تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ المنَافِقون

۱ ۔۔۔      ۱: یعنی ہم دل سے اعتقاد رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے پر۔

۲:  یعنی جھوٹ کہتے ہیں کہ ان کو دل سے اعتقاد ہے۔ واقع میں وہ آپ کی رسالت کے قائل نہیں محض اپنی اغراض کے پیش نظر زبان سے باتیں بناتے ہیں اور دل میں سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ پھر اسی ایک بات پر کیا منحصر ہے، جھوٹ بولنا ان کی امتیازی خصلت اور شعار بن چکا ہے۔ بات بات میں کذب و دروغ سے کام لیتے ہیں ۔ چنانچہ اسی سورت میں ایک واقعہ کا ذکر آیا چاہتا ہے جس میں انہوں نے صریح جھوٹ بولا، اور اللہ نے آسمان سے ان کی تکذیب کی۔

۲ ۔۔۔    ۱: یعنی جھوٹی قسمیں کھا لیتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور مجاہدین اسلام کے ہاتھوں سے اپنی جان و مال محفوظ رکھنے کے لیے ان ہی قسموں کی آڑ پکڑتے ہیں ۔ جہاں کوئی بات قابل گرفت ان سے سرزد ہوئی اور مسلمانوں کی طرف سے مواخذہ کا خوف ہوا، فوراً جھوٹی قسمیں کھا کر بری ہو گئے۔

۲: یعنی اسلام اور مسلمانوں کی نسبت طعن و تشنیع اور عیب جوئی کر کے دوسروں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور لوگ ان کو بظاہر مسلمان دیکھ کر دھوکا کھا جاتے ہیں ، تو ان کی جھوٹی قسموں کا ضرر فساد ان ہی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ دوسروں تک متعدی ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر برا کام اور کیا ہو گا۔ (لیکن ایک شخص جب تک بظاہر ضروریاتِ دین کا اقرار کرتا ہے خواہ جھوٹ اور فریب ہی سے کیوں نہ ہو، اسلام اس کے قتل کی اجازت نہیں دیتا)۔

۳ ۔۔۔    یعنی زبان سے ایمان لائے، دل سے منکر رہے اور مدعی ایمان ہو کر کافروں جیسے کام کیے اس بے ایمانی اور انتہائی فریب و دغا کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دلوں پر مہر لگ گئی۔ جن میں ایمان و خیر اور حق و صداقت کے سرایت کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں رہی۔ ظاہر ہے کہ اب اس حالت پر پہنچ کر ان سے سمجھنے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جب آدمی کا قلب اس کی بدکاریوں اور بے ایمانیوں سے بالکل مسخ ہو جائے پھر نیک و بد کے سمجھنے کی صلاحیت کہاں باقی رہے گی۔

 ۴ ۔۔۔       ۱: یعنی دل تو مسخ ہو چکے ہیں ، لیکن جسم دیکھو تو بہت ڈیل ڈول کیے، چکنے چپڑے، بات کریں تو بہت فصاحت اور چرب زبانی سے، نہایت لچھے دار کہ خواہ مخواہ سننے والا ادھر متوجہ ہو۔ اور کلام کی ظاہری سطح دیکھ کر قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ کسی نے خوب کہا ہے 

ازبروں چوں گور کافر پر خلل  از بروں طعنہ زنی بربایزید

 اندروں قہر خدائے عزوجل  و از درونت ننگ میدارد یزید

 خشک اور بیکار لکڑی جو دیوار سے لگا کر کھڑی کر دی جائے محض بے جان اور لا یعقل، دیکھنے میں کتنی موٹی، مگر ایک منٹ بھی بدون سہارے کے کھڑی نہیں رہ سکتی۔ ہاں ضرورت پڑے تو جلانے کے کام آ سکتی ہے۔ یہ ہی حال ان لوگوں کا ہے۔ ان کے موٹے فربہ جسم، اور تن و توش سب ظاہری خول ہیں ، اندر سے خالی اور بے جان، محض دوزخ کا ایندھن بننے کے لائق۔

