تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء

۲۔۔۔  یعنی اس کتاب کا اعجاز کھلا ہوا ہے۔ احکام واضح ہیں اور حق کو باطل سے الگ کرنے والی ہے۔

۳۔۔۔  یعنی اب بدبختوں کے غم میں اپنے کو اس قدر گھلانے کی ضرورت نہیں کیا ان کے پیچھے آپ اپنی جان کو ہلاک کر کے رہیں گے۔ دلسوزی اور شفقت کی بھی آخر ایک حد ہے۔

۴۔۔۔  یعنی یہ دنیا ابتلاء کا گھر ہے جہاں بندوں کے انقیاد و تسلیم اور سرکشی کو آزمایا جاتا ہے۔ اسی لیے حکمت الٰہی مقتضی نہیں کہ ان کا اختیار بالکل سلب کر لیا جائے۔ ورنہ خدا چاہتا تو کوئی ایسا آسمانی نشان دکھلاتا کہ اس کے آگے زبردستی سب کی گردنیں جھک جاتیں۔ بڑے بڑے سرداروں کو بھی انکار و انحراف کی قدرت باقی نہ رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا تو نہیں کیا، ہاں وہ نشان بھیجے جنہیں دیکھ کر آدمی حق کو سمجھنا چاہے تو باآسانی سمجھ سکے۔ اور کبھی کبھی مغلوب ہو کر گردن جھکانے سے مفر بھی نہ ملے۔

 ۵۔۔۔  یعنی آپ جن کے غم میں پڑے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ رحمان اپنی رحمت و شفقت سے جب ان کی بھلائی کے لیے کوئی پند و نصیحت بھیجتا ہے یہ ادھر متوجہ نہیں ہوتے بلکہ منہ پھیر کر بھاگتے ہیں گویا کوئی بہت بری چیز سامنے آ گئی۔

۶۔۔۔  ۱: یعنی صرف معمولی اعراض ہی نہیں۔ تکذیب و استہزاء بھی ہے سو عنقریب دنیا اور آخرت میں اپنی کرتوت کی سزا بھگتیں گے۔ تب اس چیز کی حقیقت کھلے گی جس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

۲:  یعنی یہ مکذبین اگر ایک پیش پا افتادہ زمین ہی کے احوال میں غور کرتے تو مبداء و معاد کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کافی ہو سکتی تھی۔ کیا دیکھتے نہیں کہ اسی کرکری اور حقیر مٹی سے کیسے عجیب و غریب رنگ برنگ پھول پھل اور قسم قسم کے غلے اور میوے ایک مضبوط نظام تکوین کے ماتحت پیدا ہو تے ہیں۔ کیا یہ اس کی دلیل نہیں کہ کسی لامحدود قوت و حکمت رکھنے والے مانع نے اس پر رونق چمن کی گلکاریاں کی ہیں جس کے قبضہ میں وجود کی باگ ہے اور وہ ہی جب چاہے اسے ویران کر سکتا اور ویرانی کے بعد دوبارہ آباد کر سکتا ہے۔ پھر ان آیات تکوینیہ کو سمجھ لینے کے بعد آیات تنزیلیہ کی تصدیق میں کیا اشکال رہ جاتا ہے۔ ہاں ماننا ہی منظور نہ ہو تو الگ بات ہے۔

۹۔۔۔  ۱: یعنی زبردست تو ایسا ہے کہ نہ ماننے پر فوراً عذاب بھیج سکتا تھا، مگر رحم کھا کر تاخیر کرتا ہے کہ ممکن ہے اب بھی مان لیں۔ آگے عبرت کے لیے مکذبین کے چند واقعات بیان فرمائے ہیں جن سے ظاہر ہو گا کہ خدا نے ان کو کہاں تک ڈھیل دی، جب کسی طرح نہ مانے تو پھر کیسے تباہ و برباد کیا۔ ان میں پہلا قصہ قوم فرعون کا ہے جو پیشتر سورہ "اعراف" اور سورہ "طہٰ" وغیرہ میں بالتفصیل گزر چکا۔ وہاں کے فوائد ملاحظہ کر لیے جائیں۔

۲:  تم جا کر انہیں خدا کے غصہ سے ڈراؤ۔

۱۳۔۔۔  یعنی پوری بات سننے سے پہلے یہ جھٹلانا شروع کر دیں گے اور مجلس میں کوئی تائید کرنے والا نہ ہو گا۔ ممکن ہے اس وقت ملول اور حزین ہو کر طبیعت رک جائے، دل نہ کھلے، اور زبان میں کچھ لکنت پہلے ہی سے ہے۔ تنگدل ہو کر بولنے میں زیادہ رکاوٹ پیدا نہ ہو جائے اس لیے میری تقویت و تائید کے لیے اگر ہارون کو جو مجھ سے زیادہ فصیح اللسان ہیں، میرا شریک حال کر دیا جائے تو بڑی مہربانی ہو۔

۱۴۔۔۔  ۱: یعنی ایک قبطی کے خون کا دعویٰ جس کی تفصیل سورہ قصص میں آئے گی۔

۲:  یعنی دعوت و تبلیغ سے پہلے ہی میرا کام تمام نہ کر دیں کہ یہ وہ ہی شخص ہے جو ہمارے آدمی کا خون کر کے بھاگا تھا۔ ایسی صورت میں فرض تبلیغ کس طرح ادا ہو گا۔

۱ ۵۔۔۔  یعنی کیا مجال ہے کہ ہاتھ لگا سکیں۔ جاؤ اپنی استدعا کے موافق ہارون کو بھی ساتھ لو اور ہمارے دیے ہوئے معجزات و نشانات لے کر وہاں پہنچو۔ ان نشانات کے ساتھ ہوتے ہوئے تم کو کیا ڈر، اور نشان کیا ہم خود ہر موقع پر تمہارے ساتھ ہیں اور فریقین کی گفتگو سن رہے ہیں۔

۱۷۔۔۔  "بنی اسرائیل" کا وطن حضرت ابراہیم کے زمانہ سے ملک شام تھا۔ حضرت یوسف کے سبب سے مصر میں آ رہے، وہاں ایک مدت گزری۔ اب ان کو حق تعالیٰ نے ملک شام دینا چاہا۔ فرعون ان کو نہ چھوڑتا تھا کیونکہ ان سے غلاموں کی طرح بیگار میں کام لیتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کی آزادی کا مطالبہ فرمایا۔

۱۸۔۔۔   ۱: یعنی تو وہی نہیں جس کو ہم نے اپنے گھر میں بڑے نازو نعم سے پالا پوسا اور پرورش کر کے اتنا بڑا کیا۔ اب تیرا یہ دماغ ہو گیا کہ ہم ہی سے مطالبات کرتا اور اپنی بزرگی منواتا۔

۲:  اتنے برسوں تک کبھی یہ دعوے نہ کئے، اب یہاں سے نکلتے ہی رسول بن گئے۔

۱۹۔۔۔  ۱: یعنی جو کرتوت کر کے بھاگا تھا (قبطی کا خون) اسے ہم بھولے نہیں۔

۲:  یعنی ہمارے سب احسانات بھلا کر لگا پیغمبری کے دعوے کرنے اس وقت تو بھی (العیاذ باللہ) ان ہی میں کا ایک تھا جن کو آج کافر بتلاتا ہے۔

۲۰۔۔۔  یعنی قبطی کا خون میں نے دانستہ نہیں کیا تھا، غلطی سے ایسا ہو گیا مجھے کیا خبر تھی کہ ایک مکا مارنے میں جو تادیب کے لیے تھا اس کا دم نکل جائے گا "فَوَکَزَہٗ مُوسیٰ فَقَضیٰ عَلَیْہِ" (قصص، رکوع۲'آیت ۱۵)

