کی زندگی پسند نہیں ہے اس لیے وہ دین حق کے مخالف ہو گئے ہیں اور لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکتے ہیں۔
معلوم ہو کہ حرام مال کھانے سے آدمی کی نفسیات ایسی ہو جاتی ہے کہ اس میں حق پسندی باقی نہیں رہتی۔ اور وہ حق کی مخالفت کرنے لگتا ہے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ "یکنزون" استعمال ہوا ہے جو "کنز" سے ہے اور کنز کے معنی عربی لغت میں محض جمع کرنے کے نہیں بلکہ خزانہ بنا کر رکھنے کے ہیں :
تسمی العرب کل کثیر مجموع بنافس فیہ کنزاً (لسان العرب ، ج ۵ ص۴۰۱) "عرب ہر اس مال کو جو کثیر مقدار میں جمع کیا گیا ہو اور جس سے باہمی منافست پیدا ہوتی ہو کنز کہتے ہیں "
والذین یکنزون الذھب والفضۃ ای ید خرو نحا (المفردات ، ص ۴۵۸) "جو لوگ سونا اور چاندی کنز کر کے رکھتے ہیں یعنی ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں"۔
اور قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے۔ لَو لا اُنزِلَ عَلیہِ کَنْزٌ (ہود۔ ۱۲) "اس پر کوئی کنز کیوں نہیں اتارا گیا۔ "
اس لیے آیت زیر تفسیر میں عذاب کی جو وعید سنائی گئی ہے وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو فاضل دولت وافر مقدار میں جمع کر کے رکھتے ہیں اور جن مقاصد پر خرچ کرنا ضروری ہے ان پر خرچ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ دولت اس لیے عطا نہیں کرتا کہ آدمی اس پر سانپ بن کر بیٹھ جائے اور اسے فخر و غرور اور نمائش کا ذریعہ بنا لے بلکہ اس لیے عطا کرتا ہے کہ اس کو صحیح مصرف میں لائے۔ وہ دولت کا مالک نہیں بلکہ امین ہے اس لیے اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتے ہے کہ وہ اس کے مالک کے بتائے ہوئے طریقہ پر اس کو استعمال کرے اور اس کی راہ میں خرچ کرے۔ جو شخص دولت کو اس طرح خرچ نہیں کرتا اور اسے سینت کر رکھتا وہ بہت بڑی حق تلفی کرتا ہے۔ جس کی سزا خدا کے ہاں نہایت سخت ہے۔
اس سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ اسلام میں زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد دولت کے اکتناز (ذخیرہ اندوزی) پر کوئی پابندی نہیں ہے اس نظریہ کے تحت آیت زیر تفسیر کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ وعید ان لوگوں کو سنائی گئی ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے حالانکہ آیت زیر تفسیر میں یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے بلکہ فرمایا گیا ہے کہ وہ سونے چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ یعنی یہاں بات انفاق کی کہی گئی ہے جس کا تعلق ضرورت اور حالات سے ہے جب کہ زکوٰۃ مال کا ایک متعین حصہ ہے جو ہر حال میں ادا کرنا ضروری ہے اور اسلام کا عام اصول یہی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد مال پاک ہو جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کے واجبات کی فہرست ختم ہو گئی بلکہ ضرورت اور حالات کی نسبت سے مال میں حقوق عائد ہوتے ہیں اور صاحب مال کے لیے ضروری ہے کہ وہ انفاق کرے۔ مثال کے طور پر اگر قحط یا کسی حادثہ کی وجہ سے لوگ بھوکوں مر رہے ہوں تو کوئی شخص یہ کہہ کر ان کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتا کہ میں پہلے ہی زکوٰۃ ادا کر چکا ہوں۔ یا مثلاً کسی شخص کے والدین محتاج ہوں تو ان کے نفقہ کی ذمہ داری اس پر لازماً عائد ہو گی اگر چہ کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتا ہو۔ اسی طرح جہاد کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ بھی انفاق کرنا ہو گا۔
یہاں جو حکم دیا گیا ہے وہ ہے سونا چاندی کی ذخیرہ اندوزی نہ کرنے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا۔ سونا چاندی کے حکم میں ہر قسم کی نقدی (Currency) بینک بیلنس(Bank Balance) اور بانڈ (Bond) جیسی چیزیں شامل ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے مفہوم میں دین کی اشاعت تبلیغ و دعوت، جہاد، دینی تعلیم، مساجد و مدارس کی تعمیر محتاجوں کی مدد اور اس قسم کے دوسرے خیر کے کام شامل ہیں۔ قرآن افراد کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی تجوریاں بھر دیں بلکہ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ فاضل دولت مقاصد خیر میں خرچ کی جائے۔ قرآن زر پرستی ، بخل اور لالچ کو باعث ہلاکت قرار دیتا ہے اور اس ہلاکت کے لیے قارون کی مثال پیش کرتا ہے جو وقت کا سب سے بڑا دولت مند اور سب سے پڑا سرمایہ پرست تھا۔
آدمی اگر اپنا مال جائز ضرورتوں کے لیے پس انداز کرتا ہے یا کاروبار اور تجارت میں لگا تا ہے یا اپنے بال بچوں اور قرابت داروں کے لیے ترکہ چھوڑتا ہے تو ان میں سے کوئی بات بھی قابل اعتراض نہیں ہے بشرطیکہ وہ زکوٰۃ کے احکام کی پابندی کرتا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی دولت سمیٹنے ہی کو اپنا مقصد زندگی بنا لے اور اپنی اولاد کو بھی کروڑ پتی بنا کر چھوڑے۔ دولت کا اس طریقہ سے ٹھہراؤ اور اس کی ذخیرہ اندوزی اسلام میں سخت قابل اعتراض ہے۔ اس طرح اپنی تجوریاں بھر نے والوں کو قرآن درد ناک عذاب کی بشارت دیتا ہے کہ ان کو اپنے خزانوں کو دیکھ دیکھ کر جو خوشی ہوتی ہے وہ عنقریب عذاب کی "خوشی" میں تبدیل ہو جانے والی ہے۔
حضرت علی نے اپنے زمانہ کے حالات کے لحاظ سے چار ہزار درہم (تقریباً بارہ ہزار گرام چاندی) سے زائد مال کو کنز سے تعبیر کیا تھا چنانچہ ابن جریر طبری نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "چار ہزار درہم یا اس سے کم مقدار تو نفقہ (ضروری اخراجات کے لیے پس انداز کیا ہوا مال ) ہے اگر اس سے زیادہ ہے تو وہ کنز ہے " (تفسیر طبری ، ج ۱۰ ص ۸۳)۔
یہ کوئی مستقل تحدید نہیں تھی بلکہ آیت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے حالات پر انطباق کی ایک صورت تھی۔ اور حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں جب دولت کی ریل پیل ہو گئی اور لوگوں کا رجحان مال جمع کرنے کی طرف ہوا تو حضرت ابوذر نے سخت گرفت کی اور صاف صاف کہا: ھٰولاء یجمون الدنیا ولا یعقلون شیئاً۔ "یہ لوگ دنیا جمع کر رہے ہیں اور کوئی بات سمجھتے نہیں ہیں" (صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ)
اور انہوں نے امیر معاویہ سے اس مسئلہ میں سخت اختلاف کیا جو اس بات کے قائل تھی کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابوذر کا کہنا تھا کہ آیت کا حکم عام ہے۔ مسلمان اور اہل کتاب دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ)
حضرت ابوذر کی یہ بات بنیادی طور پر بالکل صحیح ہے کیونکہ میں دولت کے خزانے جمع کرنے کی جو سزا سنائی گئی ہے اس کو اہل کتاب کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ نہیں البتہ حضرت ابوذر سے دوسرے صحابہ کے اختلاف کرنے کی وجہ ممکن ہے یہ ہوئی ہو کہ حضرت ابوذر نے مال پر "کنز" کا اطلاق (Application) کرنے میں شدت سے کام لیا ہو۔ اور حقیقی ضرورتوں کے لیے پس انداز کیے ہوئے مال پر بھی "کنز" کا حکم لگا دیا ہو۔
آج دین کی اشاعت ، دعوتی جدوجہد اور دینی تعلیم جیتے اہم ترین کام مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے کس قدر متاثر ہو رہے ہیں ؟ فساد زدگان کی آباد کاری کا مسئلہ کیسی سنگین صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ سوسائٹی کا ایک طبقہ ایسا ہے جس کو سر چھپانے کے لیے بھی جگہ میسر نہیں اور کتنے ہی لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ سڑک پر بسیرا کرتے ہیں۔ کیا ان حالات میں اہل ثروت کو اپنی تجوریاں بھر بھر کر رکھنے اور اپنی اولاد کو کروڑ پتی بنانے کے لیے دولت سمیٹ کر رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟ اس سوال کا جواب فقہی بحثیں کرنے کے بجائے سورہ توبہ کی اس آیت ہی سے پوچھ لینا چاہیے۔
۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ان اعضاء کو داغنے کی وجہ یہ ہے کہ دولت کا غرور دماغ میں ہوتا ہے جس کے آثار پیشانی پر ظاہر ہوتے ہیں اس طرح پہلو اور پیٹھ وہ اعضا ہیں جن کو دولت کی بہتات کی وجہ سے عیش و آرام کی فراوانی حاصل ہوتی ہے۔
۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے جس وقت آسمان و زمین تخلیق فرمائے اسی وقت زمین والوں کے لیے چاند کو قدرتی تقویم (Natural Calendar) کی حیثیت دے دی چنانچہ اس کا گھٹنا اور بڑھنا عام مشاہدہ کی چیز ہے اور ان علامتوں کو دیکھ کر تاریخوں کا تعین بہ آسانی ہو جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ مہینہ کا آغاز کب ہوا اور اختتام کب۔ پھر اس کائنات کے خالق نے انسان کے لیے سال کے شمار کاجو ضابطہ اور روز سے مقرر فرمایا ہے وہ بارہ قمری ماہ کا ہے اور یہ رہنمائی وحی الٰہی کے ذریعہ انسان کو ملتی رہی ہے۔ اور جہاں تک عربوں کا تعلق ہے ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے قمری سال (Lunar Year) ہی رائج چلا آ رہا تھا۔ اور مہینوں کے عربی نام تھے :۔
۱۔ ۔ محرم، ۲۔ ۔ صفر، ۳۔ ۔ ربیع الاول، ۴۔ ۔ ربیع الآخر ، ۵۔ ۔ جمادی الاولیٰ ، ۶۔ ۔ جمادی الآخرۃ، ۷۔ ۔ رجب ، ۸۔ ۔ شعبان ، ۹۔ ۔ رمضان ، ۱۰۔ ۔ شوال ، ۱۱۔ ۔ ذوالقعدہ ، ۱۲۔ ۔ ذوالحجۃ۔
آج بھی اسلامی دنیا میں قمری سال ہی رائج ہے اور مہینوں کے یہی نام چلے آ رہے ہیں۔
نزول قرآن کے وقت عربوں کے یہاں رائج تو یہی قمری سال تھا لیکن مخصوص مصلحتوں کے پیش نظر ان کی ترتیب میں وہ الٹ پھیر کیا کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حرمت والے مہینوں کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۲۶۹۔
۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ماہ اور سال کے بارے میں خدا کی طرف سے شرعی ضابطہ یہی ہے جو بالکل صحیح اور درست قاعدہ ہے لہٰذا تمام دینی امور مثلاً حج کیا ادائگی، روزہ کا اہتمام ، زکوٰۃ کی ادائیگی، اور عدت وغیرہ میں قمری ماہ و سال کا ہی اعتبار کیا جانا چاہیے۔
۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حرمت والے مہینوں میں جنگ کر کے گناہ کے مرتکب نہ ہو جاؤ۔
واضح رہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ چھیڑنے کی ممانعت کا حکم اس سے پہلے متعدد سورتوں میں آیا ہے اور سورہ برأۃ تو آخری دور کی تنزیل ہے نیز قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں جس نے اس حکم کو منسوخ کر دیا ہو۔
۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔ عربوں کے ہاں جنتری تو قمری ہی رائج تھی لیکن وہ اپنی جنگی ضرورت کے پیش نظر ان کی ترتیب میں تبدیلی کر دیتے مثلاً محرم کا مہینہ حرمت والا تھا جس میں جنگ ممنوع تھی لیکن جب وہ اس میں کسی قبیلہ کے خلاف جنگ چھیڑنا چاہتے تو محرم کو مؤخر کر کے صفر کی جگہ رکھتے اوور صفر کو مقدم کر کے محرم کی جگہ لے آتے۔ ان کی یہ حرکت ایسی ہی تھی جیسے کوئی رات کو دن مان کر چلے اور دن کو رات۔ ظاہر ہے اس سے حقیقت واقعہ بدلنے سے رہی البتہ آدمی قدرتی ضابطہ سے انحراف کر کے اپنی باغیانہ ذہنیت کا ثبوت ضرور دیتا ہے۔ عرب جاہلیت حرمت والے مہینوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر قدرتی ضابطہ میں خلل ڈال رہی تھی اس لیے اس کو کفر میں زیادتی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نَسئِی جس کے معنی مؤخر کرنے کے ہیں کی اصطلاح اسی مفہوم میں استعمال ہوئی ہے۔
اسلام نے نَسئِی کے قاعدہ کو باطل قرار دیا اور قدرتی ضابطہ کہ اپنی اصل شکل میں قائم کیا چنانچہ حجۃ الوداع ۱۰ ھ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اِنَّ الزَّ مَانَ قَدِاسْتَدارَکھئیْۃ یَوْمَ خَلَقَ اللہُ السَّمٰواتِ وَالْاَرضَ اَلسَّنَۃُ اِثْنَا عَشرَ شَھْراً مِنْھَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ، ثَلَاثٌ مُتَوالیاتٌ ذوالقعدۃِ وَرَجَبُ مُضَر الَّذِیْ بَیْنَ جُمَادی و شَعْبَان (البخاری کتاب التفسیر)
"زمانہ گردش کر کے اپنی اس دن کی ہیئت پر آ گیا جس دن کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے جن میں چار مہینے حرمت کے ہیں تین متواتر ہیں ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم چوتھا رجب مُضر (مضر قبیلہ کی طرف منسوب جو رجب کو اپنے مقام سے ہٹاتا نہیں تھا) جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے "۔
یعنی ہر مہینہ اپنے اصل محل پر آگیا ہے۔ حلال مہینہ حلال مہینہ کی جگہ ہے اور حرام مہینہ حرام مہینہ کی جگہ۔ اس وقت سے یہ مہینوں کا سلسلہ ٹھیک اپنی حالت پر قائم چلا آ رہا ہے۔
بعض حضرات نے نسئِی کو کبیسہ کے معنی میں لیا ہے یعنی ان کے نزدیک اس کی صورت یہ تھی کہ قمری اور شمسی سال کے درمیان ۱۱ دن کا جو فرق ہے اس کو ختم کرنے کے لیے ہر تین سال پر ایک قمری ماہ کا اضافہ کر دیا جاتا ، لیکن بہ وجوہ اس سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
اولاً نَسئِی کے معنی موخر کرنے کے ہیں اضافہ کرنے کے نہیں۔ اس لیے اس کو کبیسہ پر محمول کرنا صحیح نہیں۔ ثانیاً اگر عرب میں کبیسہ کا رواج ہوتا تو قرآن کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینوں کو جب وہ اپنی جگہ سے ہٹاتے تو ان کی تلافی کے لیے حلال مہینوں کو حرام ٹھیرا لیتے۔ اس صورت کا کبیسہ سے کیا تعلق؟
ثالثاً اگر یہ مان لیا جائے کہ عرب میں کبیہ کا قاعدہ چل رہا تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی قمری مہینہ بھی اپنے محل پر نہ تھا بلکہ سارا حساب ہی گڑ بڑ ہو کر رہ گیا تھا۔ پھر قرآن نے حرمت والے مہینوں میں جنگ چھیڑنے کی جو ممانعت مسلمانوں کو کی تھی اور یہ تاکیدی حکم ہجرت کے کچھ ہی دنوں کے بعد دیا گیا تھا تو وہ کون سے حرام مہینے تھے جب کہ کبیہ کی وجہ سے کوئی بھی حرام مہینہ اپنی جگہ قائم نہیں رہا ہو گا یعنی رجب نہ حقیقتاً رجب رہا ہو گا اور نہ ذی الحجہ ذی الحجہ۔ اور تو اور رمضان کے بارے میں بھی یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ رمضان واقعی رمضان کا مہینہ تھا جس میں روزے فرض ہوئے تھے اور جس میں جنگ بدر لڑی گئی اور جس میں نزول قرآن کا آغاز ہوا تھا یہ سارے سوالات کبیہ کا مفروضہ تسلیم کرنے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن قرآن کی تصریحات ان تمام باتوں کی تردید کے لیے کافی ہیں۔
بعض مفسرین نے حضرت ابوبکر کے حج کے بارے میں بھی جو ۰۹ ھ میں ہوا تھا یہ لکھا ہے کہ وہ اصلاً ذی قعدہ کا مہینہ تھا لیکن قرآن کے بیان سے اس کی تردید ہوتی ہے کیوں کہ قرآن نے اسے حج اکبر کا دن کہا ہے جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۳ میں گزر چکا۔ اور ابن کثیر نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے اس خیال کی تردید کی ہے۔
(ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر ، ج ۲ ص ۳۵۷ )۔
۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے غزوہ تبوک کی طرف جو رجب ۰۹ ھ ۶۳۰ء میں پیش آیا۔ فتح مکہ کے بعد اسلام ایک طاقت بن گیا تھا اور بڑی تیزی سے عرب پر چھاتا جا رہا تھا۔ اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور حکومت سلطنت روم تھی جس کی سرحدیں شام تک وسیع تھیں۔ شام میں غسانی خاندان جو عیسائی تھا رومیوں کے زیر اثر حکومت کر رہا تھا۔ قیصر روم نے اسلام کی بھرتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لیے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شرع کر دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ تیس ہزار مجاہدین رومیوں کے مقابلے کے لیے نکلے۔ زمانہ سخت گرمی کا تھا، فصلیں پک چکی تھیں اور سفر دور دراز کا تھا اس لیے گھر سے نکلنا طبیعتوں پر شاق تھا۔ جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی بیماری تھی وہ مصیبت کیوں جھیلتے۔ انہوں نے گھر میں بیٹھ رہنے ہی میں خیریت سمجھی۔ ان کے علاوہ مسلمانوں میں جو لوگ کمزور تھے ان کے لیے بھی یہ سفر کڑی آزمائش کا سبب بن گیا اور بعض تو تساہل کا شکار ہو گئے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک پہنچ کر تقریباً دو ہفتے قیام فرمایا۔ تبوک مدینہ سے شمال کی جانب ۶۸۶ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے اس لیے جنگ کی نوبت نہیں آئی ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس اقدام سے رومی سلطنت پر زبردست دھاک بیٹھ گئی اور اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اس سرحدی علاقہ میں جو عیسائی قبائل رومیوں کے زیر اثر تھے وہ اسلامی ریاست کے باجگزار بن گئے چنانچہ اہلہ ، جرباء اذرُح اور اکیدر والوں نے آپ سے مصالحت کر لی اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور تیسرا زبردست فائدہ یہ ہوا کہ تیس ہزار مجاہدین اسلام کی تربیت کا ایسا سامان ہوا کہ وہ قیصر و کسریٰ کو چیلنج کرنے کے قابل ہو سکے۔ حوصلہ کی یہی بلندی تھی جس نے آگے جا کر (دور فاروقی میں ) انہیں دو عظیم طاقتوں پر فتح مندی عطاء کی۔
