تفسیر ابنِ کثیر

سُوۡرَةُ التّوبَة

یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر اتری ہے بخاری شریف میں ہے سب سے آخر آیت یسفتونک الخ، اتری اور سب سے آخری سورت سورہ برأۃ اتری ہے۔ اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ہے کہ اصحاب نے امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر کے اسے قرآن میں لکھا تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے حضرت عثمان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے آپ نے سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ برأہ کو مومئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور پہلے کی ساتھ لمبی سورتوں میں انہیں رکھیں؟ آپ نے جواب دیا کہ بسا اوقات حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک ساتھ کوئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاح سورت میں لکھ دو جس میں یہ یہ ذکر ہے۔ سورۃ انفال مدینہ شریف میں سب سے پہلے نازل ہوئی اور سورہ براہ سب سے آخر میں اتری تھی بیانات دونوں کے ملے جلتے تھے مجھے ڈر لگا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں دونوں سورتوں کو متصل لکھیں اور انکے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھیں اور ساتھ پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت ترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ حج کا کا زمانہ تھا مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔ آپ نے ان میں اختلاف ہونا ناپسند فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کو امام بنا کر اس سال مکہ شریف روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عالم لوگوں میں اعلان کر دیں۔ آپ کے پیچھے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں جیسے کہ اس کا تفصیل بیان آ رہا ہے۔ انشاء اللہ۔ پس فرمان ہے کہ یہ بے تعلق ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق پہچان سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمب عہد تھا وہ بدستور باقی رہا۔ جیسے فرمان ہے کہ فاتمو الیھم عہد ہو الی مدتھم ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گذار جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم الحرام تک کے پچاس دن۔ اس مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الاخر تک اپنی تیاری کر لیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آ جائیں یہ واقعہ ۹ھ کا ہے۔ آپ نے حضرت ابوبکر کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور حضرت علی کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں۔ آپ نے ان کے ڈیروں میں گھروں میں منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ قبیلہ خزاعہ قبیلہ مد لج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔ تبوک سے آ کر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اُس سال حضرت ابوبکر کو اور حضرت علی کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جوہر دکھائیں گی بیس دن ذی الحجہ کے محرم پورا صفر پورا اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الا خر کے۔ زہری کہتے ہیں شوال محرم تک کی ڈھیل تھی لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟

 

۳

حج اکبر کے دن اعلان

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی برے حج کے دن۔ یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم مشرکوں سے بری الذمہ بیزار ہے اور الگ ہے اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کر لو نیک بن جاؤ اسلام قبول کر لو، شرک و کفر چھوڑ دو اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بی عذاب کرے گا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے یے بھیجے گئے تھے بھیجا۔ ہم نے منادی کر دی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو بھیجا کہ سورہ برأۃ کا اعلان کر دیں پس آپ نے بھی منیٰ میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی۔ حج اکبر کا دن بقرہ عید کا دن ہے۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان کے بعد حجۃ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا۔ حنین کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال حضرت الصدیق کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو بھیجا کہ برات کا اعلان کر دیں امیر حج حضرت اعلیٰ کے آنے کے بعد بھی حضرت الصدیق ہی رہے رضی اللہ عنہما لیکن اس روایت میں غربت ہے عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج حضرت عتاب بن اسید تھے حضرت ابوبکر تو سنہ ٩ ھ میں امیر حج تھے۔ مسند کی روایت میں ہے حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں اس سال حضرت علی کے ساتھ میں تھا ہم نے پکار پکار کر منادی کر دی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کر سکے گا۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے، اس مدت کے گزر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجات نہیں۔ حضرت ابو ہرہرہ فرماتے ہیں۔ یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پر گیا۔ حضرت علی کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کر دی تھی۔ ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں۔ مسند میں ہے کہ برأۃ کا اعلان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابوبکر کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا پھر آپ نے حضرت علی کو بھیجا حضرت علی فرماتے ہیں سورہ برات کی دس آیتیں جب اتریں آپ نے حضرت ابوبکر کو بلا کر فرمایا انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تم جاؤ ابوبکر سے تم ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جا کر انہیں پڑھ سنانا میں چلا حجفہ میں جا کر ملاقات ہوئی۔ میں ان سے کتاب لے لی آپ واپس لوٹے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم پور نور سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو۔ اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں حضرت ابوبکر اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت علی سے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو حضرت علی نے عذر پیش کیا کہ میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں آپ نے فرمایا لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے حضرت علی نے کہا اگر یہی ہے تو لیجے میں جاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے۔ پھر اپنا ہاتھ ان کے منہ پر رکھا۔ لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا کہ حج کے موقع پر حضرت ابوبکر کے ساتھ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا؟ آپ نے وہی اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں۔ مسند وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا اور حدیث میں ہے کہ آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں حضرت صدیق اکبر کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن حضرت علی نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ احکام پہنچائے۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہو گئی۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا۔ اور روایت میں ہے کہ ابوبکر صدیق کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے ان کے پاس چالیس آیتیں سورۃ برات کی دے کر بھیجا تھا آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا۔ پھر حضرت علی سے فرمایا اُٹھئے اور سرکار رسالت مآب کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئے۔ پس حضرت علی نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ پھر لوٹ کر منیٰ میں آ کر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں اونٹ نحر کیا سر منڈوایا پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود تنے اس لیے میں ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کر دی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا۔ ابو اسحٰق کہتے ہیں میں نے ابو حجیفہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کونسا دن ہے؟ آپ نے فرمایا عرفے کا دن۔ میں نے کہا یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یا صحابہ سے سنا ہوا۔ فرمایا سب کچھ یہی ہے۔ عطاء بھی یہی فرماتے ہیں حضرت عمر بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے۔ راوی کہتا ہے میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ لوگوں نے کہا حضرت سعید بن مسیب ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہترین شخص کو بتاؤ وہ مرو بن عمر ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے۔ (ابن ابی حاتم وغیرہ) اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے۔ کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن۔ حضرت علی یہی فرماتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت علی بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کر لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے۔ عبد اللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا آج ہی اک دن یوم الاضحیٰ ہے آج ہی کا دن یوم المخر ہے۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقرہ عید کا دن ہے۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔ صحیح بخاری کے ھوالے سے پہلے حدیث گزر چکی ہے۔ کہ حضرت ابوبکر سے منادی کرنے والوں کو منیٰ میں عید کے دن بھیجا تھا۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حجۃ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا یہی دن حج کا اکبر کا دن ہے اور روایت میں ہے کہ آپ کی اونٹنی سرخ رکگن کی تھی آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جانتے بھی ہوں؟ آج کیا دن ہے؟ لوگوں نے کہا قربانی کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے۔ آپ نے صحابہ سے پوچھا کہ یہ کونسا دن ہے جانتے ہو؟ ہم اس خیال سے خاموش ہو گئے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور ہی نام بتائیں۔ آپ نے فرمایا یہی حج اکبر کا دن نہیں؟ اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عید کے بعد کا دن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے۔ سفیان بھی یہی کہتے ہیں کہ جیسے یوم جمل یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہی بھی ہے۔ حسن بصری سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر حضرت ابوبکر صدیق تھے۔ ابن سیرین اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ کا اور عام لوگوں کا حج ہوا۔

 

۴

عہدہ نامہ کی شرف

پہلے جو حدیثیں بیان ہو چکی ہیں ان کا اور اس آیت مضمون ایک ہی ہے اس سے صاف ہو گیا کہ جن میں مطلقاً عہد و پیمان ہوئے تھے انہیں تو چار ماہ کی مہلت دی گئی کہ اس میں وہ اپنا جو چاہیں کر لیں اور جن سے کسی مدت تک عہد پیمان ہو چکے ہیں وہ سب عہد ثابت ہیں بشرطیکہ وہ لوگ معاہدے کی شرائط پر قائم رہیں نہ مسلمان کو خود کوئی ایذا پہنچائیں نہ ان کے دشمنوں کی کم اور امداد کریں اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے پورے لوگوں سے محبت رکھتا ہے۔

 

۵

جہاد اور حرمت والے مہینے

حرمت والے مہینوں سے مراد یہاں وہ چار مہینے ہیں جن کا ذکر آیت منھا اربعۃ حرم الخ، میں ہے پس ان کے حق میں آخری حرمت والا مہینہ محرم الحرام کا ہے ابن عباس اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے لیکن اس میں ذرا تامل ہے بلکہ مراد اس سے یہاں وہ چار مہینے ہیں جن میں مشرکین کو پناہ ملی تھی کہ ان کے بعد تم سے لڑائی ہے چنانچہ خود اسی سرت میں اس اک بیان اور آیت میں آ رہا ہے۔ فرماتا ہے ان چار ماہ کے بعد مشرکوں سے جنگ کرو انہیں قتل کرو، انہیں گرفتار کرو، جہاں بھی پاؤ پس یہ عامل ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ خاص ہے حرم میں لڑائی نہیں ہو سکتی جیسے فرمان ہے ولا تقاتلو ھم عند المسجد الحرام الخ، یعنی مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک کہ وہ اپنی طرف سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔ اگر یہ وہاں تم سے لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑائی کرنے کی اجازت ہے۔ چاہو قتل کرو، چاہو قید کر لو، ان کے قلعوں کا محاصرہ کرو ان کے لیے ہر گھاٹی میں بیٹھ کر تاک لگاؤ انہیں زد پر لا کر مارو۔ یعنی یہی نہیں کہ مل جائیں تو جھڑپ ہو جائے خود چڑھ کر جاؤ۔ ان کی راہیں بند کرو اور انہیں مجبور کر دو کہ یا تو اسلام لائیں یا لڑیں۔ اس لیے فرمایا کہ اگر وہ توبہ کر لیں پابند نماز ہو جائیں زکوٰۃ دینے کا مانعین سے جہد کرنے کی اسی جیسی آیتوں سے حضرت ابوبکر صدیق نے دلیل لی تھی کہ لڑائی اس شرف پر حرام ہے کہ اسلام میں داخل ہو جائیں اور اسلام کے واجبات بجا لائیں۔ اس آیت میں ارکان اسلام کو ترتیب وار بیان فرمایا ہے اعلیٰ پھر ادنیٰ پس شہادت کے بعد سب سے بڑا رکن اسلام نماز ہے جو اللہ عزوجل کا حق ہے۔ نماز کے بعد زکوٰۃ ہے جس کا نفع فقیروں مسکینوں محتاجوں کو پہنچتا ہے اور مخلوق کا زبردست حق جو انسان کے ذمے ہے ادا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نماز کے ساتھ ہی زکوٰۃ کا ذکر اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے۔ بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے حکم کیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد جاری رکھو، جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ کوئی معبود بجز اللہ کے نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم رسول اللہ ہیں اور نمازوں کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ تمہیں نمازوں کے قائم کرے اور زکوٰۃ دینے کا حکم کیا گیا ہے جو زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز بھی نہیں۔ حضرت عبد الرحمن بن زید بین اسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ہرگز کسی کی نماز قبول نہیں فرماتا جب تک وہ زکوٰۃ ادا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے آپ کی فقہ سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ جو آپ نے زکوٰۃ کے منکروں سے جہاد کیا۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک کہ وہ یہ گواہی نہ دیں کہ بجز اللہ تعالیٰ برحق کے اور کوئی لائق عبادت نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ ان دونوں باتوں کا اقرار کر لیں، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر لیں، ہمارا ذبیحہ کھانے لگیں، ہم جیسی نمازیں پڑھنے لگیں تو ہم پر ان کے خون ان کے مال حرام ہیں مگر احکام حق کے ماتحت انہیں وہ حق حاصل ہے جو اور مسلمانوں کا ہے اور ان کے ذمے ہر وہ چیز جو اور مسلمانوں کے ذمے ہے یہ روایت بخاری شریف میں اور سنن میں بھی ہے سوائے ابن ماجہ کے۔ ابن جریر میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو دنیا سے اس حال میں جائے کہ اللہ تعالیٰ اکیلے کی خالص عبادت کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو تو اس وس حال میں جائے گا کہ اللہ اس سے خوش ہو گا۔ حضرت انس فرماتے ہیں یہی اللہ کا دین ہے اسی کو تمام پیغمبر علیہم السلام لائے تھے اور اپنے رب کی طرف سے اپنی اپنی اُمتوں کو پہنچایا تھا اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں ادھر ادھر لگ جائیں اس کی سچائی کی شہادت اللہ کی آخری وحی میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فان تابوا واقاموا السلوۃ واتو الزکوٰۃ فخلوا سبیلھم پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق ہے پس توبہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ واحد برحق کے سوا اوروں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں نماز اور زکوٰۃ کے پابند ہو جائیں اور آیت میں ہے کہ ان تینوں کاموں کے بعد وہ تمہارے دینی برادر ہیں ضحاک فرماتے ہیں یہ تلور کی آیت ہے اس نے ان تمام عہدو پیمان کو چاک کر دیا، جو مشرکوں سے تھے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ برات کے نازل ہونے پر چار مہینے گزر جانے کے بعد کوئی عہدو ذمہ باقی نہیں رہا۔ پہلی شرطیں برابری کے ساتھ توڑ دی گئیں۔ اب اسلام اور جہاد باقی رہ گیا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو چار تلواروں کے ساتھ بھیجا ایک تو مشرکین عرب میں فرماتا ہے فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔ یہ روایت اسی طرح مختصراً ہے۔ میرا خیال ہے کہ دوسری تلوار اہل کتاب میں فرماتا ہے قاتلو الذین لا یومنون باللّٰہ الخ، اللہ تابرک و تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہ لانے والوں اور اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہ ماننے والوں اور اللہ کے سچے دین کو قبول کرنے والوں سے جو اہل کتاب ہیں جہاد کرو تاوقتیکہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا قبول کر لیں۔ تیری تلوار منافقوں میں فرمان ہے یا ایھالنبی جاہد الکفار والمنافقین الخ، اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ارشاد ہے وان طائفتان من المومنین اقتتلو الخ، اگر مسلمانو کی دو جماعتوں میں لڑائی ہو جائے تو ان میں صلح کرا دو پھر بھی اگر کوئی جماعت دوسری کو دباتی چلی جائے تو ان باغیوں سے تم لڑوں جب تک کہ وہ پلٹ کر اللہ کے حکم کی ماتحتی میں نہ آ جائے۔ ضحاک اور سدی کا قول ہے کہ یہ آیت تلوار آیت فما منا بعد واما فداء سے منسوخ ہے یعنی بطور احسان کے یا فدیہ لے کر کافر قیدیوں کو چھوڑ دو۔ قتادہ اس کے برعکس کہتے ہیں پچھلی آیت پہلی سے منسوخ ہے۔

 

۶

امن مانگنے والوں کو امن دو منافقوں کی گردن ماردہ

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے اگر کوئی آپ سے امن طلب کرے تو آپ اس کی خواہش پوری کر دیں اسے امن دیں یہاں تک کہ وہ قرآن کریم سن لے آپ کی بائیں سن لے دین کی تعلیم معلوم کر لے حجت ربانی پوری ہو جائے۔ پھر اپنے امن میں ہی اے اس کے وطن پہنچا دو بے خوفی کے ساتھ یہ اپنے امن کی جگہ پہنچ جائے ممکن ہے کہ سوچ سمجھ کر حق کو قبول کر لے۔ یہ اس لئے ہے کہ یہ بے علم لوگ ہیں انہیں دینی بائیں سننے سمجھنے کے لئے آئے خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو وہ امن میں ہے یہاں تک کہ کلام اللہ سنے پھر جہاں سے آیا ہے وہاں با امن پہنچ جائے اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کو جو دین سمجھنے اور اللہ کی طرف سے لائے ہوئے پیغام کو سننے کے لئے آتے انہیں امن دے دیا کرتے تھے حدیبیہ والے سال بھی قریش کے جتنے قاصد آئے یہاں انہیں کوئی خطرہ نہ تھا۔ عروہ بن مسعود، مکرزبن حفص، سہیل بن عمرو وغیرہ یکے بعد دیگرے آتے رہے۔ یہاں آ کر انہیں وہ شان نظر آئی جو قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہ تھی یہی انہوں نے اپنی قوم سے کہا پس یہ رویہ بھی بہت سے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں پہنچا آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم مسلیمہ کی رسالت کے قائل ہو؟ اس نے کہاں ہاں آپ نے فرمایا اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک ناجائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ آخر یہ شخص حضرت ابن مسعود کوفی کی امارت کے زمانے میں قتل کر دیا گیا اے ابن النواحہ کہا جاتا تھا آپ کو جب معلوم ہوا کہ یہ مسیلمہ کا مانے والا ہے تو آپ نے بلوایا اور فرمایا اب تو قاصد نہیں ہے اب تیری گردن مارنے سے کوئی امر مانع نہیں چنانچہ اسے قتل کر دیا گیا اللہ کی لعنت اس پر ہو۔ الغرض دارالحرب سے جو قاصد آئے یا تاجر آئے یا صلح کا طالب آئے یا آپس میں اصلاح کے ارادے سے آئے یا جزیہ لے کر حاضر ہو امام یا نائب امام نے اسے امن و امان دے دیا ہو تو جب تک وہ دار الاسلام میں رہے یا اپنے وطن نہ پہنچ جائے اسے قتل کرنا حرام ہے۔ علماء کہتے ہیں ایسے شخص کو دار الاسلام میں سال بھر تک نہ رہنے دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک وہ یہیں ٹھہر سکتا ہے پھر چار ماہ سے زیادہ اور سال بھر کے اندر دو قول ہیں امام شافعی وغیرہ علماء کے ہیں رحمہم اللہ تعالیٰ۔

 

۷

پابندی عہد کی شرائط

اوپر والے حکم کی حکمت تم بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے شرف و کفر کو چھوڑ نے اور اپنے عہدو پیمان پر قاء رہنے والے ہی نہیں۔ ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا۔ یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی۔ ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کے قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ اسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شرف ٨ ہجر میں حضور نے ان پر چڑھائی کی۔ رب العالمیں مکہ آپ کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ کے بس کر دیا۔ وللّٰہ الحمد المنہ لیکن آپ نے باوجود غلطہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیا سب کو آزاد کر دیا نہیں لوگوں کو مطلقاً کہتے ہیں۔ یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہو گئے رحمۃ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں میں صفوان اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے کی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے۔

 

۸

کافروں کی دشمنی

اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا۔ یہ تو وقت کے منظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں۔ آل کے معنی قرابت داری کے ہیں۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا۔ یہی لفظ ال ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے۔

 

۹

جہاد ہی راہ اصلاح ہے

مشرکوں کی مذمت کے ساتھ ہی مسلمانوں کو ترغیب جہاد دی جا رہی ہے کہ ان کافروں نے دنیائے خسیس کو آخرت نفیس کے بدلے پسند کر لیا ہے خود راہ رب سے ہٹ کر مومنوں کو بھی ایمان سے روک رہے ہیں ان کے اعمال بہت ہی بد ہیں یہ تو مومنوں کو نقصان پہنچانے کے ہی درپے ہیں نہ انہیں رشتے داری کا خیال نہ معاہدے کا پاس۔ ہے جو دنیأاے کو اس حال میں چھوڑے کہ اللہ کی عبادتیں خلوص کے ساتھ کر رہا ہو اس کے ساتھ کسی کو شریف نہ بناتا ہو نماز و زکوٰۃ کا پابند ہو تو اللہ اس سے خو ہو کر ملے گا یہی اللہ کا وہ دین ہے جسے انبیاء علیہم السلام لاتے رہے اور اسی کی تبلیغ اللہ کی طرف سے وہ کرتے رہے اس سے پہلے کہ باتیں پھیل جائیں اور خواہشیں بڑھ جائیں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں موجود ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں یعنی بتوں کو اور بہت پرستی کو چھوڑ دیں اور نمازی اور زکواتی بن جائیں تو تم ان کے رستے چھوڑ دو اور آیت میں ہے کہ پھر تو یہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ امام بزار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال سے تو مرفوع حدیث وہیں یہ ختم ہے کہ اللہ اس سے رضامند ہو کر ملے گا اس کے بعد کا کلام راوی حدیث ربیع بن انس رحمۃ اللہ علیہ کا ہے واللہ اعلم۔

 

۱۲

وعدہ خلاف قوم کو دندان شکن جواب دو

اگر یہ مشرک اپنی قسموں کو توڑ کر وعدہ خلافی اور عہد شکنی کریں اور تمہارے دین پر اعتراض کرنے لگیں تو تم ان کے کفر کے سروں کو توڑ مروڑ دو۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو گالیاں دے، دین میں عیب جوئی کرے، اس کا ذکر اہانت کے ساتھ کرے اسے قتل کر یا جائے۔ ان کی قسمیں محض بے اعتبار ہیں۔ یہی طریقہ ان کے کفر و عباد سے روکنے کا ہے۔ ابوجہل عتبہ، شیبہ امیہ وغیرہ یہ سب سرداران کفر تھے۔ ایک خارجی نے حضرت سعد بن وقاص کو کہا کہ یہ کر کے پیشواؤں میں سے ایک ہے آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے میں تو ان میں سے ہوں جنہوں نے کفر کے پیشواؤں کو قتل کیا تھا۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں۔ اس آیت والے اس کے بعد قتل نہیں کئے گئے۔ حضرت علیٰ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آیت عام ہے گو سبب نزول کے اعتبار سے اس سے مراد مشرکین قریش ہیں لیکن حکماء یہ انہیں اور سب کو شامل ہے واللہ اعلم۔ حضرت ابوبکر نے شام کی طرف لشکر بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تمہیں ان میں کچھ لوگ ایسے ملیں گے جن کی چندھیا منڈی ہوئی ہو گی تو تم اس شیطانی بیٹھک کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دینا واللہ ان میں سے ایک کا قتل دوسرے ستر لوگوں کے قتل سے بھی مجھے زیادہ پسند ہے اس لیے کہ فرمان الٰہی ہے کفر کے اماموں کو قتل کرو (ابن ابی حاتم)

 

۱۳

ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ

مسلمانوں کو پوری طرف جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وہد شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول ٪ کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کر لیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مگر کہیں بہتر تھا۔ صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کر تے رہے بھڑ بھڑا کر اُٹھ کھرے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہو گئے جیسے کہ پورا واقع اسے پہلے بیان ہو چکا ہے۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے سال کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا فالحمد اللہ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں دوسری آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ، میری سلطنت میری سزا، میری قدرت، میری ملکیت، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لرزتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گزرتا ہوں۔ میری منشا کے بغیر کچھ بنی نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑا اس نل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو۔ یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑح دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ابن عساکر میں ہے کہ جب حضرت عائشہ غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو الھم رب البنی محمد اغفر ذنب اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچا لے۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شروع احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے۔

 

۱۶

مسلمان بھی آزمائے جائیں گے

یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر دینا ضروری ہے ولیجہ کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ رسول کی خیر خواہی اور حمایت کریں ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لگوں کا بیان چھوڑ دیا۔ ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں ایک جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہو گی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ سچے جھوٹوں کو ضرور الگ الگ کر دے گا اور آیت میں اسی مضمون کو ام حسبتم ان تدخلو الجنتہ الخ، کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے۔ اور آیت میں ہے ماکان اللّٰہ لیذر المومنین الخ، اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟ جو ہو گا وہ بھی اسے ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہو گا، تب کس طرح ہو گا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہونے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا سچا جھوٹا ظاہر کر دے اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضا و قدر وار ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے۔

 

۱۷

مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟

یعنی اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ کی مسجدوں (کی تعمیر) کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟ مساجد کو مسجد بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد حرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دنوں اعتبار سے تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں نصرانی ہوں، یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے، صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا، مشرک بھی اپنے مشرک ہونے کے لیے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں۔ یہ تو مسجد حرام سے اور اللہ کی راہ روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ کے اولیاء نہیں اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں۔ ہاں بیت اللہ کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن ہوا ہے۔ مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہادت دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے۔ اور حدیث میں ہے اللہ عز و جل فرماتا ہے مجھے اپنے عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہت ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں۔ ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکھری بکری کو پکڑ کر لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور عوام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں جو ان میں داخل ہو اللہ کا ان پر حق ہے کہ وہ مساجد کا احترام کریں۔ ابن عباس فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آ کر با جماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ کا نافرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ کے اور قیامت کے ماننے ہیں ہی ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا نمازی بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہیں ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے یے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے یے بھی ہوتی ان کے دل اللہ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور با مقصد ہیں۔ یہ یاد رہے کہ بقول حضرت ابن عبس قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ عسی وہاں یقین کے معنی میں ہے اُمید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے عسی ان یبعثک ربک مقام محمود تو مقام محمود میں پہنچانا یقینی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک شبہ نہیں۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں،، عسی کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے

 

۱۹

سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے

ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانے پلانے کی سعادت ایمان و جہاد سے بہتر ہے ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجامدے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ اللہ نے ان کے فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ سے پھیرنے کو بے نقاب کیا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم ان سے بے پرواہی سے منہ مور کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو۔ پس تمہارا گمان بیجا تمہار غرور غلط، تمہارا فخر نا مناسب ہے یوں بھی اللہ کے ساتھ ایمان اور اس کی راہ میں جہاد بہت بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا کیڑا کھا جاتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے تئیں آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ نے ان کا نام ظالم رکھا ان کی اللہ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی گئی۔ کہتے ہیں کہ حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ نے جب ان سے پرلے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے، اس پر یہ آیت اتری، مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس اور حضرت علی میں ہوئی تھی۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبد المطلب علی، بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، عثمان نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں۔ علی نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری۔ عباس رضٰ اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانے پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا حضرت عمر نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا ممبر سول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقع جمع کے دن کا ہے جمع کے بعد ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حجر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا۔

 

۲۳

ترک موالات و مودت کا حکم

اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں بہت بھائی ہوں۔ بشرطیکہ وہ کر کو اسلام پر ترجیح دیں اور آیت میں ہے لا تجد قوما یومنیون باللہ الخ، اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ رسول کے دشمنوں سے دوستی کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان کھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے۔ انہیں نہروں ولایت میں پہنچائے گا۔ بیہقی میں ہے حضرت ابو عبید ابن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہوئی گئی آپ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ اس پر آیت لا تجد نازل ہوئی۔ پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر وہ رشتے دار اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ اور رسول سے اور جہاد سے بھی یادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ کے عذاب کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایسے بدکاروں کو اللہ بھی راستہ نہیں دکھاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کے ساتھ جا رہے تھے حضرت عمر کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت عمر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ مجھے ہر چیز شے زیادہ عزیز ہیں بجز میری اپنی جان کے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میرا نفس ہے تم میں سے کوئی مومن نہ ہو گا جب تک کہ وہ مجھے اپنے جان سے بھی زیادہ عزیز نہ رکھے۔ حضرت عمر بنے فرمایا اللہ کی قسم اب آپ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔ آپ نے فرمایا اے عمر (تو مومن ہو گیا) (بخاری شریف) صحیح حدیث میں آپ کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولا اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں مسند احمد اور ابو داؤد میں ہے آپ فرماتے تے ہیں جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کرے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

 

