تفسیر عثمانی

سورة حٰمٓ السجدة / فُصّلَت

۲۔۔۔   یعنی اللہ تعالیٰ کی بہت ہی بڑی مہربانی اور رحمت بندوں پر ہے جو ان کی ہدایت کے لیے ایسی عظیم الشان اور بے مثال کتاب نازل فرمائی۔

۳۔۔۔    ۱: لفظی طور پر آیات کا جدا جدا ہونا تو ظاہر ہے، مگر معنوی حیثیت سے بھی سینکڑوں قسم کے علوم اور مضامین کی تفصیل الگ الگ آیات میں کی گئی ہے۔

۲: یعنی قرآن کریم اعلیٰ درجہ کی صاف و شستہ عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو اس کے مخاطیبین اولین کی مادری زبان تھی۔ تاکہ ان لوگوں کو سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ خود سمجھ کر دوسروں کو پوری طرح سمجھا سکیں۔ مگر اس کے باوجود بھی ظاہر ہے وہ ہی لوگ اس سے منتفع ہو سکتے ہیں جو سمجھ رکھتے ہوں، ناسمجھ جاہل کو اس نعمت عظمیٰ کی کیا قدر ہو سکتی ہے۔

۴۔۔۔   ۱: یعنی قرآن اپنے ماننے والوں کو نجات و فلاح کی خوشخبری سناتا اور منکروں کو برے انجام سے ڈراتا ہے۔

۲: یعنی ان سب باتوں کے باوجود بھی تعجب ہے ان میں کے بہت لوگ اس کتاب کی بیش قیمت نصائح کی طرف دھیان نہیں کرتے۔ اور جب ادھر دھیان ہی نہیں تو سننا کیوں چاہیں گے۔ فرض کیجیے کانوں سے سن بھی لیا لیکن گوش دل سے نہ سنا اور قبول کرنے کی توفیق نہ ہوئی تو سنا ان سنا برابر ہے۔

۵۔۔۔     یعنی صرف اسی قدر نہیں کہ نصیحت کی طرف دھیان نہیں کرتے یا کان نہیں دھرتے، بلکہ ایسی باتیں کرتے ہیں جن کو سن کر ناصح بالکلیہ مایوس ہو جائے۔ اور آئندہ نصیحت سنانے کا ارادہ بھی ترک کر دے۔ مثلاً کہتے ہیں ہمارے دلوں پر تو تمہاری باتوں کی طرف سے غلاف چڑھے ہوئے ہیں اس لیے کوئی بات وہاں تک پہنچتی نہیں۔ اور جب تم بات کرتے ہو ہمارے کان اونچا سننے لگتے ہیں۔ ثقل سماع کی وجہ سے کچھ سنائی نہیں دیتا، اور ہمارے تمہارے درمیان ایسا پردہ ہے جو ایک کو دوسرے سے ملنے نہیں دیتا، دشمنی، اور عداوت کی جو دیواریں کھڑی ہیں وہ درمیان سے اٹھ جائیں اور جو خلیج حائل ہے وہ پر ہو، تب ہم میں سے ایک دوسرے تک پہنچ سکے۔ لیکن ایسا ہونا ناممکن ہے۔ پھر تم کیوں اپنا مغز تھکاتے ہو۔ ہم کو ہمارے حال پر چھوڑو، تم اپنا کام کیے جاؤ، ہم اپنا کام کریں گے۔ اس کی توقع مت رکھو کہ ہم کبھی تمہاری نصیحتوں سے متاثر ہونے والے ہیں۔

۶۔۔۔   یعنی نہ میں خدا ہوں کہ زبردستی تمہارے دلوں کو پھیر سکوں، نہ فرشتہ ہوں جس کے بھیجے جانے کی تم فرمائش کیا کرتے ہو نہ کوئی اور مخلوق ہوں، بلکہ تمہاری جنس و نوع کا ایک آدمی ہوں جس کی بات کا سمجھنا تم کو ہم جنسی کی بناء پر آسان ہونا چاہیے، اور وہ آدمی ہوں، جسے حق تعالیٰ نے اپنی آخری اور کامل ترین وحی کے لیے چن لیا ہے بناء ً علیہ خواہ تم کتنا ہی اعراض کرو اور کتنی ہی یاس انگیز باتیں کرو میں خدائی پیغام تم کو ضرور پہنچاؤں گا مجھے بذریعہ وحی بتلایا گیا ہے کہ تم سب کا معبود اور حاکم علی الاطلاق ایک ہے جس کے سوا کسی کی بندگی نہیں۔ لہٰذا سب کو لازم ہے کہ تمام شؤون و حوال میں سیدھے اسی خدائے واحد کی طرف رخ کر کے چلیں اس کے راستہ سے ذرا ادھر ادھر نہ قدم نہ ہٹائیں اور پہلے اگر ٹیڑھے ترچھے چلے ہیں تو اپنے پروردگار سے اس کی معافی چاہیں۔ اور اگلی پچھلی خطائیں بخشوائیں۔

۷۔۔۔     جن لوگوں کا معاملہ اللہ کے ساتھ یہ ہے کہ عاجز مخلوق کو اس کی بندگی میں شریک کرتے ہیں، اور بندوں کے ساتھ یہ ہے کہ صدقہ اور زکاۃ کا پیسہ کسی محتاج مسکین پر خرچ کرنے کے روا دار نہیں ساتھ ہی انجام کی طرف سے بالکل غافل اور بے فکر ہیں، کیونکہ انہیں تسلیم ہی نہیں کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی اور اچھے برے کا حساب کتاب بھی ہو گا۔ ایسوں کا مستقبل بجز ہلاکت اور خرابی و بربادی کے اور کیا ہونا ہے۔ (تنبیہ) بعض سلف نے یہاں "الزکوٰۃ" سے مراد کلمہ طیبہ لیا ہے۔ اور بعض نے "زکوٰۃ" کے معنی پاکیزگی اور ستھرائی کے لیے ہیں۔ مطلب یہ ہو گا کہ وہ لوگ اپنے نفس کو عقائد فاسدہ اور اخلاق ذمیمہ سے پاک و صاف نہیں کرتے۔ اس میں کلمہ طیبہ کا ترک اور زکوٰۃ وغیرہ کا ادا نہ کرنا بھی آگیا۔ وہذا کما قال "قد افلح من تزکی۔ وقال "قد افلح من زکہا۔" وقال "وحناناً من لدنا وزکوٰۃ۔" وغیرہ ذالک۔ شاید یہ معنی اس لیے یہاں لیے گئے ہوں کہ کفار مخاطب بالفروع نہیں یا اس لیے کہ آیت مکی ہے اور زکوٰۃ وغیرہ کی تشخیص مدینہ میں ہوئی۔ واللہ اعلم۔

۸۔۔۔   یعنی کبھی منقطع نہ ہو گا ابدالآباد تک جاری رہے گا۔ جنت میں پہنچ کر نہ ان کو فنا نہ ان کے ثواب کو۔

