دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الضّحیٰ

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

  آغاز ہی میں  ضُحٰی (روز روشن)  کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلضّحٰی ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ آغاز نبوت کے کچھ ہی عرصہ بعد نازل ہوئی تھی جب کہ آپ کے سامنے دعوت حق کی مشکلات پہاڑ بن کر کھڑی تھیں اور منکرین رسالت کے طنز و تشنیع سے آپ کبیدہ خاطر ہو رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

 خطاب براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور آپؐ کو شاندار مستقبل اور عظیم عنایات سے نوازے جانے کی خوش خبری دیتے ہوۓ آپؐ کی تسلی کا پورا پورا سامان کیا گیا ہے۔ یہ تو ہے اس سورہ کا خاص پہلو لیکن اس خاص پہلو کے ساتھ اس کا ایک عام پہلو بھی ہے جو فحوائے کلام سے واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ کار زار حیات میں انسان کو جن مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا راہ حق میں جن دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے ان کو اللہ کی ناراضگی پر محمول کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ ابتلا و آزمائش کے لیے ہوتی ہیں اور وہ انسان کے لیے حقیقی ترقی کے مدارج طے کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہی اس سورہ کا مرکزی مضمون ہے۔

 

نظم کلام

 

  آیت ۱ اور ۲ میں دن اور رات کی شہادت پیش کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ندیا بنائی ہی اس طرح ہے کہ یہاں نور بھی ہے اور ظلمت بھی۔ اسی طرح تکلیفیں بھی ہیں اور راحت بھی اور یہ دونوں حالتیں آزمائش کے لیے ضروری ہیں۔

 

آیت ۳ میں مذکورہ بالا حقیقت کے پیش نظر یہ واضح کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو راہ حق کی جن مشکلات سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے اس کا یہ مطلب لینا ہر گز صحیح نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی طرف سے نظر عنایت پھیر لی ہے یا وہ آپؐ سے ناراض ہوا ہے۔

 

آیت ۴ اور ۵ میں آپؐ کو عظیم کامرانیوں کی بشارتیں دی گئی ہیں۔

 

آیت ۶ تا ۸ میں ان مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بعثت سے پہلے دو چار ہو ۓ نیز خدا کے ان احسانات کا بھی جن کے نتیجہ میں آپؐ کے لیے راہیں کھلیں۔

 

آیت ۹ تا ۱۱ میں بتایا گیا ہے کہ ان احسانات کا تقاضا کیا ہے یعنی اس کے نتیجہ میں تمہارا رویہ کمزوروں اور نے بسوں کے ساتھ ہمدردانہ ہونا چاہیے اور خدا کی نعمت کا اعتراف و اظہار کرنا چاہیے۔

ترجمہ

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَسم ۱*  ہے روز روشن کی

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کی جب کہ وہ طاری ہو جاۓ ۲*  

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے پیغمبر !)  تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا ۳*  

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخرت تمہارے لیے دنیا سے کہیں بہتر ہے ۴*  

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عنقریب تمہارا رب تمہیں وہ کچھ عطا فرماۓ گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۵*  

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس نے تم کو یتیم پایا تو ٹھکانا دیا ؟ ۶*  

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور راہ سے بے خبر پایا ۷*  تو ہدایت دی ؟ ۸*  

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نادار پایا تو غنی کر دیا ؟ ۹*  

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا تم یتیم کو مت دباؤ۔ ۱۰*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سائل کو نہ جھڑکو ۱۱*  

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار ۱۲*  

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں جو قسمیں کھائی گئی ہیں ان سے مقصود اس اصولی حقیقت کو ذہن نشین کرانا ہے کہ اس دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہمیشہ ایک ہی حالت اور ایک ہی کیفیت طاری نہیں رہتی۔ یہاں دن کی روشنی بھی ہے اور رات کی تاریکی بھی۔

 

ومھما استطال اللیل فا الصبح واصل

 

اور رات خواہ کتنی ہی طویل ہو صبح نمودار ہو کر رہتی ہے۔

 