۲۵

نصرت الٰہی کا ذکر

مجاہد کہتے ہیں براۃ کی یہ پہلی آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت بڑا احسان مومنوں پر ذکر فرما رہا ہے کہ اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی آپ امداد فرمائی انہیں دشمنوں پر غالب کر دیا اور ایک جگہ نہیں ہر جگہ اس کی مدد شامل حال رہی اسی وجہ سے فتح و ظفر نے کبھی ہم رکابی نہ چھوڑی۔ یہ صرف تائید ربانی تھی نہ کہ مال اسباب اور ہتھیار کی فراوانی اور نہ تعداد کی زیادتی۔ یاد کر لو حنین والے دن تمہیں ذرا اپنی تعداد کی کثرت پر ناز ہو گیا تو کیا حال ہوا؟ پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے تھے۔ معدودے چند ہی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ٹھہرے اسی وقت اللہ کی مدد نازل ہوئی اس نے دلوں میں تسکین ڈال دی یہ اس لیے کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ مدد اسی اللہ کی طرف سے ہے اس کی مدد سے چھوٹی چھوٹی جماعتوں نے بڑے بڑے گرہوں کے منہ پھیر دیئے ہیں۔ اللہ کی امداد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ واقع ہم عن قریب تفصیل وار بیان کریں، انشاء اللہ تعالیٰ۔ مسند کی حدیث میں ہے بہترین ساتھی چار ہیں اور بہترین چھوٹا لشکر چار سوکا ہے اور بہترین بڑا لشکر چار ہزار کا ہے اور بارہ ہزار کی تعدد تو اپنی کمی کے باعث کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی۔ یہ حدیث ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے امام ترمذی رحمت اللہ علیہ اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ یہ روایت سوائے ایک راوی کے باقی سب راویوں نے مرسل بیان کی ہے۔ ابن ماجہ اور بیہقی میں بھی یہ روایت اسی طرح مروی ہے۔ واللہ اعلم۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد ماہ شوال میں جنگ حنین ہوئی تھی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم فتح مکہ سے فارغ ہوئے اور ابتدائی امور سے انجام دے چکے اور عموماً مکی حضرات مسلمان ہو چکے اور انہیں آپ آزاد بھی کر چکے تو آپ کو خبر ملی کہ قبیلہ ہوازن جمع ہوا ہے اور آپ سے جنگ کرنے پر آمدہ ہے۔ ان کا سردار ملک بو عوف نصری ہے۔ ثقیف کا سارا قبیلہ ان کے ساتھ ہے اسی طرح بنو جشم بنو سعد بن بکر بھی ہیں اور بنو ہلال کے کچھ لوگ بھی ہیں اور کچھ لوگ بنو عمرو بن امر کے اور عون بھی عامر کے بھی ہیں یہ سب لوگ مع اپنی عورتوں اور بچوں اور گھریلو مال کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کے اپنی بکریوں اور اونٹوں کو بھی انہوں نے ساتھ ہی رکھا ہے تو آپ نے اس لشکر کو لے کر جو اب آپ کے ساتھ مہاجرین اور انصار وغیرہ کا تھا ان کے مقابلے کے لیے چلے تقریباً دو ہزار نو مسلم مکی بھی آپ کے ساتھ ہو لیے۔ مکہ اور طائف کے درمیان کی وادی میں دونوں لشکر مل گئے اس جگہ کا نام حنین تھا صبح سویرے منہ اندھیرے قبیلہ ہوازن جو کمیں گاہ میں چھپے ہوئے تھے انہوں نے بے خبری میں مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا بے پنا تیر باری کرتے ہوئے آگے بڑھے اور تلواریں چلانی شروع کر دیں یہاں مسلمانوں میں دفعتاً ابری پھیل گی اور یہ منہ پھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی طرف بڑھے آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانور کی دائیں جانب سے نکیل تھامے ہوئے اور حضرت ابو بن حارث بن عبد المطلب بائیں طرف سے نکیل پکڑے ہوئے تھے جانور کی تیز کو یہ لوگ روک رہے تھے آپ با آواز بلند اپنے تئیں پہنچوا رہے تھے مسلمانوں کو واپسی کا حکم فرما رہے تھے اور ندا کرتے جاتے تھے کہ اللہ کے بندو کہاں چلے، میری طرف آؤ۔ میں اللہ کا سچا رسول ہوں میں نبی ہوں، جھوٹا نہیں ہوں۔ میں اولاد عبد المطلب میں سے ہوں۔ آپ کے ساتھ اس وقت صرف اسی یا سو کے قریب اصحاب رہ گئے تھے۔ حضرت ابوبکر حضرت عمر، حضرت عباس، حضرت علی، حضرت فضل بن عباس، حضرت ابو سفیان بن حارث حضرت ایمان بن ام ایمن، حضرت اسامہ بن زید وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہی تھے پھر آ]پ نے اپنے چچا حضرت عباس کو بہت بلند آواز والے تھے حکم دیا کہ درخت کے نیچے بیت کرنے والے میرے صحابیوں کو آواز دو کہ وہ نہ بھاگیں پس آپ نے یہ کہہ کر اے ببول کے درخت تلے بیعت کرنے و الے سورہ بقرہ کے حاملوں پس یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچنی تھی کہ انہوں نے ہر طرف سے لبیک بیک کہنا شروع کیا اور آواز کی جانب لپک پرے اور اسی وقت لوٹ کر آپ کے آس پاس آ کر کھڑ ہو گئے یہاں تک کہ اگر کسی کا اونٹ اڑ گیا تو اس نے اپنی زرہ پہن لی اونٹ پر سے کود گیا اور پیدل سرکار نبوت میں حاضر ہو گیا جب کچھ جماعت آپ کے ارد گر جمع ہو گئی آپ نے اللہ سے دعا مانگنی شروع کی کہ باری الٰہی جو وعدہ تیرا میرے ساتھ ہے اسے پورا فرما پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی بھر اور اسے کافروں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں اور ان منہ بھر گیا وہ لڑائی کے قابل نہ رہے۔ ادھر مسلمانوں نے ان پر دھاوا بول دیا ان کے قدم اکھڑ گئے بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے ان کا پیچھا کیا اور مسلمانوں کی باقی فون حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچی اتنی دیر میں تو انہوں نے کفار کو قید کر کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دھیر کر دیا مسند احمد میں ہے حضرت عبد الرحمن فہری جن کا نام یزید بنی اسید ہے یا یزید بن انیس ہے اور کرز بھی کہا گیا ہے فرماتے ہیں کہ میں اس معرکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا دن سخت گرمی والا تھا دوپہر دوپہر کو ہم درختوں کے سائے تلے ٹھہر گئے سورج ڈھلنے کے بعد میں اپنے ہتھیار لگا لیے اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خیمے پہنچا سلام کے بعد میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوائیں نؤ ٹھنڈی ہو گئی ہیں آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے بلال اس وقت بلال ایک درخت کے سائے میں تھے حضور کی آواز سنتے ہی پرندے کی طرح گویا اڑ کر لبیک و سعد یک و انا فداوک کہتے ہوئے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا میری سواری تیار کرو اسی وقت انہوں نے زین نکالی جس کے دونوں پلے کھجور کی رسی کے تھے جس میں کوئی فخر و غرور کی چیز نہ تھی جب کس چکے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سوار ہوئے ہم نے صف بندی کر لی شام اور رات اسی طرح گزری پھر دونوں لشکروں کی مڈ بھیڑ ہو گئی تو مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے جیسے قرآن نے فرمایا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے آواز دی کہ اے اللہ کے بندو میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اے مہاجرین میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں پھر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے مٹی کی ایک مٹھی بھر لی اور یہ فرما کر ان کے چہرے بگڑ جائیں کافروں کی طرف پھینک دی اسی سے اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ ان مشرکوں کا بیان ہے کہ ہم میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جس کے آنکھوں اور منہ پہ  یہ مٹی نہ آئی ہو اسی وقت ہمیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا زمین وہ آسمان کے درمیان لوہا کسے لوہے کے طشت پر بج رہا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ بھاگے ہوئے مسلمان جب ایک سو آپ کے پاس پنچ گئے آپ نے اسی وقت حملہ کا حکم دیا دیا اول تو ماندی انصار کی تھی پھر خزرج ہی پر رہ گی یہ قبیلہ لڑائی کے وقت بڑا ہی صابر تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی سواری پر سے میدان جنگ کا نظارہ دیکھا اور فرمایا اب لڑائی گرما گرمی سے ہو رہی ہے۔ اس میں ہے کہ اللہ نے جس کافر کو چاہا قتل کرا دیا جسے چاہا قید کرا دیا۔ اور ان کے مال اور اولادیں اپنے نبی کوفے میں دلا دیں۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کسی نے کہا اے ابو عمارہ کیا تم لوگ رسول اللہ علیہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے حنین والے دن بھاگ نکلے تھے؟ آپ نے فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قدم پیچھے نہ ہٹا تھا بات یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ تیر اندازی کے فن کے استاد تھے اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں پہلے ہی حملے میں شکست دے دی لیکن جب لوگ مال غنیمت پر جھک پڑے انہوں نے موقع دیکھ کر پھر جو پوری مہارت کے ساتھ تیروں کی بار برسائی تو یہاں بھگڈر مچ گئی۔ سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و سلم کی کامل شجاعت اور پوری بہادری کا یہ موقع تھا۔ لشکر بھاگ نکلا ہے اس وقت آپ کسی تیز سواری پر نہیں جو بھاگنے دوڑنے میں کام آئے بلکہ خچر پر سوار ہیں اور مشرکوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنے تئیں چھپاتے نہیں بلکہ اپنا نام اپنی زبان سے پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ نہ پہچاننے والے بھی پہچان لیں۔ خیال فرمایئے کہ کس قدر ذات واحد پر آپ کا توکل ہے اور کتنا کامل یقین ہے آپ کو اللہ کی مدد پر۔ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ امر رسالت کو پورا کر کے ہی رہے گا اور آپ کے دین کو دنیا کے اور دینوں پر غالب کر کر ہی رہے گا فصلوات اللہ وسلامہ علیہ ابد ابدا۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر اور مسلمانوں کے اوپر سکینت نازل فرماتا ہے اور اپنے فرشتوں کا لشکر بھیجتا ہے جنہیں کوئی نہ دیکھتا ہے تھا۔ ایک مشرک بکا بیان ہے کہ حنین والے دن جب ہم مسلمانوں سے لڑنے لگے ایک بکری کا دودھ نکالا جائیے اتنی دیر بھی ہم نے انہیں اپنے سامنے جنے نہیں دیا فورا بھاگ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کا تعاقب شروع کیا یہاں تک کہ ہمیں ایک صاحب سفید خچر پر سوار نظر پڑے ہم نے دیکھا یہ کہ خوب صورت نورانی چہرے والے چھ لوگ ان کے ادر گرد ہیں ان کی زبان سے نکلا کہ تمہارے چہر بگڑ جائیں واپس لوٹ جاؤ بس یہ کہنا تھا کہ ہیں شکست ہو گئی یہاں تک کہ مسلمان ہمارے کندھوں پر سوار ہو گئے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں میں بھی اس لشکر میں تھا آپ کے ساتھ صرف اسی مہاجر و انصار وہ گئے تھے ہم نے پیٹھ نہیں دکھائی تھی ہم پر اللہ نے اطمینان و سکون نازل فرم فرما دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنے سفید خچر پر سوار دشمنوں کی طرف بڑھ رہے تھے جانور نے ٹھوکر کر کھائی آپ زین پر سے نیچے کر طرف جھک گئے میں نے آواز دی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اونچے ہو جائیے اللہ آپ کو اونچا ہی رکھے آپ نے فرمایا ایک مٹھی مٹی کی تو بھر دو میں نے بھر دی آپ نے کافروں کی طرف پھینکی جس سے ان کی آنکھیں بھر گئیں پھر فرمایا مہاجر و انصار کہاں ہیں میں نے کہا یہیں ہیں فرمایا نہیں آواز دو میرا آواز دینا تھا کہ وہ تلواریں سوتتے ہوئے لپک لپک کر آ گئے اب تو مشرکین کی کچھ نہ چلی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ بیہقی کی ایک روایت میں ہے شیبہ بن عثمان کہتے ہیں کہ حنین کے دن جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس حالت میں دیکھا کہ لشکر شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنہا رہ گئے ہیں تو مجھے بد والے دن اپنے باپ اور چچا کا مارا جانا یاد آیا اور کہ وہ حضرت علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں، میں نے اپنے جی میں کہا کہ ان کے انتقام لینے کا اس سے اچھا موقعہ اور کون سا ملے گا؟ آؤ پیغمبر کو قتل کر دوں اس ارادے سے میں آپ کی دائیں جانب سے بڑھا لیکن وہاں میں نے عباس بن عبدالمطلب کو پایا سفیدی چاندی جیسی زرہ پہنے مستعد کھڑے ہیں میں نے سوچا کہ یہ چچا ہیں اپنے بھتیجے کی پوری حمایت کریں گے چلو بائیں جانب سے جا کر اپنے کام کروں اور ادھر سے آیا تو دیکھا ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کھڑے ہیں میں نے کہا ان کے بھی چچا کے لڑکے بھائی ہیں اپنے بھائی کی ضرور حمایت کریں گے پھر میں رکاوٹ کاٹ کر پیچھے کی طرف آیا آپ کے قریب پہنچ گیا اب یہی باقی رہ گیا تھا کہ تلوار سونت کر وار کر دوں کہ میں نے دیکھا ایک آگ کا کوڑا بجلی کی طرف چمک کر مجھ پر پڑا چاہتا ہے میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پچھلے پاؤں پیچھے کی طرف ہٹا اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے میری جانب التفات کیا اور فرمایا شیبہ میرے پاس آیا، اللہ اس کے شیطان کو دور کر دے۔ اب میں نے آنکھ کھول کر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھا تو واللہ آپ مجھے میرے کانوں اور آنکھوں سے بھی زیادہ محبوب تھے آپ نے فرمایا شیبہ جا کافروں سے لڑ شیبہ کا بیان ہے کہ اس جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں میں میں بھی تھا لیکن میں اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی وجہ سے یا اسلام کی معرفت کی بناء پر نہیں نکلا تھا بلکہ میں نے کہا واہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ کہ ہوازن قریش پر غالب آ جائیں؟ میں آپ کے پاس ہی کھڑا ہوا تھا جو میں نے ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ کر کہا یا رسول اللہ میں تو ابلق رنگ کے گھوڑے دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا شیبہ وہ تو سوا کافروں کے کسی کو نظر نہیں آتے۔ پھر آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مار کر دعا کی یا اللہ شیبہ کو ہدایت کر پھر دوبارہ سہ بارہ یہی کیا اور یہی کہا واللہ آپ کا ہاتھ ہٹنے سے پہلے ہی ساری دنیا سے زیادہ آپ کی محبت میں اپنے دل میں پانے لگا۔ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اس غزوے میں آپ کے ہم رکاب تھا میں نے دیکھا کہ کوئی چیز آسمان سے اتری رہی ہے چیونٹیوں کی طرح اس نے میدان گھیر لیا اور اسی وقت مشرکوں کے قدم اکھڑ گئے واللہ ہمیں کوئی شک نہیں کہ وہ آسمانی مدد تھی۔ یزید بن عامر سوابی اپنے کفر کے زمانے میں جنگ حنین میں کافروں کے ساتھ تھا بعد میں یہ مسلمان ہو گئے تھے ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اس موقعہ پر تمہارے دلوں کا رعب و خوف سے کیا حال تھا؟ تو وہ طشت میں کنکریاں رکھ کر بجا کر کہتے بس یہی آواز ہمیں ہمارے دل سے آ رہی تھی بے طرح کلیجہ اچھل رہا تھا اور دل دہل رہا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے۔ مجھے جامع کلمات دیئے گئے ہیں الغرض کفار کو اللہ نے یہ سزا دی اور یہ ان کے کفر کا بدلہ تھا۔ باقی ہوازن پر اللہ نے مہربانی فرمائی انہیں توبہ نصیب ہوئی مسلمان ہو کر خدمت مخدوم میں حاضر ہوئے اس وقت آپ فتح مندی کے ساتھ لوٹتے ہوئے مکہ شریف جعرانہ کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جنگ کو بیس دن کے قریب گزر چکے تھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ اب تم دو چیزوں میں سے ایک پسند کر لو یا تو قیدی یا مال؟ انہوں نے قیدیوں کا واپس لینا پسند کیا ان قیدیوں کی چھوٹوں بڑوں کی مرد عورت کی بالغ نابالغ کی تعداد چھ ہزار تھی۔ آپ نے یہ سب انہیں لوٹا دیئے ان کا مال بطور غنیمت کے مسلمانوں میں تقسیم ہوا اور نو مسلم جو مکہ کے آزاد کردہ تھے انہیں بھی آپ نے اس مال میں سے دیا کہ ان کے دل اسلام کی طرف پورے مائل ہو جائیں ان میں سے ایک ایک کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ مالک بن عوف نصری کو بھی آپ نے سو اونٹ دیئے اور اسی کو اس کی قوم کا سردار بنا دیا جیسے کہ وہ تھا اسی کی تعریف میں اسی نے اپنے مشہور قصیدے میں کہا ہے کہ میں نے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم جیسا نہ کسی اور کو دیکھا نہ سنا۔ دینے میں اور بخشش و عطا کرنے میں اور قصوروں سے درگزر کرنے میں دنیا میں آپ کا ثانی نہیں آپ کل قیامت کے دن ہونے والے تمام امور سے مطلع فرماتے رہتے ہیں یہی نہیں شجاعت اور بہادری میں بھی آپ بے مثل ہیں میدان جنگ میں گرجتے ہوئے شیر کی طرح آپ دشمنوں کی طرف بڑھتے ہیں۔

 

۲۸

مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو

اللہ تعالیٰ احکم الحاکمین اپنے پاک دین والے پاکیزگی اور طہارت والے مسلمان بندوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ دین کی رو سے نجس مشرکوں کو بیتا اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں یہ آیت سنہ ۹ ہجری میں نازل ہوئی اسی سال آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ مجمع حج میں اعلان کر دو کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور کوئی ننگا شخص بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے اس شرعی حکم کو اللہ تعالیٰ قادر و قیوم نے یوں ہی پورا کیا کہ نہ وہاں مشرکوں کو داخلہ نصیب ہوا نہ کسی نے اس کے بعد عریانی کی حالت میں اللہ کے گھر کا طواف کیا۔ حضرت جابر بن عبد اللہ غلام اور ذمی شخص کو مستثنیٰ بناتے ہیں۔ مسند کی حدیث میں فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ہماری اس مسجد میں اس کے بعد سوائے معاہدہ والے اور تمہارے غلاموں کے اور کوئی کافر نہ آئے۔ لیکن اس مرفوع سے زیادہ صحیح سند والی موقوف روایت ہے۔ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمان جاری کر دیا تھا کہ یہود و نصرانی کو مسلمانوں کی مسجدوں میں نہ آنے دو ان کا یہ امتناعی حکم اسی آیت کے تحت تھا۔ حضرت عطا فرماتے ہیں کہ حرم سارا اس حکم میں مثل مسجد حرام کے ہے۔ یہاں آیت مشرکوں کی نجاست پر بھی دلیل واثق ہے۔ صحیح حدیث میں ہے مومن نجس نہیں ہوتا۔ باقی رہی یہ بات کہ مشرکوں کا بدن اور ذات بھی نجس ہے یا نہیں؟ پس جمہور کا قول تو یہ ہے کہ نجس نہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذبیحہ حلال کیا ہے۔ بعض ظاہر یہ کہتے ہیں کہ مشرکوں کے بدن بھی ناپاک ہی۔ حسن فرماتے ہیں جو ان سے مصافحہ کرے وہ ہاتھ دھو ڈالے۔ اس حکم پر بعض لوگوں نے کہا کہ پھر تو ہماری تجارت کا مندا ہو جائے گا۔ ہمارے بازار بے رونق ہو جائیں گے اور بہت سے فائدے جاتے رہیں گے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ غنی و حمید فرماتا ہے کہ تم اس بات سے نہ ڈرو اللہ تمہیں اور بہت سی صورتوں سے دلا دے گا تمہیں اہل کتاب سے جزیہ دلائے گا اور تمہیں غنی کر دے گا تمہاری مصلحتوں کو تم سے زیادہ رب جانتا ہے اس کا حکم اس کی ممانعت کسی نہ کسی حکمت سے ہی ہوتی ہے۔ یہ تجارت اتنے فائدے کی نہیں جتنا فائدہ وہ تمہیں جزیئے سے دیتا۔ ان اہل کتاب سے جو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم، اور قیامت کے منکر ہیں جو کسی نبی کے صحیح معنی میں پورے متبع نہیں بلکہ اپنی خواہشوں کے اور اپنے بڑوں کی تقلید کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اگر انہیں اپنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی شریعت پر پورا ایمان ہوتا تو وہ ہمارے اس نبی پر بھی ضرور ایمان لاتے ان کی بشارت تو ہر نبی دیتا رہا ان کی اتباع کا حکم ہر نبی نے دیا لیکن باوجود اس کے وہ اس اشرف الرسل کے انکاری ہیں پس اگلے نبیوں کے شرع سے بھی دراصل انہیں کوئی دور کا سروکار بھی نہیں اسی وجہ سے ان نبیوں کا زبانی اقرار ان کے لئے بے سود ہے کیونکہ یہ سید الانبیاء افضل الرسل خاتم النبین اکمل المرسلین سے کفر کرتے ہیں اس لئے ان سے بھی جہاد کرو۔ ان سے جہاد کے حکم کی یہ پہلی آیت ہے اس وقت تک آس پاس کے مشرکین سے جنگ ہو چکی تھی ان میں سے اکثر توحید کے جھنڈے تلے آ چکے تھے جزیرۃ العرب میں اسلام نے جگہ کر لی تھی اب یہود و نصاریٰ کی خبر لینے اور انہیں راہ حق دکھانے کا حکم ہوا۔ سنہ ۹ ہجری میں یہ حکم اترا اور آپ نے رومیوں سے جہاد کی تیاری کی لوگوں کو اپنے ارادے سے مطلع کیا مدینہ کے اردگرد کے عربوں کو آمادہ کیا اور تقریباً تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کا رخ کیا۔ بجز منافقین کے یہاں کوئی نہ رکا سوائے بعض کے۔ موسم سخت گرم تھا پھلوں کا وقت تھا روم سے جہاد کیلئے شام کے ملک کا دور دراز کا کٹھن سفر تھا۔ تبوک تک تشریف لے گئے وہاں تقریباً بیس روز قیام فرمایا پھر اللہ سے استخارہ کر کے حالت کی تنگی اور لوگوں کی ضعیفی کی وجہ سے واپس لوٹے۔ جیسے کہ عنقریب اس کا واقعہ انشاء اللہ تعالیٰ بیان ہو گا۔ اسی آیت سے استدلال کر کے بعض نے فرمایا ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے اور ان جیسوں سے ہی لیا جائے جیسے مجوس ہیں چنانچہ ہجر کے مجوسیوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جزیہ لیا تھا۔ امام شافعی کا یہی مذہب ہے اور مشہور مذہب امام احمد کا بھی یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کہتے ہیں سب عجمیوں سے لیا جائے خواہ وہ اہل کتاب ہوں خواہ مشرک ہوں۔ ہاں عرب میں سے صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جزیئے کا لینا تمام کفار سے جائز ہے خواہ وہ کتابی ہوں یا مجوسی ہوں یا بت پرست وغیرہ ہوں۔ ان مذاہب کے دلائل وغیرہ کی تفصیل کی یہ جگہ نہیں واللہ اعلم۔ پس فرماتا ہے کہ جب تک وہ ذلت و خواری کے ساتھ اپنے ہاتھوں جزیہ نہ دیں انہیں نہ چھوڑو پس اہل ذمہ کو مسلمانوں پر عزت و توقیر دینی اور انہیں اوج و ترقی دینی جائز نہیں صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں یہود و نصاریٰ سے سلام کی ابتداء نہ کرو اور جب ان سے کوئی راستے میں مل جائے تو اسے تنگی سے مجبور کرو۔ یہی وجہ تھی جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے ایسی ہی شرطیں کی تھیں عبدالرحمٰن بن غنم اشعری کہتے ہیں میں نے اپنے ہاتھ سے عہد نامہ لکھ کر حضرت عمر کو دیا تھا کہ اہل شام کو فلاں فلاں شہری لوگوں کی طرف سے یہ معاہدہ ہے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہ جب آپ کے لشکر ہم پر آئے ہم نے آپ سے اپنی جان مال اور اہل و عیال کے لئے امن طلب کی ہم ان شرطوں پر وہ امن حاصل کرتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہروں میں اور ان کے آس پاس کوئی گرجا گھر اور خانقاہ نئی نہیں بنائیں گے۔ مندر اور نہ ایسے کسی خرابی والے مکان کی اصلاح کریں گے اور جو مٹ چکے ہیں انہی درست نہیں کریں گے ان میں اگر کوئی مسلمان مسافر اترنا چاہے تو روکیں گے نہیں خواہ دن ہو خواہ رات ہو ہم ان کے دروازے رہ گزر اور مسافروں کے لئے کشادہ رکھیں گے اور جو مسلمان آئے ہم اس کی تین دن تک مہمانداری کریں گے، ہم اپنے ان مکانوں یا رہائشی مکانوں وغیرہ میں کہیں کسی جاسوس کو نہ چھپائیں گے، مسلمانوں سے کوئی دھوکہ فریب نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قرآن نہ سکھائیں گے، شرک کا اظہار نہ کریں گے نہ کسی کو شرک کی طرف بلائیں گے، ہم میں سے کوئی اگر اسلام قبول کرنا چاہے ہم اسے ہرگز نہ روکیں گے، مسلمانوں کی توقیر و عزت کریں گے، ہماری جگہ اگر وہ بیٹھنا چاہیں تو ہم اٹھ کر انہیں جگہ دے دیں گے، ہم مسلمانوں سے کسی چیز میں برابری نہ کریں گے، نہ لباس میں نہ جوتی میں نہ مانگ نکالنے میں، ہم ان کی زبانیں نہیں بولیں گے، ان کی کنیتیں نہیں رکھیں گے، زین والے گھوڑوں پر سواریاں نہ کریں گے، تلواریں نہ لٹکائیں گے نہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔ انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں کرائیں گے، شراب فروشی نہیں کریں گے، اپنے سروں کے اگلے بالوں کو ترشوا دیں گے اور جہاں کہیں ہوں گے زنار ضرورتاً ڈالے رہیں گے، صلیب کا نشان اپنے گرجوں پر ظاہر نہیں کریں گے۔ اپنی مذہب کتابیں مسلمانوں کی گزر گاہوں اور بازاروں میں ظاہر نہیں کریں گے گرجوں میں ناقوس بلند آواز سے بچائیں گے نہ مسلمانوں کی موجودگی میں با آواز بلند اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں گے نہ اپنے مذہبی شعار کو راستوں پر کریں گے نہ اپنے مردوں پر اونچی آواز سے ہائے وائے کریں گے نہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے راستوں میں آگ لے کر جائیں گے مسلمانوں کے حصے میں آئے ہوئے غلام ہم نہ لیں گے مسلمانوں کی خیر خواہی ضرور کرتے رہیں گے ان کے گھروں میں جھانکیں گے نہیں۔ جب یہ عہد نامہ حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے ایک شرط اور بھی اس میں بڑھوائی کہ ہم کسی مسلمانوں کو ہرگز ماریں گے نہیں یہ تمام شرطیں ہمیں قبول و منظور ہیں اور ہمارے سب ہم مذہب لوگوں کو بھی۔ انہی شرائط پر ہمیں امن ملا ہے اگر ان میں سے کسی ایک شرط کی بھی ہم خلاف ورزی کریں تو ہم سے آپ کا ذمہ الگ ہو جائے گا اور جو کچھ آپ اپنے دشمنوں اور مخالفوں سے کرتے ہیں ان تمام مستحق ہم بھی ہو جائیں گے۔

 

۳۰

بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے

ان تمام آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں، کافروں، یہودیوں اور نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں یہود و عزیز کو اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں اللہ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ ان لوگوں کو حضرت عزیز کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا۔ عزیز علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی چھڑ گئیں ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا؟ آپ اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ۔ آپ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا اے عزیز پھر تو یہ تو بتا کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس نے کہا آپ یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں؟ آپ کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہ ہے پھر آپ سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں وہ کھا لو چنانچہ آپ وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں انہوں نے کہا ہم سب آپ کے نزدیک سچے ہیں آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے یہ یک وقت پوری توراۃ لکھ ڈالی ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں عزیز علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے حضرت عزیز علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ اللہ کے بیٹے ہیں۔ حضرت مسیح کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔ پس ان دونوں گروہوں کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بے دلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے؟ مسند احمد ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ التسلیم کے پاس چلے جاؤ چنانچہ یہ مدینہ شریف آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر پہنچائی آپ خود ان کے پاس آئے اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے اسی آیت اتخذوا کی تلاوت ہو رہی تھی تو انہوں نے کہا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی آپ نے فرمایا ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی پھر آپ نے فرمایا عدی کیا تم اس سے بے خبر ہو کہ اللہ سب سے بڑا ہے؟ کیا تمہارے خیال میں اللہ سے بڑا اور کوئی ہے؟ کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے؟ پھر آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے مان لی اور اللہ کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کی گواہی ادا کی آپ کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا یہود پر غضب الٰہی اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں۔ حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عبد اللہ بن عباس وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔ سدی فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ کی کتاب کو ایک طرف ہٹا دیا۔ اسی لئے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے۔ اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں، اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے، اس جیسا اس کا شریک، اس کا نظیر اس کا مددگار اس کی ضد کا کوئی نہیں وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔

 

۳۲

کفارہ کی دلی مذموم خواہش

فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ نور الٰہی بجھا دیں ہدایت ربانی اور دین حق کو مٹا دیں تو خیال کر لو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب کی روشنی بجھانی چاہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح یہ لوگ بھی نور رب کے بجھانے کی چاہت میں اپنی امکانی کوشش کریں آخر عاجز ہو کر رہ جائیں گے۔ ضروری بات ہے اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ دین حق تعلیم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بول بالا ہو گا۔ تم مٹانا چاہتے ہو اللہ اس کو بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی۔ تم گو نا خوش رہو لیکن آفتاب ہدایت بیچ آسمان میں پہنچ کر ہی رہے گا۔ عربی لعنت میں کافر کہتے ہیں کسی چیز کے چھپا لینے والے کو اسی اعتبار سے رات کو بھی کافر کہتے ہیں اس لئے کہ وہ بھی تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے۔ کسان کو کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے زمین میں چھپا دیتا ہے جیسے فرمان ہے یعجب الکفار نباتہ اسی اللہ نے اپنے سول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سچی خبروں اور صحیح ایمان اور نفع والے علم پہ مبنی یہ ہدایات ہے اور عمدہ اعمال جو دنیا آخرت میں نفع دیں ان کا مجموعہ یہ دین حق ہے۔ یہ تمام اور مذاہب عالم پر چھا کر رہے گا آنحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں میرے لئے مشرق و مغرب زمین کی لپیٹ دی گئی میری امت کا ملک ان تمام جگہوں تک پہنچے گا۔ فرماتے ہیں تمہارے ہاتھوں پر مشرق و مغرب فتح ہو گا تمہارے سردار جہنمی ہیں۔ بجز ان کے جو متقی پرہیزگار اور امانت دار ہوں۔ فرماتے ہیں یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچیں کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچائے۔ عزیزوں کو عزیز کرے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا اسلام کو عزت دینے والوں کو عزت ملے گی اور کفر کو ذلت نصیب ہو گی حضرت یتیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو یہ بات خود اپنے گھر میں بھی دیکھ لی جو مسلمان ہوا اس سے خیر و برکت عزت و شرافت ملی اور جو کافر رہا اسے ذلت و نکبت نفرت و لعنت نصیب ہوئی۔ پستی اور حقارت دیکھی اور کمینہ پن کے ساتھ جزیہ دینا پڑا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے وہ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا جنہیں عزت دینی چاہے گا انہیں اسلام نصیب کرے گا اور جنہیں ذلیل کرنا ہو گا وہ اسے نہیں مانیں گے لیکن اس کی ماتحتی ہیں انہیں آنا پڑے گا۔ حضرت عدی فرماتے ہیں میرے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے مجھ سے فرمایا اسلام قبول کرتا کہ سلامتی ملے میں نے کہا میں تو ایک دین کو مانتا ہوں آپ نے فرمایا تیرے دین کا تجھ سے زیادہ مجھے علم ہے میں نے کہا سچ؟ آپ نے فرمایا بالکل سچ۔ کیا تو رکوسیہ میں سے نہیں ہے؟ کیا تو اپنی قوم سے ٹیکس وصول نہیں کرتا؟ میں نے کہا یہ تو سچ ہے۔ آپ نے فرمایا تیرے دین میں یہ تیرے لئے حلال نہیں پس یہ سنتے ہی میں تو جھک گیا آپ نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ تجھے اسلام سے کون سی چیز روکتی ہے؟ سن صرف ایک یہی بات تجھے روک رہی ہے کہ مسلمان بالکل ضعیف اور کمزور ناتواں ہیں تمام عرب انہیں گھیرے ہوئے ہے یہ ان سے نپٹ نہیں سکتے لیکن سن حیرہ کا تجھے علم ہے؟ میں نے کہا دیکھا تو نہیں لیکن سنا ضرور ہے۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امر دین کو پورا فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سانڈنی سوار حیرہ سے چل کر اکیلے امن کے ساتھ مکہ مکرمہ پہنچے گا اور بیت اللہ شریف کا طواف کرے گا۔ واللہ تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ نے فرمایا ہاں کسریٰ بن ہرمز کے تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔ اس حدیث کو بیان کرتے وقت حضرت عدی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان پورا ہوا۔ یہ دیکھو آج جہرہ سے سواریاں چلتی ہیں بے خوف خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں۔ صادق و مصدوق کی دوسری پیشین گوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں لئے۔ واللہ مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ و سلم کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں دن رات کا دور ختم نہ ہو گا جب تک پھر لات و عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آیت ھو الذی ارسل کے نازل ہونے کے بعد سے میرا خیال تو آج تک یہی رہا کہ یہ پوری بات ہے آپ نے فرمایا ہاں پوری ہو گئی اور مکمل ہی رہے گی جب تک اللہ پاک کو منظور ہو گا پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین ایک پاک ہوا بھیجیں گے جو ہر اس شخص کو بھی فوت کرے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ پھر وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی خیر وخوبی نہ ہو گی پس وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف پھر سے لوٹ جائیں گئے۔

 

۳۴

یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔ آیت لولاینھا ھم الریانیون والاحبار الخ، میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قیس اس آیت میں کہا گیا ہے ذالک بان منھم قسسین ورھبانا آیت کا مقصود لوگوں کو بڑے علماء اور گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے۔ حضرت سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں میں صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے۔ ایسی پوری مشابہت ہو گی کہ ذرا بھی فرق نہ رہے گا لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر؟ آپ نے فرمایا ہاں انہی کی روش پر اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر؟ آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہیں؟ پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے ہر ممکن بچنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ اس وجاہت سے ریاست و منصب حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کا مال غصب کرنا چاہتے ہیں۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا۔ ان کے تحفے، ہدیئے، خراج، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہو گئے۔ یہ حرام خور جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل سے خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے۔ جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بے یارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے۔ عالموں اور صوفیوں یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کرنے کے بعد اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ حضرت ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں۔

 

۳۵

یعنی دین واعظوں، عالموں، صوفیوں اور درویشوں کے ناپاک طبقے سے ہی بگڑتا ہے۔ کنز اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جاتی ہو۔ حضرت ابن عمر سے یہی مروی ہے بلکہ فرماتے ہیں جس مال کی زکوٰۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے۔ حضرت ابن عباس حضرت جابر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں بغیر زکوٰۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ سے مروی ہے کہ یہ زکوٰۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوٰۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنا دیا۔ خلیفہ برحق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور عراک بن مالک نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی خذمن اموالھم الخ، نے منسوخ کر دیا ہے۔ حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیادہ کنز ہے۔ لیکن یہ قول غریب ہے۔ مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں۔ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں سونے چاندی والوں کے لئے ہلاکت ہے تین مرتبہ آپ کا یہی فرمان سن کر صحابہ پر شاق گزرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں؟ حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی۔ مسند احمد میں ہے کہ سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہ نے آپس میں چرچا کیا تو حضرت عمر نے کہا لو میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کر آتا ہوں اپنی سواری تیز کر کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے جا ملے اور روایت میں ہے کہ صحابہ نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لئے کیا چھوڑ جائیں؟ اس میں ہے کہ حضرت عمر کے پیچھے ہی پیچھے حضرت ثوبان بھی تھے۔ آپ نے حضرت عمر کے سوال پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہو جائے۔ میراث کے مقرر کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت عمر یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے۔ آپ نے فرمایا لو اور سنو میں تمہیں بہترین خزانہ بتاؤں نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کی ناموس کی حفاظت کرے۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں مجھے برا معلوم ہو آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بے احتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو۔ (ترجمہ) یعنی یا اللہ میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکر اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس کی پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب جاننے والا ہے۔ آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ نہ کرنے والے اور اسے بچا بچا کر رکھنے والے درد ناک عذاب دیئے جائیں گے۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب پتا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ گرم پانی کا تریڑا دوزخیوں کے سروں پر بہاؤ اور ان سے کہو کہ عذاب کا لطف اٹھاؤ تم بڑے ذی عزت اور بزرگ سمجھے جاتے رہے ہو بدلہ اس کا یہ ہے۔ ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ کی اطاعت سے اسے مقدم رکھے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے جیسے کہ ابولہب کھلم کھلا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لئے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور وہ اس میں جلتا رہے گا۔ یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کر دیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آ جائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے۔ بلکہ ایک ساتھ سب کے سب۔ مرفوعاً بھی یہ روایت آئی ہے لیکن اس کے سند صحیح نہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے جو عضو سامنے آ جائے گا اسی کو چبا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑا جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ۔ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ امام بخاری اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زید بن وہب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آ گئے ہو؟ آپ نے فرمایا ہم شام میں تھے وہاں میں نے آیت والذین یکنزون الخ، کی تلاوت کی تو حضرت معاویہ نے فرمایا یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا ہماری اور ان کے سب کے حق میں ہے۔ اس میں میرا ان کا اختلاف ہو گیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ جب مدینے پہنچا تو چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا۔ غرض میں مدینے میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آ گیا۔ آخر میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ۔ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے۔ اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے۔ حضرت معاویہ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلافت سے شکایت کی امیر المومنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا آپ وہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے۔ حضرت معاویہ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے قبل سب ادھر ادھر راہ اللہ خرچ کر ڈالیں۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی امیر معاویہ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لئے بھجوائی تھیں میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں وہ واپس کیجئے آپ نے فرمایا تم پر آفرین ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آ جائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا۔ ابن عباس بھی اس آیت کا حکم عام بتاتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے۔ احنف بن قیس فرماتے ہیں میں مدینے میں آیا دیکھا کہ قریشیوں کی ایک جماعت محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے موٹے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حالت میں اور آتے ہی کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہو جائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے سب لوگ سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گزرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لئے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔ غالباً اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابوذر کا یہ مذہب تھا۔ جو آپ نے اوپر پڑھا واللہ اعلم۔ ایک مرتبہ حضرت ابوذر کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات فراہم کرنا شروع کیا۔ سامان کی خرید کے بعد سات درہم بچ رہے حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو حضرت عبد اللہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آ جائے تو ان کے آپ نے فرمایا نہیں مجھ سے میرے خلیل صلی اللہ علیہ و سلم نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سر بند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لئے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے۔ ابن عساکر میں ہے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل۔ انہوں نے پوچھا یہ کس طرح؟ فرمایا سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھے انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکے گا آپ نے فرمایا یہی ہے ورنہ آگ ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہو گیا وہ دینار یا دو درہم پس انداز کئے ہوئے نکلے آپ نے فرمایا یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہمد کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا آپ نے فرمایا ایک داغ آگ کا پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ دو داغ آگ کے ہیں فرماتے ہیں جو لوگ سرخ و سفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے، ایک ایک تختی آگ کی بنائی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کر ٹھوڑی تک اس کے جسم میں اس آگ سے داغ کئے جائیں گے۔ آپ کا فرمان ہے کہ جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور پہلو اور کمر پر اس سے داغ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لئے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو اس کا راوی ضعیف کذاب و متروک ہے۔

 