۲۱۔۔۔ یعنی بیشک میں خوف کھا کر یہاں سے بھاگا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ مجھے نبوت و حکمت عطا فرمائے۔ اس نے اپنے فضل سے مجھے سرفراز کیا اور رسول بنا کر تمہاری طرف بھیجا۔ یہ بجائے خود میری صداقت کی دلیل ہے کہ جو شخص تم سے خوف کھا کر بھاگا ہو، پھر اس طرح بے خوف و خطر تنہا تمہارے سامنے آ کر ڈٹ جائے۔

۲۲۔۔۔  یعنی بچپن میں میری پرورش کا احسان جتلانا تجھے زیب نہیں دیتا کیا ایک اسرائیلی بچہ کی تربیت سے اس کا جواب ہو سکتا ہے کہ تو نے اس کی ساری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ بالخصوص جبکہ اس بچہ کی تربیت بھی خود تیرے زہرہ گداز مظالم کے سلسلہ ہی میں وقوع پذیر ہوئی ہو۔ نہ تو "بنی اسرائیل" کے بچوں کو ذبح کرتا، نہ خوف کی وجہ سے میری والدہ تابوت میں رکھ کر مجھے دریا میں چھوڑتی، نہ تیرے محل سرا تک رسائی ہوتی، ان حالات کا تصور کر کے تجھ کو ایسا احسان جتلاتے ہوئے شرمانا چاہیے اور صاف بات یہ ہے کہ جس پروردگار نے تجھ جیسے دشمن کے گھر میں میری پرورش کرائی اسی نے آج تیری خیر خواہی کے لیے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔

۲۳۔۔۔  یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فَقُولَآ اِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ کے امتثال میں اپنے کو "رب العالمین" کا پیغمبر کہا، اس پر فرعون حجود، تعنت اور ہٹ دھرمی کی راہ سے بولا کہ (العیاذ باللہ) رب العالمین کیا چیز ہوتی ہے، میری موجودگی میں کسی اور رب کا نام لینا کیا معنی رکھتا ہے کیونکہ اس شقی ازلی کا دعویٰ تو اپنی قوم کے روبرو یہ تھا مَاعَلِمْتُ لَکُمْ مِنْ اِلٰہٍ غَیْرِی (میں اپنے سوا تمہارے لیے کوئی معبود نہیں سمجھتا) اور "اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ" (تمہارا بڑا پروردگار میں ہوں) چنانچہ اس کی قوم کے لوگ بعض تو انتہائی جہل و بلادت سے اور بعض خوف یا طمع سے اسی کی پرستش کرتے تھے۔ گو دل میں اس ملعون کو بھی خدا کی ہستی کا یقین تھا۔ جیسا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآاَنْزَلَ ہٰوُلَآءِ اِلَّارَبُّ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ بَصَآئِر" (بنی اسرائیل، رکوع ۱۲'آیت ۱۰۲) سے ظاہر ہوتا ہے،

۲۴۔۔۔  یعنی آسمان و زمین کی سب چیزیں جس کے زیر تربیت ہیں وہ ہی رب العالمین ہے۔ اگر تمہارے قلوب میں کسی چیز پر بھی یقین لانے کی استعداد موجود ہو تو فطرتِ انسانی سب سے پہلے اس چیز کا یقین دلانے کے لیے کافی ہے۔

۲ ۵۔۔۔  فرعون جان بوجھ کر بات کو رلانا چاہتا تھا۔ اپنے حوالی موالی کو ابھارنے اور موسیٰ علیہ السلام کی بات کو خفیف کرنے کے لیے کہنے لگا، سنتے ہو، موسیٰ کیسی دور از کار باتیں کر رہے ہیں۔ کیا تم میں کوئی تصدیق کرے گا کہ میرے سوا آسمان و زمین میں کوئی اور رب ہے؟

۲۶۔۔۔  یعنی او احمق! میں جس رب العالمین کا ذکر کر رہاں ہوں، وہ ہے جس نے خود تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا۔ اور جب تمہارا بیج بھی نہ تھا اس وقت زمین و آسمان کی تربیت و تدبیر کر رہا تھا۔

۲۷۔۔۔  یعنی (العیاذ باللہ) کس دیوانہ کو رسول بنا کر بھیجا ہے، جو ہماری اور ہمارے باپ دادوں کی خبر لیتا ہے۔ اور ہماری شوکت و حشمت کو دیکھ کر ذرا نہیں جھجکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا دماغ عقل سے بالکل خالی ہے۔

۲۸۔۔۔  حضرت موسیٰ نے پھر ایک بات کہی جس طرح کی حضرت ابراہیم نے نمرود کے سامنے آخر میں کہی تھی۔ یعنی رب العالمین وہ ہے جو مشرق و مغرب کا مالک اور تمام سیارات کے طلوع و غروب کی تدبیر ایک محکم و مضبوط نظام کے موافق کرنے والا ہے۔ اور تم میں ذرا بھی عقل ہو تو بتلا سکتے ہو کہ اس عظیم الشان نظام کا قائم رکھنے والا بجز خدا کے کون ہو سکتا ہے۔ کیا کسی کو قدرت ہے کہ اس کے قائم کیے ہوئے نظام کو ایک سیکنڈ کے لیے توڑ دے یا بدل ڈالے۔ یہ آخری بات سن کر فرعون بالکل مبہوت ہو گیا اور بحث و جدال سے گزر کر دھمکیوں پر اتر آیا۔ جیسا کہ آگے آتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "حضرت موسیٰ ایک بات کہے جاتے تھے اللہ کی قدرتیں بتانے کو اور فرعون بیچ میں اپنے سرداروں کو ابھارتا تھا کہ ان کو یقین نہ آ جائے۔

۲۹۔۔۔  اس مرتبہ فرعون نے اپنا مطلب صاف کہہ دیا کہ یہاں "مصر" میں کوئی اور خدا نہیں۔ اگر میرے سوا کسی اور معبود کی حکومت مانی تو یاد رکھو قید خانہ تیار ہے۔

۳۰۔۔۔  یعنی فیصلہ میں ابھی جلدی نہ کر۔ یہ تو تیری باتوں کا جواب تھا اب ذرا وہ کھلے ہوئے نشان بھی دیکھ جن سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور میری صداقت دونوں کا اظہار ہو۔ اگر ایسے نشان دکھلاؤں تو کیا پھر بھی تیرا فیصلہ یہ ہی رہے گا۔

۳ ۵۔۔۔  یا تو خدائی کے دعوے تھے، یا اتنی جلد ایسا حواس باختہ ہو گیا کہ اپنے غلاموں اور پرستاروں کے احکام پر چلنے کے لیے آمادہ ہو گیا۔

۳۸۔۔۔  ۱: یعنی عید کے دن چاشت کے وقت۔

۲:  یعنی سب کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ امید قوی ہے کہ ہمارے جادوگر غالب آئیں گے۔ اس وقت ہم موسیٰ کی شکست اور مغلوبیت دکھلانے کے لیے اپنے ساحرین ہی کی راہ پر چلیں گے۔ تو یا یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس میں ہماری کوئی خود غرضی نہیں۔ جب مقابلہ میں ہمارا پلہ بھاری رہے گا تو انصافاً کسی کو ہمارے طریقہ سے منحرف ہونے کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔

۴۱۔۔۔  یعنی نہ صرف مالی انعام و اکرام، بلکہ تم میرے خاص مصاحبوں میں رہو گے۔ ان آیات کا مفصل بیان "اعراف" اور "طہٰ" میں گزر چکا ہے۔

۴۳۔۔۔  یعنی جب ساحرین نے کہا کہ موسیٰ پہلے اپنی لاٹھی ڈالتے ہو، یا ہم ڈالیں، اس کے جواب میں فرمایا کہ تم ہی اپنی قوت خرچ کر دیکھو۔