اس لیے جس طرح رات کی تاریکی کو دیکھ کر کسی کا روشنی سے مایوس ہو جانا صحیح نہیں اسی طرح تکلیف اور مصیبت کے امڈتے ہوۓ بادلوں کو دیکھ کر یہ خیال کرنا بھی صحیح نہیں کہ یہ بادل کبھی چھٹنے والے نہیں ہیں اور نہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح ہے کہ دنیا کی تکلیف لازماً اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ جس طرح آزمائش کے لیے رات اور دن دونوں کا وجود ضروری ہے اسی طرح تکلیف اور راحت دونوں ابتلاء کے لیے ضروری ہیں نیز تکلیفیں انسان کی تربیت اور اس کی مخفی صلاحیتوں کو ابھارنے کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب دعوت حق کا آغاز فرمایا تو مشکلات اور دشواریاں پہاڑ بن کا آپؐ کے سامنے کھڑی ہو گئیں اور آپ کے اس دعوے پر کہ آسمان سے آپؐ پر وحی نازل ہوتی ہے مخالفتوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ منکرین آپؐ کا مذاق اڑانے اور طنز و تشنیع کرنے لگے۔ ایک نبی کو ان حالات میں گھرا ہوا دیکھ کر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ اگر نبی واقعی خدا کا منظور نظر ہے تو اس کی راہ میں یہ مشکلات کیسی؟ اور پھر جب وحی کچھ دنوں کے لیے رک جاتی تو مخالفین یہ طنز کرتے کہ اللہ نے آپؐ کو چھوڑ دیا ہے اور آپؐ سے ناراض ہے۔ مخالفین کے ان شبہات کا ازالہ کرتے ہوۓ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا اطمینان اور تسلی دی جا رہی ہے کہ جن حالات میں آپؐ اپنے کو گھرا ہوا پا رہے ہیں وہ کار نبوت کا اقتفاء اور اللہ کی اس عظیم حکمت کے تحت ہیں جس کے مطابق اس دنیا کا پورا نظام چلایا جا رہا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ انسان کی آزمائش ہو جس سے انبیاء علیہم السلام بھی مستثنیٰ نہیں ہیں اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ نرم گرم ہر طرح کے حالات سے سابقہ پیش آۓ۔ ایک پیغمبر جب راہ حق کی مشکلات اور مخالفتوں کے طوفان سے گزر تا ہے تو اس سے عظیم فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً پیغمبر کے اخلاقی محاسن نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور اس کے کردار کی بلندی آسمان کو چھونے لگتی ہے ، جن دلوں میں انسانیت جاگ رہی ہوتی ہے اور وہ اس پر اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پیغمبر کے عزم اور حوصلہ کو دیکھ کر اس کے پیروؤں میں بھی استقامت اور پا مردی کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ رہی وحی الٰہی کے نزول میں تاخیر تو یہ بھی اس بنا پر نہیں ہے کہ اللہ پیغمبر سے ناراض ہو گیا ہے بلکہ وحی کا پورا معاملہ اللہ کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہے۔ اس کی حکمت جس وقت اور جتنی وحی کی  متقاضی ہوتی ہے وہ نازل کر دیتا ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خوش خبری اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت سنائی جب کہ آپؐ کو انتہائی نامساعد حالات سے گزرنا پڑ رہا تھا اور سخت مشکلات آپؐ کی راہ میں حائل تھیں۔ ان حالات میں آپؐ کے لیے اخروی فیروز مندی کی بشارت نہ صرف تسلی بلکہ حوصلہ افزائی کا بھی باعث تھی۔

 

معلوم ہوا کہ اگر آدمی آخرت کی کامیابی پر نظر رکھے تو اس سے عزم و حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور راہ حق کی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں۔

 