یہ مختصر پس منظر ہے اس سلسلہ کلام کا جس کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے۔
۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد سے آدمی اس لیے جی چراتا ہے کہ اسے اپنی دنیا بنانے کی فکر ہوتی ہے۔ اگر اسے اپنی آخرت بنانے کی فکر ہو تو وہ جہاد کرنے میں اپنی سعادت سمجھے گا۔
۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد سے جی چرانے پر جب اتنی سخت وعید سنائی گئی ہے تو اگر مسلمان دنیوی عیش کی خاطر یا ترک جہاد کے باطل نظریات کے تحت اپنے کو اس اہم فریضہ سے مستقل طور پر سبکدوش کر لیں تو بات کتنی سنگین ہو گی۔ آج دنیا میں مسلمان جس ہلاکت سے دوچار ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر جہاد کی اسپرٹ باقی نہیں رہی۔ اگر جہاد کا ولولہ ان کے اندر ہوتا تو نہ بیت المقدس ان کے ہاتھ سے چھین لیا جاتا اور نہ اسرائیل کے ہاتھی وہ ذلیل ہوتے۔
۷۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے منصوبہ کے پورا ہونے کا انحصار تم پر نہیں ہے۔ اگر تم دین کے لیے مجاہدہ نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کسی اور گروہ کو اس کی توفیق بخشے گا۔
۷۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس فریضہ کی ادائگی میں تم نے بے پرواہی سے کام لیا تو سوچو اس سے نقصان کس کو پہنچے گا؟ اللہ کو خود تمہاری اپنی ذات اور تمہاری اپنی اجتماعیت کو؟
۸۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے ہجرت کے واقعہ کی طرف جو آپ کی بعثت کے ۱۳ سال بعد ( ۶۲۲ ء میں ) پیش آیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے مکہ سے نکلے تھی لیکن چونکہ کفار نے ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ آپ کو نکلنے کے لیے مجبور ہونا پڑا اس لیے فرمایا "کافروں نے اسے نکال دیا تھا"۔
۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کی سازش کی تھی اور اس غرض سے ایک رات آپ کے گھر پر پہرے بٹھا دیئے تھے لیکن آپ اس طرح مکہ سے نکلے کہ ان کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر تھے۔ مکہ سے ہجرت کر کے آپ کو مدینہ جانا تھا جو مکہ سے شمال میں واقع ہے لیکن آپ نے قصداً جنوب کی راہ اختیار کی تاکہ دشمنوں کو پتا نہ چلے اور جبل ثور کی غار میں جو مکہ سے تقریباً ۵ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے پناہ لی۔ یہاں آپ نے تین راتیں گزاریں۔ اس نازک موقع پر آپ کے ساتھ کوئی جمیعت نہیں تھی بلکہ صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ دشمن ہر طرف تلاش کرتے ہوئے جب غار کے پاس پہنچے تو حضرت بو بکر کو تشویش ہوئی کہ دشمن کہیں دیکھ نہ لیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر کو اطمینان دلایا کہ غمگین نہ ہوں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ خدا کا کرنا یہ کہ دشمنوں نے غار میں جھانک کر بھی نہیں دیکھا اور واپس چلے گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نصرت تھی جو اس نازک موقع پر ظاہر ہوئی۔ اسی نصرت کا حوالہ دے کر یہاں مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے اگر تم جہاد کے لیے نبی کے ساتھ نہ نکلو گے تو اللہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ ہر حال میں اپنے نبی کی نصرت فرمائے گا جس طرح کہ اس نے ہجرت کے نازک موقع پر فرمائی جب کہ دو دے سوا کوئی تیسا شخص غار میں موجود نہیں تھا۔
۸۳۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد فرشتوں کی مدد ہے جس کا ظہور بدر اور حنین اور دیگر مواقع پر ہوا۔
۸۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ غالب ہے اس لیے اسی کا بول بالا رہتا ہے اور وہ حکیم ہے اس لیے اپنے پیغمبر کی نصرت اور غلبہ کے لیے نہایت حکیمانہ طریقے اختیار کرتا ہے۔
۸۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سر و سامان کم ہو یا زیادہ جب تمہیں جہاد کے لیے حکم دیا گیا ہے تو اس کی تعمیل کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ اس وقت جہاد کے لیے نکلنے کا حکم تمام مسلمانوں کو دیا گیا تھا۔ اس سے مستثنیٰ یا تو خواتین تھیں یا وہ لوگ جو واقعی عذر رکھتے تھے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ عرب کے قبائلی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے ہر شخص تلوار چلانا جانتا تھا اور تلوار سے مسلح رہتا تھا۔ مزید برآں اس جہاد کی نوعیت یہ تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں ایک منظم اور خالصۃً اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے اس کے دشمنوں کے خلاف جہاد تھا۔ اس لیے معذور لوگوں کے سوا کسی کے لیے اس سے پیچھے رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی تھی۔
اس حکم کو عمومی پہلو یہ ہے کہ جب منظم جہاد کا مرحلہ در پیش ہو اور مسلمانوں کا با اقتدار امیر انہیں اس کا حکم دے دے تو ان کے لیے نکلنا فرض ہو جاتا ہے۔ یہ اصولی بات ہے ورنہ موجودہ زمانہ ریاستوں کی فوج ہی اس قابل ہوتی ہے کہ باقاعدہ جنگ کرے۔
۸۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر انجام پر تمہاری نگاہ ہے تو اپنی جان و مال کو اللہ کی راہ میں کھپانا تمہارے لیے بڑی سعادت کی بات ہے۔
۸۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ منافقوں کا حال بیان ہوا ہے جنہوں نے غزوہ تبوک میں شرکت سے گریز کیا تھا جب کہ تمام مسلمانوں کو نکلنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ جب نفیر عام ہو جائے تو جہاد کے لیے نہ نکلنا کسی مخلص مومن کا کام نہیں۔
۸۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جھوٹے عذر تراش کر یہ اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔
۸۹۔۔۔۔۔۔۔۔ غزوہ تبوک کے موقع پر بعض منافقین بے جھوٹے عذرا تراش کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت مانگی تھی اور آپ نے عفو در گزر سے کام لیتے ہوئے انہیں اجازت دے دی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس پر متنبہ فرمایا کہ جب تک آپ یہ معلوم نہ کر لیتے کہ ان کا عذر واقعی عذر ہے انہیں اجازت نہ دیتے۔ اس صورت میں انہیں اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع نہ ملتا۔
اس فرو گزاشت پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو متنبہ کرنے سے پہلے ہی فرمایا کہ اس نے آپ کو معاف کر دیا جس سے ایک طرف نبی کے حق میں اللہ تعالیٰ کی شان کریمی کا اظہار ہو رہا ہے اور دوسری طرف نبی عصمت پر کوئی حرف آنے نہیں پایا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ بشریت کے تقاضے کے تحت اگر کسی نبی سے کوئی فرو گزاشت ہو جائے تو وہ بر وقت اس کی اصلاح فرم دیتا ہے۔ تاکہ لوگوں کی صحیح رہنمائی ہو۔
۹۰ معلوم ہوا کہ متقی وہ شخص نہیں ہے جو کفر و اسلام کی جنگ میں اپنی ذمہ داریوں سے گریز کرتے ہوئے گوشہ عافیت سنبھال لے بلکہ متقی وہ ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے میدان میں نکل آئے۔
۹۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے نفاق کی حقیقت واضح ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرے لیکن اسلام پر مطمئن نہ ہو بلکہ شک میں مبتلا ہو۔ دل کی یہ کیفیت ایمان کے منافی ہے اور جس دل کی یہ کیفیت ہوتی ہے وہ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے کے معاملہ ڈول رہتا ہے کیوں کہ جب آدمی کو دین کی حقانیت پر یقین نہیں ہوتا تو وہ اس کے لیے تن من دھن کی بازی نہیں لگاتا۔ مدینہ کے منافقین کا یہی حال تھا وہ نہ صرف اپنے کو مسلمان کہلاتے تھے بلکہ نماز بھی پڑھتے تھے اور زکوٰۃ بھی دیتے تے لیکن یہ سب کچھ وہ بادل نا خواستہ کرتے تھے۔ حقیقتاً نہ ان کو اللہ سے محبت تھی اور نہ اس کے رسول سے اس لیے جب اللہ کی راہ میں قربانی کا مطالبہ ہوتا تو ان پر پہاڑ ٹوٹ پڑتا اور وہ فرار کی راہ اختیار کرتے۔
آج بھی ایسے نام نہاد مسلمانوں کی کمی نہیں ہے جو اسلام کے بارے میں بری طرح شک میں مبتلا ہیں چنانچہ اس کا اظہار ہر ایسے موقع پر ہوتا رہتا ہے جب کہ اسلام کے لیے اپنے کو خطرہ میں ڈالنے اور اپنے مفاد کو قربان کرنے کا مطالبہ ابھرتا ہے۔ مگر مسلم سوسائٹی میں گھل مل جانے کی وجہ سے انہیں اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا ہے۔
۹۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب انہوں نے جہاد کے لیے نکلنے کا ارادہ نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو نکلنے کی توفیق عطا نہیں فرمائی کیوں کہ ان کا بادل ناخواستہ نکلنا اللہ کو پسند نہ تھا۔
۹۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے سادہ لوح مسلمانوں کی طرف جو منافقوں کے فتنہ کا شکار ہوتے تھے۔
۹۴۔۔۔۔۔۔۔۔ منافقوں کی فتنہ پردازیوں کا ذکر اس سے پہلے کی متعدد سورتوں میں ہو گا۔
۹۵۔۔۔۔۔۔۔۔ طبری کی روایت ہے کہ جد بن قیس نے کہا تھا میں روم کی حسین و جمیل عورتوں کو دیکھ لوں گا تو صبر نہ کرسکوں گا۔ اس لیے مجھے جہاد سے معاف رکھیے اور فتنہ میں نہ ڈالیے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ منافقین کیسے جھوٹے عذرات تراش لیتے تھے اور پھر ان پر تقویٰ کی کس طرح ملمع کاری کرتے تھے۔
۹۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ فتنے سے بچنے کی باتیں کرتے ہیں لیکن کفر اور نفاق کے فتنہ میں جو سب سے بڑا فتنہ ہے وہ بری طرح مبتلا ہیں۔
۹۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان منافقین کا حال عجیب ہے۔ ایک طرف رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے بد خواہ بھی ہیں۔ وہ مسلمانوں میں اپنے کو شامل بھی کرتے ہیں۔ اور ان پر جو مصیبت آتی ہے اس پر خوش بھی ہوتے ہیں۔
۹۸۔۔۔۔۔۔۔۔ منافقین اس بات کے منتظر تھے کہ مسلمانوں کا لشکر رومیوں کے مقابلہ میں فتح مند ہوتا ہے یا لاشوں کا ڈھیر بن جاتا ہے اس کا جواب یہاں دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں سے جو صورت بھی پیش آ جائے مسلمانوں کے لیے بھلائی ہی کی صورت ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوتی ہے تو وہ ایک محسوس کامیابی ہے اور اگر مسلمان مارے جاتے ہیں تو انہیں اللہ کی راہ میں شہید ہرنے کی سعادت حاصل ہو گی۔
۹۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت کے نزول کو مشکل سے دو سال گزرے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا مسلمانوں کے ہاتھوں ان منافقین پر برسا۔ یہ نام نہاد مسلمان ہی تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور بعض قبائل نے تو موقع پاکر اسلام کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا تھا لیکن حضرت ابوبکر صدیق نے ان لوگوں سے خلاف جنگ کی اور بڑی خوبی سے ان فتنوں کا سد باب کیا۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔۔۔ فاسق یعنی خارج از اطاعت۔ منافق اللہ کی اطاعت کا کوئی کام کرتے بھی تھے تو وہ اللہ کی اطاعت کے جذبے سے نہیں اور جب بھی انہیں موقع ملتا پوری ڈھٹائی سے اللہ کی نافرمانی کے کام کر گزرتے ان کا یہ فسق تقویٰ کی صد اور کفر کے ہم معنی تھا۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۲۲۹ اور ۲۳۰۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ خوش دلی کے ساتھ اور محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے خرچ نہیں کرتے بلکہ مقصود دکھاوا ہوتا ہے۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان لوگوں کو دنیوی سر و سامانی کی جو فراوانی حاصل ہوئی ہے وہ کوئی قابل رشک چیز نہیں ہے کیوں کہ جس چیز پر وہ نازاں ہیں وہی ان کے لیے دنیا میں سوہان روح بننے والی ہے اور یہ بات عام طور سے دیکھنے میں آتی ہے کہ زر پرستوں کے لیے ان کی دولت و بال جان بن جاتی ہے البتہ اس کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔
منافقین میں سے کتنے ہی لوگوں کے جو چیز مخلصانہ ایمان سے باز رکھے ہوئے تھی وہ مال اور اولاد کا گھمنڈ تھا۔ اس گھمنڈ نے بالآخر ان کو زکوٰۃ سے انکار کرنے پر آمادہ کیا اور حضرت ابوبکر نے جن کے دور خلافت کے آغاز ہی میں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ ان کے خلاف جہاد کیا چنانچہ مدینہ کے اطراف میں عبس اور ذنیان قبیلوں کے خلاف فوجی کاروائی کی گئی۔ اس طرح دنیا ہی میں ان کو اپنے گھمنڈ کی سزا مل گئی اور وہ کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ مسلمانوں کے معاشرہ میں محض اس لیے شامل ہوئے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ اس معاشرہ سے کٹ کر وہ کہیں جائے پناہ حاصل نہیں کر سکتے ورنہ نہ وہ اپنے ایمان میں مخلص ہیں اور نہ حقیقتاً اسلامی برادری کا جزء ہیں۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کو اگر کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہو تو وہ اسلام سے آزاد ہو کر اور مسلم معاشرہ سے اپنا رشتہ توڑ کر وہیں پہنچ جائیں۔ مطلب یہ ہے کہ انہیں نہ اسلام سے دلچسپی ہے اور نہ مسلمانوں سے بلکہ یہ حالات ہیں جس نے انہیں تمہارے ساتھ باندھ رکھا ہے۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔۔۔ بیت المال میں زکوٰۃ کا جو مال جمع ہوتا تھا اس کی تقسیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح فرماتے تھے کہ وہ حقیقی مستحقین تک پہنچ جائے لیکن منافق اس پر اعتراض کرتے تھے کہ مال کی تقسیم منصفانہ طور پر نہیں ہو رہی ہے حالانکہ اللہ کے رسول سے بڑھ کر انصاف کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے۔ ؟ اصل بات یہ تھی کہ منافقین میں جو محتاج ہوتے ان کی ان کے استحقاق کے بنا پر مدد کی جاتی اور جب ان کی مدد کی جاتی تو وہ خوش ہوتے لیکن جب ان سے زیادہ مستحق لوگوں کو ترجیح دی جاتی تو وہ ناراض ہو جاتے۔ اسی طرح وہ منافق بھی بگڑ جاتے جو اس مال کو للچائی ہوئی نظر سے دیکھتے لیکن مستحق نہ ہونے کی بنا پران کو اس میں سے کچھ نہ دیا جاتا۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول سے بدگمان ہونے کے بجائے یہ امید رکھتے کہ وہ اپنی طرف سے ان کی امداد و اعانت میں کوئی کمی نہیں کرے گا بلکہ مزید نوازے گا۔ تو یہ ایمان و اخلاص سے مناسبت رکھنے والی بات ہوتی۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہمیں اصل رغبت مال سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر صدقات کی تقسیم کے سلسلے میں منافقین کے اعتراض کا جواب دیا گیا تھا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صدقات کے اصل مستحق کون لوگ ہیں اور صدقات کن مدات پر صرف کرنے کے لیے ہیں۔ یہ مصارف کل آٹھ ہیں۔
لفظ "صدقہ " صدق سے ہے۔ آدمی اللہ کے لیے مال خرچ کر کے اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق ہے اس لیے اس مال کو جو وہ خرچ کرتا ہے صدقہ کہا گیا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے :
الصَّسَدَ قَہُ بُرہانٌ (مسلم کتاب الطہارۃ) "صدقہ برہان ہے " عرف عام میں صدقہ خیرات کو کہا جاتا ہے مگر قرآن نے زکوٰۃ کے لیے "صدقہ" کی اصطلاح استعمال کی ہے اور حدیث میں بھی یہ اصطلاح استعمال ہوئی ہے چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت معاذ کو یمن بھیجا تو فرمایا :
فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اللہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِی اَمْوالِھِم وَتُرَدُّ فِی فُقَرَائِھِمْ (البخاری کتاب الزکاۃ) "انہیں بتاؤ کہ اللہ نے ان کے اموال میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالداروں سے لیا جائے گا اور ان کے ناداروں کو دیا جائے گا۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں " فقرا" اور "مساکین" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یہ دونوں لفظ ایسے غریبوں کے لیے بولے جاتے ہیں جو معاش کے لیے مدد کے محتاج ہوں۔ یہ دونوں الفاظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں البتہ جب دونوں ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں تو مقصود یہ واضح کرنا ہوتا ہے کہ فقرا وہ لوگ ہیں جو اول درجہ کے محتاج ہیں اور مساکین وہ جو دوم درجہ کے محتاج ہیں۔
فقرا(محتاجوں ) کا ذکر سب سے پہلے ہوا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ زکوٰۃ کے اولین مستحق یہی لوگ ہیں۔ فقیر کا لفظ غنی کے بالمقابل ہے اور قرآن نے یہ لفظ ان مہاجرین کے لیے استعمال کیا ہے جو اپنے گھروں اور اپنے اموال سے محروم کر دیے گئے تھے اور ہر طرح مدد کے مستحق تھے :
لِلْفُقَفراَءِ الْمُھَا جِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخرِجوُ ا مِنْ دَیَارِھِمْ وَامْوَالِھِمُ (الحشر۔ ۸) "ان حاجت مند (فقراء) مہاجرین کے لیے ہے جو نکال دیے گیے اپنے گھروں اور مالوں سے "۔ اس لیے فقرا سے مراد وہ لوگ ہیں جو فقر و فاقہ میں مبتلا ہوں یا جو اپنی گزر بسر کے لیے محتاج ہو گ ئے ہوں یا جو معذوری کی بنا پر نہ کما سکتے ہوں اور نہ ان کی معاش کا کوئی انتظام ہو۔ ایسے غریب اور مفلس لوگوں کی مالی مدد کرنا زکوٰۃ کا اولین مصرف ہے۔ قرآن نے خاص طور سے ایسے فقراء (حجت مندوں ) کی مدد کرنے پر ابھارا ہے جو دین کی خدمت میں اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے جن کی خود داری کا یہ حال ہے کہ نا واقف حال لوگ ان کو غیر حجت مند خیال کرنے لگتے ہیں۔
لِلْفُقَراءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرْوَ افِی سَبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتطِیعُنَ ضَرْباً فِی الْارْضِ یَحْسَبُھُمُ الَجَا ھِلُ اَغْنِیاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ لَا یَسْئَلُونَ اَلنَّاسَ اَلْحَافاً۔ (البقرہ۔ ۲۷۳)
"انفاق کے اصل مستحق وہ جاجت من ہیں جو اللہ کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ بے خبر آدمی ان کی خود داری کو دیکھ کر ان کو غنی خیال کرتا ہے مگر تم ان کو ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے "۔
رہے مساکین ،تو احتیاج کے لحاظ سے یہ دوسرے درجہ کے لوگ ہیں یعنی وہ غریب لوگ جن کے پاس گزر بسر کا سامان اتنا نہ ہو کہ ان کے لیے کفایت کر سکے یا ذریعہ معاش تو ہو لیکن یافت اتنی کم ہوتی ہو کہ وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی بنیادی ضرورتوں کو پورا نہ کر پاتے ہوں۔ قرآن نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کشتی کو مسکینوں کی طرف منسوب کیا ہے۔
اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسا کِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ (الکہف ۷۹) "وہ کشتی مسکینوں کی تھی جو سمندر میں محنت مزدوری کا کام کرتے تھے۔"
معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت یا کسی ذریعہ معاش کا ہونا مسکین ہونے کے منافی نہیں ہے جب کہ آدمی بقدر معاش کا ہونا مسکین ہونے کے منافی نہیں ہے جب کہ آدمی بقدر کفاف نہ پاتا ہو۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ کارکنان ہیں جو زکوٰۃ کا مال وصول کرنے اس کی حفاظت و تقسیم نیز اس سے متعلق دیگر انتظامی امور کے لیے مقرر کیے گئے ہوں۔ ان سب کی اجرت یا تنخواہیں زکوٰۃ کے مال سے ادا کی جا سکتی ہیں۔
یہ مصرف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا باقاعدہ نظم ہوتا کہ ایک طرف مالدار اپنی اس مالی ذمہ داری کو لازماً ادا کریں اور دوسری طرف ناداروں اور مسکینوں کو یہ ضمانت حاصل ہو کہ ان کا حق ان کو مل جائے گا نیز زکوٰۃ کے جو مصارف مصالح دین اور مصالح عامہ سے تعلق رکھتے ہیں ان پربھی حسب ضرورت خرچ کیا جائے یہ نظم قائم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا نظام قائم تھا۔
۱۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد رہ لوگ ہیں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کے دلوں میں اسلام کی انسیت پیدا کرنے کے لیے ان کو مالی عطیئے دینا تقاضائے مصلحت ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں کہ وہ غریب ہوں تب ہی ان کی مدد کی جائے بلکہ ان کے خود حال ہونے کے باوجود ان کے اس کد سے دیا جا سکتا ہے اور اسلامی حکومت اس بات کی مجاز ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں زکوٰۃ کے مال میں سے اس مد پر خرچ کرے۔
۱۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد لونڈی غلاموں کو غلامی سے آزاد کرنے پر مال خرچ کرنا ہے۔ قرآن نے اس مقصد کے لیے زکوٰۃ کے مال میں ایک حصہ متعین کر کے اس مقصد کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے۔
اب دنیا میں غلامی کا رواج باقی نہیں رہا لیکن ان بے گناہ مسلمان قیدیوں کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ جو کافروں کے قید و بند میں ہوں۔ ایسے لوگوں کو قید سے چھڑانے پر اس مد سے خرچ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر یوسف قرضاوی لکھتے ہیں۔
"امام احمد کے مسلک میں منقول ہے کہ زکوٰۃ سے مسلمان قیدی کو آزاد کرانا جائز ہے کیوں کہ یہ قید سے گردن چھڑانا ہے .. . … .اب غلامی کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن جنگیں تو جاری رہیں گی اور حق و باطل کا مقابلہ بھی ہوتا رہے گا۔ ایسی صورت میں یہ گنجائش ہونی چاہئے کہ مسلمان قیدیوں کا اس مع سے فدیہ ادا کیا جا سکے"۔ (فقہ الزکوٰۃ ، ج ۲ ص ۶۲۰)۔
۱۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ "الغارمین" استعمال ہوا ہے جس کے معنی ایسے قرضداروں کے ہیں جن کے لیے قرض ایک تاوان اور بوجھ بن گیا ہو۔ مراد وہ قرض دار ہیں جو اپنے معاشی حالات کی بنا پر یا کسی اجتماعی مفاد کے کام میں حصہ لینے کے لیے قرض لینے پر مجبور ہوئے اور پھر قرض کے بوجھ تلے ایسے دب گئے کہ ادائگی کو کوئی صورت نکال نہ سکے۔ ایسے لوگ کمانے والے اور بظاہر غنی ہو سکتے ہیں لیکن قرض کی ادائیگی کے بقدر مال نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کے قرض کی ادائیگی زکوٰۃ کے مال سے کی جائے۔
۱۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں "جی سبیل اللہ" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کے معنی ہیں "اللہ کی راہ میں" مراد وہ راہ ہے جس پر چل کر آدمی اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہ راہ دین حق یعنی اسلام ہے اور قرآن میں اس کا استعمال اسی معنی میں ہوا ہے مثلاً:
اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ (النحل ۱۲۵) "اپنے رب کے راستہ کی طرف بلاؤ"۔
اس آیت میں رب کے راسی سے مراد دین اسلام ہے۔
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ عِوَ جاً (الاعراف ۴۵) "جو اللہ کے راستہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ "
یہاں اللہ کی سبیل (راہ) سے روکنے کا مطلب اس کے دین سے روکنا ہے اسی طرح ہجرت، جہاد اور انفاق کے ساتھ "فی سبیل اللہ" کی ترکیب قرآن میں بہ کثرت استعمال ہوئی ہے جو خاص طور سے ان چیزوں کی مقصدیت Causation کو واضح کرتی ہے۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ایُقَا تِلُوْ نَ فِی سَبِیْلِ اللہِ وَا لَّذِیْنَ کَفَرُو ایُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِا لطَّاغوُتِ (النساء ۷۶) "اہل ایمان اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور کافر طاغوت کی راہ میں "۔
اس آیت میں اللہ کی راہ میں لڑنے سے مراد اسلام کی حفاظت اور اس کے غلبہ کے لیے لڑنا ہے اور طاغوت کی راہ میں لڑنے سے مراد اسلام کی مخالفت میں اور باطل مقاصد کے لیے لڑنا ہے۔
وَمَنْ یُھَا جِرْ فِی سَبِیْلِ اللہِ (النساء ۱۰۰) " اور جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا۔ "
اس آیت میں فی سبیل اللہ کے الفاظ ہجرت کے مقصد کو واضح کر رہے ہیں۔ یعنی جو شخص محض اللہ خاطر اور اس کے دین کی حفاظت و نصرت کے لیے ہجرت کرے گا۔
لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سِبِیْلِ اللہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباً فِی الْاَرْضِ(البقرہ ۲۷۳) " اعانت کے اصل مستحق وہ حجت مند ہیں جو اللہ کی راہ میں ایسے گھر گئے ہیں کہ زمین میں دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے "۔
اس آیت میں اللہ کی راہ میں گھر جانے سے مراد دین کی خدمت میں مصروف ہو جانا ہے۔ "
وَاَنْفِقُوْ ا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تَلْقُوْ ابِاَ ید یْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ۔ (البقرہ ۱۹۵) "اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو"۔
یہاں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے خرچ کرنا ہے۔
وَتُجا ھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ۔ (الصف ۱۱) " اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے "۔
اس آیت میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے مراد دین حق کی حمایت میں اور اس کو غالب کرنے کے لیے جہاد کرنا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فی سبیل اللہ کے معنی جہاد کے نہیں ہیں ورنہ آیت کا ترجمہ ہو گا" جہاد کرو جہاد میں" بلکہ فی سبیل اللہ کے الفاظ جہاد کی غرض اور اس کے مقصد کو واضح کرتے ہیں کہ جہاد اللہ کی راہ میں یعنی اللہ کے دین کے لیے ہو۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ فی سبیل اللہ کا مصرف ایک وسیع مصرف ہے اور اس مصرف کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ے کہ یہ ان کاموں پر صرف کرنے کے لیے ہے جو براہ راست مفاد دین سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ دیگر مصارف افراد پر یا ان کی بہبودی میں صرف کرنے کے لیے ہیں۔ اگ فی سبیل اللہ کی مد سے غازی (مجاہدین) پر صرف کیا جاتا ہے تو اس سے ان کی شخصی مدد کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ مقصود ان کے ذریعہ دین ہی کی حفاظت و مدافعت ہوتی ہے ورنہ یہ مد مجاہدین پر خرچ کرنے کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے آلات حرب بھی خریدے جا سکتے ہیں۔ اور تمام دفاعی کاموں پر خرچ کیا جا سکتا ہے نیز ان کاموں پر بھی جن کا تعلق براہ راست دین کی دعوت، اسکی اشاعت، اس کی شریعت کے نفاذ اور اس کے شعائر کو قائم کرنے سے ہے۔
موجودہ زمانہ میں دین کی اہم ترین ضرورت اس کی دعوت و اشاعت کا کام ہے جس کے لیے داعی اور مبلغین تیار کرنے کی بھی ضرورت ہے اور علمی و فکری میدان میں جہاد کرنے کی بھی، قرآن کے پیغام کو بندگان خدا تک پہنچانے کی بھی ضرورت ہے اور اصلاح و ارشاد کے لیے اجتماعات کے انعقاد کی بھی دینی تعلیم کو عام کرنے کے لیے مدارس کی بھی ضرورت ہے اور جامعات کی بھی۔ کہیں اسلام کے عائلی قوانین کے تحفظ کا مسئلہ ایک اہم ملی مسئلہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے تو کہیں تطبیق شرعیہ کو مسئلہ۔ ان امور کے علاوہ مسلمانوں میں اجتماعیت کا شعور بیدار کر کے ایک ملت کی حیثیت سے ان کی شیرازہ بندی کرنے ، قضائے شرعی کے نظام ، بیت المال اور اسلامی مراکز قائم کرنے کی ضرورت بھی وقت کی اہم ترین ملی ضرورت ہے اور ان ضرورتوں پر خرچ کرنے کے لیے فی سبیل اللہ کی مد میں پوری گنجائش موجود ہے۔
واضح رہے کہ فقہاء نے عام طور سے فی سبیل اللہ کو جہاد کے معنی میں لیا ہے لیکن ایسے علماء بھی ہیں جن کے نزدیک اس کے مفہوم میں کافی وسعت ہے چنانچہ امام رازی لکھتے ہیں :
"فی سبیل اللہ کے الفاظ سے لازم نہیں آتا کہ اس سے مراد صرف غازی ہوں چنانچہ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہر قسم کے خیر کے کام مثلاً مردوں کی تکفین ، قلعوں کی تعمیر، مسجدوں کی آباد کاری وغیرہ پر صدقات کا مال خرچ کرنا جائز ہے کیونکہ فی سبیل اللہ کے عموم میں یہ سب باتیں شامل ہیں"۔ (تفسیر رازی، ج ۱۶ ص ۱۱۲)
سید صدیق حسن خان "الروضۃ الندیۃ" میں لکھتے ہیں :
"یہاں سبیل اللہ سے مراد اللہ کی راہ ہے اور جہاد اگر چہ اللہ کی سب سے بڑی راہ ہے لیکن اس مد کو جہاد کے لیے مخصوص کرنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ ہر ایسے کام پر صرف کرنا صحیح ہے جو اللہ کی راہ کے مفہوم میں ہو۔ یہاں لغوی طور پر آیت کے یہی معنی ہیں اور جب شرعاً کوئی اور معنی منقول نہیں ہیں تو ضروری ہے کہ لغوی معنی ہی مراد لیے جائیں "۔
(فقہ الزکاۃ۔ القرضاوی، ج۲ ص ۶۴۷ بحوالہ الروضۃالندیۃ ج ۱ ص ۲۰۶ )۔
"سبیل اللہ میں وہ تمام شرعی اور عمومی مصالح شامل ہیں جن پر دین اور ریاست کے معاملات کا دارومدار ہے پہلی اور مقدم مصلحت جنگ کی تیاری ہے مثلاً اسلحہ کی خرید، فوج کے لیے راشن ، ذرائع حمل و نقل سامان جنگ وغیرہ …………. اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے تعلق سے موجودہ زمانہ میں اہم ترین کام یہ ہے کہ اسلام کے لیے داعی تیار کیے جائیں اور ان کو منظم جماعتوں کی طرف سے وافر مالی امداد دے کر کافروں کے ممالک میں بھیج دیا جائے جس طرح کفار اپنے مذہب کے پرچار کے لیے کرتے ہیں "۔
(فقہ الزکاۃ، ج ۲ ص ۶۴۹ بحوالہ تفسیر المنارج ۱۰، ص ۵۸۵)
"یہ مد مصالح عامہ کی ہے جس میں نہ کسی کی ملکیت کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ یہ کسی فرد کے فائدہ کے لیے خاص ہے بلکہ اس کی ملکیت اللہ کے لیے اور اس کی منفعت خلق خدا کے لیے ہے ان مصالح میں سب سے مقدم جنگی ضروریات ہیں ………… اور ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اسلام کے داعیوں کے لیے ایسے وسائل فراہم کیے جائیں کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو پیش کرنے ، دین کو پھیلانے اور اس کے احکام کی تبلیغ کا کام کر سکیں "۔ (الاسلام عقیدۃ و شریعۃ ، ص ۱۰۰)
"اس لیے میں سبیل اللہ کا مد لول متعین کرنے میں ایسے توسع کا قائل نہیں کہ ہر قسم کے مصالح اور تقرب کے کام اس میں شامل ہو جائیں اور نہ ہی اس کے دائرہ کو اتنا تنگ سمجھتا ہوں کہ وہ صرف عسکری جہاد کے لیے خاص ہو کر رہ جائے۔ جہاد جس طرح تلوار اور نیزہ سے کیا جاتا ہے اسی طرح زبان اور قلم سے بھی کیا جاتا ہے اور جس طرح جہاد عسکری ہوتا ہے اسی طرح فکری، تربیتی، اجتماعی اقتصادی اور سیاسی بھی ہوتا ہے "۔ (فقہ الزکاۃ ، ج۲ ص ۶۵۷)۔
فاضل مؤلف آگے چل کر لکھتے ہیں۔
"البتہ موجودہ حالات میں فی سبیل اللہ سے جو اولین اور اہم ترین چیز مراد لی جائے گی وہ ہے صحیح اسلامی زندگی کے احیاء کا وہ پروگرام جو اسلام کے جملہ احکام ، عقائد تصورات، شعائر ، شرعی قوانین اور اخلاق و آداب کو رو بہ کار لانے کے لیے دعوتی مراکز قائم کرنا جن کے ذریعہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں ادیان و مذاہب کی کشمکش کے درمیان غیر مسلمین تک اسلام کا پیغام پہنچایا جا سکے ، یقیناً جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ " (فقہ الزکاۃ ، ج ۲ ص ۶۶۷، ۶۶۸)
۱۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مسافر اپنے وطن میں غنی ہونے کے باوجود سفر میں مدد کا مستحق ہو سکتا ہے۔ ایسے ضرورت مند مسافروں کی مدد زکوٰۃ کے مال سے کی جا سکتی ہے۔ قدیم زمانہ میں جن کی سفر کی دشواریاں بہت زیادہ تھیں مسافر اپنے وطن سے بالکل منقطع ہو جاتا تھا۔ اس حال میں اگر زاد راہ ختم ہو جاتا تو اسے غیر معمولی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا اس لیے قرآن نے نہ صرف مسافر نوازی کی ترغیب دی بلکہ مصارف زکوٰۃ میں ایک مصرف مسافروں کے لیے مخصوص کر دیا۔
