۱ ۔۔۔ سورہ انفال اوائل ہجرت میں اور یہ سورہ برأۃ اواخر ہجرت میں نازل ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت یہ تھی کہ جو آیات قرآنی نازل ہوتیں۔ فرما دیتے کہ ان کو فلاں سورت میں فلاں موقع پر رکھو۔ ان آیات کے متعلق (جنہیں اب سورہ "توبہ" یا "برأۃ" کہا جاتا ہے) آپ نے کوئی تصریح نہیں فرمائی کہ کس سورت میں درج کی جائیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقل سورت ہے کسی دوسری سورت کا جز نہیں لیکن عام قاعدہ یہ تھا کہ جب نئی سورت نازل ہوتی تو پہلی سورت سے جدا کرنے کے لیے "بسم اللہ" آتی تھی۔ سورہ توبہ کے شروع میں "بسم اللہ" نہ آئی۔ جو مشعر ہے کہ یہ جداگانہ سورت نہیں۔ ان وجوہ پر نظر کر کے مصاحف عثمانیہ میں اس کے شروع میں "بسم اللہ" نہیں لکھی گئی لیکن کتابت میں اس کے اور انفال کے درمیان فصل کر دیا گیا کہ نہ پوری طرح اس کا استقلال ظاہر ہو اور نہ دوسری سورت کا جز ہونا۔ باقی انفال کے بعد متصل رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مضامین باہم اس قدر مرتبط و منتسق واقع ہوئے ہیں کہ گویا برأ ۃ کو "انفال" کا تتمہ اور تکملہ کہا جا سکتا ہے۔ سورہ انفال تمام تر غزوہ بدر اور اس کے متعلقات پر مشتمل ہے۔ یوم بدر کو قرآن نے "یوم الفرقان" کہا کیونکہ اس نے حق و باطل، اسلام و کفر اور موحدین و مشرکین کی پوزیشن کو بالکل جدا جدا کر کے دکھلا دیا۔ بدر کا معرکہ فی الحقیقت خالص اسلام کی عالمگیر اور طاقتور برادری کی تعمیر کا سنگ بنیاد اور حکومت الٰہی کی تاسیس کا دیباچہ تھا۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَاءُ بَعْضٍ کے مقابلہ میں جس خالص اسلامی برادری کے قیام کی طرف "انفال" کے خاتمہ پر اَلَّاتَفْعَلُوہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْر کہہ کر توجہ دلائی ہے اس کا صریح اقتضاء ہے کہ اس عالمگیر برادری کا کوئی طاقتور اور زبردست مرکز حسی طور پر دنیا میں قائم ہو، جو ظاہر ہے کہ جزیرۃ العرب کے سوا نہیں ہو سکتا جس کا صدر مقام مکہ معظمہ ہے "انفال" کے اخیر میں یہ بھی جتلا دیا گیا تھا کہ جو مسلمان مکہ وغیرہ سے ہجرت کر کے نہیں آئے اور کافروں کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں، دارالاسلام کے آزاد مسلمانوں پر ان کی ولایت و رفاقت کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ مَالَکُمْ مِنْ وَّلاَیَتِہِمْ مِنْ شَیْ ءٍ حَتّیٰ یُہَاجِرُوا ہاں حسب استطاعت ان کے لیے دینی مدد بہم پہنچانی چاہیے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرکز اسلام میں موالاۃ و اخوتِ اسلامی کی کڑیوں کو پوری مضبوطی کے ساتھ جوڑنے کے لیے دو باتوں میں سے ایک ہونی چاہیے یا تمام عرب کے مسلمان ترک وطن کر کے مدینہ آ جائیں اور اسلامی برادری میں بے روک ٹوک شامل ہوں اور یا آزاد مسلمان مجاہدانہ قربانیوں سے کفر کی قوت کو توڑ کر جزیرۃ العرب کی سطح ایسی ہموار کر دیں کہ کسی مسلمان کو ہجرت کی ضرورت ہی باقی نہ رہے یعنی تقریباً سارا جزیرۃ العرب خالص اسلامی برادری کا ایسا ٹھوس مرکز اور غیر مخلوط مستقر بن جائے جس کے دامن سے عالمگیر اسلامی برادری کا نہایت محکم اور شاندار مستقبل وابستہ ہو سکے۔ یہ دوسری صورت ہی ایسی تھی جس سے روز روز کے فتنہ فساد کی بیخ کنی ہو سکتی تھی، اور مرکز اسلام کفار کے اندرونی فتنوں سے بالکل پاک و صاف اور آئے دن کی بدعہدیوں اور ستم رانیوں سے پورا مامون و مطمئن ہو کر تمام دنیا کو اپنی عالمگیر برادری میں داخل ہونے کی دعوت دے سکتا تھا۔ اسی اعلیٰ اور پاک مقصد کے لیے مسلمانوں نے ۳ ہجری میں پہلا قدم میدان بدر کی طرف اٹھایا تھا۔ جو آخرکار ۶ ہجری میں مکہ معظمہ کی فتح عظیم پر منتہی ہوا جو فتنے اشاعت یا حفاظت اسلام کی راہ میں مزاحم ہوتے رہتے تھے فتح مکہ نے ان کی جڑوں پر تیشہ لگایا۔ لیکن ضرورت تھی کہ وَقَاتِلُو ہُمْ حَتّیٰ لَا تَکُونُ فِتْنَۃٌ (الانفال، رکوع ۵) کے امتثال میں اسلامی برادری کے مرکز اور حکومت الٰہیہ کے مستقر (جزیرۃ العرب) کو فتنہ کے جرائم سے بالکلیہ صاف کر دیا جائے، تاکہ وہاں سے تمام دنیا کو اسلامی دیانت اور حقیقی تہذیب کی دعوت دیتے وقت تقریباً سارا جزیرۃ العرب یک جان و یک زبان ہو اور کوئی اندرونی کمزوری یا خلفشار بیرونی مزاحمتوں کے ساتھ مل کر اس مقدس مشن کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ پس جزیرۃ العرب کو ہر قسم کی کمزوریوں اور فتنوں سے پاک کرنے اور عالمگیر دعوت اسلامی کے بلند ترین مقام پر کھڑا کرنے کے لیے لازم ہوا کہ دعوت اسلام کا مرکز خالص اسلامیت کے رنگ میں رنگین ہو۔ اس کے قلب و جگر سے صدائے حق کے سوا کوئی دوسری آواز نکل کر دنیا کے کانوں میں نہ پہنچے۔ پورا جزیرہ سارے جہان کا معلم اور ہادی بنے اور ایمان و کفر کی کشمکش کا ہمیشہ کے لیے یہاں سے خاتمہ ہو جائے۔ سورہ برأۃ کے مضامین کا یہی حاصل ہے۔ چنانچہ چند روز میں خدا کی رحمت اور سچائی کی طاقت سے مرکز اسلام ہر طرح کے وسائس کفر و شرک سے پاک ہو گیا اور سارا عرب متحد ہو کر شخص واحد کی طرح تمام عالم میں نور ہدایت اور عالمگیر اسلامی اخوت پھیلانے کا کفیل و ضامن بنا فللہ الحمد علی ذلک الغرض سورہ انفال میں جس چیز کی ابتداء تھی سورہ توبہ (برأ ۃ) میں اس کی انتہاء ہے۔ اسی لیے "اول بآخر نسبتے دارد" کے موافق "براء ۃ" کو "انفال" کے ساتھ بطور تکملہ ملحق کر دیا گیا۔ اور بھی مناسبات ہیں جن کو علماء نے تفاسیر میں بیان کیا ہے۔
۲ ۔۔۔ ۱ ۶ ھجری میں بمقام "حدیبیہ" جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور قریش کے درمیان معاہدہ صلح ہو چکا تو بنی خزاعہ مسلمانوں کے اور بنی بکر قریش کے حلیف بنے۔ بنی بکر نے معاہدہ کی پروا نہ کر کے خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے اسلحہ وغیرہ سے ظالم حملہ آوروں کی مدد کی۔ اس طرح قریش اور ان کے حلیف دونوں معاہدہ حدیبیہ پر قائم نہ رہے جس کے جواب میں ۸ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اچانک حملہ کر کے مکہ معظمہ بڑی آسانی سے فتح کر لیا۔ ان قبائل کے سوا دوسرے قبائل عرب سے مسلمانوں کا میعادی یا غیر میعادی معاہدہ تھا۔ جن میں سے بعض اپنے معاہدہ پر قائم رہے۔ بہت سے قبائل وہ تھے جن سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ اس سورت کی مختلف آیات قبائل کے متعلق نازل ہوئیں ہیں۔ شروع کی آیات میں غالباً ان مشرکین کا ذکر ہے جن سے معاہدہ تھا مگر میعادی نہ تھا۔ ان کو اطلاع کر دی گئی کہ ہم آئندہ معاہدہ رکھنا نہیں چاہتے۔ چار ماہ کی مہلت تم کو دی جاتی ہے کہ اس مدت کے اندر اسلامی برادری میں شامل ہو جاؤ یا وطن چھوڑ کر مرکز ایمان و توحید کو اپنے وجود سے خالی کر دو اور یا جنگی مقابلہ کے لیے تیار ہو جاؤ لیکن یہ خوب سمجھ لینا کہ تم خدا کی مشیت کو روک نہیں سکتے۔ اگر اسلام نہ لائے وہ تم کو دنیا و آخرت میں رسوا کرنے والا ہے۔ تم اپنی تدبیروں اور حیلہ بازیوں سے اسے عاجز نہ کر سکو گے۔ باقی جن قبائل سے کوئی معاہدہ ہی نہ تھا، ممکن ہے انہیں بھی چار ماہ کی مہلت دی گئی ہو۔ یہ اور اس کے بعد کی آیتوں کا اعلان عام ۹ ہجری میں حج کے موقع پر تمام قبائل عرب کے سامنے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کیا۔
۳ ۔۔۔ حج کو اکبر اس لیے کہا کہ "عمرہ" حج اصغر ہے اور یوم الحج الاکبر سے دسویں تاریخ "عیدالاضحی کا دن "یا نویں تاریخ "عرفہ" کا دن مراد ہے۔ یہ اعلان غالباً ان قبائل کے حق میں تھا جنہوں نے میعادی معاہدہ کیا۔ پھر خود ہی عہد شکنی کی (مثلاً بنی بکر یا قریش وغیرہم) یعنی ایسے لوگوں سے کوئی معاہدہ اب باقی نہیں رہا۔ اگر یہ سب لوگ شرک و کفر سے توبہ کر لیں تو ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ نہیں تو خدا کا جو کچھ ارادہ ہے (تطہیر جزیرۃ العرب کا) وہ پورا ہو کر رہے گا۔ کوئی طاقت اور تدبیر اسے مغلوب نہیں کر سکتی اور کافروں کو کفر بدعہدی کی سزا مل کر رہے گی (تنبیہ) ان قبائل کی عہد شکنی اگرچہ فتح مکہ۸ہجری سے پہلے ہو چکی تھی، بلکہ اسی کے جواب میں مکہ فتح کیا گیا۔ تاہم ۹ ہجری کے حج کے موقع پر اس کا بھی اعلان عام کرایا گیا تاکہ واضح ہو جائے کہ اس قسم کے جتنے لوگ ہیں ان سے کسی قسم کا معاہدہ باقی نہیں رہا۔
۴ ۔۔۔ یہ استثناء ان قبائل کے لیے ہے جن کا معاہدہ میعادی تھا، پھر وہ اس پر برابر قائم رہے کچھ کوتاہی ایفائے عہد میں نہیں کی، نہ بذات خود کوئی کارروائی خلاف عہد کی اور نہ دوسرے بدعہدوں کو مدد پہنچائی (مثلاً بنی ضمرہ و بنی مدلج) ان کے متعلق اعلان کر دیا گیا کہ میعادمعاہدہ منقضی ہونے تک مسلمان بھی برابر معاہدہ کا احترام کریں گے۔ میعاد ختم ہونے کے بعد کوئی جدید معاہدہ نہیں۔ اس وقت ان کے لیے بھی وہ ہی راستہ ہے جو اوروں کے لیے تھا۔
۵ ۔۔۔ استثناء سے فارغ ہو کر پھر مستثنیٰ منہ کا حکم بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ان عہد شکنی کرنے والوں سے اگرچہ اب کوئی معاہدہ باقی نہ رہا اور اس لیے علی الفور جنگ کی جا سکتی ہے تاہم "اشہر حرم" کی رعایت مانع ہے کہ فوراً ان پر حملہ کیا جائے خواہ اس لیے کہ اس وقت تک اشہر حرم میں ابتداء قتال کرنا ممنوع ہو گا یا مصلحتا کہ تھوڑی سی بات کے لیے عام لوگوں میں کیوں تشویش پیدا کی جائے کیونکہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت ان کے یہاں معروف و مسلم چلی آتی تھی۔ بہرحال ماہ محرم کے ختم تک ان کو مہلت دی گئی کہ جو چاہیں اپنا بندوبست کر لیں۔ اس کے بعد تطہیر جزیرۃ العرب کی خاطر جنگ سے چارہ نہیں۔ جو کچھ برتاؤ جنگ میں ہوتا ہے (مارنا، پکڑنا، گھیرنا، داؤ لگانا، گھات میں رہنا) وہ سب ہو گا، البتہ اگر بظاہر کفر سے توبہ کر کے اسلامی برادری میں داخل ہو جائیں جس کی بڑی علامت نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا ہے تو پھر مسلمانوں کو ان سے تعرض کرنے اور ان کا راستہ روکنے کی اجازت نہیں۔ رہا باطن کا معاملہ وہ خدا کے سپرد ہے مسلمانوں کا معاملہ اس کے ظاہر کو دیکھ کر ہو گا۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کلمہ اسلام پڑھ کر نماز ادا نہ کرے یا زکوٰۃ نہ دے تو مسلمان اس کا راستہ روک سکتے ہیں۔ امام احمد، امام شافعی، امام مالک کے نزدیک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ تارک صلوٰۃ اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کر دے۔ (امام احمد کے نزدیک رِدَّۃ اور مالک و شافعی کے نزدیک حداً وتعزیراً) امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اسے خوب زدوکوب کرے اور قید میں رکھے حَتّیٰ یَمُوتُ اَوْیَتُوبُ (حتی کہ مر جائے یا توبہ کرے) بہرحال تخلیہ سبیل کسی کے نزدیک نہیں۔ رہے مانعین زکوٰۃ ان کے اموال میں سے حکومت جبراً زکوٰۃ وصول کرے اور اگر وہ لوگ مل کر حکومت سے آمادہ پیکار ہوں تو راہ راست پر لانے کے لیے جنگ کی جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے مانعین زکوٰۃ پر جو جہاد کیا تھا اس کا واقعہ کتب حدیث و تاریخ میں مشہور و معروف ہے۔
۶ ۔۔۔ پہلے فرمایا تھا کہ اگر اپنی کفریات سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہو جائیں تو مامون ہیں۔ ممکن تھا کہ کسی شخص کو اصول اسلام سے آگاہ ہی نہ ہو وہ تحقیق و رفع شکوک کی غرض سے مسلمانوں کے پاس آنا چاہے، اس کی نسبت فرما دیا کہ اپنی پناہ اور حفاظت میں لے کر خدا کا کلام اور اسلام کے حقائق و دلائل سناؤ۔ اگر قبول نہ کرے تو اس کو قتل مت کرو، بلکہ کہیں ٹھکانے پر امن کی جگہ پہنچا دو، جہاں پہنچ کر وہ مامون و مطمئن ہو جائے۔ اس کے بعد وہ سب کافروں کے برابر ہے۔ یہ امن دینے کا حکم اس لیے ہے کہ اسلامی اصول و حقائق سے ان لوگوں کو آگاہی نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے سامنے حق خوب طرح واضح کر دینا چاہیے۔ اگر اس کے بعد بھی عناد برتے تو "تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ" کے بعد دین میں کوئی اکراہ نہیں۔
۸ ۔۔۔ پچھلی آیات میں جو برأۃ کا اعلان کیا گیا تھا، یہاں اس کی حکمت بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ان مشرکین عرب سے کیا عہد قائم رہ سکتا ہے اور آئندہ کیا صلح ہو سکتی ہے جن کا حال تم مسلمانوں کے ساتھ یہ ہے کہ اگر کسی وقت ذرا قابو تم پر حاصل کر لیں تو ستانے اور نقصان پہنچانے میں نہ قرابت کا مطلق لحاظ کریں اور نہ قول و قرار کا۔ چونکہ اتفاق سے تم پر غلبہ اور قابو حاصل نہیں ہے، اس لیے محض زبانی عہد وپیمان کر کے تم کو خوش رکھنا چاہتے ہیں، ورنہ ان کے دل ایک منٹ کے لیے بھی اس عہد پر راضی نہیں۔ ہر وقت عہد شکنی کا موقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ ان میں اکثر لوگ غدار اور بدعہد ہیں اگر کوئی اکا دکا وفائے عہد کا خیال بھی کرتا ہے تو کثرت کے مقابلہ میں ان کی کچھ پیش نہیں جاتی۔ بہرحال ایسی دغاباز بدعہد قوم سے خدا اور رسول کا کیا عہد ہو سکتا ہے۔ البتہ جن قبائل سے تم بالخصوص مسجد حرام کے پاس معاہدہ کر چکے ہو، سو تم ابتداء کر کے نہ توڑو۔ جب تک وہ وفاداری کے راستہ پر سیدھے چلیں تم بھی ان سے سیدھے رہو اور بڑی احتیاط رکھو کوئی حقیر سے حقیر بات ایسی نہ ہونے پائے جس سے تمہارا دامن عہد شکنی کی گندگی سے داغدار ہو۔ خدا کو وہ ہی لوگ محبوب ہیں جو پوری احتیاط کرتے ہیں۔ چنانچہ بنو کنانہ وغیرہ نے مسلمانوں سے بد عہدی نہ کی تھی۔ مسلمانوں نے نہایت دیانت داری اور احتیاط کے ساتھ اپنا عہد پور کیا۔ اعلان برأۃ کے وقت ان کے معاہدہ کی میعاد منقضی ہونے میں نو مہینے باقی تھے۔ ان میں معاہدہ کی کامل پابندی کی گئی۔
۹ ۔۔۔ یعنی یہ مشرکین وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی تھوڑی سی طمع اور اپنی اغراض و ہوا کی خاطر خدا کے احکام و آیات کو رد کر دیا۔ اس طرح خود بھی خدا کے راستہ پر نہ چلے اور دوسروں کو بھی چلنے سے روکا۔ جو ایسے بدترین اور نالائق کاموں میں پھنسے ہوں اور خدا سے نہ ڈریں وہ عہد شکنی کے وبال سے کیا ڈریں گے اور اپنے قول و قرار پر کیا قائم رہیں گے۔
۱۰ ۔۔۔ یعنی کچھ تمہارے ہی ساتھ نہیں بلکہ مسلمان نام سے ان کو بیر ہے۔ کوئی مسلمان ہو موقع پانے پر اس کو نقصان پہنچانے کے لیے سب تعلقات قرابت اور قول و قرار اٹھا کر رکھ دیتے ہیں۔ اس بارہ میں ان کی ظلم و زیادتی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔
۱۱ ۔۔۔ یعنی اب بھی اگر کفر سے توبہ کر کے احکام دینیہ (نماز زکوٰۃ وغیرہ) پر عمل پیرا ہوں تو نہ صرف یہ کہ آئندہ کے لیے محفوظ و مامون ہو جائیں گے بلکہ اسلامی برادری میں شامل ہو کر ان حقوق کے مستحق ہوں گے۔ جن کے دوسرے مسلمان مستحق ہیں۔ جو کچھ بدعہدیاں اور شرارتیں پہلے کر چکے ہیں سب معاف کر دی جائیں گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "یہ جو فرمایا کہ بھائی ہیں حکم شریعت میں۔ اس سے سمجھ لیں کہ جو شخص قرآئن سے معلوم ہو کہ ظاہر میں مسلمان ہے اور دل سے یقین نہیں رکھتا اس کو حکم ظاہری میں مسلمان گنیں، مگر معتمد اور دوست نہ بنائیں۔"
۱۲ ۔۔۔ یعنی اگر عہد وپیمان توڑ ڈالا (جیسے بنی بکر نے خلاف عہد خزاعہ پر حملہ کر دیا اور قریش نے حملہ آوروں کی مدد کی) اور کفر سے باز نہ آئے بلکہ دین حق کے متعلق طعنہ زنی اور گستاخانہ عیب جوئی کرتے رہے تو سمجھ لو کہ اس طرح کے لوگ "ائمۃ الکفر" (کفر کے سردار اور امام) ہیں۔ کیونکہ ان کی حرکات دیکھ کر اور باتیں سن کر بہت سے کجرو اور بیوقوف پیچھے ہو لیتے ہیں۔ ایسے سرغنوں سے پورا مقابلہ کرو۔ کیونکہ ان کا کوئی قول و قسم اور عہد و پیمان باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے تمہارے ہاتھوں سے کچھ سزا پا کر اپنی شرارت و سرکشی سے باز آ جائیں۔
۱۳ ۔۔۔ قریش نے قسمیں اور معاہدے توڑ دیے تھے، کیونکہ خلاف عہد خزاعہ کے مقابلہ میں بنو بکر کی مدد کی اور ہجرت سے پہلے پیغمبر علیہ السلام کو وطن مقدس (مکہ معظمہ) سے نکالنے کی تجاویز سوچیں۔ اور وہ ہی نکلنے کا سبب بنے۔ "اِذْاَخْرَجَہُ الَّذِینَ کَفَرُوا ثَانِیَ ا ثْنَیْنِ" آلایۃ۔ مکہ میں بے قصور مسلمانوں پر بیٹھے بٹھائے مظالم کی ابتداء کی۔ جب ابو سفیان کا تجارتی قافلہ بچ نکلا تو از راہ نخوت و رعونت بدر کے میدان میں مسلمانوں سے جنگ کی چھیڑ کرنے کے لیے گئے اور "صلح حدیبیہ" کے بعد بھی اپنی جانب سے عہد شکنی کی ابتداء کی کہ مسلمانوں کے حلیف خزاعہ کے مقابلہ پر بنو بکر کی پیٹھ ٹھونکتے رہے اور اسلحہ وغیرہ سے ان کی امداد کرتے رہے۔ آخرکار مسلمان ان سے لڑے اور مکہ معظمہ کو مشرکین کے قبضہ سے پاک کیا اَلا تُقَاتِلُونَ قَومًا الخ سے غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو کوئی قوم اس طرح کے احوال رکھتی ہو، اس سے جنگ کرنے میں مسلمانوں کو کسی وقت کچھ تامل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ان کی طاقت و جمعیت اور سازو سامان کا خوف ہو تو مومنین کو سب سے بڑھ کر خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ خدا کا ڈر جب دل میں آ جائے پھر سب ڈر نکل جاتے ہیں۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ خدا کی نا فرمانی سے ڈرے اور اس کے قہر و غضب سے لرزاں و ترساں رہے۔ کیونکہ نفع و ضرر سب اسی کے ہاتھ میں ہے کوئی مخلوق ادنیٰ سے ادنیٰ نفع و ضرر پہنچانے پر بدون اس کی مشیت کے قادر نہیں۔
۱۵ ۔۔۔ اس آیت میں مشروعیت "جہاد" کی اصل حکمت پر متنبہ فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں اقوام ماضیہ کے جو قصے بیان فرمائے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی قوم کفر و شرارت اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب و عداوت میں حد سے بڑھ جاتی تھی تو قدرت کی طرف سے کوئی تباہ کن آسمانی عذاب ان پر نازل کیا جاتا تھا جس سے ان کے سارے مظالم اور کفریات کا دفعۃً خاتمہ ہو جاتا تھا۔ فَکُلاَ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْہُمْ مَنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِباً وَمِنْہُمْ مَنْ اَخَذَتْہُ ا لصَّیْحَۃُ وَمِنْہُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِہٖ الْاَرْضَ وَمِنْہُمْ مَنْ اَغْرَقْنَا وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلَکِنْ کَانُوا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ (عنکبوت، آیت ۴۰) کوئی شبہ نہیں کہ عذاب کی یہ اقسام بہت سخت مہلک اور آئندہ نسلوں کے لیے عبرتناک تھیں لیکن ان صورتوں میں معذبین کو دنیا میں رہ کر اپنی ذلت و رسوائی کا نظارہ نہیں کرنا پڑتا تھا اور نہ آئندہ کے لیے توبہ و رجوع کا کوئی امکان باقی رہتا تھا۔ مشروعیت جہاد کی اصلی غرض و غایت یہ ہے کہ مکذبین و متعنتین کو حق تعالیٰ بجائے بلاواسطہ عذاب دینے کے لیے اپنے مخلص وفادار بندوں کے ہاتھ سے سزا دلوائے۔ سزا دہی کی اس صورت میں مجرمین کی رسوائی اور مخلصین کی قدر افزائی زیادہ ہے۔ وفادار بندوں کا نصرت و غلبہ اعلانیہ ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے دل یہ دیکھ کر ٹھنڈے ہوتے ہیں کہ جو لوگ کل تک انہیں حقیر و ناتواں سمجھ کر ظلم و ستم اور استہزاء و تمسخر کا تختہ مشق بنائے ہوئے تھے، آج خدا کی تائید و رحمت سے انہی کے رحم و کرم یا عدل و انصاف پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ کفر و باطل کی شوکت و نمائش کو دیکھ کر جو اہل حق گھٹتے رہتے تھے یا جو ضعیف و مظلوم مسلمان کفار کے مظالم کا انتقام نہ لے سکنے کی وجہ سے دل ہی دل میں غیظ کھا کر چپ ہو رہتے تھے جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے ان کے قلوب تسکین پاتے تھے اور آخری بات یہ ہے کہ خود مجرمین کے حق میں بھی سزا دہی کا یہ طریقہ نسبتہ زیادہ نافع ہے۔ کیونکہ سزا پانے کے بعد بھی رجوع و توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ حالات سے عبرت حاصل کر کے بہت سے مجرموں کو توبہ نصیب ہو جائے، چنانچہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ایسا ہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں سارا عرب صدق دل سے دین الٰہی کا حلقہ بگوش بن گیا۔
۲: یعنی ہر ایک کی حالت کو جان کر حکمت کا معاملہ کرتا ہے اور ہر زمانہ میں ا سکے مناسب احکام بھیجتا ہے۔
۱۶ ۔۔۔ مشروعیت جہاد کی یہاں ایک اور حکمت بیان فرمائی۔ یعنی ایمان اور بندگی کے زبانی دعوے کرنے والے تو بہت ہیں لیکن امتحان کی کسوٹی پر جب تک کسا نہ جائے کھرا اور کھوٹا ظاہر نہیں ہوتا۔ جہاد کے ذریعہ سے خدا دیکھنا چاہتا ہے کہ کتنے مسلمان ہیں جو اس کی راہ میں جان و مال نثار کرنے کو تیار ہیں اور خدا اور رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا راز دار یا خصوصی دوست بنانا نہیں چاہتے، خواہ وہ ان کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو۔ یہ معیار ہے جس پر مومنین کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ جب تک عملی جہاد نہ ہو صرف زبانی جمع خرچ سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ پھر عمل بھی جو کچھ کیا جائے اس کی خبر خدا کو ہے کہ صدق و اخلاص سے کِیا یا نمود و ریاء سے جیسا عمل ہو گا ادھر سے اسی کے موافق پھل ملے گا۔
