تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ المُمتَحنَة

۱ ۔۔۔      ۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صلح مکہ والوں سے ہوئی تھی جس کا ذکر "انا فتحنا" میں آ چکا۔ دو برس یہ صلح قائم رہی، پھر کافروں کی طرف سے ٹوٹی۔ تب حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خاموشی کے ساتھ فوج جمع کر کے مکہ فتح کرنے کا ارادہ کیا۔ خبروں کی بندش کر دی گئی۔ مبادا کفار مکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تیاریوں سے آگاہ ہو کر لڑائی کا سامان شروع کر دیں ۔ اور اس طرح حرم شریف میں جنگ کرنا ناگزیر ہو جائے۔ ایک مسلمان حاطب بن ابی بلتعہ نے (جو مہاجرین بدریین میں سے تھے) مکہ والوں کو خط لکھ بھیجا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لشکر اندھیری رات اور سیل بے پناہ کی طرح تم پر ٹوٹنے والا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی سے معلوم ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی وغیرہ چند صحابہ کو حکم دیا کہ ایک عورت مکہ کے راستہ میں سفر کرتی ہوئی فلاں مقام پر ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے، وہ حاصل کر کے لاؤ۔ یہ لوگ تیزی سے روانہ ہوئے اور عورت کو ٹھیک اسی مقام پر پا لیا۔ اس نے بہت لیت و لعل اور رد و کد کے بعد خط ان کے حوالے کیا۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے کفار مکہ کے نام ہے۔ اور مسلمانوں کے حملہ کی اطلاع دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حاطب کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا حرکت ہے۔ بولے یا رسول اللہ! نہ میں نے کفر اختیار کیا ہے نہ اسلام سے پھرا ہوں ۔ سچی بات یہ ہے کہ میرے اہل و عیال مکہ میں ہیں ۔ وہاں ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں ۔ میں نے کافروں پر ایک احسان کر کے یہ چاہا کہ وہ لوگ اس کے معاوضہ میں میرے اہل و عیال کی خبر لیتے رہیں اور ان سے اچھا سلوک کریں (میں نے سمجھا کہ اس سے میرا کچھ فائدہ ہو جائے گا اور اسلام کو کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا) فتح و نصرت کے جو وعدے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کیے ہیں ۔ وہ یقیناً پورے ہو کر رہیں گے۔ کسی کے روکے رک نہیں سکتے ( چنانچہ نفس خط میں بھی یہ مضمون تھا کہ "خدا کی قسم! اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تن تنہا بھی تم پر حملہ آور ہوں تو اللہ ان کی مدد کرے گا اور جو وعدے ان سے کیے ہیں پورے کر کے چھوڑے گا"بلاشبہ حاطب سے یہ بہت بڑی خطا ہوئی لیکن رحمۃ للعالمین نے فرمایا "لا تقولوا لہ الَّاخیرًا" بھلائی کے سوا اس کو کچھ مت کہو۔ اور فرمایا حاطب بدریین میں سے ہے تمہیں کیا معلوم ہے کہ اللہ نے بدریین کی خطائیں معاف فرما دیں ۔ سورہ ہذا کا بڑا حصہ اسی قصہ میں نازل ہوا۔

۲:  یعنی کفار مکہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے بھی۔ ان سے دوستانہ برتاؤ کرنا اور دوستانہ پیغام ان کی طرف بھیجنا ایمان والوں کو زیبا نہیں ۔

۳:  اس لیے اللہ کے دشمن ہوئے۔

۴: یعنی پیغمبر کو اور تم کو کیسی کیسی ایذائیں دے کر ترک وطن پر مجبور کیا۔ محض اس قصور پر کہ تم ایک اللہ کو جو تمہارا سب کا رب ہے، کیوں مانتے ہو۔ اس سے بڑی دشمنی اور ظلم کیا ہو گا۔ تعجب ہے، کہ ایسوں کی طرف تم دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہو۔

