۴۔۔۔ اول زور کی ہوائیں اور آندھیاں چلتی ہیں جن سے غبار وغیرہ اڑتا ہے اور بادل بنتے ہیں، پھر ان میں پانی بنتا ہے۔ اس بوجھ کو اٹھائے پھرتی ہیں۔ پھر برسنے کے قریب نرم ہوا چلی ہے پھر اللہ کے حکم کے موافق بارش میں جس جگہ کہ جتنا حصہ ہوتا ہے وہ تقسیم کرتی ہیں۔ ان ہواؤں کی اللہ قسم کھاتا ہے۔ بعض علماء نے "ذاریات، سے ہوائیں۔ "حاملات" سے بادل، "جاریات" سے ستارے اور "مقسمات" سے فرشتے مراد لیے ہیں۔ گویا مقسم بہ کی ترتیب نیچے سے اوپر کو ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ وغیرہ سے منقول ہے کہ "ذاریات" ہوائیں۔ "حاملات"۔ بادل، "جاریات" کشتیاں، اور "مقسمات "فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے رزق وغیرہ تقسیم کرتے ہیں۔
۶۔۔۔ یعنی یہ ہواؤں اور بارش وغیرہ کا نظام شاہد ہے کہ آخرت کا وعدہ سچا، اور انصاف ہونا ضروری ہے۔ جب اس دنیا میں ہوا تک بے نتیجہ نہیں چلتی تو کیا اتنا بڑا کارخانہ یوں ہی بے نتیجہ چل رہا ہے؟ یقیناً اس کا کوئی عظیم الشان انجام ہو گا۔ اسی کو آخرت کہتے ہیں۔
۷۔۔۔ یعنی صاف و شفاف، خوبصورت، مضبوط اور پر رونق آسمان کی قسم جس پر ستاروں کا جال بچھا ہوا معلوم ہوتا ہے اور جس پر ستاروں کی اور فرشتوں کی راہیں پڑی ہوئی ہیں۔
۹۔۔۔ یعنی قیامت اور آخرت کی بات میں خواہ مخواہ جھگڑے ڈال رکھے ہیں۔ اس کو وہ ہی تسلیم کرے گا جسے بارگاہ ربوبیت سے کچھ تعلق ہو۔ جو شخص راندہ درگا ہے اور خیر و سعادت کے راستوں سے پھیر دیا گیا ہے وہ اس چیز کے تسلیم اور قبول کرنے سے ہمیشہ باز رہے گا۔ حالانکہ اگر صرف آسمان کے نظم و نسق میں غور کرے تو یقین ہو جائے کہ اس مسئلہ میں جھگڑنا محض حماقت ہے۔
۱۰۔۔۔ یعنی دین کی باتوں میں اٹکلیں دوڑاتے ہیں اور محض اپنے ظن و تخمین سے قطعیات کو رد کرتے ہیں۔
۱۱۔۔۔ یعنی دنیا کے مزوں نے آخر سے اور خدا سے غافل کر رکھا ہے۔
۱۲۔۔۔ یعنی انکار اور ہنسی کے طور پر پوچھتے ہیں کہ ہاں صاحب! وہ انصاف کا دن کب آئے گا؟ آخر اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟
۱۴۔۔۔ یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ان کو جواب دیا گیا۔ یعنی ذرا صبر کرو۔ وہ دن آیا چاہتا ہے۔ جب تم آگ میں الٹے سیدھے کیے جاؤ گے۔ اور خوب جلا تپا کر کہا جائے گا کہ لو اب اپنی شرارت اور استہزاء کا مزہ چکھو۔ جس دن کی جلدی مچا رہے تھے وہ آگیا۔
۱۶۔۔۔ ۱: یعنی خوشی خوشی ان نعمتوں کو قبول کرتے ہیں جو ان کے پروردگار نے ارزانی فرمائی ہیں
۲: یعنی دنیا سے نیکیاں سمیٹ کر لائے تھے۔ آج ان کا نیک پھل مل رہا ہے۔ آگے ان نیکیوں کی قدرے تفصیل ہے۔
۱۸۔۔۔ یعنی رات کا اکثر حصہ عبادت الٰہی میں گزارتے اور سحر کے وقت جب رات ختم ہونے کو آتی اللہ سے اپنی تقصیرات کی معافی مانگتے کہ الٰہی حق عبودیت ادا نہ ہو سکا۔ جو کوتاہی رہی اپنی رحمت سے معاف فرما دیجیے۔ کثرت عبادت ان کو مغرور نہ کرتی تھی۔ بلکہ جس قدر بندگی میں ترقی کرتے جاتے خشیت و خوف بڑھتا جاتا تھا۔
