تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ هُود

۱ ۔۔۔  یعنی یہ قرآن کریم وہ عظیم الشان اور جلیل القدر کتاب ہے جس کی آیتیں لفظی و معنوی ہر حیثیت سے نہایت جچی تلی ہیں۔ نہ ان میں تناقض ہے نہ کوئی مضمون حکمت یا واقعہ کے خلاف ہے نہ باعتبار معجزانہ فصاحت و بلاغت کے ایک حرف پر نکتہ چینی ہو سکتی ہے جس مضمُون کو جس عبارت میں ادا کیا ہے محال ہے کہ اس سے بہتر تعبیر ہو سکے۔ الفاظ کی قبا معانی کی قامت پر ذرا بھی نہ ڈھیلی ہے نہ تنگ۔ جن اصول و فروع، اخلاق و اعمال اور قیمتی پند و نصیحت پر یہ آیات مشتمل ہیں اور جو دلائل و براہین اثبات دعاوی کے لیے استعمال کی گئی ہیں۔ وہ سب علم و حکمت کے کانٹے میں تلی ہوئی ہیں۔ قرآنی حقائق و دلائل ایسے مضبوط و محکم ہیں کہ زمانہ کتنی ہی پلٹیاں کھائے ان کے بدلنے یا غلط ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ عالم کے مزاج کی پوری تشخیص کر کے اور قیامت تک پیش آنے والے تغیرات و حوادث کو من کل الوجوہ جانچ تول کر ایسی معتدل اور ابدی غذائے روح، مائدہ قرآنی کے ذریعے سے پیش کی گئی ہے جو تناول کرنے والوں کے لیے ہر وقت اور ہر حالت میں مناسب و ملائم ہو۔ ان تمام حکیمانہ خوبیوں کے باوجود یہ نہیں کہ اجمال و ابہام کی وجہ سے کتاب معمہ اور چیستان بن کر رہ جاتی بلکہ معاش و معاد کی تمام مہمات کو خوب کھول کر سمجھایا ہے اور موقع بہ موقع دلائل توحید، احکام، مواعظ، قصص، ہر چیز بڑی خوبصورتی اور قرینہ سے الگ الگ رکھی ہے۔ اور تمام ضروریات کا کافی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ نزولی حیثیت میں بھی یہ حکمت مرعی رہی ہے کہ پورا قرآن ایک دم نہیں اتارا بلکہ وقتاً فوقتاً موقع و مصلحت کے لحاظ سے علیٰحدہ علیٰحدہ آیات کا نزول ہوتا رہا۔ قرآن میں ان تمام باریکیوں کو مجتمع دیکھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ مگر حیرت کی کوئی وجہ نہیں۔ اگر حکیم مطلق اور خبیر برحق کے کلام میں سب حکمتیں اور خوبیاں جمع نہ ہوں گی تو اور کس کلام میں توقع کی جا سکتی ہے۔

۲ ۔۔۔ ۱: یعنی اس محکم و مفصل کتاب کے نازل کرنے کا بڑا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو صرف خدائے واحد کی عبادت کی طرف دعوت دی جائے اور اس کے طریقے سکھائے جائیں۔ اسی عظیم و جلیل مقصد کے لیے پہلے انبیاء تشریف لائے تھے۔ "وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہ، لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدُوْنِ" (الانبیاء، رکوع ٢، آیت:٢۵) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُ مَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوْتَ۔" (النحل، رکوع ۵، آیت:۳۶)

۲: یعنی جو کتاب کو مانے اور شرک چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کرے اسے فلاح دارین کی خوشخبری سناتے ہیں۔ جو نہ مانے اور کفر و شرک اختیار کرے اس کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہیں۔

۳ ۔۔۔۱:   جو پچھلی تقصیرات معاف کرائے اور آئندہ کے لیے خدا کی طرف دل سے رجوع ہو، تو دنیا کی زندگی اچھی طرح گزرے کیونکہ مومن قانت خواہ کسی حال میں ہو مگر خدا کے فضل و کرم کی بڑی بڑی امیدیں رکھتا ہے وہ حق تعالیٰ کی رضا جوئی اور مستقبل کی عظیم الشان خوشحالی کے تصور میں اس قدر مگن رہتا ہے کہ یہاں کی بڑی بڑی سختیوں کو خاطر میں نہیں لاتا وہ جب خیال کرتا ہے کہ میں اپنی زندگی کے فرائض صحیح طور پر انجام دے رہا ہوں جس کا صلہ مجھ کو ضرور ایک دن عرش والی سرکار سے ملنے والا ہے تو اپنی کامیابی اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر اعتماد کر کے اس کا دل جوش مسرت سے اچھلنے لگتا ہے۔ اسے دنیا کی تھوڑی سی پونجی میں وہ سکون قلبی اور راحت باطنی نصیب ہوتی ہے جو بادشاہوں کو بیشمار سامانوں اور اموال و خزائن سے حاصل نہیں ہو سکتی، بلکہ بعض اوقات یہاں کے چند روزہ تکلیفوں اور سختیوں میں وہ لذت پاتے ہیں جو اغنیاء و ملوک اپنے عیش و تنعم میں محسوس نہیں کرتے۔ ایک محب وطن سیاسی قیدی کو اگر فرض کیجئے یقین ہو جائے کہ میری اسیری سے ملک اجنبیوں کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا اور مجھے قید سے نکلتے ہی ملک کی جمہوریہ کا صدر بنا دیا جائے گا تو کیا اسے جیل خانہ کی بند کوٹھڑی میں سرور و اطمینان کی کیفیت اس بادشاہ سے زیادہ حاصل نہ ہو گی؟ جس کے لیے ہر قسم کا سامان عیش و طرب فراہم ہیں مگر اندیشہ لگا ہوا ہے کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر نہایت ذلت کے ساتھ تخت شاہی سے اتارا جانے والا ہے۔ اس پر دنیا کے جیل خانہ میں ایک مومن قانت کی زندگی کو قیاس کر لو۔

۲: جو جس قدر زیادہ بڑھ کر عمل کرے گا اسی قدر خدا کے فضل سے زیادہ حصہ پائے گا۔ آخرت میں اجر و ثواب اور دنیا میں مزید طمانیت حاصل ہو گی۔

۳: یعنی میری بات نہ مانو گے تو عذاب قیامت یقینی ہے، باقی یہ فرمانا کہ "میں ڈرتا ہوں" اس سے مقصود حضور کی عام شفقت و ہمدردی، خلائق کا اظہار کرنا ہے۔

۵ ۔۔۔  سزا دینے کے لیے ضروری ہے کہ مجرم حاضر ہو، حاکم سزا دینے کی پوری قدرت اور کامل اختیار رکھتا ہو۔ مجرمین کی کل کارروائیاں اس کے علم میں ہوں۔ "الی مرجعکم"میں بتلا دیا کہ مجرم وغیر مجرم سب کو خدا کے یہاں حاضر ہونا ہے۔ "وہو علیٰ کل شیءٍ قدیر" میں قدرت و اختیار کا عموم بیان فرمایا اور "اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَہُمْ" سے "بِذَاتِ الصُّدُوْرِ" تک اس کے علم محیط کی وسعت کو ظاہر کیا کہ خدا ہر کھلی چھپی چیز کو یکساں جانتا ہے حتیٰ کہ دلوں کی تہ میں جو خیالات، ارادے اور نیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں ان پر بھی مطلع ہے۔ پھر کوئی مجرم اپنے جرم کو کس طرح اس سے مخفی رکھ کر نجات پا سکتا ہے۔ (تنبیہ) ان آیات کے شانِ نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح ترین روایت ابن عباس کی بخاری میں ہے کہ بعض مسلمانوں پر حیاء کا اس قدر حد سے زیادہ غلبہ ہوا کہ استنجا یا جماع وغیرہ ضروریاتِ بشری کے وقت کسی حصہ بدن کو برہنہ کرنے سے شرماتے تھے کہ آسمان والا ہم کو دیکھتا ہے۔ برہنہ ہونا پڑتا تو غلبہ حیاء سے جھکے جاتے اور شرم گاہ کو چھپانے کے لیے سینہ کو دوہرا کئے لیتے تھے۔ اس طرح کے آثار کبھی کبھی غایت تادب مع اللہ اور غلبہ حیاء سے ناشی ہو سکتے ہیں۔ اور ایسے لوگ "صوفیہ" کی اصطلاح میں "مغلوب الحال" کہلاتے ہیں چونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا کسی مسئلہ میں ایسا غلو اور تعمق آئندہ امت کو ضیق میں مبتلا کر سکتا تھا اس لیے قرآن نے "اَلاَحِیْنَ یَسْتَغْشَوْنَ ثِیابَھُمْ "سے ان کی اصلاح فرما دی یعنی اگر بوقت ضرورت بدن کو کھولنے میں خدا سے حیاء آتی ہے اس لیے جھکے جاتے ہو تو غور کرو کہ کپڑے پہننے کی حالت میں تمہارا ظاہر و باطن کیا خدا کے سامنے نہیں ہے؟ جب انسان اس سے کسی وقت نہیں چھپ سکتا پھر ضروریات بشریہ کے متعلق اس قدر غلو سے کام لینا ٹھیک نہیں۔ واضح ہو کہ ربط آیات کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک آیت کا مضمون دوسری کے مضمون سے مناسبت رکھتا ہو، سبب نزول سے مناسبت رکھنا ضروری نہیں۔

۶ ۔۔۔ ۱:  پہلے علم الٰہی کی وسعت بیان ہوئی تھی یہ اسی مضمون کا تکملہ ہے۔ یعنی زمین پر چلنے والا ہر جاندار جسے رزق کی احتیاج لاحق ہو، اس کو روزی پہنچانا خدا نے محض اپنے فضل سے اپنے ذمہ لازم کر لیا ہے۔ جس قدر روزی جس کے لیے مقدر ہے یقیناً پہنچ کر رہے گی۔ جو وسائل و اسباب بندہ اختیار کرتا ہے، وہ روزی پہنچنے کے دروازے ہیں۔ اگر آدمی کی نظر اسباب و تدابیر اختیار کرتے وقت مسبب الاسباب پر ہو تو یہ توکل کے منافی نہیں البتہ خدا کی قدرت کو ان اسباب عادیہ میں محصور و مقید نہ سمجھا جائے۔ وہ گاہ بگاہ سلسلہ اسباب کو چھوڑ کر بھی روزی پہنچاتا یا اور کوئی کام کر دیتا ہے بہرحال جب تمام جانداروں کی حسب استعداد غذاء اور معاش مہیا کرنا حق تعالیٰ کا کام ہے تو ضروری ہے کہ اس کا علم ان سب پر محیط ہو ورنہ ان کی روزی کی خبر گیری کیسے کر سکے گا۔

۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "مستقر" (جہاں ٹھہرتا ہے) بہشت و دوزخ اور مُستَودَع (جہاں سونپا جاتا ہے) اس کی قبر ہے۔ "وَمَامِنْ دَآبَّۃٍ" الخ میں دنیاوی زندگی کا بیان تھا۔ یہاں برزخ اور آخرت کا بیان ہوا۔ مطلب یہ ہوا کہ خدا ابتداء سے انتہاء تک تمہاری ہستی کے تمام درجات کا علم رکھتا ہے۔ "مستقر" و "مستودع" کی تعیین میں مفسرین کے بہت اقوال ہیں پہلے سورہ "انعام" میں بھی ہم کچھ لکھ چکے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا کہ زمین میں جہاں تک چلے پھرے اس کی منتہائے سیر کو مستقر اور پھر پھرا کر جس ٹھکانے پر آئے اسے "مستودع" کہتے ہیں۔ ابن عباس کے نزدیک اس زندگی میں جہاں رہے وہ "مستقر" اور موت کے بعد جہاں دفن کیا جائے وہ "مستودع" ہے، مجاہد نے "مستقر" سے رحم مادر اور "مستودع" سے صلب پدر مراد لی ہے۔ عطاء نے اس کے عکس کا دعویٰ کیا بعض متفلسفین کا خیال ہے کہ زمین میں حیوانات کا جو مسکن بالفعل ہے اسے "مستقر" اور وجود فعلی سے پہلے جن مواد و مقدار میں رہ کر آئے انہیں "مستودع" کہا گیا ہے یعنی حق تعالیٰ ان تمام مختلف مواد اور اطوار و ادوار کا عالم ہے جن میں سے کوئی حیوان گزر کر اپنی موجودہ ہیئت کذائی تک پہنچا ہے۔ وہ ہی اپنے علم محیط سے ہر مرتبہ وجود میں اس کی استعداد کے مناسب وجود و کمالات وجود فائض کرتا ہے۔

۳:  یعنی "لوح محفوظ" میں جو صحیفہ علم الٰہی ہے۔ پھر علم الٰہی میں ہر چیز کیسے موجود نہ ہو گی۔

۷ ۔۔۔ ۱: یہ علم کے بعد قدرت کا بیان ہے۔ اس کی تفسیر سورہ "اعراف" کے ساتویں رکوع میں گزر چکی۔

۲: یعنی آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے پانی مخلوق ہوا جو آئندہ اشیاء کا مادہ حیات بننے والا تھا۔ "وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْ ءٍ حَیٍّ" (الانبیاء، رکوع ۳، آیت:۳۰) اس وقت عرش خداوندی اسی کے اوپر تھا جیسے اب سماوات کے اوپر ہے۔ گویا یہ ایک صورت تھی جو اس حقیقت کو ظاہر کر رہی تھی کہ کائنات کا مادہ اور ذریعہ حیات بالکلیہ رب العرش کے تسلط و تصرف اور قیومیت مطلقہ کے ماتحت ہے۔ واللہ اعلم۔

۳:  یعنی اس سارے نظام کی تخلیق و ترتیب سے مقصود تمہارا یہاں بسانا اور امتحان کرنا ہے کہ کہاں تک اس عجیب و غریب نظام اور سلسلہ مصنوعات میں غور کر کے خالق و مالک کی صحیح معرفت حاصل کرتے اور مخلوقات ارضی و سماوی سے منتفع ہو کر محسن شناسی اور سپاس گذاری کا فطری فرض بجا لاتے ہو۔ یہ مقام تمہاری سخت آزمائش کا ہے۔ مالک حقیقی دیکھتا ہے کہ تم میں سے کونسا غلام صدق و اخلاص اور سلیقہ مندی سے اچھا کام کرتا اور فرائض بندگی انجام دیتا ہے۔

۴:  جب یہ دنیا امتحان و آزمائش کی جگہ ہے تو ضرور ہے کہ اس کے بعد مجازات انعام و انتقام کا سلسلہ ہوتا شاکرین و کافرین کو اپنے اپنے کیے کا پھل ملے۔ اسی لیے یہاں بعث بعدالموت کا ذکر کیا گیا۔ یعنی کفار مکہ کو یقین نہیں آتا کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اور اپنے جرائم کی سزا بھگتیں گے۔ جب وہ قرآن میں یا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے بعث بعد الموت کا نہایت موثر بیان سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کا یہ بیان کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب و مسحور کر لیا۔ مگر یاد رکھیے ہم پر یہ جادو چلنے والا نہیں۔ (ابن کثیر)

۸ ۔۔۔  یعنی جب ان کی شرارتوں پر عذاب الٰہی سے ڈرایا جاتا ہے، مگر خدا کی حکمت ایک مدت معین تک عذاب کو روکے رکھتی ہے تو تکذیب و استہزاء کے طور پر کہتے ہیں کہ وہ عذاب کہاں ہے؟ آخر آتا کیوں نہیں؟ کس چیز نے اسے پکڑ رکھا ہے؟ فرماتے ہیں کیا مذاق کرتے ہو، وقت معین پر جب عذاب آئے گا کسی کے ٹالے نہ ٹلے گا اور ہر طرف سے گھیر کر تباہ و برباد کر کے چھوڑے گا۔

۹ ۔۔۔ یعنی اب تو کہتے ہیں عذاب کہاں ہے، کیوں نہیں آتا، لیکن آدمی بودا اور تھڑدلا اتنا ہے کہ اگر خدا چند روز اپنی مہربانی سے عیش و آرام میں رکھنے کے بعد تکلیف میں مبتلا کر دے تو پچھلی مہربانیاں بھی بھلا دیتا ہے اور نا امید ہو کر آئندہ کے لیے آس توڑ بیٹھتا ہے۔ گذشتہ پر ناشکری اور آئندہ سے مایوسی، یہ ہی اس کی زندگی کا حاصل ہے۔

۱۰ ۔۔۔ یعنی مصیبت کے بعد اگر خدا آرام و آسائش نصیب کرے تو سمجھتا ہے کہ گویا اب ہمیشہ کے لیے مصائب و تکالیف کا خاتمہ ہو چکا پچھلی کیفیت کبھی لوٹ کر آنے والی نہیں۔ اس وقت غافل و مغرور ہو کر شیخیاں مارتا اور اتراتا پھرتا ہے حالانکہ چاہیے تھا کہ پچھلی حالت یاد کر کے خدا کا شکر ادا کرتا اور اس کے احسان کے سامنے جھک جاتا۔

