دعوۃ القرآن

سورة حٰمٓ السجدة / فُصّلَت

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

اس سورہ کا آغاز حٰم کے حروف سے ہوتا ہے اور آیت ۳۷ *میں اللہ ہی کو سجدہ کرنے کا حکم آیا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " حٰم السجدہ" ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

قرآن کا انکار کرنے والوں کو متنبہ کرنا اور اس پر ایمان لانے والوں کو خوشخبری دینا ہے۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۸ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرآن کی قدر پہچانو۔

 

آیت ۹ تا ۱۸ میں منکرین کو دعوتِ فکر دی گئی ہے اور وحی و رسالت کو جھٹلانے کے نتیجہ میں آنے والے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے۔ آیت ۱۹ تا ۲۵ میں اللہ کے دشمنوں کا وہ انجام بیان ہوا ہے جس سے وہ قیامت کے دن دو چار ہوں گے۔

 

آیت ۲۶ تا ۲۹ میں قرآن کے خلاف ہنگامہ برپا کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

 

آیت ۳۰ تا ۳۶ میں ان لوگوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جو کافروں کی اس ہنگامہ آرائی اور تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے۔ ساتھ ہی انہیں دعوت کی راہ میں مخالفین سے در گزر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

 

آیت ۳۷ تا ۴۰ میں اللہ کے واحد معبود ہونے اور مُردوں کے اٹھائے جانے پر قادر ہونے کی نشانیاں واضح کی گئی ہیں۔

 

آیت ۴۱  تا ۴۶ میں واضح کیا گیا ہے کہ قرآن کس شان کی کتاب ہے اور منکرین اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں اور اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے۔

 

آیت ۴۷ تا ۵۱ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں قرآن کے بارے میں منکرین کے شبہات کا ازالہ کرتے ہوئے پیشین گوئی کی گئی ہے کہ عنقریب اس کی صداقت کی نشانیاں آفاق و انفس میں ظاہر ہوں گی۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حا۔ میم ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رحمن و رحیم کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ ۲*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک ایسی کتاب جس کی آیتیں کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ ۳ *عربی قرآن۔ ۴ *ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔ ۵*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ خوشخبری دینے والی اور آگاہ کرنے والی۔ ۶ *مگر ان میں سے اکثر لوگوں نے منہ پھیرا اور وہ اس کو سنتے ہی نہیں۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمارے دل اس کی طرف سے پردہ میں ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ایک حجاب حائل ہے۔ تو تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ ۷*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو میں تو تمہاری ہی طرح ایک بشر ہوں۔ میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا اِلٰہ معبود۔ ایک ہی اِلٰہ ہے۔۸ *تو تم سیدھے اسی کا رخ کرو ۹ *اور اس سے معافی چاہو۔ ۱۰ * تباہی ہے مشرکین کے لیے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو زکوٰۃ نہیں دیتے ۱۱ *اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ ۱۲*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو کیا تم اس ہستی کا انکار کرتے ہو اور اس کے ہمسر ٹھہراتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی؟ وہی تو رب العالمین ہے۔ ۱۳*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے زمین میں اوپر سے پہاڑ گاڑ دئے اور اس میں برکتیں رکھیں اور غذائی سامان رکھا۔ ۱۴ *یہ چار دنوں میں ہوا۔۱۵ * (یہ نعمتیں) یکساں ہیں تمام طلب کرنے والوں کے لیے۔ ۱۶*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھوئیں کی شکل میں تھا۔ ۱۷ *اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا حکم کی تعمیل کرو رضامندی سے یا بغیر رضامندی کے۔ انہوں نے کہا ہم نے تعمیل کی رضامندی سے۔ ۱۸*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس نے سا ت آسمان بنا دئے دو دنوں میں ۱۹ *اور ہر آسمان میں اس کے احکام وحی کر دیئے۔ ۲۰ *ہم نے آسمانِ دنیا کو چراغوں سے زینت بخشی ۲۱ *اور اس کو محفوظ کر دیا۔ ۲۲ *یہ اس ہستی کی منصوبہ بندی ہے جو غالب اور نہایت علم والا ہے۔ ۲۳*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر یہ بے رخی برتتے ہیں تو ان سے کہو میں تمہیں اسی طرح کے عذاب سے ڈراتا ہوں جس طرح کا عذاب عاد اور ثمود پر ٹوٹ پڑا تھا۔ ۲۴*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ان کے رسول ان کے آگے اور پیچھے سے آئے ۲۵ *کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو تو انہوں نے کہا ہمارا رب چاہتا تو فرشتے نازل کرتا۔ لہٰذا ہم اس پیغام کو نہیں مانتے جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عاد کا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے زمین میں گھمنڈ کیا جس کا انہیں کوئی حق نہیں تھا اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زور آور؟انہوں نے یہ نہ سوچا کہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ زور آور ہے۔ ۲۶ *وہ ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر ہم نے ان پر منحوس دنوں ۲۷ *میں تند ہوا بھیجی ۲۸ *تاکہ انہیں دنیا کی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزا چکھائیں اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی زیادہ رسوا کن ہو گا اور وہ کوئی مدد نہ پاسکیں گے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔رہے ثمود تو ہم نے ان کو راہ دکھائی لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلہ میں اندھے پن کو پسند کیا۔ ۲۹ *تو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کو ذلت کے تباہ کن عذاب نے پکڑ لیا۔ ۳۰*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور اللہ سے ڈرتے تھے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن کہ جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کی طرف لے جانے کے لیے اکٹھا کیا جائے گا اور ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔ ۳۱*

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے ۳۲ *تو ان کے کان ، ا ن کی آنکھیں اور ان کی جلدیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ ۳۳*

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی جلدوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی؟ وہ کہیں گی ہمیں اسی اللہ نے گویا کر دیا جس نے ہر چیز کو گویا کیا ۳۴*___ اسی ۳۵ *نے توم کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور اب تم اسی کی طرف لوٹائے جا رہے ہو۔ ۳۶*

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم یہ اندیشہ رکھتے نہ تھے کہ تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری جلدیں تمہارے خلاف گواہی دیں گی بلکہ تم نے تو یہ گمان کیا تھا کہ اللہ بھی ان بہت سی باتوں کو نہیں جانتا جو تم کرتے ہو۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کے بارے میں تمہارا یہی گمان تھا جس نے تم کو ہلاکت میں ڈالا اور تم خسارہ میں پڑ گئے۔ ۳۷*

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر وہ صبر کریں تو جہنم ہی ان کا ٹھکانا ہے اور اگر وہ معافی مانگیں تو تو انہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ ۳۸*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم نے ان پر ایسے ساتھی مسلط کر دئیے تھے جو ان کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز ان کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے۔ ۳۸ الف *بالآخر ان پر بھی میرا وہ فرمان پورا ہو کر رہا جو ان سے پہلے گزرے ہوئے جنوں اور انسانوں کے گروہوں پر پورا ہوا تھا۔ ۳۹ *وہ تباہ ہو کر رہے۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں اس قرآن کو نہ سنو اور اس  (کی تلاوت) میں شور و غل مچاؤ تاکہ تم غالب رہو۔۴۰*

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے اور جو بدترین کام وہ کرتے رہے ہیں ان کا بدلہ ضرور انہیں دیں گے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کے دشمنوں ۴۱ *کا بدلہ ہے یعنی جہنم۔ اسی میں ان کے لیے ہمیشگی کا گھر ہو گا۔ یہ سزا ہے اس بات کی کہ وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے رہے۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کافر کہیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمیں ان جنوں اور انسانوں کو دکھا دے۔ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ ہم ان کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالیں گے تاکہ وہ نچلے بن کر رہیں۔ ۴۲*

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں  ۴۳نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر اس پر استقامت اختیار کی ۴۴ *یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا تھا۔ ۴۵

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی ہیں۔ ۴۲ *اس میں تمہارا دل جو چاہے گا وہ تمہیں ملے گا اور جو چیز بھی تم طلب کرو گے تمہیں ملے گی۔ ۴۷*

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سامانِ ضیافت ہے اس (ہستی) کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ ۴۸*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے ، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمین میں سے ہوں۔۴۹*

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہو سکتی۔ تم برائی کو اس طریقہ سے دور کرو جو سب سے بہتر ہو۔۵۰*اس صورت میں تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس شخص کے درمیان عداوت تھی وہ گویا گہرا دوست بن گیا ہے۔ ۵۱*

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس کی توفیق ان ہی لوگوں کو ملتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ (فہم) ان ہی کو حاصل ہوتا ہے جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں۔۵۲*

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر شیطان کی طرف سے تمہارے دل میں کوئی اکساہٹ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگو۔ وہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔ ۵۳*

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں۔ ۵۴ *نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ ۵۵*

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر یہ تکبر کرتے ہیں تو۔  (ان پر واضح رہے کہ) جو فرشتے اس کے حضور ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کبھی نہیں تھکتے۔۵۶*

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تم دیکھتے ہو زمین خشک پڑی ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ حرکت میں آ جاتی ہے اور پھول جاتی ہے۔بلاشبہ جس نے اس کو زندہ کیا وہ مُردوں کو بھی زندہ کرنے والا ہے۔ ۵۷ *یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ہماری آیتوں میں ٹیڑھ نکالتے ہیں ۵۸ *وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ ۵۹ *کیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں ڈالا جائے گا یا وہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا؟ جو چاہو کرو۔ ۶۰ *تم جو کچھ کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے یاد دہانی کا انکار کیا جب کہ ان کے پاس آئی وہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ ۶۱

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ باطل اس میں نہ اس کے سامنے سے داخل ہو سکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے۔۶۲ *یہ اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکمت والی اور خوبیوں والی ہے۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) تم سے وہی باتیں کہی جا رہی ہیں جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے کہی جاچکی ہیں۔ ۶۳ *بے شک تمہارا رب بڑا معاف کرنے والا بھی ہے اور درد ناک سزا دینے والا بھی۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم اس کو عجمی قرآن بنا کر اتارتے تو یہ لوگ کہتے کیوں نہ اس کی آیتیں کھول کر بیان کی گئیں ؟ کلام عجمی اور مخاطب عربی ! ۶۴ *کہو یہ ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفاء ہے۔ ۶۵ *اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بہراپن ہے اور وہ  (قرآن) ان کی آنکھوں کے لیے حجاب ہے۔ ۶۶ *(گویا) ان لوگوں کو دور کی جگہ سے پکارا جا رہا ہے۔ ۶۷*