۱۹۔۔۔ "ہارا ہوا" وہ جو محتاج ہے اور مانگتا نہیں پھرتا۔ مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ( زکوٰۃ کے علاوہ) اپنے مال میں اپنی خوشی سے سائلوں اور محتاجوں کا حصہ مقرر کر رکھا تھا جو التزام کی وجہ سے گویا ایک حق لازم سمجھا گیا۔
۲۱۔۔۔ یعنی یہ شب بیداری، استغفار اور محتاجوں پر خرچ کرنا اس یقین کی بناء پر ہونا چاہیے کہ خدا موجود ہے اور اس کے ہاں کسی کی نیکی ضائع نہیں جاتی۔ اور یہ یقین وہ ہے جو آفاقی و انفسی آیات میں غور کرنے سے بسہولت حاصل ہو سکتا ہے۔ انسان اگر خود اپنے اندر یا روئے زمین کے حالات میں غور و فکر کرے تو بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ ہر نیک و بد کی جزاء کسی نہ کسی رنگ میں ضرور مل کر رہے گی۔ جلد یا بدیر۔
۲۲۔۔۔ یعنی سائلوں اور محتاجوں پر خرچ کرنے سے اس لیے نہیں ڈرنا چاہیے کہ خرچ کر کے ہم کہاں سے کھائیں گے اور نہ خرچ کر کے ان مساکین پر احسان جتلائے کیونکہ تمہاری سب کی روزی اور اجر و ثواب کے جو وعدے کیے گئے ہیں آسمان والے کے ہاتھ میں ہیں۔ ہر ایک کی روزی پہنچ کر رہے گی کسی کے روکے نہیں رک سکتی۔ اور خرچ کرنے والوں کو ثواب بھی مل کر رہے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "آنے والی جو بات ہے اس کا حکم آسمان ہی سے اترتا ہے۔
۲۳۔۔۔ یعنی جیسے اپنے بولنے میں شبہ نہیں، ویسا ہی اس کلام میں شبہ نہیں۔ یقیناً روزی پہنچ کر رہے گی، قیامت قائم ہو گی، آخرت آ کر رہے گی، اور خدا کے وعدے ضرور پورے ہوں گے۔ آگے "وَفِی اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِل وَالْمَحْرُوْم۔" کی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا قصہ سناتے ہیں جو تمہید ہے لوط علیہ السلام کے قصہ کی۔ دونوں قصوں سے یہ بھی ظاہر ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ دنیا میں محسنین کے ساتھ کیا ہے اور مکذبین کے ساتھ اس نے کیسا برتاؤ کیا۔
۲۴۔۔۔ یعنی فرشتے تھے جن کو ابراہیم علیہ السلام اول انسان سمجھے ان کی بڑی عزت کی اور اللہ کے ہاں تو فرشتے معزز و مکرم ہیں ہی۔ کما قال "بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ۔
۲۵۔۔۔ یعنی سلام کا جواب سلام سے دیا اور دل میں یا آپس میں کہا کہ یہ لوگ کچھ اوپرے سے معلوم ہوتے ہیں۔
۲۷۔۔۔ یعنی نہایت اہتمام سے مہمانی شروع کر دی اور نہایت مہذب و شائستہ پیرایہ میں کہا کہ کیوں حضرات! تم کھانا نہیں کھاتے؟ وہ فرشتے تھے، کھاتے کس طرح۔ آخر ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ آدمی نہیں ہیں۔
۲۸۔۔۔ یہ قصہ سورہ "ہود" اور "حجر" میں گزر چکا ہے۔ وہاں تفصیل ملاحظہ کر لی جائے۔
۲۹۔۔۔ حضرت سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی ایک طرف گوشہ میں کھڑی سن رہی تھیں۔ لڑکے کی بشارت سن کر چلاتی ہوئی دوسری طرف متوجہ ہوئیں اور تعجب سے پیشانی پر ہاتھ مار کر کہنے لگیں کہ (کیا خوب) ایک بڑھیا بانجھ جس کی جوانی میں اولاد نہ ہوئی۔ اب بڑھاپے میں بچہ جنے گی؟
۳۰۔۔۔ یعنی ہم اپنی طرف سے نہیں کہہ رہے بلکہ تیرے رب نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ وہ ہی جانتا ہے کہ کس کو کس وقت کیا چیز دینا چاہیے۔ (پھر تم بیت نبوت سے ہو کر اس بشارت پر تعجب کیا کرتی ہو) (تنبیہ) مجموعہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکا حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں جن کی بشارت ماں اور باپ دونوں کو دی گئی۔