۹۔۔۔   یعنی کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ رب العالمین کی وحدانیت اور صفات کمالیہ کا انکار کرتے اور دوسری چیزوں کو اس کے برابر سمجھتے ہو جو ایک ذرہ کا اختیار نہیں رکھتیں۔

۱۰۔۔۔    ۱: "اور برکت رکھی اس کے اندر" یعنی قسم قسم کی کانیں، درخت، میوے، پھل، غلے اور حیوانات زمین سے نکلتے ہیں اور "ٹھہرائیں اس میں خوراکیں اس کی" یعنی زمین پر بسنے والوں کی خوراکیں ایک خاص اندازہ اور حکمت سے زمین کے اندر رکھ دیں۔ چنانچہ ہر اقلیم اور ہر ملک میں وہاں کے باشندوں کی طبائع اور ضروریات کے موافق خوراکیں مہیا کر دی گئی ہیں۔

۲: یہ سب کام چار دن میں ہوا دو روز میں زمین پیدا کی گئی اور دو روز میں اس کے متعلقات کا بندوبست ہوا ۔ جو پوچھے یا پوچھنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے بتلا دو کہ یہ سب مل کر چار دن ہوئے بدون کسر اور کمی بیشی کے ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی پوچھنے والوں کا جواب پورا ہوا

تنبیہ: یہاں دنوں سے مراد ظاہر ہے معروف و متبادر دن نہیں ہو سکتے کیونکہ زمین اور سورج وغیرہ کی پیدائش سے قبل ان کا وجود متصور ہی نہیں ۔ لامحالہ ان دنوں کی مقدار مراد ہو گی یا وہ دن مراد ہوں جس کی نسبت فرمایا ہے وَ اِنَّ یَوماً عِند ربک کالف سنۃمما تعدون

۱۱۔۔۔ ۱: یعنی پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت سارا ایک تھا دھوئیں کی طرح اس کو بانٹ کر سات آسمان کیے، جیسا کہ آگے آتا ہے

(تنبیہ) ممکن ہے "دخان" سے آسمانوں کے مادہ کی طرف اشارہ ہو۔

۲: یعنی ارادہ کیا کہ ان دونوں (آسمان و زمین) کے ملاپ سے دنیا بسائے۔ خواہ اپنی طبیعت سے ملیں یا زور سے ملیں۔ (بہرحال دونوں کو ملا کر ایک نظام بنایا تھا) وہ دونوں آملے اپنی طبیعت سے آسمان سے سورج کی شعاع آئی، گرمی پڑی، ہوائیں اٹھیں، ان سے گرد اور بھاپ اوپر چڑھی پھر پانی ہو کر مینہ برسا جس کی بدولت زمین سے طرح طرح کی چیزیں پیدا ہوئیں۔ اور پہلے جو فرمایا تھا کہ "زمین میں اس کی خوراکیں رکھیں۔" یعنی اس میں قابلیت ان چیزوں کے نکلنے کی رکھ دی تھی۔ واللہ اعلم۔

۱۲۔۔۔     ۱: یعنی چار دن وہ تھے اور دو دن میں آسمان بنائے کل چھ دن ہو گئے، جیسا کہ دوسری جگہ "ستۃ ایام" کی تصریح ہے۔

(تنبیہ) جن احادیث مرفوعہ میں تخلیق کائنات کے متعلق دونوں کی تعیین و ترتیب آئی ہے کہ فلاں فلاں چیز اللہ نے ہفتہ کے فلاں فلاں دن میں پیدا کی ان میں کوئی حدیث صحیح اب تک نظر سے نہیں گزری۔ حتیٰ کہ ابوہریرہ کی حدیث کے متعلق جو صحیح مسلم ہے ابن کثیر لکھتے ہیں۔ "وہومن غرائب الصحیح وقد عللہ البخاری فی التاریخ فقال رواہ بعضہم عن ابی ہریرۃ عن کعب الاحبار وہوالاصح۔" اور روح المعانی میں فقال شافعی سے نقل کیا ہے " تفردبہ مسلم و قد تکلم علیہ الحفاظ علی ابن المدینی والبخاری وغیرہما وجعلوہ من کلام کعب وان اباہریرۃ انما سمعہ منہ ولکن اشتبہ علی بعض الرواۃ فجعلہ مرفوعًا۔" (باقی قرآن کریم کی اس آیت اور سورہ "بقرہ" کی آیت "ثم استویٰ الی السماء فسوا ہن سبع سمواتٍ" سے جو ظاہر ہوتا ہے کہ سات آسمان زمین کی پیدائش کے بعد بنائے گئے۔ اور سورہ "نازعات" میں "والارض بعد ذلک دحٰہا" سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین آسمان کے بعد بچھائی گئی۔ اس کے جواب کئی طرح دیے گئے ہیں۔ احقر کو ابو حیان کی تقریر پسند ہے یعنی ضروری نہیں کہ پہلی آیت میں "ثم" اور دوسری میں "بعدذلک" تراخی زمان کے لیے ہو۔ ممکن ہے ان الفاظ سے تراخی فی الاخبار یا تراخی رتبی مراد لیں۔ جیسے "ثم کان من الذین اٰمنوا وتواصو بالصبر وتواصو بالمرحمۃ" میں۔ یا دوسری جگہ "عتل بعدذلک زنیم۔" میں یہ ہی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ بہرحال قرآن کریم میں ترتیب زمانی کی تصریح نہیں۔ ہاں نعمت کے تذکرہ میں زمین کا اور عظمت و قدرت کے تذکرہ میں آسمان کا ذکر مقدم رکھا ہے جس کا نکتہ ادنیٰ تامل و تدبر سے معلوم ہو سکتا ہے۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ یہ چند الفاظ اہل علم کی تنبیہ کے لیے لکھ دیے ہیں۔

۲: یعنی جو حکم جس آسمان کے مناسب تھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ رب کو معلوم ہے کہ وہاں کون مخلوق بستی ہے اور ان کا کیا اسلوب (اور رنگ ڈھنگ) ہے۔ اتنی زمین میں ہزاروں ہزار کارخانے ہیں تو اتنے بڑے آسمان کب خالی پڑے ہوں گے۔

۳: یعنی دیکھنے میں معلوم ہوتا ہے کہ گویا سب ستارے اسی آسمان میں جڑے ہوئے ہیں۔ رات کو ان قدرتی چراغوں سے آسمان کیسا پر رونق معلوم ہوتا ہے۔ پھر محفوظ کتنا کر دیا ہے کہ کسی کی وہاں تک دسترس نہیں۔ فرشتوں کے زبردست پہرے لگے ہوئے ہیں۔ کوئی طاقت اس نظام محکم میں رخنہ اندازی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ سب سے بڑی زبردست اور باخبر ہستی کا قائم کیا ہوا ہے۔