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی تھی تو اس میں اختلاف کیا گیا۔۶۸ *اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا۔ ۶۹ *اور یہ لوگ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے انہیں الجھن میں ڈال دیا ہے۔ ۷۰*

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو نیک عمل کرے گا تو اپنے ہی لیے کرے گا اور جو برائی کرے گا تو اس کا وبال بھی اسی پر پڑے گا۔ ۷۱ *تمہارا رب بندوں پر ہرگز ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کی گھڑی کا علم اسی کی طرف لوٹتا ہے۔۷۲ *کوئی پھل اپنے غلاف (شگوفہ) سے باہر نہیں نکلتا اور نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی اور جنتی ہے مگر اس کے علم میں ہوتا ہے۔ ۷۳ *اور جس دن وہ ان کو پکارے گا کہ کہاں ہیں میرے شریک ؟ ۷۴ *وہ کہیں گے ہم عرض کر چکے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی اس کی گواہی دینے والا نہیں ہے۔ ۷۵*

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس سے پہلے جن کو پکارتے رہے ہیں وہ سب ان سے گم ہو جائیں گے ۷۶ *اور وہ جان لیں گے کہ ان کے لیے اب کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان بھلائی کی دعا مانگنے سے نہیں تھکتا اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس و دل شکستہ ہو جاتا ہے۔ ۷۷*

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچتی ہے ہم اسے اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میں تو اسی کا مستحق ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت قائم ہو گی اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹا یا ہی گیا تو میرے لیے اس کے پاس بھی خوشحالی ہی ہے۔ ۷۸ *تو ہم ان کافروں کو ضرور بتائیں گے کہ انہوں نے کیا اعمال کئے ہیں اور انہیں ہم لازماً سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو جب ہم نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے اور پہلو بچا کر چلتا ہے۔ اور جب تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ۷۹*

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کہو تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا تو اس شخص سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو مخالفت میں دور تک نکل گیا ہو۔ ۸۰*

 

۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق اطرافِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس  ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ حق ہے۔ ۸۱ *کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تمہارا رب ہر چیز کا شاہد ہے۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ سنو! یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیشی کے بارے میں شک میں ہیں۔ سن لو! وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ۸۲*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حروف کی تشریح سورۂ مومن نوٹ ۱ *میں گزر چکی۔

 

اس سورہ میں اللہ کے حکیم ہونے کی صفت آیت ۴۲ *میں بیان ہوئی ہے جس کی طرف یہ حروف اشارہ کرتے ہیں۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ جس کے ساے ۂ رحمت میں انسان پرورش پا رہا ہے اور جو اپنے مخلص بندوں کو رحمتِ خاص سے نوازتا ہے کی رحمت اس کتاب کے نزول کا باعث ہوئی ہے۔ اس لیے یہ کتاب سراسر رحمت ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ہود نوٹ ۳۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کے مخاطب اول عرب تھے اس لیے قرآن عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ دوسری قوموں کے لیے قرآن بالواسطہ حجت ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ عربی میں ہونے کی وجہ سے صرف عربوں پر حجت قائم ہوتی ہے اور دوسروں پر نہیں۔ قیصر و کسرے ٰ کی زبان عربی نہیں تھی مگر ان پر قرآن کے ذریعہ بالواسطہ طور پر حجت قائم کی گئی اور اس زمانہ میں امتِ مسلمہ کے ذریعہ دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت ہو رہی ہے لہٰذا کسی کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں ہے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لیے غیر عربی داں لوگوں کے لیے کس طرح حجت ہو سکتا ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کتاب سے علماء اور فضلاء ہی استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور مذہب کے معاملہ میں جہالت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ علم کو بنیاد بناتے ہیں یہ کتاب ان پر ہدایت کی راہ کھول دیتی ہے اور وہ اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کتاب ایمان لانے اور راہِ ہدایت پر چلنے والوں کو جاودانی کامیابی کی خوشخبری دیتی ہے اور اس کو ماننے سے انکار کرنے والوں کو دائمی عذاب سے آگاہ کرتی ہے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں کا یہ جواب ان کی ڈھٹائی اور تکبر کو ظاہر کرتا ہے۔اور آدمی جب دعوت قرآنی کے مقابلہ میں یہ رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے سننے سمجھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم نہیں مانتے تو نہ مانو مگر میرا موقف تم پر واضح رہے کہ نہ میں نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے اور نہ فرشتہ ہونے کا۔ میں تمہاری ہی طرح گوشت پوست کا انسان ہوں البتہ اللہ نے جو امتیاز مجھے بخشا ہے وہ یہ ہے کہ مجھ پر اس کی وحی نازل ہوتی ہے تاکہ میں اس کا پیغام تمہیں پہنچاؤں اور اس پیغام کا اولین نکتہ یہ ہے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور وہی تمہارا معبود یعنی عبادت کا مستحق ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اخلاص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو، اس کے تابع فرمان بن کر رہو، اسی سے امیدیں وابستہ کرو اور اسی کی رضا کے طالب بنو۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اب تک جو غلط طرزِ عمل تمہارا رہا ہے اور جن گناہوں کا تم ارتکاب کرتے رہے ہو اس پر اللہ سے معافی کے خواستگار ہو جاؤ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مشرکین کا ایک بہت بڑا جرم یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے جو اسلام کا نہایت اہم رکن ہے اور پچھلی شریعتوں میں بھی اس کی حیثیت ایک اہم فریضہ کی رہی ہے۔ حضرت اسمعٰیل نے بھی جن کی نسل سے عرب ہیں زکوٰۃ کی ادائیگی کا تاکیدی حکم دیا تھا ( دیکھئے سورہ مریم آیت ۵۵)۔

 

واضح رہے کہ شریعت کے مکلف سب ہی لوگ ہیں یعنی احکام الٰہی کی پابندی جس طرح اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اسی طرح مشرکوں اور کافروں پر بھی۔ البتہ کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے مومن ہونا شرط ہے۔ ایمان کے بغیر بڑے سے بڑا نیک عمل بھی اللہ کے ہاں بے وزن ہے لیکن مشرکوں اور کافروں کے شرعی احکام کی خلاف ورزی کرنے کی بنا پر ان کے جرم میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ شدید سے شدید تر عذاب کے مستحق ہو جائے ہیں۔ زکوٰۃ اسی طرح عبادت کی ایک شکل ہے جس طرح کہ قربانی نیز یہ محتاجوں اور مسکینوں کا حق بھی ہے جو اللہ نے اموال میں مقرر کیا ہے۔ یہ حق پچھلی شریعتوں میں بھی معروف اور متعین رہا ہے اور مکہ کے ابتدائی دور میں جو شرعی احکام دیئے گئے ان میں بھی زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید اس صراحت کے ساتھ کی گئی تھی کہ یہ ایک متعین حق ہے۔

 

وَ الَّذِیْنَ فِی اَمْوَالِہِمْ حَقٌ مَعْلُومٌ لِسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (معارج۔۲۴،۲۵) " جن کے اموال میں حق مقرر ہے مانگنے والوں کا بھی اور جو محروم ہیں ان کا بھی۔"

 

میں بعد جب مدینہ میں زکوٰۃ کا باقاعدہ نظام قائم کرنے کا موقع آیا تو تفصیلی احکام دیئے گئے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے اجر کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہو گا بلکہ انہیں ہمیشہ ملتا رہے گا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ دن سے مراد وقت کی وہ مقدار ہے جو اللہ ہی کے علم میں ہے مزید تشریح کے لیے (دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۸۲) زمین کو دو دن میں پیدا کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ زمین کی تخلیق دو دور میں ہوئی۔ ممکن ہے ایک دور اس کے مادہ کی تخلیق اور اس کے عناصر کی ترکیب میں گزرا ہوا اور دوسرا دور اس کے پرت بننے اور ایک خاص ہیئت اختیار کرنے میں۔ بہر صورت یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ زمین نہ ازلی ہے کہ ہمیشہ سے خود بخود چلی ا رہی ہو اور نہ اتفاقاً وجود میں آئی ہے بلکہ وجود میں لانے سے وہ وجود میں آئی ہے اور اس کو وجود میں لانے والی ہستی اللہ رب العالمین ہی کی ہے جس نے ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت اس کو پیدا فرمایا ہے۔ دو دور میں اس کو پیدا کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ نہایت حکیمانہ منصوبہ تھا جس کے نتیجہ میں زمین کا مادہ بتدریج ارتقائی شکل اختیار کرتا چلا گیا یہاں تک کہ اس نے کرۂ ارضی کی شکل اختیار کر لی۔ تو جس ہستی کی یہ کارفرمائی ہے اس کو خدائے واحد ماننے سے انکار کرنا اور دوسروں کو اس کے برابری کا ٹھہرانا جب کہ ان کا اس کائنات کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں کیسی نادانی کی بات ہے اور کتنی بڑی ظالمانہ حرکت ہے !