۴۴۔۔۔  بعض نے "بِعِزَّۃِ فِرْعَوْن" کو قسم کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی فرعون کے اقبال کی قسم ہم ہی غالب ہو کر رہیں گے۔

۴ ۵۔۔۔  شیخ اکبر نے لکھا ہے کہ خالی رسیاں اور لاٹھیاں رہ گئیں جو سانپوں کی صورتیں انہوں نے بنائی تھیں، موسیٰ کا عصا ان کو نگل گیا۔

۴۹۔۔۔  یعنی موسیٰ تمہارا بڑا استاد ہے، آپس میں سازش کر کے آئے ہو کہ تم یہ کرنا، ہم یوں کہیں گے اور حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "تمہارا بڑا" کہا رب کو "یعنی موسیٰ اور تم ایک استاد کے شاگرد ہو" واللہ اعلم۔

 ۵۰۔۔۔  ۱: یعنی بہرحال مر کر خدا کے یہاں جانا ہے، اس طرح مریں گے، شہادت کا درجہ ملے گا، یہ سب مضامین سورہ "اعراف" وغیرہ میں گزر چکے ہیں۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔

۲:  یعنی موسیٰ علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے بعد بھرے مجمع میں ظالم فرعون کے روبرو سب سے پہلے ہم نے قبول حق کا اعلان کیا۔ اس سے امید ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ ہماری گذشتہ تقصیرات کو معاف فرمائے گا۔

 ۵۲۔۔۔  ۱: یعنی جب ایک مدت مدید تک سمجھانے اور آیات دکھلاتے رہنے کے بعد بھی فرعون نے حق کو قبول نہ کیا اور "بنی اسرائیل" کو ستانا نہ چھوڑا، تو ہم نے موسیٰ کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو لے کر رات میں یہاں سے ہجرت کر جاؤ۔ اور دیکھنا یہ فرعونی لوگ تمہارا پیچھا کریں گے (گھبرانا نہیں)۔

۲:  تمام قبطیوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کا تعاقب کرے۔

 ۵۴۔۔۔  یعنی ان تھوڑے سے آدمیوں نے تم کو تنگ کر رکھا ہے۔ حالانکہ ان کی ہستی کیا ہے جو تمہارے مقابلہ میں عہدہ بر آ ہو سکیں۔ یہ باتیں قوم کو غیرت اور جوش دلانے کے لیے کہیں۔

 ۵ ۵۔۔۔  یا ہم کو غصہ دلا رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان کی کم بختی نے دھکا دیا ہے۔

 ۵۶۔۔۔ ۱ تو اس روز روز کے خطرہ کا قلع قمع ہی کر دو۔ بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ہماری بڑی جمعیت ہے جو محتاط یا مسلح ہے تو یہ الفاظ دل بڑھانے کے لیے ہوں گے۔ واللہ اعلم۔

 ۵۹۔۔۔  ‍۱: یعنی اس طرح قبطی گھر بار، مال و دولت، باغ اور کھیتیاں چھوڑ کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں ایک دم نکل پڑے۔ جنہیں پھر لوٹنا نصیب نہ ہوا۔ گویا اس تدبیر سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نکال باہر کیا۔

۲:  یا تو اس کے بعد ہی یہ چیزیں بنی اسرائیل کے ہاتھ لگیں اور یا ایک مدت بعد سلیمان علیہ السلام کے عہد میں ملک مصر بھی ان کی سلطنت میں شامل ہوا۔ واللہ اعلم۔ پہلے اس کے متعلق اختلاف گزر چکا ہے۔

۶۱۔۔۔  یعنی بحر قلزم کے کنارہ پہنچ کر بنی اسرائیل پار ہونے کی فکر کر رہے تھے کہ پیچھے سے فرعونی لشکر نظر آیا گھبرا کر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ اب ان کے ہاتھ سے کیسے بچیں گے۔ آگے سمندر حائل ہے اور پیچھے سے دشمن دبائے چلا آ رہا ہے۔

۶۲۔۔۔  یعنی گھبراؤ نہیں، اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھو، اس کی حمایت و نصرت میرے ساتھ ہے۔ وہ یقیناً ہمارے لیے کوئی راستہ نکال دے گا۔ ناممکن ہے کہ دشمن ہم کو پکڑ سکے۔

۶۳۔۔۔  پانی بہت گہرا تھا۔ بارہ جگہ سے پھٹ کر خشک راستے بن گئے۔ بارہ قبیلے بنی اسرائیل کے الگ الگ ان میں سے گزرے اور بیچ میں پانی کے پہاڑ کھڑے رہ گئے۔ (کذا فی موضح القرآن)۔

۶۶۔۔۔  ۱: یعنی فرعونی لشکر بھی قریب آگیا اور دریا میں راستے بنے ہوئے دیکھ کر بنی اسرائیل کے بعد بے سوچے سمجھے گھس پڑا۔ جب تمام لشکر دریا کی لپیٹ میں آگیا، فوراً خدا کے حکم سے پانی کے پہاڑ ایک دوسرے سے مل گئے۔ یہ قصہ پہلے گزر چکا ہے۔

۲:  یعنی جب اکثروں نے حق قبول نہ کیا تو آخر میں قدرت نے یہ نشان دکھلایا۔ جس سے صادقین اور مکذبین کے انجام کا دنیا ہی میں الگ الگ پتہ چل جاتا ہے۔

۶۸۔۔۔  ۱: یہ سنا دیا ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کہ مکہ کے فرعون بھی مسلمانوں کے پیچھے نکلیں گے لڑائی کو۔ پھر وطن سے باہر تباہ ہوں گے "بدر" کے دن، جیسے فرعون تباہ ہوا۔ (موضح القرآن)

۲:  یعنی یہ چیز کیا ہے جسے تم پوجتے ہو؟

۷۱۔۔۔  یعنی تم ہمارے معبودوں کو جانتے نہیں، جو ایسی تحقیر سے سوال کر رہے ہو۔ ہم ان مورتوں کو پوجتے ہیں اور اس قدر وقعت و عقیدت ہمارے دل میں ہے کہ دن بھر آسن جما کر ان ہی کو لگے بیٹھے رہتے ہیں۔

۷۲۔۔۔  یعنی اتنا پکارنے پر کبھی تمہاری بات سنتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے (جیسا کہ ان کے جماد ہونے سے ظاہر ہے) تو پکارنا فضول ہے۔

۷۳۔۔۔ یعنی کیا پوجنے پر کچھ نفع یا نہ پوجنے کی صورت میں کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے جو اپنے اوپر سے مکھی تک نہ اڑا سکیں وہ دوسرے کو کیا نفع نقصان پہنچا سکیں گے؟ پھر ایسی عاجز و لایعقل چیز کو معبود بنانا کہاں کی عقلمندی ہے۔

۷۴۔۔۔  یعنی ان منطقی بحثوں اور کج حجتیوں کو ہم نہیں جانتے، نہ ہماری عقیدت اور پرستش کا مدار ان باتوں پر ہے بس سو دلیلوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ہمارے بڑے اسی طرح کرتے چلے آئے۔ یا ہم ان سب کو احمق سمجھ لیں۔

۷۶۔۔۔  یعنی ان کا پوجنا ایک پرانی حماقت ہے، ورنہ جس کے اختیار اور قبضہ میں ذرہ برابر نفع نقصان نہ ہو اس کی عبادت کیسی؟

