تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ التّحْریم

سورہ "احزاب" کے فوائد میں گزر چکا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتوحات عنایت فرمائیں اور لوگ آسودہ ہو گئے تو ازواجِ مطہرات کو بھی خیال آیا کہ ہم کیوں آسودہ نہ ہوں ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مل کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ نفقہ کا مطالبہ شروع کیا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے۔ "وہن حولی یطلبننی النفقۃ۔" اور بخاری کے ابواب المناقب میں ہے "وحولہ نسوۃ یکلمنہ ویستکثرنہ" اس پر ابوبکر نے عائشہ کو اور عمر نے حفصہ کو ڈانٹ بتلائی۔ آخر ازواج نے وعدہ کیا کہ آئندہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس چیز کا مطالبہ نہیں کریں گی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نہیں ہے۔ پھر بھی رفتار واقعات کی ایسی رہی جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک ماہ کے لیے ازواج سے "ایلاء" کرنا پڑا۔ تاآنکہ آیہ تخییر نے جو "احزاب" میں ہے نازل ہو کر اس قصہ کا خاتمہ کر دیا۔ اس درمیان میں کچھ واقعات اور بھی پیش آئے۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طبع مبارک پر گرانی ہوئی۔ اصل یہ ہے کہ ازواج مطہرات کو جو محبت اور تعلق حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا اس نے قدرتی طور پر آپس میں ایک طرح کی کشمکش پیدا کر دی تھی۔ ہر ایک زوجہ کی تمنا اور کوشش تھی کہ وہ زائد از زائد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی توجہات کا مرکز بن کر دارین کی برکات و فیوض سے متمتع ہو۔ مرد کے لیے یہ موقع تحمل اور تدبر اور خوش اخلاقی کے امتحان کا نازک ترین موقع ہوتا ہے۔ مگر اس نازک موقع پر بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ثابت قدمی ویسی ہی غیر متزلزل ثابت ہوئی جس کی توقع سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی پاک سیرت سے ہو سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی کہ عصر کے بعد سب ازواج کے ہاں تھوڑی دیر کے لیے تشریف لے جاتے۔ ایک روز حضرت زینب کے ہاں کچھ دیر لگی۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے شہد پیش کیا تھا اس کے نوش فرمانے میں وقفہ ہوا پھر کئی روز یہ معمول رہا۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے مل کر تدبیر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں شہد پینا چھوڑ دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوڑ دیا اور حفصہ سے فرمایا کہ میں نے زینب کے ہاں شہد پیا تھا مگر اب قسم کھاتا ہوں کہ پھر نہیں پیوں گا۔ نیز یہ خیال فرما کر کہ زینب کو اس کی اطلاع ہو گی تو خواہ مخواہ دل گیر ہوں گی۔ حفصہ کو منع کر دیا کہ اس کی اطلاع کسی کو نہ کرنا۔ اسی طرح کا ایک قصہ ماریہ قبطیہ کے متعلق (جو آپ کے حرم سے تھی جن کے بطن سے صاحبزادے ابراہیم تولد ہوئے) پیش آیا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ازواج کی خاطر قسم کھا لی کہ ماریہ کے پاس نہ جاؤں گا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حفصہ کے سامنے کہی تھی اور تاکید کر دی تھی کہ دوسروں کے سامنے اظہار نہ ہو۔ حضرت حفصہ نے ان واقعات کی اطلاع چپکے سے حضرت عائشہ کو دی اور یہ بھی کہہ دیا کہ اور کسی سے نہ کہنا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے مطلع فرما دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حفصہ کو جتلایا کہ تم نے فلاں بات کی اطلاع عائشہ کو دی حالانکہ منع کر دیا تھا۔ وہ متعجب ہو کر کہنے لگیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کس نے کہا۔ شاید عائشہ کی طرف خیال گیا ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ "نَبَّانِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ۔" یعنی حق تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی۔ ان ہی واقعات کے سلسلہ میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔

۱ ۔۔۔      ۱: حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس چیز کو عقیدۃً حلال و مباح سمجھتے ہوئے عہد کر لیا تھا کہ آئندہ اس کو استعمال نہ کروں گا۔ ایسا کرنا اگر کسی مصلحت صحیحہ کی بناء پر ہو تو شرعاً جائز ہے۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ رفیع کے مناسب نہ تھا کہ بعض ازواج کی خوشنودی کے لیے اس طرح کا اسوہ قائم کریں جو آئندہ امت کے حق میں تنگی کا موجب ہو۔ اس لیے حق تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ ازواج کے ساتھ بیشک خوش اخلاقی برتنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس حد تک ضرورت نہیں کہ ان کی وجہ سے ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر کے تکلیف اٹھائیں ۔