 

اس موقع پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن نہ ارضیات Geology کی کتاب ہے اور نہ فلکیاتAstronomy کی اور نہ ہی طبیعی علوم Physical Sciences کی بلکہ وہ کتاب ہدایت ہے اور ہدایت کے لیے جس حد تک جس علم کی ضرورت تھی قرآن نے اس کو پورا کر دیا ہے۔ کائنات کے آغاز کا مسئلہ ہو یا انجام کا قرآن نے اسی پہلو سے روشنی ڈالی ہے اس لیے متعلقہ آیات کا مطالعہ اسی پہلو سے کرنا چاہیے۔ مگر موجودہ دور میں وہ اصحابِ فکر جو جدید علوم اور سائنسی اکتشافات سے مرعوب ہیں سائنسی نظریات کی تائید میں قرآن کی آیات کو پیش کرنے لگتے ہیں خواہ اس میں ان کو کتنی ہی کھینچ تان کرنا پڑے۔ پھر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ کسی بھی آیت کے ذیل میں معلومات کا ڈھیر لگانے سے قرآن کا مطالعہ کرنے والوں کو نظر سے ہدایت اور تذکیر کا پہلو اوجھل ہو جاتا ہے اور ذہن معلومات ہی میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ مادی علوم کے غلبہ کے اس دور میں قرآن کی دعوت پیش کرنے والوں کے لیے تو اس معاملہ میں اختیار برتنا از بس ضروری ہے۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکتیں رکھی ہیں کہ انسان کی تمام تمدنی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔ زمین کے اندر مختلف دھاتوں وغیرہ کے ایسے ذخیرے پائے جاتے ہیں جن کو انسان برسہا برس سے نکالے جا رہا ہے اور وہ کبھی ختم نہیں ہوتے انسانی زندگی کا جن چیزوں پر مدار ہے وہ چیزیں زمین وافر مقدار میں مہیا کرتی ہیں۔ چنانچہ پانی کے چشمے ہر طرف رواں ہیں اور انواع و اقسام کی غذائی اجناس زمین مسلسل اگلتی چلی جا رہی ہے۔ ایک دانہ ڈالو تو زمین سینکڑوں دانے واپس کرتی ہے۔ ایک پودا لگاؤ تو زمین تناور درخت کھڑا کر دیتی ہے اور پھلوں کی شکل میں اپنا تحفہ پیش کرنے لگتی ہے۔ انسانی زندگی کی معیشت کا یہ سامان اور خیر کے یہ خزانے زمین میں کس نے ودیعت کئے ہیں ؟ یہ اصل سوال ہے انسان کے سوچنے کا اور اس کے صحیح جواب ہی پر انسان کے ہدایت پانے کا انحصار ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دو دن میں زمین کی تخلیق ہوئی اور دو دن میں پہاڑ کھڑے کئے جانے اور زمین میں غذائی چیزیں پیدا کرنے کی صلاحیت ودیعت کرنے کا کام انجام پایا۔ اس طرح چار دن یعنی چار دور میں زمین کی تخلیق مکمل ہوئی۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین کی یہ نعمتیں کسی مخصوص انسانی گروہ کے لیے وجود میں نہیں لائی گئی ہیں بلکہ ان کی افادیت عام ہے۔ یہ انسان کی فطرت کی مانگوں کو پورا کرنے کے لیے ہے۔ ہوا، پانی اور ہر قسم کی زمینی پیداوار تمام انسانوں کے لیے سامانِ معیشت ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اس سے ہر شخص فائدہ اٹھاتا ہے مگر جس ہستی نے انسان کی طلب کو پورا کرنے کا سامان کیا ہے اس کو عام طور سے لوگ بھول جاتے ہیں۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان اور زمین کا مادہ تو ایک ساتھ ہی پیدا کر دیا گیا تھا جیسا کہ سورۂ انبیاء کی آیت ۳۰ سے واضح ہے لیکن زمین کی تشکیل پہلے کی گئی اور آسمان کی بعد میں۔ جب زمین کی تشکیل ہوئی تو آسمان ایک دھوئیں  ( دخان) کی شکل میں موجود تھا۔ دھوئیں سے گرم گیسHot Gases کی طرف ذہن منتقل ہوتا ہے۔ ممکن ہے یہ اسی کی تعبیر ہو۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین اور آسمان اگرچہ جمادات ہیں مگر جمادات کے بارے میں یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ وہ شعور سے بالکل ہی عاری ہیں۔ ہم ان کے شعور کی کیفیت کو نہیں جانتے لیکن قرآن نے اس کائنات کے جن اسرار و رموز پر سے پردہ اٹھایا ہے ان سے ہمارے علم میں یہ اضافہ ہو گیا کہ کائنات کی ہر چیز اپنے خالق کو جو اس کا رب بھی ہے پہچانتی ہے ، اس کا حکم سنتی اور اس کی تعمیل کرتی ہے اور اس کی تسبیح اور حمد کرنے میں زمزمہ سنج ہے۔ اس آیت سے مزید یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آسمان و زمین اللہ کے احکام کی تعمیل مجبوری کے درجہ میں ناگواری کے ساتھ نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس پر رضامند ہیں۔ اس سے یہ اشارہ خود بخود نکلتا ہے کہ انسان کو اپنے رب کی اطاعت رضا و رغبت کرنی چاہیے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری نگاہ کی رسائی آسمانِ دنیا تک ہی ہے لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ کائنات اسی حد تک محدود ہے۔ قرآن صراحت کرتا ہے کہ آسمان کے اوپر اور آسمان بھی ہیں۔ آسمان کا جو ابتدائی مادہ تخلیق کیا گیا تھا اس سے سات آسمان اس نے استوار کئے۔ ان سات آسمانوں میں کیا کچھ ہے اللہ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ اس دنیا کی آسمانی فضا میں لا تعداد اجرامِ سماوی کا وجود مشاہدہ میں آنے والی چیز ہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے جن قوانین کی انہیں پابندی کرنا ہے اور جو کام اس کی ہدایت کے مطابق انجام دینا ہیں ان کا الہام ان پر کر دیا گیا۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تارے آسمان کا پر جمال منظر پیش کرتے ہیں اور مشاہدہ کرنے والوں کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ کیسے کمالات سے متصف ہے وہ ہستی جس نے اتنی حسین و جمیل بزم آراستہ کی۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارے ایک تو اس پہلو سے آسمان کی حفاظت کا ذریعہ ہیں کہ ان سے نکلنے والے تیز شعلے  (شہاب ثاقب) شیاطین کی آسمان میں پرواز کو روک دیتے ہیں  (دیکھئے سورہ حجر آیت ۱۸ نوٹ ۱۶) اور کچھ دوسرے پہلوؤں سے بھی جو ہمارے علم میں نہیں۔ ممکن ہے ستاروں کے جذب و انجذاب (کشش) کے قانون کے ذریعہ آسمان کی حفاظت کا سامان کر دیا گیا ہو۔ والعلم عنداللہ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کائنات کسی منصوبہ کے بغیر نہ وجود میں آئی ہے اور نہ چل رہی ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک زبردست قدرت رکھنے والی اور نہایت علم رکھنے والی ہستی کا منصوبہ کارفرما ہے۔ یہ منصوبہ ایک حکیمانہ اسکیم اور ایک با مقصد نظام ہے جس کی ایک غایت ہے۔ اس منصوبہ کو وحی کی روشنی ہی میں سمجھا جاسکتا ہے اور وہ ہے قرآن۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ مشرکین ان حقیقتوں کو قبول نہیں کرتے اور توحید کو ماننے سے انکار کرتے ہیں تو انہیں عذاب سے آگاہ کر دو۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ رسولوں کے آگے اور پیچھے سے آنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوموں کے سامنے دعوتِ حق ہر جہت سے پیش کی اور ان کو سمجھانے کی ہر طرح کوشش کی۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مادی وسائل کی فراوانی اور اپنی تمدنی ترقی کا غرہ انہیں ایسا رہا کہ وہ اللہ کو بھی بھول گئے۔ اگر وہ یہ سمجھتے کہ ہمارے اوپر ایک زبردست طاقت رکھنے والی ہستی موجود ہے تو اللہ سے ڈرتے اور گھمنڈ میں مبتلا نہ ہوتے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ منحوس دنوں سے مراد وہ دن ہیں جب کہ ان کے کفر کی پاداش میں ان کی شامت آئی اور وہ تباہ ہو گئے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ دن بجائے خود منحوس تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو اہلِ ایمان کو بھی یہ نحوست لگ جاتی مگر وہ بالکل محفوظ رہے۔ دنوں کے بجائے خود منحوس ہونے کا خیال محض وہمی ہے اور اسلام میں کوئی دن بھی بجائے خود نحس نہیں ہے البتہ جس دن کسی کی شامت اس کے برے اعمال کے نتیجہ میں آئے وہ دن اس کے لیے اس اعتبار سے منحوس قرار پائے گا کہ اسے بر ا انجام دیکھنا پڑا۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نہایت تیز ہوا جس نے سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ثمود پر ہدایت کی راہ واضح کر دی تھی لیکن انہوں نے اس کو اختیار نہیں کیا بلکہ اس کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اس طرح وہ اندھے بن کر بھٹکتے رہے۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ قومِ ثمود پر جو عذاب آیا اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورہ اعراف نوٹ ۱۲۳ ، ۱۲۴

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے جرائم کے اعتبار سے ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم کے قریب پہنچ جائیں گے۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ اور کان گواہی دیں گے کہ ان کو گناہ کے کن کاموں میں استعمال کیا گیا تھا۔ اللہ کی نشانیاں دیکھنے سے آنکھوں کو اور نصیحت کی باتیں سننے سے کانوں کو بند کر لینا سب سے بڑا جرم ہے۔ پھر بھی جن چیزوں کا دیکھنا حرام ہے ان کو دیکھنا اور جن چیزوں کا سننا حرام ہے ان کو سننا کھلی معصیت ہے۔ لہٰذا جن گناہوں کا ارتکاب آنکھوں اور کانوں کے ذریعہ کیا گیا تھا وہ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں گے اتنا ہی نہیں بلکہ جسم کا رُواں رُواں گواہی دے گا کہ اس کو کس طرح کفر و معصیت کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

 

معلوم ہوا کہ انسان کے بدن کی جلد(کھال) بڑی حساس ہوتی ہے۔ گویا کہ وہ ٹیپ ہے جو اس کی اس حرکت کو ریکارڈ کر لیتا ہے اور قیامت کے دن یہ ٹیپ اپنا ریکارڈ سنائے گا۔مزید تشریح کے لیے (دیکھئے سورۂ یسٰین نوٹ ۷۰)۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن یہ حقیقت بھی بے نقاب ہو گی کہ دنیا میں جو چیزیں بولتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیں وہ گویائی سے بالکل محروم نہیں ہیں۔ اس روز ہر چیز ناطق ہو گی۔ زمین اپنے واقعات سنائے گی (سورۂ زلزال) اور انسان کے اعضاء و جوارح بھی بول اٹھیں گے تاکہ انسان کے اعمال کے بارے میں شہادتیں بدرجۂ اتم ادا ہوں۔

 