۷۷۔۔۔  ۱: یعنی لو! میں بے خوف و خطر اعلان کرتا ہوں کہ تمہارے ان معبودوں سے میری لڑائی ہے۔ میں ان کی گت بنا کر رہوں گا۔ "وَتَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ۔" (انبیاء، رکوع۵'آیت ۵۷) اگر ان میں کوئی طاقت ہے تو مجھ کو نقصان پہنچا دیکھیں۔ کما قال تعالیٰ فی موضع آخر۔ "وَلاَ اَخَافُ مَاتُشْرِکُونَ بِہاِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّی شَیَئًا۔" الآیۃ (انعام، رکوع۹'آیت ۸۰) وقال نوح علیہ السلام "فَاجْمِعُوْ ا اَمَرَکُمْ وَشُرَکَآءَکُمْ۔" (یونس، رکوع ۸ 'آیت ۷۱) وقال ہود علیہ السلام "فَکِیْدُونِی جَمِیَعًا ثُمَّ لاَ تُنْظِرُونِ " (ہود، رکوع۵'آیت ۵۵) اور بعض مفسرین نے کہا کہ یہ نہایت موثر و لطیف پیرایہ میں مشرکین پر تعریض ہے۔ یعنی جن کی تم عبادت کر رہے ہو میں ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ اگر نعوذ باللہ ان کی پرستش کروں تو سراسر نقصان ہے۔ اسی سے سمجھ لو کہ تم بھی ان کی عبادت کر کے نقصان اٹھا رہے ہو۔

۲:  کہ وہ ہی میرا معبود، دوست اور مددگار ہے۔

۷۸۔۔۔  یعنی فلاح دارین کی راہ دکھاتا اور اعلیٰ درجہ کے فوائد و منافع کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

۸۱۔۔۔  یعنی کھلانا پلانا، مارنا جلانا اور بیماری سے اچھا کرنا، سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔

۸۲۔۔۔  یعنی کسی معاملہ میں بھول چوک یا اپنے درجہ کے موافق خطاء و تقصیر ہو جائے تو اس کی مہربانی سے معافی کی توقع ہو سکتی ہے، کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ آگے حق تعالیٰ کے کمالات اور مہربانیوں کا ذکر کرتے کرتے حضرت ابراہیم نے غلبہ حضور سے دعا شروع کر دی جو کمال عبدیت کے لوازم میں سے ہے۔

۸۳۔۔۔  یعنی مزید علم و حکمت اور درجاتِ قرب و قبول مرحمت فرما، اور اعلیٰ درجہ کے نیکوں کے زمرہ میں (جو انبیاء علیہم السلام ہیں) شامل رکھ۔ کما قال نبینا صلی اللہ علیہ و سلم "اَللّٰہُمَّ فِی الرَّفِیقِ الْاَعْلیٰ" اس دعا سے اپنی کامل احتیاج اور حق تعالیٰ کی غناء کا اظہار مقصود ہے یعنی نبی ہو یا ولی، اللہ تعالیٰ کسی کے معاملہ میں مجبور و مضطر نہیں، ہمہ وقت اس کے فضل و رحمت سے کام چلتا ہے۔

۸۴۔۔۔  ۱: یعنی ایسے اعمالِ مرضیہ اور آثارِ حسنہ کی توفیق دے کر پیچھے آنے والی نسلیں ہمیشہ میرا ذکر خیر کریں اور میرے راستہ پر چلنے کی طرف راغب ہوں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخر زمانے میں میرے گھرانے سے نبی ہو اور امت ہو، اور میرا دین تازہ کریں۔ چنانچہ یہ ہی ہوا کہ حق تعالیٰ نے ابراہیم کو دنیا میں قبولِ عام عطا فرمایا۔ ان کی نسل سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث کیا جنہوں نے ملت ابراہیمی کی تجدید کی اور فرمایا کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں، آج بھی ابراہیم کا ذکر خیر اہل ملل کی زبانوں پر جاری ہے اور امت محمدیہ تو ہر نماز میں "کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ" اور "کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اِبْرَاہِیْمَ " پڑھتی ہے۔

۲:  یعنی جنت کا جو آدم کی میراث ہے۔

۸۶۔۔۔  ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعا باپ کی موت کے بعد کی۔ مگر دوسری جگہ تصریح آ گئی کہ جب اس کا دشمن خدا ہونا ظاہر ہو گیا تو برأت اور بیزاری کا اظہار فرمایا۔ کما قال تعالیٰ۔ "وَمَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہٗ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اِنَّہٗ عَدُوٌّلِلّٰہِ تَبَرَّامِنْہُ۔" (توبہ، رکوع۱۴'آیت ۱۱۴) اور اگر "انہ کان من الضآلین" میں "کان"کا ترجمہ "تھا" کے بجائے "ہے" سے کیا جائے، پھر کوئی اشکال نہیں۔ کیونکہ زندگی میں ایمان لے آنے کا امکان تھا۔ تو دعاء کا حاصل یہ ہے کہ الٰہی اس کو ایمان سے مشرف فرما کر کفر کے زمانہ کی خطائیں معاف فرما دے۔ اس کی قدرے مفصل تحقیق پہلے کسی جگہ گزر چکی ہے۔ فلیراجع۔

۸۹۔۔۔  یعنی بھلا چنگا بے روگ دل جو کفر و نفاق اور فاسد عقیدوں سے پاک ہو گا وہ ہی وہاں کام دے گا۔ نرے مال و اولاد کچھ کام نہ آئیں گے۔ اگر کافر چاہے کہ قیامت میں مال و اولاد فدیہ دے کر جان چھڑا لے، تو ممکن نہیں۔ یہاں کے صدقات و خیرات اور نیک اولاد سے بھی کچھ نفع کی توقع اسی وقت ہے جب اپنا دل کفر کی پلیدی سے پاک ہو۔

۹۱۔۔۔  یعنی محشر میں جنت مع اپنی انتہائی آرائش و زیبائش کے متقین کو قریب نظر آئے گی۔ جسے دیکھ کر داخل ہونے سے پہلے ہی مسرور و محفوظ ہوں گے۔ اسی طرح دوزخ کو مجرموں کے پاس لے آئیں گے تاکہ داخل ہونے سے پیشتر ہی خوف کھا کر لرزنے لگیں۔

۹۳۔۔۔  یعنی اب وہ فرضی معبود کہاں گئے کہ نہ تمہاری مدد کر کے اس عذاب سے چھڑا سکتے ہیں نہ بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے۔

۱۰۱۔۔۔  یعنی بت اور بت پرست اور ابلیس کا سارا لشکر، سب کو دوزخ میں اوندھے منہ گرا دیا جائے گا۔ وہاں پہنچ کر آپس میں جھگڑیں گے۔ ایک دوسرے کو الزام دے گا اور آخرکار اپنی گمراہی کا اعتراف کریں گے کہ واقعی ہم سے بڑی سخت غلطی ہوئی کہ تم کو (یعنی بتوں کو یا دوسری چیزوں کو جنہیں خدائی کے حقوق و اختیار دے رکھے تھے) رب العالمین کے برابر کر دیا۔ کیا کہیں یہ غلطی ہم سے ان بڑے شیطانوں نے کرائی، اب ہم اس مصیبت میں گرفتار ہیں نہ کوئی بت کام دیتا ہے نہ شیطان مدد کو پہنچتا ہے۔ وہ خود ہی دوزخ کے کندے بن رہے ہیں۔ کوئی اتنا بھی نہیں کہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کر دے یا کم از کم اس آڑے وقت میں کوئی دوست دلسوزی و ہمدردی کا اظہار کرے۔ سچ ہے "اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدَوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ۔" (زخرف، رکوع۶'آیت ۶۷)

۱۰۲۔۔۔  یعنی اگر ایک مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس جانے کا موقع دیا جائے تو اب وہاں سے پکے ایماندار بن کر آئیں لیکن یہ کہنا بھی جھوٹ ہے۔ " وَلَوْ رُدُّوْا لْعَادُوْا لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ۔" (انعام، رکوع۳'آیت ۲۸)

۱۰۳۔۔۔  یعنی ابراہیم کے اس قصہ میں توحید وغیرہ کے دلائل اور مشرکین کا عبرتناک انجام دکھلایا گیا ہے مگر لوگ کہاں مانتے ہیں۔