۱۱ ۔۔۔ یعنی جو حال اوپر عام انسانوں کا بیان ہوا، اس سے اللہ کے وہ بندے مستثنیٰ ہیں جو تکلیف و مصیبت کا مقابلہ صبر و استقامت سے کرتے اور امن و راحت کے وقت شکر گزاری کے ساتھ عمل صالح میں مستعدی دکھاتے ہیں۔ ایسے اولوالعزم وفا داروں کی جماعت ہی عظیم الشان بخشش و انعام کی مستحق ہے۔

۱۲ ۔۔۔  مشرکین مکہ شرک و بت پرستی کی تردید سے بہت غیظ کھاتے تھے مشرکانہ خرافات پر جس قدر ان کی تحمیق و تجہیل کی جاتی اسی قدر ان کے غصہ کی آگ بھڑکتی تھی۔ کبھی کوشش کرتے تھے کہ آپ کو اس معاملہ میں ذرا ڈھیلا کر دیں اور اس سب سے بڑے اور بنیادی مسئلہ کی تبلیغ میں نرمی اور تساہل برتنے پر آمادہ کریں جب ادھر سے مایوس ہوتے تو محض دق کرنے کو عجیب بیہودہ فرمائشیں کرنے لگتے مثلاً یہ کہتے کہ آپ سچے ہیں اور منصب رسالت پر مامور ہو کر آئے ہیں تو آپ کے ساتھ خدا کے یہاں سے مال و دولت کا بڑا خزانہ آنا چاہیے تھا۔ یاآسمان سے ایک فرشتہ آتا جو آپ کے ہمراہ تصدیق کے لیے ہر طرف جایا کرتا۔ "لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌاَوْجَاءَ مَعَہ،مَلَکٌ۔" (ہود، رکوع ٢، آیت:۱٢) گویا جب آپ کے پاس اپنی بات منوانے کے لیے نہ مادی طاقت ساتھ ہے نہ روحانی، پھر ہم کس طرح تسلیم کر سکتے ہیں۔ آپ ان بیہودہ شبہات اور فرمائشوں سے سخت مغموم اور دلگیر ہوتے تھے۔ ممکن ہے کبھی ایسا خیال بھی دل میں گزرتا ہو کہ ان کے معبودوں کے معاملہ میں اگر خدا کی جانب سے اس قدر سختی اختیار کرنے کا حکم نہ رہے، تردید کی جائے مگر فی الحال قدرے نرمی اور رواداری کے ساتھ تو شاید زیادہ موثر اور مفید ہو، یا جو فرمائشیں یہ لوگ کرتے ہیں ان کی یہ ضد بھی کسی حد تک پوری کر دی جائے تو کیا عجب ہے مسلمان ہو جائیں بہرحال وہ ایسا نازک اور پر خطر وقت تھا کہ تمام دنیا باطل پرستی کے شور سے گونج رہی تھی صرف ایک مقدس ہستی تھی جس کے حلقوم سے حق کی آواز نکل کر باطل کے قلعوں میں زلزلہ ڈالتی تھی۔ آپ چاروں طرف سے موذی دشمنوں کے نرغہ میں گھر رہے تھے۔ کوئی جھٹلاتا کوئی طعن کرتا کوئی مذاق اڑاتا تھا۔ اس ماحول کا تصور کرو اور اس مبلغ اعظم کی قوت قلب اور ہمت مردانہ کا اندازہ لگاؤ، جس کا تمام تر اعتماد و اتکال ظاہری اسباب سے ہٹ کر خداوند قدوس کے وعدوں پر تھا۔ آپ جب مخزون و دلگیر ہوتے تو صرف اپنے پروردگار کی آواز سے ہی تسلی پاتے اور دنیا کے مقابلہ میں تازہ دم ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے اس سلسلہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں جن کا حاصل یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی بیہودہ خرافات اور فرمائشوں کی وجہ سے اس قدر فکر مند اور غمگین نہ ہوں نہ اپنے دل میں ان لوگوں کی مراعات کا خیال لائیں کہیں ایسا ہو سکتا ہے کہ وحی الٰہی نے جو چیزیں آپ کو سکھلائی ہیں اور جس بے خوف و خطر تبلیغ کا حکم دیا ہے اس کے بعض حصہ کو ان لوگوں کی خرافات سے تنگ دل ہو کر چھوڑ بیٹھیں جب یہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ پیغمبرانہ عصمت اور اولوالعزمی مانع ہے تو تنگدل ہونے سے کیا فائدہ۔ آپ کا کام صرف بھلے برے سے آگاہ کر دینا ہے ان کی ہدایت کی ذمہ داری آپ پر نہیں۔ خدا تعالیٰ جس کے سپرد ہر چیز ہے، ان کا معاملہ بھی اسی کے سپرد کیجئے اور صبر و استقامت کے ساتھ فرائض تبلیغ کی انجام دہی میں ثابت قدم رہیے۔

۱۴ ۔۔۔ یعنی فرمائشی معجزے طلب کرتے ہیں، جن کا دیا جانا مصلحت نہیں۔ اور جو سب سے بڑا معجزہ (قرآن) ان کے سامنے ہے، اسے مانتے نہیں، کہتے ہیں یہ تو (معاذ اللہ) تمہاری بنائی ہوئی گھڑت ہے۔ اس کا جواب دیا کہ تم بھی آخر عرب ہو، فصاحت و بلاغت کا دعویٰ رکھتے ہو، سب مل کر ایسی ہی دس سورتیں گھڑ کر پیش کر دو اور اس کام میں مدد دینے کے لیے تمام مخلوق کو بلکہ اپنے ان معبودوں کو بھی بلا لاؤ جنہیں خدائی کا شریک سمجھتے ہو اگر نہ کر سکو اور کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ ایسا کلام خالق ہی کا ہو سکتا ہے جس کا مثل لانے سے تمام مخلوق عاجز رہ جائے۔ تو یقیناً یہ وہ کلام ہے جو خدا نے اپنے علم کامل سے پیغمبر پر اتارا ہے۔ بیشک جس کے کلام کا مثل نہیں ہو سکتا اس کی ذات و صفات میں کون شریک ہو سکتا ہے۔ ایسا بے مثال کلام اسی بے مثال خدا کا ہے جس کا کوئی شریک نہیں کیا اسے واضح دلائل کے بعد بھی مسلمان ہونے اور خدا کا حکم بردار بننے میں کسی چیز کا انتظار ہے (تنبیہ) اعجاز قرآن کی کچھ تفصیل سورہ "یونس" میں گزر چکی ہے۔ ابتداء میں پورے قرآن سے تحدی کی گئی تھی۔ پھر دس سورتوں سے ہوئی۔ پھر ایک سورت سے جیسا کہ "بقرہ" اور "یونس" میں گزرا۔ گویا ان کا عجز بتدریج نمایاں کیا گیا۔

۱۵ ۔۔۔  یعنی ایسے واضح ثبوت کے بعد جو شخص قرآن پر ایمان نہیں لاتا، یا اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر نہیں چلتا بلکہ دنیا کی چند روزہ زندگی اور فانی ٹیپ ٹاپ ہی کو قبلہ مقصود ٹھہرا کر عملی جدوجہد کرتا ہے۔ اگر بظاہر کوئی نیک کام مثلاً خیرات وغیرہ کرتا ہے تو اس سے بھی آخرت کی بہتری اور خدا کہ خوشنودی مقصود نہیں ہوتی محض دنیاوی فوائد کا حاصل کر لینا پیش نظر ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی بابت خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا مشرکین یا منافقین یا دنیا پرست ریا کار مسلمان بتلا دیا کہ دنیا ہی میں ان کا بھگتان کر دیا جائے گا۔ جو اعمال اور کوششیں وہ حصول دنیا کے لیے کریں گے ان کے کم و کیف کو ملحوظ رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ اپنے علم و حکمت سے جس قدر مناسب جانے گا اور دینا چاہے گا یہیں عطا فرما دے گا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو خیرات وغیرہ کے کام کرے اس کی یہ فانی اور صوری حسنات جو روح ایمان سے یکسر خالی ہیں، دنیا میں رائگاں نہیں جاتیں ان کے بدلہ میں خدا تعالیٰ تندرستی، مال، اولاد، عزت و حکومت وغیرہ دے کر سب کھاتہ بے باق کر دیتا ہے۔ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کوئی چیز اس کے کام آنے والی نہیں جس کافر کے لیے جس درجہ کی سزا تجویز ہو چکی ہے وہ کبھی اس سے ٹلنے یا کم ہونے والی نہیں۔ "مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَالَہٗ فِیْہَا مَانَشَآءُ لِمَن نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَالَہ، جَہَنَّمَ یَصْلٰہَا مَذْمُوْماً مَّدْحُوْراً" (بنی اسرائیل، رکوع ٢، آیت:۱۸) ریاء کار اور دنیا پرست عالم، متصدق اور مجاہد کے حق میں جو وعید آئی ہے، اس کا حاصل بھی یہ ہی ہے کہ ان سے محشر میں کہا جائے گا کہ جس غرض کے لیے تو نے علم سکھلایا، صدقہ و جہاد کیا وہ دنیا میں حاصل ہو چکی اب ہمارے پاس تیرے لیے کچھ نہیں۔ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ اسے جہنم میں لے جاؤ (اعاذنا اللہ منہا)

۱۶ ۔۔۔ ۱:  یعنی ان اعمال پر دوزخ کے سوا اور کسی چیز کے مستحق نہیں کفار ابدی طور پر ریاء کار مسلمان محدود مدت کے لیے۔ ہاں خدا تعالیٰ بعض مومنین کو محض اپنے فضل و کرم سے معاف فرما دے، وہ الگ بات ہے۔

۲: یعنی دنیا میں جو کام دنیاوی اغراض کے لیے کیے تھے، آخرت میں پہنچ کر ظاہر ہو گا کہ وہ سب برباد ہوئے اور ریاء کاری یا دنیا پرستی کے سلسلہ میں بظاہر جو نیکیاں کمائی تھیں سب یونہی خراب گئیں یہاں کوئی کام نہ آئیں۔

۱۷ ۔۔۔ ۱: یعنی یہ شخص اور وہ ریاء کار دنیا پرست جن کا ذکر پہلے ہوا کیا برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ "بَیِّنَۃ"(صاف راستہ) سے مراد وہ راستہ ہے جس پر انسان اپنی اصلی اور صحیح فطرت کے موافق چلنا چاہتا ہے۔ بشرطیکہ گرد و پیش کے حالات و خیالات سے متاثر نہ ہو، اور وہ توحید، اسلام اور قرآن کا راستہ ہے۔ اَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ َعلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ" (روم، رکوع ۴، آیت:۳۰) وفی حدیث کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ عَلَی الْفَطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ" الخ اور "شَاہِدٌ مِّنْہُ" (گواہ اللہ کی طرف سے) قرآن عظیم ہے جو گواہی دیتا ہے کہ "دین فطرت" (توحید و اسلام) پر چلنے والا بیشک ٹھیک راستہ پر چل رہا ہے اور وہ قرآن اپنی حقانیت کا بھی خود گواہ ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ چونکہ قرآن کے لانے والے جبرائیل امین اور لینے والے محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ اس اعتبار سے ان کو بھی شاہد کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شان تو یہ ہے کہ آپ کے اخلاق و عادات، معجزات، زبان مبارک، چہرہ نورانی، ہر چیز سے شہادت ملتی ہے کہ جس دین کے آپ حامل ہیں وہ بالکل سچا دین ہے۔ آگے "وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتَابُ مُوْسیٰ اِمَامًا وَّرَحْمَۃً" کا مطلب یہ ہے کہ قرآن سے پہلے جو وحی کسی نبی پر نازل کی گئی وہ بھی "دین فطرت کی صداقت پر گواہ تھی۔ خصوصاً موسیٰ علیہ السلام پر جو عظیم الشان کتاب (تورات) اتاری گئی قرآن سے پیشتر اسے ایک بڑا بھاری شاہد ان لوگوں کی حقانیت کا کہنا چاہیے جو دین فطرت کے صاف راستہ پر چلتے ہیں۔

۲:  یعنی یہود، نصاریٰ، بت پرست، مجوس، عرب، عجم، یورپ ایشیاء کسی فرقہ جماعت اور ملک و ملت سے تعلق رکھتا ہو جب تک قرآن کو نہ مانے گا نجات نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی بعض احادیث میں آپ نے بہت تصریح و تعمیم کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔

۳: یہ خطاب ہر شخص کو ہے جو قرآن سنے یا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے کہ قرآن کی صداقت اور "من اللہ" ہونے میں قطعاً شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ جو لوگ نہیں مانتے وہ احمق ہیں یا معاند۔

۱۸ ۔۔۔ ۱: یعنی قرآن جھوٹ اور افتراء نہیں۔ خدا کا سچا پیغام ہے جس کو قبول کرنا ضروری ہے خوب سمجھ لو کہ اس شخص سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہو سکتا جو خدا پر جھوٹ باندھے۔ مثلاً اس کا کلام نہ ہو اور کہہ دے کہ اس کا کلام ہے یا واقعی اس کا ہو اور خدا بار بار فرمائے کہ میرا کلام ہے مگر باوجود روشن دلائل کے جھٹلاتا رہے اور کہتا ہے کہ اس کا نہیں۔

۲: یعنی محشر میں جب خدا کے سامنے علیٰ رؤس الاشہاد پیش ہوں گے اور ان کی شرارتوں کے دفتر کھولے جائیں گے اس وقت گواہی دینے والے (ملائکہ، انبیاء، صالحین بلکہ خود ان کے ہاتھ پاؤں) کہیں گے کہ یہ ہی وہ بدبخت ظالم ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی نسبت جھوٹ بکا تھا۔

۱۹ ۔۔۔   یہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے یعنی جو لوگ ظلم و نا انصافی سے خدا کے کلام کو جھوٹا بتلاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آخرت کے منکر ہیں دوسروں کو خدا کی راہ پر چلنے سے روکتے ہیں اور اس تلاش میں رہتے ہیں کہ سیدھے کو ٹیڑھا ثابت کریں۔ ایسے ظالموں پر خدا کی خصوصی لعنت ہے۔

۲۰ ۔۔۔  یعنی اتنی وسیع زمین میں نہ کہیں بھاگ کر خدا سے چھپ سکتے ہیں اور نہ کوئی مددگار اور حمایتی مل سکتا ہے جو خدا کے عذاب سے بچاوے۔

۲: کیونکہ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو گمراہ کیا۔

۳: یعنی دنیا میں ایسے اندھے بہرے بنے کہ نہ حق بات سننے کی تاب تھی نہ خدا کے نشانوں کو دیکھتے تھے جنہیں دیکھ کر ممکن تھا راہ ہدایت پا لیتے۔ حضرت شاہ صاحب نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اللہ پر جھوٹ بولا ہے اصل اور غلط باتیں اس کی طرف منسوب کیں۔ کہاں سے لائے؟ غیب سے سن نہ آتے تھے غیب کو دیکھتے نہ تھے پھر ان کا ماخذ کیا ہے۔

۲۱ ۔۔۔ جان کا کھو بیٹھنا، یہ ہی کہ ابدی عذاب میں گرفتار ہوئے اور سب جھوٹے دعوے وہاں پہنچ کر گم ہو گئے۔

۲۳ ۔۔۔منکرین کی بد انجامی کے بالمقابل مومنین کا انجام نیک بیان فرمایا۔ ان کی عاجزی خدا کو پسند آئی اس لیے اپنی دائمی خوشنودی کا مقام عطا فرمایا۔

۲۴ ۔۔۔ یعنی منکرین تو اندھے بہرے ہیں جیسا کہ دو تین آیت پہلے فرمایا تھا۔ مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْع وَمَاکَانُوْا یُبْصِرُوْنَ" پھر جسے نہ خود نظر آئے نہ دوسرے کی سن سکے، اس کا آغاز و انجام کیسے ان روشن ضمیر ایمانداروں کے برابر ہو سکتا ہے جو بصیرت کی آنکھوں سے حق و باطل اور بھلے برے میں تمیز کرتے اور اپنے ہادیوں کی باتیں بگوش ہوش سنتے ہیں۔ غور کرو کہ دونوں کا انجام یکساں کس طرح ہو سکتا ہے؟ آگے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا قصہ اسی مضمون کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔

۲۵ ۔۔۔ ۱: یعنی نہایت وضاحت کے ساتھ وہ چیزیں بتلاتا ہوں جن کے ارتکاب پر مہلک عذاب نازل ہونے کا اندیشہ ہے۔ یا جو اس عذاب سے محفوظ رہنے کے ذرائع ہیں۔

۲: یعنی وَدّ، سواع، یغوث، یعوق، نسر کی جن کا ذکر سورہ نوح میں آئے گا۔

۲۶ ۔۔۔ یعنی غیر اللہ کی پرستش سے باز نہ آنے کی صورت میں سخت عذاب آنے کا ڈر ہے۔ "دردناک دن" سے وہ دن مراد ہے جس میں المناک اور درد انگیز حوادث کا وقوع ہو۔ مثلاً قیامت کا دن یا وہ دن جس میں قوم نوح غرق کی گئی۔