آج بھی جب کہ سفر کافی آسان ہو گیا ہے ایسے حالات پیش آتے رہتے ہیں کہ ایک مسافر کی پونجی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنے وطن میں غنی ہونے کے باوجود گھر سے بر وقت روپیہ منگا نہیں سکتا۔ اگر وہ کسی غیر ملک میں ہے تو زر مبادلہ Foreign Exchange کا قانون اس میں مانع ہوتا ہے اس لیے مسافروں پر خرچ کرنے کی ضرورت آج بھی پیش آتی رہتی ہے۔
۱۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تاکیدی حکم ہے کہ زکوٰۃ کے یہ مصارف اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہیں اس لیے اس کی تقسیم اسی ضابطہ کے مطابق عمل میں آنی چاہیے۔ اس دائرہ سے باہر کسی شخص کو زکوٰۃ دینا یا کسی اور مد پر زکوٰۃ کا مال خرچ کرنا ہر گز جائز نہیں۔ ان آٹھ مصارف کا مفہوم اور ان کا دائرہ متعین کرنے میں مفسرین اور فقہا کے درمیان کافی اختلاف ہوا ہے اس لیے ہم نے اس آیت کی تفسیر میں زیادہ وضاحت سے کام لیا ہے تاکہ دلائل واضح ہوں اور بات سلجھے ہوئے انداز میں سامنے آ جائے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر یہ طوالت گوارا کرنا پڑی۔ اب ایک مسئلہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے تملیک کا۔ عام طور سے فقہا اس کے قائل ہیں کہ زکوٰۃ جس پر صرف کرنا ہو اس کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے اس لیے وہ فی سبیل اللہ کی مد کو بھی مجاہدین کے لیے خاص کرتے ہیں ان کااستدلال لِلْفُقَرَاءِ کے حرف لام سے ہے جو ان کے نزدیک لام تملیک ہے حالانکہ عربی میں لام صرف تملیک کے لیے نہیں آتا بلکہ استحقاق اور فائدہ پہنچانے کے معنی میں بھی آتا ہے اور سلسلہ کلام پر غور کیا جائے تو واضح ہو گا کہ یہاں لام استحقاق کے معنی ہی میں آیا ہے کیونکہ منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر تقسیم زکوٰۃ کے سلسلہ میں جو اعتراض کرتے تھے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ زکوٰۃ کے اصل مستحق یہ فقراء اور مساکین وغیرہ ہیں نہ کہ وہ معترضین جو ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتے اور چاہتے ہیں کہ زکوٰۃ کا مال انہیں ملے۔ دوسری بات یہ کہ بیان کردہ آٹھ مصارف میں سے صرف ابتدائی چار مصارف کے ساتھ حرف لام آیا ہے۔ بقیہ چار مصارف یعنی گردنیں چھڑانے قرض داروں کا بوجھ ہلکا کرنے ، سبیل اللہ اور مسافر کے ساتھ لام نہیں بلکہ "فی" آیا ہے۔ جس کے لفظی معنی "میں " کے ہیں اس لیے ان چار مصارف کے سلسلہ میں تو تملیک کی شرط کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے اور " فی" سے جو مفہوم واضح ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کاموں پر یا ان کی بہبود پر مال کیا جائے اور "فی سبیل اللہ" میں تو افراد کا کہیں ذکر ہی نہیں ہے اس لیے یہ مد افراد کی قید کے بغیر خدمت دین اور مصالح دین پر خرچ کے لیے ہے۔
۱۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے تقسیم زکوٰۃ کا یہ حکم علم و حکمت پر مبنی ہے۔
۱۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخانہ باتیں کرتے اور دین کا مذاق اڑاتے اور جب سچے اہل ایمان ان کی یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچاتے اور آپ منافقین سے پوچھتے تو وہ انکار کرتے اور طنز کرتے کہ آپ ہر شخص کی بات سن لیتے ہیں۔ ان کی اس حرکت پر گرفت کرے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ نبی نے تمہاری بھلائی کے لیے اپنے کان کھلے رکھے ہیں۔ تمہاری نا روا حرکتیں اس کے علم میں لائی جاتی ہیں تو وہ اس لیے سنتا ہے کہ تمہیں اس پر متنبہ کر دے اور تمہاری اصلاح ہو۔ وہ نہ شر کی ٹوہ میں رہتا ہے اور نہ شر پسندی کی غرض سے کوئی بات سنتا ہے۔ اس کے کان سر تا سر گوش خیر ہیں۔
۱۲۰ یعنی وہ ایسے ویسے لوگ نہیں ہیں جن کی باتوں پر یقین کر کے وہ تمہارے بارے میں بدگمان ہوتا ہو بلکہ وہ سچے اہل ایمان ہیں اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ ان کی باتوں پر یقین نہ کیا جائے کیونکہ کوئی مخلص مؤمن یہ جرأت کر ہی نہیں سکتا تھا کہ آپ کے سامنے جھوٹ بولے یا غلط باتیں آپ کو باسر کرانے کی کوشش کرے۔
۱۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ منافقین جھوٹے بہانے بنا کر مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے تھے اس پر یہاں گرفت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ اللہ کو اور اس کے رسول کو راضی کریں حالانکہ ایمان کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس کو اولیت دیتے اور اگر وہ واقعی اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہتے تو جھوٹے بہانے ہر گز نہ پیش کرتے۔
آیت کو اگر اپنے محل پر رکھ کر دیکھا جائے تو اس کا یہ مفہوم بالکل واضح ہے لیکن بد عدت آیات کو اپنے محل سے ہٹاتے ہیں اور پھر ان کا الٹا سیدھا مطلب نکال لیتے ہیں چنانچہ اس آیت کی بدعتی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ عبادات میں بھی اللہ کے ساتھ اس کے رسول کی رضا کی نیت ہونی چاہیے کہ یہ کمال ایمان ہے حالانکہ یہاں عبادت کا مسئلہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں ہے بلکہ رسول کی موجودگی میں جہاد کے لیے رسول کا ساتھ نہ دینے پر منافقوں کو تنبیہ کی گئی ہے اور جہاں تک عبادت کا تعلق ہے صرف اللہ کی عبادت اور خالصۃً اسی کی رضا کے لیے کرنے کا حکم قرآن میں جا بجا دیا گیا ہے مگر اہل بدعت ان تمام باتوں سے قطع نظر کر کے آیات قرآنی کا گمراہ کن مطلب نکالتے ہیں اور پچھلی امتیں اللہ کی کتاب کا غلط مطلب نکال کر ہی گمراہ ہوتی رہی ہیں۔
۱۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ منافقین قرآن پر سچا ایمان تو نہیں رکھتے تھے لیکن غیب کی ان خبروں کے پیش نظر جو قرآن دے رہا تھا وہ اس شک میں ضرور مبتلا تھے کہ قرآن آپ پر غیب سے نازل ہوتا ہے اس لیے وہ یہ اندیشہ محسوس کرتے تھے کہ کوئی سورہ ایسی نازل نہ ہو جائے جو ان کے دل کی پوشیدہ باتوں کو بے نقاب کر کے رکھ دے۔
۱۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سورہ توبہ نے منافقین کی تمام سازشوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیا اور ان کے ایک ایک راز کو آشکارا کر دیا۔
۱۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ، اس کی کتاب اور اس کا رسول سب سے زیادہ احترام کے مستحق ہیں اور کوئی سچا مسلمان یہ جرأت نہیں کرسکتا کہ ان کا مذاق اڑائے۔
۱۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ منافقوں میں شر و فساد کے لحاظ سے مختلف درجہ کے لوگ تھے۔ کسی کا معاملہ اپنی حد تک محدود تھا اور کوئی مجرمانہ کاروائیوں میں مشغول تھا اس لیے فرمایا کہ پہلی قسم کے لوگوں سے اگر ہم در گزر کر بھی لیں تو جن کا معاملہ مجرمانہ نوعیت کا ہے ان کو ضرور سزا دیں گے۔ یہاں در گزر سے مراد دنیا میں در گزر کرنا ہے اور سزا دینے سے مراد بھی دنیا میں سزا دینا ہے رہی آخرت تو جیسا کہ آگے آیت ۶۸ میں واضح کیا گیا ہے ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔ ان منافقین کو دنیا میں بڑی ذلت کی سزا ملی مثال کے طور پر ان کی بائی ہوئی مسجد "مسجد ضرار" نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے جلادی گئی۔ اسی طرح جس گھر میں وہ مجلس جما کر فتنہ سامانیاں کرتے تھے وہ ایک یہودی سُوَیلم کا گھر تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے یہ بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ (سیرت ابن ہشام، ج ۴ ص ۱۷۱ )۔
۱۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ، اور ایک ہی قسم (Category) کے لوگ ہیں وہ صرف نام کے مسلمان ہیں ورنہ ان کو اسلام سے نہ کوئی واسطہ ہے اور نہ دلچسپی۔
۱۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ آدمی بھلائی کے کام کرنے کے لیے کہتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے لیکن اس کے بر عکس نفاق کی خصوصیت یہ ہے کہ آدمی برائی پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے اور بھلائی کے کام کرنے سے منع کرتا ہے۔ منافقوں کا یہ کردار محض ماضی کی بات نہیں بلکہ حال کا بھی واقعہ ہے۔ اور قرآن میں منافقوں کا یہ کردار اس لیے بیان کیا گیا ہے تاکہ اس آئینہ میں ہر دور کے منافقوں کا عکس دیکھا جا سکے۔
۱۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خیر کے کاموں پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ان کی مٹھیاں بند ہیں۔
۱۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ منافق اللہ کے نام کی قسمیں بھی کھاتے تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے اس کے باوجود وہ اللہ کو بھول گئے تھے کیوں کہ نہ تو ان کی حقیقی غایت رضائے الٰہی کا حصول تھا اور نہ ان کو اللہ کی عبادت و اطاعت سے کوئی لگاؤ تھا۔ وہ اعتقادی کفر میں مبتلا تھے اور دینداری کا مظاہرہ محض سماج کے دباؤ کے تحت یا اس کو خوش کرنے کے لیے کرتے۔
۱۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کے بھلا دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ انہیں خیر کی توفیق نہیں دینا اور اس نے اپنی عنایات سے انہیں محروم کر دیا ہے۔
۱۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں مسلم سماج کی تشکیل ظاہری اسلام کی بنیاد پر ہوتی ہے کوئی شخص بھی کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو سکتا ہے اور مسلم سوسائٹی میں شمولیت اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول اسلام اس شخص کا ہے جو دل سے ایمان لایا ہو۔ اور اللہ اور اس کے رسول کے لیے وفا داری کے جذبات رکھتا ہو۔ بالفاظ دیگر وہ دین کو قبول کرنے میں مخلص ہو۔ اور آخرت کی کامیابی ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔ رہے وہ لوگ جو اسلام کے دین حق ہونے کے بارے میں شک اور تذبذب میں مبتلا ہوں اور جن کی وفاداریاں خدا اور شیطان کے درمیان بٹی ہوئی ہوں یا جن کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہوں اور محض مسلم سوسائٹی میں اپنی شمولیت پر قرار رکھنے کے لیے اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں تو ایسے لوگو خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں نہ حقیقۃً مسلمان ہیں اور نہ آخرت بھگتنا ہو گی جس طرح دوسرے کافروں کو بھگتنا ہو گی۔
۱۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں ہوتے وہ کبھی اسلام کے عقائد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور کبھی شرعی احکام کے بارے میں بحث کھڑی کر دینے ہیں تاکہ لوگ شریعت سے متنفر ہوں۔
۱۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بظاہر انہوں نے نیکی کے کچھ کام کیے بھی ہوں تو چونکہ یہ کام خلوص دل سے اللہ کے لیے نہیں کیے گئے تھے اور کفر کی آلائش سے پاک نہیں تھے اس لیے اللہ تعالیٰ کی میزان میں ان کا کوئی وزن نہ ہو گا اور دنیا میں بھی ان کے یہ کام خیر و برکت کا باعث نہیں بنیں گے۔
۱۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ان قوموں کی سرگزشتیں سورہ اعراف آیت ۵۹ تا ۷۹ میں گزر چکیں۔
۱۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم ابراہیم ایک بت پرست قوم تھی جس کی تباہی کا ذکر سورہ انبیا میں ہوا ہے :۔ فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ (الانبیاء ۷۰)" ہم نے انہیں بری طرح تباہ کر دیا "
فَجَعَجْنٰھُمُ الْاَسْفَلِیْنَ (الصافات ۹۸) " ہم نے ان کو پست اور ذلیل کر دیا۔ "
۱۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی سرگزشت بھی سورہ اعراف آیت ۸۵ تا ۹۳ میں گزر چکی۔
۱۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں یعنی سدوم اور عمورہ کی بستیاں ان کا قصہ بھی سورہ اعراف آیت ۸۰ تا ۸۴ میں گزر چکا۔
۱۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ رسولوں کو قوموں کی طرف اس مناسبت سے منسوب کیا گیا ہے کہ وہ ان قوموں کے اندر ہی سے برپا کیے گئے تھے۔
۱۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر منافق مردوں اور منافق عورتوں کی خصوصیات بیان کی گئیں تھیں یہاں مومن مردوں اور مومن عورتوں کی خصوصیات بیان کی گئیں تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو جائے۔
۱۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ مکیں بھی جاوداں اور مکاں بھی جاوداں۔
۱۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام نعمتوں سے بڑھ کر جو نعمت انہیں حاصل ہو گی وہ اللہ کی خوشنودی ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو تمام نعمتوں کی کلید ہے کیوں کہ جس ہستی کے ہاتھ میں آسمان و زمیں کے خزانے ہیں اس کی رضا حاصل ہونے کے بعد بندہ کا اس کی نعمتوں سے مالا مال ہو جانا ایک لازمی بات ہے اور یہ ایک ایسی سعادت ہے جس میں قلب کی تسکین کا پورا سامان اور روحانی مسرتوں کے تمام راز پوشیدہ ہیں۔ یہی وہ آخرت غایت ہے جس کے حصول کی تمنا مومن کے دل میں کروٹیں لیتی رہتی ہے۔
۱۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منافقوں کے ساتھ اب درگزر کا معاملہ نہ کیا جائے بلکہ سختی کا معاملہ کیا جائے اور جس حد تک ضروری ہو ان کے خلاف طاقت بھی استعمال کی جائے۔ سختی کا یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ ان کا نفاق ظاہر ہو گیا تھا۔ اور ان کا کفر کھل کر سامنے آگیا تھا۔ یہ نام نہاد مسلمان تھے لیکن اسلام دشمنی کے لحاظ سے ان میں اور کافروں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ یہ کافرانہ کلمات تو اپنی زبان سے نکالتے ہیں تھے علاوہ ازیں انہوں نے اسلام کو زک پہنچانے اور مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور ان کے اندر فتنہ برپا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ یہاں تک کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بھی سازشیں کرتے رہے اس لیے آستین کے ان سانپوں سے اب دشمن کا سا معاملہ کرنا ضروری تھا۔
۱۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اسلام اور پیغمبر کے خلاف انہوں نے طرح طرح کی سازشیں کیا لیکن ان کی کوئی سازش اور ان کا کوئی منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔
۱۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینہ ہجرت کر جانے سے پہلے مدینہ کے عام لوگ غریب تھے۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد جب مدینہ اسلام کا دارالسلطنت قرار پایا تو تجارت کو بھی فروغ ہوا اور پھر فتوحات کا جو سلسلہ چلا تو وافر دولت مدینہ والوں کے ہاتھ آ گئی۔ اس طرح اللہ نے ان کی رزق میں کشادگی پیدا کی اور اس کے رسول نے اپنے احسانات سے انہیں نوازا لیکن انہوں نے اس کے جواب میں اللہ کے ساتھ کفر اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کا رویہ اختیار کیا۔
۱۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ اللہ سے وعدہ کر کے پھر جانے اور جھوٹ بولتے رہنے سے دل میں نفاق پرورش پاتا ہے۔
۱۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ غزوہ تبوک کے موقع پر سفر اور جنگ کے کثیر مصارف کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ انفاق کرنے کی ضرورت تھی اس اہم موقع پر منافقین نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اپنا ہاتھ روکا لیکن جن مخلص مسلمانوں نے عظیم مال قربانیاں پیش کیں ان پر یہ فقرہ چست کیا کہ وہ ریاکاری کے لیے ایسا کر رہے ہیں اور ان میں جو لوگ غریب تھے انہوں نے جب اپنی منت مزدوری کی اجرت کا نذرانہ اللہ کی راہ میں پیش کر دیا تو اس کی ناقدری کرتے ہوئے منافقو مذاق اڑانے لگے کہ اللہ کو ایسے حقیر مال کی ضرورت نہیں ہے۔