موجودہ دور کے انسان کے لیے تو یہ تصور کہ اس کی جلد (کھال) بول اٹھے گی اور اس کے جرائم کی شہادت دے گی کچھ بھی عجیب نہیں ہے کیونکہ آج ویڈیو کیسٹ کے ذریعہ وہ کسی بھی واقعہ کی بولتی فلم تیار کر لیتا ہے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے پھر اللہ تعالیٰ کا اپنا بیان شروع ہو جاتا ہے۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں اس بات سے انکار تھا کہ تمہاری واپسی اللہ کے حضور ہو گی مگر اب تم دیکھ رہے ہو کہ جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا اسی کی طرف تم لوٹ کر آ گئے ہو۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ گناہ کرتے ہوئے یہ خیال کرنا کہ یہ اللہ کی نظروں سے پوشیدہ رہے گا سراسر کفر ہے۔ کوئی گناہ نہ اللہ کی نظر سے پوشیدہ رہ سکتا ہے نہ وہ اس سے بے خبر ہوتا ہے۔ مگر جب آدمی گناہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے کہ اللہ کی نظر سے یہ پوشیدہ رہے گا۔ پھر جب یہ خیال دل میں جم جاتا ہے تو وہ گناہ پر گناہ کئے چلا جاتا ہے اور بالآخر وہ ہلاکت کے گڑھے میں جا گرتا ہے۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اب جہنم میں بہر حال انہیں رہنا ہے چاہے وہ برداشت کریں یا نہ کریں۔ ان کے لیے معافی کا کوئی موقع باقی نہیں رہا۔

 

۳۸ الف۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد برے ساتھی ہیں۔ انسان جب عقل و شعور سے کام نہیں لیتا اور خواہشات کے پیچھے چل پڑتا ہے تو شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے اور گمراہ لوگ اس کے ہم نشین ،رفیق اور مشیر بن جاتے ہیں اور اس کے ذہن کو ایسامتاثر کرتے ہیں کہ باطل عقائد و نظریات اور برے اخلاق و اعمال اس کے لیے پر کشش بن جاتے ہیں۔

 

آگے اور پیچھے کی ہر چیز کو خوشنما بنا کر دکھانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ برے ساتھی اپنی دلفریب باتوں سے مستقبل کو بھی روشن کر کے دکھاتے ہیں اور ماضی کی گمراہیوں کو بھی اچھے نمونہIdeal کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ آج بھی کتنی ہی قومیں اپنے قدیم کلچر پر فخر کرتی ہیں حالانکہ ان کا کلچر جہالت، بے حیائی اور وہم پرستی کی بدترین مثال ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنی مادی ترقی میں اپنے شاندار مستقبل کو دیکھ لیتی ہیں مگر اس کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ: لَأمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنکَ وَ مِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِینَ (ص:۸۵) " میں تجھ سے  (یعنی ابلیس سے ) اور جوا ن میں سے تیری پیروی کریں گے ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔"

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں نے جب دیکھا کہ قرآن دلوں کو مسخر کرتا چلا جا رہا ہے اور کوئی دلیل ایسی نہیں جو اس کے مقابلہ میں ٹک سکے تو وہ ہنگامہ آرائی پر اتر آئے۔ ان کے لیڈروں نے عوام سے کہا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنو مت اور خوب شور مچاؤ تاکہ تم اس آواز کو دباسکو۔ مگر وہ حق تھا اس کو جتنی دبانے کی کوشش کی گئی اتنا ہی وہ ابھرتا چلا گیا اور آج دنیا بھر میں اس کو اس کثرت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ قرآن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا تاکہ وہ عام لوگوں تک نہ پہنچے یا وہ اس سے فائدہ نہ اٹھاسکیں ان ہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کے دشمن ہوتے ہیں۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر جب جہنم میں داخل ہوں گے تو انہیں احساس ہو گا کہ گمراہ جنوں نے نیز ہمارے پیشواؤں اور لیڈروں نے ہماری بہت غلط رہنمائی کی تھی۔ ان کے گمراہ کرنے سے ہم گمراہ ہوئے۔ اس لیے وہ ان کے خلاف سخت غصہ کا اظہار کریں گے اور اپنے رب سے درخواست کریں گے کہ ان گمراہ کرنے والوں کو ہمیں دکھا دے تاکہ ہم انہیں جہنم میں پیروں تلے روند ڈالیں اور ذلیل کر کے رکھ دیں۔

 

دنیا میں کافر اپنے گمراہ پیشواؤں اور لیڈروں سے بڑی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلتے ہیں مگر دوزخ میں پہنچنے کے بعد وہ ان پر لعنت بھیجیں گے اور ان کو کچل دینا چاہیں گے۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں کا حال اوپر بیان ہوا ہے اب مخلص مومنوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کو اپنا رب کہنے کا مطلب اس حقیقت کو تسلیم کر لینا ہے کہ اللہ ہی میرا خالق ، پروردگار، مالک، آقا، معبود، حاکم اور ہادی ہے۔ جو شخص پورے شعور کے ساتھ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے وہ لازماً اپنی اس حیثیت کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ میں اس کی مخلوق، اس کا پروردہ، اس کی مملوک اور اس کا بندہ ہوں۔ میرا کام اس کی عبادت کرنا اس کے احکام کی اطاعت کرنا اور اس کی ہدایت کی پیروی کرنا ہے۔

 

اور اس بات پر استقامت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مرتے دم تک وہ اس پر قائم رہے اور اپنی عملی زندگی میں راست روی اختیار کرے۔ آگے کے مضمون میں جنت کی جو بشارت دی گئی ہے وہ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے۔ قرآن نے جا بجا جنت کی بشارت ان لوگوں کو دی ہے جو ایمان لائیں اور عمل صالح کریں۔ اس آیت میں بھی " جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے" سے ایمان اور " اس پر استقامت اختیار کی" سے عمل صالح ہی مراد ہے مگر موقع و محل کے لحاظ سے ان کے خاص پہلوؤں پر زور دیا گیا ہے۔ حدیث میں بھی یہ جو فرمایا گیا ہے کہ مامِن عبد قال لا الٰہ الا اللّٰہ ثم ماتَ علی ذٰلک اِلاَّ دخل الجنۃ  جو بندہ بھی لا الہ الا اللہ کہتا ہے اور اس کی موت اسی پر ہوتی ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (مسلم کتاب الایمان) تو وہ بھی اسی مفہوم میں ہے اور اپنے تمام تقاضوں کو لئے ہوئے ہے۔ مگر جو لوگ رسمی دینداری کے قائل ہوتے ہیں وہ زبانی جمع خرچ کو کافی خیال کر لیتے ہیں اور اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ ان کے اعمال کیسے ہی ہوں محض کلمہ پڑھ لینے سے انہیں جنت مل جائے گی اور دوزخ سے بالکل محفوظ رہیں گے۔

 

امام رازی اپنی تفسیر میں اِنَّ الَّذِینَ قالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ  (جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے ) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 

"اس سے مراد محض زبان سے کہنا نہیں ہے کیونکہ پھر استقامت کے کوئی معنی نہیں نکلتے لیکن جب ان کے اس قول کے بعد ان کی استقامت کا ذکر ہوا تو اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ قول( یعنی ہمارا رب اللہ ہے کہنا) پورے یقین اور حقیقی معرفت کے ساتھ ادا کرنے کے مفہوم میں ہے۔" (تفسیر کبیر ج ۲۷ ، ص ۱۲۱)

 

امام رازی نے آگے یہ بھی صراحت کی ہے کہ صحابہ و تابعین کی ایک بڑی تعداد نے استقامت کو اعمالِ صالحہ پر محمول کیا ہے۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتوں کا جنت کی بشارت دینے کے لیے نزول ان اہل ایمان ہی پر ہو سکتا ہے جنہوں نے مرتے دم تک استقامت اختیار کی۔ دنیا میں زندگی بھر انسان کا امتحان ہوتا رہتا ہے اور اس میں کامیابی اور ناکامی کے نتائج اسی وقت نکلنا شروع ہوتے ہیں جب کہ امتحان کی گھڑی ختم ہو جاتی ہے اس لیے جب صالح مومنوں کی روح کو قبض۔ کرنے کے لیے فرشتے نمودار ہوتے ہیں تو وہ جنت کی بشارت بھی سناتے ہیں۔

 

موت کے فرشتوں کو دیکھ کر انسان پر سخت خوف اور دہشت طاری ہوتی ہو گی لیکن صالح مومنوں کو فرشتے اسی لمحے مطمئن کر دیتے ہیں کہ تمہارے لیے خوف کا کوئی موقع نہیں کہ تمہارا مستقبل نہایت شاندار ہے اور دنیا کے چھوٹ جانے کا غم بھی تمہیں لاحق نہیں ہو سکتا کہ تم منزلِ مقصود کو پہنچ رہے ہو۔ خوش ہو جاؤ کہ ہم تمہارے لیے جنت کا مژدۂ جانفزا لیکر آئے ہیں۔

 

اس آیت میں موت کے وقت کی جو جھلک دکھائی گئی ہے وہ اہلِ ایمان کے لیے بڑی ہی روح پرور ہے !

