تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ النّجْم

۱۔۔۔   یعنی غروب ہو۔

۲۔۔۔    "رفیق" سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ یعنی نہ آپ غلط فہمی کی بناء پر راستہ سے بہکے، نہ اپنے قصد و اختیار سے جان بوجھ کر بے راہ چلے، بلکہ جس طرح آسمان کے ستارے طلوع سے لے کر غروب تک ایک مقرر رفتار سے معین راستہ پر چلے جاتے ہیں کبھی ادھر ادھر ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔ آفتاب نبوت بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے راستہ پر برابر چلا جاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ ایک قدم ادھر یا ادھر پڑ جائے۔ ایسا ہو تو ان کی بعثت سے جو غرض متعلق ہے وہ حاصل نہ ہو۔ انبیاء علیہم السلام آسمان نبوت کے ستارے ہیں جن کی روشنی اور رفتار سے دنیا کی راہنمائی ہوتی ہے اور جس طرح تمام ستاروں کے غائب ہونے کے بعد آفتاب درخشاں طلوع ہوتا ہے۔ ایسے ہی تمام انبیاء کی تشریف بری کے بعد آفتاب محمدی مطلع عرب سے طلوع ہوا۔ پس اگر قدرت نے ان ظاہری ستاروں کا نظام اس قدر محکم بنایا ہے کہ اس میں کسی طرح کے تزلزل اور اختلال کی گنجائش نہیں تو ظاہر ہے کہ ان باطنی ستاروں اور روحانی آفتاب و ماہتاب کا انتظام کس قدر مضبوط و محکم ہونا چاہیے۔ جن سے ایک عالم کی ہدایت و سعادت وابستہ ہے۔

۴۔۔۔   یعنی کوئی کام تو کیا۔ ایک حرف بھی آپ کے دہن مبارک سے ایسا نہیں نکلتا جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ دین کے باب میں ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور اس کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس میں وحی متلو کو "قرآن" اور غیر متلو کو "حدیث" کہا جاتا ہے۔

۵۔۔۔   یعنی وحی بھیجنے والا تو اصل میں اللہ تعالیٰ ہے۔ لیکن جس کے ذریعہ سے وہ وحی آپ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتی ہے اور جو بظاہر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سکھلاتا ہے وہ بہت سخت قوتوں والا، بڑا زور آور حسین و وجیہ فرشتہ ہے جسے " جبرائیل امین" کہتے ہیں۔ چنانچہ "سورۃ التکویر " میں جبرائیل کی نسبت فرمایا۔ "اِنَّہ، لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیْمٍ ذِیْ قُوَّۃٍ" الخ۔

۷۔۔۔     "اونچے کنارے" سے اکثروں نے افق شرقی مراد لیا ہے۔ جدھر سے صبح صادق نمودار ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ابتدائے نبوت میں ایک مرتبہ حضرت جبرائیل اپنی اصلی صورت میں ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ اس وقت آسمان ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ان کے وجود سے بھرا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ یہ غیر معمولی اور مہیب منظر پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا تھا۔ دیکھ کر گھبرائے تو سورہ "مدثر" اتری۔

۱۰۔۔۔     یعنی جبرائیل اپنے اصلی مستقر سے تعلق رکھنے کے باوجود نیچے اترے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس قدر نزدیک ہو گئے کہ دونوں کے درمیان دو ہاتھ یا دو کمانوں سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) پر وحی بھیجی۔ غالباً اس سے مراد سورہ "مدثر" کی یہ آیات ہیں۔ "یَاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ" یا کچھ اور احکام ہوں گے۔ (تنبیہ) فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنیٰ میں محققین کے نزدیک "او" شک کے لیے نہیں۔ بلکہ اس قسم کی ترکیب پوری تاکید اور مبالغہ کے ساتھ زیادہ کی نفی کے لیے ہوتی ہے۔ یعنی تعیین کر کے یہ بتلانا مقصود نہیں کہ "قوسین" کا فاصلہ تھا یا اس سے بھی کم، وہاں اتنا ظاہر کر دینا ہے کہ کسی حال اور کسی طرح اس سے زائد نہ تھا۔ وفیہ اقوال اخر ذکرہا المفسرون۔

