تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ المُزمّل

۱ ۔۔۔        یہ سورت ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو مکہ میں نازل ہوئیں ۔ روایات صحیحہ میں ہے کہ شروع میں جب وحی کی دہشت اور نقل سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بدن کانپنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گھر والوں سے فرمایا۔ "زمّلونی زمّلونی" (مجھے کپڑا اڑھاؤ کپڑا اڑھاؤ) چنانچہ کپڑا اڑھا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اور اس سے اگلی سورت میں آپ کو وہی نام لے کر پکارا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ قریش نے "دارالندوہ" میں جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق مشورہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت کے مناسب کوئی لقب تجویز کرنا چاہیے کسی نے "کاہن" کہا کسی نے "جادو گر" کسی نے "مجنون" مگر اتفاق رائے کسی چیز پر نہ ہوا۔ اخیر میں "ساحر" کی طرف رجحان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر ہوئی تو رنجیدہ اور غمگین ہوئے اور کپڑوں میں لپٹ گئے۔ جیسا کہ اکثر سوچ اور غم میں مغموم آدمی اس طرح کر لیتا ہے۔ اس پر حق تعالیٰ نے تأنیس و ملاطفت کے لیے اس عنوان سے خطاب فرمایا جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو ایک مرتبہ "قم اباتراب" فرمایا تھا جبکہ وہ گھر سے رنجیدہ ہو کر چلے گئے اور مسجد میں زمین پر لیٹے ہوئے تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں "کہ اس سورت میں خرقہ پوشی کے لوازم و شروط بیان ہوئی ہیں ۔" گویا یہ سورت اس شخص کی سورت ہے جو درویشوں کا خرقہ پہنے اور اپنے تئیں اس رنگ میں رنگے۔ لغت عرب میں "مزمل" اس شخص کو کہتے ہیں جو بڑے کشادہ کپڑے کو اپنے اوپر لپیٹ لے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول ایسا تھا کہ جب نمازِ تہجد اور قرآن شریف کی تلاوت کے لیے رات کو اٹھتے تھے تو ایک کمبل دراز اوڑھ لیتے تھے تاکہ سردی سے بدن محفوظ رہے اور وضو و نماز کی حرکات میں کسی طرح کا حرج واقع نہ ہو۔ نیز اس عنوان کے اختیار کرنے میں ان لوگوں کو ہوشیار کرنا ہے جو کپڑوں میں لپٹے ہوئے رات کو آرام کر رہے ہوں کہ رات کا ایک معتدبہ حصہ اللہ کی عبادت میں گزاریں ۔

۲ ۔۔۔      یعنی کسی رات اتفاق سے نہ ہو سکے تو معاف ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک "الا قلیلاً" کا مطلب یہ ہے کہ رات کو اللہ کی عبادت میں کھڑے رہو ہاں تھوڑا سا حصہ شب کا اگر آرام کرو، تو مضائقہ نہیں ۔ غالباً تھوڑے سے مراد یہاں نصف ہو گا کیونکہ رات جو آرام کے لیے تھی جب آدھی عبادت میں گزار دی تو اس کے اعتبار سے باقی صف کو "تھوڑا" ہی کہنا موزوں تھا۔

 ۴ ۔۔۔      ۱: یعنی آدھی رات سے کچھ کم جو تہائی تک پہنچ سکتی ہے یا آدھی سے زیادہ جو دو تہائی تک ہو۔ بقرینتہ قولہ تعالیٰ فیما بعد" اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنیٰ مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ" الخ

۲: یعنی تہجد میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کہ ایک ایک حرف صاف سمجھ میں آئے۔ اس طرح پڑھنے سے فہم و تدبر میں مدد ملتی ہے اور دل پر اثر زیادہ ہوتا ہے اور ذوق و شوق بڑھتا ہے۔