۱۸ ۔۔۔ پہلے فرمایا تھا کہ مسلمان بدون امتحان کے یونہی نہیں چھوڑے جا سکتے، بلکہ بڑے بڑے عزائم اعمال (مثلاً جہاد وغیرہ) میں ان کی ثابت قدمی دیکھی جائے گی اور یہ کہ تمام دنیا کے تعلقات پر کس طرح خدا اور رسول کی جانب کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس رکوع میں یہ بتلایا کہ خدا کی مساجد (عبادت گاہیں) حقیقتہ ایسے ہی اولوالعزم مسلمانوں کے دم سے آباد رہ سکتی ہیں۔ مساجد کی حقیقی آبادی یہ ہے کہ ان میں خدائے واحد کی عبادت اس کی شان کے لائق ہو۔ "ذکر اللہ" کرنے والے کثرت سے موجود ہوں جو بے روک ٹوک خدا کو یاد کریں۔ لغویات و خرافات سے ان پاک مقامات کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ مقصد کفار و مشرکین سے کب حاصل ہو سکتا ہے؟ دیکھئے مشرکین مکہ بڑے فخر سے اپنے کو "مسجد حرام" کا متولی اور خادم کہتے تھے۔ مگر ان کی بڑی خدمت گزاری یہ تھی کہ پتھر کی سینکڑوں مورتیاں کعبہ میں رکھ چھوڑی تھی ان ہی کی نذر و نیاز کرتے اور منتیں مانتے تھے۔ بہت سے لوگ ننگے طواف کرتے تھے، ذکر اللہ کی جگہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے اور خدائے واحد کے سچے پرستاروں کو وہاں تک پہنچنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ لے دے کر ان کی بڑی عبادت یہ تھی کہ حاجیوں کے لیے پانی کی سبیل لگا دی یا حرم شریف میں چراغ جلا دیا۔ یا کعبہ پر غلاف چڑھایا، یا کبھی ضرورت ہوئی تو شکست و ریخت کی مرمت کرا دی، مگر یہ اعمال محض بے جان اور بے روح تھے۔ کیونکہ مشرک کو جب خدا کی صحیح معرفت حاصل نہیں تو کسی عمل میں اس کا قبلہ توجہ اور مرکز اخلاص خدائے وحدہ لا شریک لہٗ کی ذات منبع الکمالات نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے کافر کا کوئی عمل خدا کے نزدیک زندہ اور معتد بہ عمل نہیں ہے۔ (اسی کو حبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ سے تعبیر فرمایا) الغرض کفار و مشرکین جو اپنے حال و قال سے اپنے کفر و شرک پر ہر وقت شہادت دیتے رہتے ہیں، اس لائق نہیں کہ ان سے مساجد اللہ خصوصاً مسجد حرام کی حقیقی تعمیر (آبادی) ہو سکے۔ یہ کام صرف ان لوگوں کا ہے جو دل سے خدائے واحد اور آخری دن پر ایمان لا چکے ہیں، جوارح سے نمازوں کی اقامت میں مشغول رہتے ہیں۔ اموال میں سے باقاعدہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اسی لیے مساجد کی صیانت و تطہیر کی خاطر جہاد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسے مومنین جو دل، زبان، ہاتھ پاؤں، مال و دولت، ہر چیز سے خدا کے مطیع و فرمانبردار ہیں ان کا فرض منصبی ہے کہ مساجد کو آباد رکھیں اور تعمیر مساجد کے جھوٹے دعوے رکھنے والے مشرکین کو خواہ اہل قرابت ہی کیوں نہ ہوں وہاں سے نکال باہر کریں کیونکہ ان کے وجود سے مساجد اللہ کی آبادی نہیں بربادی ہے۔
۱۹ ۔۔۔ مشرکین مکہ کو اس پر بڑا فخر و ناز تھا کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے، انہیں پانی پلاتے، کھانا کپڑا دیتے اور مسجد حرام کی مرمت یا کسوۃ کعبہ یا تیل بتی وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے جہاد و ہجرت وغیرہ پر نازاں ہیں تو ہمارے پاس عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے۔ ایک زمانہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں اسی طرح کی بحث کی تھی، بلکہ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک دفعہ چند مسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے، کوئی کہتا تھا کہ میرے نزدیک اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے سے زیادہ کوئی عبادت نہیں۔ دوسرے نے کہا میرے خیال میں اسلام کے بعد بہترین عمل مسجد حرام کی خدمت ہے، (مثلاً جھاڑو دینا یا روشنی وغیرہ کرنا) تیسرا بولا کہا جہاد فی سبیل اللہ تمام عبادات و اعمال سے افضل و اشرف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا کہ تم "جمعہ" کے وقت منبر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھ کر اس طرح بحثیں کر رہے ہو، ذرا صبر کرو، جب حضور جمعہ سے فارغ ہو جائیں گے تو آپ سے یہ چیز دریافت کر لی جائے گی۔ چنانچہ جمعہ کے بعد حضور سے سوال کیا تو یہ آیات نازل ہوئیں اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ الخ) سورۃ التوبہ ،آیت ۱۹(یعنی حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کا ظاہری طور پر بسانا، ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ میں سے کسی ایک کے برابر بھی نہیں ہو سکتا (افضل ہونا تو کجا؟) یہاں جہاد کے ساتھ ایمان باللہ کا ذکر یا تو اس لیے کیا کہ مشرکین کے فخر و غرور کا جواب بھی ہو جائے کہ تمام عبادات کی روح ایمان باللہ ہے، اس روح کے بدون پانی پلانا یا مسجد حرام کی خدمت کرنا محض مردہ عمل ہے تو یہ بے جان اور مردہ عمل ایک زندہ جاوید عمل کی برابری کیسے کر سکتا ہے۔ وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاءُ وَلَا الْاَ مْوَاتُ (فاطر، رکوع۳) اور اگر صرف مومنین کے اعمال کا باہمی موازنہ کرنا ہے تو ایمان باللہ کا ذکر جہاد فی سبیل اللہ کی تمہید کے طور پر ہو گا۔ اصل مقصود جہاد وغیرہ عزائم اعمال کی افضلیت کو بیان فرمانا ہے۔ ایمان کے ذکر سے تنبیہ فرما دی کہ جہاد فی سبیل اللہ ہو یا کوئی عمل، ایمان کے بغیر ہیچ اور لا شئے محض ہے۔ ان عزائم اعمال (جہاد و ہجرت وغیرہ) کا تقوُّم بھی ایمان باللہ سے ہوتا ہے اور اس نکتہ کو وہ ہی لوگ سمجھتے ہیں جو فہم سلیم رکھتے ہوں۔ ظالمین (بے موقع کام کرنے والوں) کی ان حقائق تک رسائی نہیں ہوتی۔
۲۲ ۔۔۔ یعنی اس کے یہاں ثواب اور درجات کی کیا کمی ہے جس کو جتنا چاہے مرحمت فرمائے۔ پہلی آیت میں تین چیزوں کا ذکر تھا۔ ایمان، جہاد، ہجرت، ان تین پر بشارت بھی تین چیزوں کی دی۔ رحمت، رضوان، خلود فی الجنۃ۔ ابوحیان نے لکھا ہے کہ "رحمت" ایمان پر مرتب ہے، ایمان نہ ہو تو آخرت میں خدا کی رحمت و مہربانی سے کوئی حصہ نہیں مل سکتا اور "رضوان" (جو بہت ہی اعلیٰ مقام ہے) جہاد فی سبیل اللہ کا صلہ ہے۔ مجاہد فی سبیل اللہ تمام نفسانی حظوظ و تعلقات ترک کر کے خدا کے راستہ میں جان و مال نثار کرتا اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انتہائی قربانی پیش کرتا ہے۔ لہٰذا اس کا صلہ بھی انتہائی ہونا چاہیے اور وہ حق تعالیٰ شانہ کی رضاء کا مقام ہے۔ باقی "ہجرت" وہ خدا کے لیے وطن مالوف اور گھر بار چھوڑنے کا نام ہے۔ اس لیے مہاجر کو خوشخبری دی گئی کہ تیرے وطن سے بہتر وطن اور تیرے گھر سے بہتر گھر تجھ کو ملے گا۔ جس میں ہمیشہ اعلیٰ درجہ کی آسائش و راحت سے رہنا ہو گا جس سے ہجرت کرنے کی کبھی نوبت نہ آئے گی۔
۲۳ ۔۔۔ پچھلی آیات میں بتلایا تھا کہ جہاد و ہجرت اعظم و افضل ترین اعمال ہیں۔ بسا اوقات ان دونوں اعمال میں خویش و اقارب، کنبہ اور برادری کے تعلقات خلل انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے فرما دیا کہ جن لوگوں کو ایمان سے زیادہ کفر عزیز ہے، ایک مومن انہیں کیسے عزیز رکھ سکتا ہے۔ مسلمان کی شان نہیں کہ ان سے رفاقت اور دوستی کا دم بھرے حتیٰ کہ یہ تعلقات اس کو جہاد و ہجرت سے مانع ہو جائیں، ایسا کرنے والے گنہگار بن کر اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں۔
۲۴ ۔۔۔ یعنی اگر خدا اور رسول کے احکام کا امتثال اور ہجرت یا جہاد کرنے سے یہ خیال مانع ہو کہ کنبہ برادری چھوٹ جائے گی۔ اموال تلف ہوں گے، تجارت مندی پڑ جائے گی، یا بند ہو جائے گی۔ آرام کے مکانوں سے نکل کر بے آرام ہونا پڑے گا، تو پھر خدا کی طرف سے حکم سزا کا انتظار کرو، جو اس تن آسانی اور دنیا طلبی پر آنے والا ہے۔ جو لوگ مشرکین کی موالات یا دنیاوی خواہشات میں پھنس کر احکام الٰہیہ کی تعمیل نہ کریں ان کو حقیقی کامیابی کا راستہ نہیں مل سکتا۔ حدیث میں ہے کہ جب تم بیلوں کی دم پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی ہو جاؤ گے اور "جہاد" چھوڑ بیٹھو گے تو خدا تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے کبھی نکل نہ سکو گے یہاں تک کہ پھر اپنے دین (جہاد فی سبیل اللہ) کی طرف واپس آؤ۔
۲۶ ۔۔۔ پچھلی آیت میں تنبیہ کی گئی تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے وقت مومنین کو کنبہ، برداری، اموال و املاک وغیرہ کسی چیز پر نظر نہ ہونی چاہیے، یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ مجاہدین کو خود اپنی فوجی جمعیت و کثرت پر گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔ نصرت و کامیابی اکیلے خدا کی مدد سے ہے۔ جس کا تجربہ پیشتر بھی بہت سے میدانوں میں تم کر چکے ہو۔ بدر، قریظہ و نضیر اور حدیبیہ وغیرہ میں جو کچھ نتائج رونما ہوئے، وہ محض امداد الٰہی و تائید غیبی کا کرشمہ تھا۔ اور اب اخیر میں غزوہ حنین کا واقعہ تو ایسا صریح اور عجیب و غریب نشان آسمانی نصرت و امداد کا ہے جس کا اقرار سخت معاند دشمنوں تک کو کرنا پڑا ہے۔ فتح مکہ کے بعد فوراً آپ کو اطلاع ملی کہ ہوازن و ثقیف وغیرہ بہت سے قبائل عرب نے ایک لشکر جرار تیار کر کے بڑے ساز و سامان سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ خبر پاتے ہی آپ نے دس ہزار مہاجرین و انصار کی فوج گراں لے کر جو مکہ فتح کرنے کے لیے مدینہ سے ہمراہ آئی تھی، طائف کی طرف کوچ کر دیا، دو ہزار طلقاء بھی جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے، آپ کے ہمراہ تھے یہ پہلا موقع تھا کہ بارہ ہزار کی عظیم الشان جمعیت کیل کانٹے سے لیس ہو کر میدان میں نکلی۔ یہ منظر دیکھ کر بعض صحابہ سے نہ رہا گیا اور بے ساختہ بول اٹھے کہ (جب ہم بہت تھوڑے تھے اس وقت ہمیشہ غالب رہے تو) آج ہماری اتنی بڑی تعداد کسی سے مغلوب ہونے والی نہیں۔ یہ جملہ مردان توحید کی زبان سے نکلنا "بارگاہ احدیت" میں ناپسند ہوا۔ ابھی مکہ سے تھوڑی دور نکلے تھے کہ دونوں لشکر مقابل ہو گئے۔ فریق مخالف کی جمعیت چار ہزار تھی جو سر کو کفن باندھ کر اور سب عورتوں، بچوں کو ساتھ لے کر ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے پوری تیاری سے نکلے تھے اونٹ گھوڑے، مواشی اور گھروں کا کل اندوختہ کوڑی کوڑی کر کے اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔ ہوازن کا قبیلہ تیر اندازی کے فن میں سارے عرب میں شہرت رکھتا تھا۔ اس کے بڑے ماہر تیر اندازوں کا دستہ وادی حنین کی پہاڑیوں میں گھات لگائے بیٹھا تھا۔ صحیحین میں براء بن عازب کی روایت ہے کہ پہلے معرکہ میں کفار کو ہزیمت ہوئی، وہ بہت سا مال چھوڑ کر پسپا ہو گئے یہ دیکھ کر مسلمان سپاہی غنیمت کی طرف جھک پڑے۔ اس وقت ہوازن کے تیر اندازوں نے گھات سے نکل کر ایک دم دھاوا بول دیا۔ آن واحد میں چاروں طرف سے اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں کو قدم جمانا مشکل ہو گیا۔ اول طلقاء میں بھاگڑ پڑی۔ آخر سب کے پاؤں اکھڑ گئے، زمین باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی کہ کہیں پناہ کی جگہ نہ ملتی تھی حضور پر نور صلی اللہ علیہ و سلم مع چند رفقاء کے دشمنوں کے نرغہ میں تھے۔ ابوبکر عمر عباس علی عبد اللہ بن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تقریباً سو یا اسی صحابہ بلکہ بعض اہل سیر کی تصریح کے موافق کل دس نفوس قدسیہ (عشرہ کاملہ) میدان جنگ میں باقی رہ گئے جو پہاڑ سے زیادہ مستقیم نظر آتے تھے۔ یہ خاص موقع تھا جبکہ دنیا نے پیغمبرانہ صداقت و توکل اور معجزانہ شجاعت کا ایک محیر العقول نظارہ ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سفید خچر پر سوار ہیں، عباس ایک رکاب اور ابو سفیان بن الحارث دوسری رکاب تھامے ہوئے ہیں۔ چار ہزار کا مسلح لشکر پورے جوش انتقام میں ٹوٹا پڑتا ہے، ہر چہار طرف سے تیروں کا مینہ برس رہا ہے۔ ساتھی منتشر ہو چکے ہیں۔ مگر رفیق اعلیٰ آپ کے ساتھ ہے، ربانی تائید اور آسمانی سکینہ کی غیر مرئی بارش آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے گنے چنے رفیقوں پر ہو رہی ہے۔ جس کا اثر آخر کار بھاگنے والوں تک پہنچتا ہے۔ جدھر سے ہوازن و ثقیف کا سیلاب بڑھ رہا ہے آپ کی سواری کا منہ اس وقت بھی اسی طرف ہے۔ اور ادھر ہی آگے بڑھنے کے لیے خچر کو مہمیز کر رہے ہیں۔ دل سے خدا کی طرف لو لگی ہے، اور زبان پر نہایت استغناء و اطمینان کے ساتھ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب جاری ہے۔ یعنی بیشک میں سچا پیغمبر ہوں اور عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔ اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو آواز دی الی عباد اللہ الی انا رسول اللہ خدا کے بندو! ادھر آؤ۔ یہاں آؤ کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے موافق حضرت عباس نے (جو نہایت جیر الصوت تھے) اصحاب سمرہ کو پکارا جنہوں نے درخت کے نیچے حضور کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی تھی۔ آواز کا کانوں میں پہنچنا تھا کہ بھاگنے والوں نے سواریوں کا رخ میدان جنگ کی طرف پھیر دیا۔ جس کے اونٹ نے رخ بدلنے میں دیر کی وہ گلے میں زرہ ڈال کر اونٹ سے کود پڑا اور سواری چھوڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف لوٹا۔ اسی اثناء میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تھوڑی سی مٹی اور کنکریاں اٹھا کر لشکر پر پھینکیں جو خدا کی قدرت سے ہر کافر کے چہرے اور آنکھوں پر پڑی۔ ادھر حق تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کی فوجیں بھیج دیں جن کا نزول غیر مرئی طور پر مسلمانوں کی تقویت و ہمت افزائی اور کفار کی مرعوبیت کا سبب ہوا۔ پھر کیا تھا۔ کفار کنکریوں کے اثر سے آنکھیں ملتے رہے، جو مسلمان قریب تھے انہوں نے پلٹ کر حملہ کر دیا آناً فاناً میں مطلع صاف ہو گیا۔ بہت سے بھاگے ہوئے مسلمان لوٹ کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا لڑائی ختم ہو چکی۔ ہزاروں قیدی آپ کے سامنے بندھے کھڑے ہیں اور مال غنیمت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں فَسُبْحَانَ منْ بِیَدِہٖ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْ ءٍ اس طرح کافروں کو دنیا میں سزا دی گئی۔
۲۷ ۔۔۔ چنانچہ ہوازن وغیرہ کو اس کے بعد توبہ نصیب ہوئی۔ اور اکثر مسلمان ہو گئے۔
۲۸ ۔۔۔ ۱: جب حق تعالیٰ نے شرک کی قوت کو توڑ کر جزیرۃ العرب کا صدر مقام (مکہ معظمہ) فتح کرا دیا اور قبائل عرب جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے تب ۹ ہجری میں یہ اعلان کرایا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک (یا کافر) مسجد حرام میں داخل نہ ہو بلکہ اس کے نزدیک یعنی حدود حرم میں بھی نہ آنے پائے۔ کیونکہ ان کے قلوب شرک و کفر کی نجاست سے اس قدر پلید اور گندے ہیں کہ اس سب سے بڑے مقدس مقام اور مرکز توحید و ایمان میں داخل ہونے کے لائق نہیں، اس کے بعد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جزیرۃ العرب سے مشرکین اور یہود و نصاریٰ سب کے نکال دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ حضور کی آخری وصیت کے موافق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ حکم عملاً نافذ ہوا۔ اب بطور استیلاء کفار کے وہاں رہنے پر مسلمانوں کو رضامند ہونا جائز نہیں۔ بلکہ تطہیر جزیرۃ العرب بقدر استطاعت ان کا فریضہ ہے۔ ہاں حنفیہ کے نزدیک کوئی کافر مسافرانہ عارضی طور پر امام کی اجازت سے وہاں جا سکتا ہے بشرطیکہ امام اتنی اجازت دینا خلاف مصلحت نہ سمجھے۔ باقی حج و عمرہ کی غرض سے داخل ہونے کی کسی کافر کو اجازت نہیں کما وردفی الحدیث اَلاَ لَا یَحُجَّنَ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِکٌ
۲: حرم میں مشرکین کی آمدو رفت بند کر دینے سے مسلمانوں کو اندیشہ ہوا کہ تجارت وغیرہ کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اور جو سامانِ تجارت یہ لوگ لاتے تھے، وہ نہیں آئے گا۔ اس لیے تسلی کر دی کہ اس سے مت گھبراؤ تم کو غنا عطا فرمانا محض اس کی مشیت پر موقوف ہے۔ وہ چاہے گا تو کچھ دیر نہ لگے گی۔ چنانچہ یہ ہی ہوا۔ خدا نے سارا ملک مسلمان کر دیا۔ مختلف بلاد و امصار سے تجارتی سامان آنے لگا، بارشیں خوب ہوئیں جس سے پیداوار بڑھ گئی، فتوحات و غنائم کے دروازے کھل گئے اہل کتاب وغیرہ سے جزیہ کی رقوم وصول ہونے لگیں، غرض مختلف طرح سے حق تعالیٰ نے اسباب غناء جمع کر دیئے۔ بیشک خدا کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔
۲۹ ۔۔۔ جب مشرکین کا قصہ پاک ہو گیا اور ملکی سطح ذرا ہموار ہوئی تو حکم ہوا کہ "اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کی قوت و شوکت کو توڑو۔ مشرکین کے وجود سے تو بالکل عرب کو پاک کر دینا مقصود تھا لیکن یہود و نصاریٰ کے متعلق اس وقت صرف اسی قدر مطمح نظر تھا کہ وہ اسلام کے مقابلہ میں زور نہ پکڑیں اور اس کی اشاعت و ترقی کے راستہ میں حائل نہ ہوں۔ اس لیے اجازت دی گئی کہ اگر یہ لوگ ماتحت رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں تو کچھ مضائقہ نہیں، قبول کر لو، پھر حکومت اسلامیہ ان کے جان و مال کی محافظ ہو گی، ورنہ ان کا اعلان بھی وہ ہی ہے جو مشرکین کا تھا (یعنی مجاہدانہ قتال) کیونکہ یہ بھی اللہ اور یوم آخرت پر جیسا چاہیے ایمان نہیں رکھتے نہ خدا اور رسول کے احکام کی کچھ پروا کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تو کجا، اپنے تسلیم کردہ نبی حضرت مسیح علیہ السلام کی سچی پیروی نہیں کرتے، محض اہوا، و آراء کا اتباع کرتے ہیں، جو سچا دین پہلے آیا یعنی حضرت مسیح وغیرہ کے زمانہ میں، اور جواب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے، کسی کے قائل نہیں۔ بلکہ جیسا کہ عنقریب آتا ہے، اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ خدا کا روشن کیا ہوا چراغ اپنی پھونکوں سے گل کر دیں۔ ایسے بد باطن نالائقوں کو اگر یوں ہی چھوڑ دیا جائے تو ملک میں فتنہ و فساد اور کفر و تمرد کے شعلے برابر بھڑکتے رہیں گے۔
۳۰ ۔۔۔ ۱: روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بعض یہود کا یہ عقیدہ تھا کہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ عام یہود کا نہ تھا اور نہ زمانہ مابعد میں تو بعض علماء نے لکھا ہے کہ اب کوئی یہودی اس عقیدے کا باقی نہیں رہا۔ اگر عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں یہود کا کوئی فرقہ اس کا قائل نہ ہوتا تو ضرور تھا کہ اس وقت یہود قرآن کی حکایت کی تغلیط کرتے۔ جیسا کہ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَا نَہُمْ اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کو سن کر عدی بن حاتم نے اعتراض کیا تھا کہ احبارو رہبان کو رب تو کوئی نہیں مانتا اس کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا جو آگے آتا ہے۔ پس ابنیت عزیر کے عقیدہ کو ان کی طرف نسبت کرنا، اور ان کا اعتراض و انکار کہیں منقول نہ ہونا اس کی دلیل ہے کہ ضرور اس وقت اس خیال کے لوگ موجود تھے۔ ہاں جیسے مرورِ دھور سے بہت سے مذاہب اور فرقے مٹ مٹا گئے، وہ بھی نابود ہو گیا ہو تو کچھ مستبعد نہیں۔ باقی ہم سے ایک نہایت ثقہ بزرگ (حاجی امیر شاہ خاں مرحوم) نے بیان کیا کہ سیاحت فلسطین وغیرہ کے دوران میں مجھے بعض یہود اس خیال کے ملے جن کو اسی عقیدہ کی نسبت سے عزیری کہا جاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
۲: یعنی "ابنیت" یا "الوہیت" مسیح وغیرہ کا عقیدہ پرانے مشرکین کے عقیدہ کے مشابہ ہے۔ بلکہ ان ہی کی تقلید میں یہ اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ سورہ مائدہ کے فوائد میں ہم نقل کر چکے ہیں۔
۳: یعنی خدا ان کو غارت کرے توحید کی صاف اور تیز روشنی پہنچنے کے بعد کدھر اندھیرے میں چلے جا رہے ہیں۔
۳۱ ۔۔۔ ان کے علماء و مشائخ جو کچھ اپنی طرف سے مسئلہ بنا دیتے خواہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہہ دیتے اسی کو سند سمجھتے کہ بس خدا کے ہاں ہم کو چھٹکارا ہو گیا۔ کتب سماویہ سے کچھ سروکار نہ رکھا تھا، محض احبار و رہبان کے احکام پر چلتے تھے۔ اور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں تھوڑا سا مال یا جاہی فائدہ دیکھا حکم شریعت کو بدل ڈالا جیسا کہ دو تین آیتوں کے بعد مذکور ہے پس جو منصب خدا کا تھا (یعنی حلال و حرام کی تشریع) وہ علماء و مشائخ کو دے دیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے فرمایا کہ انہوں نے عالموں اور درویشوں کو خدا ٹھہرا لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عدی بن حاتم کو اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اسی طرح کی تشریح فرمائی ہے اور حضرت حذیفہ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "عالم کا قول عوام کو سند ہے جب تک وہ شرع سے سمجھ کر کہے۔ جب معلوم ہو کہ خود اپنی طرف سے کہا، یا طمع وغیرہ سے کہا پھر سند نہیں۔"
۳۲ ۔۔۔ یعنی توحید خالص اور اسلام کا آفتاب جب چمک اٹھا، پھر یہ دوغلی باتیں اور مشرکانہ دعاوی کہاں فروغ پا سکتے ہیں یہ کوشش کہ بے حقیقت اور بے مغز باتیں بنا کر اور فضول بحث و جدل کر کے نورِ حق کو مدھم کر دیں، ایسی ہے کہ کوئی بیوقوف منہ سے پھونکیں مار کر چاند یا سورج کی روشنی کو بجھانا اور ماند کرنا چاہے، یاد رکھو خواہ یہ کتنے ہی جلیں مگر خدا نور اسلام کو پوری طرح پھیلا کر رہے گا۔