۲۷ ۔۔۔  یعنی رسول کو تمام قوم کے مقابلہ میں کوئی نمایاں امتیاز ہونا چاہیے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہماری طرح جنس بشر سے ہیں، آسمان کے فرشتے نہیں۔ جس کے سامنے خواہ مخواہ انسانوں کی گردنیں جھک جائیں پھر بشر بھی ایسے نہیں جسے کوئی خاص تفوق اور بڑائی ہم پر حاصل ہوتی مثلاً بڑے دولت مند یا جاہ و حکمت کے مالک ہوتے، جو لوگ تمہارے پیرو ہوئے وہ بھی ماشاءاللہ سب کے سب مفلس، رذیل، پست اور ادنیٰ طبقہ کے لوگ ہیں جن کے ساتھ بیٹھنا بھی ہم جیسے شریفوں کے لیے ننگ و عار کا موجب ہے تو کیا ساری خدائی میں سے تم ہی ملے تھے جنہیں خدا نے اپنے منصب کی سفارت پر مامور فرمایا۔ آخر ہم تم سے حسب نسب، مال و دولت،خَلق و خُلق کس بات سے کم تھے؟ جو ہمارا انتخاب اس عہدہ کے لیے نہ ہو گیا۔ کم از کم آپ کا اتباع کرنے والے ہی کوئی معزز اور بڑے آدمی ہوتے۔ بھلا ان موچیوں اور حجاموں کا تابع ہو جانا آپ کے لیے کیا موجب فضل و شرف ہو سکتا ہے؟ اور کس طرح صداقت کی دلیل بن سکتی ہے؟ ایسے سطحی لوگوں کا جن کی پستی اور رذالت بالکل عیاں ہے بے سوچے سمجھے اور بدون غور و تامل کے ظاہری اور سرسری طور پر ایمان لے آنا آپ کا کونسا کمال ہے؟ بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ تم اور تمہارے ساتھی سب جھوٹے ہو۔ تم نے ایک بات بنائی اور چند بیوقوفوں نے ہاں میں ہاں ملا دی تاکہ اس طرح ایک نئی تحریک اٹھا کر کوئی امتیاز اور بزرگی حاصل کر لیں۔ یہ ان ملعونوں کی تقریر کا ماحصل تھا۔ نوح علیہ السلام نے جو جواب دیا آگے آتا ہے۔

۲۸ ۔۔۔  یعنی یہ صحیح ہے کہ پیغمبر کو عام انسانوں سے بالکل ممتاز ہونا چاہیے لیکن وہ امتیاز مال و دولت ملک و حکومت اور دنیا کی ٹیپ ٹاپ میں نہیں، بلکہ اعلیٰ اخلاق، بہترین ملکات، تقویٰ، خدا ترسی، حق پرستی، درد مندی، خلائق اور ان صریح آیات و نشانات پیش کرنے سے ان کو امتیاز حاصل ہوتا ہے جو حق تعالیٰ بطور اتمام حجت و اکمال نعمت ان کے اندر قائم کرتا یا ان کے ذریعہ سے ظاہر فرماتا ہے۔ وہ وحی الٰہی اور ربانی دلائل و  براہین کی روشنی میں صاف راستہ پر چلتے ہیں اور دن رات خدا کی خصوصی رحمتیں ان پر بارش کی طرح برستی ہیں۔ نوح علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھ میں کھلے طور پر موجود ہوں اور یقیناً موجود ہیں۔ لیکن جس طرح اندھے کو سورج کی روشنی نظر نہیں آتی، تمہاری آنکھیں بھی اس نور الٰہی کے دیکھنے سے قاصر رہیں، تو کیا ہم زبردستی مجبور کر کے تم سے اس نور اور رحمت کا اقرار کرا سکتے ہیں جس سے تم اس قدر نفور و بیزار ہو کہ آنکھ کھول کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ میری بزرگی و برتری جو تم کو نظر نہیں آتی، یہ اس لیے ہے کہ تمہارے دل کی آنکھیں اندھی ہیں یا بند ہیں۔

۲۹ ۔۔۔۱:  یعنی میں تبلیغ کے کام کی کوئی تنخواہ تم سے نہیں مانگتا، جو مالی خود غرضی کا شبہ ہو۔ میں اپنے پروردگار کا نوکر ہوں اسی کے یہاں سے مزدوری ملے گی بحمد اللہ نہ مجھے تمہارے مال کی طلب ہے نہ ضرورت، پھر غریبوں کو چھوڑ کر مالداروں کی طرف کیوں جھکوں۔ اگر تم میرے اتباع کو محض ان کی افلاس یا پیشہ کی وجہ سے حقیر و ذلیل سمجھتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ میں وہ نہیں جو دولت ایمان کے سرمایہ داروں کو ظاہری خستہ حالی کی بناء پر جانوروں کی طرح دھکے دے کر نکال دوں انہیں ایک روز اپنے پروردگار سے ملنا ہے۔ وہ میری شکایت اس کے دربار میں کریں گے کہ آپ کے پیغمبر نے متکبر دنیا داروں کی خاطر ہم غریب وفا داروں کو نکال دیا تھا۔ میں ظاہر حال کے خلاف یہ کیونکر سمجھ لوں کہ ان کا ایمان محض ظاہری اور سرسری ہے۔ دلوں کو چیر کر دیکھنا میرا کام نہیں۔ یہ پروردگار کے یہاں پتہ چلے گا کہ ان کے دلوں کی کیا حالت تھی۔

۲:  یعنی جہل و حماقت سے انجام پر نظر نہیں کرتے، صرف ان کی ظاہری شکستگی دیکھ کر حقیر سمجھتے ہو۔ اور ایسی مہمل درخواست کرتے ہو کہ ان کو ہٹا دیا جائے تو ہم تمہارے پاس آئیں۔ کیا غربت اور کسب حلال کوئی عیب ہے؟ یہ ہی چیز تو ہے جو حق کے قبول کرنے میں مزاحم نہیں ہوتی۔ عموماً دولت و جاہ کا نشہ انسان کو قبول حق سے محروم رکھتا ہے اسی لیے ہرقل کی حدیث میں آیا کہ انبیاء کے متبعین ضعفاء ہوتے ہیں بہرحال تم نہیں جانتے کہ سب کو خدا کے پاس جمع ہونا ہے، وہاں پہنچ کر ظاہر ہو گا کہ اپنے کو ان سے بہتر سمجھنا تمہارا جاہلانہ غرور تھا۔

۳۰ ۔۔۔  یعنی میں تمہارے کبر و غرور اور جہالت سے متاثر ہو کر اپنا نقصان کیسے کروں، اگر تمہاری رعایت سے میں نے خدا کے مخلص بندوں کو دھکے دے دیئے تو اس کی سزا اور گرفت سے مجھ کو کون بچا سکے گا۔

۳۱ ۔۔۔  کفار نے نوح علیہ السلام کو کہا تھا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو، جتھے اور دولت کے اعتبار سے بھی کچھ امتیاز نہیں رکھتے، اس کا جواب نہایت متانت و انصاف کے ساتھ دیتے ہیں کہ بیشک جیسا امتیاز تم دیکھنا چاہتے ہو اس کا ہم دعویٰ نہیں رکھتے، بلاشبہ میں ایک بشر ہوں، فرشتہ نہیں۔ نہ خدا نے اپنے سارے خزانے میرے تصرف و اختیار میں دے دیے ہیں، نہ تمام غیب کی باتوں پر مطلع کیا گیا ہوں، لیکن ان تمام باتوں کے اعتراف کے ساتھ تمہاری طرح یہ کبھی نہ کہوں گا کہ جو لوگ تمہاری نگاہ میں معیوب و حقیر ہیں (یعنی میں اور میرے رفقاء) ان کو خدا ہرگز کوئی خیر (بھلائی) نہیں دے سکتا۔ مثلاً ان میں سے کسی کو نبوت و حکمت عطا فرما دے اور باقیوں کو ایمان و عرفان کی دولت سے بہرہ ور کرے۔ خوب سمجھ لو حق تعالیٰ ان کے دلوں کی استعدادات و کیفیات کو پوری طرح جانتا ہے ہر ایک کی استعداد کے مناسب فیض پہنچاتا اور باطنی احوال و کیفیات کے موافق برتاؤ کرتا ہے اس نے جو خاص مہربانی مجھ پر یا میرے ساتھیوں پر کی ہے، وہ تمہاری آنکھ سے پوشیدہ ہے۔ اگر میں یہ کہنے لگوں کہ جو تمہیں بظاہر شکستہ حال اور حقیر دکھائی دیتے ہیں، خدا تعالیٰ نے بھی جو بواطن کا جاننے والا ہے انہیں کوئی عزت و شرف نہیں بخشا تو نہایت بے اصولی اور نا انصافی کی بات ہو گی۔ (تنبیہ) اس آیت کے ابتدائی تین جملے سورہ "انعام" میں گزر چکے۔ وہاں کے فوائد دیکھ لیے جائیں۔

۳۲ ۔۔۔   حضرت نوح قبل از طوفان ساڑھے نو سو برس ان میں رہے۔ شب و روز سراً و علانیۃً انہیں نصیحت کرتے، ہر شبہ کا جواب دیتے، تبلیغ و تفہیم اور بحث و مناظرہ کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسی جھگڑے میں صدیاں گزر گئیں۔ کفار نے ان کی حقانی بحثوں اور شب و روز کی روک ٹوک سے عاجز ہو کر کہا کہ اب یہ سلسلہ بند کیجئے۔ بس اگر آپ سچے ہیں تو عذاب کی دھمکیاں دیتے رہے ہو وہ فورا لے آؤ تاکہ یہ روز روز کا جھگڑا ختم ہو۔

۳۳ ۔۔۔ یعنی یہ چیز میرے قبضہ میں نہیں۔ خدا جس وقت اپنی حکمت کے موافق چاہے گا عذاب نازل کر دے گا۔ ہمارا فرض صرف آگاہ کر دینا تھا۔ باقی عذاب تو ایسی ہولناک اور عظیم الشان چیز ہے، جس کا لے آنا اور دفع کر دینا دونوں پہلو قوائے بشریہ کے دائرہ سے خارج ہیں۔ جب مشیت الٰہی ہو گی تو کہیں بھاگ کر پناہ نہ لے سکو گے۔ ایسا کون ہے جو خدا کو (معاذاللہ) تھکا کر عاجز کر سکے۔

۳۴ ۔۔۔  یعنی کفر پر اس قدر اصرار و ضد اور انتہائی شوخ چشمی سے نزول عذاب کی استدعاء پتہ دیتی ہے کہ خدا کا ارادہ یہ ہی ہے کہ تم کو گمراہی میں پڑا رہنے دے اور آخرکار ہلاک کر دے۔ پس اگر تمہاری بد کرداری کے سبب سے خدا نے یہ ہی چاہا تو میں کتنا ہی نصیحت و خیر خواہی کر کے تم کو نفع پہنچانا چاہوں، کچھ نافع اور موثر نہ ہو گا۔ تمہارا رب وہ ہی ہے جس کے ملک و تصرف میں ہر چیز ہے جیسا جس کے ساتھ معاملہ کرے، کوئی روک نہیں سکتا۔ سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے وہ ہی سب کے اعمال کی جزاء و سزا دینے والا ہے (ربط) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یہاں تک جتنے سوالات و اعتراضات اس قوم کے تھے، وہ ہی تھے حضرت کی قوم کے۔ گویا یہ سب جواب ان کو ملے۔ ایک ان کا نیا دعویٰ تھا، اسے آگے قصہ کے درمیان میں بیان فرماتے ہیں۔

۳۵ ۔۔۔۱:  یہ گفتگو کفار مکہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھی کہ قرآن آپ خود بنا لائے ہیں۔ خدا کا کلام نہیں ہے۔ حضرت نوح کتاب نہ لائے تھے جو ان کی قوم یہ بات کہتی۔ (کذا فی الموضح) لیکن بعض مفسرین نے اس آیت کو بھی نوح کے قصہ کا جزو بتلایا ہے۔ یعنی ان کی قوم نے کہا کہ جن باتوں کو نوح خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ خود ان کی گھڑنت ہیں۔ بعض نے کہا کہ گفتگو تو اہل مکہ کی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر اس کا تعلق خاص نوح کے قصہ سے تھا گویا وہ کہتے تھے کہ یہ داستان آپ نے جھوٹ بنا لی ہے۔ واقعہ میں ان قصوں کی کوئی اصل نہیں۔

۲:  قرآن کو "مفتریٰ" کہنے کا تحقیقی جواب اسی سورت میں ایک رکوع پہلے گزر چکا۔ یہاں آخری بات فرمائی یعنی قرآن کا کلام الٰہی ہونا نہایت واضح و محکم دلائل سے بار بار ثابت کیا جا چکا ہے ایسی روشن چیز کی تکذیب کر کے جو گناہ تم سمیٹ رہے ہو اس کا وبال تم پر ہی پڑے گا۔ اس کی فکر کرو اس کا میں ذمہ دار نہیں۔ ہاں بفرض محال اگر میں نے افتراء کیا ہو تو اس کا گناہ مجھ پر پڑ سکتا ہے۔ سو بحمد اللہ ایسا ہو انہیں۔

۳۶ ۔۔۔  جب قوم کی ایذائیں حد سے گزر گئیں، تو نوح علیہ السلام نے سینکڑوں برس ظالموں کی زہرہ گداز جفائیں جھیلنے کے بعد خدا کے آگے شکوہ کیا "اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ" کہ میں مغلوب و ضعیف ہوں۔ آپ ان سے بدلہ لیجئے۔ ارشاد ہوا کہ جن گنے چنے افراد کی قسمت میں ایمان لانا تھا، لا چکے۔ آئندہ ان میں کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اب آپ ان کی عداوت تکذیب اور ایذاء رسانی سے زیادہ غمگین نہ رہیں۔ عنقریب خدا کی شمشیر انتقام بے نیام ہونے والی ہے جو سب شرارتوں اور شریروں کا خاتمہ کر ڈالے گی۔

۳۷ ۔۔۔  حق تعالیٰ نے نوح علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک کشتی ہمارے روبرو (یعنی ہماری حفاظت و نگرانی میں) ہمارے حکم اور تعلیم و الہام کے موافق تیار کرو۔ کیونکہ عنقریب پانی کا سخت خوفناک طوفان آنے والا ہے۔ جس میں یہ سب ظالمین و مکذبین یقیناً غرق کیے جائیں گے۔ ان کے حق میں اب یہ فیصلہ نافذ ہو کر رہے گا۔ آپ کسی ظالم کی سفارش وغیرہ کے لیے ہم سے کوئی بات نہ کریں۔ آنے والا عذاب بالکل اٹل ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب قوم لوط کے حق میں جھگڑنا شروع کیا تھا ان کو بھی اسی طرح کا ارشاد ہوا تھا۔ "یَآاِبْرَاہِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا اِنَّہ، قَدْ جَآءَ اَمْرُرَبِّکَ وَاِنَّہُمْ اٰتِیْہِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ" (ہود، رکوع ۷، آیت:۷۶)

۳۸ ۔۔۔ ۱:  کہتے ہیں کشتی سالہا سال میں تیار کی۔ کشی کیا تھی بڑا جہاز تھا، جس میں الگ الگ درجے تھے مفسرین نے اس کی تفاصیل میں بہت سی مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب روایات بیان کی ہیں جن میں اکثر اسرائیلیات ہیں۔

۲: کہ دیکھو! پیغمبر سے بڑھئی بن گئے۔ کبھی ایک عجیب سی چیز دیکھ کر نوح علیہ السلام سے پوچھتے کہ یہ کیا بناتے ہو؟ آپ فرما دیتے کہ ایک گھر بناتا ہوں جو پانی پر چلے گا اور ڈوبنے سے بچائے گا۔ وہ سن کر ہنسی اڑاتے کہ خشک زمین پر ڈوبنے کا بچاؤ کر رہے ہیں۔

۳: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "وہ ہنستے تھے کہ خشک زمین پر غرق کا بچاؤ کرتا ہے۔ یہ ہنستے تھے اس پر کہ موت سر پر کھڑی ہے اور یہ ہنستے ہیں۔" اسی تفسیر کے موافق مترجم محقق نے اِنَّانَسْخَرُمِنْکُمْ الخ" کا ترجمہ بصیغۂ حال کیا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ "نَسْخَرُمِنْکُمالخُ" میں استقبال کے معنی مراد لیتے ہیں۔ یعنی آج تم ہمیں احمق بناتے اور ہنستے ہو۔ لیکن وہ زمانہ قریب ہے کہ اس کے جواب میں تمہاری حماقت و سفاہت پر ہم کو ہنسنے کا موقع ملے گا، جب تم اپنے جرائم کی پاداش میں سزایاب ہو گئے۔

۳۹ ۔۔۔ یعنی اب زیادہ تاخیر نہیں۔ جلد آشکارا ہو جائے گا کہ دنیا کا رسوا کن اور آخرت کا دائمی عذاب کس پر نازل ہوتا ہے؟