۲:  کہ گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے تو کوئی گناہ بھی نہیں ہوا۔ محض اپنے درجہ میں ایک خلاف اولیٰ بات ہوئی۔

۲ ۔۔۔      یعنی اس مالک نے اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب احکام و ہدایات بھیجے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نامناسب چیز پر قسم کھا لے تو کفر دے کر (جس کا ذکر سورہ "مائدہ" میں آ چکا۔) اپنی قسم کھول سکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "اب جو کوئی اپنے مال کو کہے یہ مجھ پر حرام ہے تو قسم ہو گئی۔ کفارہ دے، تو اس کو کام میں لائے کھانا ہو یا کپڑا یا لونڈی۔"

۳ ۔۔۔      شروع سورت میں ہم شہد کا اور ماریہ قبطیہ کا قصہ لکھ چکے ہیں ۔ اس آیت میں بتلا دیا کہ بندے ایک بات کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کریں ، اللہ جب ظاہر کرنا چاہے تو ہرگز مخفی نہیں رہ سکتی۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے حسن معاشرت اور وسعت اخلاق کا اس سے ثبوت ملتا ہے کہ آپ خلافِ طبع کارروائیوں پر کس قدر تساہل اور اغماض برتتے اور کس طرح از راہِ عفو و کرم بعض باتوں کو ٹلا جاتے تھے۔ گویا شکایت کے موقع پر بھی پورا الزام نہ دیتے تھے۔ "موضح القرآن" میں ہے کہ بعض کہتے ہیں ۔ "اس حرم (ماریہ قبطیہ) کا موقوف کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت حفصہ سے کہا اور کسی کو خبر کرنے سے منع کیا۔ اور اس کے ساتھ کچھ اور بات بھی کہی تھی انہوں نے حضرت عائشہ کو سب خبر کر دی۔ کیونکہ دونوں باتوں میں دونوں کا مطلب تھا۔ پھر وحی سے معلوم کر کے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بی بی حفصہ کو حرم کی بات کا الزام دیا اور دوسری بات ذکر میں نہ لائے۔ وہ دوسری بات کیا تھی؟ شاید یہ تھی کہ تیرا باپ عائشہ کے باپ کے بعد خلیفہ ہو گا۔ الغیب عند اللہ۔ جو بات اللہ اور رسول نے ٹلا دی ہم کیا جانیں ۔ اسی واسطے ٹلا دی کہ بے ضرورت چرچا نہ ہو تاکہ اور لوگ برا نہ مانیں ۔" یہ مضمون خلافت کا بعض ضعیف روایات میں آیا ہے جسے بعض علماء شیعہ نے بھی تسلیم کیا۔

 ۴ ۔۔۔       ۱: یہ عائشہ و حفصہ کو خطاب ہے کہ اگر تم توبہ کرتی ہو تو بیشک توبہ کا موقع ہے کیونکہ تمہارے دل جادہ اعتدال سے ہٹ کر ایک طرف کو جھک گئے ہیں ۔ لہٰذا آئندہ ایسی بے اعتدالیوں سے پرہیز رکھا جائے۔

۲:   زوجین کے خانگی معاملات بعض اوقات ابتداءً بہت معمولی اور حقیر نظر آتے ہیں ۔ لیکن اگر ذرا باگ ڈھیلی چھوڑ دی جائے تو آخرکار نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ خصوصاً عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اس کو طبعاً اپنے باپ بھائی اور خاندان پر بھی گھمنڈ ہو سکتا ہے۔ اس لیے متنبہ فرما دیا کہ دیکھو اگر تم دونوں اسی طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں تو یاد رکھو ان سے پیغمبر کو کچھ ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ اللہ اور فرشتے اور نیک بخت ایماندار درجہ بدرجہ جس کے رفیق و مددگار ہوں اس کے سامنے کوئی انسانی تدبیر کامیاب نہیں ہو سکتی ہاں تم کو نقصان پہنچ جانے کا امکان ہے۔