۳۳ ۔۔۔ اسلام کا غلبہ باقی ادیان پر معقولیت اور حجت و دلیل کے اعتبار سے، یہ تو ہر زمانہ میں بحمد اللہ نمایاں طور پر حاصل رہا۔ باقی حکومت و سلطنت کے اعتبار سے وہ اس وقت حاصل ہوا ہے اور ہو گا، اور جبکہ مسلمان اصولِ اسلام کے پوری طرح پابند اور ایمان و تقویٰ کی راہوں میں مضبوط اور جہاد فی سبیل اللہ میں ثابت قدم تھے یا آئندہ ہوں گے۔ اور دین حق کا ایسا غلبہ کہ باطل ادیان کو مغلوب کر کے بالکل صفحہ ہستی سے محو کر دے۔ یہ نزول مسیح علیہ السلام کے بعد قیامت کے قریب ہونے والا ہے۔
۳۴ ۔۔۔ ۱: یعنی روپیہ لے کر احکام شریعہ اور اخبار الٰہیہ کو بدل ڈالتے ہیں۔ ادھر عوام الناس نے انہیں جیسے پہلے گزرا خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے جو کچھ غلط سلط کہہ دیں وہی ان کے نزدیک حجت ہے، اس طرح یہ علماء و مشائخ نذرانے وصول کرنے، ٹکے بٹورنے اور اپنی سیاست اور ریاست قائم رکھنے کے لیے عوام کو مکر و فریب کے جال میں پھنسا کر راہِ حق سے روکتے رہتے ہیں، کیونکہ عوام اگر ان کے جال سے نکل جائیں اور دین حق اختیار کر لیں تو ساری آمدنی بند ہو جائے۔ یہ حال مسلمانوں کو سنایا تاکہ متنبہ ہو جائیں کہ امتوں کی خرابی اور تباہی کا بڑا سبب تین جماعتوں کا خراب و بے راہ ہونا اور اپنے فرائض کو چھوڑ دینا ہے۔ علماء و مشائخ اور اغنیاء و رؤسا۔ ان میں سے دو کا ذکر تو ہو چکا۔ تیسری جماعت (رؤساء ) کا آگے آتا ہے۔ ابن المبارک نے خوب فرمایا وَہَلْ اَفْسَدَ الدِّیْنَ اِلَّا الْمَلُوکُ وَاَحْبَارُ سُوءٍ وَّرُہْبَانَہَا۔
۲: جو لوگ دولت اکٹھی کریں خواہ حلال طریقہ سے ہو مگر خدا کے راستہ میں خرچ نہ کریں (مثلاً زکوٰۃ نہ دیں اور حقوق واجبہ نہ نکالیں) ان کی یہ سزا ہے تو اسی سے ان احبار و رہبان کا انجام معلوم کر لو جو حق کو چھپا کر یا بدل کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ اور ریاست قائم رکھنے کی حرص میں عوام کو خدا کے راستہ سے روکتے پھرتے ہیں۔ بہرحال دولت وہ اچھی ہے جو آخرت میں وبال نہ بنے۔
۳۵ ۔۔۔ بخیل دولت مند سے جب خدا کے راستہ میں خرچ کرنے کو کہا جائے تو اس کی پیشانی پر بل پڑ جاتے ہیں زیادہ کہو تو اعراض کر کے ادھر سے پہلو بدل لیتا ہے۔ اگر اس پر بھی جان نہ بچے تو پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے۔ اس لیے سونا چاندی تپا کر ان ہی تین موقعوں (پیشانی، پہلو، پیٹھ) پر داغ دیئے جائیں گے تاکہ اس کی جمع کرنے اور گاڑھنے کا مزہ چکھ لے۔
۳۶ ۔۔۔ ۱: میرے نزدیک اوپر سے سلسلہ مضمون کا یوں ہے کہ گذشتہ رکوع میں مشرکین کے بعد اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے جہاد کرنے کا حکم دیا۔ پھر رکوع حاضر کے شروع میں بتلایا کہ ان کے عقائد اور طور و طریق بھی مشرکین سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کا عزیر و مسیح کو خدا کا بیٹا کہنا ایسا ہی ہے جیسے مشرکین "ملائکۃ اللّٰہُ" کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے، بلکہ نصاریٰ میں "ابنیت مسیح" کا عقیدہ مشرکین کی تقلید سے آیا ہے۔ وہ بتوں کو خدائی کا درجہ دیتے ہیں انہوں نے مسیح کو روح القدس کو خدا ٹھہرا لیا۔ باوجود دعوائے کتاب کے احبار و رہبان کے احکام کو شریعت الٰہیہ کا بدل تجویز کر لیا یعنی احبار و رہبان رشوتیں لے کر اور حرام مال کھا کر جس چیز کو حلال یا حرام کر دیتے، احکام سماوی کی جگہ ان ہی کو قبول کر لیا جاتا۔ ان کا یہ طریقہ ٹھیک مشرکین کے طریقہ سے مشابہ ہے۔ ان کے سرگردہ بھی جس چیز کو چاہتے حلال و حرام ٹھہرا کر خدا کی طرف نسبت کر دیتے تھے جس کا ذکر "سورہ انعام" میں مفصل گزر چکا، اور یہاں بھی اس کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ عرب میں قدیم سے معمول چلا آتا تھا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینے "اشہر حرم" (خاص ادب و احترام کے مہینے) ہیں ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم، رجب ان میں خونریزی اور جدال و قتال قطعاً بند کر دیا جاتا تھا۔ حج و عمرہ اور تجارتی کاروبار کے لیے امن و امان کے ساتھ آزادی سے سفر کر سکتے تھے۔ کوئی شخص ان ایام میں اپنے باپ کے قاتل سے بھی تعرض نہ کرتا تھا۔ بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اصل ملت ابراہیمی میں یہ چار ماہ "اشہر حرم" قرار دیے گئے تھے۔ اسلام سے ایک مدت پہلے جب عرب کی وحشت و جہالت حد سے بڑھ گئی اور باہمی جدال و قتال میں بعض بعض قبائل کی درندگی اور انتقام کا جذبہ کسی آسمانی یا زمینی قانون کا پابند نہ رہا، تو "نسیء" کی رسم نکالی یعنی جب کسی زور آور قبیلہ کا ارادہ ماہ محرم میں جنگ کرنے کا ہوا تو ایک سردار نے اعلان کر دیا کہ امسال ہم نے محرم کو اشہر حرم سے نکال کر اس کی جگہ صفر کو حرام کر دیا۔ پھر اگلے سال کہہ دیا کہ اس مرتبہ حسب دستور قدیم محرم حرام اور صفر حلال رہے گا۔ اس طرح سال میں چار مہینوں کی گنتی تو پوری کر لیتے تھے لیکن ان کی تعیین میں حسب خواہش رد و بدل کرتے رہتے تھے۔ ابن کثیر کی تحقیق کے موفق "نسیء" (مہینہ آگے پیچھے کرنے) کی رسم صرف محرم و صفر میں ہوتی تھی۔ اور اس کی وہ ہی صورت تھی جو اوپر مذکور ہوئی امام مغازی محمد ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ پہلا شخص جس نے یہ رسم جاری کی "قلمس" کنانی تھا۔ پھر اس کی اولاد در اولادیوں ہی ہوتا چلا آیا۔ آخر میں اسی کی نسل سے "ابو ثمامہ چنادہ بن عوف کنانی کا معمول تھا کہ ہر سال موسم حج میں اعلان کیا کرتا کہ امسال محرم اشہر حرم میں داخل رہے گا یا صفر۔ اسی طرح محرم و صفر میں سے ہر مہینہ کبھی حلال اور کبھی حرام کیا جاتا تھا۔ اور عام طور پر لوگ اسی کو قبول کر لیتے تھے گویا عہد جاہلیت میں کافروں کے کفرو گمراہی کو بڑھانے والی ایک چیز یہ بھی تھی کہ خدا کے حلال یا حرام کیے ہوئے مہینہ کو بدل ڈالنے کا حق کنانہ کے ایک سردار کو سونپ دیا گیا تھا۔ ٹھیک اسی طرح یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ انہوں نے تحلیل و تحریم کی باگ طامع اور غرض پرست احبارو رہبان کے ہاتھ میں دے دی تھی۔ دونوں جماعتوں کی مشابہت ظاہر کرنے کے لیے "نسیء" کی رسم کا یہاں ذکر کیا گیا اور اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَاللَّہِ الخ اس کے رد کی تمہید ہے۔ یعنی آج سے نہیں جب سے آسمان و زمین پیدا کیے خدا کے نزدیک بہت سے احکام شرعیہ جاری کرنے کے لیے سال کے بارہ مہینے رکھے گئے ہیں جن میں سے چار اشہر حرم (ادب کے مہینے) ہیں جن میں گناہ و ظلم سے بچنے کا اور زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ یہ ہی سیدھا دین (ابراہیم علیہ السلام کا) ہے۔
۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت سے نکلتا ہے کہ کافروں سے لڑنا ہمیشہ روا ہے ( چنانچہ "غزوہ تبوک، جس کا آگے ذکر آتا ہے۔ ماہ رجب میں ہوا) اور آپس میں ظلم کرنا ہمیشہ گناہ ہے۔ ان مہینوں میں زیادہ۔ اکثر علماء کی رائے یہی ہے لیکن بہتر ہے کے اگر کوئی کافر ان مہینوں کا ادب کرے تو ہم بھی اس سے لڑائی کی ابتداء نہ کریں۔
۳۷ ۔۔۔ یعنی برے کام کو اچھا سمجھ رہے ہیں۔ جب سمجھ الٹ جائے تو بھلائی کا راستہ کہاں ملے۔ اس آیت میں جو رسم نسی کا ذکر فرمایا ہے، اس کی تفصیل گذشتہ آیت کے فوائد زیر آیت ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ میں گزر چکی (تنبیہ) بعض اقوام جو اپنے مہینوں کا حساب درست رکھنے کے لیے لوند کا مہینہ ہر تیسرے سال بڑھاتی ہیں وہ نسی میں داخل نہیں۔ اور بعض اکابر سلف سے جو نسی کے تحت میں یہ منقول ہے کہ عرب جاہلیت میں سال کے مہینوں کے عدد بدل ڈالتے تھے، مثلاً بارہ کے چودہ مہینے بنا لیے، یا حساب میں ایسی گڑ بڑ کی کہ جو ذوالقعدہ تھا وہ ذوالحجہ بن گیا حتیٰ کہ ۹ ہجری میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حج بھی ان کے حساب سے ذیقعدہ میں ہوا۔ اور حدیث اِنَّ الزَّمَانَ قَداستدَارَ کَہَیْئَتِہٖ الخ کی تقریر بھی اسی اصول کے موافق کی گئی۔ ان سب چیزوں پر حافظ ابن کثیر نے تعقّب کیا ہے من شاء فلیراجعہ یہاں اس پر مفصل بحث کی گنجائش نہیں۔ اگر مستقل تفسیر قرآن لکھنے کی توفیق ہوئی جیسا کہ ارادہ ہے تو وہاں تفصیل سے کلام کیا جائے گا۔
۳۸ ۔۔۔ یہاں سے غزوہ تبوک کے لیے مومنین کو ابھارا گیا ہے گذشتہ رکوع سے پہلے رکوع میں قاَتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاَخِرِ الخ سے اہل کتاب کے مقابلہ میں جہاد کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ درمیان میں جو ذیلی مضامین آئے ان کا ربط موقع بہ موقع ظاہر ہوتا رہا ہے گویا وہ سب رکوع حاضر کی تمہید تھی۔ اور رکوع حاضر غزوہ تبوک کے بیان کی تمہید ہے۔ فتح مکہ و غزوہ حنین کے بعد ۹ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا کہ شام کا نصرانی بادشاہ (ملک غسان) قیصر روم کی مدد سے مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ حضور نے مناسب سمجھا کہ ہم خود حدود شام پر اقدام کر کے اس کا جواب دیں۔ اس لیے کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عام طور پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ جہاد کے لیے تیار ہو جائیں۔ گرمی سخت تھی۔قحط سالی کا زمانہ تھا کھجور کی فصل پک رہی تھی سایہ خوشگوار تھا۔ پھر اس قدر بعید مسافت طے کر کے جانا، اور نہ صرف ملک غسان بلکہ قیصر روم کی باقاعدہ اور سروسامان سے آراستہ افواج سے نبرد آزما ہونا، کوئی کھیل تماشہ نہ تھا۔ ایسی مہم میں مومنین مخلصین کے سوا کس کا حوصلہ تھا کہ جانبازانہ قدم اٹھا سکتا۔ چنانچہ منافقین جھوٹے حیلے بہانے تراش کر کھسکنے لگے۔ بعض مسلمان بھی ایسے سخت وقت میں اس طویل و صعب سفر سے کترا رہے تھے۔ جن میں بہت سے تو آخرکار ساتھ ہو لیے اور گنے چنے آدمی رہ گئے۔ جن کو کسل و تقاعد نے اس شرف عظیم کی شرکت سے محروم رکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تقریباً تیس ہزار سر فروش مجاہدین کا لشکر جرار لے کر حدود شام کی طرف روانہ ہو گئے اور مقام تبوک میں ڈیرے ڈال دیے۔ ادھر قیصر روم کے نام نامہ مبارک لکھا جس میں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت اس کے دل میں گھر کر گئی۔ مگر قوم نے موافقت نہ کی۔ اس لیے قبول اسلام سے محروم رہا۔ شام والوں کو جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ارادے کی اطلاع ہوئی تو قیصر روم سے ظاہر کیا۔ اس نے مدد نہ کی، ان لوگوں نے اطاعت کی مگر اسلام نہ لائے۔ تھوڑی مدت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہوئی اور فاروق اعظم کے عہد خلافت میں تمام ملک شام فتح ہوا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم تبوک سے غالب و منصور واپس تشریف لائے اور خدا نے بڑی بڑی سلطنتوں پر اسلام کی دھاک بٹھلا دی تو منافقین مدینہ بہت فضیحت ہوئے۔ نیز چند سچے مسلمان جو محض سستی اور کسل کی بنا پر نہ گئے تھے بیحد نادم و متحسر تھے۔ اس رکوع کے شروع سے بہت دور تک ان ہی واقعات کا ذکر ہے مگر زیادہ منافقین کی حرکات بیان ہوئی ہیں کہیں کہیں مسلمانوں کو خطاب اور ان کے احوال سے تعرض کیا گیا ہے۔ آیت حاضرہ میں مسلمانوں کو خطاب اور ان کے احوال سے تعرض کیا گیا ہے۔ آیت حاضرہ میں مسلمانوں کو بڑی شدت سے جہاد کی طرف ابھارا اور بتلایا ہے کہ تھوڑے سے عیش و آرام میں پھنس کر جہاد کو چھوڑنا گویا بلندی سے پستی کی طرف گر جانے کا مترادف ہے۔ مومن صادق کی نظر میں دنیا کے عیش و آرام کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہ ہونی چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ اگر خدا کے نزدیک دنیا کی وقعت پر پشہ کی برابر ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔
۳۹ ۔۔۔ یعنی خدا کا کام تم پر موقوف نہیں۔ تم اگر سستی کرو گے وہ اپنی قدرت کاملہ سے کسی دوسری قوم کو دین حق کی خدمت کے لیے کھڑا کر دے گا۔ تم اس سعادت سے محروم رہو گے جو تمہارے ہی نقصان کا موجب ہے
منّت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی
۴۰ ۔۔۔ ۱: یعنی بالفرض اگر تم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد نہ کرو گے نہ سہی۔ ان کا منصورو کامیاب ہونا کچھ تم پر موقوف نہیں، ایک وقت پہلے ایسا آ چکا ہے جب ایک یارِ غار کے سوا کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا۔ معدودے چند مسلمان مکہ والوں کے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کر گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی ہجرت کا حکم ہوا مشرکین کا آخری مشورہ یہ قرار پایا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک نوجوان منتخب ہو اور وہ سب مل کر بیک وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر تلواروں کی ضرب لگائیں تاکہ خون بہا دینا پڑے تو سب قبائل پر تقسیم ہو جائے اور بنی ہاشم کی یہ ہمت نہ ہو کہ خون کے انتقام میں سارے عرب سے لڑائی مول لیں۔ جس شب میں اس ناپاک کاروائی کو عملی جامہ پہنچانے کی تجویز تھی، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بستر پر حضرت علی کو لٹایا، تاکہ لوگوں کی امانتیں احتیاط سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد مالکوں کے حوالہ کر دیں اور حضرت علی کی تسلی فرمائی کہ تمہارا بال بیکا نہ ہو گا پھر خود بہ نفس نفیس ظالموں کے ہجوم میں سے "شاہت الوجوہرماتے ہوئے اور ان آنکھوں میں خاک جھونکتے ہوئے صاف نکل آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق کو ساتھ لیا اور مکہ سے چند میل ہٹ کر غارِ ثور میں قیام فرمایا۔ یہ غار پہاڑ کی بلندی پر ایک بھاری مجوف چٹان ہے۔ جس میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ تھا وہ بھی ایسا تنگ کہ انسان کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر اس میں گھس نہیں سکتا۔ صرف لیٹ کر داخل ہونا ممکن تھا۔ اول حضرت ابوبکر نے اندر جا کر اسے صاف کیا۔ سب سوراخ کپڑے سے بند کیے۔ کہ کوئی کیڑا کانٹا گزند نہ پہنچا سکے۔ ایک سوراخ باقی تھا، اس میں اپنا پاؤں اڑا دیا۔ سب انتظام کر کے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اندر تشریف لانے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم صدیق کے زانو پر سر مبارک رکھ کر استراحت فرما رہے تھے کہ سانپ نے ابوبکر کا پاؤں ڈس لیا۔ پاؤں کو حرکت نہ دیتے تھے مبادا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی استراحت میں خلل پڑے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھ کھلی اور قصہ معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لعاب مبارک صدیق کے پاؤں کو لگا دیا جس سے فوراً شفا ہو گئی، ادھر کفار "قائف" کو ہمراہ لے کر جو نشان ہائے قدم کی شناخت میں ماہر تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاش میں نکلے۔ اس نے غارِ ثور تک نشانِ قدم کی شناخت کی، مگر خدا کی قدرت کہ غار کے دروازہ پر مکڑی نے جالا تن لیا اور جنگلی کبوتر نے انڈے دے دیئے۔ یہ دیکھ کر سب نے قائف کو جھٹلایا اور کہنے لگے کہ یہ مکڑی کا جالا تو محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ولادت سے بھی پہلے کا معلوم ہوتا ہے۔ اگر اندر کوئی داخل ہوتا تو یہ جالا اور انڈے کیسے صحیح و سالم رہ سکتے تھے۔ ابوبکر صدیق کو اندر سے کفار کے پاؤں نظر پڑے تھے۔ انہیں فکر تھی کہ جان سے زیادہ محبوب جس کے لیے سب کچھ فدا کر چکے ہیں دشمنوں کو نظر نہ پڑ جائیں۔ گھبرا کر کہنے لگے یا رسول اللہ! اگر ان لوگوں نے ذرا جھک کر اپنے قدموں کی طرف نظر کی تو ہم کو دیکھ پائیں گے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابوبکر تیرا کیا خیال ہے ان دو کی نسبت جن کا تیسرا اللہ ہے، یعنی جب اللہ ہمارے ساتھ ہے تو پھر کس کا ڈر ہے۔ اس وقت حق تعالیٰ نے ایک خاص قسم کی کیفیتِ سکون و اطمینان حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک پر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت سے ابوبکر کے قلب مقدس پر نازل فرمائی اور فرشتوں کی فوج سے حفاظت و تائید کی۔ یہ اسی تائید غیبی کا کرشمہ تھا کہ مکڑی کا جالا جسے "اوہن البیوت" بتلایا ہے، بڑے بڑے مضبوط و مستحکم قلعوں سے بڑھ کر ذریعہ تحفظ بن گیا۔ اسی طرح خدا نے کافروں کی بات نیچی کی اور ان کی تدابیر خاک میں ملا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تین روز غار میں قیام فرما کر بعافیت تمام مدینہ پہنچ گئے۔ بیشک انجام کار خدا ہی کا بول بالا رہتا ہے۔ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں
۲: بعض نے وَاَیَّدَہٗ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا سے بدر و حنین وغیرہ میں جو نزول ملائکہ ہوا وہ مراد لیا ہے مگر ظاہر سیاق سے وہ ہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ واللہ اعلم۔
۴۱ ۔۔۔ ۱: یعنی پیادہ اور سوار، فقیر اور غنی جو ان اور بوڑھے جس حالت میں ہوں نکل کھڑے ہوں۔ نفیر عام کے وقت کوئی عذر پیش نہ لائیں۔
۲: یعنی دنیاوی اور اخروی ہر حیثیت سے۔
۴۲ ۔۔۔ ۱: یہ منافقین کو فرمایا کہ اگر سفر ہلکا ہوتا اور بے محنت مال غنیمت ہاتھ آنے کی توقع ہوتی تو جلدی سے ساتھ ہو لیتے۔ لیکن ایسی کٹھن منزلوں کا طے کرنا ان سے کہاں ممکن ہے؟
۲: یا تو نکلنے سے پہلے قسمیں کھا کر طرح طرح کے حیلے حوالے کریں گے کہ آپ ان کو مدینہ میں ٹھہرے رہنے کی اجازت دے دیں اور یا آپ کی واپسی کے بعد جھوٹی قسمیں کھا کر باتیں بنائیں گے تاکہ اپنے نفاق پر پردہ ڈالیں۔ حالانکہ خدا سے ان کا جھوٹ اور نفاق پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ یہ نفاق و فریب دہی اور جھوٹی قسمیں کھانا انجام کار انہی کے حق میں وبالِ جان ہو گا۔
۴۳ ۔۔۔ منافقین جھوٹے عذر کر کے جب مدینہ میں ٹھہرے رہنے کی اجازت طلب کرتے تو آپ ان کے کید و نفاق سے اغماض کر کے اور یہ سمجھ کر کہ ان کے ساتھ چلنے میں فساد کے سوا کوئی بہتری نہیں اجازت دیتے تھے اس کو فرمایا کہ اگر آپ اجازت نہ دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ کیونکہ اس وقت ظاہر ہو جاتا کہ انہوں نے اپنے نہ جانے کو کچھ آپ کی اجازت پر موقوف نہیں رکھا ہے جانے کی توفیق تو انہیں کسی حال نہ ہوتی۔ البتہ آپ کے روبرو ان کا جھوٹ سچ کھل جاتا۔ پس اجازت دینا کوئی گناہ نہ تھا، البتہ نہ دینا مصالح حاضرہ کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہوتا۔ اس اعلیٰ و اکمل صورت کے ترک کی وجہ سے خطاب کو "عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ" سے شروع فرمایا۔ عفو کا لفظ ضروری نہیں کہ گناہ ہی کے مقابلہ میں ہو۔ بعض محققین نے عفا اللہ عنک" اس جملہ کو صدر کلام میں محض دعا و تعظیم کے طور پر لیا ہے جیسا کہ عرب کے محاورات میں شائع تھا، مگر سلف سے وہ ہی منقول ہے جو ہم نے پہلے بیان کیا۔ اور لفظ "لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ" اس کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔
۴۵ ۔۔۔ یعنی جن کے دلوں میں ایمان و تقویٰ کا نور ہے، ان کی یہ شان نہیں کہ جہاد سے الگ رہنے کی اس طرح بڑھ بڑھ کر اجازت حاصل کریں۔ ان کا حال تو وہ ہے جو اس پارہ کے آخر میں بیان ہوا ہے۔ "تَوَلَّوْاوَّ اَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَناً اَلاَّ یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ" یعنی بے سروسامانی وغیرہ کے عذر سے اگر "جہاد فی سبیل اللہ" کے شرف سے محروم رہ جائیں تو اس فضل کے فوت ہو جانے پر ان کی آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں۔ بے حیا بن کر جہاد سے علیحدہ رہنے کی اجازت لینا انہی کا شیوہ ہے جن کو خدا کے وعدوں پر یقین نہیں نہ آخرت کی زندگی کو سمجھتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے اسلام و مسلمین کے غالب و منصور ہونے کی جو خبریں دی ہیں ان کے متعلق ہمیشہ شک و شبہ میں گرفتار رہتے ہیں۔
۴۶ ۔۔۔ ان کا ارادہ ہی گھر سے نکلنے کا نہیں۔ ورنہ اس کا کچھ تو سامان کرتے حکم جہاد سنتے ہی جھوٹے عذر نہ لے دوڑتے۔ واقعہ یہ ہے کہ خدا نے ان کی شرکت کو پسند ہی نہیں کیا۔ یہ جاتے تو وہاں فتنے اٹھاتے۔ نہ جانے کی صورت میں انہیں پتہ لگ جائے گا کہ مومنین کو خدا کے فضل سے ایک تنکے کے برابر ان کی پروا نہیں۔ اسی لیے خدا نے صفوف مجاہدین میں شامل ہونے سے روک دیا اس طرح کہ رکنے کا وبال انہی کے سر پر رہے۔ گویا ان کو تکویناً کہہ دیا گیا کہ جاؤ، عورتوں بچوں اور اپاہج آدمیوں کے ساتھ گھر میں گھس کر بیٹھ رہو۔ اور پیغمبر علیہ السلام نے ان کے اعذارِ کاذبہ کے جواب میں جو گھر بیٹھ رہنے کی اجازت دے دی، یہ بھی ایک طرح خدا ہی کا فرما دینا ہے۔ اس لیے تکویناً کی قید بھی ضروری نہیں۔
۴۷ ۔۔۔ ۱: یعنی اگر تمہارے ساتھ نکلتے تو اپنے جبن و نامردی کی وجہ سے دوسروں کی ہمتیں بھی سست کر دیتے اور آپس میں لگا بجھا کر مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرتے اور جھوٹی افواہیں اڑا کر ان کو دشمنوں سے ہیبت زدہ کرنا چاہتے۔ غرض ان کے وجود سے بھلائی میں تو کوئی اضافہ نہ ہوتا ہاں برائی بڑھ جاتی اور فتنہ انگیزی کا زور ہوتا۔ ان ہی وجوہ سے خدا نے ان کو جانے کی توفیق نہ بخشی۔