۴۰ ۔۔۔  ۱:  یعنی نوح علیہ السلام کشتی تیار کرتے رہے یہاں تک کہ وعدہ کے موافق خدا کا حکم پہنچ گیا۔ "بادلوں" کو کہ برس پڑیں اور زمین کو کہ ابل پڑے، اور فرشتوں کو کہ تعذیب وغیرہ کے متعلق اپنے فرائض منصبی سرانجام کریں۔ آخر اوپر سے بارش آئی اور نیچے زمین کی سطح سے چشموں کی طرح جوش مار کر پانی ابلنے لگا۔ حتیٰ کہ روٹی پکانے کے تنوروں میں بھی جہاں آگ بھری ہوتی ہے، پانی ابل پڑا۔ (تنبیہ) "تنور" کے معنی میں اختلاف ہے بعض مطلق روٹی پکنے کا تنور مراد لیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ ایک تنور حضرت حواء سے منتقل ہوتے ہوتے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس پہنچا تھا، وہ ان کے گھر میں طوفان کا نشان ٹھہرایا گیا تھا کہ جب اس سے پانی ابلے کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ بعض کے نزدیک تنور کوئی خاص چشمہ "کوفہ" یا "جزیرہ" میں تھا۔ بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ "تنور" صبح کے اجالے اور روشنی کو کہا ہے۔ یعنی صبح کی روشنی خوب چمکنے لگے۔ ابو حیان کہتے ہیں کہ ارالتنور" ممکن ہے "ظہور عذاب" اور "شدت ہول"سے کنایہ ہو جیسے "حمی الوطیس" شدت حرب سے کنایہ ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ، سے منقول ہے کہ "تنور" کے معنی وجہ ارض (سطح زمین) کے ہیں۔ ہم نے اوپر جو تفسیر کی مقدم اسی معنی کو رکھا ہے، اشارہ بعض دوسرے معانی کی طرف بھی کر دیا۔ حافظ ابن کثیر یہ ہی تفسیر لکھنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وَہٰذَا قَوْلُ جَمْہُوْرِ السَّلَفِ وَعُلَمَاءِ الْخَلَفِ۔ واللہ اعلم۔

۲:  یعنی جانوروں کی ضرورت ہے اور نسل باقی رہنی مقدر ہے ان میں سے ایک ایک جوڑا (نر اور مادہ دونوں) لے کر کشتی پر سوار کر لو۔

۳: یعنی مقدر ہو چکا ہے کہ وہ ظالموں کے زمرہ میں داخل ہونے کی وجہ سے غرق کئے جائیں گے "وَلَاتُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّہُمْ مُغْرَقُوْنَ" اس سے مراد ہے نوح کا بیٹا "یام" جس کا لقب کنعان تھا اور کنعان کی والدہ "واعلہ" گھر والوں میں سے یہ دونوں علیٰحدہ رہے اور غرق ہوئے۔

۴:  یعنی اسی مرد یا کم و بیش۔

۴۱ ۔۔۔  نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ بنام خدا کشتی پر سوار ہو جاؤ، کچھ فکر مت کرو اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب خدا کے اذن و حکم اور اس کے نام کی برکت سے ہے۔ غرقابی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ میرا پروردگار مومنین کی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا اور ان پر بیحد مہربان ہے۔ وہ اپنے فضل سے ہم کو صحیح سلامت اتارے گا۔ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کشتی وغیرہ پر سوار ہوتے وقت "بِسْمِ اللّٰہ" کہنا چاہیے۔

۴۲ ۔۔۔ یعنی کشتی پہاڑ جیسی موجوں کو چیرتی پھاڑتی بے خوف و خطر چلی جا رہی تھی۔ سوار ہونے کے بعد نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے "یام" (کنعان) کو جو اپنے بھائی وغیرہ سارے کنبہ سے کنارے ہو کر کافروں کی صحبت میں تھا، آواز دی کہ ان بد بخت کافروں کی معیت چھوڑ کر ہمارے ساتھ سوار ہو جا! تاکہ اس مصیبت عظمیٰ سے نجات پا سکے۔ (تنبیہ) یا تو نوح علیہ السلام اسے مومن خیال کرتے تھے، اس لیے آواز دی خواہ واقعہ میں مومن نہ ہو یا کافر جانتے ہوں مگر یہ توقع ہو گی کہ ان ہولناک نشانات کو دیکھ کر مسلمان ہو جائے گا۔ یا "واہلک" کے عموم میں داخل سمجھ کر شفقت پدری کے جوش سے ایسا کیا ہو، اور "الا من سبق علیہ القول" کو مجمل ہونے کی وجہ سے اس پر منطبق نہ سمجھتے ہوں۔ واللہ اعلم۔

۴۳ ۔۔۔ ۱:  وہ اپنے جہل و غباوت سے ابھی یہ خیال کر رہا تھا کہ جس طرح معمولی سیلابوں میں بعض اوقات کسی بلندی پر چڑھ کر آدمی جان بچا لیتا ہے، میں بھی کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لوں گا۔

۲: یعنی کس خبط میں پڑا ہے۔ یہ معمولی سیلاب نہیں۔ عذاب الٰہی کا طوفان ہے۔ پہاڑ کی کیا حقیقت کوئی چیز آج عذاب سے نہیں بچا سکتی ہاں خدا ہی کسی پر رحم کرے تو بچ سکتا ہے مگر اس ہنگامہ دار و گیر اور مقام انتقام میں کٹر مجرموں پر رحم کیسا؟ باپ بیٹے کی گفتگو پوری نہ ہوئی تھی کہ پانی کی ایک موج نے درمیان میں حائل ہو کر ہمیشہ کے لیے دونوں کو جدا کر دیا۔

۴۴ ۔۔۔   ایک مدت تک اس قدر پانی برسا گویا آسمان کے دہانے کھل گئے اور زمین کے پردے پھٹ گئے۔ درخت اور پہاڑیاں تک پانی میں چھپ گئیں۔ اصحاب سفینہ کے سوا تمام لوگ جن کے حق میں نوح علیہ السلام نے دعا کی تھی "رَبِّ لَا َتذَرْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا" (نوح، رکوع ٢، آیت :٢۶) غرق ہو گئے۔ اس وقت خداوند قدوس نے زمین کو حکم دیا کہ اپنا پانی نگل جا! اور بدل کو فرمایا کہ تھم جا! پھر کیا مجال تھی کہ دونوں اس کے امتثال حکم میں ایک لمحہ کی تاخیر کرتے۔ چنانچہ پانی خشک ہونا شروع ہو گیا۔ کشتی "جودی" پہاڑ پر جا لگی جو بعض کے نزدیک موصل میں تھا۔ اور جو کام خدا نے چاہا (یعنی مجرمین کو سزا دینا) وہ پورا ہو چکا۔ ظالموں کے حق میں کہہ دیا گیا کہ خدا کی رحمت سے دور ہو کر ہمیشہ کے لیے مصیبت و ہلاکت کے غار میں پڑے رہو۔ (تنبیہ) اس میں اختلاف ہے کہ "طوفان نوح" تمام دنیا میں آیا یا خاص ملکوں میں۔ اس کے فیصلہ کا یہاں موقع نہیں۔ مگر یاد رہے کہ "دائرۃ المعارف" میں بعض محققین یورپ کے ایسے اقوال و دلائل نقل کیے ہیں جو عموم طوفان کی تائید کرتے ہیں۔ جو لوگ عام طوفان کے قائل ہیں، ان میں سے اکثر کے نزدیک موجودہ دنیا کے کل انسان نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں "سام"، "حام"،"یافث"کی اولاد ہیں۔ "وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہ، ہُمُ الْبَاقِیْنَ" طوفان سے جو بچے اور حیوانات ہلاک ہوئے، ان کا ہلاک بطور تعذیب نہ تھا بلکہ جیسے خدا دوسرے اسباب طبیعیہ کے ذریعہ سے ان پر موت وارد کرتا ہے اور وہ ظلم نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہاں ان کی موت اس ذریعہ سے واقع ہوئی آخر اب بھی جو سیلاب اور طوفان آتے ہیں ان میں کتنے جانور اور بچے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

۴۶ ۔۔۔  نوح علیہ السلام نے یہ کس وقت عرض کیا، کنعان کے غرق ہونے سے پہلے یا غرق ہونے کے بعد، دونوں احتمال ہیں۔ نیز کنعان کو اس کی منافقانہ اوضاع و اطوار دیکھ کر غلط فہمی سے مومن سمجھ رہے تھے یا کافر سمجھتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں یہ گزارش کی۔ دونوں باتوں کا امکان ہے۔ اگر مومن سمجھ کر غرقابی سے پہلے عرض کیا تھا تو مقصود اپنی اضطرابی کیفیت کا اظہار اور خدا سے کہہ کر اس کے بچاؤ کا انتظام کرنا تھا۔ اگر غرقابی کے بعد یہ گفتگو ہوئی تو محض معاملہ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کی غرض سے اپنا خلجان یا اشکال پیش کیا۔ یعنی خداوندا! تو نے میرے گھر والوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور کنعان مومن ہونے کی وجہ سے "اِلَّامَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ" کے استثناء میں بظاہر داخل نہیں۔ پھر اس کی غرقابی کا راز کیا ہے؟ بلاشبہ آپ کا وعدہ سچا ہے۔ کسی کو یہ خیال نہیں گزر سکتا کہ معاذ اللہ وعدہ خلافی کی ہو۔ آپ احکم الحاکمین اور شہنشاہ مطلق ہیں۔ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ کسی کو حق نہیں کہ آپ کے فیصلہ کے سامنے دم مار سکے، یا آپ کو وعدہ خلافی پر مجبور کر سکے۔ فقط قلبی اطمینان کے لیے بطریق استعلام و استفسار اس واقعہ کا راز معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا یہ ان گھر والوں میں سے نہیں جن کے بچانے کا وعدہ تھا۔ بلکہ "اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ" میں شامل ہے۔ کیونکہ اس کے عمل خراب ہیں۔ تم کو اس کے کفر و شرک کی خبر نہیں۔ مقام تعجب ہے کہ پیغمبرانہ فراست کی روشنی میں صریح آثار کفر کے باوجود ایک کافر کا حال مشتبہ ہے۔ جس شخص کا واقعی حال تمہیں معلوم نہیں اس کے بارہ میں ہم سے ایسی نامناسب رعایت یا اس طرح کی کیفیت مت طلب کرو۔ مقربین کو لائق نہیں کہ وہ بے سوچے سمجھے ادب ناشناس جاہلوں کی سی باتیں کرنے لگیں۔ آیت کی یہ تقریر اس صورت میں ہے کہ نوح علیہ السلام کنعان کو مومن سمجھتے ہوں اور اگر کافر سمجھتے تھے تو شاید اس درخواست یا سوال کا منشاء یہ ہو کہ "انجاء" کے ذکر میں "اہل" کو چونکہ عام مومنین سے الگ کر کے بیان فرمایا تھا، اس سے نوح علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ میرے اہل کو اس دنیاوی عذاب سے محفوظ رکھنے کے لیے ایمان شرط نہیں اور "اِلَّامَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلَ" مجمل تھا۔ اس لیے اس کے مصداق کی تعیین نہیں کر سکے۔ بناء علیہ شفقت پدری کے جوش میں عرض کیا کہ الٰہ العالمین! میرا بیٹا یقیناً میرے اہل میں داخل ہے جس کے بچانے کا آپ وعدہ فرما چکے ہیں پھر یہ کیوں غرق کیا جا رہا ہے یا غرق کر دیا گیا۔ جواب ملا کہ تمہارا پہلا ہی مقدمہ (اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ) غلط ہے۔ جس اہل کے بچانے کا وعدہ تھا اس میں یہ داخل نہیں۔ کیونکہ اس کے کرتوت بہت خراب ہیں نیز "اِلَّامَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلَ" کے مصداق کا تم کو کچھ علم نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں۔ پھر جس چیز کا علم تم نہیں رکھتے اس کی نسبت ایسے محاجہ کے رنگ میں سوال یا درخواست کرنا تمہارے لیے زیبا نہیں۔

۴۷ ۔۔۔ ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "آدمی وہ ہی پوچھتا ہے جو معلوم نہ ہو۔ لیکن مرضی معلوم ہونی چاہیے۔ یہ کام جاہل کا ہے کہ بڑے کی مرضی پوچھنے کی نہ دیکھے، پھر پوچھے۔ "مرضی کیوں نہ تھی؟" اسے ہم فائدہ گزشتہ میں بیان کر چکے ہیں۔

۲:  حضرت نوح کانپ اٹھے اور توبہ کی، لیکن یہ نہ کہا کہ پھر ایسانہ کروں گا کہ اس میں دعویٰ نکلتا ہے۔ بندہ کو کیا مقدور ہے۔ چاہیے اس کی پناہ مانگے کہ مجھ سے پھر نہ ہو اور دل میں عزم نہ کرنے کا رکھے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور یونس علیہ السلام وغیرہ کی توبہ کے جو الفاظ قرآن میں نقل ہوئے ہیں ان میں یہ ہی ادب ملحوظ رہا ہے۔

۴۸ ۔۔۔  یعنی کشتی سے "جودی" پر۔ پھر "جودی" سے زمین پر اترے۔ برکتیں اور سلامتی آئندہ تم پر اور ان اقوام پر رہے گی جو تمہارے ساتھیوں سے پیدا ہونے والی ہیں۔ فی الحال جو زمین طوفان سے بالکل اجڑ گئی ہے خدا دوبارہ آباد کر دے گا اور اس کی رونق و برکت پھر عود کر آئے گی۔ "سلامت" کے لفظ سے گویا حق تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ پھر ساری نوع انسانی پر قیامت سے پہلے ایسی عام ہلاکت نہ آئے گی، مگر بعضے فرقے ہلاک ہوں گے۔

۴۹ ۔۔۔  ۱: یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں۔

۲: جیسے نوح اور ان کے رفقاء کا انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔

۵۰ ۔۔۔  کہ پتھر کے "بت"بھی با اختیار حاکم بلکہ معبود ہیں۔ سورہ "اعراف" میں قوم "ہود" کا قصہ گزر چکا۔

۵۱ ۔۔۔ ۱:  یعنی تمہارے مال کی مجھے ضرورت نہیں۔ میرا پیدا کرنے والا ہی تمام دنیاوی ضروریات اور اخروی اجرو ثواب کا کفیل ہے یہ بات ہر ایک پیغمبر نے اپنی قوم سے کہی تاکہ نصیحت بے لوث اور موثر ہو۔ لوگ ان کی محنت کو دنیاوی طمع پر محمول نہ کریں۔

۲:  یعنی اس قدر غبی ہو، اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتے کہ ایک شخص بے طمع بے غرض، محض درد مندی اور خیر خواہی سے تمہاری فلاح دارین کی بات کہتا ہے۔ تم اسے دشمن اور بدخواہ سمجھ کر دست و گریباں ہوتے ہو۔

۵۲ ۔۔۔  ۱: اسی سورت کے شروع میں اسی جملہ کی تفسیر گزر چکی۔

۲:  یعنی موقع بہ موقع خوب بارشیں دے گا۔ وہ قوم چونکہ کھیتی، باغ لگانے سے بڑی دلچسپی رکھتی تھی اس لیے ایمان لانے کے ظاہری فوائد و برکات وہ بیان کیے جو ان کے حق میں خصوصی طور پر موجب ترغیب ہوں۔ لکھتے ہیں کہ وہ لوگ تین سال سے خشک سالی اور امساک باراں کی مصیبت میں گرفتار تھے۔ ہود علیہ السلام نے وعدہ کیا کہ ایمان لا کر خدا کی طرف رجوع کرو گے تو یہ مصیبت دور ہو جائے گی۔

۳: یعنی مالی اور بدنی قوت بڑھائے گا، اولاد میں برکت دے گا۔ خوشحالی میں ترقی ہو گی، اور مادی قوت کے ساتھ روحانی و ایمانی قوت کا اضافہ کر دیا جائے گا۔ بشرطیکہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس کی اطاعت سے مجرموں کی طرح روگردانی نہ کرو۔

۵۳ ۔۔۔  یہ ان کی کھلی ہٹ دھرمی تھی جو کہتے تھے کہ آپ کوئی واضح سند اور دلیل اپنی صداقت کی نہیں لائے۔ خدا جسے پیغمبری کے عہدہ پر فائز کرے، ضرور ہے کہ اس کو تقرر کی سند اور پروانہ عطا فرمائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جو نبی مبعوث ہوا اس کے ساتھ ایسے واضح نشان بھیجے گئے جس پر آدمی ایمان لانا چاہیں تو لا سکتے ہیں۔ اس لیے بالیقین کہا جا سکتا ہے کہ ہود علیہ السلام نے نشان پیش کیے ہوں گے، مگر وہ لوگ ہٹ دھرمی اور بے حیائی سے یہ ہی کہتے رہے کہ آپ کوئی کھلا ہوا نشان نہیں لائے (شاید یہ مراد ہو کہ ایسا نشان نہ لائے جو سب کی گردنیں پکڑ کر ایمان لانے پر مجبور کر دے) بہرحال ہم محض تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ نہ کبھی تیری رسالت پر ایمان لا سکتے ہیں۔