۱۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان منافقین کی ظاہری حالت یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں کیونکہ وہ نماز بھی پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ تم ان کے ظاہر کا اعتبار کر کے ان کے لیے اللہ سے بخشش طلب کرو لیکن چونکہ وہ اپنے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کافرانہ جذبات رکھتے ہیں اس لیے اللہ ان کو ہر گز معاف کرنے والا نہیں۔ اللہ کے ہاں جس طرح شرک ناقابل معافی گناہ ہے اسی طرح کفر بھی ناقابل معافی گناہ ہے۔
واضح رہے کہ ستر مرتبہ سے مراد کثرت ہے نہ خاص تعداد اور مقصود قطعیت کے ساتھ اس بات کا اعلان کرنا ہے کہ منافقوں کے حق میں پیغمبر کی دعائے مغفرت بھی قابل قبول نہیں ہے خواہ وہ کتنی ہی مرتبہ کی گئی ہو۔
تقریباً یہی بات سورہ منافقون میں بھی کہی گئی ہے جو سورہ توبہ سے کافی پہلے نازل ہوئی تھی۔
۱۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں فاسق سے مراد وہ نافرمان لوگ ہیں جن کی نافرمانی کافرانہ جذبات کے ساتھ ہو ایسے لوگوں پر کامیابی کی راہ نہیں کھلتی۔
۱۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ منافقین ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے غزوہ تبوک میں شرکت سے محروم رکھا۔
۱۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ عیش پسند انسان راہ حق کی تکلیفیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور یہ سمجھتا ہے کہ اگر آخرت برپا ہو گی تو وہاں اس کو عافیت کی زندگی نصیب ہو گی یہ فریب نفس ہے جس میں انسان مبتلا رہتا ہے لیکن جب آخرت برپا ہو گی اور جہنم کو وہ اپنے سامنے دیکھ لے گا۔ تو یہ بات اس پر کھل جائے گی کہ اللہ کی راہ میں پیش آنے والی تکلیفوں کو اس نے برداشت نہ کر کے کہیں زیادہ سخت تکالیف کو دعوت دی ہے۔ دنیا کی جس گرمی سے گھبرا کر وہ اپنے فائض کی ادائگی میں جی چراتا رہا وہ جہنم کی گرمی کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ تھی۔
۱۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے ہنسنے کے دن کم رہ گئے اس کے بعد ان کو رونا ہی رونا ہے۔
۱۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آیتیں جنگ تبوک سے واپسی میں دوران سفر نازل ہوئی تھیں۔
۱۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اب ان منافقین کو کسی بھی جہاد میں نکلنے کی توفیق نہ ہو گی۔
۱۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ آیت ۷۳ میں منافقون کے ساتھ سختی سے پیش آنے کی جو ہدایت دی گئی تھی یہ حکم اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور ان منافقین کے بارے میں ہے جن کا نفاق کھل کر سامنے آگیا ہو اور جو صریح کفر کے مرتکب ہو گئے ہوں۔ ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کی قبر پر کھڑے ہونے سے بھی۔ قبر پر کھڑے ہونے کا مطلب قبر پر جا کر دعائے مغفرت کرنا اور رحمت کے جذبات کا اظہار کرنا ہے۔ یہ ممانعت جس طرح منافقوں کے لیے ہے اسی طرح کافروں ، مشرکوں اور ملحدوں کے لیے بھی ہے کیوں کہ جو لوگ مرتے دم تک کافر رہے وہ اللہ کے دشمن ہیں اور اللہ کے دشمنوں کے لیے ایک مومن کے دل میں نرم گوشہ نہیں ہو سکتا۔ علامہ ابن تیمیہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا کوئی مسلمان کسی عیسائی کے جنازہ کے پیچھے چل سکتا ہے تو انہوں نے جواب دیا نہیں ، اس کے جنازہ کے پیچھے نہ چلے اور چونکہ عیسائی کفر کی حالت میں مرا اس لیے وہ جہنم کا مستحق ہو گیا لہٰذا اس کی نماز نہ پڑھے (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ، جلد ۲۴ ص ۲۶۵ ) مگر موجودہ دور میں مصلحت پرست مسلمان مشرکوں کی ارتھیوں کے جلوس میں شریک ہونے ، ان کی راکھ کے کلس اٹھانے ، ان کی سمادھیوں پر جا کر پھول چڑھانے اور خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور جن پر سیاسی مصلحتوں کا غلبہ ہوتا ہے یا جو اللہ کی آیتوں کو بیچنے کا جن خوب جانتے ہیں وہاس بات سے بھی نہیں چوکتے کہ مشرک لیڈروں کی موت پر ان کے سرہانے قرآن کریم کی تلاوت کریں جب کہ یہ لیڈر زندگی قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا انکار کرتے رہے۔
اس آیت کی تفسیر میں عام گور سے یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ نے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھی تھے جس پر یہ آیت نازل ہوئی چنانچہ بخاری میں ہے :۔
"عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اسے اپنا کرتہ عنایت کیا اور فرمایا کہ اس میں اس کو کفنایا جائے۔ پھر آپ کھڑے ہو گئے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں لیکن عمر بن خطاب نے آپ کا کپڑا پکڑ لیا اور عرض کیا آپ اس کی نماز پڑھیں گے جب کہ وہ منافق ہے اور اللہ نے آپ کو ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے سے روکا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے (دونوں باتوں کا) اختیار دیا ہے چنانچہ فرمایا ہے "تم ان کے لیے دعائے مغفرت کرو یا نہ کرو اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرو گے تب بھی اللہ ان کو معاف کرنے والا نہیں ، (اس آیت کو پڑھ کر) آپ نے فرمایا میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ دعائے مغفرت کروں گا۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ کے ساتھ ہم نے پڑھی۔ اس کے بعد اللہ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی: و لاتصل …… اور ان میں سے جو مرے اس کی نماز (جنازہ) تم ہر گز نہ پڑھنا اور نہ کبھی ان کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اس حال میں مرے کہ وہ فاسق تھے"۔ (بخاری کتاب التفسیر)۔
یہ حدیث اگرچہ بخاری کی ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ لیکن بعض علماء نے اس حدیث کی صحت سے اور اس کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے :
"قاضی ابو بکر کہتے ہیں اس حدیث کو قبول کرنا روا نہیں اور نہ یہ بات صحیح ہے کہ یہ اللہ کے رسول کا ارشاد ہے اور قاضی ابوبکر باقلانی "التقریب" میں لکھتے ہیں یہ حدیث اخبار آحاد میں سے ہے۔ جس کا ثابت ہونا معلوم نہیں۔ اور امام الحرمین اپنی "مختصر " میں فرماتے ہیں اس حدیث کا شمار صحیح احادیث میں نہیں ہوتا اور "برہان" میں وہ کہتے ہیں اہل حدیث اس کو صحیح نہیں قرار دیتے اور امام غزالی"المستصفیٰ" میں فرماتے ہیں " واضح تر بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں اور اس حدیث کے شارح داؤدی کہتے ہیں کہ غیر محفوظ ہے "۔ (فتح الباری، ج ۸ ص ۲۷۲)۔
اس حدیث کے بارے میں جو اشکالات محسوس ہوتے ہیں وہ مختصراً درج ذیل ہیں :۔
بخاری نے جہاں یہ حدیث بیان کی ہے وہاں ایک دوسری حدیث حضرت جار سے بھی بیان کی ہے جو اس سے بالکل مختلف ہے :
"حضرت جابر فرماتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم عبداللہ بن ابی کے پاس اس کی تدفین کے بعد پہنچے۔ پھر آپ نے اسے نکلوایا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا"۔ (بخاری کتاب الجنائز)
دونوں حدیثیں بخاری ہی کی ہیں لیکن ایک میں ذکر ہے کہ جب عبداللہ بن ابی کا بیٹا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اپنا کرتہ عنایت فرمایا پھر اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ نے اس سے فرمایا "مجھے اطلاع دینا میں نماز پڑھوں گا پھر اس نے آپ کو (میت کے تیار ہونے کی) اطلاع دی اور جب آپ اس پر نماز پڑھنے کے لیے آگے بڑھے تو حضرت عمر نے آپ کو روکنے کی کوشش کی۔ (بخاری کتاب الجزائز)
اور دوسری حدیث میں ہے کہ تدفین ہو چکی تھی لیکن آپ نے اس میت قبر سے نکلوا کر اپنا کرتہ پہنایا۔ ظاہر ہے ان حدیثوں میں کھلا تعارض ہے اور اس تعارض کی دوسری مثال یہ ہے کہ بخاری نے عبداللہ بن عمر کی جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ ہیں سَزِیدُہُ عَلیٰ سَبعین : یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ دعائے مغفرت کروں گا مگر ابن عباس نے جو روایت نقل کی ہے اس میں آپ کی طرف یہ الفاظ منسوب ہیں :لَوْاَعْلَمُ اَنّیْ اِنْ زدتُعلیٰالسبَّعِیْن عُغْفَرلہٗ لِزدتُ عَلَیْہا : یعنی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ دعا کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں اس سے بھی زیادہ مرتبہ دعا کرتا"۔ (بخاری کتاب التفسیر سورہ توبہ)
دونوں باتوں میں معنی کے لحاظ سے بڑا فرق ہے پہلی بات غیر مشروط ہے اور دوسری مشروط اور علامہ جصاص کہتے ہیں کہ بعض روایتوں میں : لَاُزیدَنَّ علیٰ السبَّعِینَ "میں ستر پر بھی اضافہ کر دوں گا کے جو الفاظ ہیں وہ راوی کی غلطی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ خبر دے چاک تھا کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کس طرح کافروں کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتے جب کہ آپ کو معلوم تھا کہ ان کی مغفرت نہیں ہو گی۔ دراصل صحیح روایت وہ ہے جس میں الفاظ نقل ہوئے ہیں : لَوْعَلِمْتُاَنِّیْ لَوْزِدْتُ عَلی السَّبعِیْن غُفِرَ لَھُمْ لَزِدتُ عَلیْھَا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ دعا کرنے سے ان کی مغفرت ہو جائے گی تو میں اس سے بھی زیادہ مرتبہ دعا کرتا"۔ (احکام القرآن۔ جصاص، ج۳ ص ۱۷۷)۔
۲)۔ یہ حدیث اسناد کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہے لیکن درمیان کی کڑی عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ ہیں یا عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر ہیں۔ اس طرح اس کی حیثیت خبر واحد ہی کی ہے اور خبر واحد حجت ضرور ہے بشرطیکہ وہ قرآن و سنت کی معارض نہ ہو۔
۳)۔ مسند احمد کی حدیث میں جو ابن عباس سے مروی ہے یہ صراحت ہے کہ : ثُمَّ صَلَّی عَلیْہِ وَمَشیٰ مَعَہٗ وَ قَامَ عَلٰی قَبْر ہٖ : یعنی پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی اور جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی قبر پر کھڑے ہو گئے جب کہ حضرت جابر والی بخاری کی حدیث بتاتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم عبداللہ بن ابی کی قبر پر اس کی تدفین کے بعد پہنچے۔ حدیثوں کے اس تضاد کا اعتراف علامہ سندی نے بھی کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں :۔ یہ حدیث سابق حدیث کے خلاف ہے کیوں کہ اس میں صراحت کے ساتھ یہ بیان ہوا ہے کہ آپ نے نماز جنازہ پڑھی اور اس سے پہلے آپ کرتہ عنایت فر ما چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ حدیث بتلاتی ہے کہ آپ اس کے بعد تشریف لائے اور بعد میں کرتہ پہنایا۔ بعض علماء نے بہ تکلف دونوں حدیثوں میں تطبیق کی کوشش کی ہے لیکن اس سے اعتراض پوری طرح رفع نہیں ہوتا۔ (سنن نسائی، ج ۴ ص ۳۸ حاشیہ الامام السندی)۔
۴)۔ ابن جریر طبری حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن اُبی کی نماز جنازہ پڑھنا چاہی تو جبریل نے آپ کا دامن پکڑا اور یہ آیت پڑھی ولاتصل …………… مگر جیسا کہ ابن کثیر نے صراحت کی ہے اس کا یک راوی یزید رقاشی ہے جو ضعیف ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ، ج ۲ ص ۳۷۹)
تاہم قرینہ کی بات یہی ہے کہ جبریل نے آپ کو روکا ہو گا اور غالباً دوسرے راویوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ حضرت عمر نے آپ کو روکنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ رازی نے تفسیر کبیر میں اور مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں اس ضعیف الاسناد روایت پر اعتماد کیا ہے حالانکہ بخاری مسلم وغیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نماز جنازہ پڑھانے کا ذکر صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ گویا ان کے نزدیک مضمون کے اعتبار سے یہ ضعیف حدیث بخاری کی حدیث کے مقابلہ میں قابل ترجیح ہے۔
۵)۔ آیت کا سیاق و سباق بتلاتا ہے کہ یہ آیت غزوہ تبوک سے واپسی کے سفر میں نازل ہوئی تھی کیونکہ اس سے متصلاً قبل کی آیت میں ہے "اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لوٹا دے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آیتیں آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی نازل ہو گئی تھیں اور عبداللہ بن اُبی کا انتقال آپ کے مدینہ واپس لوٹنے کے تقریباً دو ماہ بعد یعنی ذی قعدہ ۰۹ ھ میں ہوا۔ اس لیے یہ حدیث آیت کے سیاق و سباق سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی بلکہ آیت ۷۳ سے جو مضمون شروع ہوتا ہے وہ اس آیت تک ایک مربوط مضمون ہے اور اس میں منافقین کے ساتھ جہاد کرنے اور سختی برتنے کی جو ہدایت دی گئی ہے اس کے پیش نظر اس بات کے لیے کیا قرینہ ہے کہ آپ رئیس المنافقین کے ساتھ اس قدر نرمی برتیں گے کہ اس کو اپنا کرتہ عطا فرمائیں گے اور اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے ؟
۶)۔ عبداللہ بن اُبی کا بیٹا عبداللہ مخلص اور صالح مسلمان تھا۔ غزوہ نبی المصطلق کے موقع پر جب عبداللہ بن اُبی نے یہ گستاخانہ بات کہی کہ ہم مدینہ لوٹیں گے تو عزت والا ذلت والے کو نکال باہر کرے گا۔ تو اس کا بیٹا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے والد کی گردن اپنے ہاتھ سے اڑانے کے لیے اجازت طلب کی۔ (سیرت ابن ہشام ، ج ۳۔ ص ۳۳۷ )۔
کیا ایسا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے منافق والد کے لیے کرتہ طلب کرے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھنے کی درخواست کرے گا۔ ؟
ان اشکالات کے پیش نظر واقعہ کی وہ صورت جو مذکورہ احادیث میں پیش کی گئی ہے صحیح نہیں معلوم ہوتی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ واقعہ کیا تھا اور بیان کس طرح ہوا۔
۱۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح نوٹ ۱۰۳ میں گزر چکی۔
۱۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے ان منافقین کی طرف جو مقدرت کے باوجود جہاد کے لیے نہیں نکلے اور عذر تراش کر رخصت مانگنے لگے۔
۱۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہوں نے عورتوں کی طرح گھروں میں رہنا پسند کیا۔
۱۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بے حوصلگی اور اخلاقی گراوٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اخلاقی حِس مردہ ہو گئی اور وہ بے غیرت ہو کر رہ گئے۔ اس کیفیت کو دلوں پر مُہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے کیوں کہ یہ کیفیت اس قانون فطرت کے عمل میں آنے کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اخلاقی نفسیات کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔
۱۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ بَدو یعنی دیہاتی عرب۔ یہ ان دیہاتی منافقوں کا ذکر ہے جنہوں نے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے کے لیے جھوٹے عذرات پیش کیے تھے۔
۱۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان بدوؤں میں کچھ منافق تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس اہم موقع پر رسول کی خدمت میں حاضر ہونے کی زحمت ہی نہیں کی۔
۱۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان منافقین کے حق میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کا یہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔ اور اس کی صورت یہ ہوئی کہ اس آیت کو نازل ہوئے ابھی دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ان منافقین نے کھلے بندوں ارتداد کی راہ اختیار کی۔ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فتنہ ارتداد کا تلوار سے مقابلہ کیا۔
۱۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن لوگوں کا عذر حقیقی ہے۔ ان پر نہ کوئی اعتراض ہے نہ گناہ مثلاً بوڑھے ، بیمار، جسمانی لحاظ سے معذور اور نادار لوگ بشرطیکہ ان کا تعلق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خلوص اور وفا داری کا ہو اور پیچھے رہ کر کوئی ایسا کام نہ کریں جو اس کے منافی ہو۔