(تنبیہ) بعض سلف نے "صالح المومنین" کی تفسیر میں ابوبکر و عمر کا نام لیا ہے۔ شاید یہ عائشہ اور حفصہ کی مناسبت سے ہو گا واﷲ اعلم۔

۵ ۔۔۔      وسوسہ دل میں نہ لانا کہ آخر تو مرد کو بیبیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں اس لیے ناگزیر ہماری سب باتیں سہی جائیں گی۔ یاد رکھو! اللہ چاہے تو تم سے بھی بہتر بیبیاں اپنے نبی کے لیے پیدا کر دے۔ اس کے ہاں کس چیز کی کمی ہے۔ (تنبیہ) ثیبات (بیواؤں ) کا ذکر شاید اسی لیے کیا کہ بعض حیثیات سے آدمی ان کو ابکار پر ترجیح دیتا ہے۔

۶ ۔۔۔       ۱: ہر مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی دین کی راہ پر لائے سمجھا کر، ڈرا کر، پیار سے، مار سے جس طرح ہو سکے دیندار بنانے کی کوشش کرے۔ اس پر بھی اگر وہ راہ راست پر نہ آئیں تو ان کی کم بختی، یہ بے قصور ہے۔ "وقودھا الناس والحجارۃ" کی تفسیر پارہ "الم" کے شروع میں گزر چکی۔

۲:  یعنی مجرموں کو نہ رحم کھا کر چھوڑیں نہ ان کی زبردست گرفت سے کوئی چھوٹ کر بھاگ سکے۔

۳:  یعنی نہ حکمِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے ہیں نہ اس کے احکام بجا لانے میں سستی اور دیر ہوتی ہے نہ امتثال حکم سے عاجز ہیں ۔

۷ ۔۔۔       یعنی قیامت کے دن جب جہنم کا عذاب سامنے ہو گا، اس وقت منکروں سے کہا جائے گا کہ حیلے بہانے مت بتلاؤ۔ آج کوئی بہانہ چلنے والا نہیں بلکہ جو کچھ کرتے تھے اس کی پوری پوری سزا بھگتنے کا دن ہے۔ ہماری طرف سے کوئی ظلم زیادتی نہیں ۔ تمہارے ہی اعمال ہیں جو عذاب کی صورت میں نظر آرہے ہیں ۔

۸ ۔۔۔      ۱: صاف دل کی توبہ یہ کہ دل میں پھر اس گناہ کا خیال نہ رہے۔ اگر توبہ کے بعد ان ہی خرافات کا خیال پھر آیا تو سمجھو کہ توبہ میں کچھ کسر رہ گئی ہے۔ اور گناہ کی جڑ دل سے نہیں نکلی۔ "رزقنا اللّٰہ منہا حظا وافرًا بفضلہ وعونہ وہو علیٰ کل شئیٍ قدیر۔"

۲: یعنی نبی کا تو کہنا کیا اس کے ساتھیوں کو بھی ذلیل نہ کرے گا بلکہ نہایت اعزازو اکرام سے فضل و شرف کی بلند مناصب پر سرفراز فرمائے گا۔

۳:   اس کا بیان سورہ "حدید" میں ہو چکا۔

۴: یعنی سورہ حدید میں بیان ہو چکا کہ روشنی بجھ جائے گی اور اندھیرے میں کھڑے رہ جائیں گے مفسرین نے عموماً یہ ہی لکھا ہے۔ لیکن حضرت شاہ صاحب اتمم لنا نورنا کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "روشنی ایمان کی دل میں ہے، دل سے بڑھے تو سارے بدن میں پھر گوشت پوست میں "(سرایت کرے)

۹ ۔۔۔      ۱: حضرت کا خلق اور نرم خوئی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ اوروں کو فرماتا ہے تحمل کرو۔ اور آپ کو فرماتا ہے کہ سختی کرو۔

۲:  پہلے مومنین کا ٹھکانا بتلایا تھا۔ یہاں اس کے بالمقابل کفار و منافقین کا گھر بتلا دیا۔