۵۴ ۔۔۔  یہ جو تم بہکی بہکی باتیں کرتے ہو اور سارے جہان کو بیوقوف بتلا کر اپنا دشمن بنا رہے ہو۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہمارے دیوتاؤں میں سے کسی نے آسیب پہنچا کر تمہیں مجنون اور پاگل کر دیا ہے (العیاذ باللہ) تم جو ان کی عبادت سے روکتے اور برا بھلا کہتے تھے، انہوں نے اس گستاخی کی سزا دی کہ اب تم بالکل دیوانوں کی سی باتیں کرنے لگے۔

۵۶ ۔۔۔   یعنی وہ بے چاری پتھر کی مورتیں تو مجھے کیا گزند پہنچا سکتیں، تم سب جو بڑے شہ زور، تنو مند اور طاقتور نظر آتے ہو اپنے دیوتاؤں کی فوج میں بھرتی ہو کر اور مجھ جیسے یکہ و تنہا پر پوری قوت سے بیک وقت ناگہاں حملہ کر کے بھی میر ابال بیکا نہیں کر سکتے۔ سنو میں خدا کو گواہ بنا کر اعلان کرتا ہوں اور تم سب بھی اس پر گواہ رہو کہ میں تمہارے جھوٹے دیوتاؤں سے قطعاً بیزار ہوں۔ تم سب جمع ہو کر جو برائی مجھے پہنچا سکتے ہو پہنچاؤ نہ ذرا کوتاہی کرو نہ ایک منٹ کی مجھے مہلت دو۔ اور خوب سمجھ لو کہ میرا بھروسہ خدائے وحدہٗ لا شریک لہٗ پر ہے جو میرا رب ہے اور وہی تمہارا بھی مالک و حاکم ہے۔ گو بد فہمی سے تم نہیں سمجھتے۔ نہ صرف میں اور تم بلکہ ہر چھوٹی بڑی چیز جو زمین پر چلتی ہے خالص اس کے قبضہ اور تصرف میں ہے گویا ان کے سر کے بال اس کے ہاتھ میں ہیں۔ جدھر چاہے پکڑ کر کھینچے اور پھیر دے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے قبضہ اختیار سے نکل کر بھاگ جائے۔ نہ ظالم اس کی گرفت سے چھوٹ سکتے ہیں نہ سچے اس کی پناہ میں رہ کر رسوا ہو سکتے ہیں۔ بلاشبہ میرا پروردگار عدل و انصاف کی سیدھی راہ پر ہے اس کے ہاں نہ ظلم ہے نہ بے موقع انعام، اپنے بندوں کو نیکی اور خیر کی جو سیدھی راہ اس نے بتلائی، بیشک اسی پر چلنے سے وہ ملتا ہے اور اس پر چلنے والوں کی حفاظت کرنے کے لیے خود ہر وقت وہاں موجود ہے۔

۵۷ ۔۔۔ یعنی ایسی صاف اور کھری کھری باتیں سن کر بھی نہ مانو گے تو اب میرا کچھ نقصان نہیں۔ میں فرض تبلیغ پوری طرح ادا کر چکا۔ تم اپنی فکر کر لو۔ ضرور ہے کہ اس قسم کی ہٹ دھرمی اور تعصب و عناد پر آسمان سے عذاب آئے جو تم کو ہلاک کر ڈالے۔ خدا کی زمین تمہاری تباہی سے ویران نہ ہو گی۔ وہ دوسرے لوگوں کو تمہارے اموال وغیرہ کا وارث بنا دے گا۔ تمہارے قصہ ختم کر دینے سے یاد رکھو خدا کا یا اس کے پیغمبروں کا کچھ نہیں بگڑتا نہ اس کا ملک خراب ہوتا ہے۔ جب وہ ہر چیز کا محافظ و نگہبان ہے تو ہر قابل حفاظت چیز کی حفاظت اور اس کے سامان کی حفاظت اپنی قدرت کاملہ سے کر دے گا۔

۵۸ ۔۔۔  یعنی سات رات اور آٹھ دن مسلسل آندھی کا طوفان آیا جیسا کہ سورہ "اعراف" میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ مکان گر گئے چھتیں اڑ گئیں، درخت جڑ سے اکھڑ کر کہیں کے کہیں جا پڑے۔ ہوا ایسی مسموم تھی کہ آدمیوں کی ناک میں داخل ہو کر نیچے سے نکل جاتی اور جسم کو پارہ پارہ کر ڈالتی تھی۔ اس ہولناک عذاب سے ہم نے ہود علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو جو آخر میں چار ہزار تک پہنچ گئے تھے بالکل محفوظ رکھا اور ایمان و عمل صالح کی بدولت آخرت کے بھاری عذاب سے بھی ان کو نجات دے دی۔

۵۹ ۔۔۔  یعنی ان کے کھنڈرات کو چشم عبرت سے دیکھو کہ یہ وہ قوم "عاد" تھی جن کے بڑوں نے بہت طمطراق سے اپنے پروردگار کی باتوں کا مقابلہ کیا اور اس کے پیغمبروں کی نافرمانی کی۔ اور چھوٹوں نے بڑے شیطانوں کی پیروی کی۔ آخر دونوں تباہ و برباد ہوئے۔ (تنبیہ) "رسلہ" شاید اس لیے فرمایا کہ ایک کی تکذیب سب پیغمبروں کی تکذیب ہے۔ کیونکہ توحید وغیرہ اصول دین میں سب متفق اور ایک دوسرے کے مصدق ہیں۔

۶۰ ۔۔۔ ۱: یعنی خدا کی لعنت (پھٹکار) دنیا میں ان کے پیچھے لگا دی گئی کہ جہاں جائیں ساتھ جائے اور قیامت تک جہاں ان کا ذکر ہو لعنت کے ساتھ ہو، بلکہ قیامت کے بعد بھی وہ ان کا پیچھا نہ چھوڑے گی۔ لعنت کا طوق ہمیشہ ان کے گلے میں پڑا رہے گا۔

۲:  بعض مفسرین نے کہا کہ قیامت کے دن یوں پکارا جائے گا۔ اَ لَااِنَّ عَادًا کَفَرُوْا الخ (تنبیہ) "عاد” کے ساتھ "قوم ہود" کا لفظ یا تو اس لیے بڑھایا کہ دونوں کا تصور سننے والے کے دماغ میں ساتھ ساتھ آئے۔ یعنی "ہود" کا کیا حال تھا، اور یہ اسی کی قوم تھی جس کا حشر یہ ہوا۔ اور ممکن ہے اس پر تنبیہ کرنا ہو کہ "عاد" دو ہیں " اولیٰ" اور "اخریٰ۔" اسی لیے ایک جگہ فرمایا "وَاَ نَّہ، اَہْلَکَ عَادَنِ ا الْاُوْلیٰ" (النجم، رکوع ۳، آیت:۵۰) یہاں "عاد اولیٰ" مراد ہے جس کی طرف "ہود" مبعوث ہوئے تھے۔ واللہ اعلم۔

۶۱ ۔۔۔ ۱: ان کا قصہ "اعراف" میں گزر چکا۔

۲:   یعنی اول آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر زمین سے غذائیں پیدا کیں جن سے نطفہ وغیرہ بنتا ہے جو مادہ ہے آدمی کی پیدائش کا۔

۳:  یعنی پیدا کر کے باقی رکھا۔ بقاء کا سامان کیا۔ زمین کے آباد کرنے کی ترکیبیں بتلائیں۔ تدابیر الہام فرمائیں، جب وہ ایسا منعم و محسن ہے تو چاہیے آدمی اسی کی طرف ایمان و طاعت کے ساتھ رجوع کرے اور کفر و شرک وغیرہ جو گناہ کر چکا ہے ان کی معافی چاہے، وہ ہم سے بالکل نزدیک ہے، ہر بات خود سنتا ہے اور جو توبہ اور استغفار صدق دل سے کیا جائے اسے سن کر قبول کرتا ہے۔

۶۲ ۔۔۔   یعنی تجھ سے امید تھی کہ آگے چل کر بڑا فاضل اور نیک مرد ہو گا جس کو معزز بزرگوں کا جانشین سمجھ کر قوم سر پر بٹھائے گی۔ تیری پیشانی سے رشدو صلاح کے آثار ہویدا تھے۔ سب کو توقع تھی، کہ مستقبل قریب میں بڑا فائدہ تجھ سے پہنچے گا۔ رائے و تدبیر، صلاح و مشورہ سے اپنے قومی بھائیوں کی راہنمائی اور نہایت قوت قلب کے ساتھ آبائی مذہب کی حمایت و تائید کرے گا۔ یہ درست ہے کہ ابتداء سے تجھ کو بت پرستی مبغوض تھی اور عام قومی مذہب سے الگ تھلگ رہتا تھا، تاہم تیری سمجھ اور فطری قابلیت پر اعتماد کر کے ہم کو امید رہی کہ آگے چل کر عقل و تجربہ کی پختگی کے بعد یہ روش نہ رہے گی۔ لیکن افسوس یک بیک تو ایسی باتیں کرنے لگا جس نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ تو نے ہمارے آباؤ اجداد کے قدیم مذہب کے خلاف اعلانیہ جہاد شروع کر کے سب توقعات خاک میں ملا دیں۔ کیا تو یہ چاہتا ہے کہ ہم ایک خدا کو لے کر سارے پرانے دیوتاؤں کو چھوڑ بیٹھیں۔ ہمارے نزدیک بزرگوں کی روش کے خلاف ایسا مسلک اختیار کرنا سخت شبہ کی چیز ہے جسے ہمارا دل کسی طرح نہیں مانتا۔ "موضح القرآن" میں ہے۔ "یعنی ہونہار لگتا تھا کہ باپ دادے کی راہ روشن کرے گا۔ تو لگا مٹانے۔

۶۳ ۔۔۔  ۱: یعنی تمہارے شک و شبہ کی وجہ سے میں ایک صاف راستہ کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ خدا نے مجھ کو سمجھ دی اور اپنی رحمت عظیمہ سے منصب پیغمبری عطا کیا۔ اب اگر فرض کیجئے میں اس کی نافرمانی کرنے لگوں اور جن چیزوں کے پہنچانے کا حکم ہے نہ پہنچاؤں تو مجھ کو اس کی سزا سے کون بچا لے گا۔

۲:  یعنی بجائے اس کے کہ اپنے سچے خیر خواہ اور محسن کی قدر کرتے مجھے فرائض دعوت و تبلیغ سے رک جانے کا مشورہ دے کر ناقابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتے ہو۔ بعض سلف نے اس جملہ کا مطلب یہ لیا ہے کہ تمہاری گفتگو سے مجھ میں کوئی چیز نہیں بڑھتی بجز اس یقین کے کہ تم اپنا سخت نقصان کر رہے ہو۔ مگر سیاق کے مناسب پہلے معنی ہیں۔

۶۵ ۔۔۔ حضرت صالح علیہ السلام سے قوم نے معجزہ طلب کیا تھا۔ وہ انہیں دکھلا دیا۔ اس واقعہ کی پوری تفصیل اور الفاظ کی تشریح سورہ "اعراف" میں آٹھویں پارہ کے ختم پر گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ کر لی جائے۔

۶۶ ۔۔۔ ۱:  یعنی جب حکم عذاب پہنچا تو ہم نے "صالح" اور ان کے ساتھیوں کو بچا دیا۔ اور کا ہے سے بچا دیا؟ اس دن کی رسوائی سے، "وَمِنْ خِزْیِ یَوْمَئِذٍ"،نَجَّیْنَا" کی شرح و تفصیل ہے؟

۲:  یعنی جسے چاہے ہلاک کر دے اور جسے چاہے بچا دے

۶۸ ۔۔۔  ۱: یعنی بے نام و نشان ہو گئے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ان پر عذاب آیا اس طرح کہ رات کو پڑے سوتے تھے فرشتہ نے چنگھاڑ ماری سب کے جگر پھٹ گئے، بعض آیات میں "رَجْفَۃً"کا لفظ آیا ہے۔ یعنی "زلزلہ" یا "کپکپی" سے ہلاک ہوئے۔ سورہ "اعراف" میں ہم اس کے متعلق تطبیق کی صورت لکھ چکے ہیں۔

۲:  یعنی جو اپنے پروردگار کی آیات و احکام سے منکر ہو اس کی یہ گت بنتی ہے اور ایسی پھٹکار پڑتی ہے کہ سن کر عبرت حاصل کرو۔

۶۹ ۔۔۔  اس سورت کے قصص کی ترتیب "اعراف" کی ترتیب کے موافق ہے۔ صرف قوم لوط کے قصہ سے پہلے یہاں ابراہیم علیہ السلام کا تھوڑا سا قصہ بیان فرمایا ہے۔ مگر تعبیر ایسی رکھی جو ظاہر کرتی ہے کہ مقصود اصلی لوط علیہ السلام کا قصہ بیان کرنا ہے چونکہ اس میں اور ابراہیم کے قصہ میں کئی طرح کی مناسبت اور تعلق پایا جاتا تھا اس لیے بطور تمہید و توطیہ ابراہیم کا قصہ مذکور ہوا۔ لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم کے خالہ زاد بھائی ہیں جو آپ کے ہمراہ عراق سے ہجرت کر کے آئے۔ ایک ہی جماعت فرشتوں کی دونوں کے پاس بھیجی گئی۔ حضرت ابراہیم نے قوم لوط کی ہلاکت کے مسئلہ میں فرشتوں سے بحث کی جو آگے آتی ہے یہ فرشتے نہایت حسین و جمیل نوجوانوں کی شکل میں لوط علیہ السلام کی طرف جاتے ہوئے حضرت ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے کہ حق تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنایا ہے اور اس بڑھاپے میں حضرت "سارہ" کے بطن سے بیٹا عطا کرنے والا ہے۔ نیز یہ کہ قوم لوط کے بدمعاشوں اور ظالموں کے وجود سے عنقریب دنیا پاک کر دی جائے گی جس میں حضرت ابراہیم و حضرت لوط کے متبعین کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے گا۔ فرشتوں نے ابراہیم کو سلام کیا۔ آپ نے جواب دیا مگر اول وہلہ میں پہچان نہ سکے۔ جیسے ابتداء حضرت لوط نے بھی ان کو نہیں پہچانا۔ (بلکہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ جبرائیل آدمی کی شکل میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال و جواب کرتے رہے، جب اٹھ کر چلے گئے تب آپ کو بتلایا گیا کہ یہ جبرائیل تھے) گویا متنبہ کر دیا کہ نبی کو بھی فرشتہ وغیرہ کا علم ضروری خدا کے دینے سے ہوتا ہے۔ وہ کسی وقت مخفی رکھنا چاہے تو کسی کی قدرت نہیں کہ معلوم کر سکے۔ بہرحال ابراہیم علیہ السلام انہیں آدمی سمجھ کر مہمان نوازی کے لیے اٹھے اور نہایت فربہ بچھڑا بھون تل کر سامنے حاضر کیا۔

۷۰ ۔۔۔  ۱: کہ آخر یہ کون ہیں، کس غرض سے آئے ہیں؟ ہم کھانا پیش کرتے ہیں، یہ اسے ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس وقت کے دستور کے موافق جو مہمان کھانے سے انکار کرتا، سمجھا جاتا تھا کہ یہ کسی اچھے خیال سے نہیں آیا۔ ابراہیم علیہ السلام گھبرائے کہ اگر آدمی ہیں تو کھانے سے انکار کرنا ضرور کچھ معنی رکھتا ہے اور فرشتے ہیں تو نہ معلوم کس مطلب کے لیے بھیجے گئے ہیں، آیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی یا میری قوم کے حق میں کوئی ناخوشگوار چیز لے کر آئے۔ اسی حیص و  بیص میں زبان سے اظہار بھی کر دیا۔ "اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ" (حجر، رکوع ۴، آیت:۵٢) یعنی ہم کو تم سے اندیشہ ہے۔ عموماً مفسرین نے ابراہیم کے خوف کی یہ ہی توجہیات کی ہیں۔ مگر حضرت شاہ صاحب نے میرے نزدیک نہایت لطیف توجیہ کی۔ "کہ فرشتوں کے ساتھ جو عذاب الٰہی تھا اور شان غضب و انتقام کے مظہر بن کر قوم لوط کی طرف جا رہے تھے اس کا طبعی اثر یہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر ایک طرح کے خوف و خشیت کی کیفیت طاری ہوئی جس کا اظہار انہوں نے "اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَ" کہہ کر کیا۔ یعنی ہم کو تم سے ڈر لگتا ہے۔ واللہ اعلم۔

۲:  یعنی ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہم فرشتے ہیں، جو "قوم لوط" کو تباہ کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ آپ کچھ اندیشہ ضرر کا نہ کیجئے۔