۳۶

احترام آدمیت کا منشور

مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلیت پر آگیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں۔ تین پے درپے ذوالقعدہ ذوالحجہ، محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی پورا علم ہے۔ آپ نے سکوت فرمایا ہم سمجھے کہ شاید آپ اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا ہاں پھر پوچھا یہ کونسا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا اللہ جانے اور اس کا رسول آپ نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاہد آپ اس مہینے کا نام کوئی اور رکھیں گے آپ نے فرمایا کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا یہ کونسا شہر ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم خوب جاننے والے ہیں؟ آپ پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ کو اس کا کوئی اور ہی نام رکھنا ہے پھر فرمایا یہ بلدہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے کہا بیشک۔ آپ نے فرمایا یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو میرے بعد گمراہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتاؤ کیا میں نے تبلیغ کر دی؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں منیٰ میں حجۃ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے۔ ابوحرہ رقاشی کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا۔ آپ کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہو گئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ یہ شہر ابتداء مخلوق سے با حرمت و با عزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا پس عربوں میں جو رواج پڑ گیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے آیت انما النسی الخ، کی تفسیر میں اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن۔ ٭ فصل ٭ شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشہور فی اسماء الایام و المشہور میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لئے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے۔ اس کی جمع محرمات حارم محاریم۔ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے۔ جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے ہیں صفر المکان اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے۔ ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہو جاتی ہے ارتباع کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع اربعا ہے جیسے نصیب کی جمع انصبا اور جمع اس کی اربعہ ہے جیسے رغیف کی جمع ارغفہ ہے۔ ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے۔ جمادی الاولی کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ جچتی نہیں اس لئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو۔ چنانچہ ایک شاعر نے یہی کہ ہے کہ جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے اس کی جمع جمادیات ہے۔ جیسے حباری حباریات۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے۔ جمادی الاول اور جمادی الاخر بھی کہا جاتا ہے۔ جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے۔ رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لئے اسے رجب کہتے ہیں اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے۔ شعبان کا نام شعبان اس لئے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لئے ادھر ادھر متفرق ہو جاتے تھے۔ شعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا اس کی جمع شعابین شعبانات آتی ہے۔ رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں رمضت الفصال اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں اس کی جمع رمضانات اور ماضین اور رمامضہ آتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے لیکن وہ ضعیف ہے۔ میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کر دیا ہے۔ شوال ماخوذ ہے شالت الابل سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لئے اس مہینہ کا یہی نام ہو گیا اس کی جمع شواویل شواول شوالات آتی ہے۔ ذوالقعدہ یا ذوالقعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لئے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لئے۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے۔ ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لئے اس کا یہ نام مقرر ہو گیا ہے۔ اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے۔ یہ تو ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ تھی۔ اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع احاد اوحاد اور وحود آتی ہے۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے۔ منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثات اور اثالث آتی ہے۔ بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے۔ جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اخمسہ اخامس آتی ہے۔ جمعہ کو جمعہ اور جمعہ اور جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع جمع اور جماعات آتی ہے۔ سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ ہفتے کی دنوں کی گنتی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے اس لئے اسے سبت کہتے ہیں۔ قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول، رھون جبار، دبار، مونت، عروبہ، شبار۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار کے عربوں میں دنوں کے نام پائے جاتے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا۔ جو جمادی الاخر اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب شعبان اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔ ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے درپے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت لڑائیاں مار پیٹ جنگ و جدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام حج کی ادائیگی امن و امان عمدگی اور شان سے ہو جائے پھر وہ ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے درمیانہ سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کر لیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آ مد و رفت کریں یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے۔ پس اللہ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو۔ اس لئے کہا اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ کرے ہم اسے درد ناک عذاب دیں گے اسی طرح سے ان محترم مہینوں میں کیا ہوا گناہ اور دنوں میں کئے ہوئے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے حضرت امام شافعی اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے اسی طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی دیت سخت ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں فیھن سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لئے اسی طرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان شریف کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے۔ امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتائی ہے۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کر لو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔ پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں۔ حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کا ذکر فرمایا۔ ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں گئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گزر جان کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہی جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ ہوازن قبیلے کی طرف ماہ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے افراد بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے پس ثابت ہے کہ آپ نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنا حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہیہ کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور فرمان ہے واذا نسلخ الا شہر الحرم فاقتلوا المشرکین الخ، حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو۔ یہ پہلے بیان گزر چکا ہے کہ یہ ہر سال میں چار مہینے ہیں۔ نہ کہ تیسرے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے۔ پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے کہ وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لئے تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لئے وہ مڈ بھیڑ آپس میں مل کر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو۔ جیسے آیت الشھر الحرام میں ہے اور جیسے آیت ولاتقاتلوھم عندالسجد الحرام حتی یقاتلو کم فیہ الخ، میں بیان ہے کہ ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔ یہی جواب حرمت والے مہینے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل یہ لڑائی تتمہ تھی ہوازن اور تقفی حلیفوں کے ساتھ جنگ کا۔ انہوں نے ہی جنگ کی ابتداء کی تھی ادھر ادھر سے آپ کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی پس حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں جا چھپے اور وہاں قلعہ بند ہو گئے آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لئے اور آگے بڑھے انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا یا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا ادھر محاصرہ جاری رہا منجیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں ہوئی تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آ گیا جب چند دن گزر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتداء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں واللہ اعلم۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں وارد کرتے ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم۔

 

۳۷

احکامات دین میں رد و بدل انتہائی مذموم سوچ ہے

مشرکوں کے کفر کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کس طرح اپنی فاسد رائے کو اور اپنی ناپاک خواہش کو شریعت ربانی میں داخل کر کے اللہ کے دین کے احکام میں رد و بدل کر دیتے تھے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیتے تھے۔ تین مہینے کی حرمت کو تو ٹھیک رکھا پھر چوتھے مہینے محرم کی حرمت کو اس طرح بدل دیا کہ محرم کو صفر کے مہینے میں کر دیا اور محرم کی حرمت نہ کی۔ تاکہ بظاہر سال کے چار مہینے کی حرمت بھی پوری ہو جائے اور اصلی حرمت کے مہینے محرم میں لوٹ مار قتل و غارت بھی ہو جائے اور اس پر اپنے قصیدوں میں مبالغہ کرتے تھے اور فخریہ اپنا یہ فعل اچھالتے تھے۔ ان کا ایک سردار تھا جنادہ بن عمرو بن امیہ کنانی یہ ہر سال حج کو آتا اس کی کنیت ابوثمامہ تھی یہم نادی کر دیتا کہ نہ تو ابو ثمامہ کے مقابلے میں کوئی آواز اٹھا سکتا ہے نہ اس کی بات میں کوئی عیب جوئی کر سکتا ہے سنو پہلے سال کا صفر مہینہ حلال ہے اور دوسرے سال کا حرام۔ پس ایک سال کے محرم کی حرمت نہ رکھتے دوسرے سال کے محرم کی حرمت منا لیتے۔ ان کی اسی زیادتی کفر کا بیان اس آیت میں ہے۔ یہ شخص اپنے گدھے پر سوار آتا اور جس سال یہ محرم کو حرمت والا بنا دیتا لوگ اس کی حرمت کرتے اور جس سال وہ کہہ دیتا کہ محرم کو ہم نے ہٹا کر صفر میں اور صفر کو آگے بڑھا کر محرم میں کر دیا ہے اس سال عرب میں اس ماہ محرم کی حرمت کوئی نہ کرتا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بنی کنانہ کے اس شخص کو علمس کہا جاتا تھا یہ منادی کر دیتا کہ اس سال محرم کی حرمت نہ منأای جائے اگلے سال محرم اور صفر دونوں کی حرمت رہے گی پس اس کے قول پر جاہلیت کے زمانے میں عمل کر لیا جاتا اور اب حرمت کے اصلی مہینے میں جس میں ایک انسان اپنے باپ کے قاتل کو پا کر بھی اس کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا تھا اب آزادی سے آپس میں خانہ جنگیاں اور لوٹ مار ہوتی۔ لیکن یہ قول کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ گنتی میں وہ موافقت کرتے تھے اور اس صورت میں گنتی کی موافقت بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک سال میں تین مہینے رہ جاتے ہیں اور دوسرے سال میں پانچ ماہ ہو جاتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے تو حج فرض تھا ذی الحجہ کے مہینے میں لیکن مشرک ذی الحجہ کا نام محرک رکھ لیتے پھر برابر گنتی گنتے جاتے اور اس حساب سے جو ذی الحجہ آتا اس میں حج ادا کرتے پھر محرم کے نام سے خاموشی برت لیتے اس کا ذکر ہی نہ کرتے پھر لوٹ کر صفر نام رکھ دیتے پھر رجب کو جمادی الاخر پھر شعبان کو رمضان اور رمضان کو شوال پھر ذوالقعدہ کو شوال ذی الحجہ کو ذی القعدہ اور محرم کو ذی الحجہ کہتے اور اس میں حج کرتے۔ پھر اس کا اعادہ کرتے اور دو سال تک ہر ایک مہینے میں برابر حج کرتے۔ جس سال حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا اس سال مشرکوں کی اس گنتی کے مطابق دوسرے برس کا ذوالقعدہ کا مہینہ تھا۔ آنضحور صلی اللہ علیہ و سلم نے حج کے موقعہ پر ٹھیک ذوالحجہ کا مہینہ تھا اور اسی کی طرف آپ نے اپنے خطبے میں اشارہ فرمایا اور ارشاد ہوا کہ زمانہ گھوم پھر کر اسی ہئیت پر آ گیا ہے جس ہئیت پر اس وقت تھا جب زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے بنائے لیکن یہ قول بھی درست نہیں معلوم ہوتا۔ اس وجہ سے کہ اگر ذی القعدہ میں حضرت ابوبکر کا حج ہوا تو یہ حج کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے واذان من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر الخ، یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے آج کے حج اکبر کے دن مشرکوں سے علیحدگی اور بیزاری کا اعلان ہے۔ اس کی منادی حضرت صدیق کے حج میں ہی کی گئی پس اگر یہ حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو حج کا دن نہ فرماتا اور صرف ہینوں کی تقدیم و تاخیر کو جس کا بیان اس آیت میں ہے ثابت کرنے کے لئے اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ تو اس کے بغیر بھی ممکن ہے۔ کیونکہ مشرکین ایک سال تو محرم الحرام کے مہینے کو حلال کر لیتے اور اس کے عوض ماہ صفر کو حرمت والا کر لیتے سال کے باقی مہینے اپنی جگہ رہتے۔ پھر دوسرے محرم کو حرام سمجھتے اور اس کی حرمت و عزت باقی رکھتے تاکہ سال کے چار حرمت والے مہینے جو اللہ کی طرف سے مقرر تھے ان کی گنتی میں موافقت کر لیں پس کبھی تو حرمت ولیت ینوں مہینے جو پے درپے ہیں ان میں سے آخری ماہ محرم کی حرمت رکھتے کبھی اسے صفر کی طرف موخر کر دیتے۔ رہا حضور کا کا فرمان کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلی حالت پر آ گیا ہے یعنی اس وقت جو مہینہ ان کے نزدیک ہے وہی مہینہ صحیح گنتی میں بھی ہے اس کا پورا بیان ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں واللہ اعلم۔ ابن ابی اتم میں ہے کہ عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ٹھہرے مسلمان آپ کے پاس جمع ہو گئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثناء بیان فرما کر فرمایا کہ مہینوں کی تاخیر شیطان کی طرف سے کفر کی زیادتی تھی کہ کافر بہکیں۔ وہ ایک سال محرم کو حرمت والا کرتے اور صفر کو حلت والا پھر محرم کو حلت والا کر لیتے یہی ان کی وہ تقدیم تاخیر ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔ امام محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السیرت میں اس پر بہت اچھا کلام کیا ہے جو بے حد مفید اور عمدہ ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اس کام کو سب سے پہلے کرنے والا علمس حذیفہ بن عبید تھا۔ پھر قیم بن عدی بن عامر بن ثعلبہ بن حارث بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ پھر اس کا لڑکا عباد پھر اس کا لڑکا قلع پھر اس کا لڑکا امیہ پھر اس کا لڑکا عوف پھر اس کا لڑکا ابو ثمامہ جناوہ اسی کے زمانہ میں اشاعت اسلام ہوئی۔ عرب لوگ حج سے فارغ ہو کر اس کے پاس جمع ہوتے یہ کھڑا ہو کر انہیں لیکچر دیتا اور رجب ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کی حرمت بیان کرتا اور یاک سال تو محرم کو حلال کر دیتا اور محرم صفر کو بنا دیتا اور ایک سال محرم کو ہی حرمت والا کہہ دیتا کہ اللہ کی حرمت کے مہینوں کی گنتی موافق ہو جائے اور اللہ کا حرام حلال بھی ہو جائے۔

 

۳۸

غزوہ تبوک اور جہاد سے گریزاں لوگوں کو انتباہ

ایک طرف تو گرمی سخت پڑ رہی تھی دوسری طرف پھل پک گئے تھے اور درختوں کے سائے بڑھ گئے تھے۔ ایسے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک دور دراز کے سفر کے لئے تیار ہو گئے غزوہ تبوک میں اپنے ساتھ چلنے کے لئے سب سے فرما دیا کچھ لوگ جو رہ گئے تھے انہیں جو تنبیہ کی گئی ان آیتوں کا شرع اس آیت سے ہے کہ جب تمہیں اللہ کی راہ کے جہاد کی طرف بلایا جاتا ہے تو تم کیوں زمین میں دھنسنے لگتے ہو۔ کیا دنیا کی ان فنی چیزوں کی ہوس میں آخرت کی باقی نعمتوں کو بھلا بیٹھے ہو؟ سنو دنیا کی تو آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی کلمے کی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اس انگلی کو کئی سمندر میں ڈبو کر نکالے اس پر جتنا پانی سمندر کے مقابلے میں ہے اتنا ہی مقابلہ دنیا کا آخرت سے ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے کسی نے پوچھا کہ میں نے سنا ہے آپ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے ایک لاکھ کا ثبوت دیتا ہے آپ نے فرمایا بلکہ میں نے دو لاکھ کا فرمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے پھر آپ نے اس آیت کے اسی جملے کی تلاوت کر کے فرمایا کہ دنیا جو گزر گئی اور جو باقی ہے وہ سب آخرت کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ مروی ہے کہ عبدالعزیز بن مروان نے اپنے انتقال کے وقت اپنا کفن منگوایا اسے دیکھ کر فرمایا بس میرا تو دنیا سے یہی حصہ تھا میں اتنی دنیا لے کر جا رہا ہوں پھر پیٹھ موڑ کر رو کر کہنے لگے ہائے دنیا تیرا زیادہ بھی کم ہے اور تیرا کم تو بہت ہی چھوٹا ہے افسوس ہم تو دھوکے میں ہی رہے۔ پھر ترک جہاد پر اللہ تعالیٰ ڈانٹتا ہے کہ سخت درد ناک عذاب ہوں گے۔ ایک قبیلے کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاد کے لئے بلوایا وہ نہ اٹھے اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش روک لی۔ پھر فرماتا ہے کہ اپنے دل میں اترانا مت کہ ہم رسول کے مددگار ہیں اگر تم درست نہ رہے تو اللہ تمہیں برباد کر کے اپنے رسول کا دوسرے لوگوں کو مددگار کر دے گا۔ جو تم جیسے نہ ہوں گے۔ تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہ نہیں کہ تم نہ جاؤ تو مجاہدین جہاد کر ہی نہ سکیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے وہ تمہارے بغیر بھی اپنے دشمنوں پر اپنے غلاموں کو غالب کر سکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت انفروا اخفافا و ثقالا اور آیت ماکان لاھل المدینتہ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسولہ للہ الخ، یہ سب آیتیں آیت وما کان المومنون لینفروا کافتہ الخ، سے منسوخ ہیں لیکن امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ منسوخ نہیں بلکہ ان آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جہاد کے لئے نکلنے کو فرمائیں وہ فرمان سنتے ہی اٹھ کھڑے ہو جائیں فی الواقع یہ توجیہ بہت عمدہ ہے واللہ اعلم۔

 

۴۰

آغاز ہجرت

تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں۔ یاد رکھو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ کے قتل، قید یا دیس نکالا دینے کی سازش کی تھی اور آپ اپنے سچے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ تن تنہا مکہ شریف سے بحکم الٰہی تیز رفتاری سے نکلے تھے تو کون ان کا مددگار تھا؟ تین دن غار میں گزارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ شریف کا راستہ لیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو کوئی ایذا پہنچائے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ابوبکر ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابوبکر ابن ابوقحافہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے غار میں کہا کہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا آپ نے فرمایا ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ ہے۔ الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابوبکر پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔ ابن عباس وغیرہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں۔ اس لئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا۔ شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لئے۔ دوسرا حمیت قومی کے لئے، تیسرا لوگوں کو خوش کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو کلمہ حق کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ راہ حق کا مجاہد ہے اللہ تعالیٰ انتقال لینے پر غالب ہے۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی کوئی روک سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے۔ کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے۔ اس کے سب اقوال افعال حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ۔

 

۴۱

جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے

کہتے ہیں کہ سورہ براۃ میں یہی آیت پہلے اتری ہے اس میں ہے کہ غزوہ تبوک کے لئے تمام مسلمانوں کو ہادی ام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نکل کھڑے ہونا چاہئے اہل کتاب رومیوں سے جہاد کے لئے تمام مومنوں کو چلنا چاہئے خواہ دل مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا طبیعت پر گراں گزرے۔ ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا کوئی بیمار کا عذر کر دے گا تو یہ آیت اتری۔ بوڑھے جو ان سب کو پیغمبر کا ساتھ دینے کا عام حکم ہوا کسی کا کوئی عذر نہ چلا حضرت ابوطلحہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی اور اس حکم کی تعمیل میں سر زمین شام میں چلے گئے اور نصرانیوں سے جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ جان بخشنے والے اللہ کو اپنی جان سپرد کر دی۔ رضی اللہ عنہ وارضاء اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر آئے تو فرمانے لگے ہمارے رب نے تو میرے خیال سے بوڑھے جوان سب کو جہد کے لئے چلنے کی دعوت دی ہے میرے پیارے بچو میرا سامان تیار کرو۔ میں ملک شام کے جہاد میں شرکت کے لئے ضرور جاؤں گا بچوں نے کہا ابا جی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات تک آپ نے حضور کی ماتحتی میں جہاد کیا۔ خلافت صدیقی میں آپ مجاہدین کے ساتھ رہے۔ خلافت فاروقی کے آپ مجاہد مشہور ہیں۔ اب آپ کی عمر جہاد کی نہیں رہی آپ گھر پر آرام کیجئے ہم لوگ آپ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلتے ہیں اور اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے ہیں لیکن آپ نہ مانے اور اسی وقت گھر سے روانہ ہو گئے سمندر پار جانے کے لئے کشتی لی اور چلے ہنوز منزل مقصود سے کئی دن کی راہ پر تھے جو سمندر کے عین درمیان روح پروردگار کو سونپ دی۔ نو دن تک کشتی چلتی رہی لیکن کوئی جزیرہ یا ٹاپو نظر نہ آیا کہ وہاں آپ کو دفنایا جاتا۔ نو دن کے بعد خشکی پر اترے اور آپ کو سپرد لحد کیا اب تک نعش مبارک جوں کی توں تھی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ اور بھی بہت سے بزرگوں سے حفافاً و ثقالاً کی تفسیر جوان اور بوڑھے مروی ہے۔ الغرض جوان ہوں، بوڑھے ہوں، امیر ہوں، فقیر ہوں، فارغ ہوں، مشغول ہوں، خوش حال ہوں یا تنگ دل ہوں، بھاری ہوں یا ہلکے ہوں، حاجت مند ہوں، کاری گر ہوں، آسانی والے ہوں سختی والے ہوں پیشہ ور ہوں یا تجارتی ہوں، قوی ہوں یا کمزور جس حالت میں بھی ہوں بلا عذر کھڑے ہو جائیں اور راہ حق کے جہاد کے لئے چل پڑیں۔ اس مسئلہ کی تفصیل کے طور پر ابو عمرو اور زاعی کا قول ہے کہ جب اندرون روم حملہ ہوا ہو تو مسلمان ہلکے پھلکے اور سوار چلیں۔ اور جب ان بندرگاہوں کے کناروں پر حملہ ہو تو ہلکے بوجھل سوار پیدل ہر طرح نکل کھڑے ہو جائیں۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ آیت فلولانفرالخ، سے یہ حکم منسوخ ہے۔ اس پر ہم پوری روشنی ڈالیں گے انشاء اللہ تعالیٰ مروی ہے کہ ایک بھاری بدن کے بڑے شخص نے آپ سے اپنا حال ظاہر کر کے اجازت چاہی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور یہ آیت اتری۔ لیکن یہ حکم صحابہ پر سخت گزرا پھر جناب باری نے اسے آیت لیس علی الضعفاء، الخ، سے منسوخ کر دیا یعنی ضعیفوں بیماروں تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو اگر وہ اللہ کے دین اور شرع مصطفیٰ کے حامی اور طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔ حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اول غزوے سے لے کر پوری عمر تک سوائے ایک سال کے ہر غزوے میں موجود رہے اور فرماتے رہے کہ خفیف و ثقیل دونوں کو نکلنے کا حکم ہے اور انسان کی حالت ان دو حالتوں سے سوا نہیں ہوتی۔ حضرت ابو راشد حرانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت مقداد بن اسود سوار سرکار رسالت مآب کو حمص میں دیکھا کہ ہڈی اتر گئی ہے پھر بھی ہود میں سوار ہو کر جہاد کو جا رہے ہیں تو میں نے کہا اب تو شریعت آپ کو معذور سمجھتی ہے آپ یہ تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں ڈ آپ نے فرمایا سنو سورۃ البعوث یعنی سورہ برات ہمارے سامنے اتری ہے جس میں حکم ہے کہ ہلکے بھاری سب جہاد کو جاؤ۔ حضرت حیان بن زید شرعی کہتے ہیں کہ صفوان بن عمرو والی حمص کے ساتھ جراجمہ کی جانب جہاد کے لئے چلے، میں نے دمشق کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا کہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار وہ بھی آ رہے ہیں ان کی بھوئیں ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہیں شیخ فانی ہو چکے ہیں میں نے پاس جا کر کہا چچا صاحب آپ تو اب اللہ کے نزدیک بھی معذور ہیں یہ سن کر آپ نے اپنی آنکھوں پر سے بھوئیں ہٹائیں اور فرمایا بھتیجے سنو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری ہونے کی دونوں صورتوں میں ہم سے جہاد میں نکلنے کی طلب کی ہے۔ سنو جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے وہاں اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے پھر اس پر بعد از ثابت قدمی اللہ کی رحمت برستی ہے۔ سنو اللہ کی آزمائش شکر و صبر و ذکر اللہ اور توحید خالص سے ہوتی ہے۔ جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ تھوڑا سا خرچ ہو گا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے خود الہ العالمین کا فرمان عالی شان ہے کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا ہے باوجود یہ کہ تم اس سے کترا کھا رہے ہو۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ تمہاری نہ چاہی ہوئی چیز ہی دراصل تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری چاہت کی چیز فی الواقع تمہارے حق میں بے حد مضر ہو سنو تم تو بالکل نادان ہو اور اللہ تعالیٰ پورا پورا دانا بینا ہے۔ حضور نے ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہو جا اس نے کہا جی تو چاہتا نہیں آپ نے فرمایا گو نہ چاہے (مسند احمد)

 

۴۲

عیار عیار لوگوں کو بے نقاب کر دو

جو لوگ غزوہ تبوک میں جانے سے رہ گئے تھے اور اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر اپنے جھوٹے اور بناوٹی عذر پیش کرنے لگے تھے۔ انہیں اس آیت میں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دراصل انہیں کوئی معذوری نہ تھی اگر کوئی انسان غنیمت اور قریب کا سفر ہوتا تو یہ ساتھ ہو لیتے لیکن شام تک کے لمبے سفر نے ان کے گھٹنے توڑ دیئے اور مشقت کے خیال نے ان کے ایمان کمزور کر دیئے۔ اب یہ آ کر جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اللہ کے رسول کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ اگر کوئی عذر نہ ہوتا تو بھلا ہم شرف ہم رکابی چھوڑنے والے تھے؟ ہم تو جان و دل سے آپ کے قدموں میں حاضر ہو جاتے اللہ فرماتا ہے ان کے جھوٹ کا مجھے علم ہے انہوں نے تو اپنے آپ کو غارت کر دیا۔

 

۴۳

نہ ادھر کے نہ ادھر کے

سبحان اللہ اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں؟ سخت بات کے سنانے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جاتا ہے اس کے بعد رخصت دینے کا عہد بھی سورہ نور میں کیا جاتا ہے اور ارشاد عالی ہوتا ہے فاذا استاذنوک لبعض شانھم فاذن لمن شئت منھم الخ، یعنی ان میں سے کوئی اگر آپ سے اپنے کسی کام اور شغل کی وجہ سے اجازت چاہے تو آپ جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں۔ یہ آیت ان کے بارے میں اتری ہے جن لوگوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلبی تو کریں اگر اجازت ہو جائے تو  اور اچھا اور اگر اجازت نہ بھی دیں تو بھی ہم اس غزوے میں جائیں گے تو نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر انہیں اجازت نہ ملتی تو اتنا فائدہ ضرور ہوتا کہ سچے عذر والے اور جھوٹے بہانے بنانے والے کھل جاتے۔ نیک و بد میں ظاہری تمیز ہو جاتی۔ اطاعت گذار تو حاضر ہو جاتے۔ نافرمان باوجود اجازت نہ ملنے کے بھی نہ نکلتے۔ کیونکہ انہوں نے تو طے کر لیا تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہاں کہیں یا نہ کہیں ہم تو جہاد میں جانے کے نہیں۔ اسی لئے جناب باری نے اس کے بعد کی آیت میں فرمایا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سچے ایماندار لوگ راہ حق کے جہاد سے رکنے کی اجازت تجھ سے طلب کریں وہ تو جہاد کو موجب قربت الہیہ مان کر اپنی جان و املاک کے فدا کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں اللہ بھی اس متقی جماعت سے بخوبی آگاہ ہے۔ بلا عذر شرعی بہانے بنا کر جہاد سے رک جانے کی اجازت طلب کرنے والے تو بے ایمان لوگ ہیں جنہیں دار آخرت کی جزا کی کوئی امید ہی نہیں ان کے دل آج تک تیری شریعت کے بارے میں شک شبہ میں ہی ہیں یہ حیران و پریشان ہیں ایک قدم ان کا آگے بڑھتا ہے تو دوسرا پیچھے ہٹتا ہے انہیں ثابت قدمی اور استقلال نہیں یہ ہلاک ہونے والے ہیں یہ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے یہ اللہ کے گمراہ کئے ہوئے ہیں تو ان کے سنوار نے کا کوئی رستہ نہ پائے گا۔

 

۴۶

غلط گو غلط کار کفار و منافق

عذر کرنے والوں کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گزرنے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا دراصل اللہ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لئے انہیں پیچھے ہٹا دیا اور قدرتی طور پر ان سے کہہ دیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو۔ ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا۔ یہ ادھر کی ادھر ادھر کی ادھر لگا بکر بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے۔ ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شرر انگیزیوں سے بے خبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے۔ مجاہد وغیرہ کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اندر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کے حامی اور ہمدرد ہیں یہ لوگ تمہاری جاسوسی کرتے رہتے ہیں اور تمہاری پل پل کی خبریں انہیں پہنچاتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ کو اس لئے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعضے وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لئے جاسوسی کی کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے۔ امام محمد بن اسحاق فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے والوں میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ نے انہیں دور ڈال دیا اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کے سامنے ان کی بات مان لینے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ چاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتوں تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی۔ یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے۔ اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو! ان کا نہ نکلنا ہی غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے نہ خود جہاد کرتے نہ کرنے دیتے۔ اسی لئے فرمان ہے کہ اگر کفار دوبارہ بھی دنیا میں لوٹائے جائیں تو نئے سرے سے پھر وہی کریں جس سے منع کئے جائیں اور یہ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہیں۔ ایک اور آیت میں ہے کہ اگر علم اللہ میں ان کے دلوں میں کوئی بھی خیر ہوتی تو اللہ تعالیٰ عزوجل انہیں ضرور سنا دیتا لیکن ابتو یہ حال ہے کہ سنیں بھی تو منہ موڑ کر لوٹ جائیں اور جگہ ہے کہ اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم آپس میں ہی موت کا کھیل کھیلو یا جلا وطن ہو جاؤ تو سوائے بہت کم لوگوں کے یہ ہرگز اسے نہ کرتے۔ حالانکہ ان کے حق میں بہتر اور اچھا یہی تھا کہ جو نصیحت انہیں کی جانئے یہ اسے بجا لائیں تاکہ اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم دیں اور راہ مستقیم دکھائیں۔ ایسی آیتیں اور بھی بہت ساری ہیں۔

 

۴۸

فتنہ و فساد کی آگ منافق

اللہ تعالیٰ منافقین سے نفرت دلانے کے لئے فرما رہا ہے کہ کیا بھول گئے مدتوں تو یہ فتنہ و فساد کی آگ سلگاتے رہے ہیں اور تیرے کام کے الٹ دینے کی بیسیوں تدبیریں کر چکے ہیں مدینے میں آپ کا قدم آتے ہی تمام عرب نے ایک ہو کر مصیبتوں کی بارش آپ پر برسا دی۔ باہر سے وہ چڑھ دوڑے اندر سے یہود مدینہ اور منافقین مدینہ نے بغاوت کر دی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں سب کی کمانیں توڑ دیں ان کے جوڑ ڈھیلے کر دیئے ان کے جوش ٹھنڈے کر دیئے بدر کے معرکے نے ان کے ہوش حواس بھلا دیئے اور ان کے ارمان ذبح کر دیئے۔ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے صاف کہہ دیا کہ بس اب یہ لوگ ہمارے بس کے نہیں رہے اب تو سوا اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر میں اسلام کی موافقت کی جائے دل میں جو ہے سو ہے وقت آنے دو دیکھا جائے گا اور دکھا دیا جائے گا۔ جیسے جیسے حق کی بلندی اور توحید کا بول بالا ہوتا گیا یہ لوگ حسد کی آگ میں جلتے گئے آخر حق نے قدم جمائے، اللہ کا کلمہ غالب آ گیا اور یہ یونہی سینہ پیٹتے اور ڈنڈے بجاتے رہے۔

 

۴۹

جد بن قیس جیسے بدتمیزوں کا حشر

جد بن قیس سے حضور نے فرمایا اس سال نصرانیوں کے جلا وطن کرنے میں تو ہمارا ساتھ دے گا؟ تو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے تو معاف رکھئے میری ساری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بے طرح شیدائی ہوں عیسائی عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے تو اپنا نفس روکا نہ جائے گا۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ فتنے میں تو پڑا ہوا ہے۔ رسول اللہ کا ساتھ چھوڑنا جہاد سے منہ موڑنا یہ کہ کیا کم فتنہ ہے یہ منافق بنو سلمہ قبیلے کا رئیس اعظم تھا۔ حضور نے جب اس قبیلے کے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ تو انہوں نے کہا جد بن قیس جو بڑا ہی شوم اور بخیل ہے۔ آپ نے فرمایا بخل سے بڑھ کر اور کیا بری بیماری ہے؟ سنو اب سے تمہارا سردار نوجوان سفید اور خوبصورت حضرت بشر بن برا بن معرور ہیں۔ جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے نہ اس سے وہ بچ سکیں نہ بھاگ سکیں نہ نجات پا سکیں۔

 

۵۰

بد فطرت لوگوں کا دوغلا پن

ان بد باطن لوگوں کی اندرونی خباثت کا بیان ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی فتح و نصرت سے، ان کی بھلائی اور ترقی سے ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور اگر اللہ نہ کرے یہاں اس کے خلاف ہوا تو بڑے شور و غل مچاتے ہیں گا گا کر اپنی چالاکی کے افسانے گائے جاتے ہیں کہ میاں اسی وجہ سے ہم تو ان سے بچے رہے مارے خوشی کے بغلیں بجانے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو جواب دے کر رنج راحت اور ہم خود اللہ کی تقدیر اور اس کی منشا کے ماتحت ہیں وہ ہمارا مولیٰ ہے وہ ہمارا آقا ہے وہ ہماری پناہ ہے ہم مومن ہیں اور مومنوں کا بھروسہ اسی پر ہوتا ہے وہ ہمیں کافی ہے بس ہے وہ ہمارا کار ساز ہے اور بہترین کار ساز ہے۔

 

۵۲

شہادت ملی تو جنت، بچ گئے تو غازی

مسلمانوں کے جہاد میں دو ہی انجام ہوتے ہیں اور دونوں ہر طرح اچھے ہیں اگر شہادت ملی تو جنت اپنی ہے اور اگر فتح ملی تو غنیمت و اجر ہے۔ پس اے منافقو تم جو ہماری بابت انتظار کر رہے ہو وہ انہی دو اچھائیوں میں سے ایک کا ہے اور ہم جس بات کا انتظار تمہارے بارے میں کر رہے ہیں وہ دو برائیوں میں سے ایک کا ہے یعنی یا تو یہ کہ اللہ کا عذاب براہ راست تم پر آ جائے یا ہمارے ہاتھوں سے تم پر اللہ کی مار پڑے کہ قتل و قید ہو جاؤ۔ اچھا اب تم اپنی جگہ اور ہم اپنی جگہ منتظر رہیں دیکھیں پر وہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ تمہارے خرچ کرنے کا اللہ بھوکا نہیں تم خوشی سے دو تو اور ناراضگی سے دو تو وہ تو قبول فرمانے کا نہیں اس لئے کہ تم فاسق لوگ ہو۔ تمہارے خرچ کی عدم قبولیت کا باعث تمہارا کفر ہے اور اعمال کی قبولیت کی شرط کفر کا نہ ہونا بلکہ ایمان کا ہونا ہے ساتھ ہی کسی عمل میں تمہارا نیک قصد اور سچی ہمت نہیں۔ نماز کو آتے ہو تو بھی بجھے دل سے، گرتے پڑتے مرتے پڑتے سست اور کاہل ہو کر۔ دیکھا دیکھی مجمع میں دو چار دے بھی دیتے ہو تو مرے جی سے دل کی تنگی سے۔ صادق و مصدوق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ نہیں تھکتا لیکن تم تھک جاؤ اللہ پاک ہے وہ پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے متقیوں کی اعمال قبول ہوتے ہیں تم فاسق ہو تمہارے اعمال قبولیت سے گرے ہوئے ہیں۔

 

۵۵

کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے

ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ۔ ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لئے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو۔ قتادہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم موخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے پہلا قول حضرت حسن بصری کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی۔ یوں ہی بتدریج پکڑ لئے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا یہی حشمت و وجاہت مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا۔

 

۵۶

جھوٹی قسمیں کھانے والوں کی حقیقت

ان کی تنگ دلی ان کی غیر مستقل مزاجی ان کس سراسیمگی اور پریشانی گھبراہٹ اور بے اطمینانی کا یہ حال ہے کہ تمہارے پاس آ کر تمہارے دل میں گھر کرنے کے لئے اور تمہارے ہاتھوں سے بچنے کے لئے بڑی لمبی چوڑی زبردست قسمیں کھاتے ہیں کہ واللہ ہم تمہارے ہیں ہم مسلمان ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے یہ صرف خوف و ڈر ہے جو ان کے پیٹ میں درد پیدا کر رہا ہے۔ اگر آج انہیں اپنے بچاؤ کے لئے کوئی قلعہ مل جائے اگر آج یہ کوئی محفوظ غار دیکھ لیں یا کسی اچھی سرنگ کا پتہ انہیں چل جائے تو یہ تو سارے کے سارے دم بھر میں اس طرف دوڑ جائیں تیرے پاس ان میں سے ایک بھی نظر نہ آئے کیونکہ انہیں تجھ سے کوئی محبت یا انس تو نہیں ہے یہ تو ضرورت مجبوری اور خوف کی بناء پر تمہاری چاپلوسی کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں اسلام ترقی کر رہا ہے یہ جھکتے چلے جا رہے ہیں مومنوں کو ہر خوشی سے یہ جلتے تڑپتے ہیں ان کی ترقی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ موقعہ مل جائے تو آج بھاگ جائیں۔

 