۱۳۔۔۔   یعنی کفار مکہ اگر ایسی عظیم الشان آیات سننے کے بعد بھی نصیحت قبول کرنے اور توحید و اسلام کی راہ اختیار کرنے سے اعراض کرتے رہیں تو فرما دیجئے کہ میں تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ تمہارا انجام بھی "عاد" و" ثمود" وغیرہ اقوام معذبین کی طرح ہو سکتا ہے۔

۱۴۔۔۔    ۱: یعنی ہر طرف سے۔ شاید بہت رسول آئے ہوں گے مگر مشہور یہ ہی دو رسول ہیں۔ حضرت ہود اور حضرت صالح علی نبینا وعلیہما الصلوٰۃ والسلام۔ اور یا "من بین ایدیہم و من خلفہم۔" سے مراد یہ ہو کہ ان کو ماضی اور مستقبل کی باتیں سمجھاتے ہوئے آئے۔ کوئی جہت اور کوئی پہلو نصیحت و فہمائش کا نہیں چھوڑا۔

۲: یعنی خدا کا رسول بشر کیسے ہو سکتا ہے اگر اللہ کو واقعی رسول بھیجنا ہے تو آسمان سے کسی فرشتہ کو بھیجتا۔ بہرحال تم اپنے زعم کے موافق جو باتیں خدا کی طرف سے لائے ہو ہم ان کے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

۱۵۔۔۔   ۱: شاید رسولوں نے جو عذاب کی دھمکی دی ہو گی اس کے جواب میں یہ کیا ہو کہ ہم سے زیادہ زور آور کون ہے جس سے ہم خوف کھائیں۔ کیا ہم جیسے طاقتور انسانوں پر تم اپنا رعب جما سکتے ہو؟ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ان کے جسم بہت بڑے بڑے ہوتے تھے۔ بدن کی قوت پر غرور آیا۔ غرور کا دم بھرنا اللہ کے ہاں وبال لاتا ہے۔

۲: یعنی دل میں ان کا حق ہونا سمجھتے تھے، مگر ضد اور عناد سے انکار کرتے چلے جاتے تھے۔

۱۶۔۔۔   ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ان کا غرور توڑنے کو ایک کمزور مخلوق سے ان کو تباہ کرا دیا۔ سات رات اور آٹھ دن مسلسل ہوا کا طوفان چلتا رہا۔ درخت آدمی، مکان، مواشی کوئی چیز نہ چھوڑی۔

۲: یعنی آخرت کی رسوائی تو بہت ہی بڑی ہے جو کسی کے ٹالے نہیں ٹلے گی، نہ وہاں کوئی مدد کر سکے گا۔ ہر ایک کو اپنی فکر پڑی ہو گی۔ محبت و ہمدردی کے بڑے بڑے مدعی آنکھیں چرائیں گے۔

۱۷۔۔۔     ۱: یعنی نجات کا راستہ جو ہمارے پیغمبر نے بتلایا تھا اس سے آنکھیں بند کر لیں اور اندھا رہنے کو پسند کیا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کی پسند کی ہوئی حالت میں انہیں پڑا چھوڑ دیا۔

۲: یعنی زلزلہ آیا جس کے ساتھ سخت ہولناک آواز تھی، اس آواز سے جگر پھٹ گئے۔

۱۸۔۔۔   یعنی جو لوگ ایمان لائے اور بدی کے راستہ سے بچ کر چلتے تھے ان کو اللہ نے صاف بچا لیا۔ نزول عذاب کے وقت ان پر ذرا آنچ بھی نہیں آئی۔

۱۹۔۔۔     یعنی ہر ایک قسم کے مجرموں کی الگ الگ جماعت ہو گی اور یہ سب جماعتیں ایک دوسرے کے انتظار میں جہنم کے قریب روکی جائیں گی۔

۲۰۔۔۔   دنیا میں کانوں سے آیات تنزیلیہ سنیں اور آنکھوں سے آیات تکوینیہ دیکھیں، مگر کسی کو نہ مانا۔ ہر بن مو سے خدا کی نافرمانی کرتے رہے یہ خبر نہ تھی کہ گناہوں کا یہ سارا ریکارڈ خود انہی کی ذات میں محفوظ ہے جو وقت پر کھول دیا جائے گا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر میں کفار اپنے جرائم کا زبان سے انکار کریں گے۔ اس وقت حکم ہو گا کہ ان کے اعضاء کی شہادت پیش کی جائے جن کے ذریعہ سے گناہ کیے تھے چنانچہ ہر ایک عضو شہادت دیے گا اور اس طرح زبان کی تکذیب ہو جائے گی۔ تب مبہوت و حیران ہو کر اپنے اعضاء کو کہے گا (کم بختو!) دور ہو جاؤ! تمہاری ہی طرف سے تو میں جھگڑتا اور مدافعت کر رہا تھا (تم خود ہی اپنے جرموں کا اعتراف کرنے لگے)

۲۱۔۔۔    ۱: یعنی جب میں زبان سے انکار کر رہا تھا تو تم پر ایسی کیا مصیبت پڑی تھی کہ خواہ مخواہ بتلانا شروع کر دیا اور آخر یہ بولنا تم کو سکھلایا کس نے۔

۲: یعنی جس کی قدرت نے ہر ناطق چیز کو بولنے کی قوت دی آج اسی نے ہم کو بھی گویا کر دیا۔ نہ بولتے اور بتلاتے تو کیا کرتے۔ جب وہ قادر مطلق بلوانا چاہے تو کس چیز کی مجال ہے کہ نہ بولے۔ جس نے زبان میں قوت گویائی رکھی، کیا ہاتھ پاؤں میں نہیں رکھ سکتا۔

۳: یہ مقولہ یا اللہ تعالیٰ کا ہے، یا جلود کا ہے۔ دونوں احتمال ہیں۔

۲۲۔۔۔   ۱: یعنی غیر سے چھپ کر گناہ کرتے تھے۔ یہ خبر نہ تھی کہ ہاتھ پاؤں بتلا دیں گے، ان سے بھی پردہ کریں۔ اور کرنا بھی چاہتے تو اس کی قدرت کہاں تھی۔

۲: یعنی اصل میں تمہارے طرز عمل سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا تم کو خدا تعالیٰ کے علم محیط کا یقین ہی نہ تھا سمجھتے تھے کہ جو چاہو کرتے رہو کون دیکھ بھال کرتا ہو گا۔ اگر پوری طرح یقین ہوتا کہ خدا ہماری تمہاری حرکات سے باخبر ہے اور اس کے ہاں ہماری پوری مسل محفوظ ہے تو ہرگز ایسی شرارتیں نہ کرتے۔

۲۴۔۔۔     حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی دنیا میں بعض بلاصبر سے آسان ہوتی ہے، وہاں صبر کریں یا نہ کریں، دوزخ گھر ہو چکا (جہاں سے کبھی نکلنا نہیں) اور بعض منت خوشامد کرنے سے ٹلتی ہے وہاں بہتیرا چاہیں کہ منت کریں، کوئی قبول نہیں کرتا۔