۷۱ ۔۔۔  یعنی حضرت سارہ جو مہمانوں کی خدمت گزاری یا اور کسی کام کے لیے وہاں کھڑی تھیں اس ڈر کے رفع ہونے سے خوش ہو کر ہنس پڑیں۔ حق تعالیٰ نے خوشی پر اور خوشیاں سنائیں کہ تجھ کو اس عمر میں بیٹا ملے گا۔ (اسحاق علیہ السلام) اور اس کی نسل سے ایک پوتا یعقوب عطا ہو گا۔ جس سے ایک بڑی بھاری قوم بنی اسرائیل اٹھنے والی ہے یہ بشارت حضرت سارہ کو شاید اس لیے سنائی گئی کہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹا (اسمٰعیل علیہ السلام) حضرت ہاجرہ کے بطن سے پہلے ہی موجود تھا۔ سارہ کو تمنا تھی کہ مجھے بھی بیٹا ملے۔ مگر بوڑھی ہو کر مایوس ہو چکی تھی۔ اس وقت یہ بشارت ملی۔ بعض علماء نے بیان کیا۔ علماء نے "وَمِنْ وَّرَآءِ اسْحٰقَ یَعْقُوْبَ" سے استدلال کیا ہے کہ حضرت اسحاق "ذبیح" نہ تھے۔ اسماعیل علیہ السلام تھے۔ (راجع ابن کثیر)

۷۲ ۔۔۔ ۱: یہاں "یَاوَیْلَتیٰ" کا لفظ ایسا ہے جیسے ہمارا محاورات میں عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ میں "نگوڑی" کیا اس بڑھاپے میں اولاد جنوں گی۔ حضرت سارہ کی عمر کہتے ہیں اس وقت ننانوے سال تھی اور حضرت ابراہیم سو سال یا اس سے بھی متجاوز تھے۔

۲:  یعنی ایسا ہو تو بالکل انوکھی اور عجیب و غریب بات ہو گی۔

۷۳ ۔۔۔  یعنی جس گھرانے پر خدا کی اس قدر رحمتیں اور برکتیں نازل رہی ہیں اور جنہیں ہمیشہ معجزات و خوارق دیکھنے کا اتفاق ہوتا رہا، کیا ان کے لیے یہ کوئی تعجب کا مقام ہے؟ ان کا تعجب کرنا خود قابل تعجب ہے۔ انہیں لائق ہے کہ بشارت سن کر تعجب کی جگہ خدا کی تحمید و تمجید کریں کہ سب بڑائیاں اور خوبیاں اسی کی ذات میں جمع ہیں۔ (تنبیہ) بعض محققین نے لکھا ہے کہ نمازوں میں جو درود شریف پڑھتے ہیں اس کے الفاظ میں اس آیت سے اقتباس کیا گیا ہے۔

۷۶ ۔۔۔   یعنی ادھر سے مطمئن ہوئے تو فورا قوم لوط کے مسئلہ میں فرشتوں سے بحث شروع کر دی۔ جس کا خلاصہ سورہ "عنکبوت" میں بیان فرمایا کہ فرشتوں نے ابراہیم کو مطلع کیا کہ ہم ان بستیوں کو ہلاک کرنے آئے ہیں۔ ابراہیم بولے کہ ان میں تو خود لوط علیہ السلام موجود ہیں (پھر ایک پیغمبر کو ان میں موجود ہوتے ہوئے کیسے ہلاک کیے جا سکتے ہیں؟) فرشتوں نے کہا ہم سب کو جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں لوط اور اس کے متعلقین کو وہاں سے علیحدہ کر کے عذاب نازل کیا جائے گا۔ تفاسیر میں اس بحث کی جو تفاصیل بیان ہوئی ہیں اللہ جانے کہاں تک صحیح ہیں۔ بہرحال اسی بحث کو مبالغۃً لفظ "یجادلنا" سے تعبیر فرمایا۔ جس سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اپنی فطری شفقت، نرم خوئی اور رحم دلی سے اس قوم پر ترس کھا کر حق تعالیٰ کی جناب میں کچھ سفارش کرنا چاہتے تھے اسی کا جواب دیا کہ اس خیال کو چھوڑیے ان ظالموں کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اب خدا کا حکم واپس نہیں ہو سکتا۔ عذاب آ کر رہے گا جو کسی سفارش یا دعاء وغیرہ سے نہیں ٹل سکتا۔

۷۷ ۔۔۔  فرشتے نہایت حسین و جمیل بے ریش و بروت نوجوانوں کی شکل میں تھے۔ ابتداء حضرت لوط نے نہ پہچانا کہ فرشتے ہیں۔ معمولی مہمان سمجھے۔ ادھر اس قوم کی بے حیائی اور خوئے بد معلوم تھی۔ سخت فکر مند اور تنگ دل ہوئے کہ یہ بدمعاش اور مہمانوں کا پیچھا کریں گے۔ مہمانوں کو چھوڑنا بھی مشکل اور ان خبیثوں کے ہاتھوں سے چھڑانا بھی دشوار، گویا ساری قوم سے لڑائی مول لینا ہے۔

۷۸ ۔۔۔  ۱: یعنی اس قوم کو نامعقول حرکتوں اور خلاف فطرت فواحش کی جو عادت پڑی ہوئی تھی کہاں چین سے بیٹھنے دیتی، وہ ایسے خوبصورت لڑکوں کی خبر پاتے ہی نہایت بے حیائی کے ساتھ لوط علیہ السلام کے مکان پر اندھا دھند چڑھ دوڑے اور پوری قوت و شدت سے مطالبہ کیا کہ مہمان ان کے حوالے کر دیئے جائیں کیونکہ ہم پہلے ہی منع کر چکے ہیں کہ تم کسی مرد کو اپنا مہمان نہ بنایا کرو۔ یہاں آنے والے مہمان کو ہم پر چھوڑ دو ہم جو چاہیں کریں۔

۲: حضرت لوط نے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے ہر قسم کی کوشش کی۔ آخری بات اس شہوت پرست قوم سے یہ کہی کہ ظالمو! یہ میری بیٹیاں تمہارے لیے حاضر ہیں۔ نکاح ہو جانے پر اس سے بطریق حلال تمتع کر سکتے ہو جو نہایت پاکیزہ اور شائستہ طریقہ ہے۔ خدا سے ڈرنا چاہیے کہ پاک اور مشروع طریقہ کو چھوڑ کر ایسے خلاف فطرت گندے کاموں میں مبتلا ہوتے ہو کم از کم میری ہی رعایت کرو میں ان مقدس مہمانوں کے سامنے شرمندہ اور رسوا نہ ہوں۔ مہمان کی بے عزتی میزبان کی بے عزتی ہے۔ کیا تم میں ایک شخص بھی نہیں جو سیدھی سیدھی باتوں کو سمجھ کر نیکی اور تقویٰ کی راہ اختیار کرے (تنبیہ) "ہٰؤُلَآءِ بَنَاتِیْ" سے مراد عام طور پر اس قوم کی لڑکیاں ہیں جن کو تجوزاً "بیٹیاں" کہا گیا۔ کیونکہ پیغمبر امت کے حق میں روحانی باپ ہوتا ہے، اور ویسے بھی محاورات میں قوم کے بڑے بوڑھے سب کی لڑکیوں کو اپنی "بیٹیاں" کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ اور اگر خاص لوط علیہ السلام کی بیٹیاں مراد ہوں تو شاید ان میں سے بعض ممتاز لوگوں کے نکاح کے لیے پیش کی ہوں گی۔ اس وقت کافر کا نکاح مسلمان عورت سے جائز تھا۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ لوط علیہ السلام کا مقصود اس قول سے نکاح وغیرہ کچھ نہ تھا۔ بلکہ ان کی زیادتیوں سے عاجز ہو کر مہمانوں کی آبرو بچانے کی دھن میں انتہائی تواضع سے یہ لفظ کہے۔ تاکہ ان میں غیرت و حیاء کا کچھ شائبہ اور آدمیت کا کوئی ذرہ بھی موجود ہو تو یہ لفظ سن کر جھینپ جائیں۔ اور نرمی اختیار کر لیں، مگر وہ ایسے حیا دار کاہے کو تھے؟ کان پر جوں بھی نہ رینگی۔ پہلے سے زیادہ بے باک ہو کر بے غیرتی کا مظاہرہ کرنے لگے۔

۷۹ ۔۔۔  پھر اتنی حجت و تکرار کیوں کر رہا ہے۔ ہم اپنا ناپاک ارادہ پورے کیے بدون نہ ہٹیں گے۔

۸۰ ۔۔۔  لوط علیہ السلام کی زبان سے انتہائی گھبراہٹ اور پریشانی میں بے ساختہ الفاظ نکلے کہ کاش مجھ میں بذات خود تم سب سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت ہوتی یا کوئی طاقتور اور مضبوط پناہ دینے والا ہوتا۔ یعنی میرا کنبہ اور جتھا یہاں ہوتا۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ "یَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًالَقَدْکَانَ یَاْوِیْ اِلیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ" خدا لوط پر رحم فرمائے، بیشک وہ مضبوط مستحکم پناہ حاصل کر رہے تھے۔ یعنی خداوند قدوس کی مگر اس وقت سخت گھبراہٹ اور بیحد ضیق کی وجہ سے ادھر خیال نہ گیا۔ بے ساختہ ظاہری اسباب پر نظر گئی۔ لوط کے بعد جو انبیاء مبعوث ہوئے سب بڑے جتھے اور قبیلے والے تھے۔

۸۱ ۔۔۔  ۱: جب لوط علیہ السلام کے اضطراب و قلق کی حد ہو گئی، تب مہمانوں نے کہا کہ حضرت آپ کس فکر میں ہیں مطلق پریشان نہ ہوں، ہم خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو ان کو تباہ و ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں یہ خبیث ہمارا تو کیا بگاڑ سکتے آپ تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ تفاسیر میں ہے کہ وہ شریر لوگ دروازہ توڑ کر یا دیوار پھاند کر اندر گھسے جاتے تھے، تب جبرائیل علیہ السلام نے خدا سے اجازت لے کر لوط علیہ السلام کو علیٰحدہ بٹھا دیا اور ایک ذرا بازو ان ملعونوں کی طرف ہلایا۔ جو سب کے سب نپٹ اندھے ہو گئے اور کہنے لگے کہ بھاگو! لوط کے مہمان تو بڑے جادوگر معلوم ہوتے ہیں۔

۲: یعنی صبح کو عذاب آنے والا ہے۔ تھوڑی رات رہے آپ اپنے متعلقین کو لے کر یہاں سے تشریف لے جائیے اور اپنے ہمراہیوں کو ہدایت کر دیجئے کہ جلدی کریں اور کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھے۔ ہاں تیری عورت کے وہ ساتھ نہ جائے گی یا پیچھے پھر کر دیکھے گی اسی طرح اس عذاب کی لپیٹ میں آ جائے گی جو سب قوم کو پہنچنے والا ہے۔ کہتے ہیں اسی عورت نے قوم کو مہمانوں کی آمد سے مطلع کیا تھا۔

۳: یعنی خوش ہو جائیے اب ان ظالموں کے ہلاک ہونے میں کچھ دیر نہیں ہے صبح ہوتے ہی سب کا صفایا ہو جائے گا۔

۸۲ ۔۔۔  ۱: جبرائیل علیہ السلام نے ان بستیوں کو اٹھا کر آسمان کے قریب سے نیچے پٹک دیا۔ اس طرح سب بستیاں تہ و بالا ہو گئیں۔ پھر ان کی نکایت اور ذلت و رسوائی کی پوری تکمیل کے لیے اوپر سے جھانوے اور پتھر برسائے گئے۔ شہر کی آبادی سے الگ جو افراد اس قوم کے جس جگہ تھے وہیں پتھروں سے ہلاک کیے گئے (العیاذ باللہ) (تنبیہ) جو سزا اس قوم کو اوپر نیچے کرنے کی ملی ان کی شرمناک حرکت سے ظاہری مناسبت بھی رکھتی ہے۔

۲:  "منضود" کے معنی مترجم محقق نے "تہ بہ تہ" کئے ہیں۔ بعض نے یہ معنی لیے کہ پتھر مسلسل یکے بعد دیگرے برس رہے تھے۔

۸۳ ۔۔۔  ۱: یعنی کوئی خاص علامت ان پر تھی جو عام پتھروں سے ممتاز کر کے ظاہر کرتی تھی کہ یہ عذاب الٰہی کے پتھر ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر پتھر پر اس کا نام درج تھا جس کی ہلاکت کا وہ سبب بنا۔ واللہ اعلم۔

۲:  یعنی باعتبار زمانہ کے بھی قریب ہے کیونکہ "عاد" و "ثمود" اور قوم نوح وغیرہ کے بعد یہ واقعہ ہوا۔ اور باعتبار مکان کے بھی کیونکہ ان کی بستیاں مدینہ اور شام کے درمیان میں تھیں۔ گزرنے والے قافلے وہاں کھنڈرات مشاہدہ کرتے تھے۔ یا اس جملہ "وَمَاہِیَ مَنِ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ" کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کا عذاب ایسے ظالموں سے اب بھی کچھ دور نہیں۔ ہمیشہ خدا کے غضب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (تنبیہ) اس قصہ کے بعض اجزاء "اعراف" میں گزر چکے ہیں وہاں ملاحظہ کیے جائیں۔

۸۴ ۔۔۔  ۱: یہ قصہ بھی سورہ "اعراف" میں گزر چکا۔

۲:  یعنی خدا نے فراغت اور آسودگی عنایت کی تو ڈرتے رہو کہیں نافرمانی سے چھن نہ جائے اور آسائش و خوشحالی سلب ہو کر دنیاوی یا اخروی عذاب مسلط نہ کر دیا جائے۔

۸۵ ۔۔۔  ۱: یعنی اب تک جو ظلم و عدوان کا معیارو قانون تھا، اس کی اصلاح کرو۔

۲:  یعنی صرف ناپ تول میں نہیں بلکہ کسی چیز میں بھی لوگوں کے حقوق تلف مت کرو۔

۳: یعنی شرک و کفر سے یا کم ناپنے تولنے سے یادوسری طرح اتلاف حقوق اور ظلم و ستم کر کے زمین میں فساد مت مچاؤ۔ کہتے ہیں وہ لوگ ڈکیتی ڈالتے تھے اور امانت میں خیانت کرتے تھے۔

۸۶ ۔۔۔   ۱: ایک ایماندار کے لیے اللہ کا دیا ہوا جو ٹھیک ٹھیک حقوق ادا کر کے بچ رہے گو قلیل ہو، اس کثیر سے بہتر ہے جو حرام طریقہ سے حاصل کیا جائے یا جس میں لوگوں کے حقوق مارے جائیں۔ مال حلال میں جو ٹھیک ناپ تول کر لیا دیا جائے فی الحال برکت ہوتی ہے، اور خدا کے یہاں اجر ملتا ہے۔

۲: یعنی میں نے تم کو نصیحت کر دی۔ آگے اس کا ذمہ دار نہیں کہ تم سے زبردستی عمل کرا کے چھوڑوں۔

۸۷ ۔۔۔  یہ بطور استہزاء و تمسخر کہہ رہے تھے، کہ بس زیادہ بزرگ نہ بنئے۔ کیا ساری قوم میں ایک آپ ہی بڑے عقلمند، با وقار اور نیک چلن رہ گئے ہیں؟ باقی ہم اور ہمارے بزرگ سب جاہل اور احمق ہی رہے؟ حضرت شعیب علیہ السلام نماز بہت کثرت سے پڑھتے تھے، کہنے لگے کہ شاید آپ کی نماز یہ حکم دیتی ہے کہ ہم سے باپ دادوں کا پرانا دین چھڑوا دیں اور ہمارے اموال میں ہمارا مالکانہ اختیار نہ رہنے دیں۔ بس آپ اپنی نماز پڑھے جائیے، ہمارے مذہبی و دنیاوی معاملات اور ناپ تول کے قصوں میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکوں کے کام آپ نہ کر سکیں تو انہیں کو چڑانے لگیں۔ یہ ہی خصلت ہے کفر کی۔" بعض مفسرین نے "اِنَّکَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدٌ" کو استہزاء پر نہیں۔ واقعیت پر حمل کیا ہے۔ یعنی تو ایک سمجھ دار، باوقار، اور نیک چلن آدمی ہے۔ پھر ایسی بے موقع باتیں کیوں کرنے لگا۔ جیسے صالح علیہ السلام کو کہا تھا "قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوّاً قَبْلَ ہٰذَا اَتَنْہَا نَا اَنْ نَعْبُدَمَایَعْبُدُ اٰبَاؤُنَا" الخ

۸۸ ۔۔۔  ۱: یا تو ظاہری روزی مراد ہے۔ یعنی ناپ تول میں کمی بیشی کیے بدون حلال و طیب طریق سے روزی مرحمت فرمائی یا باطنی روزی یعنی علم و حکمت اور نبوت عطا کی، خلاصہ یہ ہے کہ اگر حق تعالیٰ نے مجھ کو فہم و بصیرت دے کر وہ صاف راستہ دکھلا دیا جو تم کو نظر نہیں آتا اور اس دولت سے مالا مال کیا جس سے تمہیں حصہ نہیں ملا تو کیا اس کا حق یہ ہے کہ میں "معاذ اللہ" تمہاری طرح اندھا بن جاؤں اور خدا کے احکام سے روگردانی کرنے لگوں، یا تمہارے استہزاء و تمسخر سے گھبرا کر نصیحت کرنا اور سمجھانا چھوڑ دوں؟ ہرگز نہیں۔