۱۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سچے اہل ایمان کے جذبات اس طرح ہوتے ہیں کہ جو لوگ سواری کا انتظام خود نہیں کر سکتے تھے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ ان کے لیے سواری کا انتظام کر دیا جائے لیکن جب آپ ان کے لیے قلت وسائل کی بنا پر انتظام نہ کر سکے تو اس احساس کے تحت کہ وہ جہاد کی سعادت سے محروم رہیں گے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
رسول کا یہ قول کہ "میں تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کر سکتا" رسول کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے مگر اس قسم کے واضح دلائل کے باوجود مسلمانوں کا جاہل طبقہ رسول کو خدا کا درجہ دینے لگتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ رسول کے پاس خزانے ہیں۔ اور اگر چہ آپ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن آپ کو مدد کے لیے پکارنا بالکل جائز ہے یہ عقیدہ توحید کے سراسر منافی ہے اور رسول کا یہ قول جو آیت میں بیان ہوا ہے اس عقیدہ کی تردید کے لیے کافی ہے۔
۱۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب تم غزوہ تبوک سے واپس مدینہ پہنچو گے تو یہ منافق جو جہاد کے لیے تمہارے ساتھ نہیں نکلے تمہارے پاس آ کر جھوٹے عذرات پیش کریں گے۔
۱۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے سورہ توبہ کی ان آیات کی طرف جن میں منافقین کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
۱۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ دیکھے گا کہ آئندہ تمہارا طرز عمل کی رہتا ہے۔ اصلاح قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول سے وفاداری کا ثبوت سیتے ہو یا پچھلی روش پر قائم رہتے ہو۔
واضح رہے کہ اس وقت اللہ کا رسول ان کے درمیان موجود تھا اس لیے یہ جو فرمایا کہ رسول تمہارے طرز عمل کو دیکھے گا تو اس کا مفہوم اپنی جگہ بالکل واضح ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ آیت ۱۰۵ میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تمہارے عمل کو دیکھے گا اور اس کا رسول اور مومنین بھی۔
لیکن غلو پسند طبیعتیں یہ نکتہ پیدا کرتی ہیں کہ حضور ہمارے ظاہر و باطن اعمال دیکھ رہے ہیں جب کہ آپ دنیا سے رخصت ہو چکے۔ اس قسم کے نکتے پیدا کر کے شرک و بدعت کے لیے راہیں ضرور نکالی جا سکتی ہیں۔ اس طرح کی نکتہ آفرینیاں یہود و نصاریٰ بھی کتاب الٰہی میں کرتے رہے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔
۱۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ چاہتے ہیں کہ تم ان کو ان کے حال پر جھوڑ دو اور جب وہ اپنی اصلاح کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو مناسب یہی ہے کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔
۱۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نا پاکی سے مراد کفر اور نفاق کی نا پاکی ہے جس نے ان کے قلب و ذہن اور ان کے باطن کو نجس بنا کر رکھ دیا ہے اس لیے نہ پاکیزہ خیالات کا ان کے دل و دماغ میں گزر ہوتا ہے اور نہ پاکیزہ جذبات ان کے اندر پرورش پاتے ہیں۔
۱۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اعراب(بدو) یعنی عرب کے دیہاتی لوگ۔
۱۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔ دیہات کا ماحول سماجی لحاظ سے شہر سے مختلف ہوتا ہے اس لیے وہاں دیہاتی لوگ سخت مزاج ہوتے ہیں اور مزاج کی یہ سختی کفر و نفاق (منافقت) میں بھی سختی پیدا کر دیتی ہے۔
۱۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو نہ علم کا شوق ہوتا ہے اور نہ تربیت سے دلچسپی اس لیے شرعی احکام سے ان کے نابلد رہنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
۱۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اللہ کو ان کے دلوں کا حال معلوم ہے اس لیے وہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کے لیے اس کی حکمت مقتضی ہو گی۔
۱۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ زکوٰۃ کو جبری ٹیکس اور جہاد کے لیے تعاون کو جرمانہ تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ انفاق عبادت ہے جو خوش دلی کے ساتھ کرنا چاہئیے۔
۱۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بدو اسلام میں محض مصلحۃً داخل ہوئے تھے انہوں نے دیکھا کہ اسلام اس سر زمین پر غالب ہوتا جا رہا ہے اس لیے خیریت اسی میں ہے کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ ان کو اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ مسلمانوں کے بد خواہ تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان کسی چکر میں پھنس جائیں تاکہ ان کو اسلام کا قلادہ اپنی گردنوں سے اتار پھینکنے کا موقع ملے۔
۱۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام بدوؤں کا حال یکساں نہیں ہے ان میں جہاں منافق ہیں وہاں مخلص مومن بھی ہیں۔
اس سے ضمناً اس نظریہ کی تردید ہوتی ہے کہ ماحول ہی انسان کو اچھا یا برا بناتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سنگدل بدوؤں میں نرم دل لوگ پیدا نہ ہوتے۔ انسان کا معاملہ اینٹ پتھر کی طرح نہیں ہے بلکہ وہ بننے اور بگڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس معاملہ میں فیصلہ کن قوت (Decisive Force ) اس کا اپنا نفس ہے ماحول سے آدمی متاثر ضرور ہوتا ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ ماحول ہی آدمی کو اچھا یا برا بناتا ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہوتی تو برے ماحول میں اچھے لوگ پیدا نہ ہوتے اور نہ اچھے ماحول میں بر ے لوگ جنم لیتے۔
۱۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اہل ایمان میں سے جب کوئی شخص راہ خدا میں مالی تعاون پیش کرتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسے قبول کرتے اور اس کے حق میں دعائے رحمت فرماتے۔
رسول کی دعا قدر و قیمت اہل ایمان بخوبی جانتے تھے اس لیے انفاق کر کے رسول کی دعائیں لینے کی تمنا ان کے دلوں میں کروٹیں لیتی رہتی تھی۔
۱۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے انفاق کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوتی ہے کہ ایک مومن اللہ کی راہ میں جتنا خرچ کرے گا اتنا ہی وہ اللہ سے قریب ہو گا۔
۱۷۸۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انفال نوٹ ۱۰۶۔
۱۷۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انفال نوٹ ۱۰۸۔
۱۸۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنہوں نے دعوت حق قبول کرنے اور ایمان لانے میں پہل کی اور اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ لوگ اس دعوت کو قبول کر تے ہیں یا نہیں۔ اور ایمان لانے کے بعد وہ اسلام کے مطالبات کو پورا کرنے اور کٹھن وقت میں اس کے لیے قربانیاں پیش کرنے میں آگے آگے رہے انہوں نے اپنی جانیں جوکھوں میں ڈال کر اور اپنا مال راہ حق میں لٹا کر اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے اور اس کے رسول کی نصرت و حمایت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہی لوگ اس چمن کے گل سر سبد ہیں اور ان ہی سے اسلام کی صف اول آراستہ ہوئی ہے۔ سابقون اولون کا تعلق جنگ بدر نے تو اسلام کے حق میں فیصلہ صادر کر دیا تھا۔ اس لیے اس کے بعد اسلام کی طرف مائل ہونے میں وہ رکاوٹیں نہیں تھیں جو اس سے پہلے کے دور میں تھیں۔
۱۸۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد وہ لوگ ہیں جو سابقون اوّلون کے نمونہ کو دیکھنے کے بعد اس قافلہ میں شامل ہو گئے اور اس راہ پر جو انہوں نے اختیار کی تھی بحسن و خوبی چلتے رہے۔
پہلا گروہ جلیل القدر صحابہ کا ہے اور دوسرے گروہ میں دوسرے صحابہ بھی شامل ہیں اور وہ تمام لوگ بھی جو حسن و خوبی کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے خواہ وہ کسی زمانہ میں اور کسی ملک میں پیدا ہوئے ہوں کیونکہ سے ایک ہی راہ کے راہی اور ایک ہی امت کے افراد ہیں۔
۱۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جس گروہ کی شان یہ ہو کہ اللہ نے اس سے راضی ہونے کا اعلان اپنی کتاب میں فرما دیا ہو ایک مسلمان کے دل میں لازماً اس کی قدر و منزلت ہو گی نیز اس کے نقش قدم پر چلنے کا وہ بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کرے گا۔
مگر اس واضح ارشاد کے باوجود مسلمانوں کا ایک فرقہ چند شخصیتوں کو مستثنی ٰکر کے صحابہ کے پورے گروہ کا اور خاص طور سے سابقون اولون کو ملامت کا نشانہ بناتا ہے اور تبرا بازی کو اس نے اپنا شعار بنا رکھا ہے گویا جہان سے ان ہدایت پانا چاہیے تھی وہیں سے انہوں نے گمراہی اختیار کر لی اگر وہ غلو اور شخصیت پرستی میں مبتلا نہ ہوتے تو اس آیت کو پڑھ کر ان کی آنکھیں کھل جاتیں۔
۱۸۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ مگر دل سے وہ منافق ہیں اور اپنے اس نفاق کو چھپانے کے لیے ایسی لفاظی کرتے ہیں کہ کوئی انہیں پہچان نہیں سکتا۔
۱۸۴۔۔۔۔۔۔۔۔ دلوں کا حال پیغمبر بھی نہیں جانتا اللہ ہی جانتا ہے۔
۱۸۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سزا دنیا میں اور دوسری سزا قبر (عالم برزخ) میں۔
دنیا میں ان منافقین کو سزا جیسا کہ نوٹ ۱۰۳ میں واضح کیا جا چکا ہے مسلمانوں کے ہاتھوں ملی۔
۱۸۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد آخرت کا عذاب ہے۔
۱۸۷۔۔۔۔۔۔۔۔ سورہ برأۃ آخری دور کی تنزیل ہے اور اس وقت ایمان و عمل کے اعتبار سے مسلم معاشرہ میں مختلف درجہ کے لوگ پائے جاتے تھے۔ اس لیے اس سورہ میں ہر گروہ کا الگ الگ جائزہ لیا گیا ہے تاکہ قرآن کا مطلوب مومن کون ہے اس دور کے مسلمانوں پر بھی واضح ہو جائے اور آنے والی نسلوں پر بھی۔ اس آیت میں مسلمانوں کے جس گروہ کا ذکر ہوا ہے اس سے ایک قصور تو یہ سرزد ہوا تھا کہ یہ لوگ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے علاوہ جیسا کہ قرآن کے بیان سے واضح ہوتا ہے ان کی زندگیاں نیکی اور بدی کا مجموعہ تھیں مگر انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تھا اس لیے انہیں قبولیت توبہ کی امید دلائی گئی۔
۱۸۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو صدقہ یہ پیش کریں اس کو قبول کر لو۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم جو صدقہ یا زکوٰۃ قبول فرماتے اس کو ان مصارف پر خرف کرتے جو صدقات کے لیے متعین ہیں۔
۱۸۹۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ صدقہ۔ خواہ وہ زکوٰۃ ہو یا خیرات گناہوں اور برائیوں سے پاکیزگی اور نیکیوں اور خوبیوں سے آراستگی کا ذریعہ ہے۔ اس سے ذہنی بیماریاں اور قلبی امراض بھی دور ہوتے ہیں اور اچھے جذبات بھی پرورش پانے لگتے ہیں اس سے باطن سنورتا ہے اور انسان نیک صفت بن جاتا ہے۔
۱۹۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آئندہ تمہارا طرز عمل کیا رہتا ہے اس پر مومنین کی بھی نگاہ رہے گی تاکہ وہ تمہارے ساتھ وہ معاملہ کریں جس کا تم اپنے کو مستحق ثابت کر دکھاؤ گے۔
۱۹۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا معاملہ التواء میں ہے یہ تین اشخاص تھے جنہوں نے محض غفلت کی وجہ سے غزوہ میں شرکت نہیں کی تھی ان کا معاملہ توقف میں رکھا گیا اور بعد میں ان کی توبہ قبول کر لی گئی جس کا ذکر آگے آیت ۱۱۸ میں ہوا ہے۔
۱۹۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مسجد جو مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہوئی مدینہ میں مسجد قبا کے قریب منافقین کے ایک گروہ نے بنائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب تبوک کے سفر پر روانہ ہو رہے تو کچھ منافقین نے آپ سے درخواست کی تھی کہ وہاں تشریف لائیں اور اس مسجد میں ایک مرتبہ نماز پڑھیں اس کی تعمیر کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی کہ بارش کی راتوں اور خاص طور سے معذوروں کے لیے سہولت ہو۔ آپ نے فرمایا۔ ابھی سفر در پیش ہے۔ بعد میں جب تبوک سے واپسی ہوئی اور آپ مدینی کے قریب ہی ذیاوان کے مقام پر پہنچے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش سے باخبر کر دیا۔ آپ نے اسی وقت اپنے چند ساتھیوں کو آگے روانہ کر دیا تاکہ وہ آپ کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی اس مسجد کو ڈھا دیں۔ چنانچہ ان حضرات نے اس حکم کی تعمیل میں بڑی ہوشیاری سے کام لیا اور اس مسجد کو فوراً نذر آتش کر دیا تا کہ فتنہ کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ (یہ قصہ سیرت ابن ہشام ، ج ۴ ص ۱۸۵ میں بیان ہوا ہے ) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ان فاسد اغراض کے بے نقاب کیا ہے جس کے لیے انہوں نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ ان کی پہلی غرض یہ تھی کہ اس سے دین کو نقصان پہنچایا جائے مسجدیں تو اس لیے بنائی جاتی ہیں کہ دین پھلے پھولے اور اسلام کا یہ شعار اس کے استحکام کا ذریعہ بنے۔
لیکن انہوں نے اسلام کی بیخ کنی کرنے کی غرض سے مسجد تعمیر کی تھی۔ ایک ایسی مسجد کو جس کی بنیاد ہی باطل اغراض پر رکھی گئی ہو تقدس کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ ؟ ان کی دوسری غرض یہ تھی کہ یہ حقیقۃً عبادت گاہ نہیں بلکہ کفر کا مرکز بنے۔ تسری غرض یہ تھی کہ مسلمان کی وحدت کو پارہ پارہ کیا جائے اور وہ اسطرح کہ ان کو ان کے اصل مرکز اجتماع سے الگ کرنے کی کوشش کی جائے اور چوتھی غرض یہ کہ دشمنان اسلام کے لیے یہ آماجگاہ بن جائے تاکہ وہ اسلام کے خلاف یہاں سے ریشہ دوانیاں کر سکیں۔ روایات میں آتا ہے کہ قبیلہ خزرج کا ایک شخص ابو عامر جو نصرانی ہو گیا تھا اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مٹر دشمن تھا۔ جنگ احد میں اس نے مشرکین کا ساتھ دیا اور غزوہ حنین کے بعد جب اس نے محسوس کیا کہ اسلام کی طاقت کو دبانے میں عرب نا کام رہے ہیں تو روم چلا گیا اور وہاں سے اسلام کے خلاف سازشیں کرنے لگا۔ یہاں تک کہ اس نے قیصر روم کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے کسایا۔ اسی کے اشارہ پر منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی لیکن وحی الٰہی نے اس گھناؤنی سازش کو بے نقاب کیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بر وقت اقدام کر کے اس کو ناکام بنا دیا۔
۱۹۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس مسجد میں نہ صرف یہ کہ نماز نہ پڑھو بلکہ سرے سے قدم ہی نہ رکھو۔
۱۹۴۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو کچھ دنوں تک آپ کا قیام قبا کے علاقہ میں رہا وہاں آپ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو مسجد قباء کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ مدینہ کی پہلی مسجد تھی۔ دوسری مسجد آپ نے اندرون شہر تعمیر فرمائی جس کو مسجد نبوی کہتے ہیں۔ ان دونوں مسجدوں کی بنیاد تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیز گاری) پر رکھی گئی تھی اس لیے آیت کا مصداق دونوں ہی مسجدیں ہو سکتی ہیں اور صحابہ کے اقوال بھی دونوں کی تائید میں موجود ہیں لیکن چونکہ مسجد نبوی میں یہ وصف بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن چونکہ مسجد نبوی یہ وصف بدرجہ اتم موجود ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول اسی میں کھڑے ہونے اور نماز پڑھنے کا رہا ہے نیز منافقین کا اصل نشانہ بھی اسی مسجد کی اجتماعیت کو پارہ پارہ کرنا تھا اس لیے آیت کا اولین مصداق مسجد نبوی ہی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ "دو اشخاص کے درمیان اس مسجد کے بارے میں جس کی بنیاد اول روز سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اختلاف ہوا۔ ایک نے کہا وہ مسجد قباء ہے اور دوسرے نے کہا وہ مسجد رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ میری یہ مسجد ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور شوکانی نے تفسیر فتح القدیر میں بالکل صحیح فرمایا ہے کہ جب احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد نبوی ہی مراد لی ہے تو حدیث رسول کے مقابلہ میں کسی کے قول کو پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ (فتح القدیر۔ شوکانی، ج ۲ ص ۴۰۶)۔