۲۵۔۔۔     ۱: یعنی ان پر شیطان تعینات تھے کہ ان کو برے کام جو پہلے کیے یا آگے کرتے، بھلے کر کے دکھلائیں اور تباہ کن ماضی و مستقبل کو خوبصورت بنا کر ان کے سامنے پیش کریں۔ اور یہ شیطانوں کا تعینات کیا جانا بھی ان کے اعراض عن الذکر کا نتیجہ تھا کما قال تعالیٰ "ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطاناً فہولہ قرین۔" (زخرف، رکوع۴)

۲: یعنی وہ ہی بات جو شروع میں کہی گئی تھی۔ "لاملان جہنم من الجنۃ والناس اجمعین۔" (ہود، رکوع۱۰)

۳: جب آدمی کو خسارہ آتا ہے تو اسی طرح آتا ہے اور ایسے ہی سامان ہو جاتے ہیں۔

۲۶۔۔۔   قرآن کریم کی آواز بجلی کی طرح سننے والوں کے دلوں میں اثر کرتی تھی۔ جو سنتا فریفتہ ہو جاتا اس سے روکنے کی تدبیر کفار نے یہ نکالی کہ جب قرآن پڑھا جائے، ادھر کان مت دھرو اور اس قدر شور و غل مچاؤ کہ دوسرے بھی نہ سن سکیں۔ اس طرح ہماری بک بک سے قرآن کی آواز دب جائے گی۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں کہ کام کی بات کو شور مچا کر سننے نہ دیا جائے۔ لیکن صداقت کی کڑک مچھروں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے کہاں مغلوب ہو سکتی ہے ان سب تدبیروں کے باوجود حق کی آواز قلوب کی گہرائیوں تک پہنچ کر رہتی ہے۔

۲۷۔۔۔    اس سے زیادہ برا کام کون سا ہو گا کہ خود نصیحت کی بات نہ سنے اور دوسروں کو بھی سننے نہ دے۔

۲۸۔۔۔   یعنی دل میں سمجھتے تھے، لیکن ضد اور تعصب و عناد سے انکار ہی کرتے رہتے تھے۔

۲۹۔۔۔    یعنی خیر ہم تو آفت میں پھنسے ہیں، لیکن آدمیوں اور جنوں میں سے جن شیطانوں نے ہم کو بہکا بہکا کر اس آفت میں گرفتار کرایا ہے ذرا انہیں ہمارے سامنے کر دیجئے کہ ان کو ہم اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں۔ اور نہایت ذلت و خواری کے ساتھ جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں دھکیل دیں تاکہ انتقام لے کر ہمارا دل کچھ تو ٹھنڈا ہو۔

۳۰۔۔۔   یعنی دل سے اقرار کیا اور اس پر قائم رہے اس کی ربوبیت و الوہیت میں کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا۔ نہ اس یقین و اقرار سے مرتے دم تک ہٹے، نہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلا۔ جو کچھ زبان سے کہا تھا اس کے مقتضاء پر اعتقاداً اور عملاً جمے رہے۔ اللہ کی ربوبیت کاملہ کا حق پہنچانا۔ جو عمل کیا خالص اس کی خوشنودی اور شکر گزاری کے لیے کیا، اپنے رب کے عائد کیے ہوئے حقوق و فرائض کو سمجھا اور ادا کیا۔ غرض ماسوا سے منہ موڑ کر سیدھے اسی کی طرف متوجہ ہوئے اور اسی کے راستہ پر چلے۔ ایسے مستقیم الحال بندوں پر موت کے قریب اور قبر میں پہنچ کر اور اس کے بعد قبروں سے اٹھنے کے وقت اللہ کے فرشتے اترتے ہیں جو تسکین و تسلی دیتے جنت کی بشارتیں سناتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب تم کو ڈرنے اور گھبرانے کا کوئی موقع نہیں رہا۔ دنیائے فانی کے سب فکر و غم ختم ہوئے اور کسی آنے والی آفت کا اندیشہ بھی نہیں رہا۔ اب ابدی طور پر ہر قسم کی جسمانی و روحانی خوشی اور عیش تمہارے لیے ہے اور جنت کے جو وعدے انبیاء علیہم السلام کی زبانی کیے گئے تھے، وہ اب تم سے ایفا کیے جانے والے ہیں۔ یہ وہ دولت ہے جس کے ملنے کا یقین حاصل ہونے پر کوئی فکر اور غم آدمی کے پاس نہیں پھٹک سکتا۔ (تنبیہ) بہت ممکن ہے کہ متقین و ابرار پر اس دنیاوی زندگی میں بھی ایک قسم کا نزول فرشتوں کا ہوتا ہو جو اللہ کے حکم سے ان کے دینی و دنیاوی امور میں بہتری کی باتیں الہام کرتے ہوں۔ جو ان کے شرح صدر اور تسکین و اطمینان کا موجب ہو جاتا ہو۔ جیسے ان کے بالمقابل ایک دو آیت پہلے گزر چکا ہے کہ کفار پر شیطان مسلط ہیں جو تزئین قبائح سے ان کے اغواء کا سامان کرتے ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ شیاطین کے حق میں بھی لفظ "تنزل" استعمال ہوا ہے۔ قال تعالیٰ "تنزل علی کل افاکٍ اثیمٍ یلقون السمع واکثر ہم کاذبون۔" (شعرائ، رکوع۱۱) بہرحال بعض مفسرین کے نزدیک یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں اور اس تقدیر پر اگلی آیت "نحن اولیاؤکم فی الحیوۃ الدنیا۔"زیادہ چسپاں ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔

۳۱۔۔۔   ۱: بعض نے اس کو اللہ کا کلام بتایا ہے۔ یعنی فرشتوں کا کلام اس سے پہلے ختم ہو چکا۔ اور اکثر کے نزدیک یہ بھی فرشتوں کا مقولہ ہے۔ گویا فرشتے یہ قول ان کے دلوں میں الہام کرتے ہیں اور ان کی ہمت بندھاتے ہیں۔ ممکن ہے اس زندگی میں بعض بندوں سے مشافہۃً بھی اتنے الفاظ کہتے ہوں اور ممکن ہے موت کے قریب یا اس کے بعد کہا جاتا ہو۔ اس وقت "نحن اولیاؤکم فی الحیوۃ الدنیا و فی الاخرۃ۔" کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے رفیق رہے ہیں کہ اللہ کے حکم سے باطنی طور پر تمہاری اعانت کرتے تھے، اور آخرت میں بھی رفیق رہیں گے کہ وہاں تمہاری شفاعت یا اعزازو کرام کا انتظام کریں۔