۳۱۔۔۔ یعنی ابراہیم نے فرشتوں سے پوچھا کہ آخر تم کس مہم کے لیے آئے ہو۔ انداز سے سمجھے ہوں گے کہ ضرور کسی اور اہم مقصد کے لیے ان کا نزول ہوا ہے۔
۳۳۔۔۔ یعنی قوم لوط کی سزا دہی کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ تاکہ کنکر کے پتھر برسا کر ان کو ہلاک کریں۔ "من طینٍ" کی قید سے معلوم ہو گیا کہ یہ اولوں کی بارش نہ تھی جس کو توسعاً پتھر کہہ دیا جاتا ہے۔
۳۴۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پتھروں پر نشان کر دیئے گئے ہیں۔ یہ عذاب کے پتھر خاص ان ہی کو لگیں گے جو عقل، دین اور فطرت کی حد سے نکل چکے ہیں۔
۳۶۔۔۔ یعنی اس بستی میں صرف ایک حضرت لوط کا گھرانا مسلمانی کا گھرانا تھا۔ اس کو ہم نے عذاب سے محفوظ رکھا اور صاف بچا نکالا۔ باقی سب تباہ کر دیئے گئے۔
۳۷۔۔۔ یعنی اب تک وہاں تباہی کے نشان موجود ہیں اور ان کی غیر معمولی ہلاکت کے قصہ میں ڈرنے والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے،
۳۹۔۔۔ یعنی زور و قوت پر مغرور ہو کر حق کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اور اپنی قوم اور ارکان سلطنت کو بھی ساتھ لے ڈوبا۔ کہنے لگا کہ موسیٰ یا تو چالاک جادوگر ہے اور یا دیوانہ ہے۔ دو حال سے خالی نہیں۔
۴۰۔۔۔ یعنی ہم نے زیادتی نہیں کی۔ الزام اسی پر ہے کہ اس نے کفر اور سرکشی اختیار کی، سمجھانے پر بھی باز نہ آیا۔ آخر جو بویا تھا وہ ہی کاٹا۔
۴۲۔۔۔ یعنی عذاب کی آندھی آئی جو خیر و برکت سے یکسر خالی تھی۔ اس نے مجرموں کی جڑ کاٹ ڈالی اور جس چیز پر گزری اس کا چورا کر کے رکھ دیا۔
۴۳۔۔۔ یعنی حضرت صالح نے فرمایا کہ اچھا کچھ دن اور دنیا کے مزے اڑا لو، اور یہاں کا سامان برت لو۔ آخر عذاب الٰہی میں پکڑے جاؤ گے۔
۴۵۔۔۔ یعنی ان کی شرارت روز بروز بڑھتی گئی۔ آخر عذاب الٰہی نے آلیا ایک کڑک ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سب ٹھنڈے ہو گئے۔ وہ سب زور و طاقت اور متکبرانہ دعوے اور طنطنے خاک میں مل گئے کسی سے اتنا بھی نہ ہوا کہ پچھاڑ کھانے کے بعد ذرا اٹھ کھڑا ہوتا۔ بھلا بدلہ تو کیا لے سکتے تھے اور اپنی مدد پر کسے بلاتے۔
۴۶۔۔۔ یعنی ان اقوام سے پہلے نوح کی قوم اپنی بغاوت اور سرکشی کی بدولت تباہ کی جا چکی ہے وہ لوگ بھی نافرمانی میں حد سے نکل گئے تھے۔
۴۷۔۔۔ یعنی آسمان جیسی وسیع چیز اپنی قدرت سے پیدا کی اور اس سے بھی بڑی چیزیں پیدا کرے تو کیا مشکل ہے۔
۴۸۔۔۔ یعنی زمین و آسمان سب خدا کے پیدا کیے ہوئے اور اسی کے قبضہ میں ہیں۔ پھر اس کا مجرم بھاگ کر کہاں پناہ لے سکتا ہے۔ نیز خالق کائنات کی عجیب و غریب کاریگری میں آدمی غور کرے تو اسی کا ہو رہے۔
۴۹۔۔۔ یعنی نر اور مادہ، جیسا کہ ابن زید نے کہا۔ اور آج جدید حکماء اس کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ہر ایک نوع میں نر اور مادہ کی تقسیم پائی جاتی ہے اور یا "زوجین" سے متقابل و متضاد چیزیں مراد ہیں۔ مثلاً رات دن، زمین آسمان، اندھیرا اجالا، سیاہی سفیدی، صحت و مرض، کفر و ایمان، وغیرہ ذالک۔