۱۰۸۔۔۔  یعنی نہایت صدق و امانت کے ساتھ حق تعالیٰ کا پیغام بلا کم و کاست تم کو پہنچاتا ہوں۔ لہٰذا واجب ہے کہ پیغام الٰہی سن کر خدا سے ڈرو۔ اور میرا کہا مانو۔

۱۱۰۔۔۔  یعنی ایک بے غرض اور بے لوث آدمی کی بات ماننی چاہیے۔

۱۱۱۔۔۔   یعنی تھوڑے سے کمینے اور نیچ قوم کے لوگ اپنی نمود کے لیے تیرے ساتھ ہو گئے ہیں، بھلا یہ کیا اونچے کام کریں گے اور ہمارا فضل و شرف کب اجازت دے سکتا ہے کہ ان کمینوں کے دوش بدوش تمہاری مجلس میں بیٹھا کریں، پہلے تو آپ ان کو اپنے یہاں سے کھسکائیے۔ پھر ہم سے بات کرنا۔

۱۱۴۔۔۔  یعنی مجھے ان کا صدق و ایمان قبول ہے، ان کے پیشے یا نیت اور اندرونی کاموں کے جاننے سے کیا مطلب۔ اس کا فیصلہ اور حساب تو پروردگار کے یہاں ہو گا۔ باقی میں تمہاری خاطر سے غریب ایمانداروں کو اپنے پاس سے دھکے نہیں دے سکتا۔

۱۱ ۵۔۔۔  یعنی میرا فرض تم کو آگاہ کر دینا تھا سو کر چکا، تمہاری لغو فرمائشیں پوری کرنا میرے ذمہ نہیں۔

۱۱۶۔۔۔  یعنی بس اب ہم کو اپنی نصیحت سے معاف رکھو، اگر اس روش سے باز نہ آئے تو سنگسار کیے جاؤ گے۔

۱۱۸۔۔۔  ۱: یعنی میرے اور ان کے درمیان عملی فیصلہ فرما دیجئے۔ اب ان کے راہِ راست پر آنے کی توقع نہیں۔

۲:  یعنی مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو الگ کر کے ان کا بیڑا غرق کر۔

۱۲۰۔۔۔  اس قصہ کی تفصیل پہلے کئی جگہ گزر چکی۔

۱۲۹۔۔۔  ان لوگوں کو بڑا شوق تھا اونچے مضبوط منارے بنانے کا جس سے کچھ کام نہ نکلے، مگر نام ہو جائے اور رہنے کی عمارتیں بھی بڑے تکلف کی بناتے تھے مال ضائع کرنے کو۔ ان میں بڑی کاریگریاں دکھلاتے گویا یہ سمجھتے تھے کہ ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور یہ یادگاریں اور عمارتیں کبھی برباد نہ ہوں گی۔ (لیکن آج دیکھو تو ان کے کھنڈر بھی باقی نہیں)

۱۳۱۔۔۔  یعنی ظلم و ستم سے زیر دستوں اور کمزوروں کو تنگ کر رکھا ہے۔گویا انصاف اور نرمی کا سبق ہی نہیں پڑھا۔ خدا کی ضعیف مخلوق کو جبرو تعدی کا تختہ، مشق بنا رکھا ہے۔ سو اللہ سے ڈرو، ظلم و تکبر سے باز آؤ، اور میری بات مانو۔

۱۳ ۵۔۔۔  یعنی اتنا تو سوچو کہ آخر یہ سا مان تم کو کس نے دیے ہیں؟ کیا اس منعم حقیقی کا تمہارے ذمہ کوئی حق نہیں۔ اگر تمہاری یہ ہی شرارت اور سرکشی رہی تو مجھے اندیشہ ہے کہ پہلی قوموں کی طرح کسی سخت آفت میں گرفتار نہ ہو جاؤ۔ دیکھو! میں تم کو نصیحت کر چکا۔ اپنے انجام کو خوب سوچ لو۔

۱۳۸۔۔۔  یعنی تمہاری نصیحت بیکار ہے۔ یہ جادو ہم پر چلنے والا نہیں۔ قدیم سے یہ عادت چلی آتی ہے کہ کچھ لوگ نبی بن کر عذاب سے ڈرایا کرتے ہیں اور مرنے جینے کا سلسلہ بھی پہلے سے چلا آتا ہے تو اس سے ہم کو کیا اندیشہ ہو سکتا ہے رہا جو طریقہ ہمارا ہے وہ ہی ہمارے اگلے باپ دادوں کا تھا۔ ہم اس سے کسی طرح ہٹنے والے نہیں۔ نہ عذاب کی دھمکیوں کو خاطر میں لا سکتے ہیں۔

۱۳۹۔۔۔  یعنی سخت آندھی بھیج کر۔ ان کا قصہ بھی پہلے "اعراف" وغیرہ میں مفصل گزر چکا ہے۔

۱ ۵۰۔۔۔  یعنی کیا یہ خیال ہے کہ ہمیشہ اسی عیش و آرام اور باغ و بہار کے مزے لوٹو گے؟ اور پہاڑوں کو تراش کر جو تکلف کے مکان تیار کیے ہیں ان سے کبھی نہ نکلو گے؟ یا یہ مضبوط اور سنگین عمارتیں تم کو خدا کے عذاب سے بچا لیں گی؟ اس سودائے خام کو دل سے نکال ڈالو۔ اور خدا تعالیٰ سے ڈر کر میرا کہا مانو۔ میں تمہارے بھلے کی کہتا ہوں۔

۱ ۵۲۔۔۔  یہ عوام کو فرمایا کہ تم ان بڑے مفسد شیطانوں کے پیچھے چل کر تباہ نہ ہو۔ یہ تو زمین میں خرابی پھیلانے والے ہیں۔ اصلاح کرنے والے اور نیک صلاح دینے والے نہیں۔

۱ ۵۴۔۔۔  ۱: یعنی ہم سے کون سی بات تجھ میں زائد ہے جو نبی بن گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے جادو کر دیا ہے جس سے تیری عقل ماری گئی (العیاذ باللہ)

۲:  یعنی اگر نبی ہے اور ہم سے ممتاز درجہ رکھتا ہے تو اللہ سے کہہ کر کوئی ایسا نشان دکھلا جسے ہم بھی تسلیم کر لیں پھر فرمائش کی کہ اچھا پتھر کی اس چٹان میں سے ایک اونٹنی نکال دے جو ایسی اور ایسی ہو۔ حضرت صالح نے دعا فرمائی، حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ نشان دکھلا دیا۔

۱ ۵ ۵۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "اونٹنی پیدا ہوئی پتھر میں سے اللہ کی قدرت سے، حضرت صالح کی دعا سے وہ چھوٹی پھرتی، جس جنگل میں چرنے یا جس تالاب پر پانی پینے جاتی سب مواشی بھاگ کر کنارے ہو جاتے۔ تب یوں ٹھہرا دیا کہ ایک دن اس پانی پر وہ جائے، ایک دن اوروں کے مواشی جائیں۔

۱ ۵۶۔۔۔  یعنی اونٹنی کے ساتھ برائی سے پیش نہ آنا ورنہ بڑی سخت آفت ہو گی۔

۱ ۵۷۔۔۔  ایک بدکار عورت کے گھر مواشی بہت تھے، چارے اور پانی کی تکلیف سے اپنے ایک آشنا کو اکسایا، اس نے اونٹی کے پاؤں کاٹ کر ڈال دیے، اس کے تین دن بعد عذاب آیا (موضح القرآن) یہ قصہ بھی پہلے مفصل گزرچکا۔

۱۶ ۵۔۔۔  یعنی سارے جہان میں سے مرد ہی تمہاری شہوت رانی کے لیے رہ گئے، یا یہ کہ سارے جہان میں سے تم ہی ہو جو اس فعل شنیع کے مرتکب ہوتے ہو۔