واضح رہے کہ متن میں ’’ الآخرۃ‘‘ اور الاولیٰ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں جو ’’آخرت‘‘ اور ’’دنیا‘‘ کے لیے قرآن کے اصطلاحی الفاظ ہیں اور قرآن میں جہاں بھی یہ الفاظ مطلق طور پر آتے ہیں اسی مفہوم میں آۓ ہیں ما قبل سورۃ الیل آیت ۱۳  وَاِنَّ لَنَا لَلْآخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی (بے شک آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی اختیار میں ہیں۔ )  میں بھی یہ الفاظ اسی مفہوم میں استعمال ہوۓ ہیں۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے آخرت کے ان ابدی انعامات کی طرف جن سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نوازا جاۓ گا۔ وہاں آپؐ عزت و سرفرازی کے جس مقام پر فائز ہوں گے اور عطاء و بخشش کی آپؐ پر جو بارش ہوگی اس کی ایک جھلک ان آیات و احادیث میں دیکھی جا سکتی ہے جن میں آپؐ کے رب کی طرف سے آپؐ پر کی جانے والی عنایات کا ذکر ہوا ہے ورنہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو کچھ دینے کا وعدہ فرمایا ہے اس کی وسعت و عظمت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم یتیم پیدا ہوۓ تھے۔ آپؐ ابھی بطن مادر ہی میں تھے کہ آپؐ کے والد عبد اللہ کا انتقال ہوگیا اور جب چھ سال کے ہوۓ تو آپؐ کے دادا عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی لیکن ابھی آپؐ آٹھ سال ہی کے تھے کہ دادا کا بھی انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد آپؐ کے چچا ابو طالب نے آپؐ کی کفالت کی اور آپؐ کے ساتھ بڑا اچھا برتاؤ کیا یہاں تک کہ ان کی شفقت آپؐ کی بعثت کے بعد بھی بر قرار رہی۔ (سیرۃ النبی لا بن ہشام ج ۱ ص ۱۷۱، ۱۷۹، ۱۸۰ ،۱۹۳ )۔

 

آپؐ کی پرورش کا یہ بہترین انتظام اور وہ بھی ایک ایسے ماحول میں جہاں یتیموں کی ناقدری کی جاتی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل ہی کا نتیجہ تھا۔

 

یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ یتیمی کی حالت میں گو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن باپ کے سہارے سے محروم ہونے کی وجہ سے آدمی کے اندر ایک طرح کی خود اعتمادی پیدا ہونے لگتی ہے اور اس سے بڑھ کر خدا اعتمادی کا جذبہ پرورش پانے لگتا ہے۔ غور کیجیے یتیمی کی حالت میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ کس طرح تربیت کا سامان کرتا ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ ’’ضَالّاً ‘‘ استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے۔ یہ لفظ ہدایت کے مقابلہ میں متعدد معنی میں بولا جاتا ہے۔ اس کے ایک معنیٰ بے خبر اور نا واقف ہونے کے بھی ہیں چنانچہ عربی کی سب سے بڑی اور مستند لغت ’’لسان العرب‘‘ میں ہے : وضللتُ المسجدَ و الدارَ اذالم تعرف مو ضعَھما  یعنی اگر تم مسجد اور گھر کی جگہ سے واقف نہ ہو تو کہو گے میں مسجد اور گھر سے ضلالت میں (ناواقف)  رہا۔ (ملاحظہ ہو لسان العرب لفظ ضلل)  یہاں یہ لفظ اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔

 