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ صالح مومنوں کی روح قبض کرتے ہوئے فرشتے اپنا تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے دوست تھے یہ اور بات ہے کہ تم ہمیں دیکھ نہ سکتے تھے اور آخرت میں بھی تمہارے دوست ہیں لہٰذا تمہارے لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اطمینان رکھو کہ تم اپنے دوستوں کے درمیان ہی ہو۔

 

دنیا میں مومنین صالحین کے دوست فرشتے ہوتے ہیں جب کہ کافروں اور فاسقوں کے دوست شیطان ہوتے ہیں۔

 

فرشتوں کی صالح مومنوں کے ساتھ دوستی بڑی خیر و برکت کا باعث ہوتی ہے۔ وہ ان کے لیے دعائے رحمت تو کرتے ہی ہیں۔علاوہ ازیں نازک لمحات میں خاص طور سے حق و باطل کی کشمکش کے موقع پر جب کہ قدموں کے ڈگمگا جانے کا خطرہ ہوتا ہے اللہ کے اذن سے وہ ان کی ڈھارس بندھانے کا کام کرتے ہیں تاکہ وہ ثابت قدم رہیں۔ (دیکھئے سورۂ انفال آیت ۱۲ ،نوٹ ۱۹) اور حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص قضائے شرعی کے عہدے پر اس کی طلب کے بغیر مامور کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو بھیج دیتا ہے جو اسے راہ صواب (صحیح راہ) دکھاتا ہے۔ ترمذی ابواب الاحکام اور حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ کا ذکر کرنے والوں کے گرد فرشتے جمع ہو جاتے ہیں (ترمذی ابواب الدعوات)۔

 

اور آخرت میں فرشتے اہل ایمان کا سلام سے خیر مقدم کریں گے ان سے بالمشافہ گفتگو کریں گے اور جنت میں ان کی رفاقت ان کو حاصل ہو گی۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کی اس نمایاں خصوصیت سے اس کی شان کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ گوہر مقصودجس کو حاصل ہوا اس کی تمام خواہشیں پوری ہو گئیں ، اس کی ہر امید بر آئی اور ہر آرزو پوری ہوئی۔ انسان میں فطری طور سے یہ داعیہ پایا جاتا ہے کہ جو چیز وہ چاہتا ہے وہ اسے ملے اور اس کی آرزوئیں پوری ہوں مگر دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں جس کی ہر خواہش اور ہر تمنا پوری ہوتی ہو۔ اگر آدمی کے پاس دولت کا ڈھیر لگا ہوا ہو یا کسی بڑی سلطنت کا مالک ہو تب بھی اس کو وہ سب کچھ نہیں ملتا جو وہ چاہتا ہے۔ کبھی اسے بیماری پریشان کرتی ہے تو کبھی کسی عزیز کے مرنے کا غم اور کبھی جنگ کا خطرہ۔ معلوم ہوا کہ یہ دنیا ہرگز وہ مقام نہیں ہے جہاں انسان کی ہر خواہش اور ہر آرزو پوری ہو سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ دنیا ہی جنت بن جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس داعیہ کے پورا کرنے کا سامان آخرت میں کیا ہے یعنی جنت جہاں اس کی یہ فطری طلب بدرجۂ اتم پوری ہو گی۔

 

انسان کا یہ فطری داعیہ کہ اس کی تمام خواہشیں پوری ہوں جنت کی طلب اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن جس جنت کا وعدہ اہل ایمان سے کرتا ہے اس کی طلب انسان کی فطرت میں موجود ہے لہٰذا منکرین کا جنت کے بارے میں یہ پھبتی چست کرنا کہ دل کے بہلانے کے لیے یہ خیال اچھا ہے سرار جہالت ہے۔ اگر وہ اپنی فطرت کی مانگ پر غور کرے اور جنت کو قرآن کی روشنی میں دیکھے تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔

 

واضح رہے کہ جنت میں جانے والے لوگ نیک صفت اور پاکیزہ خیالات رکھنے والے ہوں گے اس لیے بری خواہش،نا مناسب طلب اور لغو باتوں کا وہاں کوئی وجود ہی نہیں ہو گا۔ پھر وہاں محض لذتِ دہن کا سامان نہیں ہو گا بلکہ اس کے ساتھ جو چیز بھی وہاں طلب کی جائے گی وہ مہیا ہو جائے گی اس لیے وہاں روحانی غذا کا بھی بھر پور سامان ہو گا۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل ایمان کو جنت کی یہ نعمتیں اس اعزاز و ا کرام کے ساتھ پیش کی جائیں گی کہ وہ گویا شاہی مہمان ہیں جن کی ضیافت کے لیے جنت کا دستر خوان بچھا دیا گیا ہے اور یہ جنت اللہ کی صفتِ مغفرت و رحمت کا مظہر ہو گی۔

 

جنت کے اس تصور میں جو روحانی حلاوت اور جو کیف و سرور ہے اس کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو ایمان کی لذت سے آشنا ہیں۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان ہی لوگوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جنہوں نے ایمان لا کر استقامت اختیار کی کہ وہ حق و باطل کی کشمکش سے گھبراتے نہیں بلکہ کھلے بندوں اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں خود نیک عمل کرتے ہیں اور اپنے (مسلم مسلمان) ہونے کا اظہار کرتے ہیں۔

 

دنیا میں بہ کثرت لوگ اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی طرف دوسروں کو بلاتے ہیں نیز مادہ پرستانہ اور دنیا پرستانہ تصورات کے تحت تحریکیں چلاتے ہیں لیکن دعوتِ الی اللہ کے مقابلہ میں یہ سب دعوتیں اور تحریکیں بے حقیقت اور بے وزن ہیں۔ اللہ کی طرف دعوت یعنی اسلام کی طرف لوگوں کو بلانا وہ بہترین بات ہے جس سے بہتر بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ کی طرف دعوت دینے کے لیے اس حال میں اٹھ کھڑے ہوں کہ اپنے کردار کو انہوں نے سنوارلیا ہو یعنی جن کا کام محض الفاظ بکھیرنا نہیں بلکہ اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کرنا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنے مسلم ہونے کا بھی اظہار و اعلان کرتے ہوں۔

 

واضح ہو ا کہ اپنے مسلمان ہونے کی حیثیت کو چھپانا صحیح نہیں بلکہ اس کو ظاہر کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ اپنی واقعی حیثیت کا اظہار بھی ہو اور دوسروں کو بھی مسلمان بننے کی ترغیب ہو۔ مگر موجودہ دور میں بہ کثرت مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ محض دنیوی مصلحتوں کی خاطر یا جدید تہذیب سے مرعوبیت کے نتیجہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ان کے مسلمان ہونے کا اظہار ہو چنانچہ نہ ان کے نام سے ان کے مسلمان ہونے کی شناخت ہوتی ہے اور نہ ان کی وضع قطع سے اور نہ ان کی باتوں سے۔ اگر وہ واقعی اسلام کو حق سمجھتے ہیں تو ان میں یہ اخلاقی جرأت کیوں نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی نظر میں اپنے کو مشتبہ نہ بنا لیں بلکہ برملا اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کریں۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بھلائی اور برائی اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے یکساں نہیں اور جو شخص لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دینے اور ان کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑا ہو اس کو اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ نیکی بدی کو دور کرنے کا ذریعہ ہے جو لوگ برا سلوک کریں ان کے ساتھ بھی وہ اچھا سلوک کرے۔ گالیوں کا جواب گالیوں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے دے کر نجاست کو نجاست کے ذریعہ نہیں بلکہ پاک پانی ہی کے ذریعہ دور کیا جاسکتا ہے۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بہترین مثالیں انبیاء اور صالحین کی سیرتوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ حضرت یوسف نے کس طرح ان لوگوں کے دل جیت لیے جنہوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی پشت پر آپ کی زبردست اخلاقی قوت تھی جس نے ان لوگوں کو بھی آپ کا دوست بنا دیا جو آپ کے خون کے پیاسے تھے۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی برائی کو بھلائی سے دور کرنے کا کا م بڑا صبر آزما ہوتا ہے اس لیے جو لوگ صبر و تحمل سے کام لینا چاہتے ہیں ان ہی کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دیتا ہے اور جن کو یہ سمجھ ملتی ہے وہ بڑے خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں کیونکہ آخرت ان کا مقصود اور اللہ کی رضا کا حصول ان کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی مخالفین کی شر انگیز باتوں کا اثر قبول کرنے کے لیے شیطان تمہارے اندر اکساہٹ پیدا کر سکتا ہے مگر تمہیں ایسے موقع پر چوکنا رہنا چاہیے اور جوں ہی تم اپنے اندر کوئی اشتعال محسوس کرو اللہ کی پناہ مانگو، وہ تمہیں شیطان کی اشتعال انگیزی اور ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ وہ سننے والا ہے اس لیے تمہاری دعا سن لے گا اور وہ جاننے والا ہے اس لیے اسے معلوم ہے کہ کون شر سے بچنا چاہتا ہے۔

 

اس آیت کا عمومی پہلو بھی ہے جس کی طرف حدیث میں متوجہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب کبھی اپنے کو غصہ کی حالت میں پائے اَعوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَیطنِ الرَّجِیْم  (میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ) کہے۔(بخاری کتاب الادب)

 

۵۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس بات کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ توحید کی نشانیاں اس کائنات میں بالکل نمایاں ہیں یہ رات اور دن اور یہ سورج اور چاند سب خدائے واحد کے وجود، اس کی قدرتِ کاملہ، اس کے اقتدارِ اعلیٰ اور اس کے رب کائنات ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنے خدا ہونے پر دلالت کرتی ہو۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی سجدہ کا مستحق خالق ہے نہ کہ مخلوق، سورج، چاند، ستارے سب بے اختیار مخلوق ہیں اس لیے ان کو سجدہ کرنا ایک بے معنی بات ہے اور یہ سب سے بڑی نا انصافی ہے۔

 

سورج کے پجاری قدیم زمانے میں بھی بہ کثرت رہے ہیں اور موجودہ زمانہ میں بھی بہ کثرت ہیں۔ خود ہمارے ملک میں سورج کو پوجنے والوں اور اس کے آگے جھکنے والوں کی کمی نہیں مگر یہ سراسر جہالت اور صریح گمراہی ہے۔

 

سجدہ عبادت کی اعلیٰ شکل ہے اس لیے وہ اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے اسی لیے فرمایا کہ اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرنے والے ہو تو اسی کو سجدہ کرو۔ اس کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے لیے سجدہ کرنا روا ہو کیوں کہ سب مخلوق ہیں خواہ سورج اور چاند ہوں خواہ کوئی انسان۔

 

یہ آیت اس بارے میں قطعی ہے کہ کسی بھی مخلوق کو سجدہ کرنا حرام ہے اس لیے مذہبی پیشواؤں ، بزرگوں اور اولیاء کی قبروں کو سجدہ کرنے کے لیے ہرگز وجہ جواز نہیں ہے۔

 

رہا سجدۂ تعظیمی جو عبادت کے طور پر نہیں بلکہ تعظیم کے طور پر کیا جاتا ہے تو اسلام کی تکمیل شریعت ا س کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ اگر کسی بزرگ شخصیت کو سجدہ کرنا روا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی شخصیت کس کی ہو سکتی تھی۔ مگر آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آپ کا سجدہ کرے۔(ترمذی ابواب النکاح)

 

اس لیے صحابہ کرام کو نہ تعظیمی سجدہ کرتے تھے اور نہ آپ کے لیے جھکتے تھے۔

 