۵:  یعنی تمہارا گھر سے نکلنا اگر میری خوشنودی اور میری راہ میں جہاد کرنے کے لیے ہے اور خالص میری رضا کے واسطے تم نے سب کو دشمن بنایا ہے تو پھر انہی دشمنوں سے دوستی گانٹھنے کا کیا مطلب، کیا جنہیں ناراض کر کے اللہ کو راضی کیا تھا اب انہیں راضی کر کے اللہ کو ناراض کرنا چاہتے ہو؟ العیاذ باللہ۔

۶:  یعنی آدمی ایک کام تمام دنیا سے چھپا کر کرنا چاہے تو کیا اس کو اللہ سے بھی چھپا لے گا؟ دیکھو! حاطب نے کس قدر کوشش کی کہ خط کی اطلاع کسی کو نہ ہو۔ مگر اللہ نے اپنے رسول کو مطلع فرما دیا اور راز قبل از وقت فاش ہو گیا۔

۷:  یعنی مسلمان ہو کر کوئی ایسا کام کرے اور سمجھے کہ میں اس کے پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہو جاؤں گا سخت غلطی اور بہت بڑی بھول ہے۔

۲ ۔۔۔      یعنی ان کافروں سے بحالت موجودہ کسی بھلائی کی امید مت رکھو۔ خواہ تم کتنی ہی رواداری اور دوستی کا اظہار کرو گے۔ وہ کبھی مسلمان کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ باوجود انتہائی رواداری کے اگر تم پر ان کا قابو چڑھ جائے تو کسی قسم کی برائی اور دشمنی سے درگزر نہ کریں ۔ زبان سے، ہاتھ سے ہر طرح ایذا پہنچائیں اور یہ چاہیں کہ جیسے خود صداقت سے منکر ہیں ، کسی طرح تم کو بھی منکر بنا ڈالیں ۔ کیا ایسے شریر و بد باطن اس لائق ہیں کہ ان کو دوستانہ پیغام بھیجا جائے۔

۳ ۔۔۔       حاطب نے وہ خط اپنے اہل و عیال کی خاطر لکھا تھا۔ اس پر تنبیہ فرمائی کہ اولاد اور رشتہ دار قیامت کے دن کچھ کام نہ آئیں گے، اللہ تعالیٰ سب کا رتی رتی عمل دیکھتا ہے۔ اسی کے موافق فیصلہ فرمائے گا اس کے فیصلہ کو کوئی بیٹا، پوتا، اور عزیز و اقارب ہٹا نہیں سکے گا۔ پھر یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ایک مسلمان اہل و عیال کی خاطر اللہ کو ناراض کر لے۔ یاد رکھو! ہر چیز سے مقدم اللہ کی رضامندی ہے۔ وہ راضی ہو تو اس کے فضل سے سب کام ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن وہ ناخوش ہو تو کوئی کچھ کام نہ آئے گا۔

 ۴ ۔۔۔    ۱: یعنی جو لوگ مسلمان ہو کر ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہوتے گئے اپنے اپنے وقت پر سب نے قولاً یا فعلاً اسی علیحدگی اور بیزاری کا اعلان کیا۔

۲:  یعنی تم اللہ سے منکر ہو۔ اور اس کے احکام کی پروا نہیں کرتے ہم تمہارے طریقہ سے منکر ہیں اور ذرہ برابر تمہاری پروا نہیں کرتے۔

۳:  یعنی یہ دشمنی اور بیر اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب تم شرک چھوڑ کر اسی ایک آقا کے غلام بن جاؤ جس کے ہم ہیں ۔