۱۱۔۔۔   یعنی جبرائیل کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آنکھ سے دیکھا اور اندر سے دل نے کہا کہ اس وقت آنکھ ٹھیک ٹھیک جبرائیل کو دیکھ رہی ہے، کوئی غلطی نہیں کر رہی کہ کچھ کا کچھ نظر آتا ہو۔ ایسا کہنے میں آپ کا دل سچا تھا۔ حق تعالیٰ اسی طرح پیغمبروں کے دلوں میں فرشتہ کی معرفت ڈال دیتے ہیں ورنہ رسول کو خود اطمینان نہ ہو تو دوسروں کو اطمینان کہاں سے دستیاب ہو سکتا ہے۔

۱۲۔۔۔     یعنی وحی بھیجنے والا اللہ، لانے والا فرشتہ جس کی صورت و سیرت نہایت پاکیزہ اور فہم و حفظ وغیرہ کی تمام قوتیں کامل، پھر اتنا قریب ہو کر وحی پہنچائے، پیغمبر اس کو اپنی آنکھ سے دیکھے، اس کا صاف اور روشن دل اس کی تصدیق کرے، تو کیا ایسی دیکھی بھالی چیز میں تم کو حق ہے کہ اس سے فضول بحث و تکرار کرو اور جھگڑے نکالو ف اِذَا لَمْ تَرَالہِلَالَ فَسَلِّمْ لِنَّاسٍ رَاَ وْہُ بِالْاَبْصَارِ۔

۱۵۔۔۔  جس طرح جنت کے انگور، انار وغیرہ کو دنیا کے پھلوں اور میووں پر قیاس نہیں کر سکتے، محض اشتراک اسمی ہے۔ اس بیری کے درخت کو بھی یہاں کی بیریوں پر قیاس نہ کیا جائے اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ بیری کس طرح کی ہو گی۔ بہرحال وہ درخت ادھر ادھر کی سرحد پر واقع ہے جو اعمال وغیرہ ادھر سے چڑھتے ہیں، اور جو احکام وغیرہ ادھر سے اترتے ہیں سب کا منتہی وہ ہی ہے۔ مجموعہ روایات سے یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی جڑ چھٹے آسمان میں پھیلاؤ ساتویں آسمان میں ہو گا۔ واللہ اعلم۔

۱۶۔۔۔    یعنی حق تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس درخت پر چھا رہے تھے۔ اور فرشتوں کی کثرت و ہجوم کا یہ عالم تھا کہ ہر پتے کے ساتھ ایک فرشتہ نظر آتا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ "مایَغْشیٰ" سنہری پروانے تھے۔ یعنی نہایت خوش رنگ جن کے دیکھے سے دل کھنچا جائے۔ اس وقت درخت کی بہار اور رونق اور اس کا حسن و جمال ایسا تھا کہ کسی مخلوق کی طاقت نہیں کہ لفظوں میں بیان کر سکے۔شاید ابن عباس وغیرہ کے قول کے موافق معراج میں جو اللہ کا دیدار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوا اس کا بیان اسی آیت کے ابہام میں منطوی و مندرج ہو۔ کیونکہ پہلی آیتوں کے متعلق تو عائشہ صدیقہ کی احادیث میں تصریح ہے کہ ان سے رویت رب مراد نہیں۔ محض رویت جبرائیل مراد ہے۔ ابن کثیر نے مجاہد سے جو ابن عباس کے اخص اصحاب میں سے ہیں اسی آیت کے تحت میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ "کَانَ اَغْصَانُ السِّدْرَۃِ لُوءْ لُوًا وَیَا قُوْتًا وَزَبَرجَدًا فَرَاہَا مُحَمَّدٌ صَلَی اللّٰہ عَلَیْہِ و سلم وَرَای رَبَّہ، بِقَلْبِہٖ۔" اور یہ رویت چونکہ صرف قلب سے نہ تھی بلکہ قلب اور بصر دونوں کو دیدار سے حصہ مل رہا تھا جیسا کہ "مَازَاغَ الْبَصَرُ" سے ظاہرہوتا ہے۔ شاید اسی لیے ابن عباس نے طبرانی کی بعض روایات میں فرمایا۔ "راٰہ مُرَّتَیْنِ مَرَّۃً بِقَلْبِہٖ وَمَرَّۃً بِبَصَرِہٖ" یہاں دو مرتبہ دیکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی وقت میں دو طرح دیکھا۔ (کما قالوا فی حدیث اِنْشَقَّ الْقَمَر بِمَکَّۃ مَرَّتَیْنِ) ظاہری آنکھ سے بھی اور دل کی آنکھوں سے بھی لیکن یاد رہے کہ یہ رویت وہ نہیں جس کی نفی "لَا تُدْرِکْہُ الْاَبْصَارُ" میں کی گئی ہے کیونکہ اس سے غرض احاطہ کی نفی کرنا ہے۔ یعنی نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔ علاوہ بریں ابن عباس سے جب سوال کیا گیا کہ دعوئے رویت، آیت "لا تدرکہ الابصار" کے مخالف ہے تو فرمایا "وَیَحْکَ ذَاکَ اِذَا تَجَلیٰ بِنُوْرِہِ الَّذِیْ ہُوَ نُورُہ،" (رواہ الترمذی) معلوم ہوا کہ خداوند قدوس کی تجلیات و انوار متفاوت ہیں۔ بعض انوار قاہرہ للبصر ہیں بعض نہیں۔ اور رویت رب فی الجملہ دونوں درجوں پر صادق آتی ہے۔ اور اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ جس درجہ کی رویت مومنین کو آخرت میں نصیب ہو گی جبکہ نگاہیں تیز کر دی جائیں گی جو اس تجلی کو برداشت کر سکیں۔ وہ دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ ہاں ایک خاص درجہ کی رویت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو شب معراج میں ابن عباس کی روایات کے موافق میسر ہوئی۔ اور اس خصوصیت میں کوئی بشر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا شریک و سہیم نہیں۔ نیز ان ہی انوار و تجلیات کے تفاوت و تنوع پر نظر کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اقوال میں کوئی تعرض نہیں۔ شاید وہ نفی ایک درجہ میں کرتی ہوں اور یہ اثبات دوسرے درجہ میں کر رہے ہوں۔ اور اسی طرح ابوذر کی روایات "رایت نورًا"' اور "نور انی اراہ" میں تطبیق ممکن ہے۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔

۱۷۔۔۔    یعنی آنکھ نے جو کچھ دیکھا، پورے تمکن و اتقان سے دیکھا، نہ نگاہ ٹیڑھی ترچھی ہو کر داہنے بائیں ہٹی نہ مبصر سے تجاوز کر کے آگے بڑھی، بس اسی چیز پر جمی رہی جس کا دکھلانا منظور تھا۔ بادشاہوں کے دربار میں جو چیز دکھلائی جائے اس کو نہ دیکھنا اور جو نہ دکھلائی جائے اس کو تاکنا دونوں عیب ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں سے پاک تھے۔

۱۸۔۔۔     "اِذْیَغْشَی السِّدْرَۃً" کے فائدہ میں جو بیان ہو چکا ہے اس کے علاوہ جو نمونے دیکھے ہوں گے وہ اللہ ہی جانتا ہے۔

اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں بلبل

چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد

۲۰۔۔۔   یعنی اس لا محدود عظمت و جلال والے خدا کے مقابلہ میں ان حقیر و ذلیل چیزوں کا نام لینے سے شرم آنی چاہیے۔ (تنبیہ) "لات" و "عزیٰ"، "منات" ان کے بتوں اور دیویوں کے نام ہیں۔ ان میں "لات" طائف والوں کے ہاں بہت معظم تھا۔ "منات" اوس و خزرج اور خزاعہ کے ہاں۔ اور "عزیٰ" کو قریش اور بنی کنانہ وغیرہ ان دونوں سے بڑا سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اول "عزیٰ" جو مکہ کے قریب نخلہ میں تھا۔ پھر "لات" جو طائف میں تھا۔ پھر سب سے پیچھے تیسرے درجہ میں "منات" جو مکہ سے بہت دور مدینہ کے نزدیک واقع تھا۔ علامہ یاقوت نے معجم البلدان میں یہ ترتیب نقل کی ہے اور لکھا ہے کہ قریش کعبہ کا طواف کرتے ہوئے یہ الفاظ کہتے تھے۔ "واللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری ھوءلاء الغرانیق العلی وان شفا عتھن لترتجی۔" کتب تفسیر میں اس موقع پر ایک قصہ نقل کیا گیا ہے جو جمہور محدثین کے اصول پر درجہ صحت کو نہیں پہنچتا۔ اگر فی الواقع اس کی کوئی اصل ہے تو شاید یہ ہی ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں اور کافروں کے مخلوط مجمع میں یہ سورت پڑھی۔ کفار کی عادت تھی کہ لوگوں کو قرآن سننے نہ دیں اور بیچ میں گڑ بڑ مچا دیں۔ کما قال تعالیٰ "وقال الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَاتَسْمَعُوا لِہٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْافِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُونَ" (حمۤ السجدہ، رکوع۴'آیت ۲۶) جب یہ آیت پڑھی تو کسی کافر شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز میں آواز ملا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے لب و لہجہ سے وہ الفاظ کہہ دیے ہوں گے جو ان کی زبانوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ "تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الُعلیٰ" آگے تعبیر و ادا میں تصرف ہوتے ہوتے کچھ کا کچھ بن گیا۔ ورنہ ظاہر ہے نبی کی زبان پر شیطان کو ایسا تسلط کب حاصل ہو سکتا ہے اور جس چیز کا ابطال آگے کیا جا رہا ہے اس کی مدح سرائی کے کیا معنی۔