۲:  یعنی جن بری باتوں سے تم کو روکتا ہوں میری یہ خواہش نہیں کہ تم سے علیحدہ ہو کر خود ان کا ارتکاب کروں مثلاً تمہیں تارک الدنیا بناؤں اور خود دنیا سمیٹ کر گھر میں بھر لوں، نہیں جو نصیحت تم کو کرتا ہوں میں تم سے پہلے اس کا پابند ہوں، تم یہ الزام مجھ پر نہیں رکھ سکتے کہ میری نصیحت کسی خود غرضی اور ہوا پرستی پر محمول ہے۔میری تمام تر کوشش یہ ہے کہ تمہاری دینی و دنیاوی حالت درست ہو جائے۔ موجودہ ردی حالت سے نکل کر بام ایمان و عرفان پر چڑھنے کی کوشش کرو۔ اس مقصد اصلاح کے سوا دوسرا مقصد نہیں، جسے میں اپنے مقدور و استطاعت کے موافق کسی حال نہیں چھوڑ سکتا، باقی یہ کہ میری بات بن آئے اور اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاؤں، یہ سب خداوند قدس کے قبضہ میں ہے۔ اسی کی امداد و توفیق سے سب کام انجام پا سکتے ہیں، میرا بھروسہ اسی پر ہے اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

۸۹ ۔۔۔  یعنی میری ضد اور عداوت کے جوش میں ایسی حرکتیں مت کرنا جو تم کو گزشتہ اقوام کی طرح سخت تباہ کن عذاب کا مستحق بنا دیں، نوح، ہود اور صالح علیہم السلام کی امتوں پر تکذیب و عداوت کی بدولت جو عذاب آئے وہ پوشیدہ نہیں، اور لوط علیہ السلام کی قوم کا قصہ تو ان سب کے بعد ماضی قریب میں ہوا ہے اس کی یاد تمہارے حافظہ میں تازہ ہو گی ان نظائر کو فراموش مت کرو۔

۹۰ ۔۔۔ کیسا ہی پرانا اور کٹر مجرم ہو جب صدق دل سے اس کی بارگاہ میں رجوع ہو کر معافی چاہے وہ اپنی مہربانی سے معاف کر دیتا ہے۔ بلکہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔

۹۱ ۔۔۔  ۱: سمجھتے سب کچھ تھے لیکن عناد اور حق پوشی سے ایسا کہتے تھے کہ تیری بات کچھ نہیں سمجھتے، نہ معلوم کیا مجذوبوں کی بڑ ہانک رہا ہے (العیاذ باللہ) اور اگر واقعی وہ ایسی سیدھی اور صاف باتیں بے توجہی یا غباوت کی وجہ سے سمجھتے نہ تھے تو یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہو گا

۲:  یعنی ایک کمزور اور بے حقیقت آدمی خواہ مخواہ سارے جہان کو اپنا دشمن بنا رہا ہے۔ اسے چاہیے اپنے حال پر رحم کھائے، بیٹھے بٹھائے اپنے کو موت ک

۳: یعنی ایک کمزور اور بے حقیقت آدمی خواہ مخواہ سارے جہان کو اپنا دشمن بنا رہا ہے۔ اسے چاہیے اپنے حال پر رحم کھائے، بیٹھے بٹھائے اپنے منہ میں ڈالنے سے کیا فائدہ ہے (تنبیہ) بعض سلف نے "ضعیف" کے معنی "ضریرالبصر" (نابینا) کے منقول ہیں۔ شاید کسی خاص وقت میں عارضی طور پر ظاہری بینائی جاتی رہی ہو۔ جیسے یوسف علیہ السلام کے فراق میں حضرت یعقوب کا حال ہوا تھا۔ مفسرین نے بعض روایات نقل کی ہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام روتے بہت تھے، حتی کہ نگاہ جاتی رہی۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ شعیب! اس قدر کیوں روتا ہے؟ جنت کے شوق میں یا دوزخ کے ڈر سے؟ عرض کیا پروردگار! تیری لقاء کا خیال کر کے روتا ہوں کہ جس وقت آپ کا دیدار ہو گا نہ معلوم میرے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے؟ ارشاد ہوا تجھ کو ہماری لقاء (دیدار) مبارک ہو، اے شعیب! اسی لیے میں نے اپنے کلیم موسیٰ ابن عمران کو تیری خدمت کے لیے کھڑا کر دیا ہے، کہتے ہیں خدا نے ان کی بینائی واپس کر دی۔ وَاللّٰہُ تَعَالیٰ اَعْلَمُ بِصِحَّتِہٖ۔

۴:  یعنی تیرے کنبہ کے لوگ جو ہمارے ساتھ ہیں ان کا خیال آتا ہے ورنہ اب تک تجھے سنگسار کر ڈالتے۔

۹۲ ۔۔۔  یعنی افسوس اور تعجب ہے کہ خاندان کی وجہ سے میری رعایت کرتے ہو اس وجہ سے نہیں کرتے کہ میں خدا کا بھیجا ہوا ہوں اور صاف و صریح نشانات اپنی سچائی کے دکھلا رہا ہوں گویا تمہاری نگاہ میں میرے خاندان کی عزت اور اس کا دباؤ خداوند قدوس سے زیادہ ہے۔ خدا کی عظمت و جلال کو ایسا بھلا دیا کہ کبھی تمہیں تصور بھی نہیں آتا۔ جو قوم خدا تعالیٰ کو بھلا کر (معاذاللہ) پس پشت ڈال دے اسے یاد رکھنا چاہیے۔ کہ اس کے تمامی افعال و اعمال خدا تعالیٰ کے علم و قدرت کے احاطہ میں ہیں۔ تم کوئی کام کرو اور کسی حالت میں ہو، ایک آن کے لیے بھی اس کے قابو سے باہر نہیں۔

۹۳ ۔۔۔ یعنی اچھا، تم اپنی ضد اور ہٹ پر جمے رہو، میں خدا کی توفیق سے راہ ہدایت پر ثابت قدم ہوں عنقریب پتہ چل جائے گا کہ ہم میں سے کس کو خدا کا عذاب فضیحت کرتا ہے اور کون جھوٹا ثابت ہوتا ہے۔ اب ہم اور تم دونوں آسمانی فیصلہ کا انتظار کرتے ہیں

۹۵ ۔۔۔ ۱:  یہاں قوم شعیب کا کڑک (فرشتہ کی چیخ) سے ہلاک ہونا مذکور ہے اور "اعراف" میں "رجفہ" کا لفظ آیا ہے یعنی زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔ اور سورہ شعراء میں "عَذَابَ یَوْمِ الظُّلَّۃِ" آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عذاب کے بادل سائبان کی طرح ان پر محیط ہو گئے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ تینوں قسم کے عذاب اس قوم کے حق میں جمع کر دیئے گئے تھے، پھر ہر سورت میں وہاں کے سیاق کے مناسب عذاب کا ذکر کیا گیا۔ "اعراف" میں تھا کہ ان لوگوں نے شعیب سے کہا کہ ہم تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو اپنی سرزمین سے نکال دیں گے۔ وہاں بتلا دیا کہ جس زمین سے نکالنا چاہتے تھے، اسی کے زلزلہ سے ہلاک ہوئے۔ یہاں ان کے سخت گستاخانہ مقالات کا ذکر تھا، اس لیے بالمقابل آسمانی "صیحہ" (کڑک) کا ذکر فرمایا۔ گویا عذاب الٰہی کی ایک کڑک میں ان کی سب آوازیں گم ہو گئیں۔ سورہ شعراء میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے۔ اَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ" یعنی اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے۔ اس کے مقابلہ میں"عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ" کا تذکرہ فرمایا۔

۲:  یعنی دونوں "صیحہ" سے ہلاک ہوئے۔

۹۶ ۔۔۔  نشانیوں سے غالباً معجزات اور وہ نو آیتیں مراد ہیں جن کا ذکر "وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسیٰ تِسْعَ ایٰاتٍ" میں ہوا ہے۔ ان میں سے معجزہ عصا کو جو نہایت ظاہر و قاہر معجزہ تھا شاید "سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ" (واضح سند) فرمایا "یاسُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ" سے وہ روشن دلائل مراد ہوں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے خدا تعالیٰ کے وجود و توحید وغیرہ کے متعلق پیش کیے جن کا ذکر دوسرے مقامات میں آئے گا۔ اور ممکن ہے سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ سے اس کے لغوی معنی (یعنی کھلا ہوا غلبہ) مراد لیے گئے ہوں، کیونکہ فرعونیوں کے مقابلہ پر بار بار حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نمایاں غلبہ اور فتح مبین حاصل ہوتی رہی۔

۹۷ ۔۔۔ یعنی کھلے کھلے نشان دیکھ کر بھی فرعونیوں نے پیغمبر خدا کی بات نہ مانی، اسی دشمن خدا کے حکم پر چلتے رہے۔ حالانکہ اس کی کوئی بات ٹھکانے کی نہ تھی، جسے مان کر انسان بھلائی حاصل کر سکتا۔

۹۸ ۔۔۔  جس طرح یہاں کفر و تکذیب میں ان کا امام تھا، قیامت کے دن بھی امام رہے گا۔ جو لوگ دنیا میں اس کی اندھی تقلید کر رہے تھے وہ اس کے پیچھے پیچھے آخر منزل (جہنم) تک پہنچ جائیں گے۔ یہ ہی وہ گھاٹ ہے جہاں ٹھنڈے پانی کی جگہ بھسم کر دینے والی آگ ملے گی۔

۹۹ ۔۔۔   یعنی رہتی دنیا تک لوگ فرعون اور فرعونیوں پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔ پھر قیامت میں ملائکۃ اللہ اور اہل موقف کی طرف سے لعنت پڑے گی۔ غرض لعنت کا سلسلہ لگاتار ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔ گویا یہ انعام ہے جو ان کے کارناموں پر دیا گیا۔

۱۰۰ ۔۔۔  یعنی پچھلی قوموں کے قصے جو تم کو سنائے گئے کہ کس طرح انہوں نے پیغمبروں کی تکذیب اور گستاخیاں کیں، پھر کس طرح تباہ ہوئے، ان میں سے بعض کی بستیاں ابھی آباد ہیں جیسے "مصر" جو فرعون کا مقام تھا اور بعض اجڑ گئیں۔ مگر ان کے کچھ کھنڈر باقی ہیں۔ جیسے قوم لوط کی بستیاں، اور بعض کا نشان بھی صفحہ ہستی پر باقی نہ رہا۔

۱۰۱ ۔۔۔ ۱:  یعنی خدا نے کسی کو بے قصور نہیں پکڑا جس سے ظلم کا وہم ہو سکے، جب وہ جرائم کے ارتکاب میں حد سے آگے نکل گئے اور اس طرح اپنے کو کھلم کھلا سزا کا مستحق ٹھہرا دیا تب خدا کا عذاب آیا۔ پھر دیکھ لو جن معبودوں (دیوتاؤں) کا انہیں بڑا سہارا تھا اور جن سے بڑی بڑی توقعات قائم کر رکھی تھیں وہ ایسی سخت مصیبت کے وقت کچھ بھی کام نہ آئے۔

۲: باطل معبود کام کیا آتے؟ الٹے ہلاکت کا سبب بنے۔ جب انہیں نفع و ضرر کا مالک سمجھا، امیدیں قائم کیں، چڑھاوے چڑھائے تعظیم اور ڈنڈوت کی، تو یہ روز بد دیکھنا پڑا۔ تکذیب انبیاء وغیرہ کا جو عذاب ہوتا شرک و بت پرستی کا عذب اس پر مزید رہا۔

۱۰۲ ۔۔۔  یعنی ظالموں کو بڑی حد تک مہلت دی جاتی ہے۔ جب کسی طرح باز نہیں آتے تو پکڑ کر گلا دبا دیا جاتا ہے۔ مجرم چاہے کہ تکلیف کم ہو، یا اس کی پکڑ سے چھوٹ کر بھاگ نکلے، ایں خیال است و محال است و جنوں۔

۱۰۳ ۔۔۔ ۱:  یعنی دنیا جو "دار عمل" ہے، جب اس میں شرک و کفر اور تکذیب انبیاء پر سزائیں ملتی ہیں اور اس قدر سخت ملتی ہیں تو یہ ایک نشان اس بات کے معلوم کرنے کا ہے کہ آخرت میں جو خالص "دار جزاء" ہے کیا کچھ سزا ان جرائم پر ملے گی؟ اور کیا صورت رستگاری کی ہو گی۔ عقلمند آدمی کے لیے جو اپنے انجام کو سوچ کر ڈرتا رہتا ہے۔ اس چیز میں بڑی عبرت و نصیحت ہے۔

۲:  یعنی تمام دنیا کا بیک وقت فیصلہ اسی دن ہو گا جب سارے اولین و آخرین اکٹھے کیے جائیں گے اور کوئی شخص غیر حاضر نہ رہ سکے گا، گویا خدائی عدالت کی سب سے بڑی پیشی کا دن وہ ہی ہو گا۔

۱۰۴ ۔۔۔  یعنی اللہ کے علم میں جو میعاد مقرر ہے وہ پوری ہو جائے گی تب وہ دن آئے گا، تاخیر سے یہ گمان مت کرو کہ یہ محض فرضی اور وہمی باتیں ہیں۔

۱۰۵ ۔۔۔  یعنی کوئی شخص ایسی بات جو منقول و نافع ہو بدون حکم الٰہی کے نہ کر سکے گا اور محشر کے بعض مواقف میں تو مطلقاً ایک حرف بھی اذن و اجازت کے بدون منہ سے نہ نکال سکیں گے۔

۱۰۸ ۔۔۔  ان آیات کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ جس قدر مدت آسمان و زمین دنیا میں باقی رہے اتنی مدت تک اشقیاء دوزخ میں اور سعداء جنت میں رہیں گے مگر جو اور زیادہ چاہے تیرا رب، وہ اسی کو معلوم ہے۔ کیونکہ ہم جب طویل سے طویل زمانہ کا تصور کرتے ہیں تو اپنے ماحول کے اعتبار سے بڑی مدت یہ ہی خیال میں آتی ہے۔ اسی لیے "مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ" وغیرہ الفاظ محاورات عرب میں دوام کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ باقی دوام و ابدیت کا اصلی مدلول جسے لا محدود زمانہ کہنا چاہیے وہ حق تعالیٰ ہی کے علم غیر متناہی کے ساتھ مختص ہے۔ جس کو "مَاشَاءَ ربک"سے ادا کیا۔ دوسرے معنی آیت کے یہ ہو سکتے ہیں کہ لفظ مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرضُ کو کنایہ دوام سے مانا جائے۔ یا آسمان و زمین سے آخرت کا زمین و آسمان مراد لیا جائے۔ جیسے فرمایا "یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضِ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ" (ابراہیم، رکوع ۷) مطلب یہ ہوا کہ اشقیاء دوزخ اور سعداء جنت میں اس وقت تک رہیں گے جب تک آخرت کے زمین و آسمان باقی رہیں، یعنی ہمیشہ۔ مگر جو چاہے تیرا رب تو موقوف کر دے، وہاں ہمیشہ نہ رہنے دے۔ کیونکہ جنتیوں اور دوزخیوں کا خلود بھی اسی کی مشیت و اختیار سے ہے۔ لیکن وہ چاہ چکا کہ کفار و مشرکین کا عذاب اور اہل جنت کا ثواب کبھی موقوف نہ ہو گا۔ چنانچہ فرما دیا "وَمَا ہُمْ بِخَارِ جِیْنَ مِنَ النَّارِ (بقرہ، رکوع ٢۰) اور "یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَاہُمْ بِخَارِ جِیْنَ مِنْہَا (مائدہ، رکوع ٢) اور "اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُاَنْ یُّشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرْمَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ"(نساء، رکوع ۱۸) اس پر تمام اہل اسلام کا اجماع رہا ہے اور ہمارے زمانہ کے بعض نام نہاد مفسرین نے جو کچھ اس کے خلاف چیزیں پیش کی ہیں وہ یا روایات ضعیفہ و  موضوعہ ہیں یا اقوال غریبہ ُمأولہ۔ یا بعض آیات و احادیث ہیں جن کا مطلب کوتاہ نظری یا بد فہمی سے غلط سمجھ لیا گیا ہے۔ اگر خدا کی توفیق سے مستقل تفسیر لکھنے کی نوبت آئی، اس میں مفصل کلام کیا جائے گا۔ اختصار کی وجہ سے یہاں گنجائش نہیں، رہا عصاۃ موحدین کا مسئلہ یعنی جو مسلمان گناہوں کی بدولت دوزخ میں ڈالے جائیں گے (العیاذ باللہ) ان کے متعلق احادیث صحیحہ نے ہم کو خدا کی مشیت پر مطلع کر دیا ہے کہ ایک دن ضرور ان کو نکال کر جنت میں پہنچائیں گے جہاں سے کسی جنتی کو کبھی نکلنا نہیں۔ شاید اسی لحاظ سے جنتیوں کے ذکر میں "عطائً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ "اور اشقیاء کے ذکر میں "اِنَّ رَبکَ فَعَال لِّمَا یُرِیْد" ارشاد ہوا۔ تاکہ معلوم ہو جائے کہ بعض اشقیاء دوزخ سے نکالے جائیں گے مگر سعید کوئی جنت سے خارج نہ کیا جائے گا۔ (تنبیہ) "اِلاَّمَاشَآءَ رَبُّکَ" سے متنبہ فرما دیا کہ خدا کے ہمیشہ رہنے اور مخلوق کے ہمیشہ رہنے میں فرق ہے، کسی مخلوق کا ہمیشہ رہنا بہمہ وجوہ خدا کی مشیت پر موقوف ہے۔ وہ جب چاہے فنا کر سکتا ہے۔ نیز یہ جتلا دیا کہ جزاء و سزا دینا اس کے اختیار و مشیت کے تابع ہے۔ "آریہ سماج" وغیرہ کے عقیدہ کے موافق وہ اس پر مجبور نہیں۔