۲: یعنی اب بھی ان کے جاسوس یا بعض ایسے سادہ لوح افراد تم میں موجود ہیں جو ان کی بات سنتے اور تھوڑا بہت متاثر ہوتے ہیں (ابن کثیر) گو ویسا فتنہ فساد برپا نہیں کر سکتے جو ان شریروں کے وجود سے ہو سکتا تھا، بلکہ ایک حیثیت سے ایسے جواسیس کا ہمراہ جانا مفید ہے کہ وہ بچشم خود مسلمانوں کی اولوالعزمی، بے جگری وغیرہ دیکھ کر ان سے نقل کریں گے تو ان کے دلوں پر بھی مسلمانوں کی ہیبت قائم ہو گی۔
۴۸ ۔۔۔ جس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ تشریف لائے، یہود اور منافقین مدینہ آپ کے خلاف طرح طرح کی فتنہ انگیزیاں کرتے رہے اور اسلام کی روز افزوں ترقیات کا تختہ الٹنے کے لیے بہت کچھ الٹ پھیر کی۔ مگر بدر میں جب کفر و شرک کے بڑے بڑے ستون گر گئے اور حیرت انگیز طریقہ پر اسلام کا غلبہ ظاہر ہوا تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا اِنْ ہٰذَا اَمْرٌ قَدْتَوَجَّہَ کہ یہ چیز تو اب رکنے والی معلوم نہیں ہوتی چنانچہ بہت سے لوگ خوف کھا کر محض زبان سے کلمہ پڑھنے لگے مگر چونکہ دل میں کفر چھپا ہوا تھا اس لئے جوں جوں اسلام و مسلمین کی کامیابی اور غلبہ دیکھتے، دل دل میں جلتے اور غیظ کھاتے تھے۔ غرض ان کی فتنہ پردازی اور مکاری کوئی نئی چیز نہیں۔ شروع سے ان کا یہ ہی وطیرہ رہا ہے جنگ احد میں یہ لوگ اپنی جماعت کو لے کر راستہ سے لوٹ آئے تھے۔ مگر آخر دیکھ لیا کہ حق کس طرح غالب ہو کر رہتا ہے اور باطل کیسے ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔
۴۹ ۔۔۔ ایک بڑے منافق جد بن قیس نے کہا کہ حضرت مجھے تو یہیں رہنے دیجئے۔ روم کی عورتیں بہت حسین ہوتی ہیں میں انہیں دیکھ کر دل قابو میں نہ رکھ سکوں گا۔ تو مجھے وہاں لے جا کر گمراہی میں نہ ڈالیے۔ فرمایا کہ یہ لفظ کہہ کر اور اپنے جبن و کفر پر جھوٹی پرہیزگاری کا پردہ ڈال کروہ گمراہی کے گڑھے میں گر چکا۔ اور آگے چل کر کفر و نفاق کی بدولت دوزخ کے گڑھے میں گرنے والا ہے بعض نے آیت کو عام منافقین کے حق میں رکھا ہے اور لَاتَفْتَنِیْ کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم کو ساتھ لے جا کر اموال وغیرہ کے نقصان میں مبتلا نہ کیجئے اس کا جواب الافی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوا سے دیا۔
۵۰ ۔۔۔ منافقین کی عادت تھی۔ جب مسلمانوں کو غلبہ و کامیابی نصیب ہوتی تو جلتے اور کڑھتے تھے۔ اور اگر کبھی کوئی سختی کی بات پیش آ گئی مثلاً کچھ مسلمان شہید یا مجروح ہو گئے۔ تو فخریہ کہتے کہ ہم نے از راہ دور اندیشی پہلے ہی اپنے بچاؤ کا انتظام کر لیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہی حشر ہونے والا ہے لہٰذا ان کے ساتھ گئے ہی نہیں۔ غرض ڈینگیں مارتے ہوئے اور خوشی سے بغلیں بجاتے ہوئے اپنی مجلسوں سے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔
۵۲ ۔۔۔ یعنی سختی یا نرمی جو جس وقت کے لیے مقدر ہے وہ تو ٹل نہیں سکتی، نہ دنیا میں اس سے چارہ ہے۔ مگر ہم چونکہ ظاہر و باطن سے خدا کو اپنا حقیقی مولا اور پروردگار سمجھتے ہیں، لہٰذا ہماری گردنیں اس کے فیصلے اور حکم کے سامنے پست ہیں۔ کوئی سختی اس کی فرمانبرداری سے باز نہیں رکھتی۔ اور اسی پر ہم کو بھروسہ ہے کہ وہ عارضی سختی کو آخرت میں بالیقین اور بسااوقات دنیا میں بھی راحت و خوشی سے تبدیل کر دے گا۔ اندریں صورت تم ہماری نسبت دو بھلائیوں میں سے کسی ایک کی ضرور امید کر سکتے ہو۔ اگر خدا کے راستہ میں مارے گئے تو شہادت و جنت، اور واپس آئے تو اجر یا غنیمت ضرور مل کر رہے گی۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں حق تعالیٰ نے مجاہد کی نسبت ان چیزوں کا تکفّل فرمایا ہے۔ برخلاف اس کے تمہاری نسبت ہم منتظر ہیں کہ دو برائیوں میں سے ایک برائی ضرور پہنچ کر رہے گی یا نفاق و شرارت کی بدولت بلاواسطہ قدرت کی طرف سے کوئی عذاب تم پر مسلط ہو گا، یا ہمارے ہاتھوں سے خدا تم کو سخت سزا دلوائے گا جو رسوا کر کے تمہارے نفاق کا پردہ فاش کر دے گی۔ بہرحال تم اور ہم دونوں کو ایک دوسرے کا انجام دیکھنے کے لیے منتظر رہنا چاہیے۔ آخر معلوم ہو جائے گا کہ دونوں میں زیادہ انجام بین اور دور اندیش کون تھا۔
۵۳ ۔۔۔ جد بن قیس نے رومی عورتوں کے فتنہ کا بہانہ کر کے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت میں بذاتِ خود نہیں جا سکتا۔ لیکن مالی اعانت کر سکتا ہوں۔ اس کا جواب دیا کہ بے اعتقاد کا مال قبول نہیں خواہ خوشی سے خرچ کرے یا نا خوشی سے۔ یعنی خوشی سے خدا کے راستہ میں خرچ کرنے کی ان کو توفیق کہاں وَلَا یُنْفِقُونَ اِلَّا وَہُمْ کَارِہُونَ تاہم اگر بالفرض خوشی سے بھی خرچ کریں تو خدا قبول نہ کرے گا۔ اس کا سبب اگلی آیت میں بتایا ہے۔
۵۴ ۔۔۔ عدم قبول کا اصل سبب تو ان کا کفر ہے جیسا کہ ہم پہلے متعدد مواقع میں اشارہ کر چکے کہ کافر کا ہر عمل مردہ اور بے جان ہوتا ہے۔ باقی نماز میں ہارے جی سے آنا، یا برے دل سے خرچ کرنا، یہ سب کفر کے ظاہری آثار ہیں۔
۵۵ ۔۔۔ شبہ گزر سکتا تھا کہ جب یہ ایسے مردود ہیں تو ان کو مال و اولاد وغیرہ نعمتوں سے کیوں نوازا گیا ہے۔ اس کا جواب دیا کہ یہ نعمتیں ان کے حق میں بڑا عذاب ہیں، جس طرح ایک لذیذ اور خوشگوار غذا تندرست آدمی کی صحت و قوت کو بڑھاتی ہے اور فاسد الاخلاط مریض کو ہلاکت سے قریب تر کر دیتی ہے۔ یہ ہی حال ان دنیاوی نعمتوں (مال و اولاد وغیرہ) کا سمجھو، ایک کافر کے حق میں یہ چیزیں سوئے مزاج کی وجہ سے زہر ہلاہل ہیں۔ چونکہ کفار دنیا کی حرص و محبت میں غریق ہوتے ہیں، اس لیے اول اس کے جمع کرنے میں بیحد کوفت اٹھاتے ہیں۔ پھر ذرا نقصان یا صدمہ پہنچ گیا تو جس قدر محبت ان چیزوں سے ہے، اسی قدر غم سوار ہوتا ہے اور کوئی وقت اس کے فکر و اندیشہ اور ادھیڑ بن سے خالی نہیں جاتا۔ پھر جب موت ان محبوب چیزوں سے جدا کرتی ہے اس وقت کے صدمے اور حسرت کا تو اندازہ کرنا مشکل ہے۔ غرض دنیا کے عاشق اور حریص کو کسی وقت حقیقی چین اور اطمینان میسر نہیں۔ چنانچہ یورپ و امریکہ وغیرہ کے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے اقوال اس پر شاہد ہیں۔ باقی مومنین جو دولت اور اولاد کو معبود اور زندگی کا اصلی نصب العین نہیں سمجھتے، چونکہ ان کے دل میں حب دنیا کا مرض نہیں ہوتا اس لیے یہ ہی چیزیں ان کے حق میں نعمت اور دین کی اعانت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ اکثر کفار کثرت مال و اولاد پر مغرور ہو کر کفرو طغیان میں اور زیادہ شدید ہو جاتے ہیں جو اس کا سبب بنتا ہے کہ اخیر دم تک کافر ہی رہیں۔ نیز منافقین مدینہ جن کے حق میں یہ آیات نازل ہوئیں، ان کا حال یہ تھا کہ بادل نخواستہ جہاد وغیرہ کے مواقع پر ریاء و نفاق سے مال خرچ کرتے تھے اور ان کی اولاد میں بعض لوگ مخلص مسلمان ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوتے تھے، یہ دونوں چیزیں منافقین کے منشائے قلبی کے بالکلیہ خلاف تھیں، اس طرح اموال و اولاد ان کے لیے دنیا میں عذاب بن گئے تھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی یہ تعجب نہ کرے کہ بے دین کو اللہ نے نعمت کیوں دی، بے دین کے حق میں اولاد اور مال وبال ہے کہ ان کے پیچھے دل پریشان رہے اور ان کی فکر سے چھوٹنے نہ پائے مرتے دم تک، تاکہ توبہ کرے یا نیکی اختیار کرے۔"
۵۷ ۔۔۔ یعنی محض اس خوف سے کہ کفر ظاہر کریں تو کفار کا سا معاملہ ان کے ساتھ بھی ہونے لگے گا۔ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم تو تمہاری ہی جماعت (مسلمین) میں شامل ہیں۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے اگر آج ان کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یا کسی غار میں چھپ کر زندگی بسر کر سکیں یا کم از کم ذرا سر گھسانے کی جگہ ہاتھ آ جائے، غرض حکومت اسلامی کا خوف نہ رہے، تو سب دعوے چھوڑ کر بے تحاشا اسی طرف بھاگنے لگیں، چونکہ نہ اسلامی حکومت کے مقابلہ کی طاقت ہے نہ کوئی پناہ کی جگہ ملتی ہے اس لیے قسمیں کھا کھا کر جھوٹی باتیں بناتے ہیں۔
۵۸ ۔۔۔ بعض منافقین اور بعض اعراب (بدو) صدقات و غنائم کی تقسیم کے وقت دنیاوی حرص اور خود غرضی کی راہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت زبان طعن کھولتے تھے کہ تقسیم میں انصاف کا پہلو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ مگر یہ اعتراض اسی وقت تک تھا جب تک ان کی خواہش کے موافق صدقات وغیرہ میں سے حصہ نہ دیا جائے۔ اگر انہیں خوب جی بھر کر خواہش و حرص کے موافق دے دیا گیا تو خوش ہو جاتے اور کچھ اعتراض نہیں رہتا تھا گویا ہر طرح مال و دولت کو قبلہ مقصود ٹھہرا رکھا تھا۔ آگے بتلاتے ہیں کہ ایک مدعی ایمان کا مطمح نظر یہ نہیں ہونا چاہیے۔
۵۹ ۔۔۔ یعنی بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو کچھ خدا پیغمبر کے ہاتھ سے دلوائے اس پر آدمی راضی و قانع ہو اور صرف خدا پر توکل کرے اور سمجھے کہ وہ چاہے گا تو آئندہ اپنے فضل سے بہت کچھ مرحمت فرمائے گا۔ غرض دنیا کی متاع فانی کو نصب العین نہ بنائے۔ صرف خداوند رب العزت کے قرب و رضا کا طالب ہو اور جو ظاہری و باطنی دولت خدا اور رسول کی سرکار سے ملے اسی پر مسرور و مطمئن ہو۔
۶۰ ۔۔۔ چونکہ تقسیم صدقات کے معاملہ میں پیغمبر پر طعن کیا گیا تھا، اس لیے متنبہ فرماتے ہیں کہ صدقات کی تقسیم کا طریقہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے۔ اس نے صدقات وغیرہ کے مصارف متعین فرما کر فہرست نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی کے موافق تقسیم کرتے ہیں اور کریں گے کسی کی خواہش کے تابع نہیں ہو سکتے۔ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "خدا نے صدقات (زکوٰۃ) کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑا۔ بلکہ بذاتِ خود اس کے مصارف متعین کر دیے ہیں۔ جو آٹھ ہیں۔ قراء" (جن کے پاس کچھ نہ ہو) "مساکین" (جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو) "عاملین" (جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات وغیرہ کے کاموں پر مامور ہوں) "مؤلفۃ القلوب" (جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں و غیر ذلک من الانواع، اکثر علماء کے نزدیک حضور کی وفات کے بعد یہ مد نہیں رہی) "رقاب" (یعنی غلاموں کا بدل کتابت ادا کر کے آزادی دلائی جائے۔ یا خرید کر آزاد کیے جائیں۔ یا اسیروں کا فدیہ دے کر رہا کرائے جائیں) "غارمین" (جن پر کوئی حادثہ پڑا اور مقروض ہو گئے یا کسی کی ضمانت وغیرہ کے بارے میں دب گئے) "سبیل اللہ" (جہاد وغیرہ میں جانے والوں کی اعانت کی جائے) "ابن السبیل" (مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاب نہ ہو، گو مکان پر دولت رکھتا ہو) "حنفیہ" کے یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے۔ تفصیل فقہ میں ملاحظہ کی جائے۔
۶۱ ۔۔۔ منافقین آپس میں بیٹھ کر اسلام کے متعلق بد گوئی کرتے۔ جب کوئی کہتا کہ ہماری یہ باتیں پیغمبر علیہ السلام تک پہنچ جائیں گی تو کہتے کیا پروا ہے۔ ان کے سامنے ہم جھوٹی تاویلیں کر کے اپنی برأت کا یقین دلا دیں گے۔ کیونکہ وہ تو کان ہی کان ہیں جو سنتے ہیں فوراً تسلیم کر لیتے ہیں۔ ان کو باتوں میں لے کر آنا کچھ مشکل نہیں۔ بات یہ تھی کہ حضرت اپنے حیاء و وقار اور کریم النفسی سے جھوٹے کا جھوٹ پہچانتے، تب بھی نہ پکڑتے۔ خلق عظیم کی بناء پر مسامحت اور تغافل برتتے۔ وہ بیوقوف جانتے کہ آپ نے سمجھا ہی نہیں۔ حق تعالیٰ نے اس کا جواب دیا کہ اگر وہ کان ہی ہیں تو تمہارے بھلے کے واسطے ہیں۔ نبی کی یہ خوبی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ نہیں تو اول تم پکڑے جاؤ گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی اس چشم پوشی اور خلق عظیم پر کسی وقت مطلع ہو کر تمہیں ہدایت ہو جائے۔ تمہاری جھوٹی باتوں پر نبی علیہ السلام کا سکوت اس لیے نہیں کہ انہیں واقعی تمہارا یقین آ جاتا ہے۔ یقین تو ان کو اللہ پر ہے اور ایمانداروں کی بات پر ہاں تم میں سے جو دعوائے ایمان رکھتے ہیں، ان کے حق میں آپ کی خاموشی و اغماض ایک طرح کی رحمت ہے کہ فی الحال منہ توڑ تکذیب کر کے ان کو رسوا نہیں کیا جاتا۔ باقی منافقین کی حرکات شنیعہ خدا سے پوشیدہ نہیں۔ رسول کی پیٹھ پیچھے جو بد گوئی کرتے ہیں یا "ہُوَا اُذُنُ" کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایذا پہنچاتے ہیں، ان پر سزائے سخت کے منتظر رہیں۔
۶۲ ۔۔۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ "کسی وقت حضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کی دغا بازی پکڑتے تو مسلمانوں کے روبرو قسمیں کھاتے کہ ہمارے دل میں بری نیت نہ تھی۔ تاکہ ان کو راضی کر کے اپنی طرف کر لیں۔ نہ سمجھے کہ یہ فریب بازی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کام نہیں آتی۔" اگر دعوائے ایمان میں واقعی سچے ہیں تو دوسروں کو چھوڑ کر خدا و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو راضی کرنے کی فکر کریں۔
۶۳ ۔۔۔ یعنی جس رسوائی سے بچنے کے لیے نفاق اختیار کیا ہے اس سے بڑی رسوائی یہ ہے۔
۶۴ ۔۔۔ منافقین اپنی مجلسوں میں اسلام و پیغمبر اسلام کی بد گوئی کرتے، مومنین صادقین پر آوازے کستے، مہمات دین کا مذاق اڑاتے، پھر جب خیال آتا کہ ممکن ہے یہ باتیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچ جائیں، تو کہتے کیا مضائقہ ہے وہ تو کان ہی کان ہیں، ہم ان کے سامنے جو تاویل و تلمیع کر دیں گے، سن کر اسے قبول کر لیں گے۔ مگر چونکہ بسا اوقات وحی الٰہی کے ذریعہ سے ان کے نفاق و بد باطنی کی قلعی کھلتی رہتی تھی، اس لیے یہ ڈر بھی لگا رہتا تھا کہ کوئی سورت قرآن میں ایسی نازل نہ ہو جائے جو ہمارے مخاطباتِ سریہ و نیات خفیہ کا پردہ فاش کر دے۔ اصل یہ ہے کہ منافقین کا قلب جبن و کمزوری سے کسی ایک طرف قائم نہ ہوتا تھا۔ ان کے دل ہر وقت دگدا میں رہتے تھے۔ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اغماض و کریم النفسی کو دیکھ کر کچھ تسلی حاصل کرتے مگر صاعقہ قرآنی کی گرج سے پھر دہلنے لگتے تھے۔ اسی لیے فرمایا کہ بہتر ہے، تم ٹھٹھے کرتے رہو اور استہزاء و تمسخر کا عمل جاری رکھو اور پیغمبر کی نسبت "ہوا اذن" کہہ کر تسلی کر لو۔ لیکن خدا اس چیز کو ضرور کھول کر رہے گا جس کا تم کو ڈر لگا ہوا ہے وہ تمہارے مکر و خداع کا تار تار بکھیر کر رکھ دے گا۔
۶۵ ۔۔۔ ۱: "تبوک" میں جاتے ہوئے بعض منافقین نے از راہ تمسخر کہا۔ اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کو دیکھو کہ شام کے محلات اور روم کے شہروں کو فتح کر لینے کا خواب دیکھتا ہے۔ انہوں نے رومیوں کی جنگ کو عربوں کی باہمی جنگ پر قیاس کر رکھا ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ کل ہم سب رومیوں کے سامنے رسیوں میں بندھے ہوئے کھڑے ہوں گے۔ یہ ہمارے قراء (صحابہ رضی اللہ عنہم) پیٹو، جھوٹے اور نامردے کیا روم کی باقاعدہ فوجوں سے جنگ کریں گے" وغیرذالک من الہفوات۔ اس قسم کے مقولے جو مسلمانوں کو روم سے مرعوب و ہیبت زدہ کرنے اور شکستہ خاطر بنانے کے لیے کہہ رہے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں نقل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلا کر باز پرس کی تو کہنے لگے کہ حضرت ! ہم کہیں سچ مچ ایسا اعتقاد تھوڑا ہی رکھتے ہیں محض خوش وقتی و دل لگی کے طور پر کچھ کہہ رہے تھے کہ باتوں میں با آسانی سفر کٹ جائے۔
۲: یعنی کیا دل لگی اور خوش وقتی کا موقع و محل یہ ہے کہ اللہ، رسول اور ان کے احکام کے ساتھ ٹھٹھا کیا جائے؟ خدا اور رسول کا استہزاء اور احکام الٰہیہ کا استخفاف تو وہ چیز ہے کہ اگر محض زبان سے دل لگی کے طور پر کیا جائے، وہ بھی کفر عظیم ہے۔ چہ جائیکہ منافقین کی طرح از راہ شرارت و بد باطنی ایسی حرکت سرزد ہو۔
۶۶ ۔۔۔ یعنی جھوٹے عذر تراشنے اور حیلے حوالوں سے کچھ فائدہ نہیں جن کو نفاق و استہزاء کی سزا ملنی ہے مل کر رہے گی۔ ہاں جو اب بھی صدق دل سے توبہ کر کے اپنے جرائم سے باز آ جائیں گے، انہیں خدا معاف کر دے گا، یا جو پہلے ہی سے باوجود کفر و نفاق کے اس طرح کی فتنہ انگیزی اور استہزاء سے علیحدہ رہے ہیں، انہیں استہزاء و تمسخر کی سزا یہاں نہ ملے گی۔
۶۷ ۔۔۔ یعنی سب سے بڑے نا فرمان یہ ہی بد باطن منافق ہیں جن کے مرد و عورت زبانی اقرار و اظہارِ اسلام کے باوجود شب و روز اسی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ ہر قسم کے حیلے اور فریب کر کے لوگوں کو اچھی باتوں سے بیزار اور برے کاموں پر آمادہ کریں۔ خرچ کرنے کے اصلی موقعوں پر مٹھی بند رکھیں۔ غرض کلمہ پڑھتے رہیں۔ لیکن نہ ان کی زبان سے کسی کو بھلائی پہنچے نہ مال سے۔ جب یہ خدا کو ایسا چھوڑ بیٹھے تو خدا نے بھی ان کو چھوڑ دیا۔ چھوڑ کر کہاں گرایا؟ اس کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
۶۸ ۔۔۔ ۱: یعنی یہ ایسی کافی سزا ہے جس کے بعد دوسری سزا کی ضرورت نہیں رہتی۔
۲: شاید یہ مطلب ہو کہ دنیا میں بھی خدا کی پھٹکار (لعنت) کا اثر برابر پہنچتا رہے گا۔ یا پہلے جملہ کی تاکید ہے۔ واللہ اعلم۔
۶۹ ۔۔۔ ۱: یعنی دنیاوی لذائذ کا جو حصہ ان کے لیے مقدر تھا، اس سے فائدہ اٹھا گئے اور آخری انجام کا خیال نہ کیا۔
۲: یعنی تم بھی ان کی طرح آخری انجام کے تصور سے غافل ہو کر دنیا کی متاع فانی سے جتنا مقدر ہے حصہ پا رہے ہو اور ساری چال ڈھال انہی کی سی رکھتے ہو، تو سمجھ لو جو حشر ان کا ہوا وہ ہی تمہارا بھی ہو سکتا ہے ان کے پاس مال و اولاد اور جسمانی قوتیں تم سے زائد تھیں پھر انتقام الٰہی کی گرفت سے نہ بچ سکے تو تم کو کاہے پر بھروسہ ہے جو خدائی سزا سے اس قدر بے فکر ہو بیٹھے ہو۔
۳: یعنی کوئی دنیاوی و اخروی برکت و کرامت انہیں نصیب نہ ہوئی۔ باقی دنیاوی لذائذ کا جو حصہ بظاہر ملا وہ فی الحقیقت ان کے حق میں استدراج اور عذاب تھا، جیسا کہ دو رکوع پہلے فَلاَ تُعْجِبُکَ اَمْوَالُہُمْ وَلَا اَوْلَادَہُمْ" الخ کے فوائد میں گزر چکا اور اس سے پیشتر بھی کئی مواقع میں لکھا جا چکا ہے۔
۷۰ ۔۔۔ ۱: قوم نوح طوفان سے "عاد" آندھی سے، "ثمود" صیحہ (چیخ) سے ہلاک ہوئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی حق تعالیٰ نے عجیب و غریب خارق عادت طریقہ سے تائید فرمائی جنہیں دیکھ کر ان کی قوم ذلیل و ناکام ہوئی، ان کا بادشاہ نمرود نہایت بدحالی کی موت مارا گیا۔ اصحاب مدین صیحہ (چیخ) رجفہ (زلزلہ) وغیرہ سے تباہ ہوئے۔ قوم لوط کی بستیاں الٹ دی گئیں اور اوپر سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ ان سب اقوام کا قصہ (بجز قوم ابراہیم کے) سورہ اعراف میں گزر چکا۔
۲: یعنی خدا کسی کو بلا وجہ اور بے موقع سزا نہیں دیتا۔ لوگ خود ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جن کے بعد عذاب الٰہی کا آنا ناگزیر ہے۔
۷۱ ۔۔۔ ابتدائے رکوع میں منافقین کے اوصاف بیان ہوئے تھے۔ یہاں بطور مقابلہ مومنین کی صفات ذکر کی گئیں۔ یعنی جبکہ منافقین لوگوں کو بھلائی سے روک کر برائی کی ترغیب دیتے ہیں۔ مومنین بدی کو چھڑا کر نیکی کی طرف آمادہ کرتے ہیں۔ منافقین کی مٹھی بند ہے مومنین کا ہاتھ کھلا ہوا ہے۔ وہ بخل کی وجہ سے خرچ کرنا نہیں جانتے، یہ اموال میں سے باقاعدہ حقوق ( زکوٰۃ وغیرہ) ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے خدا کو بالکل بھلا دیا۔ یہ پانچ وقت خدا کو یاد کرتے اور تمام معاملات میں خدا اور رسول کے احکام پر چلتے ہیں اسی لیے وہ مستحق لعنت ہوئے اور یہ رحمت خصوصی کے امیدوار ٹھہرے۔
۷۲ ۔۔۔ یعنی تمام نعمائے دنیاوی و اخروی سے بڑھ کر حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ جنت بھی اسی لیے مطلوب ہے کہ وہ رضائے الٰہی کا مقام ہے۔ حق تعالیٰ مومنین کو جنت میں ہر قسم کی جسمانی و روحانی نعمتیں اور مسرتیں عطا فرمائے گا۔ مگر سب سے بڑی نعمت محبوب حقیقی کی دائمی رضا ہو گی۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حق تعالیٰ اہل جنت کو پکارے گا۔ جنتی "لبیک" کہیں گے۔ دریافت فرمائے گا۔ "رَضَیْتُمْ" یعنی اب تم خوش ہو گئے۔ جواب دیں گے کہ پروردگار! خوش نہ ہونے کی وجہ؟ جبکہ آپ نے ہم پر انتہائی انعام فرمایا ہے۔ ارشاد ہو گا ہَلْ اُعْطِیْکُمْ اَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ" یعنی جو کچھ اب تک دیا گیا ہے کیا اس سے بڑھ کر ایک چیز لینا چاہتے ہو، جتنی سوال کریں گے کہ اے پروردگار! اس سے افضل اور کیا چیز ہو گی؟ اس وقت فرمائیں گے احل عَلَیْکُمْ رِضْوَانِی فَلاَ اَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ اٰبَداً اپنی دائمی رضا اور خوشنودی تم پر اتارتا ہوں، جس کے بعد کبھی خفگی اور ناخوشی نہ ہو گی رَزَقْنَا اللّٰہ وَسَائِرِ الْمُوْمِنِیْنَ ہذہ الکرامۃ العَظِیْمَۃِ الْبَاہِرَۃَ۔