۴:  یعنی صرف دعا ہی کر سکتا ہوں ۔ کسی نفع و نقصان کا مالک نہیں ۔ خدا جو کچھ پہنچانا چاہے اسے میں نہیں روک سکتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "یعنی ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت کی پھر اپنی قوم کی طرف منہ نہیں کیا۔ تم بھی وہی کرو۔ ایک ابراہیم نے دعا چاہی تھی، باپ کے واسطے۔ جب تک معلوم نہ تھا۔ تم کو معلوم ہو چکا۔ لہٰذا تم کافر کی بخشش نہ مانگو۔" (تنبیہ) باپ کے حق میں ابراہیم علیہ السلام کے استغفار کا قصہ سورہ "برأۃ" میں گزر چکا۔ آیت "وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیمَ لِاَبِیہِ اِلَّا عَنْ مَوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَا اِیَّاہُ" الخ کے فوائد میں دیکھ لیا جائے۔

۵: یعنی سب کو چھوڑ کر تجھ پر بھروسہ کیا اور قوم سے ٹوٹ کر تیری طرف رجوع ہوئے اور خوب جانتے ہیں کہ سب کو پھر کر تیری ہی طرف آنا ہے۔

۵ ۔۔۔      ۱: یعنی ہم کو کافروں کے واسطے محل آزمائش اور تختہ مشق نہ بنا۔ اور ایسے حال میں مت رکھ جس کو دیکھ کر کافر خوش ہوں ، اسلام اور مسلمانوں پر آوازیں کسیں اور ہمارے مقابلہ میں اپنی حقانیت پر استدلال کرنے لگیں ۔

۲:  یعنی ہماری کوتاہیوں کو معاف فرما۔ اور تقصیرات سے درگزر کر۔

۳:  تیری زبردست قوت اور حکمت سے یہی توقع ہے کہ اپنے وفاداروں کو دشمنوں کے مقابلہ میں مغلوب و مقہور نہ ہونے دے گا۔

۶ ۔۔۔       یعنی تم مسلمانوں کو یا بالفاظ دیگر ان لوگوں کو جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور آخرت کے قائم ہونے کے امیدوار ہیں ، ابراہیم علیہ السلام اور اس کے رفقاء کی چال اختیار کرنی چاہیے۔ دنیا خواہ تم کو کتنا ہی متعصب اور سنگدل کہے، تم اس راستہ سے منہ نہ موڑو جو دنیا کے موحد اعظم نے اپنے طرز عمل سے قائم کر دیا۔ مستقبل کی ابدی کامیابی اسی راستہ پر چلنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اگر اس کے خلاف چلو گے اور خدا کے دشمنوں سے دوستانہ گانٹھو گے تو خود نقصان اٹھاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی دوستی یا دشمنی کی کیا پروا ہے وہ تو بذات خود تمام کمالات اور ہر قسم کی خوبیوں کا مالک ہے۔ اس کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچ سکتا۔

۷ ۔۔۔     یعنی اللہ کی قدرت و رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ جو آج بدترین دشمن ہیں کل انہیں مسلمان کر دے اور اس طرح تمہارے اور ان کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم ہو جائیں ۔ چنانچہ فتح مکہ میں ایسا ہی ہوا، تقریباً سب مکہ والے مسلمان ہو گئے اور جو لوگ ایک دوسرے پر تلوار اٹھا رہے تھے اب ایک دوسرے پر جان قربان کرنے لگے۔ اس آیت میں مسلمانوں کی تسلی کر دی کہ مکہ والوں کے مقابلہ میں یہ ترک موالات کا جہاد صرف چند روز کے لیے ہے۔ پھر اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ چاہیے کہ بحالت موجودہ تم مضبوطی سے ترک موالات پر قائم رہو۔ اور جس سے کوئی بے اعتدالی ہو گئی ہو اللہ سے اپنی خطا معاف کرائے۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۸ ۔۔۔     مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی، نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے نہ ان کو ستانے اور نکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے۔ اس قسم کے کافروں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا۔ جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں ۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلا دو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر کافروں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسر پیکار ہے تو تمام کافروں کو بلا تمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیں ۔ ایسا کرنا حکمت و انصاف کے خلاف ہو گا۔ ضروری ہے کہ عورت، مرد، بچے، بوڑھے، جوان اور معاند و مسالم میں ان کے حالات کے اعتبار سے فرق کیا جائے۔ جس کی قدرے تفصیل سورہ "مائدہ" اور "آل عمران" کے فوائد میں گزر چکی۔