۱۶۶۔۔۔  یعنی یہ خلافِ فطرت کام کر کے آدمیت کی حد سے بھی نکل چکے ہو۔

۱۶۷۔۔۔  ۱: یعنی یہ وعظ و نصیحت رہنے دو۔ اگر آئندہ ہمیں تنگ کرو گے تو تم کو بستی سے نکال باہر کریں گے۔

۲:   اس لیے ضرور اس پر اظہارِ نفرت کروں گا اور نصیحت سے باز نہیں آ سکتا۔

۱۶۹۔۔۔  ۱: یعنی ان کی نحوست اور وبال سے ہم کو بچا اور انہیں غارت کر۔

۲:  یہ ان کی بیوی تھی جو ان بدمعاشوں سے مل رہی تھی۔ جب عذاب آیا تو یہ بھی ہلاک ہوئی۔

۱۷۳۔۔۔  یعنی ان کی بستیاں الٹ دیں اور آسمان سے پتھروں کا برساؤ کیا۔ سو ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ ان کا قصہ مفصل بھی اعراف وغیرہ میں گزر چکا۔

۱۷۶۔۔۔  ابن کثیر نے لکھا ہے کہ "اصحاب ایکہ" وہ ہی قوم مدین ہے۔ "ایکہ" ایک درخت تھا جسے یہ لوگ پوجتے تھے، اسی نسبت سے "اصحاب الایکہ" کہا گیا۔ اور اسی لیے شعیب کو "اَخُوہُمْ" سے تعبیر نہیں فرمایا۔ کیونکہ انبیاء کی اخوت محض قومی و نسبی تعلقات پر مبنی تھی۔ اگر "مدین" کہتے تو "اَخُوہُم"کہنا موزوں تھا۔ جب "اصحاب الایکہ" کہہ کر ایک مذہبی نسبت سے ذکر کیا تو اس حیثیت سے "اَخُوہُم" فرمانا حضرت شعیب کی شان کے مناسب نہ تھا۔ بہرحال "مدین" اور "اصحاب ایکہ" ایک قوم ہے اور شعیب اسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے پہلے بھی اس کے متعلق کچھ بحث گزر چکی۔

۱۸۲۔۔۔  یعنی معاملات میں خیانت اور بے انصافی مت کرو جس طرح لینے کے وقت پورا ناپ تول کر لیتے ہو دیتے وقت بھی پورا ناپ تول کر دو۔

۱۸۳۔۔۔  یعنی ملک میں ڈاکے مت ڈالو اور لوگوں کے حقوق نہ مارو۔

۱۸۶۔۔۔  ۱: یعنی دعویٰ نبوت میں اور عذاب وغیرہ کی دھمکیوں میں۔

۲:   اگر سچا ہے تو آسمان کا یا بادل کا کوئی ٹکڑا گروا کر ہم کو ہلاک کیوں نہیں کر دیتا۔

۱۸۸۔۔۔  یعنی وہ ہی جانتا ہے کہ کس جرم پر کس وقت اور کتنی سزا ملنی چاہیے۔ عذاب دینا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام ہوشیار کر دینا تھا، سو کر چکے۔

۱۸۹۔۔۔  سائبان کی طرح ابر آیا اس میں سے آگ برسی، نیچے سے زمین کو بھونچال آیا اور سخت ہولناک آواز آئی۔ اس طرح سب قوم تباہ ہو گئی۔ ان کا قصہ بھی پہلے مفصل گزر چکا ہے۔ ایک نظر وہاں کے فوائد پر ڈال لی جائے۔

۱۹۴۔۔۔  آغازِ سورت میں قرآنِ کریم کا ذکر تھا اور اس کی تکذیب پر دھمکی دی گئی تھی، درمیان میں مکذبینِ حق کے واقعات بیان ہوئے، یہاں سے پھر مضمونِ سابق کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم وہ مبارک اور عظیم الشان کتاب ہے جسے رب العالمین نے اتارا، جبرائیل امین لے کر اترے اور تیرے پاک و صاف قلب پر اتاری گئی کیونکہ یہ ہی قلب تھا جو اللہ کے علم میں اس بھاری امانت کو اٹھانے اور سنبھالنے کے لائق تھا، چنانچہ وحی قرآنی آئی اور سیدھی تیرے دل میں اترتی چلی گئی۔ تو نے اس کو اپنے سارے دل سے سنا اور سمجھا اور محفوظ رکھا، شاید "عَلیٰ قَلْبِکَ " کے لفظ میں یہ بھی اشارہ ہو کہ نزول وحی کی جو دو کیفیتیں احادیث صحیحہ میں وارد ہوئی ہیں (یعنی کبھی "صلصلۃ الجرس" کی طرح آنا اور کبھی فرشتہ کا آدمی کی صورت میں سامنے آ کر بات کرنا) ان میں سے قرآن کی وحی اغلبًا پہلی کیفیت کے ساتھ آتی تھی۔ کیونکہ دونوں حالتوں میں محققین کے نزدیک فرق یہ تھا کہ پہلی حالت میں پیغمبر کو بشریت سے منخلع ہو کر ملکیت کی طرف جانا پڑتا تھا۔ گویا اس وقت آلاتِ جسدانیہ کو بالکل معطل کر کے صرف روحی قوتوں اور قلبی حواس سے کام لیتے تھے، دل کے کانوں سے وحی کی آواز سنتے تھے اور دل کی آنکھوں سے فرشتہ کو دیکھتے تھے اور دل کی الٰہی قوتوں سے ان علوم کی تلقی کرتے تھے اور محفوظ رکھتے تھے بخلاف دوسری حالت کے کہ اس میں فرشتہ کو ملکیت سے نزول کر کے بشریت کی طرف آنا پڑتا تھا، اس وقت پیغمبر ان ہی ظاہری آنکھوں سے فرشتہ کو دیکھتے اور ان ہی ظاہری کانوں کے توسط سے آواز سنتے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وحی کی پہلی قسم کو احادیث میں فرمایا کہ "ہُوَ اَشَدَّہٗ عَلیٰ" (وہ مجھ پر بہت بھاری ہوتی ہے) کیونکہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بشریت سے ملکیت کی طرف صعود کرنا پڑتا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۱۹ ۵۔۔۔  یعنی اتارا نہایت فصیح، واضح اور شگفتہ عربی زبان میں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ "عَلیٰ قَلْبِکَ" سے مراد یہ ہیں کہ صرف مضامین قرآن کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں اتار دیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اپنے الفاظ میں ادا کر دیا۔ بلکہ الفاظ اور مضامین سب وحی ربانی سے قلب مبارک پر القاء کیے گئے۔

۱۹۶۔۔۔  یعنی قرآن کی اور اس کے لانے والے کی خبر پہلی آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ انبیائے سابقین برابر پیشین گوئی کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ باوجود بہت سی تحریف و تبدیلی کے اب تک بھی ایک ذخیرہ اس قسم کی پیشین گوئیوں کا پایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ اس قرآن کے بیشتر مضامین اجمالاً یا تفصیلاً اگلی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ خصوصاً قصص، توحید، رسالت، معاد وغیرہ مضامین جن پر تمام کتب سماویہ اور انبیاء و مرسلین کا اتفاق رہا ہے۔

۱۹۷۔۔۔  یعنی علمائے بنی اسرائیل خوب جانتے ہیں کہ یہ وہ ہی کتاب اور پیغمبر ہے جس کی خبر پہلے سے آسمانی صحیفوں میں دی گئی تھی۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے اعلانیہ اور بعض نے اپنی خصوصی مجلسوں میں امر حق کا اقرار کیا ہے اور بعض انصاف پسند اسی علم کی بناء پر مسلمان ہو گئے۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن سلام وغیرہ، غرض ایک منصف فہیم کے لیے جس کا دل حق کی طلب رکھتا اور خدا سے ڈرتا ہو، اس چیز میں بڑی نشانی ہے کہ دوسرے مذاہب کے علماء بھی اپنے دلوں میں قرآن کی حقانیت کو سمجھتے ہیں، گو کسی وجہ سے بعض اوقات اعلان و اقرار کی جرأت نہ کر سکیں۔