۵۸

مال و دولت کے حریص منافق

بعض منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر تہمت لگاتے کہ آپ مالِ زکوٰۃ صحیح تقسیم نہیں کرتے وغیرہ۔ اور اس سے ان کا ارادہ سوائے اپنے نفع کے حصول کے اور کچھ نہ تھا انہیں کچھ مل جائے تو راضی راضی ہیں۔ اگر اتفاق سے یہ رہ جائیں تو بس ان کے نتھنے پھولے جاتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مال زکوٰۃ جب ادھر ادھر تقسیم کر دیا تو انصار میں سیکسی نے ہانک لگائی کہ یہ عدل نہیں اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک نو مسلم صحرائی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سونا چاندی بانٹتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگا کہ گر اللہ نے تجھے عدل کا حکم دیا ہے تو تو عدل نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا تو تباہ ہو اگر میں بھی عادل نہیں تو زمین پر اور کون عادل ہو گا؟ پھر آپ نے فرمایا اس سے اور اس جیسوں سے بچو میری امت میں ان جیسے لوگ ہوں گے قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ جب نکلیں انہیں قتل کر ڈالو پھر نکلیں تو مار ڈالو پھر جب ظاہر ہوں پھر گردنیں مارو۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کی قسم نہ میں تمہیں دوں نہ تم سے روکوں میں تو ایک خازن ہوں۔ جنگ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ذوالخویصرہ ہر قوص نامی ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا تو عدل نہیں کرتا انصاف سے کام کر آپ نے فرمایا اگر میں بھی عدل نہ کروں تو تو پھر تیری بربادی کہیں نہیں جا سکتی۔ جب اس نے پیٹھ پھیری تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جن کی نمازوں کے مقابلے میں تمہاری نمازیں تمہیں حقیر معلوم ہوں گی اور ان کے روزوں کے مقابلے میں تم میں سے ایک اور کو اپنے روزے حقیر معلوم ہوں گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے تمہیں جہاں بھی مل جائیں ان کے قتل میں کمی نہ کرو آسمان تلے ان مقتولوں سے بدتر مقتول اور کوئی نہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ انہیں رسول کے ہاتھوں جو کچھ بھی اللہ نے دلوا دیا تھا اگر یہ اس پر قناعت کرتے صبر و شکر کرتے اور کہتے کہ اللہ ہمیں کافی ہے وہ اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں ہمیں اور بھی دلوائے گا۔ ہماری امیدیں ذات الٰہی سے ہی وابستہ ہیں تو یہ ان کے حق میں بہتر تھا۔ پس ان میں اللہ کی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ جو دے اس پر انسان کو صبر و شکر کرنا چاہئے۔ توکل ذات واحد پر رکھے، اسی کو کافی وافی سمجھے، رغبت اور توجہ، لالچ اور امید اور توقع اس کی ذات پاک سے رکھے۔ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی اطاعت میں سر مو فرق نہ کرے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرے کہ جو احکام ہوں انہیں بجا لانے اور جو منع کام ہوں انہیں چھوڑی دینے اور جو خبریں ہوں انہیں مان لینے اور صحیح اطاعت کرنے میں وہ رہبری فرمائے۔

 

۶۰

زکوٰۃ اور صدقات کا مصرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے

اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے۔ ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ابو داؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آن کر آپ سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کر دی ہے آٹھ مصرف مقرر کر دیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں۔ امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لئے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے۔ گو امام ابو حنیفہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو۔ ابن علیۃ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کا لفظ ہے اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا۔ قتادہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو۔ ابراہیم کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں سفیان ثوری کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے۔ عکرمہ کہتے ہیں مسلمانوں فقراء کو مساکین نہ کہو۔ مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں۔ فقراء۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں صدقہ مال دار اور تندرست توانا پر حلال نہیں۔ کچھ شخص نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے صدقے کا مال مانگا آپ بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا قوی تندرست دیکھ کر فرمایا گر تم چاہو تو تمہیں دے دوں مگر امیر شخص کا اور قوی طاقت اور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ مساکین، حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکن کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو بے پرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے۔ صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتے۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔ جن کے دل بہلائے جاتے ہیں۔ ان کی کئی قسمیں ہیں بعض کو تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفی کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ کی سب سے زیادہ محبت پیدا کر دی حالانکہ پہلے سے سے بڑا دشمن آپ کا میں ہی تھا۔ بعض کو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک کو دیتا ہوں دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اوندھے منہ جہنم میں گر پڑے۔ ایک مرتبہ حضرت علی نے یمن سے کچھا سونا مٹی سمیت آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا۔ اقراع بن حابس عینیہ بن بدر، علقمہ بن علاثہ اور زیدخیر اور فرمایا میں ان کی دلجوئی کے لئے انہیں دے رہا ہوں۔ بعض کو اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام و فروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر و اللہ اعلم۔ حضرت عمر اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان اللہ ان کے ماتحت ہیں۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرف کر لی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہو جائیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تکہ کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی۔ اس لئے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی وہ تم نے کیا ہو گا۔ حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو کسی نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے آپ نے فرمایا نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے۔ اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے۔ قرض دار کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا اپنا ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہو جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کر لے پس انہیں بی مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہیں دیں گے پھر فرمایا قبیصہ سن تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضایع ہو جائے اسے بھی سوال کرنا درست درست ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہو جائے۔ تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گزرنے لگے اور اس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہو جائں کہ ہاں بے شک فلاں شخص پر فاقے گزرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے۔ اس کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے (مسلم شریف) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الٰہی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں۔ (مسلم) آپ فرماتے ہیں کہ ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کر دی؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے وہ جواب دے گا کہ اللہ تجھے خوب علم ہے میں نے نہ اس کی رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آ گئی اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا (مسند احمد)۔ راہ الٰہی میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا۔ حج بھی راہ الٰہی میں داخل ہے۔ مسافر جو سفر میں بے سر و سامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمدورفت کے لئے کافی ہو۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابو داؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے تیسرا قرض دار چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو یا سفر میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے۔ زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقریر اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنا۔ اللہ تعالیٰ ظاہر باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے۔ وہ اپنے قول فعل شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے۔

 

۶۱

نکتہ چین منافقوں کا مقصد

منافقوں کی ایک جماعت بڑی موذی ہے اپنے باتوں سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو دکھ پہنچاتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ نبی تو کانوں کا بڑا ہی کچا ہے جس سے جو سنا مان لیا جب ہم اس کے پاس جائیں گے اور قسمیں کھائیں گے وہ ہماری بات کا یقین کر لے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بہتر کانوں والا بہترین سننے والا ہے وہ صادق و کاذب کو خوب جانتا ہے وہ اللہ کی باتیں مانتا ہے، اور با ایمان لوگوں کی سچائی بھی جانتا ہے وہ مومنوں کے لئے رحمت ہے اور بے ایمانوں کے لئے اللہ کی حجت ہے رسول کے ستانے والوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

 

۶۲

نادان اور کوڑ مغز کون؟

واقعہ یہ ہوا تھا کہ منافقوں میں سے ایک شخص کہہ رہا تھا کہ ہمارے سردار اور رئیس بڑے ہی عقل مند دانا اور تجربہ کار ہیں اگر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی باتیں حق ہوتیں تو یہ کیا ایسے بیوقوف تھے کہ انہیں نہ مانتے؟ یہ بات ایک سچے مسلمان صحابی نے سن لی اور اس نے کہا واللہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی سب باتیں بالکل سچ ہیں اور نہ ماننے والوں کی بیوقوفی اور کوڑ مغذ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جب یہ صحابی دربار نبوت میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ بیان کیا کہ آپ نے اس شخص کو بلوا بھیجا لیکن وہ سخت قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ میں نے تو یہ بابت کہی ہی نہیں یہ تو مجھ پر تہمت باندھتا ہے اس صحابی نے دعا کی کہ پروردگار تو سچے کو سچا اور جھوٹے کو جھوٹا کر دکھا اس پر یہ آیت شریف نازل ہوئی۔ کیا ان کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ اور رسول کے مخالف ابدی اور جہنمی ہیں۔ ذلت و رسوائی عذاب دوزخ بھگتنے والے ہیں اس سے بڑھ کر شومی طالع اس سے زیادہ رسوائی اس سے بڑھکر شقاوت اور کیا ہو گی؟

 

۶۴

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے گھبراتے بھی ہیں

آپس میں بیٹھ کر باتیں تو گانٹھ لیتے لیکن پھر خوف زدہ رہتے کہ کہیں اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو بذریعہ وحی الٰہی خبر نہ ہو جائے اور آیت میں ہے تیرے سامنے آ کر وہ وہ دعائیں دیتے ہیں جو اللہ نے نہیں دیں پھر اسے جی میں اکڑتے ہیں کہ ہمارے اس قول پر اللہ ہمیں کوئی سزا کیوں نہیں دیتا؟ ان کے لئے جہنم کی کافی سزا موجود ہے جو بدترین جگہ ہے۔ یہاں فرماتا ہے دینی باتوں اور مسلمانوں کی حالت پر دل کھول کر مذاق اڑا لو۔ اللہ بھی وہ راز افشاء کر دے گا جو تمہارے دلوں میں ہے۔ یاد رکھو ایک دن رسوا اور ذلیل ہو کر رہو گے۔ چنانچہ فرمان ہے کہ یہ بیمار دل لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے دلوں کی بدیاں ظاہر ہی نہ ہوں گی۔ ہم تو انہیں اس قدر فضیحت کریں گے اور ایسی نشانیاں تیرے سامنے رکھ دیں گے کہ تو ان کے لب و لہجے سے ہی انہیں پہچان لے گا۔ اس سورت کا نام ہی سورۃ الفاضحہ ہے اس لئے کہ اس نے منافقوں کی قلعی کھول دی۔

 

۶۵

مسلمان باہم گفتگو میں محتاط رہا کریں

ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے شکم دار شیخی باز اور بڑے فضول اور بزدل ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ ہم تو یونہی وقت گزاری کے لئے ہنس رہے تھے آپ نے فرمایا ہاں تمہارے ہنسی کے لئے اللہ رسول اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی دیں گے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا معذرت کرتا ساتھ ساتھ جا رہا تھا آپ اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے۔ جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور فحش بن حمیر وغیرہ تھے یہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی کو عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے۔ ان پر ان کے دوسرے سردار فحش نے کہا بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے۔ آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا رہی رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمار سے فرمایا جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت عمار نے جا کر ان سے یہ کہا یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے کہ حضور ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی، ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن فحش بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں۔ پس اس سے جناب باری نے درگزر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگزر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل لیا عبدالرحمن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرنا کہ یہ دھبہ دھل جائے چنانچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہد کر دیئے گئے اور ان کی نعش بھی نہ ملی رضی اللہ عنہ ورضاء۔ ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دوربینی کو تو دیکھئے جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر مطلع کر دیا تو یہ صاف منکر ہو گئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہو گا یہ کہا کرتا تھا کہ یا اللہ میں تیرے کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جس بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگا ہے۔ پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تاکہ شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن انکی نعش کا پتہ ہی نہ چلا۔ جناب باری کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملا کہ اب بہانے نہ بناؤ تم زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہو گئے یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ رسول اور قرآن کی ہنسی اڑائی۔ ہم اگر کسی سے درگزر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہونے کا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس کافرانہ گفتگو کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنا پڑے گی۔

 

۶۷

ایک کے ہاتھ نیکیوں کے کھیت دوسرے کے ہاتھ برائیوں کی وبا

منافقوں کی خصلتیں مومنوں کے بالکل برخلاف ہوتی ہیں۔ مومن بھلائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں منافق برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور بھلائیوں سے منع کرتے ہیں۔ مومن سخی ہوتے ہیں منافق بخیل ہوتے ہیں۔ مومن ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں۔ منافق یاد الٰہی بھلائے رہتے ہیں۔ اسی کے بدلے اللہ بھی ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتا ہے جیسے کسی کو کوئی بھول گیا ہو قیامت کے دن یہی ان سے کہا جائے گا کہ تم ہم تمہیں ٹھیک اسی طرح بھلا دیں گے جیسے تم اس دن کی ملاقات کو بھلائے ہوئے تھے۔ منافق راہ حق سے دور ہو گئے ہیں گمراہی کے چکر دار بھول بھلیوں میں پھنس گئے ہیں۔ ان منافقوں اور کافروں کی ان بداعمالیوں کی سزا ان کے لئے اللہ تعالیٰ جہنم کو مقرر فرما چکا ہے جہاں وہ ابد الآباد تک رہیں گے۔ وہاں کا عذاب انہیں بو ہو گا۔ انہیں رب رحیم اپنی رحمت سے دور کر چکا ہے اور ان کے لئے اس نے دائمی اور مستقل عذاب رکھے ہیں۔

 

۶۹

ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے

خلاق سے مراد یہاں دین ہے۔ جیسے اگلے لوگ جھوٹ اور باطل میں کودتے پھاندتے رہے۔ ایسے ہی ان لوگوں نے بھی کیا۔ انکے یہ فاسد اعمال اکارت ہو گئے۔ نہ دنیا میں سودمند ہوئے نہ آخرت میں ثواب دلانے والے ہیں۔ یہی صریح نقصان ہے کہ عمل کیا اور ثواب نہ ملا۔ ابن عباس فرماتے ہیں جیسے آج کی رات کل کی رات سے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح اس امت میں بھی یہودیوں کی مشابہت آ گئی میرا تو خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم ان کی پیروی کرو گے یہاں تک کہ گر ان میں سے کوئی گوہ جانور کے سوراخ میں داخل ہوا ہے تو تم بھی اس میں گھسو گے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کے طریقوں کی تابعداری کرو گے بالکل بالشت بہ بالشت اور ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی کے بل میں گھسے ہیں تو یقیناً تم بھی گھسو گے لوگوں نے پوچھا اس سے مراد آپ کی کون لوگ ہیں؟ کیا اہل کتاب؟ آپ نے فرمایا اور کون؟ اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابوہریرہ نے فرمایا اگر تم چاہو تو قرآن کے ان لفظوں کو پڑھ لو کالذین من قبلکم الخ، حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں خلق سے مراد دین ہے۔ اور تم نے بھی اسی طرح کا خوض کیا جس طرح کا انہوں نے۔ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کیطرح؟ آپ نے فرمایا اور لوگ ہیں ہی کون؟ اس حدیث کے مفہوم پر شاہد صحیح احادیث میں بھی ہیں۔

 

۷۰

بدکاروں کے ماضی سے عبرت حاصل کرو

ان بدکردار منافقوں کو وعظ سنایا جا رہا ہے کہ اپنے سے پہلے کے اپنے جیسوں کے حالات پر عبرت کی نظر ڈالو۔ دیکھو کہ نبیوں کی تکذیب کیا پھل لائی؟ قوم نوح کا غرق ہونا اور سوا مسلمانوں کے کسی کا نہ بچنا یاد کرو۔ عادیوں کا ہود علیہ السلام کے نہ ماننے کی وجہ سے ہوا کے جھونکوں سے تباہ ہونا یاد کرو، ثمودیوں کا حضرت صالح علیہ السلام کے جھٹلانے اور اللہ کی نشانی اونٹنی کے کاٹ ڈالنے سے ایک جگر دوز کڑا کے کی آواز سے تباہ و بربار ہونا یاد کرو۔ ابراہیم علیہ السلام کا دشمنوں کے ہاتھوں سے بچ جانا اور ان کے دشمنوں کا غارت ہونا، نمرود بن کنعان بن کاش جیسے بادشاہ کا مع اپنے لاؤ لشکر کے تباہ ہونا نہ بھولو۔ وہ سب لعنت کے مارے بے نشان کر دیئے گئے، قوم شعیب انہی بد کرداریوں اور کفر کے بدلے زلزلے اور سائبان والے دن کے عذاب سے تہ و بالا کر دی گئی۔ جو مدین کی رہنے والی تھی۔ قوم لوط جن کی بستیاں الٹی پڑی ہیں مدین اور سدوم وغیرہ اللہ نے انہیں بھی اپنے نبی لوط کے ماننے اور اپنی بد فعلی نہ چھوڑنے کے باعث ایک ایک کو پیوند زمین کر دیا۔ ان کے پاس ہمارے رسول ہماری کتاب اور کھلے معجزے اور صاف دلیلیں لے کر پہنچے لیکن انہوں نے ایک نہ مانی۔ بالآخر اپنے ظلم سے آپ برباد ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے تو حق واضح کر دیا کتاب اتار دی رسول بھیج دیئے حجت ختم کر دی لیکن یہ رسولوں کے مقابلے پر آمادہ ہوئے کتاب اللہ کی تعمیل سے بھاگے حق کی مخالفت کی پس لعنتِ  الٰہی اتری اور انہیں خاک سیاہ کر گئی۔

 

۷۱

مسلمان ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں

منافقوں کی بد خصلتیں بیان فرما کر مسلمانوں کی نیک صفتیں بیان فرما رہا ہے کہ یہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ایک دوسرے کا دست و بازو بنے رہتے ہیں صحیح حدیث میں ہے کہ مومن مومن کے لئے مثل دیوار کے ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت پہنچاتا اور مضبوط کرتا ہے آپ نے یہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر دکھا بھی دیا۔ اور صحیح حدیث میں ہے کہ مومن اپنی دوستی اور سلوک میں مثل ایک جسم کی مانند ہیں کہ ایک حصے کو بھی اگر تکلیف ہو تو تمام جسم بیماری اور بیداری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ پاک نفس لوگوں اوروں کی تربیت سے بھی غافل نہیں رہتے۔ سب کو بھلائیاں دکھاتے ہیں اچھی باتیں بتاتے ہیں برے کاموں سے بری باتوں سے امکان بھر روکتے ہیں۔ حکم الٰہی بھی یہی ہے۔ فرماتا ہے تم میں ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہئے جو بھلائیوں کا حکم کرے برائیوں سے منع کرے۔ یہ نمازی ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی زکوٰۃ بھی دیتے ہیں تاکہ ایک طرف اللہ کی عبادت ہو دوسری جانب مخلوق کی دلجوئی ہو۔ اللہ رسول کی اطاعت ہی ان کا دلچسپ مشغلہ ہے جو حکم ملا بجا لائے جس سے روکا رک گئے۔ یہی لوگ ہیں جو رحم الٰہی کے مستحق ہیں۔ یہی صفتیں ہیں جن سے اللہ کی رحمت انکی طرف لپکتی ہے۔ اللہ عزیز ہے وہ اپنے فرماں برداروں کی خود بھی عزت کرتا ہے اور انہیں ذی عزت بنا دیتا ہے۔ دراصل عزت اللہ ہی کے لئے ہے اور اس نے اپنے رسولوں اور اپنے ایماندار غلاموں کو بھی عزت دے رکھی ہے اس کی حکمت ہے کہ ان میں یہ صفتیں رکھیں اور منافقوں میں وہ خصلتیں رکھیں، اس کی حکمت کی تہ کو کون پہنچ سکتا ہے؟ جو چاہے کرے وہ برکتوں اور بلندیوں والا ہے۔

 

۷۲

مومنوں کو نیکی کے انعامات

مومنو کیان نیکیوں پر جو اجر و ثواب انہیں ملے گا ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ابدی نعمتیں ہمیشگی کی راحتیں باقی رہنے والی جنتیں جہاں قدم قدم پر خوشگوار پانی کے چشمے ابل رہے ہیں جہاں بلند و بالا خوبصورت مزین صاف ستھرے آرائش و زیبائش والے محلات اور مکانات ہیں۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں دو جنتیں تو صرف سونے کی ہیں ان کے برتن اور جو کچھ بھی وہاں ہے سب سونے ہی سونے کا ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں برتن بھی اور کل چیزیں بھی ان میں اور دیدار الٰہی میں کوئی حجاب بجز اس کبریائی کی چادر کے نہیں جو اللہ جل و علا کے چہرے پر ہے یہ جنتوں میں ہوں گے۔ اور حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے جنت میں ایک خیمہ ہو گا ایک ہی موتی کا بنا ہوا اس کا طول ساٹھ میل کا ہو گا مومن کی بیویاں وہیں ہوں گی جن کے پاس یہ آتا جاتا رہے گا لیکن ایک دوسرے کو دکھائی نہ دیں گی۔ آپ کا فرمان ہے کہ جو اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے نماز قائم رکھے رمضان کے روزے رکھے اللہ پر حق ہے کہ اسے جنت میں لے جائے اس نے ہجرت کی ہو یا اپنے وطن میں ہی رہا ہو لوگوں نے کہا پھر ہم اوروں سے بھی یہ حدیث بیان کر دیں؟ آپ نے فرمایا جنت میں ایک سو درجے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ کے مجاہدوں کے لئے بنائے ہیں ہر دو درجوں میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان میں۔ پس جب بھی تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے اونچی اور سب سے بہتر جنت ہے جنتوں کی سب نہریں وہی سے نکلتی ہیں اس کی چھت رحمان کا عرش ہے فرماتے ہیں۔ اہل جنت جنتی بالا خانوں کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے چمکتے دمکتے ستاروں کو دیکھتے ہو۔ یہ بھی معلوم رہے کہ تمام جنتوں میں خالص ایک اعلیٰ مقام ہے جس کا نام وسیلہ ہے کیونکہ وہ عرش سے بالکل ہی قریب ہے یہ جگہ ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی۔ آپ فرماتے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو اللہ سے میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو۔ پوچھا گیا وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا جنت کا وہ اعلیٰ درجہ جو ایک ہی شخص کو ملے گا اور مجھے اللہ کی ذات سے قوی امید ہے وہ شخص میں ہی ہوں۔ آپ فرماتے ہیں موذن کی اذان کا جواب دو جیسے کلمات وہ کہتا ہے تم بھی کہو پھر مجھ پر درود پڑھو جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے پھر میرے لئے وسیلہ طلب کرو اور جنت کی ایک منزل ہے جو تمام مخلوق الہیہ میں سے ایک ہی شخص کو ملے گی مجھے امید ہے کہ وہ مجھے ہی عنایت ہو گی جو شخص میرے لئے اللہ سے اس وسیلے کی طلب کرے اس کیلئے میری شفاعت روز قیامت حلال ہو گئی۔ فرماتے ہیں میرے لئے اللہ سے وسیلہ طلب کرو دنیا میں یہ جو بھی میرے لئے وسیلے کی دعا کرے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور سفارشی بنوں گا۔ صحابہ نے ایک دن آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ہمیں جنت کی باتیں سنائیے انکی بنا کس چیز کی ہے؟ فرمایا سونے چاندی کی اینٹوں کی، اس کا گارا خالص مشک ہے، اس کے کنکر لولو اور یاقوت ہے اس کی مٹی زعفران ہے اس میں جو جائے گا وہ نعمتوں میں ہو گا جو کبھی خالی نہ ہوں وہ ہمیشہ کی زندگی پائے گا جس کے بعد موت کا کھٹکا بھی نہیں نہ اس کے کپڑے خراب ہوں نہ اس کی جوانی ڈھلے۔ فرماتے ہیں جنت میں اسے بالا خانے ہیں جن کا انداز کا حصہ باہر سے نظر آتا ہے اور باہر کا حصہ اندر سے۔ ایک اعرابی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم بلا خانے کن کے لئے ہیں؟ آپ نے فرمایا جو اچھا کلام کرے کھانا کھلائے روزے رکھے اور راتوں کو لوگوں کو سونے کے وقت تہجد کی نماز ادا کرے۔ فرماتے ہیں کوئی ہے جو جنت کا شائق اور اس کے لئے محنت کرنے والا ہو؟ واللہ جنت کی کوئی چار دیواری محدود کرنے والا نہیں وہ تاریک چمکتا ہوا بقعہ نور ہے اور مہکتا ہوا گلستان ہے اور بلند و بالا پاکیزہ محلات ہیں اور جاری و ساری لہریں ہیں اور گدرائے ہوئے اور پکے میوؤں کے خوشے ہیں اور جوش جمال لدھے پھندے، سبزہ ہے پھیلا ہوا، کشادگی اور راحت ہے، امن اور چین ہے، نعمت اور رحمت ہے، عالیشان خوش منظر کوشک اور حویلیاں ہیں۔ یہ سن کر لوگ بول اٹھے کہ حضور ہم سب اس جنت کے مشتاق اور اس کے حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ نے فرمایا انشاء اللہ کہو پس لوگوں نے انشاء اللہ کہا۔ پھر فرماتا ہے ان تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بالا نعمت اللہ کی رضامندی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ عزوجل جنتیوں کو پکارے گا کہا اے اہلِ جنت! وہ کہیں گے لبیک ربنا وسعد یک الخیرافی یدیک۔ پوچھتے گا کہو تم خوش ہو گئے؟ وہ جواب دیں گے کہ خوش کیوں نہ ہوتے تو نے تو اے پروردگار ہمیں دوبارہ جو مخلوق میں سے کسی کو نہ ملا ہو گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا لو میں تمہیں اس سے بہت ہی افضل و اعلیٰ چیز عطا فرماتا ہوں وہ کہیں گے یا اللہ اس سے بہتر چیز اور کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا سنو میں نے اپنی رضامندی تمہیں عطا فرمائی آج کے بعد میں کبھی بھی تم سے ناخوش نہ ہوؤں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے اللہ عزوجل فرمائے گا کچھ اور چاہیے تو دوں وہ کہیں گے یا اللہ جو تو نے ہمیں عطا فرما رکھا ہے اس سے بہتر تو کوئی اور چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ اللہ فرمائے گا وہ میری رضامندی ہے جو سب سے بہتر ہے۔ امام حافظ ضیاء مقدسی نے صفت جنت میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں اس حدیث کو شرط صحیح پر بتایا ہے۔ واللہ اعلم۔

 

۷۳

چار تلواریں؟

کافروں منافقوں سے جہاد کا اور اس پر سختی کا حکم ہوا۔ مومنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا۔ کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی۔ پہلے حدیث گزر چکی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا ایک تلوار تو مشرکوں میں فرماتا ہے فاذا انسلح الاشھر الحرم واقتلو المشرکین حرمت والے مہینوں کے گزرتے ہی مشرکوں کی خوب خبر لو۔ دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں فرماتا ہے وقاتلو الذین لایومنون الح، جو اللہ پر قیامت کے دن ایمان نہیں لاتے اللہ رسول کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے۔ دین حق کو قبول نہیں کرتے ان اہل کتاب سے جہاد کرو جب تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جھک کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا منظور نہ کر لیں۔ تیسری تلوار منافقین ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔ جاھد الکفار والمنافقین کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو۔ چوتھی تلوار باغیوں میں فرمان ہے فقاتلو اللتی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ باغیوں سے لڑو جب تک کہ پلٹ کر وہ اللہ کے احکام کی حکم برداری کی طرف نہ آ جائیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافق جب اپنا نفاق ظاہر کرنے لگیں تو ان سے تلوار سے جہاد کرنا چاہئے۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے۔ ابن مسعود فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے۔ ابن عباس فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے۔ مجاہد کا بھی تقریباً یہی قول ہے۔ ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کر لے۔ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی۔ حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کر چکے ہیں۔ یہ آیت عبد اللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہو گئی۔ جہنی شخص انصاری پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ہماری اور اس محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی تو وہی مثال ہے کہ اپنے کتے کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے واللہ اگر ہم ان کی مرتبہ مدد واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے۔ ایک مسلمان نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ گفتگو دہرا دی۔ آپ نے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میری قسم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا اس کی خبر حضرت زین بن ارقم کی پہنچی تو اس نے مجھے خط میں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے میں نے سنا ہے آپ دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے۔ نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہی؟ پس حضرت انس نے موجود لوگوں میں سے کسی سے حضرت زید کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زید ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بابت کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔ واقعہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں حضرت زید نے کہا و اللہ آنحضرت صلی اللہ علی و سلم بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے۔ پھر آپ نے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے گوش گذار کی لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زید نے جھوٹ بولا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور حضرت زید کی سچائی بیان فرمائی۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ نبی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہو گیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کر دیا ہو۔ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے لیکن اس جملے تک کہ زندہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی۔ ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو۔ اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم۔ مغمازی اموی میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے کہ جو منافق موخر چھوڑ دیئے گے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا ان میں سے بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بھی تھے۔ ان میں جلاس بن عوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ حضرت عمیر کو بھی لے گئی تھیں جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اسوقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے، رسوائی یقیناً ہلاکت سے ہلکی چیز ہے۔ یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہوئے اور ساری بات آپ کو کہہ سنائی۔ جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی۔ اس پے یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کر لی اور درست ہو گئے یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو، حضرت کعب کی یہ باتیں نہیں واللہ اعلم۔ اور روایت میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قبا سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ اے دشمن رب میں تیری اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر کروں گا فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آ جائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کر دیا جاؤں چنانچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مع اپنے ڈر کے سنا دی۔ ابن جریر میں ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علی و سلم ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کہ ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار تم اس سے کلام نہ کرنا اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا آپ نے اس سے فرمایا تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو؟ وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسا لفظ نہیں کہا یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے درگزر فرما لیا پھر یہ آیت اتری۔ اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بات کہہ دی تھی قتل کر دے۔ ایک قول ہے کہ عبد اللہ بن ابی نے خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔ یہ قول بھی ہے بعض لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے سردار بنا دیں گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم راضی نہ ہوں۔ یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں میں اور حضرت عمار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ہم قبل میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں للکارا اور وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے آپ نے ہم سے فرمایا کیا تم نے انہیں پہچانا؟ ہم نے کہا نہیں لیکن انکی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں آپ نے فرمایا یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے؟ ہم نے کہا نہیں فرمایا اللہ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لئے۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ و سلم انکی قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئے کہ ہر قوم والے اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کر کے پھر اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ آپ نے ان کے لئے بددعا کی کہ یا اللہ ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا۔ اسکی راہ کوئی نہ آئے حضرت حذیفہ آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت عمار پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آ گئی حضرت عمار نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور حضرت حذیفہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے آپ کی سواری کو نیچے کی طرف چلانا شروع کر دیا جب نیچے میدان آ گیا آپ سواری سے اتر آئے اتنے عمار بھی واپس پہنچ گئے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کون تھے پہچان بھی؟ حضرت عمار نے کہا منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں پوچھا انکا ارادہ کیا تھا جانتے ہو؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں۔ ایک شخص سے حضرت عمار نے انکی تعداد دریافت کی تو اس نے کہا چودہ۔ آپ نے فرمایا اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ۔ حضور نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے انہوں نے کہا واللہ ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ باقی کے بارہ لوگ اللہ رسول سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی۔ امام محمد بن اسحاق نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں واللہ اعلم۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ حضرت عمار کا کچھ تعلق تھا تو اس کو آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتا دو اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے۔ ان میں سے بارہ تو دشمن اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی تھے اور تین شخصوں کی قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لئے معذور رکھا گیا۔ گرمی کا موسم تھا پانی بہت کم تھا آپ نے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپ نے ان پر لعنت کی ان کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے کندھوں پر تو آتشی پھوڑا ہو گا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا۔ اسی باعث حضرت حذیفہ کو رسول اللہ صلی اللہ علی و سلم کا راز دار کہا جاتا تھا آپ آپ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتائے تھے واللہ اعلم۔ طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں معتب بن قثیر ودیعہ بن ثابت جدین بن عبدللہ بن نبیل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید، طائی اوس بن قیطی، حارث بن سوید، سفیہ بن دراہ، قیس بن فہر، سوید، داعن قبیلہ بنو جعلی کے، قیس بن عمرو بن سہل، زید بن لصیت اور سلالہ بن ہمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے۔ اس آیت میں اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اپنے رسول کے ہاتھوں مالدار بنایا۔ اگر انپر اللہ کا پورا فضل ہو جاتا تو انہیں ہدایت بھی نصیب ہو جاتی جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار سے فرمایا کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا کہ پھر اللہ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی۔ تم فقیر بے نوا تھے اللہ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کر دیا۔ ہر سوال کے جواب میں انصار رضی اللہ عنہم فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اس سے زیادہ احسان ہے۔ الغرض بیان یہ ہے کہ بے قصور ہونے کے بدلے یہ لوگ دشمنی اور بے ایمانی پر اتر آئے۔ جیسے سورۃ بروج میں ہے کہ ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا۔ حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ نے اسے غنی کر دیا۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اگر اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہو گی قتل، صدمہ و غم اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابلِ برداشت عذاب کی سزا بھی۔ دنیا میں کوئی نہ ہو گا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا انہیں نفع پہنچائے یہ بے یارو مددگار رہ جائیں گے۔

 