بعثت سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم فطرت سلیمہ پر قائم تھے۔ اور تمام انبیاء علیہم السلام کا بعثت سے پہلے یہی حال ہوتا ہے کہ وہ فطرت سلیمہ سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ اور انسان کی فطرت سلیمہ سے کبھی انحراف نہیں کرتے۔ اور انسان کی فطرت سلیمہ اپنے رب کو پہچانتی اور اسی کو معبود قرار دیتی ہے نیز خیر و شر میں تمیز بھی کرتی ہے اور یہ دونوں ہی وصف نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں پاۓ جاتے تھے چنانچہ بعثت سے پہلے آپؐ کا غار حراء میں یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں منہمک ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؐ توحید پر قائم تھے۔ اسی طرح آپؐ کا پاکیزہ زندگی گزارنا یہاں تک کہ آپؐ  قوم کی نظر میں معتمد ٹھہرے اور امین کے لقب سے پکارے گئے آپؐ کی اخلاقی بر تری کی روشن دلیل ہے۔ مزید برآں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کے جو اجزاء اس وقت تک باقی رہ گۓ تھے مثلاً بیت اللہ کی تعظیم، حج وغیرہ ان پر آپؐ عمل پیرا تھے چنانچہ یہ واقعات تاریخ سے ثابت ہیں (سیرۃ النبی ابن ہشام ج ۱ ص ۱۹۷ اور ص ۲۲۱)  گویا جس حد تک فطرت اور دین ابراہیمی کی روشنی آپؐ کے سامنے موجود تھی آپؐ اس روشنی میں چلتے لیکن آپؐ کو ایمان کی حقیقت معلوم تھی اور نہ شریعت کی تفصیلات کا علم تھا چنانچہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے : مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلَا اِیمَانُ (تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے۔ سورۃ الشوریٰ۔ ۵۲)  اسی حالت کو یہاں ضال (جو راہ سے بے خبر ہو)  سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ جستجوۓ راہ اور تلاش حق کی حالت تھی اس لیے اس کو ضلالت بمعنٰی گمراہی ہر گز نہیں کہا جا سکتا اور بالخصوص جب کہ آپؐ کے بارے میں معلوم ہے کہ نہ کبھی آپؐ نے خدا کا انکار کیا اور نہ بت پرستی اختیار کی، نہ برائیوں سے آپؐ کو واسطہ رہا اور نہ فسق و فجور سے اور نہ ہی آپؐ نے کسی باطل چیز کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ بخاری میں بعثت سے پہلے کا یہ واقعہ مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھانا پیش کیا گیا جوب کے نام پر ذبح کۓ ہوۓ جانور کا تھا۔ آپؐ نے کھانے سے انکار کیا (بخاری کتاب المناقب باب حدیث زید بن عمر و بن نفیل )۔

 

جہاں تک دین ابراہیمی کے بعض اجزاء کے برقرار رہنے کا تعلق ہے علامہ ابن حجر شرح بخاری میں لکھتے ہیں :

 

انما کان عند اہل الجاہلیۃ بقایا من دین ابراہیمَ ’’ اہل جاہلیت کے پاس دین ابراہیمی کے کچھ اجزاء ہی باقی رہ گۓ تھے۔ ‘‘ (فتح الباری ج ۷ ص ۱۱۳ )

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہدایت سے مراد وحی الٰہی ہے جس نے صراط مستقیم پوری طرح آپؐ پر روشن کر دی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بچپن یتیمی کی حالت میں گزرا اور جب آپؐ جوان ہوۓ تو افلاس ہی کی حالت رہی یہاں تک کہ قریش کی سب سے زیادہ مالدار خاتون نے آپؐ کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کیا اور آپؐ کو شام کے تجارتی سفر میں خوب نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ نے آپؐ کی دیانت داری ، شرافت اور حسن اخلاق سے متاثر ہو کر آپؐ سے نکاح کر لیا جس کے بعد آپؐ کی معاشی حالت کافی اچھی ہوئی۔ (سیرۃ النبی ابن ہشام ج ۱ ص ۲۰۲ تا ۲۰۶ )۔

 

یہ جو کچھ ہوا عالم اسباب کے تحت ہوا لیکن حقیقۃً یہ اللہ تعالیٰ ہی کے فضل کا نتیجہ تھا کہ افلاس کی حالت غِنا سے بدل گئی۔۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر فرمایا تھا اب مختصراً ان کے تقاضے بیان کیے جا رہے ہیں۔

 

اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہاری یتیمی کی حالت میں تمہیں پناہ دی اسی طرح تم بھی یتیموں کے حقوق کے پاسباں بن جاؤ۔ کسی یتیم کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ اس ہدایت کے براہ راست مخاطب گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں لیکن آپؐ کے واسطے سے یہ ہدایت قرآن کے ہر قاری کے لیے ہے اور اس میں زر پرستوں کے اس رویہ کی مذمت بھی ہے جو یتیموں اور کمزوروں کے سلسلہ میں وہ اختیار کرتے ہیں یعنی ان کو حقیر جان کر ان کے ساتھ عزت کا برتاؤ نہیں کرتے ، ان کو دباتے ہیں اور ان کے حقوق غصب کر جاتے ہیں۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس احسان کا تقاضا ہے جو اوپر آیت ۸ میں بیان ہوا یعنی ’’ نادار پایا تو غنی کر دیا‘‘۔ اس احسان کا حق یہ ہے کہ محتاجوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آیا جاۓ۔ اور اگر کسی مانگنے والے کی مدد نہ کی جا سکتی ہو تو اچھے انداز سے معذرت کر دی جاۓ اور ان لوگوں کا طریقہ ہر گز نہ اختیار کیا جاۓ جو مال کے گھمنڈ میں غریبوں کو حقارت کی نظر ے دیکھتے ہیں اور مانگنے والوں کو ڈانٹتے اور جھڑکتے ہیں۔

 

اس حکم کی تعمیل نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شدت کے ساتھ کی کہ نہ صرف یہ کہ کسی سائل کو کبھی ڈانٹا نہیں بلکہ ’’ نہیں ‘‘ کہہ کر اسے خالی ہاتھ واپس لوٹانا بھی پسند نہ فرماتے چنانچہ حضرت جابر کا بیان ہے کہ : ماسُئِلَ رَسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شَیْئاً قَطُّ فَقَالَ لَا۔ (بخاری کتاب الادب)۔

 

’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی چیز مانگی گئی ہو تو آپؐ نے فرمایا ہو ’’نہیں ‘‘ اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت بھی ملتی ہے کہ : اِتّقُوا النَّارَوَلَوْ بِشِقِّ تَمَرۃٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍطَیِّبَۃٍ۔ (مسلم کتاب الزکوٰۃ)  

 

’’جہنم سے بچو اگرچہ کہ کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کر کے ، بچنے کا سامان کر سکو اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات ہی کہو‘‘۔ یعنی سائل کو ڈانٹنے کے بجاۓ اچھی بات کہہ کر معذرت کر دو۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نعمت سے مراد عام نعمتیں بھی ہیں اور خاص نعمت ہدایت بھی ہے۔

 

اوپر آیت ۷ میں ہدایت سے نوازے جانے کا جو ذکر ہوا یہاں اسی کا حق بیان کیا جا رہا ہے۔ گو ترتیب کے لحاظ سے اس کا مقام ایک آیت پہلے تھا لیکن بات کو مؤکد کرنے کے لیے اس کو اخیر میں بیان کر دیا گیا تاکہ اس کی اہمیت اچھی طرح واضح ہو جاۓ اور اس پر توجہ مرکوز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جن عنایات سے نوازا ان میں اس کی سب سے بڑی عنایت ہدایت ہی ہے۔ یہ ہدایت قرآن کی شکل میں آپؐ کو ملی اور آپؐ کو منصب رسالت سے سرفراز کیا گیا۔ یہاں اسی نعمت کے اظہار کی تاکید کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نوازش کا کہ اس نے تم کو پیغمبر بنایا اور قرآن جیسی عظیم اور حکمت سے لبریز کتاب عطاء کی لوگوں میں کوب چرچا کرو اس پیغام کو ان تک پہنچاؤ اور انہیں اس راہ کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے ذریعہ تم پر کھولی ہے دعوت دو۔ یہ ہدایت اگرچہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے دی گئی ہے لیکن آپؐ کے واسطہ سے اس کے مخاطب پیروان اسلام بھی ہیں۔ انہیں قرآن کی جو نعمت پیغمبر کے واسطہ سے ملی ہے وہ چھپانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اظہار اور بیان کے لیے ہے تاکہ اس کا فیض عام ہو۔