۵ ۔۔۔       حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی ریاضت کو تو بھاری بوجھ آسان ہو۔" اور وہ بوجھ ایسا ہے کہ جس کے سامنے شب بیداری کو سہل سمجھنا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد پے بہ پے قرآن تم پر نازل کریں گے جو اپنی قدرو منزلت کے اعتبار سے بہت قیمتی اور وزن دار اور اپنی کیفیات و لوازم کے اعتبار سے بہت بھاری اور گراں بار ہے۔ احادیث میں ہے کہ نزول قرآن کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہت گرانی اور سختی گزرتی تھی۔ جاڑے کے موسم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے۔ اگر اس وقت کسی سواری پر سوار ہوتے تو سواری تحمل نہیں کر سکتی تھی۔ ایک مرتبہ آپ کی فخذ مبارک زید بن ثابت کی ران پر تھی۔ اس وقت وحی نازل ہوئی۔ زید بن ثابت کو ایسا محسوس ہوا کہ ان کی ران بوجھ سے پھٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ اس ماحول میں قرآن کی دعوت و تبلیغ اور اس کے حقوق پوری طرح ادا کرنا اور اس راہ میں تمام سختیوں کو کشادہ دلی سے برداشت کرنا بھی سخت مشکل اور بھاری کام تھا۔ اور جس طرح ایک حیثیت سے یہ کلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھاری تھا دوسری حیثیت سے کافروں اور منکروں پر شاق تھا۔ غرض ان تمام وجوہ کا لحاظ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوا کہ جس قدر قرآن اتر چکا ہے۔ اس کی تلاوت میں رات کو مشغول رہا کریں اور اس عبادت خاص کے انوار سے اپنے تئیں مشرف کر کے اس فیض اعظم کی قبولیت کی استعداد اپنے اندر مستحکم فرمائیں ۔

۶ ۔۔۔      یعنی رات کو اٹھنا کچھ آسان کام نہیں ۔ بڑی بھاری ریاضت اور نفس کشی ہے جس سے نفس روندا جاتا ہے اور نیند آرام وغیرہ و خواہشات پامال کی جاتی ہیں ۔ نیز اس وقت دعا اور ذکر سیدھا دل سے ادا ہوتا ہے۔ زبان اور دل موافق ہوتے ہیں ۔ جو بات زبان سے نکلتی ہے ذہن میں خوب جمتی چلی جاتی ہے۔ کیونکہ ہر قسم کے شور و غل اور چیخ پکار سے یکسو ہونے اور خداوند قدوس کے سماء دنیا پر نزول فرمانے سے قلب کو ایک عجیب قسم کے سکون و قرار اور لذت و اشتیاق کی کیفیت میسر ہوتی ہے۔

۷ ۔۔۔      یعنی دن میں لوگوں کو سمجھانا اور دوسرے کئی طرح کے مشاغل رہتے ہیں ۔ گو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں بالواسطہ عبادت ہیں ۔ تاہم بلاواسطہ پروردگار کی عبادت اور مناجات کے لیے رات کا وقت مخصوص رکھنا چاہیے۔ اگر عبادت میں مشغول ہو کر رات کی بعض حوائج چھوٹ جائیں تو کچھ پروا نہیں ۔ دن میں ان کی تلافی ہو سکتی ہے۔

۸ ۔۔۔      یعنی علاوہ قیام لیل کے دن میں بھی (گو بظاہر مخلوق سے معاملات و علائق رکھنے پڑتے ہیں ) لیکن دل سے اسی پروردگار کا علاقہ سب پر غالب رکھے اور چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اسی کی یاد میں مشغول رہیے غیر اللہ کا کوئی تعلق ایک آن کے لیے ادھر سے توجہ کو ہٹنے نہ دے بلکہ سب تعلقات کٹ کر باطن میں اسی ایک کا تعلق باقی رہ جائے یا یوں کہ لو کہ سب تعلقات اسی ایک تعلق میں مدغم ہو جائیں جسے صوفیہ کے ہاں "بے ہمہ و باہمہ" یا "خلوت در انجمن" سے تعبیر کرتے ہیں ۔

۹ ۔۔۔    ۱:  مشرق دن کا اور مغرب رات کا نشان ہے گویا اشارہ کر دیا کہ دن اور رات دونوں کو اسی مالک مشرق و مغرب کی یاد اور رضا جوئی میں لگانا چاہیے۔

          ۲: یعنی بندگی بھی اس کی اور توکل بھی اسی پر ہونا چاہیے۔ جب وہ وکیل و کارساز ہو تو دوسروں سے کٹ جانے اور الگ ہونے کی کیا پروا ہے۔

۱۰ ۔۔۔      ۱: یعنی کفار آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ساحر، کاہن اور مجنون و مسحور وغیرہ کہتے ہیں ۔ ان باتوں کو صبر و استقلال سے سہتے رہیے۔