۲۲۔۔۔   یاقوت نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ کفار ان بتوں کو خدا کے بیٹیاں کہتے تھے۔ سو اول تو خدا "لم یلد ولم یولد" ہے اور بالفرض اولاد کا نظریہ تسلیم کیا جائے تب بھی یہ تقسیم کس قدر بھونڈی اور مہمل ہے کہ تم خود تو بیٹے لے جاؤ اور خدا کے حصہ میں بیٹیاں لگا دو۔

۲۳۔۔۔ ۱: یعنی پتھروں اور درختوں کے کچھ نام رکھ چھوڑے ہیں جن کی خدائی کی کوئی سند نہیں۔ بلکہ اس کے خلاف پر دلائل قائم ہیں۔ ان کو اپنے خیال میں خواہ بیٹیاں کہہ لو۔ یا بیٹے یا اور کچھ محض کہنے کی جس کے نیچے حقیقت کچھ نہیں۔

۲: یعنی باوجودیکہ اللہ کے پاس سے ہدایت کی روشنی آ چکی اور وہ سیدھی راہ دکھا چکا۔ مگر یہ احمق ان ہی اوہام و اہواء کی تاریکیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو کچھ اٹکل پچو ذہن میں آگیا اور دل میں امنگ پیدا ہو کر گزرے۔ تحقیق و بصیرت کی راہ سے کچھ سروکار نہیں۔

۲۵۔۔۔   یعنی سمجھتے ہیں کہ یہ بت ہمارے سفارشی بنیں گے۔ یہ خالی خیالات اور آرزوئیں ہیں۔ کیا انسان جو تمنا کرے وہ ہی مل جائے گا۔ یاد رہے دنیا اور آخرت کی سب بھلائی اللہ کے ہاتھ ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی بت پوجنے سے کیا ملتا ہے، ملے وہ ہی جو اللہ دے۔

۲۶۔۔۔     یعنی ان بتوں کی تو حقیقت کیا ہے آسمان کے رہنے والے مقرب فرشتوں کی سفارش بھی کچھ کام نہیں دے سکتی۔ ہاں اللہ ہی جس کے حق میں سفارش کرنے کا حکم دے اور اس سے راضی ہو تو وہاں سفارش بیشک کام دے گی۔ ظاہر ہے اس نے نہ بتوں کو سفارش کا حکم دیا اور نہ وہ کفار سے راضی ہیں۔

۲۸۔۔۔   یعنی جن کو آخرت کا یقین نہیں وہ سزا کی طرف سے بے فکر ہو کر ایسی گستاخیاں کرتے ہیں۔ مثلاً فرشتوں کو زنانہ قرار دے کر خدا کی بیٹیاں کہہ دیا۔ یہ ان کی محض جہالت ہے۔ بھلا فرشتوں کو مرد اور عورت ہونے سے واسطہ۔ اور خدا کے لیے اولاد کیسی۔ کیا سچی اور ٹھیک بات پر قائم ہونا ہو تو ایسی اٹکلوں اور پا در ہوا اوہام سے کام چل سکتا ہے۔ اور کیا تخمینے اور اٹکلیں حقائق ثابتہ کے قائم مقام ہو سکتی ہیں؟