۱۰۹ ۔۔۔  یعنی اتنی مخلوق کا شرک و بت پرستی کے راستہ پر پڑ لینا اور اب تک سزا یاب نہ ہونا، کوئی ایسی چیز نہیں جس سے دھوکہ کھا کر آدمی شبہ میں پڑ جائے۔ یہ لوگ اپنے باپ دادوں کی کورانہ تقلید کر رہے ہیں۔ وہ جھوٹے معبود ان کے کیا کام آئے، جو ان کے کام آئیں گے؟ یقیناً ان سب کو آخرت میں عذاب کا پورا حصہ ملے گا۔ جس میں کوئی کمی نہ ہو گی یا کبھی کم نہ کیا جائے گا گویا لفظ "غَیْرَ مَنْقُوْصٍ"،"عَطَائً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ" کے مقابل ہوا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دنیا میں رزق وغیرہ کا جو حصہ مقدر ہے وہ پورا ملے گا۔ پھر شرک کی پوری سزا بھگتیں گے۔

۱۱۰ ۔۔۔  موسیٰ علیہ السلام کو تورات دے کر بھیجا تو آپس میں پھوٹ پڑ گئی، کسی نے قبول کیا کسی نے نہ کیا۔ جس طرح آج قرآن عظیم کے متعلق یہ ہی اختلاف ہو رہا ہے۔ بیشک خدا کو قدرت تھی کہ یہ اختلاف و تفریق پیدا نہ ہونے دیتا یا پیدا ہو چکنے کے بعد تمام مکذبین کا فورا استیصال کر کے سارے جھگڑے ایک دم میں چکا دیتا۔ مگر اس کی حکمت تکوینی اس کو مقتضی نہ ہوئی۔ ایک بات اس کے یہاں پہلے سے طے شدہ ہے کہ انسان کو ایک خاص حد تک کسب و اختیار کی آزادی دے کر آزمائے کہ وہ کس راستہ پر چلتا ہے، آیا خالق و مخلوق کا ٹھیک ٹھیک حق پہچان کر خدا کی رحمت و کرامت کا مستحق بنتا ہے یا کجروی اور غلط کاری سے فطرت صحیحہ کی راہنمائی کو خیر باد کہہ کر اپنے کو غضب و سخط کا مظہر ٹھہراتا ہے۔ "لَیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً" اسی مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے انسان کی ساخت ایسی بنائی کہ وہ نیکی یا بدی کے اختیار کرنے میں بالکل مجبور و مضطر نہ ہو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں خیر و شر اور نیک و بد کی باہمی آوزیش جاری رہے بعدہٗ مرحوم و مغضوب علیحدہ کیے جائیں۔ تاکہ "اِلَّامَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ" کے ساتھ "لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ" والی بات بھی پوری ہو۔ غالباً یہ ہی وہ کلمہ (لفظ) ہے جو اگر نہ فرما چکا ہوتا تو سب اختلاف کا ایک دم خاتمہ کر دیا جاتا۔ عام لوگ ان حکمتوں کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے شک میں پڑے ہوئے ہیں کہ آئندہ بھی ان اختلاف کا فیصلہ ہو گا یا نہیں۔

۱۱۱ ۔۔۔   یعنی ابھی وقت نہیں آیا کہ ہر ایک کے عمل کا پورا بھگتان کیا جائے۔ لیکن جب وقت آئے گا تو یقیناً ذرہ ذرہ کا حساب کر دیا جائے گا۔ تاخیر عذاب سے یہ نہ سمجھو کہ اسے تمہارے اعمال کی خبر نہیں۔

۱۱۲ ۔۔۔ آپ ان مشرکین کی جھنجھٹ میں نہ پڑیے۔ آپ کو اور ان لوگوں کو جنہوں نے کفر وغیرہ سے توبہ کر کے آپ کی معیت اختیار کر لی اور حق تعالیٰ کی طرف رجوع کیا، احکام الٰہیہ پر نہایت پامردی اور استقلال کے ساتھ ہمیشہ جمے رہنا چاہیے۔ عقائد، اخلاق، عبادات، معاملات، دعوت و تبلیغ وغیرہ، ہر چیز میں افراط و تفریط سے علیٰحدہ ہو کر توسط و استقامت کی راہ پر سیدھے چلے جاؤ۔ کسی معاملہ میں افراط یا تفریط کی جانب اختیار کر کے حد سے نہ نکلو، اور یقین رکھو کہ حق تعالیٰ ہر آن تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔

۱۱۳ ۔۔۔ پہلے "لَاتَطْغَوْا" میں حد سے نکلنے کو منع کیا تھا اب بتلاتے ہیں کہ جو لوگ ظالم (حد سے نکلنے والے) ہیں، ان کی طرف تمہارا ذرا سا میلان اور جھکاؤ بھی نہ ہو۔ ان کی موالات، مصاحبت، تعظیم و تکریم، مدح و ثنا، ظاہری تشبہ، اشتراک عمل، ہر بات سے حسب مقدور محترز رہو، مبادا آگ کی لپٹ تم کو نہ لگ جائے۔ پھر نہ خدا کے سوا تم کو کوئی مددگار ملے گا اور نہ خدا کی طرف سے کوئی مدد پہنچے گی۔

۱۱۴ ۔۔۔  ۱: ظالموں کی طرف مت جھکو۔ بلکہ خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی طرف جھکو۔ یعنی صبح و شام اور رات کی تاریکی میں خشوع و خضوع سے نمازیں ادا کرو کہ یہ ہی بڑا ذریعہ خدا کی مدد حاصل کرنے کا ہے۔ (تنبیہ) دن کے دونوں طرف یعنی طلوع و غرب سے پہلے فجر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں۔ یا ایک طرف فجر اور دوسری طرف مغرب کو رکھا جائے کہ وہ بھی بالکل غروب کے متصل ہوتی ہے۔ اور بعض سلف کے نزدیک اس میں فجر اور ظہر و عصر تینوں نمازیں داخل ہیں۔ گویا دن کے دو حصے کر کے پہلے حصے میں فجر کو اور دوسرے حصہ میں جو نصف النہار سے شروع ہو کر غروب پر ختم ہوتا ہے، دونوں نمازوں (ظہر و عصر) کو شمار کر لیا۔ (زلف اور "زُلَفًامِّنَ اللَّیْلِ" سے فقط "عشاء" یا "مغرب و عشاء" دونوں مراد ہیں۔ ابن کثیر نے یہ احتمال بھی لکھا ہے کہ اور "طَرَفَیِ النَّہَارِ"سے فجر اور "زُلَفًامِّنَ اللَّیْلِ"سے تہجد مراد ہو۔ کیونکہ ابتدائے اسلام میں یہ ہی تین نمازیں فرض ہوئی تھیں۔ بعدہٗ تہجد کی فرضیت منسوخ ہوئی اور باقی دو کے ساتھ تین کا اضافہ کیا گیا (واللہ اعلم)

۲:   یعنی نمازوں کا قائم رکھنا، خدا کی یادگاری ہے۔ جیسے دوسری جگہ فرمایا۔ اور "اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِی"یا یہ مطلب ہے کہ "اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ۔"کا ضابطہ یاد رکھنے والوں کے لیے یاد رکھنے کی چیز ہے۔ جسے کبھی فراموش نہ کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے مومن کو نیکیوں کی طرف خاص ترغیب ہوتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "نیکیاں دور کرتی ہیں برائیوں کو تین طرح، جو نیکیاں کرے اس کی برائیاں معاف ہوں، اور جو نیکیاں اختیار کرے اس سے خوبی برائیوں کی چھوٹے، اور جس ملک میں نیکیوں کا رواج ہو وہاں ہدایت آئے اور گمراہی مٹے، لیکن تینوں جگہ وزن غالب چاہیے۔ جتنا میل اتنا صابون۔

۱۱۵ ۔۔۔  قرآن کریم میں غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی امداد و اعانت حاصل کرنے میں دو چیزوں کو خاص دخل ہے۔ صلوٰۃ اور صبروَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ (بقرہ) یہاں بھی "صلوٰۃ کے بعد "صبر" کا حکم فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ مومن خدا کی عبادت و فرمانبرداری میں ثابت قدم رہے اور کسی دکھ درد کی پروا نہ کرے، تب خدا کی مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے اس کے یہاں کسی نیکو کار کا اجر ضائع نہیں ہوتا، بلکہ اندازہ سے زائد ملتا ہے۔

۱۱۶ ۔۔۔   یہ پچھلوں کا حال سنا کر امت محمدیہ کو ابھارا گیا ہے کہ ان میں "امربالمعروف" اور "نہی عن المنکر" کرنے والے بکثرت موجود رہنے چاہیں۔ گزشتہ قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ عام طور پر لوگ عیش و عشرت کے نشہ میں چور ہو کر جرائم کا ارتکاب کرتے رہے اور بڑے با اثر آدمی جن میں کوئی اثر خیر کا باقی نہیں تھا انہوں نے منع کرنے چھوڑ دیا، اس طرح کفر و عصیان اور ظلم و طغیان سے دنیا کی جو حالت بگڑ رہی تھی اس کا سنوارنے والا کوئی نہ رہا۔ چند گنتی کے آدمیوں نے "امر بالمعروف" کی کچھ آواز بلند کی مگر نقار خانہ میں طوطی کی صدا کون سنتا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ منع کرنے والے عذاب سے محفوظ رہے باقی سب قوم تباہ ہو گئی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں "نیک لوگ غالب ہوتے تو قوم ہلاک نہ ہوتی۔ تھوڑے تھے سو آپ بچ گئے۔" حدیث صحیح میں ہے کہ جب ظالم کا ہاتھ پکڑ کر ظلم سے نہ روکا جائے اور لوگ "امر بالمعروف" و "نہی عن المنکر" ترک کر بیٹھیں، تو قریب ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا عام عذاب بھیجے جو کسی کو نہ چھوڑے (العیاذ باللہ)۔

۱۱۷ ۔۔۔  یعنی جس بستی کے لوگ اپنی حالت درست کرنے کے کی طرف متوجہ ہوں، نیکی کو رواج دیں، ظلم و فساد کو روکیں تو خداوند قدوس کی یہ شان نہیں کہ خواہ مخواہ انہیں زبردستی پکڑ کر ہلاک کر دے۔ عذاب اسی وقت آتا ہے جب لوگ کفر و عصیان یا ظلم و طغیان میں حد سے نکل جائیں۔

۱۱۹ ۔۔۔  ۱:  یعنی جیسا کہ بارہا پہلے لکھا جا چکا ہے خدا تعالیٰ کی حکمت تکوینی اس کو مقتضی نہیں ہوئی کہ ساری دنیا کو ایک ہی راستہ پر ڈال دیتا۔ اسی لیے حق کے قبول کرنے نہ کرنے میں ہمیشہ اختلاف رہتا ہے اور رہے گا۔ مگر فی الحقیقت اختلاف اور پھوٹ ڈالنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے صاف و صریح فطرت کے خلاف حق کو جھٹلایا۔ اگر فطرت سلیمہ کے موافق سب چلتے تو کوئی اختلاف نہ ہوتا۔ اسی لیے " اِلَّامَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ" سے متنبہ فرما دیا کہ جس پر خدا نے ان کی حق پرستی کی بدولت رحم کیا وہ اختلاف کرنے والوں سے مستثنیٰ ہیں۔

۲:  یعنی دنیا کی آفرینش سے غرض یہ ہی ہے کہ حق تعالیٰ کی ہر قسم کی "صفات جمالیہ" و "قہریہ" کا ظہور ہو، اس لیے مظاہرہ کا مختلف ہونا ضروری ہے تاکہ ایک جماعت اپنے مالک کی وفاداری و اطاعت دکھا کر رحمت و کرم اور رضوان و غفران کا مظہر بنے۔ جو اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ کی مصداق ہے اور دوسری جماعت اپنی بغاوت و غداری سے اس کی صفت عدل و انتقام کا مظہر بن کر اس دوام کی سزا بھگتے۔ جس پر خدا کی یہ بات پوری ہو "لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ"بہرحال آفرینش عالم کا تشریعی مقصد عبادت ہے، "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ" (الذاریات، رکوع ۳،آیت ۵۶) اور تکوینی غرض یہ ہے کہ تشریعی مقصد کو اپنے کسب و اختیار سے پورا کرنے اور نہ کرنے والے دو گروہ ایسے موجود ہوں جو حق تعالیٰ کی صفات جلالیہ و جمالیہ یا بالفاظ دیگر لطف و قہر کے مورود و مظہر بن سکیں

درکار خانہ عشق از کفر ناگزیر است

دوزخ کرا بسوزد گر بولہب نہ باشد

 پھر لطف و کرم سے مظاہر بھی اپنے مدارج استعداد و عمل کے اعتبار سے مختلف ہوں گے۔

گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن

اے ذوق اسے جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

۱۲۰ ۔۔۔ اوپر بہت سے انبیاء و رسل کے قصص مذکور ہوئے تھے، اب ختم سورت پر ذکر قصص کی بعض حکمتوں پر تنبیہ فرماتے ہیں۔ یعنی گزشتہ اقوام و رسل کے واقعات سن کر پیغمبر علیہ السلام کا قلب بیش از بیش ساکن و مطمئن ہوتا ہے اور امت کو تحقیقی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ جن میں نصیحت و تذکیر کا بڑا سامان ہے۔ آدمی جب سنتا ہے کہ میرے ابنائے نوع پہلے فلاں فلاں جرائم کی پاداش میں ہلاک ہو چکے ہیں تو ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ فلاں راستہ اختیار کرنے سے پچھلوں کو نجات ملی تو طبعا اس کی طرف دوڑتا ہے۔ فی الحقیقت قرآن کریم میں قصص کا حصہ اس قدر موثر و مذکر واقع ہوا ہے کہ کوئی شخص جس میں تھوڑا سا آدمیت کا جزء ہو اور خوف خدا کی ذرا سی ٹیس دل میں رکھتا ہو انہیں سن کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ باقی قصص یا بعض دوسرے مضامین کی تکرار جو قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اس پر ہم نے رسالہ "القاسم" کے ابتدائی دور میں ایک مستقل مضمون لکھا ہے اسے ملاحظہ کر لیا جائے۔

۱۲۲ ۔۔۔  اس مضمون کی آیات پہلے اسی سورت میں گزر چکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر میری بات نہیں مانتے تو بہتر ہے تم اپنی ضد پر جمے رہو، میں اپنے مقام میں تمہارے انجام بد کا منتظر ہوں۔ چند روز میں پتہ چل جائے گا کہ ظالموں کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ "یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمُ الدَّوَآئِرَعَلَیْہِمْ دَائِرَۃُ السَّوْء۔

۱۲۳ ۔۔۔   یعنی آپ ان کے کفر و شرارت سے دلگیر نہ ہوں اپنا کام کیے جائیں اور ان کا فیصلہ خدا کے حوالہ کریں، اس سے آسمان و زمین کی کوئی بات چھپی نہیں، سب معاملات ہر پھر کر اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہاں ان کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ کس خبط میں پڑے ہوئے تھے۔ آپ تو دل و جان سے اپنے پروردگار کی بندگی اور فرمانبرداری میں لگے رہیے۔ اور تنہا اسی کی اعانت پر بھروسہ رکھیے۔ وہ تمہارے مخلصانہ اعمال سے بے خبر نہیں ان کے مناسب تم سے معاملہ کرے گا۔ حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا یا رسول اللہ! آپ پر بڑھاپے کے آثار بہت جلد آ گئے؟ فرمایا "شَیَّبَتْنِیْ ہُوْدٌ وَاَخَوَاتُہَا" سورہ "ہود" اور اس کی بہنوں نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ سورہ ہود کی جس آیت نے آپ کو بوڑھا کر دیا یہ تھی۔ اسْتَقِمْ کَمَااُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔" رزقنا اللہ سبحانہ و تعالیٰ الا ستقامۃ علی دین وسنتہ نبیہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ تم سورہ "ہود" بفضلہ و منہٗ ۔