۳ ۔۔۔ روایات صحیحہ میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام دیر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نہ آئے (یعنی وحی قرآنی بند رہی) مشرکین کہنے لگے کہ (لیجئے) محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کے رب نے رخصت کر دیا۔ اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں میرا گمان یہ ہے (واللہ اعلم) کہ یہ زمانہ فترت الوحی کا ہے جب سورہ "اقراء" کی ابتدائی آیات نازل ہونے کے بعد ایک طویل مدت تک وحی رکی رہی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم خود اس فترت کے زمانہ میں سخت مغموم و مضطرب رہتے تھے، تاآنکہ فرشتہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے "یا ایھا المدثر" کا خطاب سنایا۔ اغلب ہے کہ اس وقت مخالفوں نے اس طرح کی چہ میگوئیاں کی ہوں ۔ چنانچہ ابن کثیر رحمۃ اللہ عنہ نے محمد بن اسحاق وغیرہ سے جو الفاظ نقل کئے ہیں وہ اسی احتمال کی تائید کرتے ہیں ۔ ممکن ہے اسی دوران میں وہ قصہ بھی پیش آیا ہو جو بعض احادیث صحیحہ میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم بیماری کی وجہ سے دو تین رات نہ اٹھ سکے، تو ایک (خبیث) عورت کہنے لگی۔ اے محمد! معلوم ہوتا ہے تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا ہے (العیاذباللہ) غرض ان سب خرافات کا جواب سورہ "والضحی" میں دیا گیا ہے۔ پہلے قسم کھائی دھوپ چڑھتے وقت کی اور اندھیری رات کی۔ پھر فرمایا کہ (دشمنوں کے سب خیالات غلط ہیں ) نہ تیرا رب تجھ سے ناراض اور بیزار ہوا نہ تجھ کو رخصت کیا۔ بلکہ جس طرح ظاہر میں وہ اپنی قدرت و حکمت کے مختلف نشان ظاہر کرتا، اور دن کے پیچھے رات اور رات کے پیچھے دن کو لاتا ہے، یہی کیفیت باطنی حالات کی سمجھو۔ اگر سورج کی دھوپ کے بعد رات کی تاریکی کا آنا اللہ کی خفگی اور ناراضگی کی دلیل نہیں ، اور نہ اس کا ثبوت ہے کہ اس کے بعد دن کا اجالا کبھی نہ ہو گا۔ تو چند روز نورِ وحی کے رکے رہنے سے یہ کیونکر سمجھ لیا جائے کہ آجکل خدا اپنے منتخب کیے ہوئے پیغمبر سے خفا اور ناراض ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے وحی کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ ایسا کہنا تو خدا کے علمِ محیط اور حکمتِ بالغہ پر اعتراض کرنا ہے۔ گویا اسے خبر نہ تھی کہ جس کو میں نبی بنا رہا ہوں وہ آئندہ چل کر اس کا اہل ثابت نہ ہو گا؟ العیاذباللہ۔
۴ ۔۔۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پچھلی حالت پہلی حالت سے کہیں ارفع واعلیٰ ہے وحی کی یہ چند روزہ رکاوٹ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزول و انحطاط کا سبب نہیں بلکہ بیش از بیش عروج و ارتقاء کا ذریعہ ہے اور اگر پچھلی سے بھی پچھلی حالت کا تصور کیا جائے۔ یعنی آخرت کی شان و شکوہ کا، جبکہ آدم اور آدم کی ساری اولاد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جھنڈے تلے جمع ہو گی۔ تو وہاں کی بزرگی اور فضیلت تو یہاں کے اعزازو اکرام سے بے شمار درجہ بڑھ کر ہے۔
۵ ۔۔۔ یعنی ناراض اور بیزار ہو کر چھوڑ دینا کیسا، ابھی تو تیرا رب تجھ کو (دنیا و آخرت میں ) اس قدر دولتیں اور نعمتیں عطا فرمائے گا کہ تو پوری طرح مطمئن اور راضی ہو جائے۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ محمد راضی نہیں ہو گا جب تک اس کی امت کا ایک آدمی بھی دوزخ میں رہے
۶ ۔۔۔ ۰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والد وفات پا چکے تھے۔ چھ سال کی عمر تھی کہ والدہ نے رحلت کی۔ پھر آٹھ سال کی عمر میں تک اپنے دادا (عبدالمطلب) کی کفالت میں رہے۔ آخر اس دُرِ یتیم اور نادرہ روزگار کی ظاہری تربیت و پرورش کی سعادت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیحد شفیق چچا ابوطالب کے حصہ میں آئی۔ انہوں نے زندگی بھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نصرت و حمایت اور تکریم و تبجیل میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ ہجرت سے کچھ پہلے وہ بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔ چند روز بعد یہ امانت الٰہی اللہ کے حکم سے انصارِ مدینہ کے گھر پہنچ گئی۔ "اوس" اور "خزرج" کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ اور انہوں نے اس کی حفاظت اس طرح کی جس کی نظیر چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھی ہو گی۔ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ایواء کے تحت میں داخل ہیں ۔ کما اشار الیہ ابن کثیر رحمۃ اللّٰہ۔