۱۹۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد ظاہری پاکیزگی بھی ہے اور باطنی پاکیزگی بھی شریعت نے دونوں کے احکام دیئے ہیں اور ان مخلص مؤمنین کا وصف یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے قلب و ذہن کو گناہوں سے پاک رکھتے ہیں اور ساتھ ہی جسمانی پاکیزگی کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے مسجد ضرار کی بنیاد رکھنے والوں کا باطن کفر و نفاق کی نجاست سے آلودہ تھا۔ انہیں نہ قلب کی پاکیزگی کا احساس تھا اور نہ جسمانی پاکیزگی کا خیال۔
۱۹۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو اپنی زندگی کی تعمیر تقویٰ اور رضائے الٰہی جے بجائے خدا سے بے خوفی اور بے نیازی کی بنیاد پر کرتے ہیں جس کا نتیجہ مکمل تباہی کی شکل میں نکلتا ہے اگر وہ اس نتیجہ کو سامنے رکھیں تو انہیں احساس ہو کہ وہ تعمیر کا نہیں بلکہ تخریب کا کام کر رہے ہیں۔
۱۹۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں با مراد نہیں کرتا اور کامیابی کی منزل پر نہیں پہنچاتا۔
۱۹۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک گھناؤنی سازش کو مسجد کا روپ دے کر انہوں نے نفاق کا اپنے دلوں میں ایسا جما دیا ہے کہ وہ اب مرتے دم تک اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔
۱۹۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اس معاہدہ کو جو اہل ایمان اللہ پر ایمان لا کر اس کے ساتھ کرتے ہیں خرید و فروخت کے معاہدہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جان و مال اللہ ہی کے بخشے ہوئے ہیں اور حقیقۃً وہی ان کا مالک ہے لیکن اس آزمائشی زندگی میں اہل ایمان اللہ کی راہ میں جان و مال کی جو قربانیاں پیش کرتے ہیں اس کی قدر اللہ تعالیٰ اس طرح فرماتا ہے کہ گویا وہ ایک سودا ہے جو بندہ اور خدا کے درمیان طے پایا ہے۔ بندہ نے اپنی جان اور اپنا مال اللہ کے ہاتھ فروخت کر دیا ہے اور اللہ اس کی جو قیمت چکانے والا ہے وہ جنت ہے۔
۲۰۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی نہیں چراتے بلکہ جرأت کے ساتھ لڑتے ہیں اور اللہ کے دشمنوں کو مارنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے یہاں تک کہ جام شہادت نوش کر لیتے ہیں۔
۲۰۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد اصل تورات اور انجیل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا۔ اگر موجودہ تورات اور انجیل میں یہ مضمون اس طور سے نہیں ملتا تو اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ اصل تورات اور انجیل میں یہ مضمون نہیں تھا کیونکہ موجودہ تورات اور انجیل تحریف شدہ ہیں اور ان میں اصل کتاب کے چند اجزاء ہی پائے جاتے ہیں تاہم قرآن کے بیان سے ملتی جلتی باتیں موجودہ تورات اور انجیل میں بھی موجود ہیں مثلاً
سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے تو اپنے سارے دل اور ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت رکھ (استثنا، ۶ :۴، ۵)
"مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں کیوں کہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کی ہے۔ " (متی ۵:۱۰)
"جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا۔ "(متی، ۱۰:۳۹)۔
۲۰۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں سچے مومنین کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں اور ان کا پہلا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ توبہ کرتے رہتے ہیں یعنی جب بھی ان سے کوئی لغزش یا گناہ سر زد ہوتا ہے تو وہ اس پر نادم ہو کر اللہ کی طرف پلٹتے ہیں اور اس سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ توبہ کی تشریح سورہ نساء نوٹ ۴۵ اور ۴۶ میں گزر چکی۔
۲۰۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدائے واحد کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی عبادت میں سرگرم رہتے ہیں وہ اللہ کی پرستش ایک بوجھل رسم سمجھ کر نہیں کرتے بلکہ سل کی گہرائی اور جذبات کی وابستگی کے ساتھ کرتے ہیں۔
۲۰۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ اللہ ہی کے گن گاتے ہیں اور اس کی تعریف میں ان کی زبان تر رہتی ہے۔
۲۰۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ دین کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے اپنے گھر اور وطن سے چمٹے نہیں رہتے بلکہ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے سفر کی مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں اور زمین میں گردش کرتے رہتے ہیں مثلاً جہاد فی سبیل اللہ، ہجرت ، حج و عمرہ، دعوت و تبلیغ، علم دین کی طلب، آیات الٰہی کا مشاہدہ دین کی خدمت و اشاعت اور اس کے لیے اجتماعی جد و جہد وغیرہ مقاصد کے لیے سفر کرنا۔
۲۰۶۔۔۔۔۔۔۔۔ رکوع کرنے والے یعنی اللہ کے آگے جھکنے والے سجدہ کرنے والے یعنی اللہ کے لیے اپنا ماتھا زمین پر ٹیک دینے والے۔ رکوع کی شکل یہ ہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر اس طرح جھکا جائے کہ پیٹھ سیدھی رہے۔ اور سجدہ کا طریقہ یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھ دی جائے اور ساتھ ہی ناک ، ہتھیلیاں ، گھٹنے اور پاؤں کی انگلیاں بھی زمین پر رکھ دی جائیں۔ رکوع اور سجدہ نماز کے اہم ارکان ہیں اور ان کے ذکر سے مقصود نماز ہے۔
۲۰۷۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صرف اپنی اصلاح نہیں کرتے بلکہ بندگان خدا کی اصلاح کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ آل عمران نوٹ ۱۳۷۔
۲۰۸۔۔۔۔۔۔۔۔ "حدود اللہ" شرعی احکام و قوانین کی قرآنی تعبیر ہے اور ان کی حفاظت سے مراد ان کی پابندی کرنا ہے نیز اس کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ غیر شرعی احکام و قوانین کی تائید کرنے یا ان کو نافذ کرنے سے آدمی بچے۔
یہ اوصاف جو یہاں بیان کیے گئے ہیں مومنانہ کردار کو منافقانہ کردار سے ممیز کرتے ہیں۔
۲۰۹۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرک اس بات کا منکر ہوتا ہے کہ ایک اللہ کا وفادار بندہ بن کر رہے۔ اس بنا پر وہ اللہ کا باغی اور اس کا دشمن ہوتا ہے۔ پھر جو شخص مرتے دم تک مشرک رہا اس نے اپنے عمل سے یہ ظاہر کر دیا کہ اللہ کا دشمن ہے۔ اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک ناقابل معافی جرم ہے اور ایسے مجرمین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کے لیے یہ بات کس طرح روا ہو سکتی ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں خواہ وہ ان کے اعزاء و اقربا ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ سے دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کیے دشمن کو اہل ایمان اپنا دشمن سمجھیں۔
واضح رہے کہ دعائے مغفرت کی ممانعت جس طرح مشرکوں کے لیے ہے اسی طرح کافروں اور ملحدوں کے لیے بھی ہے کیوں کہ سب کا مشترک جرم کفر ہے جو ناقابل معافی ہے۔
رہا کسی پر اس کے مشرک ہونے کا حکم لگانا تو یہ حکم اس کے ظاہری عقیدہ و عمل کی بنا پر لگایا جائے گا جس طرح کسی کے ظاہری اسلام کو دیکھ کر اسکے مسلمان ہونے کا حکم لگایا جاتا ہے ورنہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ فی الواقع کس کا خاتمہ شرک اور کفر پر ہوا اور کس کا ایمان و اسلام پر اور کون جہنمی ہے اور کون جنتی۔
۲۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے رخصت ہوتے وقت اس کے لیے معافی کی دعا کرتے کا وعدہ کیا تھا جس کا ذکر قرآن میں دوسرے مقامات پر ہوا ہے سورہ مریم میں ہے :۔
سِلَامٌ عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُ لَک رَبِّی اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا۔ (مریم ۴۷)
"سلام ہو آپ پر، میں آپ کے لیے اپنے رب سے معافی کے لیے دعا کروں گا وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔ "
اس سے یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ پھر مسلمان اپنے مشرک قرابت داروں کے لیے دعائے مغفرت کیوں نہ کریں۔ اس شبہ کا یہاں ازالہ کر دیا گیا کہ ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا اس وعدہ کی بنا پر تھا جو انہوں نے اپنے باپ سے کیا تھا لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے دعا کرنا ترک کر دیا۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم اپنے وعدہ کے مطابق اس وقت تک دعا کرتے رہے جب تک کہ ان پر اس کے دشمن خدا ہونے کا پہلو روشن نہیں ہوا تھا۔ جب یہ پہلو روشن ہوا تو انہیں محسوس ہوا کہ کسی مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنا صحیح نہیں خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ احساس پیدا ہوتے ہی وہ دعا کرنے سے رک گئے۔ ابراہیم کا یہ بعد کا عمل ہی اسوہ ہے۔
۲۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ابراہیم چونکہ ایک درد مند اور برد بار انسان تھا اس لیے اس نے اپنے مشرک باپ کے ظالمانہ برتاؤ کو خطر میں لائے بغیر اس کی پوری پوری خیر خواہی کی اور اس کی بدسلوکی کا جواب دعا سے دیا یہاں تک کہ اس پر یہ بات کھل گئی کہ وہ شرک سے باز آنے والا نہیں ہے اور شرک خدا سے دشمنی کے مترادف ہے۔
۲۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دینے کے بعد تم پر وہ تمام باتیں واضح کر دی ہیں جن سے تمہیں بچنا ہے اور جن میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تم اللہ کے دشمنوں کو اپنا دوست نہ سمجھو اور ان کے لیے دعائے مغفرت نہ کرو خواہ وہ تمہارے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں۔
ان صریح ہدایات کے بعد بھی اگر تم نے ان کی پروا نہیں کی تو پھر یاد رکھو اللہ کا قانون ضلالت حرکت میں آسکتی ہے اور تم گمراہی میں پڑ سکتے ہو۔
۲۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب اللہ کی یہ صفات ہیں تو تمہیں تمام معاملات میں اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے اس کی ہدایات پر سختی کے ساتھ پابند ہونا چاہیے اور اسی سے گہری وابستگی ہونی چاہیے۔
۲۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں تَابَ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کا فاعل جب اللہ ہو اور علیٰ کے صلہ کے ساتھ آئے تو اس کے معنی معاف کر نے ، تو نہ قبول کرنے ، رحمت کے ساتھ متوجہ ہونے اور مہربان ہونے کے ہوتے ہیں۔ یہاں یہ لفظ اپنے وسیع مفہوم ہی میں استعمال ہوا ہے لیکن ترجمہ کے لیے کوئی ایسا لفظ ہمیں نہیں مل سکا جو اس کے پورے مفہوم پر حاوی ہو اس لیے اس کا ترجمہ ’اللہ نے معاف کیا‘ کر دیا گیا ہے۔
غزوہ تبوک کے موقع پر اہل ایمان سے جو قصور سرزد ہوئے تھے ان پر پچھلی آیات میں سخت گرفت کی گئی ہے۔ لیکن جب ان میں اپنی غلطی کا احساس پیدا ہو گیا اور انہوں نے معافی مانگ لی تو انہیں قبولیت توبہ کی بشارت سنائی گئی اور اس بشارت کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ جو قصور بھی اس سے پہلے سرزد ہوئے تھے ان سب کے لیے معافی کا اعلان ہو گیا۔ یہ گویا بارانِ رحمت تھی جس نے گرم فضا کو خوش گوار بنا دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے غزوہ تبوک کے موقع پر جو بھول ہوئی تھی اس کا ذکر آیت ۴۳ میں گزر چکا وہ یہ کہ جن لوگوں نے استطاعت کے باوجود جنگ میں شریک نہ ہوتے کی اجازت طلب کی تھی آپ نے ان کو محض نرم دلی اور اپنے کریمانہ اخلاق کی بنا پر اجازت دے دی تھی۔ یہ ایک معمولی فرو گزاشت تھی مگر ؏
جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے
اور جب اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار پر نظر رحمت فرمائی تو سب سے پہلے وہ اپنی رحمت کے ساتھ اپنے نبی کی طرف متوجہ ہوا۔
تنگی کے وقت سے مراد غزوہ تبوک ہے جس کی مشکلات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سخت گرمی کے زمانہ میں تقریباً سات سو کلو میٹر کا طویل سفر غزا اور پانی کی شدید قلت سواری کا یہ حال کہ ایک اونٹ پر باری باری سے کئی افراد سوار ہو جاتے اور پھر مقابلہ روم کی زبردست طاقت سے۔ ایسے سخت وقت میں جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دیا اور اس کڑی آزمائش میں پورے اترے وہ جب مدینہ واپس لوٹے ہیں تو وہاں رحمت الٰہی ان کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ جو قصور ان سے سرزد ہوئے تھے وہ معاف کر دیے گیے اور ان کی توبہ قبول کر لی گئی۔
۲۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کڑی آزمائش میں قریب تھا کہ بعض مخلصین سے بھی کمزوریوں کا صدور ہو جائے مگر ان کا خلوص ان کی کمزوریوں پر غالب آ گیا اور اللہ نے انہیں بھی معاف کر دیا۔
۲۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تین اشخاص کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ ہیں۔ یہ حضرات مخلص مؤمن تھے لیکن محض سستی اور غفلت کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے اس لیے ان کا معاملہ جیسا کہ آیت ۱۰۶ میں بیان ہوا ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اس آیت نے ان کی توبہ کی قبولیت کی بھی بشارت سنا دی۔
۲۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کعب بن مالک نے جو ان تین اشخاص میں شامل ہیں پنا قصہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو بخاری اور دیگر کی حدیث کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تینوں سے یہ کوتاہی ہوئی تھی کہ غزوہ تبوک میں کسی معقول وجہ کے بغیر شریک نہیں ہوئے تھے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو پیچھے رہ جانے والوں نے آ کر اپنے عذرات پیش کر دیے لیکن کعب بن مالک نے حاضر خدمت ہو کر صاف صاف عرض کیا کہ میرے لیے کوئی معقول عذر نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا تم نے سچ کہا اب اٹھو اور اللہ کے فیصلے کا انتظار کرو۔ حضرت کعب فرماتے ہیں کہ میں چلا گیا بعد میں معلوم ہوا کہ مُرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ جو بدری ہیں معاملہ بھی میری ہی طرح ہے۔ وہ دونوں گھر میں بیٹھ گئے اور روتے رہے اور میں باہر جاتا رہا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع کر دیا تھا اس لیے کوئی شخص بھی مجھ سے بات نہ کرتا تھا۔ ایک روز بازار سے گزر رہا تھا کہ ایک شخص نے شاہ غسان کا ایک خط میرے حوالہ کیا جس میں لکھا تھا کہ آپ کے رفیق نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اگر آپ ہمارے پاس آ جائیں تو ہم آپ کی قدر کریں گے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں کہ میں نے اس خط کو بڑھا تو کہ یہ بھی ایک آزمائش ہے اور اس خط کو چولہے میں جھونک دیا۔ جب چالیس روز گزر گیے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ اپنی بیوی سے علیٰحدہ رہو۔ میں نے اس سے کہا کہ میکے چلی جاؤ اور اس وقت تک وہاں رہو جب تک اللہ اس معاملہ میں فیصلہ نہ فرما دے۔ اس حال میں پچاس دن گزر گیے جبکہ میرا جینا دوبھر ہو گیا تھا اور زمین مجھ پر تنگ ہو چکی تھی۔ یکایک ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے قبولیت توبہ کی بشارت دینے کے لیے آیا تھا میرے دونوں ساتھیوں کو بھی بشارت دینے کے لیے لوگ پہنچ گیے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سالم عرض کیا تو آپ کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ آپ نے مجھے بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ آج کا دن تمہاری زندگی میں بہترین دن ہے۔ میں نے عرض کیا میری توبہ کی قبولیت کا تقاضا یہ ہے کہ میں اپنا تمام مال بطور صدقہ پیش کر دوں۔ آپ نے فرمایا بہتر ہے کچھ اپنے لیے رکھ لو۔ میں نے عرض خیبر والا حصہ اپنے لیے رکھ لیتا ہوں۔ میں نے پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی میری توبہ میں یہ بات شامل ہے کہ میں جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا کوئی بات نہ کروں گا (بخاری کتاب المغازی)۔