۳۰۔۔۔    ۱: یعنی جس کا اوڑھنا بچھونا یہ ہی دنیا کی چند روزہ زندگی ہو کہ اس میں منہمک ہو کر کبھی خدا کو اور آخرت کو دھیان میں نہ لائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی بکواس کو دھیان میں نہ لائیں۔ وہ خدا سے منہ موڑتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی شرارت اور کجروی کی طرف سے منہ پھیر لیں۔ سمجھانا تھا سو سمجھا دیا۔ ایسے بدطینت اشخاص سے قبول حق کی توقع رکھنا اور ان کے غم میں اپنے کو گھلانا بیکار ہے۔ ان کی سمجھ تو بس اسی دنیا کے فوری نفع نقصان تک پہنچتی ہے اس سے آگے ان کی رسائی نہیں۔ وہ کیا سمجھیں کہ مرنے کے بعد مالک حقیقی کی عدالت میں حاضر ہو کر ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے۔ ان کی تمام تر علمی جدوجہد صرف بہائم کی طرح پیٹ بھرنے اور شہوت فرو کرنے کے لیے ہے۔

۲: یعنی جو گمراہی میں پڑا رہا اور جو راہ پر آیا، ان سب کو اور ان کی مخفی استعدادوں کو اللہ تعالیٰ ازل سے جانتا ہے۔ اسی کے موافق ہو کر رہے گا۔ ہزار جتن کرو، اس کے علم کے خلاف ہرگز واقع نہیں ہو سکتا۔ نیز وہ اپنے علم محیط کے موافق ہر ایک سے ٹھیک ٹھیک اس کے احوال کے مناسب معاملہ کرے گا۔ لہٰذا آپ یکسو ہو کر ان معاندین کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں۔

۳۱۔۔۔   یعنی ہر شخص کا حال اس کو معلوم اور زمین و آسمان کی ہر چیز پر اس کا قبضہ۔ پھر نیک و بد کا بدلہ دینے سے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے۔ بلکہ غور سے دیکھو تو زمین و آسمان کا یہ سارا کارخانہ پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں زندگی کا ایک دوسرا غیر فانی سلسلہ قائم کیا جائے جہاں بروں کو ان کی برائی کا بدلہ ملے اور نیکوں کے ساتھ ان کی بھلائی کے صلہ میں بھلائی کی جائے۔

۳۲۔۔۔     ۱: گناہ کبیرہ اور صغیر کا فرق سورہ "نساء" کے فوائد میں مفصل گزر چکا۔ "لمم" کی تفسیر میں کئی قول ہیں۔ بعض نے کہا کہ جو خیالات وغیرہ گناہ کے دل میں آئیں مگر ان کو عمل میں نہ لائے وہ "لمم" ہیں۔ بعض نے صغیرہ گناہ مراد لیے ہیں۔ بعض نے کہا کہ جس گناہ پر اصرار نہ کرے یا اس کی عادت نہ ٹھہرائے یا جس گناہ سے توبہ کر لے وہ مراد ہے، ہمارے نزدیک بہترین تفسیر وہ ہی ہے جو مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے سورہ "نساء" کے فوائد میں اختیار کی ہے لیکن یہاں ترجمہ میں دوسرے معانی کی بھی گنجائش رکھی ہے۔

۲:  اسی لیے بہت سے چھوٹے موٹے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور توبہ قبول کرتا ہے۔ گنہگار کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ اگر ہر چھوٹی بڑی خطا پر پکڑنے لگے تو بندہ کا ٹھکانا کہاں۔ یعنی اگر تقویٰ کی کچھ توفیق اللہ نے دی تو شیخی نہ مارو۔ اور اپنے کو بہت بزرگ نہ بناؤ۔ وہ سب کی بزرگی اور پاکبازی کو خوب جانتا ہے۔ اور اس وقت سے جانتا ہے جب تم نے ہستی کے اس دائرہ میں قدم بھی نہ رکھا تھا۔ آدمی کو چاہیے کہ اپنی اصل کو نہ بھولے۔ جس کی ابتداء مٹی سے تھی، پھر بطن مادر کی تاریکیوں میں ناپاک خون سے پرورش پاتا رہا۔ اس کے بعد کتنی جسمانی و روحانی کمزوریوں سے دوچار ہوا۔ آخر میں اگر اللہ نے اپنے فضل سے ایک بلند مقام پر پہنچا دیا تو اس کو اس قدر بڑھ چڑھ کر دعوے کرنے کا استحقاق نہیں۔ جو واقعی متقی ہیں وہ دعویٰ کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ اب بھی پوری طرح کمزوریوں سے پاک ہو جانا بشریت کی حد سے باہر ہے۔ کچھ نہ کچھ آلودگی سب کو ہو جاتی ہے۔ الا من عصمہ اللہ۔