۱۹۹۔۔۔   یعنی آپ تو فصحائے عرب میں سے ہیں۔ ممکن ہے مشرکین مکہ یوں کہہ دیں کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصنیف کر لیا ہو گا (حالانکہ قرآن اس حد اعجاز کو پہنچا ہوا ہے جس کا مثل تمام جن و انس بھی بنا کر نہیں لا سکتے) تاہم کہنے کو یہ احتمال پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی ہٹ دھرمی، شقاوت اور بدبختی کا حال تو یہ ہے کہ اگر یہ قرآن فرض کرو ہم کسی غیر فصیح عرب یا عجمی انسان پر اتارتے تو جو ایک حرف عربی کا بولنے پر قادر نہ ہوتا، بلکہ بفرض محال کسی حیوان لا یعقل پر اتارا جاتا، تب بھی یہ لوگ اس کے ماننے والے نہ تھے۔ اس وقت کچھ اور احتمالات پیدا کرتے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "کافر کہتے تھے کہ قرآن آیا ہے عربی زبان میں، اس نبی کی زبان بھی عربی ہے شاید آپ ہی کہہ لاتا ہو۔ اگر غیر زبان والے پر عربی قرآن اترتا تو یقین کرتے، فرمایا کہ دھوکہ والے کا جی کبھی نہیں ٹھہرتا۔ تب اور شبہے نکالتے کہ کوئی سکھا جاتا ہے۔" (موضح القرآن)

۲۰۱۔۔۔  ۱: یعنی جو آدمی جرائم اور گناہوں کا خوگر ہو جاتا ہے اور اپنے قویٰ کو شرارت اور سرکشی میں لگا دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی عادت کے موافق ڈھیل چھوڑ دیتا ہے اور اس کے دل میں انکار و تکذیب کے اثر کو جاگزین کر دیتا ہے۔ یہ تقریر ترجمہ کے موافق ہوئی۔ لیکن بہت سے مفسرین نے "سلکناہ" کی ضمیر قرآن کی طرف راجع کی ہے۔ یعنی قرآن کو ہم نے اس طرح مجرمین کے دل میں گھسا دیا ہے کہ وہ دل میں خوب سمجھتے ہیں کہ یہ کلام بشر نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی ہٹ دھرمی سے ایمان نہیں لا سکتے اور تکذیب کیے چلے جاتے ہیں تاآنکہ دنیا یا آخرت میں دردناک عذاب کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں، اس وقت مانیں گے کہ ہاں پیغمبر سچے تھے اور جو کتاب لائے تھے وہ سچی تھی، مگر اس وقت ماننا کچھ نفع نہ دے گا۔

۲: یعنی جب عذابِ الٰہی ایک دم سر پر پہنچ جائے گا اس وقت کہیں گے کیا ہمیں تھوڑی سی مہلت دی جا سکتی ہے کہ اب توبہ کر کے اپنا چال چلن درست کر لیں اور پیغمبروں کا اتباع کر کے دکھلائیں۔ دنیا میں تو عذاب کی جلدی مچا رہے تھے اب مہلت طلب کرنے لگے۔

۲۰۷۔۔۔  یعنی سالہا سال کی ڈھیل اور مہلت بھی جو دی گئی تھی اس وقت کچھ کام نہ آئے گی۔ اس وقت یہ برسوں کی مہلت کا لعدم معلوم ہو گی اور سمجھیں گے کہ واقعی بہت ہی جلدی پکڑے گئے۔ "کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوآ اِلَّا عَشِیَّۃً اَوْضُحَاھا" (نازعات، رکوع۲، آیت ۴۶)

۲۰۹۔۔۔  یعنی کسی قوم کا تختہ یوں ہی ایک دم نہیں الٹ دیا گیا۔ عذاب بھیجنے سے پہلے کافی مہلت دی گئی اور ہوشیار کرنے والے پیغمبر بھیجے گئے کہ لوگ غفلت میں نہ رہیں، جب کسی طرح نہ مانے آخر غارت کیے گئے العیاذ باللہ۔

۲۱۱۔۔۔  درمیان میں مکذبین کے احوال بیان فرما کر پھر اصل مضمون "وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ" کی تکمیل و تمیم فرماتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب خدا تعالیٰ کے ہاں سے جبرائیل امین لائے ہیں۔ شیاطین کی سکھلائی ہوئی چیز نہیں۔ بھلا شیاطین سے کہاں ممکن ہے کہ ایسی کتاب بن آئے۔ ان کی طبائع کا خاصہ تو گمراہی، فساد، اور ظلمت پھیلانا ہے۔ اور یہ کتاب اول سے آخر تک رشد و صلاح اور نورِ ہدایت سے بھری ہوئی ہے جس کی تعلیم سے وہ جماعت تیار ہوئی۔ جس سے زیادہ آسمان کے نیچے بجز انبیاء کے کوئی پاک باز، صادق، خدا ترس اور خدا پرست جماعت نہیں تو اس کتاب کے علوم اور شیاطین کی طبائع میں کوئی مناسبت نہیں۔ نہ وہ اس لائق ہیں کہ اس عظیم الشان، متبرک بارِ امانت کو اٹھا سکیں۔ "لَوْاَنْزَلْنَا ھذَا الْقُرْاٰنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشِیَۃِ اللّٰہِ۔" (حشر، رکوع۳'آیت ۱۶) روایات میں ہے کہ بعض مشرکین کا خیال تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کوئی جن آ کر یہ قرآن سکھلا جاتا ہے۔ بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ وحی آنے میں کچھ دیر ہوئی تو ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کہا کہ تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا (نعوذ باللہ) ان آیات میں اسی خیال کی تردید ہے۔

۲۱۲۔۔۔  یعنی نزول قرآن کے زمانہ میں اس کی حفاظت کے لیے ایسے غیبی پہرے بٹھائے گئے ہیں کہ شیاطین پاس بھی نہیں پھٹک سکتے نہ ایک حرف اچک سکتے ہیں کما قال تعالیٰ "وَاِنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَّسْتَمِع آلاٰنَ یَجِدْلَہٗ شِہَاباً رَّصَداً۔" (جن، رکوع۱') وقال تعالیٰ "فَاِنَّہٗ یَسْلُکْ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۔" (جن، رکوع۲'آیت ۲۷) وقال تعالیٰ "لَایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ۔" (حم السجدہٗ رکوع۵'آیت ۴۲)۔ (تنبیہ) شیاطین کے غیبی خبریں سننے کی کوشش کرنے اور ناکام رہنے کے متعلق سورہ حجر کے شروع میں مفصل کلام کیا جا چکا ہے وہاں مطالعہ کرنا چاہیے۔

۲۱۳۔۔۔  یہ فرمایا رسول کو اور سنایا اوروں کو یعنی جب یہ کتاب بلا شک و شبہ خدا کی اتاری ہوئی ہے، شیطان کا اس میں ذرہ بھر دخل نہیں تو چاہیے کہ اس کی تعلیم پر چلو جس میں اصل اصول توحید ہے۔ شرک و کفر اور تکذیب کی شیطانی راہ اختیار مت کرو۔ ورنہ عذاب الٰہی سے رستگاری کی کوئی سبیل نہیں۔