۹ ۔۔۔     یعنی ایسے ظالموں سے دوستانہ برتاؤ کرنا بیشک سخت ظلم اور گناہ کا کام ہے۔ (ربط) یہاں تک کفار کے دو فریق (معاند اور مسالم) کے ساتھ معاملہ کرنے کا ذکر تھا۔ آگے بتلاتے ہیں کہ ان عورتوں کے ساتھ کیا معاملہ ہونا چاہیے جو "دارالحرب" سے "دارالاسلام" میں آئیں یا "دارالحرب" میں مقیم رہیں ۔ قصہ یہ ہے کہ "صلح حدیبیہ" میں مکہ والوں نے یہ قرار دیا کہ ہمارا جو آدمی تمہارے پاس جائے اس کو واپس بھیجنا ہو گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو قبول فرما لیا تھا۔ چنانچہ کئی مرد آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو واپس کر دیا۔ پھر کئی مسلمان عورتیں آئیں ۔ ان کو واپس کرتے تو کافر مرد کے گھر مسلمان عورتیں حرام میں پڑتیں ۔ اس پر یہ اگلی آیتیں اتریں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد عورتوں کی واپسی پر کفار نے اصرار نہیں کیا ورنہ صلح قائم نہ رہتی۔

۱۰ ۔۔۔     ۱: یعنی دل کا حال تو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لیکن ظاہری طور سے ان عورتوں کی جانچ کر لیا کرو۔ آیا واقعی وہ مسلمان ہیں اور محض اسلام کی خاطر وطن چھوڑ کر آئی ہیں ۔ کوئی دنیاوی یا نفسانی غرض تو ہجرت کا سبب نہیں ہوا۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ ان کا امتحان کرتے تھے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ان سے بیعت لیتے تھے۔ اور کبھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم خود بہ نفس نفیس بیعت لیا کرتے تھے جو آگے یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَاءَکَ الْمُوْمِنٰتُ یبَایِعنَکَ الخ میں مذکور ہے۔

۲:   یہ حکم ہوا کہ زوجین میں اگر ایک مسلمان اور دوسرا مشرک ہو تو اختلاف دارین کے بعد تعلق نکاح قائم نہیں رہتا۔ پس اگر کسی کافر کی عورت مسلمان ہو کر "دارالاسلام" میں آ جائے تو جو مسلمان اس سے نکاح کرے اس کے ذمہ ہے کہ اس کافر نے جتنا مہر عورت پر خرچ کیا تھا وہ اسے واپس کر دے۔ اور اب عورت کا جو مہر قرار پائے وہ جدا اپنے ذمہ رکھے تب نکاح میں لا سکتا ہے۔

۳:  پہلے حکم کے مقابل دوسری طرف یہ حکم ہوا کہ جس مسلمان کی عورت کافر رہ گئی ہے وہ اس کو چھوڑ دے۔ پھر جو کافر اس سے نکاح کرے اس مسلمان کا خرچ کیا ہوا مہر واپس کرے۔ اس طرح دونوں فریق ایک دوسرے سے اپنا حق طلب کر لیں ۔ جب یہ حکم اترا تو مسلمان تیار ہوئے دینے کو بھی اور لینے کو بھی۔ لیکن کافروں نے دینا قبول نہ کیا۔ تب اگلی آیت نازل ہوئی۔