۲: یعنی جس چیز کی خواہش و رغبت دل میں ہو گی یا جو زبان سے طلب کرو گے سب کچھ ملے گا۔ اللہ کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔

۳۲۔۔۔     یعنی سمجھ لو! وہ غفور رحیم اپنے مہمان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرے گا۔ اور یہ کتنی بڑی عزت و توقیر ہے کہ ایک بندہ ضعیف رب العزت کا مہمان ہو۔

۳۳۔۔۔   پہلے "ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا۔" میں ان مخصوص مقبول بندوں کا ذکر تھا جنہوں نے صرف ایک اللہ کی ربوبیت پر اعتقاد جما کر اپنی استقامت کا ثبوت دیا۔ یہاں ان کے ایک اور اعلیٰ مقام کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی بہترین شخص وہ ہے جو خود اللہ کا ہو رہے، اسی کی حکم برداری کا اعلان کرے، اسی کی پسندیدہ روش پر چلے۔ اور دنیا کو اسی کی طرف آنے کی دعوت دے۔ اس کا قول و فعل بندوں کو خدا کی طرف کھینچنے میں موثر ہو جس نیکی کی طرف لوگوں کو بلائے بذات خود اس پر عامل ہو۔ خدا کی نسبت اپنی بندگی اور فرمانبرداری کا اعلان کرنے سے کسی موقع پر اور کسی وقت نہ جھجکے۔ اس کا طغرائے قومیت صرف مذہب اسلام ہو اور ہر قسم کی تنگ نظری اور فرقہ ورانہ نسبتوں سے یکسو ہو کر اپنے مسلم خالص ہونے کی منادی کرے اور اسی اعلیٰ مقام کی طرف لوگوں کو بلائے جس کی دعوت دینے کے لیے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی عمریں صرف کی تھیں۔

۳۴۔۔۔   ان آیات میں ایک سچے داعی الی اللہ کو جس حسن اخلاق کی ضرورت ہے، اس کی تعلیم دیتے ہیں۔ یعنی خوب سمجھ لو، نیکی بدی کے اور بدی نیکی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ دونوں کی تاثیر جداگانہ ہے۔ بلکہ ایک نیکی دوسری نیکی سے اور ایک بدی دوسری بدی سے اثر میں بڑھ کر ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک مومن قانت اور خصوصاً داعی الی اللہ کا مسلک یہ ہونا چاہیے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دے بلکہ جہاں تک گنجائش ہو برائی کے مقابلہ میں بھلائی سے پیش آئے۔ اگر کوئی اسے سخت بات کہے یا برا معاملہ کرے تو اس کے مقابل وہ طرز اختیار کرنا چاہیے جو اس سے بہتر ہو۔ مثلاً غصہ کے جواب میں بردباری، گالی کے جواب میں تہذیب و شائستگی اور سختی کے جواب میں نرمی اور مہربانی سے پیش آئے۔ اس طرز عمل کے نتیجہ میں تم دیکھ لو گے کہ سخت سے سخت دشمن بھی ڈھیلا پڑ جائے گا۔ اور گو دل سے دوست نہ بنے تاہم ایک وقت آئے گا جب وہ ظاہر میں ایک گہرے اور گرمجوش دوست کی طرح تم سے برتاؤ کرنے لگے گا۔ بلکہ ممکن ہے کہ کچھ دنوں بعد سچے دل سے دوست بن جائے اور دشمنی و عداوت کے خیالات یکسر قلب سے نکل جائیں۔ کما قال "عسی اللہ ان یجعل بینکم وبین الذین عادیتہم منہم مودۃ" (سورہ ممتحنہ، رکوع۲) ہاں کسی شخص کی طبیعت کی افتاد ہی سانپ بچھو کی طرح ہو کہ کوئی نرم خوئی اور خوش اخلاقی اس پر اثر نہ کرے وہ دوسری بات ہے مگر ایسے افراد بہت کم ہوتے ہیں۔ بہرحال دعوت الی اللہ کے منصب پر فائز ہونے والوں کو بہت زیادہ صبر و استقلال اور حسن خلق کی ضرورت ہے۔

۳۵۔۔۔    یعنی بہت بڑا حوصلہ چاہیے کہ بری بات سہار کر بھلائی سے جواب دیں۔ یہ اخلاق اور اعلیٰ خصلت اللہ کے ہاں سے بڑے قسمت والے خوش نصیب اقبال مندوں کو ملتی ہے۔ (ربط) یہاں تک اس حریف اور دشمن کے ساتھ معاملہ کرنا سکھلایا تھا جو حسن معاملہ اور خوش اخلاقی سے متاثر ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک دشمن وہ ہے جو کسی حال اور کسی نہج سے دشمنی نہیں چھوڑ سکتا۔ تم کتنی ہی خوشامد یا نرمی برتو، اس کا نصب العین یہ ہے کہ تم کو ہر طرح نقصان پہنچائے۔ ایسے پکے شیطان سے محفوظ رہنے کی تدبیر آگے تلقین فرمائی ہے۔

۳۶۔۔۔   یعنی ایسے شیطان کے مقابلہ میں نرمی اور عفو و درگزر سے کام نہیں چلتا۔ بس اس سے بچنے کی ایک ہی تدبیر ہے کہ خداوند قدوس کی پناہ میں آ جاؤ۔ یہ وہ مضبوط قلعہ ہے جہاں شیطان کی رسائی نہیں۔ اگر تم واقعی اخلاص و تضرع سے اللہ کو پکارو گے وہ ضرور تم کو پناہ دے گا۔ کیونکہ وہ ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ کس نے کتنے اخلاص و تضرع سے اس کو پکارا ہے۔ حضرت شاہ صاحب اس آیت کا پہلی آیت سے ربط ظاہر کرنے کی غرض سے لکھتے ہیں۔ "یعنی کبھی بے اختیار غصہ چڑھ آئے تو یہ شیطان کا دخل ہے۔" وہ نہیں چاہتا کہ تم حسن اخلاق پر کار بند ہو کر دعوت الی اللہ کے مقصد میں کامیابی حاصل کرو۔

۳۷۔۔۔   ۱: دعوت الی اللہ کے ساتھ چند دلائل سماویہ و ارضیہ بیان فرماتے ہیں جن سے داعی الی اللہ کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و وحدانیت اور بعث بعد الموت وغیرہ اہم مسائل کے سمجھانے میں مدد ملے۔ اس ضمن میں ادھر بھی اشارہ ہو گیا کہ ایک طرف خدا کے مخصوص بندے اپنے قول و عمل سے خدا کی طرف بلا رہے ہیں اور دوسری طرف چاند، سورج اور آسمان و زمین کا عظیم الشان نظم و نسق سوچنے والوں کو اسی خدائے واحد کی طرف آنے کی دعوت دے رہا ہے وفی کل شیءٍ لہ ایۃ تدل علی انہ واحد۔ انسان کو چاہیے کہ ان تکوینی نشانیوں میں الجھ کر نہ رہ جائے جیسے بہت سی قومیں رہ گئی ہیں، بلکہ لازم ہے کہ اس لامحدود قدرت والے مالک کے سامنے سرجھکائے جس کی یہ نشانیاں ہیں۔ اور جس کے حکم سے ان کی ساری نمود ہے اور ممکن ہے اس پر بھی تنبیہ ہو کہ جس طرح رات اور دن اور ان دونوں کی نشانیاں چاند اور سورج ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور اللہ تعالیٰ ان میں رد و بدل کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح اس کو قدرت ہے کہ دعوت الی اللہ کی روشنی اور داعی کی علو ہمت اور خوش اخلاقی کی بدولت مخاطبین کی کایا پلٹ کر دے اور تاریک فضا کو ایک روشن ماحول سے بدل دے۔