۵۱۔۔۔ یعنی جب زمین و آسمان اور تمام کائنات ایک اللہ کی پیدا کی ہوئی اور اسی کے زیر حکومت ہے تو بندہ کو چاہیے ہر جانب سے ہٹ کر اسی کی طرف بھاگے۔ اگر اس کی طرف نہ بھاگا اور رجوع نہ ہوا تو یہ بہت ڈر کی چیز ہے۔ یا کسی اور ہستی کی طرف رجوع ہو گیا تو یہ بھی ڈر کی بات ہے ان دونوں صورتوں کے خوفناک انجام سے میں تم کو صاف صاف ڈراتا ہوں۔
۵۲۔۔۔ یعنی ایسی صاف تنبیہ و انذار پر اگر یہ منکرین کان نہ دھریں تو غم نہ کیجیے۔ ان سے پہلے جن کافر قوموں کی طرف کوئی پیغمبر آیا، اسی طرح جادوگر یا دیوانہ کہہ کر اس کی نصیحتوں کو ہنسی میں اڑا دیا۔
۵۳۔۔۔ یعنی ہر زمانے کے کافر اس بات میں ایسے متفق اللفظ رہے کہ گویا ایک دوسرے کو وصیت کر مرے ہیں کہ جو رسول آئے اسے ساحر یا مجنون کہہ کر چھوڑ دینا۔ اور واقع میں وصیت تو کہاں کرتے، البتہ شرارت کے عنصر میں سب شریک ہیں۔ اور یہ ہی اشتراک پچھلے شریروں سے وہ الفاظ کہلاتا جو اگلے شریروں نے کہے تھے۔
۵۵۔۔۔ یعنی آپ فرض دعوت و تبلیغ کما حقہ ادا کر چکے، اب زیادہ پیچھے پڑنے اور غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ماننے کا جو کچھ الزام رہے گا ان ہی معاندین پر رہے گا۔ ہاں سمجھانا آپ کا کام ہے۔ سو یہ سلسلہ جاری رکھیے جس کی قسمت میں ایمان لانا ہو گا اس کو یہ سمجھانا کام دے گا جو ایمان لا چکے ہیں ان کو مزید نفع پہنچے گا اور منکروں پر خدا کی حجت تمام ہو گی۔
۵۶۔۔۔ یعنی ان کے پیدا کرنے سے شرعاً بندگی مطلوب ہے۔ اسی لیے ان میں خلقۃً ایسی استعداد رکھی ہے کہ چاہیں تو اپنے اختیار سے بندگی کی راہ پر چل سکیں یوں ارادہ کونیہ قدریہ کے اعتبار سے تو ہر چیز اس کے حکم تکوینی کے سامنے عاجز اور بے بس ہے۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب سب بندے اپنے ارادہ سے تخلیق عالم کی اس غرض شرعی کو پورا کریں گے بہرحال آپ صلی اللہ علیہ و سلم سمجھاتے رہیے کہ سمجھانے سے ہی یہ مطلوب شرعی حاصل ہو سکتا ہے۔
۵۸۔۔۔ یعنی ان کی بندگی سے میرا کچھ فائدہ نہیں، ان ہی کا نفع ہے۔ میں وہ مالک نہیں جو غلاموں سے کہے میرے لیے کما کر لاؤ یا میرے سامنے کھانا لا کر رکھو۔ میری ذات ان تخیلات سے پاک اور برتر ہے۔ میں ان سے اپنے لیے روزی کیا طلب کرتا، خود ان کو اپنے پاس سے روزی پہنچاتا ہوں بھلا مجھ جیسے زورآور اور قادر و توانا کو تمہاری خدمات کی کیا حاجت ہو سکتی ہے بندگی کا حکم صرف اس لیے دیا گیا ہے کہ تم میری شہنشائی و عظمت و کبریائی کا قولاً فعلاً اعتراف کر کے میرے خصوصی الطاف و مراحم کے مورد مستحق بنو۔
۵۹۔۔۔ یعنی اگر یہ ظالم بندگی کی طرف نہیں آتے تو سمجھ لو کہ دوسرے ظالموں کی طرح ان کا ڈول بھی بھر چکا ہے۔ بس اب ڈوبا چاہتا ہے۔ خواہ مخواہ سزا میں جلدی نہ مچائیں۔ جیسے دوسرے کافروں کو خدائی سزا کا حصہ پہنچا، ان کو بھی پہنچ کر رہے گا۔
۶۰۔۔۔ یعنی قیامت کا دن یا اس سے پہلے ہی کوئی دن سزا کا آ جائے۔ چنانچہ مشرکین مکہ کو "بدر" میں خاصی سزا مل گئی۔