۳۳۔۔۔    یعنی اپنی اصل کو بھول کر خالق و مالک حقیقی کی طرف سے منہ پھیر لیا۔

۳۴۔۔۔   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی تھوڑا سا ایمان لانے لگا پھر اس کا دل سخت ہو گیا۔" مجاہد وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں سن کر اس کو اسلام کی طرف تھوڑی سی رغبت ہو چلی تھی۔ اور کفر کی سزا سے ڈر کر قریب تھا کہ مشرف باسلام ہو جائے۔ ایک کافر نے کہا کہ ایسا مت کر میں تیرے سب جرائم اپنے اوپر لیتا ہوں۔ تیری طرف سے میں سزا بھگت لوں گا۔ بشرطیکہ اس قدر مال مجھ کو دیا جائے۔ اس نے وعدہ کر لیا اور مقررہ رقم کی کچھ قسط ادا کر کے باقی سے انکار کر دیا۔ اس صورت میں "وَاَعْطیٰ قَلِیْلًا وَاَکْدیٰ" کے معنی یہ ہوں گے کہ کچھ مال دیا، پھر ہاتھ کھینچ لیا۔

۳۵۔۔۔   یعنی کیا یہ غیب کی بات دیکھ آیا ہے کہ آئندہ اس کو کفر کی سزا نہ ملے گی اور دوسرے کو اپنی جگہ پیش کر کے چھوٹ جائے گا۔

۳۷۔۔۔     یعنی ابراہیم اپنے قول و قرار اور عہد و پیمان کی پابندی میں پورا اترا اور اللہ کے حقوق پوری طرح ادا کیے اور اس کے احکام کی تعمیل میں ذرہ بھر تقصیر نہ کی۔

۳۸۔۔۔     یعنی موسیٰ اور ابراہیم کے صحیفوں میں یہ مضمون تھا کہ خدا کے ہاں کوئی مجرم دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ ہر ایک کو اپنی اپنی جوابدہی بذات خود کرنا ہو گی۔

۳۹۔۔۔    یعنی آدمی جو کچھ کوشش کر کے کماتا ہے وہ ہی اس کا ہے۔ کسی دوسرے کی نیکیاں لے اڑے یہ نہیں ہو سکتا۔ باقی کوئی خود اپنی خوشی سے اپنے بعض حقوق دوسرے کو ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ اس کو منظور کر لے وہ الگ بات ہے جس کی تفصیل حدیث و فقہ سے معلوم ہو سکتی ہے۔

۴۱۔۔۔      یعنی ہر ایک کی سعی و کوشش اس کے سامنے رکھ دی جائے گی۔ اور اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔

۴۲۔۔۔    یعنی تمام علوم و افکار اور سلسلہ وجود کی انتہاء اسی پر ہوتی ہے اور سب کو آخرکار اسی کے پاس پہنچنا ہے۔ وہیں سے ہر ایک کو نیکی بدی کا پھل ملے گا۔

۴۵۔۔۔    یعنی اس عالم میں تمام متضاد و متقابل احوال اسی نے پید اکیے ہیں۔ خیر و شر کا خالق وہ ہی ہے جو خوشی یا غم کی کیفیات بھیجتا ہنساتا رلاتا، مارتا، جلاتا اور کسی کو نر کسی کو مادہ بنانا اسی کا کام ہے۔

۴۷۔۔۔   یعنی جس نے ایک قطرہ آب سے نر و مادہ پیدا کر دیے، دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ (یہ درمیان میں ایک پیدائش سے دوسری پیدائش پر متنبہ کر دیا)