۲: سورج اور چاند وغیرہ کو پوجنے والے بھی زبان سے یہ ہی کہتے تھے کہ ہماری غرض ان چیزوں کی پرستش سے اللہ کی پرستش ہے۔ مگر اللہ نے بتلا دیا کہ یہ چیزیں پرستش کے لائق نہیں۔ عبادت کا مستحق صرف ایک خدا ہے۔ کسی غیر اللہ کی عبادت کرنا خدائے واحد سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے۔

۳۸۔۔۔     یعنی اگر غرور تکبر حق کے قبول کرنے سے مانع ہے اور باوجود وضوح دلائل توحید کے خدائے واحد کی عبادت کی طرف آنا نہیں چاہتے تھے تو نہ آئیں، اپنا ہی نقصان کریں گے۔ اللہ کو ان کی کیا پرواہ ہو سکتی کہ بیشمار ملائکہ مقربین شب و روز اس کی عبادت اور تسبیح و تقدیس میں مشغول رہتے ہیں، نہ کبھی تھکتے ہیں، نہ اکتاتے ہیں، اس کے سامنے یہ بیچارے کیا چیز ہیں اور ان کا غرور کیا چیز ہے۔ خواہ مخواہ کی جھوٹی شیخی کر کے اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔

۳۹۔۔۔   یعنی زمین کو دیکھو بیچاری چپ چاپ، ذلیل و خوار بوجھ میں دبی ہوئی پڑی رہتی ہے۔ خشکی کے وقت ہر طرف خاک اڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ لیکن جہاں بارش کا ایک چھینٹا پڑا۔ پھر اس کی تر و تازگی رونق اور ابھار قابل دید ہو جاتا ہے۔ آخر یہ انقلاب کس کے دست قدرت کے تصرف کا نتیجہ ہے۔ جس خدا نے اس طرح مردہ زمین کو زندہ کر دیا، کیا وہ مرے ہوئے انسانوں کے بدن میں دوبارہ جان نہیں ڈال سکتا؟ اور کیا وہ قادر مطلق مرے ہوئے دلوں کو دعوت الی اللہ کی تاثیر سے ازسر نو حیات تازہ عطا نہیں کر سکتا؟ بیشک وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ اس کی قدرت کے سامنے کوئی مانع و مزاحم نہیں۔

۴۰۔۔۔   یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کی زبان سے آیاتِ تنزیلیہ سن کر اور قرطاس دہر پر خدا کی آیاتِ کونیہ کو دیکھ کر بھی جو لوگ کجروی سے باز نہیں آتے اور سیدھی سیدھی باتوں کو واہی تباہی شبہات پیدا کر کے ٹیڑھی بناتے ہیں، یا خواہ مخواہ توڑ مروڑ کر ان کا مطلب غلط لیتے ہیں، یا یوں ہی جھوٹ موٹ کے عذر اور بہانے تراش کر ان آیات کے ماننے میں ہیر پھیر کرتے ہیں، ایسی ٹیڑھی چال چلنے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ ممکن ہے وہ لوگ اپنی مکاریوں اور چالاکیوں پر مغرور ہوں مگر خدا سے ان کی کوئی چال پوشیدہ ہیں۔ جس وقت سامنے جائیں گے دیکھ لیں گے فی الحال اس نے ڈھیل دے رکھی ہے۔ مجرم کو ایک دم نہیں پکڑتا۔ اسی لیے آگے فرما دیا۔ "اعملوا ماشئتم انہ بما تعملون بصیرً۔" یعنی اچھا جو تمہاری سمجھ میں آئے کیے جاؤ۔ مگر یاد رہے کہ تمہاری سب حرکات اس کی نظر میں ہیں ایک دن ان کا اکٹھا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اب خود سوچ لو کہ ایک شخص جو اپنی شرارتوں کی بدولت جلتی آگ میں گرے، اور ایک جو اپنی شرافت و سلامت روی کی بدولت ہمیشہ امن چین سے رہے۔ دونوں میں کون بہتر ہے؟

۴۱۔۔۔    یعنی وہ خواہ مخواہ اپنی کجروی سے نصیحت کی بات میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس میں جھوٹ کی گنجائش کسی طرف سے نہیں۔ وہ نصیحت کیا ہے؟ ایک صاف واضح اور مضبوط و محکم کتاب جس کا انکار ایک احمق یا شریر آدمی کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔

۴۲۔۔۔   یعنی اس کی اتاری ہوئی کتاب میں جھوٹ آئے تو کدھر سے آئے۔ اور جس کتاب کی حفاظت کا وہ ذمہ دار ہو، باطل کی کیا مجال ہے کہ اس کے پاس پھٹک سکے۔

۴۳۔۔۔   یعنی منکرین کا جو معاملہ آپ کے ساتھ ہے، یہ ہی ہر زمانہ کے منکرین کا پیغمبروں کے ساتھ رہا ہے پیغمبروں نے ہمیشہ خیر خواہی کی ہے، انہوں نے اس کے جواب میں ہر طرح کی تکلیفیں پہنچائیں۔ پھر جس طرح پیغمبروں نے سختیوں پر صبر کیا، آپ بھی صبر کرتے رہیے نتیجہ یہ ہو گا کہ کچھ لوگ توبہ کر کے راہ راست پر آ جائیں گے جن کے لیے خدا کے ہاں معافی ہے اور کچھ اپنی کجروی اور ضد پر قائم رہیں گے جو آخرکار دردناک سزا کے مستوجب ہوں گے۔

۴۴۔۔۔     ۱: یعنی ایک بات کو نہ ماننا ہو تو آدمی ہزار حیلے بہانے نکال سکتا ہے۔ کفار مکہ نے اور کچھ نہیں تو یہ ہی کہنا شروع کر دیا کہ صاحب! عربی پیغمبر کا معجزہ تو ہم اس وقت سمجھتے جب قرآن عربی کے سوا کسی اور زبان میں آتا۔ لیکن فرض کیجیے اگر ایسا ہوتا تو جھٹلانے کے لیے یوں کہنے لگتے کہ بھلا صاحب! کہیں ایسی بے جوڑ بات بھی دیکھی ہے، کہ رسول عربی، اور اس کی قوم بھی جو اولین مخاطب ہے عرب، مگر کتاب بھیجی جائے ایسی زبان میں جس کا ایک حرف بھی عرب لوگ نہ سمجھ سکیں۔

