۱ ۔۔۔ اہل کتاب یہود نصاریٰ ہوئے، اور مشرکین وہ قومیں جو بت پرستی یا آتش پرستی وغیرہ میں مبتلا تھیں اور کوئی کتاب سماوی ان کے ہاتھ میں نہ تھی۔
۲ ۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے سب دین والے بگڑ چکے تھے۔ اور ہر ایک اپنی غلطی پر مغرور تھا۔ اب چاہیے کسی حکیم یا ولی یا بادشاہ عادل کے سمجھانے سے راہ پر آ جائیں تو یہ ممکن نہ تھا جب تک ایک ایسا عظیم القدر رسول نہ آئے جس کے ساتھ اللہ کی پاک کتاب اس کی قوی مدد ہو کہ چند سال میں ایک ایک ملک کو ایمان کی روشنی سے بھر دے اور اپنی زبردست تعلیم اور ہمت و عزیمت سے دنیا کی کایا پلٹ کر دے۔ چنانچہ وہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم، اللہ کی کتاب پڑھتا ہوا آیا جو پاک ورقوں میں لکھی ہوئی ہے۔
۳ ۔۔۔ یعنی قرآن کی ہر سورت گویا ایک مستقل کتاب ہے۔ یا یہ مطلب ہو کہ جو عمدہ کتابیں پہلے آ چکی ہیں ان سب کے ضروری خلاصے اس کتاب میں درج کر دیے گئے ہیں یا "کتب قیمۃ" سے علوم و مضامین مراد ہیں ۔ یعنی اس کے علوم صحیح و راست اور مضامین نہایت مضبوط و متعدل ہیں ۔
۴ ۔۔۔ یعنی اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کتاب کے آئے پیچھے شبہ نہیں رہا۔ پھر اب اہلِ کتاب ضد سے مخالف ہیں ۔ شبہ سے نہیں ، اسی لئے ان میں دو فریق ہو گئے۔ جس نے ضد کی منکر رہا۔ جس نے انصاف کیا ایمان لے آیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جس پیغمبر آخرالزمان کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے آنے پر اپنے تمام اختلافات کو ختم کر کے سب وحدت و اجتماع کو خلاف و شقاق کا ذریعہ بنا لیا۔ جب اہلِ کتاب کا یہ حال ہے تو جاہل مشرکوں کا تو پوچھنا کیا (تنبیہ) حضرت شاہ عبدالعزیز نے یہاں "الینۃ" کا مصداق حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ٹھہرایا ہے۔ یعنی جب حضرت مسیح کھلے کھلے نشان لے کر آئے یہود دشمن ہو گئے۔ اور نصاریٰ نے بھی دنیاوی اغراض میں پھنس کر اپنی جماعتیں اور پارٹیاں بنا لیں ۔ مدعا یہ ہے کہ پیغمبر کا آنا اور کتاب کا نازل ہونا بھی بغیر حضرت حق کی توفیق کے کفایت نہیں کرتا۔ کتنے ہی سامانِ ہدایت جمع ہو جائیں جن کو توفیق نہیں ملتی وہ اسی طرح خسارے میں پڑے رہتے ہیں ۔
۵ ۔۔۔ ۱: یعنی ہر قسم کے باطل اور جھوٹ سے علیحدہ ہو کر خالص خدائے واحد کی بندگی کریں اور ابراہیم علیہ السلام حنیف کی طرح سب طرف سے ٹوٹ کر اسی ایک مالک کے غلام بن جائیں ۔ نشریع و تکوین کے کسی شعبہ میں کسی دوسرے کو خود مختار نہ سمجھیں ۔
۲: یعنی یہ چیزیں ہر دین میں پسندیدہ رہی ہیں ، انہی کی تفصیل یہ پیغمبر کرتا ہے۔ پھر خدا جانے ایسی پاکیزہ تعلیم سے کیوں وحشت کھاتے ہیں ۔
۶ ۔۔۔ یعنی علم کا دعویٰ رکھنے والے اہلِ کتاب ہوں ، یا جاہل مشرک، حق کا انکار کرنے پر سب کا انجام ایک ہے وہی دوزخ جس سے کبھی چھٹکارا نہیں ۔ یعنی بہائم سے بھی زیادہ ذلیل اور بدتر۔ کما قال فی سورۃ "الفرقان"" ان ھم الا کالانعام بل ھم اضل سبیلا۔"
۷ ۔۔۔ یعنی جو لوگ سب رسولوں اور کتابوں پر یقین لائے اور بھلے کاموں میں لگے رہے وہی بہترین، خلائق ہیں حتی کہ ان میں سے بعض افراد بعض فرشتوں سے آگے نکل جاتے ہیں ۔
۸ ۔۔۔ یعنی جنت کے باغوں اور نہروں سے بڑھ کر رضاء مولیٰ کی دولت ہے۔ بلکہ جنت کی تمام نعمتوں کی اصلی روح یہی ہے۔
یعنی یہ مقام بلند ہر ایک کو نہیں ملتا۔ صرف ان بندوں کا حصہ ہے جو اپنے رب کی ناراضی سے ڈرتے ہیں ۔ اور اس کی نافرمانی کے پاس نہیں جاتے۔