۲:  یعنی بزدل، نامرد، ڈرپوک، ذرا کہیں شور و غل ہو تو دل دہل جائے۔ سمجھیں ہم ہی پر کوئی بلا آئی۔ سنگین جرموں اور بے ایمانیوں کی وجہ سے ہر وقت ان کے دل میں دغدغہ لگا رہتا ہے کہ دیکھیے کہیں ہماری دغا بازیوں کا پردہ تو چاک نہیں ہو گیا۔ یا ہماری حرکات کی پاداش میں کوئی افتاد تو پڑنے والی نہیں ۔

۳: یعنی بڑے خطرناک دشمن یہ ہیں ان کی چالوں سے ہوشیار رہو۔

۴: یعنی ایمان کا اظہار کر کے یہ بے ایمانی، اور حق و صداقت کی روشنی آ چکنے کے بعد یہ ظلمت پسندی کس قدر عجیب ہے۔

۵ ۔۔۔    بعض دفعہ جب ان منافقوں کی کوئی شرارت صاف طور پر کھل جاتی اور کذب و خیانت کا پردہ فاش ہو جاتا تو لوگ کہتے کہ (اب بھی وقت نہیں گیا) آؤ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے اپنا قصور معاف کرا لو۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے استغفار کی برکت سے حق تعالیٰ تمہاری خطا معاف فرما دے گا۔ تو غرور و تکبر سے اس پر آمادہ نہ ہوتے اور بے پروائی سے گردن ہلا کر اور سر مٹکا کر رہ جاتے۔ بلکہ بعض بدبخت صاف کہہ دیتے کہ ہم کو رسول اللہ کے استغفار کی ضرورت نہیں ۔

۷ ۔۔۔     ۱: یعنی ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم غایت رحمت و شفقت سے ان کے لیے بحالت موجودہ معافی طلب کریں ۔ مگر اللہ کسی صورت سے ان کو معاف کرنے والا نہیں ، اور نہ ایسے نا فرمانوں کو اس کے ہاں سے ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اس طرح کی آیت سورہ "برأت" میں آ چکی ہے۔ وہاں کے فوائد دیکھ لیے جائیں ۔

۲:   ایک سفر میں دو شخص لڑ پڑے ایک مہاجرین میں کا اور ایک انصار کا۔ دونوں نے اپنی حمایت کے لیے اپنی جماعت کو پکارا جس پر خاصا ہنگامہ ہو گیا۔ یہ خبر رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کو پہنچی کہنے لگا اگر ہم ان (مہاجرین) کو اپنے شہر میں جگہ نہ دیتے تو ہم سے مقابلہ کیوں کرتے تم ہی خبر گیری کرتے ہو تو یہ لوگ رسول کے ساتھ جمع رہتے ہیں ، خبر گیری چھوڑ دو، ابھی خرچ سے تنگ آ کر متفرق ہو جائیں ، اور سب مجمع بچھڑ جائے۔ یہ بھی کہا کہ اس سفر سے واپس ہو کر ہم مدینہ پہنچیں تو جس کا اس شہر میں زور و اقتدار ہے چاہیے کہ ذلیل بے قدروں کو نکال دے (یعنی ہم لوگ جو معزز لوگ ہیں ذلیل مسلمانوں کو نکال دیں گے) ایک صحابی زید بن ارقم نے یہ باتیں سن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نقل کر دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن اُبی وغیرہ کو بلا کر تحقیق کی تو قسمیں کھا گئے کہ زید بن ارقم نے ہماری دشمنی سے جھوٹ کہہ دیا ہے۔ لوگ زید پر آوازیں کسنے لگے وہ بیچارے سخت محجوب اور نادم تھے۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے زید کو فرمایا کہ اللہ نے تجھے سچا کیا۔

۳:  یعنی احمق اتنا نہیں سمجھتے کہ تمام آسمان و زمین کے خزانوں کا مالک تو اللہ ہے کیا جو لوگ خالص اس کی رضا جوئی کے لیے اس کے پیغمبر کی خدمت میں رہتے ہیں وہ ان کو بھوکوں مار دے گا، اور لوگ اگر ان کی امداد بند کر لیں گے تو وہ بھی اپنی روزی کے سب دروازے بند کر لے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ جو بندے ان اللہ والوں پر خرچ کر رہے ہیں وہ بھی اللہ ہی کراتا ہے۔ اس کی توفیق نہ ہو تو نیک کام میں کوئی ایک پیسہ خرچ نہ کر سکے۔