۱۱ ۔۔۔       ۱: یعنی حضرت نوح اور حضرت لوط کیسے نیک بندے، مگر دونوں کے گھر میں ان کی بیویاں منافق تھیں ۔ بظاہر ان کے ساتھ تعلق تھا لیکن دل سے کافروں کے شریک حال تھیں ۔ پھر کیا ہوا؟ عام دوزخیوں کے ساتھ ان کو بھی اللہ نے دوزخ میں دھکیل دیا پیغمبروں کا رشتہ، زوجیت ذرا بھی عذاب الٰہی سے نہ بچا سکا۔ ان کے برعکس فرعون کی بیوی حضرت آسیہ بنت مزاحم، پکی ایماندار، ولی کامل، اور اس کا شوہر خدا کا سب سے بڑا باغی۔ وہ نیک بیوی میاں کو خدا کے عذاب سے نہ چھڑا سکی۔ نہ میاں کی شرارت و بغاوت کے جرم میں بیوی کو کچھ آنچ پہنچی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "یعنی اپنا ایمان درست کرو۔ نہ خاوند بچا سکے نہ جورو، یہ (قانون عام طور پر) سب کو سنا دیا ہے۔ یہ وہم نہ کیا جائے کہ (معاذ اللہ) حضرت کی بیبیوں پر کہا۔ ان کے لیے تو وہ کہا ہے (جو سورہ "نور" میں ہے) "الطیبات لطیبین" اور اگر بفرض محال ایسا وہم کیا جائے تو امرأۃ فرعون کی مثال کس پر چسپاں کرو گے۔ "لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔"

۲: یعنی اپنا قرب عنایت فرما۔ اور بہشت میں میرے لیے مکان تیار کر۔

۳: یعنی فرعون کے پنجہ سے چھڑا اور اس کے ظلم سے نجات دے۔ حضرت موسیٰ کو انہوں نے پرورش کیا تھا اور ان کی مددگار تھیں ۔ کہتے ہیں کہ فرعون کو جب حال کھلا تو ان کو چومیخا کر کے طرح طرح کی ایذائیں دیتا تھا۔ اس حالت میں اللہ کی طرف سے جنت کا محل ان کو دکھلایا جاتا۔ جس سے سب سختیاں آسان ہو جاتی تھیں ۔ آخر فرعون نے ان کو سیاسۃً قتل کر دیا۔ اور جام شہادت نوش کر کے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گئیں ۔ حدیث صحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کامل ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ اور حضرت مریم کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے۔ ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں اس پاک روح پر۔

۱۲ ۔۔۔      ۱:یعنی حلال و حرام سب سے محفوظ رکھا۔

۲: یعنی فرشتہ کے ذریعہ سے ایک روح پھونک دی۔ حضرت جبرائیل نے گریبان میں پھونک ماری جس کا نتیجہ استقرار حمل ہوا، اور حضرت مسیح علیہ السلام پیدا ہوئے۔

(تنبیہ) نفخ کی نسبت اپنی طرف اس لیے کی کہ فاعل حقیقی اور موثر علی الاطلاق وہی ہے۔ آخر ہر عورت کے رحم میں جو بچہ بنتا ہے اس کا بنانے والا اس کے سوا کون ہے۔ بعض محققین نے یہاں "فرج" کے معنی چاک گریبان کے لیے ہیں ۔ اس وقت "اَحْصَنَتْ فَرَجَہَا" کے معنی یہ ہوں گے کہ کسی کا ہاتھ اپنے گریبان تک نہیں پہنچنے دیا۔ اور یہ نہایت بلیغ کنایہ ان کی عصمت و عفت سے ہو گا۔ جیسے ہمارے محاورات میں کہتے ہیں کہ فلاں عورت بہت پاک دامن ہے اور عرب میں کہا جاتا ہے "نقی الحبیب طاہر الذیل" اس سے عفیف النفس ہونا مراد ہوتا ہے۔ کپڑے کا دامن مراد نہیں ہوتا۔ اس تقدیر پر " فنفخنا فیہ" میں ضمیر لفظ "فرج" کی طرف اس کے لغوی معنی کے اعتبار سے راجع ہو گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔

۳:   رب کی باتیں وہ ہوں گی جو فرشتوں کی زبانی سورہ آل عمران میں بیان ہوئی ہیں ۔ "وَاِذْ قَالَتِ الْمَلائِکَۃُ یَا مَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ" الخ اور کتابوں سے عام کتب سماویہ مراد لی جائیں ۔ تخصیص کی ضرورت نہیں ۔

۴:  یعنی کامل مردوں کی طرح بندگی و طاعت پر ثابت قدم تھی۔ یا یوں کہو کہ قانتین کے خاندان سے تھی۔ تم سورۃ التحریم وللہ الحمد والمنۃ وبہ التوفیق والعصمۃ۔