واضح رہے کہ حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا جو حکم فرشتوں اور ابلیس کو دیا گیا تھا اس کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ یعنی وہ عبادت کے طور پر نہیں تھا اور نہ کسی ایسی تعظیم کے لیے تھا جس سے شرک کی راہ کھلتی ہو بلکہ یہ ایک مخصوص حکم تھا جس کے پیچھے عظیم مصلحت کارفرما تھی۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو (سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷)

 

یہ آیت آیتِ سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت پر سجدہ کرنا چاہیے۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر یہ مشرکین اللہ کے اس حکم کے مقابلہ میں کہ صرف اللہ ہی کو سجدہ کرو تکبر کرتے ہیں تو کریں اور اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیں۔ اس سے اس کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اس کی شان تو یہ ہے کہ اس کے حضور فرشتے ہر وقت تسبیح میں مشغول رہتے ہیں اور مسلسل تسبیح کرتے رہنے سے ان کو کوئی تکان لاحق نہیں ہوتی۔ جس طرح انسان سانس لیتے ہوئے نہیں تھکتا اسی طرح فرشتے تسبیح کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے پر استدلال ہے تشریح کے لیے دیکھئے سورہ روم نوٹ ۸۳۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کی آیتوں میں ٹیڑھ نکالنے کا مطلب ان کو الٹے معنی پہنانا، صحیح رُخ سے انہیں پھیرنا، ان کے مفہوم میں شکوک پیدا کرنا اور ان پر اعتراضات وارد کرنا ہے۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے دل کا حال اللہ کو معلوم ہے۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تنبیہ ہے کہ اگر نصیحت کی ان باتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر جو چاہو کر گزرو۔ اپنی ہلاکت کے آپ ذمہ دار ہو گے۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کتاب کا انکار کرنے والوں نے اس کو ایک غیر اہم کتاب خیال کیا اور وقعت کی نظر سے نہیں دیکھا حالانکہ یہ کوئی معمولی کتاب نہیں ہے بلکہ ایک زبردست کتاب ہے جو اپنی حجتِ بالغہ، اپنے حقیقت افروز بیان، اپنی تاثیر کلام اور وجدان سے اپیل کرنے والی باتوں کے ذریعہ انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے اور کچھ ہی عرصہ بعد دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ ایسی طاقتور کتاب ہے کہ اس نے کتنی ہی قوموں کو مسخر کیا اور کتنے ہی ملکوں پر فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کتاب میں سامنے سے باطل کے داخل نہ ہو سکنے کا مطلب یہ ہے کہ شیطان ، جن، انسان کوئی بھی اس پر قادر نہیں ہے کہ اس میں کوئی لفظی تغیر کریں۔ وہ قیامت تک لفظًا  بلفظاً محفوظ رہنے والی کتاب ہے اور پیچھے سے اس میں باطل کے داخل نہ ہو سکنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کا نظم ایسا ہے کہ وہ کسی بھی معنوی تحریف کو قبول نہیں کرتا۔ اس کی آیتوں کو ان کے اصل معنی سے ہٹانے کی لاکھ کوشش کی جائے وہ اپنے مفہوم اور مدعا میں بالکل واضح ہیں ، چور دروازے سے باطل عقائد و نظریات کو اس میں داخل کرنے کے لیے کتنا ہی زور لگایا جائے اس میں ہرگز کامیابی ہونے والی نہیں کیونکہ اس کی ہر آیت اپنے مفہوم میں بالکل واضح اور اٹل ہے۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح گزرے ہوئے رسولوں کو ساحر، مجنوں وغیرہ کہا گیا تھا اسی طرح تمہارے بارے میں بھی اے پیغمبر اسی طرح کی باتیں کہی جا رہی ہیں۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کافروں کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ قرآن عربی زبان ہی میں کیوں نازل ہوا عجمی یعنی غیر عربی زبان میں کیوں نازل نہ ہوا جب کہ تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر قرآن کو کسی غیر عربی زبان میں نازل کیا جاتا تو یہی لوگ اعتراض کرتے کہ ہماری اپنی زبان میں کیوں نہیں نازل کیا گیا کہ اس کی آیتوں کا مفہوم ہم پر واضح ہوتا۔ یہ عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے جب کہ مخاطب قوم کی زبان عربی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو ماننا نہیں ہے وہ ہر صورت میں اعتراض کرتے ہیں۔

 

آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ عربی زبان وحی الٰہی کے معنی و مفہوم کو ادا کرنے کے لحاظ سے موزوں ترین زبان ہے۔جو لوگ عربی زبان سے آشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ زبان امتیازی خصوصیات کی حامل ہے مثلاً یہ کہ وہ ایک سسٹمیٹک زبان ہے جس میں فعل، اہم فاعل، اسم مفعول وغیرہ کو ایک خاص سانچے (صیغے ) میں ڈھالا جاتا ہے۔ اس کی نحوی ترکیبوں میں بڑی باقاعدگی ہوتی ہے۔ اس کے بیشتر الفاظ اپنے ابتدائی اور اصل معنیRoot Word کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے ان کے صحیح مفہوم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ وہ حقائق و معارف کو ادا کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتی ہے اس لیے وحی الٰہی کی لطافتوں اور اس کے معنی کی گہرائیوں کو بیان کرنے کی وہ پوری طرح متحمل ہے۔ اس میں جامع کلمات کہے جاسکتے ہیں اور موثر کلام پیش کیا جاسکتا ہے۔ حفظ کے پہلو سے یہ نہایت موزوں زبان ہے اس لیے نزولِ قرآن کے لیے ایک بہترین اور موزوں ترین زبان کا انتخاب ہوا ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ آخری رسول کی بعثت کے لیے مکہ کی مقدس سرزمین کا انتخاب ہوا۔

 

۶۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۸۸۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ قرآن پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں وہ قرآن کی نصیحت کو سننے کے لیے بہرے اور اس کی رہنمائی کو دیکھنے کے لیے اندھے ہوتے ہیں وہ جہالت کی جس بیماری میں مبتلا ہیں اس کے لیے قرآن نسخۂ شفا ہے مگر جب وہ اس سے شفا حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے تو جہالت اپنا اثر دکھا کر رہے گی۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا حال یہ ہے کہ انہیں کوئی دور سے پکار رہا ہو جس کی آواز انہیں سنائی نہ دیتی ہو۔ قرآن کی آواز دل لگتی آواز ہے مگر ان کے لیے دور کی آواز بن گئی ہے۔

 

۶۸۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کو تورات عطا ہوئی تھی جو سرتاسر کتابِ ہدایت تھی لیکن بعد میں بنی اسرائیل کے ان علماء نے جو دنیا پرستی اور باہمی عناد میں مبتلا ہو گئے تھے اس میں طرح طرح کے اختلافات پیدا کئے۔ جب انہوں نے تورات کی آیتوں کی غلط تاویلیں کرنا شروع کیں تو نوبت الفاظ کی تحریف تک پہنچ گئی۔ پھر انہوں نے تذکیر اور خاص طور سے آخرت کی جزا و سزا سے متعلق یاد دہانی کو تورات کے صفحات سے غائب کر دیا اور اپنی طرف سے اس میں بہت سے اضافے کئے مثلاً اس میں اپنی بدعات کو داخل کیا، فقہی موشگافیوں کو اس میں جگہ دی اور اپنی یادداشت سے صحیح غلط تاریخی واقعات بھی اس میں نقل کر ڈالے یہاں تک کہ واہیات قصے اور انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کو داغ دار بنانے والی باتیں بھی۔ ان کے یہی اختلافات ہیں جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسرائیل کی یہ حرکت تو ایسی تھی کہ اس کا دو ٹوک فیصلہ دنیا ہی میں چکایا جاسکتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام مذہبی اختلافات کے آخری فیصلہ کے لیے قیامت کا دن مقرر کیا ہے۔ اس روز عدالتِ خداوندی ان تمام امور کا فیصلہ چکا دے گی۔

 

۷۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تورات میں اہل کتاب نے لفظی اور معنوی تحریف کر کے جو اختلافات پیدا کئے اس کی وجہ سے وہ خود اپنی کتاب ہی کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ معلوم نہیں بات کیا تھی اور کیا بیان ہوئی ہے۔ کتنی ہی اختلافی باتیں ہیں جن کے بارے میں وہ یقین اور اعتماد کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے اور اس بنا پر وہ سخت الجھن میں پڑ گئے ہیں۔

 

۷۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اور اس طرح کی دوسری بہ کثرت آیات آخرت کی جزا و سزا کے بارے میں اس قاعدۂ کلیہ کو پیش کرتی ہیں کہ نیکی کا اجر اسی شخص کو ملے گا جس نے نیکی کی ہو گی اور برائی کی سزا بھی وہی شخص پائے گا جس نے برائی کی ہو گی۔ ایسا نہیں ہو گا کہ کسی کی نیکی یا برائی دوسرے کے کھاتہ میں جمع کر لی جائے۔ ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے اور اسی کے مطابق اس کو جزا یا سزا پانا ہے۔

 

جزائے عمل کے سلسلہ میں یہ نہایت اہم اصول ہے جس کو قرآن نے جا بجا وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس سے ایصالِ ثواب کے اس طریقہ کی تردید ہوتی ہے جو عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہے۔ ایک شخص نیکی کا کوئی کام کرتا ہے اور اس کا ثواب اپنے کسی عزیز یا کسی بزرگ کو بخش دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں فلاں اور فلاں شخص کو جو وفات پاچکا ہے اور جس سے مجھے تعلق خاطر ہے یا جس بزرگ کا میں عقیدت مند ہوں اسے ثواب پہنچا رہا ہوں۔ اس تصور کے تحت مرنے والوں کے لیے قرآن خوانی کی جاتی ہے ، تیجا چہلم وغیرہ کی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ نیاز اور فاتحہ خوانی ہوتی ہے " گیارہویں شریف" کا اہتمام کیا جاتا ہے ، دیگیں چڑھائی جاتی ہیں اور نفیس کھانے پکوا کر ان کا ثواب کسی ولی یا پیر کو بخشا جاتا ہے۔ یہ کھانے خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے احباب وغیرہ کو بھی کھلاتے ہیں۔ مُردوں کی طرف سے صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اور مدرسے اور اسپتال وغیرہ بنا کر ان کے نام سے وقف بھی کر دیتے ہیں تاکہ خیر کے ان کاموں کا ثواب ان کو ملتا رہے۔