۷۳ ۔۔۔ "جہاد" کے معنی ہیں کسی ناپسندیدہ چیز کے دفع کرنے میں انتہائی کوشش کرنا۔ یہ کوشش کبھی ہتھیار سے ہوتی ہے، کبھی زبان سے، کبھی قلم سے، کبھی کسی اور طریق سے، منافقین جو زبان سے اسلام کا اظہار کریں اور دل سے مسلمان نہ ہوں، ان کے مقابلہ میں جہاد بالسیف جمہور امت کے نزدیک مشروع نہیں، نہ عہد نبوت میں ایسا واقع ہوا۔ اسی لیے جہاد کا لفظ اس آیت میں عام رکھا گیا ہے یعنی تلوار سے، زبان سے، قلم سے، جس وقت جس کے مقابلہ میں جس طرح مصلحت ہو جہاد کیا جائے۔ بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ اگر منافقین کا نفاق بالکل عیاں ہو جائے تو ان پر بھی جہاد بالسیف کیا جا سکتا ہے بہرحال غزوہ تبوک نے چونکہ منافقین کا نفاق بہت آشکارا کر دیا تھا۔ اس لیے اس آیت میں ان کی نسبت ذرا سخت رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فطری طور پر نہایت نرم خو واقع ہوئے تھے۔ بِمَا رَحْمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظًّاغَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوا مَنْ حَوْلِکَ"(آل عمران، رکوع ۱۷) پھر حق تعالیٰ کی طرف سے حکم تھا۔ "واخفض جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ۔"(شعراء، رکوع ۱۱) چونکہ منافقین بھی بظاہر مومنین کے زمرہ میں شامل رہتے تھے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ساتھ بھی درگزر، چشم پوشی اور نرم خوئی کا معاملہ فرماتے تھے۔ تبوک کے موقع پر جب منافقین نے کھلم کھلا بے حیائی، عناد اور دشمنی کا اندازہ اختیار کر لیا تو حکم ہوا کہ اب ان کے معاملہ میں سختی اختیار کیجئے، یہ شریر خوش اخلاقی اور نرمی سے ماننے والے نہیں ہیں۔
۷۴ ۔۔۔ ۱: منافقین پیچھے بیٹھ کر پیغمبر علیہ السلام کی اور دین اسلام کی اہانت کرتے، جیسا کہ سورہ منافقون میں آئے گا، جب کوئی مسلمان حضور صلی اللہ علیہ و سلم تک ان کی باتیں پہنچا دیتا تو اس کی تکذیب کرتے اور قسمیں کھا لیتے کہ ہم نے فلاں بات نہیں کی۔ حق تعالیٰ نے مسلمان راویوں کی تصدیق فرمائی کہ بیشک انہوں نے وہی باتیں زبان سے نکالی ہیں۔ اور دعوائے اسلام کے بعد مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کی نسبت وہ کلمات کہے ہیں جو صرف منکرین کی زبان سے نکل سکتے ہیں۔
۲: غزوہ تبوک سے واپسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لشکر سے علیٰحدہ ہو کر ایک پہاڑی راستہ کو تشریف لے جا رہے تھے۔ تقریباً بارہ منافقین نے چہرے چھپا کر رات کی تاریکی میں چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر ہاتھ چلائیں اور معاذ اللہ پہاڑی سے گرا دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حذیفہ اور عمار تھے۔ عمار کو انہوں نے گھیر لیا تھا، مگر حذیفہ نے مار مار کر ان کی اونٹنیوں کے منہ پھیر دیے۔ چونکہ چہرے چھپائے ہوئے تھے۔ حذیفہ وغیرہ نے ان کو نہیں پہچانا۔ بعدہٗ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حذیفہ و عمار رضی اللہ عنہما کو نام بنام ان کے پتے بتا دیے۔ مگر منع فرما دیا کہ کسی پر ظاہر نہ کریں۔ اسی واقعہ کی طرف وہَمُّوا بِمَا لَمْ یَنَالُوا میں اشارہ ہے کہ جو ناپاک قصد انہوں نے کیا خدا کے فضل سے پورا نہ ہوا، بعض علماء نے لکھا ہے کہ کسی موقع پر لشکر اسلام میں کچھ خانہ جنگی ہو گئی تھی، منافقین نے اغوا کر کے مہاجرین و انصار میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اصلاح فرما دی جیسا کہ سورہ منافقون میں آئے گا۔
۳: یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا سے خدا نے انہیں دولت مند کر دیا، قرضوں کے بارے سے سبکدوش ہوئے، مسلمانوں کے ساتھ ملے جلے رہنے کی وجہ سے غنائم میں حصہ ملتا رہا، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی برکت سے پیداوار اچھی ہوئی، ان احسانات کا بدلہ یہ دیا کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دغا بازی کرنے لگے اور ہر طرح پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کو ستانے پر کمر باندھ لی۔ اب بھی اگر توبہ کر کے شرارتوں اور احسان فراموشیوں سے باز آ جائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے۔ ورنہ خدا دنیا و آخرت میں وہ سزا دے گا جس سے بچانے والا روئے زمین پر کوئی نہ ملے گا۔ بعض روایات میں ہے کہ "جلاس" نامی ایک شخص یہ آیات سن کر صدق دل سے تائب ہوا، اور آئندہ اپنی زندگی خدمت اسلام میں قربان کر دی۔
۷۶ ۔۔۔ ایک شخص ثعلبہ بن حاطب انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ میرے حق میں دولت مند ہو جانے کی دعا فرما دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ ثعلبہ! تھوڑی چیز جس پر تو خدا کا شکر ادا کرے، اس بہت چیز سے اچھی ہے جس کے حقوق ادا نہ کر سکے۔ اس نے پھر وہی درخواست کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے ثعلبہ! کیا تجھے پسند نہیں کہ میرے نقشِ قدم پر چلے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے انکار پر اس کا اصرار بڑھتا رہا۔ اس نے وعدہ کیا کہ اگر خدا مجھ کو مال دے گا، میں پوری طرح حقوق ادا کروں گا۔ آخر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی، اس کی بکریوں میں اس قدر برکت ہوئی کہ مدینہ سے باہر ایک گاؤں میں رہنے کی ضرورت پڑی اور اتنا پھیلاوا ہوا کہ ان میں مشغول ہو کر رفتہ رفتہ جمعہ و جماعات بھی ترک کرنے لگا۔ کچھ دنوں بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے والے" محصل" پہنچے تو کہنے لگا کہ زکوٰۃ توجزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے۔ وہ ایک دفعہ ٹلا کر آخر زکوٰۃ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ فرمایا"ویح ثعلبہ" اور یہ آیات نازل ہوئیں جب اس کے بعد اقارب نے اس کی خبر پہنچائی تو با دلِ نخواستہ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خدا نے مجھ کو تیری زکوٰۃ قبول کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ یہ سن کر اس نے بہت ہائے واویلا کی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا زکوٰۃ قبول نہ کرنا اس کے لیے بڑی عار کی بات تھی۔ بدنامی کے تصور سے سر پر خاک ڈالتا تھا۔ مگر دل میں نفاق چھپا ہوا تھا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ابوبکر صدیق کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا۔ انہوں نے بھی قبول کرنے سے انکار فرمایا۔ پھر حضرت عمر اور ان کے بعد حضرت عثمان کی خدمت میں زکوٰۃ پیش کی، دونوں نے انکار فرمایا۔ ہر ایک یہ ہی کہتے تھے کہ جو چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے رد کر دی ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے۔ آخر اسی حالت نفاق پر حضرت عثمان کے عہد میں اس کا خاتمہ ہوا۔
۷۷ ۔۔۔ یعنی خدا سے صریح وعدہ خلافی کرنے اور جھوٹ بولتے رہنے کی سزا میں ان کے بخل و اعراض کا اثر یہ ہوا کہ ہمیشہ کے لیے نفاق کی جڑ ان کے دلوں میں قائم ہو گئی جو قیامت تک نکلنے والی نہیں۔ اور یہ ہی "سنت اللہ" ہے کہ جب کوئی شخص اچھی یا بری خصلت خود اختیار کر لیتا ہے تو کثرت سے مزاولت و ممارست سے وہ دائمی بن جاتی ہے۔ بری خصلت کے اسی دوام و استحکام کو کبھی کبھی ختم و طبع (مہر لگانے) سے تعبیر کر دیتے ہیں۔
۷۸ ۔۔۔ یعنی خواہ کیسے ہی وعدے کریں، باتیں بنائیں، یا مجبور ہو کر مال پیش کریں۔ خدا ان کے ارادوں اور نیتوں کو خوب جانتا ہے اور اپنے ہم مشوروں کے ساتھ بیٹھ کر جو مشورے کرتے ہیں، ان سے پوری طرح آگاہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ لَنَصَدَّقَّنَ وَلِنَکُونَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْن کا وعدہ اور گھبرا کر زکوٰۃ حاضر کرنا کس دل اور کیسی نیت سے تھا۔
۷۹ ۔۔۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار (دینار یا درہم) حاضر کر دیے۔ عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجوریں (جن کی قیمت چار ہزار درہم ہوتی تھی) پیش کیں۔ منافقین کہنے لگے کہ ان دونوں نے دکھلاوے اور نام و نمود کو اتنا دیا ہے۔ ایک غریب صحابی ابو عقیل حجاب نے جو محنت و مشقت سے تھوڑا سا کما کر لائے۔ اس میں سے ایک صاع ثمر صدقہ کیا تو مذاق اڑانے لگے کہ یہ خواہ مخواہ زور آوری سے لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ بھلا اس کی ایک صاع کھجوریں کیا پکار کریں گی۔ غرض تھوڑا دینے والا اور بہت خرچ کرنے والا کوئی ان کی زبان سے بچتا نہ تھا۔ کسی پر طعن، کسی سے ٹھٹھا کرتے تھے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا "سَخِرَاللّٰہُ مِنْہُم" (اللہ نے ان سے ٹھٹھا کیا ہے) یعنی ان کے طعن و تمسخر کا بدلہ دیا، بظاہر تو وہ چند روز کے لیے مسخراپن کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیئے گئے ہیں، لیکن فی الحقیقت اندر ہی اندر سکھ کی جڑیں کٹتی چلی جا رہی ہیں۔ اور عذاب الیم ان کے لیے تیار ہے۔
۸۰ ۔۔۔ یعنی منافقین کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کتنی ہی مرتبہ استغفار کیجئے ان کے حق میں بالکل بیکار اور بے فائدہ ہے، خدا ان بدبخت کافروں اور نا فرمانوں کو کبھی معاف نہ کرے گا۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ مدینہ میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا۔ آپ نے قمیص مبارک کفن میں دیا۔ لعاب مبارک اس کے منہ میں ڈالا۔ نماز جنازہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی، حضرت عمر اس معاملہ میں آڑے آتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ! یہ وہ ہی خبیث تو ہے جس نے فلاں فلاں وقت ایسی ایسی نالائق حرکات کیں۔ ہمیشہ کفر و نفاق کا علمبردار رہا۔ کیا حق تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا۔ "اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْلَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ َمرَّۃً فَلَنْ ّیَغْفِرَاللّٰہُ لَہُمْ" آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر! مجھ کو استغفار سے منع نہیں کیا گیا۔ بلکہ آزاد رکھا گیا ہے کہ استغفار کروں یا نہ کروں۔ یہ خدا کا فعل ہے کہ ان کو معاف نہ کرے۔ یعنی ان کے حق میں میرا استغفار نافع نہ ہو (سو ان کے حق میں نہ سہی، ممکن ہے دوسروں کے حق میں میرا یہ طرز عمل نافع ہو جائے دوسرے لوگ سب سے بڑے موذی دشمن کے حق میں نبی کے اس وسعت اخلاق اور وفور رحمت و شفقت کو دیکھ کر اسلام و پیغمبر اسلام کے گرویدہ ہو جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا) صحیح بخاری کی ایک روایت میں آپ نے فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو سکتی ہے تو میں ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرتا" گویا اس جملہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے متنبہ فرما دیا کہ حضرت عمر کی طرح آپ بھی اس کے حق میں استغفار کو غیر مفید تصور فرما رہے تھے۔ فرق اس قدر ہے کہ حضرت عمر کی نظر بغض فی اللہ" کے جوش میں صرف اسی نقطہ پر مقصور تھی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم میت کے فائدہ سے قطع نظر فرما کر عام پیغمبرانہ شفقت کا اظہار، اور احیاء کے فائدہ کا خیال فرما رہے تھے۔ لیکن آخرکار وحی الٰہی "وَلَا تُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ اَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلیٰ قَبْرِہٖ" نے صریح طور پر منافقین کا جنازہ پڑھنے یا ان کے اہتمام دفن و کفن وغیرہ میں حصہ لینے کی ممانعت کر دی۔ کیونکہ اس طرز عمل سے منافقین کی ہمت افزائی اور مومنین کی دل شکستگی کا احتمال تھا۔ اس وقت سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی منافق کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔
۸۱ ۔۔۔ ۱: یہ ان منافقین کے متعلق ہے جو غزوہ تبوک کی شرکت سے علیٰحدہ رہے۔ یعنی منافقین کا حال یہ ہے کہ برائی اور عیب کا کام کر کے خوش ہوتے ہیں، نیکی سے گھبرا کر دور بھاگتے ہیں۔ اور جیسا کہ پہلے گزرا نیکی کرنے والوں پر طعن کرتے اور آوازے کستے ہیں۔ ایسی قوم کو نبی کے استغفار سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہاں سے گنہگار اور بد اعتقاد کا فرق نکلتا ہے۔ گناہ ایسا کونسا ہے جو پیغمبر کے بخشوانے سے نہ بخشا جائے۔"وَلَوْاَنَّہُمْ اِذْظَّلَمُوْااَنْفُسَہُمْ جَاءُ وْ کَ فَاسْتَغْفَرُواللّٰہ وَاسْتَغْفَرَلَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰہ تَوَّابَارَّحِیْمًا" (نسآء، رکوع ۹) لیکن بد اعتقاد کو پیغمبر کا ستر مرتبہ استغفار فائدہ نہ دے۔
۲: یا تو منافقین آپس میں ایک دوسرے کو کہتے تھے اور یا بعض مومنین سے کہتے ہوں گے کہ ان کی ہمتیں سست ہو جائیں۔
۳: یعنی اگر سمجھ ہوتی تو خیال کرتے کہ یہاں کی گرمی سے بچ کر جس گرمی کی طرف جا رہے ہو وہ کہیں زیادہ سخت ہے۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ دھوپ سے بھاگ کر آگ کی پناہ لی جائے۔ حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر درجہ زیادہ تیز ہے۔ نعوذ باللہ منہا۔
۸۲ ۔۔۔ یعنی چند روز اپنی حرکات پر خوش ہو لو اور ہنس لو۔ پھر ان کرتوتوں کی سزا میں ہمیشہ کو رونا ہے۔
۸۳ ۔۔۔ ۱: حضور صلی اللہ علیہ و سلم تبوک میں تھے اور منافقین مدینہ میں ممکن تھا کہ بعض منافقین آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی واپسی سے قبل مر جائیں، اس لیے اِلیٰ طآئفۃٍ مِّنْہُم فْرمایا۔
۲: یعنی اب اگر یہ لوگ کسی دوسرے غزوہ میں ساتھ چلنے کی اجازت مانگیں تو فرما دیجئے کہ بس! تمہاری ہمت و شجاعت کا بھانڈا پھوٹ چکا اور تمہارے دلوں کا حال پہلی مرتبہ کھل چکا، نہ تم کبھی ہمارے ساتھ نکل سکتے ہو اور نہ دشمنانِ اسلام کے مقابلہ میں بہادری دکھا سکتے ہو، لہٰذا اب تم کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں۔ عورتوں، بچوں، اپاہج اور ناتوان بڈھوں کے ساتھ گھر میں گھسے بیٹھے رہو اور جس چیز کو پہلی دفعہ تم نے اپنے لیے پسند کر لیا ہے مناسب ہے کہ اسی حالت پر مرو۔ تاکہ اچھی طرح عذاب الٰہی کا مزہ چکھو۔
۸۴ ۔۔۔ ۱: یعنی دعاء و استغفار کے لیے یا اہتمام دفن کے لیے۔
۲: یہ آیت عبد اللہ بن ابی کے واقعہ کے بعد نازل ہوئی، جیسا کہ چند آیات پہلے ہم مفصل بیان کر چکے ہیں اس آیت کے نزول کے بعد منافقین کا جنازہ پڑھنا قطعاً ممنوع ہو گیا۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ احتیاطاً ایسے شخص کا جنازہ نہ پڑھتے تھے جس کی نماز میں حضرت حذیفہ شریک نہ ہوں کیونکہ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت سے منافقین کا نام بنام علم کرا دیا تھا۔ اسی لیے ان کا لقب "صاحب سِرّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم " ہوا۔
۸۵ ۔۔۔ چار رکوع پہلے اسی مضمون کی آیت گزر چکی، اس کا فائدہ ملاحظہ کر لیا جائے۔
۸۷ ۔۔۔ ۱: یعنی قرآن کی کسی سورت میں جب تنبیہ کی جاتی ہے کہ پوری طرح خلوص و پختگی سے ایمان لاؤ، جس کا بڑا اثر یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ ہو کر خدا کے راستہ میں جہاد کریں۔ تو یہ منافقین جان چرانے لگتے ہیں اور ان میں کے استطاعت و مقدور والے بھی جھوٹے عذر تراش کر اجازت طلب کرنے آتے ہیں کہ حضرت! ہمیں تو یہیں مدینہ میں رہنے دیجئے۔ گویا کمال بے غیرتی اور نامردی سے اس پر راضی ہیں کہ لڑائی یا خطرہ کا نام سنتے ہی خانہ نشین عورتوں کے ساتھ گھروں میں گھس کر بیٹھ رہیں۔ ہاں جس وقت جنگ وغیرہ کا خطرہ نہ رہے اور امن و اطمینان کا زمانہ ہو تو باتیں بنانے اور قینچی کی طرح زبان چلانے میں سب سے پیش پیش ہوتے ہیں فَاِذَا جَآءَ الْخَوْفُ رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِی یُغْشیٰ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاِذَاذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ (الاحزاب، رکوع۳)
۲: یعنی کذب و نفاق نکول عن الجہاد، اور تخلف عن الرسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شامت سے ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی کہ اب موٹے موٹے عیب بھی ان کو عیب نظر نہیں آتے اور انتہائی بے غیرتی و بزدلی پر بجائے شرمانے کے نازاں و فرحاں ہوتے ہیں۔
۸۹ ۔۔۔ منافقین کے بالمقابل مومنین مخلصین کا بیان فرمایا کہ دیکھو! یہ ہیں خدا کے وفادار بندے۔ جو اس کے راستہ میں نہ جان سے ہٹتے ہیں نہ مال سے۔ کیسا ہی خطرہ کا موقع ہو، اسلام کی حمایت اور پیغمبر اسلام کی معیت میں ہر قربانی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پھر ایسوں کے لیے فلاح و کامیابی نہ ہو گی تو اور کس کے لیے ہو گی۔
۹۰ ۔۔۔ یعنی جس طرح مدینہ کے رہنے والوں میں منافقین بھی ہیں اور مخلصین بھی۔ اسی طرح دیہاتی گنواروں میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے یہاں دو قسموں کا ذکر فرمایا۔ مخلص دیہاتیوں کا ذکر اس رکوع کے خاتمہ پر "وَمِنَ الْاَ عْرَابِ مَنْ یُّؤمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ" میں آئے گا۔ یہاں دیہاتیوں کی جن دو جماعتوں کا ذکر ہے (مُعذّرون ُوْنَ اور قَاعِدُوْنَ) ان میں سے پہلی جماعت (مُعْذِرُوْنَ) کے مصداق میں مفسرین سلف کا اختلاف ہے کہ آیا اس سے مراد جھوٹے بہانے بنانے والے منافق ہیں (جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے) یا سچے عذر کرنے والے مسلمان جو واقعی جہاد کی شرکت سے معذور تھے اگر پہلی شق اختیار کی جائے تو آیت میں منافقین کی دو قسموں کا بیان ہو گا۔ "مُعْذِرُوْنَ" تو وہ ہوئے جو باوجود نفاق کے محض رسم ظاہرداری نباہنے کے لیے جھوٹے حیلے بنا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کرتے تھے۔ اور "قَاعِدُوْنَ" سے وہ منافقین مراد ہوں گے جنہوں نے اول دعوائے ایمان میں جھوٹ بولا۔ پھر ظاہر داری کی بھی پروا نہیں کی۔ جہاد کا نام سن کر گھروں میں بیٹھ رہے، بالکل بے باک و بے حیا ہو کر عذر کرنے بھی نہ آئے۔ اس تقدیر پر "سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ" دونوں جماعتوں کو شامل ہو گا۔ اور معنی یہ ہوں گے کہ جو لوگ دونوں جماعتوں میں سے اپنے کفر پر اخیر تک قائم رہیں گے ان کے لیے عذاب دردناک ہے جن کو توبہ کی توفیق ہو جائے گی وہ اس وعید کے نیچے داخل نہیں۔ اور اگر "معذرون"سے مراد منافقین ہوں گے اور "سَیُصِیْبُ الَّذِینَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابُ، اَلِیْم" کی وعید صرف ان ہی کے حق میں ہو گی۔ پہلی جماعت کا ذکر گویا قبول عذر کے طور پر ہو گا۔
۹۱ ۔۔۔ ۱: جھوٹے عذر کرنے والوں کے بعد سچے معذورین کا بیان فرماتے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ عذر کبھی تو شخصی طور پر لازم ذات ہوتا ہے مثلاً بڑھاپے کی کمزوری جو عادۃً کسی طرح آدمی سے جدا نہیں ہو سکتی، اور کبھی عارضی ہوتا ہے۔ پھر "عارضی" یا بدنی ہے جیسے بیماری وغیرہ، یا مالی، جیسے افلاس و فقدانِ اسباب سفر۔ چونکہ غزوہ تبوک میں مجاہدین کو بہت دور دراز مسافت طے کر کے پہنچنا تھا، اس لیے سواری نہ ہونے کا عذر بھی معتبر و مقبول سمجھا گیا، جیسے آگے آتا ہے۔
۲: یعنی جو لوگ واقعی معذور ہیں، اگر ان کے دل صاف ہوں اور خداو رسول کے ساتھ ٹھیک ٹھیک معاملہ رکھیں۔ مثلاً (خود نہ جا سکتے ہوں تو جانے والوں کی ہمتیں پست نہ کریں) بلکہ اپنے مقدور کے موافق نیکی کرنے اور اخلاص کا ثبوت دینے کے لیے مستعد رہیں، ان پر جہاد کی عدم شرکت سے کچھ الزام نہیں۔ ایسے مخلصین سے اگر بمقتضائے بشریت کوئی کوتاہی ہو جائے تو حق تعالیٰ کی بخشش و مہربانی سے توقع ہے کہ وہ درگزر فرمائے گا۔
۹۲ ۔۔۔ سبحان اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں عشق الٰہی کا وہ نشہ پیدا کیا تھا جس کی مثال کسی قوم و ملت کی تاریخ میں موجود نہیں۔ مستطیع اور مقدور والے صحابہ کو دیکھو تو جان و مال سب کچھ خدا کے راستہ میں لٹانے کو تیار ہیں اور سخت سے سخت قربانی کے وقت بڑے ولولہ اور اشتیاق سے آگے بڑھتے ہیں۔ جن کو مقدور نہیں وہ اس غم میں رو رو کر جان کھوئے لیتے ہیں کہ ہم میں اتنی استطاعت کیوں نہ ہوئی کہ اس محبوب حقیقی کی راہ میں قربان ہونے کے لیے اپنے کو پیش کر سکتے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجاہدین کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم مدینہ میں ایک ایسی قوم کو اپنے پیچھے چھوڑ آئے ہو جو ہر قدم پر تمہارے اجر میں شریک ہے تم جو قدم خدا کے راستہ میں اٹھاتے ہو یا کوئی جنگل قطع کرتے ہو یا کسی پگڈنڈی پر چلتے ہو، وہ قوم برابر ہر موقع پر تمہارے ساتھ ساتھ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں واقعی مجبوریوں نے تمہارے ہمراہ چلنے سے روکا۔ حسن کے "مرسل" میں ہے کہ یہ مضمون بیان فرما کر آپ نے یہ ہی آیت "وَلَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَا مَا اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لآ اَجِدُ الخ" تلاوت فرمائی۔
۹۳ ۔۔۔ یعنی باوجود قدرت و استطاعت جہاد سے پہلو تہی کرتے ہیں اور نہایت بے حمیتی سے یہ عار گوارا کرتے ہیں کہ عورتوں کی طرح گھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھ جائیں۔ گناہ کی ممارست (پریکٹس) سے آدمی کا قلب ایسا مسخ اور سیاہ ہو جاتا ہے کہ اسے بھلے برے اور عیب و ہنر کی تمیز بھی باقی نہیں رہتی۔ جب بے غیرتی کرتے کرتے کوئی شخص اس قدر پاگل ہو جائے کہ نادم و متأسف ہونے کی جگہ پر الٹا نازاں اور خوش ہو تو سمجھ لو کہ اس کے دل پر خدائی مہر لگ چکی ہے۔ العیاذ باللہ!