۷ ۔۔۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم جوان ہوئے، قوم کے مشرکانہ اطوار اور بیہودہ رسم و راہ سے سخت بیزار تھے اور قلب میں خدائے واحد کی عبادت کا جذبہ پورے زور کے ساتھ موجزن تھا۔ عشقِ الٰہی کی آگ سینہ مبارک میں بڑی تیزی سے بھڑک رہی تھی۔ وصول الی اللہ اور ہدایتِ خلق کی اس اکمل ترین استعداد کا چشمہ جو تمام عالم سے بڑھ کر نفسِ قدسی میں ودیعت کیا گیا تھا۔ اندر ہی اندر جوش مارتا تھا، لیکن کوئی صاف کھلا ہوا راستہ اور مفصل راستہ اور مفصل دستور العمل بظاہر دکھائی نہ دیتا تھا جس سے اس عرش و کرسی سے زیادہ وسیع قلب کو تسکین ہوتی۔ اسی جوشِ طلب اور فرطِ محبت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بے قرار اور سرگرداں پھرتے اور غاروں اور پہاڑوں میں جا کر مالک کو یاد کرتے اور محبوبِ حقیقی کو پکارتے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے "غارِ حرا" میں فرشتہ کو وحی دے کر بھیجا اور وصول الی اللہ اور اصلاحِ خلق کی تفصیلی راہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کھول دیں ۔ یعنی دین حق نازل فرمایا۔ "ماکنت تدری ما الکتب ولا الایمان ولکن جعلنہ نورا نھدی بہ من نشاء من عبادنا۔ " (شوریٰ۔ رکوع ۵) (تنبیہ) یہاں "ضالا" کے معنی کرتے وقت سورہ "یوسف"کی آیت "قالو اتاللّٰہ انک لفی ضلالک القدیم" کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
۸ ۔۔۔ اس طرح کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تجارت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم مضارب ہو گئے۔ اس میں نفع ملا۔ پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نکاح کر لیا اور اپنا تمام مال حاضر کر دیا۔ یہ تو ظاہری غناء تھا۔ باقی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلبی اور باطنی غناء کا درجہ تو وہ غنی عن العالمین ہی جانتا ہے۔ کوئی بشر اس کا کیا اندازہ کر سکے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ابتداء سے موردِ انعامات رہے ہیں ۔ آئندہ بھی رہیں گے۔ جس پروردگار نے اس شان سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تربیت فرمائی۔ کیا وہ خفا ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یونہی درمیان میں چھوڑ دے گا۔ استغفر اللّٰہ!۔
۹ ۔۔۔ بلکہ اس کی خبر گیری اور دلجوئی کر۔ جس طرح تم کو یتیمی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ٹھکانا دیا۔ تم دوسرے یتیموں کا ٹھکانا دو۔ اسی طرح کے مکارم اخلاق اختیار کرنے سے بندہ اللہ کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ "صبغۃ اللّٰہ و من احسن من اللّٰہ صبغۃ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ "انا وکافل الیتیم کھاتین " "واشار الی السبابۃ والوسطی۔"
۱۰ ۔۔۔ یعنی تم نادار تھے، اللہ تعالیٰ نے غناء عطا فرمایا۔ اب شکر گزار بندے کا حوصلہ یہی ہونا چاہیے کہ مانگنے والوں سے تنگ دل نہ ہو اور حاجتمندوں کے سوال سے گھبرا کر جھڑکنے ڈانٹنے کا شیوہ اختیار نہ کرے۔ بلکہ فراخدلی اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ احادیث میں سائلین کے مقابلہ پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وسعتِ اخلاق کے جو قصے منقول ہیں وہ بڑے سے بڑے مخالف کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کا گرویدہ بنا دیتے ہیں (تنبیہ) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ سائل کے زجر کی ممانعت اس صورت میں ہے جب وہ نرمی سے مان جائے۔ ورنہ اگر اڑی لگا کر کھڑا ہو جائے اور کسی طرح نہ مانے اس وقت زجر جائز ہے۔
۱۱ ۔۔۔ محسن کے احسانات کا بہ نیت شکر گذاری (نہ بقصد فخر و مباہات) چرچا کرنا شرعاً محمود ہے۔ لہٰذا جو انعامات اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر فرمائے ان کو بیان کیجئے۔ خصوصاً وہ نعمتِ ہدایت جس کا ذکر "ووجدک ضالافھدی " میں ہوا۔ اس کا لوگوں میں پھیلانا اور کھول کھول کر بیان کرنا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرضِ منصبی ہے۔ شاید آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات وغیرہ کو جو حدیث کہا جاتا ہے۔ وہ اسی لفظ فحدث سے لیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