۷۵

دعا قبول ہوئی تو اپنا عہد بھول گیا

بیان ہو رہا ہے کہ ان منافقوں میں وہ بھی ہے جس نے عہد کیا کہ اگر مجھے اللہ تعالیٰ مالدار کر دے تو میں بڑی سخاوت کروں اور نیک بن جاؤں لیکن جب اللہ نے اسے امیر اور خوشحال بنا دیا اس نے وعدہ شکنی کی اور بخیل بن بیٹھا جس کی سزا میں قدرت نے اس کے دل میں ہمیشہ کے لئے نفاق ڈال دیا۔ یہ آیت ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے درخواست کی کہ میرے لئے مالداری کی دعا کیجئے آپ نے فرمایا تھوڑا مال جس کا شکر ادا ہو اس بہت سے اچھا ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ ہو۔ اس نے پھر دوبارہ بھی درخواست کی تو آپ نے پھر سمجھایا کہ تو اپنا حال اللہ کے نبی جیسا رکھنا پسند کرتا؟ واللہ اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے۔ اس نے کہا اسکے لئے مال میں برکت کی دعا کی اس کی بکریوں میں اس طرح زیادتی شروع ہوئی جیسے کیڑے بڑھ رہے ہوں یہاں تک کہ مدینہ شریف اس کے جانوروں کے لئے تنگ ہو گیا۔ یہ ایک میدان میں نکل گیا ظہر عصر تو جماعت کے ساتھ ادا کرتا باقی نمازیں جماعت سے نہیں ملتی تھیں۔ جانوروں میں اور برکت ہوئی اسے اور دور جانا پڑا اب سوائے جمعہ کے اور سب جماعتیں اس سے چھوٹ گئیں۔ مال بڑھتا گیا، ہفتہ بعد جمعہ کے لئے آنا بھی اس نے چھوڑ دیا آنے جانے والے قافلوں سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ جمعہ کے دن کیا بیان ہوا؟ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا حال دریافت کیا لوگوں نے سب کچھ بیان کر دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اظہار افسوس کیا ادھر آیت اتری کہ ان کے مال سے صدقے لے اور صدقے کے احکام بھی بیان ہوئے آپ نے دو شخصوں کو جن میں ایک قبیلہ بنیہ کا اور دوسرا قبیلہ سلیم کا تھا انہیں تحصیلدار بنا کر صدقہ لینے کے احکام لیکھ کر انہیں پروانہ دے کر بھیجا اور فرمایا کہ ثعلبہ سے اور فلانے نبی سلیم سے صدقہ لے آؤ یہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے فرمان پیغمبر دکھایا صدقہ طلب کیا تو وہ کہنے لگا واہ واہ یہ تو جزیئے کی بہن ہے یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کافروں سے جزیہ لیا جاتا ہے یہ کیا بات ہے اچھا اب تو جاؤ لوٹتے ہوئے آنا۔ دوسرا شخص سلمی جب اسے معلوم ہوا تو اس نے اپنے بہترین جانور نکالے اور انہیں لے کر خود ہی آگے بڑھا انہوں نے ان جانوروں کو دیکھ کر کہا نہ تو یہ ہمارے لینے کے لائق نہ تجھ پر ان کا دینا واجب اس نے کہا میں تو اپنی خوشی سے ہی بہترین جانور دینا چاہتا ہوں آپ انہیں قبول فرمائیے۔ بالآخر انہوں نے لے لئے اوروں سے بھی وصول کیا اور لوٹتے ہوئے پھر ثعلبہ کے پاس آئے اس نے کہا ذرا مجھے وہ پرچہ تو پڑھاؤ جو تمہیں دیا گیا ہے۔ پڑھ کہ کہنے لگا بھئی یہ تو صاف صافہ جزیہ ہے کافروں پر جو ٹیکس مقرر کیا جاتا ہے یہ تو بالکل ویسا ہی ہے اچھا تم جاؤ میں سوچ سمجھ لوں۔ یہ واپس چلے گئے انہیں دیکھتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ثعلبہ پر اظہار افسوس کیا اور سلیمی شخص کے لئے برکت کی دعا کی اب انہوں نے بھی ثعلبہ اور سلمی دونوں کا واقعہ کہہ سنایا۔ پس اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ثعلبہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے جب یہ سب کچھ سنا تو ثعلبہ سے جا کر واقعہ بیان کیا اور آیت بھی پڑھ سنائی یہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول کیا جائے آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے یہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا آپ نے فرمایا یہ تو سب تیرا ہی کیا دھرا ہے میں نے تو تجھے کہا تھا لیکن تو نہ مانا۔ یہ واپس اپنی جگہ چلا آیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انتقال تک اس کی کوئی چیز قبول نہ فرمائی۔ پھر یہ خلافت صدیقہ میں آیا اور کہنے لگا میری جو عزت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھی وہ اور میرا جو مرتبہ انصار میں ہے وہ آپ خوب جانتے ہیں آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے آپ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبول نہیں فرمایا تو میں کون؟ غرض آپ نے بھی انکار کر دیا۔ جب آپ کا بھی انتقال ہو گیا اور امیر المومنین حضرت عمر مسلمانوں کے ولی ہوئے یہ پھر آیا اور کہا کہ امیر المومنین آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے آپ نے جواب دیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے قبول نہیں فرمایا خلیفہ اول نے قبول نہیں فرمایا تو اب میں کیسے قبول کر سکتا ہوں؟ چنانچہ آپ نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں اس کا صدقہ قبول نہیں فرمایا۔ پھر خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو یہ ازلی منافق پھر آیا اور لگا منت سماجت کرنے لیکن آپ نے بھی یہی جواب دیا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اور آپ کے دونوں خلیفہ نے تیرا صدقہ قبول نہیں فرمایا تو میں کیسے قبول کر لوں ؟ چنانچہ قبول نہیں کیا اسی اثنا میں یہ شخص ہلاک ہو گیا۔ الغرض پہلے تو سخاوت کے وعدے کئے تھے اور وہ بھی قسمیں کھا کھا کر۔ پھر اپنے وعدے سے پھر گیا اور سخاوت کے عوض بخیلی کی اور وعدہ شکنی کر لی۔ اس جھوٹ اور عہد شکنی کے بدلے اس کے دل میں نفاق پیوست ہو گیا جو اس وقت سے اس کی پوری زندگی تک اس کے ساتھ رہا۔ حدیث میں بھی ہے کہ منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے خلاف کرے جب امانتی سونپی جائے خیانت کرے۔ کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ دل کے ظاہر اور پوشیدہ ارادوں اور سینے کے رازوں کا عالم ہے وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ یہ خالی زبان بکواس ہے کہ مالدار ہو جائیں تو یوں خیراتیں کریں یوں شکر گذاری کریں یوں نیکیاں کریں۔ لیکن دلوں پر نظریں رکھنے والا اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ مال مست ہو جائیں گے اور دولت پا کر خر مستیاں نا شکری اور بخل کرنے لگیں گے وہ ہر حاضر غائب کا جاننے والا ہے، وہ پر چھپے کھلے کا عالم ہے، ظاہر باطن سب اس پر روشن ہے۔

 

۷۹

منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز

منافقوں کی ایک بد خصلت یہ بھی ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل۔ یہ عیب جو بد گو لوگ بہت برے ہیں اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا۔ چنانچہ جب صدقات دینے کی آیت اتری ہے تو صحابہ اپنے اپنے صدقات لئے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ایک صاحب نے دل کھول کر بہت بڑی رقم دی تو اسے ان منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا بیچارے ایک صاحب مسکین آدمی تھی صرف ایک صاع اناج لائے تھے انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے ایک مرتبہ آپ نے بقیع میں فرمایا کہ جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دوں گا اس وقت ایک صحابی نے اپنے عمامے میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جن سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی کہنے لگے یا رسول اللہ یہ اللہ کے نام پر خیرات ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا اس نے کہا لیجئے سنبھال لیجئے اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے۔ آپ نے سن لیا اور فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے افسوس سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس، تین مرتبہ یہی فرمایا پھر فرمایا مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کرے اور ہاتھ بھر بھر کر آپ نے اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔ یعنی راہ اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے۔ پھر فرمایا انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف چالیس اوقیہ چاندی لائے اور ایک غریب انصاری ایک صاع اناج لائے منافقوں نے ایک کو ریاکار بتایا دوسرے کے صدقے کو حقیر کہہ دیا ایک مرتبہ آپ کے حکم سے لوگوں نے مال خیرات دینا اور جمع کرنا شروع کیا۔ ایک صاحب ایک صاع کھجوریں لے آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس کھجوروں کے دو صاع تھے ایک میں نے اپنے اور اپنے بچوں کے لئے روک لیا اور ایک لے آیا آپ نے اسے بھی جمع شدہ مال میں ڈال دینے کو فرمایا اس پر منافق بکواس کرنے لگے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم تو اس سے بے نیاز ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا میرے پاس ایک سو اوقیہ سونا ہے میں یہ سب صدقے کرتا ہوں حضرت عمر نے فرمایا ہوش میں بھی ہے؟ آپ نے جواب دیا ہاں ہوش میں ہوں فرمایا پھر کیا کر رہا ہے؟ آپ نے فرمایا سنو میرے پاس آٹھ ہزار ہیں جن میں سے چار ہزار و میں اللہ کو قرض دے رہا ہوں اور چار ہزار اپنے لے رکھ لیتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے جو تو نے رکھ لیا ہے اور جو تو نے خرچ کر دیا ہے۔ منافق ان پر باتیں بنانے لگے کہ لوگوں کو اپنے سخاوت دکھانے کے لئے اتنی بڑی رقم دے دی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر بڑی رقم اور چھوٹی رقم والوں کی سچائی اور ان منافقوں کو موذی پن ظاہر کر دیا۔ بنو عجان کے عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات میں دی تھی جو ایک سو وسق پر مشتمل تھی۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابو عقیل تھے۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لئے کیا تھا۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن نے دو ہزار رکھے تھے۔ دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صاع کھجوریں حاصل کر کے ایک صاع رکھ لیں اور ایک صاع دے دیں۔ یہ حضرت ابو عقیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے تھے۔ ان کا نام حباب تھا۔ اور قول ہے کہ عبدالرحمن بن عبد اللہ بن ثعلبہ تھا۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ نے ہی ان سے یہی بدلہ لیا۔ ان منافقوں کے لئے آخرت میں المناک عذاب ہیں۔ اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے۔

 

۸۰

منافق کے لئے استغفار کرنے کی ممانعت ہے

فرماتا ہے کہ یہ منافق اس قابل نہیں کہ اے نبی تو ان کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرے ایک بار نہیں اگر تو ستر مرتبہ بھی بخشش ان کے لئے چاہے تو اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔ یہ جو ستر کا ذکر ہے اس سے مراد صرف زیادتی ہے وہ ستر سے کم ہو یا بہت زیادہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد اس سے ستر کا ہی عدد ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تو ان کے لئے ستر بار سے بھی زیاد استغفار کروں گا تاکہ اللہ انہیں بخش دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرما دیا کہ ان کے لئے تیرا استغفار کرنا نہ کرنے کے برابر ہے۔ عبد اللہ بن ابی منافق کا بیٹا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ میرا باپ نزع کی حالت میں ہے میری خواہش ہے کہ آپ اس کے پاس تشریف لے چلیں، اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھیں۔ آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا حباب۔ آپ نے فرمایا تیرا نام عبد اللہ ہے، حباب تو شیطان کا نام ہے۔ اب آپ ان کے ساتھ ہوئے ان کے پاس کو اپنا کرتہ اپنے پسینے والا پہنایا اس کے جنازے کی نماز پڑھائی۔ آپ سے کہا بھی گیا کہ آپ اس کے جنازے پر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر مرتبہ کے استغفار سے بھی نہ بخشنے کو فرمایا ہے تو میں ستر بار پھر ستر بار پھر ستر بار پھر استغفار کروں گا۔

 

۸۱

جہنم کی آگ کالی ہے

جو لوگ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں ہی بیٹھے پر اکڑ رہے تھے۔ جنہیں راہ اللہ میں مال و جان سے جہاد کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا جنہوں نے ایک دوسرے کے کان بھرے تھے کہ اس گرمی میں کہاں نکلو گے؟ ایک طف پھر پکے ہوئے ہیں سائے بڑھے ہوئے ہیں دوسری جانب لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ جس کی طرف تم انی اس بد کرداری سیجا رہے ہو وہ اس گرمی سے زیادہ بڑھی ہوئی حرارت اپنے اندر رکھتی ہے۔ یہ آگ تو اس آگ کا سترواں حصہ ہے جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اور روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آرش دوزخ کے ستر اجزاء میں سے ایک جز ہے پھر بھی یہ سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھائی ہوئی ہے ورنہ تم اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہو گئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے۔ ایک بار آپ نے آیت وقودھا الناسوالحجارۃ کی تلاوت کی اور فرمایا ایک ہزار سال تک جلائے جانے سے وہ سفید پڑ گئی پھر ایک ہزار سال تک بھڑکانے سے سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکے جانے سے سیاہ ہو گئی پس وہ سیاہ رات جیسی ہے اس کے شعلوں میں بھی چمک نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری مشرق میں تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے۔ ابو یعلی کی ایک غریب روایت میں ہے کہ اگر اس مسجد میں ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ہوں اور کوئی جہنمی یہاں آ کر سانس لے تو اس کی گرمی سے مسجد اور مسجد والے سب جل جائیں۔ اور حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا دوزخ میں وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں میں دو جوتیاں آگ کے تسمے سمیت ہوں گی جس کی گرمی سے اس ک کھوپڑی اہل رہی ہو گی اور وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ دراصل سب سے ہلکا عذاب اسی کا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دیتی ہے۔ اور کئی آیتوں میں ہے ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی بہایا جائے گا۔ جس سے ان کے پیٹ کی تمام چیزیں اور ان کے کھالیں جھلس جائیں گی پھر لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کے سر کچلے جائیں گے۔ وہ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو۔ ایک اور آیت میں ہے کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ہم بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیں گے ان کی کھالیں جھلستی جائیں گی اور ہم ان کھالوں کے بدلے اور کھالیں بدلتے جائیں گے کہ وہ خوب عذاب چکھیں۔ اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور تیزی بہت زیادہ ہے۔ تو یقیناً یہ باوجود موسمی گرمی کے رسول اللہ کے ساتھ جہاد میں خوشی خوشی نکلتے اور اپنے جان و مال کو راہ اللہ میں فدا کرنے پر تل جاتے۔ عرب کا شاعر کہتا ہے کہ تو نے اپنی عمر سردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں گذار دی حالانکہ تجھے لائق تھا کہ اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا کہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ اب اللہ تبارک و تعالیٰ ان بد باطن منافقوں کو ڈرا رہا ہے کہ تھوڑی سی زندگی میں یہاں تو جتنا چاہیں ہنس لیں۔ لیکن اس آنے والی زندگی میں ان کے لئے رونا ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ لوگو روؤ اور رونا نہ آئے تو زبردستی روؤ جہنمی روئیں گے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر نہر جیسے گڑھے پڑ جائیں گے آخر آنسو ختم ہو جائیں گے اب آنکھیں خون برسانے لگیں گی ان کی آنکھوں سے اس قدر آنسو اور خون بہا ہو گا کہ اگر کوئی اس میں کشتی چلانی چاہے تو چلا سکتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ جہنمی جہنم میں روئیں گے اور خوب روتے ہیں رہیں گے، آنسو ختم ہونے کے بعد پیپ نکلنا شروع ہو گا۔ اس وقت دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے اے بدبخت رحم کی جگہ تو تم کبھی ہو نہ روئے اب یہاں کا رونا دھونا لا حاصل ہے۔ اب یہ اونچی آوازوں سے چلا چلا کر جنتیوں سے فریاد کریں گے کہ تم لوگ ہمارے ہو رشتے کنبے کے ہو سنو ہم قبروں سے پیاسے اٹھے تھے پھر میدان حشر میں بھی پیاسے ہی رہے اور آج تک یہاں بھی پیاسے ہی ہیں، ہم پر رحم کرو کچھ پانی ہمارے حلق میں چھو دو یا جو روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اس میں سے ہی تھوڑا بہت ہمیں دے دو۔ چالیس سال تک کتوں کی چیختے رہیں گے چالی سال کے بعد انہیں جواب ملے گا کہ تم یونہی دھتکارے ہوئے بھوکے پیاسے ہی ان سڑیل اور اٹل سخت عذابوں میں پڑے رہو اب یہ تمام بھلائیوں سے مایوس ہو جائیں گے۔

 

۸۳

مکاروں کی سزا

فرمان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تجھے سلامتی کے ساتھ اس غزوے سے واپس مدینے پہنچا دے اور ان میں سے کوئی جماعت تجھ سے کسی اور غزوے میں تیرے ساتھ چلنے کی درخواست کرے تو بطور ان کو سزا دینے کے تو صاف کہہ دینا کہ نہ تو تم میرے ساتھ والوں میں میرے ساتھ چل سکتے ہو نہ تم میری ہمراہی میں دشمنوں سے جنگ کر سکتے ہو۔ تم جب موقعہ پر دغا دے گئے اور پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہے تو اب تیاری کے کیا معنی؟ پس یہ آیت مثل ونقلب افئد تھم وابصار ھم کمالم یومنوا بہ اول مرۃ الخ، کے ہے بدی کا برا بدلہ بدی کے بعد ملتا ہے جیسے کہ نیکی کی جزاء بھی نیکی کے بعد ملتی ہے۔ عمرہ حدیبیہ کے وقت قرآنی نے فرمایا تھا۔ سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مخانم الخ، یعنی جب تم غنیمتیں لینے چلو گے یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ تم سے کہیں گے کہ ہمیں اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ ہو لیں۔ یہاں فرمایا کہ ان سے کہہ دینا کہ بیٹھ رہنے والوں میں ہی تم بھی رہا۔ جو عورتوں کی طرح گھروں میں گھسے رہتے ہیں۔

 

۸۴

منافقوں کا جنازہ

حکم ہوتا ہے کہ اے نبی تم منافقوں سے بالکل بے تعلق ہو جاؤ۔ ان میں سے کوئی مر جائے تو تم نہ اس کے جنازے کی نماز پڑھو نہ اس کی قبر پر جا کر اسکے لئے دعائے استغفار کرو۔ اس لئے کہ یہ کفر و فسق پر زندہ رہے اور اس پر مرے یہ حکم تو عام ہے گو اس کا شان نزول خاص۔ عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہے جو منافقوں کا رئیس اور امام تھا۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر اس کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ میرے باپ کے کفن کے لئے آپ خاص اپنا پہنا ہوا کرتا عنایت فرمائیے۔ آپ نے دے دیا۔ پھر کہا کہ آپ خود اس کے جنازے کی نماز پڑھائیے۔ آپ نے یہ درخواست بھی منظور فرما لی اور نماز پڑھانے کے ارادے سے اٹھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم آپ اس کے جنازے کی نماز پڑھائیں گے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے آپ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ تو ان کے لئے استغفار کرے یا نہ کرے اگر تو ان کے لئے ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا۔ تو میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر فرمانے لگے یا رسول اللہ یہ منافق تھا لیکن تاہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی۔ اس پر یہ آیت اتری۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس نماز میں صحابہ بھی آپ کی اقتدا میں تھے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب آپ اس کی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے تو میں صف میں سے نکل کر آپ کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ کیا آپ اس دشمن رب عبد اللہ بن ابی کے جنازے کی نمازیں پڑھائیں گے؟ حالانکہ فلاں دن اس نے یوں کہا اور فلاں دن یوں کہا۔ اسکی وہ تمام باتیں دہرائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مسکراتے ہوئے سب سنتے رہے آخر میں فرمایا عمر مجھے چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ نے استغفار کا مجھے اختیار دیا ہے اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار ان کے گناہ معاف کرا سکتا ہے تو میں یقیناً ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔ چنانچہ آپ نے بھی نماز بھی پڑھائی جنازے کے ساتھ بھی چلے دفن کے وقت بھی موجود رہے۔ اس کے بعد مجھے اپنی اس گستاخی پر بہت ہی افسوس ہونے لگا کہ اللہ اور رسول اللہ خوب علم والے ہیں میں نے ایسی اور اس قدر جرات کیوں کی؟ کچھ ہی دیر ہو گئی جو یہ دونوں آتیں نازل ہوئیں۔ اس کے بعد آخر دم تک نہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی منافق کے جنازے کی نماز پڑھی نہ اسکی قبر پر آ کر دعا کی۔ اور روایت میں ہے کہ اس کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ تشریف نہ لائے تو ہمیشہ کیلئے یہ بات ہم پر رہ جائے گی۔ جب آپ تشریف لائے تو اسے قبر میں اتار دیا گیا تھا آپ نے فرمایا اس سے پہلے مجھے کیوں نہ لائے؟ چنانچہ وہ قبر سے نکالا گیا۔ اس نے اس کے سارے جسم پر تھتکار کر دم کیا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا اور روایت میں ہے کہ وہ خود یہ وصیت کر کے مرا تھا کہ اس کے جنازے کی نماز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھائیں۔ اس کے لڑکے نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی آرزو اور اس کی آخری وصیت کی بھی خبر کی۔ اور یہ بھی کہا کہ اس کی وصیت یہ بھی ہے کہ اسے آپ کے پیراہن میں کفنایا جائے۔ آپ اس کے جنازے کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ حضرت جبرئیل یہ آیتیں لے کر اترے۔ اور روایت میں ہے کہ جبرئیل نے آپ کا دامن تان کر نماز کے ارادے کے وقت یہ آیت سنائی لیکن یہ روایت ضعیف ہے اور روایت میں ہے اس نے اپنی بیماری کے زمانے میں حضور کو بلایا آپ تشریف لے گئے اور جا کر فرمایا کہ یہودیوں کی محبت نے تجھے تباہ کر دیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ وقت ڈانٹ ڈپٹ کا نہیں بلکہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے لئے دعا استغفار کریں میں مر جاؤں تو مجھے اپنے پیرہن میں کفنائیں۔ بعض سلف سے مروی ہے کہ کرتا دینے کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت عباس آئے تو ان کے جسم پر کسی کا کپڑا ٹھیک نہیں آیا آخر اس کا کرتا لیا وہ ٹھیک آ گیا یہ بھی لمبا چوڑا چوڑی چکلی ہڈی کا آدمی تھا۔ پس اس کے بدلے میں آپ نے اسے اس کے کفن کے لئے اپنا کرتا عطا فرمایا۔ اس آیت کے اترنے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپ نے پڑھی نہ کسی کے لئے استغفار کیا۔ مسند احمد میں ہے کہ جب آپ کو کسی جنازے کی طرف بلایا جاتا تو آپ پوچھ لیتے اگر لوگوں سے بھلائیاں معلوم ہوتیں تو آپ جا کر اس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھتے اس کے جنازے کی نماز آپ بھی پڑھتے جس کی حضرت حذیفہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لئے کہ حضرت حذیفہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لئے کہ حضرت حذیفہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے منافقوں کے نام گنوا دیئے تھے اور صرف انہی کو یہ نام معلوم تھے اسی بناء پر انہیں راز دار رسول کہا جاتا تھا۔ بلکہ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت عمر ایک شخص کے جنازے کی نماز کے لئے کھڑا ہونے لگے تو حضرت حذیفہ نے چٹکی لے کر انہیں روک دیا۔ جنازے کی نماز اور استغفار ان دونوں چیزوں سے منافقوں کے بارے میں مسلمان کو روک دینا۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مسلمانوں کے بارے میں ان دونوں چیزوں کی پوری تاکید ہے۔ ان میں مردوں کے لئے پورا نفع اور زندوں کے لئے کامل اجر و ثواب ہے۔ چنانچہ حدیث شریف ہے آپ فرماتے ہیں جو جنازے میں جائے اور نماز پڑھے جانے تک ساتھ رہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط ملتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ قیراط کیا ہے؟ فرمایا سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارک تھی کہ میت کے دفن سے فارغ ہو کر وہیں اس کی قبر کے پاس ٹھہر کر حکم فرماتے کہ اپنے ساتھی کے لئے استغفار کرو اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو اس سے اس وقت سوال جواب ہو رہا ہے۔

 

۸۵

اسی مضمون کی آیہ کریمہ گزر چکی ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بحمد اللہ لکھ دی گئی ہے جس کے دوہرانے کی ضرورت نہیں۔

 

۸۶

ان لوگوں کی برائی بیان ہو رہی ہے جو وسعت طاقت قوت ہونے کے باوجود جہاد کے لئے نہیں نکلتے جی چرا جاتے ہیں اور حکم ربانی سن کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علی و سلم کے پاس آ آ کر اپنے رک رہنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ان کی بے حمیتی تو دیکھو کہ یہ عورتوں جیسے ہو گئے ہیں لشکر چلے گئے، یہ نامرد زنانے عورتوں کی طرح پیچھے رہ گئے۔ بوقت جنگ بزدل ڈرپوک اور گھروں میں گھسے رہنے والے، بوقت امن بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے۔ یہ بھونکنے والے کتوں اور گرجنے والے بادلوں کی طرح ڈھول کے پول ہیں۔ چنانچہ اور جگہ خود قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ خوف کے وقت ایسی آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں جیسے کوئی مر رہا ہو اور جہاں وہ موقع گزر گیا لگے چرب زبانی کرنے اور لمبے چوڑے دعوے کرنے، باتیں بنانے۔ امن کے وقت تو مسلمانوں میں فساد پھلانے لگتے ہیں اور وہ بلند بانگ بہادری کے ڈھول پیٹتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں لیکن لڑائی کے وقت عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر پردہ نشین بن جاتے ہیں، بل اور سوراخ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے تئیں چھپاتے پھرتے ہیں۔ ایمان دار تو سورت اترنے اور اللہ کے حکم ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن بیمار دلوں والے منافق جہاں سورت اتری اور جہاد کا حکم سنا آنکھیں بند کر لیں دیدے پھیر لئے ان پر افسوس ہے اور ان کے لئے تباہی خیز مصیبت ہے۔ اگر یہ اطاعت گذار ہوتے تو ان کی زبان سے اچھی بات نکلتی ان کے ارادے اچھے ہوتے یہ اللہ کی باتوں کی تصدیق کرتے تو یہی چیز ان کے حق میں بہتر تھی لیکن ان کے دلوں پر تو ان کی بداعمالیوں سے مہر لگ چکی ہے اب تو ان میں اس بات کی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ اپنے نفع نقصان کو ہی سمجھ لیں۔

 

۸۸

منافق کی آخرت خراب

منافقوں کی مذمت اور ان کی اخروی خستہ حالت بیان فرما کر اب مومنوں کی مدحت اور ان کے حصے میں بھلائیاں اور خوبیاں ہیں یہی فلاح پانے والے لوگ ہیں۔ انہی کے لئے جنت الفردوس ہے اور انہی کے لئے بلند درجے ہیں۔ یہی مقصد حاصل کرنے والے یہی کامیابی کو پہنچ جانے والے لوگ ہیں۔ وجاء المعذرون من الاعراب لیوذن لھم وقعد الذین کذبوا اللہ ورسولہ سیصیب الذین کفروا منھم عذاب الیم۔ بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وہ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں، اب تک ان میں سے جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی۔

 

۹۰

جہاد اور معذور لوگ

یہ بیان ان لوگوں کا ہے جو حقیقتاً کسی شرعی عذر کے باعث جہاد میں شامل نہ ہو سکتے تھے۔ مدینہ کے اردگرد کے یہ لوگ آ کر اپنی کمزوری و ضعیفی بے طاقتی بیان کر کے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت لیتے ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم انہیں واقعہ معذور سمجھیں تو اجازت دیں گے۔ یہ بنو غفار کے قبیلے کے لوگ تھے۔ ابن عباس کی قرات میں وجاء المعذرون ہے یعنی اہل عذر لوگ۔ یہی معنی مطلب زیادہ ظاہر ہے کیونکہ اسی جملے کے بعد ان لوگوں کا بیان ہے جو جھوٹے تھے۔ یہ نہ آئے نہ اپنا رک جانے کا سبب پیش کیا نہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے رک رہنے کی اجازت چاہی۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ عذر پیش کرنے والے بھی دراصل عذر والے نہ تھے۔ اسی لئے ان کے عذر مقبول نہ ہوئے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے وہی زیادہ ظاہر ہے۔ واللہ اعلم اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ عذاب کا حکم بھی ان کے لئے ہو گا جو بیٹھے رہی رہے۔

۹۱

عدم جہاد کے شرعی عذر

اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں۔ پس ان سیوں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن کوئی لولا لنگڑا یا اپاہج بیمار یا بالکل ہی نا طاقت ہو۔ دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب میں مثلاً کوئی بیمار ہو گیا ہے یا بالکل فقیر ہو گیا ہے، سامان سفر سامان جہاد مہیا نہیں کر سکتے وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کر سکیں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ گناہ یا عار نہیں لیکن لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کے، اللہ کے دن کے خیر خواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں۔ بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں۔ ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے حواریوں نے عیسیٰ نبی اللہ سے پوچھا کہ ہمیں بتائیے اللہ کا خیر خواہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آ جائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے۔ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقا کے لئے میدان میں نکلے ان میں حضرت بلال بن سعد بھی تھے آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا اے حاضرین کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو؟ سب نے اقرار کیا۔ اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا پڑھا ہے کہ نیک بندوں پر کوئی مشکل نہیں۔ ہم اپنی برائیوں کا اقرار کرتے ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے بھی ہاتھ اٹھائے رحمت الٰہی جوش میں آئ اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا منشی تھا سورہ برات جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ اتنے میں ایک نابینا صحابی آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ و سلم میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لا سکتا ہوں؟ اسی وقت یہ آیت اتری۔ پھر ان کا ذکر ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لئے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں۔ جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں حضرت عبد اللہ بن مغفل بن مقرن مزنی وغیرہ تھے انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کر دیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے اور آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں۔ آپ نے جواب دیا کہ واللہ میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں۔ یہ نا امید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گزارنی پڑے گی نہ ان کے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے پس جناب باری نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کر دی۔ یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے۔ محمد بن کعب کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عوف، بنی واقف کے حرمی بن عمر، بنی مازن کے عبدالرحمن بن کعب، بنی معلی کے فضل اللہ، بنی سلمہ کے عمرو بن عثمہ اور عبدلالہ بن عمرو مزنی اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید۔ بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے۔ انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ کے رسول، رسولوں کے سرتاج صلی اللہ علیہ و سلم آلہ و اصحابہ و ازواجہ و اہل بیتہ و سلم کا فرمان ہے کہ اے میرے مجاہد ساتھیو تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ نے کہا وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے۔ پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الوقت کوئی عذر نہیں مالدار ہٹے کٹے ہیں۔ لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں، زمین پکڑ لیتے ہیں۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ چکی ہے۔ اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہو گئے ہیں۔

 

۹۴

فاسق اور چوہے کی مماثلت

اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میدان جہاد سے واپس مدینے پہنچو گے تو سبھی منافق عذر و معذرت کرنے لگیں گے۔ تم ان سے صاف کہہ دینا کہ ہم تمہاری ان باتوں میں نہیں آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری نیتوں سے ہمیں خبردار کر دیا ہے۔ دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوت سب لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔ پھر آخرت میں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونا ہی ہے وہ ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے۔ تمہارے ایک ایک کام کا بدلہ دے گا خیر و شر کی جزا، سزا سب بھگتنی پڑے گی۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ تم کو راضی کرنے کے لے اپنی معذوری اور مجبوری کو سچ ثابت کرنے کے لئے قسمیں تک کھائیں گے۔ تم انہیں منہ بھی نہ لگانا۔ ان کے اعتقاد نجس ہیں ان کا باطن باطل ہے۔ آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جو ان کی خطاؤں اور گناہوں کا بدلہ ہے۔ سن ان کی خواہش صرف تمہیں رضامند کرنا ہے اور بالفرض تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ۔ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے کبھی راضی نہیں ہو گا۔ یہ اللہ و رسول کی اطاعت سے باہر ہیں۔ شریعت سے خارج ہے۔ چوہا چونکہ بل سے بگاڑ کرنے کے لئے نکلتا ہے اس لئے عرب اسے فویسقہ کہتے ہیں۔ اسی طرح خوشے سے جب تری ظاہر ہوتی ہے تو کہتے ہیں فسقت الرطبۃ پس یہ چونکہ اللہ و رسول کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں اس لئے انہیں فاسق کہتے ہیں۔

 

۹۷

دیہات، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤوں میں کفار و منافق بھی ہیں اور مومن مسلمان بھی ہیں۔ لیکن کافروں اور منافقوں کا کفر و نفاق نہایت سخت ہے۔ ان میں اس بات کی مطلقاً اہلیت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدوں کا علم حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمائی ہیں۔ چنانچہ ایک اعرابی حضرت زید بن صوحان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت یہ اس مجلس میں لوگوں کو کچھ بیان فرما رہے تھے۔ نہاو ند والے دن انکا ہاتھ کٹ گیا تھا۔ اعرابی بول اٹھا کہ آپ کی باتوں سے تو آپ کی محبت میرے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ لیکن آپ کا یہ کٹا ہوا ہاتھ مجھے اور ہی شبہ میں ڈالتا ہے۔ آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کیا شک ہوا یہ تو بایاں ہاتھ ہے۔ تو اعرابی نے کہا واللہ مجھے نہیں معلوم کہ دایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا بایاں؟ انہوں نے فرمایا اللہ عزوجل نے سچ فرمایا کہ اعراب بڑے ہی سخت کفر و نفاق والے اور اللہ کی حدوں کے بالکل ہی نہیں جاننے والے ہیں۔ مسند احمد میں ہے جو بادیہ نشین ہوا اس نے غلط و جفا کی۔ اور جو شکار کے پیچھے پڑ گیا اس نے غفلت کی۔ اور جو بادشاہ کے پاس پہنچا وہ فتنے میں پڑا۔ ابو داؤد ترمذی اور نسانی میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں چونکہ صحرا نشینوں میں عموماً سختی اور بد خلقی ہوتی ہے، اللہ عزوجل نے ان میں سے کسی کو اپنی رسالت کے ساتھ ممتاز نہیں فرمایا بلکہ رسول ہمیشہ شہری لوگ ہوتے رہے۔ جیسے فرمان الٰہ ہے۔ وما ارسلنا من قبلک الارجلا نوحی الیھم من اھل القری ہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب انسان مرد تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے تھے وہ سب متمدن بستیوں کے لوگ تھے۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ ہدیہ پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ہدیہ سے کئی گناہ زیادہ انعام دیا جب جا کر بمشکل تمام راضی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اب سے میں نے قصد کیا ہے کہ سوائے قریشی، ثقفی، انصاری یا دوسی کے کسی کا تحفہ قبول نہ کروں گا۔ یہ اس لئے کہ یہ چاروں شہروں کے رہنے والے تھے۔ مکہ، طائف، مدینہ اور یمن کے لوگ تھے، پس یہ فطرتاً ان بادیہ نشینوں کی نسبت نرم اخلاق اور دور اندیش لوگ تھے، ان میں اعراب جیسی سختی اور کھردرا پن نہ تھا۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ایمان و علم عطا فرمائے جانے کا اہل کون ہے؟ وہ اپنے بندوں میں ایمان و کفر، علم و جہل، نفاق و اسلام کی تقسیم میں با حکمت ہے۔ اس کے زبردست علم کی وجہ سے اس کے کاموں کی باز پرس اس سے کوئی نہیں کر سکتا۔ اور اس حکمت کی وجہ سے اس کا کوئی کام بے جا نہیں ہوتا۔ ان بادیہ نشینوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ کے خرچ کو ناحق اور تاوان اور اپنا صریح نقصان جانتے ہیں اور ہر وقت اسی کے منتظر رہتے ہیں کہ تم مسلمانوں پر کب بلا و مصیبت آئے، کب تم حوادث و آفات میں گھر جاؤ لیکن ان کی یہ بد کواہی انہی کے آگے آئے گی، انہی پر برائی کا زوال آئے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور خوب جانتا ہے کہ مستحق امداد کون ہے اور ذلت کے لائق کون ہے۔ 

دعاؤں کے طلبگار متبع ہیں، مبتدع نہیں

اعراب کی اس قوم کو بیان فرما کر اب ان میں سے بھلے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں آخرت کو مانتے ہیں۔ راہ حق میں خرچ کر کے اللہ کی قربت تلاش کرتے ہیں، ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائیں لیتے ہیں۔ بے شک ان کو اللہ کی قربت حاصل ہے۔ اللہ انہیں اپنی رحمتیں عطا کر دے گا۔ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے۔

 