 

غرضیکہ ایصال ثواب کے تصور نے شریعت اسلامیہ پر حاشیہ آرائی کا کام کیا ہے اس لیے اس پر گرفت ضروری ہے۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ چند باتیں پیش کریں گے۔

 

۱۔ ایصالِ ثواب کی تائید میں قرآن کی کوئی آیت بھی نہیں پیش کی جاسکتی بلکہ بہ کثرت آیات سے جن میں جزا و سزا کے اصول کو پیش کیا گیا ہے اس کی تردید ہوتی ہے۔ مثلاً یہ کہ: وَ وُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ (آل عمران:۲۵) "ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔"

 

مگر ایصال ثواب کی صورت میں ایک شخص کے عمل کا ثواب دوسرے کو منتقل ہوا تو اسے اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ کہاں ملا؟

 

لَیسَ لِلانسَانِ الاَّماسَعٰی  (النجم:۳۹) " انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہو گی۔"

 

مگر ایصال ثواب کی صورت میں انسان نے جو عمل خیر نہیں کیا اس کا ثواب بھی اسے مل جاتا ہے۔

 

۲۔ ثواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہے جو قیامت کے دن اعمالِ صالحہ کے بدلہ میں ملے گا جب کہ وہ اللہ کی نظر میں مقبول قرار پائیں گے لیکن جو لوگ ایصال ثوابِ کے قائل ہیں وہ پیشگی ثواب کو اپنا حق قرار دے کر دوسروں کو بخش دیتے ہیں۔ جب کہ ہمیں قطعی طورسے یہی نہیں معلوم کہ ہمارے فلاں عمل پر اللہ کی طرف سے اجر دینے کا فیصلہ ہو گیا ہے اور وہ ہمارے کھاتے میں جمع ہو گیا ہے لہٰذا ہم یہ پیشگی فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں کہ اس اجر کو دوسرے کے کھاتے میں منتقل کر دیں ؟

 

۳۔ اجر (محنت کا پھل) اور ثواب (جزائے خیر) کسی عمل کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے ملنے والا انعام ہے اس لیے یہ ایک ناقابل انتقال شئے ہے۔ کوئی شخص نہ اپنی نیکی کا پارسل کسی کو بھیج سکتا ہے اور نہ اپنی بدی کا۔ جس طرح برائی کا وبال کسی کو بخشا نہیں جاسکتا اس طرح نیکی کا ثواب بھی کسی کو بخشا نہیں جاسکتا۔

 

۴۔کوئی حدیث ایسی نہیں جس میں ایصال ثواب کی ترغیب دی گئی ہو اور جن روایتوں کو ایصالِ ثواب کے ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے ان سے ایصالِ ثواب ثابت نہیں ہوتا بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص پر حج فرض ہوا تھا اور وہ اس فرض کو ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اس سے پہلے اس کی موت واقع ہو گئی یا کوئی شخص بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے فریضۂ حج ادا نہیں کر سکتا اور اس کے قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی شخص اس کی طرف سے نیابتہً حج کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ نیابت کا مفہوم عَن کے حرف سے بالکل واضح ہے جو اس تعلق سے حدیث میں آیا ہے۔ آپ نے فرمایا: حُجِیّ عَنْہا (بخاری ابواب العمرۃ) "تم اس کی طرف سے حج کرو"

 

اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ سے پوچھا:

 

یارسولَ اللّٰہ اِنَّ فَریضَۃَ اللّٰہِ عَلٰی عِبَادِہٖ فِی الْحَجّ اَدْرَکَتْ اَبیْ شیخًا کَبِیرَا لَایسْتَطِیعُ اَنْ یسْتَوِیَ عَلَی الرَّاحِلَۃِ فَہَلْ یقْضِی عَنْہُ اِنْ اَحُجُّ عَنْہُ قَالَ نَعَمْ۔(بخاری ابواب العمرۃ) "اے اللہ کے رسول! اللہ نے اپنے بندوں پر حج کا جو فریضہ عائد کیا ہے وہ میرے والد پر فرض ہو گیا ہے اور وہ بہت بوڑھے ہو گئے ہیں سواری پر بھی سیدھے بیٹھ نہیں سکتے تو اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو اس کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟

 

آپؐ نے فرمایا "ہاں۔"

 

ظاہر ہے یہ نیابت ہے اور نیابت فریضۂ حج کو ادا کرنے کے سلسلہ میں معذوری کی صورت میں ہے اور یہ ایک مشروط اجازت ہے اس میں ایصال ثواب کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ حج کرو اور اس کا ثواب بخشو۔ اور نہ کسی سوال کرنے والے نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا میں فلاں کے لیے حج کروں یا حج کر کے فلاں کو ثواب بخش دوں۔

 

نیابتہً حج کرنے کے سلسلے میں امام مالک کی رائے یہ ہے کہ یہ اسی صورت میں کیا جائے جب کہ مرنے والے نے وصیت کی ہو۔اگر اس نے وصیت نہیں کی تھی تو اس کی طرف سے حج نہ کیا جائے۔ (فقہ السنۃ ج۱ ص ۶۳۷) اور یہی رائے زیادہ صحیح معلوم ہوئی ہے کیوں کہ وصیت کی صورت میں مرنے والے کی نیت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور اس کے مال میں سے حج پر خرچ کرنے کی صورت بھی نکل آتی ہے۔

 

دوسری روایتیں جو ایصالِ ثواب کی تائید میں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے بعض تو اس مفہوم میں ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی کارِ خیر کی وصیت کی تھی تو اس کے ورثاء اس کو پورا کریں کیوں کہ مرنے والے کو اپنے مال میں ایک تہائی کی حد تک وصیت کرنے کا حق ہے اور بعض روایتیں اسناد کے اعتبار سے صحیح نہیں ہیں اور جو روایت قرآن کے بیان کردہ قاعدۂ کلیہ کے خلاف ہو وہ ہرگز قابلِ حجت نہیں ہو سکتی۔

 

۵۔ ایصالِ ثواب کا طریقہ صحابۂ کرام میں رائج نہیں تھا چنانچہ شہدائے احد کے لیے نہ قرآن خوانی کی گئی اور نہ نیاز و فاتحہ۔

 

۶۔ایصال ثواب کو دعا پر قیاس کرنا بھی صحیح نہیں اس لیے کہ دعا تو اللہ تعالیٰ سے کسی بندہ کے حق میں مغفرت کی درخواست ہے نہ کہ اس کے کسی عمل کے ثواب کی منتقلی۔ اگر دعا کو ایصال ثواب قرار دیا جائے تو پھر بددعا کو بھی ایصالِ عذاب ماننا پڑے گا جب کہ اس کا قائل کوئی نہیں۔ کافروں کے لیے ہدایت کی دعا کی جاتی ہے تو کیا یہ ایصالِ ثواب ہے ؟ اور دعا تو زندہ لوگوں کے لیے بھی کی جاتی ہے پھر کیا ایصالِ ثواب بھی زندوں کے لیے کیا جائے گا؟

 

۷۔حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

اِذا ماتَ الْاِنْسانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَ ثَۃٍ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیۃٍ اَوْ عِلْمٍ ینْفَعُ بِہٖ وَوَلَدٍ صَالحٍ یدْعُوْلَہُمسلم (کتاب الوصیۃ) " جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے بجز تین چیزوں کے۔ ایک صدقۂ جاریہ دوسرے علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔"

 

یہ تینوں چیزیں وہ ہیں جن میں انسان کے اپنے عمل کا دخل ہے۔ صدقۂ جاریہ تو وقف کی صورت میں اسی کا مال ہے ،مفید کتابوں کی تصنیف اور اس قسم کی دوسری علمی خدمات بھی اسی کا عمل ہے جس سے لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی فیضیاب ہوتے ہیں اور نیک اولاد کا دعا کرنا اس کے حق میں باعثِ اجر ہے کہ اس نے ان کو دین سکھایا تھا اور ان کی صحیح تربیت کی تھی۔ اس حدیث میں ایصالِ ثواب کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی تو اس کا بھی اس میں ذکر ہوتا۔

 

۸۔ جو امور خالص تعبدی نوعیت کے ہیں ان میں قیاس اور اجتہاد کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور ثواب کا تعلق چونکہ تعبدی امور سے ہے اس لیے ثواب پہنچانے کا مسئلہ محل اجتہاد نہیں ہے۔

 

ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جس عمل میں انسان کی اپنی نیت اور اس کی کوشش کا کوئی دخل نہ ہو بلکہ وہ دوسرے کا عمل ہو تو اس کا ثواب اس کو نہیں بخشا جاسکتا۔ قرآن و سنت میں کسی کے عمل کا ثواب کسی کو بخشنے کیلئے کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر موجودہ زمانہ میں ایصالِ ثواب کے تصور نے کتنی ہی بدعتوں کو رائج کر دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان لوگوں کے پاس ثواب کا اتنا ذخیرہ کہاں سے ا گیا کہ انہوں نے دوسروں کو تقسیم کرنا شروع کر دیا اور خاص طور سے ان بزرگوں اور اولیاء کو جن کے بارے میں وہ پہلے ہی سے اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ جنتی ہیں۔ اگر ان لوگوں میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا تو وہ خود اپنی نجات کی فکر کرتے اور اپنے نیک اعمال کے بارے میں کبھی یہ خیال نہ کرتے کہ وہ زیادہ Surplus ہو گئے ہیں لہٰذا اپنی بعض نیکیوں کا ثواب وہ دوسروں کو الاٹ کرتے پھریں۔

 

۷۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کب آئے گی اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جس کو اس کی خبر ہو اس لیے اللہ کا رسول بھی اس کا وقت نہیں بتاسکتا۔

 

