تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ العَصر

۱ ۔۔۔      "عصر" زمانہ کو کہتے ہیں یعنی قسم ہے زمانہ کی جس میں انسان کی عمر بھی داخل ہے جسے تحصیل کمالات و  سعادات کے لئے ایک متاع گرانمایہ سمجھنا چاہیے یا قسم ہے نماز عصر کے وقت کی جو کاروباری دنیا میں مشغولیت اور شرعی نقطہ نظر سے نہایت فضیلت کا وقت ہے (حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث میں ارشاد فرمایا کہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی گویا اس کا سب گھر بار لٹ گیا) یا قسم ہے ہمارے پیغمبر کے زمانہ مبارک کی، جس میں رسالتِ عظمیٰ اور خلافتِ کبریٰ کا نور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا۔

۲ ۔۔۔     اس سے بڑھ کر ٹوٹا کیا ہو گا کہ برف بیچنے والے دوکاندار کی طرح اس کی تجارت کا راس المال جسے عمر عزیز کہتے ہیں ، دم بدم کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر اس رواداری میں کوئی ایسا کام نہ کر لیا جس سے یہ عمر رفتہ ٹھکانے لگ جائے، بلکہ ایک ابدی اور غیر فانی متاع بن کر ہمیشہ کے لئے کار آمد بن جائے، تو پھر خسارہ کی کوئی انتہاء نہیں ۔ زمانہ کی تاریخ پڑھ جاؤ اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ادنیٰ غور و فکر سے ثابت ہو جائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پروا ہو کر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخرکار کس طرح ناکام و نامراد بلکہ تباہ و برباد ہو کر رہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وقت کی قدر پہچانے اور عمرِ عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت و شرارت یا لہو و لعب میں نہ گنوائے۔ جو اوقات تحصیلِ شرف و مجد اور اکتساب فضل و کمال کی گرا بازاری کے ہیں ۔ خصوصاً وہ گراں مایہ اوقات جن میں آفتابِ رسالت اپنی انتہائی نور افشانی سے دنیا کو روشن کر رہا ہے، اگر غفلت و نسیان میں گزار دیے گئے، تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لئے کوئی خسارہ نہیں ہو سکتا۔ بس خوش نصیب اور اقبال مند انسان وہی ہیں جو اس عمرِ فانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کار آمد بنانے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں اور بہترین اوقات اور عمدہ مواقع کو غنیمت سمجھ کر کسبِ سعادت اور تحصیلِ کمال کی کوشش میں سرگرم رہتے ہیں ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جن کا ذکر آگے "الاالذین امنو وعملو االصلحت " میں کیا گیا ہے۔

۳ ۔۔۔      یعنی انسان کو خسارہ سے بچنے کے لئے چار باتوں کی ضرورت ہے۔ اول خدا اور رسول پر ایمان لائے اور ان کی ہدایات اور وعدوں پر خواہ دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے، پورا یقین رکھے۔ دوسرے اس یقین کا اثر محض اپنی انفرادی صلاح و فلاح پر قناعت نہ کرے بلکہ قوم و ملت کے اجتماعی مفاد کو پیشِ نظر رکھے۔ جب دو مسلمان ملیں ایک دوسرے کو اپنے قول و فعل سے سچے دین اور ہر معاملہ میں سچائی اختیار کرنے کی تاکید کرتے رہیں ۔ چوتھے ہر ایک کو دوسرے کی یہ نصیحت و  وصفت رہے کہ حق کے معاملہ میں اور شخصی و قومی اصلاح کے راستہ میں جس قدر سختیاں اور دشواریاں پیش آئیں یا خلافِ طبع امور کا تحمل کرنا پڑے، پورے صبر و استقامت سے تحمل کریں ، ہرگز قدم نیکی کے راستہ میں ڈگمگانے نہ پائے۔ جو خوش قسمت حضرات ان چار اوصاف کے جامع ہوں گے اور خود کامل ہو کر دوسروں کی تکمیل کریں گے ان کا نام صفحاتِ دہر پر زندہ جاوید رہے گا۔ اور جو آثار چھوڑ کر دنیا سے جائیں گے وہ بطور باقیاتِ صالحات ہمیشہ ان کے اجر کو بڑھاتے رہیں گے۔ فی الحقیقت یہ چھوٹی سی سورت سارے دین و حکمت کا خلاصہ ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ نے سچ فرمایا کہ اگر قرآن میں سے صرف یہی ایک سورت نازل کر دی جاتی تو (سمجھدار بندوں کی) ہدایت کے لئے کافی تھی۔ بزرگانِ سلف میں جب دو مسلمان آپس میں ملتے تھے، جدا ہونے سے پہلے ایک دوسرے کو یہ سورت سنایا کرتے تھے۔