۱۰۰

سابقوں کو بشارت

اس مبارک آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ ان مہاجرین و انصار سے جو سبقت لے جانے والوں میں اولین تھے اور ان کی تابعداری کرنے کی وجہ سے انہیں اپنی رضامندی کا اظہار فرما رہا ہے کہ انہیں نعمتوں والی ابدی جنتیں اور ہمیشہ کی نعمتیں ملیں گی۔ شعبی کہتے ہیں ان سے مراد وہ مہاجر و انصار ہیں جو حدیبیہ والے سال بیعت الرضوان میں شریک تھے۔ لیکن حضرت موسیٰ اشعری وغیرہ سے مروی ہے کہ جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر دریافت فرمایا کہ تمہیں یہ آیت کس نے پڑھائی ہے؟ اس نے کہا حضرت ابی بن کعب نے۔ آپ نے فرمایا تم میرے ساتھ ان کے پاس چلو۔ جب ان کے پاس پہنچے تو آپ نے پوچھا تم نے اسے یہ آیت اسی طرح پڑھائی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں آپ نے پوچھا کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اسے سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہاں۔ آپ نے فرمایا میرا تو خیال تھا کہ جس بلند درجے پر ہم پہنچے ہیں اس پر ہمارے بعد کوئی نہ پہنچے گا۔ حضرت ابی نے فرمایا اس آیت کی تصدیق سورہ جمعہ کی آیت واخرین منھم الخ، سے اور سورہ حشر کی آیت والذین جاو امن بعد ھم الخ، سے اور سورہ انفال کی آیت والذین امنوا وھاجروا وجاھدوا معکم الخ، سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت حسن والانصار پڑھتے تھے اور والسابقون الاولون پر عطف ڈال کر پڑھتے۔ اللہ تعالیٰ عظیم و کبیر خبر دیتا ہے کہ وہ سابقین اولین مہاجر و انصار سے خوش ہے اور ان سے بھی خوش جو انسان کے ساتھ ان کے متبع ہیں۔ افسوس ان پر ہے، خانہ خراب وہ ہیں جو ان سے دشمنی رکھیں، انہیں برا کہیں یا ان میں سے کسی ایک کو بھی برا کہیں یا اس سے دشمنی رکھیں۔ خصوصاً صحابہ انصار و مہاجرین کے سردار سب سے بہتر و افضل صدیق اکبر خلیفہ عظیم حضرت ابوبکر بن ابی قحافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جو بھی بغض رکھے یا ان کی شان میں کوئی گستاخی کا کلمہ بولے اللہ اس سے ناراض ہے۔ رسوائے مخلوق رافضیوں کا بدترین گروہ افضل صحابہ کو برا کہتا ہے، ان سے دشمنی رکھتا ہے۔ اللہ اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ یہی بات دلیل ہے اس پر کہ ان کی عقلیں الٹی ہیں اور ان کے دل اوندھے ہیں۔ انہیں قرآن پر ایمان کہاں ہے؟ جب کہ یہ ان پر تبرا بھیجتے ہیں جن کی بابت قرآن میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی کا اظہار کھلے لفظوں میں بیان کرتا ہے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ہاں اہلسنت ان سے خوش ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے اور ان کو برا کہتے ہی جنہٰن اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے۔ اللہ کے دوستوں سے وہ محبت کرتے ہیں۔ اللہ کے دشمنوں کے وہ بھی دشمن ہیں۔ وہ متبع ہیں مبتدع نہیں۔ وہ پیروی اور اقتدا کرتے ہیں۔ نافرمانی اور خلاف نہیں کرتے۔ یہی جماعت اللہ تعالیٰ سے کامیابی حاصل کرنے والی ہے اور یہی اللہ کے سچے بندے ہیں کثر ھم اللہ

 

۱۰۱

منافقت کے خوگر شہری

اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلوات اللہ و سلامہ علیہ کو بتلاتا ہے کہ مدینے کے اردگرد رہنے والے گنواروں میں اور خود اہل مدینہ میں بہت سے منافق ہیں۔ جو برابر اپنے نفاق کے خوگر ہو چکے ہیں۔ تمردفلان علی اللہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور نافرمانی کرے۔ پھر فرماتا ہے کہ تم تو انہیں جانتے نہیں ہم جانتے ہیں۔ اور آیت میں ہے  اگر ہم چاہیں تو تجھے اور ان کو دکھا دیں اور تو ان کی علامات اور چہروں سے انہیں پہچان لے۔ یقیناً تو انہیں انکی باتوں کے لب و لہجے سے جان لے گا۔  غرض ان دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہ سمجھنا چاہیے۔ نشانیوں سے پہچان لینا اور بات ہے اور اللہ کی طرف کا قطعی علم کے فلاں فلاں منافق ہے اور چیز ہے پس بعض منافق لوگوں کی منافقت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر کھل گئی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تمام منافقوں کو جاننا ممکن نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس قول کی صحت مسند احمد کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت جبیر بن معطعم رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مکے کا ہمارا کوئی اجر نہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے پاس تمہارے اجر آ ہی جائیں گے گو تم لومڑی کے بھٹ میں ہو۔ پھر آپ نے ان کے کان سے اپنا منہ لگا کر فرمایا کہ میرے ان ساتھیوں میں بھی منافق ہیں۔ پس مطلب یہ ہوا کہ بعض منافق غلط سلط باتیں بک دیا کرتے ہیں، یہ بھی ایسی ہی بات ہے۔ آیت وھموابمالم ینالوا کی تفسیر میں ہم کہہ آئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بارہ یا پندرہ منافقوں کے نام بتائے تھے۔ پس اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک ایک کر کے تمام منافقوں کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم تھا۔ نہیں بلکہ چند مخصوص لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کرا دیا تھا واللہ اعلم۔ ابن عساکر میں ہے کہ حرملہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ایمان تو یہاں ہے اور اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا۔ اور نفاق یہاں ہے اور ہاتھ سے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا اور نہیں ذکر کیا اللہ کا مگر تھوڑا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی اے اللہ اسے ذکر کرنے والی زبان، شکر کرنے والا دل دے اور اسے میری اور مجھ سے محبت رکنے والوں کی محبت عنایت فرما اور اس کے کام کا انجام بخیر کر۔ اب تو وہ کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے ساتھی اور بھی ہیں جن کا میں سردار تھا، وہ سبکا منافق ہیں اگر اجازت ہو تو انہیں بی لے آؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سنو جو ہمارے پاس آئے گا ہم اسکے لئے استغفار کریں گے اور جو اپنے دین(نفاق) پر اڑا رہے گا اللہ ہی اس کے ساتھ اولیٰ ہے۔ تم کسی کی پردہ دری نہ کرو۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ تکلف سے اوروں کا حال بیان کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ فلاں جنتی ہے اور فلاں دوزخی ہے۔ اس سے خود اس کی حالت پوچھو تو یہی کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔ حالانکہ انسان اپنی حالت سے بہ نسبت اوروں کی حالت کے زیادہ عالم ہوتا ہے۔ یہ لوگ وہ تکلف کرتے ہیں جو تکلف انبیاء علیہم السلام نے بھی نہیں کیا۔ نبی اللہ حضرت نوح علیہ اسلام کا قول ہے وما علمی بماکانا یعملون ان کے اعمال کا مجھے علم نہیں۔ نبی اللہ حضرت شعیب علیہ السلام فرماتے ہیں وما انا علیکم بحفیظ میں تم پر کوئی نگہبان نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نھبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرماتا ہے لا تعلمھم نحن لعلمھم تو انہیں نہیں جانتا ہم ہی جانتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فلاں تو نکل جا تو منافق ہے اور اے فلاں تو بھی یہاں سے چلا جا تو منافق ہے۔ پس بہت سے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد سے چلے جانے کا حکم فرمایا۔ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا یہ پورے رسوا ہوئے۔ یہ تو مسجد سے نکل کر جا رہے تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آ رہے تھے۔ آپ ان سے ذرا کترا گئے یہ سمجھ کر کہ شاید نماز ہو چکی اور یہ لوگ فارغ ہو کر جا رہے ہیں اور میں غیر حاضر رہ گیا۔ اور وہ لوگ بھی آپ سے شرمائے یہ سمجھ کر کہ ان پر بھی ہمارا حال کھل گیا ہو گا۔ اب مسجد میں آ کر دیکھا کہ ابھی نماز تو ہوئی نہیں۔ تو ایک شخص نے آپ کو کہا لیجئے خوش ہو جائیے۔ آج اللہ نے منافقوں کو خوب شرمندہ و رسوا کیا۔ یہ تو تھا پہلا عذاب جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں مسجد سے نکلوا دیا۔ اور دوسرا عذاب عذاب قبر ہے۔ دو مرتبہ کے عذاب سے مجاہد کی نزدیک مراد قتل و قید ہے۔ اور روایت میں بھوک اور قبر کا عذاب ہے۔ ابن جریج فرماتے ہیں عذاب دنیا اور عذاب قبر مراد ہے۔ عبدالرحمن بن زید فرماتے ہیں دنیا کا عذاب تو مال و اولاد ہے۔ جیسے قرآن میں ہے فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انمایرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحوۃ الدنیا یعنی تجھے ان کا مال اور انکی اولادیں اچھی نہ لگنی چاہیں اللہ کا ارادہ تو ان کی وجہ سے انہیں دنیا میں عذاب دینا ہے۔ پس یہ مصیبتیں ان کے لئے عذاب ہیں ہاں مومنوں کے لئے اجر و ثواب ہیں۔ اور دوسرا عذاب جہنم کا آخرت کے دن ہے۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں پہلا عذاب تو یہ کہ اسلام کے احکام بظاہر ماننے پڑے، اسکے مطابق عمل کرنا قبر پر عذاب عظیم کی طرف لوٹایا جانا ہے۔  مذکور ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوشیدہ طور پر بارہ منافقوں کے نام بتائے تھے۔ اور فرمایا تھا کہ ان میں سے چھ کو دبیلہ کافی ہو گا جو جہنم کی آگ کا انگارا ہو گا۔ جوان کے شانے پر ظاہر ہو گا اور سینے تک پہنچ جائے گا۔ اور چھ بری موت مریں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن دیکھتے کہ کوئی ایسا ویسا داغدار شخص مرا ہے تو انتظار کرتے کہ اس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ پڑھتے ہیں یا نہیں؟ اگر وہ پڑھتے تو آپ بھی پڑھتے ورنہ نہ پڑھتے۔ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا میں بھی ان میں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا نہیں آپ ان منافقوں میں نہیں۔ اور آپ کے بعد مجھے اس سے کسی پر بے خوفی نہیں۔

 

۱۰۲

تساہل اور سستی سے بچو

منافقوں کا حال اوپر کی آیتوں میں بیان فرمایا جو اللہ کی راہ میں جہاد سے بے ایمانی، شک اور جھٹلانے کے طور پر جی چراتے ہیں اور شامل نہیں ہوتے۔ اس آیت میں ان کا بیان ہو رہا ہے جو ہیں تو ایمان دار اور سچے پکے مسلمان۔ لیکن سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے۔ انہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نیکیاں بھی ہیں۔ پس یہ نیکی بدی والے لوگ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہیں اس کی معافی اور درگزر کے ماتحت ہیں۔ یہ آیت گو معین لوگوں کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے، ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب کہ انہوں نے بنو قریظہ سے کہا تھا کہ ذبح ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہ لوگ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت ابو لبابہ کے ساتھ اور بھی پانچ یا سات یا نو آدمی تھے۔ جب انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے اپنے تئیں مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا کہ جب تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اور ان سے درگزر فرما لیا۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں  میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جن کا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے و وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہو گئے تھے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی منزل ہے۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے درگزر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا۔  امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے۔

 

۱۰۳

صدقہ مال کا تزکیہ ہے

اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ ان کے مالوں کا صدقہ لیا کریں۔ تاکہ اس وجہ سے انہیں پاکی اور ستھرائی حاصل ہو۔  اس کی ضمیر کا مرجع بعض کے نزدیک وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اپنی نیکیوں کے ساتھ کچھ برائیاں بھی کر لیں تھیں۔ لیکن حکم اس کا عام ہے۔ عرب کے بعض قبیلوں کو اسی سے دھوکا ہوا تھا کہ یہ حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے خلیفہ برحق حضرت ابوبکر صدیق کو (زکوٰۃ کو فرض مان کر) زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ جس پر آپ نے مع باقی صحابہ کے ان سے لڑائی کی کہ وہ زکوٰۃ خلیفۃ الرسول کو اسی طرح ادا کریں جس طرح رسول اللہ صلی اللہعلیہ و سلم کو ادا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایک بچہ اونٹنی کا یا ایک رسی بھی نہ دیں گے تو بھی میں ان سے لڑائی جاری رکھوں گا۔ حکم ہوتا ہے کہ ان سے زکوٰتیں لے اور انکے لئے دعائیں کر۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے والد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے تو حسب عادت آپ نے دعا کی کہ اے اللہ آل ابی اوفی پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اسی طرح جب آپ کے پاس کسی قسم کا صدقہ آتا تو آپ ان کے لئے دعا فرماتے۔ ایک عورت نے آپ سے آ کر درخواست کی کہ یا رسول اللہ میرے لئے اور میرے خاوند کے لئے دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا صلی اللہ لعیک وعلی زوجک صلواتک کی اور قرأات صلوانک ہے۔ پہلی قرات مفرد کی ہے دوسری جمع کی ہے۔ فرماتا ہے کہ تیری دعا ان کے لئے اللہ کی رحمت کا باعث ہے۔ اور ان کے وقار و عزت کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ تیری دعاؤں کا سننے والا ہے۔ اور اسے بھی وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون ان دعاؤں کا مستحق ہے اور کون اس کا اہل ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی کے لئے دعا کرتے تو اسے اور اسکی اولاد کو اور اس کی اولاد کو اولاد کو پہنچتی تھی۔ پھر فرمایا۔ کیا انہیں اتنا بھی علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرمانے والا ہے؟ اور وہی ان کے صدقات لیتا ہے؟ اس نے بندوں کو توبہ اور صدقے کی طرف بہت زیادہ رغبت دلائی ہے۔ یہ دونوں چیزیں گناہوں کو دور کر دینے والی، انہیں معاف کرانے والی اور انکو مٹا دینے والی ہیں۔ توبہ کرنے والوں کی توبہ اللہ عزوجل قبول فرماتا ہے اور حلال کمائی سے صدقہ دینے والوں کا صدقہ اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر صدقہ کرنے والے کے لئے اسے پالتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کو احد کے پہاڑ کے برابر کر دیتا ہے۔ چنانچہ ترمذی وغیرہ میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ صدقہ قبول فرماتا ہے اپنے دائیں ہاتھ سے اسے لیتا ہے اور جس طرح تم اپنے کو پالتے ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک ایک کھجور احد پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ اس کی تصدیق اللہ تعالی عزوجل کی کتاب میں بھی موجود ہے پھر اسی آیت کا یہی جملہ آپ کی تلاوت فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی۔ یمحق اللہ الربو اویربی الصدقات یعنی سود کو اللہ تعالیٰ گھٹاتا ہے اور صدقے کو بڑھاتا ہے۔ صدقہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں جاتا ہے، اس سے پہلے کہ وہ سائل کے ہاتھ میں جاۓ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ ابن عساکر میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمانوں نے جہاد کیا جس میں ان پر حضرت عبدالرحمن بن خالد امام تھے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے مال غنیمت میں سے ایک سو رومی دینار چرا لئے جب لشکر وہاں سے لوٹ کر واپس آ گیا تو اسے سخت ندامت ہوئی وہ ان دیناروں کو لے کر امام کے پاس آیا لیکن انہوں نے ان سے لینے سے انکار کر دیا کہ میں اب لے کر کیا کروں؟ لشکر تو متفرق ہو گیا کیسے بانٹ سکتا ہوں؟ اب تو تو اسے اپنے پاس ہی رہنے دے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس ہی لانا۔ اس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے پوچھنا شروع کیا لیکن ہر ایک یہی جواب دیتا رہا۔ یہ مسکین ان دیناروں کو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لایا اور ہر چند کہا کہ آپ انہیں لے لیجئے لیکن آپ نے بھی نہ لئے۔ اب تو یہ روتا پیٹتا وہاں سے نکلا۔ راستے میں اسے حضرت عبد اللہ بن شاعر سکسکی رحمۃ اللہ علیہ ملے۔ یہ مشہور دمشقی ہیں اور اصل میں حمص کے ہیں۔ یہ بہت بڑے فقیہ تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ اس شخص نے اپنا تمام واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا جو میں کہوں گا وہ کرو گے بھی؟ اس نے کہا یقینا۔ آپ نے فرمایا جاؤ اور خمس تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے آؤ۔ یعنی بیس دینار۔ ۰۰۰ اور وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اس شخص نے یہی کیا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا و اللہ مجھے اگر یہ مسئلہ سوجھ جاتا اور میں اسے یہ فتویٰ دے دیتا تو مجھے اس ساری سلطنت اور ملکیت سے زیادہ محبوب تھا۔ اس نے نہایت اچھا فتویٰ دیا۔

 

۱۰۵

اپنے اعمال سے ہوشیار رہو

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے سامنے ہیں۔ اور اس کے رسول اور تمام مسلمانوں کے سامنے قیامت کے دن کھلنے والے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا اور پوشیدہ سے پوشیدہ عمل بھی اس دن سب پر ظاہر ہو جائے گا۔ تمام اسرار کھل جائیں گے دلوں کے بھید ظاہر ہو جائیں گے۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں پر بھی ان کے اعمال دنیا میں ہی ظاہر کر دیتا ہے۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے کوئی کسی ٹھوس پتھر میں گھس کر جس کا نہ دروازہ ہو، نہ اس میں کوئی سوراخ ہو، کوئی عمل کرے اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا خواہ کیسا ہی عمل ہو۔  ابو داؤد طیالسی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زندوں کے اعمال ان کے قبیلوں اور برادریوں پر پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ اچھے ہوتے ہیں تو وہ لوگ اپنی قبروں میں خوش ہوتے ہیں اور اگر وہ برے ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں توفیق دے کہ یہ تیرے فرمان پر عامل بن جائیں۔ مسند احمد میں بھی یہی فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ تمہارے اعمال تمہارے خویش و اقارب مردوں کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اگر وہ نیک ہوتے ہیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر اسکے سوا ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یا اللہ انہیں موت نہ آئے جب تک کہ تو انہیں ہدایت عطا نہ فرما جیسے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی (لیکن ان روایتوں کی سندیں قابل غور ہیں) صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب تجھے کسی شخص کے نیک اعمال بہت اچھے لگیں تو تو کہہ دے کہ اچھا ہے عمل کئے چلے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مومن تمہارے اعمال عنقریب دیکھ لیں گے۔ ایک مرفوع حدیث بھی اسی مضمون کی آئی ہے اس میں ہے کسی کے اعمال پر خوش نہ ہو جاؤ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ اس کا خاتمہ کس پر ہوتا ہے؟ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک زمانہ دراز تک نیک عمل کرا رہتا ہے کہ اگر وہ اس وقت مرتا تو قطعاً جنتی ہو جاتا۔ لیکن پھر اس کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ بداعمالیوں میں پھنس جاتا ہے۔ اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک لمبی مدت تک برائیاں کرتا رہتا ہے کہ اگر اسی حالت میں مرے تو جہنم میں ہی جائے لیکن پھر اس کا حال بدل جاتا ہے اور نیک عمل شروع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے ساتھ بھلا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کی موت سے پہلے عامل بنا دیتا ہے۔ لوگوں نے کہا ہم اس کا مطلب نہیں سمجھے آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اسے توفیق خیر عطا فرماتا ہے اور اس پر اسے موت آتی ہے۔

 

۱۰۶

 اس سے مراد وہ تین بزرگ صحابہ ہیں جن کی توبہ ڈھیل میں پڑ گئی تھی۔ حضرت مرارہ بن رابیع، حضرت کعب بن مالک، حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم۔ یہ جنگ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ شک اور نفاق کے طور پر نہیں بلکہ سستی، راحت طلبی، پھلوں کی پختگی سائے کے حصول وغیرہ کے لئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اپنے تئیں مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا تھا جیسے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی۔ اور کچھ لوگوں نے ایسا نہیں کیا تھا ان میں یہ تینوں بزرگ تھے۔ پس اوروں کی تو توبہ قبول ہو گئی اور ان تینوں کا کام پیچھے ڈال دیا گیا یہاں تک کہ آیت لقد تاب اللہ الخ، نازل ہوئی جو اس کے بعد آ رہی ہے۔ اور اس کا پورا بیان بھی حضرت کعب بن مالک کی روایت میں آ رہا ہے۔ یہاں فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے ارادے پر ہیں اگر چاہیں سزا دے اگر چاہیں معافی دے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سزا کے لائق کون ہے۔ اور مستحق معافی کون ہے؟ وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔ اس کے سوا نہ تو کوئی معبود نہ اس کے سوا کوئی مربی۔

 

۱۰۷

ایک قصہ ایک عبرت، مسجد ضرار

ان پاک آیتوں کا سبب نزول سنئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکے شریف سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے۔ اس سے پہلے مدینے میں ایک شخص تھا جس کا نام ابو عامر راہب تھا۔ یہ خزرج کے قبیلے میں سے تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں نصران بن گیا تھا، اہل کتاب کا علم بھی پڑھا تھا۔ عابد بھی تھا اور قبیلہ خزرج اس کی بزرگی کا قائل تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہاں آئے، مسلمانوں کا اجتماع آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ہونے لگا۔ یہ قوت پکڑنے لگے یہاں تک کہ بدر کی لڑائی ہوئی اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں غالب رکھا تو یہ جل بھن گیا۔ کھلم کھلا مخالفت و عداوت کرنے لگا اور یہاں سے بھاگ کر کفار مکہ سے مل گیا۔ اور انہیں مسلمانوں سے لڑائی کرنے پر آمادہ کرنے لگا۔ یہ تو عداوت اسلام میں پاگل ہو رہے تھے، تیار ہو گئے اور اپنے ساتھ عرب کے اور بھی بہت سے قبائل کو ملا کر جنگ کے ارادے سے نکل کھڑے ہوئے اور میدان احد میں جم کر لڑے۔ اس لڑائی میں مسلمانوں کا جو حال ہوا وہ ظاہر ہے۔ انکا پورا امتحان ہو گیا۔ گو انجام کار مسلمانوں کا ہی بھلا ہوا اور عاقبت اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے ہی ہے۔ اسی فاسق نے مسلمانوں اور کافروں کے درمیان بہت سے گڑھے کھود رکھے تھے، جن میں سے ایک میں اللہ کے رسول محترم صلی اللہ علیہ و سلم گر پڑے، چہرے پر زخم آئے۔ سامنے سے نیچے کی طرف کے چار دانت ٹوٹ گئے۔ سر بھی زخمی ہوا۔ صلوات اللہ و سلمہ علیہ۔ شروع لڑائی کے وقت ہی ابو عامر فاسق اپنے قوم کے پاس گیا اور بہت ہی خوشامد اور چاپلوسی کی کہ تم میری مدد اور موافقت کرو۔ لیکن انہوں نے بالاتفاق جواب دیا کہ اللہ تیری آنکھیں ٹھنڈی نہ کرے تو نامراد ہے۔ اے بدکار اے اللہ کے دشمن تو ہمیں راہ حق سے بہکانے کو آیا ہے، الغرض برا بھلا کہہ کر نا امید کر دیا گیا۔ یہ لوٹا اور یہ کہتا ہوا کہ میری قوم تو میرے بعد بہت ہی شریر ہو گئی ہے۔ مدینے میں اس ناہنجار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت سمجھایا تھا قرآن پڑھ پڑھ کر نصیحت کی تھی اور اسلام کی رغبت دلائی تھی لیکن اس نے نہ مانا تھا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسکے لئے بد دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے کہیں دور دراز ذلت و حقارت کے ساتھ موت دے۔ جب اس نے دیکھا کہ احد میں بھی اس کی چاہت پوری نہ ہوئی اور اسلام کا کلمہ بلندی پر ہی ہے تو یہ یہاں سے شاہ روم ہرقل کے پاس پہنچا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے لڑائی کے لئے آمادہ کیا۔ اس نے بھی اس سے وعدہ کر لیا اور تمنائیں دلائی۔ اس وقت اس نے اپنے ہم خیال لوگوں کو جو منافقانہ رنگ میں مدینے شریف میں رہتے سہتے تھے اور جن کے دل اب تک شک و شبہ میں تھے لکھا کہ اب میں مسلمانوں کی جڑیں کاٹ دوں گا، میں نے ہرقل کو آمادہ کر دیا ہے وہ لشکر جرار لے کر چڑھائی کرنے والا ہے۔ مسلمانوں کو ناک چنے چبوا دے گا اور ان کا بیج بھی باقی نہ رکھے گا۔ تم ایک مکان مسجد کے نام سے تعمیر کرو تاکہ میرے قاصد جو آئیں وہ وہیں ٹھہریں، وہیں مشورے ہوں اور ہمارے لئے وہ پناہ کی اور گھاٹ لگانے کی محفوظ جگہ بن جائے۔ انہوں نے مسجد قبا کے پاس ہی ایک اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی اور تبوک کی لڑائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی روانگی سے پہلے ہی اسے خوب مضبوط اور پختہ بنا لیا اور آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہماری مسجد میں تشریف لائیے اور نماز ادا کیجئے تاکہ ہمارے لئے یہ بات حجت ہو جائے اور ہم وہاں نماز شروع کر دیں۔ ضعیف اور کمزور لوگوں کو دور جانے میں بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ خصوصاً جاڑے کی راتوں میں کمزور، بیمار اور معذور لوگ دور دراز کی مسجد میں بڑی دقت سے پہنچتے ہیں اس لئے ہم نے قریب ہی یہ مسجد بنا لی ہے۔ آپ نے فرمایا اس وقت تو سفر درپیش ہے پا بہ رکاب ہوں انشاء اللہ واپسی میں سہی۔ اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کفر کے مورچے سے بچا لیا۔ جب میدان تبوک سے آپ سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے، ابھی مدینے شریف سے ایک دن یا کچھ کم کے فاصلے پر تھے کہ اللہ کی وحی نازل ہوئی اور اس مسجد ضرار کی حقیقت آپ پر ظاہر کر دی گئی۔ اور اس کے بانیوں کی نیت کا بھی علم آپ کو کرا دیا گیا۔ اور وہاں کی نماز سے روک کر مسجد قبا میں جس کی بنیاد اللہ کے خوف پر رکھی گئی تھی، نماز پڑھنے کا حکم صادر ہوا۔ پس آپؐ نے وہیں سے مسلمانوں کو بھیج دیا کہ جاؤں میرے پہنچنے سے پہلے اس مسجد کو توڑ دو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں ابو عامر خبیث ان انصاریوں سے کہہ گیا تھا کہ تم مسجد کے نام سے عمارت بنا لو اور جو تم سے ہو سکے تیاری رکھو، ہتھیار وغیرہ مہیا کر لو، میں شاہ روم قیصر کے پاس جا رہا ہوں اور اس سے مدد لے کر محمد اور اس کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال دوں گا۔ پس یہ لوگ جب یہ مسجد تیار کر چکے حضورُ سے کہا کہ ہماری چاہت ہے کہ آپؐ ہماری اس مسجد میں تشریف لائیں، وہاں نماز پڑھیں اور ہمارے لئے برکت کی دعا کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ اس مسجد میں ہرگز کھڑے بھی نہ ہونا۔ اور روایت میں ہے کہ جب آپ ذی اور ان میں اترے اور مسجد کی اطلاع ملی آپ نے مالک بن و خشم رضی اللہ عنہ اور معن بن یزید رضی اللہ عنہ کو بلایا، ان کے بھائی عمر بن عدی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ان ظالموں کی مسجد میں جاؤ اور اسے گرا دو بلکہ جلا دو۔ یہ دونوں بزرگ تابڑ توڑ جلدی جلدی چلے۔ سالم بن عوف کے محلے میں جا کر حضرت مالک نے حضرت معن سے فرمایا آپ یہیں ٹھہرئیے، یہ میرے قبیل کے لوگوں کے مکان ہیں یہاں سے آگ لاتا ہوں۔ چنانچہ گئے اور ایک کھجور کا سلگتا ہوا تنا لے آئے اور سیدھے اس مسجد ضرار میں پہنچ کر اس میں آگ لگا دی اور کدال چلانے شروع کر دی۔ وہاں جو لوگ تھے ادھر ادھر بھاگ گئے اور ان بزرگوں نے اس عمارت کو جڑ سے کھود ڈالا۔ پس اس بارے میں یہ آیتیں اتری ہیں۔ اس کے بانی بارہ شخص تھے۔ خدام بن خالد بنو عبدین زید میں سے جو نئی عمرو بند عوف میں سے ہیں اسی کے گھر میں سے مسجد شقاق نکلی تھی۔ اور ثعلبہ بن حاطب جو بنی عبید میں سے تھا اور بنو امیہ کے موالی جو ابو لاببہ بن عبدالمنذر کے قبیلے میں سے تھے۔ قرآن فرماتا ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہماری نیت نیک تھی۔ لوگوں کے آرام کی غرض سے ہم نے اسے بنایا ہے۔ لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ انہوں نے مسجد قبا کو ضرر پہنچانے اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور مومنوں میں جدائی ڈالنے اور اللہ و رسول کے دشمنوں کو پناہ دینے کے لئے اسے بنایا ہے۔ یہ کمین گاہ ہے ابو عامر فاسق کی جو لوگوں میں راہب مشہور ہے۔ اللہ کی لعنتیں اس پر نازل ہوں۔

 فرمان ہے کہ تو ہرگز اس مسجد میں نہ کھڑا ہونا۔  اس فرمان میں آپ کی امت بھی داخل ہے۔ انہیں بھی اس مسجد میں نماز پڑھنی حرام قرار دی گئی۔ پھر رغبت دلائی جاتی ہے کہ مسجد قبا میں نماز ادا کرو۔ جس کی بنیاد اللہ کے ڈر پر اور رسول کی اطاعت پر رکھی گئی ہے اور مسلمانوں کے اتفاق پر اور ان کی خیر خواہی پر بنائی گئی ہے۔ اسی مسجد میں آیا کرتے تھے۔  اور بجانب ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سوار اور پیدا اس مسجد میں آیا کرتے تھے۔  اور حدیث میں ہے کہ جب آپ ہجرت کر کے مدینے شریف پہنچے اور بنی عمر بن عوف میں ٹھہرے اور اس پاک مسجد کی بنیاد رکھی اس وقت خود حضرت جبرئیل علی السلام نے قبلہ کی جہت معین کی تھی۔ واللہ اعلم۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں آیت فیہ رجال مسجد قبا والوں کے بارے میں اتری ہے، وہ پانی سے استنجا کیا کرتے تھے۔ یہ مسجد ضعیف ہے۔ امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں۔ طبرانی میں ہے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپؐ نے عویم بن ساعدہ کے پاس آدمی بھی کر دریافت فرمایا کہ آخر یہ کون سے طہارت ہے جس کی ثناء اللہ رب العزت بیان فرما رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم میں سے جو مرد عورت پاخانے سے نکلتا ہے وہ پانی سے استنجا کیا کرتا ہے۔ اس نے فرمایا بس یہی وہ طہارت ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس مسجد قبل میں تشریف لائے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہاری مسجد کے بیان میں تمہاری طہارت کی آج تعریف کی ہے تو بتلاؤ کہ تمہاری وہ طہارت کیسے ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں اور تو کچھ معلوم نہیں ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسی یہودیوں کی نسبت جب سے یہ معلوم کیا کہ وہ پاخانے سے نکل کر پانی سے پاکی کرتے ہیں، ہم نے اس وقت سے اپنا یہی وطیرہ بنا لیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے یہ سوال حضرت عویم بن عدی رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ پانی سے طہارت کرنا ہی وہ پاکیزگی تھی جس کی تعریف اللہ عزوجل نے کی۔ اور روایت میں ان کے جواب میں ہے کہ ہم توراۃ کے حکم کی رو سے پانی سے استنجا کرنا لازمی سمجھتے ہیں۔ الغرض جس مسجد کا اس آیت میں ذکر ہے وہ مسجد قبا ہے۔ اس کی تصریح بہت سے سلف صالحین نے کی ہے۔ لیکن ایک صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ تقوے پر بننے والی مسجد مسجد بنوی ہے جو مدینے شریف کے درمیان ہے۔ غرض ان دونوں باتوں میں کوئی اختلاف نہیں جب کہ مسجد قبا شروع دن سے تقوے کی بنیادوں پر ہے تو مسجد نبوی اس وصف کی اس سے بھی زیادہ مستحق ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ جو مسجد اللہ کے ڈر پر بنائی گئی ہے وہ یہ میری مسجد ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ دو شخصوں میں اس بارے میں اختلاف ہوا کہ اس آیت میں کونسی مسجد مراد ہے، حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ میری یہ مسجد ہے۔ ان دونوں میں سے ایک کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد قبا ہے اور دوسرے کا قول تھا کہ یہ مسجد مسجد نبوی ہے۔ یہ حدیث ترمذی نسائی وغیرہ میں ہے۔ ان دونوں شخصوں میں سے ایک تو بنو خدرہ قبیلے کا تھا اور دوسرا بنو عمرو بن عوف میں سے تھا۔ خدری کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد نبوی ہے اور عمری کہتا تھا مسجد قبا ہے۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر جا کر دریافت فرماتے ہیں کہ وہ مسجد کہاں ہے جس کی بنیادیں شروع سے ہی پرہیز گاری پر ہیں؟ آپ نے کچھ کنکر اٹھا کر انہیں زمین پر پھینک کر فرمایا وہ تمہاری یہی مسجد ہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے۔ سلف کی اور خلف کی ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد یہ دونوں مسجدیں ہیں، واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ثابت ہوا کہ جن اگلی مسجدوں کی پہلے دن سے بنیاد اللہ کے تقوے پر رکھی گئی ہو وہاں نماز پڑھنا مستحب ہے۔ اور جہاں اللہ کے نیک بندوں کی جماعت ہو جو دین کے حامل ہوں، وضو اچھی طرح کرنے والے ہوں، کامل طہارت کے ساتھ رہنے والے ہوں، گندگیوں سے دور ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی جس میں مستحب ہے۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھائی جس میں سورہ روم پڑھی۔ اس میں آپ کو کچھ وہم سا ہو گیا نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا قرآن کریم کی قرات میں خلط ملط ہو جانے کا باعث تم میں سے وہ لوگ ہیں جو ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہوتے ہیں لیکن وضو اچھی طرح نہیں کرتے ہمارے ساتھ کی نمازیوں کو وضو نہایت عمدہ کرنا چاہے۔ اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ طہارت کا کمال اللہ کی عبادتوں کے بجا لانے انہیں پوری کرنے اور کامل کر کے اور شرعی حیثیت سے بجا لانے میں سہولت پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں کہ پانی سے استنجا کرنے بے شک طہارت ہے۔ لیکن اعلیٰ طہارت گناہوں سے بجنا ہے۔ حضرت اعمش فرماتے ہیں گناہوں سے توبہ کرنا اور شرک سے بچنا پوری پاکیزگی ہے۔ اوپر حدیث گری چکی کہ جب اہل قبا سے ان کی اس اللہ کی پسندیدہ طہارت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا تو انہوں نے اپنے جواب میں پانی سے استنجا کرنا بیان کیا۔ پس یہ آیت ان کے حق میں اتری ہے۔ بزار  میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم پتھروں سے صفائی کر کے پھر پانی سے دھوتے ہیں۔ لیکن اس روایت میں محمد بن عبدالعزیز کا زہری سے تفرق ہے اور ان سے بھی ان کے بیٹے کے سوا اور کوئی راوی نہیں۔ اس حدیث کو لفظوں سے مین نے یہاں صرف اس لئے وارد کیا ہے کہ فقہا میں یہ مشہور ہے لیکن محدثین کل کے کل اسے معروف نہیں بتاتے خصوصاً متاخرین لوگ واللہ اعلم۔