۲: یعنی لغو اور بیہودہ شبہات تو کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ہاں اس قدر تجربہ ہر ایک آدمی کر سکتا ہے کہ یہ کتاب مقدس اپنے اوپر ایمان لانے اور عمل کرنے والوں کی کیسی عجیب ہدایت و بصیرت اور سوجھ بوجھ عطا کرتی اور ان کے قرنوں اور صدیوں کے روگ مٹا کر کس طرح بھلا چنگا کر دیتی ہے۔

۳: یعنی جس طرح خفاش (شپرک) کی آنکھیں سورج کی روشنی میں چندھیا جاتی ہیں، ان منکروں کو بھی قرآن کی روشنی میں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس میں قرآن کا کیا قصور ہے۔ منکروں کو چاہیے کہ اپنی نگاہ کا ضعف و قصور محسوس کر کے علاج کی طرف متوجہ ہوں۔

۴: یعنی کسی کو دور سے آواز تو نہیں سنتا اور سنے تو اچھی طرح سمجھتا نہیں۔ اسی طرح منکرین قرآن بھی صداقت اور منبع صداقت سے اس قدر دور پڑے ہوئے ہیں کہ حق کی آواز ان کے دل کے کانوں تک نہیں پہنچتی اور کبھی پہنچتی ہے تو اس کا ٹھیک مطلب نہیں سمجھتے۔

۴۵۔۔۔   ۱: یعنی جیسے آج قرآن کے ماننے اور نہ ماننے والوں میں اختلاف پڑ رہا ہے۔ پہلے تورات کے متعلق بھی ایسا ہی اختلاف پڑ چکا ہے پھر دیکھ لو وہاں کیا انجام ہوا تھا۔

۲: بات وہ ہی نکل چکی کہ فیصلہ آخرت میں ہے۔

۳: یعنی مہمل شکوک و شبہات ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ ہر وقت دل میں کھٹکتے رہتے ہیں۔

۴۶۔۔۔      یعنی خدا کے ہاں ظلم نہیں۔ ہر آدمی اپنے عمل کو دیکھ لے۔ جیسا کرے گا وہ ہی سامنے آئے گا۔ نہ کسی کی نیکی اس کے ہاں ضائع ہو گی نہ ایک کی بدی دوسرے پر ڈالی جائے گی (ربط) چونکہ نیکی بدی کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن ملے گا اور کفار اکثر سوال کرتے تھے کہ قیامت کب آئے گی، اس لیے اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔ "الیہ یردعلم الساعۃ" الخ۔

۴۷۔۔۔   ۱: یعنی اسی کو خبر ہے کہ قیامت کب آئے گی۔ بڑے سے بڑا نبی اور فرشتہ بھی اس کے وقت کی تعیین نہیں کر سکتا۔ جس سے دریافت کرو گے۔ یہ ہی کہے گا "مَا الْمَسْؤلُ عَنْہَا بِاَعْلَمُ مِنَ السَّآئِل

۲: یعنی علم الٰہی ہر چیز کو محیط ہے۔ کوئی کھجور اپنے گابھے سے اور کوئی دانہ اپنے خوشہ اور کوئی میوہ یا پھل اپنے غلاف سے باہر نہیں آتا جس کی خبر خدا کو نہ ہو۔ نیز کسی عورت یا کسی مادہ (جانور) کے پیٹ میں جو بچہ موجود ہے اور جو چیز وہ جن رہی ہے سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ اسی طرح سمجھ لو کہ موجودہ دنیا کے نتیجہ کے طور پر جو آخرت کا ظہور اور قیامت کا وقوع ہونے والا ہے اس کا وقت بھی خدا ہی کو معلوم ہے کہ کب آئے گا۔ کوئی انسان یا فرشتہ اس کی خبر نہیں رکھتا۔ اور نہ اس کو خبر رکھنے کی ضرورت۔ ضرورت اس کی ہے کہ آدمی قیامت کی خبر پر اللہ کے فرمانے کے موافق یقین رکھے اور اس دن کی فکر کرے جب کوئی شریک کام نہ آئے گا اور کہیں مخلص نہ ملے گا۔

۳: یعنی جن کو میری خدائی میں شریک ٹھہراتے تھے اب بلاؤ نا، وہ کہاں ہیں؟

۴: یعنی ہم تو آپ سے صاف عرض کر چکے ہیں کہ ہم میں کوئی اقبالی مجرم نہیں جو اس جرم (شرک) کا اعتراف کرنے کو تیار ہو (گویا اس وقت نہایت دیدہ دلیری سے جھوٹ بول کر واقعہ کا انکار کرنے لگیں گے) اور بعض نے شہید کو بمعنی شاہد لے کر یہ مطلب لیا ہے کہ اس وقت ہم میں سے کوئی ان شرکاء کو یہاں نہیں دیکھتا۔

۴۸۔۔۔     یعنی دنیا میں جنہیں خدا کا شریک بنا کر پکارتے تھے آج ان کا کہیں پتہ نہیں۔ وہ اپنے پرستاروں کی مدد کو نہیں آتے۔ اور پرستاروں کے دلوں سے بھی وہ پکارنے کے خیالات اب غائب ہو گئے انہوں نے بھی سمجھ لیا کہ خدائی سزا سے بچنے کی اب کوئی سبیل نہیں۔ اور گلو خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ آخر آس توڑ کر بیٹھ رہے۔ اور جن کی حمایت میں پیغمبروں سے لڑتے تھے آج ان سے قطعاً بے تعلقی اور بیزاری کا اظہار کرنے لگے۔