۹۴ ۔۔۔ یعنی جیسے تبوک کی طرف روانہ ہونے کے وقت منافقین نے طرح طرح کے حیلے بنائے، جب تم مدینہ واپس آؤ گے، اس وقت بھی یہ لوگ اعذارِ باطلہ پیش کر کے تم کو مطمئن بنانا چاہیں گے اور قسمیں کھائیں گے کہ حضرت ہمارا قصد مصمم تھا کہ آپ کے ساتھ چلیں، مگر فلاں فلاں موانع و عوائق پیش آ جانے کی وجہ سے مجبور رہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ جھوٹی باتیں بنانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ تمہارے سب اعذار لغو اور بیکار ہیں۔ ہم کو حق تعالیٰ تمہارے کذب و نفاق پر مطلع کر چکا۔ پھر کس طرح ہم تمہاری لغو بات کو باور کر سکتے ہیں۔ اب پچھلے قصہ کو چھوڑو، آئندہ تمہارا طرز عمل دیکھا جائے گا کہ اپنے دعوے کو کہاں تک نباہتے ہو، سب جھوٹ سچ ظاہر ہو کر رہے گا اور بہرحال اس "عالم الغیب و الشہادۃ" سے تو کوئی راز اور عمل یا نیت پوشیدہ نہیں رہ سکتی اس کے یہاں سب کو جانا ہے، وہ جزاء دینے کے وقت تمہارا ہر چھوٹا بڑا، ظاہری و باطنی عمل کھول کر رکھ دے گا اور اسی کے موافق بدلہ دیا جائے گا۔
۹۵ ۔۔۔ تبوک سے واپسی کے بعد منافقین جھوٹی قسمیں کھا کر جو عذر پیش کرتے تھے اس کی غرض یہ تھی کہ پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کو اپنی قسموں اور ملمع سازیوں سے راضی و مطمئن کر دیں تاکہ بارگاہ رسالت سے ان پر کوئی عتاب و ملامت اور دارو گیر نہ ہو۔ سابق کی طرح یوں ہی معاملہ ابہام میں رہے۔ مسلمان ان سے کچھ تعرض نہ کریں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ بہتر ہے تم ان سے تعرض مت کرو۔ لیکن یہ اغماض و تغافل (تعرض نہ کرنا) راضی و مطمئن ہونے کی بناء پر نہیں، بلکہ ان کے نہایت پلید اور شریر ہونے کی وجہ سے ہے، یہ لوگ اس قدر گندے واقع ہوئے ہیں کہ ان کے پاک و صاف ہونے کی کوئی توقع نہیں رہی۔ لہٰذا اس غلاظت کی پوٹ کو دور پھینک دینا اور اس سے علیحدہ رہنا ہی بہتر ہے خدا خود ان کو ٹھکانے لگا دے گا۔
۹۶ ۔۔۔ بڑی کوشش یہ ہے کہ مکر و فریب اور کذب و دروغ سے مسلمانوں کو خوش کر لیں۔ فرض کیجئے اگر چکنی چیڑی باتوں سے مخلوق راضی ہو جائے تو کیا نفع پہنچ سکتا ہے جب کہ خدا ان سے راضی نہ ہو۔ خدا کے آگے تو کوئی چالاکی اور دغا بازی نہیں چل سکتی۔ گویا متنبہ فرما دیا کہ جس قوم سے خدا راضی نہ ہو، کوئی مومن قانت کیسے راضی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جھوٹی باتوں سے پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو خوش کر لینے کا خبط انہیں دماغوں سے نکال دینا چاہیے۔ اگر ان کے ساتھ تغافل و اعراض کا معاملہ کیا گیا ہے تو یہ اس کی دلیل نہیں کہ مسلمان ان سے خوش اور مطمئن ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جس شخص کا حال معلوم ہو کہ منافق ہے اس کی طرف سے تغافل روا ہے لیکن دوستی اور محبت و یگانگت روا نہیں۔"
۹۷ ۔۔۔ ۱: یہاں تک مدینہ کے منافقین اور مومنین مخلصین کے احوال بیان ہوئے تھے۔ اب کچھ حال دیہاتی بدؤوں کا ذکر کرتے ہیں کہ ان میں بھی کئی طرح کے آدمی ہیں۔ کفار، منافقین اور مخلص مسلمان چونکہ دیہاتی لوگ قدرتی طور پر عموماً تند خو اور سخت مزاج ہوتے ہیں (جیساکہ حدیث میں ہے "مَنْ سَکَنَ الْبَادِیَۃَ جَفَا) " اور مجالس علم و حکمت سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی کا اثر اور علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں، ان کا کفرو نفاق شہری کفار و منافقین سے زیادہ سخت ہوتا ہے۔ ان کو ایسے مواقع دستیاب نہیں ہوتے کہ اہل علم و صلاح کی صحبت میں رہ کر دیانت و تہذیب کے وہ قانون اور قاعدے معلوم کریں جو خدا تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام پر نازل کیے۔ علم و معرفت ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتی اور مہذب بناتی ہے۔ جو لوگ اس قدر جہالت میں غرق ہیں، ضرور ہے کہ ان کے دل سخت ہوں اور کفر و نفاق کے جس راستہ پر پڑ جائیں، بہائم اور درندوں کی طرح اندھا دھند بڑھے چلے جائیں۔ اعراب کی سنگدلی کا ذکر متعدد احادیث میں ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کسی اعرابی نے حضور سے عرض کیا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کا پیار لیتے ہیں، خدا کی قسم میں نے کبھی اپنی اولاد کا پیار نہیں لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں کیا کروں اگر خدا نے تیرے دل میں سے اپنی رحمت کو نکال لیا ہے۔
۲: یعنی اس کا علم بنی آدم کے تمام طبقات پر محیط ہے، وہ اپنی حکمت سے ہر ایک طبقہ کے ساتھ اس کی استعداد و قابلیت کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "اعراب کی طبیعت میں بے حکمی، غرض پرستی، اور جہالت شدید ہوتی ہے، سو اللہ حکمت والا ہے ان سے وہ مشکل کام بھی نہیں چاہتا اور درجے بلند بھی نہیں دیتا۔"
۹۸ ۔۔۔ یعنی اعراب منافقین میں وہ لوگ بھی ہیں جنہیں اگر کسی وقت خدا کے راستہ میں کچھ خرچ کرنا پڑ جاتا ہے تو ایسی کراہیت سے خرچ کرتے ہیں جیسے کوئی جرمانہ اور تاوان ادا کرتا ہو۔ وہ ابھی تک اس کے منتظر ہیں کہ مسلمان حوادث دہر سے کسی گردش اور آفت میں پھنس جائیں تو ہم خوب شادیانے بجائیں۔ یہ خبر نہیں کہ انہیں کی قسمت گردش میں آرہی ہے۔ اسلام تو غالب و فائق ہو کر رہے گا اور یہ منافقین سخت ذلیل و رسوا ہوں گے۔ خدا ہر ایک کی باتیں اور دعائیں سنتا ہے اور جانتا ہے کہ کون عزت و کامیابی کا اہل ہے اور کون لوگ ذلت اور رسوائی کے مستحق ہیں۔
۹۹ ۔۔۔ یہاں قرآن کریم کی معجزانہ تاثیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم کا حیرت انگیز کرشمہ دکھلایا ہے کہ ان ہی درشت مزاج، سنگدل، تُندخو گنواروں میں جو کفر و نفاق اور جہل و طغیان کی وجہ سے اس لائق ہی نہ تھے کہ خدا کے بتلائے ہوئے ادب اور قاعدے سمجھ سکیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم اور قرآن کریم کی آواز نے ایسے عارف اور مخلص افراد پیدا کر دیے جو مبداً و معاد سب چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں اور خدا کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں، خالص قرب الٰہی حاصل کرنے اور پیغمبر علیہ السلام کی دعا لینے کی غرض سے کرتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ان کو بشارت دی کہ بیشک وہ اپنی امیدوں میں حق بجانب ہیں۔ یقیناً ان کو وہ چیز مل کر رہے گی جس کی نیت کی ہے (یعنی قربِ الٰہی) اور خدا ضرور ان کو اپنی رحمت میں جگہ دے گا رہی پیغمبر علیہ السلام کی دعا اسے تو وہ اپنے کانوں سے سنتے اور آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص صدقہ وغیرہ لے کر حاضر ہوتا ہے تو حضور اس کو دعائیں دیتے ہیں حضور کی اس دعا کا ثمرہ بھی وہ ہی رحمت و قرب الٰہی ہے جس کا وعدہ پہلے ہو چکا۔
۱۰۰ ۔۔۔ "اعراب مومنین" کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ زعماء و اعیان مومنین کا کچھ ذکر کیا جائے یعنی جن مہاجرین نے ہجرت میں سبقت و اولیت کا شرف حاصل کیا، اور جن انصار نے نصرت و اعانت میں پہل کی، غرض جن لوگوں نے قبول حق اور خدمت اسلام میں جس قدر آگے بڑھ بڑھ کر حصے لیے، پھر جو لوگ نیکو کاری اور حسن نیت سے ان پیش روانِ اسلام کی پیروی کرتے رہے، ان سب کو درجہ بدرجہ خدا کی خوشنودی اور حقیقی کامیابی حاصل ہو چکی۔ جیسے انہوں نے پوری خوش دلی اور انشراح قلب کے ساتھ حق تعالیٰ کے احکام تشریعی اور قضاء تکوینی کے سامنے گردنیں جھکا دیں، اسی طرح خدا نے ان کو اپنی رضا و خوشنودی کا پروانہ دے کر غیر محدود انعام و اکرام سے سرفراز فرمایا۔ (تنبیہ) مفسرین سلف کے اقوال "اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ"کی تعیین میں مختلف ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین و انصار مراد ہیں جو ہجرت سے پہلے مشرف با اسلام ہوئے۔ بعض کے نزدیک وہ مراد ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں (کعبہ و بیت المقدس) کی طرف نماز پڑھی بعض کہتے ہیں کہ جنگ بدر تک کے مسلمان "سابقین اولین" ہیں۔ بعض حدیبیہ تک اسلام لانے والوں کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ تمام مہاجرین و انصار اطراف کے مسلمانوں اور پیچھے آنے والی نسلوں کے اعتبار سے "سابقین اولین" ہیں ہمارے نزدیک ان اقوال میں چنداں تعارض نہیں "سبقت" و "اولیت" اضافی چیزیں ہیں۔ ایک ہی شخص یا جماعت کسی کے اعتبار سے سابق اور دوسرے کی نسبت سے لاحق بن سکتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے ائدہ" میں اشارہ کیا ہے جو شخص یا جماعت جس درجہ میں سابق و اول ہو گی اسی قدر رضائے الٰہی اور حقیقی کامیابی سے حصہ پائے گی۔ کیونکہ سبقت و اولیت کی طرح رضاء و کامیابی کے بھی مدارج بہت سے ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
۱۰۱ ۔۔۔ ۱: پہلے سے دیہاتی عربوں کا ذکر چلا آرہا تھا۔ درمیان میں اعراب مومنین کے تذکرہ سے مہاجرین و انصار کی طرف کلام منتقل ہو گیا اب اس آیت میں خاص "مدینہ" اور اس کے آس پاس رہنے والوں کا بیان ہے یعنی بعض اہل مدینہ اور گردو پیش کے رہنے والے نفاق کے خوگر ہو چکے اور اسی پر اڑے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ نفاق اس قدر عریق و عمیق ہے کہ ان کے قرب مکانی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی کمال فطانت و فراست کے باوجود آپ بھی بالتعیین اور قطعی طور پر محض علامات و قرائن سے ان کے نفاق پر مطلع نہیں ہو سکے ان کا ٹھیک ٹھیک تعین صرف خدا کے علم میں ہے۔ جس طرح عام منافقین کا پتہ چہرہ لب و لہجہ اور بات چیت سے لگ جاتا تھا (وَلَوْنَشَاءُ لَاَرَیْنٰکَہُمْ فَلَعَرَفْتَہُمْ بِسِیْمٰہُمْ وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ) ان کا نفاق اتنا گہرا ہے کہ اس قسم کی ظاہری علامات ان کا پردہ فاش نہیں کرتیں۔
۲: بڑا عذاب دوزخ کا ہے۔ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الْاَ سْفَلِ مِنَ النَّارِ (نسآء، رکوع ۳۱،آیت ۱۴۵) اس سے قبل کم از کم دو بار ضرور عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ ایک عذاب قبر اور دوسرا وہ عذاب جو اس دنیاوی زندگی میں پہنچ کر رہے گا۔ مثلاً ابن عباس کی ایک روایت کے موافق حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جمعہ کے روز منبر پر کھڑے ہو کر تقریباً چھتیس آدمیوں کو نام بنام پکار کر فرمایا۔ "اُخرج فانک منافق۔" یعنی تو منافق ہے مسجد سے نکل جا۔ یہ رسوائی ایک قسم عذاب کی تھی۔ یا پہلے اس سورت میں گزرا کہ ان کے اموال و اولاد کو حق تعالیٰ نے ان کے حق میں عذاب بنا دیا۔ (فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلَا اَوْلَادُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُاللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ بِہَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا الخ) یا ان میں کے بعض بھوک وغیرہ آفات ارضی و سماوی میں مبتلا ہو کر ذلت کی موت مرے یا اسلام کی ترقی و عروج کو دیکھ کر غیظ کھانا اور دانت پیسنا، یہ بھی ان کے حق میں سوہان روح تھا۔ میرے نزدیک یہ سب قسم کے عذاب "مرتین" کے احاطہ میں داخل ہیں۔ اور دو کا عدد یا تو مطلق تعدد کے لیے ہے جیسے "ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ" میں اور یا دو بار سے مراد تنوعی اثنینیت ہے۔ یعنی "عذاب قبر، اور "عذاب قبل الموت"۔ واللہ اعلم۔
۱۰۲ ۔۔۔ اہل مدینہ میں اگر ایک طرف یہ منافقین متمردین ہیں جو اپنی شرارتوں اور جرموں کو پردہ نفاق میں چھپاتے اور ان پر سختی سے اڑے رہتے ہیں تو دوسری جانب بعض وہ مسلمان ہیں جن سے بمقتضائے بشریت کوئی خطا و قصور سرزد ہو جائے تو نادم ہو کر بے تامل اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں۔ ان کی بھلائی اور برائی مخلوط (رلی ملی) ہے۔ برائی تو مثلاً یہ کہ نفیر عام کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر "غزوہ تبوک" میں حاضر نہ ہوئے بعدہٗ اس غیر حاضری پر دل سے پشیمان و متأسف ہونا اور ظاہراً و باطناً توبہ کرنا اور دوسرے اعمال صالحہ (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج یا دوسرے غزوات کی شرکت وغیرہ) بجا لانا، یہ سب ان کی بھلائیوں کی فہرست میں داخل ہیں۔ ایسے حضرات کو حق تعالیٰ نے معافی کی امید دلائی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت ابولبابہ اور ان کے چند ہمراہیوں کے حق میں نازل ہوئی۔ جو محض کسل اور تن آسانی کی وجہ سے "تبوک" میں حاضر نہ ہوئے۔ لیکن جب تبوک سے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی واپسی معلوم ہوئی تو غایت ندامت سے ان سب نے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا اور قسم کھائی کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ان مجرموں اور قیدیوں کو معاف کر کے اپنے ہاتھ سے نہ کھولیں گے، اسی طرح بندھے کھڑے رہیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حال دیکھ کر فرمایا۔ واللہ جب تک خدا ان کے کھولنے کا حکم نہ دے میں ان کو نہیں کھول سکتا۔ آخر یہ آیات نازل ہوئیں تب آپ نے کھولا اور قبول توبہ کی بشارت دی۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ کھُلنے کے بعد تکمیل توبہ کے طور پر کچھ مال لے کر حاضر ہوئے کہ خدا کی راہ میں تصدق کریں اس پر اگلی آیت نازل ہوئی۔
۱۰۳ ۔۔۔ ۱: "صدقہ" کا ترجمہ مترجم محقق نے "زکوٰۃ" کیا ہے۔ لیکن اگر لفظ "صدقہ" کو عام رکھا جاتا جو زکوٰۃ و صدقات نافلہ سب کو شامل ہو تو بہتر تھا۔ کیونکہ اکثر روایات کے موافق یہ آیت ان ہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو بعد معافی تکمیل توبہ کے طور پر صدقہ لے کر حاضر ہوئے تھے۔ جیسا کہ ابھی پیچھے فائدہ میں نقل کیا جا چکا ہے۔ ہاں عموم الفاظ کو دیکھتے ہوئے حکم کو مورد نص پر مقصور رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اسی لیے سلف رضی اللہ عنہم مسئلہ زکوٰۃ میں بھی اس آیت کو پیش کرتے رہے ہیں۔
۲: توبہ سے گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ یعنی اس پر مواخذہ باقی نہیں رہتا۔ لیکن ایک قسم کی روحانی کدورت و ظلمت وغیرہ جو گناہ کا طبعی اثر ہے وہ ممکن ہے باقی رہ جاتی ہو جو بالخصوص صدقہ اور عموماً حسنات کی مباشرت سے زائل ہوتی ہے۔ بایں لحاظ کہہ سکتے ہیں کہ صدقہ گناہوں کے اثرات سے پاک و صاف کرتا اور اموال کی برکت بڑھاتا ہے "زکوٰۃ" (کے لغوی معنی نماء یعنی بڑھنے کے ہیں) اور ایک بڑا فائدہ صدقہ کرنے میں یہ تھا کہ صدقہ کرنے والوں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم دعائیں دیتے تھے۔ جن سے دینے والے کا دل بڑھتا اور سکون حاصل کرتا تھا۔ بلکہ آپ کی دعاء کی برکت دینے والے کی اولاد در اولاد تک پہنچتی تھی۔ اب بھی ائمہ کے نزدیک مشروع ہے کہ جو شخص صدقہ لائے امام مسلمین بحیثیت وارث نبی ہونے کے اس کے لیے دعاء کرے۔ البتہ جمہور کے نزدیک لفظ "صلوٰۃ" کا استعمال نہ کرے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مخصوص حق تھا۔
۱۰۴ ۔۔۔ یعنی توبہ اور صدقات کا قبول کرنا صرف خدا کے اختیار میں ہے کیونکہ وہ ہی جانتا ہے کہ کس نے اخلاص قلب اور شرائط قبول کی رعایت کے ساتھ توبہ کی یا صدقہ دیا۔ چنانچہ پہلے بعضوں پر عتاب ہو چکا کہ ہمیشہ کے لیے ان کی زکوٰۃ لینی موقوف ہوئی اور منافقین کے صدقات کو مردود ٹھہرایا گیا اور ان کے حق میں دعاء و استغفار کو بھی بےسود بتلایا۔ بلکہ جنازہ پڑھنے کی ممانعت کر دی۔ جن لوگوں کا یہاں ذکر ہے ان کی توبہ قبول کی اور صدقات قبول کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ان کے حق میں (حیًا و میتًا) دعاء کریں۔
۱۰۵ ۔۔۔ یعنی توبہ وغیرہ سے گزشتہ تقصیرات معاف ہو گئیں۔ لیکن آگے دیکھا جائے گا کہ تم کہاں تک صدق و استقامت کا عملی ثبوت پیش کرتے ہو۔ اس جہاد میں قصور ہوا تو آئندہ اور جہاد ہوں گے۔ پیغمبر علیہ السلام کے یا خلفاء کے روبرو ان میں امتحان ہو گا کہ کیسا عمل کرتے ہو۔ پھر خدا کے یہاں جا کر ہر عمل کو پورا بدلہ مل جائے گا کیونکہ وہ ہی تمام کھلی چھپی چیزوں اور ظاہری عمل اور باطنی نیتوں پر مطلع ہے ہر ایک کے ساتھ اس کی واقعی حالت کے موافق معاملہ کرے گا (آیت کی یہ تقریر حضرت شاہ صاحب کے مذاق پر کی گئی ہے کیونکہ اوفق بالسیاق ہے۔ واللہ اعلم)
۱۰۶ ۔۔۔ اہل مدینہ میں سے یہاں ایک چھوٹی سی جماعت کا ذکر فرمایا ہے اصل یہ ہے کہ متخلفین عن تبوک (یعنی تبوک میں نہ شریک ہونے والے) تین قسم کے تھے۔ ایک منافقین جو از راہ شک و نفاق علیحدہ رہے۔ دوسرے بعض مومنین جو محض سُستی اور تن آسانی کی بدولت شریک جہاد نہ ہوئے۔ پھر ان میں دو قسمیں تھیں۔ اکثر وہ تھے جنہوں نے واپسی کی اطلاع پا کر اپنے کو مسجد کے ستونوں سے باندھ دیا ان کا ذکر پچھلی آیات میں گزر چکا۔ صرف تین شخصوں کی جماعت وہ تھی جنہوں نے نہ اپنے کو ستونوں سے بندھوایا نہ کوئی عذر تراشا۔ بس جو واقعہ تھا اور جو قصور ہوا تھا صاف صاف بلا کم و کاست آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے عرض کر دیا۔ ان کے بارہ میں آیت وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِاللّٰہِ الخ نازل ہوئی۔ یعنی ان کا معاملہ ابھی ڈھیل میں ہے۔ چند روز خدا کے حکم کا انتظار کرو۔ خواہ ان کو سزا دے یا معاف کرے۔ جو اس کے علم و حکمت کا اقتضاء ہو گا کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تا نزول حکم الٰہی ادب دینے کے لیے مسلمانوں کے تعلقات ان تینوں سے منقطع کر دیے۔ پچاس دن تک یہ ہی معاملہ رہا۔ پھر معافی ہوئی۔ ان واقعات کی اور تینوں کے ناموں کی تفصیل اگلے رکوع کے خاتمہ پر بیان ہو گی۔