 

۱۰۹

 وہ کہ جس نے اللہ کے ڈر اور اللہ کی رضا کی طلب کے لئے بنیاد رکھی اور جس نے مسلمانوں کو ضرر پہنچانے اور کفر کرنے اور پھوٹ ڈلوانے اور مخالفین اللہ و رسول کو پناہ دینے کے لئے بنیاد رکھی یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ یہ دوسرے قسم کے لوگ تو اپنی بنیاد اس خندق کے کنارے پر رکھتے ہیں۔ جس میں آگ بھری ہوئی ہو اور ہو بھی وہ بنیاد ایسی کمزور کہ آگ میں جھک رہی ہو ظاہر ہے کہ ایک دن وہ آگ میں گر پڑے گی۔ ظالموں اور فسادیوں کا کام بھی نیک نتیجہ نہیں ہوتے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے زمانے میں مسجد ضرار سے دھواں نکلتے دیکھا۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس مسجد کو توڑا اور اس کی بنیادیں اکھیڑ پھینکیں انہوں نے اس کے نیچے سے دھواں اٹھتا پایا۔ حلف بن بامعین کہتے ہیں میں نے منافقوں کی اس مسجد ضرار کو جس کا ذکر ان آیتوں میں دیکھا ہے کہ اس کے ایک پتھر سے دھواں نکل رہا تھا اب وہ کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنی ہوئی ہے۔ ان کے ایک بد کرتوت کی وجہ سے ان کے دل میں نفاق جگہ پکڑ گیا ہے جو کبھی بھی ٹلنے والا نہیں یہ شک شبہ میں ہی رہیں گے جیسے کہ بنی اسرائیل کے وہ لوگ جنہوں نے بچھڑا پوجا تھا ان کے دلوں میں بھی اس کی محبت گھر کر گئی تھی۔ ہاں جب ان کے دل پاش پاش ہو جائیں یعنی وہ خود مر جائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے اعمال سے خبردار ہے۔ اور خیر و شر کا بدلہ دینے میں با حکمت ہے۔

 

۱۱۱

مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات

اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے۔ اسی لئے مجاہدین جب جہاد کے لئے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوا لیں۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا۔ اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان و مال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا۔ حضرت عبد اللہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا جنت! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے، مرتے ہیں اور مارتے ہیں۔ ایسوں کے لئے یقیناً جنت واجب ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں، حضرت عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے۔ جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے۔

 

۱۱۲

مومنین کی صفات

جن مومنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں، ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لئے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کو، جماع کو ترک کر دیتے ہیں۔ یہی مراد لفظ سائحون سے یہاں ہے۔ یہی وصف آنحضرت (صلی اللہ علیہ و سلم) کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے اور یہی لفظ سائحات وہاں بھی ہے۔ رکوع سجود کرتے رہتے ہیں۔ یعنی نماز کے پابند ہیں۔ اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مومنوں کے ہیں۔ انہیں خوشخبریاں ہوں۔ حضرت ابن مسعود سیاحت سے مراد روزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح ابن عباس بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔ کہ اس امت کی سیاحت روزہ ہے۔ مجاہد سعید عطا عبد الرحمن ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد سائحون سے صائمون ہے۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں۔ ابو عمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد سائحون سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہ یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے۔ آپ نے فرمایا میری اُمت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں۔ عبد الرحمن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں۔ بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا، سفر میں رہنا، ادھر ادھر جانا آنا، پہاڑوں، دوروں، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے، یہ محض غلط فہمی ہے، یہ سیاحت مشروع نہیں۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم فرماتے ہیں قریب ہے کہ مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے۔

 

۱۱۳

مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو ممانعت

مسند احمد میں ہے کہ ابو طالب کی موت کے وقت اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم تشریف لے گئے۔ وہاں اس وقت ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی اُمیہ بھی تھا۔ آپ نے فرمایا چچا لا الہ الا للہ کہہ لے اس کلمے کی وجہ سے اللہ عز و جل کے ہاں میں تیری سفارش تو کر سکوں۔ یہ سن کر ان دونوں نے کہا کہ اے ابو طالب کیا تو عبد المطلب کے دین سے پھر جائے گا؟ اس پر اس نے کہاں میں تو عبد المطلب کے دین پر ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خیر میں جب تک منع نہ کر دیا جاؤں تیرے لیے بخشش مانگتا رہوں گا۔ لیکن آیت ماکان للنبی اتری۔ یعنی نبی کو اور مومنوں کو لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں۔ ان پر تو یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ مشرک جہنمی ہیں۔ اسی بارے میں آیت انکا لا تھدی الخ، بھی اتری ہے۔ یعنی تو جسے محبت کرے اسے راہ نہیں دکھا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ دکھاتا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی زبانی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے استغفار سن کر اس سے کہا کہ تو مشرکوں کے لیے استغفار کرتا ہے اس نے جواب دیا کہ کیا حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں؟ فرماتے ہیں میں نے جا کر یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا۔ اس پر یہ آیت اتری۔ کہا جب کہ وہ مرگیا پھر میں ہیں جانتا یہ قول جہاد کا ہے۔ سند احمد میں ہے ہم تقریباً ایک ہزار آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ منزل پر اترے، دو رکعت نماز ادا کی پھر ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ حضرت عمر یہ دیکھ کر تاب لا سکے، اُٹھ کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ ملی۔ اس پر میری آنکھیں بھر آئیں کہ میری ماں ہے اور جہنم کی آگ ہے۔ اچھ اور سنو! میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا اب وہ ممانعت ہٹ گئی ہے۔ زیارت قبور سے منع کیا تھا، اب تم کرو کیونکہ اس سے تمہیں بھلائی یاد آئے گی۔ میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو روکنے سے منع فرمایا تھا اب تم کھا لو اور جس طرح چاہوں رک رکھو۔ اور میں نے تمہیں بعض خاص برتنوں میں پینے کو منع فرمایا تھا لیکن اب تم جس برتن میں چاہو پی سکتے ہیں لیکن خبردار نشے والی چیز ہرگز نہ پینا۔ ابن جریر میں ہے کہ مکہ شریف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک نشان قب کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ دیر خطاب کر کے آپ کھڑے ہوئے ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیا بات تھی؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے اپنی ماں کی قبر کے دیکھنے کی اجازت منگی وہ تو مل گئی لیکن اس کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو نہ ملی۔ اب جو آپ نے رونا شروع کیا تو ہم نے تو آپ کو کبھی ایسا اتنا روتے نہیں دیکھا۔ ابی ابی حام میں ہے کہ آپ قبرستان کی طرف نکلے، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ وہاں آپ ایک قبر کے پاس بیٹھ کر دیر تک مناجات میں مشغول رہے، پھر رونے لگے۔ ہم بھی خوب روئے پھر کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی کھڑے ہو گئے آپ نے حضرت عمر کو اور ہمیں بلا کر فرمایا کہ تم ایسے روئے؟ ہم نے کہا آپ کو روتا دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ قبر میری ماں آمنہ کی تھی میں نے اسے دیکھنے کی اجازت چاہی تھی جو مجھے ملی تھی۔ اور روایت میں کہ دعا کی اجازت نہ ملی اور آیت ماکان الخ، اتری پس جو ماں کی محبت میں صدمہ ہونا چاہیے مجھے ہوا۔ دیکھو میں نے زیارت قبر کی تمہیں ممانعت کی تھی۔ لیکن اب میں رخصت دیتا ہوں کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے۔ بطرای میں ہے کہ غزوہ تبوک کی واپسی میں عمرے کے وقت ثنیہ عسفان سے اترتے ہوئے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم عقبہ میں ٹھہرو، میں ابھی آیا۔ وہاں سے اتر کر آپ اپنی والدہ کی قبر پر گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دیر تک مناجات کرتے رہے پر پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا آپ کے رونے سے سب لوگ رونے لگے اور یہ سمجھے کہ آپ کی اُمت کے بارے میں کوئی بات پیدا ہوئی جس سے آپ اس قدر رو رہے ہیں۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم واپس پلٹے اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ کی اُمت کے بارے میں کوئی ایسا نیا حکم اترا جو طاقت سے باہر ہے۔ آپ نے فرمایا سنو بات یہ ہے کہ یہاں میری ماں کی قبر ہے۔ میں نے اپنے پروردگار سے قیامت کے دن اپنی ماں کی شفاعت کی اجازت طلب کی لیکن اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائی تو میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا۔ جبرئیل آئے اور مجھ سے فرمایا ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف ایک وعدے سے تھا جس کا وعدہ ہو چکا تھا لیکن جب اس پر کھل گیا تو کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ فوراً بیزار ہو گیا پس آپ بھی اپنے سے اسی طرح بیزار ہو جائے جیسے طرح حضرت ابراہیم اپنے باپ سے بیزار ہو گئیے۔ پس مجھے اپنی ماں پر رحم اور ترس آیا۔ پھر میں نے دعا کہ کہ میری اُمت پر سے چاروں سختیاں دور کر دی جائیں اللہ تعالیٰ نے دو تو دور فرما دیں لیکن دو کے دور فرمانے سے انکار فرما دیا۔ ا۔ آسمان سے پتھر برسا کر ان کی ہلاکت ٢۔ زمین میں انہیں دھنسا کر ان کی ہلاکت۔ ٣ ان میں پھوٹ اور اختلافات کرنا پڑنا۔  ان میں ایک کو ایک سے ایذائیں پہنچانا۔ ان چاوروں چیزوں سے بچاؤ کی میری دعا تھی دو پہلی چیزیں تو مجھے عنایت ہو گئیں میری اُمت آسمانی پتھراؤ سے اور زمین میں دھنسائے جانے سے تو بچا دی گئی۔ ہاں آپس کے اختلاف آپس کی سر پھٹول یہ نہیں اٹھی۔ آپ کی والدہ کی قبر ایک ٹیلے تلے تھی اس لیے آپ راستے سے گھوم کر وہاں گئے تھے۔ یہ روایت غریب ہے اور سیاق عجیب ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ غریب اور منکر وہ روایت ہے جو امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب بنام سابق لاحق میں مجہول سند سے وارد کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو زندہ کر دیا اور ایمان لائیں پھر مر گئیں۔ اس طرح کی سہیلی کی ایک روایت ہے جس میں ایک نہیں ایک راوی مجہول ہیں۔ اس میں ہے کہ آپ کے ماں باپ دونوں دوبارہ زندہ ہوئے پھر ایمان لائے ابن دحیہ نے اسی روایت پر نظریں جما کر کہا کہ یہ نئی زندگی اسی طرح کی ہے جس طرح مروی ہے کہ سورج ڈوب جانے کے بعد واپس لوٹا اور حضرت علی نے نماز عصر ادا کی۔ طحاوی تو کہتے ہیں کہ سورج والی یہ روایت ثابت ہے۔ قرطبی کہتے ہیں ان کی دو بار کی زندگی شرعاً یا عقلاً ممتنع نہیں۔ کہتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ کے چچا ابو طالب کو بھی اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور آپ پر ایمان لایا۔ میں کہتا ہوں اگر صحیح روایت سے یہ روایتیں ثابت ہوں تو بے شک مانع کوئی نہیں (لیکن تینوں روایتیں محض گپ ہیں) واللہ اعلم۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آپ نے اور ادہ کیا کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کریں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا۔ تو آپ نے حضرت ابراہیم کے استغفار کو پیش کیا۔ اس کا جواب آیت ماکان استغفار الخ، میں مل گیا۔ فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے مشرکین کے لیے استغفار کیا جاتا تھا۔ اب ممنوع ہو گیا۔ ہاں زندوں کے لیے جائز رہا۔ لوگوں نے آ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ ہمارے بڑوں میں ایسے بھی تھے جو پڑوس کا اکرام کرتے تھے، صلہ رحمی کرتے تھے، غلام آزاد کرتے تھے، ذمہ داری کا خیال رکھتے تھے۔ تو کیا ہم ان کے لیے استغفار نہ کریں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں، میں بھی اپنے والد کے لیے استغفار کرتا ہوں جیسے کہ حضرت ابراہیم اپنے والد کے یے کرتے تھے۔ اس پر آیت ماکان للنبی سے الجحیم تک نازل ہوائی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا عذر بیان ہوا اور فرمایا وما کان استغفار الخ، مذکور رہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے چند باتیں وحی کی ہیں جو میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میرے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہیں۔ مجھے حکم فرمایا گیا کہ میں کسی اس شخص کے یے استغفار نہ کروں جو شرک پر مرا ہو۔ اور یہ کہ جو شخص اپنا فالتو مال دے دے اس کے لیے یہی افضل ہے اور جو روک رکھے اسکے لیے برائی ہے۔ ہاں برابر سرابر حسب ضرورت پر اللہ کے ہاں ملامت نہیں۔ ابن عباس فرماتے ہیں ایک یہودی مر گیا جس کا ایک لڑکا تھا لیکن وہ مسلمان تھا اس لیے اپنے باپ کے جنازے میں وہ شریک نہ ہوا۔ جب حضرت عبد اللہ بن عباس کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمانے لگے اسے جنازے میں جانا چاہیے تھا اور دن میں بھی موجد رہنا چاہیے تھا اور باپ کی زندگی تک اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے تھی۔ ہاں موت کے بعد اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتا۔ پھر آپ نے آیت وما کان استغفار الخ، تلاوت فرمائی کہ حضرت ابراہیم نے یہ طریقہ نہیں چھوڑا۔ اس کی صحت کی گواہ ابو داؤد وغیرہ کہ یہ روایت بھی ہو سکی ہے کہ ابو طالب کی موت پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ کر کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ آپ کے بوڑھے چچا گمراہ مر گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا جاؤ انہیں دفنا کر سبھی میرے پاس آؤ الخ۔ مروی ہے کہ جب ابو طالب کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا میں تجھ سے صلہ رحمی کا رشتہ نبھا چکا۔ حضرت عطا بن بی رباح فرماتے ہیں میں تو قبلہ کی طرف منہ کرنے والوں میں سے کسی کے جنازے کی نماز نہ چھوڑوں گا۔ گو وہ کوئی حبشن زنا سے حاملہ ہی ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر ہی نماز و دعا حرام کی ہے اور فرمایا ہے ماکان للنبی الخ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سنا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے جو ابوہریرہ اور اس کی ماں کے لیے استغفار کرے۔ تو اس نے کہا باپپ کے لیے بھی۔ آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ میرا باپ شرک پر مرا ہے۔ آیت میں فرمان الٰہی ہے کہ جب حضرت ابراہیم پر اپنے باپ کا اللہ کا دشمن ہونا کھل گیا۔ یعنی وہ کفر ہی پر مر گیا۔ مروی ہے کہ قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم سے ان کا باپ ملے گا۔ نہایت سراسیمگی پریشانی کی حالت میں چہرہ غبار آلود اور کالا پڑا ہوا ہو گا کہے گا کہ ابراہیم آج میں تیری نا فرمانی نہ کروں گا۔ حضرت ابراہیم جناب باری میں عرض کریں گے کہ میرے رب تو نے مجھے قیامت کے دن روا نہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ اور میرا باپ تیری رحمت سے دور ہر کر عذاب میں مبتلا ہو یہ بہت بڑی رسوائی ہے۔ اس پر فرمایا جائے گا کہ اپنی پیٹھ پیچھے دیکھو۔ دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا ہوا کھڑا ہے۔ یعنی آپ کے والد کی صورت مسخ ہو گئی ہو گی اور اس کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ فرماتا ہے کہ ابراہیم بڑا ہی دعا کرنے والا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اواہ کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا رونے دھونے والا، اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کرنے والا۔ ابن مسعود فرماتے ہیں بہت ہی رحم کرنے والا، مخلوق رب کے ساتھ نرمی اور سلوک اور مہربانی کرنے والا۔ ابن عباس کا قول ہے پورے یقین والا۔ سچے ایمان والا، سچے ایمان والا۔ توبہ کرنے والا، حبشی زمین میں اواہ مومن اور موقن یقین و ایمان والے کو کہتے ہیں۔ ذوالنجا دین نامی ایک صحابی کو اس بنا پر کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا تو وہ اسی وقت دعا کے ساتھ آواز اُٹھاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اواہ فرمایا۔ (مسند احمد) اواہ سے مراد تسبیح پڑھنے والا۔ ضحیٰ کی نماز پڑھنے والا۔ اپنے گناہوں کی یاد آنے پر استغفار کرنے والا۔ اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والا۔ رب سے ڈرنے والا۔ پوشیدہ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے والا بھی مروی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر ہوا کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ اواہ ہے۔ (ابن جریر) اسی ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک میت کو دفن کر کے فرمایا یقیناً تو اواہ یعنی بکثرت تلاوت کلام اللہ شریف کرنے والا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے اپنی دوا میں اوہ اوہ کر رہا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس کے دفن میں شامل تھے چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے آپ کے ساتھ چراغ بھی تھا۔ (ابن جریر) یہ روایت غریب ہے۔ کعب احب اور فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم کے سامنے جہنم کا ذکر ہوتا تھا تو آپ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ابن عباس فرماتے ہیں اواہ یعنی فقیہہ امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ سب سے بہتر قول ان تمام اقوال میں یہ ہے کہ مراد اس لفظ سے بکثرت دعا کرنے والا ہے۔ الفاظ کے مناسب بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر یہ فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام اپنے والد کے لیے استغفار کیا کرتے تھے اور تھے بھی بکثرت دعا مانگنے والے۔ بردبار بھی ہے، جو آپ پر ظلم کرے، آپ سے برا پیش آئے آپ تحمل کر جایا کرتے تھے۔ باپ نے آپ کو ایذا دی صاف کہہ دیا تھا کہ تو میرے معبودوں سے منہ پھیر رہا ہے تو اگر اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالوں گا۔ وغیرہ لیکن پھر بھی آپ نے ان کے لیے استغفار کرنے کا وعدہ کر لیا، پس اللہ فرماتا ہے کہ ابراہیم اواہ اور حلیم تھے۔

 

۱۱۵

معصیت کا تسلسل گمراہی کا بیج ہے

اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا۔ جیسے اور جگہ ہے کہ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باوجود اندھے پن کو ترجیح دی۔ اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے۔ اب جو چاہے کرے، جو چاہے چھوڑے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مومنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لا چکا ہے۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے۔ وہ پورا باخبر اور سب سے بڑھ کر علم والا ہے۔ پھر مومنین کو مشرکین سے اور ان کے ذی اختیار بادشاہوں سے جہاد کی رغبت دلاتا ہے۔ اور انہیں اپنی مدد پر بھروسہ کرنے کو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کا ملک میں ہی ہوں۔ تم میرے دشمنوں سے مرعوب مت ہونا۔ کون ہے جو ان کا حمایتی بن سکے؟ اور کون ہے جو ان کی مدد پر میرے مقابلے میں آسکتا ہے ؟ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اپنے اصحاب کے مجمع میں بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کیا جو میں سنتا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ہمارے کان میں کوئی آواز نہیں آ رہی۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کا چرچرنا سن رہا ہوں درحقیقت میں ان کا چرچرانا ٹھیک بھی ہے۔ ان میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں اور قیام میں نہ ہو۔ کعب احباور فرماتے ہیں ساری زمین میں سوئی کے ناکے برابر کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو یہاں کا علم اللہ کی طرف نہ پہنچاتا ہو۔ آسمان کے فرشتوں کی گنتی زمین کے سنگریزوں سے بڑی ہے۔ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کے ٹخنے اور پنڈلی کے درمیان کا فاصلہ ایک سو سال کا ہے۔

 

۱۱۷

تپتے صحرا، شدت کی پاس اور مجاہدین سرگرم سفر

مجاہدوغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت جنگ تبوک کے بارے میں اتری ہے اس جنگ میں جانے کے وقت سال بھی قحط کا تھا، گرمیوں کا موسم تھا، کھانے پینے کی کمی تھی، راستوں میں پانی نہ تھا۔ شام کے ملک تک کا دور دراز کا سفر تھا۔ سامان رسد کی اتنی کمی کہ دو دو آدمیوں میں ایک ایک کھجور بٹنی تھی۔ پھر تو یہ ہو گیا تھا کہ ایک کھجور ایک جماعت کو ملتی یہ چوس کر اسے دیتا اور کو اور ایک ایک چوس کر پانی پی لیتا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ان پر لازم کر دی اور انہیں واپس لایا۔ حضرت عمر سے جب اس سختی کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا۔ سخت گرمیوں کے زمانے میں ہم نگلنے کو تھے، ایک منزل میں تو پیاس کے مارے ہماری گردنیں ٹوٹ نے لگیں یہاں تک کہ لوگ اپنے اونٹوں کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی نور کر اس پانی کو پیتے اور پھر اسے اپنے کلیجے سے لگا لیتے اس وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو ہمیشہ ہی قبول فرمایا ہے۔ اب بھی دعا کیجئے کہ اللہ قبول فرمائے آپ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا شروع کی اس وقت آسمان پر ابر چھا گیا اور برسنے لگا اور خوب برسا جس کے پاس جتنے برتن تھے سب بھر لیے پھر بارش رک گئی اب جو ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے لشکر کے احاطے سے باہر ایک قطرہ بھی نہیں برسا تھا۔ پس اس جہاد میں جنہوں نے روپے پیسے سے، سواری سے خوراک سے، سامان رسد اور ہتھیار سے پانی وغیرہ سے غرض کسی طرح بھی مومنوں کی مدد کی تھی، ان کی فضیلت و برتی بیان ہو رہی ہے۔ یہی وہ وقت تھا کہ بعض کے دل پھر جانے کے ریب ہو گے تھے۔ مشقت شدت اور بھوک پیاس نے دلوں کو ہلا دیا تھا، مسلمان جھنجھوڑ دیئے گئے تھے لیکن رب نے انہیں سنبھال لیا اور اپنی طرف جھکا لیا اور ثابت قدمی عطا فرما کر خود بھی ان پر مہربان ہو گیا، اللہ تعالیٰ جیسی رفعت و رحمت اور کس کی ہے؟ وہ ان پر خوب ہی رحمت و کرم رکھتا ہے۔

 

۱۱۸

جنگ تبوک میں عدم شمولیت سے پشیمان

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ جو آپ کے نابینا ہو جانے کے بعد آپ کا ہاتھ تھام کر لے جایا لے آیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے موقع پر میرے والد کہ رہ جانے کا واقعہ خود کی زبانی یہ ہے کہ فرماتے ہیں میں اس کے سوا کسی اور غزوے میں پچھے نہیں رہا۔ ہاں غزوہ بدر کا ذکر نہیں، اس میں جو لوگ شامل نہیں ہوئے تے ان پر کوئی سرزنش نہیں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قافلے کے ارادے سے چلے تھے لیکن وہاں اللہ کی مرضی سے قریش کے جنگی مرکز سے لڑائی ٹھہر گئی۔ تو چونکہ یہ لڑائی بے خبری میں ہوئی اس لیے میں اس میں حاضر نہ ہو سکا اس کے بجائے الحمد اللہ میں لیلۃ العقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ تھا جب کہ ہم نے اسلام پر موافقت کی تھی اور میرے نزدیک تو یہ چیز بدر سے بھی زیادہ محبوب ہے گو بدر کے شہرت لوگوں میں بہت زیادہ ہے۔ اچھا اب غزوہ تبوک کی غیر حاضری کا واقعہ سنئے اس وقت مجھے جو آسانی اور قوت تھی وہ اس سے پہلے کبھی میسر نہ آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس دو دو اونٹنیاں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جس غزوے میں جاتے توریہ کرتے یعنی ایسے الفاظ کہتے کہ لوگ صاف مطلب نہ سمجھیں۔ لیکن چونکہ اس وقت موسم سخت گرم تھا، سفر بہت دور دراز کا تھا، دشمن بڑی تعداد میں تھا، پس آپ نے مسلمانوں کے سامنے اپنا مقصد صاف صاف واضح کر دیا کہ وہ پوری پوری تیاری کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے ساتھ اس وقت مسلمانوں کی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ رجسٹر میں ان کے نام نہ آ سکے۔ پس کوئی باز پرس نہ تھی جو بھی چاہتا کہ میں رک جاؤں وہ رک سکتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اس کا رکنا مخفی رہ سکتا تھا۔ ہاں اللہ کی وحی آ جائے یہ تو بات ہی اور ہے۔ اس لڑائی کے سفر کے وقت پھل پکے ہوئے تھے سائے بڑھے ہوئے تھے۔ مسلمان صحابہ اور خود حضور تیاریوں میں تھے، میری یہ حالت تھی کہ صبح نکلتا تھا کہ سامان تیار کر لوں لیکن ادھر ادھر شام ہو جاتی اور میں خالی ہاتھ گھر لوٹ جاتا۔ اور کہتا کوئی بات نہیں روپیہ ہاتھ تلے ہے، کل خرید لوں گا اور تیاری کر لوں گا۔ یہاں تک کہ یوں ہی صبح شام صبح شام آج کل آج کل کرتے کوچ کا دن آگیا اور لشکر اسلام بجانب تبوک چل پڑا میں نے کہا کوئی بات نہیں ایک دو دن میں بھی پہنچتا ہوں۔ یونہی آج کا کام کل پر ڈالا اور کل کا پرسوں پر یہاں تک کہ لشکر دور جا پہنچا۔ گرے پڑے لوگ بھی چل دیئے میں کہا خیر دور ہو گئے اور کئی دن ہو گئے تو کیا میں تیز چل کر جا ملوں گا لیکن افسوس کہ یہ بھی مجھے سے نہ ہو سکا اور ادوں ہی اور ادوں میں رہا گیا۔ اب تو یہ حالت بھی میں بازاروں میں نکلتا تو مجھے سوائے منافقوں اور بیمار اور لولے لنگڑے اندھے مریضوں اور معذور لوگوں کے اور کوئی نظر نہ آتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک پہنچ کر مجھے یاد فرمایا کہ کعب بن مالک نے کیا کیا؟ اس پر بنو سلمہ کے ایک شخص نے کہا سے اچھے کپڑوں اور جسم کی راحت رسانی نے روک رکھا ہے۔ یہ سن کر حضرت معاذ بن جبل نے فرمایا آپ یہ درست نہیں فرما رہے یا سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارا خیال تو کعب کی نسبت بہتر ہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم خاموش ہو رہے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ اب آپ لوٹ رہے ہیں تو میرا جی بہت ہی گھبرایا۔ اور میں حیلے بہانے سو چنے لگا کہ یوں یوں بہانہ بنا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے غصے سے نکل جاؤں گا اپنے والوں سے بھی رائے ملا لوں گا۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینے شریف کے قریب آ گئے تو میں دل سے باطل اور جھوٹ بالکل الگ ہو گیا۔ اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹے حیلے مجھے نجات نہیں دلوا سکے۔ سچ ہی کا آخر بول بالا رہتا ہے۔ پس میں پختہ اور ادہ کر لیا کہ جھوٹ بالکل نہیں بولوں گا۔ صاف صاف سچ سچ بات کہہ دونگا۔ آپ خیر سے تشریف لائے اور حسب عادت پہلے مسجد میں آئے دو رکعت نماز ادا کی اور وہیں بیٹھے۔ اسی وقت اس جہاد میں شرکت نہ کرنے والے آنے لگے اور عذر معذرت حیلے بہانے کرنے لگے۔ یہ لوگ اسی سے کچھ اوپر اوپر تھے۔ آپ ان کی باتیں سنتے اور اندرونی حالت سپرد اللہ کر کے ظاہری باتوں کو قبول فرما کر ان کے لیے استغفار کرتے۔ میں بھی حاضر ہوا اور سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غصے کے ساتھ تبسم فرمایا اور مجھے اپنے پاس بلایا میں قریب آن کر بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم کیسے رک گئے؟ تم نے سواری بھی خرید لی تھی۔ میں کہا یا رسول اللہ اگر آپ کے سوا کسی اور کے پس میں بیٹھا ہوتا تو بیسیوں باتیں بنا لیتا۔ بولنے میں اور باتیں بنانے میں میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ آج اگر جھوٹ سچ ملا کر آپ کے غصے سے میں آزاد ہو گیا تو ممکن ہے کل اللہ تعالیٰ آپ کو حقیقت حال سے مطلع فرما کر پھر مجھ سے ناراض کر دے۔ اور آج میرے سچ کی بناء پر اگر آپ مجھے سے بگڑے تو ہو سکتا ہے کہ میری سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو مجھے سے پھر خوش کر دے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سچ تو یہ ہے کہ واللہ مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ مجھے اس وقت جو آسانی اور فرست تھی اتنی تو کبھی اس سے پہلے میسر بھی نہیں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے تو سچا ہے۔ اچھا تم جاؤں اللہ تعالیٰ ہی تمہارے بارے میں جو فیصلہ کرے گا وہی ہو گا۔ میں کھڑا ہو گیا، بنو سلمہ کے چند شخص بھی میرے ساتھ ہی اٹھے اور ساتھ ہی چلے اور مجھ سے کہنے لگے اس سے پہلے تو تم سے کبھی کوئی اس قسم کی خطا نہیں ہوئی۔ لیکن عجب ہے کہ تم نے کوئی عذر معذرت پیش نہیں کی جیسے کہ اوروں نے کی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ و سلم تمہارے لیے استغفار کرتے تو تمہیں یہ کافی تھا۔ الغرض کچھ اس طرح یہ لوگ میرے پیچھے پڑے کہ مجھے خیال آنے لگا کہ پھر واپس جاؤں اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنی پہلی بات کو جھٹلا کر کوئی حیلہ غلط سلط میں بھی پیش کر دوں۔ پھر میں نے پوچھا کیوں جی کوئی اور بھی میرے جیسا اس معاملے میں اور ہے؟ انہوں نے ہاں ہاں دو شخص اور ہیں اور انہیں بھی وہی جواب ملا ہے جو تمہیں ملا ہے۔ میں نے کہا وہ کون کون ہیں انہوں نے جواب دیا مرارہ بن ربیع عامری اور حلال بن امیہ واقفی ان دونوں صالح اور نیک بدری صحابیوں کا نام جب میں نے سنا تو مجھے پورا اطمینان ہو گیا اور گھر چلا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم تینوں سے کلام کرنے سے مسلمانوں کو روک دیا تھا۔ لوگ ہم سے الگ ہو گئے کوئی ہم سے بولتا چالتا نہ تھا یہاں تک کہ مجھے تو اپنا وطن پر دیس معلوم ہونے لگا کہ گویا میں یہاں کی کسی چیز سے واقف ہی نہیں۔ پچاس راتیں اہم پر اسی طرح گزر گئیں۔ وہ دو بدری بزرگ تو تھک ہار کر اپنے اپنے مکان میں بیٹھ رہے باہر اندر آنا جانا بھی انہوں نے چھوڑ دیا۔ میں ذرا زیادہ آنے جانے والا اور تیز طبیعت والا تھا۔ نہ میں نے مسجد جانا چھوڑا، نہ بازاروں میں جانا آنا ترک کیا۔ ہاں مجھ سے کوئی بولتا نہ تھا۔ نماز کے بعد جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ملوگوں کے مجمع میں تشریف فرما ہوتے تو میں آتا اور سلام کرتا اور اپنے جی میں کہتا کہ میرے سلام کے جواب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہوںٹ ہلے بھی یا نہیں پھر آپ کے قریب ہی کہیں بیٹھ جاتا اور کنکھیوں سے آپ کو دیکھتا رہتا۔ جب میں نماز میں ہوتا تو آپ کی نگاہ مجھ پر پڑتی لیکن جہاں میں آپ کی طرف التفات کرتا، آپ میری طرف سے منہ موڑ لیتے۔ آخر اس ترک کلامی کی طویل مدت نے مجھے پریشان کر دیا۔ ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کے باغ کی دیوار سے کود کر ان کے پاس گیا۔ مجھے ان سے بہت ہی محبت تھی۔ میں سلام کیا لیکن واللہ انہوں نے جواب نہ دیا۔ میں نے کہاابو قتادہ تجھے اللہ کی قسم کیا تو نہیں جانتا کہ میں اللہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھتا ہوں؟ اس نے خاموشی اختیار کی میں نے دوبارہ انہیں قسم دی اور پوچھا وہ پھر بھی خاموش رہے میں سہ بارہ انہیں قسم دے کر یہی سوال کیا اس کے جواب بھی وہ خاموش رہے اور فرمایا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ اب تو میں پنے دل کو نہ روک سکا۔ میری دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور بہت غمگین ہو کر پھر دیوار پر چڑھ کر بہر نکل گیا۔ میں بازار میں جا رہا تھا کہ میں شام کے ایک قبطی کو مدینے میں غلہ بیچنے آیا تھا یہ پوچھتے ہوئے کہ کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتا دے لوگوں اسے میری طرف اشارہ کر کے بتا دیا وہ میرے پاس آیا اور مجھے شاہ غسان کا خط دیا۔ میں لکھا پڑھا تو تھا ہی۔ میں پڑھا تو اس میں لکھا تھا ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سردار نے تم پر ظلم کیا ہے تم کوئی ایسے گرے پڑے آدمی نہیں ہو تم یہاں دربار میں چلے آؤ ہم ہر طرح کی خدمت گذاریوں کے لیے تیار ہیں۔ میں اپنے دل میں سوچا یہ ایک اور مصیبت اور منجانب اللہ آزمائش ہے۔ میں نے تو جا کر چولھے میں اس رقعے کو جلا دیا۔ چالیس راتیں جب گزر چکیں تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاصد میرے پاس آ رہا ہے اس نے آ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام پہنچایا تم اپنی بیوی سے علیحدہ رہو۔ میں پوچھا یعنی کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے نہیں طلاق نہ دو لیکن ان سے ملو جلو نہیں۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی یہی پیغام پہنچا۔ میں نے تو اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس امر کا فیصلہ نہ کر دے ہاں حضرت ہلال بن امیہ کی بیوی نے آن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ میرے خاوند بہت بوڑھے ہیں، کمزور بھی ہیں اور گھر میں کوئی خادم بھی نہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں ان کا کام کاج کر دیا کروں۔ آپ نے فرمایا اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن وہ تم سے ملیں نہیں۔ انہوں نے کہا واللہ ان میں تو حرکت کی سقت ہی نہیں اور جب سے یہ بات پیدا ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک ان کے آنسو تھمے ہی نہیں۔ مجھ سے بھی میرے بعض دوستوں نے کہا کہ تو بھی اتنی اجازت تو حاصل کر لو جتنی حضرت ہلال کے لیے ملی ہے۔ لیکن میں جواب دیا کہ میں اس بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ نہیں کہوں گا۔ اللہ جانے آپ جواب میں کیا ارشاد فرمائیں؟ ظاہر ہے کہ وہ بوڑھے آدمی ہیں اور میں جوان ہوں۔ دس دن اس بات پر بھی گزر گئے اور ہم سے سلام کلام بند ہونے کی پوری پچاس راتیں گزر چکیں۔ اس پچاسویں رات کو صبح کی نماز میں نے اپنے گھر کی چھت پر ادا کی اور میں دل برداشتہ حیران و پریشان اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اپنی جان سے تنگ تھا، زمین باوجود اپنی کشادگی کے مجھ پر تنگ تھی کہ میرے کان میں سلع پہاڑی پر سے کسی کی آواز آئی کہ وہ با آواز بلند کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک خوش ہو جا۔ واللہ میں اس وقت سجدے میں گڑ پرا اور سمجھ گیا کہ اللہ عزوجل کی طرف سے قبولیت توبہ کی کوئی خبر آ گئی۔ بات بھی یہی تھی صبح کی نماز کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے یہ خبر صحابہ سے بیان فرمائی تھی اور یہ سنتے ہیں وہ پیدل اور سو اور ہم تینوں کی طرف دوڑ پڑے تھے کہ ہمیں خبر پہنچائیں۔ ایک صاحب تو اپنے گھوڑے پر سو اور میری طرف خوشخبری لیے ہوئے آ رہے تھے لیکن اسلم کے ایک صاحب نے دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ کر با آواز بلند میرا نام لے کر مجھے خوشخبری پہنچائی سوار سے پہلے ان کی آواز میرے کان میں آ گئی۔ جب یہ صاحب میرے پاس پہنچے تو میں نے اپنے پہنے ہوئے دونوں کپڑے انہیں بطور انعام دے دیئے واللہ اس دن میرے پاس اور کچھ بھی نہ تھا۔ دو کپڑے اور ادھاور لے کر میں نے پہنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے گھر سے نکلا۔ راستے میں جوق در جوق لوگ مجھ سے ملنے لگے اور مجھے میری توبہ کی بشارت مبارکباد دینے لگے۔ کہ کعب اللہ تعالیٰ کا تمہاری توبہ کو قبول فرما لینا تمہیں مبارک ہو۔ میں جب مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما تھے اور دیگر صحابہ بھی حاضر حضور صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت طلحہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور دوڑتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی۔ مہاجرین میں سے سوائے ان کے اور کوئی صاحب کھڑے نہیں ہوئے۔ حضرت کعب حضرت طلحہ کی اس محبت کو ہمیشہ ہی اپنے دل میں لیے رہے۔ جب میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سلام کیا، اس وقت آپ کے چہرہ مبارک کی رگیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا کعب تم پر تمہاری پیدائش سے لے کر آج تک آج جیسا خوشی کا دن کوئی نہیں گزارا۔ میں نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ عالیٰ عزوجل کی جانب سے؟ آپ نے فرمایا نہیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو جب کوئی خوشی ہوتی تو آپ کا چہرہ مثل چاند کے ٹکڑے کے چمکنے لگ جاتا تھا اور ہر شخص چہرے مبارک کو دیکھتے ہیں ہنچان لیا کرتا تھا۔ میں نے آپ کے پاس بیٹھ کر عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم اللہ میں نذر مانی ہے کہ اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرما لے تو میرا سب مال اللہ کے نام صدقہ ہے۔ اس کے رسول کے سپرد ہے۔ آپ نے فرمایا تھوڑا بہت مال اپنے پاس رکھ لو، یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ میں کہا جو حصہ میرا خیبر میں ہے وہ تو میرا رہا باقی اللہ خیران ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری نجات کا ذریہ میرا سچ بولنا ہے میں نے یہ بھی نذر مانی ہے کہ باقی زندگی بھی سوائے سچ کے کوئی کلمہ زبان سے نہیں نکالوں گا۔ میرا ایمان ہے کہ سچ کی وجہ سے جو نعمت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی وہ کسی مسلمان کو نہیں ملی۔ اس وقت سے لے کر آج تک بحمد اللہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اور جو عمر باقی ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ سے مجھے یہی امید ہے۔ اللہ رب العزت نے لقد تاب اللہ سے کئی آیتیں تک ہماری توبہ کے بارے نازل فرمائیں۔ اسلام کی نعمت کے بعد مجھ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت یہ بھی ہے کہ میں اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کوئی جھوٹ بات نہ کہی جیسے کہ اوروں نے جھوٹی باتیں بنائیں ورنہ میں بھی ان کی طرح ہلاک ہو جاتا۔ ان جھوٹے لوگوں کو کلام اللہ شریف میں بہت ہی برا کہا گیا۔ فرمایا سیحلفون باللہّٰہ لکم الخ، یعنی تمہارے واپس آنے کے بعد یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر چاہتے ہیں کہ تم ان سے چشم پوشی کر لو۔ اچھا تم چشم پوشی کر لو لیکن یاد رہے کہ اللہ کے نزدیک یہ لوگ گندے اور پلید ہیں۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو ان کے عمل کا بدلہ ہو گا۔ یہ تمہیں رضا مند کرنے کے لیے حلف اُٹھا رہے ہیں تم گو ان سے راضی ہو جائے لیکن ایسے فاسق لوگوں سے اللہ خوش نہیں۔ تم تینوں کے امر ان لوگوں کے امر سے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔ ان کے عذر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے قبول فرمائے تھے، ان سے دوبارہ بیت کر لی تھی اور ان کے لیے استغفار بھی کیا تھا۔ اور ہمارا معاملہ تاخیر میں پڑ گیا تھا جس کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا۔ اسی لیے آیت کے الفاظ وعلی الثلاثت الذین خلفوا ہیں۔ پس اس پیچھے چھوڑ دئے جانے سے مراد غزوے سے رک جانا نہیں بلکہ ان لوگوں کے جھوٹے عذر کے قبول کئے جانے سے ہمارا معاملہ موخر کر دینا ہے۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے بخاری مسلم دونوں میں ہے۔ الحمد اللہ اس حدیث میں اس آیت کی پوری اور صحیح تفسیر موجود ہے۔ کہ تینوں بزرگ انصاری تھے رضی اللہ عنہم اجمعین۔ ایک روایت میں مراورہ بن ربیعہ کے بعد لے ربیع بن مراورہ آیا ہے۔ ایک میں ربیع بن مراور یا مراد بن ربیع ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جو بخاری و مسلم میں ہے یعنی مراہر بن ربیع رضی اللہ عنہ۔ ہاں زہری کی اوپر والی روایت میں جو یہ لفظ ہی کہ وہ دونوں بدری صحابی تھے جو حضرت کعب کی طرح چھوڑ دئے گئے تھے یہ خطا ہے۔ ان تینوں بزرگوں میں سے ایک بھی بدری نہیں واللہ اعلم۔ چونکہ آیت میں ذکر تھا کہ کسی طرح ان بزرگوں نے صحیح سچا واقع کہہ دیا جس سے گو کچھ دنوں تک وہ رنج و غم میں رہے لیکن آخر سلامتی اور ابدی راحت لی۔ اس کے بعد ہی فرماتا ہے کہ اے مومنوً سچ بولا کرو اور سچائی کو لازم پکڑے رہو چوں میں ہو جائے تاکہ ہلاکت سے نجات پاؤ، غم رنجم سے چھوٹ جاؤ۔ مسند احمد میں ہے رسول للہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ لوگوں سچائی کو لازم کر لو، سچ بھلائی کی رہبری کرا ہے اور بھلائی جنت کی رہبری کرتی ہے۔ انسان کے سچ بولنے اور سچ پر کار بند رہنے سے اللہ کے ہاں صدیق لکھ لیا جاتا ہے۔ جھوٹ سے بچو۔ جھوٹ بولتے رہنے سے اللہ کے ہاں کذاب لکھ لیا جاتا ہے۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قصداً یا مذاقاً کسی حالت میں بھی جھوٹ انسان کے لائق نہیں۔ کیونکہ اللہ مالک الملک فرماتا ہے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساھی بن جاؤ، پس کیا تم اس میں کسی کے لیے بھی رخصت پاتے ہو؟ بقول حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سچوں سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب ہیں۔ اگر سچوں کے ساتھ بننا چاہتے ہو تو دنیا میں بے رغبت رہو اور مسلمانوں کو نہ ستاؤ۔