۴۸۔۔۔    یعنی مال، خزانہ، جائیدادیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں اور بعض نے "اَقْنیٰ" کے معنی "اَفْقَرَ" کیے ہیں۔ یعنی اسی نے کسی کو غنی اور کسی کو فقیر بنا دیا۔ یہ معنی پہلے سیاق کے مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ کیونکہ متقابل چیزوں کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ اور اگر پہلا مطلب لیا جائے تو اس کے مقابل اہلاک کو رکھا جائے جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ یعنی خزانے اور مال و دولت دے کر وہ ہی بڑھاتا ہے اور وہ ہی بڑی بڑی دولتمند اور طاقتور قوموں کو تباہ و برباد کرتا ہے۔

۴۹۔۔۔   "شعریٰ" ایک بہت بڑا ستارہ ہے جس کو بعض عرب پوجتے تھے اور سمجھتے تھے کہ عالم کے احوال میں اس کی بہت بڑی تاثیر ہے۔ یہاں بتلا دیا کہ "شعریٰ" کا رب بھی اللہ ہے۔ دنیا کی تمام الٹ پھیر اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ "شعریٰ" غریب بھی ایک ادنیٰ مزدور کی طرح اس کا حکم بجا لاتا ہے۔ اس میں مستقل تاثیر کچھ بھی نہیں۔

۵۰۔۔۔   یعنی حضرت ہود علیہ السلام کی قوم۔

۵۲۔۔۔     کہ سینکڑوں برس تک خدا کے پیغمبر نوح علیہ السلام کو سخت ترین ایذائیں پہنچاتے رہے۔ جن کو پڑھ کر کلیجہ پھٹتا ہے، اور آنے والوں کے لیے بری راہ ڈال گئے۔

۵۴۔۔۔     یعنی پتھروں کا مینہ (یہ قوم لوط کی بستیوں کا ذکر ہے)

۵۵۔۔۔   یعنی ایسے مفسد ظالموں اور باغیوں کا تباہ کر ڈالنا بھی اللہ کا بڑا بھاری انعام ہے۔ کیا ایسی نعمتوں کو دیکھ کر بھی انسان اپنے رب کو جھٹلاتا ہی رہے گا۔

۵۶۔۔۔     یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم مجرموں کو اسی طرح برے انجام سے ڈرانے والے ہیں جیسے ان سے پیشتر دوسرے نبی ڈرا چکے ہیں۔

۵۸۔۔۔   یعنی قیامت قریب ہی آ لگی ہے جس کا ٹھیک وقت اللہ کے سوا کوئی کھول کر نہیں بتا سکتا۔ اور جب وقت معین آ جائے تو کوئی طاقت اس کو دفع نہیں کر سکتی۔ اللہ ہی چاہے تو ہٹے، مگر وہ چاہے گا نہیں۔

۶۱۔۔۔    یعنی قیامت اور اس کے قرب کا ذکر سن کر چاہیے تھا خوف خدا سے رونے لگتے اور گھبرا کر اپنے بچاؤ کی تیاری کرتے۔ مگر تم اس کے برخلاف تعجب کرتے اور ہنستے ہو۔ اور غافل و بے فکر ہو کر کھلاڑیاں کرتے ہو۔

۶۲۔۔۔    یعنی غافل کو زیبا نہیں کہ انجام سے غافل ہو کر نصیحت و فہمائش کی باتوں پر ہنسے اور مذاق اڑائے۔ بلکہ لازم ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرے۔ اور مطیع و منقاد ہو کر جبین نیاز خداوند قہر کے سامنے جھکا دے۔ (تنبیہ) روایات میں ہے سورہ نجم پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا اور تمام مسلمان اور مشرک جو حاضر تھے سجدہ میں گر پڑے۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ لکھتے ہیں کہ "اس وقت سب کو ایک غاشیہ الٰہیہ نے گھیر لیا تھا۔ گویا ایک غیبی اور قہری تصرف سے طوعاً و کرہاً سب کو سربسجود ہونا پڑا۔ صرف ایک بدبخت جس کے دل پر سخت مہر تھی اس نے سجدہ نہ کیا مگر زمین سے تھوڑی سی مٹی اٹھا کر اس نے بھی پیشانی کو  لگا لی اور کہا مجھے اسی قدر کافی ہے۔

 (تم سورۃ النجم وللہ الحمد والمنۃ)