واضح رہے کہ ان حضرات سے بات کرنے کی جو ممانعت عام مسلمانوں کو کی گئی تھی وہ ایک مخصوص معاملہ تھا جو ان حضرات کے ساتھ کیا گیا اور یہ سب کچھ وحی الٰہی کی رہنمائی میں انجام پایا۔ اس لیے اس کو کسی مسلمان کے معاشرتی بائیکاٹ کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ کمزوریاں تو دوسرے مسلمانوں سے بھی سرزد ہوتی رہیں اور جس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا اسے سزا بھی دے دی گئی لیکن بات نہ کرنے اور سلام کا جواب نہ دینے کا طریقہ کسی کے معاملہ میں بھی اختیار نہیں کیا گیا اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں سے ساتھ جو معاملہ کیا گیا وہ مخصوص تھا اور اس سے معاشرتی بائیکاٹ کا اصول اخذ کرنا صحیح نہیں۔
دوسری بات یہ کہ صحابہ سے بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور انہیں معاف بھی کر دیا گیا ہے اس لیے نہ تو ان کی پچھلی غلطیوں پر مطعون کیا جا سکتا ہے اور نہ انہیں معصوم عن الخطا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور جب صحابہ معصوم نہیں تو "اماموں " کے معصوم ہونے کا عقیدہ جس پر مسلمانوں کے فرقہ کو اصرار ہے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟
قرآن سے اس عقیدہ کا باطل ہونا بالکل واضح ہے۔
۲۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہوا کہ منافقوں نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا جس کے نتیجہ میں نفاق کی جڑیں مضبوط ہو گئیں اور انہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی بخلاف اس کے جن اہل ایمان سے قصور سرزد ہوا تھا انہوں نے سچائی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا اس لیے ان کے اندر ایمانی جذبات ابھرے اور انہیں توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔
سچائی اور راست بازی کی ان برکتوں کے پیش نظر عام مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے کہ سچے اور راست باز لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ یعنی مخلص اور متقی مؤمنوں کے ساتھ ربط ضبط رکھو ان کی رفاقت اختیار کرو ان کی صحبت میں رہو اور دین کی اجتماعی جدوجہد میں ان ہی کی تائید و حمایت کرو۔ اور منافقانہ رویہ اختیار کرنے والوں سے بچ کر رہو۔
۲۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ غزوہ تبوک سے بلا عذر پیچھے رہ جانے والوں پر گزشتہ آیات میں جو سخت گرفت کی گئی تھی اس کی اصل وجہ وہ ہے جو اس آیت میں بیان کر دی گئی ہے یعنی جہاد جیسے اہم اور نازک موقع پر انکا اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینا اور گھر بیٹھے رہنا۔ رسول تو اپنی جان جوکھموں میں ڈال دے اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے گوشہ عافیت ڈھونڈیں۔
۲۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب جہاد کی یہ فضیلت ہے کہ قدم قدم پر اجر سمیٹا جا سکتا ہے اور اپنے دامن کو آخرت کی دولت سے بھر جا سکتا ہے تو پھر اس راہ کی کوئی تکلیف تکلیف نہیں رہتی بلکہ سعادت کے حصول کا ذریعہ بن جاتی ہے اور اس کا نفسیاتی پہلو یہ ہے کہ آدمی کو جب یقین ہو جاتا ہے کہ وہ فلاں وادی کو طے کر کے گوہر مقصود کو پا سکتا ہے تو پھر راہ کی صعوبتیں اس کے لیے آسان ہو جاتی ہیں اور وہ جوئے شیر لانے کے لیے بھی تیار ہو جاتا ہے۔
۲۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جو مسلمان مدینہ سے دور رہتے تھے ان کے لیے مجلس نبوی کی حاضری مشکل تھی اور اس مشکل نے ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں مسائل پیدا کر دیے تھے۔ ایک طرف اسلام کا حلقہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا تھا اور دوسری طرف تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے نام نہاد مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اسی مسئلہ کا حل اس آیت میں پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام مسلمان تو دین کا علم اور فہم حاصل کرنے کے لیے مدینہ نہیں آ سکتے لیکن ہر بستی اور ہر قبیلہ کے لوگوں میں سے کچھ لوگ تو ایسے نکل سکتے ہیں جو مرکز علم میں آ کر دین کا علم حاصل کریں اور اس میں سمجھ پیدا کریں اور پھر واپس جا کر اپنی بستی یا اپنے قبیلہ والوں کو اس سے آگاہ کریں تاکہ ان میں دین کا شعور پیدا ہو اور وہ نافرمانی اور گناہ کی باتوں سے بچیں۔
اس سے جو اصولی ہدایتیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں :
۱)۔ علم دین بنیادی اہمیت رکھنے والی چیز ہے۔ لوگ اگر شرعی حدود سے واقف نہ ہوں تو وہ صحیح اسلامی زندگی بسر نہیں کر سکتے اور اگر دین کا شعور نہ ہو تو ان میں گناہ کی ذہنیت یہاں تک کہ کفر و نفاق بھی پرورش پا سکتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں میں علم دین کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
۲)۔ علم دین کو عام کرنے کے لیے حالات کی مناسبت سے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ایک صورت یہ ہے کہ تعلیم و تربیت اور ارشاد و تدریس کے مرکز قائم کیے جائیں اور وہاں متعلقہ علاقہ کے ہر گوشہ سے لوگوں کی ایک تعداد پہنچ کر استفادہ کرے اور پھر اپنے اپنے مقام پر پہنچ کر عام لوگوں کو دین کی تعلیمات سے واقف کرانے کی کوشش کرے۔
موجودہ زمانے میں یہ کام مقامی طور سے بھی انجام پا سکتا ہے مثلاً مساجد میں قرآن و حدیث کے درس کا سلسلہ دینی اجتماعات ، مدارس وغیرہ۔
۳)۔ دینی تعلیم و تربیت کی ضرورت بچوں کے لیے بھی ہے اور بڑوں کے لیے بھی ، اس لیے بڑوں کو نظر انداز کر کے صرف بچوں کی تعلیم پر اکتفا کرنا صحیح نہیں۔
آیت میں اصلاً بڑوں میں دین کا شعور پیدا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
۴)۔ دین کی تعلیم میں اصل اہمیت تَفَقُّہ کو ہے یعنی اس بات کو کہ دین کی سمجھ پیدا ہو جائے یہ مقصد رسمی قسم کی تعلیم سینے یا محض فقہی معلومات بہم پہنچانے سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے ایسی تعلیم کی ضرورت ہے کہ آدمی اپنے رب کو پہچان لے۔ اپنے مقصد زندگی سے آشنا ہو جائے اور یہ بات اس کے ذہن نشین ہو جائے کہ دین اس سے مخلصانہ پیروی کا مطالبہ کرتا ہے اور اسلام یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور سے اللہ کے حوالہ کر دیا جائے۔ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی زندگی کے خد و خال کیا ہیں ، شرعی حدود کی پاسداری کا مطلب کیا ہے ، تقویٰ کی حقیقت کیا ہے اور قرآن نے کن لوگوں کو متقی کہا ہے۔
۵)۔ تعلیم و تربیت کا اصل مقصود لوگوں کو غیر اسلامی زندگی کے نتائج بد سے آگاہ کرنا ہے تاکہ ان میں آخرت کی جوابدہی کا احساس پیدا ہو اور صحیح اسلامی زندگی گزارنے کے لیے وہ آمادہ ہو جائے۔
۶)۔ دین کا ٹھوس علم اور اس کی سمجھ اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب کہ قرآن کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
۷)۔ علم دین کے لیے اگر ضروری ہو تو سفر کرنا چاہیے۔
۲۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاد سے متعلق یہ آخری حکم ہے جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے اور اس سے یہ بات ذہن نشین کرانی مقصود ہے کہ اگرچہ عرب پر اسلام کا اقتدار قائم ہو گیا ہے لیکن اس سے امت مسلمہ کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوئیں۔ وہ جس مقصد کے لیے برپا کی گئی ہے اس کا تقاضا ہے کہ جہاد کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے تاکہ بہ تدریج اسلام کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے اور وہ ایک غالب طاقت بن جائے۔ اس کی عملی شکل یہ ہو گی کہ کافروں کا جو علاقہ یا جو ملک اسلامی ریاست کی حدود سے قریب اور متصل ہو اس سے پہلے جنگ کی جائے اور اس کے بعد اسی نسبت سے جو قریب ہو اس سے۔
یہ حکم مطلق ہے اس لیے دفاعی جنگ تک اس کو محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی ریاست اپنے اور مسائل کے مطابق اقدام کرنے کی مجاز ہے۔
رئیس المفسرین ابن جریر طبری نے بھی اس کو مطلق معنی ہی میں لیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ دار کے لحاظ سے جو (کفار) تم سے اقرب ہو ان سے تم پہلے لڑو پھر ان سے جو اس کے بعد اقرب ہوں۔ دور کے کافروں سے نہیں۔ اس وقت اس آیت کے مخاطبین سے قریب تر رومی تھی کیونکہ وہ شام میں آباد تھے اور شام مدینہ سے عراق کی بہ نہ نسبت قریب تھا۔ "(تفسیر طبری ج ۷ ص ۵۲)۔
اور معاصر مفسر سید قطب فرماتے ہیں :
"اس حکم میں کافروں کے مسلمانوں پر زیادتی کرنے اور ملک پر جارحانہ حملہ کرتے کا کہیں ذکر نہیں ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ یہ آخری حکم تھا جو اس دین پر عمل درآمد کو بنیاد قرار دیتا ہے اور اسی سے جہاد کا اصول نکلا ہے۔ یہ ان احکام کی طرح جو مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے ابتدائی مرحلہ سے تعلق رکھتے تھے محض دفاع سے تعلق رکھنے والا حکم نہیں ہے۔
بعض لوگ نو آج اسلام کے بین الاقوامی تعلقات اور اسلام میں جہاد کے احکام پر بحث کرتے ہیں نیز بعض وہ جو جہاد سے متعلق آیات قرآنی کی تفسیر سے تعرض کرتے ہیں چاہتے ہیں کہ اس آخری نص قرآنی کو ان کے ساتھ مشروط مانیں جو سابق مرحلہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اس کے لیے زیادتی کے وقوع یا اندیشہ کی قید لگائیں حالانکہ نص قرآنی اپنی جگہ بالکل مطلق ہے اور (جہاد کے باب میں ) یہ آخری نص ہے۔ "(فی ظلال القرآن، ج۳ ص ۱۷۳۷)۔
یہ اقدامی جنگ انسانیت کو جہالت کی تاریکیوں سے نکالنے انسانوں کی غلامی سے آزاد کرنے اور کفر کی تباہ کاریوں سے نجات دلانے لیے ہوتی ہے اس لیے اس میں اور ملک گیری کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں زمین آسمان کا فرق ہے ؎
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک نہاں میں
شاہیں کا نہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی وفات سے چند روز قبل اسامہ بن زید کی قیادت میں جو لشکر رومیوں کے مقابلہ کے لیے شام کی طرف روانہ کیا تھا وہ اسی ارشاد الٰہی کی تعمیل تھی اور بعد میں یرموک وغیرہ کے جو معرکے پیش آئے وہ بھی اسی حکم کی تعمیل میں تھے۔
مزید تشریح کے لیے دیکھیے نوٹ ۵۷۔
۲۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ جان لیں کہ تم کافروں پر سخت ہو اور باطل کے آگے جھکنے والے نہیں ہو۔ ان کے معاملہ میں تمہارے اندر ڈھیلا پن نہیں ہونا چاہیے کہ وہ تمہیں نرم چارہ سمجھنے لگیں بلکہ تمہارے اندر ایسی پختگی اور صلابت ہونی چاہیے کہ انہیں اندازہ ہو جائے کہ یہ لوہے کے چنے ہیں چبانا آسان نہیں۔
اسی ہدایت کا اثر تھا کہ مسلمان فارس و روم کی عظیم طاقتوں کے مقابلہ کے لیے سینہ سپر ہوئے اور نہ کسریٰ کو خاطر میں لایا اور نہ قیصر کو۔
۲۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا کافروں سے جنگ کرتے وقت اور ان کے ساتھ سختی کا معاملہ کرتے ہوئے تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور یہ سارے کام شرعی حدود میں رہ کر انجام دینے چاہئیں۔
۲۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح اوپر کی آیت میں آخری حکم تھا جو کافروں کے بارے میں اہل ایمان کو دیا گیا۔ اسی طرح ان چند آیتوں میں منافقوں کے بارے میں آخری باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ان منافقین کے بارے میں جن کا ذکر اس سورہ میں تفصیل سے ہوا ہے۔
۲۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان میں اضافہ سے مراد کیفیت ایمانی میں اضافہ ہے۔ اس کی تشریح سورہ انفال نوٹ ۳ میں گزر چکی۔
۲۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کو دلوں میں نفاق کا روگ تھا ان کے اس خبث باطنی میں نئی سورہ کے نزول سے اضافہ ہی ہوا جس شخص کی آنکھ ہی بیمار ہو اس کو سورج کی روشنی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ اس کی تکلیف میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ یہ منافقین نہایت گھناؤنے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنے کو صحت مند خیال کرتے تھے اور جب انہیں علاج کی طرف توجہ دلائی جاتی تو وہ اپنے صحت مند ہونے کا دعویٰ کرتے۔ نتیجہ یہ کہ وہ قرآن سے اس کے نسخہ شفا ہونے کے باوجود کوئی فائدہ اٹھا نہ سکے اور سورہ برأۃ جیسی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی سورت سے بھی ان کے اندر بیداری پیدا نہ ہو سکی۔
۲۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سال میں ایک دو مرتبہ کوئی نہ کوئی آزمائش ضرور پیش آتی رہتی ہے کبھی جہاد کی سکل میں اور کبھی کسی اور شکل میں تاکہ یہ آزمائشیں توبہ اور اصلاح کا ذریعہ بنیں لیکن ان منافقوں کے دل ایسے سخت ہو گئے ہیں کہ انہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور ان کی عقل چونکہ ماری گئی ہے اس لیے کسی واقعہ اور کسی حادثہ سے وہ سبق حاصل نہیں کرتے۔
۲۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ منافقین اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کے لیے مجلس نبوی میں شریک تو ہوتے تھے لیکن جب کوئی ایسی سورت نازل ہوتی جس میں منافقین کو بے نقاب کیا گیا ہے تو انکے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگتیں اور وہ اپنے ساتھیوں سے اشارہ میں کہتے کہ تم کو اس حال میں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے اور پھر موقع پاکر نکل جاتے۔ ان کی اسی حالت کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔
۲۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آخری دو آیتیں نزول قرآن کے اعتبار سے بجز سورہ نصر کے اللہ کا آخری کلام ہیں جن میں الوداعی پیام دیا گیا ہے۔ رسول کی بعثت اگر چہ اہل عرب کی طرف براہ راست ہوئی تھی مگر بالواسطہ آپ کی رسالت تا قیامت تمام اقوام کے لیے ہے۔
"تم ہی میں سے ہے " کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ رسول عربوں ہی میں سے ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ انسانوں ہی میں سے ہے اس لیے تمام انسان بہ آسانی اس سے مانوس ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی قوم کو اس سے قریب ہونے میں اجنبیت محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ کا قاصد ہوتا ہے اس لیے اس کے ساتھ اپنائیت برتنے میں ملک و قوم کی دیواریں حائل نہیں ہونی چاہئیں۔
۲۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ تمام انسانوں کے لیے ایک درد مند دل رکھتا ہے اس لیے تم کو ہلاکت سے بچانے کے لیے بے چین ہے اور یہ تصور اس کے لیے سخت تکلیف وہ ہے کہ تم جہنم میں ابدی سزا بھگتنے کے جھونک دیئے جاؤ۔
۲۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ انسانیت کا خیر خواہ ہے اور چاہتا ہے کہ تم بھلائی کی راہ اختیار کر کے اپنے دامن کو خیر سے بھر دو اور آخرت میں با مراد ہو جاؤ۔
۲۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان لانے والوں میں عربی بھی تھے اور عجمی بھی اور ان سب کے حق میں پیغمبر شفیق اور مہربان تھے۔ صہیب رومی، سلمان فارسی اور بلال حبشی سب نور نبوت کے پروانے تھے اور آپ کا فیض قومیت کے امتیاز کے بغیر تمام اہل ایمان کے لیے عام تھا۔
۲۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس شان کا جو رسول ان کی طرف بھیجا گیا ہے اس کی اگر لوگ قدر نہیں کرتے اور اس پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں تو۔۔۔۔
۲۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آخری بات ہے جو رسول کی زبان سے کہلوائی گئی ہے اس میں توحید کے ساتھ استغناء اور توکل کی شان کا بھی اظہار ہے۔ رسول نے دعوت کا آغاز توحید سے کیا تھا اور الوداعی پیغام میں بھی توحید ہی کو پیش کیا ہے۔