۱۰۷ ۔۔۔ پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جن سے بظاہر ایک برا کام ہو گیا (تخلف عن الجہاد) مگر صحت اعتقاد اور اعتراف خطا کی بدولت معافی مل گئی۔ یہاں ایسی جماعت کا بیان ہے جنہوں نے بظاہر اچھا کام کیا (تعمیر مسجد) لیکن بد اعتقادی کی وجہ سے وبال بن گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت کر کے آئے تو اول مدینہ سے باہر "بنی عمرو بن عوف" کے محلہ میں فروکش ہوئے۔ پھر چند روز بعد شہر مدینہ میں تشریف لے گئے اور مسجد نبوت تعمیر کی، اس محلہ میں جہاں آپ بیشتر نماز پڑھتے تھے وہاں کے لوگوں نے مسجد تیار کر لی جو مسجد قباء کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر ہفتہ کے روز وہاں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے اور بڑی فضیلت اس کی بیان فرماتے تھے۔ بعض منافقین نے چاہا کہ پہلوں کی ضد پر اسی کے قریب ایک اور مکان مسجد کے نام سے تعمیر کریں۔ اپنی جماعت جدا ٹھہرائیں اور بعض سادہ دل مسلمانوں کو مسجد قبا سے ہٹا کر ادھر لے آئیں۔ فی الحقیقت اس ناپاک تجویز کا محرک اصلی ایک شخص ابو عامر راہب خزرجی تھا۔ ہجرت سے پہلے اس شخص نے نصرانی بن کر راہبانہ زندگی اختیار کر لی تھی۔ مدینہ اور آس پاس کے لوگ خصوصاً قبیلہ خزرج اس کے زہد و درویشی کے معتقد تھے اور بڑی تعظیم کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قدوم میمنت لزوم سے جب مدینہ میں ایمان و عرفان کا آفتاب چمکا تو اس طرح کے درویشوں کا بھرم کھلنے لگا۔ بھلا نور آفتاب کے سامنے چراغ مردہ کو کون پوچھتا۔ ابو عامر یہ دیکھ کر چراغ پا ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور فرمایا کہ میں ٹھیک ملت ابراہیمی لے کر آیا ہوں۔ کہنے لگا کہ میں پہلے سے اس پر قائم ہوں لیکن تم نے اپنی طرف سے ملت ابراہمی میں اس کے خلاف چیزیں داخل کر دی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت زور سے اس کی تردید فرمائی۔ آخر اس کی زبان سے نکلا کہ جو ہم میں سے جھوٹا ہو خدا اس کو وطن سے دور و تنہا غربت و بیکسی کی موت مارے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "آمین" خدا ایسا ہی کرے۔ جنگ بدر کے بعد جب اسلام کی جڑیں مضبوط ہو گئیں اور مسلمانوں کا عروج و فروغ حاسدوں کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگا۔ ابو عامر کو تاب نہ رہی۔ بھاگ کر مکہ پہنچا۔ تاکہ کفار مکہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں چڑھا کر لائے۔ چنانچہ معرکہ احد میں قریش کے ساتھ خود آیا۔ مبازرہ شروع ہونے سے پہلے آگے بڑھ کر انصار مدینہ کو جو عہد جاہلیت میں اس کے بڑے معتقد تھے خطاب کر کے اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔ احمق یہ نہ سمجھا کہ پیغمبرانہ تصرف کے سامنے اب وہ پرانا جادو کہاں چل سکتا ہے۔ آخر انصار نے جو اسے پہلے راہب کہہ کر پکارتے تھے جواب دیا کہ او فاسق دشمنِ خدا! تری آنکھ خدا کبھی ٹھنڈی نہ کرے۔ کیا رسول خدا کے مقابلہ میں ہم تیرا ساتھ دیں گے؟ انصار کا مایوس کن جواب سن کر کچھ حواس درست ہوئے اور غیظ میں آ کر کہنے لگا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم) آئندہ جو قوم بھی تیرے مقابلہ کے لیے اٹھے گی میں برابر اس کے ساتھ رہوں گا۔ چنانچہ جنگ حنین تک ہر معرکہ میں کفار کے ساتھ ہو کر مسلمانوں سے لڑتا رہا۔ احد میں اسی کی شرارت سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو چشم زخم پہنچا۔ دونوں صفوں کے درمیان اس نے پوشیدہ طور پر کچھ گڑھے کھدوا دیئے تھے۔ وہیں چہرہ مبارک کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کا واقعہ پیش آیا حنین کے بعد جب ابو عامر نے محسوس کر لیا کہ اب عرب کی کوئی طاقت اسلام کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تو بھاگ کر ملک شام پہنچا۔ اور منافقین مدینہ کو خط لکھا کہ میں قیصر روم سے مل کر ایک لشکر جرار محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے مقابلہ میں لانے والا ہوں جو چشم زدن میں ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا دے گا اور مسلمانوں کو بالکل پامال کر کے چھوڑے گا۔ (العیاذ باللہ) تم فی الحال ایک عمارت مسجد کے نام سے بنا لو۔ جہاں نماز کے بہانے سے جمع ہو کر اسلام کے خلاف ہر قسم کے سازشی مشورے ہو سکیں۔ اور قاصد تم کو وہیں میرے خطوط وغیرہ پہنچا دیا کرے اور میں بذات خود آؤں تو ایک موزوں جگہ ٹھہرنے اور ملنے کی ہو۔ یہ خبیث مقاصد تھے جن کے لیے مسجد ضرار تعمیر ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو بہانہ یہ کیا کہ یا رسول اللہ! خدا کی قسم ہماری نیت بری نہیں بلکہ بارش اور سردی وغیرہ میں بالخصوص بیماروں، ناتوانوں اور ارباب حوائج کو مسجد قبا تک جانا دشوار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ مسجد بنائی گئی ہے تاکہ نمازیوں کو سہولت ہو اور مسجد قبا میں تنگی مکان کی شکایت نہ رہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم ایک مرتبہ وہاں چل کر نماز پڑھ لیں تو ہمارے لیے موجب برکت و سعادت ہو۔ یہ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا طرزِ عمل دیکھ کر بعض سادہ دل مسلمان حسن ظن کی بنا پر ان کے جال میں پھنس جائیں۔ آپ اس وقت تبوک جانے کے لیے پا برکاب تھے۔ فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو واپسی پر ایسا ہو سکے گا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم تبوک سے واپس ہو کر بالکل مدینہ کے نزدیک پہنچ گئے، تب جبرائیل یہ آیات لے کر آئے جن میں منافقین کی ناپاک اغراض پر مطلع کر کے مسجد ضرار کا پول کھول دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مالک بن خشم اور معن بن عدی کو حکم دیا کہ اس مکان کو (جس کا نام از راہ خداع و فریب مسجد رکھا تھا) گرا کر پیوند زمین بنا دو۔ انہوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور جلا کر خاک سیاہ کر دیا اس طرح منافقین اور ابو عامر فاسق کے سب ارمان دل کے دل میں رہ گئے اور ابو عامر اپنی دعا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی آمین کے موافق قنسرین) ملک شام (میں تنہا سخت بے کسی کی موت مرا۔ قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ" آیت میں "مَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ" سے یہ ہی ابو عامر فاسق مراد ہے۔
۱۰۸ ۔۔۔ یعنی اس مسجد میں جس کی بنیاد محض ضد، کفر و نفاق، عداوت اسلام اور مخالفت خدا اور رسول پر رکھی گئی۔ آپ کبھی نماز کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ آپ کی نماز کے لائق وہ مسجد ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقویٰ اور پرہیزگاری پر قائم ہوئی (خواہ مسجد نبوی ہو یا مسجد قبا) اس کے نمازی گناہوں اور شرارتوں اور ہر قسم کی نجاستوں سے اپنا ظاہر و باطن پاک و صاف رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لیے خدائے پاک ان کو محبوب رکھتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل قبا سے دریافت کیا کہ تم طہارت و پاکیزگی کا کیا خاص اہتمام کرتے ہو، جو حق تعالیٰ نے تمہاری تطہیر کی مدح فرمائی۔ انہوں نے کہا کہ ڈھیلے کے بعد پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ یعنی عام طہارت ظاہری و باطنی کے علاوہ وہ لوگ اس چیز کا معتاد سے زائد اہتمام رکھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیت میں مسجد قبا کا ذکر ہے۔ لیکن بعض روایات صریح میں ہے کہ "لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْویٰ" سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے مراد ہے۔ علماء نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے۔ ہم نے شرح صحیح مسلم میں اس کے متعلق اپنا ناقص خیال ظاہر کر کے روایات میں تطبیق دی ہے یہاں اس کے بیان کا موقع نہیں۔
۱۰۹ ۔۔۔ ۱: یعنی جس کام کی بنیاد تقویٰ، یقین و اخلاص اور خدا کی رضا جوئی پر ہو، وہ نہایت مستحکم اور پائدار ہوتا ہے۔ برخلاف اس کے جس کام کی بناء شک و نفاق اور مکر و خداع پر ہو، وہ اپنی ناپائداری، بودے پن اور انجام بد کے لحاظ سے ایسا ہے جیسے کوئی عمارت ایک کھائی کے کنارہ پر کھڑی کی جائے کہ ذرا زمین سر کی یا پانی کی تھپیڑ کنارہ کو لگی، ساری عمارت دھڑام سے نیچے آ رہی اور آخرکار دوزخ کے گڑھے میں جا پہنچی۔
۲: یعنی بظاہر کوئی نیک عمل بھی کریں (جیسے مسجد بنانا) ظلم و نا انصافی کی شامت سے بن نہیں پڑتا۔
۱۱۰ ۔۔۔ "ریبہ" کا ترجمہ کیا ہے "شبہ" جس سے مراد نفاق ہے۔ یعنی اس عمل بد کا اثر یہ ہوا کہ ہمیشہ ان کے دلوں میں (جب تک موت انہیں پارہ پارہ نہ کر ڈالے) نفاق قائم رہے گا۔ جیسے اسی سورہ میں پہلے گزر چکا۔ اَعْقَبَہُمْ نِفَاقًا فِی قُلُوبِہِمْ اِلیٰ یَوْمِ یَلْقَوْنَہُ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعْدُوْہُ وَبِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ" بعض مترجمین نے "ریبہ" کے معنی کیے ہیں "کھٹکنا" یعنی جو عمارت انہوں نے ناپاک مقاصد کے لیے بنائی تھی۔ مگر حق تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو مطلع کر کے ان کے تمام پلید مقاصد کا خاتمہ کر دیا، اس کا خیال ہمیشہ ان کے دلوں میں کانٹا سا کھٹکتا رہے گا۔ والراجح عندالسلف ہو الاول کما حکی ابن کثیر۔
۱۱۱ ۔۔۔ اس سے زیادہ سودمند تجارت اور عظیم الشان کامیابی کیا ہو گی کہ ہماری حقیر سی جانوں اور فانی اموال کا خداوند قدوس خریدار بنا۔ ہماری جان و مال جو فی الحقیقت اسی کی مملوک و مخلوق ہے محض ادنیٰ ملابست سے ہماری طرف نسبت کر کے "مبیع" قرار دیا جو "عقد بیع" میں مقصود بالذات ہوتی ہے۔ اور جنت جیسے اعلیٰ ترین مقام کو اس کا "ثمن" بتلایا جو مبیع تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ "جنت" میں وہ نعمتیں ہوں گی جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی بشر کے قلب پر ان کی کیفیات کا خطور ہوا اب خیال کرو کہ جان و مال جو برائے نام ہمارے کہلاتے ہیں، انہیں جنت کا ثمن نہیں بنایا نہ یہ کہا کہ حق تعالیٰ "بائع" اور ہم مشتری ہوتے، تلطف و نوازش کی حد ہو گئی کہ اس ذرا سی چیز کے (حالانکہ وہ بھی فی الحقیقت اسی کی ہے) معاوضہ میں جنت جیسی لازوال اور قیمتی چیز کو ہمارے لیے مخصوص کر دیا، جیسا کہ "بالجنۃ" کی جگہ "بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃُ فرمانے سے ظاہر ہوتا ہے
پھر یہ نہیں کہ ہمارے جان و مال خرید لیے گئے تو فوراً ہمارے قبضہ سے نکال لئے جائیں صرف اس قدر مطلوب ہے کہ جب موقع پیش آئے جان و مال خدا کے راستہ میں پیش کرنے کے لیے تیار رہیں۔ دینے سے بخل نہ کریں خواہ وہ لیں یا نہ لیں۔ اسی کے پاس چھوڑے رکھیں۔ اسی لیے فرمایا "یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ" یعنی مقصود خدا کی راہ میں جان و مال حاضر کر دینا ہے۔ بعدہٗ ماریں یا مارے جائیں۔ دنوں صورتوں میں عقد مبیع پورا ہو گیا اور یقینی طور پر ثمن کے مستحق ٹھہر گئے ممکن ہے کسی کو وسوسہ گزرتا کہ معاملہ تو بیشک بہت سودمند اور فائدہ بخش ہے لیکن ثمن نقد نہیں ملتا۔ اس کا جواب دیا۔ "وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِ نْجِیْلِ وَالْقُرْآنِ۔" یعنی زرِ ثمن کے مارے جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔ خدا تعالیٰ نے بہت تاکید و اہتمام سے پختہ دستاویز لکھ دی ہے جس کا خلاف ناممکن ہے۔ کیا خدا سے بڑھ کر صادق القول، راست باز اور وعدہ کا پکا کوئی دوسرا ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا اس کا ادھار بھی دوسروں کے نقد سے ہزاروں درجہ پختہ اور بہتر ہو گا پھر مومنین کے لیے خوش ہونے اور اپنی قسمت پر نازاں ہونے کا اس سے بہتر کون سا موقع ہو گا کہ خود رب العزت ان کا خریدار بنے، اور اس شان سے بنے۔ سچ فرمایا عبد اللہ بن رواحہ نے کہ یہ وہ بیع ہے جس کے بعد اقالت کی کوئی صورت ہم باقی رکھنا نہیں چاہتے۔ حق تعالیٰ اپنے فضل سے ہم نا توانوں کو ان مومنین کے زمرہ میں محشور فرمائے آمین۔
۱۱۲ ۔۔۔ ۱: بعض نے "سائحون" سے مراد روزہ دار لیے ہیں۔ کیونکہ روزہ دار کھانے پینے وغیرہ لذائذ و مرغوبات سے بے تعلق ہو کر روحانی مدارج اور ملکوتی مقامات کی سیر کرتا ہے۔ بعض کے نزدیک اس لفظ کا مصداق مہاجرین ہیں۔ جو گھر بار سے بے تعلق ہو کر "دارالسلام" میں سکونت پذیر ہوتے ہیں۔ بعض نے "مجاہدین" کا ارادہ کیا ہے کہ مجاہد اپنی جان تک سے بے تعلق ہو کر خدا کے راستہ میں قربان ہونے کے لیے نکلتا ہے۔ بعض کی رائے میں یہ لفظ طلبہ علوم کے لیے ہے جو وطن، کنبہ، راحت و آسائش وغیرہ سب کو خیر باد کہہ کر طلب علم کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بہرحال مترجم محقق نے جو ترجمہ کیا، اس میں ان سب اقوال کی گنجائش ہے مگر اکثر سلف کے نزدیک پہلی تفسیر مختار ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ شاید بے تعلق رہنے سے مراد یہ ہو کہ دنیا میں دل نہ لگائے۔
۲: یعنی خود درست ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی درست کرتے ہیں۔ گویا ان کا کام ہے عبادت حق اور خیر خواہی خلق۔
۳: یعنی نیکی بدی کی جو حدود حق تعالیٰ نے معین فرما دی ہیں، ان سے تجاوز نہ کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ بے حکم شرح کوئی قدم نہ اٹھائے۔ یہ سب صفات ان مومنین کی ہوئیں۔ جو جان و مال سے خدا کے ہاتھ پر بِک چکے ہیں۔
۱۱۳ ۔۔۔ مومنین جب جان و مال سے خدا کے ہاتھوں بیع ہو چکے تو ضروری ہے کہ تنہا اسی کے ہو کر رہیں۔ اعداء ُ اللہ سے جن کا دشمن خدا اور جہنمی ہونا معلوم ہو چکا ہو۔ محبت و مہربانی کا واسطہ نہ رکھیں۔ خواہ دشمنان خدا ان کے ماں باپ، چچا، تایا اور خاص بھائی بند ہی کیوں نہ ہوں۔ جو خدا کا باغی اور دشمن ہے وہ ان کا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ پس جس شخص کی بابت پتہ چل جائے کہ وہ بالیقین دوزخی ہے۔ خواہ وحی الٰہی کے ذریعہ سے یا اس طرح کے اعلانیہ کفر و شرک پر اس کو موت آ چکی ہو، اس کے حق میں استغفار کرنا اور بخشش مانگنا ممنوع ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ حضرت آمنہ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ بعض احادیث میں مذکورہ ہے کہ آپ کے چچا ابو طالب کے حق میں اتری۔ اور بعض نے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں نے چاہا کہ اپنے آباؤ مشرکین کے لیے جو مر چکے تھے استغفار کریں۔ اس آیت میں ان کو منع کیا گیا۔ بہرحال شان نزول کچھ ہو، حکم یہ ہے کہ کفار و مشرکین کے حق میں جن کا خاتمہ کفرو شرک پر معلوم ہو جائے، استغفار جائز نہیں۔ (تنبیہ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے والدین کے بارہ میں علمائے اسلام کے اقوال بہت مختلف ہیں۔ بعض نے ان کو مومن و ناجی ثابت کرنے کے لیے مستقل رسائل لکھے ہیں۔ اور شراح حدیث نے محدثانہ و متکلمانہ بحثیں کی ہیں۔ احتیاط و سلامت روی کا طریقہ اس مسئلہ میں یہ ہے کہ زبان بند رکھی جائے۔ اور ایسے نازک مباحث میں خوض کرنے سے احتراز کیا جائے حقیقت حال کو خدا ہی جانتا ہے اور وہ ہی تمام مسائل کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے۔
۱۱۴ ۔۔۔ سورہ مریم میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ نے قبول حق سے اعراض کیا اور ضد و عناد سے حضرت ابراہیم کو قتل کی دھمکیاں دینے لگا، تو آپ نے والدین کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا۔ "سَلَامُ، عَلَیْکَ سَاَسْتَغْفِرُلَکَ رَبِّی اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا" یعنی میں خدا سے تیرے لیے استغفار کروں گا۔ اس وعدہ کے موافق آپ برابر استغفار کرتے رہے چنانچہ دوسری جگہ "وَاغْفِرْ ِلاَ بِی" ،فرمانے کی تصریح ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ابراہیم علیہ السلام ایک مشرک کی حالت شرک پر قائم رہتے ہوئے مغفرت چاہتے تھے، نہیں غرض یہ تھی کہ اللہ اس کو توفیق دے کہ حالت شرک سے نکل کر آغوش اسلام میں آ جائے اور قبول اسلام اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا سبب بنے۔ "اِنَّ اْلِاسْلاَمُ یَہْدِمُ مَاکَانَ قَبْلَہٗ" ابراہیم علیہ السلام کے استغفار کو قرآن میں پڑھ کر بعض صحابہ کے دلوں میں خیال آیا کہ ہم بھی اپنے مشرک والدین کے حق میں استغفار کریں اس کا جواب حق تعالیٰ نے دیا کہ ابراہیم نے وعدہ کی بنا پر صرف اس وقت تک اپنے باپ کے لیے استغفار کیا۔ جب تک یقینی طور سے یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ اسے کفر و شرک اور خدا کی دشمنی پر مرنا ہے۔ کیونکہ مرنے سے پہلے احتمال تھا کہ توبہ کر کے مسلمان ہو جائے اور بخشا جائے پھر جب کفر و شرک پر خاتمہ ہونے سے صاف کھل گیا کہ وہ حق کی دشمنی سے باز آنے والا نہ تھا، تو ابراہیم علیہ السلام اس سے بالکلیہ بیزار ہو گئے۔ اور دعاء و استغفار وغیرہ ترک کر دیا۔ پہلے نرم دلی اور شفقت سے دعاء کرتے تھے۔ جب توبہ و رجوع کے احتمالات منقطع ہو گئے، تو آپ نے اس کی خیرخواہی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اور اس حادثہ کو پیغمبرانہ صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ حدیث میں ہے کہ محشر میں ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ خداوندا! تیرا وعدہ ہے کہ مجھے رسوا نہ کرے گا۔ مگر اس سے زیادہ کیا رسوائی ہو گی کہ آج میرا باپ سب کے سامنے دوزخ میں پھینکا جائے۔ اسی وقت ان کے باپ کی صورت مسخ ہو کر ضبع (کفتار) کی سی ہو جائے گی اور فرشتے گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔ شاید یہ اس لیے ہو کہ لوگ اسے پہچان نہ سکیں۔ کیونکہ رسوائی کا دارومدار شناخت پر ہے جب شناخت نہ رہے گی کہ کیا چیز دوزخ میں پھینکی گئی۔ پھر بیٹے کی رسوائی کا کچھ مطلب نہیں۔
۱۱۵ ۔۔۔ یعنی اتمام حجت اور اظہارِ حق سے پہلے خدا کسی کو گمراہ نہیں کرتا، گمراہی یہ ہے کہ جب خدا اپنے احکام صاف کھول کر بیان کر چکا، پھر امتثال نہ کیا جائے۔ گویا اشارہ کر دیا کہ جو لوگ ممانعت سے قبل مشرکین کے لیے استغفار کر چکے ہیں ان پر مواخذہ نہیں، لیکن اب اطلاع پانے کے بعد ایسا کرنا گمراہی ہے۔
۱۱۶ ۔۔۔ جب اس کی سلطنت ہے ، تو اسی کا حکم چلنا چاہیے۔ وہ علم محیط اور قدرت کاملہ سے جو احکام نافذ کرے بندوں کا کام ہے کہ بے خوف و خطر تعمیل کریں۔ کسی کی روز رعایت کو دخل نہ دیں، کیونکہ خدا کے سوا کوئی کام آنے والا نہیں۔
۱۱۷ ۔۔۔ ۱: مشکل کی گھڑی سے مراد "غزوہ تبوک" کا زمانہ ہے جس میں کئی طرح کی مشکلات جمع تھیں۔ سخت گرمی، طویل مسافت، کھجور کا موسم، اس زمانہ کی عظیم الشان سلطنت کے مقابلہ پر فوج کشی، پھر ظاہری بے سروسامانی ایسے کہ ایک ایک کھجور روزانہ دو دو سپاہیوں پر تقسیم ہوتی تھی۔ اخیر میں یہ نوبت پہنچ گئی کہ بہت سے مجاہدین ایک ہی کھجور کو یکے بعد دیگرے چوس کر پانی پی لیتے تھے۔ پھر پانی کے فقدان سے اونٹوں کی آلائش نچوڑ کر پینے کی نوبت آ گئی۔ سواری کا اتنا قحط تھا کہ دس دس آدمی ایک ایک اونٹ پر اترتے چڑھتے چلے جا رہے تھے۔ یہ ہی وہ جذبہ ایثار و فدا کاری تھا جس نے مٹھی بھر جماعت کو تمام دنیا کی قوموں پر غالب کر دیا۔ فللہ الحمد والمنہ۔
۲: خدا کی مہربانیاں پیغمبر علیہ السلام پر بے شمار ہیں۔ اور آپ کی برکت سے مہاجرین و انصار پر بھی حق تعالیٰ کی مخصوص توجہ اور مہربانی رہی ہے کہ ان کو ایمان و عرفان سے مشرف فرمایا۔ اتباعِ نبوی، جہاد فی سبیل اللہ اور عزائم امور کے سرانجام دینے کی ہمت و توفیق بخشی۔ پھر ایسے مشکل وقت میں جبکہ بعض مومنین کے قلوب بھی مشکلات اور صعوبتوں کا ہجوم دیکھ کر ڈگمگانے لگے تھے اور قریب تھا کہ رفاقت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے پیچھے ہٹ جائیں۔ حق تعالیٰ نے دوبارہ مہربانی اور دستگیری فرمائی کہ ان کو اس قسم کے خطرات و وساوس پر عمل کرنے سے محفوظ رکھا اور مومنین کی ہمتوں کو مضبوط اور ارادوں کو بلند کیا۔