۷۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح پھل شگوفے کے غلاف کو پھاڑ کر نکل آتا ہے اور جس طرح حاملہ بچہ جنتی ہے اسی طرح قیامت بھی دنیا کے خول کو پھاڑ کر نمودار ہو گی اور اس کائنات کے بطن سے ظاہر ہو گی اور جس طرح یہ بات اللہ ہی کے علم میں ہوتی ہے کہ پھل کب وجود میں آئے گا اور کونسی عورت کب حاملہ ہو گی اور کب بچہ جنے گی اسی طرح قیامت کے ظہور کا علم بھی اللہ ہی کو ہے وہ ٹھیک اپنے وقت پر ظاہر ہو گی۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدائی میں میرے جو شریک تم نے ٹھہرا رکھے تھے وہ کہا ہیں ؟

 

۷۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آج ہم میں سے کوئی بھی اس کا دعویدار نہیں ہے کہ اللہ کا اس کے خدائی معاملات میں کوئی شریک ہے۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن جن کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا تھا اور جن جن کی پرستش وہ کرتے تھے ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچ سکے گا۔ سب ہوا ہو جائیں گے۔

 

۷۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی عام طور سے انسان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دنیوی نعمتیں مانگتا ہی رہتا ہے۔ اور اپنے لیے راحت اور خوشحالی کا زیادہ سے زیادہ خواہاں ہوتا ہے۔ مال و دولت اور سامانِ دنیا میں اضافہ کے لیے دعائیں کرتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا لیکن جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے یا مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر بجائے اس کے کہ اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کرتا رہے اور دعا کی قبولیت میں تاخیر کی وجہ سے تھک ہار کر بیٹھ نہ جائے بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور دل شکستہ ہونے کے آثار اس پر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کا یہ حال بھی عجیب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر کے اس کی راحت کا سامان کرتا ہے تو وہ اسے اللہ کا احسان نہیں سمجھتا اور نہ اسے سامانِ آزمائش خیال کرتا ہے بلکہ اسے اپنی قابلیت کا غرہ ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں تو اس کا بجا طور پر مستحق ہوں۔ قیامت کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ اول تو وہ قائم ہو گی نہیں اور اگر ہوئی تو میرے رب کے پاس بھی مجھے نعمتیں ہی ملیں گی۔ مطلب یہ کہ کتنے ہی لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جب دنیا میں مال و اسباب کی فراوانی انہیں حاصل ہو گئی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ قیامت کے دن اگر وہ قائم ہو ہی گئی تو انہیں یہ فراوانی حاصل نہیں ہو گی۔ وہ جس طرح دنیا میں آباد رہے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی آباد رہیں گے۔ مگر قیامت کا ایک جھٹکا ہی ان کی اس خوش فہمی کو چور چور کر کے رکھ دے گا۔

 

۷۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیسا قدرناشناس ہے انسان کہ جب اللہ تعالیٰ اس پر نوازشیں کرتا ہے تو اپنے رب کی طرف متوجہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے عملاً بے تعلق ہو جاتا ہے۔ لیکن مصیبت میں خدا ضرور یاد آ جاتا ہے اور لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

 

واضح رہے کہ ان آیتوں میں انسان کے مختلف کردار پیش کئے گئے ہیں۔ اپنے رب کے تعلق سے کسی کا ایک کردار ہوتا ہے تو کسی کا دوسرا اور کسی کا اس سے بھی مختلف۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کی مخالفت میں اتنی دور تو نہ نکل جاؤ کہ امکان کی حد تک بھی اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہ ہو جاؤ کہ یہ اگر اللہ کی کتاب ہوئی تو پھر اس کا انکار ہمیں کتنا مہنگا پڑے گا۔ ہم اللہ کے حضور اس کے کلام کو رد کرنے کا کیا جواز پیش کر سکیں گے۔ اور پھر اس انکار کی ہمیں کیسی سخت سزا بھگتنا ہو گی۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ سنجیدگی سے اس بات پر غور کیا جائے کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے یا نہیں۔

 

۸۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بہت بڑی پیشین گوئی ہے جو قرآن نے کی ہے کہ اس کی صداقت کی نشانیاں دنیا کے آفاق پر بھی ظاہر ہوں گی اور انسانی نفوس میں بھی۔اور واقعہ یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ بعد منکرینِ قرآن ے دیکھ لیا کہ قرآن نے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کے حق میں نصرت الٰہی کی جو پیشین گوئی کی تھی وہ پوری ہوئی۔ اسلام کو غلبہ و اقتدار حاصل ہوا، قرآن کی روشنی میں چلنے والوں کی پاکیزہ زندگیوں کو دیکھ کر لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ نہ شاعرانہ کلام ہے اور نہ دیوان پن کی باتیں ہیں اور نہ ہی جادوگری۔ قومیں حلقہ بگوشِ اسلام ہوتی چلی گئیں اور جو کٹر کافر تھے ان کا حشر اس دنیا ہی میں بہت برا ہوا۔ مگر آیت کا مفہوماس حد تک محدود نہیں اس کی صداقت کی نشانیاں قیامت تک ظاہر ہوتی رہیں گی۔

 

ماضی میں قرآن کی کتنی ہی باتیں انسان کو عجیب معلوم ہوتی تھیں مگر موجودہ دور میں انسان نے ایسی حیرت انگیز چیزیں ایجاد کر لی ہیں کہ قرآن کی کوئی بات بھی عجیب نہیں رہی۔ قرآن نے کہا تھا قیامت کے دن انسان کے اعمال تولے جائیں گے۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہو رہی تھی لیکن موجودہ دور میں انسان نے حرارت پیما اور زلزلہ پیما آلات ایجاد کر کے اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ کیفیتیں بھی ناپی اور تولی جاسکتی ہیں۔ قرآن نے کہا تھا ہر ہر شخص کے اعمال کا ریکارڈ تیار کیا جا رہا ہے جس میں کوئی بات بھی خواہ چھوٹی ہو یا بڑی درج ہونے سے نہیں رہتی۔ اس بات کو بھی باور کرنا اس زمانہ کے انسان کے لیے مشکل تھا مگر مائکرو فلم Micro-film کی ایجاد نے اس مسئلہ کو حل کر دیا۔ قرآن نے کہا تھا انسان کے ہاتھ پاؤں اور اس کی جلدیں  (کھالیں ) قیامت کے دن بول اٹھیں گی اور اس کے اعمال کی گواہی دیں گی۔ لوگوں کے لیے یہ بھی حیرت و استعجاب کی بات تھی مگر بولتی فلموں اور ویڈیو کیسٹ کی ایجاد نے ظاہر کر دیا ہے کہ یہ سب کچھ ممکن ہے۔

 

قرآن نے کہا تھا سورج، چاند اور ستارے دیوتا نہیں ہیں بلکہ اللہ کے پیدا کردہ ہیں جن کو خاص خدمت میں لگا دیا گیا ہے۔ ماضی کے وہم پرست لوگ اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے لیکن سائنس کے اکتشافات نے ان سب کی اصلیت ظاہر کر دی۔ اب انسان کو معلوم ہو گیا کہ سورج میں کیا مادّے پائے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا درجہ حرارت بھی معلوم کر لیا ہے اور یہ بھی کہ اس کی حرارت کس طرح زمین تک پہنچتی ہے۔ ستارے اور سیارے کس چیزسے بنے ہیں اور وہ کیوں روشنی دیتے ہیں اس کا بھی کھوج لگا کر انسان نے اپنی معلومات میں زبردست اضافہ کر لیا ہے اور چاند پر انسان نے پہنچ کر اس کا عینی مشاہدہ کر لیا کہ یہ مٹی اور پتھر ہی سے بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ وہاں کی مٹی زمین پر اپنے ساتھ لے آیا تاکہ دوسرے لوگ بھی اس کا مشاہدہ کریں۔ کیا یہ سب آفاق میں ظاہر ہونے والی اللہ کی نشانیاں نہیں ہیں اور کیا ان باتوں سے مشرکانہ عقائد کی تردید نہیں ہوتی اور خدائے واحد کی قدرتِ کاملہ ار اس کے فرمانروائے کائنات ہونے کا ثبوت نہیں ملتا؟

 

اسی طرح انسانی نفوس میں بھی وہ نشانیاں ظاہر ہو گئی ہیں جو توحید اور معاد (دوسری زندگی) پر واضح طور سے دلالت کرتی ہیں۔ علم الحیاتBiology اور علم الجنینEmbryology نے انسان کی تخلیق کے بارے میں وہ انکشافات کئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مرد کے مادۂ تولید میں جرثومۂ حیاتSpermatozoa کا وجود اور عورت کے مادۂ تولید کا بیضہOvum کی شکل میں ہونا اور دونوں کے ملاپ سے جنین (بچہ) کی تخلیق کا آغاز ہونا پھر اس جرثومہ اور اسی بیضۂ انثی میں جن کو خورد بین کی مدد ہی سے دیکھا جاسکتا ہے موروثی خصوصیاتChromosomes کا موجود ہونا ایک خالق کا خلاقیت کا کتنا زبردست ثبوت ہے۔ اس کی قدرت اور ربوبیت کی ان کرشمہ سازیوں کو دیکھتے ہوئے دوسری زندگی کا یقین پیدا ہو جاتا ہے جس کی خبر قرآن دے رہا ہے۔

 

اس طرح قرآن کی ایک ایک بات علم کی کسوٹی پر پوری اتر رہی ہے اور اس کی صداقت اور زیادہ روشن ہوتی جا رہی ہے۔ قرآن کی کچھ پیشین گوئیاں ایسی بھی ہیں جو اپنی تعبیر کے لیے وقت کی منتظر ہیں مثلاً یاجوج ماجوج کی یلغار (سورۂ انبیاء آیت ۹۶) اور دابۃ الارضزمین سے ایک عجیب و غریب جانور) کا خروج جو انسان سے باتیں کرے گا سورۂ نمل آیت ۸۲) وغیرہ۔ ان نشانیوں کو قیامت کے قریبی زمانہ میں پیدا ہونے والی نسلیں ہی دیکھ سکیں گی۔

 

۸۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تمام نشانیوں کے باوجود جن کا ذکر اوپر ہوا آج بھی اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور پیشی کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں من مانی کرنے کے لیے انہیں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ وہ ہستی جس نے انہیں پیدا کیا ہے محیطِ کل ہے۔ اس کے علم اور اس کے قابو سے کوئی چیز بھی باہر نہیں اس لیے اس کے بندوں کی اس کے حضور پیشی لازمی ہے۔ وہ اس سے کسی طرح بچ نہیں سکتے۔

 

٭٭٭٭٭