۵۰۔۔۔     ۱: یعنی انسان کی طبیعت عجیب طرح کی ہے۔ جب دنیا کی ذرا سی بھلائی پہنچے اور کچھ عیش و آرام و تندرستی نصیب ہو، تو مارے حرص کے چاہتا ہے کہ اور زیادہ مزے اڑائے۔ کسی حد پر پہنچ کر اس کی حرص کا پیٹ نہیں بھرتا، اگر بس چلے تو ساری دنیا کی دولت لے کر اپنے گھر میں ڈال لے۔ لیکن جہاں ذرا کوئی افتاد پڑنا شروع ہوئی اور اسباب ظاہری کا سلسلہ اپنے خلاف دیکھا تو پھر مایوس اور نا امید ہوتے بھی دیر نہیں لگتی۔ اس وقت اس کا دل فوراً آس توڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی نظر صرف پیش آمدہ اسباب پر محدود ہوتی ہے۔ اس قادر مطلق مسبب الاسباب پر اعتماد نہیں رکھتا جو چاہے تو ایک آن میں سلسلہ اسباب کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دے۔ اس مایوسی کے بعد اگر فرض کیجیے اللہ نے تکلیف و مصیبت دور کر کے اپنی مہربانی سے پھر عیش و راحت کا سامان کر دیا تو کہنے لگتا ہے "ہذا الی" یعنی میں نے فلاں تدبیر کی تھی، میری تدبیر اور لیاقت و فضیلت سے یوں ہی ہونا چاہیے تھا اب نہ خدا کی مہربانی یاد رہی نہ اپنی وہ مایوسی کی کیفیت جو چند منٹ پہلے قلب پر طاری تھی۔ اب عیش و آرام کے نشہ میں ایسا مخمور ہو جاتا ہے کہ آئندہ بھی کسی مصیبت اور تکلیف کے پیش آنے کا خطرہ نہیں رہتا۔ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ اسی حالت میں رہوں گا۔ اور اگر کبھی تاثرات کے دوران میں قیامت کا نام سن لیتا ہے تو کہتا ہے کہ میں تو خیال نہیں کرتا کہ یہ چیز کبھی ہونے والی ہے۔ اور فرض کرو ایسی نوبت آہی گئی اور مجھ کو لوٹ کر اپنے رب کی طرف جانا ہی پڑا تب بھی مجھے یقین ہے وہاں میرا انجام بہتر ہو گا۔ اگر میں خدا کے نزدیک برا اور نالائق ہوتا تو دنیا میں مجھ کو یہ عیش و بہار کے مزے کیونکر ملتے۔ لہٰذا وہاں بھی توقع ہے کہ یہ ہی معاملہ میرے ساتھ ہو گا۔

۲: یعنی خوش ہو لو کہ اس کفرو غرور کے باوجود وہاں بھی مزے لوٹو گے۔ وہاں پہنچ کر پتہ لگ جائے گا کہ منکروں کو کیسی سخت سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ اور کس طرح عمر بھر کے کرتوت سامنے آتے ہیں۔

۵۱۔۔۔     یعنی اللہ کی نعمتوں سے متمتع ہونے کے وقت تو منعم کی حق شناسی اور شکر گزاری سے اعراض کرتا اور بالکل بے پروا ہو کر ادھر سے کروٹ بدل لیتا ہے۔ پھر جب کوئی تکلیف اور مصیبت پیش آتی ہے تو اسی خدا کے سامنے ہاتھ پھیلا کر لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتا ہے۔ شرم نہیں آتی کہ اب اسے کس منہ سے پکارے۔ اور تماشا یہ ہے کہ بعض اوقات اسباب پر نظر کر کے دل اندر سے مایوس ہوتا ہے۔ اس حالت میں بھی بدحواس اور پریشان ہو کر دعا کے ہاتھ بے اختیار خدا کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔قلب میں نا امیدی بھی ہے اور زبان پر یا اللہ بھی، حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ سب بیان ہے انسان کے نقصان (و قصور) کا نہ سختی میں صبر ہے نہ نرمی میں شکر۔'

۵۲۔۔۔   اوپر انسان کی طبیعت کا عجیب و غریب نقشہ کھینچ کر اس کی کمزوریوں اور بیماریوں پر نہایت موثر انداز میں توجہ دلائی تھی۔ اب تنبیہ کرتے ہیں کہ یہ کتاب جو تمہاری کمزوریوں پر گاہ کرنے والی اور انجام کی طرف توجہ دلانے والی ہے، اگر خدا کے پاس سے آئی ہو (جیسا کہ واقع میں ہے) پھر تم نے اس کو نہ مانا، اور ایسی اعلیٰ اور بیش قیمت نصائح سے منکر رہ کر اپنی عاقبت کی فکر نہ کی، بلکہ حق کی مخالفت میں دور ہوتے چلے گئے تو کیا اس سے بڑھ کر گمراہی اور نقصان و خسارہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔

۵۳۔۔۔    ۱: یعنی قرآن کی حقانیت کے دوسرے دلائل و براہین تو بجائے خود رہے۔ اب ہم ان منکروں کو خود ان کی جانوں میں اور ان کے چاروں طرف سارے عرب بلکہ ساری دنیا میں اپنی قدرت کے وہ نمونے دکھلائیں گے جن سے قرآن اور حال قرآن کی صداقت بالکل روز روشن کی طرح آنکھوں سے نظر آنے لگے۔ وہ نمونے کیا ہیں؟ وہ ہی اسلام کی عظیم الشان اور محیر العقول فتوحات جو سلسلہ اسباب ظاہری کے بالکل برخلاف قرآنی پیشین گوئیوں کے عین مطابق وقوع پذیر ہوئیں۔ چنانچہ معرکہ "بدر" میں کفار مکہ نے خود اپنی جانوں کے اندر اور "فتح مکہ" میں مرکز عرب کے اندر اور خلفائے راشدین کے عہد میں تمام جہان کے اندر یہ نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ "آیات" سے عام نشانہائے قدرت مراد ہوں جو غور کرنے والوں کو اپنے وجود میں اور اپنے وجود سے باہر تمام دنیا کی چیزوں میں نظر آتے ہیں جن سے حق تعالیٰ کی وحدانیت وعظمت کا ثبوت ملتا ہے اور قرآن کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ جبکہ وہ ان سنن الٰہیہ اور نوامیس فطریہ کے موافق ثابت ہوتے ہیں جو اس عالم تکوین میں کارفرما ہیں۔ اس قسم کے تمام حقائق کونیہ اور آیات آفاقیہ و انفسیہ کا انکشاف چونکہ لوگوں کو دفعتاً نہیں ہوتا، بلکہ وقتاً فوقتاً بتدریج ان کے چہرہ سے پردہ اٹھتا رہتا ہے۔ اس لیے "سَنَرِیْہِمْ اَیَاتِنَا" سے تعبیر فرمایا۔

۲: یعنی قرآن کی حقانیت کو فرض کرو کوئی نہ مانے، تو اکیلے خدا کی گواہی کیا تھوڑی ہے جو ہر چیز پر گواہ ہے اور ہر چیز میں غور کرنے سے اس کی گواہی کا ثبوت ملتا ہے۔

۵۴۔۔۔   یعنی یہ اس دھوکے میں ہیں کہ کبھی خدا سے ملنا اور اس کے سامنے جانا نہیں۔ حالانکہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے کسی وقت بھی اس کے قبضہ اور احاطہ سے نکل کر نہیں جا سکتے۔ اگر مرنے کے بعد ان کے بدن کے ذرات مٹی میں مل جائیں یا پانی میں بہہ جائیں یا ہوا میں منتشر ہو جائیں تب بھی ایک ایک ذرہ پر اللہ کا علم اور قدرت محیط ہے۔ ان کو جمع کر کے از سر نو زندہ کر دینا کچھ مشکل نہیں۔ تمت سورۃ حم السجدۃ فلہ الحمد والمنۃ۔