۸ ۔۔۔      یعنی منافق یہ نہیں جانتے کہ زور آور اور عزت والا کون ہے۔ یاد رکھو اصلی اور ذاتی عزت تو اللہ کی ہے۔ اس کے بعد اسی سے تعلق رکھنے کی بدولت درجہ بدرجہ رسول کی اور ایمان والوں کی۔ روایات میں ہے کہ عبد اللہ بن اُبی کے وہ الفاظ (کہ عزت والا ذلیل کو نکال دے گا) جب اس کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ کو پہنچے (جو مخلص مسلمان تھے) تو باپ کے سامنے تلوار لے کر کھڑے ہو گئے۔ بولے جب تک اقرار نہ کر لے گا تو رسول اللہ عزت والے ہیں اور تو ذلیل ہے، زندہ نہ چھوڑوں گا اور نہ مدینہ میں گھسنے دوں گا۔ آخر اقرار کرا کر چھوڑا۔ رضی اللہ عنہ'۔ منافقین کی توبیخ و تقبیح کے بعد آگے مومنین کو چند ہدایات کی گئی ہیں ۔ یعنی تم دنیا میں پھنس کر اللہ کی اطاعت اور آخرت کی یاد سے غافل نہ ہو جانا جس طرح یہ لوگ ہو گئے ہیں ۔

۹ ۔۔۔        یعنی آدمی کے لیے بڑے خسارے اور ٹوٹے کی بات ہے کہ باقی کو چھوڑ کر فانی میں مشغول ہو اور اعلیٰ سے ہٹ کر ادنیٰ میں پھنس جائے۔ مال و اولاد وہی اچھی ہے جو اللہ کی یاد اور اس کی عبادت سے غافل نہ کرے۔ اگر ان دھندوں میں پڑ کر خدا کی یاد سے غافل ہو گیا تو آخرت بھی کھوئی اور دنیا میں قلبی سکون و اطمینان نصیب نہ ہوا۔ "وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَعْمیٰ۔"

۱۱ ۔۔۔     ۱: یہ شاید منافقوں کے قول "لاَ تُنْفِقُوْا عَلیٰ من عند" الخ کا جواب ہوا کہ خرچ کرنے میں خود تمہارا بھلا ہے جو کچھ صدقہ خیرات کرنا ہے جلدی کرو، ورنہ موت سر پر آپہنچے گی تو پچھتاؤ گے کہ ہم نے کیوں خدا کے راستہ میں خرچ نہ کیا۔ اس وقت (موت کے قریب) بخیل تمنا کرے گا کہ اے پروردگار! چند روز اور میری موت کو ملتوی کر دیتے کہ میں خوب صدقہ خیرات کر کے اور نیک بن کر حاضر ہوتا۔ لیکن وہاں التواء کیسا؟ جس شخص کی جس قدر عمر لکھ دی اور جو میعاد مقرر کر دی ہے، اس کے پورا ہو جانے پر ایک لمحہ کی ڈھیل اور تاخیر نہیں ہو سکتی۔ (تنبیہ) ابن عباس سے منقول ہے کہ وہ اس تمنا کو قیامت کے دن پر حمل کرتے ہیں ۔ یعنی محشر میں یہ آرزو کرے گا کہ کاش مجھے پھر دنیا کی طرف تھوڑی مدت کے لیے لوٹا دیا جائے تو خوب صدقہ کر کے اور نیک بن کر آؤں ۔

۲:  اس کو یہ بھی خبر ہے کہ اگر بالفرض تمہاری موت ملتوی کر دی جائے یا محشر سے پھر دنیا کی طرف واپس کریں تب تم کیسے عمل کرو گے۔ وہ سب کی اندرونی استعدادوں کو جانتا ہے اور سب کے ظاہری و باطنی اعمال سے پوری طرح خبردار ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