 

۱۲۰

غزوہ تبوک میں شامل نہ ہونے والوں کو تنبیہہ

ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اللہ تعالیٰ ڈانٹ رہا ہے کہ مدینے والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو مجاہدین کے برابر ثواب والا نہیں سمجھنا چاہیے وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہ گئے جو ان مجاہدین فی سبیل اللہ کو ملا۔ مجاہدین کو ان کی پیاس پر تکلیف پر بھوک پر، ٹھیرنے اور چلنے پر، ظفر اور غلبے پر، غرض ہر ہر حرکت و سکون پر اللہ کی طرف سے اجر عظیم ملتا رہتا ہے۔ رب کی ذات اس سے پاک ہے کہ کسی نیکی کرنے والے کی محنت برباد کر دے۔

 

۱۲۱

مجاہدین کے اعمال کا بہترین بدلہ قربت الٰہی ہے

یہ مجاہد جو کچھ تھوڑا بہت خرچ کریں اور راہ اللہ میں جس زمین پر چلیں پھریں، وہ سب ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے۔ یہ نکتہ یاد رہے کہ اوپر کا کام ذکر کر کے اجر کے بیان میں لفظ بہ لائے تھے اور یہاں نہیں لائے اس لیے کہ وہ غیر اختیاری افعال تھے اور یہ خود ان سے صادر ہوتے ہیں۔ پس یہاں فرماتا ہے کہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ دے گا۔ اس آیت کا بہت بڑا حصہ اور اس کا کامل اجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سمیٹا ہے۔ غزوہ تبوک میں آپ نے دل کھول کر مال خرچ کیا۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ تبوک کے لئے تیاری کے متعلق ترغیب دیتے ہوئے کہا تو حضرت عثمان نے کہا کہ ایک سو اونٹ معہ اپنے کجاوے پالان رسیوں وغیرہ کے میں دونگا۔ آپ نے پھر اسی کو بیان فرمایا تو پھر سے حضرت عثمان نے فرمایا ایک سو اور بھی دونگا۔ آپ ایک زینہ منبر کا اترے پھر رغبت دلائی تو حضرت عثمان نے پھر فرمایا ایک اور بھی آپ نے خوشی خوشی اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا بس عثمان! آج کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے تو بھی یہی کافی ہے۔ اور روایت میں ہے کہ ایک ہزار دینار کی تھیلی لا کر حضرت عثمان نے آپ کے پلے میں ڈال دی۔ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے لٹ پلٹ کر تے جاتے تھے اور فرما رہے تھے آج کے بعد یہ جو بھی عمل کریں انہیں نقصان نہ دے گا۔ بار بار یہی فرماتے رہے اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں جس قدر انسان اپنے وطن سے اللہ کی راہ میں دور نکلتا ہے، اتنا ہی اللہ کے قرب میں بڑھتا ہے۔

 

۱۲۲

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو تنہا نہ چھوڑو

اس آیت میں اس بیان کی تفصیل ہے جو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ چلنے کے متعلق تھا۔ سلف کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جہاد میں نکلیں تو آپ کا ساتھ دینا ہر ملسمان پر واجب ہے جیسے فرمایا انفرو اخفا فا و ثقالا اور فرمایا ہے ماکان لا ھل المدینہ یعنی یعنی ہلکے بھاری نکل کھڑے ہو جائے۔ مدینے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو لائق نہیں کہ وہ رسول اللہ کے پیچھے رہ جائیں۔ پس یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔ اور یہ بھی کہا گی ہے کہ وہ قبیلوں کے نکلنے کا بیان ہے اور ہر قبیلے کی ایک جماعت کے نکلنے کا اگر وہ سب نہ جائیں تاک آپ کے ساتھ جانے والے آپر اتری ہوئی وحی کو سمجھیں اور واپس آ کر اپنی قوم کو دشمن کے حالات سے باخبر کریں۔ پس انہیں دونوں باتیں اس کوچ میں حاصل ہو جائیں گی۔ اور آپ کے بعد قبیلوں میں سے جانے والی جماعت یا تو دینی سمجھ کے لیے ہو گی یا جہاد کے لیے۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے۔ حضرت ابن عباس سے اس آیت کے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ مسلمانوں کو یہ چاہیے کہ سب کے سب چلے جائیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تنہا چھوڑ دیں۔ ہر جماعت میں سے چند لوگ جائیں اور آپ کی اجازت سے جائیں جو باقی ہیں وہ ان کے بعد جو قرآن اترے، وہ احکام بیان ہوں، انہیں سیکھیں، سمجھیں۔ جب یہ آ جائیں تو انہیں سکھائیں پڑھائیں۔ اس وقت اور لوگ جائیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ مجاہد فرماتے ہیں۔ یہ ان صحابیوں کے بارے میں اتری ہے جو بادیہ نشینوں میں گئے وہاں انہیں فوائد بھی پہنچے اور نفع کی چیزیں بھی لیں۔ اور لوگوں کو انہوں نے ہدایات بھی کیں۔ لیکن بعض لوگوں انہیں طعنہ دیا کہ تم لوگ اپنے ساتھیوں کے پیچھے رہ جانے والے ہو۔ وہ میدان جہاد میں گئے اور تم آرام سے یہاں ہم میں ہو۔ ان کے بھی دل میں یہ بات بیٹھ گئی وہاں سے واپس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلے آئے۔ پس یہ آیت اتر اور و انہیں معذور سمجھا گیا۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لشکروں کو بھیجیں تو کچھ لوگوں کو آپ کی خدمت میں ہی رہنا چاہیے کہ وہ دین سیکھیں اور کچھ لوگ جائیں اپنی قوم کو دعوت حق دیں اور انہیں اگلے واقعات سے عبرت دلائیں ضحاک فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نفس نفیس جہاد کے لیے نکلیں اس وقت سوائے معذوروں، اندھوں وغیرہ کے کسی کو حلال نہیں کہ آپ کے ساتھ نہ جائے اور جب آپ لشکروں کو روانہ فرمائیں تو کسی کو حلال نہیں کہ آپ کی اجازت بغیر جائے۔ یہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رہتے تھے، اپنے ساتھیوں کو جب کہ وہ واپس لوٹتے ان کے بعد کا اترا ہوا قرآن اور بیان شدہ احکام سنا دیتے پس آپ کی موجودگی میں سب کو نہ جانا چاہیے۔ مروی ہے کہ یہ آیت جہاد کے بارے میں نہیں بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلے مضر پر قحط سالی کی بد دعا کی اور ان کے ہاں قحط پڑا تو ان کے پورے قبیلے قبیلے مدینے شریف میں چلے آئے۔ یہاں جھوٹ موٹ اسلام ظاہر کر کے صحابہ پر اپنا بار ڈال دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو متنبہ کیا کہ دراصل یہ مومن نہیں۔ آپ نے انہیں ان کی جماعتوں کی طرف واپس کیا اور ان کی قوم کو ایسا کرنے سے ڈرایا۔ کہتے ہیں کہ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آتے، دین اسلام سیکھتے واپس جا کر اپنی قوم کو اللہ رسول کی اطاعت کا حکم کرتے، نماز زکوٰۃ کے مسائل سمجھاتے، ان سے صاف فرما دینے کہ جو اسلام قبول کر لے گا وہ ہمارا ہے ورنہ نہیں۔ یہاں تک کہ ماں باپ کو بھی چھوڑ دیتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم انہیں مسلے مسائل سے آگاہ کر دیتے، حکم احکام سھا پڑھا دینے وہ اسلام کے مبلغ بن کر جاتے ماننے والوں کو خوش کریں دیتے، نہ ماننے والوں کو ڈراتے، عکرمہ فرماتے ہیں جب آیت الا تنفروا الخ، اتریں تو منافقوں نے کہا پھر تو بادیہ نشیں لوگ ہلاک ہو گئے کہ وہ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہیں جاتے۔ بعض صحابہ بھی ان میں تعلیم و تبلیغ کے لیے گئے ہوئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور آیت والذین یحاجون فی اللہ الخ، بھی اتری۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ گئے ہیں وہ مشرکوں پر غلبہ و نصرت دیکھ کر واپس آن کر اپنی قوم کو ڈرا دیں۔

 

۱۲۳

اسلامی مرکز کا استحکام اولین اصول ہے

اسلام مرکز کے متصل جو کفار ہیں، پہلے تو مسلمانوں ان سے نمٹنا چاہیے اسی حکم کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ اسلم نے پلے جزیرۃ العرب کو صاف کیا، یہاں غلبہ پاکر مکہ، مدینہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضر موت وغیرہ کل علاقہ فتح کر کے یہاں کے لوگوں کو اسلامی جھنڈے تلے کھڑا کر کے غزوہ روم کی تیاری کی۔ جو اول تو جزیرہ العرب سے ملحق تھا دوسرے وہاں کے رہن والے اہل کتاب تھے۔ تبوک تک پہن کر حالات کی ناساز گاری کی وجہ سے آگے کا عزم ترک کیا۔ یہ واقعہ ٩ ھ کا ہے۔ دوسویں سال حجۃ الوداع میں مشغول رہے۔ اور حج کے صرف اکاسی دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا سے پردہ فرما گئے۔ آپ کے بعد آہپ کے نائب، دوست اور خلیفہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئے اس وقت دین اسلام کی بنیادیں متزلزل ہو رہی تھیں کہ آپ انہیں مضبوط کر دیا اور مسلمانوں کی ابتری کو برتری سے بدل دیا۔ دین سے بھاگنے والوں کو واپس اسلام میں لے آئے۔ مرتدوں سے دنیا خالی کی۔ ان سرکشوں نے جو زکوٰۃ روک لی تھی ان سے وصول کی جنہوں پر حق واضح کیا۔ امانت رسول ادا کی۔ اور ان ابتدائی ضروری کاموں سے فارغ ہوتے ہیں اسلای لشکروں کو سرزمیں روم کی طرف دوڑا دیا کہ صلیب پرستوں کو ہدایت کریں۔ اور ایسے ہی جرار لشکر فارس کی طرف بھیجے کہ وہاں کے آتش کدے ٹھنڈے کریں۔ پس آپ کی سفارت کی برکت سے رب العالمیں نے ہر طرف فتح عطا فرمائیں۔ کسری اور قیصر خاک میں مل گئے۔ ان کے پرستار بھی غارت و برباد ہوئے، ان کے خزانے راہ اللہ میں کام آئے۔ اور جو خبر اللہ کے رسول سلام اللہ علیہ دیئے تھے وہ پوری ہوئی۔ جو کسر رہ گئی تھی آپ کے وصی اور ولی شہید محراب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ کافروں اور منافقوں کی رگ ہمیشہ کے لیے کچل دی گئی۔ ان کے زور ڈھا دیئے گئے۔ اور مشرق و مغرب تک فاروقی سلطنت پھیل گئی۔ قریب و بعید سے بھر پور خزانے دربار فاروق میں آنے لگے اور شرعی طور پر حکم الٰہی کے ماتحت مسلمانوں میں مجاہدین میں تقسیم ہونے لگے۔ اس پاک نفس، پاک روح شہید کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے اجماع سے امر خلافت امیر المومنین شہید الدار حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوے۔ اس وقت اس وقت اسلام اپنی اصلی شان سے ظہور پذیر تھا۔ اسلام کے لمبے اور زورآور ہاتھوں نے روئے زمین پر قبضہ جما لیا تھا۔ بدنوں کی گردنیں اللہ کے سامنے خم ہو چکیں تھیں۔ حجت ربانی ظاہر تھی، کلمہ الٰہی غالب تھا۔ شان عثمان اپنا کام کرتی جاتی تھی۔ آج اس کو حلقہ بگوش کیا تو کل اس کو یکے بعد دیگرے کئی ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں زیر نگیں خلافت ہوئے۔ یہی تھا اس آیت کے پہلے جملے پر عمل کہ نزدیک کے کافروں سے جہاد کرو۔ پھر فرماتا ہے کہ لڑائی میں انہیں تمہارا زور بازو معلوم ہو جائے۔ کامل مومن وہ ہے جو اپنے مومن بھائی سے تو نرمی برتے لیکن اپنے دشمن کافر پر سخت ہو۔ جیسے فرمان ہے فسوف یاتی اللہ بققوم یجحم و یحبونہ الخ، یعنی اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو لائے گا جو اس کے محبوب ہوں اور وہ بھی اس سے محبت رکھنے ہوں۔ مومنوں کے سامنے تو نرم ہوں اور کافروں پر ذی عزت ہوں۔ اس طرح اور آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھ والے آپس میں نرم دل ہیں۔ کافروں پر سخت ہیں۔ اور شاد ہے یایھا النبی جاھد الکفار و المنافقین واغلظ علیھم یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو۔ حیدث میں ہے کہ میں ضحوک ہوں یعنی اپنوں میں نرمی کرنے والا اور قتال ہوں یعنی دشمنان رب سے جہاد کرنے والا۔ پھر فرماتا ہے کہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔ یعنی کافروں سے لڑو، بھروسہ اللہ پر رکھ، اور یقین مانو کہ جب تم اس سے ڈرتے رہو گے، اس کی فرماں برداری کرتے رہو گے، تو اس کی مدد و نصرت بھی تمہاریساتھ رہے گی۔ دیکھ لو خیر کے تینوں زمانوں تک ملسمانوں کی یہی حالت رہی۔ دشمن تباہ حال اور مغلوب رہے۔ لیکن جب ان میں تقویٰ اور اطاعت کم ہو گئی۔ فتنے فاسد پڑ گئے، اختلاف اور خواہش پسندی شروع ہو گئی۔ تو وہ بات نہ رہی، دشمنوں کی للچائی ہوئی نظریں ان کی طرف اُٹھیں۔ وہ اپنی کمیں گاہوں سے نکل کھڑے ہوئے، ادھر کا رخ کیا لیکن پھر بھی مسلمان سلاطین آپس میں اُلجھے رہے وہ ادھر ادھر سے نوالے لین گلے۔ آخر دشمن اور بڑھے، سلطنتیں کچلنی شروع کیں، ملک فتح کرنے شروع کئے۔ آہ! اکثر حصہ اسلامی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہی حکم اس سے پہلے تھا اور اس کے بعد بھی ہے کہ وہ پھر سے مسلمانوں کو غلبہ دے اور کافروں کی چوٹیاں ان کے ہاتھ میں دے دے۔ دنیا جہاں میں ان کا بول بالا ہو۔ اور پھر سے مشرق سے لے کر مغرب تک پرچم اسلام لہرانے لگے۔ وہ اللہ کریم و جواد ہے۔

 

۱۲۴

فرمان اللہ میں شک و شبہ کفر کا مرض ہے

قرآن کی کوئی سورت اتری اور منافقوں نے آپس میں کانا پھوسی شروع کی کہ بتاؤ اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کر دیا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمانداروں کے ایمان تو اللہ کی آیتیں بڑھا دیتی ہیں۔ یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس پر کہ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ اکثر ائمہ اور علما کا یہی مذہب ہے، سلف کا بھی اور خلف کا بھی۔ بلکہ بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ہم اس مسلئے کو خوب تفصیل سے شرح بخاری کے شروع میں بیان کر آئے ہیں۔ ہاں جن کے دل پہلے ہی سے شک و شبہ کی بیماری میں ہیں ان کی خرابی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ قرآن مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے لیکن کافر تو اس سے اور بھی اپنا نقصان کر لیا کرتے ہیں۔ یہ ایمانداروں کے ہدایت شفا ہے بے ایمانوں کے تو کانوں میں بوجھ ہے۔ ان کی آنکھوں پر اندھا پا ہے وہ تو بہت ہی فاصلے پکارے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کتنی بڑی بد بختی ہے کہ دلوں کی ہدایت کی چیز بھی ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی مثلاً ایسی ہی ہے جیسے عمدہ غذا بھی بد مزاج کو موافق نہیں آتی۔

 

۱۲۶

عذاب سے دوچار ہونے کے بعد بھی منافق باز نہیں آتا

یہ منافق اتنا بھی نہیں سوچتے کہ رہ سال دو ایک دفعہ ضروری وہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی انہیں اپنے گذشتہ گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے نہ آئندہ کے لیے عبرت ہوئی ہے۔ کبھی قحط سالی ہے کبھی جنگ ہے، کبھی جھوٹی گپیں ہیں جن سے لوگ بے چین ہو رہے ہیں۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کاموں میں سختی بڑھ رہی ہے۔ بخیلی عام ہو رہی ہے۔ ہر سال اپنے سے پہلے کے سال سے بند آ رہا ہے۔ جب کوئی سورت اترتی ہے ایک دوسرے کی طرف دیکھتا ہے کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟ پھر حق سے پلٹ جاتے ہیں نہ حق کو سمجھیں نے مانیں وعظ سے منہ پھر لیں اور ایسے بھاگیں جیسے گدھا شیر سے۔ حق کو سنا اور دائیں بائیں کھسک گئے۔ ان کی اس بے ایمانی کا بدلہ یہی ہے کہ اللہ نے ان کے دل بھی حق سے پھر دیئے۔ ان کی کجی نے ان کے دل بھی ٹیڑھے کر دیئے۔ یہ بدلہ ہے اللہ کے خطاب کو بے پروا ہی کر کے نہ سمجھنے کا اس سے بھاگنے اور منہ موڑ لینے کا

 

۱۲۸

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہیں

مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہیں میں سے ان کی ہی زبان میں اپنا رسول بھیجا۔ حضرت خلیل اللہ نے یہی دعا کی تھی۔ اسی کا بیان آیت لقد من اللّٰہ الخ میں ہے۔ یہی حضرت جعفر بن ابو طالب نے دربار نجاشی میں اور یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے دربار کسریٰ میں بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ہمیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جس کا نسب ہمیں معلوم، جس میں سے کوئی برائی اللہ نے آپ کی ذات میں پیدا نہیں ہونے دی۔ نسب نامہ بالکل کھرا تھا۔ خود آپ کا فرمان ہے کہ حضرت آدم سے لے کر مجھ تک بفضلہ کوئی برائی جاہلیت کی زنا کاری وغیرہ نہیں پہنچی، میں صحیح النسب ہوں۔ پھر اتنے نرم دل کہ اُمت کی تکلیفوں سے خود کانپ اٹھیں۔ آسان نرمی اور سادگی والا دین لے کر آئے ہیں۔ جو بہت آسان ہے۔ سہل ہے، کامل ہے اور اعلیٰ اور عمدہ ہے۔ وہ تمہاری ہدایت کے متمنی ہیں، وہ دنیاوی اخروی نفع تمہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حال میں چھوڑا کہ جو پرندا اڑ کر نکلتا اس کا علم بھی آپ ہمیں کر دیتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں۔ جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی تمام چیزیں میں تم سے بیان کر چکا ہوں۔ آپ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے وہ عنقریب تم پر ظاہر کر دینے والا ہے اور اس کی باز پرس قطعاً ہونے والی ہے۔ جس طرح پتنگے اور پروانے آگ پر گرتے ہوں اس طرح تم بھی گر رہے ہو اور میں تمہاری کولیاں بھر بھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم سوئے ہوئے ہیں جو دو فرشتے آتے ہیں ایک پاؤں کی طرف بیٹھا ہے دوسرا سرہانے۔ پھر پاؤں والا سرہانے والے سے کہتا ہے۔ اس کی اور اس کی اُمت کی مثال بیان کرو اس نے فرمایا یہ مثال سمجھو کہ ایک قوم سفر میں ہے، ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے جہان ان کا سامان خوراک ختم ہو جاتا ہے اب نہ تو آگے بڑھنے کی قوت، نہ پیچھے ہٹنے کی سکت۔ ایسے وقت ایک بھلا آدمی اچھے لباس والا ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بیابان سے چھٹکارا دلا کر ایسی جگہ پہنچا سکتا ہوں جہاں تمہیں نتھرے ہوئے پانی کے لبالب حوض اور میووں کے لدے ہوئے درخت اور ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں ملیں بشرطیکہ تم میرے پیچھے ہو لو۔ انہوں نے اس کی بات کو مان لیا اور وہ انہیں ایسی ہی جگہ لے گیا وہاں انہوں نے کھایا پیا اور خوب پھلے پھولے۔ اب اس نے کہا۔ دیکھو میں نے تمہیں اس بھوک پیاس سے نجات دلائی اور یہاں امن چین میں لایا۔ اب ایک اور بات تم سے کہتا ہیں وہ بھی مانو۔ اس سے آگے اس سے بھی بہتر جگہ ہے وہاں کے حوض، وہاں کے میوے وہاں کے کھیت، اس سے بہت ہی اعلیٰ ہیں۔ ایک جماعت نے تو اسے سچا مانا اور ہاں کر لی۔ لیکن دوسرے گروں نے اسی پر بس کر لیا اور اسکی تابعداری سے ہٹ گئے (مسند احمد) اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجے۔ آؤ ایک واقع آپ کی کمال شفقت کا سنو! ایک اعرابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور خون بہا ادا کرنے کے لیے آپ سے امداد طلب کی۔ آپ نے اسے بہت کچھ دیا۔ پھر پوچھا کیوں صاحب میں نے تم سے سلوک کیا؟ اس نے کہاں کچھ بھی نہیں اس سے کیا ہو گا؟ صحابہ بہت بگڑے۔ قریب تھا کہ اسے لپٹ جائیں کہ اتنا لینے پر بھی یہ ناشکری کرتا ہے؟ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سوال کا ایسا غلط اور گستاخانہ جواب دیتا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں روک دیا، گھر پر تشریف لے گئے۔ وہیں اسے بلوا لیا۔ سارا واقعہ کہہ سنایا پھر اسے اور بھی بہت کچھ دیا۔ پھر پوچھا کہو اب تو خوش ہو؟ اس نے کہاں ہاں اب دل سے راضی ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی اہل و عیال میں ہم سب کی طرف نیک بدلہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سنو! تم آئے۔ تم نے مجھ سے مانگا، میں نے دیا پھر میں نے تم سے پوچھا کہ خوش ہو؟ تو تم نے الٹا پلٹا جواب دیا جس سے میرے صحابی تم سے نالاں ہیں۔ اب میں نے پھر دے دلا کر تمہیں راضی کر لیا۔ اب تم ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنی رضامندی ظاہر کرنا جیسے اب تم نے میرے سامنے کی ہے تاکہ ان کا رنج بھی دور ہو جائے۔ اس نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ جب وہ صحابہ کے مجمع میں آپ کے پاس آیا آپ نے فرمایا دیکھو یہ شخص آیا تھا اس نے مجھ سے مانگا تھا، میں نے ایسے دیا تھا، پھر اس سے پوچھا تھا، تو اس نے ایسا جواب دیا تھا جو تمہیں ناگوار گزرا۔ میں نے اسے پھر اپنے گھر بلوایا اور زیادہ دیا تو یہ خوش ہو گیا۔ کیوں بھئی اعرابی یہی بات ہے؟ اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو ہمارے اہل وعیال اور قبیلے کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آپ نے مجھ سے بہت اچھا سلوک کیا۔ جزاک اللہ اس وقت آپ نے فرمایا میری اور اس اعرابی کی مثال سنو! جیسے وہ شخص جس کی اونٹنی بھاگ گئی لوگ اس کے پکڑنے کو دوڑے وہ ان سے بدک کر اور بھاگنے لگی۔ آخر اوٹنی والے نے کہا لوگو تم ایک طرف ہٹ جاؤ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو، اس کی خو خصلت سے میں واقف ہوں اور یہ میری ہی ہے۔ چنانچہ اس نے نرمی سے اسے بلانا شروع کیا۔ زمین سے گھانس پھونس توڑ کر اپنی مٹھی میں لے کر اسے دکھایا اور اپنی طرف بلایا، وہ آ گئی۔ اس نے اس کی نکیل تھام لی اور پالان و کاوہ ڈال دیا۔ سنو! اس کے پہلی دفعہ کے بگڑنے پر اگر میں بھی تمہارا ساتھ دیتا تو یہ جہنمی بن جاتا۔ ابراہیم بن حکم بن ابان کے ضعف کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ اے نبی مومنوں کے سامنے اپنا بزو پست رکھو۔ لوگ میری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے اعمال سے بری ہوں۔ تو ہمیشہ اپنا بھروسہ رب عزیز و رحیم پر رکھ۔ 

منحرفین شریعت سے آپ بے نیاز ہو جائیں

یہاں بھی فرماتا ہے اگر یہ لوگ تیری شریعت سے منہ پھیر لیں تو تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میرا توکل اسی کی پاک ذات پر ہے۔ جیسے فرمان ہے مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز ٹھیرا۔ وہ رب عرش عظیم ہے۔ یعنی ہر چیز کا مالک و خالق وہی ہے۔ عرش عظیم تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ آسمان و زمین اور کل کائنات بقدرت رب عرش تلے ہے۔ اس اللہ کا علم ہر چیز پر شامل ہے اور ہر چیز کو اپنے احاطے میں کئے ہوئے ہے۔ اس کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے وہ ہر ایک کا کارساز ہے۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے۔ مروی ہے کہ جب خلافت صدیقی میں قرآن کو جمع کیا تو کاتبوں کو حضرت ابی بن کعب لکھواتے تھے، جب اس سے پہلے کی آیت لایفقھون تک پہنچے تو کہنے لگے کہ یہی آخری آیت ہے۔ آپے فرمایا نہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے دو آیتیں اور پڑھوائیں ہیں۔ پھر آپ نے ان دونوں آیتوں کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ قرآن کی آخری آیتیں یہ ہیں۔ پس ختم بھی اسی پر ہوا جس پر شروع ہوا تھا یعنی لا الہ الا اللہ پر۔ یہی وحی تمام نبیوں پر آتی رہی ہے کہ میرے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں۔ تم سب میری ہی عبادت کرو۔ یہ روایت بھی غریب ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت حاورث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ ان دونوں آیتوں کو لے کر آئے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھائی ہیں اور مجھے خوب اچھی طرح حفظ ہیں۔ اس پر حضرت عمر نے گواہی دی کہ میں نے بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے۔ یہ گواہی سن کر آپ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ تیسری آیت بھی ہوتی تو میں اسے علیحدہ سورت بنا لیتا تم انہیں قرآن کی کسی سورت کے ساتھ لکھ لو۔ چنانچہ سورۃ براۃ کے آخر میں یہ لکھ لی گئیں۔ پہلے یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی قرآن کے جمع کرنے کا مشورہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا تھا اور بحکم خلیفہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے جمع کرنا شروع کیا۔ اس جماعت میں حضرت عمر بھی آمد و رفت رکھتے تھے۔ صحیح حدیث میں ہے حضرت زید فرماتے ہیں۔ سورہ برات کا آخرہ حصہ میں خزیمہ بن ثابت یا ابو خزیمہ کے پاس پایا۔ یہ بھی ہم لکھ آئے ہیں کہ ایک جماعت صحابہ نے اس کا مذاکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے روبر کیا جیسے کہ حضرت خزیمہ بن ثابت نے کہا تھا۔ جب کہ ان کے سامنے اس کی ابتدائی بات کہی تھی۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص صبح شام حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم کو سات سات مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالیٰ اسے اس کی تمام پریشانیوں سے نجات دے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خواہ صداقت سے پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو لیکن یہ زیادتی غریب ہے۔ ایک مرفوع روایت بھی اسی قسم کی ہے لیکن وہ بہت منکر ہے واللہ اعلم۔