تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الانفِطار

۳ ۔۔۔      یعنی سمندر کا پانی زمین پر زور کرے۔ آخر میٹھے اور کھاری سب پانی مل جائیں ۔

 ۴ ۔۔۔  یعنی جو چیز زمین کی تہ میں تھی اوپر آ جائے۔ اور مردے قبروں سے نکالے جائیں ۔

۵ ۔۔۔     یعنی جو بھلے برے کام کئے یا نہیں کئے شروع عمر میں کئے یا اخیر میں ۔ ان کا اثر اپنے پیچھے چھوڑا یا نہیں چھوڑا۔ سب اس وقت سامنے آ جائیں گے۔

۶ ۔۔۔      یعنی وہ رب کریم کیا اس کا حقدار تھا کہ تو اپنے جہل و حماقت سیاس کے حلم پر مغرور ہو کر نافرمانیاں کرتا رہے؟ اور اس کے لطف وکرم کا جواب کفران و طغیان سے دے؟ اس کا کرم دیکھ کر تو اور زیادہ شرمانا اور حلیم کے غصہ سے بہت زیادہ ڈرنا چاہیے تھا۔ بیشک وہ کریم ہے لیکن منتقم اور حکیم بھی ہے۔ پھر یہ غرور اور دھوکا نہیں تو اور کیا ہو گا کہ اس کی ایک صفت کو لے کر دوسری صفات سے آنکھیں بند کر لی جائیں ۔

۷ ۔۔۔    حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "ٹھیک کیا بدن میں برابر کیا خصلت میں " یا یہ مطلب ہے کہ تیرے اعضاء کے جوڑ بند درست کئے اور حکمت کے موافق ان میں تناسب رکھا۔ پھر مزاج و اخلاط میں اعتدال پیدا کیا۔

۸ ۔۔۔      یعنی سب کی صورتوں میں تھوڑا بہت تفاوت رکھا۔ ہر ایک کو الگ صورت شکل اور رنگ روپ عنایت کیا اور بحیثیت مجموعی انسان کی صورت کو تمام جانداروں کی صورت سے بہتر بنایا۔ بعض سلف اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ وہ چاہتا تو تجھے گدھے، کتے، خنزیر کی شکل و صورت میں ڈال دیتا۔ باوجود اس قدرت کے محض اپنے فضل اور مشیت سے انسانی صورت میں رکھا۔ بہرحال جس خدا کی یہ قدرت ہو اور ایسے انعامات ہوں ، کیا اس کے ساتھ آدمی کو یہ ہی معاملہ کرنا چاہئے۔

۹ ۔۔۔      یعنی بہکنے اور دھوکا کھانے کی اور کوئی وجہ نہیں ۔ بات یہ ہے کہ تم انصاف کے دن پر یقین نہیں رکھتے ہو کہ جو چاہیں کرتے رہیں ، آگے کوئی حساب اور باز پرس نہیں ۔ یہاں جو کچھ عمل ہم کرتے ہیں کون ان کو لکھتا اور محفوظ کرتا ہو گا۔ جس کی تفصیل آگے بیان کی۔

۱۲ ۔۔۔       جو نہ خیانت کرتے ہیں نہ کوئی عمل لکھے بغیر چھوڑتے ہیں ۔ نہ ان سے تمہارے اعمال پوشیدہ ہیں جب سب عمل ایک ایک کر کے اس اہتمام سے لکھے جا رہے ہیں تو کیا یہ سب دفتر یوں ہی بیکار چھوڑ دیا جائے گا؟ ہرگز نہیں ۔ یقیناً ہر شخص کے اعمال اس کے آگے آئیں گے اور اس کا اچھا برا پھل چکھنا پڑے گا۔ جس کی تفصیل آگے بیان کی۔

۱۳ ۔۔۔      جہاں ہمیشہ کے لئے ہر قسم کی نعمتوں اور راحتوں میں رہنا ہو گا، اگر نکلنے کا کھٹکا لگا رہتا تو راحت ہی کیا ہوتی۔

۱۶ ۔۔۔       یعنی نہ بھاگ کر اس سے الگ رہ سکتے ہیں نہ داخل ہونے کے بعد کبھی نکل کر جا سکتے ہیں ۔ ہمیشہ وہیں رہنا ہے۔

۱۹ ۔۔۔      ۱: یعنی کتنا ہی سوچو اور غور کرو، پھر بھی اس ہولناک دن کی پوری کیفیت سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ بس مختصراً اتنا سمجھ لو کہ اس دن جتنے رشتے ناطے خویشی اور آشنائی کے ہیں سب نیست و نابود ہو جائیں گے۔ سب نفسی نفسی پکارتے ہوں گے۔ کوئی شخص بدون حکم مالک الملک کے کسی کی سفارش نہ کر سکے گا۔ عاجزی، چاپلوسی اور صبرو استقلال کچھ کام نہ دے گا۔"الا من رحم اللّٰہ"۔

۲: یعنی دنیا میں جس طرح بادشاہ کا حکم رعیت پر، ماں باپ کا اولاد پر، اور آقا کا نوکر پر جاری ہوتا ہے اس دن یہ سب حکم ختم ہو جائیں گے اور اس شہنشاہِ مطلق کے سوا کسی کو دم مارنے کی قدرت نہ ہو گی تنہا بلا شرکت غیرے ظاہراً و باطناً اسی کا حکم چلے گا۔ اور سارے کام حس آ و معناً اکیلے اسی کے قبضہ میں ہوں گے۔