۲:  بھلی طرح کا چھوڑنا یہ کہ ظاہر میں ان کی صحبت ترک کرو اور باطن میں ان کے حال سے خبردار رہو کہ کیا کرتے ہیں اور کیا کہتے ہیں اور مجھ کو کس طور سے یاد کرتے ہیں ، دوسرے ان کی بدسلوکی کی شکایت کسی کے سامنے نہ کرو، نہ انتقام لینے کے درپے ہو، نہ گفتگو یا مقابلہ کے وقت کج خلقی کا اظہار کرو۔ تیسرے یہ کہ باوجود جدائی اور مفارقت کے ان کی نصیحت میں قصور نہ کیجیے بلکہ جس طرح بن پڑے ان کی ہدایت و راہنمائی میں سعی کرتے رہیے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔"یعنی خلق سے کنارہ کر لیکن لڑ بھڑ کر نہیں ، سلوک سے" مگر یاد رہے کہ یہ آیت مکی اور آیات قتال کا نزول مدینہ میں ہوا ہے۔

۱۱ ۔۔۔        یعنی حق و صداقت کو جھٹلانے والے جو دنیا میں عیش و آرام کر رہے ہیں ان کا معاملہ میرے سپرد کیجیے میں خود ان سے نبٹ لوں گا، مگر تھوڑی سی ڈھیل ہے۔

۱۳ ۔۔۔     عذاب دردناک سانپوں اور بچھوؤں کا اور خدا جانے کس کس قسم کا (العیاذ باللہ)

۱ ۴ ۔۔۔     یعنی اس عذاب کی تمہید اس وقت سے شروع ہو گی جب پہاڑوں کی جڑیں ڈھیلی ہو جائیں گی اور وہ کانپ کر گڑ پڑیں گے اور ریزہ ریزہ ہو کر ایسے ہو جائیں گے جیسے ریت کے تودے جن پر قدم جم نہ سکے۔

۱۵ ۔۔۔      یعنی یہ پیغمبر اللہ کے ہاں گواہی دے گا کہ کس نے اس کا کہنا مانا اور کس نے نہیں مانا تھا۔ ف۱۰    یعنی حضرت موسیٰ کی طرح تم کو مستقل دین اور عظیم الشان کتاب دے کر بھیجا۔ شاید یہ اس پیشین گوئی کی طرف اشارہ ہے جو تورات سفر استثناء میں ہے کہ "میں ان کے لیے ان کے بھائیوں (بنی اسماعیل) میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا۔"

۱۶ ۔۔۔      جب موسیٰ کے منکر کو ایسا سخت پکڑا تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے منکرین کو کیوں نہ پکڑے گا۔ جو تمام انبیاء سے افضل اور برتر ہیں ۔

۱۷ ۔۔۔      یعنی دنیا میں اگر بچ گئے تو اس دن کیونکر بچو گے جس دن کی شدت اور درازی بچوں کو بوڑھا کر دینے والی ہو گی۔ خواہ فی الحقیقت بچے بوڑھے نہ ہوں لیکن اس روز کی سختی اور لمبائی کا اقتضاء یہی ہو گا۔

۱۸ ۔۔۔      یعنی اللہ کا وعدہ اٹل ہے ضرور ہو کر رہے گا۔ خواہ تم اس کو کتنا ہی بعید ازامکان سمجھو۔

۱۹ ۔۔۔      یعنی نصیحت کر دی گئی اب جو اپنا فائدہ چاہے اس نصیحت پر عمل کر کے اپنے رب سے مل جائے۔ راستہ کھلا پڑا ہے کوئی روک ٹوک نہیں نہ خدا کا کچھ فائدہ ہے۔ تم سو دفعہ اپنا فائدہ سمجھو تو سیدھے لے آؤ۔ (تنبیہ) رات کے جاگنے کا حکم جو شروع سورت میں تھا تقریباً ایک سال تک رہا۔ پھر اگلی آیت سے منسوخ ہوا۔

۲۰ ۔۔۔       ۱: یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ تم نے اور تمہارے ساتھیوں نے اس کے حکم کی پوری تعمیل کی کبھی آدھی کبھی تہائی اور کبھی دو تہائی رات کے قریب اللہ کی عبادت میں گزاری۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ صحابہ کے پاؤں راتوں کو کھڑے کھڑے سوج جاتے اور پھٹنے لگتے تھے۔ بلکہ بعض تو اپنے بال رسی سے باندھ لیتے تھے کہ نیند آئے تو جھٹکا لگ کر تکلیف سے آنکھ کھل جائے۔