۱۱۸ ۔۔۔ ۱: یہ تین شخص کعب بن مالک، ہلال بن امیّہ اور مرارہ بن الربیع ہیں۔ جو باوجود مومن مخلص ہونے کے محض تن آسانی اور سہل انگاری کی بناء پر بدون عذر شرعی کے تبوک کی شرکت سے محروم رہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم واپس تشریف لائے تو نہ انہوں نے منافقین کی طرح جھوٹے عذر پیش کئے اور نہ بعض صحابہ کی طرح اپنے آپ کو ستونوں سے باندھا۔ جو واقعہ تھا صاف صاف عرض کر دیا، اور اپنی کوتاہی اور تقصیر کا اعلانیہ اعتراف کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منافقین کی طرف سے بظاہر اغماض کر کے ان کے بواطن کو خدا کے سپرد کیا گیا۔ "اصحاب سواری" کی (یعنی جو مسجد کے ستونوں سے بندھے ہوئے تھے) توبہ قبول کر لی گئی۔ اور ان تینوں کا فیصلہ تادیباً کچھ مدت کے لیے ملتوی رکھا گیا۔ پچاس دن گزرنے کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی پیچھے رکھے جانے کا یہ ہی مطلب ہے جیسا کہ بخاری میں خود کعب بن مالک سے نقل کیا ہے۔
۲: ان تین میں سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنا واقعہ نہایت شرح وبسط سے عجیب موثر طرز میں بیان فرمایا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ملاحظہ کیا جائے۔ یہاں اس کے بعض اجزاء نقل کیے جاتے ہیں۔ کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ تبوک کی مہم چونکہ بہت سخت اور دشوار گزار تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو عام حکم تیاری کا دیا۔ لوگ مقدور و استطاعت کے موافق سامان سفر درست کرنے میں مشغول تھے مگر میں بے فکر تھا کہ جب چاہوں گا فوراً تیار ہو کر ساتھ چلا جاؤں گا۔ کیونکہ بفضل ایزدی اس وقت ہر طرح کا سامان مجھ کو میسر تھا۔ ایک چھوڑ دو سواریاں میرے پاس موجود تھیں میں اسی غفلت کے نشہ میں رہا۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تیس ہزار مجاہدین اسلام کو کوچ کا حکم دے دیا۔ مجھے اب بھی یہ خیال تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم روانہ ہو گئے تو کیا ہے، اگلی منزل پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جا ملوں گا۔ آج چلوں کل چلوں اس امروز و فردا میں وقت نکل گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک پہنچ کر فرمایا "مافعل کعب بن مالک" (کعب بن مالک کو کیا ہوا) بنی سلمہ کا ایک شخص بولا کہ یارسول اللہ! اس کی عیش پسندی اور اعجاب و غرور نے نکلنے کی اجازت نہ دی۔ معاذ بن جبل نے کہا کہ تو نے بری بات کہی۔ خدا کی قسم ہم نے اس میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم یہ گفتگو سن کر خاموش رہے۔ کعب کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد بہت زیادہ وحشت اس سے ہوتی تھی کہ سارے مدینہ میں پکے منافق یا معذور مسلمان کے سوا مجھے کوئی مرد نظر نہ پڑتا تھا۔ بہرحال اب دل میں طرح طرح کے جھوٹے منصوبے گانٹھنے شروع کیے کہ آپ کی واپسی پر فلاں عذر کر کے جان بچا لوں گا۔ مگر جس وقت معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم خیر و عافیت سے واپس تشریف لے آئے، دل سے سارے جھوٹ فریب محو ہو گئے اور طے کر لیا کہ سچ کے سوا کوئی چیز اس بارگاہ میں نجات دلانے والی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں رونق افروز تھے، اصحاب کا مجمع تھا۔ منافقین جھوٹے حیلے بہانے بنا کر ظاہری گرفت سے چھوٹ رہے تھے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا۔ میرے سلام کرنے پر آپ نے غضب آمیز تبسم فرمایا اور غیر حاضری کی وجہ دریافت کی میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! اگر اس وقت میں دنیا والوں میں سے کسی دوسرے کے سامنے ہوتا تو آپ دیکھتے کہ کس طرح زبان زوری اور چرب لسانی سے جھوٹے حیلے حوالے کر کے اپنے آپ کو صاف بچا لیتا۔ مگر یہاں تو معاملہ ایک ایسی ذات مقدس سے ہے جسے جھوٹ بول کر اگر میں راضی بھی کرلوں تو تھوڑی دیر کے بعد خدا اس کو سچی بات پر مطلع کر کے مجھ سے ناراض کر دے گا۔ برخلاف اس کے سچ بولنے میں گو تھوڑی دیر کے لیے آپ کی خفگی برداشت کرنی پڑے گی لیکن امید کرتا ہوں کہ خدا کی طرف سے اس کا انجام بہتر ہو گا۔ اور آخرکار سچ بولنا ہی مجھے خدا اور رسول کے غصہ سے نجات دلائے گا۔ یا رسول اللہ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس غیر حاضری کا کوئی عذر نہیں، جس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ہم رکابی کے شرف سے محروم ہوا، اس وقت سے زیادہ فراخی اور مقدرت کبھی مجھ کو حاصل نہ ہوئی تھی۔ میں مجرم ہوں، آپ کو اختیار ہے جو فیصلہ چاہیں میرے حق میں دیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا جاؤ اور خدائی فیصلے کا انتظار کرو۔ میں اٹھا اور تحقیق سے معلوم ہوا کہ (ہلال بن امیہ اور مرارہ بن الربیع) یہ دو شخص میرے ہی جیسے ہیں۔ ہم تینوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دے دیا کہ کوئی ہم سے بات نہ کرے۔ سب علیحدہ رہیں۔ چنانچہ کوئی مسلمان ہم سے بات نہ کرتا تھا، نہ سلام کا جواب دیتا تھا۔ وہ دونوں تو خانہ نشین ہو گئے، شب و روز گھر میں وقف گریہ و بُکا رہتے تھے میں ذرا سخت اور قوی تھا۔ مسجد میں نماز کے لیے حاضر ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کر کے دیکھتا تھا کہ جواب میں لب مبارک کو حرکت ہوئی یا نہیں۔ جب میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھتا۔ آپ میری طرف سے منہ پھیر لیتے تھے مخصوص اقارب اور محبوب ترین اعزہ بھی مجھ سے بیگانہ ہو گئے تھے۔ اس اثناء میں ایک روز ایک شخص نے بادشاہ "غسان"کا خط مجھے دیا۔ جس میں میری مصیبت پر اظہارِ ہمدردی کرنے کے بعد دعوت دی تھی کہ میں اس کے ملک میں آ جاؤں وہاں میری بہت آؤ بھگت ہو گی میں نے پڑھ کر کہا کہ یہ بھی ایک مستقل امتحان ہے۔ آخر وہ خط میں نے نذرِ آتش کر دیا۔ چالیس دن گزرنے کے بعد بارگاہِ رسالت سے جدید حکم پہنچا کہ میں اپنی عورت سے بھی علیحدہ رہوں، چنانچہ اپنی بیوی کو کہہ دیا کہ اپنے میکے چلی جائے اور جب تک خدا کے یہاں سے میرا کوئی فیصلہ ہو وہیں ٹھہری رہے۔ سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر اسی حالت میں موت آئی تو حضور میرا جنازہ نہ پڑھیں گے۔ اور فرض کیجئے ان دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات ہو گئی تو مسلمان ہمیشہ یہ ہی معاملہ مجھ سے رکھیں گے۔ میری میت کے قریب بھی کوئی نہ آئے گا غرض پچاس دن اسی حالت میں گزرے کہ خدا کی زمین مجھ پر باوجود فراخی کے تنگ تھی بلکہ عرصہ حیات تنگ ہو گیا تھا، زندگی موت سے زیادہ سخت معلوم ہوتی تھی کہ یکایک جبل سلع سے آواز آئی "یاکعب بن مالک! ابشر" (اے کعب بن مالک خوش ہو جا) میں سنتے ہی سجدہ میں گر پڑا۔ معلوم ہوا کہ اخیر شب میں حق تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ ہماری توبہ مقبول ہے۔ آپ نے بعد نماز فجر صحابہ کو مطلع فرمایا۔ ایک سوار میری طرف دوڑا کہ بشارت سنائے۔ مگر دوسرے شخص نے پہاڑ پر زور سے للکارا۔ اس کی آواز سوار سے پہلے پہنچی اور میں نے اپنے بدن کے کپڑے اتار کر آواز لگانے والے کو دیے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ لوگ جوق جوق آتے اور مجھے مبارک باد دیتے تھے۔ مہاجرین میں سے حضرت طلحہ نے کھڑے ہو کر مصافحہ کیا حضور کا چہرہ خوشی سے چادر کی طرح چمک رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، خدا نے تیری توبہ قبول فرمائی۔ میں نے عرض کیا کہ اس توبہ کا تتمہ یہ ہے کہ اپنا کل مال و جائداد خدا کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ سب نہیں، کچھ اپنے لیے روکنا چاہیے۔ چنانچہ میں نے خیبر کا حصہ الگ کر کے باقی مال صدقہ کر دیا۔ چونکہ محض سچ بولنے سے مجھ کو نجات ملی تھی، اس لیے عہد کیا کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو، آئندہ کبھی جھوٹ نہ بولوں گا، اس عہد کے بعد بڑے سخت امتحانات پیش آئے۔ مگر الحمد للہ میں سچ کہنے سے کبھی نہیں ہٹا اور نہ انشاء اللہ تازیست ہٹوں گا۔ یہ واقعہ ہے جس کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ گویا ان تینوں پر خدا کی پہلی مہربانی تو یہ ہی تھی کہ ایمان و اخلاص بخشا، نفاق سے بچایا۔ اب نئی مہربانی یہ ہوئی کہ توبہ نصوح کی توفیق دے کر پھر اپنی طرف کھینچ لیا اور کوتاہیوں کو معاف فرما دیا۔
۱۱۹ ۔۔۔ یعنی سچوں کی صحبت رکھو اور انہی جیسے کام کرو۔ دیکھ لو یہ تین شخص سچ کی بدولت بخشے گئے اور مقبول ٹھہرے منافقین نے جھوٹ بولا اور خدا کا ڈر دل سے نکال دیا تو "درک اسفل" کے مستحق بنے۔
۱۲۰ ۔۔۔ ۱: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو تکلیفیں اٹھائیں اور ہم آرام سے بیٹھے رہیں، ایسا نہیں چاہیے، حدیث میں ہے کہ ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ بھی غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی روانگی کے بعد باغ میں گئے وہاں خوشگوار سایہ تھا، حسین و جمیل بیوی سامنے تھے اس نے پانی چھڑک کر زمین کو خوب ٹھنڈا کر دیا، چٹائی کا فرش کیا۔ تازہ کھجور کے خوشے سامنے رکھے اور سرد و شیریں پانی حاضر کیا۔ یہ سامان عیش دیکھ کر دفعتاً ابو خیثمہ کے دل میں ایک بجلی سی دوڑ گئی۔ بولے تف ہے اس زندگی پر کہ میں تو خوشگوار سائے، ٹھنڈے پانی اور باغ و بہار کے مزے لوٹ رہا ہوں، اور خدا کا محبوب پیغمبر ایسی سخت لو اور گرمی و تشنگی کے عالم میں کوہ و بیاباں طے کر رہا ہے۔ یہ خیال آتے ہی سواری منگائی تلوار حمائل کی نیزہ سنبھالا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نقش قدم پر چل نکلے۔ اونٹنی تیز ہوا کی طرح چل رہی تھی، آخر لشکر کو جا پکڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دور سے دیکھ کر کہ کوئی اونٹنی سوار ریت کے ٹیلے قطع کرتا چلا آ رہا ہے، فرمایا "کن ابا خیثمہ" (ہو جا ابو خیثمہ) تھوڑی دیر میں سب نے دیکھ لیا کہ وہ ابو خیثمہ ہی تھے۔ رضی اللہ عنہ وعن سائر الصحابۃ و رضوا عنہ۔
۲: یعنی باوجودیکہ ان میں سے اکثر چیزیں (مثلاً بھوک، پیاس لگنا، یا تکلیف پہنچنا) اختیاری کام نہیں ہیں، تاہم نیت جہاد کی برکت سے ان غیر اختیاری چیزوں کے مقابلہ میں اعمال صالحہ ان کی فرد حسنات میں درج کر دیئے جائیں گے جن پر خدا اجر نیک مرحمت فرمائے گا۔
۱۲۱ ۔۔۔ ۱: خرچ کرنا یا میدان طے کرنا، خود عمل صالح اور اختیاری افعال ہیں۔ اسی لیے یہاں "اِلاَّ کُتِبَ لَہُمْرمایا۔ گذشتہ آیت کی طرح اِلاَّ کُتِبَ لَہُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ" نہیں ارشاد ہوا۔ نبہ علیہ ابن کثیر۔
۲: یعنی بہترین عمل کی بہترین جزاء دے گا۔
۱۲۲ ۔۔۔ گذشتہ رکوعات میں "جہاد" میں نکلنے کی فضیلت اور نہ نکلنے پر ملامت تھی۔ ممکن تھا کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ ہمیشہ ہر جہاد میں تمام مسلمانوں پر نکلنا فرض عین ہے، اس آیت میں فرمایا کہ نہ ہمیشہ یہ ضروری ہے، نہ مصلحت ہے کہ سب مسلمان ایک دم جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ مناسب یہ ہے کہ ہر قبیلہ اور قوم میں سے ایک جماعت نکلے، باقی لوگ دوسری ضروریات میں مشغول ہوں۔ اب اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بنفس نفیس جہاد کے لیے تشریف لے جا رہے ہوں تو ہر قوم میں سے جو جماعت آپ کے ہمراہ نکلے گی وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں رہ کر اور سینکڑوں حوادث و واقعات میں سے گزر کر دین اور احکام دینیہ کی سمجھ حاصل کرے گی اور واپس آ کر اپنی باقی ماندہ قوم کو مزید علم و تجربہ کی بناء پر بھلے برے سے آگاہ کرے گی اور فرض کیجئے اگر حضور صلی اللہ علیہ و سلم خود مدینہ میں رونق افروز رہے تو باقی ماندہ لوگ جو جہاد میں نہیں گئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت سے مستفید ہو کر دین کی باتیں سیکھیں گے۔ اور مجاہدین کی غیبت میں جو وحی و معرفت کی باتیں سنیں گے ان سے واپسی کے بعد مجاہدین کو خبردار کریں گے۔ آیت کے الفاظ میں عربی ترکیب کے اعتبار سے دونوں احتمال ہیں۔ کما فی "روح المعانی" وغیرہ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "ہر قوم میں سے چاہیے بعض لوگ پیغمبر کی صحبت میں رہیں تاکہ علم دین سیکھیں اور پچھلوں کو سکھائیں۔ اب پیغمبر اس دنیا میں موجود نہیں لیکن علم دین اور علماء موجود ہیں۔ طلب علم فرض کفایہ ہے اور جہاد بھی فرض کفایہ ہے۔ البتہ اگر کسی وقت امام کی طرف سے نفیر عام ہو جائے تو رض عین" ہو جاتا ہے۔ تبوک میں یہ ہی صورت تھی اس لیے پیچھے رہنے والوں سے باز پرس ہوئی۔ واللہ اعلم۔ ابو حیان کے نزدیک یہ آیت جہاد کے لیے نہیں، طلب علم کے بارہ میں ہے۔ جہاد اور طلب کی آیات میں مناسبت یہ ہے کہ دونوں میں خروج فی سبیل اللہ ہے اور دونوں کی غرض احیاء و اعلائے دین ہے۔ ایک میں تلوار سے دوسرے میں زبان وغیرہ سے۔
۱۲۳ ۔۔۔ ۱: جہاد فرض کفایہ ہے جو ترتیب طبعی کے موافق اول ان کفار سے ہونا چاہیے جو مسلمانوں سے قریب تر ہوں بعدہٗ ان کے قریب رہنے والوں سے۔ اسی طرح درجہ بدرجہ حلقہ جہاد کو وسیع کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے جہاد اسی ترتیب سے ہوئے "دفاعی جہاد" میں بھی فقہاء نے یہ ہی ترتیب رکھی ہے کہ جس اسلامی ملک پر کفار حملہ آور ہوں، وہاں کے مسلمانوں پر دفاع واجب ہے اگر وہ کافی نہ ہوں یا سُستی کریں تو ان کے متصل رہنے والوں پر وہ کافی نہ ہوں تو پھر جو ان سے متصل ہیں۔ اسی طرح اگر ضرورت پڑے تو درجہ بدرجہ مشرق سے مغرب تک جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔
۲: مومن کی شان یہ ہے کہ اپنے بھائی کے حق میں نرم اور دشمنان خدا و رسول کے معاملہ میں سخت و شدید ہو۔ تاکہ اس کی نرمی اور ڈھیلا پن دیکھ کر دشمن جری نہ ہو جائے۔ "اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ (مائدہ، رکوع۸،آیت ۵۴) وَالَّذِیْنَ مَعْہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ (الفتح، رکوع۴،آیت ۳۹) جَاہِدِالْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ (توبہ، رکوع۱۰،آیت۷۳) وَفِی الحدیث انہ صلی اللہ علیہ و سلم قال انا الضحوک القتال۔"
۳: یعنی خدا سے ڈرنے والے کو کسی کافر قوم سے ڈرنے اور دبنے کی کوئی وجہ نہیں۔ جب تک اور جس قدر مسلمان خدا سے ڈرتے رہے اسی وقت تک اور اسی قدر ان کو کفار پر غلبہ حاصل ہوتا رہا۔ حق تعالیٰ ہمارے دلوں میں اپنا ڈر پیدا کر دے۔
۱۲۵ ۔۔۔ جب کوئی سورت قرآنی نازل ہوتی تو منافقین آپس میں ایک دوسرے یا بعض سادہ دل مسلمانوں سے از راہِ استہزاء و تمسخر کہتے کہ کیوں صاحب تم میں سے کس کس کا ایمان اس سورت نے بڑھایا۔ مطلب یہ تھا کہ (معاذ اللہ) اس سورت میں رکھا ہی کیا ہے۔ کون سے حقائق و معارف ہیں جو ایمان و یقین کی ترقی کا موجب ہوں حق تعالیٰ نے جواب دیا کہ بیشک کلام الٰہی سن کر مومنین کے ایمان میں تازگی اور ترقی ہوتی ہے اور قلوب مسرور و منشرح ہوتے ہیں۔ ہاں جن کے دلوں میں کفر و نفاق کی بیماری اور گندگی ہے ان کی بیماری و گندگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حتی کہ یہ بیماری ان کی جان ہی لے کر چھوڑتی ہے
باراں کہ درلطافت طبعش خلاف نیست
درباغ لالہ روید ودرشورہ بوم خس
حضرت شاہ صاحب نے دوسری طرح آیت کی تقریر کی ہے۔ یعنی کلام الٰہی جس مسلمان کے دل کے خطرہ سے موافق پڑتا وہ خوش ہو کر بول اٹھتا کہ سبحان اللہ۔ اس آیت نے میرا ایمان و یقین اور زیادہ کر دیا۔ اسی طرح جب کسی سورت میں منافقین کے پوشیدہ عیوب ظاہر کیے جاتے تو وہ بھی شرمندگی سے کھسیانے ہو کر کہتے کہ بیشک اس کلام نے ہمارے یقین و ایمان کو بڑھا دیا۔ لیکن یہ کہنا چونکہ خوشی اور انشراح سے نہ تھا۔ محض رفع خجالت کے لیے کہہ دیتے تھے اس لیے یہ توفیق نہ ہوتی تھی کہ آئندہ توبہ کر کے سچے دل سے حق کی پیروی کریں۔ بلکہ پہلے سے زیادہ اپنے عیب چھپانے کی فکر و تدبیر کرتے تھے۔ یہ ہی ہے گندگی پر گندگی۔ عیب دار کو لازم ہے کہ نصیحت سن کر اپنی اصلاح کرے نہ یہ کہ الٹا ناصح سے چھپانے لگے۔
۱۲۶ ۔۔۔ یعنی ہر سال کم ازکم ایک دو مرتبہ ان منافقین کو فتنہ اور آزمائش میں ڈالا جاتا ہے مثلاً قحط، بیماری وغیرہ کسی آفت ارضی و سماوی میں مبتلا ہوتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی زبانی ان کا نفاق اعلانیہ ظاہر کر کے رسوا کیا جاتا ہے یا جنگ و جہاد کے وقت ان کی بزدلی اور تیرہ باطنی بے نقاب کر دی جاتی ہے مگر وہ ایسے بے حیا اور بد باطن واقع ہوئے ہیں کہ تازیانے کھا کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے نہ پچھلی خطاؤں سے توبہ کرتے ہیں نہ آئندہ کو نصیحت پکڑتے ہیں۔
۱۲۷ ۔۔۔ ۱: جس وقت وحی نازل ہوتی اور منافقین مجلس میں موجود ہوتے تو کلام الٰہی کا سننا ان پر بہت شاق گزرتا تھا خصوصاً وہ آیات جن میں ان کے عیوب کھولے جاتے تھے۔ اس وقت ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے اشارہ کرتے اور اِدھر ادھر دیکھتے کہ مجلس میں کسی مسلمان نے ہم کو پرکھا نہ ہو۔ پھر نظر بچا کر شتاب مجلس سے کھسک جاتے تھے۔
۲: یعنی مجلس نبوی سے کیا پھرے۔ خدا نے ان کے دلوں کو پھیر دیا کہ وہ اپنی جہل و حماقت سے ایمان و عرفان کی باتوں کو سمجھنا اور قبول کرنا نہیں چاہتے۔
۱۲۸ ۔۔۔ ۱: جس کے حسب و نسب، اخلاق و اطوار اور دیانت و امانت سے تم خوب واقف ہو۔
۲: جس چیز سے تم کو تکلیف یا سختی پہنچے وہ ان پر بہت بھاری ہے۔ ہر ممکن طریقہ سے آپ یہ ہی چاہتے ہیں کہ امت پر آسانی ہو اور دنیاوی و اخروی عذاب سے محفوظ رہے۔ اس لیے جو دین آپ لائے وہ بھی سہل اور نرم ہے۔ اور عمال کو آپ یہ ہی نصیحت فرماتے تھے۔ یَسِّرُوْا وَلَاتُعَسِّرُوْا" (آسانی کرو سختی مت کرو)
۳: یعنی تمہاری خیر خواہی اور نفع رسانی کی خاص تڑپ ان کے دل میں ہے۔ لوگ دوزخ کی طرف بھاگتے ہیں، آپ ان کی کمریں پکڑ پکڑ کر ادھر سے ہٹاتے ہیں۔ آپ کی بڑی کوشش اور آرزو یہ ہے کہ خدا کے بندے اصلی بھلائی اور حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوں۔ جہاد وغیرہ کا مقصد بھی خونریزی نہیں بلکہ بحالت مجبوری سخت آپریشن کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے فاسد و مسموم اعضاء کو کاٹ کر اور خراب جراثیم کو تباہ کر کے امت کے مزاج عمومی کو صحت و اعتدال پر رکھنا ہے۔
۴: جب آپ تمام جہان کے اس قدر خیر خواہ ہیں تو خاص ایمانداروں کے حال پر ظاہر ہے کس قدر شفیق و مہربان ہوں گے۔
۱۲۹ ۔۔۔ اگر آپ کی عظیم الشان شفقت، خیر خواہی اور دل سوزی کی لوگ قدر نہ کریں تو کچھ پروا نہیں۔ اگر فرض کیجئے ساری دنیا آپ سے منہ پھیر لے تو تنہا خدا آپ کو کافی ہے جس کے سوا نہ کسی کی بندگی ہے نہ کسی پر بھروسہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ زمین و آسمان کی سلطنت اور "عرش عظیم" (تخت شہنشاہی) کا مالک وہی ہے۔ سب نفع و ضرر، ہدایت و ضلالت اس کے ہاتھ میں ہے۔
فائدہ: ابوداؤد میں ابوالدرداء سے روایت کی ہے کہ جو شخص صبح و شام سات سات مرتبہ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلّٰا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِْ پڑھا کرے، خدا اس کے تمام ہموم و غموم کو کافی ہو جائے گا۔ باقی عرش کی عظمت کے متعلق اگر تفصیل دیکھنا ہو تو "روح المعانی" میں زیر آیت حاضرہ ملاحظہ کیجئے۔
تَمَّ سُوْرَۃُ الَّتوْبَۃِ بِفَضْلِ اللّٰہِ وُحُسْنِ تَوْفِیْقِہٖ اَللّٰہُمَّ تُبْ عَلَیَّ وَاجْعَلْ لِّیْ بَرَاءَ ۃً مِّنَ النَّارِ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