۲۱۴۔۔۔  یعنی اوروں سے پہلے اپنے اقارب کو تنبیہ کیجئے کہ خیر خواہی میں ان کا حق مقدم ہے اور ویسے بھی آدمی کی صداقت و حقانیت اقارب کے معاملہ سے پرکھی جاتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "جب یہ آیت اتری۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سارے قریش کو پکار کر سنا دیا اور اپنی پھوپھی تک اور اپنی بیٹی تک اور چچا تک کہہ سنایا کہ اللہ کے ہاں اپنی فکر کرو۔ خدا کے ہاں میں تمہارا کچھ نہیں کر سکتا۔

۲۱ ۵۔۔۔   یعنی شفقت میں رکھ ایمان والوں کو، اپنے ہوں یا پرائے۔

۲۱۶۔۔۔  یعنی خلافِ حکم خدا جو کوئی کرے اس سے تو بیزار ہو جا، اپنا ہو یا پرایا۔

۲۱۷۔۔۔  یعنی نافرمانی کرنے والے کوئی ہوں اور کتنے ہی ہوں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سب سے بیزار ہو کر ایک خدا پر بھروسہ رکھ جو زبردست بھی ہے کسی کی اس کے مقابلہ میں چل نہیں سکتی، اور مہربانی فرمانے والا بھی۔ چنانچہ اپنی مہربانی سے تیرے حال پر ہر وقت نظر عنایت رکھتا ہے۔

۲۱۹۔۔۔  یعنی جب تو تہجد کو اٹھتا ہے اور متوسلین کی خبر لیتا ہے کہ خدا کی یاد میں ہیں یا غافل (موضح) یا تو جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اور جماعت کی نماز میں نقل و حرکت (رکوع و سجود وغیرہ) کرتا ہے، اور مقتدیوں کی دیکھ بھال رکھتا ہے اور بعض سلف نے کہا کہ ساجدین سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آباء مراد ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نور کا ایک نبی کی صلب سے دوسرے نبی کی صلب تک منتقل ہونا اور آخر میں نبی ہو کر تشریف لانا بلکہ بعض مفسرین نے اس لفظ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے والدین کے ایمان پر استدلال کیا ہے۔ واللہ اعلم۔

۲۲۲۔۔۔  یہاں پھر قرآن کے صدق اور عظمتِ شان پر تنبیہ فرمائی۔ یعنی ایسے ساجدی اور تہجد گزاروں کے امام کو جو اللہ کے معاملہ میں اپنے اور بیگانے کی کوئی پرواہ نہ کرے اور ساری دنیا سے ٹوٹ کر اکیلے خدا پر بھروسہ رکھے، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ (معاذ اللہ) شیطان ان پر وحی لاتا تھا؟ آؤ! میں تم کو بتاؤں کہ شیطان کی وحی کس قسم کے لوگوں پر آتی ہے۔ وہ آتی ہے جھوٹوں پر، بدمعاشوں اور بدکاروں پر، کیونکہ شیطان سچے اور نیک آدمیوں سے بیزار ہے کہ یہ اس کو برا جانتے ہی۔ جھوٹے دغا بازوں سے خوش ہے جو اس کی مرضی کے موافق ہیں۔ بھلا سب سچوں سے زیادہ سچے اور تمام نیکوں سے بڑھ کر نیک انسان کو شیطانی وحی سے کیا نسبت، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا صدق و امانت، اتقاء، پاکبازی، خدا ترسی تو وہ اوصاف ہیں جو بچپن سے لے کر دعوائے نبوت تک آپ کی ساری قوم کو تسلیم تھے۔ حتی کہ "الصادقین الامین" آپ کا لقب ہی پڑ گیا تھا۔

۲۲۳۔۔۔ ۱ یعنی شیاطین کوئی ایک آدھ ناتمام بات امور غیبیہ جزئیہ کے متعلق جو سن بھاگتے ہیں اس میں سو جھوٹ ملا کر اپنے کاہن دوستوں کو پہنچاتے ہیں، یہ حقیقت ان کی وحی کی ہے۔ برخلاف اس کے انبیاء کی وحی کے کہ ایک حرف اور ایک شوشہ بھی جھوٹ نہیں ہو سکتا۔ بعض نے "یُلْقُونَ السَّمْعَ" کے معنی یہ لیے ہیں، کہ شیاطین ملاءِ اعلیٰ کی طرف کان لگاتے ہیں کہ کوئی غیبی بھنک کان میں پڑ جائے، یا جھوٹے گنہگار شیاطین کی طرف کان جھکائے رکھتے ہیں کہ کوئی چیز ادھر سے ہاتھ آئے تو چلتی کریں۔

۲۲۴۔۔۔  کافر لوگ پیغمبر کو کبھی کاہن بتاتے کبھی شاعر، سو فرمایا کہ شاعری کی باتیں محض تخیلات ہوتی ہیں تحقیق سے اس کو لگاؤ نہیں ہوتا، اس لیے اس کی باتوں سے بجز گرمی محفل یا وقتی جوش اور واہ واہ کے کسی کو مستقل ہدایت نہیں ہوتی حالانکہ اس پیغمبر کی صحبت میں قرآن سن سن کر ہزاروں آدمی نیکی اور پرہیزگاری پر آتے ہیں۔

۲۲ ۵۔۔۔  یعنی جو مضمون پکڑ لیا اسی کو بڑھاتے چلے گئے، کسی کی تعریف کی تو آسمان پر چڑھا دیا، مذمت کی تو ساری دنیا کے عیب اس میں جمع کر دیئے۔ موجود کو معدوم اور معدوم کو موجود ثابت کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ غرض جھوٹ، مبالغہ اور تخیل کے جس جنگل میں نکل گئے، پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ اسی لیے شعر کی نسبت مشہور ہے۔ "اکذب او احسن او

۲۲۶۔۔۔  یعنی شعر پڑھو تو معلوم ہو کہ رستم سے زیادہ بہادر اور شیر سے زیادہ دلیر ہوں گے، اور جا کر ملو تو پرلے درجہ کے نامرد اور ڈرپوک کبھی دیکھو تو ہٹے کٹے ہیں اور اشعار پڑھو تو خیال ہو کہ نبضیں ساقط ہو چکیں، قبضِ روح کا انتظار ہے۔ حالی نے مسدس میں ان کے جھوٹ کا خو نقشہ کھینچا ہے۔ غرض ایک پیغمبر خدا اور وہ بھی خاتم الانبیاء کو اس جماعت سے کیا لگاؤ۔ اسی لیے فرمایا۔ "وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَایَنْبَغِی لَہٗ "آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جو بات تھی سچی، جچی تلی باون تولے پاؤ رتی، تحقیق کے ترازو میں تلی ہوئی۔ پھر جو بات زبان مبارک سے سنی جاتی تھی وہ ہی علم میں آنکھوں سے نظر آتی تھی۔ بھلا شاعر ایسے ہوتے ہیں؟ اور شاعری اسے کہتے ہیں؟ حاشا ثم حاشا۔

۲۲۷۔۔۔  ۱: مگر جو کوئی شعر میں اللہ کی حمد کہے یا نیکی کی ترغیب دے، یا کفر کی مذمت یا گناہ کی برائی کرے یا کافر اسلام کی ہجو کریں یہ اس کا جواب دے، یا کسی نے اس کو ایذاء پہنچائی اس کا جواب بحد اعتدال دیا، ایسا شعر عیب نہیں۔ چنانچہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ وغیرہ ایسے ہی اشعار کہتے تھے۔ اسی لیے حضور نے فرمایا کہ ان کافروں کا جواب دے اور روح القدس تیرے ساتھ ہے۔

۲:  یہ "مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوا" کی مناسبت سے فرمایا کہ ظالموں کو عنقریب اپنا انجام معلوم ہو جائے گا کہ کس کروٹ اونٹ بیٹھتا ہے سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اللہ کی کتابوں اور پیغمبروں کو کاہن و شاعر کہہ کر جھٹلائے۔ تَمَّ سورۃ الشعراء وللہ الحمد والمنہ۔