۲: یعنی رات اور دن کی پوری پیمائش تو اللہ کو معلوم ہے وہی ایک خاص اندازہ سے کبھی رات کو دن سے گھٹاتا کبھی بڑھاتا اور کبھی دونوں کو برابر کر دیتا ہے۔ بندوں کو اس نیند اور غفلت کے وقت روزانہ آدھی، تہائی، اور دو تہائی رات کی پوری طرح حفاظت کرنا خصوصاً جبکہ گھڑی گھنٹوں کا سامان نہ ہو، سہل کام نہیں تھا، اسی لیے بعض صحابہ رات بھر نہ سوتے تھے کہ کہیں نیند میں ایک تہائی رات بھی جاگنا نصیب نہ ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے معافی بھیج دی اور فرما دیا کہ تم اس کو ہمیشہ پوری طرح نباہ نہ سکو گے۔ اس لیے اب جس کو اٹھنے کی توفیق ہو، وہ جتنی نماز اور اس میں جتنا قرآن چاہے پڑھ لے۔ اب امت کے حق میں نہ نماز تہجد فرض ہے نہ وقت کی یا مقدار تلاوت کی کوئی قید ہے۔

۳: یعنی اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ تم میں بیمار بھی ہوں گے اور مسافر بھی جو ملک میں روزی یا علم وغیرہ کی تلاش کرتے پھریں گے اور وہ مرد مجاہد بھی ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے ان حالات میں شب بیداری کے احکام پر عمل کرنا سخت دشوار ہو گا۔ اس لیے تم پر تخفیف کر دی کہ نماز میں جس قدر قرآن پڑھنا آسان ہو پڑھ لیا کرو۔ اپنی جان کو زیادہ تکلیف میں ڈالنے کی ضرورت نہیں ۔ ہاں فرض نمازیں نہایت اہتمام سے باقاعدہ پڑھتے رہو۔ اور زکوٰۃ دیتے رہو، اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے رہو کہ ان ہی باتوں کی پابندی سے بہت کچھ روحانی فوائد اور ترقیات حاصل ہو سکتی ہیں (تنبیہ) اولین صحابہ سے ایک سال تک بہت تاکید و تحتّم کے ساتھ یہ ریاضت شاقہ شاید اس لیے کرائی کہ وہ لوگ آئندہ تمام امت کے ہادی و معلم بننے والے تھے۔ ضرورت تھی کہ وہ اس قدر منجھ جائیں اور روحانیت کے رنگ میں ایسے رنگے جائیں کہ تمام دنیا ان کے آئینہ میں کمالاتِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا نظارہ کر سکے اور یہ نفوسِ قدسیہ ساری امت کی اصلاح کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا سکیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۴:  پورے اخلاص سے اللہ کی راہ میں اس کے احکام کے موافق خرچ کرنا یہی اس کو اچھی طرح قرض دینا ہے۔ بندوں کو اگر قرض حسن دیا جائے وہ بھی اس کے عموم میں داخل سمجھو۔ کما ثبت فضلہ فی الحدیث۔

۵:  یعنی جو نیکی یہاں کرو گے۔ اللہ کے ہاں اس کو نہایت بہتر صورت میں پاؤ گے اور بہت بڑا اجر اس پر ملے گا تو یہ مت سمجھو کہ جو نیکی ہم کرتے ہیں یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ نہیں ، وہ سب سامان تم سے آگے اللہ کے ہاں پہنچ رہا ہے جو عین حاجت کے وقت تمہارے کام آئے گا۔    یعنی تمام احکام بجا لا کر پھر اللہ سے معافی مانگو۔ کیونکہ کتنا ہی محتاط شخص ہو اس سے بھی کچھ نہ کچھ تقصیر ہو جاتی ہے۔ کون ہے جو دعویٰ کر سکے کہ میں نے اللہ کی بندگی کا حق پوری طرح ادا کر دیا۔ بلکہ جتنا بڑا بندہ ہو اسی قدر اپنے کو تقصیر وار سمجھتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہے۔ اے غفور و رحیم تو اپنے فضل سے میری خطاؤں اور کوتاہیوں کو بھی معاف فرما۔ تم سورۃ المزمل وللہ الحمد والمنۃ۔