۱۱ ۔۔۔     یعنی جس مسلمان کی عورت گئی اور کافر اس کا خرچ کیا ہوا نہیں پھیرتے تو جس کافر کی عورت مسلمان کے ہاں آئے اس کا جو خرچ دینا تھا اس کافر کو نہ دیں ۔ بلکہ اسی مسلمان کو دیں جس کا حق مارا گیا ہے ہاں اس مسلمان کا حق دے کر جو بچ رہے وہ واپس کر دیں ۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کافر کا خرچ کیا ہوا واپس نہیں کر سکتا تو بیت المال سے دیا جائے۔ اللہ اکبر! کس قدر عدل و انصاف کی تعلیم ہے۔ لیکن اس پر کار بند وہی ہو گا جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو اور اس پر ٹھیک ٹھیک ایمان رکھتا ہو (تنبیہ) "فَعَاقَبْتُمْ" کے دو ترجمے مترجم محقق نے کیے۔ "پھر تم ہاتھ مارو۔" اور "پھر تمہاری باری آئے۔" ہم نے دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مطلب کی تقریر کی ہے۔ پہلے ترجمہ کے موافق بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد مال غنیمت کا حاصل ہونا ہے۔ یعنی مال غنیمت میں سے اس مسلمان کا خرچ کیا ہوا لوٹایا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۱۲ ۔۔۔      ۱: جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا کہ رسمی ننگ و عار کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے اور بعض اوقات فقر و فاقہ کے خوف سے لڑکوں کو بھی قتل کر ڈالتے تھے۔

۲:  طوفان باندھنا ہاتھ پاؤں میں ، یہ کہ کسی پر جھوٹا دعویٰ کریں یا جھوٹی گواہی دیں یا کسی معاملہ میں اپنی طرف سے بنا کر جھوٹی قسم کھائیں ، اور ایک معنی یہ کہ بیٹا جنا ہو کسی اور سے اور منسوب کر دیں خاوند کی طرف، یا کسی دوسری عورت کی اولاد لے کر مکر و فریب سے اپنی طرف نسبت کر لیں ۔ حدیث میں ہے کہ جو کوئی ایک کا بیٹا دوسرے کی طرف لگائے جنت اس پر حرام ہے۔

۳:  پہلے فرمایا تھا کہ مسلمان عورتوں کی (جو ہجرت کر کے آئیں ) جانچ کی جائے۔ یہاں بتلا دیا کہ ان کا جانچنا یہی ہے کہ جو احکام اس آیت میں ہیں وہ قبول کر لیں تو ان کا ایمان ثابت رکھو۔ یہ "آیت بیعت" کہلاتی ہے۔ حضرت کے پاس عورتیں بیعت کرتی تھیں تو یہی اقرار لیتے تھے لیکن بیعت کے وقت کبھی کسی عورت کے ہاتھ نے آپ کے ہاتھ کو مس نہیں کیا۔

۴:  یعنی ان امور میں جو کوتاہیاں پہلے ہو چکیں یا امتثالِ احکام میں آئندہ کچھ تقصیر رہ جائے اس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے حق میں دعائے مغفرت فرمائیں ۔ اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت سے ان کی تقصیر معاف فرمائے گا۔

۱۳ ۔۔۔       ۱: شروع سورت میں جو مضمون تھا، خاتمہ پر پھر یاد دلا دیا۔ یعنی مومن کی شان نہیں کہ جس پر خدا ناراض ہو اس سے دوستی اور رفاقت کا معاملہ کرے۔ جس پر خدا کا غصہ ہو، خدا کے دوستوں کا بھی غصہ ہونا چاہیے۔

۲: یعنی منکروں کو توقع نہیں کہ قبر سے کوئی اٹھے گا اور پھر دوسری زندگی میں ایک دوسرے سے ملیں گے۔ یہ کافر بھی ویسے نا امید ہیں ۔ (تنبیہ) بعض مفسرین کے نزدیک "من اصحب القبور" کفار کا بیان ہے یعنی جس طرح کافر جو قبر میں پہنچ چکے وہاں کا حال دیکھ کر اللہ کی مہربانی اور خوشنودی سے بالکلیہ مایوس ہو چکے ہیں اسی طرح یہ کافر بھی آخرت کی طرف سے مایوس ہیں ۔